ضربِ کلیم

ضربِ کلیم 0%

ضربِ کلیم مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 164

ضربِ کلیم

مؤلف: علامہ ڈاکٹرمحمد اقبال لاہوری
زمرہ جات:

صفحے: 164
مشاہدے: 80378
ڈاؤنلوڈ: 1487

تبصرے:

ضربِ کلیم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 164 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 80378 / ڈاؤنلوڈ: 1487
سائز سائز سائز
ضربِ کلیم

ضربِ کلیم

مؤلف:
اردو

خلوت

رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے

روشن ہے نگہ ، آئنۂ دل ہے مکدر

*

بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے

ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر

*

آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے

وہ قطرۂ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر

*

خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر ، و لیکن

خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر

***

عورت

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

*

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

*

مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی ، لیکن

اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

***

۸۱

آزادیِ نسواں

اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا

گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند

*

کیا فائدہ ، کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب

پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

*

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں ، معذور ہیں ، مردان خرد مند

*

کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ

آزادیِ نسواں کہ زمرد کا گلو بند!

***

عورت کی حفاظت

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور

کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

*

نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی

نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

*

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

***

۸۲

عورت

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود

*

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

*

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود

*

میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود!

***

عورت

جوہر مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر

غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود

*

راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتۂ شوق

آتشیں ، لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود

*

کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات

گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بود و نبود

*

میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غم ناک بہت

نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود!

***

۸۳

دین و ہنر

سرود و شعر و سیاست ، کتاب و دین و ہنر

گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ

*

ضمیر بندۂ خاکی سے ہے نمود ان کی

بلند تر ہے ستاروں سے ان کا کاشانہ

*

اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات

نہ کر سکیں تو سراپا فسون و افسانہ

*

ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی

خودی سے جب ادب و دیں ہوئے ہیں بیگانہ

***

۸۴

تخلیق

جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

*

خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے

اس آبجو سے کیے بحر بے کراں پیدا

*

وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے

جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا

*

خودی کی موت سے مشرق کی سر زمینوں میں

ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا

*

ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے

عجب نہیں ہے کہ ہوں میرے ہم عناں پیدا

***

۸۵

جنوں

زجاج گر کی دکاں شاعری و ملائی

ستم ہے ، خوار پھرے دشت و در میں دیوانہ!

*

کسے خبر کہ جنوں میں کمال اور بھی ہیں

کریں اگر اسے کوہ و کمر سے بیگانہ

*

ہجوم مدرسہ بھی سازگار ہے اس کو

کہ اس کے واسطے لازم نہیں ہے ویرانہ

***

اپنے شعر سے

ہے گلہ مجھ کو تری لذت پیدائی کا

تو ہوا فاش تو ہیں اب مرے اسرار بھی فاش

*

شعلے سے ٹوٹ کے مثل شرر آوارہ نہ رہ

کر کسی سینۂ پر سوز میں خلوت کی تلاش!

***

۸۶

پیرس کی مسجد

مری نگاہ کمال ہنر کو کیا دیکھے

کہ حق سے یہ حرم مغربی ہے بیگانہ

*

حرم نہیں ہے ، فرنگی کرشمہ بازوں نے

تن حرم میں چھپا دی ہے روح بت خانہ

*

یہ بت کدہ انھی غارت گروں کی ہے تعمیر

دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ

***

ادبیات

عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے

آبرو کوچۂ جاناں میں نہ برباد کرے

*

کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے

یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے

***

۸۷

نگاہ

بہار و قافلۂ لالہ ہائے صحرائی

شباب و مستی و ذوق و سرود و رعنائی!

*

اندھیری رات میں یہ چشمکیں ستاروں کی

یہ بحر ، یہ فلک نیلگوں کی پہنائی!

*

سفر عروس قمر کا عماری شب میں

طلوع مہر و سکوت سپہر مینائی!

*

نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں

کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی

***

___________________

ریاض منزل(دولت کدۂ سرراس مسعود ) بھوپال میں لکھے گئے

۸۸

مسجد قوت الاسلام

ہے مرے سینۂ بے نور میں اب کیا باقی

'لا الہ' مردہ و افسردہ و بے ذوق نمود

*

چشم فطرت بھی نہ پہچان سکے گی مجھ کو

کہ ایازی سے دگرگوں ہے مقام محمود

*

کیوں مسلماں نہ خجل ہو تری سنگینی سے

کہ غلامی سے ہوا مثل زجاج اس کا وجود

*

ہے تری شان کے شایاں اسی مومن کی نماز

جس کی تکبیر میں ہو معرکۂ بود و نبود

*

اب کہاں میرے نفس میں وہ حرارت ، وہ گداز

بے تب و تاب دروں میری صلوٰۃ اور درود

*

ہے مری بانگ اذاں میں نہ بلندی ، نہ شکوہ

کیا گوارا ہے تجھے ایسے مسلماں کا سجود؟

***

۸۹

تیاتر

تری خودی سے ہے روشن ترا حریم وجود

حیات کیا ہے ، اسی کا سرور و سوز و ثبات

*

بلند تر مہ و پرویں سے ہے اسی کا مقام

اسی کے نور سے پیدا ہیں تیرے ذات و صفات

*

حریم تیرا ، خودی غیر کی ! معاذاللہ

دوبارہ زندہ نہ کر کاروبار لات و منات

*

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو تو نہ سوز خودی ، نہ ساز حیات

***

۹۰

شعاع امید

(۱)

سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام

دنیا ہے عجب چیز ، کبھی صبح کبھی شام

*

مدت سے تم آوارہ ہو پہنائے فضا میں

بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہری ایام

*

نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت

نے مثل صبا طوف گل و لالہ میں آرام

*

پھر میرے تجلی کدۂ دل میں سما جاؤ

چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام

(۲)

آفاق کے ہر گوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں

بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش

*

اک شور ہے ، مغرب میں اجالا نہیں ممکن

افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش

*

مشرق نہیں گو لذت نظارہ سے محروم

لیکن صفت عالم لاہوت ہے خاموش

*

پھر ہم کو اسی سینۂ روشن میں چھپا لے

اے مہر جہاں تاب ! نہ کر ہم کو فراموش

***

۹۱

(۳)

اک شوخ کرن ، شوخ مثال نگہ حور

آرام سے فارغ ، صفت جوہر سیماب

*

بولی کہ مجھے رخصت تنویر عطا ہو

جب تک نہ ہو مشرق کا ہر اک ذرہ جہاں تاب

*

چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو

جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردان گراں خواب

*

خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز

اقبال کے اشکوں سے یہی خاک ہے سیراب

*

چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن

یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزۂ درناب

*

اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواص معانی

جن کے لیے ہر بحر پر آشوب ہے پایاب

*

جس ساز کے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں

محفل کا وہی ساز ہے بیگانۂ مضراب

*

۹۲

بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن

تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب

*

مشرق سے ہو بیزار ، نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

***

۹۳

امید

مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں

اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں نے امیر جنود

*

مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور

عطا ہوا ہے مجھے ذکر و فکر و جذب و سرود

*

جبین بندۂ حق میں نمود ہے جس کی

اسی جلال سے لبریز ہے ضمیر وجود

*

یہ کافری تو نہیں ، کافری سے کم بھی نہیں

کہ مرد حق ہو گرفتار حاضر و موجود

*

غمیں نہ ہو کہ بہت دور ہیں ابھی باقی

نئے ستاروں سے خالی نہیں سپہر کبود

***

___________________

ریاض منزل (دولت کدئہ سرراس مسعود) بھوپال میں لکھے گئے

۹۴

نگاہ شوق

یہ کائنات چھپاتی نہیں ضمیر اپنا

کہ ذرے ذرے میں ہے ذوق آشکارائی

*

کچھ اور ہی نظر آتا ہے کاروبار جہاں

نگاہ شوق اگر ہو شریک بینائی

*

اسی نگاہ سے محکوم قوم کے فرزند

ہوئے جہاں میں سزاوار کار فرمائی

*

اسی نگاہ میں ہے قاہری و جباری

اسی نگاہ میں ہے دلبری و رعنائی

*

اسی نگاہ سے ہر ذرے کو ، جنوں میرا

سکھا رہا ہے رہ و رسم دشت پیمائی

*

نگاہ شوق میسر نہیں اگر تجھ کو

ترا وجود ہے قلب و نظر کی رسوائی

***

۹۵

اہل ہنر سے

مہر و مہ و مشتری ، چند نفس کا فروغ

عشق سے ہے پائدار تیری خودی کا وجود

*

تیرے حرم کا ضمیر اسود و احمر سے پاک

ننگ ہے تیرے لیے سرخ و سپید و کبود

*

تیری خودی کا غیاب معرکۂ ذکر و فکر

تیری خودی کا حضور عالم شعر و سرود

*

روح اگر ہے تری رنج غلامی سے زار

تیرے ہنر کا جہاں دیر و طواف و سجود

*

اور اگر باخبر اپنی شرافت سے ہو

تیری سپہ انس و جن ، تو ہے امیر جنود

***

۹۶

غزل

دریا میں موتی ، اے موج بے باک

ساحل کی سوغات ! خاروخس و خاک

*

میرے شرر میں بجلی کے جوہر

لیکن نیستاں تیرا ہے نم ناک

*

تیرا زمانہ ، تاثیر تیری

ناداں ! نہیں یہ تاثیر افلاک

*

ایسا جنوں بھی دیکھا ہے میں نے

جس نے سیے ہیں تقدیر کے چاک

*

کامل وہی ہے رندی کے فن میں

مستی ہے جس کی بے منت تاک

*

رکھتا ہے اب تک میخانۂ شرق

وہ مے کہ جس سے روشن ہو ادراک

*

اہل نظر ہیں یورپ سے نومید

ان امتوں کے باطن نہیں پاک

***

۹۷

وجود

اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود

کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود!

*

گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر

وائے صورت گری و شاعری و ناے و سرود!

*

مکتب و مے کدہ جز درس نبودن ندہند

بودن آموز کہ ہم باشی و ہم خواہی بود

***

سرود

آیا کہاں سے نالۂ نے میں سرود مے

اصل اس کی نے نواز کا دل ہے کہ چوب نے

*

دل کیا ہے ، اس کی مستی و قوت کہاں سے ہے

کیوں اس کی اک نگاہ الٹتی ہے تخت کے

*

کیوں اس کی زندگی سے ہے اقوام میں حیات

کیوں اس کے واردات بدلتے ہیں پے بہ پے

*

کیا بات ہے کہ صاحب دل کی نگاہ میں

جچتی نہیں ہے سلطنت روم و شام و رے

*

جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا

سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے

***

۹۸

نسیم و شبنم

نسیم

انجم کی فضا تک نہ ہوئی میری رسائی

کرتی رہی میں پیرہن لالہ و گل چاک

*

مجبور ہوئی جاتی ہوں میں ترک وطن پر

بے ذوق ہیں بلبل کی نوا ہائے طرب ناک

*

دونوں سے کیا ہے تجھے تقدیر نے محرم

خاک چمن اچھی کہ سرا پردۂ افلاک!

***

شبنم

کھینچیں نہ اگر تجھ کو چمن کے خس و خاشاک

گلشن بھی ہے اک سر سرا پردۂ افلاک

اہرام مصر

اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں

فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر

*

اہرام کی عظمت سے نگوں سار ہیں افلاک

کس ہاتھ نے کھینچی ابدیت کی یہ تصویر!

*

فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہنر کو

صیاد ہیں مردان ہنر مند کہ نخچیر

***

۹۹

مخلوقات ہنر

ہے یہ فردوس نظر اہل ہنر کی تعمیر

فاش ہے چشم تماشا پہ نہاں خانۂ ذات

*

نہ خودی ہے ، نہ جہان سحر و شام کے دور

زندگانی کی حریفانہ کشاکش سے نجات

*

آہ ، وہ کافر بیچارہ کہ ہیں اس کے صنم

عصر رفتہ کے وہی ٹوٹے ہوئے لات و منات!

*

تو ہے میت ، یہ ہنر تیرے جنازے کا امام

نظر آئی جسے مرقد کے شبستاں میں حیات!

***

اقبال

فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی

مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش

*

حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر

اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش!

***

۱۰۰