جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل 0%

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 21921
ڈاؤنلوڈ: 3044

تبصرے:

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21921 / ڈاؤنلوڈ: 3044
سائز سائز سائز
جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

جوانوں کے جنسی مسائل اور ان کا حل

مؤلف:
اردو

فصل چہارم : وہ وزنجیریں جس نے جوانوں کے ہاتھ پیروں کو جکڑ لیا ہے

صحیح ہے کہ ہماری شادی کے مناسب اور طبیعی وقت کو گزرے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ،لیکن ہمارے پاس گھر ہونے کی صورت میں ہم شادی کیسے کرسکتے ہیں؟ ابھی ہمارا اپنا گھر بھی نہیں ہے ابھی اپنی گاڑی بھی نہیں ہے ، ابھی اچھی آمدنی والا کام بھی ہمارے پاس نہیں،ابھی بے شمار پیسے بھی نہیں جوشادی کے سنگین اخراجات ،اور دلہن اور رشتہ داروں کے لیے ہدایا اور سوغات کے لیے ضروری ہوں ۔ ابھی تک بڑی مناسب اور آبرومند جگہ بھی نہیں دیکھی جسمیںشادی کا پروگرام منعقد ہو سکے، ابھی ۔۔ ابھی۔۔!

ہم اپنی بیٹی کی شادی کیسے کر دیں جبکہ ابھی تک اسکے لیے ایک آئیڈیئل شوہر اچھی آمدنی والا ،اچھے اور آبرومند کام والا، اچھی پوسٹ والا ، اچھے گھر والا،اچھی پر سانلٹی والا، اچھی فیملی والا، رشتہ نہیں آیا، حالانکہ رشتے آتے ہیں مگر ایک دو شرطیں اسمیں نہیں پائی جاتی ہیں ۔اسکے علاوہ ابھی تک ہم نے اسکے لیے ضروری جہیز کا بھی انتظام نہیں کیا جیسے گھر کا سامان ،فرش،صوفا،فریج،واشنگ مشین،کھانوں کے برتن کے مختلف سیٹ ،استری ،الیکٹرک جھاڑو، کیڑے سینے کی مشین وغیرہ اور جہیز کے دوسرے بعض سامان فراہم نہیں ہو سکے ہیں ۔

اگر ہم اس حال میں اپنی بےٹی کی شادی کریں تو سوائے آبروریزی کے کچھ اور نہیں ملنے والا ہے ! کیا کریں کہ معاشرے نے یہ چیزیں ہم پر بار کر دی ہیں،کیا کیا جائے ہمارے گرد کی سخت و پریشان کن شرطیں جیسے کچھ کرنے نہیں دیتی ہیں ۔

اس طرح کا درد دل یا صحیح عذر اوربنی اسرائیل جیسے بہانے جو بہت سے جوان لڑکے لڑکیاںاور والدین کی جانب سے بیان ہوئے ہےں ، جو شادی کے امور میں اقدام میں مانع ہوتے ہیں ۔

عقلمندی کہتی ہے : زندگی کے دو حصے ہوتے ہیں پہلا آدھا حصہ دوسرے آدھے حصے کی امید میں اور دوسرا آدھا حصہ پہلے آدھے حصے کے افسوس میں گزر تا ہے ۔ امید کے بجائے خواب اگر لفظ خواب استعمال کریں تو مفہوم مزید واضح ہو جاتاہے ، کہ زندگی کا پہلا آدھا حصہ دوسرے آدھے حصے کے خواب میں گزر جاتاہے اور دوسرا آدھا پہلے آدھے حصے کے افسوس میں تلف ہو جاتاہے اور اس کی بہترین مثال ہمارے جوانوں کی شادیوں کا مسئلہ ہے جنکی پہلی آدھی عمر بہترین شریک حیات کی تلاش اور خواب میں گزر جاتی ہے اور باقی آدھی زندگی اسکے افسوس میں برباد ہوجاتی ہے ۔

بہرحال ان جوانوں اور والدین سے گذارش ہے ان حالات اور قید و بند کی زنجیروں کو پیدا کرنے کا ذمہ دار سوائے تمہارے خود کے کوئی اور نہیں ہے ، تم نے خود ہی ان حالات و شرائط اور قید و بند کی زنجیروں کو اپنے ہاتھ اور پاؤں میں ڈالا ہے ۔

خود تم نے ہی شادی شدہ زندگی کے لیے اس طرح کا ایک کھوکلا اور خیالی مفہوم ایجاد کر لیا ہے ۔اور اپنے لیے خیالی، واقعی خوش بختی اور سعاد ت مندی کی راہیں بند کر لی ہیں ۔

اپنی خوش نصیبی کی جو راہیں تم نے ہموار کی ہیں وہ ہرگز تم کو منزل تک نہیں پہنچا سکتی ، اس لیے تمام تجربوں اور تحقیقات نے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے ۔

رقیبوں کی نظر بد ، ایک دوسرے کی اندھی تقلید ، غیر اہم امور کا اہم بنانا، یہ گمراہ کرنے والے نظریات اور یہ نہ پوری ہونے والی آرزوئیں، اور جھوٹے خواب یہ ہی وہ حقیقتیں ہیں کہ جنہوں نے تمہارے ہاتھ پیروں میں بھاری زنجیریں ڈال دی ہیں ، جو تم کو ایک جوان کے اہم کام سے روکتی ہیں ۔

اے میرے عزیز جوانوں اور والدین! اگر تم لوگ ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے پیروں میں پڑی ان زنجیروں کو نکال دو اور ان گمراہ کرنے والے بتوں کو توڑ ڈالو تو اس وقت تم کو احساس ہوگا کہ تم نے روحانی طور پر کتنی عظیم آزادی حاصل کر لی ہے اور اپنی زندگی کو کس درجہ خوش نصیب اور سعادتمند بنا لیا ہے ۔

سچ تو یہ ہے کہ آپ نے کسے یکھا ہے جس نے آغاز جوانی میں ہی گُر اور زندگی کے آسائش و آرام کی تمام اشیاء فراہم کر لی ہوں ۔ جو آپ کے ہم سفر کے بارے میں یہ توقع رکھتے ہیں ۔ تمام لوگ اپنی زندگی کی ابتداء سے سفر سے شروع کرتے ہیں، ہاں جو لوگ خاندانی اور موروثی صاحب ثروت و مال ہیں ، ممکن ان کے ساتھ ایسا نہ ہواہو۔البتہ چونکہ وہ لوگ جو خود غالبا اپنی محنت سے اس منزل تک نہیں پہنچے ہیں وہ چاہے خوشی کے ساتھ یہ بات کہوں یا افسوس کے ساتھ ان مال و ثروت کی حفاظت پر قادر نہیں ہوتے ۔

اپنے کاموں کو آسان جانو! جیسے ہی شادی کے لیے سادہ اور عاقلانہ شرائط فراہم ہو جائیں فوری اقدام کردیں ۔

ہماری نظر میں نہایت سادہ اور بے جا انتظامات کے بغیر شادی کرنا حتی اگرتعجب نہ کریں تو زمان تحصیلی کے ساتھ ( پڑھائی کے دوران ) بھی نہایت سازگار ثابت ہوتی ہے ۔ بشرطیکہ دونوں فریق شادی کے صحیح معنی سے آشنا ہوں، اور اس بات کو بھی محسوس کرتے ہوں کہ دنیا ہر چیز کی خلقت تدریجی ہے ، اور زندگی کے شرائط بھی درجہ بدرجہ فراہم ہوتے ہیں اور آرزوئیں بھی امکانات کے مطابق ہوں ۔

وہ جوان افراد جو ان بے جا انتظامات اور خوابوں کے پورا کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں ایسے جوان شادی کے اہم اور اصلی مسئلہ کو فراموش کردیتے ہیں، اور وہ دو انسانوں کا ایک دوسرے کو درک کرنا ، زندگی کے صحیح معنی کو سمجھنا اور اس بنیاد پر عشق و محبت کی گرہ لگاناہے ۔

اگر یہ دو اصلی رکن یعنی یہ دو انسان صحیح طریقے سے ایک دوسرے کو درک کرلیں تو باقی تمام چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے ۔ اور اگر ایک دوسرے کا ادراک نہ کرسکیں تو باقی تمام چیزیں بھی ان کی زندگی میں کوئی خوش بختی نہیں لا سکتی ہیں ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے مذہب کے دستورات اور قوانین کے مطابق شادی میں سوائے دو عاقل انسانوں کے جو ایک مشترک زندگی کے خواہشمند ہیں کوئی اور شرط ضروری نہیں ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہیکہ اس قدر سادے مسئلہ پر آج کیسا وقت آگیا ہے؟۔

اہم نکتہ:

علوم دینیہ کے طلاب کی نہایت سادہ زندگی آج کے جوانوں کے لیے ایک نمونہ عمل ہے < توجہ فرمائیں>

حوزہ علمیہ کے ۹۹ فی صد طلاب تحصیل< پڑھائی> کے دوران شادی کے اقدامات کرتے ہیں جبکہ درسی پروگرام یا کلاسوں کا شیڈیول سبھی حوزات علمیہ میں نہایت ہی سخت ہوتا ہے جوکہ طلاب کے پورے وقت کو مشغول رکھتاہے ۔ چونکہ زندگی کی بنیاد اس ماحول میں الہام اور اسلامی دستورات کے مطابق اور سادگی کے ساتھ ہوتی ہے ۔ مختصر خرچ جو حوزہ علمیہ کے بیت المال سے انہیں دیا جاتاہے یا بعض طلاب کھیتی باڑی یا معمولی کا م جو وہ گرمیوں کی چھٹی کے زمانے میں کرتے ہیں اسکے ذریعہ اپنی زندگی کو نہایت ہی سادگی اور پاکیزگی کے ساتھ چلاتے ہیں بجائے اسکے کہ غیر شادی شدہ زندگی کے بد ترین نتائج سے سامنا کریں ۔ لہذااس حوالے حوزہ علمیہ کے طلاب آرام و سکون اور خوش بختی کا مکمل احساس حاصل کرلیتے ہیں ۔

فصل پنجم : شادی شدہ زندگی کے سات سخت موانع

بہت سے <قبیح اور قابل اجتناب مسائل > ایسے ہیں جنہیں ہم زندگی کا نام دیتے ہیں جبکہ انسے پرہیز کرناضروری ہے ۔ بہت سی ایسی مشکلات جنہیں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ تقدیر نے ہمیں اس میں پھنسا دیا ہے ، جبکہ اس مشکل کے جال کو ہم نے خود بنا ہے ۔ ہماری زندگی کی اکثر مشکلات اعتراضات کرنا ، بہانے کرنا، ضد کرنا،سب ہماری انہیں قبول نہ کرنے کے نتیجے کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں، خود حقیقی و واقعی مشکل کے مقالبہ نہیں ۔

ایرانی افسانوں کے ہیرو < رستم> کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ملک کے ان بعض حصوں کو تسخیرفتح اور تسخیر کرنا چاہا جسے اس وقت تک کوئی نہیں کر سکا ۔

اس نے اس خطے کے قلب تک پہنچنے میں سات بڑی رکاوٹوں کا جنمیں ہر ایک دوسرے سے زیادہ قوی اور وحشتناک تھی مقابلہ کیا، کبھی سفید دیو اور کبھی جن و بھوت کی شکل والے اژدھے اور کبھی خطرناک جادوگروں کا سامنا کرکے اپنی ہمت و مہارت اور بے مثل بہادری سے سب کو پیچھے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ساتوں مرحلوں کو طے کرکے کامیابی کو گلے لگا لیا، جسکو ایران کے رزمیہ شاعر فردوسی نے اپنے شاہنامے میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔

یہ افسانہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی مشکلات کے انبار کا ایک شاعرانہ مجسمہ ہے جو مشکلات کی زیادتی کامیابی و کامرانی کے راستوں کی نشاندہی اور مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے کی طرف اشارہ کرتاہے ۔

آج کے معاشرے میں شادی کا مسئلہ اور اس کی مشکلات کا مقابلہ کرنا ، رستم کے سات موانع کے مقابلہ سے ذرا بھی میل نہیں کھاتا، اگرچہ سب جوان رستم والی قدرت و شجاعت اور ساتوں رکاوٹیں پیچھے چھوڑ دینے والا حوصلہ نہیں رکھتے ہیں ، یا آج کے جوانوں میں ایسا عزم و ارادہ سرے سے نابود ہے ۔جیسا کہ ہم پہلے بھی اسبات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ شادی کے مسئلہ نے بڑی حد تک اپنی اصلی اور فطری صورت متغیر کر لی ہے اور اس طرح اسنے ایک نقصان پہنچانے والا اورزحمتیں دینے والا پیکر اختیار کر لیا ہے ۔

جوانوں اور والدین کے تمام تر نالے فریاد اور شکایتیں یہ ہی ہیں کہ شادی کے اخراجات ناقابل برداشت ہیں شادی کی اس متغیر صورت کی طرف سب کا اشارہ ہوتا ہے بنیادی طور پر اس مسئلہ کی اساس ان تمام بد بختی اور پریشانیوں سے ہٹ کر پاکیزگی اور تقدس پر اسطوار ہے ۔

موجودہ حالات بہت سے افراد کے لیے شاد ی سونے کی ایسی کان سے سونا نکالناہے جو اس قدر مخلوط اور آلودہ ہے کہ اس میں سے زحمت کرکے سونا نکالنا ہی سودمند نہیں ہے ۔یہ مواد جو مخلوط اور آلودہ ہے وہ اس کی مثال شادی میں دیکھنا، دکھانا خیالی مثال ، شان و شوکت ، غلط آداب و رسوم ، ہوس بازی ، کسب ، افتخار ، و خیالی عزت و آبرو حاصل کرنا ہے ۔

شادی کے مسئلے نے مشکلات کے اس انبار میں اپنے اصلی چہرے کو پوری طرح مسخ کر لیا ہے اور ایک جنگلی جن و بھوت اور خوفناک صورت اختیار کر لی ہے جسکا سامنا کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ۔

اور سب سے بدترحال یہ ہے کہ کم لوگ ایسے ہیں جو شجاعت کے ساتھ ان خرافات اور بیہودہ باتوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ پڑھے لکھے لوگ ان حالات میں جاہلوں سے بد تر نظر آتے ہیں، اور آج کے لوگ پرانوں کے مقابلہ میں کمزور و نا تواں ہیں ۔

اکثر افراد اس طرح کی غلط دلیلیں پیش کرکے خوش ہوجاتے ہیں کہ < آخر انسان زندگی میں کتنی بار شادی کرتاہے کہ اسے سادگی سے انجام دیا جائے ؟ ہمیں چھوڑ دو تاکہ ہم اپنی آخری آرزوئیں پوری کر لیں اور اپنی دلی خواہشات کو عملی جامہ پہنا لیں!

وہ اس بات سے غافل رہتے ہیں کہ کہ یہ غلط استدلال بقیہ تمام جوانوں اور خود ان کی سعادتمندی اور خوش نصیبی کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے ۔

جوانوں کو چاہےے کہ جوانمردی کے ساتھ سات رکاوٹوں کا سامنا کرنے والے رستم کی طرح اس لمبے راستے کو طے کریں اور اس طرح کے جادوئی طلسم کو توڑ ڈالیں ۔ اگر آپ حیران نہ ہوں اس راستے کی بھی سات رکاوٹیں ہیں <رستم کے راستے کی طرح > اور یہ مندجہ ذیل ہیں:

۱ ۔ لا محدود امیدیں اور خواب لڑکیوں کی لڑکوں سے اور لڑکوں کی لڑکیوں سے امیدےں اور ماں باپ کی دونوں سے ۔

۲ ۔ ماں باپ اور رشتہ داروں اور دوستوں کی طرف سے بے وجہ مشکلات پیداہونا ۔

۳ ۔ بڑی مقدار میں مہر کا ہونا جو کمر توڑ ثابت ہوتاہے ۔

۴ ۔ شادی کے مراسم کے لیے بے جا انتظامات جو ہزاروں گنا شادی کے پہلے اور بعد میں کئےے جاتے ہیں ، اور جو خطرناک چشمک کا باعث ہوتے ہیں ۔

۵ ۔ دو خاندانوں کے کفو اور ہم شان ہونے میں بے جا اعتراضات۔

۶ ۔ حد سے زیادہ عشق جو کنٹرول سے باہر ہو اور جسکا کوئی حساب و کتاب نہ ہو۔

۷ ۔ ایک دوسرے کے لیے حد سے سوا غلط فہمیاں پیدا ہونا ، ایک دوسرے پر آئندہ زندگی کے لیے اعتماد کا نہ ہونا ۔

جب ہم ان ساتوں مشکلات کے بارے میں غور کرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ اکثر مشکلات کا شادی کے مسئلہ سے کوئی ربط نہیں ہے جو بھی ہے وہ اسکے حواشی اور بے وجہ چیزوں سے ہے ۔

”ہم رتبہ ہونا“ یا اصطلاح میں ایک دوسرے کا کفو ہونا یہ مسئلہ قابل بحث ہے اس موضوع کو بہت سے لوگ شادی میں رکاوٹ کا ایک بڑا سبب تصور کرتے ہیں جبکہ اس میں تحریف سے کام لیا گیا ہے اور حقیقت سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے ۔

ایک جوان جو خود بیان کرتا ہے : کہ وہ ایک تیل کمپنی میں انجینیئر ہے اور اسکی تنحواہ بھی کافی اچھی ہے، عمر ۳۰ سال ہو چکی ہے مگر ابھی تک شادی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ، شکایت و فریاد کر رہا تھا ۔ اسکا بیان ہے: کسی بھی خاندان کی لڑکی سے شادی نہیں کی جا سکتی ہے ضروری ہے کہ ایک ایسا خاندان تلاش کیا جائے جو لائق احترام صاحب شخصیت اور میرے ہم رتبہ ہو، لیکن جب بھی کسی ایسے خاندان کا پتہ چلتاہے اور ہم شادی کی بات شروع کرتے ہیں تو شادی اور اسکے شرائط اور اخراجات کی فہرست اتنی طویل ہوجاتی ہے کہ جسکا حساب الکڑونک دماغ کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتاہے ۔

میں نے اس جوان سے کہا کہ تمہاری مراد لائق احترام ، باشخصیت ہم رتبہ خاندان سے کیا ہے ؟ کیا اس سے مراد پڑھا لکھا صاحب علم خاندان ہے ؟ میں بہت سے ایسے خاندانوں سے واقف ہوں جنکے یہاں پڑھی لکھی گریجویٹ لڑکیاں ہیں اور وہ شادی کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ اگر تمہاری مراد اس سے عالی صفات اور اخلاقی اقدار والے خاندان ہیںیا جسمی اور بدنی امتیازات رکھنے والے خاندان ہیں تو اس طرح کے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ، غریب و نادار ضرور ہیں لیکن اصیل اور نجیب ہونے میں کوئی کمی نہیں ہے ۔

لیکن میں سمجھتاہوں کہ تمہاری مراد ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ تمہاری مراد ایسے خاندان سے ہیکہ لڑکی کے چچا زاد بھائی یہاں وہاں کے مینیجر اور رئیس کل ہوں ، اسکے ماں باپ مالدار ،ثروتمند ،گاڑی بنگلہ ، زرق و برق زندگی رکھنے والے ہوں ۔ کیا تمہارا مطلب یہ نہیں ہے؟ میں نے دیکھا کہ اسکا مطلب یہ ہی تھا ۔

میں نے اس سے کہا کہ تم نے اپنی اس زندگی میں اتنی بڑی خطا کا ارتکاب کیا ہے کہ صاحب شخصیت کا مطلب ان امور میں صاحب شخصیت ہونابنا لیا ہے نہ یہ کہ انسانی حقیقت کے اعتبار سے صاحب شخصیت ہو اسلئے ضروری ہے تم اسی طرح د تکارو عذاب سے دو چار رہو۔

غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اسلامی روایات میں آپ دیکھتے ہیں کہ” ہم رتبہ ہونا “اس مسئلہ کا غلط مفہوم اس زمانے میں معاشرے اور قبیلوں کے درمیان اس شدت کے ساتھ رائج تھا جسکا پوری قوت کے ساتھ اسلام نے مقابلہ کیا اور اس غلط مفہوم کا خاتمہ کیا، اور ایمان کی بنیاد پر عوام کے مردوں اور عورتوں، لڑکے اور لڑکیوں کو ایک دوسرے کا کفو یا ہم رتبہ قرار دیا ۔

اسلامی روایات میں ہم یہ ہی پڑھتے ہیں کہ ” المئو من کفوء المئومن“ مومن کا ہم رتبہ مومن ہی ہو سکتا ہے ۔ہر صاحب ایمان چاہے وہ کسی بھی خاندان، قبیلے ، قو م اور طبقے سے تعلق رکھتا ہو وہ دوسرے مومن کا ہم رتبہ ہوتا ہے ۔

اس بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ان توھمات کا خاتمہ کر دیا جائے جو طبقاتی معاشرے میں فرقہ وارانیت زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ دونوں فریق شادی کی بنیاد انسانی اقدار اور عقل و منطق پر اسطوار کریں بغیر کسی لالچ کے مثلا لڑکی کے چچا زاد بھائی فلاں پوسٹ پرہیں یا وہ لوگ صاحب ثروت ہیں ،گاڑی بنگلے والے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ تو یقینا یہ تمام مشاکل خود بخود حل ہو جائیںگے اور شادی کی بقیہ مشکلات بھی اسی کے مانند ہیں ۔

چھٹی فصل : سختی سے کا م لینے والے والدین

اس طرح کے والدین اپنے عزیزبچوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈالتے ہیں ۔

اکثر خود غرض والدین جو اپنی جوانی میں بہت سے رنج و غم اور پریشانیوں کا سامنا کر چکے ہیں اسکے با وجود وہ جوانوں کے دلوں میں جنسی شہوتوں کے برپا ہونے والے طوفان کے سوالوں کا صحیح جواب نہیں دے پاتے ہیں ۔ لڑکے لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے والدین حد درجہ سختی سے کام لیتے ہیںیا بے مہری سے کا م لیتے ہیں ۔

یہ بے مہری اور سختی دونوں کی ایک ہی اساس ہے جہاں سے یہ جنم لیتے ہیں کبھی کبھی یہ اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ ایک سال اور پانچ سال کی تاخیر انکی نظر میں ایک سادہ عمل اور قلیل مدت عرصہ شمار ہوتا ہے!< ٹھیک ہے اگر اس سال نہیں تو اگلے سال انشاء اللہ ، یا ابھی نہیں ہوا تو اگلے کچھ سالوں میں ہو جائے گا، ابھی دیر نہیں ہوئی ہے! > جبکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ ایک سال تو دور کبھی کبھی ایک مہینے کی تاخیر حساس موقعوں پر جوانی کے نتائج کو متغیر کر سکتی ہے ۔ خدا جانے یہ والدین اپنے ماضی کو کیوں یاد نہیں کرتے ، کیوں اتنی جلدی جوانی کے طوفان و شور کو جو شادی سے پہلے بپا ہوتا تھا بھلا دیا ہے ۔ کیوں خود کو اپنے جوانوں کی جگہ فرض نہیں کرتے ہیں ۔؟

جوانوں کا خاندان کی چار دیواری سے فرار ہونا ، اور انکا خودکشی کرنا، گمراہ ہوجانا اور بیمار ہوجانا وغیرہ اس حقیقت سے عدم توجہی کا ایک سبب ہے ۔ اگر بحث کا عنوان جوانوں کی پرہیزگاری، پاکدامنی اور با ایمان ہونا ہوتا تو ہمارا بیان انکے بارے میں مزید ہو جاتا ۔

والدین کی سہل انگاری یا کوتاہی اس طرح کے افراد کے لیے ظلم سے بڑھ کر ہے اور حقیقت و واقعیت اور عاقبت بینی سے دور ہے ۔

جبکہ والدین اپنے جوانوں کے جنسی بحران و طغیان کی حالت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں لیکن شادی کی مشکلات اور اسکی ذمہ داریاں انکو یہ سب جان بوجھ کر بھلا دینے پر آمادہ کر دیتی ہیں، اور انکو یقین دلاتی ہیں کہ ابھی انکے پاس کافی وقت ہے !۔

اتنی جلدی بازی کی کیا ضرورت ہے ؟!۔۔۔۔

ابھی تو انکے منہ سے دودھ کی بو بھی نہیں گئی !

ابھی تو یہ بچے ہیں شادی کے کیا معنی ؟!

ابھی ابھی ۔

لیکن یہ ” ابھی “ ابھی کہنا جسکا نتیجہ ایسا دردناک ہو سکتا ہے کہ تمام عمر والدین کا دامن اس سے نہیں چھوٹ سکتا ہے اور وہ بھی ایسے موڑ پر کہ اسکے جبران کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہ جائیگا ۔

اپنے جوانوں کے شریک حیات کی تلاش میں والدین بہت سختی سے کام لیتے اور بہت بے بنیاد شرائط اور قیود اور کبھی کبھی مضحکہ خیز شرطیں انکی شادی کے لیے معین کر تے ہیں یہاں تک کہ وسواس کی حدوں تک بات چلی جاتی ہے ۔شاید انہیں اسباب کی وجہ سے شادی کی ضرورت کا احساس ختم ہو جاتاہے ۔

اس لیے کہ انسان اگر کسی چیز کی ضرورت کا احساس کرتا ہے تو اسکی شرطوں کو کم اور سبک کردیتاہے ۔ اور چشم پوشی ، در گذر، مدد یہ تمام ارادوں اور بحثوں کی بنیاد ہے ۔ اسکے برعکس اگر انسان کسی چیز کی ضرورت کا احساس نہ کرے تو یہ شئی انسان کو مشکل پسند بنا دیتی ہے اور اسکی طرف مائل ہونے سے روک دیتی ہے ۔

میں نے ایک مقالے میں پڑھا ہے کچھ سخت اور وسواسی قسم کے لوگ گاڑی خریدتے وقت اسکو سونگھتے ہیں جیسے گوشت یا سبزی کو سونگھا جاتا ہے ایسے لوگ جب گاڑی خریدنے میں ناک سے کام لیتے ہیں تو پھر واضح ہے کہ اپنے بچوں کے رشتے کی تلاش میں کیا کیا نہ کرتے ہونگے ۔

دلچسپ بات یہ ہیکہ اسطرح کے شکی والدین اپنے آپ کو گھڑے میں گرا دیتے ہیں اور انکو اسکا سرے سے احساس بھی نہیں ہوپاتا ہے ۔

شاید اسکی نفسیاتی وجہ یہ ہو کہ وہ افراد جو دھوکے باز اور خودنما ہوتے ہیں چال بازی اور چاپلوسی وغیرہ کے ذریعے اور خود کو سبز باغ میں دکھا کر شکی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لیتے ہیں ۔ ورنہ یہ کام ایک شریف اور عام انسان سے نا ممکن ہے اور وہ ہرگز کسی کو اپنی طرف اس طرح جذب نہیں کرتا ہے ۔

صحیح ہے کہ شریک حیات کے انتخاب میں یقینا دقت سے کام لیا جائے کیونکہ شریک حیات کا انتخاب پوری زندگی کے لیے ہوتا ہے <نہ یہ کہ قمیص یا لبا س کی طرح< کچھ دن استعمال کیا اور پھینک دیا >۔

لیکن ” دقت “ اور ”سختی و وسواس “ میں بڑا فرق ہے ۔

اگر مد مقابل شریک حیات آپکے لیے مناسب ہے اور با خبر افراد کی تحقیقات بھی اس کی تائید کرتی ہے تو بغیر کسی تردد کے آپکو قدم آگے بڑھانا چاہےے، اللہ کی مدد کے خواہاں رہیں ، اطمئنان رکھیں اسکا نتیجہ آپکے لیے بہتر ثابت ہوگا ۔

اسلامی دستورات و عقل اور دانشمند افراد کے بڑی تعداد میں تجربات والدین کو وصیت کرتے ہیں کہ اپنے جوانوں کی شادی کے امور میں عجلت سے کام لیں، بے مہری اور بیجا سختیوں سے اجتناب کریں ۔ سختیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات کو معمولی شمار نہ کریںاور اپنے عزیز جوانوں کے مستقبل کو خطرے میں نہ ڈالیں ۔

اسبات کو یاد رکھیں کہ جوانوں کی جنسی خواہشات اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ ان کے بارے میں اگر لا پرواہی اور تساہلی سے کام لیا تو کوئی بھی خطرناک حادثہ پیش آسکتا ہے ۔پوری تاریخ انسانیت اور انسان کی روزمرہ کی زندگی اسبات کی گواہ ہے کہ جنسی خواہشات سے پیدا ہونے والے خطرات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ اسکی برابری کوئی اورخطرہ نہیں کرسکتا ۔یقینا یہ مسئلہ ہر چیز سے زیادہ مہم اور اساسی ہوتا ہے ۔

فصل ہفتم : شریک حیات کا انتخاب کون کریگا: جوان یا والدین ؟

یہ میری پسند ہے اور یہ میرے والدین کی پسند!

یہ واقعہ بھی بڑا حیرت انگیز ہے ، جسکی مثالیں کم نہیں ہیں ، ایک اخبار میں یہ قصہ اس طرح ذکر تھا:

اٹھارہ سالہ ایک دلہن عقد سے چند منٹ پہلے شادی کا لباس اتارتی ہے اور مردانہ لباس زیب تن کرکے کمرے کی کھڑکی سے صحن خانہ میں کود کر فرار کر جاتی ہے اور نارمک نامی(تہران میں ایک سڑک کا نام نارمک ہے) حمام پہنچ کر اپنے ہاتھ کی رگ کاٹ لیتی ہے اور غش کھاکر گر جاتی ہے ۔ کچھ دیر بعد وہاں کے لوگ اسکی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس کو اسپتال میں داخل کراتے ہیں اور اس کو موت سے نجات دلاتے ہیں ۔

یہ لڑکی موت سے نجات پانے کے بعد اپنی زندگی کا ماجرا پلیس کے سامنے اس طرح بیان کرتی ہے :

پچھلے سال میں ہائی اسکول میں پڑھتی تھی اور ایک جوان کے ساتھ میرا رشتہ ہوگیا تھا ، جسکا انتخاب میں نے خودکیا تھا ۔ پچھلے سال ایک دن میں اخبار پڑھ رہی تھی کہ اچانک میری نظر میرے ہونے والے شریک حیات کی تصویر پر پڑی کہ جسے نارمک کے ایک سپاہی دستے نے سونے چاندی کی چوری کے جرم میں گرفتار کیا تھا ،۔

یقین نہ کرتے ہوئے میں نے اس کے گھر فون سے رابطہ کیا، تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ یہ واقعہ صحیح ہے،اور وہ چوروں کے ایک گروہ کے ساتھ چوری کرنے جاتا تھااور اب جو کچھ بھی اس کے پاس ہے وہ سب چوری کا مال ہے!

اگر چہ میں اس تحقیق سے قانع نہ ہوئی ، اور میں نے اس دعویدار کمپنی کے ایک بڑے سرپرست سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ سب کچھ جھوٹ تھا اور اس کمپنی کے لوگ کسی ایسے شخص کو اصلا نہیں جانتے ہیں!

یہاں تک کہ ایک مہینے قبل میرے والد کے دوست میرے لئے ایک چالیس سالہ ثروت مند جوان کا رشتہ لے کر آئے،جسکی بیوی نزدیک ہی میںفوت ہو گئی تھی ۔

میں کسی بھی صورت میں اس رشتہ پر راضی نہیں تھی اور کئی مرتبہ میں نے اپنی رائے بھی بیان کی ، لیکن کوئی بھی میری بات سننے کو تیار نہیں تھا، میرے والد اس طرح اس رشتے پر اصرار کرتے رہے ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے میری شادی کے دعوت نامہ تقسیم ہونا شروع ہوگئے اور نوبت شادی تک پہنچ گئی اور اس وقت میرے پاس شادی کی محفل سے فرار اور اسکے بعد خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا ۔

مسئلہ یہ ہے کہ آیا جوانوں کی شادی کے فیصلے والدین ، اہل خانہ اور خاندان کے بزرگوں کے اختیار میں ہونا چاہیے یا یہ حساس مسئلہ جوانوں کے میلان اور رجحان کے حوالے کر دیا جائے اور کسی دوسرے کی کوئی مداخلت اس میں شامل نہ ہو ۔اس مقام پر دو نظریات پائے جاتے ہیںجومکمل طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہیں، اور طرفین میں سے ہر ایک کے پاس منطقی دلیلیں موجود ہیں ۔

سب سے پہلے ہم فریقین کی دلیلوںسے آشنائی حاصل کریں گے اسکے بعد صحیح راہ حل تلاش کریںگے ۔

جوانوں کے ایک گروہ کا بیان ہے : ہماری یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ ماں باپ یہ کیوں چاہتے ہیں کہ ہماری شریک حیات کا انتخاب وہ خود کریں،جبکہ شریک حیات کا انتخاب خود انسان کا حق ہے ۔

مثال کے طور پر فلاں لڑکی، والدین کی نظر میں ایک حور ہے لیکن اگر ہم اسے پسند نہیں کرتے تو وہ ہمارے لیے ایک جنگلی چڑیل سے بھی بد تر ہے ۔

ماہرین نفسیات، محققین کی تحقیق اور تجربات کا خلاصہ یہی ہے کہ اکثر و بیشتر طلاق کے اسباب وہ شادیاں ہیں جو کم عمری اوروالدین کی پسند کے نتیجے میںہوتی ہیں ۔

اصولی طور پر کوئی بھی عزت دار انسان یہ کبھی نہیںچاہے گا کی اسکی اولاد میں کوئی لڑکا ےا لڑکی گھر بار چھوڑکر فرار ہو جائے یا خود کشی کر لے ۔ یہ جو کچھ ہوتا ہے سر پرستوں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے اسکی مثالیں جرائد اور اخبارات میں بڑی تعداد میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔

بالفرض ایک زمانے میں لڑکے لڑکیاں سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے اپنی مصلحتوں کی شناخت پر قادر نہیں تھے ، لیکن آج کا دور اس زمانے سے مختلف ہے ۔

اصل میں بنیادی طور پر والدین کے سوچنے سمجھنے کا طریقہ قدیمی ہے ، آج کے زمانے سے انکی فکر ہم آہنگ نہیںہے اسی وجہ سے والدین آج کے جوانوں کے امتیازات کو درک نہیں کر پاتے ۔

مختصر یہ کہ والدین کو چاہیے کہ کلی طور پر خود کو ان مسائل سے علیحدہ کر لیںاور جوانوں کے ذوق ، ابتکار ، اور فکر کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیں ۔

لیکن والدین کہتے ہیں:

انسان اگر اپنے وقت کا افلاطون اور بو علی سینا بھی ہو، آغاز جوانی میں نا پختہ ہی ہوتا ہے،دوسرے لفظوں میںیہ کہا جائے کہ جوان، ضرورت سے زیادہ خوش فہم اوربہت جلد یقین کرلیتے ہیں، اور نفسیاتی پاکیزگی کی خاطر وہ ظاہری خوبیوں اور جھوٹے حسین چہروں کے فریب میں آ جاتے ہیں وہ اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان جھوٹے حسین چہروں کے پیچھے کیسی ہولناک اور بدنما صورتیں پوشیدہ ہیں ۔

بہت سے منحرف افراد ایسے ہیں ، جنہوں نے جوان لڑکے لڑکیوں کو جال میں پھنسانے کے لیے حیرت انگیز عاشقانہ ادبی جملے یاد کر لئے ہیں اور نہایت ہی ہوشیاری سے ابتدا ء میں خود کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر بہت ہی جلدی شیطانی ہنر مندی کے ذریعے پرکھ لیتے ہیں کہ انکے دل میں کیسے جگہ بنائی جائے قدماء کا محاورہ ہے :(اول خودش را جا کند بعدا ببین چہ ھا می کند )۔ پہلے اپنے لئے جگہ بناؤ پھر دیکھو کیا نہیں کر سکتے ۔

پھر اس کے بعد بات ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور واپسی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ”انسان جو سوچتا ہے اس کے برخلاف ہوتا ہے “۔

جوان چاہے کتنا بھی ہوشیاراور با فہم کیوں نہ ہو آخر کار اس راستے پر چلنے کے لئے اسکی راہنمائی ضروری ہوتی ہے اس لیے کہ یہ راستہ وہ پہلی بار طے کر ر ہا ہے، جو لوگ اس راستے سے گزرے ہیں وہ بھی تائید کریں گے کہ راہنما کا ہونا کس قدر ضروری ہوتا ہے ۔ گویا مراحل طے کرنے کے لئے خضر کا ساتھ ضروری ہے ، اس لئے کہ راستہ اتنا تاریک ہے کہ گمراہی کا خطرہ ہر موڑ پر موجود ہے ، اس سے ڈرنا ہی چاہیے ۔

کیا والدین اپنے بچوں کے دشمن ہیں! جو انکی زندگی کے اہم ترین مصالح کو نظر انداز کردیں! وہ اپنے بچوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وقت پڑنے پر اپنی جان بچوں پر نچھاور کر دیتے ہیں ۔

والدین کتنے بھی جاہل اور بے خبر ہوں پھربھی انہوں نے دنیا کے نشیب وفراز دیکھے ہیںاور ایک مشترک زندگی کے امتیازات جو آئندہ زندگی میں اثر انداز ہوتے ہیںاس سے بخوبی آشنا ہیں، وہم وخیال سے حقیقت کو تشخیص دینے کی قدرت رکھتے ہیں ۔

اور تمام باتوں سے قطع نظر اخلاقی نقطہ نگاہ سے بھی یہ عمل بہت ہی دل خراش اور تلخ ہے کہ والدین جن کو اپنی اولاد کی زندگی پر پورا حق ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی تمام توانائی اورخوشیاںاپنی اولاد کی راہ میں قربان کر دی ہوں ،انکو اس موضوع سے بالکل الگ کر دےا جائے، ایسا حساس موضوع جو والدین کی آئندہ زندگی میں موثر ہے، اور ان کے پاک و پاکیزہ احساسات کو سرے سے پامال کر دیا جائے، اورصرف اپنی ہوس کو پورا کرنے کی فکر میں ہو !اور والدین کی مرضی کے بغیر اپنے شریک حیات کا انتخاب کرلیں،اور اس کے اوپر والدین کے جو احسانات ہیں ان کو بھول جائے ، یہ کام کسی بھی طرح انسانی قوانین سے سازگار نہیں ہے ۔

لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق والدین اور جوانوں کے دونوں نظریات میں سے کوئی بھی مکمل طریقہ سے جامع اور مانع نہیں ہے ۔

نہ والدین کو حق ہے کہ وہ اپنی نظر کے مطابق شریک حیات کا انتخاب کرکے جوانوںکو شادی پر مجبور کریں، اور نہ جوانوںکے لئے مناسب ہے کہ اس اہم کام کو اکیلے انجام دیں ۔

بلکہ صحیح راستہ یہ ہے کہ باہمی کوشش ، غور و فکر، اور آپسی مشورت سے اس اہم عمل کو انجام دیا جائے ۔ والدین کو اس حقیقت کی طرف توجہ کرنا چاہئے کہ شریک حیات کا انتخاب صرف منطق و استدلال سے نہیں ہوتا، بلکہ اس انتخاب کا حقیقی محرک ذوق ہوتا ہے ۔ اوریہ بات مسلم ہے کہ تمام افراد کا ذوق ایک جیسا نہیں ہوتا ہے حتی دو حقیقی بھائیوں کا ذوق بھی مختلف ہوتا ہے ۔

ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ زبردستی شادی پایدار ثابت ہو ، آخر کار اسکا نتیجہ جدائی ہی ہوتا ہے چاہے جلدی ہوجائے یا دیر سے وجود میں آئے، اورسب سے بدتر اور خطرناک مقام وہ ہوتا ہے کہ جب والدین جوانوںکے لئے شریک حیات کے انتخاب میں اپنے ذاتی مصالح اور مفاد ات کو معیار بنالیں ، اس طرح کے والدین بہت گمراہ ہوتے ہیں ۔

دوسری طرف جوانوں کو بھی یہ بات جاننا چاہے کہ اکثر جوانی میں عشق کا طوفان انسان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے اور اس وقت اس کو پنے محبوب کی اچھائی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اوروہ اسکے تمام عیوب کو فراموش کر دیتا ہے، لہذا اس امر میں اپنے ہمدرد والدین ، مطلع دوست واحباب سے فکری مدد حاصل کریں ۔

اسکے علاوہ جوان چاہے کتنے ہی قوی اور طاقتور کیوں نہ ہوں پھربھی زندگی کے طوفان اور حادثات میں والدین ،دوست اور رشتہ داروں کی مدد سے مستغنی نہیں ہیں ۔

اگر جوان اس مہم سے والدین کو علیحدہ کردیں تو پھر بعد میں آنے والی مشکلات میں انکی مدد اور حمایت حاصل نہیں کر سکتا ، جبکہ ان کے اعتماد اور بھروسہ کا حاصل کرناجوانوں کے لئے بہت ضروری ہے ۔

اخلاقی نقطہ نگاہ سے بھی جوانوں کا فریضہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس امر میں دلسوز والدین کو محبت کے ساتھ اپنے ہمراہ لے کر چلیں،اس لئے کہ اسلامی دستورات میں بھی اس باہمی کوشش کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے، خصوصا کنواری لڑکی کے بارے میں حکم دیا گیا کہ شادی کے لئے سب سے پہلے خود لڑکی سے رضایت حاصل کی جائے اس کے بعد اسکے سر پرستوں کی موافقت لی جائے ۔ البتہ ایسے موارد کم ملتے ہیں جن میں والدین اپنی اولاد کی مصلحت کے برخلاف اپنے فوائد کو مد نظر رکھ کر اپنے بچوں کی شادی کرتے ہیں،جواسلامی قوانین سے مستثنی ہیں ۔ اسی طرح ایسے موار دبھی کم ہیں جن میں شادی اولاد کی مصلحت کے مد نظر ہو اور والدین اس پر معترض ہوں، ان میں سے کوئی ایک نظریہ بھی معتبر نہیں ہے اور ایسے موارد میں ان کی پیروی کرنا لازم نہیں ہے ۔