إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟ 40%

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 13070 / ڈاؤنلوڈ: 4775
سائز سائز سائز

تیسری فصل : انتظار اور ہماری زمداریان

جن قرآنی آیات اور روایات میں مسئلہ انتظار کے متعلق گفتگو ہوئی ہے ان سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ عضر غیبت میں منتظر ین کے گردن پر بہت ہی سنگین اور بڑی زمداری ہے اور جب تک ان زمداریوں اور وظائف پر عمل نہ کریں حقیقی اور سچے منتظرین میں شمار نہیں ہوتا

لہذا واقعی اور سچے منتظر بنے کے لیۓ ان زمدایوں کو اچھی طرح جانا اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے

ہم یہاں چند اہم زمدّاریوں کو تفصیل کے ساتھ زیر تحریر لاتے ہیں تاکہ تشنئہ معرفت حضرات کے لیےان وظائف اور زمداریوں کو جاننے میں آسانی ہو جائے

۱: امام منتظر کی معرفت اور شناخت :

ایک مؤمن منتظر کی سب اہم ذمداری اور پہلا وظیفہ ہر دور کے امام کی معرفت اور انے شناخت ہے ،اور فریقین کے رویات کے مطابق پیغمبر اکرم نے امام زمانہ کی معرفت کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے:من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة (۱) جو شخص اپنے امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مر جاۓ وہ جاہلیت کی موت مراہے ”

اسلامی تعلیمات کے روشنی میں- جسکا تذکرہ پہلے بھی ہو چکا ہے- تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جس ہستی کے آمد کے ہم سب منتظر ہیں وہ ایسی شخصیت ہیں جن کو پروردگار عالم نے اسی دن کے لیے ذخیرہ کیا ہے ، اس روۓ زمین پر امام زمانہ اور حجت خدا ہونگے اور انکے بابرکت وجود کے زریعۓ مقصد بعثت کامل اورخلقت کا نتیجہ حاصل ہو گا لیکن خصوصیت کے ساتھ مکتب تشیّیع کے نزدیک وہ ذات ابھی بھی ہمارے درمیاں زندگی کر رہیے ہیں اگر چہ انکی شخصیت کی زیارت سے ہم سب محروم ہیں ، آپ پردہ غیب سے ہماری مسلسل سرپرستی کررہے ہیں ،انھیں کے وسیلہ سے اﷲ تعالی لوگوں کو رزق فراہم کرتا ہے اور زمین وآسمان اپنی جگہ ثابت وبرقرار ہیں آپ خدا اور مخلوق کے درمیا ں وسطہ فیض ہیں تمام انبیاء واوصیاء کے علوم اور اوصاف حمیدہ کے وارث ہیں اورآپ ہی کی ذات کو اﷲ تعالی کی ارادہ و اجازت سے نفوس پر تصرف کرنے کا حق حاصل ہے اور حق وحقیقت کی طرف ہدایت کرتی ہے

اگر آج مسلم سوسائٹی معیشتی و اجتماعی اور ثقافتی لحاظ سے اضطراب وتنزّل اور حفقان کا شکار ہے ،تو یہ سب آنحضرت سے غفلت و بے توجہی اور انکی معرفت حاصل کرنے میں کوتاہی کے وجہ سے ہے ،اور فطری طور پر جب انسان کسی موضوع کو کما حقہ نہ پہچانتا ہو تو اسکے بارے میں وہ اپنے وظیفہ کو دلی لگاو سے انجام نہیں دے سکتا لھذا ایک حقیقی منتظر کی ظہور سے پہلے سب سے بڑی اور اہم ذمداری حضرت حجت اما م منتظر کی معرفت اور شناخت ہے اوریہی سعادت و نجات کا باعث اور اسے دوری دنیوی نقصان اور خسران ابدی کا باعث ہے لہذا صادق ال محمد فرماتے ہیں :يَقُولُ اعْرِفِ الْعَلَامَةَ فَإِذَا عَرَفْتَهُ لَمْ يَضُرَّكَ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ عَرَفَ إِمَامَهُ كَانَ كَمَنْ كَانَ فِی فُسْطَاطِ الْمُنْتَظَرِ ع (۲) تم اپنے امام کو پہچانیں جسکے تم منتظر ہے کیونکہ جب تم پہچانیں گے تو پھر وہ ظھور کرۓ یا نہ کرۓ تمھیں کچھ نقصان نہیں ہو گا یعنی تم نے اپنے ذمداری انجام دیا اور حقیقی منتظرین میں سے ہو گۓ اب انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر جاۓ تو یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ، لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے -

اسی طرح فضیل بن یسار نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے:يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ (۳) ” آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو امام زمانہ کے ظہور میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا و ہ اپنے امام کے ہمراہ جہاد میں انکے خیمے میں ہے -”

اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں :ولا یکون الایمان صحیحا ً الاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، کما قال اللّه تبارک وتعالی ”الاّ من شهد بالحق وهم یعلمون (۴) فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به الاّ من بعدعلمهم ثم کذلک لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یکون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (۵) ”کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت نہیں رکھتا ہوں “جس طرح اﷲ تعالی فرماتا ہے الاّ من شہد بالحق وھم یعلموں مگر ان افراد کے جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی گواہی قبول نہیں ہو گی مگر علم رکھتا ہو ” اسی طرح مہدی قائم پر ایمان رکھنے والوں کے ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا (یعنی انکے ظہور اور قیام پر اجمالی ایمان اور انکے ظہور کے انتظار اسے فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران انکے متعلق اور انکے شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو

اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جاننے بغیر کس امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو گی

الف: آپ کائنات کے اولین مخلوق ہیں :

صحیح روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ ورسول اکرم اور دیگر بارہ معصومین کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی کائنات کے تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم ای بارے میں فرماتے ہیں “لما اسری بی الی السماء (۶) جس رات مجھے آسمان کا سیر کرایا میری نظری پڑی عرش پر تو لکھا ہوا تھا “لا اله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ أیده بعلی ....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمد اسکا رسول ہیں اور علی کے زریعے ہم نے انکی تایئد کیا ،اور میں نے عرش پر علی وفاطمہ اور باقی گیارہ معصومین کے مقدس انواردیکھا جنکے درمیان حضرت حجت کا نور کوکب درّی کے مانند درخشان اور چمک رہا تھا میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومین کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بہر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکا ہو گا اسی طرح امیر المومنین فرماتے ہیں رسول خدا نے مجھ سے فرمایا :لما عرج بی الی السماء....... فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءک المکتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی الی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی کل نور سطر أخضر مکتوب علیه اسم کل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (۷) “جب مجھے آسمان کا سیر کرایا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہے میرےاوصیا ، ندا آئی یا محمد تمھارے وصیون کے نام ساق عرش پر لکھا گیا ہے میں نے عرش کی طرف نظر کیا تو گیارہ نور اسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز رنگ ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسماۓ گرامی لکھا گیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالب کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کے مہدی کا نام تھا -

اسی طرح جناب شیخ صدوق امام صادق سے نقل کرتے ہیں آپنے فرمایا:

الله تبارک و تعالی خلق أربعة عشر نورا قبل خلق الخلق بأربعة عشر ألف عام فهی أرواحنا فقیل له یا ابن رسول الله و من الأربعة عشر فقال محمد و علی و فاطمة و الحسن و الحسین و الأئمة من ولد الحسین آخرهم القائم الذی یقوم بعد غیبته فیقتل الدجال و یطهر الأرض من کل جور و ظلم ....(۸) “پرودگار عالم نے تمام مخلوقات کے آفرینش سے چھودہ ہزار سال پہلے چھودہ نورخلق کئے تھے اور وہ ہماری پاکیزہ ارواح تھیں ان میں سے آخری قائم علیہ السلام ہے جو غیبت کے بعد قیام کرے گا ، دجال کو قتل کرے گا ،اور زمین کو ہر طرح کے ظلم وستم سے پاک کر دے گا -

پس ان احادیث اور انکے علاوہ اور دسویں روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے قائم آل محمد جس کے ہم اور آپ سب منتظر ہیں جنکے نور کو پروردگار عالم نے کائنات تمام مخلوقات سے پہلے خلق کیا ہے اور انہیں دوسرے مخلوقات پر شاہد اور گواہ بنا کر پیش کیا ہے یہ انے مقام ومنزلت خدا کے نزدیک

ب :آ پ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں :

بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ،

جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا سے نقل کرتے ہیں :قال رسول الله ص ذکر الله عز و جل عبادة و ذکری عبادة و ذکر علی عبادة و ذکر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة ان وصیی لأفضل الأوصیاء و انه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسک السماء أن تقع علی الأرض الا باذنه و بهم یمسک الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئک أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا .....(۹) “ آنحضرت نے فرمایا :اﷲکا ذکر اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علی کا ذکر وانکے فرزاندان ائمہ کے ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کے جسنے مجھے نبوّت کے ساتھ بیجھا ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالب کے فرزاندان ائمہ ھداء ہونگے انھین کے واسطے اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا اور انھیں کے برکت سے آسمان ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کے خاطر پہاڑون کے بکھر جانے نہیں دے گا اور انھین کے طفیل سے اپنے مخلوق کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین

اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انے فرزند حجت خدا وجانشین واما مقائم منتظر مہدی جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے انکے وجود سے دنیا باقی ہے اور انکے برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قاظم ہیں اور انھیں کے ذزیعے خدا زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہے گی

پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں

ج: آپ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے -

امام حسین سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچہا گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل کلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته (۱۰) ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت کو لوگوں پر واجب کی گی ہے -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّه عزوجل ویعبده من عرف اللّه وعرف امامه منّا أهل البیت(۱۱) ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جسنے اﷲ اور ہم اہل بیت میں سے اپنے اما م کو پہچان لیا ہو یا اہل بیت اطہار کی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار ) اگر چہ وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو -جیسا کہ چھٹے امام سے روایت ہے آپ فرماتے :“من عرفنا کان مومنا ومن انکرنا کان کا فراً (۱۲) جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں ہے -

د: آپ تمام انبیاء کے کمالات کا مظھر ہیں

متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہیں اور آپ میں تمام انیباء کے کمالات پائی جاتی ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کے حامل تھے سلمان فارسی نے آنحضرت سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :الائمة بعدی اثنا عشر عدد شهور الحول ،ومنّا مهد ی هذه الاُمة (۱۳) میرے بعد بارہ امام سال کے بارہ مہینون کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدی بھی ہم سے ہی ہونگے جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب سمیٹ لاۓ ہو گا

اسی طرح چھٹے اما مفرماتے ہیں :انّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام (۱۴) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ تو اپنے جد علی علیہ السلا مکے لباس زیب تن کریں گۓ اور انکی سیرت پر چلین گے

کسی اور روایت میں امام رضا انکے مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں :للامام‏ علامات یکون أعلم الناس و أحکم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس (۱۵) “ حضرت ولی عصر لوگوں میں سب سے زیادۃ دانا حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہیں وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والے عابد اور عبادت گزار ہیں ”

ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کے اُمیدوں کو زند ہ کریںگۓ-

قرآن مجید نے نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و پاکدامنی کو رواج دینا تھا -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء کے مبارک ہاتھوں سے انکے آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشوق ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل می تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف کیا ہے اور وہ آیہ مبارکہ یہ ہے :( يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ ) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور حدا کو اپنے منھ سے پھونک مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے-( هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون ) وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بیھجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار کیوں نہ ہو

ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپی شخصیت تنہا وہ ذاتہیں جو انبیاط وائمہ کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گۓ اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدون کو تحقق بخشین گۓ اسی لیۓ روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ کی اطاعب اور معرفت ہے اور انکے ظہور کا انکار نبی اکرم کی رسالت کا انکار ہے اگر چہ وہ شخص ایک مسلمان ہو نے کی بنا پر انکے نبوّت کا اعتراف ہی کیون نہ کرے ،چنانچہ آپ فرماتے ہیں :

قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و کنیته کنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم الی کتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنکر غیبته فقد أنکرنی و من کذبه فقد کذبنی و من صدقه فقد صدقنی الی الله أشکو المکذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (۱۶) . قائم میرا فرزند ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشکائل میرے شکل وشمائل جیسی ہوگی اور انکی سنت میری سنی پر ہوگی لوگوں میرے دین اور شریعت پر پلٹا دین گۓ انھین میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گۓ جو انکی اطاعت کرۓ اسنے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اسنے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اسنے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلالے اسنے مجھے جھٹلایا ہے اور جسنے انکی امامت اور غیبت کا تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....- اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب کی معرفت اور اطاعت ہے اور ہی انکا انکار نہ صرف آنحضرت کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے -

اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامن کے دن میں ہمیں اپنی حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا (یا حسرتا !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنے اندر پیدا کریں

اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمداری اپنے وقت کی امام و حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها(۱۷) اور بھی بہت روایا ہر زمان میں امام کی ضرورت پر دلالت کرتی ہیں -

۲: امام منتظَر کی محبت -

معرفت کا لازمہ محبت ہے یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کو نہ پہچانتا ہو اور اسکی خاصیت کو نہ جانتا ہو اسکی عظمت وفضائل اسکے مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس سے محبت نہیں کر سکتا لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی کی عظمت اور فضائل سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتا ہے ،اور اسکی ظرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے -

اور خدا ورسول اور ائمہ اطہار کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں وبرائیوں سے نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہون سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے

اور روایات معصومین میں امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص طور پر توجہ دی گئی ہے چناچہ رسول اکرم فرماتے ہیں :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا اےمحمد ! زمین پر کس کو اپنے امت پر اپنا جانشین بنایا ہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتا تھا ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب کو اچانک میں نے علی ابی طالب اور حجت قائم کو ایک درخشان ستارے کے مانند انکے درمیان تھے دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیرے دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں پس اگر چہ تمام معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے اسیلۓ آٹھوین امام نے اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے ، آپ نے فرمایا :قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد کمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر (۱۸) ”مجھ سے میرے بھاظی رسول خدل نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالیسے اپنے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ.......-

لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمداری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھنا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں

الف: امام منتظَر کی اطاعت اور تجدید بیعت -

امام زمانہ کی محبت کے منجملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک حضرت کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا ہے چاہے کہ اسکا امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں پرمطلع اوراسکے رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں، اچھے اور نیک کامون کو یکھ کر انکے دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے برے اور ناشائستہ کامون کو دیکھ کر انکو دکھ ہو جاتاہے ،اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا و رسول کی رضا ہے اور انکے کسی پر ناراضگی خدا و رسول کی ناراضگی اسکے درپے ہے ،اور میرا ہر نیک عمل ہر اچھا کردار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کے نسبت میرا احساس مسؤلیت انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا اور یہ بھی جاننا چاہے کہ اما م زمانہ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کے مکمل پیروی میں حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت یا معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھ سکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عرتون کا ضرت المثل ہے (وانت عاصیُ ُ انّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ )یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جب جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی اطاعت گزار ہوتا ہے

اسلئے صادق آل محمد فرماتے ہیں :مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ (۱۹)

جو شخص چاہتے ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں یے ہو جاۓ تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات ہقل ہوۓ ہیں :“اللهم انّی اُجدد له فی صبیحة یوم هذا وما عشت فی أیامی “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں میں سے قرار دۓ

بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہار کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومین کی اطاعت حمایت اور انسے محبت کا وعدہ ہے

چنانچہ خود امام زنانہ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم الا ما یتصل بنا مما نکرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوکیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم (۲۰) “اگر ہمارے شیعہ اﷲ تعالی انہیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارا احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتا : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوگی ،اور ہمیں شیعون سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کے کردار نے پوشیدہ کر رکھّا ہے جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ کافی ہے

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات ےاضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار کے چاہنے والوں سے جس چیز کے وفا کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت اطاعت حمایت اورمحبت ہے

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے مانے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور کے شرائط میں سے ایک اہم شرط بھی ہے

اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین فرماتے ہیں : “اعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولکنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم واسرافهم علی انفسهم (۲۱) جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگون کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں انکی زیارت سے محروم کر دۓ گا -

پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ایک اوراہم ذمداری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے اوریہی شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی

ب: امام منتظر کی یاد

امام زمانہ عجل اﷲ فجرہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں ایجاد کرنے اور اسے رشد دینے کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طدف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور پر یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح کو ایک چیز کی طرف متوجہ کریں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو سکے

اسی طرح اگر آپ نے اما زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ روحی کشش کو ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد ظرف کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ اور جب شرائط پائی جاتی ہیں تو اسکا اثر خواہ نخواہ ہو گا اور رایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتا ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھون کیں دو وقت ایک صبح اور دوسرے رات کے وقت حضرت بقیۃ اﷲ اعظم کی طرف توجہ کریں معصومین نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہد کے پڑہنے دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑہنے کا حکم دیا ہےالسلام علیک فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی (۲۲) سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا اُجالا پھیل جاۓ اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص ان طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام کی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکیا جاۓ گا(۲۳) اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین کے تجدید بیعت کرتےہیں-

اور امام منتظر کے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد یہاں ذکر کرتے ہیں -

الف :امام منتظر کے نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا

امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم زریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا ہے-

ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہے جس طرح خدا و رسول اور خود امام زمانہ اور انکے اجداد طاہرین ہم سے چاہتۓ ہیں ہمیں جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو آنجناب کی حاجتون کو اپنے حاجتون پر مقدم اور انکی طرفسے صدقہ دینے کو اپنے اوپر اور اپنے عزیزون کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کریں ،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ(۲۴) اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات فرماتے ہیں : “....... کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں چاہتے ہے ، اسی طرح اسکے نزدیک اپنے عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو - اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومین کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو اپنے امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑیسے بھی سنگین ہےيَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (۲۵) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے پر تاکید کیا گیا ہے

یقینا ان کامون کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ انسان ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ

ج: انکے فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا -

بعض معصومین بھی امام زمانہ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے یہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر مؤ منین حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشنیا ں یون بیاں فرماتے ہیں

“ومن الدلائل ان يُری من شوقه

مثل السقیم وفی الفؤاد غلائلٌ

ومن الدلآئل ان یری من اُنسه

مستوحشاَ من کل ما هو مشاغل ٌ

ومن الدلآئل ضحکه بین الوری

والقلب مخزون کقلب الثاکل "

انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھوٹ رہا ہوتا ہے

انکی دوسیری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اسے بھاگ جاتے ہیں

اور تیسری نشانی یہ ہے کہ ملنے میں خندان نظر آئیں گۓ لیکن انکا دل غم و اندوہ سے بیٹھا مرا شخص کی طرح محزون ہوتا ہے

لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصر کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر رہی ہے انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بھانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام اس بارے میں فرماتے ہیں :إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ (۲۶) ” اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام سالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان ما شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے.......

کسی دوسرے حدیث میں جسے جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی ہے ،کہتے ہیں :ایک دن میں مفضل بن عمیر و ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق کے خدمت میں شرفیاب ہوۓ تو آپکو اس حالت میں دیکھے کہ آپ زمین پر تشریف فرماں ہیں ، جُبہ خیبری زیب تن کیۓ ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کے مانندبے تابی سے گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹھا مرا ہو ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں

پس ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران اور انکے شوق دیدار میں بے تاب تھے

____________________

(۱) شرح مقاصد: ج ۲ ص ۲۷۵-

(۲)مرآۃ العقول :ج۴ ص ۱۸۶ - اور اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ -

(۳) کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲

(۴) زخرف :۸۶ -

(۵) صدوق :کمال الدین اتمام النعمة :ج ۱ ص ۱۹ -

(۶) سید ہاشم بحرینی :منیت المعاجز ص ۱۵۳ -

(۷) کمال الدین ج : ۱ ص : ۲۵۶

(۸) صدوق :اکمال الدین ج ۲ ص ۳۳۵ باب ۳۳ -

(۹) شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ ۲۲

(۱۰) مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -

(۱۱) کلینی: کافی ،ج ۱ ، ۱۸۱ -

(۱۲) کلینی :کافی ،ج۱ ،ص ۱۸۱ -

(۱۳) صافی گلپائی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -

(۱۴)مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ -

(۱۵) محقق طبرسی :الاحتجاج ج : ۲ ص : ۴۳۷

(۱۶) صدوق : کمال الدین ج : ۲ ص : ۴۱۱-: اعلام الوری ۴۲۵ -

(۱۷) کافی :ج۱ ،ص۱۷۹ اور الغیبة ،نعمانی ص ۱۴۱ اور کفایة الاثر ص ۱۶۲ -

(۱۸) الصراطالمستقیم ج : ۲ ص : ۱۴۹

(۱۹) مجلسی بحار انوار ،ج۵۲ ،ص ۱۴۰ -

(۲۰) طبرسی - الاحتجاج ج : ۲ ص : ۴۹۹ -

(۲۱) نعمانی :الغیبة ،باب ۱۰ ،ص ۱۴۱ -

(۲۲) پیام اما زمانہ :ص ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہ کے متعلق تقریر کا ایک حصہ -

(۲۳) مجلسی :ج ۱۰۲ ،ص ۱۱۱ -مصباح الزائر ص ۲۳۵ -

(۲۴) کشف المحجہ : فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ -

(۲۵) کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ - اور،ج ۱ ص ۵۳۸ -

(۲۶) کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶ باب غیبت -

دوسری فصل :اسلام اور عقیدہ انتظار :

اسلام میں انتظار سے مراد مصلح اعظم منجی عالم قائم آل محمد موعود موجود فرزند زہرا حجت خدا ولی عصر کے آخری زمانہ میں آفاقی امامت اور ولایت کے ساتھ ظہور کرنے اور دنیا کوظلم وجور سے خاتمہ کرکے عدل و انصاف سے پُر کرنے پر عقیدہ اور ایمان ہے انتظار یعنی تیاری اور آمادگی ہے ،تیاری پاک ہونے ،پاک زندگی گزارنے، بدیون زیشتیون سے دور رہنے، اور تزکیہ نفس کا ،تیّاری خودسازی دیگر سازی سماج سازی اور معاشرہ سازی کی ،آمادگی تمام فردی اجتماغی جسمی اور معنوی طاقتون اور قوتون کو کے یکجا اور اکہٹا کر کے اس عظیم آفاقی اور آسمانی انقلاب میں برپور حصہ لینے کی

ہم یہاں مختصر طور پر عقیدہ انتظار اہمیت انتظار اور مفہوم انتظار کو کتاب وسنت کی روشنی میں مزید واضحت دینے کی کوشش کریںگۓ

ا: قرآن اور عقیدہ انتظار:

تمام مسلمانوں کا اور خصوصیت کے ساتھ مذہب حقّہ کا مستحم وراسخ عقیدہ ہے کہ حق حق ہمشہ ثابت اور دائمی ہوتا ہے تاہے اسکے مقابلے میں باطل عرضی اور وقتی ہوتا ہے ،اور ہر شئی عارضی زود یا دیر زائل ہو جانے والا ہے اور باطل کے جگہ حق لے گا

ہر جگہ حق کا چرچا اور حکومت ہو گی ،قرآن کریم نے بھی متعدد آیات کے زریعے مختلف مقامات پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ آخری زمانہ میں (وجاء الحق وزہق الباطل انّالباطل کان زہوقا )کا اعلان کیا ہے اور انتظار فرج کو نقالب تغیر مسائل میں سے گنا ہے اور دین مبین اسلام کے دوسرے تمام آسمانی وغیرآسمانی مکاتب فکر پر غالب آنے کل حتمی وعدہ دیا ہے

چناچہ پروردگار عالم اپنی لا ریب کتاب میں ارشاد فرماتا ہے( هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی‏ وَ دِینِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ) (۱) وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بیھجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار کیوں نہ ہو -

اسی طرح اسی سورہ مبارکہ کے ۳۲ ایت میگ ارشاد ہوتا ہے( يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُون ) (۲) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور حدا کو اپنے منھ سے پھونک مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے -

اسی طرح کسی تیسرے مقام پر اس عہد الہی کے حتمی ہونے کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرماتا ہے( وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون‏ ) (۳) اور ہم نے ذکر کے بعد بھی زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے -

( وَ نُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلىَ الَّذِینَ اسْتُضْعِفُواْ فىِ الْأَرْضِ وَ نجَْعَلَهُمْ أَئمَّةً وَ نجَْعَلَهُمُ الْوَارِثِین‏ ) (۴) “اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگون کو زمین پر کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انھین لوگوں کا پیشوا و اما م اور زمین کا وارث قرار دیدیں -

ان قرآنی آیات اور انھیں آیات کے علاوہ اور بھی دوسرے بہہت سی آیات سے یہ قطعی طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ ایک دن پوری دنیا کے حکومت اور قدرت اہل ایمان اورنیک بندون کے ہاتھ آۓ گی اور ہر جگہ اسلام کا چرچا ہوگا اور سارے دنیا واے ایک ہی پرچم یعنی پر چم توحید کے ساۓمیں جمع ہوں گے اور یہ وہ دور ہوگا جس میں منجی عالم مہد موعود ظہور فرما یئں گے اور وہ آخری زمانہ کا دور ہو گا

ان قرآنی آیات سے مجموعی طور پر جو اہم مطالب اخذ ہوتے ہیں بطور خلاصہ یوں بیان کیا جاسکتا ہے

۱: موعود قرآنی کی امامت اور رہبری میں توحید اور عدل کے اصولوں پر بنیاد رکھی گی آفاقی حکومت اور نظام کے چلانے کے لیے اﷲکے نیک بندوں اور اہل ایمان کے ہاتھون دیا جاۓ گا

۲: آیئں اسلام دوسرے تمام آدیان اور فکری مکاتب پر غالب آجاۓ گا اور دستور اسلام کو عملی جامہ پہنا جاے گا

۳: پوری دنیا میں عدالت ،امنیت ،صداقت ،محبت والفت پھیل جاے گی اور ہر طرح اطمینان وسکوں اورصفا کا سما ں ہو گا ،اور ہر طرح کی اختلافات جو طبقاتئیت نژادیت ،لسانیت ُعلاقیت اور وطنیت کی شکل میں اُمتون میں پھیلے ہو ے ہیں اور ہر قسم کی خود پرستی دنیا پرستی اور منیت جو ظلم وبربریت اور وحشیت کی شکل میں اُبھری ہوئی ہے ان سب کا خاتمہ کر کے اس طرح عدل وانصاف سے بھر دۓ گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکا ہو گا -

۴: ر ہر قسم کے شرک ، بت پرستی ، غلامی اور بردگی کا قلعہ قمع ہو کے توحید اور یکتا پرستی کا عالم ہوگا(۵)

ب: روایات اھل بیت اور عقیدہ انتظار فرج :

اھل بیت اطہار سے امام زمانہ عج کے متعلق سینکڑوں روایات اور احادیث ہم تک پہنچی ہیں ان میں خصوصی طور پر انتظار کی اہمیت ،ضرورت بیان ہوئی ہے

ان روایات سے جو اہم مطالب اخذ ہوتے ہیں ان میں سے چند کا بطور خلاصہ تحریر میں لاتے ہیں

۱: انتظار افضل ترین عبادت ہے :

اہل بیت اطہار نے واضح طور پر نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ انتظار صرف نفسانی حالت کا نام نہیں بلکہ عمل ہے اور وہ بھی بہتریں عمل ہے جیسا کہ فریقین کے جانب منقول ہے رسول خدا نے فرمایا افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ(۶) -میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظہور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل ہے یاکسی اور مقام پر آپ یوں فرماتے ہیں -انتظار الفرج عبادة افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل (۷) فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت ہیں میری امت کے اعمال میں سب کے بہتر عمل اﷲ کی طرف مے فرج وکشائش کا انتظار ہے اور مضمون میں ائمہ معصومین سے بھی بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہے جیسا کہ امیر المؤمنیں علی فرماتے ہیںانتظروا الفرج ولا تیأسو من روح اللّه ،فانّ أحب الأعما الی اللّه عزّوجل انتظار الفرج الآخذ بأمرنا معنا غداً فی حظیر القدس ،والمنتظر لأمرنا کالمتشحط بدمه فی سبیل اللّه (۸) آسائش اور رہائی کا انتظار کرو خدا کی رحمتون سے کبھی مایوس نہ ہوجاؤ اسلئے کہ پروردگا کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انتظار فرج ہے اور ہماری ولایت کے مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا اور ہماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کے مانند ہے جو اﷲ کے راہ میں اپنے خون سے غلطان ہوا ہو -

۲: انتظار واجب اورظہور خدا کا حتمی وعدہ :

کلمات معصومین سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ حجت خدا کا ظہور حتمی ہو جبکہ اسکا انتظار فرض اور واجب یعنی ضروری ہے

جیسا کہ معصومیں کا جملہ ہے :أنّ قائم منّا هو المهدی الذّی یجب ان ینتظر فی غیبته ،ویطاع فی ظهوره (۹) ہم میں سے جو قائم ہونگے وہ مہدی ہیں زمانہ غیبت میں انکا انتظار اور ظہور کے بعد انکی اطاعت سب پر واجب ہے-

اسی طرح ابی داود اور ترمذی دونون نے اپنے سند کے ساتھ پیغامبر اعظم سے نقل کیا ہے ،کہ آنحضرت نے فرمایاولو لم یبق من الدهر الاّ یوم واحد لبعث اﷲ رجلاَ من أهل بیتی یملؤ ها عدلاً کما ملئت جوراً وظلماً (۱۰)

“اگر دنیا کے عمر میں ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہے تو پھر بھی پروردگار عالم میرے اہل بیت میں یےایک شخص کو بیجھا جاۓ گا اورزمیں کو ظلم وجور سے بھر جانے کے بعد عدلو انصاف سے بھر دے گا ”

کسی اور روایت میں جناب طبرانی اور احمد حنبل وغیرہ نے رسول خدا سے نقل کی ہے آنحضرت فرماتے ہیںولو لم یبق من الدنیا الاّ یوم لطوّل اللّه ذلک الیوم حتی یبعث رجلاً منّی –أو من أهل بیتی – یواطیئ اسمه اسمی یملأ الأرض قسطاً وعدلأً کما ملئت ظاماً وجوراً (۱۱)

اگر عمر دنیا یے ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہی تو پروردکار عالم اس دن کو اس طرح طول دے گا کہ مجھ سے یا میرے اہل بیت سے ایک شخص جو میرا ہم نام ہو گا ظہور کرۓ گا اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دۓ گا جس ظرح ظلم و جور سے بھر چکا ہو گا ----

پس ان روایات کے علاوہ سینکڑون روایات جسے فریقین نے تاریخی تفسیری اور حدیثی کتب میں نقل کی ہے جو دلالت کرتی ہے کہ جس ہستی کے تما عالم منتظر ہیں وہ فرزند رسول اور ہم نام رسول مہدی منتظرہوں گے کہ جنکےانتظار ضروری اور واجب ہے جبکہ انکے ظہور کا اﷲ تعالی حتمی وعدہ دیاہے

۳: انتظاریعنی امام غائب پر عقیدہ :

ایک طرف تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مہدی موعود روۓزمین پر خدا کا نمائیدہ اور بندون پر حجت ہو ں گۓ تو دوسری طرف زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی تاہم حجت خدا کی معرفت اور اور شناخت واجب اور ضروری ہے

چنانچہ رسالت کآب فرماتے ہیںمن مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة (۱۲) جو شخص اس حالت میں مرے جبکہ وہ اپنے امام زمان کونہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مراہے -کسی دوسرےحدیث میں آپ فرماتے ہیں:قَالَ قلتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع أَ تَبْقَی الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ قَالَ لَوْ بَقِيَتِ الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ لَسَاخَتْ (۱۳) ”اگر ایک لحظہ بھی حجت خدا سے خالی ہو جاۓ تو زمین ہر چند کو نگل لے گئی اسی طرح کسی اور مقام پر آپ اما م غائب پر عقیدہ رکھنے اور انکے ظہور کا انتظار کرنے والون کی توصیف میں فرماتے ہیں:

طوبی للصابرین فی غیبته ! طوبی للمقیمین علی محبته ! اُولئک الذّین وصفهم اﷲ فی کتابه وقال:”هدی للمتقین الذّین یومنون بالغیب(۱۴) -” ان صبر کرنے والوں کے لیے خوش بختی ہے جو انکے غیبت کے دوران صبر کرۓ ! اورخوشابحال ہے وہ لوگ جو انکی محبت پر پابر جا رہے ! یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق پروردگار عالم نے اپنی کتاب میں کہا ہے ”ہدایت ہے ان صاحبان تقوی اور پرہیزگار لوگوں کے لۓ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں”-اور انکے امامت پر ایمان نہ رکھنے والے اور انکے خروج کے انکار کرنے والوں کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں ”من انکر خروج المهدی فقد کفر بما اُنزل علی محمّد (۱۵) حضرت مہدی عجل کے ظہور کا انکار کُل اسلام کے انکار کرنے کا برابر ہے

پس ہر فرد مسلمان کی ذمداری ہے کہ وہ امام زمانہ کے غیبت پر ایمان لاۓ انکی معرفت خدا ورسول کی معرفت انکی غیبت پر ایمان عالم غیب پرایمان اور انکے وجود مقدس پر ایمان خدا ورسول پر ایمان اور انکےاور انکے خروج کا انکار اسلام کے انکار کے برابر ہے

۴: انتظار یعنی اہل بیت اطہار کے تقرب کیلۓ جدوجہد :

انتظار کا تقاضا ہے کہ ہمیشہ امام زمانہ کی محبت اور تقرب کو ہاتھ میں لانے اور انکے مورد غضب اور نارضگی واقع ہونے کی فکر میں رہیں لہذا ایسا کام انجام نہ دیں جو ان سے دوری اور انکے خاص عنایتوں محروم ہونے کا سبب بنے بلکہ ہمیشہ اسیے عمل انجام دینے کی کوشش میں ہونا چاہیے جو زیادہ سے زیادہ آنحضرت سے نزدیک ہونے اور انکے رضایت کو جلب کرنے میں زیاوہ مؤثر واقع ہوتا ہو چناچہ خود امام زمان جناب شیخ مفید کو ارسار کۓ گے ایک خط میں فرماتے ہیں “فلیعمل کلّ امرء منکم بما یقرب به من محبّتنا ویتجنب ما یدنیه من کراهتنا وسخطنا(۱۶) تم میں سے ہر شخص کو ایسا کام کرنا چاہیے جو ہماری محبت اور دوستی سے نزدیک کرنے کا سبب بنے اور جو چیزین ہمیں نا پسند ہیں اور ہماری کراہت وناراضگی سے نزدیک کرنے کا باعث بنتی ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے -

انتظار کا صحیح مفہوم

لغت کے لحاظ سے انتظار ایک نفسیاتی حالت جو آئندہ اور مستقبل کے لیۓ امیدوار ہونا ہے لیکن اسلامی تعلیمات میں انتظار نہ صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عقیدہ ہے عقیدہ حق وعدالت کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار ہونے اور مدینہ فاضلہ یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں بلاآخر عدل الہی اور دین الہی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ھاتھوں جلوہ گرھونے کا

انتظار نظریہ ہے نظریہ آخری زمانہ میں منجی موعود کا ظہور کرنے اور عالم بشریت کو موجودہ حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے ہاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا ہے

انتظار عمل اور حرکت ہے ایسا عمل جو جس میں نفس کہ تزکیہ ہو، فردی اور اجتماعی اصلاح ہو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی ہو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پہلو اور زاویوں سے ہو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ زمینہ فراہم کرۓ اور اس دور کے ساتھ ہم آہنگ اور وہم سوہوں ،یہ ہے حقیت انتظار اسلامی نقط نگاہ میں انشاء اﷲ بعد میں تفصیلی وضاحت دین گے

انتظار کا غلط مفہوم اور اسکا منفی نتائیج

ممکن ہے بسا اوقات نظریہ انتظار کو اپنے درست اور اصلی مفہہوم میں نہ سمجھنےبلکہ کج فہمی اور غلط مراد لینے کی وجہ سے یھی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگی کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے -

اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو سینکڑون ہزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروپوں تنظیموں کی شکل میں نظر ایئین گے جنہون نے عقیدہ انتظار کو الٹ سمجھنے اور اسے غلط مفہوم مراد لینے کی وجہ سے نہ صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعہ بنایا بلکہ الٹا یہی انتظار انکےمفلوج ہونے جمود کے شکار ہونے اور اپنے علاوہ سکاج کو بھی فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیہ )نامی تنظیم جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح پر لوگوں کو فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یہ شعار تھا کہ ہم معاشرے میں جتنا بھی ہو سکھے گناہوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے اتنا ہی امام زمانہ کی ظہور میں تعجیل کا زمینہ فراہم ہو گا اور امام جلدی ظہور کریںگے

ہم یہاں پر ان گروپوں میں سے ایک دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شدہ گروہوں کو پہچانے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت ہو جاے

پہلاگروہ

لوگوں کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ عصر غیبت کیں ہماری ذمداری صرف اور صرف حضرت حجت کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا ہے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں انکا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو ہم کوئی ربط نہیں امام زمانہ خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھک کرے گریں گے،اسے پہلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم ہو گا اور لا محالہ دین و شریعت کے خلا ف ہو گا لہذا اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں

اما م خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کے عظیم ہستی)ا نکے رد میں فرماتے ہیں

(کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹہ کر امام زمانہ کے ظہور کے لیے خدا کی درگاہ میں دعا کرنے میں دیکھتا ہے اور تکلیف اور ذمداری سمجھتے ہیں ہم سے کوئی ربط نہیں دنیا میں ملتوں پر کیا گزرے ،خود امام ظہور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یہ ان لوگوں گا منطق ہے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرنا ہے ،اسلام انکو قبول نہیں کرتا بلکہ ہماری ذمداری ہے کہ انکیامد کے لیے زمینہ فراہم یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظہور کریں گئے(۱۷) اگر ہماری بس میں ہوتی تو پوری دنیا سے ظلم وجور کو مٹا دیتے ہماری شرعی ذمداری تھی لیکن یہ ہماری بس سے باہر ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے ہاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمداری کو انجام نہ دے(۱۸) بلکہ دوران غیبت میں چونکہ احکام حکومتی اسلام جاری وساری ہیں کسی قسم کی ہرج و مرج قابل قبول نہیں ہے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا ہماری ذمداری ہے جسکا عقل حکم کرتی ہے ،تاکہ کل اگر ہم پر حملہ کرے یا ناموس مسلمین پر ہجوم لانے صورت میں دفاع کر سکھے اور انھوں روک سکھے ہم ان سے یہ سوال کر تے ہیں ،کہ کیا پیغمبر اکرم نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال ظاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وہ قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا ؟کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کے عقیدہ اور اسکا اظہار کرنا اسلام کے منسوخ ہو جانے پر عقیدہ رکھنے اور اسے اظہار کرنے سے زنادہ بدتر ہے ، کوئی شخص نہ نہیں کہہ سکھتا کہاب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود و باڈروں کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے یا مالیات ،جزیہ ،خمس وزکواۃ اور خراج نہیں لینا چاہیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات قصاص سب تعطیل ہے(۱۹)

دوسرا اور بدتریں گروہ-

اس گروہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف سماج سے ظلم وستم کو ختم کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا ہماری ذمداری نہیں بلکہ ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو گناہوں کہ طرف دعوت دیں اور جتنا بھی ہو سکھے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑھنے کی کوشش کریں تاکہ امام زمانہ کی ظہور کے لیے زمینہ فراہم ہو جاۓ ،اس گروہ میں بعض خود غرض افراد بھی ہوتے ہیں جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے ہیں اور بعض ایسے سادہ لوح افراد بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے غلط افکار کے زد میں ا کر منحرف ہوتے ہیں

انکے رد میں رہبر کبیر امام خمینی فرماتے ہیں :یہ جو کہتے ہیں ضروریات اسلام کے خلاف ہے ،یہ کہ ہم خود بھی گناہ انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناہوں پھلاے تاکہ حضرت حجت جلدی ظہور کریں ،....حضرت حجت ظہور کریں گے تو کس لیے ظہور کریں گے ؟اسیلیے ظہور کریں گنے کہ دنیا میں عدالت کو گسترش دیں ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشہ کن کرنے کے لیے ظہور کریں گے ،لیکن ہم قرانی ایات کے خلاف امر بالمعروف اور منکر سے نہی کرنے سے ہاتھ اُٹھا لیں اور گناہوں کو پھیلانے کی فکر میں رہیں تاکہ حضرت جلدی ظہور کریں ،کیا انحضرت جب ظہور کریں گے تو یہی کام انجام دیں گئے ؟

ابھی دنیا ظلم وجور سے بھرا ہوا ہے ...اگر ظلم وجور کے روک سکھتے ہیں تو ہماری ذمداری اور تکلیف ہے ضرورت اسلام اور قران نے ہماری ذمداری ڈال دی ہے کہ باید قیام کرے اورہر کام کو انجام دے -(۲۰)

یقیناً اس قسم کا انتظار جس میں ایک قسم حدود قوانین اور اسلامی مقررات کا تعطیل ہونا لازم آتا ہو اور منتظرین کو گناہوں کی طرف دعوت دے تخریب اور جود کا شکار ہو جاے یقیناً اسیے انتظار خود امام زمانہ کے ارشاد کے مطابق طہور کی راہ میں سب سے بڑا مانع اور سد راہ ہے چنانچہ اپ فرماتے ہیں :و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم الا ما یتصل بنا مما نکرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوکیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم (۲۱) “اگر ہمارے شیعہ اﷲ تعالی انہیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارا احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتا : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوگی ،اور ہمیں شیعون سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کے کردار نے پوشیدہ کر رکھّا ہے جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ کافی ہے

پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات ےاضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار کے چاہنے والوں سے جس چیز کے وفا کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت واطاعت ہے

اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے مانے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور کے شرائط میں سے ایک اہم شرط بھی ہے

____________________

(۱) توبہ: ۳۳ -

(۲) توبہ: ۳۲ -

(۳) انبیاء: ۱۰۵ -

(۴) قصص:۵ -

(۵) ظہور حضرت مہدی : اسد اﷲہاشمی شہیدی ،ص ۱۹۸ -

(۶) کمال الدین: ج ۲ باب نمبر ۵۵ ح ۱ -

(۷) کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹ -

(۸) بحار انوار : ج ۵۲ ص ۱۲۳ ح ۷ -

(۹) منتخب الاثر ص ۲۲۳ -

(۱۰) سنن ابی داود ج ۲ ص ۴۲۲ -

(۱۱) تاج الجامع للاُصول :ج۵ ص ۳۴۳ و بحار انوار ج ۵۱ ص ۷۴ ح ۲۷ اور مسند احمد:ج۳ ص ۳۷ -

(۱۲) شرح مقاصد :ج ۳ ص ۳۷۵ المغنی :ج ۱ ص۱۱۶ صحیح مسلم :ج۶ ص۲۱ معجم الکبیر :ج۱۰ ص ۳۵ -

(۱۳) کلینی:اصول الکافی ج : ۱ ص : ۱۷۹ -

(۱۴) مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ -

(۱۵) ینابیع المودۃ:ج ۳ ص ۱۸۰

(۱۶) احتجاج :ج ۲ ص ۳۲۳ -

(۱۷) مجلہ مہدی موعود : شمارہ نمبر ۱،ص ۱۶ -

(۱۸) مجلہ مہدی موعود : شمارہ نمبر ۱،ص۱۴ -

(۱۹) مجلہ مہدی موعود : شمارہ نمبر ۱،ص۱۵ -

(۲۰) مجلہ مہدی موعود : شمارہ نمبر ۱،ص۱۵ -

(۲۱) الاحتجاج ج : ۲ ص : ۴۹۹


3

4

5