إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟ 0%

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

مؤلف: شیخ فداحسین حلیمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 11828
ڈاؤنلوڈ: 3278

تبصرے:

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 11828 / ڈاؤنلوڈ: 3278
سائز سائز سائز
إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

مؤلف:
اردو

۳ : علوم ومعارف اہل بیت کو رائج دینا

علوم ومعارف اہل بیت علیہ السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج کرنا اہل ببت اطہار کے امر کو احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے “ اور منتظرین کی ایک اہم زمداریوں میں سے بھی ہے ،جس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں :تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ

“ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہمارے احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے ،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کہ سبب بنتی ہیں ، لہذا گر تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پر عمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہے جاؤ گۓ ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا(۱) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام سے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے ہیں :“.......وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئک منّا ونحن منهم (۲) اور ایک گروہ وہ ہیں جو ہمیں دوست رکھتے ہے ،ہمارے کلام کی حفاظت کرتے ہیں ،ہمارے امر کی اطاعت کرتے ہیں اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتے ہیں ، وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں

اورعصر غیبت میں امام زمانہ کی بہترین خدمت جسکے امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہوچانا ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود فرماتا ہے ”( .وَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز ) (۳) “بے شک اﷲ اسے مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے ”اس آیہ مبارکہ کے ذیل میں مفسیرین فرماتے ہیں کہ نصرت خدا سے ماد دین خدا کی نصرت مراد ہے پیغر اعظم اور ائمہ معصومیں علیہم السلام کی نصرت مراد ہے اور ہر وہ نصرت مراد ہے جس میں خدا کی رضایت ہے لیکن حضرت صاحب العصر والزمان کا وجود مقدس کچھ علیحدہ خصوصیات کا مالک ہے اور و ہ خصوصیات انکی نصرت اور خدمت کی اہمیت وفضیلت کو بڑھانے کی موجب بنی ہے ،یہ اسلئے کہ آپکی کی نصرت اور یاری مظلومون غریبون وبے کسوں کی نصرت ہے آپکی نصرت ذی القربی اور ولی نعمت کی یارو مدد ہے آپکی نصرت تمام انبیاء اور اولیاء کے امیدوں کی تحقق کے راہ میں جان نثاری ہے آپکی نصرت عدل الھی کو جہان ہستی میں پھلانے اور پرچم اسلام کو زمین کے کونے کونے میں لہرانے کی راہ میں مشارکت ہے

اسیلئے صادق آل محمد فرماتے ہیں :”ولوأدرکته لخدمتُ ايّام حیاتی(۴) اے کاش اگر میری ان تک رسائی ہوتی تو میں زندگی بھر انکی خدمت میں رہتا !اور اگر کوئی شخص خدا واہل بیت اطہار کی معرفت کے بعد انکی خدمت و نصرت کی راہ میں مر جاۓ تو گویا وہ امام زمانہ کےرکاب مین شھید ہوا ہے چنانچہ اصول کافی میں جناب شیخ کلینی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے :جب عبد الحمید واسطی نامی صحابی آپ سے پوچھتا ہے ،“قُلْتُ لَهُ أَصْلَحَكَ اللَّهُ لَقَدْ تَرَكْنَا أَسْوَاقَنَا انْتِظَاراً لِهَذَا الْأَمْرِ حَتَّی لَيُوشِكُ الرَّجُلُ مِنَّا أَنْ يَسْأَلَ فِی يَدِه........... قُلْتُ فَإِنْ مِتُّ قَبْلَ أَنْ أُدْرِكَ الْقَائِمَ ع قَالَ إِنَّ الْقَائِلَ مِنْكُمْ إِذَا قَالَ إِنْ أَدْرَكْتُ قَائِمَ آلِ مُحَمَّدٍ نَصَرْتُهُ كَالْمُقَارِعِ مَعَهُ بِسَيْفِهِ وَ الشَّهَادَةُ مَعَهُ شَهَادَتَا (۵)ِ . اے فرزند رسول .....اگر ہم انکے ظہور سے پہلے مر جائیں تو ہمارا کیا حال ہو گا ؟ فرمایا تم میں سے جو شخص جسکا یہ عقیدہ ہو کہ جب امام قائم ظہور کریںگۓ تو میں انکی نصرت کروں گا ،اگر وہ اس عقیدے کے ساتھ انکے قیام سے پہلے مر جاۓ تو گویا اس نے مسلح ہو کر انکے حضور میں جھاد کیا ہے، اور انکے رکاب میں شھید ہوا ہے-

اور معصومین نے ہمیں انکے امر (دین اور علوم ال محمد )کیاحیا کرنے کا حکم دیا ہے اور فرماتے ہیں :“ َإِنَّ تِلْكَ الْمَجَالِسَ أُحِبُّهَا فَأَحْيُوا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ فَرَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَنَا (۶) ہمارے امر کی احیا کرو ، خدا رحمت کر ۓ اس شخص پر جو ہمارے امر کی احیا کرۓ-

پس ان روایات سوے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں منتظرین کی ایک اہم ذمداری علوم ومعارف اہل بیت کو فروغ دینا ہے کہ جو خود حقیقت میں دین خدا کی نصرت اور احیا ہے جس پر ہم سب مامور ہیں

۴: فقیہ اہل بیت کی اطاعت اور پیروی :

امام زمانہ کی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہے اور انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہ کیا ہو ،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے (بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا )(۷) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں آپ پر ہمارے آنکھون سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”

اسیلئے معصوم فرماتے ہیں :وان غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (۸) ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کے نظروں سے مخفی ہونگے لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گی یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود لوگوں کے حالات سے آگاہ ہونگے اور جو علوم علماء اور فقھاء کے نزدیک احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اسکے آثار بھی لوگوں کے سامنے ہیں -لوگ اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور ڈائرکٹ انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر تے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے “ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (۹) اور فقہامیں سے وہ فقہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب عوام پر واجب ہے یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں -وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم‏ (۱۰) اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں بغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی خدا اورسول کی پیروی ہے

فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه (۱۱) ”اور ہم نے انھین تمھارے اُپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو انسے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے جو درحقیقت میں خدا سے شرک کے حد میں ہے یعنی انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیت نے اپنے مانے والے شیعون کو ابلیس اور اسکے کارندوں کر شر سے بچا کر رکھنا اور انکے ععقیدتی و ایمانی مرزون وحدودن کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمداری بتائی ہے اور فرمایا ہے :علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی ابلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم ابلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلک من شیعتنا کان أفضل ممن جاهد الروم و الترک و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلک یدفع عن أبدانهم (۱۲) ”ہمارے شیعون کے علماء ان حدودن کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدودن سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء انے ہمارے کمزور شیعون شیطان کے غلبہ آنے اور انھوں بے ایمانی کی طرف سوق دیینے سے بچاتے ہیں ،آگاہ ہو جو جو شخص ہمارے شیعون میں سے اس ذمداری کو ادا کرے اسکی فضیلت اسلام کے تمام دشمنون سے جنگ کرنے والے مجاہدین سے ہزار ہزار بار ذیادہ ہے چونکہ علماء ہمارے مانے والے محبین کے دین اور عقیدے کی دفاع اور محافظت کرتے ہیں جبکہ مجاہد انکے بدن اور جسم کی دفاع کرتے ہیں” اورقیامت کے دن پروردگار عالم کی طرفسے ایک منادی ندا دے گا کہاں ہے ہیں ایتام آل محمد کے کفالت کرنے والوے جو انکے غیبت کے دوران انکے کفالت کرتے تھے (يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم (۱۳)

پس ائمہ اطہار کے کے ان نورانی کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں فقہا ء علماء اورخصوصاً ولی امر مسلمین کے انے نزدیک کیا حیثیت ہے اور انکے کہا نہ مانا انکے حق میں جفا اور امام کے نزدیک انکے مقام کا خیال نہ رکھنا انسان کو کہاں تک پہونچا دیتی ہے اورکس موقعیت میں قرار دے دیتا ہے اگر چہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑھتا ہےکہ ہمارے معاشرے میں ہم میں سے بعض خوستہ یا ناخواستہ دشمن کے غلط پڑوپکنڈوں کی زد میں آکر امام زمانہ کے مطیع نمائندوں کے خلاف ناحق زبان کھولنے و گستاخی کرنے کی جرئت کرتے ہیں جبکہ شیطان اور پیروان شیطان اپنے تمام تر طاقتوں کے ساتھ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان غلط پڑوپکنڈون اور افواھون کے ذریعے مجھ جیسے کمزور مؤمنین کو علماء سے فقہاء سے دور کیا جاۓ تاکہ انھیں دین اور ایمان کے دائرے سے نکالنا آسان ہو جاۓ ، اور ہم خود بھی جنتے ہیں کہ جو لوگ علماء اور ولایت فقیہ سے کٹ جاتے ہیں حقیقت میں وہ دین اور صراط مستقیم سے کٹ جانتے ہیں گمراہ ہے جاتے ہیں-نعوذ باﷲ من ذلک - خدا ہمیں بچا کے رکھے -

پس ان روایات سےمعلوم ہوتا ہے عصر غیبت میں منتظریں ایک اور اہم ذمداری علماء ،فقہاء کی اطاعت اورفرمان برداری اور خصوصیت کے ساتھ ولی امر مسلمین کے فرمان پر لببیک کہنا اور انکے نقش قدم پر چلنا ہے جو کہ حقیقت میں خط ولایت کے ساتھ متمسک رہنا اور صراط مستقیم پر چلنا ہے - خدایا ہمیں ہر دور میں اپنے حجت کو تشخیص دینے اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما - آمین !ثم آمین!

۵: برادان ایمانی کے ساتھ ہمدردی اور معاونت -

ائمہ معصومین کے ارشادات کے مطابق ہر دور کے امام کو اپنے مانے والے مؤمنین پر ایک مہربان اور فداکار باپ کا حیثیت حاصل ہے ، اور تمام مؤمین انکے فرزند کا مقام رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے دوران غیبت میں مؤمنین کو ایتام آل محمد سے پکارا گیا ہے ،(يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم (۱۴) اور کسی مؤمین بھائی کے ساتھ احسان وہمدردی ، اسکے ساتھ تعاون کرنے کو امام زمانہ کے ساتھ تعاون کرنے اور انکے حق میں ہمدردی سے پیش آنے اسی طرح کسی مؤمن بھائی کے حق کشی ، اسکے ساتھ بے دردی وبے اعتانی سے پیش آنے کو امام زمانہ پر ظلم وجفا اور انکے ساتھ بے اعتنائی سے پیش آنے کا برابر شمار کیا گیا ہے لھذا منتظرین کی ایک اور بہت ہی اہم ذمداری عصر غیبت میں ہر ممکنہ راستون سے برادان ایمانی کے معاشتی ،سماجی ،اجتماعی ا،اقتصادی ، معنوی اور دیگر مختلف قسم کے مشکلات اور گرفتاریون کو حل کرنے اور انکے ضروریات کو پورا کرنے کی جد جہد کرنا ہے -

چنانچہ اسی اجتماعی ذمداری کی اہمیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی خدا و رسول اور انکے حقیقی جانشین کے نزدیک قدر ومنزلت

کو بیان کرتے ہوۓ جناب شیخ صدوق نے سورہ عصر کے تفسیر میں امام صادق سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں :( والعصر انّ الانسان لفی خسر ) میں عصر سے مراد قائم کے ظھور کا زمانہ ہے اور( انّ الانسان لفی خسر ) سے مراد ہمارے دشمن ہیں اور( الاّ الذین آمنوا ) سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنہون نے ہماری آیات کے زریعے ایمان لائیں ہونگے - اور( وعملوا الصالحات ) یعنی برادران دینی کے ساتھ ہمدردی اورتعاون کرتے ہیں -( وتواصوا بالحق ) یعنی امامت اور( وتواصوا بالصبر ) یعنی زمانہ فترت یعنی وہی غیبت کا زمانہ ہے یعنی اس سورہ مبارکہ میں نجات یافتہ مؤمنین سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنھون نے دوران غیبت میں اپنے مالی ،معنوی اسطاعت کے زریعے پسماندہ ،بے کس اور ناتوان مؤمنین کےہم دم اور فریاد رس رہے ہو

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں امام صادق اور امام کاظم دونوں سے روایت ہے فرماتے ہیں : ُمَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَی زِيَارَتِنَا فَلْيَزُرْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَصِلَنَا فَلْيَصِلْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنا (۱۵) “جو شخص ہم اہل بیت سے تعاون کرنے یا صلہ کرنے سے معذور ہوں اسے چاہئے ہمارے چاہنے والوں کے ساتھ نیکی اور تعاون کرئے تو اسے ہمارے ساتھ تعاون کرنے اور نیکی کرنے کا ثواب عطا کرے گا،اسی طرح اگر ہماری زیارت سے محروم ہیں تو ہمارے دوستوں اور صالح بندوں کی زیارت کرۓ تو اسے ہماری زیارت کا ثواب دیا جاۓ گا اسی طرح اما م موسی کاظم علیہ السلا م سے روایت ہے فرماتے ہیں :مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِی حَاجَةٍ فَإِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَی سَاقَهَا إِلَيْهِ فَإِنْ قَبِلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَصَلَهُ بِوَلَايَتِنَا وَ هُوَ مَوْصُولٌ بِوَلَايَةِ اللَّهِ وَ إِنْ رَدَّهُ عَنْ حَاجَتِهِ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَی قَضَائِهَا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِ شُجَاعاً مِنْ نَارٍ يَنْهَشُهُ فِی قَبْرِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَغْفُوراً لَهُ أَوْ مُعَذَّباً فَإِنْ عَذَرَهُ الطَّالِبُ كَانَ أَسْوَأَ حَالا (۱۶) “کسی کے پاس اسکا مؤمن بھائی کوئی نہ کوئی حاجت لے کر آۓ تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ خدا کی طرف سے رحمت ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے پس اس حالت میں اگر اسکی حاجت پوری کر لی تو اسے ہماری ولایت کے ساتھ متصل کیا ہے اوروہ خدا کے ولایت تک پہنچ گیا (چونکہ ہماری ولایت خدا کے ولایت ساتھ متصل ہے )لیکن اسے رد کر لے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پوری کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگار عالم اسکے قبرمیں ایک آگ کے بنائے سانپ اس پر مسلط کرۓ گا جوقیامت تک اسے ڈھستا رہے گا چاہے اسے خدا معاف کرے یا نہ کرۓ اور قیامت کے دن صاحب حاجت اسکا عذر قبول نہ کرے تو اسکی حالت پہلے سے بھی بتر ہو جاۓ گئی-

اسی متعدد روایات میں کسی مومن بھائی کی حرمت کا خیال نہ رکھنا اسکے ساتھ نیک برتاؤ سے پیش نہ آنا اور اسکے ساتھ تعاون نہ کرنا ائمہ علیہم السلام کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ان مقدس ذوات کی بے حرمتی کرنے کے برابر ہے چنانچہ ابو ہارو نے چھٹے امام سے نقل کیا ہے آپ فرماتے ہیں :قَالَ قَالَ لِنَفَرٍ عِنْدَهُ وَ أَنَا حَاضِرٌ مَا لَكُمْ تَسْتَخِفُّونَ بِنَا قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ خُرَاسَانَ فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ نَسْتَخِفَّ بِكَ أَوْ بِشَيْ‏ءٍ مِنْ أَمْرِكَ فَقَالَ بَلَی إِنَّكَ أَحَدُ مَنِ اسْتَخَفَّ بِی فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ أَسْتَخِفَّ بِكَ فَقَالَ لَهُ وَيْحَكَ أَ وَ لَمْ تَسْمَعْ فُلَاناً وَ نَحْنُ بِقُرْبِ الْجُحْفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَكَ احْمِلْنِی قَدْرَ مِیلٍ فَقَدْ وَ اللَّهِ أَعْيَيْتُ وَ اللَّهِ مَا رَفَعْتَ بِهِ رَأْساً وَ لَقَدِ اسْتَخْفَفْتَ بِهِ وَ مَنِ اسْتَخَفَّ بِمُؤْمِنٍ فِینَا اسْتَخَفَّ وَ ضَيَّعَ حُرْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ (۱۷) ” ایک دفعہ امام صادق نے کچھ لوگ جوآپ کے پاس بیٹھے ہوۓ تھے او رمین بھی حاضر تھا ،ان سےکہا تمھیں کیا ہو گیا ہے ہماری حرمت کا خیال نہیں رکھتے ہو ،تو اہل خرسان کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہم آپکو سبک شمار کرے یا آپکے فرمان میں کسی چیز کا بے اعتنائی کرے ، امام نے فرمایا ہاں انھیں میں سے ایک تم بھی ہے جو ہمارے لاج نہیں رکھتے ،اس شخص نے دوبارر ہ کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپکی لاج نہ رکھوں ،فرمایا چپ ہو جاؤ کم بخت کیا تم نے اس شخص کی آواز نہیں سنی تھی اس وقت جب ہم جعفہ کے نزدیک تھے اور وہ تم سے کہ رہا تھا کہ مجھ صرف ایک میل تک اپنے سواری پر بٹھا کر لے چلو خدا کہ قسم میں بہت ہی تھکا ہوں ،خدا کی قسم تم نے سر اُٹھا کر بھی اسکی طرف نہیں اس طریقے سے تم نے اسکی بے اعتنای کی ہے جو شخص کسی مومن کی استخفاف کرے اسنے ہمارے بے اعتنائی کہ ہے ،اور خدا کی حرمت ضائع کر دی ہے

اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں جابر جعفی امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں :و نحن جماعة بعد ما قضینا نسکنا، فودعناه و قلنا له أوصنا یا ابن رسول الله. فقال لیعن قویکم ضعیفکم، و لیعطف غنیکم علی فقیرکم، و لینصح الرجل أخاه کنصیحته لنفسه.... ، و اذا کنتم کما أوصیناکم، لم تعدوا الی غیره، فمات منکم میت قبل أن یخرج قائمنا کان شهیدا، و من أدرک منکم قائمنا فقتل معه کان له أجر شهیدین، و من قتل بین یدیه عدوا لنا کان له أجر عشرین شهیدا (۱۸) . “کہ ہم نے مناسک حج اکٹھے بجھا لا نے کے بعد جب امام علیہ السلا م سے الگ ہونے کو تھے آپ سے عرض کیا اے فرزند رسول ہمارے لیے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا تم میں سے جو قوی ہیں قدرت ومقام رکھتا ہے اسکی ذمداری ہے کمزور لوگوں کی مدد کرے اور جو مالدار ہیں فقیرون اور بے کسون پر ترس کریں انکی نصرت کریں ،اور مومن بھائی کے ساتھ اس طرح خیر خواہی سے پیش آئیں جس طرح اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہ ہیں.....اور اگر تم نے ہماری نصیحت پر عمل کیا تو غیروں میں سے شمار نہیں ہونگے- اب اس حالت میں تم میں سے جو شخص قائم آل محمدکے قیام کرنے سےپہلے مرے جاۓ تووہ شہید کی موت مرا ہے ،اور جو اپنی زندگی میں انھیں درک کرلے اور انکے ساتھ جھاد کرۓ تو اسے دو شہید کا ثواب عطا کرے گا ،اور جو شخص انکے ساتھ ہوتے ہوے ہمارے کسی دشمن کو قتل کرلیں تو اسے بیست ۲۰ شہید کا اجر دیا جاۓگا-

پس ان روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ منتظرین کی اپنے مومن بھائی کی نسبت کیا ذمداری ہے اور اس اجتماعی ذمداری کی کیا اہمیت ہے کہ جس کا خیال رکھنا ہم سب کا شرعی اور اخلا قی فریضہ ہے -

۶: خود سازی اور دیگر سازی -

منتظرین کی اور ایک اور اہم ذمداری خودسازی و اپنے جسم وروح کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر سازی اور ہم نوع کی تربیت بھی ہے ،خود سازی اور دیگر سازی ایک اہم دینی وظیفہ ہونے کے ساتھ بزرگ ترین اور عالی ترین انسانی خدمات میں سے بھی شمار ہوتا ہے

اور اسلامی تعلیمات میں بھی حضرت ولی عصر اور انکے جان بہ کف آصحاب تاریخ انسانت کے پرہیز گار متقی اور صالح ترین افراد ہونگے

( وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون ) (۱۹) ترجمہ بعد میں لکھے

اسی طرح احادیث معصومین میں بھی امام عصر کے آصحاب وہ لوگ ہونگے جنھین خدا ورسول اور ائمہ معصومین کی صحیح معرفت ہوگئی ، اخلاق اسلامی سے متخلق نیک کردار کے مالک وعملی میدان میں ثابت قدم و پائیدار ؤدستورات دینی کے مکمل پابند اور فرامین معصومین کے سامنے سر تسلم خم ہونگے

چنانچہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نھج بلاغہ میں انے توصیف میں فرماتے ہیں :وَ ذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِیهِ إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وَ إِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ أُولَئِكَ مَصَابِیحُ الْهُدَی وَ أَعْلَامُ السُّرَی لَيْسُوا بِالْمَسَايِیحِ وَ لَا الْمَذَايِیعِ الْبُذُرِ أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ وَ يَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه (۲۰) “اخری زمانہ وہ زمانہ ایسا ہے گا جس میں صرف وہ مؤمن نجات پاسکے گا کہ جو گمنام اور بے شر ہو گا مجمع اسے نہ پہچانے اور غائب ہو جاۓ تو کوئی تلاش نہ کرۓ یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لیۓ نشان منزل ہوں گۓ نہ ادھر ادُھر لگاتے پھرین گۓ اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریںگئے ان کے لئے اﷲ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا

اسی طرح صادق آل محمد سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : “جو شخص چاہتا ہے کہ حضرت قائم کے اصحاب میں سے ہوں اسے چاہئے انتظار کےنے کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری اور نیک اخلاق کو پناۓ ،پھر اگر وہ اس حالت میں انکے قیام سے پہلے مر جاۓ اور بعد میں ہمارا قائم قیام کرۓ تو اسے ایسا اجر دیا جاۓگا جیسے اس نے حضرت کو درک کیا ہو.(۲۱)

اور خود معصومیں کے فرمان کے مطابق مبغض ترین فرد وہ شخص ہے جو مؤمن اور امام زمانہ کے منتظر ہونے دعوا کرے لیکن قول وفعل میں انے دیے ہوۓ دستورات اور دینی قوانین کے مخالفت سمت قدم اٹھاۓ

چنانچہ اسی نقطے کی طرف اشارۃکرتے ہوۓ امام ذین العابدین فرماتے ہیں :لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا لِعَرَبِيٍّ إِلَّا بِتَوَاضُعٍ وَ لَا كَرَمَ إِلَّا بِتَقْوَی وَ لَا عَمَلَ إِلَّا بِالنِّيَّةِ وَ لَا عِبَادَةَ إِلَّا بِالتَّفَقُّهِ أَلَا وَ إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّهِ مَنْ يَقْتَدِی بِسُنَّةِ إِمَامٍ وَ لَا يَقْتَدِی بِأَعْمَالِهِ (۲۲) ” کسی کو عربی اور قریشی ہونے کہ بنا پر دوسروں پر کسی قسم کی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے سواۓ تواضع کے اورکسی کو کوئی کرامت حاصل نہیں ہے الا یہ کہ تقوای اختیار کرۓ اور کوئی عمل نہیں ہے سواۓ نیت کے اور کوئی عبادت نہیں ہے سواۓ تفقہ کے (یعنی عبادت درست معرفت کے ساتھ ہے ) پس ہو شار رہو!پروردگار عالم کے نزدیک مبغوض ترین شخص وہ ہے جو ہماری ملت اور مذہب پر ہو لیکن عمل میں ہماری پیروی واقتدا ء نہ کرۓ

اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :إِنَّا لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤْمِناً حَتَّی يَكُونَ لِجَمِیعِ أَمْرِنَا مُتَّبِعاً مُرِیداً أَلَا وَ إِنَّ مِنِ اتِّبَاعِ أَمْرِنَا وَ إِرَادَتِهِ الْوَرَعَ فَتَزَيَّنُوا بِهِ يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ وَ كَبِّدُوا أَعْدَاءَنَا بِهِ يَنْعَشْكُمُ اللَّهُ (۲۳) ”ہم کسی کو مومن نہیں جانتے جب تک وہ ہماری مکمل پیروی نہ کرۓ اور یہ جان لو ہماری پیروی پرہیز کاری اور تقوی اختیار کرنے میں ہے ،پس اپنے آپکو ذھد و تقوی کے ذریعے زینت دو تاکہ خدا تمھیں غریق رحمت کرۓ ،اور اپنے تقوی کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو سختی وتنگی میں ڈال دو تاکہ خدا تمھیں عزت کی زندگی عطا کرے-

پس انروایات اور دوسرے متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نے ان مقدس ہستیوں کو اپنے مولا ومقتدا قبول کیا ہے تو وہ ذوات بھی ہم سےیہ توقع رکھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم عمل وکردار میں انکے نقش قدم پر چلیں اسی لیے معصمین فرماتے ہیں :کہ تم ہمارے لئے زینت کا باعث بن جاو ننگ وعار کے باعث مت بنو(۲۴)

۷: شبھات اور بدعتوں کا مقابلہ-

زمان غیبت میں منتظرین اور خﷲوﷲا علماءوبیدار طبقے کہ ایک اہم فرائض معاشرۓ میں خود غرض یا سادہلوح دوستوںکۓ ہاتھوں مختلف قسم کےبدعتون اور ان شبھات کا مقابلہ کرنا ہۓ جو امام زمانہ کی غیبت کی وجہ سے انے بارے میں وجود میں ائیں ہیں چنانچہ امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِی فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِیهِمْ وَ الْوَقِیعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِی الْفَسَادِ فِی الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِی الْآخِرَةِ (۲۵) ”میرے بعد اہل تریدد (یعنی ائمہ کے ولایت و امامت کے متعلق شک وتردید کا اظہار کرۓ )اور اہل بدعت (یعنی دین میں نیئ چیز ایجاد کرنے والے جسکا دین سے کوئی ربط نہ ہو)کو دیکھیں تو تم لوگ ان سے اپنی برائت و بیزاری کا اظہار کےیں ،اور اس طرح انکے خلاف پڑوپکنڈہ کریںکہ آیند ہ اسلام مین اس طرح کی فساد پھلانے کی جرئت نہ کرۓ اور لوگ خود بخود ان سے دور ہو جائیں اور انکی بدعتوں کو نہ اپنائیں اگر اسیا کیا تو پروردگار عالم اسکے مقابلے میں تمھیں حسنہ دیا جاۓ گا اور تمھاے درجات کو بلند کر ۓ گا

اسی طرح بعض شبھات دشمنون نے خود امام زمانہ کے بارے میں لوگوں کے انتظار پر عقیدے کو کمزور کرنے اور اس میں خلل پیدا کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے جیسا کہ آج کل نٹ پر ۱۰ ہزارسے زیادہ شبھات انکے متعلق دیا گیا ہے تو علماء کی ذمداری ہے کہ ان شبھات کا مقابلہ کریں اور بطوراحسن جواب دیے کر لوگوں کو امام زمانہ کے مقدس وجود کی طرف جذب ہونے کا زمینہ فراہم کرے لہذا اس اہم زمداری اور عصر غیبت میں رونا ہونے والے شبھات کی شرف اشارہ کرتے ہوۓ چھٹے امام فرماتے ہیں :.....

فایاکم و الشک و الارتیاب و انفوا عن أنفسکم الشکوک و قد حذرتکم فاحذروا أسأل الله توفیقکم و ارشادکم (۲۶) خبردار شک وریب سے پرہیز کرنا ،(یعنی انکے غیبت اور ظہور کے بارے میں) اپنے دلوں سے شکوک وشبھات باہر نکال دو میں نے تم لوگوں کو برحزر کردیا ہے لھذا تم لوگ اس قسم کے شک وتردید سے باز رہو (اسیلے اس میں شک صراط مستقیم میں شک ہے ) میں اﷲ تعالی سے تمھارے لئے توفیقات اور ہدایت کی دعا کروں گا-اسی طرح رسول اکرم فرماتے ہیں :.........یا جابر ان هذا الأمر أمر من أمر الله و سر من سر الله مطوی عن عباد الله فایاک و الشک فیه فان الشک فی أمر الله عز و جل کفر (۲۷) اے جابر انکی غیبت اورظہور میں شک کرنا خدا سے کفر اختیار کرنے کے برابر ہے ہیں -

اورہم سب جانتے ہیں کی آج کا دور ایسا دور ہے جس میں ایک طرف دشمن مختلف شبہات اور غلط پروپکنڈون کے ذریعے لوگوں کو عقیدہ انتظار اور اسکی حقیقت سے دوررکھنے اور انکے دلوں میں شک وتردید پیدا کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف جعلی اور فرصت طلب افراد امام زمانہ کے مقدس نام پر اومنین کے انکے نسبت صادقانہ عقیدے سے سؤء استفادہ کرنے اور مختلف قسم کے دکانین کھولنے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں لہذا علماو اور ذمدار افراد کی ذمداری ان دونون جبھوں پر دشمن کے مقابلہ کرنا ہے

۸: بے صبری سے پرہیزکرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر غیبت مشکلات اور مصائب کے ہجوم لانے کا زمانہ ہے اور مومنین سے مختلف قسم کے سختیوں وگرفتاریوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاۓ گا تاکہ اس طرح نیک وبد صادق و کاذب اور مومن ومنافق میں تمیز ہو جاۓ اور یہ ایک سنت الھی ہے اس امت یا اس زمان کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ گزشتہ امتوں سے لیا گیا ہے اور آئیند آنے والے نسلوں سے بھی تا قیامت تک مختلف ذریعوں سے امتحان لیا جاۓ گا چناچہ اسی سنت الھی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے :( ما کانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی‏ ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّی يَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّيِّبِ ..) ...(۲۸) ” اﷲ تعالی مومنین کو منافقین سے جس حالت میں نا مشخص ہے نہیں رکھا جاۓ گا ،یہاں تک (امتحان کےذریعے )خبیث اور طیب میں تمیز پیدا ہو جاۓ اسی طرح سورہ عنکبوت کے ایت نمبر ۲ میں فرماتا ہے :( أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذینَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْکاذِبینَ ) (۲۹) “کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دۓ جائیں گے کہ وہ یہ کہے دیں کہ ہم ایمان لے آۓ ہیں اور انکا امتحان نہیں ہو گا ٭ بشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اﷲ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں ”

اورناطق قرآن علی ابن ابی طالب اسی بارے میں فرماتے ہیں :..... ِأَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ وَ لَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ إِنَّ فِی ذلِكَ لَآیاتٍ وَ إِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِین (۳۰) لوگو اﷲ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن کبھی یہ ضمانت نہیں دیا ہے کہ تم سے امتحا ن بھی نہیں لیا جاۓ گا ، اور خدا سب سے بڑکر سچا ہے ،یوں فرماتا ہے “ بے شک ان حوادث اور وقعات میں علامتیں اور نشانیان ہیں اور ہم اچھے اور بُرے سب بندوں سے امتحان لیتے ہیں ”-

اور انھیں نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ۓ اما صادق فرماتے ہیں :مارے قائم کے ظھور سے پہلے مومنین کے لئے خدا کے جانب سے کچھ نشانیاں ہیں ،عرض ہوا با ابن رسول اﷲ وہ نشانیان کیا ہیں ؟ فرمایا وہ نشانیاں اس کلام الھی میں ذکر ہوٓی ہیں( وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرینَ ) (۳۱) “اور یقیناً ہم تم سے خوف، بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے امتحان لیا جاۓ گا اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ” بے شک تم سے امتحان لیا جاۓ گا یعنی حضرت قائم کے خروج سے پہلے مومنین سے سلاطین جور کے ترس ،منگائی ،گرانی کی وجہ سے بھوک گرسنگی ،تجارت میں ورشکستگی و نگہانی موت اورفصل وکاشت میں نقصان کے ذریعے امتحان لیا جاۓ گا ،پھر فرمایا اے محمد بن مسلم یہ ہے اس آیت کا تاویل جسکی تاویل( وَ ما يَعْلَمُ تَأْویلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب ) (۳۲) سواۓ خدا اور راسخین فی علم کے کوئی نہیں جانتا

اور امام زمانہ کے طول غیبت کے دوران مختلف قسم کےسختیوں ومصیبتوں پر صبر کرنے والوں کی توصیف میں پیغامبر اکرم فرماتے ہیںَّ:قَالَ ص طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ...(۳۳) خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں....-

اور متعدد روایات میں انکی غیبت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں وآذیتوں پر بے صبری کرنے سے منع کیا گیا ہے اور قضاء وقدر کے سامنے تسلم ہونے کا حکمدیا ہے جیسا کہ شیخ کلینی نے اپنی سند امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے حضرت نے فرمایا :

كَذَبَ الْوَقَّاتُونَ وَ هَلَكَ الْمُسْتَعْجِلُونَ وَ نَجَا الْمُسَلِّمُونَ (۳۴) ظہور کے وقت تعین کرنے والے ہلاک ہوں گے لیکن قضاوقدر الھی کے سامنے تسلیم ہونے والے نجات پائین گۓ -

۹: جوانوں کی مخصوص ذمداری :

اسلامی تعلیمات میں جوانی اور جوان طبقے کو خاص اہمیت اور مخصوص مقام حاصل ہے ،انکے ساتھ الفت ،عطوفت کے ساتھ پیش آنے اور ہمیشہ اچھی نگاہوں سے دیکھنے پر زور دیا گیا ہے ،جس طرح رسول اکرم کا فرمان ہے :اوصیکم بالشباب خیراً فانّهم ارقُّ افئدةً انّ اللّه بعثنی بالحق بشیراً ونذیراً فحالفنی الشباب وخالفنی الشیوخ .تمھیں وصیت کرتا ہوں ان جوانوں کے بارے میں جو پاک دل ہوتے ہیں ،جب اﷲ تعالی نے مجھے بشیرو نذیر بنا کر بیجھا تو یہ جوان تھے جنھوں نے میرے ساتھ دیا جبکہ عمر رسیدہ افراد نے میری مخالفت کی

پس کلام رسول پاک سےہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جوانو کو بری نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انے بارے می نیک سوچ رکھنا چاہیے اور تاریخ ایلام اس بات پر زندہ گواہ ہے کہ جب نبی اکرم نے ذوالعشیرہمیں قریش کو توحید اور دین کی طرف پہلی بار دعوت دیا تو جس شخص نے سب سے پہلے آنحضرت کے دعوت پر لبیک کہا وہ علی ابن اب طالب ۱۰ ساہ نوجوان تھے جبکہ بزرگان قریش اخری دم تک آش کے مخالفت کرتے رہیں

جوانی کی قدر وقیمت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام زمانہ ظہور کریںگے تو اپ جوان ہونگے جیسا کہ امیر مومنین علہ السلام فرماتے ہے-مہدی قریش کے خناندان کا ایکدلیر شجاع اور تیز ہوش جان ہونگے تیس یا چالیس سے کم عمر میں ظہور کریںگے - اسی طرح امام زمانہ کا خاص سفیر نفس زکیہ جنھیں رکن مقام کے درمیان شہید کیا جاۓ گا ایک جوان ہو گا اما صادق اس بارے میں فرماتے ہیں :امام زمانہ کے ظہورکے وقت انکی طرفسے ایک جوان شخص سفیرکے عنوان سے منتخب ہونگے تاکہ امام کے پیغام کو اہل مکہ تک پہنچا ۓ اور انھیں آنحضرت کی حکومت کے پرچم تلے آنے کی دعوت دے لیکن مکہ کے حکمران اسے رکن مقام کے درمیان شھید کریںگے(۳۵) اسی طرح مختلف روایا میں ایا ہے کہ امام عصر کے ۳۱۳ اصحاب میں سے بہت ہی کم افراد کے سب جوان ہونگے -چناچہ امیر مومنین فرماتے ہیں اس بارے مین :أصحاب المهدی شباب لا کهول فیهم الا مثل کحل العین و الملح فی الزاد و أقل الزاد الملح (۳۶) امام مہدی کے اصحاب سارے جوان ہونگے ان میں کوئی بھوڑے نہیں ہو گے سواۓ آنکھ میں سرمہ اور زاد سفر میں نمک کے برابر اور کتنا ہی کم ہو گا زادراہ میں نمک کی مقدار

اور روایات سے معلوم ہوا ہے کہ اما مزمانہ کے غیبی ندا پر سب سے پہلے لبک کہنےوالے اکثر جوان ہی ہونگے چھتے اما م فرماتے ہیں : امام کے ظہور کرنے کے بعد جب انکیآسمانی ندا انے کانوں تک پہنچ جاے گی تو اس حالت میں لبیک کہین گے کہ اپنے اپنے چھتوں پر آرام کررہے ہونگے اور بغیر کسی آمادگی کے حرکت کریںگے اور صبح ہوتے ہیں اپنے امام کی زیارتس شرف یاب ہونگے -(۳۷)

۱۰: وا قعی منتظرین کا مقام ومنزلت اہل بیت کی نگاہ میں -

عصر غیبت میں منتظرین کی اہم ذمداریاں جسے ہم نے قرآنی آیات اور معصومین کے نورانی کلمات کے روشنی میں مختصر انداد میں اپنے محترم قارین کے لیے بیان کیا ہے ،اب اگر کسی شخص نے ان ذمداریوں کو حسب استطاعت بطور احسن انجام دیا تو انشاء اﷲ حقیقی منتظرین میں سے شمار ہو گا اور انھیں کے توصیف میں انکے مقام و منزلت بیان کرتے ہوے پیغمبر اکرم فرماتے ہیں :فی وصیة النبی ص یذکر فیها أن رسول الله ص قال له یا علی و اعلم أن أعجب الناس ایمانا و أعظمهم یقینا قوم یکونون فی آخر الزمان لم یلحقوا النبی و حجبتهم الحجة فآمنوا بسواد علی بیاض (۳۸) یا علی جان لو! ایمان کے لحاظ سے حیرت انگیز ترین لوگ اور یقین کے اعتبار سے عظیم ترین لوگ آخر ی زمان کے وہ لوگ ہونگے جنھوں نےنہ اپنے پیغامبر کو دیکھا ہے اور نہ ہی حجت خدا تک انکی دست رسی ہے لیکن انھوں نے سفید کاغذ پر سیاہی کو دیکھ کر ایمان لاۓ ہیں

کسی اور مقام پر آپ اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں :

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص ذَاتَ يَوْمٍ وَ عِنْدَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اللَّهُمَّ لَقِّنِی إِخْوَانِی مَرَّتَيْنِ فَقَالَ مَنْ حَوْلَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ أَ مَا نَحْنُ إِخْوَانَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ لَا إِنَّكُمْ أَصْحَابِی وَ إِخْوَانِی قَوْمٌ فِی آخِرِ الزَّمَانِ آمَنُوا وَ لَمْ يَرَوْنِی لَقَدْ عَرَّفَنِیهِمُ اللَّهُ بِأَسْمَائِهِمْ وَ أَسْمَاءِ آبَائِهِمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُخْرِجَهُمْ مِنْ أَصْلَابِ آبَائِهِمْ وَ أَرْحَامِ أُمَّهَاتِهِمْ لَأَحَدُهُمْ أَشَدُّ بَقِيَّةً عَلَی دِینِهِ مِنْ خَرْطِ الْقَتَادِ فِی اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ أَوْ كَالْقَابِضِ عَلَی جَمْرِ الْغَضَا أُولَئِكَ مَصَابِیحُ الدُّجَی يُنْجِیهِمُ اللَّهُ مِنْ كُلِّ فِتْنَةٍ غَبْرَاءَ مُظْلِمَةٍ (۴۰) خدا میرے بھایوں کی زیارت مجھے نصیب کرۓ جب آنحضرت نے دو مرتبہ یہی فرمایا تو جو اصحاب آپکے ساتھ تھے عرض کیا یا رسول اﷲ کیا ہے آپکے بھائی نہیں ہے ؟ فرمایا نہیں تم لوگ میرے اصحاب ہیں اور میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو آخری زمانہ میں ایمان لے آئیں گے جبکہ انھون نے مجھے نہیں دیکھا اﷲ تعالی نے مجھے انکے اور انکے آباو اجداد کے ناموں سے اشنا کرایا ہے قبل از اس کے آباء کے صلب سے اور ماؤں کے رحم سے باہرنکل آۓ ان میں سے ہر ایک کے لیۓ اپنے دین کو بچا نا شب تاریک میں کانٹے پر ہاتھ رکھنے یا جلتی ہوئی اگ کو ہاتھ میں اٹھانے سے بھی زیادہ سخت ہو گا ،وہی لوگ تاریکی میں روشن چراغ ہے پروردگار عالم انھیں ہر قسم کے ظلمانی فتنوں سے نجات دے گا اور حقیقی منتظرین کا مقام بیاں کرتۓ ہوے سیّد الساجدین فرماتے ہیںیا أبا خالد ان أهل زمان غیبته القائلین بامامته و المنتظرین لظهوره أفضل من أهل کل زمان لأن الله تبارک و تعالی أعطاهم من العقول و الأفهام و المعرفة ما صارت به الغیبة عندهم بمنزلة المشاهدة و جعلهم فی ذلک الزمان بمنزلة المجاهدین بین یدی رسول الله ص بالسیف أولئک المخلصون حقا و شیعتنا صدقا و الدعاة الی دین الله عز و جل سرا و جهرا (۴۰) ”اۓ ابو خالد کاہلی عصر غیبت میں امام زمانہ کی امامت کا اقرار کرنے والوں اور انکے ظہور کے انتظار کرنے والوں کا مقام ومنزلت تمام اہل زمان سے بالاتر و افضل تر ہے کیونکہ اﷲ تعالی نے انھیں اتنی معرفت عقل اور فہم عطا کیا ہے کہ جسکے نتیجے میں غیبت انکے لیۓ پھر غیبت نہیں رہی ہے بلکہ عیان ہو گئی ہے ،اور انھیں اس زمانہ میں پیغمبر خدا کے ساتھ تلوار اٹھا کر جھاد کرنے والے مجاھدین کےجیسے قرار دیا ہے ،وہی لوگ ہیں جو ہمارے مخلص اور سچھے شیعہ اور دین خدا کی طرف سریا اشکار

خدا یا ہم سب کو ہمارے امام زمانہ کے حقیقی منتظرین میں سے قرار دیں آمین !ثم آمین

____________________

(۱) وسائل الشیعة ج : ۱۶ ص : ۳۴۶بحارالأنوار ج : ۷۱ ص : ۳۵۸

(۲) تحف العقول :ص ۵۱۳ :اور بحار انوار :ج۷۵ ،ص ۳۸۲ -

(۳) سورہ حج ۴۰ -

(۴) نعمانی :غیبت نعمانی ،ص ۲۴۵ -

(۵) کلیینی روضة کافی ،ص ۸۰ ،ح ۳۷ -

(۶) مجلسی :بحار انوار ،ج ۴۴ ،ص ۲۸۲ -اور قرب الاسناد ص : ۱۸

(۷) دعای ندبہ کا ایک فقرہ -

(۸) صافی گلپائی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ -

(۹) مجلسی :بحار الانوار،ج۲ ،ص ۸۸ - وسائل الشیعة ج : ۲۷ ص : ۱۳

(۱۰) """" """"ج ۵۳ ،ص ۱۸۱ - الغیبةللطوسی ص : ۲۹۱

(۱۱) کلینی :اصول الکافی ج : ۱ ص :۶۷ -تهذیب‏الأحکام ج : ۶ ص : ۲۱۸

(۱۲)الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ، الاحتجاج ج : ۲ ص۳۸۵ : عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸

(۱۳)۷۳ الصراطالمستقیم ج : ۳ ص۵۵ -

(۱۴) صدوق : اکمال الدین:ج۲ ،ص ۶۵۶ -

(۱۵) طوسی ،تہذیب ج ۶ ،ص۱۰۴ -اور کامل زیارات :ص ۳۱۹ -

(۱۶) کلینی: اصول الکافی ج : ۲ ص :۶ ۱۹

(۱۷) کلینی :روضۃ الکافی،ج۸، ص ۱۰۲ -

(۱۸) امالی طوسی ،ص ۲۳۲ -اور بحار انوار ،۵۲ ،ص ۱۲۲ ،ح ۵ -

(۱۹) انبیاء :۱۰۵ -

(۲۰) نہج البلاغہ ،خ ۱۰۳ ،ص ۲۰۰ ،ترجمہ سید ذیشان حیدر جوادی -

(۲۱) غیبۃ نعمانی :ص ۱۰۶

(۲۲) کلینی :روضۃ الکافی ،ص ۲۳۴ ،ح۳۱۲ -

(۲۳) کلینی :اصول کاقی ،ج۲ ،ص ۷۸ ،ح۱۳ -

(۲۴) کلینی: کافی ،ج ۲ ، ص ۷۷ ،ح۹ -

(۲۵) کلینی : اصول کافی،ج۲ ،ص ۳۷۵ ،ح ۴ -

(۲۶) الغیبةللنعمانی ص ۱۵۰ ،ح ۸ -

(۲۷) صدوق اکمال الدین : ج ۱ ، ص ۲۸۷ -

(۲۸) سورہ آل عمران :۱۷۹ -

(۲۹) سورہ عنکبوت :۲ -۳ -

(۳۰) نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۳ اردو ترجمہ سید ذیشان حیدر -

(۳۱) بقرہ :۱۵۵ -

(۳۲) آل عمران :۷ -

(۳۳) مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ -

(۳۴) الکافی ج : ۱ ص : ۳۶۸

(۳۵) طوسی الغیبہ ،ص ۴۶۴ -

(۳۶) طوسی الغیبہ ،ص ۴۷۶ اور بحار انوار ج ۵۲ ، ص ۳۳۳ -

(۳۷) نعمانی الغیبہ :ص ۳۱۶ ،باب ۲۰ ح ۱۱-

(۳۸) صدوق :اکمال الدین ،ج ۱ ، ص ۲۸۸ -

(۳۹) مجلسی :بحارالأنوار ،ج ۵۲ ص ۱۲۳ باب ۲۲- بصائر الدرجات :ﷲ ۸۶ -

(۴۰) علام الوری ص : ۴۰۷ اور کمال الدین ج ۱ ص ۳۲۰ -