گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری 40%

گریہ اور عزاداری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

گریہ اور عزاداری
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8111 / ڈاؤنلوڈ: 3743
سائز سائز سائز
گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

گریہ اور عزاداری

مصنف: ناظم حسین اکبر

بسم الله الرّحمن الرّحیم..

انتساب

عزاداری نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، سیّد الشہداء ،مظلوم کربلا ، امام حسین علیہ السّلام کی ترویج کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے والے اور دیگر تمام ماتمی عزاداروں کے نام جنہوں نے اپنی ساری زندگی عزاداری کے دفاع اور عزاداروں کی خدمت پر صرف کردی

سخن مؤلف

الحمد لله ربّ العالمین والشّکر لله ربّ الشّهداء والصّدیقین الّذی جعل فی ذریّة الحسین علیه السّلام الآ ئمّة النجباء وفی تربته الشفاء وتحت قبته استجابة الدّعا وصلیّ اللّه علی محمّد وآله الطاهرین ۔

نواسہ رسول ،جگر گوشہ علی وبتول ، نو جوانان جنّت کے سردار امام حسین علیہ السّلام کے غم میں مجالس عزا کا قیام دین مبین اسلام کی بقا ء کی خاطر اس انقلاب کا تسلسل ہے جسے امام حسین علیہ السّلام نے کربلا کے میدان میں باطل کے خلاف برپا کیا ۔

امام حسین علیہ السّلام کے قیام کا مقصد دین خدا کو تحریف اور باطل افکار سے بچانا تھا جس کی واضح مثال تاریخ اسلام میں خلفاء کا عمل ہے کہ واقعہ کربلا سے پہلے ہر خلیفہ کا عمل شریعت نظر آتا ہے لیکن کربلا کے انقلاب نے وہ اثر چھوڑا کہ اس کے بعد شریعت اور خلفاء کے عمل کو جدا کردیا اس کے بعد کسی کو یہ جرأت نہ ہوئی کہ کسی خلیفہ وقت کے عمل کو شریعت میں داخل کرے۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد امام حسین علیہ السّلام دین کی پہچان بن گئے جیسا خواجہ اجمیری لکھتے ہیں:

شاہ ا ست حسین بادشاہ است حسین ****** دین است حسین دیں پناہ است حسین

سر داد نداد دست در دست یزید ******** حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین

خواجہ اجمیری نے امام حسین علیہ السّلام کو بانی اسلام کہہ کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کی تائید کردی کہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں گویا ا س نے حسین کورسول پاکصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہ سے دیکھا ہے رسول خدا وصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مستقبل بیں نگاہوں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ ایک ایسا دور آئے گا کہ کلمہ گوؤں کی تلوار سے اسلام قتل کردیا جائے گا لہذا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ چاہا کہ جب اسلام کا خون بہا دیا جائے تو خون حسین اس کی رگوں میں دوڑا دیاجائے اسی لئے اُمّت اسلامیہ کو آگاہ کردیاکہ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تعارف کرواکر بتا دیا کہ اے مسلمانو! اس کا خون نہ بہانااس لئے کہ اس کی رگوں میں میرا خون ہے یہ آواز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آج بھی گونج رہی ہے لیکن خود پرستوں نے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات بھی سنی ان سنی کردی اور اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فرزند اور ان کے یارو انصارکو تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کردیا ،ان کی لاشوں کو پامال کیا اورسول زادیوں کو قیدی بنا کردرباروں اور بازاروں میں پھرایا گیا،یہی وہ غم تھا جس پر تمام انبیا ء علیہم السّلام نے گریہ وعزاداری کی اور پھر آئمہ معصومین علیہم السّلام نے خود مجالس عزابرپا کر کے ان کی اہمیت کو اجاگر کیا اس لئے کہ مظلوم کربلا ، امام حسین علیہ السّلام کی عزاداری کو زندہ رکھنا در حقیقت اسلام کو زندہ رکھنا ہے ۔

عزیزو اقارب کی موت پر گریہ کرنے کے جواز پر تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق پایا جاتا ہے(الفقہ علی المذاہب الأربعہ١:٥٠٢. )اور امام حسین علیہ السّلام پر گریہ و عزاداری اور ان کے غم میں ماتم ،عام غم و ماتم سے مکمل طور پر فرق رکھتا ہے اس لئے کہ یہ فرزند مصطفٰیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ماتم ہے ، نواسہ خاتم الانبیا ء کا ماتم ہے ، جگر گوشہ زہراء و مرتضٰی کا ماتم ہے ،اس غریب کا ماتم ہے جس کا سر تن سے جدا کر دیا گیا ، اس مظلوم کا ماتم ہے جس کا کٹا ہوا سر اس کی بیٹیوں اور بہنوں کی آنکھوں کے سامنے شہر بہ شہر پھرایا گیا، اس مظلوم کا ماتم ہے جس کے بدن پر لبا س بھی باقی نہ رہنے دیا گیا ، ا س بے کس کا ماتم ہے جس کے چھ ماہ کے شیرخوار پر بھی ترس نہ کھایا گیا ، اس شہید کا ماتم ہے جس کی بہنوں اور بیٹیوں کو ننگے سر درباروں اور بازاروں میں پھرایا جاتا رہا ، اس امام معصوم کا ماتم ہے جس کا بدن تین دن تک بے گور و کفن کربلا کی جلتی ہوئی زمین پر پڑا رہا ، اس بے نوا کا ماتم ہے جس کی مظلومیت پر خود دشمن نے بھی گریہ کیا ، اس مظلوم کا ماتم ہے جس کی بے کسی پر انبیاء و ملائکہ اور جنّ و انس نے ماتم کیا ، اس بے وطن کا ماتم ہے جس پر آسمان نے خون برسای

لہٰذ ا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کلمہ پڑھنے والے ہرعاشق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر واجب ہے کہ وہ نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مظلومیت کا غم منائے اور دوسروں کو بھی اس میں شرکت کرنے کی دعوت دے تاکہ اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کا اظہار کر سکے ۔کتاب حاضر میں ہم قرآن وسنّت اور سیرت صحابہ کرام سے امام حسین علیہ السّلام پر گریہ وعزاداری کے جواز کو اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فضیلت اوراجرو ثواب کے متعلق چند احادیث نقل کریں گے تاکہ ہماری بخشش کا سبب بن سکے۔

والسّلام علی من اتّبع الهدٰی

اللّهمّ اجعلنا من الباکین علی الحسین الشهید المظلوم علیه السّلام

ناظم حسین اکبر ( ریسرچ اسکالر )

ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور پاکستان

٤دسمبر ٢٠٠٩ء بمطابق ١٦ذی الحجہ ١٤٣٠ہجری

١۔حکم قرآن

قرآن مجید نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیں چاہے وہ جس جگہ ،جس زمانہ اور جس مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ ظلم کی سرکوبی اور ظالم کے خلاف قیام اسلام کا اوّلین فریضہ ہے اس لئے کہ ظلم کیخلاف آواز بلند نہ کرنا ظالم کی حوصلہ افزائی ہے اوراس سے دنیا میں ظلم کو فروغ حاصل ہو گا۔یہی وجہ ہے کہ دین مبین اسلام میں کسی کی برائی بیان کرنا اور اس کی غیبت کرنا بدترین جرم ہے جسے قرآن مجید کی زبان میں مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قراردیا گیا ہے لیکن اس مسئلہ میں بہت سے مواقع کو مستثنٰی قرار دیا گیا ،جن میں سے ایک مظلوم کی ظالم کیخلاف فریاد بلند کرنا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم وستم کی وجہ سے ظالم کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرسکتاہے چاہے وہ ظلم انفرادی ہو یا اجتماعی ۔

قرآن مجید نے اسی بات کو سورہ مبارکہ نساء میں یوں بیان فرمایا:

( لا یحبّ الله الجهر بالسّوء من القول الاّ من ظلم ) ( ۱ )

ترجمہ: اللہ مظلوم کے علاوہ کسی کی طرف سے بھی علی الاعلان برا کہنے کو پسند نہیں کرتا ...۔

اس آیت مجیدہ سے یہ پتہ چلتاہے کہ مظلوم کویہ حق حاصل ہے کہ وہ ظالم پر علی الاعلان تنقید بھی کرسکتا ہے اور اسکے خلا ف احتجاج بھی ۔اور اسی احتجاج کا ایک مصداق ماتم امام حسین علیہ السّلام ہے جس میں عاشقان رسول گرامی اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نواسے پر ہونے والے ظلم وستم کے خلاف احتجاج اور ظالم یزیدیوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں تا کہ یوں روز قیامت اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شفاعت حاصل کرسکیں۔اس لئے کہ ماتم اور عزاداری در حقیقت محمد وآل محمد علیہم السلام سے اظہار محبّت کا مصداق ہے ۔ جس کا حکم خود خداوند متعال نے دیا اور فرمایا:

( قل لا أسئلکم علیه أجرا الاّ المودّة فی القربٰی ومن یقترن حسنة نزد له حسنة فیها حسنا انّ الله غفور شکور ) ( ۲ )

ترجمہ : تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباسے محبت کرو اور جو شخص بھی کوئی نیکی حاصل کرے گا تو ہم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے کہ بے شک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اورقدرداں ہے ۔

علاّمہ ذیشان حید ر جوادی اعلی اللہ مقامہ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :اس نیکی سے جو بھی مراد ہو اس کا محبت اہلبیت کے مطالبہ کے بعد ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ محبت اہلبیت کے بعد جو نیکی بھی کی جاتی ہے خدائے کریم اس میں اضافہ کر دیتا ہے اور محبت کے بغیر جو نیکی انجام دی جاتی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔

اسی محبّت اہلبیت کا اظہار کرنے کی خاطر شیعہ و سنی مسلمان سڑکوں اور گلیوں میں نکل کر آل محمد علیہم السّلام سے حمایت اور یزید اور اس کے پیروکاروں سے برائت کااعلان کرتے ہیں اور ایسے جلسے و جلوس نہ توقرآن کے مخالف ہیں جیسا کہ بیان کیا گیا اور نہ ہی عقل و عرف عام کے ۔جس کی دلیل ہر دور میں حکومتوں اور ظالموں کیخلاف ہونے والے جلسے جلوس اور بھوک ہڑتالیں ہیں اور کبھی کبھار سیاہ پٹیاں بھی باندھ لی جاتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہی لوگ جو اپنے کو مظلوم اور حکمرانوں کو ظالم ثابت کرنے کے لئے احتجاج بھی کرتے ہیں سیاہ پٹیاں بھی باندھتے ہیں اور بھوک ہڑتال کر کے اپنے بدن کو اذیت بھی پہنچاتے ہیں اس وقت نہ تو بدن کو اذیت پہنچانا ان کے نزدیک بدعت اور حرام قرار پاتا ہے اور نہ سیاہ پٹیاں باندھنا گناہ نظر آتا ہے مگر جیسے ہی نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، جوانان جنّت کے سردار امام حسین علیہ السّلام کی مظلومیت اور یزید کے ظلم و ستم کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے تو وہی لو گ اس احتجاج ااور اس ماتم و عزاداری کو بدن کو ا ذیت پہنچانے کا بہانا بنا کر اس پر بدعت کا فتوٰی لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ نہ تو قرآن نے ماتم و احتجاج کی نفی کی ہے اور نہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے جیساکہ بیان کیا گیا کہ قرآن تو مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف فریاد بلند کرنے کو جائز قرار دے رہا ہے او ر سیرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اس کی تائید کررہا ہے جسے آگے چل کر ذکر کیا جائے گا ۔

بقائے دین وشریعت غم حسین سے ہے ***** کھڑی یہ دیں کی عمارت غم حسین سے ہے

عزا سے واسطہ ہی کیا ہے شرک و بدعت کا ***** یہ دین اپنا سلامت غم حسین سے ہے

عزائے سید الشہدائ بھی اک عبادت ہے ***** عبادتوں کی حفاظت غم حسین سے ہے

جہاں میں غم تو سبھی کے منائے جاتے ہیں ***** نہ جانے کون سی آفت غم حسین سے ہے

نماز و روزہ وحج و زکات وخمس وجہاد ***** عبادتوں کی حفاظت غم حسین سے ہے

حسینیت سے ہی زندہ ہے حق اب تک ***** یزیدیت پہ قیامت غم حسین سے ہے

پہونچ نہ پائے گا جنّت میں وہ کبھی اختر***** کہ جس کسی کو عداوت غم حسین سے ہے( ۳ )

٢۔ سنّت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

تاریخ اور روایات یہ بتلاتی ہیں کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ا ورتابعین مرنے والوں اورشہداء و... پر گریہ کیا کرتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف عزاداری کا موقع دیتے بلکہ انہیں اس عمل پر تشویق بھی کیا کرتے جیسا کہ حضرت عائشہ نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات پر اپنے منہ اور سینہ پر پیٹا( ۴ ) ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم ، اپنے دادا حضرت عبد المطلب ، اپنے چچا حضرت ابوطالب اور حضرت حمزہ ، اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب ، حضرت علی کی مادر گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد ، عثمان بن مظعون و... کی موت پر گریہ کیا، جس کے چند نمونے یہاں پر ذکرکررہے ہیں:

١) حضرت عبد المطلب پر گریہ :

جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جدّ بزرگوار حضرت عبد المطلب کی وفات ہوئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے فراق میں گریہ کیا ۔حضرت امّ ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

أنا رأیت رسول الله یمشی تحت سریره وهویبکی ( ۵ )

میں نے رسول اللہ (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کو دیکھا وہ ان کے جنازے کے ہمراہ روتے ہوئے چل رہے تھے ۔

٢) حضرت ابو طالب پر گریہ :

حامی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، مومن آل قریش ،سردار عرب حضرت ابوطالب کی وفات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سخت ناگوار گذری اس لئے کہ یہ وہ شخصیت تھے جنہوں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے علاوہ بھی ہر مقام پر ان کی مدد و نصرت کی جس سے دین اسلام کا بول بالا ہو ااور مشرکین مکّہ کو ان کی زندگی میں یہ جرأت نہ ہوسکی کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نقصان پہنچا سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ جب ایسے شفیق چچا کی وفات کی خبر ملی تو حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا:

اذهب فاغسله و کفّنه وواره غفرالله له ورحمه ( ۶ )

جاؤ انہیں غسل و کفن دو اور ان کے دفن کا اہتمام کرو ،خداان کی مغفرت کرے اور ان پر رحمت نازل فرمائے ۔

٣) حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا پر گریہ :

مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ رسالت مآبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کی قبر کی زیارت کیلئے ابواء کے مقام پر پہنچے جیسے ہی ماں کی قبر کے پاس گئے اس قدر روئے کہ ساتھیوں نے بھی گریہ کرنا شروع کردیا( ۷ ) ۔

٤) اپنے فرزند ابراہیم پر گریہ :

خدا وند متعال نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک بیٹا عطا کیا تھا جس کا نام ابراہیم رکھا ۔آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سے شدید محبت کرتے لیکن ایک سال کی عمر میں اس کی وفات ہوگئی جس سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو انتہائی صدمہ پہنچا اور اس کے فراق میں گریہ کرنا شروع کیا تو صحابہ کرام نے اس کی وجہ پوچھی تو جواب میں فرمایا:تدمع العینان ویحزن القلب ولا نقول مایسخط الربّ ( ۸ )

آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم ایسی بات نہیں کہتے جو خد ا وند متعال کی ناراضگی کا باعث بنے ۔

٥) حضرت فاطمہ بنت اسد پر گریہ :

حضرت فاطمہ بنت اسد ،حضرت علی علیہ السّلام کی ماں اور حضرت ابوطالب کی زوجہ محترمہ ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاں بہت مقام رکھتی تھیں یہاں تک کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہیں اپنی ماں سمجھتے تھے جب تیسری ہجری میں ان کی وفات ہوئی توآپ سخت اندوہناک ہوئے اور گریہ کیا ۔مؤرخین لکھتے ہیں :

صلّی علیها وتمرغ فی قبرها وبکٰی ( ۹ )

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان پر نماز پڑھی، ان کی قبر میں لیٹے اور ان پر گریہ کیا.

٦)حضرت حمزہ پر گریہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حضرت حمزہ جنگ احد میں شہید ہوئے جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کوبہت صدمہ ہو ا اور ان پر گریہ کیا ۔سیرہ حلبیہ میں لکھا ہے :

لمّا رأی النبّی حمزة قتیلا بکٰی ، فلمّا رأی مامثّل به شهق ( ۱۰ )

جب پیغمبر (صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کو حضرت حمزہ شہید دیکھا تو ان پر گریہ کیا اور جب ان کے بدن کے اعضاء کو کٹا ہوا دیکھا تو دھاڑیں مار کر روئے ۔

امام احمدبن حنبل نقل کرتے ہیں:

جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے شوہروں پر گریہ کرنے والی انصار کی عورتوں سے فرمایا:

ولکن حمزة لا بواکی له

لیکن حمزہ پر گریہ کرنے والا کوئی نہیں ۔

روای کہتاہے : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تھوڑی دیر آرام کے بعد دیکھا توعورتیں حضرت حمزہ پر گریہ کررہی تھیں۔

ابن عبدالبر کہتے ہیں : یہ رسم اب تک موجود ہے اور لوگ کسی مرنے والے پر گریہ نہیں کرتے مگر یہ کہ پہلے حضرت حمزہ پر آنسو بہاتے ہیں( ۱۱ ) ۔

٧) اپنے نواسے پر گریہ :

اسامہ بن زید کہتے ہیں : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے نواسے کی موت کی خبر سننے کے بعد بعض صحابہ کرام کے ہمراہ اپنی(منہ بولی ) بیٹی کے گھرپہنچے ۔ میت کو ہاتھو ں پر اٹھایا جبکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کچھ کہہ کررہے تھے( ۱۲ ) ۔

٨)حضرت عثمان بن مظعون پر گریہ :

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعض صحابہ کرام کا اس دنیا سے جانا بھی آپ پر سخت ناگوار گذرا اور آپ سے صبر نہ ہوسکا ،انہیں اصحاب باوفا میں سے ایک عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہیںان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے :

انّ النبّی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبّل عثمان بن مظعون وهو میّت وهویبکی ( ۱۳ )

حاکم نیشاپوری اس بارے میں یوں نقل کرتے ہیں ؛

ایک دن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تشییع جنازہ کیلئے باہر تشریف لائے جبکہ عمر بن خطاب بھی ہمراہ تھے ۔ عورتوں نے گریہ کرنا شروع کیا تو عمر نے انہیں روکا اور سرزنش کی ۔ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

یا عمر دعهن فان العین دامعة والنفس مصابة والعهد قریب ( ۱۴ )

اے عمر ! انہیں چھوڑ دے ۔ بے شک آنکھیںگریہ کناں ہیں ،دل مصبیت زدہ اور زمانہ بھی زیادہ نہیں گزرا ان روایات کی بناپر واضح ہے کہ یہ عمل سنت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حرام نہیں تھا ۔ اوریہ عمر تھے جس نے اس سنت کی پرواہ نہ کی اور عورتوں کو اپنے عزیزوں پر گریہ کرنے پر سرزنش کی ۔

٣۔ صحابہ کرام او رتابعین کی سیرت

صحابہ کرام اور تابعین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ اپنے عزیزوں کی موت پر گریہ کیا کرتے تھے ۔جس کے عملی نمونے بیا ن کر رہے ہیں:

١) حضرت علی علیہ السّلام :

ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ جب امیر المومنین کو مالک اشتر کی شہا دت کی خبر ملی تو گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

علی مثله فلتبک البواکی ( ۱۵ )

گریہ کرنے والوں کیلئے شائستہ یہ ہے کہ اس جیسے پر آنسوبہائیں۔

٢) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا :

عباد کہتے ہیں : حضرت عائشہ فرمایا کرتیں : پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے وقت میں نے ان کا سر تکیے پر رکھاوقمت التدم)اضرب صدری(مع النساء واضرب وجهی ( ۱۶ ) اور دوسری عورتوں کے ہمراہ سینے اور منہ پر پیٹا۔

٣) حضرت عمر:

عن أبی عثمان:أتیت عمر بنعی النعمان بن مقرن، فجعل یده علی رأسه و جعل یبکی ( ۱۷ )

ابوعثمان کہتے ہیں : جب میں نے حضرت عمر کو نعمان بن مقرن کی وفات کی خبر دی تو انہوں نے اپنے سر پرہاتھ رکھااور گریہ کیا ۔

جب محمد بن یحییٰ ذہلی نیشاپوری نے احمد ابن حنبل کی وفات کی خبر سنی توکہا : مناسب ہے کہ تما م اہل بغداد اپنے اپنے گھروں میں نوحہ خوانی کی مجالس برپا کریں ۔

٤)عبداللہ بن رواحہ :

عبد اللہ بن رواحہ نے جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سنی تو ان کی شان میں اشعار پڑھتے ہوئے گریہ کیا( ۱۸ ) ۔

٥)عبداللہ بن مسعود :

نقل کیا گیا ہے کہ جب حضرت عمر کی وفات ہوئی تو ابن مسعودنے ان پر گریہ کیا :

فوقف ابن مسعود علی قبره یبکی ( ۱۹ )

ابن مسعودنے ان کی قبر پر کھڑے ہوکر گریہ کیا۔

٦)امام شافعی :

اہل سنّت کے امام ،شافعی امام حسین علیہ السّلام کی شان میں نوحہ پڑھتے ہوئے کہتے ہیں :

تاوب عنّی والفؤاد کئیب

وأرقّ عینی فالرقاد غریب

وممّا نفٰی جسمی وشیّب لُمّتی

تصاریف ایّام لهنّ خطوب

فمن مبلغ عنّی حسین رسالة

وان کرهتها أنفس وقلوب

قتیلا بلا جرم کأنّ قمیصه

صبیغ بماء الأرجون خضیب

فللسّیف اعوال وللرّمح رنّة

وللخیل من بعدالصّهیل نحیب

تزلزلت الدّنیا لآل محمد

وکاد لهم صمّ الجبال تذوب

وغارت نجوم واقشعرّت کوکب

وهتّک أستار وشقّ جیوب

یُصلّی علی المبعوث من آل هاشم

ویُعزی بنوه انّ ذا لعجیب

لئن کان ذنبی حبّ آل محمّد

فذلک ذنب لست منه أتوب

هم شفعائی یوم حشری وموقفی

اذا ما بدت للناظرین خطوب( ۲۰ )

گلی کوچوں میں عزاداری

گلی کوچوں او رسڑکوں پر عزاداری اور نوحہ خوانی ان امورمیں سے ہے جو صدر اسلام سے لے کر آج تک شیعہ و سنی مسلمانوں کے درمیان رائج ہیںاور بڑے بڑے علمائے اہل سنّت اسے انجام دیتے چلے آئے

ہیں ۔جب تک اسلام کی سربلندی وسرفرازی کا کلمہ پڑھنے والے موجود ہیں تب تک امام حسین کے پیغام کو اسی عزاداری کے ذریعے دنیا والوں تک پہنچاتے رہیں گے ۔یہ وہ غم ہے جس کی حفاظت وپاسداری خود خدانے اپنے ذمہ لے رکھی ہے ورنہ بنو امیہ اور بنو عباس نے اس غم کو مٹانے کے لئے کون سی کوشش نہ کی لیکن اس غم ، مجلس وماتم اوراس عزاداری مظلو م کربلا کونہ مٹاسکے اورپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چاہنے والے بھی آج تک اسی ماتم وعزاداری کی صورت میں نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت اور یزید سے بیزاری کا اعلان کر تے چلے آرہے ہیں۔

یا حسین بن علی ماتم تیرا ہم کرتے رہیں گے

دم تیرا ہم اللہ کی قسم بھرتے رہیں گے

لاکھ چھپے پردوں میں تو اے روح یزیدی

لعنت تیری تصویر پہ ہم کرتے رہیں گے

آج بھی عزادار ی کی مخالفت کرنے والے خود حکومت اور حکمرانوں کے خلاف سڑکوںاورروڈوں پر جلوس نکالتے رہتے ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ جب نواسہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مظلومیت اور یزید کے ظلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عاشقان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سڑکوں پر نکلتے ہیں تو انہی لوگوں کے اندر بغض رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و آل رسول ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور فوراان جلوسوں کا راستہ روکنے پر تیار ہوجاتے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ جلوس ان کے عقیدہ کی نفی کررہے ہیں لہذا جیسے کیسے ہو ان کا راستہ روکا جائے ورنہ کون سا ایسا دن ہے جس میں دنیا کے گوش وکنار میں ظلم کے خلاف احتجاج نہ ہوا ہو، لیکن وہاں نہ تو راستہ روکا جاتا ہے اور نہ بدعت کا فتوٰی لگایا جاتا ہے ۔ ذیل میں ہم علمائے اہل سنّت کے ماتم کے چند ایک نمونے پیش کر رہے تا کہ جو لوگ حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہیں ان پر اتمام حجت ہو جائے ۔

١۔طبری :

انہوں نے اپنی کتاب تاریخ الطبری میں لکھا ہے :

فلم أسمع والله واعیة مثل واعیة نساء بنی هاشم فی دورهنّ علی الحسین ( ۲۱ )

خدا کی قسم ! میں نے بنو ہاشم کی خواتین کے حسین پر گریہ و فریاد کے مانند کوئی گریہ نہیں سنا.

٢۔ نسفی :

وہ کہتے ہیں : میںاہل سنت کے حافظ بزرگ ابو یعلی عبدالمومن بن خلف (ت ٣٤٦ھ) کے جنازے میں شریک تھا کہ اچانک چار سو طبلوںکی آواز گونجنے لگی( ۲۲ ) ۔

٣۔ذہبی:

اہل سنّت کے بہت بڑے عالم دین اور علم رجال کے ماہر ذہبی کہتے ہیں : جوینی نے ٢٥ ربیع الثانی ٤٧٨ھ میں وفات پائی ۔ لوگ اسکے منبر کوتوڑ کر تبرک کے طور پر لے گئے ، اس کے سوگ میں دکانوں کو بند کردیا اور مرثیے پڑھے ۔ اس کے چار سو شاگرد تھے جنہوں نے اس کے فراق میں قلم ودوات توڑ ڈالے اور ا س کے لئے عزا برپا کی ۔ انہوں نے ایک سال کے لئے عمامے اتار دیئے اور کسی کی جرأت نہ تھی کہ سر کوڈھانپے ۔ طلاب شہر میں پھرتے ہوئے نوحہ وفریاد اور گریہ وزاری میں مشغول رہتے( ۲۳ ) ۔

٤۔سبط بن جوزی :

ابن کثیر (البدایة والنہایة ) میں لکھتے ہیں ؛

ملک ناصر (حاکم حلب) کے زمانے میں یہ درخواست کی گئی کہ روز عاشوراء کربلا کے مصائب بیان کئے جائیں ۔ سبط بن جوزی منبر پر گئے ، کافی دیر سکوت کے بعد عمامہ سر سے اتارا اورشدید گریہ کیا۔ اور پھر یہ اشعار پڑھے :

ویل لمن شفعائه خصمائه

والصور فی نشر الخلائق ینفخ

لا بد ان ترد القیامة فاطم

وقمیصها بدم الحسین ملطخ

افسوس ہے ان پر جن کی شفاعت کرنے والے جب میدان محشر میں صور پھونکاجائیگا تو ان کے دشمن ہونگے ۔ اورفاطمہ روز قیامت ضروراپنے فرزند حسین کے خون میں لتھڑی ہوئی قمیص لے کر میدان محشر میں وارد ہونگی۔

یہ کہہ کرمنبر سے اترے اور اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے( ۲۴ ) ۔

٥۔عمر بن عبدلعزیز :

خالد ربعی عمر بن عبدالعزیز کی عزاداری کے بارے میں کہتاہے :

تورات میں بیان ہوا ہے کہ عمربن عبد العزیز کی موت پر چالیس دن تک زمین وآسمان گریہ کریں گے( ۲۵ ) .

واضح روایات او رتاریخی شواہد کی روشنی میں مجالس ، ماتم وسوگواری ، نوحہ خوانی ، گریہ وعزاداری ، عزیزوں کے فراق میں بے تابی ، منہ اور سینے پر پیٹنا ، دکانوں کا بند رکھنا او رغم مناتے ہوئے سڑکوں پر نکلنا طول تاریخ مسلمین میں رائج رہا ہے اور علماء نے بھی اس کی تائید فرمائی ہے جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ۔

گریہ و ماتم سے منع کرنے والی روایات

جو لوگ مردوں پر رونے کو حرام سمجھتے ہیں وہ اس حکم پر چند دلیلیں پیش کرتے ہیں :

پہلی دلیل:

وہ احادیث جو حضرت عمر، عبداللہ بن عمر او ردیگر سے نقل ہوئی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے ۔

المیّت یعذّب فی قبره بما نیح علیه

یایہ حدیث :انّ المیّت یعذب ببکاء اهله علیه ( ۲۶ )

عزیزواقربا کے گریہ کی وجہ سے مردے پر عذاب نازل ہوتاہے ۔

اسی طرح سعید بن مسیّب سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے اپنے باپ کی وفات پر مجلس عزاکا پروگرام رکھا تو حضرت عمر نے ا س سے روکا،لیکن حضرت عائشہ نے ان کی بات نہ مانی، جس پر حضرت عمر نے ہشام بن ولید کو بھیجا کہ وہ انہیں زبردستی اس کا م سے روکے ۔جب عورتوں کو اس کی خبر ملی تو مجلس کو چھوڑ کر چلی گئیں ،اس وقت حضرت عمر نے ان سے کہا :

تردن أن یعذب ابوبکر ببکائکنّ! انّ المیّت یعذب ببکاء أهله علیه ( ۲۷ )

کیا تم اپنے گریے کی وجہ سے ابوبکر پر عذاب لانا چاہتی ہو ! بے شک میت کو اس کے گھر والوں کے گریے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔

لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے نقل کرتے وقت اشتباہ کیا ہے یا بطور کلی روایت کے متن کو بھول بیٹھا ہے ۔

ابن عباس کہتے ہیں :حضرت عمر کی وفات کے بعد جب یہ حدیث عائشہ کے سامنے پیش کی گئی توفرمایا: خداکی رحمت ہو عمر پر ، خدا کی قسم ! رسولخدا اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

ان الله لیزیدالکافر عذابا ببکاء اهله

بیشک خداوند متعال کافر کے گھر والوں کے گریے کی وجہ سے اس پر عذاب بڑھادیتاہے ۔

اس کے بعد حضرت عائشہ فرماتی ہیں :ولاتزر وازرة وزر اخری ( ۲۸ )

ترجمہ:اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

عبدا للہ بن عمر بھی وہاں پر موجود تھے انہوں نے حضرت عائشہ کے جواب میں کچھ نہ کہا( ۲۹ ) ۔

ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ جب عبد اللہ بن عمر کی یہ روایت حضرت عائشہ کے سامنے نقل کی گئی توفرمایا: خداوند متعال عبد اللہ بن عمر کو بخش دے ۔ اس نے جھوٹ نہیں کہا ۔بلکہ یا توبھول بیٹھا ہے یا نقل کرنے میں اشتباہ کیاہے ۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک یہود ی عورت کی قبر کے پاس سے گزرے تو دیکھا اس کے رشتہ دار اس پر رورہے ہیں توفرمایا:

انهم لیبکون علیها وانها لتعذب فی قبرها

وہ اس پر رورہے ہیں جبکہ قبر میں اس پر عذاب ہورہاہے ۔

ان روایات کی توجیہ

علمائے اہل سنت نے اس بارے میں ان روایات کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے : ان احادیث کا معنی یہ ہے کہ وہ گریہ کے ہمراہ ایسی صفات وخصوصیات کا ذکر کرتے کہ جو شریعت مقدّسہ میں حرام ہیں ۔ مثال کے طورپر کہا کرتے : اے گھروں کو ویران کرنے والے! اے عورتوں کو بیوہ کرنے والے ...۔

ابن جریر ، قاضی عیاض اور دیگر نے ان روایات کی توجیہ میں کہا ہے کہ : رشتہ داروں کاگریہ سننے سے میت کا دل جلتاہے اور وہ غمگین ہوجاتا ہے ۔

مزید ایک توجیہ حضرت عائشہ سے نقل ہوئی ہے جو انہوں نے اس حدیث کے معنی میں بیان فرمائی ہے کہ جب رشتہ دار گریہ کرتے ہیں تو کافر یا غیر کافر پر اس کے اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتاہے نہ کہ عز یزوں کے گریہ کی وجہ سے( ۳۰ ) ۔

علامہ مجلسی اس بارے میں فرماتے ہیں :

اس حدیث میں حرف (باء ) مع کے معنی میں ہے یعنی جب میت کے رشتہ دار اس پر گریہ کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوتاہے( ۳۱ ) ۔

دوسری دلیل :

میت پر گریہ کرنے کی حرمت پر دوسری دلیل وہ روایت ہے جو متقی ہندی نے حضرت عائشہ سے نقل کی ہے کہ انہوںنے فرمایا :

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جعفر بن ابی طالب ، زید بن حارثہ او رعبد اللہ رواحہ کی شہادت کی خبر ملی تو چہر ہ مبارک پرغم واندوہ کے آثار طاری ہوئے ۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی اچانک ایک شخص آیا او رعرض کیا: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! عورتیں جعفر پر گریہ کر رہی ہیں ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

فارجع الیهن فاسکتهن ، فان أبین فاحث فی وجوههن )افواههن ( التراب ( ۳۲ )

ان کے پاس جاؤ او رانہیں خاموش کراؤ۔ پس اگر وہ انکار کریں تو ان کے منہ پر خاک پھینکو۔

اس روایت کا جواب

یہ روایت چند اعتبار سے قابل اعتراض ہے ۔

١۔ خودرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرنے والوں اور شہداء پر گریہ کرتے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے جیسا کہ حضرت حمزہ اورجعفر و... پر گریہ کرنے کا حکم دیا ،اور پھر جب حضرت عمر نے عورتوں کو گریہ کرنے سے منع کیا تو فرمایا : انہیں چھوڑ دو، آنکھیں گریہ کناں ہیں اور...( ۳۳ ) ۔

٢ ۔ اس حدیث کے روایوں میں سے ایک محمدبن اسحاق بن یسار ہے ۔ جس کے بارے میں علمائے رجال میںاختلاف پایا جاتا ہے ۔ ابن نمیر کہتے ہیں : وہ مجہول ہے اور باطل احادیث کو نقل کرتاہے ۔

احمد بن حنبل کہتے ہیں : ابن اسحاق احادیث میں تدلیس کیا کرتا اور ضعیف احادیث کو قوی ظاہر کرتا( ۳۴ ) .

تیسری دلیل :

مُردوںپر گریہ کے حرام ہونے پر تیسری دلیل حضرت عمر کا عمل ہے ۔ نصر بن ابی عاصم کہتے ہیں : ایک رات حضرت عمر نے مدینے میں عورتوں کے گریے کی صدا سنی تو ان پر حملہ کردیا اور ان میں سے ایک عورت کو تازیانے مارے ، یہاں تک کہ اس کے سرکے بال کھل گئے ۔ لوگوں نے کہا : اس کے بال ظاہر ہوگئے ہیں تو جواب میں کہا :

أجل ،لاحرمة لها .( ۳۵ ) اس عورت کا کوئی احترام نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا خلیفہ کا عمل کسی مسلمان کے لئے حجت ہے۔ امام غزالی صحابہ کے عمل کے حجت ہونے کے بارے میں بیان کئے جانے نظریات کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

الأصل الثانی من الأصول الموهونة :قول الصحابی ،وقد ذهب قوم الی أنّ مذهب الصحابی حجة مطلقا ، وقوم الی أنّه الحجة ان خالف القیاس ، وقوم الی أن الحجة فی قو ل أبی بکر وعمر خاصة لقوله اقتدوا باللذین بعدی ،وقوم الی أنّ الحجة فی قول الخلفاء الراشدین اذااتفقواوالکلّ باطل عندنا ،فانّ من یجوز علیه الغلط والسّهو ،ولم تثبت عصمة عنه فلا حجة فی قوله ،فکیف یحتجّ بقولهم مع جواز الخطائ .( ۳۶ )

یہ سب اقوال باطل ہیں ۔ چونکہ جو شخص عصمت نہیں رکھتااو راس کے عمداً یا سہواً اشتباہ کرنے کا احتمال موجود ہو تواس کا قول حجت نہیں ہوسکتا،پس خطاکے جائز ہوتے ہوئے اس کے قول سے کیسے احتجاج کیا جا سکتا ہے ۔

اور پھر کتب اہل سنّت میں ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن میں خلیفہ کی رائے سنت وفعل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سراسر مخالف دکھائی دیتی ہے ان میں سے ایک روایت یہ بھی ہے جسے امام احمد بن حنبل نے نقل کیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا : اے عمر! ان عورتوں کو چھوڑ دو( ۳۷ ) ۔

اور اسی طرح حضرت عائشہ کا یہ قول کہ فرمایا:

خدا رحمت کرے عمر پر یا تو فراموش کربیٹھا ہے یااس سے نقل کرنے میں اشتباہ ہواہے( ۳۸ ) ۔ ()

ابن ابی ملیکہ نے ایک داستان نقل کی ہے جومُردوں پر ماتم کرنے کی حرمت کو بیان کرنے والی ان روایات کے جعلی ہونے کی تائید کررہی ہے وہ کہتے ہیں:

حضرت عثمان کی ایک بیٹی کی وفات ہوئی تو ہم عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس کے ہمراہ اس کے تشییع جنازہ میں شریک ہوئے ۔میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابن عمر نے رونے والوں پر اعتراض کرتے ہوئے حضرت عثمان کے بیٹے سے کہا : انہیں روکتے کیوں نہیں ہو ؟ میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ فرمایا:

مُردے پر اس کے عزیز واقارب کے گریہ کرنے کی وجہ سے عذاب نازل ہوتا ہے ۔

اس وقت ابن عباس نے ابن عمر کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا: یہ عمر کا قول ہے اس لئے کہ جب حضرت عمر زخم کی شدت کی وجہ سے بستر پرموجود تھے تو صہیب ان کے پاس آئے اور گریہ وفریاد کرنا شروع کی تو عمر اس کے اس عمل سے ناراض ہو ئے اور کہا: کیا مجھ پر گریہ کر رہے ہو جبکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایاہے : مردے کو اس کے اقارب کے گریے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔

انہوں نے اس کے بعدفرمایا: میں نے ان (عمر ) کی وفات کے بعد ان کی یہ بات حضرت عائشہ کے سامنے پیش کی تو انہوں نے یوں فرمایا:

رحم الله عمر، والله ما حدث رسول الله ،لیعذب ...ولکن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قال: انّ الله لیزید الکافر ببکاء أهله علیه

خدا عمر پر رحمت کرے ! پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہر گز ایسی بات نہیں فرمائی بلکہ انہوں نے تو یوں فرمایا: خداوند متعال کافر کے عزیزوں کے گریے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کر دیتا ہے ۔

اور پھر (حضرت عائشہ نے یہ حکم خدابیان ) فرمایا:

حسبکم کتاب الله ولاتزر وازرة وزرأخرٰی ( ۳۹ )

ترجمہ: اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گنا ہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ جملہ فرمایا: خداہی ہے جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی ہے ۔

راوی کہتا ہے :جب عبداللہ بن عباس نے اپنی گفتگو ختم کرلی تو اس کے بعد ابن عمر خاموش رہے اور کوئی بات نہ کہی( ۴۰ ) ۔

ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے سامنے عبداللہ بن عمر کا یہی قول نقل کیا گیا کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس طرح کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میت کو عزیزو اقارب کے گریہ کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو حضرت عائشہ نے فرمایا:

ذهل ابن عمر ! انّما قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم انّه لیعذب بخطیئته وذنبه وانّ أهله لیبکون علیه الآن .( ۴۱ )

ابن عمر فراموش کر بیٹھا ہے جبکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں فرمایاہے : مردے پر اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب نازل ہورہا ہوتا ہے جبکہ اس کے رشتہ دار اس وقت اس پرگریہ کر رہے ہوتے ہیں ۔

اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت عائشہ نے فرمایا:

انّکم لتحدّثون عن غیرکاذبین ولامکذوبین ولکن السّمع یخطی .( ۴۲ )

عمراو ر ابن عمر نے جان بوجھ کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دی ہے بلکہ سننے میں اشتباہ کر بیٹھے ہیں۔

نتیجہ

جوکچھ بیان کیا گیاہے یہ ان ادلہ کا خلاصہ ہے جو وہابیوں کے اس ادّعا کو رد کرنے کیلئے بیان کی گئی ہیںکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مرنے والوں پر گریہ کرنے سے منع فرمایاہے۔جبکہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بالکل واضح طور پر ثابت ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہر گز میّت پر گریہ کرنے اور مجالس عزا برپا کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ وہ بعض روایات جو کتب اہل سنّت میں اس کی نفی کررہی ہیںیا تو ان کی سند ضعیف ہے جیساکہ ذکر کر چکے یا پھر راوی نے اسے بیان کرنے میں اشتباہ کیا ۔اس لئے کہ ایسی روایات حکم قرآن ،سیرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے مخالف ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان روایات کی نفی فرمائی ہے جس سے یہ واضح پتہ چلتا ہے کہ یا تو ان روایات کی ابتدا ہی سے کوئی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایاکہ یہ روایات خلیفہ کا اپنا قول ہے نہ کہ حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .(شرح صحیح مسلم ،نووی ٥:٣٠٨.) اور یہ بھی ان بعض جعلی روایات کی طرح ہیں جو اہل سنت کی معتبر کتب میں بیان ہوئی ہیں جنہیں کوئی بھی مسلمان قبول کرنے کو تیا ر نہیں یہاں تک کہ خود اہل سنّت بھی ،یا پھر راوی نے بیان کرتے وقت توجہ نہ کی اور یہ روایات کافر پر عذاب کو بیان کر رہی ہیںجیسا کہ زوجہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی توجیہ فرمائی ۔ اورہم اسی مقدار پر اکتفا کرتے ہیں اس لئے کہ جو لوگ حق و انصاف کی پیروی کرنے والے ہیں ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔وما علینا الاّ البلاغ

انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرن

امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں : انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور ملائکہ کا امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنا طولانی ہو چکا ہے( ۴۳ ) ۔ ذیل میں ہم امام حسین علیہ السّلام پر انبیاء علیہم السّلام کے گریہ کے چند نمونے پیش کر رہے ہیں :

١۔حضرت آدم کا گریہ کرنا:

اس آیت مجیدہ (( فتلقٰی آدم من ربّه کلمات ) ...)( ۴۴ ) کی تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ جب خدا وند متعال نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول کرنا چاہی تو جبرائیل علیہ السّلام کو ان کے پاس بھیجا تاکہ انہیں یہ دعا تعلیم دیں :

یا حمید بحقّ محمّد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،یا أٔعلی بحقّ علیّ ، یا فاطر بحقّ فاطمة ، یا محسن بحقّ الحسن ،یا قدیم الاحسان بحقّ الحسین ومنک الاحسان

جیسے ہی جناب جبرائیل علیہ السّلام نام حسین پر پہنچے تویہ نام سن کر حضرت آدم علیہ السّلام کے دل پر غم طاری ہوا اورآنکھوں سے اشک جاری ہوئے،جناب جبرائیل علیہ السّلام سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا:

یا آدم ! ولدک هذا یصاب بمصیبة تصغر عندها المصائب

اے آدم ! آپ کے اس فرزند پر ایسی مصیبت آئے گی کہ ساری مصیبتیں اس کے سامنے حقیر نظر آئیں گی

آدم علیہ السّلام نے فرمایا: وہ کونسی مصیبت ہو گی ؟ عرض کیا :

یقتل عطشانا غریباوحیدا فریدا لیس له ناصرا ولامعین ،ولو تراه یا آدم یحول العطش بینه وبین السّماء کالدّخان ، فلم یجبه أحد الاّ بالسّیوف ،وشرب الحتوف ،فیذبح ذبح الشاة من قفاه ، وینهب رحله وتشهر رأوسهم فی البلدان ، ومعهم النسوان ، کذلک سبق فی علم المنّان ،فبکٰی آدم وجبرائیل بکاء الثکلٰی ( ۴۵ )

اسے پیاسا قتل کیا جائے گاجبکہ وہ وطن سے دور ، تنھا اوربے یار ومدد گار ہوگا ۔اگرآپ اسے دیکھتے تو پیاس کی شدّت کی وجہ سے آسمان اس کی آنکھوں میں دھواں دکھائی دے گا ، ( وہ مدد کے لئے پکارے گا ) تو تلواروں اور شربت موت سے اس کا جواب دیا جائے گا ، اسے ذبح کرکے سر تن سے جدا کردیا جائے گا جیسے گوسفند کو ذبح کیا جاتا ہے ، ان کے خیموں کو لوٹ لیا جائے گا اور ان کے سروں کو مختلف شہر وں میں پھرایا جائے گا جبکہ ان کی عورتیں ان کے ہمراہ ہوں گی ، اس طرح کا پہلے ہی سے علم خدائے منّان میں گذر چکا ہے ،پس آدم و جبرائیل نے اس عورت کی مانند گریہ کیا جس کا جوان بیٹا مر گیا ہو ۔

ایک اور روایت میں بیان ہواہے کہ جب حضرت آدم و حوّا کو ایک دوسرے سے دور زمین پراُتارا گیا تو حضرت آدم علیہ السّلام جناب حوّا سلام اللہ علیہا کی تلاش میں نکلے اور چلتے چلتے سر زمین کربلا پہنچے ، وہاں پر دل پہ غم طاری ہوا اور جب قتل گاہ امام حسین علیہ السّلام پر پہنچے تو پاؤں میں لغزش آئی اور گر پڑے جس سے پاؤں سے خون جاری ہونے لگا ،اس وقت آسمان کی طرف سر بلند کیا اور عرض کیا :

الٰهی هل حدث منّی ذنب آخر فعاقبتنی به ؟ فانّی طفت جمیع الأرض ،وماأصابنی سوء مثل ما أصابنی فی هذه الأرض

فأوحی الله تعالٰی الیه : یا آدم ما حدث منک ذنب ،ولکن یقتل فی هذه الأرض ولدک الحسین ظلما ،فسال دمک موافقة لدمه

فقال آدم : یا ربّ أیکون الحسین نبیّا ؟ قال : لا ، ولکنّه سبط النّبیّ محمّد ، وقال: من القاتل له؟ قال: قاتله یزید لعین أهل السّمٰوات والأرض .فقال آدم:أیّ شیء أصنع یا جبرائیل ؟فقال: العنه یا آدم ! فلعنه أربع مرّات ومشیٰ خطوات الی جبل عرفات فوجد حوّا هناک (۴۶)

اے پروردگار! کیا میں کسی نئے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھا جس کی تو نے مجھے سزا دی ؟میں نے پورے روئے زمین کی سیر کی لیکن کہیں پہ اس طرح کی کوئی مصیبت پیش نہ آئی جو اس سر زمین پرپیش آئی ہے ۔

خدا وند متعال نے حضرت آدم پر وحی نازل کی : اے آدم ! تو نے کوئی گناہ نہیں کیا ،لیکن اس سر زمین پر تمہارے فرزندحسین کو ظلم وجفا کے ساتھ قتل کیا جائے گا،لہذا آپ کا خون ان کے خون کی حمایت میں جاری ہوا ہے۔

حضرت آدم نے عرض کیا : اے پالنے والے ! کیا حسین نبی ہوں گے ؟فرمایا: نہیں ،لیکن محمّد ۔۔صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔ کے نواسے ہوں گے ۔

حضرت آدم نے عرض کیا : اسے کون قتل کرے گا ؟فرمایا یزید جو زمین وآسمان میں ملعون ہوگا ۔آدم نے جبرائیل سے کہا : میں کیا کر سکتا ہوں ؟ اس(جبرائیل ) نے عرض کیا : اے آدم ! اس پر لعنت بھیجو ،پس انہوں( آدم علیہ السّلام) نے اس پر چار مرتبہ لعنت بھیجی ۔اور چند قدم چلنے کے بعد کوہ عرفات میں حضرت حوّا سے جا ملے ۔

٢۔ حضرت نوح کا گریہ کرنا:

جب حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی گرداب میں آئی توانہوںنے خداوند متعال سے اس کا سبب پوچھا، جواب ملا : یہ سرزمین کربلا ہے اور جبرائیل علیہ السّلام نے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت اور ان کے اہل وعیال کے اسیربنائے جانے کی خبر دی تو کشتی میں گریہ وماتم برپا ہوگیا اور آنحضرت نے بھی گریہ کیا( ۴۷ )

٣۔حضرت ابراہیم کا گریہ کرنا:

جب حضرت اسماعیل علیہ السّلام کوذبح کرنے سے بچالیا گیا تو جناب جبرائیل علیہ السّلام نے واقعہ کربلا بیان کیا اور اس پر گریہ کرنے کا اجر وثواب بتایاتو جناب ابراہیم علیہ السّلام نے کربلا میں ہونے والے مصائب پر گریہ کیا( ۴۸ ) ۔

اسی طرح جب خداوند متعال نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے سامنے زمین وآسمان کو رکھا تو انہوں نے زیر عرش پانچ نور دیکھے ،جیسے ہی پانچویں نور یعنی امام حسین علیہ السّلام پر نظر پڑی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو پڑے( ۴۹ ) ۔

٤۔ حضرت موسٰی کاگریہ کرنا :

جب حضرت موسٰی علیہ السّلام کوہ طور پر گئے تو وحی خدا ہوئی اے موسٰی ! تم جس جس کی بخشش طلب کرو گے ہم بخش دین گے سوا قاتل حسین کے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : پالنے والے وہ بزرگ ہستی کون ہے؟امام حسین علیہ ا لسّلام کا تعارف کروایا گیا ،یہاں تک کہ بتایا گیا کہ ان کا بدن بے گور و کفن زمین پر پڑا رہے گا ،ان کا مال واسباب لوٹ لیا جائے گا ،ان کے اصحاب کو قتل کردیا جائے گا، ان کے اہل وعیال کو قیدی بنا کر شہر بہ شہر پھرایا جائیگا ،ان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا جائے گا اور ان کے بچے پیاس کی وجہ سے جان دے بیٹھیں گے ،وہ مدد کے لئے پکاریں گے لیکن کوئی مدد کرنے والا نہ ہوگا ۔

حضرت موسٰی نے یہ سن کر گریہ کیا ۔خداوند متعال نے فرمایا: اے موسٰی ! جان لے جو شخص اس پر گریہ کرے یا گریہ کرنے والی صورت بنائے تو اس پر جہنّم کی آگ حرام ہے( ۵۰ ) ۔

روایات میں نقل ہواہے کہ حضرت موسٰی علیہ السّلام نے اپنے پروردگار کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے عرض کیا :

یا ربّ لم فضّلت أمّة محمّد علی سایرالأمم ؟قال الله تعالٰی : فضّلتهم لعشر خصال .قال: وماتلک الخصال الّتی یعملونها حتٰی أمر بنی اسرائیل یعملونها ؟قال الله تعالٰی:الصلاة والزکاة والصوم والحجّ والجهاد والجمعة والجماعة والقرآن والعلم والعاشوراء ،قال موسٰی: یاربّ وما العاشورائ؟قال: البکاء والتباکی علی سبط محمّدصلّی اللّه علیه وآله وسلّم والمرثیة والعزاء علی مصیبة ولد المصطفٰی ( ۵۱ ) .

اے پروردگار! تو نے کس لئے اُمّت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تمام امّتوں پر فضیلت دی ؟خداوندمتعال نے فرمایا:میں نے انہیں دس خصلتوں کی بناپر فضیلت دی ہے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : وہ کونسی خصلتیںہیں تاکہ میں بنی اسرائیل کوان کے بجالانے کا حکم دوں ؟فرمایا: وہ نماز ، روزہ ، زکات،حجّ ، جھاد ، نماز جماعت و جمعہ ،قرآن ،علم اور عاشورہ ہے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : یہ عاشورہ کیا ہے ؟آواز آئی :وہ محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نواسے پر گریہ کرنا اور گریے والی صورت بناناہے ،فرزند مصطفٰیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصیبت پر مرثیہ پڑھنا اور عزاداری کرنا ہے ۔

٥۔ حضرت خضر کا گریہ کرنا:

جب حضرت موسٰی اور حضرت خضر نے مجمع البحرین میں ملاقات کی تو آل محمد علیہم السّلام او ران پر ڈھائے جانے والے مصائب کے بارے میں گفتگو کی تو ان کے گریہ کی آواز بلند ہوئی( ۵۲ ) ۔اور جیسے ہی کربلا کا تذکرہ ہو اتو گریہ اور بلند ہوا( ۵۳ ) ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: امیرالمؤمنین علیہ السّلام صفین سے واپسی پر جب کربلاسے گذرے تو کربلا کی خاک کی ایک مٹھی بھر کر مجھے دی اور فرمایا: جب اس سے تازہ خون جاری ہو تو سمجھ جاناکہ میرے فرزند حسین شہید کردیئے گئے ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں :میرے ذہن میں یہ بات ہمیشہ باقی رہی ،یہاں تک کہ ایک دن نیندسے اٹھا تو دیکھا اس خاک سے تازہ خون جاری ہے جس سے سمجھ گیا کہ امام حسین علیہ السلام شہید کر دیئے گئے ۔میں گریہ وزاری میں مشغول تھا کہ گھر کے ایک گوشے سے آواز آئی:

اصبروا یا آل الرّسول

قتل فرخ البتول

نزل الرّوح الأمین

ببکاء و عویل

اے آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! صبر کرو ،فرزند بتول شہید کردیا گیا ۔جبرائیل امین گریہ وزاری کرتا ہوا نازل ہوا۔

میں نے گریہ کیا ،وہ دس محرم کا دن تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ آواز باقی جگہوں پر بھی سنی گئی اور وہ ندادینے والے حضرت خضر علیہ السّلام تھے( ۵۴ ) ۔

٦۔ حضرت زکریا کا گریہ کرنا:

حضرت زکریا علیہ السّلام جب بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت علی ، حضرت زہرائ اور امام حسن کا نام لیتے تو ان کا غم برطرف ہوجاتا لیکن جیسے ہی نام حسین لیتے تو ان پر گریہ طاری ہ وجاتا۔جناب جبرائیل علیہ السّلام نے آنحضرت کے سامنے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کا ماجر ابیان کیا تو انہوں نے گریہ کیا( ۵۵ ) ۔

٧۔ حضرت عیسٰی کا گریہ کرنا :

جب حضرت عیسٰی علیہ السّلام اور ان کے حواری کربلا سے گذرے تو انہوں نے گریہ کیا( ۵۶ ) ۔

٨۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گریہ کرنا:

جب جبرایئل علیہ السّلام نے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کی خبر دی توآپ نے گریہ کیا( ۵۷ ) ۔اور اسی طرح جب سید الشہداء کی تربت ان کے سامنے ظاہر کی گئی تو اس وقت بھی گریہ کیا( ۵۸ ) ۔

راہب کاامام حسین پر ماتم کرن

ابو سعید کہتا ہے : میں اس لشکر کے ہمراہ تھا جو سر امام حسین علیہ السّلام کو شام کی جانب لے کر جا رہا تھا ۔جب ایک منزل پر نصرانیوں کی بستی کے پاس پہنچے تو شمر نے بستی والوں سے بلا کر کہا : میں ابن زیاد کے لشکر کا سردار ہوں اور ہم عراق سے شام جارہے ہیں ۔عراق میں ایک باغی نے یزید کے خلاف بغاوت اور خروج کیا تو یزید نے ایک لشکر بھیج کر انہیں قتل کروادیا ،یہ ان کے سر اور ان کی عورتیں ہیں ہمیں یہاں پر رات ٹھہرنے کے لئے جگہ دی جائے ۔

راوی کہتا ہے : راہب نے اس سر کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ اس سر سے نور بلندہو رہا ہے ۔اس نے شمر سے کہا : ہماری بستی میں آپ کی فوج کو ٹھہرانے کی جگہ نہیں ہے لہذا ان سروں اور قیدیوں کو ہمارے حوالے کردو ،ان کے بارے میں مت پریشان ہو اور تم لوگ بستی سے باہر رکو تاکہ اگر دشمن حملہ کردے تو دفاع کر سکو۔

شمر کو راہب کی تجویز پسند آئی ،سراور قیدی ان کے حوالے کئے اور خود بستی سے باہر رک گئے ۔راہب نے سروں کو ایک گھر میں جاکر رکھا اور وہیں پر قیدیوں کو بھی ٹھہرادیا ۔جب رات ہوئی تو اس نے دیکھا کہ گھر کی چھت پھٹی اور ایک نورانی تخت اترا، جس پر نورانی خواتین سوار ہیں اور کوئی شخص منادی دے رہا ہے کہ راستہ چھوڑ دو، یہ خواتین حضرت حوّا، صفیہ ، سارہ ، مریم ،راحیل مادر یوسف، مادر موسٰی ،آسیہ ،اور ازواج پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھیں۔

راوی کہتا ہے : سرامام حسین علیہ السّلام کو صندوق سے نکالا اور ایک ایک بی بی نے اس کا بوسہ لینا شروع کیا ،جب فاطمہ زہرا کی نوبت آئی تو راہب کہتا ہے: مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا بس ایک آواز آرہی تھی اے میرے مظلوم لال! اے میرے شہید لال! ماں کاسلام ہو ۔

جسیے ہی راہب نے یہ آوازسنی غش کھا کرگرا اور جب ہوش آیاتو سر مبارک کو اٹھایااور کافور،مشک وزعفران سے اسے دھویااور اسے اپنے سامنے رکھ کر گریہ کرتے ہوئے یہ کہنے لگا:اے بنی نو ع آدم کے سردار !میں یہ سمجھتا ہوں کہ تو ہی وہ ذات ہے جس کی تعریف تورات وانجیل میں کی گئی، اس لئے کہ دنیا و آخرت کی خواتین تجھ پر گریہ کناں ہیں( ۵۹ ) ۔

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے جس شخص کو محبّت ہے

اسے نجات ملے گی یہ اک حقیقت ہے

غم حسین میں رونا ہماری فطرت ہے

وہ کیا بہائیں گے آنسو جنہیں عداوت ہے

جو شہر علم کو ان پڑھ کہیں معاذ اللہ

بنی اُمیہ میں اب تک وہی جہالت ہے

غم حسین کو دنیا مٹا سکتی نہیں

بقائے دین محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ ضمانت ہے

نثار ہوتے ہیں انصار شہ پہ مہدی دیں

فضیلتوں کی میسر انہیں ریاست ہے

وجود انکا نہ ہو تو جہاں فناہوجائے

بقائے مہدی سے دنیا ودیں سلامت ہے

امام وقت کو جانے بغیر مر جائے

تواس کی موت حقیقت میں اک ہلاکت ہے

نماز فجر پڑھیں ترک راحتوں کو کریں

جہاد نفس ہی سب سے بڑی عبادت ہے

چمن جو کرب وبلا کا سجا ہے اکبر

جناب فاطمہ زہراء کی یہ ریاضت ہے


3

4

5