گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری 0%

گریہ اور عزاداری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

گریہ اور عزاداری

مؤلف: ناظم حسین اکبر
زمرہ جات:

مشاہدے: 7073
ڈاؤنلوڈ: 1981

تبصرے:

گریہ اور عزاداری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7073 / ڈاؤنلوڈ: 1981
سائز سائز سائز
گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری

مؤلف:
اردو

گریہ و ماتم سے منع کرنے والی روایات

جو لوگ مردوں پر رونے کو حرام سمجھتے ہیں وہ اس حکم پر چند دلیلیں پیش کرتے ہیں :

پہلی دلیل:

وہ احادیث جو حضرت عمر، عبداللہ بن عمر او ردیگر سے نقل ہوئی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے ۔

المیّت یعذّب فی قبره بما نیح علیه

یایہ حدیث :انّ المیّت یعذب ببکاء اهله علیه ( ۲۶ )

عزیزواقربا کے گریہ کی وجہ سے مردے پر عذاب نازل ہوتاہے ۔

اسی طرح سعید بن مسیّب سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے اپنے باپ کی وفات پر مجلس عزاکا پروگرام رکھا تو حضرت عمر نے ا س سے روکا،لیکن حضرت عائشہ نے ان کی بات نہ مانی، جس پر حضرت عمر نے ہشام بن ولید کو بھیجا کہ وہ انہیں زبردستی اس کا م سے روکے ۔جب عورتوں کو اس کی خبر ملی تو مجلس کو چھوڑ کر چلی گئیں ،اس وقت حضرت عمر نے ان سے کہا :

تردن أن یعذب ابوبکر ببکائکنّ! انّ المیّت یعذب ببکاء أهله علیه ( ۲۷ )

کیا تم اپنے گریے کی وجہ سے ابوبکر پر عذاب لانا چاہتی ہو ! بے شک میت کو اس کے گھر والوں کے گریے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔

لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے نقل کرتے وقت اشتباہ کیا ہے یا بطور کلی روایت کے متن کو بھول بیٹھا ہے ۔

ابن عباس کہتے ہیں :حضرت عمر کی وفات کے بعد جب یہ حدیث عائشہ کے سامنے پیش کی گئی توفرمایا: خداکی رحمت ہو عمر پر ، خدا کی قسم ! رسولخدا اصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایسی کوئی بات نہیں کہی بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

ان الله لیزیدالکافر عذابا ببکاء اهله

بیشک خداوند متعال کافر کے گھر والوں کے گریے کی وجہ سے اس پر عذاب بڑھادیتاہے ۔

اس کے بعد حضرت عائشہ فرماتی ہیں :ولاتزر وازرة وزر اخری ( ۲۸ )

ترجمہ:اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

عبدا للہ بن عمر بھی وہاں پر موجود تھے انہوں نے حضرت عائشہ کے جواب میں کچھ نہ کہا( ۲۹ ) ۔

ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ جب عبد اللہ بن عمر کی یہ روایت حضرت عائشہ کے سامنے نقل کی گئی توفرمایا: خداوند متعال عبد اللہ بن عمر کو بخش دے ۔ اس نے جھوٹ نہیں کہا ۔بلکہ یا توبھول بیٹھا ہے یا نقل کرنے میں اشتباہ کیاہے ۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک یہود ی عورت کی قبر کے پاس سے گزرے تو دیکھا اس کے رشتہ دار اس پر رورہے ہیں توفرمایا:

انهم لیبکون علیها وانها لتعذب فی قبرها

وہ اس پر رورہے ہیں جبکہ قبر میں اس پر عذاب ہورہاہے ۔

ان روایات کی توجیہ

علمائے اہل سنت نے اس بارے میں ان روایات کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے : ان احادیث کا معنی یہ ہے کہ وہ گریہ کے ہمراہ ایسی صفات وخصوصیات کا ذکر کرتے کہ جو شریعت مقدّسہ میں حرام ہیں ۔ مثال کے طورپر کہا کرتے : اے گھروں کو ویران کرنے والے! اے عورتوں کو بیوہ کرنے والے ...۔

ابن جریر ، قاضی عیاض اور دیگر نے ان روایات کی توجیہ میں کہا ہے کہ : رشتہ داروں کاگریہ سننے سے میت کا دل جلتاہے اور وہ غمگین ہوجاتا ہے ۔

مزید ایک توجیہ حضرت عائشہ سے نقل ہوئی ہے جو انہوں نے اس حدیث کے معنی میں بیان فرمائی ہے کہ جب رشتہ دار گریہ کرتے ہیں تو کافر یا غیر کافر پر اس کے اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتاہے نہ کہ عز یزوں کے گریہ کی وجہ سے( ۳۰ ) ۔

علامہ مجلسی اس بارے میں فرماتے ہیں :

اس حدیث میں حرف (باء ) مع کے معنی میں ہے یعنی جب میت کے رشتہ دار اس پر گریہ کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوتاہے( ۳۱ ) ۔

دوسری دلیل :

میت پر گریہ کرنے کی حرمت پر دوسری دلیل وہ روایت ہے جو متقی ہندی نے حضرت عائشہ سے نقل کی ہے کہ انہوںنے فرمایا :

جب پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جعفر بن ابی طالب ، زید بن حارثہ او رعبد اللہ رواحہ کی شہادت کی خبر ملی تو چہر ہ مبارک پرغم واندوہ کے آثار طاری ہوئے ۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی اچانک ایک شخص آیا او رعرض کیا: یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! عورتیں جعفر پر گریہ کر رہی ہیں ۔

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

فارجع الیهن فاسکتهن ، فان أبین فاحث فی وجوههن )افواههن ( التراب ( ۳۲ )

ان کے پاس جاؤ او رانہیں خاموش کراؤ۔ پس اگر وہ انکار کریں تو ان کے منہ پر خاک پھینکو۔

اس روایت کا جواب

یہ روایت چند اعتبار سے قابل اعتراض ہے ۔

١۔ خودرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرنے والوں اور شہداء پر گریہ کرتے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے جیسا کہ حضرت حمزہ اورجعفر و... پر گریہ کرنے کا حکم دیا ،اور پھر جب حضرت عمر نے عورتوں کو گریہ کرنے سے منع کیا تو فرمایا : انہیں چھوڑ دو، آنکھیں گریہ کناں ہیں اور...( ۳۳ ) ۔

٢ ۔ اس حدیث کے روایوں میں سے ایک محمدبن اسحاق بن یسار ہے ۔ جس کے بارے میں علمائے رجال میںاختلاف پایا جاتا ہے ۔ ابن نمیر کہتے ہیں : وہ مجہول ہے اور باطل احادیث کو نقل کرتاہے ۔

احمد بن حنبل کہتے ہیں : ابن اسحاق احادیث میں تدلیس کیا کرتا اور ضعیف احادیث کو قوی ظاہر کرتا( ۳۴ ) .

تیسری دلیل :

مُردوںپر گریہ کے حرام ہونے پر تیسری دلیل حضرت عمر کا عمل ہے ۔ نصر بن ابی عاصم کہتے ہیں : ایک رات حضرت عمر نے مدینے میں عورتوں کے گریے کی صدا سنی تو ان پر حملہ کردیا اور ان میں سے ایک عورت کو تازیانے مارے ، یہاں تک کہ اس کے سرکے بال کھل گئے ۔ لوگوں نے کہا : اس کے بال ظاہر ہوگئے ہیں تو جواب میں کہا :

أجل ،لاحرمة لها .( ۳۵ ) اس عورت کا کوئی احترام نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا خلیفہ کا عمل کسی مسلمان کے لئے حجت ہے۔ امام غزالی صحابہ کے عمل کے حجت ہونے کے بارے میں بیان کئے جانے نظریات کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

الأصل الثانی من الأصول الموهونة :قول الصحابی ،وقد ذهب قوم الی أنّ مذهب الصحابی حجة مطلقا ، وقوم الی أنّه الحجة ان خالف القیاس ، وقوم الی أن الحجة فی قو ل أبی بکر وعمر خاصة لقوله اقتدوا باللذین بعدی ،وقوم الی أنّ الحجة فی قول الخلفاء الراشدین اذااتفقواوالکلّ باطل عندنا ،فانّ من یجوز علیه الغلط والسّهو ،ولم تثبت عصمة عنه فلا حجة فی قوله ،فکیف یحتجّ بقولهم مع جواز الخطائ .( ۳۶ )

یہ سب اقوال باطل ہیں ۔ چونکہ جو شخص عصمت نہیں رکھتااو راس کے عمداً یا سہواً اشتباہ کرنے کا احتمال موجود ہو تواس کا قول حجت نہیں ہوسکتا،پس خطاکے جائز ہوتے ہوئے اس کے قول سے کیسے احتجاج کیا جا سکتا ہے ۔

اور پھر کتب اہل سنّت میں ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن میں خلیفہ کی رائے سنت وفعل رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سراسر مخالف دکھائی دیتی ہے ان میں سے ایک روایت یہ بھی ہے جسے امام احمد بن حنبل نے نقل کیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت عمر سے فرمایا : اے عمر! ان عورتوں کو چھوڑ دو( ۳۷ ) ۔

اور اسی طرح حضرت عائشہ کا یہ قول کہ فرمایا:

خدا رحمت کرے عمر پر یا تو فراموش کربیٹھا ہے یااس سے نقل کرنے میں اشتباہ ہواہے( ۳۸ ) ۔ ()

ابن ابی ملیکہ نے ایک داستان نقل کی ہے جومُردوں پر ماتم کرنے کی حرمت کو بیان کرنے والی ان روایات کے جعلی ہونے کی تائید کررہی ہے وہ کہتے ہیں:

حضرت عثمان کی ایک بیٹی کی وفات ہوئی تو ہم عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس کے ہمراہ اس کے تشییع جنازہ میں شریک ہوئے ۔میں ان دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا کہ ابن عمر نے رونے والوں پر اعتراض کرتے ہوئے حضرت عثمان کے بیٹے سے کہا : انہیں روکتے کیوں نہیں ہو ؟ میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ فرمایا:

مُردے پر اس کے عزیز واقارب کے گریہ کرنے کی وجہ سے عذاب نازل ہوتا ہے ۔

اس وقت ابن عباس نے ابن عمر کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا: یہ عمر کا قول ہے اس لئے کہ جب حضرت عمر زخم کی شدت کی وجہ سے بستر پرموجود تھے تو صہیب ان کے پاس آئے اور گریہ وفریاد کرنا شروع کی تو عمر اس کے اس عمل سے ناراض ہو ئے اور کہا: کیا مجھ پر گریہ کر رہے ہو جبکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایاہے : مردے کو اس کے اقارب کے گریے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔

انہوں نے اس کے بعدفرمایا: میں نے ان (عمر ) کی وفات کے بعد ان کی یہ بات حضرت عائشہ کے سامنے پیش کی تو انہوں نے یوں فرمایا:

رحم الله عمر، والله ما حدث رسول الله ،لیعذب ...ولکن رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم قال: انّ الله لیزید الکافر ببکاء أهله علیه

خدا عمر پر رحمت کرے ! پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہر گز ایسی بات نہیں فرمائی بلکہ انہوں نے تو یوں فرمایا: خداوند متعال کافر کے عزیزوں کے گریے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کر دیتا ہے ۔

اور پھر (حضرت عائشہ نے یہ حکم خدابیان ) فرمایا:

حسبکم کتاب الله ولاتزر وازرة وزرأخرٰی ( ۳۹ )

ترجمہ: اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گنا ہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔

اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہ جملہ فرمایا: خداہی ہے جو ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی ہے ۔

راوی کہتا ہے :جب عبداللہ بن عباس نے اپنی گفتگو ختم کرلی تو اس کے بعد ابن عمر خاموش رہے اور کوئی بات نہ کہی( ۴۰ ) ۔

ایک مرتبہ حضرت عائشہ کے سامنے عبداللہ بن عمر کا یہی قول نقل کیا گیا کہ وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس طرح کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میت کو عزیزو اقارب کے گریہ کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو حضرت عائشہ نے فرمایا:

ذهل ابن عمر ! انّما قال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم انّه لیعذب بخطیئته وذنبه وانّ أهله لیبکون علیه الآن .( ۴۱ )

ابن عمر فراموش کر بیٹھا ہے جبکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں فرمایاہے : مردے پر اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب نازل ہورہا ہوتا ہے جبکہ اس کے رشتہ دار اس وقت اس پرگریہ کر رہے ہوتے ہیں ۔

اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت عائشہ نے فرمایا:

انّکم لتحدّثون عن غیرکاذبین ولامکذوبین ولکن السّمع یخطی .( ۴۲ )

عمراو ر ابن عمر نے جان بوجھ کر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دی ہے بلکہ سننے میں اشتباہ کر بیٹھے ہیں۔

نتیجہ

جوکچھ بیان کیا گیاہے یہ ان ادلہ کا خلاصہ ہے جو وہابیوں کے اس ادّعا کو رد کرنے کیلئے بیان کی گئی ہیںکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مرنے والوں پر گریہ کرنے سے منع فرمایاہے۔جبکہ احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بالکل واضح طور پر ثابت ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہر گز میّت پر گریہ کرنے اور مجالس عزا برپا کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ وہ بعض روایات جو کتب اہل سنّت میں اس کی نفی کررہی ہیںیا تو ان کی سند ضعیف ہے جیساکہ ذکر کر چکے یا پھر راوی نے اسے بیان کرنے میں اشتباہ کیا ۔اس لئے کہ ایسی روایات حکم قرآن ،سیرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے مخالف ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان روایات کی نفی فرمائی ہے جس سے یہ واضح پتہ چلتا ہے کہ یا تو ان روایات کی ابتدا ہی سے کوئی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایاکہ یہ روایات خلیفہ کا اپنا قول ہے نہ کہ حدیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم .(شرح صحیح مسلم ،نووی ٥:٣٠٨.) اور یہ بھی ان بعض جعلی روایات کی طرح ہیں جو اہل سنت کی معتبر کتب میں بیان ہوئی ہیں جنہیں کوئی بھی مسلمان قبول کرنے کو تیا ر نہیں یہاں تک کہ خود اہل سنّت بھی ،یا پھر راوی نے بیان کرتے وقت توجہ نہ کی اور یہ روایات کافر پر عذاب کو بیان کر رہی ہیںجیسا کہ زوجہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی توجیہ فرمائی ۔ اورہم اسی مقدار پر اکتفا کرتے ہیں اس لئے کہ جو لوگ حق و انصاف کی پیروی کرنے والے ہیں ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔وما علینا الاّ البلاغ

انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرن

امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں : انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور ملائکہ کا امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنا طولانی ہو چکا ہے( ۴۳ ) ۔ ذیل میں ہم امام حسین علیہ السّلام پر انبیاء علیہم السّلام کے گریہ کے چند نمونے پیش کر رہے ہیں :

١۔حضرت آدم کا گریہ کرنا:

اس آیت مجیدہ (( فتلقٰی آدم من ربّه کلمات ) ...)( ۴۴ ) کی تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ جب خدا وند متعال نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول کرنا چاہی تو جبرائیل علیہ السّلام کو ان کے پاس بھیجا تاکہ انہیں یہ دعا تعلیم دیں :

یا حمید بحقّ محمّد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،یا أٔعلی بحقّ علیّ ، یا فاطر بحقّ فاطمة ، یا محسن بحقّ الحسن ،یا قدیم الاحسان بحقّ الحسین ومنک الاحسان

جیسے ہی جناب جبرائیل علیہ السّلام نام حسین پر پہنچے تویہ نام سن کر حضرت آدم علیہ السّلام کے دل پر غم طاری ہوا اورآنکھوں سے اشک جاری ہوئے،جناب جبرائیل علیہ السّلام سے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا:

یا آدم ! ولدک هذا یصاب بمصیبة تصغر عندها المصائب

اے آدم ! آپ کے اس فرزند پر ایسی مصیبت آئے گی کہ ساری مصیبتیں اس کے سامنے حقیر نظر آئیں گی

آدم علیہ السّلام نے فرمایا: وہ کونسی مصیبت ہو گی ؟ عرض کیا :

یقتل عطشانا غریباوحیدا فریدا لیس له ناصرا ولامعین ،ولو تراه یا آدم یحول العطش بینه وبین السّماء کالدّخان ، فلم یجبه أحد الاّ بالسّیوف ،وشرب الحتوف ،فیذبح ذبح الشاة من قفاه ، وینهب رحله وتشهر رأوسهم فی البلدان ، ومعهم النسوان ، کذلک سبق فی علم المنّان ،فبکٰی آدم وجبرائیل بکاء الثکلٰی ( ۴۵ )

اسے پیاسا قتل کیا جائے گاجبکہ وہ وطن سے دور ، تنھا اوربے یار ومدد گار ہوگا ۔اگرآپ اسے دیکھتے تو پیاس کی شدّت کی وجہ سے آسمان اس کی آنکھوں میں دھواں دکھائی دے گا ، ( وہ مدد کے لئے پکارے گا ) تو تلواروں اور شربت موت سے اس کا جواب دیا جائے گا ، اسے ذبح کرکے سر تن سے جدا کردیا جائے گا جیسے گوسفند کو ذبح کیا جاتا ہے ، ان کے خیموں کو لوٹ لیا جائے گا اور ان کے سروں کو مختلف شہر وں میں پھرایا جائے گا جبکہ ان کی عورتیں ان کے ہمراہ ہوں گی ، اس طرح کا پہلے ہی سے علم خدائے منّان میں گذر چکا ہے ،پس آدم و جبرائیل نے اس عورت کی مانند گریہ کیا جس کا جوان بیٹا مر گیا ہو ۔

ایک اور روایت میں بیان ہواہے کہ جب حضرت آدم و حوّا کو ایک دوسرے سے دور زمین پراُتارا گیا تو حضرت آدم علیہ السّلام جناب حوّا سلام اللہ علیہا کی تلاش میں نکلے اور چلتے چلتے سر زمین کربلا پہنچے ، وہاں پر دل پہ غم طاری ہوا اور جب قتل گاہ امام حسین علیہ السّلام پر پہنچے تو پاؤں میں لغزش آئی اور گر پڑے جس سے پاؤں سے خون جاری ہونے لگا ،اس وقت آسمان کی طرف سر بلند کیا اور عرض کیا :

الٰهی هل حدث منّی ذنب آخر فعاقبتنی به ؟ فانّی طفت جمیع الأرض ،وماأصابنی سوء مثل ما أصابنی فی هذه الأرض

فأوحی الله تعالٰی الیه : یا آدم ما حدث منک ذنب ،ولکن یقتل فی هذه الأرض ولدک الحسین ظلما ،فسال دمک موافقة لدمه

فقال آدم : یا ربّ أیکون الحسین نبیّا ؟ قال : لا ، ولکنّه سبط النّبیّ محمّد ، وقال: من القاتل له؟ قال: قاتله یزید لعین أهل السّمٰوات والأرض .فقال آدم:أیّ شیء أصنع یا جبرائیل ؟فقال: العنه یا آدم ! فلعنه أربع مرّات ومشیٰ خطوات الی جبل عرفات فوجد حوّا هناک (۴۶)

اے پروردگار! کیا میں کسی نئے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھا جس کی تو نے مجھے سزا دی ؟میں نے پورے روئے زمین کی سیر کی لیکن کہیں پہ اس طرح کی کوئی مصیبت پیش نہ آئی جو اس سر زمین پرپیش آئی ہے ۔

خدا وند متعال نے حضرت آدم پر وحی نازل کی : اے آدم ! تو نے کوئی گناہ نہیں کیا ،لیکن اس سر زمین پر تمہارے فرزندحسین کو ظلم وجفا کے ساتھ قتل کیا جائے گا،لہذا آپ کا خون ان کے خون کی حمایت میں جاری ہوا ہے۔

حضرت آدم نے عرض کیا : اے پالنے والے ! کیا حسین نبی ہوں گے ؟فرمایا: نہیں ،لیکن محمّد ۔۔صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔ کے نواسے ہوں گے ۔

حضرت آدم نے عرض کیا : اسے کون قتل کرے گا ؟فرمایا یزید جو زمین وآسمان میں ملعون ہوگا ۔آدم نے جبرائیل سے کہا : میں کیا کر سکتا ہوں ؟ اس(جبرائیل ) نے عرض کیا : اے آدم ! اس پر لعنت بھیجو ،پس انہوں( آدم علیہ السّلام) نے اس پر چار مرتبہ لعنت بھیجی ۔اور چند قدم چلنے کے بعد کوہ عرفات میں حضرت حوّا سے جا ملے ۔

٢۔ حضرت نوح کا گریہ کرنا:

جب حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی گرداب میں آئی توانہوںنے خداوند متعال سے اس کا سبب پوچھا، جواب ملا : یہ سرزمین کربلا ہے اور جبرائیل علیہ السّلام نے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت اور ان کے اہل وعیال کے اسیربنائے جانے کی خبر دی تو کشتی میں گریہ وماتم برپا ہوگیا اور آنحضرت نے بھی گریہ کیا( ۴۷ )

٣۔حضرت ابراہیم کا گریہ کرنا:

جب حضرت اسماعیل علیہ السّلام کوذبح کرنے سے بچالیا گیا تو جناب جبرائیل علیہ السّلام نے واقعہ کربلا بیان کیا اور اس پر گریہ کرنے کا اجر وثواب بتایاتو جناب ابراہیم علیہ السّلام نے کربلا میں ہونے والے مصائب پر گریہ کیا( ۴۸ ) ۔

اسی طرح جب خداوند متعال نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے سامنے زمین وآسمان کو رکھا تو انہوں نے زیر عرش پانچ نور دیکھے ،جیسے ہی پانچویں نور یعنی امام حسین علیہ السّلام پر نظر پڑی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو پڑے( ۴۹ ) ۔

٤۔ حضرت موسٰی کاگریہ کرنا :

جب حضرت موسٰی علیہ السّلام کوہ طور پر گئے تو وحی خدا ہوئی اے موسٰی ! تم جس جس کی بخشش طلب کرو گے ہم بخش دین گے سوا قاتل حسین کے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : پالنے والے وہ بزرگ ہستی کون ہے؟امام حسین علیہ ا لسّلام کا تعارف کروایا گیا ،یہاں تک کہ بتایا گیا کہ ان کا بدن بے گور و کفن زمین پر پڑا رہے گا ،ان کا مال واسباب لوٹ لیا جائے گا ،ان کے اصحاب کو قتل کردیا جائے گا، ان کے اہل وعیال کو قیدی بنا کر شہر بہ شہر پھرایا جائیگا ،ان کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا جائے گا اور ان کے بچے پیاس کی وجہ سے جان دے بیٹھیں گے ،وہ مدد کے لئے پکاریں گے لیکن کوئی مدد کرنے والا نہ ہوگا ۔

حضرت موسٰی نے یہ سن کر گریہ کیا ۔خداوند متعال نے فرمایا: اے موسٰی ! جان لے جو شخص اس پر گریہ کرے یا گریہ کرنے والی صورت بنائے تو اس پر جہنّم کی آگ حرام ہے( ۵۰ ) ۔

روایات میں نقل ہواہے کہ حضرت موسٰی علیہ السّلام نے اپنے پروردگار کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے عرض کیا :

یا ربّ لم فضّلت أمّة محمّد علی سایرالأمم ؟قال الله تعالٰی : فضّلتهم لعشر خصال .قال: وماتلک الخصال الّتی یعملونها حتٰی أمر بنی اسرائیل یعملونها ؟قال الله تعالٰی:الصلاة والزکاة والصوم والحجّ والجهاد والجمعة والجماعة والقرآن والعلم والعاشوراء ،قال موسٰی: یاربّ وما العاشورائ؟قال: البکاء والتباکی علی سبط محمّدصلّی اللّه علیه وآله وسلّم والمرثیة والعزاء علی مصیبة ولد المصطفٰی ( ۵۱ ) .

اے پروردگار! تو نے کس لئے اُمّت محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تمام امّتوں پر فضیلت دی ؟خداوندمتعال نے فرمایا:میں نے انہیں دس خصلتوں کی بناپر فضیلت دی ہے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : وہ کونسی خصلتیںہیں تاکہ میں بنی اسرائیل کوان کے بجالانے کا حکم دوں ؟فرمایا: وہ نماز ، روزہ ، زکات،حجّ ، جھاد ، نماز جماعت و جمعہ ،قرآن ،علم اور عاشورہ ہے ۔حضرت موسٰی نے عرض کیا : یہ عاشورہ کیا ہے ؟آواز آئی :وہ محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نواسے پر گریہ کرنا اور گریے والی صورت بناناہے ،فرزند مصطفٰیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصیبت پر مرثیہ پڑھنا اور عزاداری کرنا ہے ۔

٥۔ حضرت خضر کا گریہ کرنا:

جب حضرت موسٰی اور حضرت خضر نے مجمع البحرین میں ملاقات کی تو آل محمد علیہم السّلام او ران پر ڈھائے جانے والے مصائب کے بارے میں گفتگو کی تو ان کے گریہ کی آواز بلند ہوئی( ۵۲ ) ۔اور جیسے ہی کربلا کا تذکرہ ہو اتو گریہ اور بلند ہوا( ۵۳ ) ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: امیرالمؤمنین علیہ السّلام صفین سے واپسی پر جب کربلاسے گذرے تو کربلا کی خاک کی ایک مٹھی بھر کر مجھے دی اور فرمایا: جب اس سے تازہ خون جاری ہو تو سمجھ جاناکہ میرے فرزند حسین شہید کردیئے گئے ہیں۔ ابن عباس کہتے ہیں :میرے ذہن میں یہ بات ہمیشہ باقی رہی ،یہاں تک کہ ایک دن نیندسے اٹھا تو دیکھا اس خاک سے تازہ خون جاری ہے جس سے سمجھ گیا کہ امام حسین علیہ السلام شہید کر دیئے گئے ۔میں گریہ وزاری میں مشغول تھا کہ گھر کے ایک گوشے سے آواز آئی:

اصبروا یا آل الرّسول

قتل فرخ البتول

نزل الرّوح الأمین

ببکاء و عویل

اے آل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! صبر کرو ،فرزند بتول شہید کردیا گیا ۔جبرائیل امین گریہ وزاری کرتا ہوا نازل ہوا۔

میں نے گریہ کیا ،وہ دس محرم کا دن تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ آواز باقی جگہوں پر بھی سنی گئی اور وہ ندادینے والے حضرت خضر علیہ السّلام تھے( ۵۴ ) ۔

٦۔ حضرت زکریا کا گریہ کرنا:

حضرت زکریا علیہ السّلام جب بھی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، حضرت علی ، حضرت زہرائ اور امام حسن کا نام لیتے تو ان کا غم برطرف ہوجاتا لیکن جیسے ہی نام حسین لیتے تو ان پر گریہ طاری ہ وجاتا۔جناب جبرائیل علیہ السّلام نے آنحضرت کے سامنے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کا ماجر ابیان کیا تو انہوں نے گریہ کیا( ۵۵ ) ۔

٧۔ حضرت عیسٰی کا گریہ کرنا :

جب حضرت عیسٰی علیہ السّلام اور ان کے حواری کربلا سے گذرے تو انہوں نے گریہ کیا( ۵۶ ) ۔

٨۔ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گریہ کرنا:

جب جبرایئل علیہ السّلام نے امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کی خبر دی توآپ نے گریہ کیا( ۵۷ ) ۔اور اسی طرح جب سید الشہداء کی تربت ان کے سامنے ظاہر کی گئی تو اس وقت بھی گریہ کیا( ۵۸ ) ۔

راہب کاامام حسین پر ماتم کرن

ابو سعید کہتا ہے : میں اس لشکر کے ہمراہ تھا جو سر امام حسین علیہ السّلام کو شام کی جانب لے کر جا رہا تھا ۔جب ایک منزل پر نصرانیوں کی بستی کے پاس پہنچے تو شمر نے بستی والوں سے بلا کر کہا : میں ابن زیاد کے لشکر کا سردار ہوں اور ہم عراق سے شام جارہے ہیں ۔عراق میں ایک باغی نے یزید کے خلاف بغاوت اور خروج کیا تو یزید نے ایک لشکر بھیج کر انہیں قتل کروادیا ،یہ ان کے سر اور ان کی عورتیں ہیں ہمیں یہاں پر رات ٹھہرنے کے لئے جگہ دی جائے ۔

راوی کہتا ہے : راہب نے اس سر کی طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ اس سر سے نور بلندہو رہا ہے ۔اس نے شمر سے کہا : ہماری بستی میں آپ کی فوج کو ٹھہرانے کی جگہ نہیں ہے لہذا ان سروں اور قیدیوں کو ہمارے حوالے کردو ،ان کے بارے میں مت پریشان ہو اور تم لوگ بستی سے باہر رکو تاکہ اگر دشمن حملہ کردے تو دفاع کر سکو۔

شمر کو راہب کی تجویز پسند آئی ،سراور قیدی ان کے حوالے کئے اور خود بستی سے باہر رک گئے ۔راہب نے سروں کو ایک گھر میں جاکر رکھا اور وہیں پر قیدیوں کو بھی ٹھہرادیا ۔جب رات ہوئی تو اس نے دیکھا کہ گھر کی چھت پھٹی اور ایک نورانی تخت اترا، جس پر نورانی خواتین سوار ہیں اور کوئی شخص منادی دے رہا ہے کہ راستہ چھوڑ دو، یہ خواتین حضرت حوّا، صفیہ ، سارہ ، مریم ،راحیل مادر یوسف، مادر موسٰی ،آسیہ ،اور ازواج پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھیں۔

راوی کہتا ہے : سرامام حسین علیہ السّلام کو صندوق سے نکالا اور ایک ایک بی بی نے اس کا بوسہ لینا شروع کیا ،جب فاطمہ زہرا کی نوبت آئی تو راہب کہتا ہے: مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا بس ایک آواز آرہی تھی اے میرے مظلوم لال! اے میرے شہید لال! ماں کاسلام ہو ۔

جسیے ہی راہب نے یہ آوازسنی غش کھا کرگرا اور جب ہوش آیاتو سر مبارک کو اٹھایااور کافور،مشک وزعفران سے اسے دھویااور اسے اپنے سامنے رکھ کر گریہ کرتے ہوئے یہ کہنے لگا:اے بنی نو ع آدم کے سردار !میں یہ سمجھتا ہوں کہ تو ہی وہ ذات ہے جس کی تعریف تورات وانجیل میں کی گئی، اس لئے کہ دنیا و آخرت کی خواتین تجھ پر گریہ کناں ہیں( ۵۹ ) ۔

نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل سے جس شخص کو محبّت ہے

اسے نجات ملے گی یہ اک حقیقت ہے

غم حسین میں رونا ہماری فطرت ہے

وہ کیا بہائیں گے آنسو جنہیں عداوت ہے

جو شہر علم کو ان پڑھ کہیں معاذ اللہ

بنی اُمیہ میں اب تک وہی جہالت ہے

غم حسین کو دنیا مٹا سکتی نہیں

بقائے دین محمّدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ ضمانت ہے

نثار ہوتے ہیں انصار شہ پہ مہدی دیں

فضیلتوں کی میسر انہیں ریاست ہے

وجود انکا نہ ہو تو جہاں فناہوجائے

بقائے مہدی سے دنیا ودیں سلامت ہے

امام وقت کو جانے بغیر مر جائے

تواس کی موت حقیقت میں اک ہلاکت ہے

نماز فجر پڑھیں ترک راحتوں کو کریں

جہاد نفس ہی سب سے بڑی عبادت ہے

چمن جو کرب وبلا کا سجا ہے اکبر

جناب فاطمہ زہراء کی یہ ریاضت ہے