گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری 0%

گریہ اور عزاداری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

گریہ اور عزاداری

مؤلف: ناظم حسین اکبر
زمرہ جات:

مشاہدے: 7124
ڈاؤنلوڈ: 2047

تبصرے:

گریہ اور عزاداری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7124 / ڈاؤنلوڈ: 2047
سائز سائز سائز
گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری

مؤلف:
اردو

امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنے کی فضیلت

امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنے کی فضیلت کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ ان احادیث مبارکہ میں امام حسین علیہ السّلام کی مظلومیت پر گریہ کرنے کے بارے میں جو فضیلت نقل ہوئی ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ اس امام مظلوم نے جو مصائب برداشت کئے ہیں اصحاب کو آنکھوںکے سامنے تڑپتے دیکھنا، بچوں کی پیاس ، بھائیوں کی شہادت ، عباس جیسے بھا ئی کے بازوؤں کا قلم ہونا ، علی اکبر جیسے حسین بیٹے کے سینے سے برچھی کا پھل نکالنا ، چھ ماہ کے شیر خوار کے گلے میں سہ شعبہ تیر کا لگتے دیکھنا یہ وہ مصائب ہیں جن کے مقابلے میں یہ ثواب کچھ بھی نہیں ہے ؟!

تصور کا فراز عرش تک توجانا آساں ہے

نشیب کربلا تک فکر انسانی نہیں جاتی

کونسا ایسا نبی ہے جس نے اتنے سارے مصائب برداشت کئے ہوں ؟ جناب یوسف علیہ السّلام جب کئی سال بعد اپنے باپ حضرت یعقوب علیہ السّلام کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تو حضرت یعقوب علیہ السّلام نے سب سے پہلے یہ کہا : اے میرے فرزند ! مجھے یہ بتا کہ جب تمہارے بھائی تمہیں میرے پاس سے لے کر گئے تھے تو انہوں نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ حضرت یوسف نے عرض کیا: بابا جان ! مجھے اس سلسلے میں معاف کرئیے گا ،اس لئے کہ جناب یوسف جانتے تھے کہ میرے والد گرامی اسے برداشت نہیں کر پائیں گے ۔حضرت یعقوب نے فرمایا: اچھا بیٹا اگر سارا واقعہ نہیں بتاتے تو کچھ ہی بتا دو

کہا: بابا جان ! جب مجھے کنویں کے پاس لے گئے تو مجھ سے کہا : اپنا پیراہن اتارو۔میں نے کہا : اے بھائیو!کچھ خوف خدا کرو اور مجھے برہنہ مت کرو ، انہوں نے چاقو نکالا اور کہنے لگے : اگر پیراہن نہیں اتارو گے تو تمہیں قتل کر ڈالیں گے ، میں نے مجبورا پیراہن اتار ا توانہوں نے مجھے اُٹھا کر کنویں میں پھینک دیا ۔جیسے ہی جناب یعقوب علیہ السّلام کی یہ مصیبت سنی تو فریاد بلند کی اور غش کھا گئے( ۶۰ ) ۔

جناب یعقوب علیہ السّلام نے حضرت یوسف پر آنے والی مصیبت کے کئی سال بعد اسے سنا اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ جناب یوسف سامنے صحیح وسالم موجود تھے لیکن پھر بھی برداشت نہ کرسکے ،مگر امام حسین علیہ السّلام دین خدا بچانے کی خاطر اپنے جوان بیٹے کا لاشہ اپنے ہاتھوںسے اٹھا کر لائے اور پھر بھی شکر خدا کرتے رہے۔ تو وہ مصائب جو امام حسین علیہ السّلام نے دین خدا کی پاسداری کی خاطر برداشت کئے ان کے مقابلے میں اگر کسی کو ان پر آنسو بہانے کے بدلے میں جنّت مل جائے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ ذیل میں ہم ان بعض احادیث کو نقل کر رہے ہیں جن میں امام حسین علیہ السّلام کی مظلومیت پر گریہ کرنے کا ثواب اور فضیلت بیان کی گئی ہے ۔

پہلی حدیث

امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں:

من ذکرنا أو ذکرنا فخرج من عینه دمع مثل جناح بعوضة ،غفر الله له ذنوبه ولوکانت مثل زبد البحر ( ۶۱ )

جو شخص ہمیں یاد کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر جائے اور اس کی آنکھ سے مچھر کے پرکے برابر آنسو نکل آئے توخد اوند متعال اس کے گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔

ایک مرتبہ جب علاّمہ بحرالعلوم قدّس سرّہ سامراء جارہے تھے تو راستے میں امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنے کی وجہ سے گناہوں کے بخشے جانے کے بارے میں فکر کرنے لگے کہ کیسے ممکن ہے خدا وند متعال ایک آنسو کے بدلے میں کسی انسان کے سارے گناہ بخش دے ؟

اتنے میں ایک گھوڑے سوار سامنے آیا ،سلام کیا اور کہا :آپ پریشان نظر آرہے ہیں ؟اگر کوئی علمی مسئلہ ہے تو بتائیں شاید میں آپ کی مشکل کو حل کر سکوں ۔

سید بحر العلوم نے کہا:میں اس فکر میں مشغول تھا کہ کیسے خدا وند متعال امام حسین علیہ السّلام کے زائرین اور ان پر گریہ کرنے والوںکو اس قدر ثواب عطا کرے گا کہ زائر کے ہر قدم کے بدلے میں ایک حج و عمرے کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور ان پرگریہ کرنے والے کوایک قطرہ اشک کے بدلے میں بخش دے گا ؟

وہ گھوڑا سوار کہنے لگا : تعجب مت کرو ۔میں تمہیں ایک داستان سناتا ہوں جس سے تمہاری مشکل حل ہوجائے گی ۔ایک مرتبہ ایک بادشاہ شکار کے لئے نکلا تو شکار کے پیچھے گھوڑا دوڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے دور نکل گیا ،(پیاس نے اس پرغلبہ کیا )تو بیابان میں ایک خیمہ دکھائی دیا اس کے پاس پہنچا تو دیکھا ایک بوڑھی خاتون اپنے بیٹے کے ہمراہ موجود ہے ان کے پاس ایک بکری تھی جس کے دودھ سے وہ اپنا شکم سیر کیا کرتے اور کچھ نہ تھا ۔(انہوں نے جب بادشاہ کو دیکھا کہ بھوکا و پیاسا ہے) تو وہ بکری ذبح کر کے اسے کھلا دی جبکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ بادشاہ ہے ،انہوں نے یہ کام فقط مہمان کے احترام میں کیا ۔بادشاہ نے رات وہیں پہ گذاری اور صبح واپس اپنے ساتھیوں کے پاس پلٹا اور ان سے ساری داستان بیان کی ،کہ میں یہاں سے بہت دور نکل گیا تھا بھوک وپیاس نے مجھ پر غلبہ کیا تو ایک خیمہ میںداخل ہو اوہاں پہ ایک بڑھیا موجود تھی جو مجھے نہیں جانتی تھی لیکن اس کے باوجود اپنا سارا سرمایہ مجھ پر قربان کردیا۔اب میں تم سے یہ مشورہ لینا چاہتا ہوں کہ اس بوڑھی عورت کے اس احسان کا بدلہ کیسے چکا سکتا ہوں؟

ایک نے کہا : اسے ایک سو گوسفند بخش کردو ۔دوسرے نے کہا : اسے ایک سو گوسفند اور ایک سو اشرفی بخش دو ۔ تیسرے نے کہا : فلاں کھیتی والی زمین اسکے حوالے کردو۔

بادشاہ نے کہا : میں اسے جتنا بھی دے دوں پھر بھی کم ہے اگر اپنی سلطنت اور تاج دے دوں تب اس کا بدلہ چکا سکتا ہوں، اس لئے کہ اس کے پاس جو کچھ تھا سارے کاسارا مجھ پر قربان کر دیا ،لہذا مجھے بھی چاہئے کہ جو کچھ میرے پاس ہے اسے عنایت کر دوں۔

امام حسین علیہ السّلام کے پاس بھی جو کچھ تھا اپنامال،اپنی اولاد ، اپنے بھائی، اپنے اہل وعیال، اپنی جان سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیاتو اب اگر خداوند متعال ان کے زائرین اور ان پر گریہ کرنے والوں کو اس قدر اجر وثواب عطا کردے تو اس پر تعجب کیسا ۔یہ کہہ کر وہ گھوڑے سوار وہاں سے غائب ہو گیا( ۶۲ ) ۔

دوسری حدیث

ابان بن تغلب اما م صادق علیہ السّلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

نفس المهموم لظلمنا تسبیح وهمّه لنا عبادة وکتمان سرّنا جهاد فی سبیل الله ثمّ قال أبو عبد الله علیه السّلام : یجب أن یُکتب هذا الحدیث بالذّهب ( ۶۳ )

ہمارے ظلم پر غمزدہ سانس لینا تسبیح ہے اور ہماری خاطر غمگین ہو نا عبادت ہے اور ہمارے راز کو مخفی رکھنا جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔اور پھر فرمایا: ضروری ہے کہ اس حدیث کو سونے سے لکھا جائے ۔

تیسری حدیث

امام رضا علیہ السّلام فرماتے ہیں:

من تذکّر مصابنا فبکٰی وأبکٰی لمّا ارتکب منّا،کان معنافی درجتنا یوم القیامة ،ومن ذکرنا بمصابنا فبکٰی وأبکٰی لم تبک عینه یوم تبکٰی العیون ،ومن جلس مجلسا یحیی فیه أمرنا لم یمت قلبه یوم یموت القلوب. ( ۶۴ )

جو شخص ہم پرآنے والے مصائب کو یاد کر کے ان پر روئے یا دوسروں کو رلائے تو روز قیامت اس کا درجہ ہمارے برابر ہوگا ۔اور جو شخص ہماری مصیبت کو بیان کر کے روئے یا رلائے تو وہ اس دن اس کی آنکھ گریہ نہ کرے گی جس دن سب آنکھیں گریہ کناں ہوں گی ۔اور جو شخص ایسی مجلس میں بیٹھے جس میں ہمارے امر کو زندہ کیا جا رہا ہو تو اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہو گا جس دن سب دل مردہ ہوں گے ۔

چوتھی حدیث

سعد ازدی نے روایت نقل کی ہے کہ امام صادق علیہ السّلام نے فضیل سے فرمایا:

تجلسون وتحدّثون ؟ قال: نعم،جعلت فداک .قال: انّ تلک المجالس أحبّها ،فأحیو اأمرنا یافضیل ، فرحم الله من أحیا أمرنا. یا فضیل من ذکرناأو ذُکرنا عنده فخرج من عینه مثل جناح الذباب غفر الله له ذنوبه ولوکانت أکثر من زبد البحر ( ۶۵ )

کیا تم مل بیٹھ کر گفتگو کرتے ہو ؟عرض کیا: ہاں،میں آپ پر قربان ہوں ۔ فرمایا: بے شک میں ان مجالس کو دوست رکھتا ہوں ،پس اے فضیل ! ہمارے امر کو زندہ رکھو،خدا کی رحمت ہو اس پر جو ہمارے امر کو زندہ رکھے ۔

اے فضیل !جو شخص ہمارا ذکر کرے یا اس کے پاس ہمارا ذکر کیا جائے اور اس کی آنکھ سے مچھر کے پرکے برابرآنسو نکل آئے تو خداوند متعال اس کے گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔

پانچویں حدیث

محمد بن ابی عمّارہ کوفی نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن جعفر علیہما السّلام سے سنا وہ فرما رہے تھے :

من دمعت عینه فینا دمعة لدم سفک لنا،أو حقّ لنا انقضائ،أوعرض انتهک لنا، أو لأحد من شیعتنا بوّاه الله تعالٰی بها من الجنّة حُقبا . ( ۶۶ )

جو شخص ہمارے خون کے بہنے یا ہمارے حق کے غصب ہونے یا ہماری اورہمارے شیعوں میں سے کسی کی حرمت کے پامال ہونے پرایک قطرہ آنسو بہائے تو خدا وند متعال اسے اس آنسو کے بدلے میں ہمیشہ کے لئے جنّت میں جگہ عطافرمائے گا۔

ہر درد لادوا کی دوا ہے کربلا کے بعد

بن جائے گی یہ خاک ،شفا کربلا کے بعد

تلوار ہارتی رہی سر جیتتے رہے

ایسا تو معرکہ نہ ہوا کربلا کے بعد

اصغرسے ہار مان لی ظالم نے اس طرح

پھر کوئی حرملہ نہ ہوا کربلا کے بعد

بیعت کا سوال نہ اب اٹھے گا کبھی

نوک سناں سے شہ نے کہا کربلا کے بعد

چہرے اب نہ بال کسی کے ہٹائے گی

محتاط ہو گئی ہے ہو ا کربلا کے بعد

ظلم وستم کی دھوپ سے اسلام بچ گیا

زینب کی اوڑھ لی جو ردا کربلا کے بعد

عباس کی تھے جان وفا کربلا تلک

عباس اب ہے جان وفاکربلا کے بعد

عباس کے لبوں کو پانی نہ چھو سکا

قدموں میں تھک کے بیٹھ گیا کربلاکے بعد

کہنا خطائے حر کو خطابھی ہے اک خطا

رومال سیّدہ نے کہا کربلا کے بعد

اصغر تمہارے خشک لبوں کا یہ فیض ہے

پیاسہ نہ کوئی طفل رہا کربلا کے بعد

سینے پہ اپنے زخم بہتر لئے ہوئے

بیمار بانٹتا ہے دواکربلا کے بعد

کعبہ گواہ حرمت کعبہ گواہ ہے

زندہ ہوا ہے دین خداکربلا کے بعد

پہلے ان آنسوؤں کی تو قیمت نہ تھی کوئی

یہ قیمتی ہوئے ہیں رضا کربلا کے بعد

چھٹی حدیث

امام صادق علیہ نے فرمایا:

نظر امیرالمؤمنین صلوات الله علیه الی الحسین (علیه السّلام ) فقال: یا عبرة کلّ مؤمن ! فقال : أنا یاابتاه ؟ قال : نعم یا بنیّ ( ۶۷ )

امیرالمؤمنین علیہ السّلام نے حسین علیہ السّلام پر نگاہ ڈالی اور فرمایا:اے ہر مومن کی آنکھ کے آنسو ۔عرض کیا : بابا جان! میں ہر مومن کی آنکھ کا آنسو ہوں؟فرمایا: ہاں ،میرے فرزند۔

ساتویں حدیث

حسن بن علی بن عبداللہ نے ابی عمّارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

ما ذکر الحسین بن علیّ علیه السّلام عند أبی عبد الله علیه السّلام فی یوم قطّ فرئی أبو عبدالله مُبتسما فی ذلک الیوم الی اللیل وکان أبو عبدالله یقول : الحسین عبرة کلّ مؤمن. ( ۶۸ )

جب کبھی امام صادق علیہ السّلام کے پاس امام حسین علیہ السّلام کاتذکر ہ کیا جاتا تو وہ پورا دن ان کے لبوں پر مسکراہٹ دکھائی نہ دیتی اور فرمایا کرتے: حسین ہر مومن کی آنکھ کا آنسو ہیں۔

آٹھویں حدیث

امام باقر علیہ السّلام نے اپنے والد بزرگوار امام زین العابدین علیہ السّلام سے نقل کیا ہے کہ وہ فرمایا کرتے:

أیّما مؤمن دمعت عیناه لقتل الحسین بن علی علیهما السّلام دمعة حتّی تسیل علی خدّه بوّأه الله بها فی الجنّة غرفایسکنها أحقابا ،وأیّما مؤمن دمعت عیناه دمعا حتّی تسیل علی خدّه لأذی مسّنا من عدّونا فی الدّنیا بوّأه الله مبوّأ صدق فی الجنّة ،وأیّما مؤمن مسّه أذی فینا فدمعت عیناه ،حتّی یسیل دمعه علی خدّیه من مضاضة ما أوذی فینا صرف الله عن وجهه الأذٰی وآمنه یو م القیامة من سخط النّار .( ۶۹ )

جس شخص کی آنکھ سے حسین بن علی علیہما السّلام کی شہادت پر آنسو نکل کر اس کے رخسار پر بہے تو خداوند متعال اسے اس کے بدلے میں ہمیشہ کے لئے جنّت میں مکان عطا فرمائے گا، اور جس شخص کے رخسار پر ہمارے اوپردشمن کی طرف سے ڈھائے گئے مصائب پر آنسو جاری ہو تو خدا وند متعال اسے جنّت میں صدیقین کا مرتبہ عطاکرے گا ،اور جسے ہماری راہ میں کوئی اذیت پہنچے اور اس کے رخسار پر آنسو جاری ہو جائے تو خداوند متعال اسے رنج وغم سے محفوظ رکھے گا اور اسے روز قیامت جہنّم کے غضب سے امان میں رکھے گا ۔

نویں حدیث

تفسیر امام حسن عسکری علیہ السّلام میں نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

جب یہ آیت مجیدہ واذ أخذنا میثاقکم لا تسفکون دمائکم... یہودیوں اور ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے باندھے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا ،انبیاء کو جھٹلایا اور خدا کے دوستداروں کو قتل کیا ۔تو اسوقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اس امّت کے یہودیوں کی خبر دیتا ہوں جو اُن سے شباہت رکھتے ہیں۔لوگوں نے عرض کیا :یارسو ل اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! وہ کیسے ؟

فرمایا:میری امّت کاایک گروہ جو اپنے کو اس امّت اوراس ملّت میں شامل سمجھتا ہے میری آل کے افضل ترین افراد کو قتل کرے گا ، میری سنّت اور شریعت کو بدل ڈالے گا اور میرے دو فرزند حسن وحسین کواسی طرح شہید کرے گا جس طرح پہلے والے یہودیوں نے زکریا اور یحییٰ کو شہید کیا ۔خداوند متعال ان پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح اُن پر لعنت کی تھی اور ان کی اولاد پر حسین مظلوم کی نسل میں سے ایک ہادی و مہدی مبعوث کرے گا جو اپنے دوستوں کی تلواروں سے انہیں جہنم کی آگ میں جلا ڈالے گا ۔

خبردار! خداوندمتعال نے حسین کے قاتلوں ، ان کو دوست رکھنے والوں ، ان کی مدد کرنے والوں اور بغیر تقیہ کے ان پر لعنت نہ کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے ۔

خداوندمتعال اپنی رحمت و شفقت سے حسین پر گریہ کرنے والوں پر درود بھیجتا ہے اور ان پر بھی درود بھیجتا ہے جو ان کے دشمنوں پر لعنت بھیجے ۔آگاہ ہوجاؤ! جو لوگ حسین کے قتل پر راضی ہیں وہ ان کے قتل میں شریک ہیں ۔آگاہ ہوجاؤ! انہیں شہید کرنے والے ، ان کے دشمنوںکی مدداوران کی پیروی کرنے والوں کا دین خداسے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خداوند متعال ملائکہ مقرّبین کوحکم فرمائے گا کہ حسین کی مصیبت اور ان کی عزاداری میں بہائے جانے والے آنسوؤں کو جمع کرکے خازن جنّت کے پاس لے جائیں تاکہ وہ انہیں آب حیات میں مخلوط کردے جس سے اس کی خوشبو میں ہزار برابر اضافہ ہو جائے گا۔

اور ملائکہ ان کے قتل پر خوش ہونے والوں کے آنسوؤں کواکٹھا کرکے انہیں جہنّم کے مشروبات میں ڈال دیںگے جو خون ،پیپ اور بدبودار پانی کی صورت اختیار کرلیں گے اور اس سے جہنّم کی گرمی میں شدّت آجائے گی تاکہ آل محمّد علیہم السّلام کے دشمنوں پر عذاب کو ہزار برابر کردیاجائے( ۷۰ ) ۔

دسویں حدیث

امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السّلام فرماتے ہیں:

انّ الله تبارک وتعالٰی اطّلع الی الأرض فاختارنا ،واختار لنا شیعة ینصروننا ، ویفرحون لفرحنا ویحزنون لحزننا ،یبذلون أموالهم وأنفسهم فینا ،أولئک منّا و الینا وقال: کلّ عین یوم القیامة باکیة وکلّ عین یوم القیامة ساهرة الاّ عین من اختصّه الله بکرامته وبکٰی علی من ینتهک من الحسین وآل محمّد ( ۷۱ )

خدا وند متعال زمین کی طرف متوجہ ہوا تو ہماراانتخاب کیا اور ہمارے لئے شیعوں کاانتخاب کیا جو ہماری مدد ونصرت کرتے ہیں،ہماری خوشی میں خوش اور ہماری مصیبت پر غمگین ہوتے ہیں،ہماری راہ میں اپنا مال وجان قربان کرتے ہیں وہ ہم میں سے ہیں اور ہماری ہی جانب آئیں گے ۔(اور پھر فرمایا:) روز قیامت ہر آنکھ گریہ کناںا ور بیدار ہوگی سوا اس آنکھ کے جسے خدا نے اپنی کرامت اور حسین و آل محمد کی بے حرمتی پررونے کی وجہ سے انتخاب کر لیا ہو ۔

گیارہویں حدیث

ریّان بن شبیب نقل کرتے ہیں کہ میں پہلی محرم کے دن امام رضاعلیہ السّلام کی خدمت میں شرفیاب ہواتوآپ نے مجھ سے فرمایا:

یابن شبیب !أصائم أنت ؟فقلت :لا ،فقال: انّ هذاالیوم هوالیوم الّذی دعا فیه زکریّا علیه السّلام ربّه عزّوجلّ فقال: (ربّ هب لی من لدنک ذرّیة طیّبة انّک سمیع الدّعا )(۷۲) فاستجاب الله له وأمر الملائکة ،فنادت زکریّا وهو قائم یصلیّ فی المحراب أنّ الله یبشّرک بیحیٰی ، فمن صام هذا الیوم ثمّ دعا الله عزّوجلّ استجاب الله له کما استجاب لزکریّا علیه السّلام

ثمّ قال : یابن شبیب ! انّ المحرّم هوالشّهر الّذی کان أهل الجاهلیة فیما مضٰی یحرّمون فیه الظلم والقتال لحرمته ،فما عرفت هذه الأمّة حرمة شهرها ولا حرمة نبیّهاصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،لقد قتلوا فی هذا الشهر ذریّته ، وسبوا نسائه ، وانتهبوا ثقله ، فلا غفر الله لهم بذلک أبدا

یابن شبیب ! ان کنت باکیا لشیء فابک للحسین بنعلی بن أبی طالب علیهم السّلام فانّه ذبح کما یذبح الکبش ، وقتل معه ثمانیة عشر رجلا ، مالهم فی الاأرض شبیه ،ولقدبکت السّماوات السّبع والأرضون لقتله ، ولقد نزل الی الأرض من الملائکة أربعة آلاف لنصره ،فوجدوه قد قتل ،فهم عندقبره شعث غُبر الی أن یقوم القائم ، فیکونون من أنصاره ، وشعارهم یالثارات الحسین

یابن شبیب ! لقد حدّثنی أبی عن أبیه عن جدّه علیه السّلام أنّه: لمّا قتل الحسین جدّی صلوات الله علیه أمطرت السّماء دما وترابا أحمرا

یابن شبیب ! ان بکیت علی الحسین حتّی تسیر دموعک علی خدّیک ،غفر الله لک کلّ ذنب أذنبته صغیرا کان أو کبیرا ،قلیلا أو کثیرا

یابن شبیب ! ان سرّک أن تلقٰی الله عزّ وجلّ ولا ذنب علیک فزر الحسین علیه السّلام

یابن شبیب ! ان سرّک أن تسکن الغرف المبنیّة فی الجنّة مع النّبیّ صلّی الله علیه وآله وسلّم فالعن قتلة الحسین علیه السّلام

یابن شبیب ! ان سرّک أن یکون لک من الثواب مثل ما لمن استشهد مع الحسین ، فقل متٰی ما ذکرته :( ( یالیتنی کنت معهم فأفوز فوزا عظیما ) )( ۷۳ )

یابن شبیب ! ان سرّک أن تکون معنا فی الدرجات العُلٰی من الجنان ، فاحزن لحزننا ،وعلیک بولایتنا ،فلو أنّ رجلا تولّیٰ حجرا حشره الله معه یو م القیامة ( ۷۴ ) .

اے ابن شبیب !کیا روزے سے ہو ؟ میں نے عرض کیا : نہیں ،فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن حضرت زکریا علیہ السّلام نے دعا مانگی کہ اے پالنے والے مجھے نیک اولاد عطا فرما ۔توخداوند متعال نے ان کی دعا قبول کی اور ملائکہ کو حکم دیا (کہ انہیں بشارت دیں) ملائکہ نے ندادی اور یحیٰی کی بشارت دی جبکہ وہ محراب میں نماز ادا کررہے تھے۔

پھر فرمایا: اے ابن شبیب! محر م وہ مہینہ ہے جس میں اہل جاہلیت اس کے احترام کی خاطر ظلم وقتال کو حرام سمجھتے تھے لیکن اس امّت نے اس مہینے اور اپنے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حرمت کا خیال نہ رکھا ۔اس مہینے میں اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آل کو قتل کیا ،ان کی عورتوں کو قیدی بنایااور ان کا مال لوٹ لیا،خداوندمتعال ان کے اس گناہ کو ہر گز نہیں بخشے گا ۔

اے ابن شبیب! اگر کسی پر گریہ کرنا چاہتے ہو تو حسین بن علی بن ابیطالب علیہم السّلام پر گریہ کرو اس لئے کہ انہیں اس طرح ذبح کیا گیا جس طرح گوسفند کو ذبح کیا جاتاہے اور ان کے ساتھ ان کے اہل بیت کے اٹھارہ ایسے مردوں کو شہید کیا گیا جن کی زمین پر کوئی مثال نہ تھی ۔

بے شک ساتوں آسمان و زمین ان پر روئے اور ان کی مدد ونصرت کے لئے آسمان سے چار ہزار ملائکہ نازل ہوئے لیکن جب پہنچے تو شہید کردئیے جا چکے تھے لہذاوہ ملائکہ خاک آلود ہ بالوں کے ساتھ وہیں ان کی قبر پہ رک گئے یہاں تک کہ قائم کاظہور ہو اور وہ ان کے ا نصار بنیں اور ان کا شعار یہ ہے یا لثارات الحسین ۔

اے ابن شبیب !میرے باپ نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جدّ سے یہ نقل کیا :جب میرے داداحسین کو شہید کیا گیا تو آسمان نے سرخ خون اور خاک برسائی ۔

اے ابن شبیب! اگر تو حسین پر اس قدر آنسو بہائے کہ تیرے رخسار پر جاری ہ وجائے تو خداوند متعال تمہارے سب چھوٹے بڑے گناہوں کو معاف کر دے گا چاہے وہ کم ہوں یا زیادہ ۔

اے ابن شبیب ! اگر تو یہ چاہتا ہے کہ جب خداکی بارگاہ میں پیش ہو تو گناہوں سے پاک ہو توحسین علیہ السّلام کی زیارت کر ۔

اے ابن شبیب! اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ جنّتی مکانوں میں رہنا پسند کرتا ہے تو حسین علیہ السّلام کے قاتلوں پر لعنت بھیج ۔

اے ابن شبیب ! اگر تو یہ چاہتا ہے کہ تیرا شمار ان لوگوں کے ساتھ ہو جو حسین علیہ السّلام کے ساتھ شہید ہوئے تو جب بھی انہیں یاد کرے یہ کہہ:( یا لیتنی کنت معهم فأفوز فوزا عظیما ) .(سورہ نساء :٧٣.)

اے ابن شبیب ! اگر تو یہ پسند کرتا ہے کہ ہمارے ساتھ جنّت کے بلند درجات پر فائز ہو تو ہمارے غم میں غم مناؤ اور ہماری خوشی میں خوش ہو ،اور تجھ پر ہماری ولایت واجب ہے ،اس لئے کہ اگر کوئی شخص پتھر سے محبّت کرتا ہے تو خداوند متعال اسے اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔

عمرو لیث ایک شیعہ بادشاہ تھے ایک دن اپنے لشکرکی دیکھ بھال کے لئے نکلے تو معلوم ہوا کہ اس کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہو چکی جیسے ہی سنا اپنے کو گھوڑے سے گرایا اور سر سجدے میں رکھ کر گریہ کرنے لگے ۔

جب تھوڑی دیر بعد سر سجدے سے اٹھایا تو ایک غلام نے آگے بڑھ کر کہا : اے بادشاہ سلامت ! جس کے پاس اتنے غلام ،اتنا بڑالشکراور پھر کوئی مشکل بھی نہ ہوتو اسے تو چاہئے کہ دوسروں کو رلائے اور خود نہ روئے ،دوسروں پرہنسے اور کسی کو اپنے اوپرہنسنے نہ دے ۔اس گریے کا سبب کیا ہے؟

عمرولیث نے کہا:جب میں نے اپنے لشکر کی تعداد دیکھی تو مجھے واقعہ کربلا یاد آگیا اور میں یہ آرزو کرنے لگاکہ اے کاش! میں اس لشکرکے ساتھ کربلا کے صحرا میں ہوتا اور فاسقوں کی گردنیں اڑاتا یا پھرخود اپنی جان قربان کر کے بلند درجات پر فائز ہوتا ۔

جب اسے موت آئی تو ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ وہ سر پر قیمتی تاج سجائے ،خوبصورت کمر بند باندھے ہوئے ہے ا ور اس کے دائیں بائیں غلام اور سامنے حوریں ہیں ۔جب اس پوچھا گیا کہ یہ مقام تجھے کیسے ملا تو کہا: خداوند متعال نے میرے دشمنوں کو مجھ سے راضی کردیااور میرے گناہوں کو بخش دیا اور یہ اس آرزو کی وجہ سے جو میں نے امام حسین علیہ السّلام کی مدد ونصرت کے لئے کی تھے( ۷۵ ) ۔

بارہویں حدیث

امام صادق علیہ السّلام نے زرارہ سے فرمایا:

)یازرارة(انّ السّماء بکت علی الحسین علیه السّلام أربعین صباحا بالدّم ، وانّ الأرض بکت أربعین صباحا بالسّواد ، وانّ الشّمس بکت أربعین صباحابالکسوف والحمرة ، وانّ الجبال انقطعت وتنثرت،وانّ البحار تفجّرت،وانّ الملائکة بکت أربعین صباحاعلی الحسین ، ومااختضبت منّا امرأة و لاادهنت ولااکتحلت حتّی أتینا رأس عبید الله بن زیاد( لعنه الله) وما زلنا فی عبرة بعده،وکان جدّی اذاذکر ه بکٰی حتّی تملأ عیناه لحیته ،وحتّی یبکی لبکائه رحمة له من رء اه ...( ۷۶ ) ۔

اے زرارہ ! بے شک آسمان چالیس دن تک حسین علیہ السّلام پرخون رویا،زمین نے چالیس دن تک سیاہی کی صورت میں ان پرگریہ کیا،سورج نے چالیس دن تک گرہن اورسرخی کی صورت میں ان پر گریہ کیا، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر پراکندہ ہوگئے ، دریا کی موجوں میں شدّت آگئی ، اس مظلوم کی شہادت کے بعد ہماری عورتوں نے نہ تو مہندی لگائی،نہ بالوں میں تیل ،نہ آنکھوں میں سرمہ اور نہ ہی پاؤں میں پازیب ڈالی ،یہاں تک کہ عبید اللہ بن زیاد ملعون کا سر ہمارے پاس لایاگیا ۔ اس واقعہ کے بعد ہم ہمیشہ گریہ کناں ہیں۔(اورپھر فرمایا:)میرے داداامام زین العابدین علیہ السّلام کی یہ عادت تھی کہ جب بھی

اس مصیبت کا تذکرہ کرتے تو گریہ کرنے لگتے،یہاں تک کہ ریش مبارک آنسوؤں سے ترہو جاتی۔اور اس قدر شدید گریہ کرتے کہ ہر دیکھنے والا ان پر ترس کھاتے ہوئے گریہ کرنے لگتا۔

تیرہویں حدیث

ابن عباس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک طولانی روایت نقل کی ہے جس کا ایک حصّہ ہم یہاں پر نقل کریں گے کہ جب جناب جبرائیل علیہ السّلام نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کی خبر دی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امام حسین علیہ السّلام کو بتایاتوانہوں نے کہا:

...وأنایاجدّاه ! وحقّ ربیّ وحقّک أن لم یدخلواالجنّة لم أدخل قبلهم ،وأطلب من ربّی أن یجعل قصورهم مجاورة لقصری یوم القیامة

اے ناناجان! مجھے اپنے ربّ اور آپ کے حق کی قسم ،میں اس وقت تک جنّت میں داخل نہیں ہوں گا جب تک کہ وہ داخل نہ ہو جائیں۔اور میں اپنے ربّ سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ روز قیامت ان کے قصر کو میرے قصر کے ساتھ قراردے۔

چودہویں حدیث

علاّمہ مجلسی رحمة اللہ علیہ نے نقل کیا ہے :

لمّا أخبرالنّبیّ ابنته فاطمة بقتل ولدها الحسین ومایجری علیه من المحن بکت فاطمة بکاء شدیدا ،وقالت: یاأبه متٰی یکون ذلک ؟قال:فی زمان خال منّی ومنک ومن علیّ ،فاشتدّ بکائها وقالت: یاأبه ،فمن یبکی علیه ؟ومن یلتزم باقامة العزاء له؟فقال النّبیّ:یافاطمة انّ نساء اُمّتی یبکون علی نساء أهل بیتی ،ورجالهم یبکون علی رجال اهل بیتی،ویجدّدون العزاء جیلا بعد جیل،فی کلّ سنة فاذا کان یوم القیامة تشفعین أنت للنساء وأنا للرّجال وکلّ من بکی منهم علی مصائب الحسین أخذنا بیده وأدخلناه فی الجنّة .یا فاطمة کلّ عین باکیة یوم القیامة الاّ عین بکت علی مصائب الحسین فانّها ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنّة ( ۷۷ ) ۔

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت فاطمہ کو ان کے بیٹے حسین کی شہادت اور ان پر آنے والے مصائب کی خبر دی تو انہوں نے شدید گریہ کیا اور عرض کیا:اے باباجان! یہ واقعہ کب پیش آئے گا ؟فرمایا: جب نہ میں ہوں گا ،نہ تم ہو گی اور نہ علی ہوں گے ۔فاطمہ زہرائ نے مزید گریہ کیااور عرض کیا:باباجان ! کون ان پر گریہ کرے گا؟اورکون ان کی عزاداری برپاکرے گا؟فرمایا: اے فاطمہ ! میری امت کی عورتیں ہمارے اہل بیت کی عورتوں پر روئیں گی اور ان کے مرد ہمارے مردوں پر روئیں گے ، اور ان کی عزاداری ہر سال ایک نسل سے دوسری نسل زندہ رکھے گی ،اور جب روزقیامت آئے گا تو تم عورتوں کی شفاعت کرو گی اور میں مردوں کی ۔اور جس جس نے حسین پر گریہ کیا ہو گا ہم اس کا ہاتھ تھام کر اسے جنّت میں داخل کردیں گے۔اے فاطمہ ! روز قیامت ہر آنکھ گریہ کنا ں ہوگی سوا اس آنکھ کے جس نے حسین پر گریہ کیا ہوکہ وہ اس دن جنّت کی نعمتوں کی وجہ خوشحال ہوگی۔