گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری 0%

گریہ اور عزاداری مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

گریہ اور عزاداری

مؤلف: ناظم حسین اکبر
زمرہ جات:

مشاہدے: 7126
ڈاؤنلوڈ: 2050

تبصرے:

گریہ اور عزاداری
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7126 / ڈاؤنلوڈ: 2050
سائز سائز سائز
گریہ اور عزاداری

گریہ اور عزاداری

مؤلف:
اردو

گریہ نہ کرنے کے اسباب

آنکھ سے آنسو جاری نہ ہونے کے اسباب وہی امور بیان کئے گئے ہیں جو سنگدلی اور شقاوت قلب کا باعث بنتے ہیںسنگدلی ان امور میںسے ہے جو انسان کو الطاف ربّانی ،نعمات پروردگاراور دنیا و آخرت کی سعادت کی راہوں سے دور رکھتے ہیں۔اسی لئے تو آئمہ معصومین علیہم السّلام نے اپنے چاہنے والوں کو یہ درس دیاہے کہ ہمیشہ پروردگار سے دل کی سختی کی پناہ مانگتے رہو ،یہ شقی القلب ہونا ہی باعث بنا کہ امّت رسول صلی ا للہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نواسے اور جوانان جنّت کے سردار کے قتل پرتیار ہوگئی ۔سید بن طاوؤس نے ایک دعامیں یہ جملہ نقل کیا ہے :

اللّهمّ أعوذ بک من قلب لایخشع وعین لاتدمع ( ۷۸ )

خدایا!تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو خشوع نہ رکھتا ہو اور ایسی آنکھ سے جو اشک نہ بہاتی ہو ۔

دل کی بیماریوں میں سے سب سے بد ترین بیماری اس کی قساوت ہے جو غضب خدا کا باعث بنتی ہے روایت میں نقل ہواہے:

ماغضب الله علی قوم ولاانصرف رحمته عنهم الاّ لقساوتهم ( ۷۹ )

خداوند متعال نہ تو کسی قوم پر غضبناک ہوا اور نہ ہی اپنی رحمت کو ان سے منقطع کیا مگر ان کی سنگدلی کی وجہ سے ۔

ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے :

مامرض قلب أشدّ من القسوة ( ۸۰ )

سنگدلی سے بڑھ کر کوئی دل کی بیماری نہیں ہے ۔

مؤمنین کرام کو چاہئے کہ وہ اس بیماری سے اپنے کو محفوظ رکھیں ورنہ ممکن ہے کہ دل کی یہ بیماری انہیں اپنے مولا ئے حقیقی سے دور کرکے جہنّم پہنچا دے ۔

سنگدلی کا علاج

آئمہ معصومین علیہم السّلام نے انسانوں کو اس بیماری سے بچانے کے لئے چند ایک چیزوں کی نصیحت فرمائی ہے جن پر عمل کرتے ہوئے وہ خود کوشقاوت قلب سے نجات دے سکتے ہیں:

١۔ تلاوت قرآن:

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام سے فرمایا:

یاعلی ! تنوّر القلب قرائة قل هوالله أحد ( ۸۱ )

اے علی ! سورہ قل ھواللہ أحد کی تلاوت دل کونورانی کرتی ہے ۔

٢۔ علماء کی ہم نشینی:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا :

یا علی ! خمسة تجلوا القلب وتذهب القساوة :مجالسة العلماء ورأس الیتیم وکثرة الاستغفار وسهر الکثیر والصوم بالنهار .( ۸۲ )

اے علی! پانچ چیزیں دل کو روشن اور سنگدلی کو دور کرتی ہیں: علماء کی ہم نشینی ،یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا،کثرت استغفار ، کم سونا اور دن روزے سے گذارنا۔

٣۔کم کھانا:

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمؤمنین علیہ السّلام سے فرمایا:

یاعلی !تنوّرالقلب...وقلّة الأکل ( ۸۳ )

اے علی! کم کھانادل کی نورانیت کا باعث بنتا ہے۔

٤۔ ذکر خدا کا ترک نہ کرنا:

خداوند متعال نے حضرت موسٰی کو خطاب فرمایا:

یا موسٰی! لاتدع ذکری علی کلّ حال انّ ترک ذکری یقسی القلوب. ( ۸۴ )

اے موسٰی! میرے ذکر کو کسی حال میں مت ترک کرنا،بے شک میرے ذکر کا ترک کرنادلوں کے سخت ہونے کا باعث بنتا ہے۔

٥۔ کم بولنا :

حضرت عیسٰی نے فرمایا:

لا تکثرواکلامکم فتقسواقلوبکم ومن کثرکلامه قلّ عقله وقسی قلبه ( ۸۵ )

زیادہ مت بولو کہ دلوں کو سخت کر بیٹھو گے ۔جو زیادہ بولتا ہے اس کی عقل کم ہو جاتی ہے اوردل سخت ہوجاتاہے ۔

٦۔گمراہوں سے دور رہنا :

رسول خد ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أربعة مفسدة للقلوب الی أن قال: مجالسته الموتٰی ،فقیل : یا رسول الله ! ومامجالسته الموتٰی ؟قال: مجالسته کلّ ضالّ عن الایمان. ( ۸۶ )

چار قسم کے لوگ دلوں کو فاسد کرتے ہیں ...یہاں تک کہ فرمایا: مُردوں کے ساتھ ہم نشینی ۔لوگوں نے سوال کیا : یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! مُردوں کے ساتھ ہم نشینی سے کیا مراد ہے ؟فرمایا : ہر گمراہ شخص کے ساتھ بیٹھناہے ۔

٧۔ دنیا کی فکر نہ کرنا:

روایت میں بیان ہوا ہے :

تفرّغوا من هموم الدّنیا مااستطعتم فانّه من کانت الدّنیا همّته قسی قلبه وکان فقره بین عینیه ( ۸۷ ) .

جس قدر ممکن ہو خود کو دنیاکی فکر سے آ زاد رکھو ، اس لئے کہ جس کی ساری کوشش دنیا کے لئے ہوتی ہے اس کادل سخت ہوجاتا ہے اور فقر و تنگدستی اس کی آنکھوں کے سامنے رہتی ہے (یعنی وہ دنیا کے سوا کچھ دیکھتا ہی نہیں ہے )۔

٨۔ زیادہ مال جمع نہ کرنا:

امیر المؤمنین علیہ السّلام نے فرمایا:

انّ کثرة المال مفسدة للدّین ومفساة للقلوب ( ۸۸ )

بے شک مال کی کثرت دین کو فاسد اور دلوں کو سخت بنا دیتی ہے۔

٩۔ گناہ نہ کرنا:

امیرالمؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں:

ما من شیء أفسد للقلب من خطیئة ( ۸۹ )

گناہ سے بڑھ کر کوئی شے دل کوفاسد نہیں کر سکتی ۔

١٠۔مال حرام سے بچنا:

پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا:

یاعلی! من أکل الحرام سوّد قلبه

اے علی ! جس نے حرام کھایا اس نے اپنا دل سیاہ کیا ۔

اگر انسان دل کی اس بیماری کا علاج نہ کرے تو ممکن ہے کہ اپنے زمانے کے امام سے مقابلے پر اُتر آئے جیسا کہ کربلا کے میدان میں جب یزیدیوں نے امام حسین علیہ السّلام کے خطبے پر توجہ نہ دی تو اس وقت فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا:قد ملئت بطونکم من الحرام ۔تمہارے شکم حرام سے بھر چکے ہیں اس لئے تم اپنے زمانے کے امام کی بات سننے کوتیار نہیں ہو او رآج بھی کتنے لوگ ایسے ہیں جو امام زمانہ عجّل اللہ فرجہ الشّریف کی نافرمانی کررہے ہیں جبکہ وہ اس بات کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں کرتے کہ اس کا سبب کیا ہے۔

امام زمانہ ذاکر حسین

واعظ اہل بیت مرحوم شیخ احمد کافی رضوان اللہ تعالٰی علیہ نقل کرتے ہیںکہ مرحوم ملاّ احمد مقدّس اردبیلی فرماتے ہیںکہ ہم لوگ طلاّب کے ہمراہ امام حسین کی زیارت کرنے کربلا جاتے تو ہمارے قافلہ میں ایک طالب علم تھا جو مصائب امام حسین بیان کیا کرتا اور خدانے اسے عجیب انداز مصائب دیا تھاعلاّمہ مقدّس اردبیلی کہتے ہیںہم امام حسین کے چہلم کے دن کربلا میں پہنچے تو دیکھا ہر طرف بھیڑ ہی بھیڑ ہے میں نے طالب علموں سے کہا : وہ طالب علم کہاں ہے جو مصائب پڑھا کرتا تھا کہانہیں معلوم وہ کہاں چلاگیا ،میں نے کہا جاؤ اسے ڈھونڈ کے لاؤ ۔ طالب علموں نے اندر بہت بھیڑ ہے آپ ادھر ہی ایک کونے کھڑے ہو کر زیارت پڑھ لیں تاکہ زائرین کے لئے مزاحمت ایجاد نہ ہو ۔میں نے طالب علموں کو جمع کر کے پوچھا کہ وہ طالب علم کہاں گیا تاکہ مصائب سناتا ،اتنے میں ایک عربی شخص مجمع کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور کہا: اے مقدّس اردبیلی کیا پروگرام ہے ؟ میں نے کہا : زیارت پڑھنا چاہتا ہوں۔کہااچاھ بلند آواز سے پڑھو تاکہ میں بھی سن سکوں ۔میں نے بلند آواز سے زیارت پڑھی تو اس نے مجھے زیارت کے بعض لطیف نکات کی طرف متوجہ کیا اور کہا تم اس طالب علم سے کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا:ہم اس سے مجلس سننا چاہتے ہیں۔کہا اگر میں سنا دوں تو پھر؟ہم نے کہا : اگر پڑھنا جانتے ہوتو سنا دو ۔اب اس نے امام حسین کی ضریح کی طرف منہ کیا اور عجیب انداز میں مصائب پڑھا کہ ہمیں منقلب کردیا ۔اور پھر ایک جملہ کہا :یا اباعبداللہ یہ طلاّب اور میں اس منظر کو کیسے بھول ہیںجب آپ نے اپنی بہن زینب کو الوداع کیا تھا ۔علاّمہ مقدّس اردبیلی فرماتے ہیں: جب میں سر اٹھا کر دیکھا تو وہ عربی نوجوان وہاں سے غائب ہو چکا تھا اس وقت میں سمجھا کہ وہ امام زمانہ عجّل اللہ فرجہ الشّریف تھے ۔

عزاداروں کی خدمت کا ثواب

صاحب کتاب اسرار الشہادة ایک معتبر واسطے سے (علاّمہ بحر العلوم کے مشہور شاگرد شیخ حسین تبریزی سے) نقل کرتے ہیں کہ میں ایک دن غروب آفتاب کے وقت وادی السّلام میں موجود تھا اور نجف اشرف جاناچاہتا تھا کہ اچانک دیکھا گھوڑوںپر سوار ایک جماعت آ رہی ہے اور ان کے آگے آگے ایک نورانی چہرے والا شخص ہے جو دوسروںسے بالکل الگ نظر آرہا ہے ۔جب یہ لوگ میرے پاس پہنچے تو میں نے ان میں سے دو افراد کو پہچان لیا اور ان کے قریب گیا ،سلام کیا اور انہیں ان کے نام سے پکا ر ا،انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور کہا: ہم وہ نہیں ہیںجو آپ سمجھ رہے ہیںبلکہ ہم تو ملائکہ ہیںاور وہ شخص جو سب سے آگے آگے ہے وہ اہواز کے رہنے والے ایک نیک شخص کی روح ہے اور ہم سب کو اس کے استقبال کا حکم دیا گیا ہے آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں ۔میں ان کے ساتھ چل پڑا ،انہوں نے اس کے گھوڑے کی رکاب پکڑی اور ایک ایسی جگہ لے گئے جہاں ہر طرح کی نعمتیں ہی نعمتیںتھیں ،ہر طر ف چراغوں نے نور پھیلا رکھا تھا ۔او راس کا عجیب احترام کیا گیا ،جنّتی کھانوں کا دستر خوان بچھا یا گیا ،انواع واقسام کے کھانے لائے گئے ...اس شخص میں تین خصوصیات تھیں جس کی وجہ سے یہ مقام ملا :

١۔ اہل بیت رسول علیہم السّلام سے بے پناہ محبت کیا کرتا ۔

٢۔ ہمیشہ رزق حلال کھاتا۔

٣۔ سال کے اخراجات سے جو بچ جاتا اسے غریبوں اور امام حسین کی عزاداری کی راہ میں خرچ کر دیتا ۔

یہی نیکی باعث بنی کہ خدا وند متعال نے اسے اتنابلند مقام عطا کیا کہ ملائکہ بھی اس کا استقبال کررہے( ۹۰ ) ۔

مؤمنین کی ذمہ داری

عزاداری امام مظلوم دین مقدّس اسلام کی بقاء کی ضامن ہے اور پوری امّت اسلامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دین کی بقاء کی خاطر امام حسین علیہ السّلام کی عزاداری کو احسن طریقے سے برپا کرنے کی کوشش کرے جس میں پیش قدم ماتمی عزادار ہیں جو اپنی جانوں پرکھیل کر اس عزاداری کی راہ میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ذیل میں ہم عزاداروں کی ذمہ داریاں بیان کر رہے ہیں تا کہ وہ ان کا مطالعہ اوران پر عمل پیراہوکر بہتر طریقے سے دین کی خدمت کر سکیں :

١۔ خدا وند متعال کا شکر ادا کرنا کہ اس نے اہل بیت علیہم السّلام کی ولایت کی نعمت سے نوازاہے۔

٢۔اپنے والدین اور ان اساتیذ کے لئے دعاکرناجنہوں نے آل رسول کی محبت اور ان کی پیروی کرنے کی تربیت دی۔

٣۔عزاداری میں باوضو شریک ہوںاس لئے کہ یہ پاک ہستیوں کا ذکر ہے اور اگر انسان باوضو ہو کر اس ذکر کوسنے گا تو یقیناثواب میں اضافے کا موجب بھی بنے گا ۔

٤۔ غم وحزن والی صورت بناناکہ امام رضا علیہ السّلام فرماتے ہیں جب محرم کا مہینہ آتا تو میرے بابا پرغم وحزن کی عجیب کیفیت طاری ہوتی اور پھر فرمایا: اے ابن شبیب! اگر چاہتے ہو کہ روز قیامت ہمارے ساتھ رہو تو ہمارے غم میں غمگین ہو( ۹۱ ) ۔

٥۔سیاہ کپڑے پہننا اور امام بارگاہوںکو بھی سیاہ پوش کرنا جو غم اور آل محمد سے محبت کی علامت ہے۔

٦۔مجالس عزا کا برپا کرنا اور ان میں بڑھ چڑھ کر شرکت کرنا۔

جیسا کہ امام صادق علیہ السّلام نے فضیل سے فرمایا: اے فضیل ! کیا مجالس برپا کرتے ہو

اس لئے کہ میں ان مجالس کو پسند کرتا ہوں( ۹۲ ) ۔

٧۔مجالس عزاداری میں دوسروں کے حقوق کی رعایت کرناجیسا کہ خدا وند متعال کا ارشاد بھی ہے :

( یاأیها الّذین آمنوا اذاقیل لکم تفسّحوافی المجالس فافسحوا )

ترجمہ:اے ایمان والو! جب تمہیں مجلس میں وسعت کے لئے کہا جائے تو دوسروں کو جگہ دے دو۔

مسلمانوں میںایک شوق یہ بھی تھا کہ ہر وقت بزم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حاضر رہو تاکہ اپنے تقرّب کا پروپیگنڈا کیا جاسکے او راس طرح عدیم الفرصت مسلمانوں کو زحمت ہوتی تھی تو قدرت نے تنبیہ کی کہ اوّلا تو آنے والوں کو جگہ دو اور پھر جگہ کم ہو تو اٹھ جاؤ اور اسے برا نہ مانو اس لئے کہ صاحبان علم وایمان کو بہر حال برتری حاصل ہونی چاہئے اور انہیں محفل میں مناسب جگہ ملنی چاہئے ،انہیں جاہلوں اور کم مرتبہ لوگوں کے برابر نہیں قراردیا جاسکتا ہے۔

عالم عالم ہوتاہے اورجاہل جاہل ،صرف محفل میں آکر بیٹھ جانے سے جاہل عالم نہیں کہا جا سکتا اور محفل میں حاضر نہ رہ سکنے کی وجہ سے عالم جاہل کے مانند نہیں ہو سکتا ۔علم ایک کمال بشریت ہے جو اپنے حامل کو سر فراز اور سر بلند رکھتا ہے( ۹۳ ) ۔ پس عزاداروں کو چاہئے کہ اگر کوئی اہل علم مجلس کے دوران آجائے تو اسے مناسب جگہ دیں ۔

٨۔جب ذکر مصیبت کیاجائے تو گریہ کرنا تاکہ بخشش کا سبب بن سکے۔

٩۔ایسی مجالس میں شرکت کرنا جہاں اہل علم و تقوٰی خطاب کررہے ہوں۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السّلام سے فرمایا :

یاعلی ! اذا أتٰی علی المؤمن أربعین صباحا ولم یجلس العلماء ،قسی قلبه وجرّ علی الکبائر ( ۹۴ )

اے علی! جب کوئی مومن چالیس دن تک علماء سے دور رہے تو اس کا دل سخت ہو جاتا ہے او ر

تو گناہ کبیرہ کے انجام دینے میں اس کی جرأت بڑھ جا تی ہے ۔

١٠۔ اہل بیت علیہم السّلام کے دشمنوں سے اظہار نفرت کرنا ۔

١١۔ایّام عزاداری میں امام زمانہ عجّل اللہ فرجہ الشریف اور ایک دوسرے کو تسلیت عرض کرنا( ۹۵ ) ۔

١٢۔ہر طرح کی فضول گفتگواور غیر شرعی حرکات سے پرہیز کرنا۔

١٣۔مجلس کے بعد خطیب سے جس بات کی سمجھ نہ آئے اس کے متعلق سوال کرنا۔

١٤۔عزاداری کی راہ میں مشکلات ایجاد کرنے والے مسائل پر نگاہ رکھنا اور انہیں دور کرنے کی کوشش کرنا۔

١٥۔امر بالمعروف اورنہی عن المنکرجو امام حسین علیہ السّلام کی عزاداری کا اصلی مقصد ہے

اگر مجلس میںگانوں کی طرز پر قصیدے پڑھے جائیں تو مؤمنین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پڑھنے والے کو احترام کے ساتھ روک دیںاور اس شرعی وظیفہ کے انجام دینے میں کوتاہی نہ برتیں۔ورنہ بنی اسرائیل کی طرح اس ذمہ داری میں کوتاہی کی وجہ سے لعنت کے مستحق قرار پائیں گے( ۹۶ ) ۔

١٦۔علماء،ذاکرین،ماتمیوںاوربانیان مجالس کا احترام کرنا۔

١٧۔روز عاشور کام کاج کی چھٹی کرنا۔ امام رضا علیہ السّلام فرماتے ہیں:جو شخص روزعاشور کام چھوڑ دے گا تو خد اوند متعال اس کی دنیا وآخرت کی حاجات کو پوراکردے گا( ۹۷ ) ۔

عزاداروں کے نام پیغام

اے صف ماتم مظلوم بچھانے والو

یاد گار ایک مسافر کی منانے والو

مجلس ذکر عزا میں مری آنے والو

اے شہادت پہ مری اشک بہانے والو

ذکر کرتے ہو زباں سے سحر وشام مرا

گوش دل سے سنتے نہیں پیغام مر

متغیر ہے بہت رنگ جہاں اب تو سنو

باغ اسلا م ہے پامال خزان اب تو سنو

جاگ اٹھو ،ترگ کرو خواب گراں اب تو سنو

مٹ رہے ہیں مری منزل کے نشان اب تو سنو

کیسے ثابت ہو رلاتی ہے تمہیں یاد مری

دیکھتا یہ ہوں کہ سنتے نہیں فریا دمیری

کیا یہ منشاء ہے کہ پھر خوں میں نہا کر آؤں

پھر اسی شان سے ہاتھوں پہ لئے سر آؤں

قصر جنّت سے ادھر بادل مضطر آؤں

کیا یہ مطلب ہے کہ پھر قبر سے باہر آؤں

جوش میں پھر نہ مرا جذبہ غیرت آئے

کہیں پہلے نہ قیامت سے قیامت آئے

اب نہ وہ دل ہیں نہ وہ گلشن اخلاص کی سیر

ہوگیا کیا کہ نہیں میری طرح طالب خیر

کیسے اپنے ہو کہ باطن میں نظر آتے ہو غیر

مجھ سے دعوائے محبت میری تعلیم سے بیر

دل میں جب جوش اطاعت کا بھرا ہوتاہے

حق محبت کا اسی وقت اداہوتا ہے

کیا تمہیں آکے اس خواب سے بیدار کروں؟

کیا کسی دشت کو پھر سے خون سے گلزار کرو ں

اپنے اکبرکو پھر آمادہ پیکار کروں

کیا پھر عباس کو لشکر کا علمدار کروں؟

مجھ سے مانوس ہو میری راہ سے بیزار ہو تم

پھر کسی خونی منظڑ کے طلبگار ہو تم

آج ہر بات پہ کیوں تفرقہ کرتے ہو تم

انجمن ساز ہو یا خانہ برانداز ہو تم

دل پہ ہوتا نہیں انوار حقائق کا ورود

کم ہے اعمال میں اخلاص وصداقت کا وجود

ذوق تحسیں ہے کہیں اور کہیں شوق نمود

حال یہ ہے تو رہے گی یہ عزا بھی بے سود

شہید کربلا کو سلام

بھولا نہ سانحہ ابھی عالم حسین کا

انسانیت کو آج بھی غم حسین ک

محسن تھا نہ کوئی ہمدم حسین کا

گردش میں قافلہ رہا پیہم حسین ک

ٹکرا گیا ہزاروں سے شیر خد اکا لال

اہل جہاں نے دیکھ لیا دم حسین ک

بیعت نہ کی کسی نے بھی سب ہو گئے شہید

ہرایک آدمی تھا منطّم حسین ک

رنج والم میں ڈوبی ہے کرب وبلا کی شام

ماتم کررہی ہے صبح کو شبنم حسین ک

کوشش ہزار ان کو جھکانے کی کی مگر

دشمن کے آگے سر خم نہ ہو حسین ک

نسل خلیل سے ہیں وہ سبط رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی

کوثر بھی حسین کا زمزم حسین ک

لہرا رہا ہے صبر وشجاعت کا آج بھی

کرب وبلا کے سینے پہ پرچم حسین کا

نام یزید لیتا ہے کون احترام سے

لیکن ہے نام اب بھی مکرّم حسین کا

یاد حسین دل میں ہے جمشید جلوہ گر

سینے میں اپنے رکھتے ہیں ہم غم حسین ک

( جمشید اقبال حنفی)

وصلی الله علی الحسین وجدّه وأبیه وأمّه وأخیه والمعصومین من بنیه وغفرالله شیعته ومحبّیه ولعن الله قاتلیه ۔

حوالے

. نساء : ١٤٨. ( ۱ )

. سورہ شوری:٢٣. ( ۲ )

. ماہنامہ اصلاح لکھنؤشمارہ ١:١١٣. ( ۳ )

. سیرة النبوة ٦: ٧٥؛ مسند احمد ٦: ٢٧٤. ( ۴ )

. تذکرة الخواص : ٧. ( ۵ )

. الطبقات الکبرٰی ،ابن سعد ١:١٢٣. ( ۶ )

. المستدرک ١:٣٥٧؛ تاریخ المدینہ ،ابن شبّہ ١:١١٨. ( ۷ )

. العقد الفرید ٣:١٩. ( ۸ )

. ذخائر العقبٰی :٥٦. ( ۹ )

. السیرة الحلبیة ٢:٢٤٧. ( ۱۰ )

. الاستیعاب ١: ٣٧٤. ( ۱۱ )

. سنن نسائی ٤: ٢٢. ( ۱۲ )

. المستدرک علی الصحیحین ١:٢٦١؛ السنن الکبرٰی ٣:٤٠٧. ( ۱۳ )

. المستدرک علی الصحیحین ١: ٣٨١، مسند احمد ٢: ٤٤٤. ( ۱۴ )

. سیر اعلام النبلاء ٤: ٣٤؛ الکامل فی التاریخ ٣: ٢٢٧. ( ۱۵ )

. سیرة النبوة ٦: ٧٥؛ مسند احمد ٦: ٢٧٤. ( ۱۶ )

. المصنف لابن ابی شیبہ ٣: ٤٥؛ مسند احمد ٦:٢٧٤؛ السیرة النبویة٦:٧٥.المستدرک علی الصحیحین ٣: ٣٣٢ ؛ ( ۱۷ )

. السیرة النّبویہ ٣: ١١١. ( ۱۸ )

. العقد الفرید ٤:٢٨٣. ( ۱۹ )

. بحار الأنوار ٤٥: ٢٥٣؛ احقاق الحق ٣٣: ٧٥٩. ( ۲۰ )

. تاریخ طبری ٣:٣٤١. ( ۲۱ )

. سیر اعلام النبلاء ١٥: ٤٨٠ ؛ تاریخ ابن عساکر ١٠ : ٢٧٢. ( ۲۲ )

. سیر اعلام النبلاء ١٨:٤٦٨ ؛ تاریخ بغداد ٩٣ ؛ وفیات الاعیان ٣ : ١٤٩. ( ۲۳ )

. البدایة والنھایة ١٣: ٢٠٧. ( ۲۴ )

. تاریخ الخلفاء ، سیوطی ١: ٢٤٥. ( ۲۵ )

( ۲۶ ) صحیح بخاری ١:٢٢٣،کتاب الجنائز ؛صحیح مسلم ٣:٤٤،کتاب الجنائز ؛ جامع الاصول ١١: ٩٩؛ ح ٨٥٧؛ السیرة النبویة ٣:٣١٠؛ سننن ابن ماجہ ١:٥٠٦ ، ح ١٥٨٩.

. صحیح ترمذی ،ح١٠٠٢. ( ۲۷ )

. سورة فاطر : ١٨. ( ۲۸ )

. المجموع ٥: ٣٠٨ ؛ صحیح بخاری ١: ٤٣٢. ( ۲۹ )

. المجموع ٥: ٣٠٨. ( ۳۰ )

. بحار الانوار ٧٩: ١٠٩. ( ۳۱ )

. کنزالعمال ١٥:٧٣٢ ؛ المصنف لابن ابی شیبہ ٣: ٢٦٥. ( ۳۲ )

. سنن نسائی ٤: ٩١ ؛ مسند احمد ٣: ٣٣٣ ؛ا لمستدرک علی الصحیحین ١: ٣٨١. ( ۳۳ )

. تہذیب الکمال ١٦: ٧٠. ( ۳۴ )

. کنزالعمال ٥:٧٣١ ؛ المصنف عبدالرزاق ٣: ٥٥٧ ح ٦٦٨٢. ( ۳۵ )

. المستصفیٰ ١؛ ٢٦٠ ؛ دراسات فقہیة فی مسائل خلافیة : ١٣٨. ( ۳۶ )

. مسند احمد ٣: ٣٢٣. ( ۳۷ )

. المجموع ، نووی ٥: ٢٠٨. ( ۳۸ )

. سورہ فاطر :١٨ ( ۳۹ )

. مسند احمد ١:٤١؛جامع الأصول ١١:٩٩. ( ۴۰ )

. شرح صحیح مسلم ،نووی ٥: ٣٠٨. ( ۴۱ )

. مسند احمد ١: ٤٢؛ جامع الأصول ١١: ٩٣،ح٨٥٦٣. ( ۴۲ )

. بحار الأنوار ٤٥:٢٠٨. ( ۴۳ )

. سورہ بقرہ : ٣٧. ( ۴۴ )

. بحار الأنوار ٤٤:٢٤٥؛ عوالم العلوم ١٧:١٠٤. ( ۴۵ )

. بحارالأنوار ٤٤:٢٤٢؛عوالم العلوم ١٧:١٠١. ( ۴۶ )

. عوالم العلوم ١٧:٢٩؛بحارالأنوار ٤٤:٢٤٣. ( ۴۷ )

. بحار الأنوار ٤٤:٢٢٦. ( ۴۸ )

. الخصائص الحسینیة :١٧٨. ( ۴۹ )

. بحار الأنوار ٤٤:٣٠٨. ( ۵۰ )

. مجمع البحرین ٣:٤٠٥؛مستدرک الوسائل ١٠:٣١٨. ( ۵۱ )

. بحارالأنوار ٣:٣٠١؛ تفسیر قمی ٢: ٣٨. ( ۵۲ )

. تذکرة الشّہداء :٣٣. ( ۵۳ )

. بحار الأنوار ٤٤:٢٥٢؛ امالی صدوق :٤٧٨و٤٨٠. ( ۵۴ )

. بحار الأنوار ٤٤:٢٢٣. ( ۵۵ )

. معالی السبطین ١:١٧٦؛ بحار الأنوار ٤٤:٢٥٣. ( ۵۶ )

. بحارالأنوار١٨: ١٢٥. ( ۵۷ )

. بحار الأنوار ٣٦:٣٤٩. ( ۵۸ )

. البکاء للحسین :٣٩٥. ( ۵۹ )

. حیات القلوب ١:١٨٥. ( ۶۰ )

. بحار الأنوار ٤٤:٢٧٨؛تفسیر قمی ٢: ٢٦٦. ( ۶۱ )

. العبقری الحسان١:١٩٩. ( ۶۲ )

. امالی شیخ مفید : ٣٣٨؛ بحارالانوار ٤٤: ٣٥١. ( ۶۳ )

. امالی صدوق : ١٣١؛ عیون اخبار الرّضا ٢:٢٦٤؛ بحار الانوار ٤٤:٢٧٨. ( ۶۴ )

. قرب الاسناد : ٣٦؛ بحارالأنوار ٧٤: ٣٥١. ( ۶۵ )

. امالی شیخ مفید:١٧٥؛جامع الأخبار :٩٦. ( ۶۶ )

. کامل الزیارات :١٠٨؛بحارالأنوار٤٤:٢٨٠. ( ۶۷ )

. کامل الزیارات :١٠٨؛بحارالأنوار ٤٤:٢٨٠. ( ۶۸ )

. وسائل الشیعہ ١٤:٥٠١؛تفسیر قمی ٢:٢٦٧. ( ۶۹ )

. بحارالأنوار ٤٤:٢٩٢. ( ۷۰ )

. خصال صدوق٢:٦٢٦؛عوالم العلوم١٧:٥٢٥. ( ۷۱ )

. سورہ آل عمران :٣٨. ( ۷۲ )

. سورہ نساء :٧٣. ( ۷۳ )

. امالی صدوق:١٩٢؛عیون اخبارالرضا١:٢٩٩؛بحارالأنوار ٤٤:٢٨٥. ( ۷۴ )

. البکاء للحسین :٣٩١ ( ۷۵ )

. کامل الزیارات: ٨٠؛ بحارالأنوار٤٥:٢٠٦. ( ۷۶ )

. بحار الأنوار ٤٤:٢٩٢. ( ۷۷ )

. اقبال الأعمال :٤٨٧؛ تہذیب الأحکام ٦:٣٥. ( ۷۸ )

. الفصول المہمة :٤٢. ( ۷۹ )

. بحارالأنوار ٦٥:٣٣٧؛مستدرک الوسائل ١٢:٩٤. ( ۸۰ )

. المواعظ العددیة :٢٥٨. ( ۸۱ )

. تحف العقول : ٢٩٦؛بحارالأنوار ٧٨:١٧٦. ( ۸۲ )

. مواعظ العددیة ٢٥٨. ( ۸۳ )

. اصول کافی ٢:٤٩٧؛بحارالأنوار ١٣:٣٤٢. ( ۸۴ )

. بحارالأنوار ١٤:٣٢٤. ( ۸۵ )

. بحارالأنوار ١٠٣:٢٢٦؛مستدرک الوسائل ١٧:٣٥٢. ( ۸۶ )

. ارشاد القلوب :١٨. ( ۸۷ )

. تحف العقول :١٩٩. ( ۸۸ )

. اصول کافی ٢: ٢٦٨. ( ۸۹ )

. داستانھای شگفت انگیزی از عزاداری امام حسین:٢٢٠. ( ۹۰ )

. امالی صدوق،مجلس ٢٧ ( ۹۱ )

. وسائل الشیعہ ١٤:٥٠١. ( ۹۲ )

. حاشیہ قرآن مجید ،ذیشان حیدر جوادی :١١١٩ ( ۹۳ )

. البکاء للحسین : ١٣٤. ( ۹۴ )

. وسائل الشیعة ١٤:٥٠٩. ( ۹۵ )

. سورہ مائدہ : ٧٨و٧٩. ( ۹۶ )

. امالی صدوق،مجلس ٢٧. ( ۹۷ )

فہرست

انتساب ۴

سخن مؤلف ۵

١۔حکم قرآن ۷

٢۔ سنّت پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۹

١) حضرت عبد المطلب پر گریہ : ۹

٢) حضرت ابو طالب پر گریہ : ۹

٣) حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا پر گریہ : ۱۰

٤) اپنے فرزند ابراہیم پر گریہ : ۱۰

٥) حضرت فاطمہ بنت اسد پر گریہ : ۱۰

٦)حضرت حمزہ پر گریہ : ۱۰

٧) اپنے نواسے پر گریہ : ۱۱

٨)حضرت عثمان بن مظعون پر گریہ : ۱۱

٣۔ صحابہ کرام او رتابعین کی سیرت ۱۳

١) حضرت علی علیہ السّلام : ۱۳

٢) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا : ۱۳

٣) حضرت عمر: ۱۳

٤)عبداللہ بن رواحہ : ۱۳

٥)عبداللہ بن مسعود : ۱۴

٦)امام شافعی : ۱۴

گلی کوچوں میں عزاداری ۱۶

١۔طبری : ۱۷

٢۔ نسفی : ۱۷

٣۔ذہبی: ۱۷

٤۔سبط بن جوزی : ۱۷

٥۔عمر بن عبدلعزیز : ۱۸

گریہ و ماتم سے منع کرنے والی روایات ۱۹

پہلی دلیل: ۱۹

ان روایات کی توجیہ ۲۰

دوسری دلیل : ۲۰

اس روایت کا جواب ۲۱

تیسری دلیل : ۲۱

نتیجہ ۲۳

انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرن ۲۴

١۔حضرت آدم کا گریہ کرنا: ۲۴

٢۔ حضرت نوح کا گریہ کرنا: ۲۵

٣۔حضرت ابراہیم کا گریہ کرنا: ۲۶

٤۔ حضرت موسٰی کاگریہ کرنا : ۲۶

٥۔ حضرت خضر کا گریہ کرنا: ۲۷

٦۔ حضرت زکریا کا گریہ کرنا: ۲۷

٧۔ حضرت عیسٰی کا گریہ کرنا : ۲۸

٨۔ پیغمبر صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گریہ کرنا: ۲۸

راہب کاامام حسین پر ماتم کرن ۲۹

امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنے کی فضیلت ۳۱

پہلی حدیث ۳۲

دوسری حدیث ۳۳

تیسری حدیث ۳۳

چوتھی حدیث ۳۴

پانچویں حدیث ۳۴

چھٹی حدیث ۳۵

ساتویں حدیث ۳۶

آٹھویں حدیث ۳۶

نویں حدیث ۳۷

دسویں حدیث ۳۸

گیارہویں حدیث ۳۸

بارہویں حدیث ۴۰

تیرہویں حدیث ۴۱

چودہویں حدیث ۴۱

گریہ نہ کرنے کے اسباب ۴۳

سنگدلی کا علاج ۴۳