گنہگار عورتیں

گنہگار عورتیں50%

گنہگار عورتیں مؤلف:
زمرہ جات: گوشہ خواتین
صفحے: 78

گنہگار عورتیں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 78 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 61076 / ڈاؤنلوڈ: 4890
سائز سائز سائز
گنہگار عورتیں

گنہگار عورتیں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۳۵۶،۳۵۹،نمبر۱۱۲۵،۱۱۳۰،اشاعت اوّل۔

۲۔ حافظ ابن عساکر، کتاب تاریخ دمشق، جلد۲،صفحہ۳۴۴،۴۴۲،باب امیر المومنین کے حالات، حدیث۸۵۲،۹۵۸، اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۳۷۹،اشاعت دوم، صفحہ۴۲۴۔

۴۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، جلد۱،صفحہ۱۵۵، باب۳۱۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، صفحہ۲۴۵،باب۶۲۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة ، صفحہ۳۶۱۔

۷۔ بلاذری، کتاب النساب الاشراف، ج۲ص۱۱۳حدیث۵۰،اشاعت اوّل بیروت

۸۔ شبلنجی ،کتاب نورابصار، صفحہ۷۰،۱۰۱۔

۹۔ خوارزمی، کتاب مناقب امیر المومنین ،حدیث۱۱،صفحہ۶۲۔

پندرہویں آیت

پیغمبر کی صداقت پر قرآن ایک روشن دلیل ہے اور علی ایک سچے گواہ ہیں

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِه کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّرَحْمَةً )

”کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے کھلی دلیل پر ہو اور اُس کے پیچھے پیچھے ایک گواہ آتا ہو جو اُسی کا جزو ہو(سورئہ ہود:آیت۱۷)

۴۱

تشریح

اس آیت شریفہ کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے کہ کون(مَنْ) سے مرادجناب رسول خدا

فضائل علی علیہ السلام قرآن کی نظر میں ۔۳

کی ذات مبارک ہے اور روشن دلیل(بَینَہ)سے مرادقرآن مجید ہے اور (نبوت کے) گواہ صادق(شاہد) سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔بعض مفسرین نے شاہد سے مراد جبرئیل علیہ السلام کو لیا ہے اور بعض نے َیَتْلُوْهُ کو مادّہ تلاوت سے قرأ ت کے معنی میں لیا ہے نہ کہ اس معنی میں کہ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ انہوں نے شاہد سے مراد زبان رسول اللہ لی ہے۔ لیکن بہت سے اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے شاہد سے مراد سچے مومنین لئے ہیں اور سچے مومن کی تصویر علی علیہ السلام کو لیا ہے اور اس ضمن یں بڑی اہم روایات کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہاں بیان کی جاتی ہیں:

(ا)۔ سیوطی نے کتاب جمع الجوامع اور تفسیر الدرالمنثور میں یہ روایت بیان کی ہے:

حَدَّثْنَا عبادُ بنُ عَبْدِاللّٰهِ الاَ سَدِی قال:سَمِعْتُ عَلِیَّ بنَ ابی طالبٍ وَهُوَ یَقُولُ:مٰا أَحَدٌ مِنْ قُرَیْشٍ اِلَّا وَقَدْ نَزَلَتْ فیهِ آیةٌ وآیتانِ فَقٰالَ لَهُ رَجُلٌ:وَمٰانَزَلَ فِیْکَ یٰااَمِیْرَالمومنینَ؟قٰالَ:فَغَضِبَ ثُمَّ قٰالَ: اَمٰاوَاللّٰهِ لَولَمْ یَسْأَلْنِیْ عَلٰی رُووسِ الْقَوْمِ مٰاحَدَّ ثْتُکَ،ثُمَّ قال:هَلْ تَقْرَأُ سورةَ هودٍ؟ ثُمَّ قَرَاءَ: ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) رسولُ اللّٰه عَلٰی بَینةٍ مِنْ رَبَّهِ وَاَنَاالشّٰاهِدُ مِنْهُ ۔

”عباد بن عبداللہ اسدی کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا کہ وہ فرماتے ہیں کہ قریش کے سرداروں میں کوئی نہیں مگر اُس کے بارے میں ایک یا دو آیتیں نازل ہوئی ہوں۔ پس ایک شخص نے سوال کیا:یا امیر المومنین ! آپ کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی ہے۔ آپ(اُس شخص کے جہل یا عداوت کی وجہ سے) غضبناک ہوئے اور کہا کہ اگر دوسرے لوگ موجود نہ ہوتے تو میں تمہارے سوال کا جواب نہ دیتا۔ اُس وقت آپ نے فرمایا : کیا تم نے سورئہ ہود پڑھی ہے؟ اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:

( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) ”اور فرمایا کہ پیغمبر روشن دلیل یعنی قرآن مجید (بَینَةٍ) رکھتے تھے اور میں گواہ تھا“۔

۴۲

(ب)۔ کچھ مفسرین اس روایت کو نقل کرتے ہیں:

عَنْ انس(فی قَولِه تعالٰی) ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُط“قَالَ هُوَرسولُ اللّٰهِ ”وَیَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) قَالَ هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب، کَانَ وَاللّٰهِ لِسَانَ رَسُولِ اللّٰهِ ۔

”انس بن مالک سے اس آیت کی تفسیر سے متعلق روایت کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ آیت کے اس حصہ( اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّ بِّه ) سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات مبارک ہے اور( یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ) سے مرادعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ خدا کی قسم! یہ(علی کا نام)رسول اللہ کی زبان پر تھا“۔

(ج)۔ تفسیر برہان، جلد۲،صفحہ۲۱۳پر یہ روایت بیان کی گئی ہے:

امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس آیت میں ”شاہد“ سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں اور اُن کے یکے بعد دیگرے جانشین ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی، کتاب جمع الجوامع، جلد۲،صفحہ۶۸،حدیث۴۰۷،۴۰۸ اور ج۳،ص۳۲۴۔

۲۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۰،حدیث۹۲۸۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب ۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، حدیث۳۸۶،جلد۱،صفحہ۲۷۷۔

۵۔ ابن مغازلی شافعی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۱۸،صفحہ۲۷۰۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۶،صفحہ۱۱۵۔

۷۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل۔

۸۔ طبری اپنی تفسیر میں جلد۱۵،صفحہ۲۷۲،شمارہ۱۸۰۴۸۔

۹۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲،صفحہ۲۳۹۔

۴۳

سولہویں آیت

علی صدیق اکبر اورشہید فی سبیل اللہ ہیں

( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّهَدَآءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ اَجْرُهُمْ وَنُوْرُهُمْْ )

”اور جو لوگ اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں وہی تو اپنے پروردگارکے نزدیک صدیق اور شہید ہیں۔ اُن کا اجر اور اُن کا نور اُن ہی کیلئے ہوگا“(سورئہ حدید،آیت۱۹)

تشریح

اس میں کوئی شک نہیں کہ سچائی اور راست گوئی ایسی صفت ہے جو انسان کو اعلیٰ مقام تک پہنچادیتی ہے۔ ہمیں یہ صفت حضرت علی کے وجود پاک میں روز روشن کی طرح نظر آتی ہے۔

اگرچہ اہل سنت میں خلیفہ اوّل ہی صدیق کے طور پر مشہور ہیں لیکن بہت سی روایات جو اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں نقل کی ہیں، اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صفت سچائی اور راست گوئی ہر لحاظ سے مکمل طور پر حضرت علی علیہ السلام کے وجود پاک میں نظر آتی ہے۔ چند روایات ذیل پرتوجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قَوْلِه تعٰالٰی ( وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ) قال صدیقُ هَذِه الْاُمَّةِ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطَالِب هُوَ الصِّدِّ یقُ الْاَکْبَرُ وَالْفَارُوْقُ الْاَعْظَمُ

”ابن عباس سے روایت ہے کہ اس آیت شریفہ( وَالَّذیْ نَ اٰمَنُوْابِاللّٰهِ وَرُسُلِه اُوْلٰٓئِکَ هُمُ الصِّدِّ یْ قُوْن ) کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ اس اُمت کے صدیق علی ابن ابی طالب ہیں۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام صدیق اکبر بھی ہیں اور فاروق(حق اور باطل کو جدا کرنے والا) اعظم بھی“۔

۴۴

(ب)۔عَنْ عبدالرحمٰنِ بن ابی لیلٰی عَنْ اَبِیْهِ قٰالَ رسولُاللّٰهِ اَلصِّدِّیْقُوْنَ ثَلاٰ ثَةٌ: حَبِیبُ النَّجَّارِ، مومِنُ آلِ یٰسِینَ وَحِزْبِیْلُ مُومِنُ آلِ فِرْعَوْنَ وَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْطالِبٍ وَهُوَ اَفْضَلُهُمْ

”عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تین افراد صدیق ہیں اور وہ ہیں:حبیب نجار، مومن آل یاسین اور حزبیل مومن آل فرعون اور علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور علی علیہ السلام اُن سب سے افضل ہیں“۔

(ج)۔عَنْ عُبادِ بنِ عَبْداللّٰهِ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِیّاً علیه السلام یقولُ: أَ نَا الصِّدِّیقُ الْاَکْبَرُ لَایقُولُهَا بَعْدِیْ اِلَّا کَذَّابٌ وَلَقَدْ صَلَّیْتُ قَبْلَ النَّاسِ سَبْعَ سِنِیْنَ ۔

”عباد بن عبداللہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی علیہ السلام سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد کوئی بھی اپنے آپ کو صدیق اکبر نہیں کہلا سکتا لیکن سوائے جھوٹے اور کذاب کے اور میں نے لوگوں سے سات سال پہلے نماز پڑھی(یعنی سب سے پہلے خدا اور اُس کے رسول پر میں ایمان لایا)“۔

(د)۔ اسی طرح سب علمائے اہل سنت مثلاً حافظ ابی نعیم، ثعلبی، حافظ بن عساکر، سیوطی اور دوسرے بہت سے مفسرین سورئہ توبہ آیت۱۱۹( اِتَّقُوااللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْن ) میں ابن عباس اور دوسروں سے بھی روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ”الصادقین“ سے مراد علی ہیں ۔ روایت اس طرح سے ہے:

عَنْ ابنِ عباس فِی قوله تعٰالٰی ( اِتَّقُواللّٰهَ وَکُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَ ) قَالَ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ عَلَیْهِ السَّلَامُ خٰاصَّةً“

”ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت صرف علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۲۸۲،حدیث۸۱۲،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۲۴۶،۲۴۷، حدیث۲۹۶۔

۳۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۶اور باب۲۴،صفحہ۱۲۳۔

۴۔ حافظ حسکانی ، کتاب شواہد التنزیل۔

۴۵

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۴۲،صفحہ۱۴۶۔

۶۔ نسائی، کتاب خصائص امیرالمومنین ، حدیث۶،صفحہ۳۸۔

۷۔ سیوطی ،کتاب اللئالی المصنوعہ، باب فضائل علی ، جلد۱،صفحہ۱۶۰۔

۸۔ احمد بن حنبل، کتاب الفضائل، باب فضائل امیر المومنین ،حدیث۱۱۷،صفحہ۷۸۔

۹۔ حافظ المزی،کتاب تہذیب الکمال، ترجمہ العلاء بن صالح، جلد۴،صفحہ۱۹۳۔

سترہویں آیت

اللہ تعالیٰ نے علی کے وسیلہ سے پیغمبر کی مدد کی

( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَیٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ )

”وہ وہی ہے جس نے اپنی امداد سے اور مومنین کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی تھی۔

اے نبی! تمہارے لئے اللہ اور مومنین میں سے جو تمہارا اتباع کرتے ہیں، وہی کافی ہیں ہیں“۔(سورئہ انفال: آیات۶۲،۶۴)۔

تشریح

کچھ مفسرین نے ان آیات کے ضمن میں خصوصاً آیت :۶۴کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب یہودیوں کے قبائل بنی قریظہ اور بنی نضیر کے کچھ افراد پیغمبر اسلام کی خدمت میں مکروفریب سے حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ” اے پیغمبر خدا! ہم حاضر ہیں کہ آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی پیروی کریں اور مدد کریں“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے کہہ رہا ہے کہ ہرگز کسی غیر پر اعتماد نہ کریں بلکہ اللہ اور وہ مومنین جو آپ کی اتباع کرتے ہیں، آپ کے لئے کافی ہیں، انہی پر اعتماد کریں(تفسیر تبیان، جلد۵،صفحہ۱۵۲)۔

۴۶

اہل سنت اور شیعہ علماء کی کثیر تعداد روایات لکھنے کے بعد کہتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں مومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ اگرچہ دوسرے مومنین بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں لیکن ان آیتوں کے مصداق(پوری طرح آیت کے مطابق) علی ابن ابی طالبعلیہما السلام ہیں۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ تمام مشکلات اور سخت حالات میں علی علیہ السلام کے وجود مقدس پر فخر کیا۔ ذیل میں لکھی گئی دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ هُریرةِ قَالَ: قال رسولُ اللّٰه رَأَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِی اِلَی السَّمٰاءِ عَلَی الْعَرْشِمَکْتُوْباً: لَااِلٰهَ اِلّٰا أَنَا وَحْدِیْ لَا شَرِیْکَ لِیْ وَمحمدًعَبْدِی وَرَسُوْلِی اَیَّدْتُهُ بِعَلیٍّ(قال)فَذٰلِکَ قَوْلُهُ ( هُوَالَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْن ) ۔

”ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شب معراج میں نے دیکھا کہ عرش پر لکھا ہوا تھا :’میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں تنہا اور لاشریک ہوں اور محمد میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے علی کے ذریعے سے اپنے رسول کی مدد کی ہے اور اس آیت شریفہ( هُوَالَّذِیْٓ اَ یَّدَکَ بِنَصْرِه وَبِالْمُومِنِیْنَ ) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے“۔

(ب)۔ حافظ حسکانی جو اہل سنت کے نامور عالم ہیں، کتاب شواہد التنزیل میں روایت نقل کرتے ہیں جو معتبر اسناد کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد بزرگوارحضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔ انہوں نے اس آیت( یٰٓاَ یُّهَاالنَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰهُ وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُومِنِیْنَ ) کی تفسیرمیں فرمایا کہ یہ آیت علی علیہ السلام کی شان میں نازل کی گئی ہے جو ہمیشہ رسول اللہ کے مددگار و حامی و ناصر رہے ہیں۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں حدیث۹۲۶، باب احوال امیرالمومنین ، ج۲،ص۴۱۹

۲۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۳،صفحہ۲۱۶،اشاعت دوم، صفحہ۱۹۹۔

۴۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۲۹۹،جلد۱،صفحہ۲۲۳اور اشاعت اوّل میں جلد۱،صفحہ۲۳۰،شمارہ۳۰۵۔

۴۷

۵۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد، باب مناقب علی علیہ السلام، جلد۹،صفحہ۱۲۱۔

۶۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب ۲۳،صفحہ۱۰۹ اور باب۲ص۲۱

۷۔ ذہبی، میزان الاعتدال، ج۱،ص۲۶۹،حدیث۱۰۰۶اور ص۵۳۰،ج۱،شمارہ۱۹۷۷۔

۸۔ المحب الطبری، کتاب ریاض النضرہ، جلد۲،صفحہ۱۷۲۔

۹۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد۶،صفحہ۱۵۸، اشاعت اوّل۔

اٹھارہویں آیت

حضرت علی کا بغض اور دشمنی شقاوت قلب، نفاق اور انسان کی بدبختی کا باعث ہے

( وَلَوْنَشَآءُ لَاَرَیْنَکَهُمْ فَلَعَرَفْتَهُمْ بِسِیْمٰهُمْوَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ )

”اور اگر ہم چاہیں تو ہم اُن لوگوں کو تمہیں دکھلا دیں پھر تم اُن لوگوں کو اُن کی علامتوں سے پہچان لو اور تم اُن کو اُن کی بات کے لہجے سے ضرور پہچان لوگے“۔(سورئہ محمد، آیت:۳۰)۔

تشریح

اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر اسلام کومنافقین کی اور شقاوت قلبی رکھنے والے انسانوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے :”اگر ہم چاہیں تو ہم تمہیں اُن کی شناخت کروادیں گے“ تاکہ صرف اُن کی چال ڈھال اور قیافہ دیکھنے سے ہی اُن کو پہچا ن لو۔ اس کے علاوہ اُن کے لہجہ و کلام سے بھی پہچان سکتے ہو کہ اُن کے ناپاک دلوں میں کیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن کے بولنے کا انداز کیا تھا کہ پروردگار نے اُس کو منافقین کے پہچاننے کا ایک اہم طریقہ بتایا۔اس ضمن میں اہل سنت اور شیعہ علماء نے جو روایات بیان کی ہیں، اُن پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ منافقین کے دلوں میں حضرت علی علیہ السلام کیلئے شدید دشمنی اور کینہ پایا جاتا تھا۔

۴۸

البتہ وہ اپنی اس دشمنی اور کینہ کو رسول اللہ کی زندگی میں واضح طور پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ شاید وہ اس میں اپنی بھلائی اور فائدہ نہیں دیکھتے تھے ۔ اس لئے وہ موقع بہ موقع رسول اللہ اور مسلمانوں کے پاس آکر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کرتے تھے اور تنقید کرتے تھے۔ اُن کی اس چال کا مقصد صرف حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں کے درمیان کمزور کرنا اور اُن کی محبوبیت کو کم کرنا تھا۔

لیکن خدائے بزرگ نے یہ آیت نازل کرکے اُن کے مکروفریب کو باطل کردیا اور اُن کے ناپاک چہروں کو سب کے سامنے آشکار کردیا۔ اس ضمن میں دو روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبی سعیدُالخَدْری فِی قوله عزوجل”وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ“ قال بِبُغْضِهِمْ عَلَیّاً عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ اس آیت’( وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ ) کی تفسیر میں فرمایاکہ یہ علی کی دشمنی اور بغض کی وجہ سے ہے(یعنی دشمنی علی اُن کی زبان سے ظاہر ہوجاتی ہے)“۔

(ب)۔ درج ذیل روایت کو اکثر مفسرین نے اس آیت کی بحث کے دوران ذکر کیا ہے اور رسول اکرم کے خاص صحابہ کی زبان سے بیان کی گئی ہے جیسے ابی سعید اور دوسروں نے نقل کیا ہے:

کُنَّا نَعْرِفُ الْمُنَافِقِیْنَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللّٰهِ بِبُغْضِهِمْ عَلِیّاً ۔

”ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو اُن کی علی علیہ السلام سے دشمنی کے سبب پہچانتے تھے“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل، جلد۲،صفحہ۱۷۸،حدیث۸۸۳،اشاعت اوّل۔

۲۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ،ج۲، ص۴۲۱،حدیث۹۲۹،باب احوال علی ،اشاعت۲

۳۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۵۔

۴۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیرالمومنین ، حدیث۳۵۹،۳۶۲،صفحہ۳۱۵۔

۵۔ سیوطی، تفسیر المدرالمنثور، جلد۶،صفحہ۷۴اورتاریخ الخلفاء،صفحہ۱۷۰۔

۴۹

۶۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ، کتاب استیعاب، جلد۳،صفحہ۱۱۰۔

۷۔ بلاذری، انساب الاشراف، جلد۲،صفحہ۹۶،حدیث۱۹،اشاعت اوّل از بیروت۔

۸۔ متقی ہندی کنزالعمال، جلد۱،صفحہ۲۵۱،اشاعت اوّل اور اسی طرح احمد بن حنبل ۔

کتاب فضائل میں اور ابن اثیر کتاب جامع الاصول میں، طبری کتاب ریاض النضرہ میں اور بہت سے دوسرے۔

اُنیسویں آیت

علی صالح المو منین ہیں

( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ )

”اور اگر تم دونوں ہمارے رسول کے برخلاف ایک دوسرے کے پشت و پناہ بنو تو اللہ ، جبرئیل اور صالح مومنین اُس کے مددگار ہیں“۔(سورئہ تحریم:آیت۴)

تشریح

یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ اگرچہ کلمہ”صالح المومنین“ اپنے اندر وسیع تر معنی رکھتا ہے اور تمام صالح مومنین اور پرہیز گار اس میں شامل ہوسکتے ہیں لیکن مومن کامل اور اکمل ترین انسان کون ہے؟اس کے لئے ہمیں روایات سے مدد لینا ہوگی اور روایات کو دیکھنا ہوگا۔ تحقیق کرنے پر بڑی آسانی سے ہم منزل تک پہنچ جائیں گے ۔ شیعہ علماء سے منقول روایات کے علاوہ اہل سنت نے بھی بہت سی روایات نقل کی ہیں۔ ان سب سے یہی پتہ چلتا ہے کہ متذکرہ بالا آیت میں صالح مومنین سے مراد ذات مقدس امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں۔ یہاں ہم چند ایک روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

(ا)۔عَنْ اَسماءِ بنتِ عُمَیس قٰالَتْ:سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ یَقْرَأُ هٰذِهِ الآیَة:وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلَهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ، قَالَ صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْطَالِب ۔

۵۰

”اسماء بنت عمیس روایت کرتی ہیں کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے یہ آیت سنی( وَاِنْ تَظٰهَرَاعَلَیْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَمَوْلٰهُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُومِنِیْنَ ) آیت پڑھنے کے بعد پیغمبر خدا نے فرمایا کہ صالح المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں“۔

(ب)۔عَنْ السُّدی عَن ابنِ عَبَّاس، فِی قَولِه عَزَّوَجَلَّ’وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ قَالَ:هُوَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کہ جس میں صالح المومنین کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

(ج)۔عَنْ مُجٰاهِد فی قَولِهِ تَعٰالٰی:”وَصَالِحُ المُومِنِیْنَ“ قَالَ: صَالِحُ المُومِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِب ۔

”مجاہد سے روایت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں جہاں صالح المومنین کا تذکرہ ہے، وہاں صالح المومنین سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۹۸۴ اور ۹۸۵،جلد۲،صفحہ۲۵۷۔

۲۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، باب۶۷،جلد۱،صفحہ۳۶۳۔

۳۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۲۴۴اور اشاعت دیگر صفحہ۲۶۹،۲۷۰۔

۴۔ ابن مغازلی، مناقب امیر المومنین میں، حدیث۳۱۶،صفحہ۲۶۹،اشاعت اوّل۔

۵۔ گنجی شافعی، کتاب کفایت الطالب میں، باب۳۰،صفحہ۱۳۷۔

۶۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں،حدیث لا شی، جلد۱،صفحہ۲۳۷، اشاعت اوّل۔

۷۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، جلد۲،صفحہ۴۲۵، اشاعت دوم، حدیث۹۳۲،۹۳۳۔

۸۔ ابن حجر فتح الباری میں، جلد۱۳،صفحہ۲۷۔

۵۱

بیسویں آیت

قیامت کے دن لوگوں سے ولایت علی کے بارے میں سوال کیا جائے گا

( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ )

”اور ان کو ٹھہرا ؤ کہ ابھی ان سے سوالات کئے جائیں گے“۔(سورئہ صافات:آیت۲۴)

تشریح

سورئہ مبارکہ صافات کے ایک حصہ میں جہاں پروردگار قیامت اور اس کے متعلقہ مسائل اور عذاب عظیم جو مشرکین اور گمراہوں کے انتظار میں ہے، کے بارے میں بیان فرماتا ہے، اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) سے اپنے تمام فرشتوں اور ملائکہ کو اُس دن دوسرے احکام کے ساتھ یہ اہم حکم دے گا اور وہ حکم یہ ہوگا کہ اے میرے فرشتو ! ان کو روک لو ، ابھی ان سے سوال کیا جائیگا۔

لوگوں کے اس سوال پر کہ قیامت والے دن اس آیت کے مطابق کونسی چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اہل سنت اور شیعہ مفسرین نے مختلف جواب دئیے ہیں۔ کچھ نے کہا ہے کہ توحید کے بارے میں سوال کیا جائے گا، کچھ نے کہا ہے کہ اُس دن لوگوں سے بدعتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو وہ دنیا میں چھوڑ گئے، کچھ اوروں نے مختلف دیگر چیزوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ جوابات آیت کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اہل سنت اور شیعہ کتب میں بہت سی روایات موجود ہیں جن کے مطابق باقی اہم سوالوں کے علاوہ جو مجرموں سے پوچھے جائیں گے، ولایت علی ابن ابی طالب کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔ اس مطلب کی وضاحت کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

(ا)۔عَنْ اَبِیْ سعید خدری، عَنْ النبی فی قوله تعالٰی ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قال: عَنْ وِلَایَةَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِب ۔

”ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) ک ی تفسیر میں فرمایا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

۵۲

(ب)۔وَرَوِیٰ اَبُوالْاَحْوَضِ عَنْ أَبی اسحٰاقِ فی قولِهِ تعٰالٰی: ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) قَالَ یَعنی مِنْ وِلَایَةِ عَلِیِّ ابنِ اَبِی طَالِب اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایةِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب ۔

”ابو احوض، ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیہ شریفہ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْنَ ) کی تفسیر میں کہا کہ ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جائیگااور مزید کہا:”اِنَّهُ لَا یَجُوْزُ اَحَدُالصِّرَاطَ اِلَّا وَبِیَدِهِ بَرَاةً بِوِلَایَةِ عَلِی“ ’ کسی کو پل صراط سے گزرنے کا حق حاصل نہ ہوگا مگر وہ جس کے ہاتھ میں ولایت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کا پروانہ ہوگا‘۔

(ج)۔عَنْ اِبْنِ عباس فِی قولِه عَزَّوَجَلَّ ( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) قَالَ:عَنْ وِلَایةِ علی ابنِ ابی طالب ۔

”ابن عباس سے اس آیت( وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْئُوْلُوْن ) کي باري م یں روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۴،جلد۱،صفحہ۷۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل، شمارہ۷۸۷،جلد۲،صفحہ۱۰۶،اشاعت اوّل۔

۳۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال، باب حال علی بن حاتم، ج۳،ص۱۱۸،شمارہ۵۸۰۲۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۴۷۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۷،صفحہ۱۳۳اور اسی کتاب میں

باب مناقب ،صفحہ۲۸۲،حدیث۵۱۔

۶۔ خوارزمی، کتاب مناقب، باب۱۷،صفحہ۱۹۵۔

۷۔ ہیثمی، کتاب صواعق المحرقہ، صفحہ۸۹اور کتاب لسان المیزان،جلد۴،صفحہ۲۱۱۔

۸۔ ابن جوزی، کتاب تذکرة الخواص، باب دوم، صفحہ۲۱۔

۵۳

اکیسویں آیت

اللہ تعالیٰ نے جنگوں اور مشکلات میں مسلمانوں کی مدد علی کے وسیلہ سے کی

( وَرَدَّاللّٰهُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْابِغَیْظِهِمْ لَمْ یَنَالُوْا خَیْرًاوَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَوَکَانَ اللّٰهُ قَوِیًّا عَزِیْزًا )

”اور اُن لوگوں کو جو کافر ہوگئے تھے، اللہ نے اُن کے غصے ہی کی حالت میں لوٹا دیا کہ وہ کسی مراد کو نہ پہنچیں اور اللہ نے مومنوں پر لڑائی کی نوبت ہی نہ آنے دی اور اللہ صاحب قوت اور صاحب غلبہ ہے“۔(سورئہ احزاب: آیت۲۵)۔

تشریح

یہ آیت سورئہ احزاب سے ہے جس کی کچھ دوسری آیتیں جنگ خندق(جنگ احزاب) کے متعلق ہیں۔ جنگ خندق ایسی جنگ ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو کامیابی معجزانہ طور پر نصیب ہوئی اور بغیر کسی وسیع قتل و غارت کے کفار شکست خوردہ اور مایوس ہوکر مدینہ کے محاصرے کو توڑ کر ناکام واپس اپنے علاقوں کی طرف چلے گئے۔اس میں مدد غیبی کی ایک شکل تو قدرت کی طرف سے زبردست طوفان اور سخت ترین سرد ہوائیں چلیں جس نے کفار کے حوصلے پست کردئیے ۔ اُن کے دلوں میں خدائی طاقت کا رعب اور ڈر بیٹھ گیا اور دوسری طرف حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے طاقتور ترین پہلوان اور جنگجو یعنی عمر بن عبدود پر وہ کاری ضرب لگائی کہ وہ نیست و نابود ہوگیا۔ اس سے کفار کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا اور وہ مایوسی میں تبدیل ہوگئیں۔ کفارکے بڑے بڑے سرداروں کے حوصلے پست ہوگئے۔

اس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی فداکاری اور کارکردگی اتنی اہمیت کی حامل تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:

”لَمُبارِزَةُ عَلِی ابنِ ابی طالب لِعُمروبنِ عَبدُوَدیَومَ الْخَنْدَقِاَفْضَلُ مِنْ اَعْمٰالِ اُمَّتِیْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ“

”حضرت علی علیہ السلام کی جنگ خندق میں ایک ضربت میری تمام اُمت کی قیامت تک کی عبادت سے افضل ہے“۔

حاکم، کتاب المستدرک میں، جلد۳،صفحہ۳۲۔

شیخ سلیمان قندوزی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۹اور باب۴۶،ص۱۶۱اوربہت سے دوسرے۔

۵۴

اب اس آیت کی تفسیر میں چند ایک روایات بیان کی جارہی ہیں جو توجہ طلب ہیں:

(ا)۔عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ اِنّه کَانَ یَقْرَاُ هٰذِهِ الآیة”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَالَ“ بِعَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب عَلَیْهِ السَّلَام ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ وہ یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

تلاوت فرمارہے تھے اور اس سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی ذات مقدس کو لے رہے تھے“۔

(ب)۔عَنْ عبداللّٰهِ بن مسعود قَالَ: لَمَّا قَتَلَ عَلِیٌّ عمروبن عَبْدُوَدْ یَوْمَ الْخَنْدَقِ، اَنْزَلَ اللّٰهُ تعالٰی:”وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال“بِعَلِیٌّ ۔

”عبداللہ بن مسعود سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے جنگ خندق میں عمربن عبدود کو ہلاک کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت

( وَکَفَی اللّٰهُ الْمُومِنِیْنَ الْقِتَال )

حضرت علی علیہ السلام (کے عمل) کی خاطر نازل فرمائی“۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل میں، شمارہ۶۲۹،جلد۲،صفحہ۳۔

۲۔ ابن عساکر تاریخ دمشق میں، باب حال امیرالمومنین ، شمارہ۹۲۷،جلد۲،صفحہ۴۲۰،

اشاعت دوم(شرح محمودی)۔

۳ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، شمارہ۴۱۴۹،جلد۲،صفحہ۳۸۰۔

۴۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب۶۲،صفحہ۲۳۴۔

۵۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب۲۳،صفحہ۱۰۸اور باب۴۶،ص۱۶۱۔

۶۔ سیوطی تفسیر الدالمنثور میں، جلد۵،صفحہ۲۰۹۔

۵۵

بائیسویں آیت

علی اورفاطمہ علم و معرفت کے دریائے بیکراں ہیںاور حسن و حسین اُن کے انتہائی قیمتی موتی ہیں

( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِبَیْنَهُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِفَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَآ تُکَذِّبٰنِیَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ )

”اُس نے دودریا بہادئیے، وہ باہم ملتے ہیں اور اُن دونوں کے مابین پردہ ہے کہ ایک دوسرے پر زیادتی نہیں کرسکتا۔پھر تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ اُن دونوں سے موتی اور مونگا برآمد ہوتے ہیں“۔(سورئہ رحمٰن:آیات۱۹تا۲۱)۔

تشریح

وہ افراد جو قرآن اور علوم قرآن سے واقف ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب آسمانی اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک آیت بعض اوقات چند معنی رکھتی ہو اور بعض اوقات بیسیوں معنی رکھتی ہو جبکہ اُن کا ہر معنی اپنی جگہ قابل توجہ اور اہمیت کا حامل ہو اور وہ ایک دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہ رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر یہ چند آیات جو سورئہ رحمٰن سے ہیں اوراوپر بیان کی گئی ہیں، اس طرح کی آیات ہیں جن کے مختلف معنی نکل سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو ان آیات کو ظاہری اعتبار سے دیکھتے ہیں تو اُن کے اذہان میں یہی معنی آتے ہیں کہ کرئہ ارض کے بڑے بڑے دریا اور سمندر جو اس کے تین چوتھائی حصے پر پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کے اندر بڑے بڑے قیمتی گوہر اور معدنیات موجود ہیں، یہ خدائے بزرگ کی طرف سے عظیم نعمتیں ہیں۔ یہ سب ،انسان کو غوروفکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ خدا نے انسان کیلئے کس طرح یہ دریااور سمندر پھیلائے اور اُن میں بیش بہا نعمتیں پیدا کیں۔ لیکن ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ان آیات کے دوسرے مطالب ہیں جو مقصود خالق ہیں۔

۵۶

روایات اور اطلاعات جو اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، اُن کو بغور دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ان آیات سے دو عظیم ہستیوں کا تعارف کروانا مقصود ہے۔ وہ ہستیاں جو علم و معرفت اور کمال کے دریائے بیکراں ہیں اور ان سے ملنے والے دو قیمتی موتی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام ہیں۔توضیح کیلئے درج ذیل روایات پر توجہ فرمائیں:

عَنْ اِبْنِ عباس رضی اللّٰه عنه فی قوله تعالٰی ( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) قال:علی و فاطمه ،( بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ ) اَلنّبی،( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلو وَالْمَرْجَانُ ) قال:اَلْحَسَنُ وَالْحُسَیْن علیهماالسلام ۔

”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ تفسیر( مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰن ) سے مراد علی علیہ السلام اور فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں۔”بَیْ نَھُمَابَرْزَخٌ لَّایَبْغِ یٰن“ سے مراد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے(پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات جناب علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے درمیان وہ واسطہ ہے جس سے یہ صحیح بندگی خدا اور اُس کی عبودیت کے لئے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح اُن کی ذات گرامی سے خود بھی فیض یاب ہوتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کیلئے بطور نمونہ اُن کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنتے ہیں)۔( یَخْرُجُ مِنْهُمَاالُّلووَالْمَرْجَانُ ) سے مراد امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں۔

یہ قابل توجہ بات ہے کہ درج بالا روایت کو علمائے اہل سنت نے دوسرے صحابہ سے بھی نقل کیا ہے اور شیعہ علماء نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے اور یہ روایت بجائے خود بہت اہمیت کی حامل ہے۔

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ سیوطی تفسیر الدرالمنثور میں، جلد۶،صفحہ۱۵۸اور دوسری اشاعت میں ج۶،ص۱۴۲

۲۔ حافظ الحسکانی، شواہد التنزیل ، حدیث۹۱۹،ج۲،ص۲۰۹،اشاعت اوّل،ج۲،

صفحہ۲۱۲،اشاعت دوم۔

۳۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب امیر المومنین ، صفحہ۳۳۹،حدیث ۳۹۰۔

۴۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۳۹،صفحہ۱۳۸۔

۵۷

۵۔ ثعلبی، تفسیر ثعلبی میں جلد۴،صفحہ۲۸۹۔

۶۔ حافظ ابونعیم اصفہانی، کتاب ”مانزل من القرآن فی علی “،اس آیت کی تشریح میں۔

۷۔ شبلنجی، کتاب نورابصار میں، صفحہ۱۰۱۔

۸۔ خوارزمی، کتاب مقتل الحسین ، صفحہ۱۱۲۔

۹۔ کراجکی، کتاب کنزالفوائد میں، صفحہ۳۶۶۔

تئیسویں آیت

علی اور اہل بیت سے محبت نیکی ہے اور ان سے بغض گناہ ہے

( مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَ وَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعَْمَلُوْنَ )

”جو شخص کوئی نیکی لے کر آئے گا پس اُس کیلئے اس کا عوض اس سے بہتر موجود ہے اور وہ اُس دن خوف سے امن میں ہوں گے اور جو بدی لے کر آئے گا وہ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دئیے جائیں گے، جو کچھ تم کرتے تھے، اُسی کا بدلہ تمہیں ملے گا“(سورئہ نمل:آیت۸۹اور۹۰)

تشریح

اس آیت میں دو الفاظ یعنی”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ استعمال ہوئے ہیں۔آیت کا اصلی مقصد بھی انہی کو سمجھانا ہے کہ نیکی اور بدی اصل میں کہتے کسے ہیں کیونکہ اس کا انسان کی مادّی اور روحانی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

”حَسَنَةِ“ اور”سَيِّئَةِ“ ، یہ دوالفاظ اس آیت میں اور قرآن کی دیگر آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان الفاظ کے مفہوم اور معنی نہایت وسیع ہیں مثلاً”حَسَنَةِ“ میں تمام نیک اور پسندیدہ اعمال شامل ہیں اور ان میں سرفہرست خدا پر ایمان، اُس کے پیغمبر پر ایمان اور حضرت علی علیہ السلام اور آئمہ علیہم السلام کی ولایت پر ایمان ہے اور”سَيِّئَةِ“ میں تمام قبیح اور ناپسندیدہ اعمال شامل ہیں جو انسان کو خدا اور اُس کے رسول

۵۸

اور اُس کے اولیائے حق کے خلاف سرکشی پر ابھارتے ہیں اور یہ ”حَسَنَة“کی مکمل ضد ہے۔ لیکن ان کلمات کی تفاسیر اور تعابیر جو ہم تک آئمہ معصومین کے ذریعے سے پہنچی ہیں اور جسے بہت سے علمائے اہل سنت اور شیعہ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے، کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ”حَسَنَة“ سے مراد قبول ولایت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور اُن کی اولاد ہیں اور ”سَےئَة“ سے مرادعدم قبول ولایت علی اور اولاد علی ہے۔درج ذیل روایت میں اسی بات کی تفسیر ہے:

عَنْ ابی عبدِاللّٰهِ الجَدَلِی قال: قٰال لی علی علیه السلام:اَلٰا اُنَبِّئُکَ بِالْحَسَنَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَدْخَلَهُ اللّٰهُ الجَنَّةَ وَبِالسَّيّئَةِ الَّتِی مَنْ جٰاءَ بِهٰااَکَبَّهُ اللّٰهُ فِی النّٰارِوَلَمْ یُقْبَلُ لَه عَمَلاً؟ قُلْتُ بلٰی ثُمَّ قَرَأَ(امیرالمومنین) مَنْ جٰاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرُ مِنْهٰاوَهُمْ مِنْ فَزَعِ یَومَئِذٍآمِنُوْنَ وَمَنْ جٰاءَ بالسَّيّئَةِ فَکُبَّتْ وَجُوْهَهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ثُمَّ قٰالَ: یٰا أَبٰاعَبْدِاللّٰهِ، اَلْحَسَنَةُ حُبُّنٰاوَالسَّيِّئَةُ بُغْضُنَا

”ابو عبداللہ جدلی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:’کیا میں تجھے اُس نیک عمل کی خبر نہ دوں کہ جو کوئی اُس کو انجام دے گا، پروردگار اُس کو بہشت میں داخل کرے گا اور کیا تجھے اُس بدعمل کی خبر نہ دوں کہ اُسے جو کوئی انجام دے گا، پروردگار اُسے جہنم میں پھینکے گااور اُس کاکوئی دوسراعمل بھی قبول نہ ہوگا‘۔

میں نے عرض کی:’ہاں مولا! میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے باخبرکریں‘۔ حضرت علی علیہ السلام نے پھر یہ آیت پڑھی:

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه خَیْرٌ مِّنْهَا وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍاٰمِنُوْنَوَمَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِهَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَاکُنْتُمْ تَعْمَلَُوْنَ

پھر فرمایاحَسَنَةہم اہل بیت سے محبت ہے اورسَےئَة اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے۔اسی طرح بعض دوسری روایات میں آیاہے کہ آپ نے اس بارے میں فرمایا:

”اَلْحَسَنَةُ مَعْرِفَةُ الْوِلَایَةِ وَحُبُّنٰا اَهْلِ الْبَیْتِ وَالسِّيِّئَةُ اِنْکَارُ الْوِلَایَةِ وَبُغْضُنَا اَهْلَ الْبَیْتِ“ ۔

”حَسَنَة یعنی معرفت ولایت علی علیہ السلام اورہم اہل بیت سے محبت ہے اور سَّےئَة یعنی انکار ولایت علی علیہ السلام اور ہم اہل بیت سے بغض و دشمنی ہے“۔

۵۹

تصدیق فضیلت اہل سنت کی کتب سے

۱۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین، باب۶۱،جلد۲،صفحہ۲۹۹۔

۲۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث۵۸۲،۵۸۷،ج۱،ص۴۲۶،۴۲۸

۳۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب۲۴،صفحہ۱۱۳۔

۴۔ ثعلبی اپنی تفسیر میں، جلد۲۔

۵۔ الحنینی کتاب خصائص الوحی المبین، صفحہ۱۲۸۔

۶۔ رشید الدین، مناقب آل علی ، جلد۲،صفحہ۲۲۵،عنوان درجات علی عند قیام الساعة۔

چوبیسویں آیت

اللہ تعالیٰ علی کے وسیلہ سے کفارو مشرکین سے انتقام لیتا ہے

( فَاِمَّانَذْهَبَنَّ بِکَ فَاِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ )

”پس اگر تم کو ہم لے جائیں گے تو ہم اُن سے بھی ضرور ہی بدلہ لینے والے ہیں“۔

(سورئہ زخرف:آیت۴۱)۔

تشریح

سورئہ مبارکہ زخرف میں اللہ تعالیٰ کفار کی حرکتوں کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے پیغمبر کی تسلی اور سکون کی خاطر فرمارہا ہے کہ کفار کی چالوں کی وجہ سے اسلام کے مستقبل کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ اگر وہ کفر، ظلم اور انتقام جوئی کو ترک نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ بھی یقینا اُن سے انتقام لے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ بشری زندگی کے مختلف زمانوں میں اپنے قابل دید اور ناقابل دید لشکروں سے کفار، منافق اور مشرکوں سے انتقام لیتا رہا ہے اور اُن کوسزائیں دیتا رہا ہے اور یہ عمل اُس کیلئے کوئی مشکل نہیں کیونکہ اُس کی ذات

( فَعَّالٌ لِمٰا یُرِیْد )

”وہ جو چاہتا ہے ، کرتا ہے“۔

۶۰

٥٦ ۔ اولاد کا قتل

ایسی عورت جو ولادت کے وقت بچے کو قتل کر ڈالے

(قال الامام الصادق علیه السلام) :کانت فی زمن أمیر المومنین علیه السلام امرئة صدق یقال لها : ام قیان فأتا ها رجل من أصحاب أمیر المومنین علیه السلام فسلم علیها .قال : فرآها مهتمّة ؟فقال لها : مالی أراک مهتمة ؟فقالت : مولاة لی دفنتها ، فنبذتها الأرض مرتین .فدخلت علی أمیر المؤمنین علیه السلام فأخبرته .فقال علیه السلام : ان الأرض لتقبل الیهودی و النصرانی ، فما لها ؟الا أن تکون تعذب بعذاب الله عزّ و جلّ .ثم قال علیه السلام : أما انه لو اخذت تربة من قبر رجل مسلم فألقی علی قبرها فقرت .قال : فأتیت ام قیان فأخبرتها ، فأخذوا تربة من قبر رجل مسلم فألقی علی قبرها فقرت .فسألت عنها : ما کانت حالها ؟فقالوا : کانت شدیدة الحبّ للرجال لا تزال قد ولدت فألقت و لدها فی التنّور( ١ )

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ میں ایک نیک خاتون تھی جسے ام قیان کہا جاتا تھا

امیر المؤمنین علیہ السلام کے ایک صحابی اُس کے پاس آئے اور سلام کیا تو دیکھا کہ وہ مشغول ہے سوال کیا تو بتایا کہ میری مالک کا انتقال ہوا تو اسے دفن کرنا چاہا تو زمین نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیاہے

یہ صحابی کہتے ہیں میں علی علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوا اور اس واقعہ کی خبر دی

آپ (ع) نے فرمایا : زمین تو یہودی اور نصرانی کو بھی قبول کر لیتی ہے پس اسے کیا ہوا ؟

یقینا اس پر عذاب خدا نازل ہوا ہے

اور پھر فرمایا : اگر کسی مسلمان کی قبر کی مٹی اٹھا کر اس عورت کی قبر میں ڈالی جائے تو وہ اسے قبول کرلے گی

یہ صحابی کہتے ہیں : میں ام قیان کے پاس پہنچا اور اسے یہ خبر دی

لوگوں نے ایسا ہی کیا تو قبر نے اسے قبول کر لیا

میں نے اس عورت کے بارے میں پوچھا تو جواب دیا کہ اس نے بہت سے مردوں سے دوستی بنا رکھی تھی اور جب بھی اس کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اسے تنور میں پھینک دیتی تھی

____________________

(١) اصول کافی ٧ : ٣٧٠ ، من لا یحضرہ الفقیہ ٤ : ٧١

۶۱

٥٧ ۔ طلاق

ایسی عورت جو لذت کی خاطر شوہر سے طلاق لے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

ان الله عز وجل یبغض أو یلعن کل ذوّاق من الرجال و کل ذوّاقة من النساء( ١ )

و قال الامام الصادق علیه السلام :

تزوجوا ولا تطلقوا ، فانّ الطلاق یهتز منه العرش( ٢ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آ لہ و سلم نے فرمایا :

خداوند متعال تنوع طلب مردوں اور عورتوں پر غضبناک ہوتا ہے یا ان پر لعنت فرماتا ہے

نیز امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :

شادی کرو اور طلاق مت دو اس لئے کہ طلاق سے عرش الٰہی کانپ اٹھتا ہے

____________________

(١) اصول کافی ٦ : ٥٤

(٢) مکارم الأخلاق ١ : ٤٣٢

۶۲

٥٨ ۔ طلاق

ایسی عورت جو بغیر کسی سبب کے شوہر سے طلاق طلب کرے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

ایما امرئة سألت زوجها الطلاق فی غیرها به بأس فحرام علیها رائحة الجنة )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جو عورت بغیر کسی سبب کے اپنے شوہر سے طلاق کا تقاضا کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے

____________________

(١) روضة الواعظین ٢ : ٦٣٢ ، عوالی اللئالی ٣ : ٣٧٢ ، اور مکارم الأخلاق ١ : ٤٦٣ پر رجوع فرمائیں

۶۳

٥٩ ۔ زنا

ایسی عورت جو زنا سے اولاد پیدا کرے اور اسے شوہر کی طرف نسبت دے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

لیلة اسری بی الی السماء ، رأیت نساء من امتی فی عذاب شدید فأنکرت شأنهن فبکیت لما رأیت من شدت عذابهنّ

رأیت امرئة صمّاء عمیاء ، خر ساء فی تابوت من نار ، یخرج دماغ رأسها من منخرها و بدنها متقطع من الجذام و البرص.

(قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم) :

أما الصمیاء ، العمیاء ، الخرساء فانها کانت تلدمن الزنا فتعلقه فی عنق زوجها( ١ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں نے وہاں پہ اپنی امت کی عورتوں کو

سخت ترین عذاب میں مبتلا دیکھا جس پر میں پریشان ہوا اور ان کے عذاب کی شدت پر گریہ کیا

میں نے ایک عورت کو دیکھا جو اندھی ، گونگی اور بہری تھی اسے آگ کے تابوت میں ڈالا گیا تھا اس کا مغز پگھل کر اس کی ناک سے بہہ رہا تھا اور اس کا بدن پھوڑوں اور پھنسیوں سے بھرا ہوا تھا

وہ ایسی عورت تھی جو زنا کا ارتکاب کرتی اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کو اپنے شوہر کی طرف نسبت دے دیتی تھی

____________________

(١) عیون الأخبار ٢ : ٣٠ ، حدیث ٢٤

۶۴

٦٠ ۔ زنا

ایسی عورت جو زنا جیسے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے

قال الامام الباقر علیه السلام :

انما لعن رسول الله صلی الله علیه و آ له و سلم الواصلة و الموصولة التی تزنی فی شبابها

فلما کبرت قادت النساء الی الرجال )

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زنا کار اور زنا میں واسطہ بننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے

جو جوانی میں زنا سے مرتکب ہوتی رہی ہو اور جب بوڑھی ہوجائے تو عورتوں کو مردوں کے سامنے پیش کرنے لگے

____________________

(١) اصول کافی ٥ : ٥٢٠ ، تھذیب الأحکام ٦ : ٤١٢

۶۵

٦١ ۔ زبان درازی

ایسی عورت جو اپنے شوہر کے سامنے زبان درازی کرے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

ما من امرئة تردّ علی زوجها الا علّقت یوم القیامة بلسانها ، و سمّرت بمسامیر من نار )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جو عورت اپنے شوہر کے سامنے حاضر جوابی سے کام لیتے ہوئے زبان دراز کرے تو خداوند متعال روز قیامت اسے اس کی زبان سے معلق کر دے گا اور اس کے (ہاتھوں میں) آگ کی میخیں گاڑی جائیں گی

____________________

(١) مستدرک الوسائل ١٤ : ٢٤٠

۶۶

٦٢ ۔ ہمسر کی توہین

ایسی عورت جو شوہر سے کہے : اُف ہے تم پر

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

ما من امرئة قالت لزوجها : اُفّاً لک الا لعنها الله من فوق العرش و الملائکة و الناس اجمعین )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جو عورت اپنے شوہر کے سامنے کہے : اُف ہے تم پر تو خداوند متعال ، ملائکہ اور تمام لوگ اس پر لعنت کرتے ہیں

____________________

(١) عوالم علوم سیدة النساء علیھا السلام و مستدرکاتھا ١ : ٥٢٤

۶۷

٦٣ ۔ مستحب روزہ

ایسی عورت جو شوہر کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ رکھے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

ما من امرئة تصوم بغیر اذن زوجها تطوّعاً لا لفرض شهر رمضان و غیره من النذر الا کانت من الآثمین( ١ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

جو عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر ماہ رمضان یا نذر کے علاوہ مستحب روزہ رکھے تو وہ گناہ گار شمار ہوگی

____________________

(١) مستدرک الوسائل ١٤ : ٢٤١

۶۸

٦٤ ۔ چغل خور عورت

ایسی عورت جو دوسروں میں اختلاف ایجاد کرے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

لیلة اسری بی الی السماء ، رأیت نسائً من امتی فی عذاب شدید فأنکرت شأنهنّ فبکیت لما رأیت من شدّت عذابهنّ و رأیت امرئة رأسها رأس الخنزیر و بدنها بدن الحمار فانها کانت نمّامة کذّابة( ١ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جب مجھے معراج پہ لے جایا گیا تو وہاں پہ میں نے اپنی امت کی عورتوں کو سخت عذاب میں مبتلا دیکھا جسے دیکھ کر میں پریشان ہوا اور ان پر ہونے ولے عذاب کی سختی کو دیکھکر گریہ کیا

میں نے ایک عورت کو دیکھا جس کا سر خنزیر کا تھا اور بدن گدھے کا یہ وہ عورت تھی جو چغل خوری کیا کرتی اور جھوٹ بولتی تھی

____________________

(١) عیون الأخبار ٢ : ، باب ٣٠ ، ٢٤

۶۹

٦٥ ۔ چغل خوری

ایسی عورت جو لوگوں کو آپس میں لڑائے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

من مشی فی نمیمة بین اثنین سلّط الله علیه فی قبره ناراً تحرقه الی یوم القیامة و اذا خرج من قبره سلّط الله علیه تنّینا أسود ینهش لحمه حتی یدخل النار( ١ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جو شخص دو آدمیوں کے درمیان چغل خوری کی خاطر قدم بڑھائے تو خداوند متعال اس کی قبر میں قیامت تک کے لئے آگ کو مسلط کر دے گا

اور جب قبر سے نکلے گا تو ایک سیاہ سانپ اس پر مسلط کردیا جائے گا جو اس کے جہنم میں داخل ہونے تک اس کے بدن کے گوشت کو کاٹتا رہے گا

____________________

(١) عقاب الأعمال : ٣٣٥ ؛ اعلام الدین : ٤١٥

۷۰

٦٦ ۔ گالیاں دینے والی عورت

ایسی عورت جو گالیاں دیتی ہو

قال الامام الصادق علیه السلام :

سمع رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم امرئة تسبّ جاریة لها و هی صائمة فدعا رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم بطعام

فقال لها : کلی فقالت : انی صائمة

فقال صلی الله علیه و آله و سلم : کیف تکونین صائمة و قد سببّت جاریتک ؟ انّ الصوم لیس من الطعام و الشراب( ١ )

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک عورت کو حالت روزہ میں اپنی کنیز کو گالیاں دیتے سنا تو کھانالانے کا حکم دیا اور اس عورت سے کہا : اسے کھاؤ وہ کہنے لگی : میں تو روزے سے ہوں

اس وقت آنحضرت (ص) نے فرمایا : تم کیسے روزے سے ہو جب کہ اپنی کنیز کو گالیاں دی رہی تھی

بے شک روزہ فقط کھانے پینے سے اجتناب کا نام نہیں ہے (بلکہ انسان کے تمام اعضاء روزے سے ہونے چاہئیں)

____________________

(١) اصول کافی ٤ : ٨٧ ؛ من لا یحضرہ الفقیہ ٢ : ٦٨

۷۱

٦٧ ۔ ہمسر کے لئے دعا نہ کرنا

ایسی عورت جو اپنے شوہر کے لئے دعا نہ کرے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

ما من امرئة صلّت فرضها و دعت لنفسها و لم تدع لزوجها الا ردّ الله علیها صلاتها حتی تدعوا لزوجها( ١ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جو عورت نماز بجالائے اور اپنے لئے دعا کرے مگر اپنے شوہر کے لئے دعا نہ کرے تو خداوند متعال اس کی نماز کو ردّ کر دیتا ہے جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے لئے دعا نہ کرے

____________________

(١) عوالم علوم سیدة النساء علیھا السلام ومستدرکاتھا ١ : ٥٣٥

۷۲

٦٨ ۔ جھوٹ بولنے والی عورت

ایسی عورت جو جھوٹ بولے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

لیلة اسری بی الی السماء ، رأیت نسائً من امتی فی عذاب شدید فأنکرت شأنهنّ فبکیت لما رأیت من شدّت عذابهنّ و رأیت امرئة رأسها رأس الخنزیر و بدنها بدن الحمار فانها کانت نمّامة کذّابة( ١ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جب مجھے معراج پہ لے جایا گیا تو وہاں پہ میں نے اپنی امت کی عورتوں کو سخت عذاب میں مبتلا دیکھا جسے دیکھ کر میں پریشان ہوا اور ان کے اوپر ہونے والے عذاب کی سختی کو دیکھکر گریہ کیا

میں نے ایک عورت کو دیکھا جس کا سر خنزیر کا تھا اور بدن گدھے کا یہ وہ عورت تھی جو چغل خوری کیا کرتی اور جھوٹ بولتی تھی.

____________________

(١) عیون الأخبار ٢ : ، باب ٣٠ ، ٢٤

۷۳

٦٩ ۔ فاسق سے شادی کرنا

ایسی عورت جو کسی فاسق شخص سے شادی پر راضی ہو

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

أیما امرئة رضیت بتزویج فاسق فهی منافقة ، و جلست فی النار و اذا ماتت فتح لها فی قربها سبعون باباً من العذاب و ان قالت : لا اله الا الله لعنها کل ملک بین السماء و الأرض و غضب الله علیها فی الدنیا و الآخرة و کتب علیها فی کل یوم و لیلة سبعین خطیئة( ١ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جو عورت کسی فاسق شخص سے شادی کرنے پر رضا مند ہو تو وہ منافق ہے اور

اس کا ٹھکانہ جہنم ہے مرنے کے بعد قبر میں اس پر عذاب نازل کیا جائے گا ملائکہ آسمان و زمین اس پر لعنت کرتے ہیں خداوند متعال دنیا و آخرت میں اس پر غضبناک ہوتا ہے اور ہر دن و رات میں اس کے نامہ اعمال میں ستر گناہ لکھے جاتے ہیں

____________________

(١) ارشاد القلوب ١ : ٣٣١.

۷۴

٧٠۔ دست درازی

ایسی عورت جو شوہر پر ہاتھ اٹھائے

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

ما من امرئة تمتدّیدها ، ترید أخذ شعره من زوجها أو شق ثوبه الا سمّر الله کفیها بمسامیر من نار( ١ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

جو عورت اپنے شوہر کے بال پکڑنے یا اس کا لباس پھاڑنے کے قصد سے ہاتھ بڑھائے تو خداوند متعال (روز قیامت) اس کے ہاتھوں میں آگ کی میخیں گاڑ دے گا

____________________

(١) مستدرک الوسائل ١٤ : ٢٤٠

۷۵

٧١ ۔ بدن کا نہ چھپانا

ایسی عورت جو نا محرموں سے اپنا بدن نہ چھپاتی ہو

قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم :

لیلة اسری بی الی السماء رأیت نسائً من اُمتی فی عذاب شدید. فأنکرت شأنهنّ فبکیت لما رأیت من شدّت عذابهنّ

رأیت امرئة تأکل لحم جسدها و النار توقد من تحتها

(قال رسول الله صلی الله علیه و آله و سلم) : و أما التی کانت تأکل لحم جسدها ، فانهاکانت تزین بدنها للناس( ١ )

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : شب معراج میں نے اپنی امت

کی عورتوں کو سخت ترین عذاب میں مبتلا دیکھا جسے دیکھکر پریشان ہوا اور ان پر ہونے والے عذاب کی شدت پر گریہ کیا

میں نے ایک عورت کو دیکھا : جو اپنے بدن کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھی اور اس کے بدن کے نیچے سے آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے

یہ وہ عورت تھی جو اپنے بدن کو لوگوں کے لئے مزین کیا کرتی (اور اسے لوگوں سے نہ چھپاتی)

____________________

(١) عیون الأخبار ٢ : ، باب ٣٠ ، حدیث

۷۶

٧٢ ۔ نامحرم سے رابطہ

ایسی عورت جو نامحرم سے ناجائز رابطہ برقرار کرے

قال الامام الصادق علیه السلام :

ثلاثة لا یکلهم الله یوم القیامة ولا ینظر الیهم ولا یزکیهم ولهم عذاب الیم

و لامرائة توطیٔ فراش زوجها غیره( ١ )

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

روز قیامت خداوند متعال تین طرح کے لوگوں سے نہ تو ہم کلام ہوگا ، نہ تو ان پر نظر رحمت کرے گا ، نہ ان کو (گناہوں) سے پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے

____________________

(١) من لایحضرہ الفقیہ ٤ : ٨٣ عقاب الاعمال ٢ : ٣١ ، محاسن برقی ١ : ١٩٥

اصول کافی ٥ : ٥٤٣

۷۷

فہرست

انتساب ۴

مقدمہ ۵

١ ۔ بے حجاب عورت ۶

ایسی عورت جو اپنے سر کے بال نامحرم سے نہ چھپاتی ہو ۶

٢ ۔ گھوڑ سواری ۷

ایسی عورت جو زین پر سوار ہوتی ہو ۷

٣ ۔ نا محرم سے آمنا سامنا ۸

ایسی عورت جو اپنے کو نامحرموں کے سامنے پیش کرے ۸

٤ ۔ شوہر کی آمدن پر قناعت نہ کرنا ۹

ایسی عورت جو اپنے شوہر کی آمدن پر قناعت نہ کرتی ہو ۹

٥ ۔ کفران نعمت ۱۰

ایسی عورت جو اپنے شوہر سے کہے کہ میں نے تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی ۱۰

٦ ۔ نیکی کا فراموش کر دینا ۱۱

ایسی عورت جو اپنے شوہر کی نیکیوں کو فراموش کردے ۱۱

٧ ۔ مذموم عورت ۱۲

ایسی عورت جو اپنے شوہر کی نیکیوں کا انکار کردے ۱۲

٨ ۔ شوہر کے سامنے منہ چڑھانا ۱۳

ایسی عورت جو شوہر کو دیکھ کر خوش نہ ہو ۱۳

٩ ۔ شوہر سے گلہ و شکوہ ۱۴

ایسی عورت جو اپنے شوہر سے بے جا شکوہ کرے ۱۴

١٠ ۔ عورت کی ذمہ داری ۱۵

ایسی عورت جو غیروں کے لئے زینت کرے ۱۵

١١ ۔ عورت کا زینت کرنا ۱۶

ایسی عورت اپنے شوہر کے لئے زینت نہ کرتی ہو ۱۶

١٢ ۔ عورت کا اپنے کو سنوارنا ۱۷

ایسی عورت جو غیروں کے لئے اپنے کو سنوارتی ہو ۱۷

١٣ ۔ زینت کر کے باہر نکلنا ۱۸

ایسی عورت جو زینت کرکے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلے ۱۸

١٤ ۔ شوہر کو اذیت پہنچانا ۱۹

ایسی عورت جو اپنے شوہر کو اذیت پہنچاتی ہو ۱۹

١٥ ۔ شوہر کو پریشان کرنا ۲۰

ایسی عورت جو اپنے شوہر کو پریشان کرے ۲۰

١٦ ۔ شوہر کو زبان سے تکلیف پہنچانا ۲۱

ایسی عورت جو زبان سے اپنے شوہر کو تکلیف پہنچاتی ہو ۲۱

١٧ ۔ شوہر کی ناپسندیدہ چیز کا گھر میں لانا ۲۲

ایسی عورت جو شوہر کی ناپسندیدہ چیز گھر میں لے آئے ۲۲

١٨ ۔ عورت کا گانا بجانا ۲۳

ایسی عورت کی کمائی کھانا جو گاناگاتی ہو ۲۳

١٩ ۔ موسیقی ۲۴

ایسی عورت جو گانا گاتی ہو ۲۴

٢٠ ۔ صفائی کا خیال نہ رکھنا ۲۵

ایسی عورت جو گھر کو گندا رکھتی ہو ۲۵

٢١ ۔ طہارت کا خیال نہ رکھنا ۲۶

ایسی عورت جو غسل حیض کا خیال نہ رکھتی ہو ۲۶

٢٢ ۔ نا محرم مرد کو گھر پہ لانا ۲۷

ایسی عورت جو شوہر کی اجازت کے بغیر کسی نا محرم کو گھر لے آئے ۲۷

٢٣ ۔ شوہر کے سامنے منہ چڑھانا ۲۸

ایسی عورت جو اپنے شوہر کے سامنے چہرہ بگاڑے ۲۸

٢٤ ۔ شوہر سے بد اخلاقی ۲۹

ایسی عورت جو اپنے شوہر سے بد اخلاقی کرے ۲۹

٢٥ ۔ بد اخلاق عورت ۳۰

ایسی عورت جو ہمسائیوں سے بد اخلاقی کرے ۳۰

٢٦ ۔ شوہرکی نافرمانی ۳۱

ایسی عورت جو اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہو ۳۱

٢٧ ۔ شوہرکی اجازت کے بغیر صدقہ دینا ۳۲

ایسی عورت جو اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر صدقہ دے ۳۲

٢٨ ۔ شوہر سے بے جا امید ۳۳

ایسی عورت جو اپنے شوہر سے بیجا توقعات رکھتی ہو ۳۳

٢٩ ۔ ہمسر سے تندی کے ساتھ پیش آنا ۳۴

ایسی عورت جو اپنے شوہر سے سختی برتتی ہو ۳۴

٣٠ ۔ ہمسر پر جادو کرنا ۳۵

ایسی عورت جو شوہر کو نرم دل بنانے کے لئے جادو سے کام لے ۳۵

٣١ ۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا ۳۶

ایسی عورت جو شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جائے ۳۶

٣٢ ۔ عورت کا گھر سے باہر نکلنا ۳۷

ایسی عورت جو باہر جاتے وقت شوہر سے اجازت طلب نہ کرے ۳۷

٣٣ ۔ ہمسر کو ناراض کرنا ۳۸

ایسی عورت جو اپنے شوہر کو ناراض کرے ۳۸

٣٤ ۔ نا محرم کے ساتھ خلوت کرنا ۳۹

ایسی عورت جو نامحرم شخص کے ساتھ خلوت کرے ۳۹

٣٥ ۔ نا محرم سے تنہائی ۴۰

ایسی عورت جو نا محرم کے ساتھ تنہائی میں رہے ۴۰

٣٦ ۔ شوہر سے خیانت کرنا ۴۱

ایسی عورت جو اپنے شوہر سے خیانت کرے ۴۱

٣٧ ۔ حق مہر کا زیادہ ہونا ۴۲

ایسی عورت جس کا حق مہر حد سے زیادہ ہو ۴۲

٣٨ ۔ شوہر کو احسان جتلانا ۴۳

ایسی عورت جو جہیز کے زیادہ ہونے کا احسان جتلائے ۴۳

٣٩ ۔ شوہر کو احسان جتلانا ۴۴

ایسی عورت جو زیادہ مال رکھنے کی بنا پر احسان جتلائے ۴۴

٤٠ ۔ نافرمان بیوی ۴۵

ایسی عورت جو شوہر کی نافرمانی کرتی ہو ۴۵

٤١ ۔ دوسروں کو نفرین کرنا ۴۶

ایسی عورت جو بغیر وجہ کے دوسروں کو نفرین کرے ۴۶

٤٢ ۔ ناپسند عورت ۴۷

ایسی عورت جو زیادہ لعنت کرنے والی ہو ۴۷

٤٣ ۔ عورت کا فضول خرچی کرنا ۴۸

ایسی عورت جو شوہر کی تو ان سے بڑھکر اس سے خرچ طلب کرے ۴۸

٤٤ ۔ ہمسایوں کو اذیت پہنچانا ۴۹

ایسی عورت جو ہمسائیوں کو اذیت پہنچاتی ہو ۴۹

٤٥ ۔ سوکن کو اذیت پہنچانا ۵۰

ایسی عورت جو اپنی سونکن کے بارے میں بد گمانی رکھتی ہو ۵۰

٤٦ ۔ زنا میں واسطہ بننا ۵۱

ایسی عورت جو زنا کے لئے واسطہ بنتی ہو ۵۱

٤٧ ۔ سونکن پر جادو کرنا ۵۲

ایسی عورت جو اپنی سونکن پر جادو کرتی ہو ۵۲

٤٨ ۔ چپٹی کرنا ۵۳

ایسی عورت جو دوسری عورت سے لذت لے ۵۳

٤٩ ۔ چپٹی کرنا ۵۴

ایسی عورت جو دوسری عورت سے لذت حاصل کرتی ہو ۵۴

٥٠ ۔ شہوت آمیز نگاہ ۵۵

ایسی عورت جو نامحرم کو شہوت کی نگاہ سے دیکھے ۵۵

٥١ ۔ غصے کی نگاہ ۵۶

ایسی عورت جو اپنے شوہر کی طرف غصے سے دیکھے ۵۶

٥٢ ۔ مباشرت ۵۷

ایسی عورت جو اپنے شوہر کو مباشرت سے انکار کردے ۵۷

٥٣ ۔ مباشرت ۵۸

ایسی عورت جو اپنے شوہر کے پاس سونے سے انکار کرے ۵۸

٥٤ ۔ مردوں سے شباہت ۵۹

ایسی عورت جو مردوں کی صورت اختیار کرے ۵۹

٥٥ ۔ قطع رحمی ۶۰

ایسی عورت جو رشتہ داروں سے رابطہ قطع کرے ۶۰

٥٦ ۔ اولاد کا قتل ۶۱

ایسی عورت جو ولادت کے وقت بچے کو قتل کر ڈالے ۶۱

٥٧ ۔ طلاق ۶۲

ایسی عورت جو لذت کی خاطر شوہر سے طلاق لے ۶۲

٥٨ ۔ طلاق ۶۳

ایسی عورت جو بغیر کسی سبب کے شوہر سے طلاق طلب کرے ۶۳

٥٩ ۔ زنا ۶۴

ایسی عورت جو زنا سے اولاد پیدا کرے اور اسے شوہر کی طرف نسبت دے ۶۴

٦٠ ۔ زنا ۶۵

ایسی عورت جو زنا جیسے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے ۶۵

٦١ ۔ زبان درازی ۶۶

ایسی عورت جو اپنے شوہر کے سامنے زبان درازی کرے ۶۶

٦٢ ۔ ہمسر کی توہین ۶۷

ایسی عورت جو شوہر سے کہے : اُف ہے تم پر ۶۷

٦٣ ۔ مستحب روزہ ۶۸

ایسی عورت جو شوہر کی اجازت کے بغیر مستحب روزہ رکھے ۶۸

٦٤ ۔ چغل خور عورت ۶۹

ایسی عورت جو دوسروں میں اختلاف ایجاد کرے ۶۹

٦٥ ۔ چغل خوری ۷۰

ایسی عورت جو لوگوں کو آپس میں لڑائے ۷۰

٦٦ ۔ گالیاں دینے والی عورت ۷۱

ایسی عورت جو گالیاں دیتی ہو ۷۱

٦٧ ۔ ہمسر کے لئے دعا نہ کرنا ۷۲

ایسی عورت جو اپنے شوہر کے لئے دعا نہ کرے ۷۲

٦٨ ۔ جھوٹ بولنے والی عورت ۷۳

ایسی عورت جو جھوٹ بولے ۷۳

٦٩ ۔ فاسق سے شادی کرنا ۷۴

ایسی عورت جو کسی فاسق شخص سے شادی پر راضی ہو ۷۴

٧٠۔ دست درازی ۷۵

ایسی عورت جو شوہر پر ہاتھ اٹھائے ۷۵

٧١ ۔ بدن کا نہ چھپانا ۷۶

ایسی عورت جو نا محرموں سے اپنا بدن نہ چھپاتی ہو ۷۶

٧٢ ۔ نامحرم سے رابطہ ۷۷

ایسی عورت جو نامحرم سے ناجائز رابطہ برقرار کرے ۷۷

فہرست ۷۸

۷۸