اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس7%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 74518 / ڈاؤنلوڈ: 6535
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

اسلام اور جدید سائنس

ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری

عرضِ مرتب

ﷲ ربّ العزّت کی اِس وسیع و عریض کائنات میں اُس کی قدرت کی نشانیاں ہر سُو بکھری پڑی ہیں۔ آخری وحی ’قرآنِ مجید‘ جہاں بنی نوعِ اِنسان کے لئے حتمی اور قطعی ضابطۂ حیات ہے، وہاں اِس کائناتِ ہست و بُود میں جاری و ساری قوانینِ فطرت بھی اِنسان کو الوہی ضابطۂ حیات کی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ’قرآنِ مجید‘ خارجی کائنات کے ساتھ ساتھ نفسِ اِنسانی کے درُوں خانہ کی طرف بھی ہماری توجہ دِلاتا ہے اور اُن دونوں عوالم میں قوانینِ قدرتِ الٰہیہ کی یکسانی میں غور و فکر کے بعد اپنے خالق کے حضور سر بسجدہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔ قرآنی علوم کے نور سے صحیح معنوں میں فیضیاب ہونے کے لئے ہمیں قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق پر غور و فکر کرنا ہو گا۔

اِسلام نے اپنی پہلی وحی کے دِن سے ہی بنی نوعِ اِنسان کو آفاق و انفس کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کا حکم دیا۔ یہ اِسلام ہی کی تعلیمات کا فیض تھا کہ دُنیا کی اُجڈ ترین قوم ’عرب‘ أحکامِ اِسلام کی تعمیل کے بعد محض ایک ہی صدی کے اندر دُنیا بھر کی اِمامت و پیشوائی کی حق دار ٹھہری اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے دُنیا کو یونانی فلسفے کی لاحاصل مُوشگافیوں سے آزاد کراتے ہوئے فطری علوم کو تجربے ( experiment )کی بنیاد عطا کی۔ قرآنِ مجید کی تعلیمات کے زیر اثر یہ اُنہی کے اِختیار کردہ ’سائنسی طریقِ تحقیق‘ ( scientific method )کی بنیاد تھی جس کی بدولت ہزار ہا سال سے جاری سلسلۂ علمِ انسانی نے عظیم کروَٹ لی اور موجودہ صدی نے اُس کا پھل پایا۔

صدی جب کروَٹ بدلتی ہے تو ایک ’ممکن‘ کو ’حقیقت‘ کا رُوپ مل چکا ہوتا ہے۔ پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اُسے کئی منزلیں پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ سائنسی تحقیقات کی موجودہ تیزی نے زمین و آسماں کی پہنائیوں میں پوشیدہ لاتعداد حقائق بنی نوعِ اِنسان کے سامنے لا کھڑے کئے ہیں۔ آج سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے بنی نوعِ اِنسان کے ذِہن میں علم کے موجودہ عروج کا ادنیٰ سا تصوّر بھی موجود نہ تھا۔ اِنسان یوں جہلِ مرکب میں غرق تھا کہ اپنی جہالت کو عظمت کی علامت گردانتے ہوئے اُس پر نازاں ہوتا تھا۔ اِسلام کی آفاقی تعلیمات نے اُس دَورِ جاہلیت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ہزارہا ایسے فطری ضوابط کو بے نقاب کیا جن کی صداقت پر دَورِ حاضر کا سائنسی ذِہن بھی محوِ حیرت ہے۔

قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئی تھی آج وہ پک کر جوان ہو چکی ہے اور موجودہ دَور اُسی فصل کو کاشت کرتے ہوئے اُس کے گوناگوں فوائد سے مُستفید ہو رہا ہے۔ مسلمان جب تک علمی روِش پر قائم رہے سارے جہان کے اِمام و مقتدا رہے اور جونہی علم سے غفلت برتی ’ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘۔ اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے أسلاف کا علمی وِرثہ اپنے اندر ہونے والے بے شمار اِضافہ جات کے ساتھ اَغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے اور ہم اُن کے پیچھے علمی و ثقافتی اور سیاسی و معاشی میدانوں میں دَر دَر کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔

۲جنوری ۱۴۹۲ء کا تاریخی دِن مغربی دُنیا کیلئے علم و فن، تہذیب و تمدّن اور سائنس و ٹیکنالوجی کا تحفہ لئے طلوع ہوا۔ غرناطہ میں ہونے والی سیاسی شکست کے بعد مسلم قوم ذِہنی شکست خوردگی کی دلدل میں اُلجھ کر سو گئی اور عالمِ مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و اِکتشافات پر سے اُن کے موجدوں کا نام کھرچ کر اُنہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اِسلامی سپین کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم عیسائی و یہودی طلباء مسلمانوں کا علمی وطیرہ اپنے ساتھ اپنے ممالک کو لے گئے اور ہم غرناطہ میں سیاسی شکست کھانے کے بعد اُسے مقدّر کا لکھا کہتے ہوئے رو پیٹ کر بیٹھ رہے اور سیاسی میدان میں ہونے والی شکست کے بعد علمی میدان سے بھی فرار کا راستہ اِختیار کر لیا۔ اَغیار نے ہمارے علمی وِرثے سے بھرپور فائدہ اُٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوجِ ثریا تک جا پہنچے۔ غفلت کی نیند بے سُدھ پڑی مسلمان قوم کو فقط ایک ٹہوکے کی ضرورت ہے، فقط اپنی میراث سے شناسائی ضروری ہے، جس روز اِس قوم نے أغیار کے قبضے میں گھِری اپنی قیمتی متاع کو پہچان لیا یقیناً اپنے کھوئے ہوئے وِرثے کے حصول کے لئے تڑپ اُٹھے گی، وہ دِن تاریخِ عالم کا سنہری دِن ہو گا۔

بیسویں صدی عالمِ اِسلام کے لئے ﷲ ربّ العزت کی بے شمار نعمتیں لئے آئی۔ اِس صدی میں جہاں کرۂ أرضی کے بیشتر مسلمان سیاسی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے وہاں علمی میدان میں بھی مثبت تبدیلی کے آثار نمودار ہوئے، لیکن مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف آزادی کے أثرات کو اپنے عوام کی پہنچ سے دُور رکھا بلکہ صحیح فطری خطوط پر اُن کی تعلیم کا خاطر خواہ اِنتظام بھی نہ کیا، جس کی وجہ سے قحطُ الرجال کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہا۔ اِس وقت دُنیا کی اکانومی کا بڑا اِنحصار تیل پید اکرنے والے مسلمان ممالک پر ہے۔ عرب کی دولت مسلمانوں کی معاشی اَبتری سے نجات اور عالمی سطح پر سیاسی تفوّق کی بحالی کے لئے بہترین مددگار ثابت ہو سکتی تھی مگر افسوس کہ وہ بھی شاہی اللّوں تللّوں میں ضائع ہو گئی اور مِن حیث المجموع اُمتِ مسلمہ اُس سے کوئی خاص فائدہ نہ اُٹھا سکی۔

عالمِ اِسلام کے موجودہ زوال و اِنحطاط کا بنیادی سبب جہالت، علمی روِش سے کنارہ کشی اور صدیوں کی غلامی کے بعد ملنے والی آزادی کے با وُجود جاہل حکمرانوں کا اپنی قوم کو حقیقی علومِ اِنسانی کے حصول میں پس ماندہ رکھنا ہے۔ نئی نسل کی ذہانت صدیوں سے مسلّط عالمی محکومی کے زیر اثر دب کر رہ گئی ہے۔ دورِ حاضر کے مسلم نوجوان کے تشکیک زدہ اِیمان کو سنبھالا دینے کی واحد صورت یہ ہے کہ اُسے اِسلامی تعلیمات کی عقلی و سائنسی تفسیر و تفہیم سے آگاہ کرتے ہوئے سائنسی دلائل کے ساتھ مستحکم کیا جائے۔ قومی سطح پر چھائے ہوئے اِحساسِ کمتری کے خاتمے کے لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ نئی نسل کو مسلمان سائنسدانوں کے کارناموں سے شناسا کیا جائے تاکہ اُس کی سوچ کو مثبت راستہ ملے اور وہ جدید سائنسی علوم کو اپنی متاع سمجھتے ہوئے اپنے أسلاف کی پیروی میں علمی و سائنسی روِش اپنا کر پختہ علمی بنیادوں کے ساتھ احیائے اِسلام کا فریضہ سرانجام دے سکے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ سائنسی علوم جانتا ہے وہ اُتنا ہی زیادہ اِسلامی تعلیمات سے اِستفادہ کر سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں مستشرقین کی طرف سے اِسلام پر ہونے والے اِعتراضات کے ٹھوس عقلی و سائنسی بنیادوں پر جواب کے لئے ’جدید علمِ کلام‘ کو باقاعدہ فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ اِس سے نہ صرف مغربی اَفکار کی یلغار کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں اپنے عقائد و نظریات کے بارے میں جنم لینے والی تشکیک سے نجات ملے گی بلکہ غیر مسلم اقوام پر بھی اِسلام کی حقانیت عیاں ہو گی۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علمی و فکری خدمات رہتی دُنیا تک کے لئے عالمِ اسلام کا عظیم سرمایہ ہیں۔ خاص طور پر مسلم نوجوانوں کے اِیمان کی ڈگمگاتی ناؤ کو سہارا دینے کے لئے آپ نے بے شمار عصری موضوعات پر بھی کام کیا، جس سے نہ صرف نسلِ نو کا اِسلام پر اِعتقاد مضبوط ہوا بلکہ بہت سے غیر مسلم بھی قبولیتِ اِسلام کے شرف سے بہرہ مند ہوئے۔

زیر نظر کتاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ’اِسلام اور جدید سائنس‘ سے متعلقہ اَفکار پر مبنی ہے۔ کتاب میں مختلف مواقع پر اعلیٰ تعلیمی اِداروں میں ہونے والے آپ کے لیکچرز کو مرتب کرتے ہوئے ضروری اِضافہ جات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ان لیکچرز میں آپ نے قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق کو بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ اِسلام ہر دَور کا دین ہے، جو اِنسانی زندگی کے ہر پہلو پر اُس کی رہنمائی کرتا ہے۔

ﷲ تبارک و تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اِسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھنے اور اُس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازے تاکہ ہم علمی و فکری اور سائنسی و تہذیبی پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکل کر اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کر سکیں۔

عبدالستّار (منہاجین)

ریسرچ سکالر

فریدِ ملت ریسرچ اِنسٹیٹیوٹ، لاہور

حصہ اوّل

سائنسی شعور کے فروغ میں اِسلام کا کردار

باب اوّل

قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب

اِسلام کا فلسفۂ زندگی دیگر اَدیانِ باطلہ کی طرح ہرگز یہ نہیں کہ چند مفروضوں پر عقائد و نظریات کی بنیادیں اُٹھا کر اِنسان کی ذِہنی صلاحیتوں کو بوجھل اور بے معنی فلسفیانہ مُوشگافیوں کی نذر کر دیا جائے اور حقیقت کی تلاش کے سفر میں اِنسان کو اِس طرح ذِہنی اُلجھاؤ میں گرفتار کر دیا جائے کہ اُس کی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ جائیں۔ اِسلام نے کسی مرحلہ پر بھی اِنتہاء پسندی کی حوصلہ اَفزائی نہیں کی، بلکہ اِس کے برعکس اِسلام کی فطری تعلیمات نے ہمیشہ ذہنِ اِنسانی میں شعور و آگہی کے اَن گنت چراغ روشن کر کے اُسے خیر و شر میں تمیز کا ہنر بخشا ہے۔ اِسلام نے اپنے پیروکاروں کو سائنسی علوم کے حصول کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ اِعتدال کی راہ دِکھا ئی ہے۔ اِسلام نے اِس کارخانۂ قدرت میں اِنسانی فطرت اور نفسیات کے مطابق اِنسان کو اَحکامات اور ضابطوں کا ایک پورا نظام دیا ہے اور اُس کے ظاہر و باطن کے تضادات کو مٹا کر اُسے اپنے نصبُ العین کی سچائی کا شعور عطا کیا ہے۔

تاریخِ علوم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اپنی جملہ توانائیوں کے ساتھ ہمارے ذِہن پر روشن اور واضح ہوتی ہے کہ آفاق ( universe ) اور اَنفس ( human life ) کی رہگزر فکر و نظر کے اَن گنت چراغوں سے منوّر ہے۔ غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے، کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے اپنے سفر کی اِبتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذریعہ سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ اِنسان کو قرآنی اَحکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اُس دَور میں بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اور سائنسی علوم کو اَیسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی۔

یہاں ہم قرآنِ مجید کی چند ایسی آیاتِ کریمہ پیش کر رہے ہیں جن کے مطالعہ سے قرونِ اولیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی تحقیقات کی طرف ترغیب ملی اور اُس کے نتیجے میں بنی نوعِ اِنسان نے تجرّبی توثیق کو حقیقت تک رسائی کی کسوٹی قرار دے کر تحقیق و جستجو کے نئے باب روشن کئے:

آیاتِ ترغیبِ علم

( إِنَّمَا يَخْشَی اللَّه مِنْ عِبَادِه الْعُلَمَاء ) (فاطر، ۳۵:۲۸) اللہ سے تو اُس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں (جو صاحبِ بصیرت ہیں)۔

( قُلْ هلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ ) (الزمر، ۳۹:۹) آپ فرما دیجئے کہ علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں! تحقیق سوچتے وُہی ہیں جو صاحبِ عقل ہیں( وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ) (المجادلۃ، ۵۸:۱۱) اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہے (ﷲ) اُن لوگوں کے درجے بلند کرے گا۔

( وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهلِينَ ) (الاعراف،۷:۱۹۹) اور جاہلوں سے کنارہ کشی اِختیار کر لیں( وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ ) (آل عمران، ۳:۷) اور نصیحت صرف اہلِ دانش ہی کو نصیب ہوتی ہے( وَ قُل رَّبِّ زِدنِی عِلماً ) (طہٰ، ۲۰:۱۱۴) اور آپ (ربّ کے حضور یہ) عرض کریں کہ اَے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے( اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ) (العلق، ۹۶:۱) (اے حبیب!) اپنے ربّ کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا( فَاسْأَلُواْ أَهلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ) (النحل، ۱۶:۴۳) سو تم اہلِ ذِکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو

کائنات میں غور و فکر کی ترغیب

( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ وَالْفُلْكِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا ینفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّه مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْیا بِه الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِها وَبَثَّ فِیها مِن كُلِّ دَآبَّة وَتَصْرِیفِ الرِّیاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَینَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ) (البقرہ، ۲:۱۶۴) بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دِن کی گردش میں اور اُن جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اُٹھا کر چلتی ہیں اور اُس (بارش) کے پانی میں جسے اللہ آسمان کی طرف سے اُتارتا ہے، پھر اُس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے، (وہ زمین) جس میں اُس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اُس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (اِن میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہیہ کی بہت سی) نشانیاں ہیں( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ لآیاتٍ لاِوْلِی الألْبَابِ الَّذِینَ یذْكُرُونَ اللّه قِیامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهمْ وَیتَفَكَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ) (آل عمران، ۳:۱۹۰.۱۹۱) بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروَٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں:) اَے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے( إَنَّ الَّذِینَ لاَ یرْجُونَ لِقَاءنَا وَرَضُواْ بِالْحَیاة الدُّنْیا وَاطْمَأَنُّواْ بِها وَالَّذِینَ همْ عَنْ آیاتِنَا غَافِلُونَ ) (یونس، ۱۰:۶) بیشک رات اور دِن کے بدلتے رہنے میں اور اُن (جملہ) چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا فرمائی ہیں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو تقویٰ رکھتے ہیں( وَهوَ الَّذِی مَدَّ الأَرْضَ وَجَعَلَ فِیها رَوَاسِی وَأَنْهارًا وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیها زَوْجَینِ اثْنَینِ یغْشِی اللَّیلَ النَّهارَ إِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّقَوْمٍ یتَفَكَّرُونَ وَفِی الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیرُ صِنْوَانٍ یسْقَی بِمَاء وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَها عَلَی بَعْضٍ فِی الأُكُلِ إِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ) (الرعد، ۱۳:۳.۴) اور وُہی ہے جس نے (گولائی کے با وُجود) زمین کو پھیلایا اور اُس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر قسم کے پھلوں میں (بھی) اُس نے دو دو (جنسوں کے) جوڑے بنائے، (وُہی) رات سے دِن کو ڈھانک لیتا ہے، بیشک اِس میں تفکر کرنے والے کے لئے (بہت) نشانیاں ہیں اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دُوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جھنڈ دار اور بغیر جھنڈ کے، اُن (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور (اُس کے با وُجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں۔ بیشک اِس میں عقلمندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں( هُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء لَّکُم مِّنهُ شَرَابٌ وَّ مِنهُ شَجَرٌ فِیهِ تُسِیمُونَ یُنبِتُ لَکُم بِهِ الزَّرعَ وَ الزَّیتُونَ وَ النَّخِیلَ وَ الأَعنَابَ وَ مِن کُلِّ الثَّمَرٰتِ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَومٍ یَّتَفَکَّرُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۰.۱۱) وُہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اُتارا، اُس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اُسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو اُسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اُگاتا ہے۔ بیشک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے( أَ اَوَلَمْ یتَفَكَّرُوا فِی اَنفُسِهمْ مَا خَلَقَ اللَّه السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَینَهمَا اِلاَ بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی ) (الروم، ۳۰:۸) کیا اُنہوں نے اپنے دِل میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے سب کو (اپنی) مصلحت (اور حکمت) ہی سے ایک معینہ مدّت کے لئے (عارضی طور پر) پیدا فرمایا ہے۔

( وَمِنْ آیاتِه خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ اِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّلْعَالِمِینَ ) (الروم، ۳۰:۲۲) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اِختلاف اُس کی نشانیوں میں سے ہے۔ بیشک اِس میں علم رکھنے والوں کے لئے (حیرت انگیز اور مستند) نشانیاں ہیں( وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ وَمَا اَنزَلَ اللَّه مِنَ السَّمَاء مِن رِّزْقٍ فَاَحْیا بِه الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها وَتَصْرِیفِ الرِّیاحِ آیاتٌ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ) O (الجاثیہ، ۴۵:۵) اور شب و روز کے یکے بعد دیگرے آنے جانے میں اور اُس رزق میں جو اللہ آسمان سے اُتارتا ہے، پھر جس سے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زِندہ فرماتا ہے اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل سے کام لینے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں( وَمَا مِن دَآبَّة فِی الاَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یطِیرُ بِجَنَاحَیه اِلاَ اُمَمٌ اَمْثَالُكُم مَّا فَرَّطْنَا فِی الكِتَابِ مِن شَیءٍ ثُمَّ اِلَی رَبِّهمْ یحْشَرُونَ ) (الانعام، ۶:۳۸) اور (اے اِنسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اُڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں۔ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحۃً یا اِشارۃً بیان نہ کر دیا ہو)، پھر سب (لوگ) اپنے ربّ کے پاس جمع کئے جائیں گے( هوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَه مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّه ذَلِكَ اِلاَ بِالْحَقِّ یفَصِّلُ الآیاتِ لِقَوْمٍ یعْلَمُونَ ) (یونس، ۱۰:۵) وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اُس سے) روشن (کیا) اور اُس کے لئے (کم و بیش دِکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اَوقات کا) حساب معلوم کر سکو اور اللہ نے یہ (سب کچھ) درُست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا فرمایا ہے۔ وہ (اِن کائناتی حقائق کے ذریعے اپنی خالقیّت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں علم رکھنے والے لوگوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہے( وَ لَقَد خَلَقَنَا فَوقَکُم سَبعَ طَرَآئِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِینَ ) (المؤمنون، ۲۳:۱۷) اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرۂ ارضی کے گرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھے( قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْاَرْضَ فِی یوْمَینِ وَتَجْعَلُونَ لَه اَندَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِینَ وَ جَعَلَ فِیهَا رَوَاسِیَ مِن فَوقِهَا وَ بَارَکَ فِیهَا وَ قَدَّرَ فِیهَا أَقوَاتَهَا فِیٓ أَربَعَةِ أَیَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّائِلِینَ ثُمَّ استَوٰی إِلَی السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلأَرضِ ائتِیَا طَوعًا أَو کَرهًا قَالَتَا أَتَینَا طَآئِعِینَ فَقَضَاهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ فِی یَومَینِ وَ اَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآءٍ اَمرَهَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصابِیحَ وَ حِفظًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (حم السجدہ، ۴۱:۹.۱۲) آپ (ذرا اُن سے) پوچھئے: کیا تم لوگ اُس (کی ذات) سے منکر ہو جس نے دو اَدوار میں زمین بنائی اور تم اُس کے (ساتھ دُوسروں کو) ہمسر ٹھہراتے ہو؟ (یاد رکھو کہ) وُہی تمام جہانوں کا پروردگار ہے O اور اُس نے اِس (زمین) میں اُوپر سے بھاری پہاڑ رکھے اور اِس (زمین) کے اندر بڑی برکت رکھی (قسم قسم کی کانیں اور نشو و نما کی قوّتیں) اور اِس میں (اپنی مخلوق کے لئے) سامانِ معیشت مقرر کیا (یہ سب کچھ اُس نے) چار اَدوارِ (تخلیق) میں (پیدا کیا) جو تمام طلب گاروں کے لئے یکساں ہے O پھر (اللہ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دھُواں (سا) تھا۔ پھر اُسے اور زمین کو حکم دیا کہ تم دونوں (میری قدرت کے قوانین کے تابع ہو کر) آؤ، خواہ تم اِس پر خوش ہو یا ناخوش۔ اُن دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں O پھر دو مراحل میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان کے اَحکام اُس میں بھیج دیئے اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے رونق بخشی اور اُسے محفوظ (بھی)کر دیا۔ یہ اِنتظام ہے زبردست (اور) علم والے (پروردگار) کا( اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِی خَلقِ الرَّحمٰنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارجِعِ البَصَرَ هَل تَرٰی مِن فُطُورٍ ثُمَّ ارجِعِ البَصَرَ کَرَّتَینِ یَنقَلِب إِلَیکَ البَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیرٌ ) (الملک، ۶۷:۳.۴) اُسی نے اُوپر تلے سات آسمان بنائے، تو رحمن کی کاریگری میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔ ذرا دوبارہ آنکھ اُٹھا کر دیکھ،کیا تجھے کہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ O (ہاں) پھر بار بار آنکھ اُٹھا کر دیکھ (ہر بار) تیری نگاہ تھک کر ناکام لوٹے گی( وَ انشَقَّتِ السَّمَآء فَهِیَ یَومَئِذٍ وَّاهِیَةٌ ) (الحاقہ، ۶۹:۱۶) اور آسمان پھٹ جائے گا، پھر اُس دِن وہ بالکل بودا (بے حقیقت) ہو جائے گا( أَ لَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ اللهُ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ) (نوح، ۷۱:۱۵) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے ہیں؟( اَلشَّمسُ وَ القَمَرُ بِحُسبَانٍ ) (الرحمن، ۵۵:۵) سورج اور چاند ایک مقرر حساب کے پابند ہیں( خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ بِالحَقِّ تَعَالٰی عَمَّا یُشرِکُونَ ) (النحل، ۱۶:۳) اُسی نے آسمان اور زمین کو درُست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ اُن چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار (اُس کا) شریک گردانتے ہیں( اِنَّ اللهِ فَالِقُ الحَبِّ وَ النَّوٰی یُخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیِّتِ وَ مُخرِجُ المَیِّتِ مِنَ الحَیِّ ذٰلِکُمُ اللهُ فَأَنّٰی تُؤفَکُونَ فَالِقُ الاِصبَاحِ وَ جَعَلَ الَّیلَ سَکَنًا وَّ الشَّمسَ وَ القَمَرَ حُسبَانًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (الانعام، ۶:۹۵.۹۶) بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے، وہ مُردہ سے زِندہ کو پیدا فرماتا ہے اور زِندہ سے مُردہ کو نکالنے والا ہے، یہی (شان والا) تو اللہ ہے، پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟ O (وُہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والا ہے اور اُسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اَندازہ ہے( وَ هُوَ الَّذِیٓ أَنشَأَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُستَقَرٌّ وَّ مُستَودَعٌ قَد فَصَّلنَا الاٰیَاتِ لِقَومٍ یَّفقَهُونَ وَ هُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء فَأَخرَجنَا بِه نَبَاتَ کُلِّ شَیءٍ فَأَخرَجنَا مِنهُ خَضِرًا نُّخرِجُ مِنهُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا وَ مِنَ النَّخلِ مِن طَلعِهَا قِنوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنَّاتٍ مِّن أَعنَابٍ وَّ الزَّیتُونَ وَ الرُّمَّانَ مُشتَبِهًا وَّ غَیرَ مُتَشَابِهٍ أُنظُرُوا إِلٰی ثَمَرِهٓ إِذَا أَثمَرَ وَ یَنعِه إِنَّ فِی ذٰلِکُم لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یُّؤمِنُونَ ) (الانعام، ۶:۹۸.۹۹) اور وُہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا ہے، پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اِقامت (ہے) اور ایک جائے امانت۔ بیشک ہم نے سمجھنے والے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں O اور وُہی ہے جس نے آسمان کی طرف سے پانی اُتارا، پھر ہم نے اُس (بارش) سے ہر قسم کی پیوستہ دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے گابھے سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغات اور زیتون اور اَنار (بھی پیدا کئے جو کئی اِعتبارات سے) آپس میں ایک جیسے (لگتے) ہیں اور (پھل، ذائقے اور تاثیرات) جداگانہ ہیں۔ تم درخت کے پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل لائے اور اُس کے پکنے کو (بھی دیکھو)۔ بیشک اِن میں اِیمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ) (ھود، ۱۱:۷) اور وُہی (اللہ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی اور زیریں کائناتوں) کو چھ روز (یعنی تخلیق و اِرتقاء کے چھ اَدوار و مراحل) میں پیدا فرمایا۔

( ﷲ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ وَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء فَأَخرَجَ بِه مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزقًا لَّکُم وَ سَخَّرَ لَکُمُ الفُلکَ لِتَجرِیَ فِی البَحرِ بِأَمرِه وَ سَخَّرَ لَکُمُ الاَنهَارَ ) (اِبراہیم، ۱۴:۳۲) اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اُتارا پھر اُس پانی کے ذریعہ سے تمہارے رِزق کے طور پر پھل پیدا کئے اور اُس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا تاکہ اُس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اُس نے تمہارے لئے دریاؤں کو (بھی) مسخر کر دیا( وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمسَ وَ القَمَرَ دَآئِبَینِ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیلَ وَ النَّهَارَ ) (اِبراہیم، ۱۴:۳۳) اور اُس نے تمہارے (فائدے) کے لئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں) گردِش کرتے رہتے ہیں اور تمہارے (نظامِ حیات کے) لئے رات اور دِن کو بھی (ایک) نظام کے تابع کر دیا( وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومُ مُسَخَّرٰتٌم بِأَمرِه إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یَّعقِلُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۲) اور اُسی نے تمہارے لئے رات اور دِن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں۔ بیشک اِس میں عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں( وَ هُوَ الَّذِی سَخَّرَ البَحرَ لِتَأکُلُوا مِنهُ لَحمًا رِیًّا وَّ تَستَخرِجُوا مِنهُ حِلیَةً تَلبَسُونَهَا وَ تَرَی الفُلکَ مَوَاخِرَ فِیهِ وَ لِتَبتَغُوا مِن فَضلِه وَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۴) اور وُہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اُس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اُس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو اور (اَے اِنسان!) تو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اُس میں چلے جاتے ہیں اور (یہ سب کچھ اِس لئے کیا) تاکہ تم (دُور دُور تک) اُس کا فضل (یعنی رِزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکرگزار بن جاؤ( وَ اَلقٰی فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ اَن تَمِیدَ بِکُم وَ اَنهَارًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُم تَهتَدُونَ وَ عَلَامَاتٍ وَ بِالنَّجمِ هُم یَهتَدُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۵.۱۶) اور اُسی نے زمین میں (مختلف مادّوں کو) باہم ملا کر بھاری پہاڑ بنا دیئے مبادا وہ (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے تمہیں لے کر کانپنے لگے اور نہریں اور (قدرتی) راستے (بھی) بنائے تاکہ تم (منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکو O اور (دِن کو راہ تلاش کرنے کے لئے) علامتیں بنائیں اور (رات کو) لوگ ستاروں کے ذریعہ (بھی) راہ پاتے ہیں( اَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاهُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآء کُلَّ شَیءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤمِنُونَ وَ جَعَلنَا فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِهِم وَ جَعَلنَا فِیهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُم یَهتَدُونَ وَ جَعَلنَا السَّمَآء سَقفًا مَّحفُوظًا وَّ هُم عَن اٰیَاتِهَا مُعرِضُونَ وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (الانبیاء، ۲۱:۳۳.۳۰) اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر زندہ چیز (کی زِندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر اَب بھی) اِیمان نہیں لاتے! O اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ بنا دیئے مبادا وہ (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے اُنہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اُس (زمین) میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکیں O اور ہم نے سماء (یعنی زمین کے بالائی کرّوں) کو محفوظ چھت بنایا (تاکہ اہلِ زمین کو خلا سے آنے والی مہلک قوّتوں اور جارِحانہ لہروں کے مضر اَثرات سے بچائیں) اور وہ اُن (سماوی طبقات کی) نشانیوں سے رُو گرداں ہیں O اوروُہی (اللہ) ہے جس نے رات اور دِن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں( اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ وَ مَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ) (الفرقان، ۲۵:۵۹) جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اُس (کائنات) کو جو اُن دونوں کے درمیان ہے چھ اَدوار(تخلیق) میں پیدا فرمایا۔

( تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَآء بُرُوجًا وَّ جَعَلَ فِیهَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیرًا وَّ هُوَ الَّذِی جَعَلَ الَّیلَ وَ النَّهَارَ خِلفَةً لِّمَن اَرَادَ اَن یَّذَّکَّرَ اَو اَرَادَ شُکُورًا ) (الفرقان، ۲۵:۶۱.۶۲) وُہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اُس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایا O اور وُہی ذات ہے جس نے رات اور دِن کو ایک دُوسرے کے پیچھے گردِش کرنے والا بنایا، اُس کے لئے جو غور و فکر کرنا چاہے یا شکر گزاری کا اِرادہ رکھے (اِن تخلیقی قدرتوں میں نصیحت و ہدایت ہے)( قُل سِیرُوا فِی الاَرضِ فَانظُرُوا کَیفَ بَدَاَ الخَلقَ ثُمَّ ﷲ یُنشِیُ النَّشأَةَ الاٰخِرَةَ إِنَّ اللهِ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌ ) (العنکبوت، ۲۹:۲۰) فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اُس نے مخلوق کی (زندگی کی) اِبتداء کیسے فرمائی، پھر وہ دُوسری زندگی کو کس طرح اُٹھا کر (اِرتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشو و نما دیتا ہے، بیشک ﷲ ہر شے پر بڑی قدرت والا ہے( خَلَقَ اللهُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ بِالحَقِّ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّلمُؤمِنِینَ ) (العنکبوت، ۲۹:۴۴) ﷲ نے آسمانوں اور زمین کو درُست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ بیشک اِس (تخلیق) میں اہلِ ایمان کے لئے (اُس کی وحدانیت اور قدرت کی) نشانی ہے( لَا الشَّمسُ یَنبَغِی لَهَآ اَن تُدرِکَ القَمَرَ وَ لَا الَّیلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (یٰسین، ۳۶:۴۰) نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دِن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب (سیارے) اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں( وَ مِن اٰیَاتِه یُرِیکُمُ البَرقَ خَوفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآء مَآء فَیُحیی بِهِ الاَرضَ بَعدَ مَوتِهَا إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یَّعقِلُونَ ) (الروم، ۳۰:۲۴) اور اُس کی نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ وہ تمہیں خوفزدہ کرنے اور اُمید دِلانے کے لئے بجلیاں دِکھاتا ہے اور بادلوں سے بارش برساتا ہے اور اُس سے مُردہ زمین کو زِندہ کر دیتا ہے، اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں( اَللهُ الَّذِی یُرسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبسُطُه فِی السَّمَآء کَیفَ یَشَآء وَ یَجعَلُه کِسَفًا فَتَرَی الوَدقَ یَخرُجُ مِن خِلَالِه فَاِذَا اَصَابَ بِه مَن یَّشَآء مِن عِبَادِه إِذَا هُم یَستَبشِرُونَ ) (الروم، ۳۰:۴۸) اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے اُسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اُسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم اُس کے اندر سے بارش کو نکلتے دیکھتے ہو، پھر جب (اُس بارش کو) اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے اُن (کی آبادی) کو پہنچاتا ہے تو وہ خوشیاں منانے لگتے ہیں( فَانظُر إِلٰی اٰثَارِ رَحمَتِ اللهِ کَیفَ یُحیِی الاَرضَ بَعدَ مَوتِهَا إِنَّ ذٰلِکَ لَمُحیِ المَوتٰی وَ هُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌ ) (الروم، ۳۰:۵۰) پس اللہ کی رحمت کے آثار تو دیکھو کہ وہ کس طرح زمین کو مُردہ ہونے کے بعد زِندہ (سرسبز و شاداب) کرتا ہے۔ بیشک وُہی مُردوں کو بھی زِندہ کرنے والا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے( اِنَّمَا اَمرُه اِذَا اَرَادَ شَیئًا اَن یَّقُولَ لَه کُن فَیَکُونُ ) (یٰسین، ۳۶:۸۲) اُس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کو پیدا کرنے) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ ہو جا! پس وہ ہو جاتی ہے( یَخلُقُکُم فِی بُطُونِ اُمَّهَاتِکُم خَلقًا مِّنم بَعدِ خَلقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ثلَاَثٍ ) (الزمر، ۳۹:۶) وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے بطنوں میں تین تاریک پردوں میں (بتدریج) ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں بناتا ہے O اُس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کو پیدا کرنے) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ ہو جا! پس وہ ہو جاتی ہے( وَ السَّمَآءَ بَنَینٰهَا بِاَیدٍ وَّ اِنَّا لَمُوسِعُونَ ) (الذاریات، ۵۱:۴۷) اور ہم نے سماوی کائنات کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور ہم ہی (کائنات کو) وسیع سے وسیع تر کرنے والے ہیں( ءَ اَنتُم اَشَدُّ خَلقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنَاهَا رَفَعَ سَمکَهَا فَسَوَّاهَا وَ اَغطَشَ لَیلَهَا وَ اَخرَجَ ضُحٰهَا وَ الاَرضَ بَعدَ ذٰلِکَ دَحٰهَا اَخرَجَ مِنهَا مَآئَهَا وَ مَرعٰهَا وَ الجِبَالَ اَرسٰهَا مَتَاعًا لَّکُم وَ لِاَنعَامِکُم ) (النازعات، ۷۹:۲۷.۳۳) کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا (پوری) سماوی کائنات کا، جسے اُس نے بنایا؟ o اُس نے آسمان کے تمام کرّوں(ستاروں) کو (فضائے بسیط میں پیدا کر کے) بلند کیا o پھر اُن (کی ترکیب و تشکیل اور اَفعال و حرکات) میں اِعتدال، توازن اور اِستحکام پیدا کر دیا o اور اُسی نے آسمانی خلا کی رات کو (یعنی سارے خلائی ماحول کو مثلِ شب) تاریک بنایا اور (اُس خلا سے) اُن (ستاروں) کی روشنی (پیدا کر کے) نکالی o اور اُسی نے زمین کو اُس (ستارے سورج کے وُجود میں آ جانے) کے بعد (اُس سے) الگ کر کے زور سے پھینک دیا o اُسی نے زمین میں سے اُس کا پانی (الگ) نکال لیا اور (بقیہ خشک قطعات میں) اُس کی نباتات نکالیں o اور اُسی نے (بعض مادّوں کو باہم ملا کر) زمین سے محکم پہاڑوں کو اُبھار دیا o (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کے لئے (کیا)( اَلَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰی وَ الَّذِی قَدَّرَ فَهَدٰی وَ الَّذِی اَخرَجَ المَرعٰی فَجَعَلَه غُثَآءً اَحوٰی ) (الاعلی، ۸۷: ۵۲) جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیا o اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایا o اور جس نے (زمین سے) چارہ نکالا o پھر اُسے سیاہی مائل خشک کر دیا


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27