اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس0%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف: ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری
زمرہ جات:

مشاہدے: 68749
ڈاؤنلوڈ: 4092

تبصرے:

اسلام اور جدید سائنس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68749 / ڈاؤنلوڈ: 4092
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

باب سوُم

قرآنی لفظِ ’سمآء‘ کے مفاہیم اور سات آسمانوں کی حقیقت

السَّمَآء کا لفظ سَمَا یَسمُو سے ہے، جس کے معنی بلندی کے ہیں۔ لغتِ عرب میں ہے:"سمآئُ کلِ شیٍٔ أعلاہ" )کسی بھی چیز کے اُوپر جو کچھ ہے وہ اُس چیز کا سمآء ہے(۔ چنانچہ لُغوی اِعتبار سے لفظِ ’سمآ‘ کا اِطلاق کرۂ ارض کے گِرداگِرد موجود تمام کائنات پر ہوتا ہے اور زمین کے علاوہ تمام کائنات اور اَجرامِ سماوی عالمِ سماوات میں شامل ہیں۔

لُغتِ عرب میں لفظِ سمآء کے معانی کی وُ سعت کے پیشِ نظر قرآنِ مجید میں بھی ﷲ ربّ العزت نے اِس لفظ کا اِستعمال متعدّد معانی میں کیا ہے۔ کہیں اِس سے مُراد بادل ہیں تو کہیں بارش۔ ۔ ۔ کہیں اِس کا اِستعمال کرۂ ہوائی کے معنی میں ہوا ہے تو کہیں بالائی کائنات کے معنی میں۔ ۔ ۔ الغرض کرۂ ارضی کی فضائے بسیط سے لے کر عالمِ طبیعی کی آخری حدوں تک وسیع و عریض کائنات کے تمام گوشوں پر لفظِ سمآء کا اِطلاق ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں جن مقامات پر یہ لفظ اِستعمال ہوا ہے وہاں سیاقِ کلام اُس کا مفہوم واضح کرتا ہے اور ہم آیات کے تسلسل پر غور و فکر کے بعد ہی اُس کے حقیقی معانی اور ﷲ ربُّ العزت کی غایتِ کلام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

قرآن مجید میں سمآء اور سمٰوٰت کا لفظ ۳۱۰ مرتبہ آیا ہے جن میں سے بیشتر مقامات پر اُس کا اِطلاق لغتِ اُردو میں استعمال ہونے والے لفظ ’آسمان‘ کی بجائے بارِش، بادل اور سماوی طبقات وغیرہ پر ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں لفظ سماء کا سب سے پہلا اِستعمال بادل کے معنی میں ہوا ہے۔

ﷲ ربّ العزت کا فرمان ہے:

( أَو کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیهِ ظُلُمَاتٌ وَّ رَعدٌ وَّ بَرقٌ ) ۔ (البقرہ،۲:۱۹)

یا اُن کی مثال بادل سے برسنے والی بارش کی سی ہے، جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (بھی) ہے۔

کسی مخصوص خطۂ ارضی کو اپنے دامن میں لپیٹ لینے والی کالی گھٹاؤں سے جب موسمِ گرما کی دوپہریں بھی نصف شب کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں تو اُن بادلوں سے پیدا ہونے والی گرج اور چمک سے لوگوں میں بارِش کی خوشی کے باوُجود بجلی کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے۔ ایسے ہی موقع کی منظر نگاری قرآنِ مجید میں اِس مقام پر کی گئی ہے۔ جب لوگ موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ آیتِ کریمہ میں قرآنِ مجید میں وارِد ہونے والا لفظِ ’سمآئ‘ اُردو کے معروف لفظ ’آسمان‘ کی بجائے ’بادل‘ کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔

لفظِ ’سمآئ‘ کے مختلف قرآنی معانی پر غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ’سمآء‘ کا معنی ہر جگہ ایسے ٹھوس غلاف نہیں ہیں جنہوں نے اربوں کھربوں نوری سال کی مسافتوں میں بکھری کہکشاؤں کے گروہوں ( clusters ) کو اپنے دامن میں لپیٹ رکھا ہے اور وہ تمام مادّی عالم کو محیط ہیں۔ بلکہ قرآنِ مجید لغتِ عرب کی وُ سعت کے پیشِ نظر اِس لفظ کا اِستعمال جا بجا اور بھی بہت سے معانی کے لئے کرتا ہے۔

قرآنی لفظ سمآء کے معانی

قرآنِ مجید میں لفظ ’سمآء‘ مروّجہ سات آسمانوں کے علاوہ اِن معانی کے لئے بھی اِستعمال ہوا ہے:

۱۔ بادل ۴۔کرۂ ہوائی

۲ ۔بادلوں کی فضا ۵ ۔گھر کی چھت

۳ ۔بارش ۶۔ سماوی کائنات

۱۔ بادل

قرآنِ مجید میں بہت سے مواقع پر لفظ سمآء بادلوں کے معنی میں اِستعمال ہوا ہے۔ بارِش بادلوں سے برستی ہے، جو ہماری زمین ہی کی فضا میں معلّق ہوتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں بارِش کا ذِکر آیا ہے وہاں لفظ سمآء کا اِستعمال بارِش ہی کے معنی میں ہوا ہے۔

سورۂ حجر میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

( وَ أَرسَلنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلنَا مِنَ السَّمَآءِ مآءً ) ۔ (الحجر،: ۲۲ : ۱۵)

اور ہم ہواؤں کو بادلوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے بھیجتے ہیں، پھر ہم بادلوں سے پانی اُتارتے ہیں۔

اِس آیتِ مبارکہ میں پانی سے بھرے بادلوں کو ’سمآء‘ کہا گیا ہے، جن سے پانی برسا کر ﷲ ربُّ العزت پیاسی زمینوں کو سیراب فرماتا ہے۔ وہ تمام آیات جن میں "( یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ) " (آسمان سے پانی (بارِش) اُتارتا ہے) کا بیان آیا ہے وہاں سمآء سے مراد بارش ہی ہو گی۔

۲۔ بادلوں کی فضا

بادل کے علاوہ بعض مقامات پر لفظ سمآء کا ذِکر کرۂ ہوائی کی اُن مخصوص تہوں کے لئے بھی ہوا ہے جن میں بادل تیرتے رہتے ہیں۔

سورۂ نور میں ﷲ ربّ العزت نے فرمایا:

( أَ لَم تَرَ أَنَّ اللهَ یُزجِی سَحَابًا ثُمَّ یُؤلِّفُ بَینَه ثُمَّ یَجعَلُه رُکَامًا فَتَرَی الوَدقَ یَخرُجُ مِن خِلَالِه وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِن جِبَالٍ فِیهَا مِنم بَرَدٍ ) ۔(النور،:۴۳۲۴

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ﷲ ہی بادل کو (پہلے) آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اُس (کے مختلف ٹکڑوں) کو آپس میں ملا دیتا ہے، پھر اُسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اُس کے درمیان خالی جگہوں سے بارش نکل کر برستی ہے۔ اور وہ اُسی فضا سے برفانی پہاڑوں کی طرح (دِکھائی دینے والے) بادلوں میں سے اولے برساتا ہے۔

سورۂ نور کی اِس آیتِ کریمہ میں لفظِ ’سمآء‘ کا اِستعمال زمین کے کرۂ ہوائی ( atmosphere ) کی اُن تہوں کے لئے ہوا ہے جن میں بادل معلّق ہوتے ہیں۔ نیز بادلوں کی بناوَٹ اور اُن کی مختلف تہوں کا ذِکر بھی کیا گیا ہے، جو سمندروں سے چل کر خشکی پر برستے ہیں اور زمینی حیات کی سیرابی کا باعث بنتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ میں یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ کے الفاظ میں واضح طور پر بادلوں کی فضا کو سماء کہا گیا ہے۔ یہ اور اِس قبیل کی دُوسری بہت سی آیات جملہ اہلِ ایمان کو حصولِ علمِ موسمیات ( meteorology ) کی ترغیب دیتی دکھائی دیتی ہیں۔

لفظِ سمآء کا بادلوں کی فضا کے معنی میں ایک اور مقام پر یوں اِستعمال ہوا ہے:

( ﷲ الَّذِی یُرسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبسُطُه فِی السَّمَآءِ کَیفَ یَشَآءُ ) ۔

(الروم، ۴۸:۳۰) ﷲ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے اُسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے۔

۳۔ بارِش

بارِش چونکہ بادلوں سے ہی پیدا ہوتی ہے اِس لئے بادل اور بادلوں کی فضا کے علاوہ کبھی لفظِ سمآء کا اِستعمال براہِ راست بارِش ہی کے معنی میں بھی ہوا ہے۔

اِرشاد فرمایا گیا:

( وَ أَرسَلنَا السَّمَآءَ عَلَیهِم مِّدرَاراً وَّ جَعَلنَا الأَنهَارَ تَجرِی مِن تَحتِهِم ) ۔ (انعام، ۶:۶)

اور ہم نے اُن پر لگاتار برسنے والی بارِش بھیجی اور ہم نے اُن (کے مکانات و محلّات) کے نیچے سے نہریں بہائیں۔

اِس آیتِ کریمہ میں بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔ یہاں سمآء کے مروّجہ معنی ’آسمان‘ کسی صورت میں بھی مراد نہیں لئے جا سکتے کیونکہ آسمان تو کبھی نہیں برستا، ہمیشہ بارِش ہی برستی ہے۔ اِس آیت میں اُوپر سے برسنے والی بارِش اور زمین کے اندر بہنے والی نہروں کا متوازی ذِکر کیا گیا ہے۔

ایک اور آیتِ مبارکہ میں یہی مضمون اِس انداز میں وارِد ہوا ہے:

( یُرسِلِ السَّمَآءَ عَلَیکُم مِّدرَارًا ) ۔ (ھود،۱۱:۵۲ )

وہ تم پر مُوسلا دھار بارِش بھیجے گا۔

اِس آیتِ کریمہ میں بھی بارِش کو سمآء کہا گیا ہے۔

۴-کرۂ ہوائی

قرآنِ مجید میں لفظِ سمآء کا اِستعمال زمین کے گِرد لپٹے کرۂ ہوائی کے لئے بھی ہوا ہے۔ پرندے زمین کی فضا میں اُس کی سطح سے کُچھ بلندی پر اُڑتے ہیں، زمینی فضا کی وہ بلندی جہاں پرندوں کی عام پرواز ہوتی ہے قرآنِ مجید میں اُسے بھی سمآء کہا گیا ہے۔

اِرشادِ ربانی ہے:

( أَ لَم یَرَو إِلَی الطَّیرِ مُسَخَّرَاتٍ فِی جَوِّ السَّمَآءِ مَا یُمسِکُهُنَّ إِلَّا اللهُ ) ۔ النحل، (۷۹:۱۶)

کیا اُنہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اُڑتے رہتے) ہیں۔ اُنہیں ﷲ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔

اِس آیتِ مبارکہ میں فضا یا کرۂ ہوائی کو سمآء کہا گیا ہے، جہاں پرندے اُڑتے ہیں۔

۵۔گھر کی چھت

سورۂ حج میں ایک مقام پر مطلق بلندی اور گھر کی چھت کے معنی میں بھی لفظِ سمآء کا اِستعمال ہوا ہے:

اِرشادِ ربّ ِ جلیل ہے:

( فَلیَمدُد بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَآءِ ) ۔ (الحج) ۱۵:۲۲

اُسے چاہیئے کہ (گھر کی) چھت سے ایک رسی باندھ کر لٹک جائے۔

اِس آیتِ کریمہ میں تاجدارِ کائنات (ص) کے بارے میں نیک گمان نہ رکھنے والے منافقوں کو یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھر کی چھت سے رسا باندھ کر اُس سے لٹک جائیں اور خودکشی کر لیں۔ یہاں گھر کی چھت کے لئے سمآء کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔

۶- سماوی کائنات

لفظِ سمآء کو ﷲ ربُّ العزت نے اپنے کلامِ مجید میں کروڑوں اربوں نوری سال کی مسافت میں بکھری ناقابلِ اِحصاء و شمار کہکشاؤں کے سلسلوں پر مشتمل تمام کائنات کے لئے بھی اِستعمال کیا ہے۔ تخلیقِ کائنات کے وقت ہر طرف جو دُخانی کیفیت ( gaseous state ) موجود تھی، اُس کا ذِکر کرتے ہوئے فرمایا:

( ثُمَّ استَویٰ إِلیَ السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَضَاهُنَّ سَبعَ سَمٰوَاتٍ ) ۔(فصلت، ۴۱: ۱۱.۱۲)

پھر وہ (ﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دُھواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر اُنہیں سات آسمان بنا دیا۔

اِس آیتِ مبارکہ میں ’بالائی کائنات‘ کو سمآء کہا گیا ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اِس مقام پر بات اُس وقت کی ہو رہی ہے جب ابھی سبع سماوات نہیں بنے تھے۔ گویا یہاں جس شے کو سمآء کہا گیا ہے وہ سبع سماوات کی تخلیق سے پہلے بھی موجود تھی۔ گویا جس حالت سے سات آسمانوں کی تخلیق عمل میں آئی اُسے بھی قرآن نے سمآء سے تعبیر کیا ہے۔

ایک اور مقام پر ﷲ ربُّ العزت نے لفظِ سمآء کو جملہ سماوی کائنات کے معنی میں اِستعمال کرتے ہوئے فرمایا:

( تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوجًا وَّ جَعَلَ فِیهَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیرًا ) (الفرقان، ۲۵:۶۱)

وُہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کروں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اُس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُسی کی ضوء سے) چمکنے والا چاند بنایاقرآنِ مجید سے آسمان کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ یہ کوئی ایسا ٹھوس اور جامد جسم نہیں جس کے آر پار جانا ممکن نہ ہو۔ جیسا کہ قدیم فلاسفہ کا خیال تھا اور اُن کے زیرِ اثر ہمارے بعض علماء نے بھی یہی تصور کر لیا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

( ثُمَّ استَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَضٰهُنَّ سَبعَ سَمٰوَاتٍ فِی یَومَینِ وَ اَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآئٍ اَمرَهَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ ) ۔ (حم السجدہ، ۴۱: ۱۱.۱۲)

پھر وہ (ﷲ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دھُواں (سا) تھا۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان اوپر کے طبقات کو دو ادوار میں مکمل سات آسمان بنا دیا اور ہر آسمان میں اسی سے متعلق احکام بھیجے اور ہم نے سب سے نچلے آسمان کو ستاروں سے آراستہ کیا۔

اِن آیاتِ کریمہ اور ان کے سیاق و سباق سے درج ذیل اُمور سامنے آتے ہیں:

-۱ عالمِ سماء اِبتداء ً دھُواں ( cloud of hot gases ) تھا۔

-۲ اِس عالمِ سماء کو سات محکم طبقات میں تقسیم کیا گیا، جیسا کہ اِرشادِ اِلٰہی ہے:

( اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوَاتٍ طِبَاقًا ) ۔ (الملک، ۶۷:۳)

(بابرکت ہے وہ ﷲ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے بنائے۔

سات کا عدد خاص بھی ہو سکتا ہے اور لُغتِ عرب کے قاعدے کے مطابق اِس سے محض عددی کثرت بھی مُراد ہو سکتی ہے۔

-۳ تمام ستارے اور سیارے مثلاً چاند، سورج اور دیگر اَجرامِ فلکی جو عالمِ اَفلاک میں چراغوں کی مانند چمک رہے ہیں، پہلے طبقۂ آسمانی میں موجود ہیں۔ اُن کا مدار آسمانِ دُنیا کے نیچے ہی ہے۔ کوئی ستارہ یا سیارہ پہلے آسمان سے اُوپر نہیں۔ یہ تمام سیارگانِ فلکی باری تعالیٰ کے حکم اور اُس کی تدبیر کے مطابق محوِ گردش ہیں۔ جیساکہ اِرشاد ہے:

( وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍم بِأَمرِه ) ۔ (الاعراف، ۵۴: ۷)

اور سورج چاند اور ستارے (سب) اُسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔

اِسی طرح ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:

( کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (الانبیاء، ۳۳ :۲۱)

تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں-۴ کائنات کی حدُود اِس نوعیت کی نہیں ہیں کہ اُنہیں چھُوا نہ جا سکے یا اُن کے آر پار آنا جانا نا ممکن ہو۔ قرآن و حدیث سے یہ اَمر ہرگز ثابت نہیں کہ اِنسان آسمانوں کے پار نہیں جا سکتا، بلکہ اِس کا عقلی و شرعی اِمکان خود قرآن سے یوں ثابت ہے۔

ﷲ ربُّ العزت نے جنوں کے ساتھ اِنسانوں کو بھی مخاطب کیا اور فرمایا:

یَا مَعشَرَ الجِنِّ وَ الاِنسِ إِنِ استَطَعتُم اَن تَنفُذُوا مِن اَقطَارِ السَّمٰوَاتِ وَ الاَرضِ فَانفُذُوا لَا تَنفُذُونَ اِلَّا بِسُلطَانٍ(الرحمن، ۵۵:۳۳)

اے گروہِ جن و اِنسان! اگر تم میں سماوی کائنات کی قطاروں اور زمین (کی حدود) سے باہر نکلنے کی اِستطاعت رکھتے ہو تو (ضرور) نکل دیکھو، طاقت (و صلاحیّت) کے بغیر تم (یقیناً) نہیں نکل سکتےاِسی آیتِ کریمہ کے مفہوم کا ایک مفاد یہ ہے کہ انسان زمین و آسمان کے کناروں سے تو باہر نکل سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کی حدُود سے نہیں نکل سکتا۔ سائنس تخلیقِ سماوی کے باب میں بھی قرآن کے اَحکامات کی تصدیق کرتی ہے۔

لفظِ سمآء کے مختلف قرآنی اِستعمالات کے بعد اَب ہم سات آسمانوں سے متعلق کچھ جدید سائنسی نظریات پیش کرتے ہیں تاکہ قرآنی بیانات کی صحت و صداقت جدید ذِہن پر آشکار ہو سکے اور وہ اُس کے کلامِ الہٰی ہونے پر یقینِ کامل پا سکے۔

سات آسمانوں کی سائنسی تعبیر

قرآنِ مجید سات آسمانوں کی موجودگی اور اُن کے مابین ہم آہنگی کا تصوّر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اِن آیات میں واضح کی گئی ہے:

( اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ) (الملک،۶۷:۳)

(بابرکت ہے وہ ﷲ) جس نے سات آسمانی طبقات اُوپر تلے پیدا بنائے۔

( ثُمَّ استَوٰی إِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ وَ هُوَ بِکُلِّ شَئ عَلِیمٌ ) (البقرہ،۲:۲۹)

پھر وہ (کائنات کے) بالائی حصوں کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے اُنہیں درُست کر کے اُن کے سات آسمانی طبقات بنا دیئے، اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے( أَلَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ ﷲ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ) (نوح،۷۱:۱۵)

کیا تم نہیں دیکھتے کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ نے کس طرح سات آسمانی طبقات اُوپر تلے پیدا کر رکھے ہیں( وَ لَقَد خَلَقنَا فَوقَکُم سَبعَ طَرَائِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِینَ ) (المؤمنون،۲۳:۱۷)

اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرّۂ ارضی کے گِرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھےاگرچہ سات آسمانوں کے کچھ رُوحانی معانی اور توجیہات بھی بہت سی تفاسیر میں پیش کئے گئے ہیں۔ ۔ ۔ اور ہم اُن کی تائید کرتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر اُس کے ساتھ ساتھ طبیعی کائنات، اُس کے خلائی طبقات، اَجسامِ سماوی اور خلاء اور کائنات سے متعلقہ کچھ سائنسی اور فلکیاتی توضیحات بھی ہمارے علم میں آئی ہیں۔ یہ طبیعی موجودات رُوحانی اور مابعد الطبیعی موجودات کے عینی شواہد بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اِن دونوں میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے۔

پہلی وضاحت۔ ۔ ۔ سات آسمانوں کا کائناتی تصوّر

قرآنِ حکیم نے اپنی بہت سی آیات میں سات آسمانوں کا ذِکر کیا ہے۔ گزشتہ ۲۰۰سال سے کائنات سے متعلق ہونے والی انتھک تحقیقات کے باوُجود ہم ابھی اِس بارے میں سائنسی بنیادوں پر حتمی معلومات حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ صرف حالیہ چند عشروں ( decades ) میں فلکی طبیعیات کے سلسلے میں چند اِنتہائی دِلچسپ دریافتیں ہوئی ہیں اور اُن سے معجزۂ قرآن کی حقانیت ثابت ہو گئی ہے۔ سائنسی تحقیقات کے ذریعے اِنسان نے جو کچھ بھی دریافت کیا ہے وہ سمندر میں سے فقط ایک قطرہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن پھر بھی اُس نے کم از کم اپنی پچھلی دو صدیوں کی خطاؤں کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔

ترکی کے نامور محقّق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے مطابق کائنات متنوّع مقناطیسی تہوں کی عکاسی کرتی ہے۔ پہلی اور مرکزی تہ بے شمار ستاروں سے بننے والی کہکشاؤں اور اُن کے گروہوں پر مشتمل ہے۔ اُس کے اُوپر واقع دُوسری تہ بہت سی مِقناطیسی خصوصیات کی حامل ہے، جو قواسرز ( quasars ) پر مشتمل ہے، جنہیں ہم ستاروں کے بیج بھی کہہ سکتے ہیں۔ قواسرز کائنات کے قدیم ترین اَجرام ہیں جو بہت زیادہ ریڈشفٹ چھوڑتے ہیں۔ اُس کے گِرد تیسری مقناطیسی پٹی ہے جو کائنات کے سِفلی مقامات کو اپنے حلقے میں لئے ہوئے ہے۔

سب سے اندرونی دائرہ اور خاص طور پر ہمارا اپنا نظامِ شمسی اپنے تمام سیاروں کے خاندان سمیت ہمارے لئے زمین پر رہتے ہوئے سب سے آسان قابلِ مُشاہدہ علاقہ ہے۔ اس نظام کی اندرونی ساخت تین الگ الگ مِقناطیسی میدانوں پر مُشتمل ہے۔

سب سے پہلے تو ہر سیارہ ایک مقناطیسی میدان کا مالک ہے، جو اُس سیارے سے اِردگرد واقع ہوتا ہے۔ پھر اُس کے بعد نظامِ شمسی کے اِمتزاج سے تمام سیارے ایک دُوسری مقناطیسی پٹی تشکیل دیتے ہیں۔ مزید برآں ہر نظامِ شمسی اپنی کہکشاں کے ساتھ ایک الگ وسیع و عریض مقناطیسی علاقے کی بنیاد رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ کم از کم ایک کھرب ستارے یا سورج تو صرف ہماری کہکشاں ( Milky Way ) میں شامل ہیں۔ مزید اعلیٰ سطح پر آس پاس واقع کہکشائیں کلسٹرز (کہکشاؤں کے گروہ) کے ایک اور مقناطیسی میدان کا باعث بن جاتی ہیں۔ تبھی تو جب ہم زمین سے آسمان کی طرف نظر کرتے ہیں تو سات ایسی مقناطیسی پٹیوں میں گھِرے ہوئے ہوتے ہیں جو خلاء کی بیکرانی میں پسپائی اِختیار کر چکی ہوں۔ اگر ہم زمین سے کائنات کی وُسعتوں کی طرف نظر دَوڑائیں تو سات آسمان اِس ترتیب سے واقع ہیں:

-۱ پہلا آسمان: وہ خلائی میدان، جس کی بنیاد ہم اپنے نظامِ شمسی کے ساتھ مل کر رکھتے ہیں۔

-۲ دُوسرا آسمان: ہماری کہکشاں کا خلائی میدان ہے۔ یہ وہ مقناطیسی میدان ہے جسے مِلکی وے کا مرکز تشکیل دیتا ہے۔

-۳ تیسرا آسمان: ہمارے مقامی کلسٹر (کہکشاؤں کے گروہ) کا خلائی میدان ہے۔

-۴ چوتھا آسمان: کائنات کا مرکزی مقناطیسی میدان ہے، جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے۔

-۵ پانچواں آسمان: اُس کائناتی پٹی پر مشتمل ہے جو قواسرز ( quasars ) بناتے ہیں۔

-۶ چھٹا آسمان: پھیلتی ہوئی کائنات کا میدان ہے، جسے رِجعتِ قہقری کی حامل (پیچھے ہٹتی ہوئی) کہکشائیں بناتی ہیں۔

-۷ ساتواں آسمان: سب سے بیرونی میدان ہے، جو کہکشاؤں کی لامحدود بیکرانی سے تشکیل پاتا ہے۔

اِن سات تہ در تہ آسمانوں کا ذِکر قرآنِ مجید نے آج سے ۱۴صدیاں پہلے واشگاف اَنداز میں کر دیا تھا۔ (سات آسمانوں سے متعلقہ آیاتِ مبارکہ سابقہ صفحات میں گزر چکی ہیں)۔

دُوسری وضاحت۔ ۔ ۔ سات فلکیاتی تہیں

سات آسمانوں کے تصوّر کو ذرا واضح انداز میں سمجھنے کے لئے ہم فلکی طبیعیات سے متعلقہ چند مزید معلومات کا مختصر ذِکر کریں گے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ مذکورہ بالا آسمانی تہوں کے درمیان ناقابلِ تصوّر فاصلے حائل ہیں۔

-۱ پہلی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ کم و بیش ۶۵کھرب کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔

-۲ دُوسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہماری کہکشاں کا قطر بھی ہے۔ ۔ ۔ ایک لاکھ ۳۰ہزار نوری سال وسیع ہے۔

-۳ تیسری آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو ہمارا مقامی کلسٹر ہے۔ ۔ ۔ ۲۰لاکھ نوری سال کی حدُود میں پھیلی ہوئی ہے۔

-۴ چوتھی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ جو کہکشاؤں کے تمام گروہوں کا مجموعہ ہے، اور کائنات کا مرکز تشکیل دیتی ہے۔ ۔ ۔ ۱۰کروڑ نوری سال قطر پر محیط ہے۔

-۵ پانچویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ ایک ارب نوری سال کی مسافت پر واقع ہے۔

-۶ چھٹی آسمانی تہ۔ ۔ ۔ ۲۰ارب نوری سال دُور ہے۔

-۷ ساتویں آسمانی تہ۔ ۔ ۔ اُس سے بھی کئی گنا آگے ہے، جس کا اَندازہ کرنا محال ہے۔

ایک آسمان سے دُوسرے آسمان تک کا جسمانی سفر ناممکن ہے، جس کا پہلا سبب روشنی سے کئی گنا زیادہ بے تحاشا رفتار کا عدم حصول ہے اور اُس کا دُوسرا سبب کائنات میں ہر سُو بکھری مقناطیسی قوّتوں پر نوعِ اِنسانی کا حاوی نہ ہو سکنا ہے۔ ان آسمانوں کی حدُود سے گزرنے کے لئے ضروری ہے کہ رَوشنی سے زیادہ رفتار حاصل کی جائے، روشنی کی رفتار کا حصول چونکہ مادّی اَجسام کے لئے قطعاً ناممکن ہے اِس لئے اِس کا دُوسرا مطلب یہ ہوا کہ ’مادّے کی دُنیا سے نجات‘ حاصل کی جائے۔ ایسا عظیم سفر مادّی اَجسام سے تو ممکن نہیں البتہ رُوح اپنے اِرتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد ایسا کرنے پر قادِر ہو سکتی ہے۔

تیسری وضاحت۔ ۔ ۔ لا مُتناہی اَبعاد

سات آسمانوں کے بارے میں لا مُتناہی اَبعاد کا تصوّر بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مختلف آسمانوں میں موجود عالمِ مکاں مختلف اَبعاد کا حامل ہوتا ہے۔ اِس لحاظ سے سات آسمانوں کا تصوّر سات جدا جدا خلائی تسلسلوں کے تصوّر کو بھی شامل ہے۔ چونکہ ہم ابھی تک وقت سمیت چار سے زیادہ اَبعاد کو محسوس نہیں کر سکتے لہٰذا ہمارے لئے فی الحال اِن لامتناہی اَبعاد کو کاملاً سمجھ سکنا ممکن نہیں۔