اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس0%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف: ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری
زمرہ جات:

مشاہدے: 68287
ڈاؤنلوڈ: 3902

تبصرے:

اسلام اور جدید سائنس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68287 / ڈاؤنلوڈ: 3902
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

باب دہُم

کائنات کا تجاذُبی اِنہدام اور اِنعقادِ قیامت

سیاہ شگاف اور ستاروں کی زِندگی اور موت کے قریبی مشاہدے کے بعد آیئے اَب ہم قیامت سے متعلق ہونے والی سائنسی تحقیقات کے نمایاں خدّوخال اور اِسلام کے تصوّرِ قیامت اور عقیدۂ آخرت کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

انجامِ کائنات سے متعلقہ سائنسی تحقیقات ہمیں اِس نتیجے پر پہنچاتی ہیں:

-۱ ہماری مادّی کائنات جس کا آغاز آج سے کم و بیش ۱۵ارب سال پہلے ’اوّلین عظیم دھماکے‘ ( Big Bang ) کی صورت میں ہوا تھا، اُس کا انجام آج سے تقریباً ۶۵ارب سال بعد کائنات کے آخری عظیم دھماکے‘ ( Big Crunch ) پر ہو گا۔

-۲ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ہماری پھیلتی ہوئی کائنات اپنی نصف عمر گزار لینے کے بعد کششِ باہمی کی وجہ سے سکڑاؤ کا شکار ہو جائے گی۔ باہر کو پھیلتی ہوئی کہکشاؤں کی رفتار کم ہو جائے گی، حتیٰ کہ وہ رُک جائیں گی اور پھر مرکز کی سمت اندرونی اِنہدام کا شکار ہو جائیں گی اور آپس میں ٹکرا کر مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گی۔

-۳ یہ ٹکراؤ (یعنی بِگ کرنچ) بِگ بینگ جیسے اِنتہائی عظیم اوّلین دھماکے کی طرح ہو گا۔ تمام اَجرامِ سماوی کا مادّہ سیاہ شگافوں میں جا گرے گا اور کائنات کی تمام ہائیڈروجن ( hydrogen ) اور ہیلئم ( helium ) ستاروں کی تھرمونیوکلیائی آگ میں جل کر ختم ہو جائیں گی۔ کوئی نیا ستارہ پیدا نہیں ہو گا اور کائنات مُردہ ستاروں، شہابیوں، چٹانوں اور اُنہی جیسے دُوسرے کائناتی ملبے پر مشتمل ہو گی۔

-۴ جب کائنات کی عمر ۱۰۲۷سال ہو جائے گی تو وہ بکثرت ایسے سیاہ شگافوں پر مشتمل ہو گی جو مُردہ ستاروں کے جُھرمٹ میں گھِرے ہوئے ہوں گے۔ کچھ عرصہ مزید گزرنے کے بعد تمام کہکشائیں گھومتی ہوئی ایک دُوسرے کی طرف آئیں گی اور آپس میں ٹکراتے ہوئے بڑے ’کائناتی سیاہ شگافوں‘ ( supergalactic black holes ) پر منتج ہوں گی۔ آخرکار ۱۰۱۰۶سال گزرنے کے بعد وہ عظیم سیاہ شگاف بخارات بن کر ایسے ذرّات اور شعاع ریزی کی صورت میں بھڑک اُٹھیں گے جو ایک ارب میگا واٹ ہائیڈروجن بم کے دھماکے کے برابر ہو گی۔

-۵ تباہی و بربادی کا یہ عمل آج سے ۶۵ ارب سال بعد شروع ہو گا اور ۱۰۱۴۰سال بعد مکمل ہو گا۔

-۶ بالآخر یہ عمل پوری کائنات کو ایک عظیم سیاہ شگاف یا ناقابلِ دید بنا دے گا، اور شاید تمام مادّہ، توانائی، مکان اور زمان اُس میں سمٹ جائے اور وہ دوبارہ سے سُکڑتے ہوئے چھوٹی ہو کر ’اِکائیت‘ اور صفر جسامت بن جائے گی اور لاشئ اور غیر موجود ( nothing / naught ) ہو جائے گی۔

کائنات کے تجاذُبی اِنہدام کا قرآنی نظریہ

قرآنِ مجید اِنعقادِ قیامت کے ضمن میں کائنات کے تمام موجودات کی کششی دھماکے سے رُو نما ہونے والی حالت اور اُس کی بے تحاشا تباہی کو یوں واضح کرتا ہے:

( إِذَا وَقَعَتِ الوَاقِعَةُ لَیسَ لِوَقعَتِهَا کَاذِبَةٌ خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ إِذَا رُجَّتِ الأَرضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الجِبَالُ بَسًّا فَکَانَت هَبآء مُّنبَثًّا ) (الواقعہ،۵۶: ۱.۶)

(یاد رکھو) جب قیامت واقع ہو جائے گی O تب اُسے جھوٹ سمجھنے کی گنجائش کسی کے لئے نہ ہو گی O کسی کو پست اور کسی کو بلند کرنے والی O جب زمین کپکپا کر لرزنے لگے گی O اور پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے O پھر (مکمل طور پر) غبار بن کر اُڑنے لگیں گے( یَومَ تَرجُفُ الأَرضُ وَ الجِبَالُ وَ کَانَتِ الجِبَالُ کَثِیبًا مَّهِیلاً ) (المزمل،۷۳:۱۴)

جس دِن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) ریت کے بھُربھُرے تودے ہو جائیں گے( اَلسَّمَآءُ مُنفَطِرٌ مبِه کَانَ وَعدُه مَفعُولاً ) (المزمل،۷۳:۱۸)

جس (دِن کی دہشت) سے آسمان پھٹ جائے گا، (یاد رکھو کہ) اُس کا وعدہ (پورا) ہو کر رہے گا( وَ حُمِلَتِ الأَرضُ وَ الجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّةً وَّاحِدَةً فَیَومَئِذٍ وَّقَعَتِ الوَاقِعَةُ وَ انشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِیَ یَومَئِذٍ وَّاهِیَةٌ ) (الحاقہ،۶۹: ۱۴.۱۶)

اور زمین اور پہاڑ اُٹھائے جائیں، گے پھر یکبارگی (لپک کر) ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے O پس اُسی

وقت جس (قیامت) کا ہونا یقینی ہے وہ واقع ہو جائے گی O اور آسمان پھٹ جائے گا، پھر اُس دن وہ بالکل بودا (بے حقیقت) ہو جائے گا( وَ نَرَاهُ قَرِیبًا یَومَ تَکُونُ السَّمَآءُ کَالمُهلِ وَ تَکُونُ الجِبَالُ کَالعِهنِ ) (المعارج، ۷۰:۷.۹)

اور وہ ہماری نظر میں قریب ہے O جس دِن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہو گا O اور پہاڑ رنگین اُون کے گالے کی طرح ہلکے ہوں گے( إِذَا الشَّمسُ کُوِّرَت وَ إِذَا النُّجُومُ انکَدَرَت وَ إِذَا الجِبَالُ سُیِّرَت ) (التکویر،:۸۱:۱.۳)

جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا O اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گِر پڑیں گے O اور جب پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) چلا دیئے جائیں گے( إِذَا السَّمَآءُ انفَطَرَت وَ إِذَا الکَوَاکِبُ انتَثَرَت وَ إِذَا البِحَارُ فُجِّرَت ) (الانفطار، ۸۲:۱.۳)

جب (سب) آسمانی کرے پھٹ جائیں گے O اور سیارے گِر کر بھر جائیں گے O اور جب سمندر (اور دریا) اُبھر کر بہہ جائیں گے( وَ الأَمرُ یَومَئِذٍ لِّلّٰهِ ) (الانفطار،۸۲:۱۹)

اور حکم فرمائی اُس دن ﷲ ہی کی ہو گی( یَسئَلُ أَیَّاَن یَومُ القِیَامَةِ فَإِذَا بَرِقَ البَصَرُ وَ خَسَفَ القَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمسُ وَ القَمَرُ یَقُولُ الإِنسَانُ یَومَئِذٍ أَینَ المَفَرُّ ) (القیامۃ،۷۵:۶.۱۰)

وہ پوچھتا ہے کہ قیامت کا دِن کب ہو گا O پھر جب (ربُّ العزت کی تجلیٔ قہری سے) آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گی O اور چاند بے نور ہو جائے گا O اور سورج اور چاند ایک سی حالت پر آ جائیں گے O اُس روز اِنسان کہے گا کہ (اب) کہاں بھاگ کر جاؤں( إِنَّمَا تُوعَدُونَ لَوَاقِعٌ فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَت وَ إِذَا السَّمَآءُ فُرِجَت وَ إِذَا الجِبَالُ نُسِفَت ) (المرسلات، ۷۷:۷.۱۰)

بیشک تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور (پورا) ہو کر رہے گا O پھر جب تارے بے نور ہو جائیں گے O اور جب آسمان پھٹ جائے گا O اور جب پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) اُڑتے پھریں گے( وَ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَت أَبوَاباً وَّ سُیِّرَتِ الجِبَالُ فَکَانَت سَرَاباً ) (النباء،۷۸:۱۹.۲۰)

اور آسمان کے طبقات پھاڑ دیئے جائیں گے تو (پھٹنے کے باعث گویا) وہ دروازے ہی دروازے ہو جائیں

گے O اور پہاڑ (غبار بنا کر فضا میں) اُڑا دیئے جائیں گے، سو وہ سراب (کی طرح کالعدم) ہو جائیں گے( اَلقَارِعَةُ مَا القَارِعَةُ وَ مَآ أَدرٰکَ مَا القَارِعَةُ یَومَ یَکُونُ النَّاسُ کَالفَرَاشِ المَبثُوثِ وَ تَکُونُ الجِبَالُ کَالعِهنِ المَنفُوشِ ) (القارعۃ۔ ۱۰۱:۱.۵))

(زمین و آسمان کی ساری کائنات کو) کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑک O وہ (ہر شے) کو کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑک کیا ہے؟ O اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ (ہر شے کو) کھڑکھڑا دینے والے شدید جھٹکے اور کڑک سے کیا مُراد ہے؟ O (اِس سے مُراد) وہ یومِ قیامت ہے جس دِن سارے لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گے O اور پہاڑ رنگ برنگ دھنکی ہوئی اُون کی طرح ہو جائیں گے( کَلاَّ إِذَا دُکَّتِ الأَرضُ دَکًّا دَکًّا ) (الفجر،۸۹:۲۱)

یقیناً جب زمین پاش پاش کر کے ریزہ ریزہ کر دی جائے گی( وَ إِذَا السَّمَآءُ کُشِطَت ) (التکویر،۸۱:۱۱)

اور جب سماوی طبقات کو پھاڑ کر اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گا( یَومَ نَطوی السَّمَآءَ ) ۔ (الأنبیاء،۲۱:۱۰۴)

اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو لپیٹ دیں گے۔

( وَ الأَرضُ جَمِیعًا قَبضَتُه یَومَ القِیَامَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطویاتٌ مبِیَمِینِه ) ۔(الزُمر،۳۹:۶۷)

اور قیامت کے دِن تمام زمین اُس کی مٹھی میں (ہو گی) اور آسمان (کاغذ کی طرح) لپٹے ہوئے اُس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے۔

مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ کی تشریح و توضیح سرورِ کائنات (ص) کی اَحادیثِ مبارکہ میں بھی پائی جاتی ہے:

-۱ سیدنا ابوہریرہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ رحمت (ص) نے فرمایا:

اَلشَّمسُ وَ القَمَرُ مُکَوَّرَانِ یَومَ القِیَامَةِ ۔ (صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق،۱:۴۵۴)

روزِ قیامت چاند اور سورج اپنی روشنی کھو کر ایک دُوسرے سے جا ٹکرائیں گے۔

مختلف شارِحینِ حدیث کے مطابق اِس حدیثِ مبارکہ میں" مُکَوَّرَانِ" کا لفظ اپنے اندر تین معانی رکھتا ہے:

- i سِتارے آپس میں ٹکرا کر ایک دُوسرے کے اُوپر جا چڑھیں گے۔

- ii اُن کی روشنی ختم ہو کر بُجھ جائے گی۔

- iii سورج اور چاند سمیت تمام اَجرامِ سماوی ’تجاذُبی اِنہدام‘ کا شکار ہو جائیں گے۔

-۲ سیدنا عبدﷲ بن عمر نے بھی اِسی مفہوم میں ایک اور حدیثِ مبارکہ روایت کی ہے:

یَقبِضُ اللهُ الأَرضَ یَومَ القِیَامَةِ وَ یَطوی السَّمَآءَ بِیَمِینِهِ، ثُمَّ یَقُولُ: (أَنَا المَلِکُ أَینَ مُلُوکُ الأَرضِ

(صحیح البخاری،۲:۱۰۹۸) (الصحیح لمسلم،۲:۳۷۰) (مسند احمد بن حنبل،۲:۳۷۴) (سنن الدارمی،۲:۲۳۳)

قیامت کے دن ﷲتعالیٰ زمین اور آسمان(کائنات کی تمام موجودات) کو لپیٹ لے گا اور اپنی قوّت سے اُنہیں باہم ٹکرا دے گا اور فرمائے گا: میں کائنات کا مالک ہوں، زمین کی بادشاہی (کا دعویٰ کرنے) والے کہاں ہیں؟

کائنات کے لپیٹے جانے کی سائنسی تفسیر

کائنات کے قیامت خیز اِنہدام کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات اور علومِ قرآنیہ کے مابین ناقابلِ تصوّر یگانگت اور مطابقت دیکھنے کو ملتی ہے۔ فلکی طبیعیات ( astro-physics ) قیامت سے متعلقہ اُمور کو بالکل اُسی طرح واضح کرتی ہے جس طرح اُنہیں قرآنِ مجید نے بیان کیا ہے۔ سیاہ شگافوں یا ناقابلِ دید مُنہدم ستاروں کی تصدیق قرآنِ مجید نے بھی ناقابلِ دید گزر گاہوں کے طور پر کی ہے۔

’آئن سٹائن‘ کے نظریہ کے مطابق کشش محض ایک پابندِ جہات حقیقت ہے جو مادّے اور توانائی کی موجودگی میں گھِری ہوئی ہے، بالکل اِسی طرح جیسے ایک گدّا ( mattress ) بھاری بھرکم جسم کے بوجھ تلے دَب جاتا ہے۔ کسی مادّے کا مقامی اِرتکاز جتنا زیادہ ہو گا مکاں کا اِنحناء اُس کے آس پاس اُسی قدر زیادہ ہو گا۔ جب تھرمونیوکلیائی آگ کا اِیندھن ختم ہو جائے گا اور کشش اُسے اندرونی سمت مُنہدم کر دے گی تو اُس وقت کیا بیتے گا؟ وہ ایسی ہولناک قیامت ہو گی جس کا آج ہم تصوّر کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

ہمارے سورج کی جسامت کے ستارے اپنی موت سے قبل سُکڑ کر زمین جتنے قد کے ’سفید بونے‘ ( white dwarf ) بن جاتے ہیں جبکہ اُس سے بڑے ستاروں کو کشش بری طرح کچل کر ’نیوٹران‘ پر مشتمل ٹھوس گیند بنا دیتی ہے۔ اُس کے ایک چمچ بھر مِقدارِ مادّہ کا وزن ۔ ۔ ۔ جو ۲۰میل قطر کے حامل ایٹمی مرکزوں کے جڑے ہونے کی حالت ہے ۔ ۔ ۔ کئی ارب ٹن ہوتا ہے۔ اُس کے بعد ’نیوٹران تارے‘ کے مرحلے میں اُس کی کثافت اِتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ مکاں اُس کے گِرد سیاہ مکے کی طرح لپٹ جاتا ہے اور پھر روشنی سمیت کوئی بھی شے اُسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ ستارے کا ملبہ اپنے آپ کو خوب دباتے ہوئے یوں بھینچتا چلا جاتا ہے کہ اُس کی کثافت لا محدُود ہو جاتی ہے اور مکاں لا محدُود سطح تک اِنحناء ( curvature ) کا شکار ہو جاتا ہے۔ اُس کا نتیجہ کائناتی موت کی صورت میں نکلتا ہے، جسے ’اِکائیت‘ ( singularity ) کہتے ہیں، اور یہاں عمومی اِضافیت، مکاں-زماں اور علمِ طبیعیات کے دُوسرے بہت سے قوانین ٹوٹ جاتے ہیں۔

قیامت کے روز اِن حالات کے تمام کائنات پر غالب آ جانے کا معاملہ قرآنِ مجید یوں بیان کرتا ہے:

( یَومَ نَطوی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلکُتُبِ کَمَا بَدَأنَآ أَوَّلَ خَلقٍ نُّعِیدُه وَعدًا عَلَینَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ ) (الأنبیاء،۲۱:۱۰۴)

اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے،

جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اِس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عملِ تخلیق کو دُہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے اپنے اُوپر لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںفلکی طبیعیات کا عظیم سائنسدان ’جان ویلر‘ ( John Wheeler ) کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص آئن سٹائن کے ’نظریۂ عمومی اِضافیت‘ ( General Theory of Relativity ) کو سنجیدگی سے لے تو وہ دیکھے گا کہ کائنات کی آخری عام کششی تباہی ایک حقیقی اِمکان ہے جس کے وُقوع پذیر ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ کسی ستارے کی موت کے بعد پیدا ہونے والی فطرت کی اُس عجیب و غریب تخلیق کو ’سیاہ شگاف‘ کا نام پہلے پہل اُسی نے دیا۔ اِسی چیز کا ذِکر قرآنِ مجید ’ناقابلِ دید آسمان‘ کے طور پر کرتا ہے۔ جان ویلر کے مطابق کائنات میں جابجا موجود سیاہ شگاف آخری قیامت خیز تباہی ( Big Crunch ) کے سلسلے میں فقط ریہرسل ہے، جو اُس کے خیال میں اِختتامِ کائنات کے وقت تخلیق کی بے ثبات حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے اُس کا پردہ چاک کر دے گی۔ قرآنِ مجید کے مطابق وہ آخری تباہی یومِ قیامت کی صورت میں برپا ہو گی۔

عظیم آخری تباہی( Big Crunch )اور نئی کائنات کا ظہور

’جان ویلر‘ ( John Wheeler )کی تحقیقات کے مطابق اگر کائنات سیاہ شگاف کے متعلق طبیعیاتی قوانین کے مطابق ٹکرائی تو عین ممکن ہے کہ وہ پھر سے معرضِ وُجود میں آ جائے۔ ’عظیم آخری تباہی‘ ( Big Crunch ) کائنات کے ایک نئے ’اوّلین عظیم دھماکے‘ ( Big Bang ) کا باعث بن سکتی ہے، جس کا نتیجہ ایک نئی کائنات کے وُجود میں آنے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ کائنات کی ایک شکل سے دُوسری میں تبدیلی کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا جسے جان ویلر نے ’بہت اَعلیٰ مکاں‘ ( Super Space ) کا نام دیا ہے۔ اُس کے مطابق وہ ایک مطلق لامحدُود جہات کا حامل مکاں ہو گا، جس کا ہر نقطہ کائنات کی مکمل ترکیب اور جیومیٹری کا آئینہ دار ہو گا۔ ویلر پُرزور انداز سے کہتا ہے کہ ’سپرسپیس‘ شاعرانہ تخیل نہیں، بلکہ عمومی اِضافیت کے نظریئے پر مبنی ایک حقیقت ہے۔ جیسا کہ وہ ذرا سی مبہم لائن پر بگ بینگ کے نقطے سے بِگ کرنچ کا پیچھا کرتے ہوئے نظریۂ اِضافیت کے مطابق کائنات میں دخل اَنداز ہے۔

دُوسری کائنات کِس نقطے پر رُو پذیر ہو گی؟ اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید میں پہلے سے موجود ہے، جو دو ٹوک انداز میں یہ کہتا ہے کہ ہاں دُوسری کائنات یقیناً پیدا ہو گی اور یہ ﷲ ربُّ العزّت کا وعدہ ہے، جس کا اِیفاء اُس نے اپنے اُوپر لازِم قرار دیا ہے۔ مُندرجہ ذیل پہلی آیتِ کریمہ اُوپر مذکورہ سائنسی تصوّر کی طرف اِشارہ کرتی ہے اور ویلر کے اِکتشافات باقی دی گئی آیات کے نزول سے مطابقت رکھتے ہیں:

( یَومَ نَطوی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلکُتُبِ کَمَا بَدَأ نَا أَوَّلَ خَلقٍ نُّعِیدُه وَعدًا عَلَینَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِینَ ) (الأنبیاء ،۲۱:۱۰۴)

اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے، جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اِس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عملِ تخلیق کو دُہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے اپنے اُوپر لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیں( یَومَ تُبَدَّلُ الأَرضُ غَیرَ الأَرضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُواللهِ الوَاحِدِ القَهَّارِ ) (إبراہیم،۱۴:۴۸)

جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ ﷲ کے رُو برُو حاضر ہوں گے جو ایک سب پر غالب ہے( أَ وَ لَیسَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی أَن یَّخلُقَ مِثلَهُم بَلٰی وَ هُوَ الخَلاَّقُ العَلِیمُ ) (یٰسین،۳۶:۸۱)

کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ اِس پر قادِر نہیں کہ اُن جیسے لوگوں کو (قیامت کے دِن پھر) پیدا کر دے، یقیناً (وہ قادِر ہے) اور وُہی تو اصل بنانے والا سب کچھ جاننے والا ہے( أَ وَ لَم یَرَوا أَنَّ اللهَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ قَادِرٌ عَلٰی أَن یَّخلُقَ مِثلَهُم وَ جَعَلَ لَهُم أَجَلاً لاَّ رَیبَ فِیهِ فَأَبَی الظّٰلِمُونَ إِلاَّ کُفُورًا ) O (الأسراء،۱۷:۹۹)

کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ جس ﷲ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے (وہ) اِس بات پر (بھی) قادِر ہے کہ وہ اُن لوگوں کی مِثل (دوبارہ) پیدا فرما دے اور اُس نے اُن کے لئے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جس میں کوئی شک نہیں، پھر بھی ظالموں نے اِنکار کر دیا ہے، مگر (یہ) ناشکری ہےمذکورہ بالا قرآنی آیات کائنات کی ’چکر کھاتے ہوئے آخری کششی تباہی‘، ’اوّلین عدم‘ اور ’سیاہ شگاف‘ سے متعلقہ طبیعیات کے قوانین سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہیں، جو اِس بات کی طرف اِشارہ کرتی ہے کہ نئی جیومیٹری کے تحت مختلف ماہیت کی نئی کائنات کا ظہور ممکن ہے۔

ویلر کہتا ہے کہ اِس قسم کی دوبارہ ظہور میں آنے والی کائنات اُس قادرِ مطلق کے اِرادے ہی سے اِنعقاد پذیر ہو سکتی ہے، جو کشش کو محو کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔نئی کائنات شاید ہماری موجودہ کائنات سے ہو بہو مشابہت نہ رکھتی ہو۔ اِس مظہر کی مزید تائید ’چکر دار کائنات کے نظریہ‘ ( Oscillating Universe Theory ) سے بھی ملتی ہے۔ قرآنِ حکیم اِس حقیقت کو یوں عیاں کرتا ہے:

( یَومَ تُبَدَّلُ الأَرضُ غَیرَ الأَرضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوا ِللّٰهِ الوَاحِدِ القَهَّارِ ) (اِبراہیم،۱۴:۴۸)

جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ ﷲ کے رُو برُو حاضر ہوں گے جو ایک سب پر غالب ہےسیدہ عائشہ صدیقہ سے ایک حدیثِ مبارکہ یوں مروی ہے:

سَأَلتُ رَسُولَ ﷲ(ص) عَن قَولِهِ: ( ( یَومَ تُبَدَّلُ الأَرضُ غَیرَ الأَرضِ وَ السَّمٰوٰتُ ) ) فَأَینَ یَکُونُ النَّاسُ یَومَئِذٍ یَا رَسُولَ ﷲ(ص)؟ فَقَالَ: عَلٰی الصِّرَاطِ ۔ (الصحیح لمسلم،۲:۳۷۱) (جامع الترمذی،۲:۱۴۰) (جامع الترمذی،۲:۱۵۷) (سنن ابن ماجہ:۳۲۶) (سنن الدارمی،۲:۳۳۶) (مسند احمد،۶:۳۵،۱۰۱،۱۳۴،۲۱۸)

میں نے رسول ﷲ(ص) سے اِس آیتِ کریمہ کا مفہوم دریافت کیا (جس میں ﷲ تعالیٰ نے فرمایا:) (جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے) پھر اُس دِن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ(ص) نے فرمایا: "صراط پر"۔

کائنات کی دُوسری گیسی حالت ( Gaseous state )

سائنسی اور قرآنی بیانات میں ایک اور مطابقت یہ ہے کہ کائنات اپنی عظیم تباہی ( Big Crunch ) کے بعد پھر سے ’دُخانی حالت‘ ( gaseous state ) میں تبدیل ہو جائے گی۔ قرآنِ مجید میں ہے:

( فَارتَقِب یَومَ تَأتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِینٍ ) (الدُخان،۴۴:۱۰)

پس اُس دِن کا اِنتظار کرو جب آسمان سے ایک واضح دھُواں ظاہر ہو گااِسی حقیقت کو سرورِ کائنات (ص) نے یوں واضح کیا ہے:

إنّ السّاعةَ لَا تَکُونُ حَتّٰی عَشَر آیَاتِ الدُّخَانُ وَ طُلُوعُ الشَّمسِ مِن مَّغرِبِهَا ۔ ۔ ۔ (سنن ابنِ ماجہ:۳۰۲) (مسند احمد بن حنبل،۲:۳۷۲) (مسند احمد بن حنبل،۴:۷)

قیامت اُس وقت تک برپا نہیں ہو گی جب تک ۱۰علامات ظاہر نہ ہو جائیں۔دُخان اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا(بھی اُنہی میں سے ہے)۔

سیدنا حذیفہ بن اُسید غفاری حضور نبی اکرم(ص) سے روایت کرتے ہیں:

إِنَّهَا لَن تَقُومَ حَتّٰی تَرَوا قَبلَهَا عَشرَ آیَاتٍ، فَذَکَرَ الدُّخَان وَ طُلُوعَ الشَّمسِ مِن مَغرِبِهَا ۔ (الصحیح لمسلم‘ :۲ ۳۹۳) (مشکوۃ المصابیح: ۴۷۲)

قیامت اس وقت تک واقع نہیں ہو گی جب تک اس سے پہلے تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو- پھر حضور(ص) نے (مشرق سے مغرب تک محیط) دھوئیں کا ذکر فرمایا ۔ ۔ ۔ اور آگے( سورج کے الٹی سمت سے )مغرب سے طلوع ہونے کا بھی ذکر کیا۔

ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی وارِد ہوئے ہیں:

یَملَأُ مَا بَینَ المَشرِقِ وَ المَغرِبِ، یَمکُثُ أَربَعِینَ یَومًا وَ لَیلَةً ۔

اُسی دھُوئیں سے مشرق و مغرب تمام اَطرافِ عالم بھر جائیں گے اور وہ مسلسل ۴۰ دِن رات قائم رہے گا۔

بہرحال اِس بات کو سمجھنے میں کوئی دُشواری نہیں ہو سکتی کہ تمام کہکشاؤں کے ٹکرا جانے پر جب کشش کی قوت اپنا اثر کھو دے گی تو کائنات کا مادّہ اپنی اوّلیں صورت میں بکھر جائے گا اور ہر سُو دھُواں ہی دھُواں ہو جائے گا۔ تمام اَجرامِ سماوی جب آپس میں ٹکرائیں گے تو اُس دھماکے سے آگ اور دھُوئیں کا پیدا ہونا لابدّی امر ہے۔ اِس لئے اِسی حدیث میں "وَ أٰخِرُ ذٰلِکَ نَارٌ" )اور اُس کی آخری علامت آگ ہو گی( کا بیان بھی ہے۔ جدید سائنس بھی آگ اور دھُوئیں کی اُس کیفیت کے پیدا ہونے کا اِعتراف کر چکی ہے۔ مزید یہ کہ سورج کے اُلٹی سمت )مغرب( سے طلوع ہونے کا معنی بھی یہی ہے کہ وہ کشش ( gravitation ) جو تمام اَجرام کو اپنے اپنے مستقر اور مدار پر مقررہ سمت میں گردِش پذیر رکھتی ہے جب اُس میں تبدیلی واقع ہو جائے گی تو اُن کی حرکت کی سمتیں بھی متضاد اور متصادم ہو جائیں گی اور اُسی کے نتیجے میں بالآخر سب کچھ آپس میں ٹکرا کر پاش پاش ہو جائے گا۔ (گویا زمین کی گردش اُلٹی ہو جائے گی جس سے سورج مغرب سے طلوع ہوتا نظر آئے گا)۔

یہ قیامت کا بیان ہے، جو اِس مادّی کائنات کے اِختتام کی ایک ممکنہ صورت ہے، جسے جدید سائنس نے اپنے اَنداز میں مِن و عن تسلیم کر لیا ہے اور اُس کی قرآن و حدیث میں مذکور علامتوں کی توجیہ بھی پیش کر دی ہے۔ ایسا قوّتِ کشش کے زائل ہو جانے کی وجہ سے ہو گا، جس نے تمام ستاروں اور اَجرامِ فلکی کو اُن کے مداروں میں جکڑ رکھا ہے۔

جدید دَور کے ذرّاتی طبیعیات دان ( particle physicists ) یہ کہتے ہیں کہ انجام کے طور پر اَیٹموں کے نیوکلیائی اَجزاء تباہ ہو جائیں گے اور اُس کے نتیجے میں محض لیپٹون ( lepton )، ہلکے اِلیکٹران ( light electron )، پازیٹران ( positron ) اور کثافت سے عاری نیوٹران ( massless neutron ) باقی بچیں گے، جس کے نتیجے میں ’فوٹانز کے بادل‘ بڑی مقدار میں پیدا ہوں گے۔ وہ نئی کائنات شعاع ریزی سے بری طرح مغلوب ہو گی کیونکہ اُس کی توانائی کا بیشتر حصہ ایسے کثافت سے عاری ذرّات ہوں گے جو روشنی کی رَفتار سے متحرّک ہوں گے۔ جبکہ دُوسری طرف آج کی کائنات ایسے مادّے سے مغلوب ہے جس کی زیادہ تر توانائی کثیف ذرّات پر مشتمل ہے اور اُس کی کم ترین توانائی کی حالت ابھی باقی ہے۔

انجامِ کائنات ۔ ۔ ۔ عظیم سیاہ شگاف ( Black Hole )

رِیڈرز ڈائجسٹ نومبر ۱۹۷۷ء میں شائع شدہ ’جان ایل وِلہم‘ ( John L. Wilhelm ) کے مضمون کا ایک اِقتباس جس کا اُوپر مذکورہ سیاق سے خاصا گہرا تعلق ہے ، نیچے دیا جا رہا ہے۔ اُسے نزولِ قرآن کے اُس تناظر میں پڑھنا چاہیئے جو کائنات کی تخلیق و اِرتقاء اور آخری تباہی سے متعلق ہے۔

ایکس ریز کے شدید قسم کے دھماکوں سے پیدا ہونے والی لہریں جو آسمان پر واقع مجمع النّجوم ’دجاجہ‘ ( Cygnus ) میں سے ستاروں کی گیس سے بنی ہوئی کثیف ندیوں کی صورت میں تیزی سے نکل رہی ہیں، دُوربین کی مدد سے اُن کا بخوبی مُشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ گیس کی یہ ندیاں ایک قابلِ دید چمکدار ستارے میں سے نکل کر دُوسرے پُراسرار ناقابلِ دید مقام کی طرف بھاگتی ہوئی جاتی دِکھائی دیتی ہیں۔ تمام تر شواہد اِنسانی دِماغ کے تراشیدہ اِس مُہیب ترین مفروضے کی بھرپور تائید کرتے دِکھائی دیتے ہیں کہ خلاء میں اُس مقام پر ایک ناقابلِ دید سیاہ شگاف موجود ہے جو مادّے ( matter ) کو ہڑپ کر جاتا ہے، مکاں ( space ) کو مُنحنی )یعنی ٹیڑھا( کر دیتا ہے اور وقت ( time ) کو لپیٹ دیتا ہے۔

سیاہ شگاف اِس قدر ناقابلِ یقین قوّتِ کشش رکھتے ہیں کہ ایٹموں کو لا محدُود کمیّت کی حد تک رَوندھتے ہوئے ہر قسم کے مادّے کو بلا لحاظ کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ سیاہ شگاف ایسے تباہ حال ستارے کا ملبہ ہوتا ہے جس کا اِیندھن جل جل کر ختم ہو چکا ہو۔ اُس ستارے کی جسامت کسی دَور میں اِتنی بڑی رہ چکی ہوتی ہے کہ اُس کی بے پناہ قوّتِ کشش اُسے تباہ کر کے گالف کی گیند کی جسامت جتنا کر دیتی ہے اور پھر وہ لاشئ ہو کر معدُوم ہو جاتا ہے۔

اپنی ناقابلِ یقین کثافت کی وجہ سے ایک تباہ شدہ ستارے کی قوّتِ کشش کا دائرہ اِس قدر وسیع ہو جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ حصے پر حاوی ہو جاتا ہے۔ ہر وہ شے جو اُس کشش کی حدُود میں سے گزرتی ہے وہ ستارے کے بھنور میں گر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پھنس جاتی ہے۔ حتیٰ کہ روشنی بھی اُس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتی، یہی وجہ ہے کہ اُسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ سابقہ ستارہ خلاء میں ناقابلِ پیمائش پاتال بن جاتا ہے۔ یہ آسمانی بھوت ہیں اور اُنہیں سیاہ شگاف کہا جاتا ہے۔

آج کل بہت سے سائنسدان اِس نقطے پر سوچ رہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ہماری ملکی وے سمیت اکثر کہکشاؤں کے وسط میں ’جینیاتی سیاہ شگاف‘ گھن لگائے ہوئے ہوں جو ستاروں کو ہڑپ کر کے نِگل جاتے ہوں اور تمام ستارے اُن کے عظیم میدانِ تجاذُب کی وجہ سے اُنہی کے گرد گردِش میں مصروف ہوں۔ ایک اَندازے کے مطابق پوری کائنات کی شاید ۹۰ فیصد کمیّت پہلے سے اُن سیاہ شگافوں میں گم ہو چکی ہے۔ پُر اسرار قواسرز جو خلاء کے دُور دراز گوشوں سے بے پناہ توانائی کے کڑھاؤ کا شور مچاتے ہیں، شاید وہ تمام کہکشاؤں کے دِلوں کو ہڑپ کرتے ہوئے عظیم سیاہ شگاف ہوں۔ ’ہاروَرڈسمتھ‘ کے فلکی طبیعیات کے مرکز پر موجود ایک سائنسدان ’ہربرٹ گرسکی‘ نے دِماغ کو چونکا کر رکھ دینے والا اِمکان ظاہر کیا کہ عین ممکن ہے کہ پوری کائنات خود ایک بہت بڑا سیاہ شگاف ہو۔

سیاہ شگاف کے بننے کے لئے دو شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ جن میں سے ایک تو بہت زیادہ مِقدار میں مادّے کی موجودگی ہے اور دُوسرے اُس مادّے کا اِنتہائی قلیل جگہ پر سما جانا ہے۔ مطلوبہ مِقدارِ مادّہ بڑے بڑے ستارے مہیا کرتے ہیں۔

جب ستارے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اُن کا ’تھرمونیوکلیائی اِیندھن‘ اپنے اِختتام کو جا پہنچتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک اپنی بیرونی تہ کو اَندرونی کشش کے مقابلے میں برقرار نہیں رکھ پاتے ۔ نتیجۃً یہ بیرونی تہیں اَیٹموں کو لپیٹتے ہوئے اور سِتاروں کو سُکیڑتے ہوئے اَندر کی سمت گِرنا شروع کر دیتی ہیں۔

ایک چھوٹا کم کششی طاقت کا حامل ستارہ جو اِس قابل نہیں ہوتا کہ اِلیکٹرانوں کو باہم قریب قریب کر کے بے پناہ کثافت حاصل کر لے، اَیسا خاکستر ستارہ ’سفید بونا‘ ( white dwarf ) کہلاتا ہے، جس کے تمام اِلیکٹران اُس کے پروٹانوں کے ساتھ مل کر نیوٹرانوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ یا پھر اَیسا ستارہ بن جاتا ہے جو آخری تباہی تک لا محدُود کثافت کے حامل نقطہ تک آن پہنچتا ہے۔ اُس آخری تحت الثریٰ کی رفتار روشنی کی سمتی رفتار ( velocity ) کو جا چھُوتی ہے اور اَیسا ایک سیکنڈ کے معمولی حصے میں ہو سکتا ہے۔ ستارہ غائب ہو جاتا ہے، اَدبی اَلفاظ میں پلک جھپک جاتا ہے اور ایک ’سیاہ شگاف‘ کو جنم دیتا ہے۔

قرآنِ حکیم کی اِس آیتِ مبارکہ کو اِس سائنسی وضاحت کے بعد پھر سے پڑھنا چاہیئے:

( وَ لِلّٰهِ غَیبُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ وَ مَآ أَمرُ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمحِ البَصَرِ أَو هُوَ أَقرَبُ إِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌ ) (النحل،۱۶:۷۷)

اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب ﷲ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر۔ بیشک ﷲ ہر چیز پر بڑا قادِر ہےسیاہ شگاف کی سائنس اور ذرّاتی سائنس کے مطابق طبیعیاتی قوانین رُو سے ہماری کائنات جب تک عام اِرتقائی عمل کے تحت قائم و دائم رہتی ہے، اُس کی قیامت خیز تباہی کا باعث مندرجہ ذیل اَسباب میں سے کچھ بھی ہو سکتا ہے:

-۱ سیاہ شگاف بن جانا

-۲ تصادُم کے نتیجے میں مادّے اور ضدِ مادّہ کا فنا ہو جانا

-۳ پروٹان کا خاتمہ

-۴ اَیٹموں کے مرکزی اَجزاء کی تباہی، جب وہ زیادہ دیر کے لئے قائم نہیں رہ سکیں گے۔

تاہم پروٹان بھی ہمیشہ زِندہ نہیں رہ سکتے، اُن کی زِندگی ہر شے کے معدُوم ہو جانے کے ۱۰۳۲سال بعد تک ہی رہے گی۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ﷲ تبارک و تعالیٰ اِس بات کا پابند نہیں کہ وہ قیامت برپا کرنے کے لئے ۱۰۳۲سال تک پروٹانوں کی تباہی کا اِنتظار کرے۔ کائنات کے خاتمے یا قیامت کا علم صرف ﷲ ربُّ العزّت ہی کے پاس ہے۔ قیامت کی ساعت ﷲ نے طے کر رکھی ہے اور وہ ﷲ کی مرضی سے کسی بھی لمحے اور کسی بھی طریقے سے وُقوع پذیر ہو سکتی ہے اور ﷲ اُسے اُس کے مناسب وقت پر ہی آشکار کرے گا۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ ( Stephen Hawking ) کہتا ہے کہ: "سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کائنات کو تباہی اور پھیلاؤ (اَفزائش) دونوں کو تقسیم کرنے والی لائن کے اِنتہائی قریب واقع ہونا چاہیئے"۔

’سیاہ شگاف‘ یا قرآنِ مجید کے اَلفاظ میں ’ناقابلِ دید آسمان‘ سے متعلقہ سائنس ہمیں اِس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ پوری کائنات بالآخر سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جائے گی اور اُس کے بعد معدُوم ہو جائے گی۔ قرآنِ مجید کے بیان کے مطابق جس طرح کائنات کی اِبتدائی تخلیق عمل میں آئی تھی اُسی طرح اِس کائنات کی تباہی کے بعد ایک نئی مابعدُالطّبیعیاتی دُنیا میں نوعِ اِنسانی کا انجام بھی یقینی ہے، جو آخرت میں اُس کی دوبارہ زِندگی کی صورت میں رُو نما ہو گا۔ وہ ایک اَبدی اور حقیقی دُنیا ہے جو زیادہ آرام دِہ، بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے اور وُہی نسلِ اِنسانی کا مستقل گھر ہے، جہاں سے ابوالبشر سیدنا آدمؑ ﷲ ربّ العزت کی طرف سے خلافتِ ارضی کا تحفہ لے کر اِس عالم رنگ و بُو میں تشریف لائے تھے۔ وہاں مالکِ ارض و سماء کی طرف سے نوعِ اِنسانی کے اَچھے لوگوں کے لئے خوش آمدید کا تحفہ منتظر ہے۔ اِس بات سے قرآنِ حکیم نے ہی اِنسانیت کو آگاہ کیا، جبکہ اِنسانی اِستعداد پر منحصر سائنس طبیعی کائنات کی حدُود سے ماوراء نہیں جا سکتی اور ہمیں یہ بتانے سے قاصر رہتی ہے کہ آخرت کی مُستقل اور زیادہ بہتر زِندگی تمام بنی نوعِ اِنسان کے لئے منطقی اِنجام اور مستقل ٹھکانہ ہے۔ بلا شک و شبہ قرآنِ مجید اُس منظر کی تصدیق کرتا ہے جس کا نوعِ اِنسانی کے لئے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اَب یہ اِنسان کا فرض ہے کہ وہ قرآنی اَحکامات کی تعمیل اور اُس کی تعلیمات پر عمل کرے، جس سے نہ صرف اُس کی دُنیوی زِندگی سنورے بلکہ آخرت کی حقیقی زِندگی میں بھی اُس کا مقدّر بھلا ہو۔

ذرا سوچیں کہ کچھ ہی عرصے بعد کائنات اُلٹی سمت بھاگ رہی ہو گی۔ تمام کائنات اور اُس کا مادّہ آج سے ۶۵اَرب سال بعد اُسی لمحے پر جا پہنچے گا جہاں سے اِس کائنات کی اوّلین تخلیق عمل میں آئی تھی۔ قرآنِ حکیم اِس بات کو یوں بیان کرتا ہے کہ ’کائنات کا کششی اِنہدام‘ قیامت کی ساعت میں واقع ہو گا، مگر پلک جھپکنے میں یا اُس سے بھی کم مدّت میں ﷲ ربُّ العزّت اِس کائنات کو یوں لپیٹ کر رکھ دے گا کہ جیسے ٹیپ رِیکارڈر کیسٹ کے فیتے کو لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔

پھر اُس کے بعد ﷲ تعالیٰ عملِ تخلیق کو اُسی طرح دُہرائے گا جیسے اُس نے پہلی بار سارا عالم تخلیق کیا تھا۔ ﷲ ربُّ العزّت نے خالق، بدیع اور اَحسنُ الخالقین کی صفات کے ساتھ خود یہ وعدہ کیا ہے اور وہ ضرور اُسے پورا کرے گا۔ یہ سب کچھ اُس کے پاک کلام ’قرآنِ مجید‘ میں سچ سچ لکھا ہوا ہے۔

آیئے چند آیات ملاحظہ کریں:

( وَ لِلّٰهِ غَیبُ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ وَ مَا أَمرُ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمحِ البَصَرِ أَو هُوَ أَقرَبُ إِنَّ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَئ قَدیرٌ ) (النحل،۱۶:۷۷)

اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب ﷲ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر۔ بیشک ﷲ ہر چیز پر قادِر ہے( یَومَ نَطوی السَّمآء ) ۔ (الأنبیاء،۲۱:۱۰۴)

اُس دِن ہم (ساری) سماوی کائنات کو لپیٹ دیں گے۔

( یَسئَلُونَکَ عَنِ السَّاعَةِ أَیَّانَ مُرسٰهَا قُل إِنَّمَا عِلمُهَا عِندَ رَبَِیج لاَ یُجَلِّیهَا لِوَقتِهَآ إِلاَّ هُوَ ثَقُلَت فِی السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ لاَ تَأتِیکُم إِلاَّ بَغتَةً ) ۔ (الأعراف،۷:۱۸۷)

یہ کفار آپ سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ اُس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرما دیں کہ اُس کا علم تو صرف میرے ربّ کے پاس ہے، اُسے اپنے (مقرّرہ) وقت پر اُس (ﷲ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آ جائے گی۔

قرآنِ مجید عالمِ اِنسانیت کی توجہ کائنات کے لپیٹے جانے اور دوبارہ معرضِ وُجود میں آنے کی طرف دِلا رہا ہے، جب یہ زمین کسی دُوسری زمین کے ساتھ تبدیل کر دی جائے گی اور کائنات بھی اُس وقت تبدیل ہو چکی ہو گی۔

تمام کائنات کی اُس اِجتماعی قیامت کے آنے میں کم و بیش ۶۵ارب سال باقی ہیں، تاہم ہماری قیامت تو اُسی دن واقع ہو جائے گی جس روز ہماری زمین تباہ ہو جائے گی۔ عین ممکن ہے کہ اربوں نوری سال کی وُ سعت میں بکھری کائنات کے کسی دُور دراز گوشے سے کوئی بھٹکتا ہوا سیارہ ہماری طرف آن نکلے اور زمین سے ٹکرا کر قیامت برپا کر دے۔ یوں زمین پر آنے والی قیامت کے بارے میں حتمی پیشین گوئی ناممکن ہو جاتی ہے۔ ہمارے مشاہدے میں چند ایسی صورتیں بھی آئی ہیں جن میں زمین کی تباہی کائنات کی اِجتماعی قیامت سے بہت پہلے واقع ہو جائے گی۔

سورج کی موت اور اِنعقادِ قیامت

سورج سمیت تمام ستاروں میں موجود مادّہ کی مقدار کا بڑا حصہ ہائیڈروجن ( Hydrogen ) پر مشتمل ہے۔ ہائیڈروجن کے مسلسل خودکار ایٹمی دھماکوں سے روشنی اور حرارت کا وسیع تر اِخراج ہوتا ہے جس سے سورج چمکتا نظر آتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کا یہ عمل ہائیڈروجن کو ہیلئم میں تبدیل کرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے سورج میں ابھی اِتنا اِیندھن موجود ہے کہ وہ ۴,۵۰,۰۰,۰۰,۰۰۰سال مزید روشن رہ سکے۔

جب ہمارے سورج کے مرکز میں واقع دس فیصد ہائیڈروجن نیوکلیئر فیوژن کے عمل سے گزر کر ہیلئم میں تبدیل ہو جائے گی تو سورج کا مرکز اپنے بے پناہ دباؤ کے تحت مزید سُکڑے گا اور اُس کا درجہ حرارت بے پناہ حد تک بڑھ جائے گا۔ ایسے میں ہیلئم بھی جلنا شروع کر دے گی جس سے کاربن پیدا ہو کر سورج کے مرکز میں جمع ہونے لگے گی۔ ہائیڈروجن اور ہیلئم کے جلنے کا یہ دُہرا عمل سورج میں شدید حرارت پیدا کر دے گا جس سے زوردار دھماکوں کے ساتھ سورج کی بیرونی سطح پھول جائے گی اور اُس کے بعد اُس پھولی ہوئی سطح کا ٹمپریچر بھی نسبتاً کم ہو جائے گا۔

کسی بھی ستارے کے پھُول کر اپنی اصل جسامت سے کئی گناہ بڑھ جانے کو فلکیاتی سائنس کی اِصطلاح میں ’سرخ ضخّام‘ ( red giant ) کا نام دیا جاتا ہے۔ ہمارا سورج جب red giant میں تبدیل ہو گا تو وہ پھُول کر نہ صرف عطارُد بلکہ زُہرہ کے مدار تک آ پہنچے گا۔ جس سے لامحالہ دونوں قریبی سیارے سورج میں گِر کر اُس کی کمیّت کا حصہ بن جائیں گے۔ زمین زیادہ فاصلے پر ہونے کی بنا پر سورج میں گرنے سے تو بچ جائے گی مگر سورج کا پھُول کر زمین سے اِس قدر قریب تک چلے آنا زمین کے درجۂ حرارت کو بے اِنتہا بڑھا دے گا، جس سے کرۂ ارض پر واقع کروڑوں اربوں اَقسام کی اَنواعِ حیات جُھلس کر تباہ ہو جائیں گی اور ہر سُو قیامت چھا جائے گی۔

سورج کے پُھول کر زمین سے اِس قدر قریب چلے آنے سے زمین پر قیامت برپا ہونے کے ضمن میں تاجدارِ کائنات (ص) سے بہت سی اَحادیث مروی ہیں۔ نبیٔ آخرُالزّماں(ص) نے فرمایا:

تُدنَی الشَّمسُ یَومَ القِیَامَةِ مِنَ الخَلقِ ۔ (الصحیح لمسلم ،۲:۳۸۴) (جامع الترمذی،۲:۶۴) (مسند احمد بن حنبل،۴:۱۵۷) (مسند احمد بن حنبل،۵:۲۵۴)

قیامت کے روز سورج مخلوق سے اِنتہائی قریب آن پہنچے گا۔

فلکی طبیعیات ( astrophysics )کی قرآنی آیات کے ساتھ کافی گہری مطابقت پائی جاتی ہے۔ دُنیا بھر کے سائنسدانوں کو یہ دَعوت دی جاتی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کا سائنسی نکتۂ نظر سے مطالعہ کریں اور اِن آیاتِ کریمہ پر بطورِخاص غور و فکر کریں جو اُنہیں یقیناً حیران کر دیں گی اور بالآخر وہ اِس حتمی سچائی یعنی اِسلام کے پیغام کی طرف آ جائیں گے۔