اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس0%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف: ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری
زمرہ جات:

مشاہدے: 68779
ڈاؤنلوڈ: 4096

تبصرے:

اسلام اور جدید سائنس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68779 / ڈاؤنلوڈ: 4096
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

حصہ چہارُم

اِسلام اور اِنسانی زِندگی

باب اوّل

اِنسانی زِندگی کا کیمیائی اِرتقاء

جس طرح عالمِ آفاق کے جلوے اِجمالاً عالمِ اَنفس میں کارفرما ہیں اُسی طرح نظامِ ربوبیت کے آفاقی مظاہر پوری آب و تاب کے ساتھ حیاتِ انسانی کے اندر جلوہ فرما ہیں۔ اِنسان کے "اَحسن تقویم" کی شان کے ساتھ منصہ خلق پر جلوہ گر ہونے سے پہلے اُس کی زندگی ایک اِرتقائی دَور سے گزری ہے۔ یہی اُس کے کیمیائی اِرتقاء ( chemical evolution ) کا دَور ہے۔ جس میں باری تعالیٰ کے نظامِ ربوبیت کا مطالعہ بجائے خود ایک دِلچسپ اور نہایت اہم موضوع ہے۔ یہ حقائق آج صدیوں کے بعد سائنس کو معلوم ہو رہے ہیں جبکہ قرآن اِنہیں چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے۔

کیمیائی اِرتقاء کے سات مراحل

قرآنِ مجید کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اِنسانی زِندگی کا کیمیائی اِرتقاء کم و بیش سات مرحلوں سے گزر کر تکمیل پذیر ہوا جو درج ذیل ہیں:

-۱ تراب ( inorganic matter )

-۲ ماء ( water )

-۳ طین ( clay )

-۴ طین لازب ( adsorbable clay )

-۵ صلصال من حماء مسنون

( old physically / chemically altered mud )

-۶ صلصال کالفخار ( dried / highly purified clay )

-۷ سلالہ من طین ( extract of purified clay )

قرآنِ مجید مذکورہ بالا سات مرحلوں کا ذِکر مختلف مقامات پر یوں کرتا ہے:

۱- تراب ( Inorganic matter )

ﷲ ربّ العزت اِنسان کے اوّلیں جوہر کو غیر نامی مادّے سے تخلیق کیا۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

( هُوَ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن تُرَابٍ ) ۔ (المومن، ۴۰:۶۷)

وُہی ہے جس نے تمہیں مٹی (یعنی غیرنامی مادّے) سے بنایا۔

اِس آیتِ کریمہ میں آگے حیاتیاتی اِرتقاء کے بعض مراحل کا بھی ذِکر کیا گیا ہے۔ مثلاً "ثُمَّ مِن نُّطفَۃٍ ثُمَّ مِن عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخرِجُکُم طِفلاً" لیکن قابل ِتوجہ پہلو یہ بھی ہے کہ اِنسانی زندگی کے اِن اِرتقائی مرحلوں کا ذِکر باری تعالیٰ نے اپنی صفت ربُّ العالمین کے بیان سے شروع کیا ہے۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ سے پہلی آیت کے آخری اَلفاظ یہ ہیں:

( وَ أُمِرتُ أَن أُسلِمَ لِرَبِّ العَالَمِینَ ) (المومن، ۴۰:۶۶)

اور مجھے حکم ہوا ہے کہ اُس کے سامنے گردن جھکاؤں جو سارے عوالم اور اُن کے مظاہرِ حیات کو درجہ بدرجہ مرحلہ وار کمال تک پہنچانے والا ہےیہاں ﷲ ربّ العزت نے اپنی شانِ ربُّ العالمین کے ذِکر کے ساتھ ہی دلیل کے طور پر اِنسانی زندگی کے اِرتقاء کا ذِکر کر دیا گیا ہے ،جس سے واضح طور پر یہ سبق ملتا ہے کہ قرآنِ مجید باری تعالیٰ کے ربُّ العالمین ہونے کو اِنسانی زندگی کے نظامِ ارتقاء کے ذریعے سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے، کہ اے نسلِ بنی آدم! ذرا اپنی زندگی کے اِرتقاء کے مختلف اَدوار و مراحل پر غور کرو کہ تم کس طرح مرحلہ وار اپنی تکمیل کی طرف لے جائے گئے۔ کس طرح تمہیں ایک حالت سے دُوسری حالت کی طرف منتقل کیا گیا اور کس طرح تم بالآخر "اَحسن تقویم" کی منزل کو پہنچے۔ کیا یہ سب کچھ "ربُّ العالمین" کی پرورِش کا مظہر نہیں ہے جس نے تمہیں بجائے خود ایک عالم بنا دیا ہے!

۲- ماء ( Water )

یوں تو ہر جاندار کی تخلیق میں پانی ایک بنیادی عنصر کے طور پر موجود ہے، تاہم ﷲ تعالیٰ نے اِنسان کی تخلیق میں بطورِ خاص پانی کا ذِکر کیا ہے۔ اِرشادِ ربّ العالمین ہے:

( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ المَآءِ بَشَراً ) ۔ (الفرقان،۲۵:۵۴)

اور وُہی ہے جس نے پانی سے آدمی کو پیدا کیا۔

اِس آیتِ کریمہ میں بھی تخلیقِ اِنسانی کے مرحلے کے ذِکر کے بعد باری تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا بیان ہے:

( وَ کَانَ رَبُّکَ قَدیراً ) ۔ (الفرقان،۲۵:۵۴)

اور تمہارا رب قدرت والا ہے۔

گویا یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تخلیقِ اِنسانی کا یہ سلسلہ اللہ ربُّ العزّت کے نظامِ ربوبیت کا مظہر ہے۔

اِنسان کے علاوہ کرۂ ارض پر بسنے والی لاکھوں کروڑوں مخلوقات کی اوّلیں تخلیق میں بھی پانی کی وُہی اہمیت ہے جتنی اِنسان کی کیمیائی تخلیق میں۔ اِس سلسلے میں ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا گیا:

وَ جَعَلنَا مِنَ المَآءِ کُلَّ شَیٍٔ حَیٍّ أَفَلَا یُؤمِنُونَ(الانبیاء، ۲۱:۳۰)

اور ہم نے (زمین پر) ہر زِندہ چیز کی نمود پانی سے کی۔ تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے O ؟

یہ آیتِ کریمہ حیاتِ اِنسانی یا حیاتِ اَرضی کے اِرتقائی مراحل پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کے لئے دعوتِ فکر بھی ہے اور دعوتِ ایمانی بھی۔

۳- طین ( Clay )

اِنسان کی کیمیائی تخلیق میں ’تراب‘ اور ’مائ‘ بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِن دونوں عناصر کے مکس ہو جانے پر ’طین‘ کو وُجود ملا۔ ’طین‘ کا ذِکر ﷲ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں یوں کیا ہے:

( هُوَ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن طِینٍ ) ۔

(الانعام،:۲۶)

(ﷲ) وُہی ہے جس نے تمہیں مٹی کے گارے سے پیدا فرمایا، (یعنی کرۂ ارضی پر حیاتِ اِنسانی کی کیمیائی اِبتدا اس سے کی)۔

یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ مترجمینِ قرآن نے بالعموم "تُرَاب" اور "طِین" دونوں کا معنی مٹی کیا ہے، جس سے ایک مغالطہ پیدا ہو سکتا ہے کہ آیا یہ دو الگ مرحلے ہیں یا ایک ہی مرحلے کے دو مختلف نام؟ اِس لئے ہم نے دونوں کے اِمتیاز کو برقرار رکھنے کے لئے طِین کا معنی ’مٹی کا گارا‘ کیا ہے۔ تُرَاب اصل میں خشک مٹی کو کہتے ہیں۔ اِمام راغب اِصفہانی فرماتے ہیں: التُّرابُ الأرض نفسہا (تراب سے مراد فی نفسہ زمین ہے) جبکہ طِین اُس مٹی کو کہتے ہیں جو پانی کے ساتھ گوندھی گئی ہو۔ جیسا کہ مذکور ہے:

الطین: التراب والماء المختلط ۔ (المفردات:۳۱۲)

مٹی اور پانی باہم ملے ہوئے ہوں تو اُسے "طین" کہتے ہیں۔

اِسی طرح کہا گیا ہے:

الطین: التراب الذی یجبل بالماء ۔ (المنجد:۴۹۶)

"طین" سے مراد وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ گوندھی گئی ہو۔ (اِسی حالت کو گارا کہتے ہیں)۔

اِس لحاظ سے یہ ترتیب واضح ہو جاتی ہے:

مٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گار

۴- طینِ لازِب ( Adsorbable clay )

’طین‘ کے بعد ’طین لازِب‘ کا مرحلہ آیا، جسے ﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کیا ہے:

( إِنَّا خَلَقنَاهُم مِّن طِینٍ لَّازِبٍ ) (الصافات،:۱۱۳۷)

بیشک ہم نے اُنہیں چپکتے گارے سے بنایا’طینِ لازب‘ طین کی اگلی شکل ہے، جب گارے کا گاڑھا پن زیادہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ لغتِ عرب میں ہے:

إذا زال عنه (الطی)ن قوةُ المآءِ فهو طینٌ لازبٌ ۔

جب گارے سے پانی کی سیلانیت زائل ہو جائے تو اُسے ’طینِ لازِب‘ کہتے ہیں۔

یہ وہ حالت ہے جب گارا قدرے سخت ہو کر چپکنے لگتا ہے۔

۵- صلصال من حماء مسنون

( Old physically / chemically altered mud )

مٹی اور پانی سے مل کر تشکیل پانے والا گارا جب خشک ہونے لگا تو اُس میں بو پیدا ہو گئی۔ اُس بودار مادّے کو ﷲ ربّ العزت نے ’صلصال من حماء مسنون‘ کا نام دیا۔

اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

( وَ لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ مِّن حَمَإٍ مَّسنُونٍ ) (الحجر، ۱۵:۲۶)

اور بیشک ہم نے اِنسان کی(کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دُھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھااِس آیتِ کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ تخلیقِ اِنسانی کے کیمیائی اِرتقاء میں یہ مرحلہ ’طینِ لازب‘ کے بعد آتا ہے۔ یہاں ’صلصال‘ (بجتی مٹی) کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے جس کی اصل ’صلل‘ ہے ۔ اِ مام راغب اِصفہانی ’صلصال‘ کا معنی یوں بیان کرتے ہیں:

تردّد الصوت من الشیٔ الیابس، سمّی الطین الجافّ صلصالًا ۔ (المفردات ۲: ۷۴)

خشک چیز سے پیدا ہونے والی آواز کا تردّد یعنی کھنکناہٹ۔ اسی لئے خشک مٹی کو ’صلصال‘ کہتے ہیں کیونکہ یہ بجتی اور آواز دیتی ہے۔

لغتِ عرب میں ’صلصال‘ کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے:

الصلصال: الطین الیابس الذی یصل من یبسه أی یصوت ۔ (المنجد۴۶:۴)

’صلصال‘ سے مراد وہ خشک مٹی ہے جو اپنی خشکی کی وجہ سے بجتی ہے یعنی آواز دیتی ہے۔

’صلصال‘ کی حالت گارے کے خشک ہونے کے بعد ہی ممکن ہے پہلے نہیں۔ کیونکہ عام خشک مٹی، جسے تُرَاب کہا گیا ہے وہ اپنے اندر بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لفظِ صلصال اِس اِعتبار سے تراب سے مختلف مرحلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔ لہٰذا صلصال کا مرحلہ "طینِ لازب" یعنی چپکنے والے گارے کے بعد آیا۔ جب طینِ لازِب (چپکنے والا گارا) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خشک ہوتا گیا تو اُس خشکی سے اُس میں بجنے اور آواز دینے کی صلاحیت پیدا ہو گئی۔ یہ تو طبیعی تبدیلی ( physical change ) تھی مگر اِس کے علاوہ اُس پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیمیائی تبدیلیاں بھی ناگزیر تھیں جن میں اُس مٹی کے کیمیائی خواص میں بھی تغیر آیا۔ اِن دونوں چیزوں کی تصدیق اِسی آیت کے اگلے اَلفاظ "مِن حَمَإٍ مَّسنُونٍ" سے ہو جاتی ہے۔

"حَمٰی" حرارت اور بخار کو کہتے ہیں۔ قرآنِ مجید میں یہ لفظ تپنے، کھولنے اور جلنے وغیرہ کے معنوں میں کثرت سے اِستعمال ہوا ہے۔ اِرشاداتِ ربانی ملاحظہ ہوں:

( تَصلٰی نَاراً حَامِیَةً ) (الغاشیہ، ۸۸:۴)

دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے( یَومَ یُحمٰی عَلَیهَا فِی نَارِ جَهَنَّمَ ) ۔ (التوبہ،۵۹:۳)

جس دِن اُس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی۔

( لاَ یَذُوقُونَ فِیهَا بَرداً وَ لاَ شَرَاباً إِلَّا حَمِیماً ) ۔ (النباء، ۷۸:۲۴.۲۵)

وہ اُس میں (کسی قسم کی) ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ کسی پینے کی چیز کا O سوائے کھولتے ہوئے گرم پانی کے۔

الغرض "حَمٰی" میں اُس سیاہ گارے کا ذِکر ہے جس کی سیاہی، تپش اور حرات کے باعث وُجود میں آئی ہو، گویا یہ لفظ جلنے اور سڑنے کے مرحلے کی نشاندہی کر رہا ہے۔

"مَسنُون" سے مراد متغیر اور بدبو دار ہے۔ یہ "سنّ" سے مشتق ہے جس کے معنی صاف کرنے، چمکانے اور صیقل کرنے کے بھی ہیں، مگر یہاں اِس سے مراد متغیر ہو جانا ہے۔ جس کے نتیجے میں کسی شئے میں بو پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ إحماء (جلانے اور ساڑنے) کا لازمی نتیجہ ہے جس کا ذِکر اُوپر ہو چکا ہے۔

قرآنِ مجید میں ہے:

( فَانظُر إِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَم یَتَسَنَّه ) ۔(البقرہ،:۲:۲۵۹)

پس (اَب) تو اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھ، (وہ) متغیر (باسی) بھی نہیں ہوئیں۔

جب گارے "طینِ لازب" پر طویل زمانہ گزرا اور اُس نے جلنے سڑنے کے مرحلے عبور کئے تو اُس کا رنگ بھی متغیر ہو کر سیاہ ہو گیا اور جلنے کے اَثر سے اُس میں بو بھی پیدا ہو گئی۔ اِسی کیفیت کا ذکر "صَلصَالٍ مِّن حَمَإٍ مَّسنُونٍ" میں کیا جا رہا ہے۔

کسی شئے کے جلنے سے بدبو کیوں پیدا ہوتی ہے، اِس کا جواب بڑا واضح ہے کہ جلنے کے عمل سے کثافتیں سڑتی ہیں اور بدبو کو جنم دیتی ہیں جو کہ مستقل نہیں ہوتی۔ اس وقت تک رہتی ہے جب تک کثافتوں کے سڑنے کا عمل یا اُس کا اثر باقی رہتا ہے اور جب کثافت ختم ہو جاتی ہے تو بدبو بھی معدُوم ہو جاتی ہے۔ اِس لئے اِرشاد فرمایا گیا:

( صَلصَالٍ مِّن حَمآء مَّسنُونٍ ) (الحجر، ۱۵:۲۶)

سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو جانے والا گاراگویا لفظِ "صلصال" واضح کر رہا ہے کہ اِس مرحلے تک پہنچتے پہنچتے مٹی کی سیاہی اور بدبو وغیرہ سب ختم ہو چکی تھی اور اُس کی کثافت بھی کافی حد تک معدُوم ہو چکی تھی۔

۶- صلصال کالفخار( Dried / highly purified clay )

اِنسان کے کیمیائی اِرتقاء میں چھٹا مرحلہ صَلصَالٌ کَالفَخَّار ہے، جس کی نسبت اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

( خَلَقَ الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ ) (الرحمن،۵۵:۱۶)

اُس نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیاجب تپانے اور جلانے کا عمل مکمل ہوا تو گارا پک کر خشک ہو گیا۔ اُس کیفیت کو "کَالفَخَّار" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اِس تشبیہ میں دو اِشارے ہیں:

(الف) ٹھیکرے کی طرح پک کر خشک ہو جانا۔

(ب) کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ حالت میں آ جانا۔

لفظِ "فَخَّارٌ" کا مادّہ فخر ہے، جس کے معنی مباہات اور اِظہارِ فضیلت کے ہیں۔ یہ فَاخِر سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت فخر کرنے والا۔ "فَخَّار" عام طور پر گھڑے کو بھی کہتے ہیں اور مترجمین و مفسرین نے بالعموم یہاں یہی معنی مراد لئے ہیں۔ ٹھیکرا اور گھڑا چونکہ اچھی طرح پک چکا ہوتا ہے اور خوب بجتا اور آوازیں دیتا ہے، گویا اپنی آواز اور گونج سے اپنے پکنے، خشک اور پختہ ہونے کو ظاہر کرتا ہے اِس لئے اُسے فخر کرنے والے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ وہ بھی اپنی فضیلت اور شرف کو ظاہر کرتی ہے۔

اِمام راغب اصفہانی اِس بارے میں لکھتے ہیں:

یعبّر عن کل نفیس بالفاخر، یقال ثوب فاخرة وناقة فخور ۔ (المفردات:۳۷۴)

ہر نفیس اور عمدہ چیز کو فاخر کہتے ہیں۔ اِس لئے نفیس کپڑے کو ’ثوبِ فاخر‘ اور عمدہ اُونٹنی کو ’ناقۂ فخور‘ کہا جاتا ہے۔

اور فَخَّار اِسی سے مبالغہ کا صیغہ ہے جو کثرتِ نفاست اور نہایت عمدگی پر دلالت کرتا ہے۔ صاحبُ المحیط بیان کرتے ہیں:

الفاخِر: إسم فاعلٍ و الجید من کل شیٔ (القاموس المحیط،۲:۱۱۲)

"الفاخِر" اسمِ فاعل ہے اور ہر شئے کا عمدہ (حصہ) ہے۔

فَخَّار میں عمدگی اور نفاست میں مزید اِضافہ مراد ہے۔ اِس معنی کی رُو سے اِظہارِ شرف کی بجائے اصلِ شرف کی طرف اِشارہ ہے۔ دونوں معانی میں ہرگز کوئی تخالف اور تعارُض نہیں بلکہ اِن میں شاندار مطابقت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ باری تعالیٰ تخلیقِ اِنسانی کے سلسلۂ اِرتقاء کے ضمن میں اِس مرحلے پر یہ واضح فرما رہے ہیں کہ وہ مٹی اور گارا جو بشریت کی اصل تھا۔ اِس قدر تپایا اور جلایا گیا کہ وہ خشک ہو کر پکتا بھی گیا اور ساتھ ہی ساتھ مٹی، پانی اور کثافتوں سے پاک صاف ہو کر نفاست اور عمدگی کی حالت کو بھی پا گیا۔ یہاں تک کہ جب وہ "صلصال کالفخّار" کے مرحلے تک پہنچی تو ٹھیکرے کی طرح خشک ہو چکی تھی اور کثافتوں سے پاک ہو کر نہایت لطیف اور عمدہ مادّے کی حالت اِختیار کر چکی تھی۔ گویا اَب ایسا پاک، صاف، نفیس، عمدہ اور لطیف مادّہ تیار ہو چکا ہے کہ اُسے اَشرفُ المخلوقات کی بشریت کا خمیر بنایا جا سکے۔ اِنسان اور جن کی تخلیق میں یہی فرق ہے کہ جن کی خلقت ہی آگ سے ہوئی مگر اِنسان کی خلقت میں "صلصال" کی پاکیزگی، طہارت اور لطافت کے حصول کے لئے آگ کو محض اِستعمال کیا گیا۔ اُسے خلقتِ اِنسانی کا مادّہ نہیں بنایا گیا۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:

( خَلَقَ الإِنسَانَ مِن صَلصَالٍ کَالفَخَّارِ وَ خَلَقَ الجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ ) (الرحمن،۵۵:۱۴.۱۵)

اُسی نے اِنسان کو ٹھیکرے کی طرح بجنے والی مٹی سے پیدا کیا O اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیااِسی طرح اِرشاد فرمایا گیا:

( وَ الجَانَّ خَلَقنَاهُ مِن قَبلُ مِن نَّارِ السَّمُومٍ ) (الحجر،۱۵:۲۷)

اور اُس سے پہلے ہم نے جنوں کو شدید جلا دینے والی آگ سے پیدا کیا، جس میں دھواں نہیں تھااِس لئے خلقتِ انسانی کے مراحل میں آگ کو ایک حد تک دخل ضرور ہے مگر وہ جنات کی طرح اِنسان کا مادّۂ تخلیق نہیں۔

۷۔ سلالہ من طین ( Extract of purified clay )

اِنسان کی کیمیائی تخلیق کے دوران پیش آنے والے آخری مرحلے کے بارے میں اِرشادِ ایزدی ہے:

( وَ لَقَد خَلَقنَا الإِنسَانَ مِنَ سُلٰلَةٍ مِن طِینٍ ) (المؤمنون،۲۳:۱۲)

اور بیشک ہم نے اِنسان کی تخلیق (کی اِبتدا) مٹی (کے کیمیائی اجزا) کے خلاصہ سے فرمائیاِس آیتِ کریمہ میں گارے کے اس مصفیٰ اور خالص نچوڑ کی طرف اِشارہ ہے، جس میں اصل جوہر کو چن لیا جاتا ہے۔ یہاں اِنسانی زندگی کا کیمیائی اِرتقاء "طینِ لازب" کے تزکیہ و تصفیہ ( process of purification ) کا بیان ہے۔ سُلٰلَۃٌ، سَلُّ یُسَلّ سے مشتق ہے، جس کے معنی میں نکالنا، چننا اور میل کچیل سے اچھی طرح صاف کرنا شامل ہے۔ اِمام راغب اِصفہانی لکھتے ہیں کہ سُلٰلَۃٍ مِّن طِینٍ سے مرادالصَّفوُا الَّذِی یُسَلُّ مِنَ الأَرض ہے۔ یعنی مٹی میں سے چنا ہوا وہ جوہر جسے اچھی طرح میلے پن سے پاک صاف کر دیا گیا ہو۔ الغرض سُلٰلَۃ کا کامل مفہوم اُس وقت وُجود میں آتا ہے جب کسی چیز کو اچھی طرح صاف کیا جائے، اُس کی کثافتوں اور میلے پن کو ختم کیا جائے اور اُس کے جوہر کو مصفّٰی اور مزکّٰی حالت میں نکالا جائے۔ گویا سُلٰ۔لَۃ کا لفظ کسی چیز کی اُس لطیف ترین شکل پر دلالت کرتا ہے جو اُس چیز کا نچوڑ، خلاصہ اور جوہر کہلاتی ہے۔

تخلیقِ آدمؑ اور تشکیلِ بشریت

کرۂ ارض پر تخلیقِ انسانی کے آغاز کے لئے خمیرِ بشریت اپنے کیمیائی اِرتقاء کے کن کن مراحل سے گزرا، اپنی صفائی اور لطافت کی آخری منزل کو پانے کے لئے کن کن تغیرات سے نبرد آزما ہوا اور بالآخر کس طرح اِس لائق ہوا کہ اُس سے حضرتِ اِنسان کا بشری پیکر تخلیق کیا جائے اور اُسے خلافت ونیابتِ الٰہیہ کے عالیشان منصب سے سرفراز کیا جائے! اُس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تو مذکورہ بالا بحث سے ضرور ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اِن اِرتقائی مراحل کی جس ترتیب اور تفصیل کا ہم نے ذِکر کیا ہے اُسے حتمی نہ سمجھا جائے۔ کوئی بھی صاحبِ علم اِن جزئیات وتفصیلات کے بیان میں اِختلاف کر سکتا ہے۔ جو کچھ مطالعۂ قرآن سے ہم پر منکشف ہوا ہم نے بلا تأمل عرض کر دیا ہے۔ البتہ اِس قدر حقیقت سے کوئی اِنکار نہیں کر سکتا کہ آیاتِ قرآنی میں مختلف اَلفاظ و اِصطلاحات کے اِستعمال سے کیمیائی اِرتقاء کے تصوّر کی واضح نشاندہی ہوتی ہے۔

جب ارضی خمیرِ بشریت مختلف مراحل سے گزر کر پاک صاف ہو چکا اور اپنی جوہری حالت کو پہنچا تو اُس سے باری تعالیٰ نے پہلے اِنسان کی تخلیق ابوالبشر سیدنا آدمؑ کی صورت میں فرمائی اور فرشتوں سے اِرشاد فرمایا کہ میں زمین میں خلیفہ پیدا فرمانے والا ہوں جس کا پیکرِ بشریت اِس طرح تشکیل دُوں گا۔ یہ تفصیلات قرآنِ مجید میں سورۃُالبقرہ،۲:۳۰.۳۴، سورۃُالحجر، ۱۵:۲۶.۳۵، سورۃُالاعراف، ۷:۱۱.۱۶ اور دیگر مقامات پر بیان کی گئی ہیں۔

فرشتوں کا اِس خیال کو ظاہر کرنا کہ یہ پیکرِ بشریت زمین میں خونریزی اور فساد انگیزی کرے گا، اِسی طرح اِبلیس کا اِنکارِ سجدہ کے جواز کے طور پر حضرت آدمؑ کی بشریت اور صَلصَالٌ مِّن حَمَإٍ مَّسنُونٍ کا ذِکر کرنا وغیرہ یہ سب اُمور اِس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اُن کی نظر اِنسان کی بشری تشکیل کے اِبتدائی اور دورانی مراحل پر تھی اور ایسا خیال وہ اُن اَجزائے ترکیبی کے خواص کے باعث کر رہے تھے جن کا اِستعمال کسی نہ کسی شکل میں اُس پیکرِ خاکی کی تخلیق میں ہوا تھا۔ وہ مٹی کی کثافت اور آگ کی حرارت جیسی اَشیاء کی طرف دھیان کئے ہوئے تھے، اُن کی نظر مٹی کی اُس جوہری حالت پر نہ تھی جو مصفّٰی اور مزکّٰی ہو کر سراسر کندن بن چکی تھی، جسے باری تعالیٰ ’سُلٰلَۃٌ مِّن طِینٍ‘ سے تعبیر فرما رہا ہے۔ مٹی کی یہ جوہری حالت (سُلٰلَہ) کیمیائی تغیرات سے تزکیہ و تصفیہ کے ذریعے اب یقیناً اِس قابل ہو چکی تھی کہ اُس میں روحِ اِلٰہیہ پھونکی جاتی اور نفخِ رُوح کے ذریعے اُس کے پیکر کو فیوضاتِ اِلٰہیہ کے اَخذو قبول اور اَنوار وتجلیاتِ ربانی کے اِنجذاب کے قابل بنا دیا جاتا۔ اِس لئے اِرشاد فرمایا گیا:

( فَإِذَا سَوَّیتُه وَ نَفَختُ فِیهِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَه سَاجِدینَ ) (الحجر،۱۵:۲۹)

پھر جب میں اُس کی (ظاہری) تشکیل کو کامل طور پر درُست حالت میں لا چُکوں اور اُس پیکرِ (بشری) کے باطن میں اپنی (نورانی) رُوح پھونک دُوں تو تم اُس کے لئے سجدے میں گر پڑناچنانچہ بشریتِ اِنسانی کی اسی جوہری حالت کو سنوارا گیا اور اُسے نفخِ رُوح کے ذریعے عَلَّمَ آدَمَ الأَسمآء کُلَّھَا (ﷲ نے آدمؑ کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیئے) کا مِصداق بنایا گیا اور تب ہی حضرتِ انسان مسجودِ ملائک ہوا۔

بشریتِ محمدی (ص) کی جوہری حالت

اِمام قسطلانی ’المواھب اللدنیہ‘ میں سیدنا کعبُ الاحبار سے رِوایت کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے بشریتِ محمدی (ص) کو تخلیق فرمانا چاہا تو جبریلِ امینؑ کو اِرشاد فرمایا کہ وہ دُنیا کے دِل اور سب سے اعلیٰ مقام کی مٹی لے آئے تاکہ اُسے منوّر کیا جائے۔

فهب جبریل فی ملائکة الفردوس و ملائکة الرفیع الأعلیٰ، فقبض قبضة رسول ﷲ (ص) من موضع قبره الشریف، و هی بیضآء منیرة، فجنّت بمآء التسنیم فی معین أنهار الجنة حتی صارت کالدرّة البیضآء لها شعاع عظیم ۔ (المواھب اللدنیہ،۱:۸)

پس جبرئیلؑ مقامِ فردوس اور رفیعِ اعلیٰ کے فرشتوں کے ساتھ (کرۂ ارضی پر) اُترے اور حضور(ص) کے مزارِ اَقدس کی جگہ سے رسول اللہ(ص) کی بشریتِ مطہرہ کے لئے مٹی حاصل کی۔ وہ سفید رنگ کی چمکدار مٹی تھی۔ پھر اُسے جنت کی رواں نہروں کے صاف اور اُجلے پانی سے گوندھا گیا اور اُسے اِس قدر صاف کیا گیا کہ وہ سفید موتی کی طرح چمکدار ہو گئی اور اُس میں سے نور کی عظیم کرنیں پھوٹنے لگیں۔

اُس کے بعد ملائکہ نے اُسے لے کر عرشِ الٰہی اور کرسی وغیرہ کا طواف کیا۔ بالآخر تمام ملائکہ اور جمیع مخلوقاتِ عالم کو حضور(ص) اور آپ کی عظمت کی پہچان ہو گئی۔ حضرت ابنِ عباس سے اِس ضمن میں اِس قدر مختلف منقول ہے کہ آپ کے لئے خاکِ مبارک سرزمینِ مکہ کے مقامِ کعبہ سے حاصل کی گئی۔ صاحبِ عوارفُ المعارف نے بھی اِسی کی تائید کی ہے۔

(المواہب اللدنیہ،۱:۸)

شیخ یوسف بن اسماعیل النبہانی بھی جواہر العارف السید عبد اللہ میر غنی کے تحت اُن کی کتاب "الأسئلۃ النفسیۃ" کے حوالے سے اِس امر کی تائید کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور(ص) کا پیکرِ بشریت بھی نور کی طرح لطیف تھا۔ آپ(ص) کی بشریتِ مطہرہ کے اُس پاکیزہ اور نورانی جوہر کی حالت کا اندازہ اِس امر سے بھی ہوتا ہے کہ آپ(ص) کے پیکرِ اقدس پر پر کبھی مکھی نہیں بیٹھتی تھی، جیسا کہ کتبِ سیر و فضائل میں صراحتاً منقول ہے:

إنّ الذبابَ کان لا یقع علٰی جسدِه و لا ثیابِه ۔ (الشفاء،۱:۵۲۲)

مکھی نہ تو آپ(ص) کے جسدِ اقدس پر بیٹھتی تھی اور نہ آپ کے لباس پر۔

حضرت عمر سے منقول ہے کہ آپ نے حضور(ص) کی بارگاہ میں عرض کیا:

إنّ اللهَ عصمک من وُقوعِ الذبابِ علٰی جسدِک لأنّه یقع علٰی النجاسات ۔(تفسیرالمدارک،۳:۱۳۴)

بیشک اللہ تعالیٰ نے جسم پر مکھی کے بیٹھنے سے بھی آپ(ص) کو پاک رکھا ہے، کیونکہ وہ نجاستوں پر بیٹھتی ہے۔

اِن مقامات پر جہاں دیگر حکمتوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہاں یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضور(ص) کی بشریت مطہرہ کی لطافت و نظافت جو اس جوہری حالت کی آئینہ دار تھی، کا عالم کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ(ص) کے پیکر بشریت سے ہمہ وقت خوشگوار مہک آتی۔ پسینہ مبارک کو لوگ خوشبو کے لئے محفوظ کرتے۔ اِمام بخاری تاریخ کبیر میں لکھتے ہیں کہ حضور(ص) جس راستے سے گزر جاتے لوگ فضا میں مہکی ہوئی خوشبو سے پہچان لیتے کہ آپ(ص) اُدھر تشریف لے گئے ہیں۔ اپنا دستِ مبارک کسی کے سر یا بدن سے مس فرما دیتے تو وہ شخص بھی خوشبو سے پہچانا جاتا۔ الغرض اِن تمام اُمور سے یہ حقیقت مترشح ہو جاتی ہے کہ بشریتِ محمدی (ص) اپنی تخلیق کے لحاظ سے ہی اعلیٰ نورانی اور رُوحانی لطائف سے معمور تھی۔ گویا یہ تخلیق بشریت کے اِرتقائی مراحل کا وہ نقطۂ کمال تھا جسے آج تک کوئی نہیں چھو سکا، یہ اعجاز و کمال اِس شان کے ساتھ فقط بشریتِ مصطفوی (ص) کو نصیب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبیٔ اکرم (ص) کو مقامِ اِصطفاء سے نوازا گیا اور آپ کو مصطفی کے نام سے سرفراز کیا گیا۔