اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس0%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف: ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری
زمرہ جات:

مشاہدے: 68313
ڈاؤنلوڈ: 3910

تبصرے:

اسلام اور جدید سائنس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68313 / ڈاؤنلوڈ: 3910
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

باب چہارُم

اِسلام اور طبِ جدید

اِسلام دینِ فطرت ہے۔ بنظرِ غائر دیکھا جائے تو رُوحانیت کا سرچشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ہماری مادّی فلاح اور بدنی صحت کے لئے بھی ایک بہترین اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اِس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہم اَخلاقی و رُوحانی اور سیاسی و معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔ قرآنِ مجید کا لفظ لفظ حقائق پر مبنی ہے اور اپنے اندر معانی کی لاتعداد وُسعت رکھتا ہے۔ تاہم اُن کے مُشاہدے کے لئے علم اور دانش کی ضرورت ہے۔

اِرشادِ خداوندی ہے:

( هُوَ الَّذِی أَنزَلَ عَلَیکَ الکِتَابَ مِنهُ اٰیٰتٌ مُّحکَمٰتٌ هُنَّ أُمُّ الکِتَابِ وَ أُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِم زَیغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنهُ ابتِغآء الفِتنَةَ وَ ابتِغآء تَأویلِه وَ مَا یَعلَمُ تَأویلَهٓ اِلَّا اللهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی العِلمِ یَقُولُونَ اٰمَنَّا بِه کُلٌّ مِّن عِندِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّا أُولُو الأَلبَابِ)

وُہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازِل فرمائی جس میں سے کچھ آیات محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں، وُہی (اَحکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دُوسری آیات متشابہ (یعنی معنی میں کئی اِحتمال اور اِشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دِلوں میں کجی ہے اُس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیرِاثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مُراد لینے کی غرض سے، اور اُس کی اصل مُراد کو اللہ کے سِوا کوئی نہیں جانتا اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اُس پر اِیمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے ربّ کی طرف سے اُتری ہے اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے (آل عمران، ۳:۷)

اِس آیتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ ربُّ العزت نے قرآنِ حکیم میں دو طرح کی آیات نازِل کی ہیں۔ اوّل محکمات جو اَحکامِ قرانی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ اُن کا مطلب واضح اور مقصدِ نزول عیاں ہے، اُن میں کسی قسم کی تأویل کی ضرورت ہے نہ گنجائش۔ دُوم وہ آیات ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے متشابہات کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اِن آیات کا تعلق ماورائے عقل حقائق سے ہے اور اِنسان اپنے محدُود علم اور حواس کے ذریعے اُن کا کامل اِدراک نہیں کر سکتا۔ اُن کا صحیح مطلب اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، البتہ رَاسِخُونَ فِی العِلمِ یعنی دانشمند لوگ اُن آیات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ رَاسِخُونَ فِی العِلمِ سے وہ لوگ مُراد ہیں جو اپنے علم و فن میں پختہ اور اپنی فیلڈ میں ماہر و کامل اور اسپیشلسٹ ہیں۔ قرآنی علوم کا دائرہ اِنسانی اِستعداد کے زائیدہ علوم سے وسیع ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ کمال ہے کہ اَحکام و اُصول سے متعلق کوئی بات اُس نے تشنہ یا نامکمل نہیں رہنے دی، قرآنِ مجید بنی نوعِ اِنسان کے لئے ہر علم و فن کا سرچشمہ ہے۔ اِس سلسلے میں قرآنِ مجید کے الفاظ کس قدر واضح ہیں:

( وَ نَزَّلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ تِبیَانًا لِّکُلِّ شَیئ ) ۔ (النحل،۱۶:۸۹)

اور ہم نے آپ پر وہ عظیم کتاب نازِل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔

یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ قرآن اور احادیث کے عظیم مجموعے میں ہر علم و فن کے لئے اِشارے موجود ہیں مگر اُنہیں سمجھنے کے لئے عمیق مطالعہ کی ضرورت ہے۔ اِسلام کی عمومی تعلیمات بنی نوعِ اِنسان کی فلاح کے لئے حفظانِ صحت کے اُصولوں کے عین مطابق ہیں جنہیں قرآنِ مجید اور پیغمبرِ اِسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے وضع فرمایا تھا۔ جدید سائنس اَب کہیں جا کر اُن زرّیں اُصولوں کی اِفادیت سے آگاہ ہوئی ہے جو تاجدارِ کائنات (ص) نے بالکل سادہ اور عام فہم زبان میں اپنی اُمت کو سمجھائے تھے۔

مسلسل طبی تحقیق کی ترغیب

طبی نکتۂ نگاہ سے مسلسل تحقیقات کا جاری رکھنا اور ہر بیماری کا علاج ڈھونڈ نکالنا ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے۔ ہر بیماری قابلِ علاج ہے۔ اِس حوالے سے تاجدارِ کائنات (ص) کا اِرشادِ گرامی ہے:

ما أنزل ﷲ مِن دآءٍ إلا أنزل له شفآءٌ ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۴۷) (جامع الترمذی، ۲:۲۵)

اللہ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اُتاری جس کی شفا نازل نہ فرمائی ہو۔

یہ حدیثِ مبارکہ بنی نوعِ انسان کو ہر مرض کی دوا کے باب میں مسلسل ریسرچ کے پراسس کو جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ تصور کہ بعض بیماریاں کلیتاً لاعلاج ہیں، اِس تصور کو اِسلام نے قطعی طور پر بے بنیاد اور غلط قرار دیا اور اِس تصور کو اپنانا ریسرچ کے تصور کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ اپنی تحقیق سے کسی مرض کا علاج دریافت نہ کر سکنے پر مرض کو ناقابلِ علاج قرار دینا جہالت کی علامت ہے۔

صحت، صفائی اور حفظِ ماتقدّم

اِسلام علاج سے زیادہ حفظانِ صحت اور اِحتیاطی طبی تدابیر پر زور دیتا ہے۔ اِسلام کی جملہ تعلیمات کا آغاز طہارت سے ہوتا ہے اور حفظانِ صحت کے اُصولوں کا پہلا قدم اور پہلا اُصول بھی طہارت ہے۔ طہارت کے بارے میں حضور نبی اکرم(ص) کا فرمان ہے:

الطهورُ شطرُ الإیمانِ ۔ (الصحیح لمسلم،۱:۱۱۸)

صفائی اِیمان کا لازمی جزو ہے۔

اِسلامی تعلیمات میں طہارت کا باب اُن مقامات کی طہارت سے شروع ہوتا ہے جہاں سے فضلات خارج ہوتے ہیں۔ یہ طہارت کا پہلا اُصول ہے اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہر شخص سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر طہارت کا کوئی تصور مکمل نہیں ہوتا۔

عن أنس بن مالک یقول: "کان النبی(ص) إذا خرج لحاجته، أجئ أنا و غلام و أداوة من مآء یعنی تستنجی به"

(صحیح البخاری، ۱:۲۷)

حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ جب نبئ اکرم (ص) رفعِ حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا برتن لے کر حاضرِ بارگاہ ہوتے تاکہ آپ(ص) اس سے اِستنجا فرما لیں۔

آج عالمِ مغرب میں پانی سے طہارت کے اس فطری طریقہ کو چھوڑ کر کاغذ وغیرہ کے استعمال کو رواج مل چکا ہے اور ہمارے ہاں بھی یہ طریقہ پروان چڑھ رہا ہے حالانکہ اِس سے کئی خرابیاں اور قسم قسم کی بیماریاں بھی دَر آئی ہیں۔ عافیت درحقیقت اِسلام ہی کے بیان کردہ اُصولوں میں ہے۔ طبِ جدید کے مطابق جو لوگ رفعِ حاجت کے بعد طہارت کے لئے پانی کی بجائے فقط کاغذ استعمال کرتے ہیں اُنہیں مندرجہ ذیل بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔

-۱ Pilonidal Sinus : یہ ایک بال دار پھوڑا ہے جو پاخانے کی جگہ کے قریب ہو جاتا ہے اور اس کا علاج آپریشن کے بغیر نہیں ہو سکتا۔

-۲ Pyelonephritis : پیشاب کے راستوں اور گردوں میں پیپ کا پیدا ہو جانا، بالخصوص عورتوں میں پاخانے کے جراثیم پیشاب کی نالی میں آسانی سے داخل ہو کر سوزش اور پیپ پیدا کر دیتے ہیں اور اس سے آہستہ آہستہ گردوں کی مہلک بیماری لاحق ہو جاتی ہے، جس کا پتہ بعض دفعہ اُس وقت چلتا ہے جب وہ اِنتہائی پیچیدہ صورت اِختیار کر لیتی ہے اور اُس کا علاج صرف آپریشن رہ جاتا ہے۔

وضو سے حفظانِ صحت

نماز ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے، ایک مسلمان جب دن میں پانچ بار اللہ کے حضور نماز ادا کرتا ہے تو وہ اُس سے پہلے وضو کرتا ہے، جس سے اُسے بدنی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ نماز سے پہلے وضو کرنا فرض ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

( فَاغسِلُوا وُجُوهَکُم وَ أَیدیَکُم اِلَی المَرَافِقِ وَ امسَحُوا بِرُئُ وسِکُم وَ أَرجُلَکُم اِلَی الکَعبَینِط ) (المائدہ، ۵:۶)

تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔

وضو حفظانِ صحت کے زرّیں اُصولوں میں سے ہے۔ یہ روزمرہ کی زندگی میں جراثیم کے خلاف ایک بہت بڑی ڈھال ہے۔ بہت سی بیماریاں صرف جراثیموں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ہوا، زمین اور ہمارے اِستعمال کی ہر چیز پر یہ موذی مسلط ہیں۔ جسمِ انسانی کی حیثیت ایک قلعے کی سی ہے۔ اللہ تعالی نے ہماری جلد کی ساخت کچھ ایسی تدبیر سے بنائی ہے کہ جراثیم اُس میں سے ہمارے بدن میں داخل نہیں ہو سکتے البتہ جلد پر ہو جانے والے زخم اور منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے وضو کے ذریعے نہ صرف اُن سوراخوں کو بلکہ اپنے جسم کے ہر حصے کو جو عام طور پر کپڑوں میں ڈھکا ہوا نہیں ہوتا اور آسانی سے جراثیم کی آماجگاہ بن سکتا ہے دن میں پانچ بار دھونے کا حکم فرمایا۔ انسانی جسم میں ناک اور منہ ایسے اَعضاء ہیں جن کے ذریعے جراثیم سانس اور کھانے کے ساتھ آسانی سے اِنسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں، لہٰذا گلے کی صفائی کے لئے غرارہ کرنے کا حکم دیا اور ناک کو اندر ہڈی تک گیلا کرنے کا حکم دیا۔ بعض اَوقات جراثیم ناک میں داخل ہو کر اندر کے بالوں سے چمٹ جاتے ہیں اور اگر دن میں پانچ بار اُسے دھونے کا عمل نہ ہو تو ہم صاف ہوا سے بھرپور سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اُس کے بعد چہرے کو تین بار دھونے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ٹھنڈا پانی مسلسل آنکھوں پر پڑتا رہے اور آنکھیں جملہ اَمراض سے محفوظ رہیں۔ اِسی طرح بازو اور پاؤں کے دھونے میں بھی کئی طبی فوائد پنہاں ہیں۔ وضو ہمارے بے شمار اَمراض کا ازخود علاج کر دیتا ہے کہ جن کے پیدا ہونے کا ہمیں اِحساس تک نہیں ہوتا۔ طہارت کے باب میں طبِ جدید جن تصورات کو واضح کرتی ہے اِسلام نے اُنہیں عملاً تصورِ طہارت میں سمو دیا ہے۔

آدابِ طعام اور حفظانِ صحت

بیماری کے جراثیم کھانا کھاتے وقت بآسانی ہمارے جسم میں داخل ہو سکتے۔ اس میں اشیائے خورد و نوش کے علاوہ ہمارے ہاتھوں کا بھی اہم کردار ہے۔ ہاتھوں کی صفائی کے حوالے سے تاجدارِ رحمت(ص) کا ارشادِ گرامی ہے:

برکةُ الطعامِ: الوضوئُ قبله و الوضوئُ بعده ۔

(جامع الترمذی، ۲:۷)

(سنن ابی داؤد، ۲:۱۷۲)

کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا برکت کا باعث ہے۔

کھانے سے قبل ہاتھوں کو دھو کر اگر کسی کپڑے وغیرہ سے خشک کر لیا جائے تو بھی اُس کپڑے کی وساطت سے جراثیم دوبارہ سے ہاتھوں پر منتقل ہو سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اُس تولئے پر پہلے سے کچھ جراثیم موجود ہوں اور ہمارے ہاتھ خشک کرنے کے عمل سے وہ ہمارے صاف ہاتھوں سے چمٹ جائیں اور کھانے کے دوران میں ہمارے جسم میں داخل ہو جائیں۔ اِس بارے میں بھی اِسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔،فتاویٰ ہندیہ میں مذکور ہے:

وَ لا یمسح یده قبل الطعام بالمندیل لیکون أثر الغسل باقیاً وقت الأکل ۔(الفتاویٰ الہندیہ، ۱۶:۳۲)

کھانے سے پہلے دھوئے ہاتھ کسی کپڑے سے مت خشک کرو تاکہ ہاتھوں کی صفائی کھانے کے دوران قائم رہ سکے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس سے تاجدارِ کائنات (ص) کی حدیثِ مبارکہ مروی ہے، جس میں آپ(ص) نے فرمایا:

إذا أکل أحدکم فلا یمسح یده حتیٰ یَلعقها أو یُلعقها ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۲۰)

جب تم میں سے کوئی کھانا کھا لے تو اپنے ہاتھوں کو چاٹنے سے قبل نہ پونچھے۔

تاجدارِ کائنات (ص) کا اپنا معمول بھی یہی تھا:

کان النبی(ص) یأکل بثلاثِ أصابعٍ و لا یمسح یده حتٰی یلعقها ۔ (سنن الدارمی، ۲:۲۴)

نبی علیہ الصلوۃ والسلام تین اُنگلیوں سے کھاتے تھے اور (کھانے کے بعد) اُنگلیوں کو چاٹے بغیر ہاتھ صاف نہیں فرماتے تھے۔

کھانے کے بعد ہاتھوں کو ضرور دھونا چاہئے مبادا خوراک کے ذرّات کسی اذیت کا باعث بنیں۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر سو جانے سے حضور(ص) نے سختی سے منع فرمایا۔

اِرشادِ نبوی ہے:

مَن نام فی یده غمر و لم یغسله فأصابه شئ فلا یلومنّ إلا نفسه ۔(سنن ابی داؤد، ۲:۱۸۲)

اگر کسی شخص کے ہاتھ پر چکنائی لگی ہو اور وہ اُسی حال میں اُسے دھوئے بغیر سو جائے جس سے اُسے کچھ نقصان

پہنچے تو وہ اپنے آپ کو ہی برا کہے (یعنی اپنا ہی قصور سمجھے کہ ہاتھ دھو کر نہ سویا تھا)۔

اِسی طرح حضورِ اکرم(ص) کا اِرشاد گرامی ہے کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد جب تک ہاتھ دھو نہ لئے جائیں برتن میں نہیں ڈالنے چاہئیں:

إذا استیقظ أحدکم من نومه فلا یغمس یدَه فی الإنائِ حتی یغسلها ثلاثًا، فإنّه لا یدری أین باتت یده ۔ (الصحیح لمسلم، ۱:۱۳۶)

جب تم میں سے کوئی شخص بیدار ہو تو اپنے ہاتھوں کو تین بار دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری، (یعنی نیند کی حالت میں کہاں لگتے رہے)۔

برتن میں سانس لینے کی ممانعت

حفظانِ صحت کے نقطۂ نظر سے اَشیائے خورد و نوش کو کامل اِحتیاط سے رکھنا چاہئے اور اگر وہ کھلے برتن میں ہوں تو اُنہیں ڈھانپ دینا چاہئے تاکہ اُن میں ایسے جراثیم داخل نہ ہو سکیں جو صحتِ انسانی کے لئے مضر ہوں۔ اِسی طرح برتن میں سانس لینے سے بھی جراثیم اُس میں منتقل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مبادا سانس لینے والا مریض ہو اور اُس کے جراثیم بعد میں پینے والوں کے جسم میں بھی چلے جائیں۔

تاجدارِ کائنات (ص) کا اِرشاد ہے:

عن عبد ﷲ بن أبی قتادة عن أبیه، قال، قال رسول ﷲ(ص): "إذا شرب أحدُکم فلا تنفّس فی الانآء "۔(صحیح البخاری، ۲:۸۴۱)

عبداللہ بن أبی قتادہ، اپنے والد سے رِوایت کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ لے۔"

ایک اور حدیثِ مبارکہ میں برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا گیا:

عن ابن عباس، قال: "نهٰی رسولُ اللهِ(ص) أن یتنفّس فی الإناء أو یُنفخ فیه ۔(جامع الترمذی، ۲:۱۱) (سنن أبی داؤد، ۲:۱۶۸)

سیدنا ابن عباس سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم (ص) نے برتن میں سانس لینے اور اُس میں پھونکنے سے منع فرمایا ہے۔

تاجدارِ کائنات (ص) کا اپنا معمولِ مبارک بھی یہی تھا کہ آپ کھانے پینے کی اَشیاء میں کبھی سانس لیتے اور نہ اُنہیں ٹھنڈا کرنے کے لئے پھونک مارتے تاکہ اُمت کو بھی اِس کی تعلیم ہو۔

سیدنا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:

لم یکن رسول ﷲ(ص) ینفخ فی طعام و لا شراب و لا یتنفّس فی الإناءِ ۔

رسولِ اکرم(ص) کسی کھانے کی چیز میں پھونک مارتے تھے اور نہ پینے کی چیز میں اور برتن میں سانس بھی نہیں لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ : ۲۴۴)

طبِ جدید کے مطابق بھی کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک نہیں مارنی چاہئے کیونکہ اس سے بیماری کے جراثیم اَشیائے خورد و نوش میں منتقل ہو سکتے ہیں جو بعد ازاں کسی دُوسرے کھانے والے کو بیمار کر سکتے ہیں۔ آنحضرت(ص) نے بہت پہلے یہ باتیں فرما دی تھیں۔

متعدّی اَمراض سے حفاظت

وہ اَمراض جو متعدی ہیں اور اُن کے جراثیم تیزی سے ایک اِنسان سے دُوسرے کی طرف منتقل ہوتے ہیں، اُن سے بچاؤ کے لئے اِسلام نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔ طاعون ایک نہایت موذی بیماری ہے۔ آج اگرچہ اُس پر قابو پایا جا چکا ہے مگر کچھ عرصہ قبل تک یہ شہروں کے شہر ویران کر دیا کرتا تھا۔ کوئی گھر ایسا نہ بچتا جس میں صفِ ماتم نہ بچھتی تھی۔ طاعون سے بچاؤ کے لئے تاجدارِ حکمت نے کچھ ایسے خاص اَحکام بیان فرمائے جو عام بیماریوں کے لئے نہیں۔

تاجدارِ کائنات (ص) نے فرمایا:

إذا سمعتم بالطاعونِ بأرضٍ فلا تدخلوها، و إذا وقع بأرضٍ و أنتم بها فلا تخرجوا منها ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۵۳)

جب تمہیں پتہ چلے کہ کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہیں ہو تو اُس علاقے کو چھوڑ کر مت بھاگو۔

گویا آپ نے نہ صرف ایسے شہر سے باہر کے لوگوں کو طاعون سے بچانے کے لئے وہاں جانے سے منع فرمایا بلکہ اُس شہر کے لوگوں کو وہاں سے نکلنے سے منع کر کے آس پاس کے شہروں کو بھی طاعون سے محفوظ فرما دیا مبادا وہاں سے لوگ ہر طرف بھاگ نکلیں اور یہ مرض آس پاس کے تمام شہروں میں پھیل جائے۔

دانتوں اور منہ کی صفائی

دانتوں کی صفائی کے بارے میں تاجدارِ حکمت و بصیرت(ص) کا ارشادِ مبارکہ ہے:

طهّروا أفوَاهَکم ۔ (سلسۃ الأحادیث الصحیۃ للألبانی، ۳:۲۱۵)

اپنا منہ صاف رکھو۔

طبی نقطۂ نظر سے دانتوں کی صفائی جہاں دانتوں کو بہت سی خرابیوں سے محفوظ رکھتی ہے وہاں اَمراضِ معدہ کے سدِباب کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ تاجدارِ کائنات (ص) نے دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیا۔

ایک اور مقام پر اِرشاد فرمایا:

لو لا أَن أشقّ علیٰ أمتی لأمرتُهم بالسّواک مع کلّ صلوةٍ ۔ (صحیح البخاری، ۱:۱۲۲) (سنن النسائی، ۱:۶)

اگر میں اپنی اُمت پر باعثِ دُشواری نہ سمجھتا تو اُنہیں ہر نماز میں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔

حضور(ص) مداومت کے ساتھ مسواک فرمایا کرتے تھے۔ آپ مسواک ہمیشہ اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر کی طرف فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جسے آجکل تجویز کیا جاتا ہے۔

قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ حضور(ص) کس میڈیکل کالج میں پڑھے، اللہ ربّ العزت تو خود حضور(ص) کو اُمی کہہ رہا ہے۔ تاجدارِ حکمت(ص) کی ذاتِ پاک کی تعلیم کا مبدا اور سرچشمہ اللہ کی ذات تھی۔ آقا علیہ الصلوۃُ والسلام کی حیاتِ طیبہ کے وہ اُصول جو آج اپنے گوناگوں فوائد کے ساتھ منظرِعام پر آ رہے ہیں، آپ نے آج سے چودہ صدیاں قبل بغیر کسی کالج/یونیورسٹی کی تعلیم کے بیان فرما دیئے۔ ایسے میں ہماری نگاہیں اُس عظیم حق کے سامنے کیوں نہ جھکیں، ہم یہ کیوں نہ تسلیم کریں کہ سرکار کا ہر فرمان حق اور درُست ہے۔ دانتوں کی صفائی کے سلسلے میں کھانے کے بعد دانتوں میں خلال کرنا بھی سنتِ نبوی (ص) ہے۔

حضور علیہ الصلوۃُ والسلام کا اِرشاد ہے:

مَن أکل فلیتخلّل ۔ (سنن الدارمی، ۲:۳۵)

جو شخص کھانا کھائے اُسے خلال کرنا چاہئے۔

دانتوں کے تمام ڈاکٹر بھی معیاری ٹوتھ پکس کے ساتھ خلال کو ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ اُس سے دانتوں کے درمیان پھنسے کھانے کے چھوٹے ذرّات نکل جاتے ہیں، جس سے بندہ منہ اور معدہ کے بہت سے اَمراض سے محفوظ رہتا ہے۔ حضور(ص) نے خلال کرنے کی تعلیم دے کر اُمت کو بہت سے ممکنہ اَمراض سے محفوظ فرما دیا۔