اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس0%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف: ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری
زمرہ جات:

مشاہدے: 68801
ڈاؤنلوڈ: 4107

تبصرے:

اسلام اور جدید سائنس
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68801 / ڈاؤنلوڈ: 4107
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

انگور ( Grapes )

قرآن اسے "جنت کا پھل" کہتے ہوئے اس کے استعمال کی یوں ترغیب دیتا ہے:

( حَدآءقَ وَ أَعنَابًا ) (النباء، ۷۸:۳۲)

(وہاں اُن کے لئے) باغات اور انگور (ہوں گے)حالیہ طبی تحقیق کے مطابق انگور کاربوہائیڈریٹس، فاسفورس، پوٹاشیم، کیلشیم اور خاص طور پر وٹامن اے کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے دل، جگر اور معدے کے لئے بہت ہی مفید ہے۔ یہ خاص طور پر دل و دماغ کی مختلف بیماریوں اور انتڑیوں کی بیماریوں میں بہت سودمند ہے۔

لہسن ( Garlic )

قرآنِ حکیم نے سورۂ بقرہ میں لہسن کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے:

( وَ فُومِهَا ) ۔ (البقرہ، ۲:۶۱)

اور اُس (زمین )کا لہسن۔

لہسن ایک ایسا مصالحہ ہے جو دل، دماغ، آنکھوں اور جسم کے دُوسرے حصوں کو طاقت دیتا ہے اور خاص طور پر جسم کو نقصان پہنچانے والے جراثیموں کو مارنے کے لئے جسم میں قوتِ مدافعت بڑھاتا ہے۔ جدید طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ لہسن فالج، دمہ، ٹی بی اور جوڑوں کے درد میں بھی بہت مفید ہے۔ علاوہ ازیں اس میں جراثیم کش ( antiseptic ) خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خصوصاً خون کے بڑھے ہوئے دباؤ ( hypertension ) پر قابو پانے میں اس کے خصوصی عمل کی وجہ سے سقوطِ قلب سے بچنے کے لئے مفید ہے۔

پیاز ( Onion )

قرآن نے سورۂ بقرہ کی اِسی آیت میں پیاز کا ذِکر اِن الفاظ میں کیا ہے:

( وَ بَصَلِهَا ) ۔

(البقرۃ، ۲:۶۱) اور اُس (زمین )کا پیاز۔

یہ پروٹین، کیلشیم، پوٹاشیم، سوڈیم، سلفر اور فولاد کا اہم ذریعہ ہے۔ ۱۰۰گرام پیاز درج ذیل اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے:

غذائی ریشہ ( fiber) ۱.۳ گرام

حرارے ( Calories) ۲۳ گرام

لحمیات ( proteins) ۰.۹ گرام

چینی ( sugar) ۵.۲ گرام

پیاز میں خاص طور پر B۶ بھی پایا جاتا ہے، جو ٹی بی اور پھیپھڑوں کے ناسور کا سبب بننے والے جراثیموں اور مُضرِ صحت بیکٹیریا کے خاتمے میں بھی مفید ہے۔ اِس کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ خون میں موجود کولیسٹرول کو حل کرنے میں مدد دیتا ہے اور اِس کے مستقل اِستعمال سے دِل کے دَورے کا خطرہ ممکنہ حد تک کم ہو جاتا ہے۔

ممنوعہ غذائیں

خنزیر ( Pork )

قرآنِ مجید نے سؤر کے گوشت کے اِستعمال سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ اِرشاد ہوتا ہے:

( اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ المَیتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحمَ الخِنزِیرِ وَمَآ أُهِلَّ بِه لِغَیرِ اللهِ ) ۔ (البقرہ، ۲:۱۷۳)

اُس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذِبح کے وقت غیراللہ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے۔

بنی نوعِ انسان کے لئے اِسلام کے آفاقی اَحکامات میں پنہاں وسیع تر مفاد اور اُن کے دُور رس نتائج کے پیشِ نظر ہم بہت سے اَمراض سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ اِسلام نے اِنسانی جسم و رُوح کو نقصان پہنچانے والی تمام اشیاء کے اِستعمال سے اپنے ماننے والوں کو سختی سے منع فرما دیا تاکہ وہ اُن کے مُضر اَثرات سے محفوظ رہ سکیں۔ حالیہ طبی تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات منظرِ عام پر آئی ہے کہ سؤر کے گوشت میں taenia solium اور trichinella spiralis دو کیڑے پائے جاتے ہیں جن میں سے اوّل الذکر مِرگی ( epilepsy ) جبکہ مؤخر الذکر ایک بیماری trichinosis کا باعث بنتا ہے۔

acute trichinosis کے مریض کو تیز جسمانی درجۂ حرارت سے سابقہ پیش آ سکتا ہے۔ اُس کے خون کا بہاؤ زہریلے مواد سے متاثر ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں اُسے دِل اور نظامِ تنفس کا فالج بھی ہو سکتا ہے۔ یہ دِماغ اور جسم کے دُوسرے اَجزاء کی سوزش بھی پیدا کرتا ہے اور زبان، گردن، آنکھوں اور گلے وغیرہ کے اَعصاب کو بھی متاثر کرتا ہے۔

خنزیر کے گوشت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ موٹاپا پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ اُس میں بہت زیادہ حرارے اور چکنائی ہوتی ہے اور کولیسٹرول کی سطح بہت بلند ہوتی ہے۔ ۱۰۰ گرام بڑے گوشت میں زیادہ سے زیادہ ۲۸۴کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سؤر کے گوشت میں زیادہ سے زیادہ ۴۹۶کیلوریز ہوتی ہیں، اِسی طرح بڑے گوشت میں چکنائی کی مقدار زیادہ سے زیادہ ۲۱.۱فیصد ہوتی ہے جبکہ سؤر کے گوشت میں یہ مقدار زیادہ سے زیادہ ۴۴.۸فیصد ہوتی ہے۔

اِسلام میں خنزیر کے گوشت کی ممانعت کی حکمت اَب امریکہ اور یورپ میں بھی مقبول ہو رہی ہے اور وہاں کے صحت شناس لوگ بالعموم اِسلام کی حلال کردہ اشیاء کو ترجیح دے رہے ہیں اور سؤر کا گوشت ترک کرتے چلے جا رہے ہیں۔

شراب ( Drinking )

قرآنِ مجید میں ﷲ ربّ العزت نے شراب کو کلیتاً حرام قرار دیا ہے۔

اِرشادِ خداوندی ہے:

( یٰٓا أَیُّهَا الَّذِینَ اٰمَنُوآ إِنَّمَا الخَمرُ وَ المَیسِرُ وَ الأَنصَابُ وَ الأَزلَامُ رِجسٌ مِّن عَمَلِ الشَّیطَانِ فَاجتَنِبُوهُ لَعَلَّکُم تُفلِحُونَ ) (المائدہ، ۵:۹۰)

اے ایمان والو! یقینا شراب اور جوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں، سو تم اُن سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤتاجدارِ کائنات (ص) کی یہ دونوں اَحادیثِ مبارکہ اِس آیتِ کریمہ کے شراب کی حرمت سے متعلقہ حصے کی بہترین تفسیر کرتی نظر آتی ہیں:

اِرشادِ نبوی (ص) ہے:

کلّ مُسکرٍ خمرٌ و کل خمرٍ حرامٌ ۔

ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔ (الصحیح لمسلم، ۲:۱۶۸)

ما أسکرَ کثیرُه فقلیلُه حرامٌ ۔

(جامع الترمذی، ۲:۹)

جس شے کی زیادہ مقدار نشہ پیدا کرے اُس کی تھوڑی مقدار کا اِستعمال بھی حرام ہے۔

شراب جسم کو حرارے (کیلوریز) تو مہیا کرتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ جسمانی نشوونما کے لئے ضروری وٹامنز اور امائنو ایسڈز ( amino acids ) مہیا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ چنانچہ جسم میں خلیوں کی تخریب ( metabolism ) اور تعمیر کا عمل بری طرح متاثر ہوتا ہے اور متعدد طبعی بیماریاں اور ذہنی ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں۔ شراب نوشی بہت حد تک جگر، معدہ، انتڑیوں، تلی، خوراک کی نالی، دماغ اور دل کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ بے شمار بیماریوں کے علاوہ یہ بالخصوص دل کے عضلات کی بیماری cardiomyopathy اور خون کے بہاؤ میں رکاوٹ کی وجہ سے تالو کی ہڈیوں میں توڑ پھوڑ بھی پیدا کرتی ہے۔ مزید برآں شراب کا باقاعدہ استعمال خون کے دباؤ کے مسائل پیدا کرتا ہے اور نظامِ دورانِ خون ( cardiovascular system ) کو متاثر کرتا ہے۔

کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے سقوطِ قلب کے خطرات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، کیونکہ شراب خون میں کولیسٹرول کی مجموعی سطح کو کم کئے بغیر ہائی ڈنسٹی لیپوپروٹینز ( HDL Cholesterol ) کی مقدار بڑھا دیتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کولیسٹرول میں توازن بگڑ جاتا ہے اور اُس سے دِل کے دَورے کا مجموعی خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے صحت شناس لوگوں میں شراب نوشی کی خاطر خواہ کمی واقع ہو رہی ہے اور اکثر ہارٹ ایسوسی ایشنز ( heart associations ) بھی اِسی بات پر بہت زور دے رہی ہیں کہ شراب کا اِستعمال نہ کیا جائے۔

ڈاکٹروں کی رجسٹریشن اور اِمتحانی نظام

اوّلاً اِسلام نے اِنسانیت کے لئے حفظانِ صحت کے ایسے اُصول مرتب کئے ہیں کہ بندہ زیادہ سے زیادہ بیماریوں سے قبل از وقت بچا رہے۔ تاہم اگر کوئی بیماری حملہ آور ہو جائے تو اُس کا مناسب علاج بھی پیش کیا ہے۔طب کو باقاعدہ ایک فن کے طور پر پروان چڑھانے اور اِس فن کے ماہرین پیدا کرنے میں سب سے زیادہ دخل اِسلام کو حاصل ہے۔ دُنیا میں سب سے پہلے ہسپتال مسلمانوں ہی نے قائم کئے اور سب سے پہلے رجسٹرڈ ڈاکٹروں اور سرجنوں کا ایک باقاعدہ نظام بھی اِنہی نے وضع کیا تاکہ مختلف بیماریوں کا صحیح طبی خطوط پر علاج کیا جا سکے۔

اِس سلسلے میں تاجدارِکائنات(ص) کا فرمان اُمتِ مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ بنا۔ اِرشاد ِنبوی ہے:

و من تطبّب و لم یعلم منه الطب قبل ذٰلک فهو ضامنٌ ۔ (سنن ابنِ ماجہ : ۲۵۶)

جس شخص نے علمُ الطب سے ناآگہی کے باوُجود طب کا پیشہ اِختیار کیا تو اُس (کے غلط علاج۔/مضر اثرات) کی ذمہ داری اُسی شخص پر عائد ہو گی۔

اِس فرمان نے جہاں لوگوں کو طب میں تخصیص کے لئے مہمیز دی وہاں اِسلام کی اوّلین صدیوں میں ہی جعل سازوں سے بچنے کے لئے میڈیکل کا ایک باقاعدہ اِمتحانی نظام وضع کرنے میں بھی مدد ملی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں بڑے بڑے ماہرینِ طب اور سرجن پیدا ہوئے۔

دُنیا میں سب سے پہلے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے لئے اِمتحانات اور رجسٹریشن کا باقاعدہ نظام عباسی خلافت کے دور میں ۹۳۱ء میں بغداد میں وضع ہوا جسے جلد ہی پورے عالم اِسلام میں نافذ کر دیا گیا۔ واقعہ یوں ہوا کہ ایک جعلی حکیم کے ناقص علاج سے ایک مریض کی جان چلی گئی۔ اُس حادثے کی اِطلاع حکومت کو پہنچی تو تحقیقات کا حکم ہوا۔ پتہ یہ چلا کہ اُس عطائی طبیب نے میڈیکل کی مروّجہ تمام کتب کا مطالعہ نہیں کیا تھا، اور چند ایک کتابوں کو پڑھ لینے بعد مطب ( clinic ) کھول کر بیٹھ گیا تھا۔

اُس حادثے کے فوری بعد حکومت کی طرف سے معالجین کی باقاعدہ رجسٹریشن کے لئے ایک بورڈ بنایا گیا، جس کی سربراہی اپنے وقت کے عظیم طبیب ’سنان بن ثابت‘ کے ذمہ ہوئی۔ اُس بورڈ نے سب سے پہلے صرف بغداد شہر کے اطباء کو شمار کیا تو پتہ چلا کہ شہر بھر میں کل ۱,۰۰۰ طبیب ہیں۔ تمام اطباء کا باقاعدہ تحریری اِمتحان اور اِنٹرویو لیا گیا۔ ایک ہزار میں سے ۷۰۰ معالج پاس ہوئے، چنانچہ رجسٹریشن کے بعد اُنہیں پریکٹس کی اِجازت دے دی گئی اور ناکام ہو جانے والے ۳۰۰ اطباء کو پریکٹس کرنے سے روک دیا گیا۔

بخار کا علاج

عموماً انسانی جسم ۱۰۵، ۱۰۶ درجہ فارن ہائیٹ سے زیادہ ٹمپریچر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اگر جسم انسانی کا درجۂ حرارت اِس سے بہت زیادہ تجاوز کر جائے تو فقط اُس کی حدت کی زیادتی کی وجہ سے بھی موت واقع ہو سکتی ہے ۔ ایسی حالت میں سب سے مفید علاج جلد از جلد درجۂ حرارت کو نیچے لانا ہے۔ طبِ جدید کی رُو سے ایسے مریض کے تمام جسم کو برف کے پانی سے بھگو دینا چاہئے، جسم پر گیلے کپڑے کی پٹیاں رکھنی چاہئیں تاکہ اُن کی برودت سے جسم کا درجۂ حرارت نسبتاً کم ہو کر اِعتدال پر آ جائے۔

اس باب میں رسولِ اکرم(ص) کا اِرشادِ گرامی یاد رکھنے کے قابل ہے، اِرشادِ نبوی ہے:

الحمی من فیح جهنم، فابرودها بالماء ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۵۲)

بخار جہنم کے شعلوں میں سے ہے، اِس لئے اُس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ۔

ایک اور حدیثِ مبارکہ میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں:

إنّ شدة الحمی مِن فیحِ جهنم فابردُوها بالمآءِ ۔ (سنن ابن ماجہ : ۲۵۶) (جامع الترمذی، ۲:۲۸)

بخار کی شدت جہنم کے شعلوں میں سے ہے، اِس لئے اُس کی گرمی کو پانی سے بجھاؤ۔

آپریشن کے ذریعے علاج

جب بیماری کی نوعیت بگڑ جائے اور عام علاج سے اِفاقے کی صورت ممکن نہ ہو تو ایسے میں بعض اَوقات آپریشن کی ضرورت پیش آتی ہے۔ قربان جائیں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی عظمت پر کہ آپ نے چودہ سو سال قبل آپریشن کے ذریعے علاج کی بنیاد رکھی اور سرجری کی ایک عظیم مثال قائم کی۔ حضور(ص) کی چند احادیث جو سرجری کے باب میں مذکور ہیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں۔

سیدنا انس تاجدارِکائنات(ص) کا معمول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

أنّ النبی(ص) احتجم ثلثاً فی الاخدعین و الکاهل ۔ (سنن ابی داؤد، ۲:۱۸۴)

رسولِ اکرم(ص) نے اپنے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں اور اخدعین (گردن کے دونوں طرف کی رگوں) کے بیچ میں تین سنگی کھنچوائے

اِسی سلسلے میں ایک اور حدیثِ نبوی ہے:

عن ابن عباس قال: احتجم النبی(ص) و هو صائم ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۴۹)

حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم(ص) نے روزہ کی حالت میں پچھنے لگوائے۔

صحیح بخاری ہی میں مذکور ہے:

أنّ رسول ﷲ احتجم و هو محرم فی رأسه من شقیقة کانت به ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۵۰)

رسول اللہ(ص) نے سر میں دردِ شقیقہ کے علاج کے لئے حالتِ اِحرام میں پچھنے لگوائے۔

اِرشادِ نبوی ہے:

الشفاء فی ثلاثةٍ: فی شرطة محجمٍ، أو شربة عسلٍ، أو کیّة بنارٍ ۔ (صحیح البخاری، ۲:۸۴۸)

شفاء تین چیزوں میں ہے، پچھنے لگوانا، شہد پینا یا آگ سے داغ دلوانا۔

نفسیاتی اَمراض کا مستقل علاج

اگر اِسلامی طرزِ زندگی کو مکمل طور پر اپنایا جائے تو انسان بہت سی نفسیاتی بیماریوں پر بھی قابو پا سکتا ہے۔ اِسلامی طرزِ حیات اِنسان کو ذہنی تناؤ اور بوجھ سے آزاد کرتا ہے اور اِنسان کو زندگی کی دلچسپیوں کو برقرار رکھنے کے قابل بناتا ہے۔ اِسلام نے انسان کو نفسیاتی دباؤ اور اُلجھنوں سے دُور رہنے اور خوشحال زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کرنے پر بہت زور دیا ہے۔

قرآنِ حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:

( اَلَّذِینَ یُنفِقُونَ فِی السَّرّآء وَ الضَّرّآء وَ الکَاظِمِینَ الغَیظَ وَ العَافِینَ عَنِ النَّاسِ ) ۔ (آل عمران، ۳:۱۳۴)

یہ وہ لوگ ہیں جو (معاشرے سے مفلسی کے خاتمے کے لئے) فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں۔

سرکارِ مدینہ(ص) نے فرمایا:

إنّ الغضبَ من الشیطانِ، و إن الشیطان خُلِق من النار، و إنما تطفئ النار بالماء، فإذا غضب أحدکم فلیتوضّاء ۔ (ابوداؤد، ۲:۳۱۲)

غصہ شیطانی عمل ہے اور شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ وضو کرے (تاکہ غصہ جاتا رہے)۔

غضب و غصہ پر قابو پانے سے اعصابی تناؤ اور ذہنی کھنچاؤ پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے جو دِل کے امراض سے بچاؤ کی بھی ایک اہم صورت ہے۔ اِسی طرح غریبوں اور ضرورت مندوں کی فلاح کے لئے روپیہ خرچ کرنے سے اور دُوسروں کو معاف کر دینے کے عمل سے اِنسان کو رُوحانی خوشی و سرمستی حاصل ہوتی ہے۔ جس سے زندگی کی مسرّتیں اور رعنائیاں دوبالا ہو جاتی ہیں۔

حسد بہت سی ذہنی پریشانیوں کا منبع ہے، اِسلام نے اپنے ماننے والوں کو سختی سے حسد سے روکا ہے۔ تاجدارِ رحمت(ص) کا اِرشادِ گرامی ہے:

إیاکم و الحسد، فإن الحسد یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب ۔ (سنن ابی داؤد، ۲:۳۲۴)

اپنے آپ کو حسد سے بچاؤ، بیشک حسد تمام نیکیوں اور ثواب کو اِس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔

اِسی طرح لالچ اور خود غرضی بھی بہت سا ذِہنی تناؤ اور پریشانیاں پیدا کرتی ہے۔ اِن نفسانی آلائشوں سے بھی اسی طرح منع کیا گیا ہے اور اُن کی بجائے اطمینان و سکون کی تلقین کی گئی ہے۔

اِسلام کی یہی تعلیم خوشگوار زندگی کی اَساس ہے جو پُرامن معاشرے اور صحت مند ماحول کے قیام کے لئے لابدّی ہے۔ علاوہ ازیں زندگی کے ہر معاملے میں توازن پیدا کرنا چاہئے اور معمولاتِ حیات میں شدّت پیدا کرنے یا ضرورت سے زیادہ نرمی سے گریز بھی نہایت لازمی ہے۔

قرآنِ حکیم میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

( یُرِیدُ اللهُ بِکُمُ الیُسرَ وَ لَا یُرِیدُ بِکُمُ العُسرَ ) ۔ (البقرہ، ۲:۱۸۵)

اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لئے دُشواری نہیں چاہتا۔

آقائے دوجہاں(ص) کا ارشادِ گرامی ہے:

"هلک المتنطّعون"، قالها ثلاثاً ۔ (الصحیح لمسلم، ۲:۳۳۹)

"مشکلات پر اِصرار کرنے والے تباہ ہو جاتے ہیں"۔ آپ نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے۔

اِسلام ہر مسلمان کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور طاقت سے زیادہ بوجھ اپنے سر نہ لے۔ قرآن مجید میں ایک دعا کی صورت میں ارشاد ہوتا ہے:

( رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِه ) ۔(البقرہ، ۲:۲۸۶)

اے ہمارے پروردگار! اور ہم پر اِتنا بوجھ (بھی) نہ ڈال جسے اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں۔

اگرچہ اِسلام نے جسمانی محنت و مشقت کی بھرپور تائید کی ہے، تاہم اُس کی ساری تائید صرف اور صرف توازن اور میانہ روی کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے ہے۔ اسلامی طرز حیات میں سے یہ وہ چند مثالیں تھیں جو اِسلام کی تجویز کردہ، اَعصابی تناؤ سے آزاد اور متوازن زندگی کی تفصیل و توجیہہ بیان کرتی ہیں۔

اِسلام اورجینیاتی انجینئرنگ( Genetic engineering )

دورِ جدید کی طبی تحقیقات میں جینیاتی انجینئرنگ ( genetic engineering ) کو خاص مقام حاصل ہے ۔ کسی شخص کے جینز ( genes ) کے مطالعہ سے اُس کا نسب، اُس کی زندگی کی تمام بیماریاں اور اُس سے متعلق بے شمار ایسے حقائق جنہیں عام حالات میں معلوم کرنا ناممکن ہے، جینیاتی انجینئرنگ ہی کی بدولت طشت از بام ہو رہے ہیں۔ ڈی این اے ( Deoxyribonucleic Acid ) کی تھیوری سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ اِنسانی جسم کے ہر خلۓ میں انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا ( Encyclopaedia Britannica ) کے دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جا سکتی ہیں۔ یہ دریافت جہاں سائنسی تحقیقات میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں اِسلامی عقائد کی تصدیق و تائید بھی کرتی جا رہی ہے۔ آج کی طبی تحقیق جن DNA کوڈز کو بے نقاب کر رہی ہے، ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ یہی تحقیق جب اپنے نکتۂ کمال کو پہنچے گی اور ہم ایسے آلات اِیجاد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن سے کسی بھی اِنسان کی گزری ہوئی زندگی کے اچھے بُرے اعمال طشت از بام کئے جا سکیں گے۔

یوں طبی میدان میں کی جانے والی سائنسی پیش رفت کا فرسِ تحقیق اِس رُخ پر گامزن ہے اور جس دن اِس ممکن نے حقیقت کا رُوپ دھار لیا ، دینِ اسلام کا ایک اور بنیادی ستون ’عقیدۂ آخرت‘ سائنسی توجیہ سے مزین ہو کر غیرمسلم محققین پر بھی اِسلام کی حقانیت آشکار کردے گا۔

روزِ قیامت جب تمام اِنسان جِلائے جائیں گے اور اُن سے حساب کتاب کیا جائے گا تو اُن کے ہاتھ اور پیراِس بات کی گواہی دیں گے کہ اُنہوں نے اپنی دُنیوی زندگی میں کیسے اَعمال سرانجام دئیے۔ سادہ لوح عقل اِسلام کے پیش کردہ اِس نظریئے پر ہنگامہ کھڑا کر دیتی ہے کہ ہاتھ، پاؤں یا دیگر اعضائے جسمانی آخر کس طرح ہمارے خلاف گواہی دے سکتے ہیں! اِس ضمن میں اور بھی ہزاروں سوالات انسانی ذہن میں سر اُٹھاتے ہیں جن کا جواب DNA تھیوری میں مل سکا ہے ۔ خالقِ کائنات اپنے آخری اِلہامی صحیفے قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں فرماتا ہے:

( اَلیَومَ نَختِمُ عَلٰی أَفوَاهِهِم وَ تُکَلِّمُنَا أَیدیهِم وَ تَشهَدُ أَرجُلُهُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ) (یٰسین،۳۶:۶۵)

آج (کا دن وہ دن ہے کہ) ہم اُن (مجرموں) کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور اُن کے ہاتھ ہم سے کلام کریں گے اور اُن کے پاؤں اُس کی گواہی دیں گے جو وہ لوگ کیا کرتے تھےاِسی آیتِ کریمہ کی تشریح و توضیح میں سرورِ دوجہاں(ص) کا ارشادِ گرامی ہے:

فیُختم علی فیه، و یُقال لفخذِه و لحمِه و عظامِه "انطقی"، فتنطق فخذُه و لحمُه و عظامُه بعملِه ۔(الصحیح لمسلم،۲:۴۰۹)

پس اُس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اُس کی ٹانگ ، گوشت اور ہڈیوں کو بولنے کا حکم ہو گا ۔ پس اُس کی ٹانگ، گوشت اور ہڈیاں اُس کے اَعمال بتائیں گے۔

سیدنا عقبہ بن عامر سے بھی اِسی مضمون میں ایک حدیثِ مبارکہ مروی ہے ۔ سرورِ کائنات (ص) نے اِرشاد فرمایا:

إنّ أوّلَ عظم من الإنسان یتکلّم یومَ یختم علٰی الأفواه فخذُه من الرِّجل الشمالِ ۔ (الدرالمنثور،۵:۶۲)

(جس روز منہ پر مہریں لگائی جائیں گی) اِنسان کے جسم کی سب سے پہلی ہڈی جو بولے گی وہ بائیں ٹانگ کی ران کی (ہڈی) ہو گی۔

یہ مضمون متعدّد احادیثِ مبارکہ میں اِسی طرح درج ہے اور اِسے قرآنی تائید بھی حاصل ہے ۔

آج سے چودہ سو سال پہلے عرب کے اُس جاہل معاشرے میں اِسلام نے یہ عقیدہ پیش کیا جہاں اَذہان جہالت کی گرد میں لپٹے ہوئے تھے اور اپنی جہالت پر فخر کرتے تھے ۔ وہ اِس اِسلامی تصوّر کو بآسانی قبول نہیں کر سکتے تھے۔ وہ تو مرنے کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کی مطلق حقیقت کو بھی جھٹلاتے تھے، چہ جائیکہ وہ اعضائے اِنسان کی گواہی دینے کی صلاحیت کو تسلیم کر لیتے اور اُس پر ایمان لے آتے۔

آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی اُن جاہل کفار و مشرکین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بعض غیرمسلم اَقوام اور مغربی یلغارسے مرعوب بعض نام نہاد مسلمان اپنی کم عملی اور جہالت کی بناء پر بلاتحقیق اِسلام کے بنیادی عقیدے ’آخرت‘ کو مسلمانوں کی تضحیک و تحقیر کا نشانہ بناتے ہیں۔ اگر وہ جدید سائنسی تحقیقات اور اُن کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے حقائق و نظریات کا بخوبی مطالعہ کریں تو وہ اِس حقیقت پر پہنچیں گے کہ اِسلام ہی آفاقی سچائیوں سے معمور دین ہے ۔ جو ہر شعبۂ زندگی میں اِنسانیت کی رہنمائی کرتا ہے ۔ جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات جسمِ انسانی کے ہر خلۓ میں اِتنی گنجائش ثابت کر چکی ہیں جہاں دس کروڑ صفحات کے برابر معلومات تحریر کی جا سکیں۔بغیر خوردبین کے نظر نہ آسکنے والا معمولی خلیہ اپنے اندر اِتنی وسیع دُنیا لئے ہوئے ہے۔ روزِ آخر اللہ ربّ العزت کے حکم پر اِنسانی جسم کا ہر ہر خلیہ اپنی ساری سرنوشت زبانِ حال سے کہہ سنائے گا اور اِنسان کا سب کیا دھرا اُس کی آنکھوں کے سامنے بے نقاب کر دے گا ۔ یہ اِسلام کی تعلیم ہے اور اِسی طرف جینیاتی انجینئرنگ کی تحقیقات پیش قدمی کر رہی ہیں۔

طبِ جدید کی اِن ساری تحقیقات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ اور اُس کے رسول(ص) کے اِرشادات پر ایک نظر کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کے قول سے بڑھ کر حق کائنات میں کہیں موجود نہیں۔ آج تک سائنس اور طب کی جتنی بھی تحقیقات ہوئیں وہ بالآخر اِس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ نبیٔ مختارِ عالم (ص) کی ہر بات، خواہ وہ قرآن مجید ہو یا آپ(ص) کی حدیثِ مبارکہ، مبنی برحق ہے اور سائنسی بنیادوں پر کام کرنے والے معاشروں کے لئے اُس سے رُوگردانی ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث کا ہر لفظ رسولِ آخر الزماں (ص) کی عظمت پر دالّ ہے اور مُنکرینِ عظمتِ مصطفی کے دِل و دِماغ پر ضربِ کاری ہے۔

کتابیات

قرآن مجید منزّل من ﷲ

صحیح البخاری امام محمد بن اسماعیل بخاری، ۲۵۶ھ کراچی، قدیمی کتب خانہ، ۱۳۸۱ھ

الصحیح لمسلم امام مسلم بن الحجاج قشیری، ۲۶۱ھ کراچی، قدیمی کتب خانہ، ۱۳۷۵ھ

جامع الترمذی امام محمد بن عیسیٰ ترمذی، ۲۷۹ھ ملتان، فاروقی کتب خانہ

سنن أبی داؤد امام ابوداؤد سلیمان بن اشعث، ۲۷۵ھ کراچی، ایچ-ایم-سعید کمپنی

سنن النسائی امام احمد بن شعیب نسائی ، ۳۰۳ھ کراچی، قدیمی کتب خانہ

سنن ابن ماجہ امام محمد بن یزید قزوینی بن ماجہ، ۲۷۵ھ کراچی، ایم ایم سعید کمپنی

مسند احمد بن حنبل امام احمد بن محمد بن حنبل، ۲۴۱ھ بیروت، المکتب الاسلامی، ۱۳۹۸ھ

سنن الدارمی امام ابو محمد عبداللہ دارمی، ۲۵۵ھ ملتان، نشر السنہ

المستدرک امام ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری، ۴۰۵ھ سعودی عرب، دارالباز

المعجم الاوسط امام سلیمان بن احمد طبرانی ، ۳۶۰ھ بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۰۳ھ

مشکوٰۃ المصابیح امام محمد بن عبداللہ خطیب تبریزی افغانستان، نعمانی کتب خانہ

مجمع الزوائد حافظ نور الدین علی بن ابوبکر الھیثمی، ۸۰۷ھ بیروت، دارالریان للتراث

کنز العمّال علامہ علاؤالدین علی المتقی الہندی، ۹۷۵ھ بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، ۱۳۹۹ھ

کتاب مصنف مطبع

سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ علامہ محمد ناصر الدین البانی ، ۱۴۲۰ھ بیروت، المکتب الاسلامی، ۱۴۰۵ھ

المدارک امام عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی، ۷۰۱ھ بیروت، دار احیاء الکتب العربیہ

الدالمنثور فی التفسیر بالماثور امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی، ۹۱۱ھ بیروت، دارُالمعرفہ

رُوح المعانی علامہ سید محمود آلوسی، ۱۲۷۰ھ ملتان، مکتبہ امدادیہ

زادُ المعاد امام ابن القیم الجوزیہ، ۷۵۱ھ بیروت، مؤسسۃ الرسالہ

المفردات امام راغب اصفہانی ، ۵۰۲ھ بیروت، دارالقلم، ۱۴۱۲ھ

الاتقان امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی، ۹۱۱ھ مصر، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی

الشفاء قاضی ابوالفضل عیاض، ۵۴۴ھ بیروت، دارالکتاب العربی

شرح الشفاء امام ملا علی قاری بن سلطان بن محمد، ۱۰۱۴ھ مصر، قاہرہ، ۱۳۰۹ھ

المواھب اللدنیہ امام احمد بن محمد القسطلانی ، ۹۱۱ھ بیروت، دارالمعرفۃ، ۱۹۷۳ء

البدایہ والنھایہ امام ابو الفداء اسماعیل بن کثیر، ۷۷۴ھ بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۹ھ

تاریخ ابن خلدون عبدالرحمن بن خلدون، ۸۰۸ھ بیروت، دارالکتب العلمیہ

دولۃ الاسلام فی الاندلس کتاب مصنف

مطبع المنقذ من الضلال امام ابو حامد محمد غزالی ، ۵۰۵ھ

کتاب الأم امام شافعی قانون التأویل

قاضی ابوبکر ابن عربی الفتاویٰ الھندیہ ترکی، المکتبہ الاسلامیہ

القاموس المحیط محمد بن یعقوب الفیروز آبادی مصر، مطبعہ مصطفی البابی الحلبی، ۱۹۵۲ء

المنجد لوئیس معلوف ایران

بالِ جبریل علامہ محمد اِقبال، ۱۹۳۸ء پاکستان

Ahmad Y. al-Hassan, Islamic Techonology, New York: Cambridge University Press, ۱۹۹۴

Ameer Ali, The Spirit of Islam

Bernard Lewis, The Muslim Discovery of Europe, London, Phoenix, ۱۹۸۸

Dr. Mustafa Siba'i, Some Glittering Aspects of the Islamic Civilization

George Bush, The Life of Muhammad

Gerhard Endress, An Introduction to Islam, Edinburgh University Press, ۱۹۹۴

H. E. Bornes, A History of Historical Writings

J. Bronowski, The Ascent of Man

J. J. Witkam, Catalogue of Arabic Manuscripts

Joseph Schacht (ed), C. E. Bosworth (ed), The Legacy of Islam

Maurice Bucaille, The Bible, the Qur'an and Science

Nasim Butt, Islam and Muslim Societies, London: Crey Seal

Philip Hitti, History of Arabs

Robert Briffault, The Making of Humanity

S. H. Nasr, Islamic Sciences

Stanwood Cobb, Islam's Contribution to World Culture

Stephen Hawking, A Brief History of Time

Strassbury, Zeitsechrift fues Assyriologie ,

W. Montgomery Watt, The Influence of Islam on Medieval Europe, Edinburgh University Press, ۱۹۹۴

W. Montgomery Watt and Pierre Cachia, A History of Islamic Spain, Edinburgh University Press, ۱۹۹۲

Muhammad, The Educator

Studies in the History of Medical Sciences

تشکر: عبد الستّار منہاجین، مرتّب کتاب

ان پیج سے تبدیلی اور عملِ لفظی: اعجاز عبید، تدوین: اعجاز عبید، جویریہ مسعود

اردو لائبریری ڈاٹ آرگ، کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب ڈاٹ ۲۵۰ فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش

http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com, http://kutub.۲۵۰free.com

فہرست

عرضِ مرتب ۴

حصہ اوّل ۷

سائنسی شعور کے فروغ میں اِسلام کا کردار ۷

باب اوّل ۷

قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب ۷

آیاتِ ترغیبِ علم ۸

کائنات میں غور و فکر کی ترغیب ۸

باب دوم ۱۵

اِسلام اور سائنس میں عدم مغائرت ۱۵

مذہب اور سائنس میں تعلق ۱۶

دَورِ حاضر کا المیہ ۱۷

مذہب اور سائنس میں عدم تضاد ۱۸

(۱) بنیاد میں فرق ۱۸

(۲) دائرۂ کار میں فرق ۱۹

(۳)۔ اِقدام و خطاء کا فرق ۲۰

مغالطے کے اَسباب ۲۱

پہلا سبب۔ ۔ ۔ سولہویں صدی کے کلیسائی مظالم ۲۱

دُوسرا سبب۔ ۔ ۔ علمائے اِسلام کی سائنسی علوم میں عدم دِلچسپی ۲۳

باب سوم ۲۵

قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ ۲۵

عالمِ اِسلام میں تہذیب و ثقافت کا فروغ ۲۷

علوم القرآن ( Quranic Sciences ) ۲۹

علمِ ہیئت و فلکیات ( Astronomy ) ۳۱

حساب،الجبرا،جیومیٹری ( Mathematics, Algebra, Geometry ) ۳۳

طبیعیات،میکانیات اورحرکیات( Physics, Mechanics, Dynamics ) ۳۴

علم بصریات ( Optics ) ۳۵

علمُ النباتات ( Botany ) ۳۵

علمُ الطب ( Medical Science ) ۳۸

علم ادویہ سازی ( Pharmacology ) ۴۱

علمُ الجراحت ( Surgery ) ۴۲

علمِ اَمراضِ چشم ( Ophthalmology ) ۴۴

بیہوش کرنے کا نظام ( Anaesthesia ) ۴۵

علمُ الکیمیا ( Chemistry ) ۴۵

فنونِ لطیفہ( Fine Arts ) ۴۷

علمِ فقہ و قانون ( Law / Jurisprudence ) ۴۷

علم تاریخ اور عمرانیات ( Historiography / Sociology ) ۵۰

جغرافیہ اور مواصلات ( Geography / Communications ) ۵۰

اِسلامی سائنس اور مستشرقین کے اِعترافات ۵۲

باب چہارُم ۵۸