اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس7%

اسلام اور جدید سائنس مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

اسلام اور جدید سائنس
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 48 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 73753 / ڈاؤنلوڈ: 6345
سائز سائز سائز
اسلام اور جدید سائنس

اسلام اور جدید سائنس

مؤلف:
اردو

باب سوم

قرونِ وُسطیٰ میں سائنسی علوم کا فروغ

تاجدارِ کائنات (ص) کی بعثت سے تاریخِ اِنسانیت میں علم و فن ، فکر و فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی اور ثقافت کے نئے اسالیب کا آغاز ہوا اور دُنیا علمی اور ثقافتی حوالے سے ایک نئے دَور میں داخل ہوئی۔ آپ(ص) پر نازِل ہونے والے صحیفۂ اِنقلاب نے اِنسانیت کو مذہبی حقائق سمجھنے کے لئے تعقّل و تدبّر اور تفکّر و تعمق کی دعوت دی۔( اَفَلاَ تَعقِلُونَ ) (تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟)،( اَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ ) (وہ غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟) اور( اَلَّذِینَ یَتَفَکَّرُونَ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ ) (جو لوگ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں) جیسے الفاظ کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے اپنے کلامِ برحق میں بار بار عقلِ اِنسانی کو جھنجھوڑا اَور اِنسانی و کائناتی حقائق اور آفاقی نظام کو سمجھنے کی طرف متوجہ کیا۔ اِس طرح مذہب اور فلسفہ و سائنس کی غیریت بلکہ تضاد و تصادُم کو ختم کر کے اِنسانی علم و فکر کو وحدت اور ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا گیا۔ تاجدارِ رحمت (ص) کے اِس اِحسان کا بدلہ اِنسانیت رہتی دُنیا تک نہیں چکا سکتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک دُنیا میں جس قدر علمی و فکری اور ثقافتی و سائنسی ترقی ہوئی ہے یا ہو گی وہ سب دینِ اِسلام کے اِنقلاب آفریں پیغام کا نتیجہ ہے، جس کے ذریعے علم و فکر اور تحقیق و جستجو کے نئے دَر وَا ہوئے۔ معلّمِ اِنسانیت (ص) کی بعثت سے قبل دُنیا میں علم، فلسفہ اور سائنس کی ترقی کا جو بھی معیار تھا اُس کی بنیاد سقراط ( Socrates )، اَفلاطون ( Plato ) اور اَرسطو ( Aristotle ) کے دیئے گئے نظریات پر تھی۔ آمدِ دینِ مصطفی (ص) سے قبل یونان ( Greece ) اور اسکندریہ ( Alexandria ) کی سرزمین علم کی سرپرستی کرتی رہی تھیں۔ اُن مخصوص خطہ ہائے زمین کے علاوہ دُنیا کا بیشتر حصہ جہالت کی تاریکی میں گم تھا۔سرزمینِ عرب کا بھی یہی حال تھا، جہاں کے لوگ اپنی جہالت اور جاہلیت پر فخر کرتے تھے۔ قدیم یونان، اسکندریہ اور رُوما (اٹلی) میں علم اور تمدّن کی ترقی کا کوئی فائدہ اہلِ عرب کو اِس لئے نہ تھا کہ اُن کے مابین زبانوں کا بہت فرق تھا۔ تاہم جاہلی عرب میں بعض علوم و فنون کا اپنا رواج اور ماحول تھا۔ مختلف علمی و اَدبی میدانوں میں عربوں کا اپنا مخصوص ذوق اور اُس کے اِظہار کا اپنا ایک مخصوص انداز ضرور تھا۔ ایسے حالات میں قرآنِ مجید کی پہلی آیاتِ طیبات الٰہیات، اَخلاقیات، فلسفہ اور سائنس کا پیغام لے کر نازل ہوئیں۔

اِرشادِ ربانی ہوا:

( اِقرَا بِاسمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍ اِقرَا وَ رَبُّکَ الاَکرَمُ الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِ عَلَّمَ الاِنسَانَ مَا لَم یَعلَم ) (العلق،۹۶:۱۔۵)

(اے حبیب (ص)) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا O اُس نے اِنسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وُجود سے پیدا کیا O پڑھئے اور آپ کا ربّ بڑا ہی کریم ہے O جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا O جس نے اِنسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاتاجدارِ رحمت (ص) پر نازِل ہونے والی پہلی وحی کی پہلی آیت نے اِسلامی ’الٰہیات‘ و ’اَخلاقیات‘ کی علمی بنیاد فراہم کی، دُوسری آیت نے ’حیاتیات‘ اور ’جینیات‘ کی سائنسی اَساس بیان کی، تیسری آیت نے اِنسان کو اِسلامی عقیدہ و فلسفۂ حیات کی طرف متوجہ کیا، چوتھی آیت نے فلسفۂ علم و تعلیم اور ذرائعِ علم پر روشنی ڈالی اور پانچویں آیت نے علم و معرفت، فکر و فن اور فلسفہ و سائنس کے تمام میدانوں میں تحقیق و جستجو کے دروازے کھول دیئے۔ حضور(ص) نے اپنی حیاتِ طیبہ میں علم و فن اور تعلیم و تعلم کی ایسی سرپرستی فرمائی کہ اپنی جہالت پر فخر کرنے والی اُمیّ (اَن پڑھ) قوم تھوڑے ہی عرصہ میں پوری دُنیا کے علوم و فنون کی اِمام و پیشوا بن گئی اور شرق سے غرب تک علم و اَخلاق اور فلسفہ و سائنس کی روشنی پھیلانے لگی۔ وہ عرب قوم۔ ۔ ۔ جسے علم و سائنس کی راہ پر ڈالنے کے لئے حضور(ص) نے غزوۂ بدر کے کافر قیدیوں کے لئے چار ہزار درہم زرِ فدیہ کی خطیر رقم چھوڑتے ہوئے دس دس مسلمان بچوں کو پڑھانے کا فدیہ مقرر کر دیا تھا۔ ۔ ۔ اِسلام کی اَوائل صدیوں کے اندر ہی پوری دُنیائے اِنسانیت کی معلّم بن کر اُبھری۔ اور اُس نے سائنسی علوم کو اَیسی مضبوط بنیادیں فراہم کیں جن کا لوہا آج بھی مانا جاتا ہے۔ اِس باب میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ اُس نے اِنسانی ذِہن کو اپنے وُجود اور نظامِ کائنات کے حقائق کو سمجھنے کے لئے دعوتِ غور و فکر دی۔

کلامِ مجید میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:

( سَنُرِیهِم اٰیَاتِنَا فِی الاٰفَاقِ وَ فِی اَنفُسِهِم حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَهُم اَنَّهُ الحَقُّ ) (حم السجدہ،۴۱:۵۳)

ہم عنقریب اُنہیں اپنی نشانیاں خارجی کائنات ( universal phenomenon ) میں اور اُن کے وُجودوں ( human world ) کے اندر دِکھا دیں گے، حتی کہ اُن پر آشکار ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے۔

تاجدارِ کائنات (ص) نے اُس جاہل بدوی قوم کو حقائق کے تجزیہ و تعلیل کا مزاج دیا، حقائقِ کائنات میں جستجو اور تحقیق کا ذَوق دیا۔ کائنات کی تخلیق سے لے کر اُس کے اِختتام تک اور اِنسان کی تخلیق سے لے کر اُس کی موت تک، پھر موت سے قیامت تک کے اَحوال پر غور و فکر کے لئے بھی بنیادی مواد فراہم کیا۔ اِس طرح کائناتی اور اِنسانی علوم ( sciences ) کی ترقی کی راہیں تسلسل کے ساتھ کھلتی ہی چلی گئیں ۔ چنانچہ اُمتِ مسلمہ میں علمی ذوق نے اِس حد تک فروغ پایا کہ حکم قرآنی "عَلَّمَ بِالقَلَمِ" کا اِشارہ پاکر مسلم اہلِ علم نے "قلم" کی تاریخی تحقیق کا بھی حق اَدا کر دیا۔ یہاں تک کہ اِمام عبدالرحمن بن محمد بن علی الحنفی البسطامی نے ابوالبشر سیدنا آدمؑ سے لے کر اپنے دَور تک قلم کے جملہ مناہج و اَسالیب کی تاریخ پر ایک کتاب لکھی، جس کا نام "مباھجُ الأعلام فی مناھجِ الأقلام " رکھا۔ اُس کتاب میں اُنہوں نے ۱۵۰ سے زائد قلموں اور اُن کے اَدوار و اَحوال کی تاریخ مرتب کی ہے۔ غالباً یہ دُنیا میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام ہے۔ اُس کا مخطوطہ یونیورسٹی آف لیڈن (ہالینڈ) میں محفوظ ہے۔ برائے حوالہ ملاحظہ ہو:

Catalogue of Arabic Manuscripts (xxi) Fasciule ۲ by J. J. Witkam, (Leiden University Press, Leiden, ۱۹۸۴ )

عالمِ اِسلام میں تہذیب و ثقافت کا فروغ

اِبنِ حوقل نے بیان کیا ہے کہ قرونِ وُسطیٰ میں اِسلامی اور عرب دُنیا میں شرحِ خواندگی اور تعلیم و تعلم ( education / literacy ) کے شغل نے یہاں تک ترقی کی کہ صرف سسلی ( Sicily ) جیسے ایک چھوٹے سے شہر میں ۶۰۰ پرائمری سکول موجود تھے اور اُن کی وُسعت کا یہ عالم تھا کہ ابو القاسم بلخی کی رِوایت کے مطابق ۳۰۰۰ طلباء صرف اُن کے اپنے اِنسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم تھے۔ اِسی طرح دمشق ( Damascus )، حلب ( Halab )، بغداد ( Baghdad )، موصل ( Mosul )، مصر ( Egypt )، بیتُ المقدس ( Jerusalem )، بعلبک، قرطبہ ( Cordoba )، نیشاپور اور خراسان ( Central Asia ) وغیرہ بھی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے معمور تھے۔ ’جامعہ نظامیہ بغداد‘۔ ۔ ۔ جو پانچویں صدی سے نویں صدی ہجری تک دُنیا کی عظیم ترین یونیورسٹی تھی۔ ۔ ۔ اُس میں ریگولر طلبہ کی تعداد ۶,۰۰۰رہتی تھی۔

دسویں صدی میں بقول اِمام نعیمی، صرف شہر دمشق میں فقہ و قانون( law and jurisprudence ) کے کالجز اور جامعات کا عالم یہ تھا کہ ۶۳ تعلیمی اِدارے فقہ شافعی کے تھے، ۵۲ فقہ حنفی کے،۱۱ فقہ حنبلی کے اور ۴ فقہ مالکی کے تھے۔ اِس کے علاوہ علمُ الطب ( medical sciences )کے سکول اور کالج الگ تھے۔

اِمام ابنِ کثیر تاریخ پر اپنی کتاب ’البدایہ والنہایہ‘ میں سن ۶۳۱ھ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اُس سال ’مدرسہ مستنصریہ‘ کی تعمیر مکمل ہوئی، جو اُس وقت کی قانون کی سب سے بڑی درسگاہ تھی۔ اُس میں چاروں فقہی و قانونی مکاتبِ فکر کے ۶۲، ۶۲ ماہرین و متخصّصین فقہ و قانون کے شعبوں میں تدریس کے لئے تعینات تھے۔

اِسلامی تاریخ کا سب سے پہلا باقاعدہ ہسپتال اُموی خلیفہ ’ولید بن عبدالملک‘ (۸۶ھ تا ۹۶ھ) کے زمانے میں پہلی صدی ہجری میں ہی تعمیر ہو گیا تھا۔ اُس سے قبل ڈسپنسریاں ( dispensaries ) موبائل میڈیکل یونٹ ( mobile medical units ) اور میڈیکل ایڈ سنٹرز ( medical aid centres ) وغیرہ موجود تھے، جو عہدِ رسالت مآب (ص) میں غزوۂ خندق کے موقع پر بھی مدینہ طیبہ میں کام کر رہے تھے۔ اُس ہسپتال میں indoor patients کے باقاعدہ وارڈز تھے اور ڈاکٹروں کو رہائش گاہوں کے علاوہ بڑی معقول تنخواہیں بھی دی جاتی تھیں۔

اِسلامی تاریخ کے اُس دورِ اوائل کے ہسپتالوں میں درج ذیل شعبہ جات مستقل طور پر قائم ہو چکے تھے:

۱- Department of Systematic Diseases

۲- Ophthalmic department

۳- Surgical department

۴- Orthopaedic department

۵- Department of mental diseases

اُن میں سے بعض بڑے ہسپتالوں کے ساتھ میڈیکل کالج ( medical colleges ) بھی متعلق کر دیئے گئے تھے, جہاں پوری دُنیا کے طلبہ medical science کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دمشق کا ’نوری ہسپتال‘ ( Noorie Hospital ) اور مصر کا ’ابنِ طولون ہسپتال‘ ( Ibn-i-Tulun Hospital ) اِس سلسلے میں بڑے نمایاں تھے۔ ابنِ طولون میڈیکل کالج میں اِتنی عظیم لائبریری موجود تھی جو صرف medical sciences ہی کی ایک لاکھ سے زائد کتابوں پر مشتمل تھی۔ ہسپتالوں کا نظام دَورِ جدید کے مغربی ہسپتالوں کی طرح نہایت منظم اور جامع تھا اور یہ معیار دمشق ، بغداد، قاہرہ،بیتُ المقدس، مکہ، مدینہ اور اندلس ہر جگہ برقرار رکھا گیا تھا۔ بغداد کا ’اَزدی ہسپتال‘ ( Azdi Hospital )جو ۳۷۱ھ میں تعمیر ہوا، دمشق کا ’نوری ہسپتال‘ ( Noorie Hospital )، مصر کا ’منصوری ہسپتال‘ ( Mansuri Hospital ) اور مراکش کا ’مراکو ہسپتال‘ ( Moroccan Hospital ) اُس وقت دُنیا کے سب سے بڑے اور تمام ضروری سہولتوں اور آلات سے لیس ہسپتال تھے۔

اِسلامی تعلیمات کی بدولت ملنے والی ترغیب سے مسلمان تو تعلیم اور صحت کے میدانوں میں ترقی کی اِس اَوج پر فائز تھے جبکہ یورپ کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہ تھا۔ مسلمانوں کے علمی شغف کا یہ عالم تھا کہ اِسلامی دُنیا کے ہر شہر میں پبلک اور پرائیویٹ لائبریریوں کی قابلِ رشک تعداد موجود تھی اور بیشتر لائبریریاں لاکھوں کتابوں کا ذخیرہ رکھتی تھی۔ قرطبہ ( Cordoba )، غرناطہ ( Granada )، بغداد ( Baghdad ) اور طرابلس ( Tarabulus ) وغیرہ کی لائبریریاں دُنیا کا عظیم تاریخی اور علمی سرمایہ تصوّر ہوتی تھیں۔

علوم القرآن ( Quranic Sciences )

قرآنِ مجید ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو ہمیں اِنسانی زِندگی کے ہر گوشے سے متعلق ہدایت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایک اَیسی کتابِ ہدایت ہے جس سے تمام علوم کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ چنانچہ اَوائل دورِ اِسلام ہی سے قرآنِ مجید کو منبعِ علوم تصوّر کرتے ہوئے اُس سے مستنبط ہونے والے علوم و فنون پر کام کیا گیا۔ قاضی ابو بکر بن عربی اپنی کتاب ’قانونُ التأویل‘ میں بیان کرتے ہیں کہ قرآنی علوم کی تعداد ۷۷,۴۵۰ ہے۔ مسلمان اہلِ علم نے صرف مطالعۂ قرآن کے ذریعے جو علمی و اَدبی اور سائنسی و سماجی علوم و فنون اَخذ کئے اُن میں سے چند ایک یہ ہیں:

علمُ التوحید ( theology )

علمُ القراۃ والتجوید ( pronunciation )

علمُ النحو ( grammar / syntax )

علمُ الصرف ( morphology )

علمُ التفسیر ( exegesis )

علمُ اللغہ ( linguistics )

علمُ الاصول ( science of fundamentals )

علمُ الفروع ( science of branches )

علمُ الکلام ( theology )

علمُ الفقہ والقانون ( law / jurisprudence )

علمُ الفرائض والمیراث( law of inheritance )

علمُ الجریمہ ( criminology )

علمُ الحرب ( science of war )

علمُ التاریخ ( history )

علمُ التزکیہ والتصوف ( theosophy )

علمُ التعبیر ( oneiromancy )

علمُ الادب ( literature )

علمُ البلاغت، المعانی، البیان، البدیع ( rhetoric )

علمُ الجبر و المقابلہ ( algebra )

علمُ المناظرہ ( polemics )

علمُ الفلسفہ ( philosophy )

علمُ النفسیات ( psychology )

علمُ الاَخلاق ( ethics )

علمُ السیاسہ ( political science )

علمُ المعاشرہ ( sociology )

علمُ الثقافہ ( culture )

علمُ الخطاطی ( calligraphy )

علمُ المعیشت والاقتصاد( economics )

علمُ الکیمیا ( chemistry )

علمُ الطبیعیات ( physics )

علمُ الحیاتیات ( biology )

علمُ النباتات ( botany )

علمُ الزراعہ ( agronomy )

علمُ الحیوانات ( zoology )

علمُ الطب ( medical science )

علمُ الادویہ ( pharmacology )

علمُ الجنین ( embryology )

علم تخلیقیات ( cosmology )

علم کونیات ( cosmogony )

علمُ الہیئت ( astronomy )

علمِ جغرافیہ ( geography )

علمُ الارضیات ( geology )

علمُ الآثار ( archaeology )

علمُ المیقات ( timekeeping ) وغیرہ

اِسی طرح اَحادیثِ نبوی سے بھی ہزارہا علوم و فنون کا اِستنباط کیا گیا اور اگلی صدیوں میں اُن پر تحقیق کے ذریعے ہزاروں کتب کا بیش بہا ذخیرہ مرتب ہوا۔

اَب ہم اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند سائنسی اور سماجی علوم و فنون کے اِرتقاء میں ہونے والی پیش رفت کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔

علمِ ہیئت و فلکیات ( Astronomy )

علم ہیئت و فلکیات کے میدان میں مسلمان سائنسدانوں کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اُنہوں نے یونانی فلسفے کے گرداب میں پھنسے علمُ الہیئت کو صحیح معنوں میں سائنسی بنیادوں پر اُستوار کیا۔ مغربی زبانوں میں اَب بھی بے شمار اَجرام سماوی کے نام عربی میں ہیں، کیونکہ وہ مسلم ماہرینِ فلکیات کی دریافت ہیں۔

عظیم مغربی مؤرخ Prof Hitti لکھتا ہے:

Not only are most of the star ۔ ۔ ۔ names in European languages of Arabic origins ۔ ۔ ۔ but a numbers of technical terms ۔ ۔ ۔ are likewise of Arabic etymology and testify to the rich legacy of Islam to Christian Europe ."

( History of the Arabs, pp.۵۶۸-۵۷۳ )

ترجمہ: "یورپ کی زبانوں میں نہ صرف بہت سے ستاروں کے نام عربی الاصل (عربی زبان سے نکلنے والے) ہیں بلکہ لاتعداد اِصطلاحات بھی داخل کی گئی ہیں جو یورپ پر اِسلام کی بھرپور وراثت کی مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہیں"۔

اندلس کے عظیم مسلمان سائنسدان ابنِ رشد ۔ ۔ ۔ جسے مغرب میں Averroes کے بدلے ہوئے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ نے سورج کی سطح کے دھبوں ( sun spots ) کو پہچانا۔ Gregorian کیلنڈر کی اِصلاحات ’عمر خیام‘ نے مرتب کیں۔ خلیفہ مامون الرشید کے زمانہ میں زمین کے محیط کی پیمائشیں عمل میں آئیں، جن کے نتائج کی درُستگی آج کے ماہرین کے لئے بھی حیران کن ہے۔ سورج اور چاند کی گردِش، سورج گرہن، علمُ المیقات ( timekeeping ) اور بہت سے سیاروں کے بارے میں غیر معمولی سائنسی معلومات بھی البتانی اور البیرونی جیسے نامور مسلم سائنسدانوں نے فراہم کیں۔ مسلمانوں کی علمُ المیقات ( timekeeping ) کے میدان میں خصوصی دِلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ اِس علم کا تعلق براہِ راست نمازوں اور روزوں کے معاملات سے تھا۔ یاد رہے کہ البتانی (۸۷۷ء۔۹۱۸ء) اور البیرونی (۹۷۳ء۔۱۰۵۰ء) کا زمانہ صرف تیسری اور چوتھی صدی ہجری کا ہے، گویا یہ کام بھی آج سے گیارہ سو سال قبل انجام پذیر ہوئے۔

( History of the Arabs, pp.۳۷۳-۳۷۸ )

پنج وقتی نمازوں کے تعینِ اَوقات کی غرض سے ہر طول و عرض بلد پر واقع شہروں کے لئے مقامی ماہرینِ تقویم و فلکیات نے الگ الگ کیلنڈرز وضع کئے۔ رمضانُ المبارک کے روزوں نے طلوع و غروبِ آفتاب کے اَوقات کے تعین کے لئے پوری تقویم بنانے کی الگ سے ترغیب دی، جس سے بعد اَزاں ہر طول بلد پر واقع شہر کے مطابق الگ الگ کیلنڈرز اور پھر مشترکہ تقویمات کو فروغ ملا۔ یہاں تک کہ تیرہویں صدی عیسوی میں باقاعدہ طور پر ’مؤقّت‘ کا عہدہ وُجود میں آگیا، جو ایک پیشہ ور ماہرِ فلکیات ہوتا تھا۔

مغرب کے دورِ جدید کی مشاہداتی فلکیات( observational astronomy ) میں اِستعمال ہونے والا لفظ almanac بھی عربی الاصل ہے اِس کی عربی اصل ’المناخ‘ (موسم) ہے۔ یہ نظام بھی اصلاً مسلم سائنسدانوں نے اِیجاد کیا تھا۔ ’شیخ عبدالرحمن الصوفی ‘ نے اِس موضوع پر ایک عظیم کتاب ’صورُالکواکب‘ ( figures of the stars ) کے نام سے تصنیف کی تھی، جو جدید علمِ فلکیات کی بنیاد بنی۔ مستزاد یہ کہ اِس باب میں ’ابنُ الہیثم‘۔ ۔ ۔ جسے اہلِ مغرب لاطینی زبان میں Alhazen لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ کی خدمات بھی ناقابلِ فراموش سائنسی سرمایہ ہے۔ علمِ ہیئت و فلکیات ( astronomy ) اور علمِ نجوم ( astrology ) کے ضمن میں اندلسی مسلمان سائنسدانوں میں اگرچہ ’علی بن خلاف اندلسی‘ اور ’مظفرالدین طوسی‘ کی خدمات بڑی تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ مگر اُن سے بھی بہت پہلے تیسری صدی ہجری میں قرطبہ ( Cordoba ) کے عظیم سائنسدان ’عباس بن فرناس‘ نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر رکھا تھا جو دورِ جدید کی سیارہ گاہ ( Planetarium ) کی بنیاد بنا۔ اُس میں ستارے، بادل اور بجلی کی گرج چمک جیسے مظاہرِ فطرت کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ ’عباس بن فرناس‘ وہ عظیم سائنسدان ہے جس نے دُنیا کا سب سے پہلا ہوائی جہاز بنا کر اُڑایا۔ بعد اَزاں البیرونی ( al-Biruni ) اور ازرقیل ( Azarquiel ) وغیرہ نے equatorial instruments کو وضع کیا اور ترقی دی۔ اِسی طرح سمتِ قبلہ کے درُست تعین اور چاند اور سورج گرہن ( lunar / solar eclipses ) کو قبل اَز وقت دریافت کرنے، حتیٰ کہ چاند کی گردِش کا مکمل حساب معلوم کرنے کا نظام بھی البطانی، ابنِ یونس اور ازرقیل جیسے مسلم سائنسدانوں نے وضع کیا۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے Toledan Astronomical Tables مرتب کئے۔ چنانچہ بعض غیر مسلم مؤرخین نے اِس حقیقت کا اِن اَلفاظ میں اِعتراف کیا ہے:

" Muslim astrologers also discovered (around the thirteenth century) the system for giving the ephemerids of the sun and the moon --- later extended to the other planets --- as a function of concrete annual dates. Such was the origin of the almanacs which were to be so widely used when trans-oceanic navigation began ."

) The Legacy of Islam, pp. ۴۷۴-۴۸۲ (

ترجمہ: "مسلمان ماہرینِ فلکیات نے بھی (تیرہویں صدی عیسوی کے قریب) چاند اور سورج کو حرکت دینے والے نظام کو دریافت کیا اور بعد ازاں دُوسرے سیاروں کے حوالے سے تحقیق شروع کی۔ طے شدہ سالانہ تاریخوں کے حساب سے اور اُن تاریخوں کا رجسٹر کا آغاز کچھ ایسا تھا کہ اسے سمندر کو پار کرنے کے لئے جہازوں کی رہنمائی میں بہت زیادہ اِستعمال میں لایا گیا"۔

حساب،الجبرا،جیومیٹری ( Mathematics, Algebra, Geometry )

حساب، الجبرا اور جیومیٹری کے میدان میں ’الخوارزمی‘ مؤسسینِ علم میں سے ایک ہے۔ حساب میں algorism یا algorithm کا لفظ الخوارزمی ( al-Khwarizimi ) کے نام سے ہی ماخوذ ہے۔ اُن کی کتاب "الجبر و المقابلہ" کا بارہویں صدی عیسوی میں عربی سے لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں بنیادی نصابی کتاب ( textbook ) کے طور پر پڑھائی جاتی رہی اور اُسی سے عالمِ مغرب میں الجبرا متعارف ہوا۔ اُس کتاب میں ’تفرّق کے معکوس‘ ( integration ) اور ’مساوات‘ ( equation ) کی آٹھ سو سے زائد مثالیں دی گئی تھیں۔ مستزاد یہ کہ یورپ میں trigonometrical functions کا علم ’البتانی‘ کی تصانیف کے ذریعے اور tangents کا علم ’ابوالوفا‘ کی تصانیف کے ذریعے پہنچا۔ اسی طرح صفر ( zero ) کا تصوّر مغرب میں متعارف ہونے سے کم از کم ۲۵۰ سال قبل عرب مسلمانوں میں متعارف تھا۔ ابو الوفاء، الکندی، ثابت بن القرّاء، الفارابی، عمرخیام، نصیرالدین طوسی، ابنُ البناء المراکشی، ابنِ حمزہ المغربی، ابوالکامل المصری اور اِبراہیم بن سنان وغیرہ کی خدمات arithmetic ، algebra ، geometry اور trigonometry وغیرہ میں تأسیسی حیثیت کی حامل ہیں۔ حتیٰ کہ اِن مسلمان ماہرین نے باقاعدہ اُصولوں کے ذریعے optics اور mechanics کو بھی خوب ترقی دی۔ یہ بات بھی قابلِ ذِکر ہے کہ ’المراکشی‘ نے mathematics کی مختلف شاخوں پر ۷۰ کتابیں تصنیف کی تھیں, جو بعد اَزاں اِس علم کا اَساسی سرمایہ بنیں۔ الغرض مسلم ماہرین نے علمِ ریاضی کو یونانیوں سے بہت آگے پہنچا دیا اور یہی اِسلامی کام جدید mathematics کی بنیاد بنا۔

طبیعیات،میکانیات اورحرکیات( Physics, Mechanics, Dynamics )

قرونِ وُسطیٰ کے مسلمان سائنسدانوں میں سے ابنِ سینا، الکندی، نصیرالدین طوسی اور ملا صدرہ کی خدمات طبیعیات کے فروغ میں اِبتدائی طور پر بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بعد اَزاں محمد بن زکریا رازی، البیرونی او ر ابو البرکات البغدادی نے اُسے مزید ترقی دی۔ الرازی نے علمِ تخلیقیات ( cosmology ) کو خاصا فروغ دیا۔ البیرونی نے ارسطو ( Aristotole ) کے کئی طبیعیاتی نظریات کو ردّ کیا۔ البغدادی کی کتاب ’کتاب المعتبر‘ قدیم فزکس میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ حرکت ( motion ) اور سمتی رفتار ( velocity ) کی نسبت البغدادی اور ملاصدرہ کے نظریات و تحقیقات آج کے سائنسدانوں کے لئے بھی باعثِ حیرت ہیں۔ پھر ابنُ الہیثم نے density ، atmosphere ، measurements ، weight ، space ، time ، velocities ، gravitation ، capillary attraction جیسے موضوعات اور تصورات کی نسبت بنیادی مواد فراہم کر کے علمِ طبیعیات ( physics ) کے دامن کو علم سے بھر دیا۔ اِسی طرح mechanics اور dynamics کے باب میں بھی ابن سینا اور ملا صدرہ نے نمایاں خدمات سراَنجام دیں۔

ابنُ الہیثم کی ’کتابُ المناظر‘ ( optical thesaurus ) نے اِس میدان میں گرانقدر علم کا اِضافہ کیا۔ ابنِ باجّہ نے بھی dynamics میں نمایاں علمی خدمات اِنجام دیں۔ اُنہوں نے ارسطو کے نظریۂ رفتار کو ردّ کیا۔ اِسی طرح ابنِ رشد نے بھی اِس علم کو ترقی دی۔ اِن مسلم سائنسدانوں نے galileo سے بھی پہلے gravitational force کی خبر دی مگر اُن کا تصوّر دورِ حاضر کے تصوّر سے قدرے مختلف تھا۔ اِسی طرح momentum کا تصوّر بھی اِسلامی سائنس کے ذریعے مغربی دُنیا میں متعارف ہوا۔ ثابت بن قراء نے lever پر پوری کتاب لکھی، جسے مغربی تاریخ میں liber karatonis کے نام سے جانا جاتا ہے۔

بغداد کے دیگر مسلم سائنسدانوں نے تاریخ کے کئی mechanical devices اور gadgets وغیرہ پر بہت زیادہ سائنسی مواد فراہم کیا۔

علم بصریات ( Optics )

بصریات ( optics ) کے میدان میں تو اِسلامی سائنسی تاریخ کو غیر معمولی عظمت حاصل ہے۔ بقول پروفیسر آرنلڈ ( Arnold ) اِس میدان میں چوتھی صدی ہجری کے ابنُ الہیثم اور کمالُ الدین الفارسی کی سائنسی خدمات نے پچھلے نامور سائنسدانوں کے علم کے چراغ بجھادیئے۔ ابنُ الہیثم کی معرکۃُ الآراء کتاب " On Optics " آج اپنے لاطینی ترجمہ کے ذریعے زندہ ہے۔ اُنہوں نے تاریخ میں پہلی مرتبہ lenses کی magnifying power کو دریافت کیا اور اِس تحقیق نے magnifying lenses کے نظریہ کو اِنسان کے قریب تر کر دیا۔ ابنُ الہیثم نے ہی یونانی نظریۂ بصارت ( nature of vision ) کو ردّ کر کے دُنیا کو جدید نظریۂ بصارت سے رُوشناس کرایا اور ثابت کیا کہ روشنی کی شعاعیں ( rays ) آنکھوں سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ بیرونی اَجسام ( external objects ) کی طرف سے آتی ہیں۔ اُنہوں نے پردۂ بصارت ( retina ) کی حقیقت پر صحیح طریقہ سے بحث کی اور اُس کا optic nerve اور دِماغ ( brain ) کے ساتھ باہمی تعلق واضح کیا۔ الغرض ابنُ الہیثم نے بصریات کی دُنیا میں اِس قدر تحقیقی پیش رفت کی کہ Euclid اور Kepler کے درمیان اُس جیسا کوئی اور شخص تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وُہی جدید بصریات ( optics ) کے بانی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُن کے کام نے نہ صرف Witelo Roger Bacon اور Peckham جیسے قدیم سائنسدانوں کو ہی متاثر کیا بلکہ دورِ جدید میں Kepler اور Newton کے کام بھی اُن سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ مزید برآں اُن کا نام velocities ، light ، lenses ، astronomical observations ، meteorology اور camera وغیرہ پر تأسیسی شان کا حامل ہے۔ اِسی طرح قطبُ الدین شیرازی اور القزوینی نے بھی اِس میدان میں گرانقدر خدمات اِنجام دی ہیں۔

علمُ النباتات ( Botany )

اِس موضوع پر الدینوری (۸۹۵ء) کی چھ جلدوں پر مشتمل ’کتابُ النبات‘ سائنسی دُنیا میں سب سے پہلا ضخیم اور جامع Encyclopaedia Botanica ہے۔ یہ مجموعہ اُس وقت تحریر کیا گیا جب یونانی کتب کا عربی ترجمہ بھی شروع نہیں ہوا تھا۔

ایک مغربی سائنسی مورخ Strassburg لکھتا ہے:

" Anyhow it is astonishing enough that the entire botanical literature of antiquity furnishes us only two parallels to our book (of Dinawari). How was it that the Muslim people could, during so early a period of its literacy life, attain the level of the people of such a genius as the Hellenic one, and even surpassed it in this respect ."

) Zeitschrift fuer Assyriologie, Strassburg, vols. ۲۵,۴۴ )

ترجمہ "الغرض یہ ایک اِنتہائی حیران کن بات ہے کہ زمانۂ قدیم میں لکھا جانے والا علمِ نباتات کا مواد ہمیں الدنیوری کی کتاب جیسی صرف دو مثالیں پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اپنی تعلیمی زندگی کے اُس اِبتدائی دَور میں مسلمانوں نے قدیم یونان جیسے دانشور و محقق لوگوں کا درجہ حاصل کر لیا تھا بلکہ وہ اِس معاملے میں تو اُن سے بھی آگے نکل گئے تھے"۔

پروفیسر آرنلڈ کے مطابق دُنیا بھر سے مسلمانوں کے مکہ و مدینہ کی طرف حج اور زیارت کے لئے سفر کرنے کے عمل نے biological science کو خاصی ترقی دی ہے۔ الغفیقی اور الادریسی نے اندلس ( Spain ) سے افریقہ تک سفر کر کے سینکڑوں پودوں کی نسبت معلومات جمع کیں اور کتابیں مرتب کیں۔

ابنُ العوام نے ۵۸۵ پودوں کے خواص و اَحوال پر مشتمل کتاب مرتب کی اور علمُ النباتات ( botany ) کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا۔

پروفیسر Hitti بیان کرتا ہے:

" In the field of natural history especially botany, pure and applied, as in that of astronomy and mathematics, the western Muslims (of Spain) enriched the world by their researches. They made accurate observations on the sexual difference (of various plants

( Ameer Ali, The Spirit of Islam. pp. ۳۸۵-۳۸۷ )

ترجمہ: "قدرتی تاریخ کے میدان میں خاص طور پر خالص یا اطلاقی علم نباتات میں فلکیات اور ریاضیات کی طرح اندلس کے مغربی مسلمانوں نے اپنی تحقیقات کے ذریعہ سے دُنیا کو مستفید کیا۔ اِسی طرح مختلف پودوں میں پائے جانے والے جنسی اِختلاف کے بارے میں اُن (ابو عبداللہ التمیمی اور ابو القاسم العراقی) کی تحقیقات بھی علمُ النباتات کی تاریخ کا نادِر سرمایہ ہیں"۔

اِسلامی سپین کے فرمانروا عبدالرحمن اوّل نے قرطبہ ( Cordoba )میں ایک زرعی تحقیقاتی اِدارے "حدیقہ نباتاتِ طبیہ" کی بنیاد رکھی، جس سے نہ صرف علمِ نباتات ( botany ) کو مستحکم بنیادوں پر اُستوار کرنے کے مواقع میسر آئے بلکہ علمُ الطب ( medical sciences ) میں بھی تحقیق کے دَر وَا ہوئے۔ چنانچہ اندلس کے ماہرینِ نباتات نے پودوں میں جنسی اِختلاف کی موجودگی کو بجا طور پر دریافت کر لیا تھا۔ اِس دریافت میں جہاں اُنہیں "حدیقہ نباتاتِ طبیہ" میں کی گئی تجربی تحقیقات نے مدد دی وہاں اللہ ربّ العزت کے فرمان "خَلَقَ ﷲ کُلَّ شَیئٍ زَوجًا" (اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو جوڑا جوڑا بنایا) نے بھی بنیادی رہنمائی عطا کی۔

عبداللہ بن عبدالعزیز البکری نے ’کتاب اَعیان النبات و الشجریات الاندلسیہ‘ کے نام سے اندلس کے درختوں اور پودوں کے خواص مرتب کئے۔ اشبیلیہ کے ماہرِ نباتات ( botanist ) ابنُ الرومیہ نے اندلس کے علاوہ افریقہ اور ایشیا کے بیشتر ممالک کی سیاحت کی اور اُس دوران ملنے والے پودوں اور جڑی بوٹیوں پرخالص نباتی نقطۂ نظر سے تحقیقات کیں۔ اِس کے علاوہ ابنُ البیطار، شریف اِدریسی اور ابنِ بکلارش بھی اندلس کے معروف ماہرینِ نباتا ت میں سے ہیں۔

حصہ اوّل

سائنسی شعور کے فروغ میں اِسلام کا کردار

باب اوّل

قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب

اِسلام کا فلسفۂ زندگی دیگر اَدیانِ باطلہ کی طرح ہرگز یہ نہیں کہ چند مفروضوں پر عقائد و نظریات کی بنیادیں اُٹھا کر اِنسان کی ذِہنی صلاحیتوں کو بوجھل اور بے معنی فلسفیانہ مُوشگافیوں کی نذر کر دیا جائے اور حقیقت کی تلاش کے سفر میں اِنسان کو اِس طرح ذِہنی اُلجھاؤ میں گرفتار کر دیا جائے کہ اُس کی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ جائیں۔ اِسلام نے کسی مرحلہ پر بھی اِنتہاء پسندی کی حوصلہ اَفزائی نہیں کی، بلکہ اِس کے برعکس اِسلام کی فطری تعلیمات نے ہمیشہ ذہنِ اِنسانی میں شعور و آگہی کے اَن گنت چراغ روشن کر کے اُسے خیر و شر میں تمیز کا ہنر بخشا ہے۔ اِسلام نے اپنے پیروکاروں کو سائنسی علوم کے حصول کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ اِعتدال کی راہ دِکھا ئی ہے۔ اِسلام نے اِس کارخانۂ قدرت میں اِنسانی فطرت اور نفسیات کے مطابق اِنسان کو اَحکامات اور ضابطوں کا ایک پورا نظام دیا ہے اور اُس کے ظاہر و باطن کے تضادات کو مٹا کر اُسے اپنے نصبُ العین کی سچائی کا شعور عطا کیا ہے۔

تاریخِ علوم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اپنی جملہ توانائیوں کے ساتھ ہمارے ذِہن پر روشن اور واضح ہوتی ہے کہ آفاق ( universe ) اور اَنفس ( human life ) کی رہگزر فکر و نظر کے اَن گنت چراغوں سے منوّر ہے۔ غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے، کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے اپنے سفر کی اِبتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذریعہ سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ اِنسان کو قرآنی اَحکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اُس دَور میں بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اور سائنسی علوم کو اَیسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی۔

یہاں ہم قرآنِ مجید کی چند ایسی آیاتِ کریمہ پیش کر رہے ہیں جن کے مطالعہ سے قرونِ اولیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی تحقیقات کی طرف ترغیب ملی اور اُس کے نتیجے میں بنی نوعِ اِنسان نے تجرّبی توثیق کو حقیقت تک رسائی کی کسوٹی قرار دے کر تحقیق و جستجو کے نئے باب روشن کئے:

آیاتِ ترغیبِ علم

( إِنَّمَا يَخْشَی اللَّه مِنْ عِبَادِه الْعُلَمَاء ) (فاطر، ۳۵:۲۸) اللہ سے تو اُس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں (جو صاحبِ بصیرت ہیں)۔

( قُلْ هلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ ) (الزمر، ۳۹:۹) آپ فرما دیجئے کہ علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں! تحقیق سوچتے وُہی ہیں جو صاحبِ عقل ہیں( وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ) (المجادلۃ، ۵۸:۱۱) اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہے (ﷲ) اُن لوگوں کے درجے بلند کرے گا۔

( وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهلِينَ ) (الاعراف،۷:۱۹۹) اور جاہلوں سے کنارہ کشی اِختیار کر لیں( وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ ) (آل عمران، ۳:۷) اور نصیحت صرف اہلِ دانش ہی کو نصیب ہوتی ہے( وَ قُل رَّبِّ زِدنِی عِلماً ) (طہٰ، ۲۰:۱۱۴) اور آپ (ربّ کے حضور یہ) عرض کریں کہ اَے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے( اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ) (العلق، ۹۶:۱) (اے حبیب!) اپنے ربّ کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا( فَاسْأَلُواْ أَهلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ ) (النحل، ۱۶:۴۳) سو تم اہلِ ذِکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو

کائنات میں غور و فکر کی ترغیب

( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ وَالْفُلْكِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا ینفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّه مِنَ السَّمَاء مِن مَّاء فَأَحْیا بِه الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِها وَبَثَّ فِیها مِن كُلِّ دَآبَّة وَتَصْرِیفِ الرِّیاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَینَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ) (البقرہ، ۲:۱۶۴) بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دِن کی گردش میں اور اُن جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اُٹھا کر چلتی ہیں اور اُس (بارش) کے پانی میں جسے اللہ آسمان کی طرف سے اُتارتا ہے، پھر اُس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے، (وہ زمین) جس میں اُس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اُس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (اِن میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہیہ کی بہت سی) نشانیاں ہیں( إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ لآیاتٍ لاِوْلِی الألْبَابِ الَّذِینَ یذْكُرُونَ اللّه قِیامًا وَقُعُودًا وَعَلَی جُنُوبِهمْ وَیتَفَكَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ) (آل عمران، ۳:۱۹۰.۱۹۱) بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا اَدب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروَٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں:) اَے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے( إَنَّ الَّذِینَ لاَ یرْجُونَ لِقَاءنَا وَرَضُواْ بِالْحَیاة الدُّنْیا وَاطْمَأَنُّواْ بِها وَالَّذِینَ همْ عَنْ آیاتِنَا غَافِلُونَ ) (یونس، ۱۰:۶) بیشک رات اور دِن کے بدلتے رہنے میں اور اُن (جملہ) چیزوں میں جو اللہ نے آسمانوں اور زمین میں پیدا فرمائی ہیں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو تقویٰ رکھتے ہیں( وَهوَ الَّذِی مَدَّ الأَرْضَ وَجَعَلَ فِیها رَوَاسِی وَأَنْهارًا وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیها زَوْجَینِ اثْنَینِ یغْشِی اللَّیلَ النَّهارَ إِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّقَوْمٍ یتَفَكَّرُونَ وَفِی الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیرُ صِنْوَانٍ یسْقَی بِمَاء وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَها عَلَی بَعْضٍ فِی الأُكُلِ إِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ) (الرعد، ۱۳:۳.۴) اور وُہی ہے جس نے (گولائی کے با وُجود) زمین کو پھیلایا اور اُس میں پہاڑ اور دریا بنائے اور ہر قسم کے پھلوں میں (بھی) اُس نے دو دو (جنسوں کے) جوڑے بنائے، (وُہی) رات سے دِن کو ڈھانک لیتا ہے، بیشک اِس میں تفکر کرنے والے کے لئے (بہت) نشانیاں ہیں اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دُوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں جھنڈ دار اور بغیر جھنڈ کے، اُن (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور (اُس کے با وُجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں۔ بیشک اِس میں عقلمندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں( هُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء لَّکُم مِّنهُ شَرَابٌ وَّ مِنهُ شَجَرٌ فِیهِ تُسِیمُونَ یُنبِتُ لَکُم بِهِ الزَّرعَ وَ الزَّیتُونَ وَ النَّخِیلَ وَ الأَعنَابَ وَ مِن کُلِّ الثَّمَرٰتِ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَومٍ یَّتَفَکَّرُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۰.۱۱) وُہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اُتارا، اُس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اُسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے (جس سے نباتات، سبزے اور چراگاہیں اُگتی ہیں) جن میں تم (اپنے مویشی) چراتے ہو اُسی پانی سے تمہارے لئے کھیت اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (اور میوے) اُگاتا ہے۔ بیشک اِس میں غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے نشانی ہے( أَ اَوَلَمْ یتَفَكَّرُوا فِی اَنفُسِهمْ مَا خَلَقَ اللَّه السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَینَهمَا اِلاَ بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی ) (الروم، ۳۰:۸) کیا اُنہوں نے اپنے دِل میں غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے سب کو (اپنی) مصلحت (اور حکمت) ہی سے ایک معینہ مدّت کے لئے (عارضی طور پر) پیدا فرمایا ہے۔

( وَمِنْ آیاتِه خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ اِنَّ فِی ذَلِكَ لاَیاتٍ لِّلْعَالِمِینَ ) (الروم، ۳۰:۲۲) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اِختلاف اُس کی نشانیوں میں سے ہے۔ بیشک اِس میں علم رکھنے والوں کے لئے (حیرت انگیز اور مستند) نشانیاں ہیں( وَاخْتِلاَفِ اللَّیلِ وَالنَّهارِ وَمَا اَنزَلَ اللَّه مِنَ السَّمَاء مِن رِّزْقٍ فَاَحْیا بِه الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها وَتَصْرِیفِ الرِّیاحِ آیاتٌ لِّقَوْمٍ یعْقِلُونَ ) O (الجاثیہ، ۴۵:۵) اور شب و روز کے یکے بعد دیگرے آنے جانے میں اور اُس رزق میں جو اللہ آسمان سے اُتارتا ہے، پھر جس سے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زِندہ فرماتا ہے اور ہواؤں کے بدلنے میں عقل سے کام لینے والوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں( وَمَا مِن دَآبَّة فِی الاَرْضِ وَلاَ طَائِرٍ یطِیرُ بِجَنَاحَیه اِلاَ اُمَمٌ اَمْثَالُكُم مَّا فَرَّطْنَا فِی الكِتَابِ مِن شَیءٍ ثُمَّ اِلَی رَبِّهمْ یحْشَرُونَ ) (الانعام، ۶:۳۸) اور (اے اِنسانو!) کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اُڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں۔ ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحۃً یا اِشارۃً بیان نہ کر دیا ہو)، پھر سب (لوگ) اپنے ربّ کے پاس جمع کئے جائیں گے( هوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَه مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِینَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّه ذَلِكَ اِلاَ بِالْحَقِّ یفَصِّلُ الآیاتِ لِقَوْمٍ یعْلَمُونَ ) (یونس، ۱۰:۵) وُہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اُس سے) روشن (کیا) اور اُس کے لئے (کم و بیش دِکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اَوقات کا) حساب معلوم کر سکو اور اللہ نے یہ (سب کچھ) درُست تدبیر کے ساتھ ہی پیدا فرمایا ہے۔ وہ (اِن کائناتی حقائق کے ذریعے اپنی خالقیّت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں علم رکھنے والے لوگوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہے( وَ لَقَد خَلَقَنَا فَوقَکُم سَبعَ طَرَآئِقَ وَ مَا کُنَّا عَنِ الخَلقِ غَافِلِینَ ) (المؤمنون، ۲۳:۱۷) اور بیشک ہم نے تمہارے اُوپر (کرۂ ارضی کے گرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اُس کی حفاظت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھے( قُلْ اَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْاَرْضَ فِی یوْمَینِ وَتَجْعَلُونَ لَه اَندَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِینَ وَ جَعَلَ فِیهَا رَوَاسِیَ مِن فَوقِهَا وَ بَارَکَ فِیهَا وَ قَدَّرَ فِیهَا أَقوَاتَهَا فِیٓ أَربَعَةِ أَیَّامٍ سَوَآءً لِّلسَّائِلِینَ ثُمَّ استَوٰی إِلَی السَّمَآءِ وَ هِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلأَرضِ ائتِیَا طَوعًا أَو کَرهًا قَالَتَا أَتَینَا طَآئِعِینَ فَقَضَاهُنَّ سَبعَ سَمٰوٰتٍ فِی یَومَینِ وَ اَوحٰی فِی کُلِّ سَمَآءٍ اَمرَهَا وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنیَا بِمَصابِیحَ وَ حِفظًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (حم السجدہ، ۴۱:۹.۱۲) آپ (ذرا اُن سے) پوچھئے: کیا تم لوگ اُس (کی ذات) سے منکر ہو جس نے دو اَدوار میں زمین بنائی اور تم اُس کے (ساتھ دُوسروں کو) ہمسر ٹھہراتے ہو؟ (یاد رکھو کہ) وُہی تمام جہانوں کا پروردگار ہے O اور اُس نے اِس (زمین) میں اُوپر سے بھاری پہاڑ رکھے اور اِس (زمین) کے اندر بڑی برکت رکھی (قسم قسم کی کانیں اور نشو و نما کی قوّتیں) اور اِس میں (اپنی مخلوق کے لئے) سامانِ معیشت مقرر کیا (یہ سب کچھ اُس نے) چار اَدوارِ (تخلیق) میں (پیدا کیا) جو تمام طلب گاروں کے لئے یکساں ہے O پھر (اللہ) آسمان کی طرف متوجہ ہوا کہ وہ (اُس وقت) دھُواں (سا) تھا۔ پھر اُسے اور زمین کو حکم دیا کہ تم دونوں (میری قدرت کے قوانین کے تابع ہو کر) آؤ، خواہ تم اِس پر خوش ہو یا ناخوش۔ اُن دونوں نے کہا ہم خوشی سے حاضر ہیں O پھر دو مراحل میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان کے اَحکام اُس میں بھیج دیئے اور ہم نے آسمانِ دُنیا کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے رونق بخشی اور اُسے محفوظ (بھی)کر دیا۔ یہ اِنتظام ہے زبردست (اور) علم والے (پروردگار) کا( اَلَّذِی خَلَقَ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِی خَلقِ الرَّحمٰنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارجِعِ البَصَرَ هَل تَرٰی مِن فُطُورٍ ثُمَّ ارجِعِ البَصَرَ کَرَّتَینِ یَنقَلِب إِلَیکَ البَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیرٌ ) (الملک، ۶۷:۳.۴) اُسی نے اُوپر تلے سات آسمان بنائے، تو رحمن کی کاریگری میں کوئی فرق نہ دیکھے گا۔ ذرا دوبارہ آنکھ اُٹھا کر دیکھ،کیا تجھے کہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ O (ہاں) پھر بار بار آنکھ اُٹھا کر دیکھ (ہر بار) تیری نگاہ تھک کر ناکام لوٹے گی( وَ انشَقَّتِ السَّمَآء فَهِیَ یَومَئِذٍ وَّاهِیَةٌ ) (الحاقہ، ۶۹:۱۶) اور آسمان پھٹ جائے گا، پھر اُس دِن وہ بالکل بودا (بے حقیقت) ہو جائے گا( أَ لَم تَرَوا کَیفَ خَلَقَ اللهُ سَبعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ) (نوح، ۷۱:۱۵) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بہ تہ بنائے ہیں؟( اَلشَّمسُ وَ القَمَرُ بِحُسبَانٍ ) (الرحمن، ۵۵:۵) سورج اور چاند ایک مقرر حساب کے پابند ہیں( خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ بِالحَقِّ تَعَالٰی عَمَّا یُشرِکُونَ ) (النحل، ۱۶:۳) اُسی نے آسمان اور زمین کو درُست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا، وہ اُن چیزوں سے برتر ہے جنہیں کفار (اُس کا) شریک گردانتے ہیں( اِنَّ اللهِ فَالِقُ الحَبِّ وَ النَّوٰی یُخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیِّتِ وَ مُخرِجُ المَیِّتِ مِنَ الحَیِّ ذٰلِکُمُ اللهُ فَأَنّٰی تُؤفَکُونَ فَالِقُ الاِصبَاحِ وَ جَعَلَ الَّیلَ سَکَنًا وَّ الشَّمسَ وَ القَمَرَ حُسبَانًا ذٰلِکَ تَقدیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (الانعام، ۶:۹۵.۹۶) بیشک اللہ دانے اور گٹھلی کو پھاڑ نکالنے والا ہے، وہ مُردہ سے زِندہ کو پیدا فرماتا ہے اور زِندہ سے مُردہ کو نکالنے والا ہے، یہی (شان والا) تو اللہ ہے، پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو؟ O (وُہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والا ہے اور اُسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کو حساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اَندازہ ہے( وَ هُوَ الَّذِیٓ أَنشَأَکُم مِّن نَّفسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُستَقَرٌّ وَّ مُستَودَعٌ قَد فَصَّلنَا الاٰیَاتِ لِقَومٍ یَّفقَهُونَ وَ هُوَ الَّذِی أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء فَأَخرَجنَا بِه نَبَاتَ کُلِّ شَیءٍ فَأَخرَجنَا مِنهُ خَضِرًا نُّخرِجُ مِنهُ حَبًّا مُّتَرَاکِبًا وَ مِنَ النَّخلِ مِن طَلعِهَا قِنوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنَّاتٍ مِّن أَعنَابٍ وَّ الزَّیتُونَ وَ الرُّمَّانَ مُشتَبِهًا وَّ غَیرَ مُتَشَابِهٍ أُنظُرُوا إِلٰی ثَمَرِهٓ إِذَا أَثمَرَ وَ یَنعِه إِنَّ فِی ذٰلِکُم لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یُّؤمِنُونَ ) (الانعام، ۶:۹۸.۹۹) اور وُہی (اللہ) ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا ہے، پھر (تمہارے لئے) ایک جائے اِقامت (ہے) اور ایک جائے امانت۔ بیشک ہم نے سمجھنے والے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں O اور وُہی ہے جس نے آسمان کی طرف سے پانی اُتارا، پھر ہم نے اُس (بارش) سے ہر قسم کی پیوستہ دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے گابھے سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغات اور زیتون اور اَنار (بھی پیدا کئے جو کئی اِعتبارات سے) آپس میں ایک جیسے (لگتے) ہیں اور (پھل، ذائقے اور تاثیرات) جداگانہ ہیں۔ تم درخت کے پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل لائے اور اُس کے پکنے کو (بھی دیکھو)۔ بیشک اِن میں اِیمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں( وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ) (ھود، ۱۱:۷) اور وُہی (اللہ) ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی بالائی اور زیریں کائناتوں) کو چھ روز (یعنی تخلیق و اِرتقاء کے چھ اَدوار و مراحل) میں پیدا فرمایا۔

( ﷲ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضَ وَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَآء مَآء فَأَخرَجَ بِه مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزقًا لَّکُم وَ سَخَّرَ لَکُمُ الفُلکَ لِتَجرِیَ فِی البَحرِ بِأَمرِه وَ سَخَّرَ لَکُمُ الاَنهَارَ ) (اِبراہیم، ۱۴:۳۲) اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور آسمان کی جانب سے پانی اُتارا پھر اُس پانی کے ذریعہ سے تمہارے رِزق کے طور پر پھل پیدا کئے اور اُس نے تمہارے لئے کشتیوں کو مسخر کر دیا تاکہ اُس کے حکم سے سمندر میں چلتی رہیں اور اُس نے تمہارے لئے دریاؤں کو (بھی) مسخر کر دیا( وَ سَخَّرَ لَکُمُ الشَّمسَ وَ القَمَرَ دَآئِبَینِ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیلَ وَ النَّهَارَ ) (اِبراہیم، ۱۴:۳۳) اور اُس نے تمہارے (فائدے) کے لئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں) گردِش کرتے رہتے ہیں اور تمہارے (نظامِ حیات کے) لئے رات اور دِن کو بھی (ایک) نظام کے تابع کر دیا( وَ سَخَّرَ لَکُمُ الَّیلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ وَ النُّجُومُ مُسَخَّرٰتٌم بِأَمرِه إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یَّعقِلُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۲) اور اُسی نے تمہارے لئے رات اور دِن کو اور سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے، اور تمام ستارے بھی اُسی کی تدبیر (سے نظام) کے پابند ہیں۔ بیشک اِس میں عقل رکھنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں( وَ هُوَ الَّذِی سَخَّرَ البَحرَ لِتَأکُلُوا مِنهُ لَحمًا رِیًّا وَّ تَستَخرِجُوا مِنهُ حِلیَةً تَلبَسُونَهَا وَ تَرَی الفُلکَ مَوَاخِرَ فِیهِ وَ لِتَبتَغُوا مِن فَضلِه وَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۴) اور وُہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اُس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اُس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو اور (اَے اِنسان!) تو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اُس میں چلے جاتے ہیں اور (یہ سب کچھ اِس لئے کیا) تاکہ تم (دُور دُور تک) اُس کا فضل (یعنی رِزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکرگزار بن جاؤ( وَ اَلقٰی فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ اَن تَمِیدَ بِکُم وَ اَنهَارًا وَّ سُبُلًا لَّعَلَّکُم تَهتَدُونَ وَ عَلَامَاتٍ وَ بِالنَّجمِ هُم یَهتَدُونَ ) (النحل، ۱۶:۱۵.۱۶) اور اُسی نے زمین میں (مختلف مادّوں کو) باہم ملا کر بھاری پہاڑ بنا دیئے مبادا وہ (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے تمہیں لے کر کانپنے لگے اور نہریں اور (قدرتی) راستے (بھی) بنائے تاکہ تم (منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکو O اور (دِن کو راہ تلاش کرنے کے لئے) علامتیں بنائیں اور (رات کو) لوگ ستاروں کے ذریعہ (بھی) راہ پاتے ہیں( اَ وَ لَم یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ کَانَتَا رَتقًا فَفَتَقنَاهُمَا وَ جَعَلنَا مِنَ المَآء کُلَّ شَیءٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤمِنُونَ وَ جَعَلنَا فِی الاَرضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِهِم وَ جَعَلنَا فِیهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّهُم یَهتَدُونَ وَ جَعَلنَا السَّمَآء سَقفًا مَّحفُوظًا وَّ هُم عَن اٰیَاتِهَا مُعرِضُونَ وَ هُوَ الَّذِی خَلَقَ الَّیلَ وَ النَّهَارَ وَ الشَّمسَ وَ القَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (الانبیاء، ۲۱:۳۳.۳۰) اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) ہر زندہ چیز (کی زِندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (اِن حقائق سے آگاہ ہو کر اَب بھی) اِیمان نہیں لاتے! O اور ہم نے زمین میں مضبوط پہاڑ بنا دیئے مبادا وہ (زمین اپنے مدار میں) حرکت کرتے ہوئے اُنہیں لے کر کانپنے لگے اور ہم نے اُس (زمین) میں کشادہ راستے بنائے تاکہ لوگ (مختلف منزلوں تک پہنچنے کے لئے) راہ پا سکیں O اور ہم نے سماء (یعنی زمین کے بالائی کرّوں) کو محفوظ چھت بنایا (تاکہ اہلِ زمین کو خلا سے آنے والی مہلک قوّتوں اور جارِحانہ لہروں کے مضر اَثرات سے بچائیں) اور وہ اُن (سماوی طبقات کی) نشانیوں سے رُو گرداں ہیں O اوروُہی (اللہ) ہے جس نے رات اور دِن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں( اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ وَ مَا بَینَهُمَا فِی سِتَّةِ اَیَّامٍ ) (الفرقان، ۲۵:۵۹) جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اُس (کائنات) کو جو اُن دونوں کے درمیان ہے چھ اَدوار(تخلیق) میں پیدا فرمایا۔

( تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَآء بُرُوجًا وَّ جَعَلَ فِیهَا سِرَاجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیرًا وَّ هُوَ الَّذِی جَعَلَ الَّیلَ وَ النَّهَارَ خِلفَةً لِّمَن اَرَادَ اَن یَّذَّکَّرَ اَو اَرَادَ شُکُورًا ) (الفرقان، ۲۵:۶۱.۶۲) وُہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں (کہکشاؤں کی شکل میں) سماوی کرّوں کی وسیع منزلیں بنائیں اور اُس میں (سورج کو روشنی اور تپش دینے والا) چراغ بنایا اور (اُس نظامِ شمسی کے اندر) چمکنے والا چاند بنایا O اور وُہی ذات ہے جس نے رات اور دِن کو ایک دُوسرے کے پیچھے گردِش کرنے والا بنایا، اُس کے لئے جو غور و فکر کرنا چاہے یا شکر گزاری کا اِرادہ رکھے (اِن تخلیقی قدرتوں میں نصیحت و ہدایت ہے)( قُل سِیرُوا فِی الاَرضِ فَانظُرُوا کَیفَ بَدَاَ الخَلقَ ثُمَّ ﷲ یُنشِیُ النَّشأَةَ الاٰخِرَةَ إِنَّ اللهِ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌ ) (العنکبوت، ۲۹:۲۰) فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اُس نے مخلوق کی (زندگی کی) اِبتداء کیسے فرمائی، پھر وہ دُوسری زندگی کو کس طرح اُٹھا کر (اِرتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشو و نما دیتا ہے، بیشک ﷲ ہر شے پر بڑی قدرت والا ہے( خَلَقَ اللهُ السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضَ بِالحَقِّ اِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّلمُؤمِنِینَ ) (العنکبوت، ۲۹:۴۴) ﷲ نے آسمانوں اور زمین کو درُست تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ بیشک اِس (تخلیق) میں اہلِ ایمان کے لئے (اُس کی وحدانیت اور قدرت کی) نشانی ہے( لَا الشَّمسُ یَنبَغِی لَهَآ اَن تُدرِکَ القَمَرَ وَ لَا الَّیلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسبَحُونَ ) (یٰسین، ۳۶:۴۰) نہ آفتاب کی یہ مجال ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دِن سے پہلے آ سکتی ہے اور سب (سیارے) اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں( وَ مِن اٰیَاتِه یُرِیکُمُ البَرقَ خَوفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآء مَآء فَیُحیی بِهِ الاَرضَ بَعدَ مَوتِهَا إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیَاتٍ لِّقَومٍ یَّعقِلُونَ ) (الروم، ۳۰:۲۴) اور اُس کی نشانیوں میں سے (ایک یہ بھی) ہے کہ وہ تمہیں خوفزدہ کرنے اور اُمید دِلانے کے لئے بجلیاں دِکھاتا ہے اور بادلوں سے بارش برساتا ہے اور اُس سے مُردہ زمین کو زِندہ کر دیتا ہے، اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں( اَللهُ الَّذِی یُرسِلُ الرِّیَاحَ فَتُثِیرُ سَحَابًا فَیَبسُطُه فِی السَّمَآء کَیفَ یَشَآء وَ یَجعَلُه کِسَفًا فَتَرَی الوَدقَ یَخرُجُ مِن خِلَالِه فَاِذَا اَصَابَ بِه مَن یَّشَآء مِن عِبَادِه إِذَا هُم یَستَبشِرُونَ ) (الروم، ۳۰:۴۸) اللہ ہی تو ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے تو وہ بادلوں کو اُٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے اُسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اُسے تہ بہ تہ کر دیتا ہے پھر تم اُس کے اندر سے بارش کو نکلتے دیکھتے ہو، پھر جب (اُس بارش کو) اپنے بندوں میں سے جنہیں چاہتا ہے اُن (کی آبادی) کو پہنچاتا ہے تو وہ خوشیاں منانے لگتے ہیں( فَانظُر إِلٰی اٰثَارِ رَحمَتِ اللهِ کَیفَ یُحیِی الاَرضَ بَعدَ مَوتِهَا إِنَّ ذٰلِکَ لَمُحیِ المَوتٰی وَ هُوَ عَلٰی کُلِّ شَیءٍ قَدیرٌ ) (الروم، ۳۰:۵۰) پس اللہ کی رحمت کے آثار تو دیکھو کہ وہ کس طرح زمین کو مُردہ ہونے کے بعد زِندہ (سرسبز و شاداب) کرتا ہے۔ بیشک وُہی مُردوں کو بھی زِندہ کرنے والا ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے( اِنَّمَا اَمرُه اِذَا اَرَادَ شَیئًا اَن یَّقُولَ لَه کُن فَیَکُونُ ) (یٰسین، ۳۶:۸۲) اُس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کو پیدا کرنے) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ ہو جا! پس وہ ہو جاتی ہے( یَخلُقُکُم فِی بُطُونِ اُمَّهَاتِکُم خَلقًا مِّنم بَعدِ خَلقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ثلَاَثٍ ) (الزمر، ۳۹:۶) وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے بطنوں میں تین تاریک پردوں میں (بتدریج) ایک حالت کے بعد دُوسری حالت میں بناتا ہے O اُس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز (کو پیدا کرنے) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس سے کہتا ہے کہ ہو جا! پس وہ ہو جاتی ہے( وَ السَّمَآءَ بَنَینٰهَا بِاَیدٍ وَّ اِنَّا لَمُوسِعُونَ ) (الذاریات، ۵۱:۴۷) اور ہم نے سماوی کائنات کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور ہم ہی (کائنات کو) وسیع سے وسیع تر کرنے والے ہیں( ءَ اَنتُم اَشَدُّ خَلقًا اَمِ السَّمَآءُ بَنَاهَا رَفَعَ سَمکَهَا فَسَوَّاهَا وَ اَغطَشَ لَیلَهَا وَ اَخرَجَ ضُحٰهَا وَ الاَرضَ بَعدَ ذٰلِکَ دَحٰهَا اَخرَجَ مِنهَا مَآئَهَا وَ مَرعٰهَا وَ الجِبَالَ اَرسٰهَا مَتَاعًا لَّکُم وَ لِاَنعَامِکُم ) (النازعات، ۷۹:۲۷.۳۳) کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا (پوری) سماوی کائنات کا، جسے اُس نے بنایا؟ o اُس نے آسمان کے تمام کرّوں(ستاروں) کو (فضائے بسیط میں پیدا کر کے) بلند کیا o پھر اُن (کی ترکیب و تشکیل اور اَفعال و حرکات) میں اِعتدال، توازن اور اِستحکام پیدا کر دیا o اور اُسی نے آسمانی خلا کی رات کو (یعنی سارے خلائی ماحول کو مثلِ شب) تاریک بنایا اور (اُس خلا سے) اُن (ستاروں) کی روشنی (پیدا کر کے) نکالی o اور اُسی نے زمین کو اُس (ستارے سورج کے وُجود میں آ جانے) کے بعد (اُس سے) الگ کر کے زور سے پھینک دیا o اُسی نے زمین میں سے اُس کا پانی (الگ) نکال لیا اور (بقیہ خشک قطعات میں) اُس کی نباتات نکالیں o اور اُسی نے (بعض مادّوں کو باہم ملا کر) زمین سے محکم پہاڑوں کو اُبھار دیا o (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کے لئے (کیا)( اَلَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰی وَ الَّذِی قَدَّرَ فَهَدٰی وَ الَّذِی اَخرَجَ المَرعٰی فَجَعَلَه غُثَآءً اَحوٰی ) (الاعلی، ۸۷: ۵۲) جس نے (کائنات کی ہر چیز کو) پیدا کیا، پھر اُسے (جملہ تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ) درُست توازُن دیا o اور جس نے (ہر ہر چیز کے لئے) قانون مقرر کیا، پھر (اُسے اپنے اپنے نظام کے مطابق رہنے اور چلنے کا) راستہ بتایا o اور جس نے (زمین سے) چارہ نکالا o پھر اُسے سیاہی مائل خشک کر دیا


3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27