ہدیہ مبلّغین

ہدیہ مبلّغین33%

ہدیہ مبلّغین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ہدیہ مبلّغین
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8394 / ڈاؤنلوڈ: 4225
سائز سائز سائز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب:ہدیہ مبلّغین

مصنف:مولانا صابر علی بخاری

انتساب

عالم جوانی میں ندائے حق پر لبیک کہنے والے نیک سیرت شاگرد سید مظاہر عباس نقوی کے نام

بسم الله الرحمٰن الرّحیم

حرف اوّل

الحمد لله ربّ العالمین وصلّی الله علٰی محمّد وآله الطاهرین ولعنة الله علٰی أعدائهم أجمعین الی یوم الدین

امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں جب رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو فرمایا : اے علی! اگر خداوند متعال تمہارے وسیلہ سے ایک شخص کو بھی نجات دید ے تو تمہارے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے( ۱ ) .

اس میں شک نہیں ہے کہ تبلیغ دین ایک انتہائی مشکل امر ہے جسے علماء کرام ،انبیاء علیہم السلام کی نیابت میں انجام دے رہے ہیں بندہ حقیر کی بھی گذشتہ سالوں سے یہ تمنّا تھی کہ ہر سال ماہ رمضان المبارک اور محرم الحرام کی مناسبت سے تقاریر پر مشتمل ایک مجموعہ شائع کیا جائے جس کے ذریعہ مبلّغین کرام کی خدمت کرکے کسی حدّ تک اس نیک امر میں شریک ہوسکوں.جو میرے گذشتہ گناہوں کے لئے بخشش ا ور توشہ آخرت قرار پائے

زیر نظر کتاب ماہ مبارک رمضان کی مناسبتوں پرمشتمل دروس کا مجموعہ ہے جس میں قرآن کریم کی آیات اور روایات معصومین علیہم السلام سے استفادہ کیا گیاہے.

خدا کرے میں اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جاؤں اور میری دیرینہ تمنّا پوری ہوجائے ، اس کے علاوہ جب علماء کرام اس مجموعہ سے لوگوں کی ہدایت کے لئے استفادہ کریں گے تو میرے لئے مزید مسرّت و نجات کا باعث ہوگا .آخر میں میں اپنے محسن حجة الاسلام مولانا صابرعلی بخاری پرنسپل جامعہ زینب سلام اللہ علیھا شعیب گارڈن لاہور کا انتہائی شگر گذار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی تالیف اور اسے منظر عام پر لانے میں مادی و معنوی طور پرمیری مدد فرمائی .خدا وند متعال ان کی توفیقات میں اضافہ اور ان کے قلم میں برکت عنائت فرمائے

و آخر دعوانا أن الحمد لله ربّ العالمین

والسّلام علی من اتّبع الهدٰی

خادم العلماء والطلاّب ناظم حسین اکبر

ابو طالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لاہور پاکستان

٢٢ رجب المرجب ١٤٣٠ھ

پہلا درس

ماہ رمضان کی فضیلت

( یا أیّها الّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون ) ( ۲ )

ترجمہ:اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ.

رمضان کا مہینہ ایک مبارک اور باعظمت مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں مسلسل رحمت پروردگار نازل ہوتی رہتی ہے اس مہینہ میں پروردگار نے اپنے بندوں کو یہ وعدہ دیا ہے کہ وہ ان کی دعا کو قبول کرے گا یہی وہ مہینہ ہے جس میں انسان دنیا و آخرت کی نیکیاں حاصل کرتے ہوئے کمال کی منزل تک پہنچ سکتا ہے.اور پچاس سال کا معنوی سفر ایک دن یا ایک گھنٹہ میں طے کر سکتا ہے. اپنی اصلاح اور نفس امارہ پر کنٹرول کی ایک فرصت ہے جو خدا وند متعال نے انسان کو دی ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیںایک بار پھر ماہ مبارک رمضان نصیب ہوا اور یہ خود ایک طرح سے توفیق الھی ہے تا کہ انسان خدا کی بارگاہ میں آکر اپنے گناہوں کی بخشش کا سامان کر سکے ، ورنہ کتنے ایسے لوگ ہیںجو پچھلے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ تھے لیکن آج وہ اس دار فنا سے دار بقاء کی طرف منتقل ہو چکے ہیں

عزیزان گرامی ! اس مہینہ اور اس کی ان پر برکت گھڑیوںکی قدر جانیں اور ان سے خوب فائدہ اٹھائیں اس لئے کہ نہیں معلوم کہ اگلے سال یہ موقع اور یہ بابرکت مہینہ ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو

ماہ مبارک عبادت و بندگی کا مہینہ ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :قال الله تبارک و تعالٰی : یا عبادی الصّدیقین تنعموا بعبادتی فی الدّنیا فانّکم تتنعّمون بها فی الآخرة ( ۳ )

خدا وند متعال فرماتا ہے: اے میرے سچے بندو ! دنیا میں میری عبادت کی نعمت سے فائدہ اٹھاؤ تاکہ اس کے سبب آخرت کی نعمتوں کو پا سکو

یعنی اگر آخرت کی بے بہا نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر دنیا میں میری نعمتوں کو بجا لاؤں اس لئے کہ اگر تم دنیا میں میری نعمتوں کی قدر نہیں کرو گے تو میں تمہیں آخرت کی نعمتوں سے محروم کر دوں گا .اور اگر تم نے دنیا میں میری نعمتوں کی قدر کی تو پھر روز قیامت میں تمھارے لئے اپنی نعمتوں کی بارش کردوں گا

انہیں دنیاکی نعمتوں میں سے ایک ماہ مبارک اور اس کے روزے ہیں کہ اگر حکم پرور دگار پر لبیک کہتے ہوئے روزہ رکھا ، بھوک و پیاس کو تحمل کیا تو جب جنّت میں داخل ہو گے توآواز قدرت آئے گی:

( کلوا و اشربوا هنیئا بما أسلفتم فی الأیّام الخالیة ) ( ۴ )

ترجمہ: اب آرام سے کھاؤ پیو کہ تم نے گذشتہ دنوں میں ان نعمتوں کا انتظام کیا ہے

ماہ مبارک کے روز و شب انسان کے لئے نعمت پروردگار ہیں جن کا ہر وقت شکر ادا کرتے رہنا چاہئے لیکن سوال یہ پیدا پوتا ہے کہ ان بابرکت اوقات اور اس زندگی کی نعمت کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے ، امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

من قال أربع مرّات اذا أصبح ، ألحمد لله ربّ العالمین فقد أدّٰی شکر یومه و من قالها اذا أمسٰی فقد أدّٰی شکر لیلته ( ۵ )

جس شخص نے صبح اٹھتے وقت چار بار کہا :الحمد لله ربّ العالمین اس نے اس دن کا شکر ادا کردیا اور جس نے شام کو کہا اس نے اس رات کا شکر ادا کردیا

کتنا آسان طریقہ بتادیا امام علیہ السلام نے اور پھر اس مہینہ میں تو ہر عمل دس

برابر فضیلت رکھتا ہے ایک آیت کا ثواب دس کے برابر ، ایک نیکی کا ثواب دس برابر،امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں :

من قرء فی شهر رمضان آیة من کتاب الله کان کمن ختم القرآن فی غیره من الشّهور ( ۶ )

جو شخص ماہ مبارک میں قرآن کی ایک آیت پڑھے تو اس کااجر اتنا ہی ہے جتنا دوسرے مہینوں میں پورا قرآن پڑھنے کا ہے

کسی شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا :

یا رسول الله ! ثواب رجب أبلغ أم ثواب شهر رمضان ؟ فقال رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم : لیس علی ثواب رمضان قیاس ( ۷ )

یا رسول اللہ! رجب کا ثواب زیادہ ہے یا ماہ رمضان کا؟ تو رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ماہ رمضان کے ثواب پر قیاس نہیںکیا جا سکتا.گویا خدا وند متعال بہانہ طلب کر رہا ہے کہ کسی طرح میرا بندہ میرے سامنے آکر جھکے تو سہی کسی طرح آکر مجھ سے راز و نیاز کرے تو سہی تا کہ میں اس کو بخشش دوں

رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ مبارک کی فضیلت بیان فرماتے ہیں :

انّ شهر رمضان ، شهر عظیم یضاعف الله فیه الحسنات و یمحو فیه السیئات و یرفع فیه الدرجات ( ۸ )

ماہ مبارک عظیم مہینہ ہے جس میں خداوند متعال نیکیوںکو دو برابرکر دیتا ہے. گناہوں کو مٹادیتا اور درجات کوبلند کرتا ہے.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :اذا أسلم شهر رمضان سلّمت السّنة ورأس السّنة شهر رمضان ( ۹ )

اگر کوئی شخص ماہ مبارک میں سالم رہے تو پورا سال صحیح و سالم رہے گا اور ماہ مبارک کو سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے .اب یہ حدیث مطلق ہے جسم کی سلامتی کو بھی شامل ہے اور اسی طرح روح کی بھی یعنی اگر کوئی شخص اس مہینہ میں نفس امارہ پر کنٹرول کرتے ہوئے اپنی روح کو سالم غذا دے تو خدا وند متعال کی مدد اس کے شامل حال ہوگی اور وہ اسے اپنی رحمت سے پورا سال گانہوں سے محفوظ رکھے گا اسی لئے تو علمائے اخلاق فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک خود سازی کا مہینہ ہے تہذیب نفس کا مہینہ ہے اس ما ہ میں انسان اپنے نفس کا تزکیہ کر سکتا ہے

اور اگر وہ پورے مہنیہ کے روزے صحیح آداب کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اسے اپنے نفس پر قابو پانے کا ملکہ حاصل ہو جائے گا اور پھر شیطان آسانی سے اسے گمراہ نہیں کرپائے گا

عزیزان گرامی ! جو نیکی کرنی ہے وہ اس مہینہ میںکر لیں ، جو صدقات و خیرات دینا چاہتے ہیں وہ اس مہینہ میں حقدار تک پہنچائیں اس میں سستی مت کریں .مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں اے انسان تیرے پاس تین ہی تو دن ہیں ایک کل کا دن جو گذر چکا اور اس پر تیرا قابو نہیں چلتا اس لئے کہ جو اس میں تو نے انجام دینا تھا دے دیا اس کے دوبارہ آنے کی امید نہیں اور ایک آنے والے کل کا دن ہے جس کے آنے کی تیرے پاس ضمانت نہیں ، ممکن ہے زندہ رہے، ممکن ہے اس دنیا سے جانا پڑ جائے، تو بس ایک ہی دن تیرے پاس رہ جاتا ہے اور وہ آج کا دن ہے جو کچھ بجا لانا چاہتا ہے اس دن میں بجا لا.اگر کسی غریب کی مدد کرنا ہے تو اس دن میں کر لے ، اگر کسی یتیم کو کھانا کھلانا ہے تو آج کے دن میں کھلا لے ، اگر کسی کو صدقہ دینا ہے توآج کے دن میں دے ، اگر خمس نہیں نکالا تو آج ہی کے اپنا حساب کر لے ، اگر کسی ماں یا بہن نے آج تک پردہ کی رعایت نہیں کی تو جناب زینب سلام اللہ علیھا کاواسطہ دے کر توبہ کرلے، اگر آج تک نماز سے بھاگتا رہا تو آج اس مبارک مہینہ میں اپنے ربّ کی بارگاہ میںسرجھکا لے خدارحیم ہے تیری توبہ قبول کر لے گا اس لئے کہ اس نے خود فرمایا ہے :( أدعونی أستجب لکم ) ( ۱۰ )

اے میرے بندے مجھے پکار میں تیری دعا قبول کروں گا .عزیزان گرامی! یہ مہینہ دعاؤں کا مہینہ ہے بخشش کامہینہ ہے. اور پھر خود رسول مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

انّما سمّی رمضان لأنّه یرمض الذّنوب ( ۱۱ )

رمضا ن المبارک کو رمضان اس لئے کہا جاتاہے چونکہ وہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے .آئیں مل کر دعاکریں کہ اے پالنے والے تجھے اس مقدس مہینہ کی عظمت کا واسطہ ہم سب کو اس ما ہ میں اپنے اپنے نفس کی تہذیب واصلاح اور اسے اس طرح گناہوں سے پاک کرنے کی توفیق عطا فرماجس طرح تو چاہتا ہے اس لئے کہ تیری مدد کے بغیر کوئی کام ممکن نہیں ہے. آمین

دوسرادرس

ماہ رمضان کی فضیلت (٢)

( یا أیّهاالّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون ) ( ۱۲ ) .

ترجمہ: اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمہارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شاید تم اس طرح متّقی بن جاؤ.

عزیزان گرامی! ہماری گفتگو کا موضوع ماہ مبارک رمضان کی فضیلت تھا جس کے بارے میں گذشتہ درس میں کسی حدّ تک بیان کیا گیا اور آج بھی اسی موضوع پر گفتگو جاری رہے گی تو کل ہم نے عرض کیا کہ یہ مہینہ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے اس مہینہ کا نام رمضان اسی لئے رکھا گیا کہ اس میں روزہ دار کے گناہوں کو مٹا کر اسے کمال کی سعادت سے فیضیاب کیا جاتا ہے اس ماہ کے دن ورات کی قدر کریں. رسولخداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

أیهاالنّاس قد أقبل الیکم شهر الله شهر هو عند الله أفضل الشهور و أیّامه أفضل الأیّام و لیالیه أفضل اللّیالی و ساعاته افضل السّاعات ( ۱۳ )

اے لوگو! خدا کا مہینہ تمھارے پاس آیا ہے .وہ مہینہ جو تمام مہینوں پر فضیلت رکھتا ہے ، جس کے دن بہترین دن ، جس کی راتیں بہترین راتیں اور جس کی گھڑیاں سب سے بہترین گھڑیاں ہیں

اور پھر اس ماہ کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :أنفاسکم فیه تسبیح و نومکم فیه عبادة ( ۱۴ )

اس ماہ میں تمھارا سانس لینا تسبیح اور تمھارا سونا عبادت شمار ہوتا ہے اس سے بڑھکر عزیزان گرامی اس ذات ذوالجلال کا اپنے بندوں پر کیا لطف و کرم ہو سکتا ہے کہ انسان کوئی عمل بھی نہیںکررہا مگر وہ خدا اس قدر رؤوف ہے اپنے بندوں پر کہ انہیں اجر پہ اجر دیتا جارہا

امام صادق علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند کونصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اذا دخل شهر رمضان ، فاجهدوا أنفسکم فانّ فیه تقسیم الأرزاق و تکتب الآجال و فیه یکتب وفد الله الّذین یفدون الیه و فیه لیلة العمل فیها خیر من العمل فی ألف شهر ( ۱۵ )

جب ماہ مبارک آجائے تو سعی وکوشش کرو اس لئے کہ اس ماہ میں رزق تقسیم ہوتا ہے تقدیر لکھی جاتی ہے اور ان لوگوں کے نام لکھے جاتے ہیں جو حج سے شرفیاب ہونگے .اور اس ماہ میں ایک رات ایسی ہے کہ جس میں عمل ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہے

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مقدس مہینہ کے بارے میںفرماتے ہیں :أنّ شهرکم هذا لیس کالشّهور ، أنّه اذا أقبل الیکم أقبل بالبرکة و الرّحمة، و اذا أدبر عنکم أدبر بغفران الذّنوب ، هذا شهر الحسنات فیه مضاعفة ، و اعمال الخیر فیه مقبولة ( ۱۶ )

یہ مہینہ عام مہینوں کے مانند نہیں ہے.جب یہ مہینہ آتا ہے تو برکت ورحمت لیکرآتا ہے اور جب جاتا ہے تو گناہوں کی بخشش کے ساتھ جاتا ہے ، اس ماہ میں نیکیاں دو برابر ہوجاتی ہیں اور نیک اعمال قبول ہوتے ہیں .یعنی اسکا آنا بھی مبارک ہے اور اس کا جانا بھی مبارک بلکہ یہ مہینہ پورے کا پورا مبارک ہے لہذا اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کرنے کی کوشش کریں،کوئی لمحہ ایسا نہ ہو جو ذکر خدا سے خالی ہو اور یہی ہمارے آئمہ ھدٰی علیہم السلام کی سیرت ہے .امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں ملتا ہے :

کان علی بن الحسین علیه السلام اذا کان شهر رمضان لم یتکلّم الّا بالدّعا و التّسبیح والاستغفار والتکبیر ( ۱۷ ) .

جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو امام زین العابدین علیہ السلام کی زبان پر دعا، تسبیح ،استغفار اور تکبیر کے سوا کچھ جاری نہ ہوتا

عزیزان گرامی!وہ خداکتنا مہربان ہے کہ اپنے بندوں کی بخشش کے لئے ملائکہ کوحکم دیتا ہے کہ اس ماہ میں شیطان کو رسیوں سے جکڑدیںتا کہ کوئی مومن اس کے وسوسہ کا شکار ہوکر اس ماہ کی برکتوں سے محروم نہ رہ جائے لیکن اگر اسکے بعد بھی کوئی انسان اس ماہ مبارک میں گناہ کرے اور اپنے نفس پر کنٹرول نہ کرسکے تو اس سے بڑھکر کوئی بدبخت نہیں ہے.رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:قد وکّل الله بکلّ شیطان مرید سبعة من الملائکة فلیس بمحلول حتّیٰ ینقضی شهرکم هذا ( ۱۸ )

خدا وند متعال نے ہر فریب دینے والے شیطان پر سات فرشتوںکو مقرر کر رکھا ہے تاکہ وہ تمہیں فریب نہ دے سکے، یہاں تک کہ ماہ مبارک ختم ہو

کتنا کریم ہے وہ ربّ کہ اس مہینہ کی عظمت کی خاطر اتنا کچھ اہتمام کیا جارہا ، اب اس کے بعد چاہئے تو یہ کہ کوئی مومن شیطان رجیم کے دھوکہ میں نہ آئے اور کم از کم اس ماہ میں اپنے آپ کو گناہ سے بچائے رکھے اور نافرمانی خدا سے محفوظ رہے ورنہ غضب خدا کا مستحق قرار پائے گا اسی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :من أدرک شهر رمضان فلم یغفرله فأبعده الله ( ۱۹ ) جوشخص ماہ رمضان المبارک کو پائے مگر بخشا نہ جائے تو خدا اسے راندہ درگاہ کردیتاہے

اس میں کوئی ظلم بھی نہیں اس لئے کہ ایک شخص کے لئے آپ تمام امکانات فراہم کریں اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود وہ آپکی امید پر پورا نہ اترے تو واضح ہے کہ آپ اس سے کیا برتاؤ کریں گے.

عزیزان گرامی!اس مبارک مہینہ سے خوب فائدہ اٹھائیں اسلئے کہ نہیں معلوم کہ آئندہ سال یہ سعادت نصیب ہو یا نہ ہو ؟تا کہ جب یہ ماہ انتھاء کو پہنچے تو ہمارا کوئی گناہ باقی نہ رہ گیا ہو جب رمضان المبارک کے آخری ایّام آتے تورسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعافرمایا کرتے:اللّهمّ لاتجعله آخر العهد من صیامی شهر رمضان ، فان جعلته فاجعلنی مرحوما ولا تجعلنی محروما ( ۲۰ )

خدایا! اس ماہ رمضان کو میرے روزوں کا آخری مہینہ قرار نہ دے ، پس اگر یہ میرا آخری مہینہ ہے تو مجھے اپنی رحمت سے نواز دے اور اس سے محروم نہ رکھ.

آئیں ہم سب بھی مل کر یہی دعا کریں کہ اے پالنے والے ہمیں اگلے سال بھی اس مقدس مہینہ کی برکتیں نصیب کرنا لیکن اگر تو اپنی رضا سے ہمیں اپنے پاس بلا لے توایسے عالم میں اس دنیا سے جائیں کہ تو ہم راضی ہو اور ہمارے امام ہم سے خوشنود

تیسرا درس

روزے کا فلسفہ

( یاأیّهاالّذین آمنوا کتب علیکم الصّیام کما کتب علی الّذین من قبلکم لعلّکم تتّقون ) ( ۲۱ ) .

ترجمہ: اے صاحبان ایمان تمہارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے تاکہ شاید اس طرح تم متّقی بن جاؤ.

عزیزان گرامی!جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند متعال نے روزے کا فلسفہ تقوٰی کو قرار دیاہے یعنی روزہ تم پر اس لئے واجب قرار دیا تا کہ تم متقی بن سکو، پرہیز گار بن سکو.اور پھر روایات میں اسے روح ایمان کہا گیا .امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

من أفطر یوما من شهر رمضان خرج روح الایمان منه ( ۲۲ )

جس شخص نے ماہ رمضان میں ایک دن روزہ نہ رکھا اس سے روح ایمان نکل گئی

یعنی روزے کی اہمیت اور اس کے فلسفہ کا پتہ اسی فرمان سے چل جاتا ہے کہ

روزے کے واجب قرار دینے کا مقصد ایمان کو بچانا ہے اوراسی ایمان کو بچانے والی طاقت کا دوسرا نام تقوٰی ہے جسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٨٣ میں روزے کا فلسفہ بیان کیا گیا.

تو یہ تقوٰی کیا ہے جسے پروردگار عالم نے روزے کا فلسفہ اور اس کا مقصد قرار دیا ہے ؟ روایات میں تقوٰی کی تعریف میں تین چیزیں بیان ہوئی ہیں :

١۔ اطاعت پروردگار

٢۔ گناہوں سے اجتناب

٣۔ ترک دنی

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

علیک بتقوی الله فانّه رأس الأمر کلّه

تمہارے لئے تقوٰی ضروری ہے اس لئے کہ ہر کام کا سرمایہ یہی تقوٰی ہے

حقیقت یہ ہے کہ ایسا روزہ جو انسان کو گناہوں سے نہ بچاسکے اسے بھوک و پیاس کا نام تو دیا جاسکتا ہے مگر روزہ نہیں کہا جا سکتا اس لئے کہ روزہ کا مقصد اور اس کا جو فلسفہ ہے اگر وہ حاصل نہ ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ جس روزہ کا حکم دیا گیا تھا ہم نے وہ نہیں رکھا ، بلکہ یہ ہماری اپنی مرضی کا روزہ ہے جبکہ خدا ایسی عبادت کو پسند ہی نہیں کرتا جو انسان خداکی اطاعت کے بجائے اپنی مرضی سے بجا لائے ورنہ شیطان کو بارگاہ ربّ العزّت سے نکالے جانے کا کوئی جواز ہی رہتا چونکہ اس نے عبادت سے تو انکار نہیں کیا تھا .حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :قلت یا رسول الله ! ما افضل الأعمال فی هذا الشهر ؟ فقال یا ابا الحسن أفضل الأعمال فی هذا الشّهر ، ألورع من محارم الله عزّوجلّ. ( ۲۳ )

امیرالمؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں : میں نے عرض کیا: یارسول اللہ !اس مہینہ میں کونسا عمل افضل ہے ؟ فرمایا : اے ابوالحسن ! اس ماہ میں افضل ترین عمل گناہوں سے پرہیز یعنی تقوٰی الھی ہے.

نیز مولائے کائنات فرماتے ہیں:

علیکم فی شهر رمضان بکثرة الاستغفار و الدّعا فأمّا الدّعا فیدفع به عنکم البلاء و أمّا الاستغفار فیمحٰی ذنوبکم ( ۲۴ )

ماہ رمضان میں کثرت کے ساتھ دعا اور استغفار کرو اس لئے کہ دعا تم سے بلاؤں کو دور کرتی ہے اور استغفار تمھارے گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتا ہے

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:من صام شهر رمضان فاجتنب فیه الحرام والبهتان رضی الله عنه و أوجب له الجنان) )( ۲۵ )

جو شخص ماہ رمضان کاروزہ رکھے اور حرام کاموں اوربہتان سے بچے تو خدا اس سے راضی اور اس پر جنّت کو واجب کردیتا ہے

اور پهر ایک دوسری روایت میں فرمایا : انّ الجنّة مشتاقة الی أربعة نفر : ١ الی مطعم الجیعان ٢ وحافظ اللّسان. ٣ و تالی القرآن ٤ وصائم شهر رمضان

جنّت چار لوگوں کی مشتاق ہے:

١۔ کسی بھوکے کو کھانا کھلانے والے

٢۔ اپنی زبان کی حفاظت کرنے والے

٣۔ قرآن کی تلاوت کرنے والے

٤۔ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے( ۲۶ )

روزے کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان حرام کاموں سے بچے اور کمال حقیقی کی راہوں کو طے کرسکے .رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

شهر رمضان شهر فرض الله عزّوجلّ علیکم صیامه ، فمن صامه ایمانا و احتسابا ، خرج من ذنوبه کیوم ولدته أمّه [۲۷]

ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں خدا وند متعال نے تم پرروزے واجب قرار دیئے ہیں پس جو شخص ایمان اور احتساب کی خاطر روزہ رکھے تو وہ اسی طرح گناہوں سے پاک ہو جائے گا جس طرح ولادت کے دن پاک تھا

ویسے بھی گناہ سے اپنے آپ کو بچانا اور حرام کاموںسے دور رہنا مومن کی صفت ہے اس لئے کہ گناہ خود ایک آگ ہے جو انسان کے دامن کو لھی ہوئی ہو اور خدانہ کرے اگر کسی کے دامن کو آگ لگ جائے تو وہ کبھی سکون سے نہیں بیٹھتا جب تک اسے بجھا نہ لے اسی طرح عقل مند انسان وہی ہے جو گناہ کے بعد پشیمان ہو اور پھر سچی توبہ کرلے اس لئے کہ معصوم تو ہم میں سے کوئی نہیں ہے لہذااگر خدانہ کرے غلطی سے کوئی گناہ کربیٹھے تو فورا اس کی بارگاہ میں آکر جکھیں ، یہ مہینہ توبہ کے لئے ایک بہترین موقع ہے کیونکہ اس میں ہر دعاقبول ہوتی ہے.آئیں اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیں اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا وعدہ کریں، یقینا خداقبول کرے گا .رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :من صام شهر رمضان فحفظ فیه نفسه من المحارم دخل الجنّة ( ۲۸ )

جو شخص ماہ مبارک میں روزہ رکھے اور اپنے نفس کو حرام چیزوں سے محفوظ رکھے ، جنّت میں داخل ہوگا

امام صادق علیہ السلام روزہ کا ایک اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

انّما فرض الله عزّوجلّ الصّیام لیستوی به الغنیّ والفقیر و ذٰلک أنّ الغنیّ لم یکن لیجد مسّ الجوع فیرحم الفقیر لأنّ الغنیّ کلّما أراد شیئا قدر علیه ، فأراد الله عزّ وجلّ أن یسّوی بین خلقه ، و أن یذیق الغنیّ مسّ الجوع والألم لیرقّ علی الضّعیف فیرحم الجائع ( ۲۹ )

خداوند متعال نے روزے اس لئے واجب قرار دیئے تاکہ غنی وفقیربرابر ہو سکیں .اور چونکہ غنی بھوک کا احساس نہیں کرسکتا جب تک کہ غریب پر رحم نہ کرے اس لئے کہ وہ جب کوئی چیز چاہتا ہے اسے مل جاتی ہے.لہذا خدا نے یہ ارادہ کیا کہ اپنی مخلوق کے درمیان مساوات برقرار کرے اور وہ اس طرح کہ غنی بھوک و درد کی لذت لے تاکہ اسکے دل میں غریب کے لئے نرمی پیداہو اور بھوکے پر رحم کرے

عزیزان گرامی! یہ ہے روزے کا فلسفہ کہ انسان بھوک تحمل کرے تاکہ اسے دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس ہو لیکن افسوس ہے کہ آج تو یہ عبادت بھی سیاسی صورت اختیار کر گئی ہے بڑی بڑی افطار پارٹیاں دی جاتی ہیں جن میں غریبوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ان کے بھوکے بچوں اور انہیں مزید اذیت دی جاتی ہے نہ جانے یہ کیسی اہل بیت علیہم السلام اور اپنے نبی کی پیروی ہو رہی اس لئے کہ دین کے ہادی تو یہ بتا رہے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ غریبوں اور فقیروں کی مدد کرو جبکہ ہم علاقہ کے ایم این اے اور ایم پی اے یا پیسے والے لوگوں کو دعوت کر رہے اور باقاعدہ کارڈ کیے ذریعہ سے کہ جن میں سے اکثر روزہ رکھتے ہی نہیں.

عزیزان گرامی ! روزہ افطار کروانے کا بہت بڑاثواب ہے لیکن کس کو؟ روزہ داراور غریب لوگوں کو ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ ان لوگوںکو افطار نہ کروائیںان کو بھی کروایئں لیکن خدارا غریبوں کا خیال رکھیں جن کا یہ حق ہے خداوندمتعال ہمیں روزے کے فلسفہ اور اس کے مقصد سے آگاہ ہونے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے .اور اس با برکت مہینہ میں غریبوں کی مددکرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے .آمین یا ربّ العالمین

چوتھا درس

رزق حلال

( ومن یتّق الله یجعل له مخرجا.و یرزقه من حیث لا یحتسب ) ( ۳۰ )

ترجمہ: اور جو بھی اللہ سے ڈرتاہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پید اکردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے

علی بن عبد العزیز کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے پوچھا عمر بن مسلم نے کیا کیا؟ میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوں وہ تو تجارت کو ترک کرکے عبادت میں مشغول ہوگیا ہے امام علیہ السلام نے فرمایا : وائے ہو اس پر ! کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ بے کا ر آدمی کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے بعض اصحاب رسول جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے اپنے اپنے گھروں کے دروازوں کو بند کردیا اور عبادت میں مشغول ہوگئے .وہ یہ کہتے تھے کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے جب یہ بات رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ کونسی چیز تمھارے اس عمل کا باعث بنی؟عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ ! جب خدا نے ہمارے رزق کی ذمہ داری لے لی ہے تو ہم عبادت میں مشغول ہوگئے

ہیں آنحضرت نے فرمایا : جو بھی ایسا کام کرے گا اس کی دعامستجاب نہیں ہوگی تمہارے لئے ضروری ہے کہ رزق کی تلاش میں نکلو.

عزیزان گرامی! اس میں شک نہیں ہے کہ خدا نے مومنین کے رزق کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے رکھی ہے لیکن وہ رزق اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک کہ انسان اس کی کوشش نہ کرے اور روزے کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان روزہ دار سحری و افطاری میں رزق حلال کھائے .اگر کوئی مومن خدا نخواستہ پاک رزق سے ، حلال رزق سے افطار نہ کرے تو اس کا یہ روزہ قبول نہیں ہوگا .اور اسی طرح باقی عبادات بھی ،آنے والے چند درسوں میں ہم یہ واضح کریں گے کہ کیسے رزق حلال حاصل کریں اور وہ کونسے عوامل ہیں جو انسان کے لئے حلال رزق کمانے میں مانع بنتے ہیں

عزیزان گرامی! دین مقدس اسلام میں رزق حلال کی اسقدراہمیت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے حلال مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جاتا ہے تو اسے شھید کا مرتبہ دیا ہے رسول مکرم اسلام فرماتے ہیں :

من قتل دون ماله فهو شهید ( ۳۱ )

جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شھید ہے .نیز فرمایا :

١۔ فرھنگ موضوعی مبلغان : ٢٣٣

عبادت سات قسموں پر مشتمل ہے جن میں سے افضل ترین قسم رزق حلال کا کمانا ہے( ١)

اسی طرح فرمایا :انّ الله یحبّ أن یری عبده تعبا فی طلب الحلال ( ۳۲ ) خدا وندمتعال پسند کرتا ہے کہ اپنے بندے کو رزق حلال کے حصول میں تھکتا ہوئے دیکھے

مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام کا یہ فرمان بھی رزق حلال کی اہمیت کو واضح کرتا ہے:

من أکل أربعین یوما نوّر الله قلبه ( ۳۳ )

جو شخص چالیس دن رزق حلال کھائے توخدا وند متعال اسکے دل کو نورانی کر دیتا ہے

رسولخدا سلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

حقّ الولد علی والده أن یعلّمه الکتابة والسّباحة والرّمایة وأن یرزقه الّا طیّبا ( ۳۴ )

بیٹے کا باپ پر حق یہ ہے کہ وہ اسے لکھنے ، تیرنے اورتیراندازی کی تعلیم دے اور اسے حلال غذاکھلائے.

نیز روایت میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا تزول قدما عبد یوم القیامة حتّی یسأل عن أربع : عن عمره فیما أفناه و عن شبابه فیما أبلاه و عن ماله من أین کسبه و فیما أنفقه و عن حبّنا أهل البیت ( ۳۵ )

روز قیامت انسان کو اس وقت تک آگے نہ بڑھنے دیا جائے گا جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے: ١۔ عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا

٢۔ جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں گذارا.

٣۔ مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاںخرچ کیا

٤۔ ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں

مال حلال کمانے اور اسے اپنی اولاد کو کھلانے کی بہت تاکید کی گئی ہے اس لئے کہ انسان کی دنیا وآخرت کی بد بختی کا ایک عامل رزق حرام ہے جو انسان کو ہمیشہ خداسے دور رکھتا ہے لذّت عبادت سے آشنا نہیں ہونے دیتا اور اگر انسان

حرام مال کھاکر عبادت بجابھی لائے تب بھی وہ اس عبادت کی لذّت حاصل نہیں کر سکتا اس لئے کہ ایسی عبادت کا کویء فائدہ نہیں ہے .رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

العبادة مع أکل الحرام کالبناء علی الرّمل و قیل : علی الماء ( ۳۶ )

حرام مال کھاکر کی جانے والی عبادت ، ریت کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے مانند ہے یا کہا گیاہے کہ پانی کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے مانند

یعنی ایسی عبادت کا کوئی اعتبار نہیں ہے کسی وقت بھی شیطان ایسے انسان کے عمل کو بھی ضائع کرسکتا ہے اور اس کے ایمان کوبھی امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

انّ الرّجل اذاأصاب مالا من الحرام لم یقبل منه حجّ ولا عمرة ولا صلة رحم ، حتیّ انّه یفسد فیه الفرج ( ۳۷ )

جب کسی شخص کے پاس مال حرام آتا ہے تو نہ تو اس کی حج قبول ہوتی ہے ، نہ عمرہ اور نہ ہی صلہ رحم یہاں تک کہ جماع پر بھی اسکا برا اثر پڑتا ہے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

کسب الحرام یبین فی الذریة ( ۳۸ )

حرام کی کمائی اولاد میں اثر رکھتی ہے

جب کوئی انسان حرام کھاکر بیٹھا ہو تو نہ تو اس پرنصیحت اثر کرتی ہے اور نہ ہی کسی بڑے کی بات آج اگر ہماری اولادیں نافرمان ہیں تو اس کا باعث ہم خود ہی ہیں کتنے لوگ ہیں ہم میں سے جو خمس کے پابند ہیں جنھوںحق زہراء سلام اللہ علیہا غصب نہ کیا ہو.جنھوں نے رسول خدا کی اکلوتی بیٹی کو پریشان نہ کیا ہو .آج ہم فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے مظلوم بیٹے کے قاتلوں پر لعنت تو کرتے ہیں لیکن کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ وہ لوگ مسلمان ہونے کے باوجود ، پیغمبر کا کلمہ پڑھنے کے باوجود کیسے امام وقت کے مقابلہ میں تیر اور تلواریں لے کر آگئے ؟ کیا وہ امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے نہیں تھے ؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ وہ جانتے تھے کہ یہ نواسہ رسول ہے ان کے نبی کا بیٹا ہے .تو پھر کونسی چیز باعث بنی کہ انہوں نے جہنم میں جانا قبول کرلیا ؟ اس کا جواب امام حسین علیہ السلام نے وہیں پہ کربلا کے میدان میں ہی دے دیا تھا .جب عمر سعد نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ حسین کے خیموں کا چاروں طرف سے محاصرہ کرلیں تو اس وقت امام علیہ السلام انہیں نصیحت کرنے کے لیے اپنے خیمہ سے باہر آئے اور ان سے مخاطب ہوئے لیکن ان میں سے کسی نے توجہ ہی نہ کی تو امام مظلوم نے فرمایا :

قد ملئت بطونکم من الحرام فطبع علی قلوبکم ، ویل لکم ! ألا تسمعون ( ۳۹ )

تم کیسے میری بات پر توجہ کروگے جبکہ تمھارے شکم حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تمھارے دلوں پر مہر لگ گئی ہے افسوس تم پر ! کیا میری بات نہیں سن رہے ہو

عزیزان گرامی! یہ لقمہ حرام کااثر ہی تھا جس نے عمر سعدملعون اور اس کی فوج کو زمانہ کے امام کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا .اس جملہ پر انتہائی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم بھی اپنی اولادوں کو حرام مال کھلا کر امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کے چاہنے والے ہونے کا دعوی کرتے ہوئے انہیں امام کا دشمن بنا رہے ہوں

خدایا ! تجھے امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کا واسطہ ہمیں رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرما اور ہمارا شمار امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حقیقی پیروکاروں میں سے فرما .آمین یا ربّ العالمین بحق محمد و آلہ الطاہرین.

پانچواں درس

نماز کی اہمیت (١)

( قال الله تبارک و تعالیٰ : أقیمواالصلٰوة ولا تکونوا من المشرکین

) ترجمہ: نماز قائم کرو اور مشرک مت بنو!

عزیزان گرامی ! نماز ایک ایسیعبادت ہے جسے انبیاء کرام اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے لئے سر لوحہ عبادت ، اسلام کاپرچم ، مومن کی معراج ، اعمال کے لئے میزان اور پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا ہے.

نماز ایسی عبادت ہے جس سے دل کو سکون ، روح کوتازگی ، رنج وغم سے نجات حاصل ہوتی ہے نمازہی ہے جو انسان کو شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہے اور قبر میں اس کی مونس و مدد گار ثابت ہوتی ہے.نماز ہی ہے جو انسان کے اعمال کی قبولیت میں اہم کردار رکھتی ہے اور اسے قیامت کے ہولناک عذاب سے بچاتی ہے

نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اسے دین اسلام میں وہی مقام دیا گیا جو سر کو بدن کی نسبت عطا کیا گیا جس طرح سر کے بغیر بدن کی شناخت مشکل ہے اسی طرح نماز کے بغیر اسلام اور مسلمان کی پہچان مشکل ہے

عزیزان گرامی ! حقیقی شیعہ، حقیقی ماتمی وہی ہے جونماز کو کسی حال میں تر ک نہ ہونے دے.اس لئے کہ نماز ہی کے ذریعہ سے ہم امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشیف کو راضی کر سکتے ہیںجیسا کہ روایات میں ملتا ہے : شیعتنا من اتّبعنا فی اعمالنا. ہمارا شیعہ وہ جو اعمال میں ہماری پیروی کرے بے نمازی شخص کو قیامت شفاعت آل محمد علیہم السلام نصیب نہیں ہو گی چاہے وہ کتنے ہی اعمال بجالائے. اس لئے کہ قیامت سب سے پہلا سوال ہی نماز کے بارے میں ہوگا.خاص طور پر میرے نوجوان بھائی اس نکتہ پر توجہ کریں اس لئے کہ نوجوان اور جوان کسی بھی قوم سرمایہ ہوتے ہیں اور شیطان بھی انہیں کو زیادہ گمراہ کرتا ہے .لیکن جو امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کے سپاہی ہیں وہ پنجگانہ نماز تو دور کی بات اپنی نماز تہجد بھی قضا نہیں ہونے دیتے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ کس چیز میں ان کے مولا و آقا کی خوشنودی ہے.اور پھر جب کوئی نوجوان مصلائے عبادت پر آکر کھڑا ہوتا ہے تو آواز ربّ العزت آتی ہے اے ملائکہ ! آؤ دیکھو جس آدم پر کل تم اعتراض کر رہے تھے آج اسی کا نوجوان فرزند اپنی تمام ترت مصروفیات کو چھوڑ کر میری بارگاہ میں سر جھکائے ہوئے ہے.آپ نوجوان ہیں خدانے آپ کو نوجوانی اور جوانی کی نعمت عطاکی اس سے بھر پور فائدہ اٹھاؤ اور اس دن کی ندامت و پشیمانی سے اپنے آپ کو نجات دو.خود بھی نماز پڑھو اور اپنے دوتوں کو بھی اسکی عادت ڈالو

عزیزان گرامی! نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ فروع دین میں سے جس قدر قرآن نے نماز پر تاکید کی اس قدر کسی اور حکم کے بارے میں نہیں کی تقریبا ٨٤ مقامات پر نماز کا حکم دیا گیا نماز کی ااہمیت کا پتہ اس کے آثار سے چلتا ہے .ہم آنے والے چند روز اسی موضوع پر گفتگو کریں گے تا کہ میرے نوجوان بھائیوں کے لئے اس اہمیت واضح ہو جائے اس لئے کہ ہمارے خیال کے مطابق جو لوگ نماز سے نزدیک نہیں جاتے اس کی وجہ ان کا اس کی اہمیت سے آگاہ نہ ہونا ہے ورنہ کونسا مومن ایسا ہو سکتاہے کہ اسے نماز کے نہ پڑھنے کے نقصانات اور اس پڑھنے کے اجر و ثواب کا علم ہو اور اس کے باوجود وہ اسے ترک کر دے.

١۔نماز کامیابی کا راستہ:

نمازی شخص دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب و کامران ہوتاہے جیسا کہ پروردگار عالم نے اپنی لاریب کتاب میں اس کی ضمانت دی ہے :

( قد افلح من تزکّی و ذکر اسم ربّه فصلّیٰ ) ( ۴۰ )

ترجمہ: بے شک پاکیزہ رہنے والا کامیاب ہو گیا جس نے اپنے ربّ کے نام کی تسبیح کی اور نماز پڑھی

آج ہر انسان کی کوشش یہی ہے کہ وہ اور اس کی اولاد کسی طرح اس دینا میں بھی کامیاب ہو اور آخرت میں بھی .مگر قرآن نے اس کے لئے انتہائی آسان نسخہ بتا دیا جس میں نہ تو کوئی خرچ ہے نہ کسی کی محتاجی ، اور پھر ضمانت بھی اس ذات کی طرف سے ہے جو قادر مطلق ہے .اب بھی اگر کوئی شخص اپنی کامیابی کے بارے میں پریشان ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے خدا پر یقین نہیں ہے.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ہمارا عقیدہ جس قدر ڈاکٹر صاحب پر ہے اس قدر خدا کی ذات پر نہیں ہے ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں اور یہی چیز مسلمانوں کی ناکامی اور پوری دنیا میں ذلت ورسوئی کا باعث بن رہی ہے اگر ہم نے خدا کی ذات پر بھروسہ کیا ہوتا تو آج اس قدر پریشان نہ ہوتے

٢۔خدا سے مدد کا ذریعہ :

نماز خشیت الٰھی کا مظھر اوراس سے مدد حاصل کرنے کاذریعہ ہے:

( واستعینوا بالصبر والصلاة وانها لکبیرة الّا علی الخاشعین ) ( ۴۱ )

ترجمہ:نماز اور صبر کے ذریعہ مدد طلب کرو ، نماز بہت مشکل کام ہے سوائے ان لوگوں کے جو خضوع و خشوع والے ہیں.

دوسرے مقام پر فرمایا :

( یاأیهاالّذین آمنوا استعینوابالصبروالصلاة انّ الله مع الصابرین ) ( ۴۲ )

ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد طلب کرو ،بے شک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.

٣۔تقوٰی کی علامت:

قرآن کریم نے متقی انسان کی علامات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

( ذلک الکتاب لاریب فیه هدی للمتقین الّذین یؤمنون بالغیب و یقیمون الصلاة ) ... ( ۴۳ )

ترجمہ: یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے متقیوں کے لئے ھدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں

٤۔ نماز ذکر خدا:

ذکر خدا کی کئی ایک اقسام ہیں لیکن وہ چیز جسے خودخدا نے اپنا ذکر کرنے کا وسیلہ بیان کیا ہے وہ نماز ہے جیسا کہ ارشاد ہوا :

( یا موسیٰ انیّ أنا ربّک فاخلع نعلیک انّک بالواد المقدس طوٰی و أنا أخترتک فاستمع لما یوحٰی انّنی أناا لله فاعبدنی و أقم الصلاة لذکری ) ( ۴۴ )

ترجمہ: اے موسٰی ! میں تمھارا پروردگار ہوں لہٰذا تم اپنی جویوں کو اتارو کیونکہ تم طوٰی نام کی مقدس اور پاکیزہ وادی میں ہو ، اور ہم نے تم کو منتخب کرلیا ہے لہٰذا جو وحی جاری کی جا رہی ہے اسے غور سے سنو ، میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے پس تم میری عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو

٥۔ رحمت خدا کا باعث:

اگر کوئی شخص پابندی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس دن جب ہر ایک شخص رحمت خدا کا منتظر ہو گا کہ کیا اس کو نصیب ہوتی ہے یا نہیں تو ایسے عالم میں نمازی ہی ہوگا جو اس رحمت پروردگار کا مستحق بنے گا جس کا اس نے اپنے نیک بندوں سے وعدہ کیا ہے :

( أقیمواالصلوة و آتوا الزکاة و أطیعوا الرسول لعلکم ترحمون ) ( ۴۵ )

ترجمہ: نماز قائم کرو ، زکات ادا کرو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو تاکہ تمھارے

حال پر رحم کیا جائے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح روز قیامت نمازیوں پر رحمت خدا نازل ہوگی اسی طرح بے نمازیوں پر کوئی رحم نہیں کیا جائے گا اور انہیں نماز میں سستی برتنے کی وکہ سے جھنّم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ خود پروردگار عالم نے اس کا فیصلہ فرمایا:( فویل اللمصلین الّذین هم عن صلاتهم ساهون ) ( ۴۶ )

ترجمہ: ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں.

خدا وند متعال ہم سب کو نمازیوں میں سے قرار دے

چھٹا درس

نماز کی اہمیت( ٢)

( أقیموالصلاة ولا تکونوا من المشرکین )

ترجمہ: نماز قائم کرو اور مشرک مت بنو

عزیزان گرامی! ہماری گفتگو نماز کی اہمیت کے بارے میںتھی کل کی تقریر میں قرآنی آیات کے ذریعہ سے یہ عرض کیا گیا کہ نماز کس قدر اہمیت کی حامل ہے اور آج انشاء اللہ یہ بیان کیا جائے گا کہ نماز نہ پڑھنے والے کی کیا سزاہے ؟ اس لئے کہ ہمارے خیال کے مطابق جتنے بھی نوجوان بھائی نماز پڑھنے سے کتراتے ہیں نماز کے وقت مسجد کے قریب سے بھی نہیں گذرتے اس کی وجہ ان کا نماز کے پڑھنے کی اسلام میں اہمیت اور اس کے ترک کرنے کے گناہ سے آشنا نہ ہونا ہے ورنہ کون ایسا مومن ہو گا جو اتنا بڑا گناہ جانتے ہوئے بجا لائے ، لہذا ہم آج نماز نہ پڑھنے کا گناہ اور اس کے نقصانات کو بیان کریں گے تا کہ ہمارے نوجوان عزیز اسے جان لینے کے بعد اسے کبھی ترک نہ کرنے پائیں .قرآن کریم کی آیات اور معصومین علیہم السلام کی روایات جو ہم تک پہنچی ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ نماز کسی بھی حالت میں معاف نہیں ہے چاہے انسان جنگ کے میدان میں ہی کیوں نہ ہویا اسے کسی اور وجہ سے جان کاخطرہ ہو. امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بھائی علی بن جعفر امام علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں کہ مولا اگر انسان ایسی حالت میں ہو کہ وحشی درندہ اس کو گھیرے ہوئے ہو اور نماز کا وقت بھی آپہنچا ہو اب اگر وہ نماز شروع کرے تو اسے اس درندہ حیوان کے حملہ کا زیادہ خطرہ ہے اس لیئے کہ اس کا رخ قبلہ کی جانب نہیں ہے تو ایسی صورت میں کیا کرے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : اسے چاہیئے کہ کھڑے ہو کرنماز پڑھے اور اشارے سے رکوع و سجود بجا لائے.اگرچہ قبلہ کی جانب منہ نہ ہی ہو( ۴۷ )

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص زمین پر پاؤں نہ رکھ سکتا ہو( خدا نخواستہ پانی میں غرق ہورہایاسولی پر لٹکا ہوا ہو) تو اسے چاہئے کہ اشارے سے نماز پڑھے

جس قدر روایات بے نمازی کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں شاید ہی کسی دوسرے گناہ گار کے بارے میں نازل ہوئی ہوں، بے نمازی انسان خدا ، ملائکہ، انبیاء اور یہاں تک کہ پرندے بھی اس پر لعنت بھیجتے ہیں امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

انّ الفاختة تقول ألّلهمّ العن من ترک الصّلاة متعمّدا

فاختہ کہتی ہے:... اے پروردگار ! جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والے پر لعنت فرما.

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا روایت کرتی ہیںکہ میں نے اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : بابا جان اگر کوئی شخص نماز پڑھنے میں لاپرواہی کرتا ہے تو اس کی کیا سزا ہوگی؟

تو آنحضرت نے فرمایا :اگر کوئی مرد یا عورت نماز کو حقیرسمجھتے ہوئے اسے ترک کردیتا ہے تو اسے دنیا و آخرت میں پندرہ قسم کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ، چھ دنیا میں ، تین مرتے وقت ، تین قبر میں اور تین اس وقت جب اسے قبر سے اٹھایا جایا گا .وہ چھ عذاب جن میں بے نمازی شخص اسی دنیا میں مبتلا ہو گا وہ یہ ہیں :

١۔اس کی عمر سے برکت کو اٹھا لیا جاتا ہے

٢۔ اس کے رزق میں برکت نہ رہتی

٣۔ اس کے چہرے سے نور کو سلب کرلیا جاتا ہے

٤۔ بے نمازی کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا

٥۔بے نمازی کی کوئی دعا مستجاب نہیں ہوتی

٦۔ کسی کی دعا اسکے حق میں قبول نہیں ہوتی

وہ تین عذاب جو موت کے وقت بے نمازی پر نازل ہوتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

١۔بے نمازی ذلّت کی موت مرتا ہے

٢۔ بھوک کے عالم میں اسکی روح قبض ہوتی ہے

٣۔ پیاس کی شدّت طاری ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر پوری دنیا کے دریاؤںاور سمندروں کا پانی پلا دیا جائے پھر بھی سیراب نہیں ہوتا

وہ تین عذاب جو عالم برزخ میں بے نمازی پر نازل ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:

١۔ اس پر ایک فرشتہ کو مأمور کیا جاتا ہے جو روز قیام تک اسے شکنجہ کرتا رہتا ہے

٢۔ اسے دفن کردینے کے بعد اس کی قبر اس پر تنگ کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے فشار قبر میں اضافہ ہو جاتا ہے.

٣۔ اسکی قبر میں تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے اور روشنی کانام و نشان نہیں رہتا

وہ تین عذاب جو روز محشر بے نمازی پر نازل ہونگے :

١۔ ملائکہ اسے پیٹ کے بل گھسیٹتے ہوئے میدان محشرمیں لائیں گے

٢۔ حسا ب لینے میں بہت سختی کی جائے گی

٣۔رحمت خداسے محروم رہے گا( ۴۸ )

بے نمازی انسان ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتاہے اورجس طرح نماز کا ترک کرنا اس کے دین کو نابود کرتا ہے اسی طرح اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے اور اس کا اثر صرف اس کی اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے آس پاس کے افراد بھی بے نمازی کی نحوست کی وجہ سے عذاب می مبتلا رہتے ہیں.اس لیے کہ یہ معاشرہ ایک کشتی کے مانند ہے جس کے اند ر سوار لوگوں میں سے کسی بھی ایک کی غلطی کا اثر اس میں سوار تمام افراد پر پڑھتا ہے اسی طرح گناہ کا اثر بھی اس کے انجام دینے والے کے علاوہ باقی تمام معاشرہ پر بھی پڑتا ہے اسی لیے تو پروردگار عالم نے فقط اپنے آپ کو گناہ سے بچنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا :( قوا أنفسکم و أهلیکم نارا ) جہاں اپنے کو جہنم کی آگ سے بچا رہے ہو وہاں اپنے گھر والوں کو بھی اس آگ سے بچاؤ .اور شاید اسی لئے روایا ت میں ملتا ہے کہ اگر باپ نماز پڑھ رھا ، آدھی رات سے مصلائے عبادت بچھائے ہو ئے عبادت الہی میں مشغول ہے لیکن جوان بیٹامزے سے سورہا تو اس باپ کی یہ عبادت قبول نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ اپنی اولاد کی دنیا کی فکر تو کرتا ہے مگر اس کی آخرت سے غافل ہے

ایک شخص رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ!میں ایک مالدار آدمی تھا لیکن ایک مرتبہ فقیر وتنگدست ہو گیا ہوں .فرمایا : کیا تم نماز نہیں پڑھتے ہو ؟ عرض کیا : پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھتا ہوں فرمایا : کیا روزہ نہیں رکھتا ؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! سال میں تین ماہ ( رجب ، شعبان اور رمضان ) روزے بھی رکھتا ہوں اب اللہ کے رسول تعجب میں پڑ گئے اور سوچنا شروع کیا کہ پھر تم نے کونسا ایسا گناہ کر لیاجسکی وجہ سے تیرے مال سے برکت اٹھ گئی .اتنے میں جناب جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ ! خدا آپ پر درود و سلام بھیجتا ہے اور فرما رہا ہے کہ اس بندے سے کہہ سے کہ اس کے گھر کے سامنے ایک باغ ہے جس میں ایک چڑیا کا گھونسلہ ہے اس گھونسلہ میں ایک بے نمازی کی ہڈی موجود ہے جس کی نحوست کی وجہ سے تمھارے مال سے برکت ختم ہو گئی اور تما مفلس و نادار ہو گئے ہو. رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بتایا .وہ شخص باغ میں داخل ہوااوراس ہڈی کو گھونسلہ سے اٹھا کر دور پھنکا جس کے بعد دوبارہ مالدار ہوگیا.( ۴۹ )

تو عزیزان گرامی ! آپ نے دیکھا کہ کس قدر بے نمازی انسان دوسروں کے لئے مشکلات ایجاد کرتا ہے.

اسی طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانہ کاواقعہ ہے کہ وہ ایک گاؤں میں پہنچے ، دیکھا انتہائی سر سبز اور شاداب ہے نہریں اورچشمے بہہ رہے لوگوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا انتہائی اچھا استقبال کیا ، بہت اچھے طریقے سے مہمان نوازی کی. جس سے آنحضرت سے بھی تعجب کیا لیکن جب اسی گاؤں سے تین سال کے بعد گذرے تو کیا دیکھا : نہریں اور چشمے خشک ہو چکے ہیں سارا سبزہ خشکی میں تبدیل ہو چکا ، حیران ہو کر اپنے پروردگار سے سوال کیا: پالنے والے اتنی کم مدت میں یہ سب کچھ کیا ہو گیا یہ بستی کیسے ویران ہو گئی ؟

وحی الہی نازل ہوئی اے عیسٰی ! اس بستی کے ویران ہونیکا سبب یہ ہے کہ ایک دن ایک بے نمازی اس بستی میں داخل ہوا اس نے اس کے چشمہ سے منہ ہاتھ دھویا جس کی نحوست کی وجہ سے چشمہ کا پانی بند ہو گیا ، دریا کی روانی رک گئی اور یوں یہ بستی ویران ہو گئی .اور اے عیسٰی سنو! جس طرح نماز نہ پڑھنے سے انسان کی آخرت تباہ ہو جاتی ہے اسی طرح اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہو جاتی ہے( ۵۰ ) .

یہ ہے نماز نہ پڑھنے کا اثر ، آج ہمارے مال میں برکت کیوں نہیں ہے؟ اس لئے کہ بڑا سے بڑا نمازی آپ دیکھ لیں خود نماز پڑھ رہا لیکن بچوں کی نماز کی کوئی فکر نہیں.بیوی نماز پڑھے یا نہ پڑھے اسے اس سے کوئی غرض نہیں جوان بیٹا نماز نہیں پڑھتا تو اسے کہنے کو تیار نہیں جبکہ اسی بیٹے کی دنیا بنانے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کر رہا

عزیزان گرامی ! دین مقدس اسلام نے آپ سے یہ نہیں کہا کہ اپنی نماز پڑھ لو اور بس نہیں بلکہ اس نے تو اپنی نماز کا بھی حکم دیا اور ساتھ ساتھ اپنے بیوی بچوں کو بھی اس کا حکم دینے کا امر صادر فرمایا ہے خدا وند متعال ہم سب کا شمار نماز یوں میں سے فرمائے اور اپنے گھر والوں، اپنے دوست احباب کو اس نیک کام کی طرف راغب کرنے کی توفیق عطا فرمائے.


3

4

5

6