ہدیہ مبلّغین

ہدیہ مبلّغین50%

ہدیہ مبلّغین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ہدیہ مبلّغین
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8396 / ڈاؤنلوڈ: 4225
سائز سائز سائز

ساتواں درس

فلسفہ اخلاق

قال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم :انّی بعثت لأُتمّم مکارم الأخلاق

مؤمنین کرام رسول مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد مبارک ہے جس میں یہ فرما رہے کہ مجھے مکارم اخلاق کو کامل کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا .اور یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام اخلاق کی اس اعلٰی منزل تک پہنچے کہ ارشاد قدرت ہوا : انّک لعلٰی خلق عظیم.

(اے میرے رسول ) آپ اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں.

تو جس مکارم اخلاق کی تکمیل کو رسالت کامقصد قرار دیا گیا اس سے مراد کیا ہے ؟ امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں : مکارم اخلاق دس چیزیں ہیں ان کے حاصل کرنے میں کوتاہی مت برتو اس لئے کہ ممکن ہے ایک صفت بیٹے میں ہو مگر باپ میں نہ ہو یا باپ میں ہو اور بیٹے میں نہ ہو .اور اسی طرح ممکن ہے کہ غلام میں تو پائی جاتی ہو مگر آزاد میں نہ ہو ، اور وہ صفات یہ ہیں :صدق مع الناس و صدق و اللسان و أداء الأمانة صلة الرحم و اقراء الضیف و اطعام السائل و المکافاة علی الصنایع و التذمّم للجار و التذمّم للصاحب و رأسهنّ الحیاء ( ۵۱ )

١۔ لوگوں سے سچائی

٢۔ صداقت

٣۔ امانت کا اداکرن

٤۔ صلہ رحمی

٥۔مہمان نوازی

٦۔فقراء کی مدد

٧۔ احسان

٨۔ نیکی کا بدلہ نیکی سے

٩۔ہمسایوں سے اچھا سلوک

١٠۔ دوستوں سے بھلائی اور ان تمام نیک صفات کا سر چشمہ حیاء ہے.

امام رضا علیہ السلام رویت کرتے ہیں کہ رسول خدا نے لوگوں سے فرمایا : اخلاق حسنہ کو حاص کرو اور برے اخلاق سے پرہیز کرو اس لئے کہ نیک اخلاق انسان کو جنّت میں لے جاتا ہے جبکہ برااخلاق اسے جھنّم میں لے جانے کا باعث بنتا( ۵۲ )

امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

حسن الاخلاق برهان الأعراق ( ۵۳ )

اچھا اور نیک اخلاق انسان کی فطرت کے پاک ہونے کی علامت ہے

سئل عن الصادق( ع) : ما حدّ حسن الخلق ؟ قال: نلین جانبک و تقلّب کلامک و تلقٰی أخاک ببشر حسن ( ۵۴ )

امام صادق(ع) سے پوچھا گیا کہ حسن خلق کی کیاعلامت ہے ؟ فرمایا :١۔ نرم مزاج ہونا .٢۔ اچھی گفتگو کرنا .٣۔ دوسروں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا

ہم اکثر نماز کے قنوت میں یہ دعا پڑھتے رہتے ہیں : ربّنا آتنا فی الدنیا حسنة . اے پالنے والے ہمیں دنیا میں نیکی عطافرما اس نیکی سے مراد کیا ہے؟ امام معصو م(ع) فرماتے ہیں : اس سے مراد اخلاق حسنہ ہے.(٢)

اسلام میں اخلاق کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:اخلاق حسنہ نصف ایمان ہے( ۵۵ )

اس اخلاق کا فلسفہ کیا ہے ؟ کس لئے شریعت مقدس اسلام نے اس کی اتنی تاکید فرمائی ہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ یقینا اس میں انسانوں کے لئے دینی و دنیاوی فائدہ پایا جاتا ہے کیو نکہ کوئی بھی حکم اسلام حکمت و فلسفہ سے خالی نہیں ہے روایات میں اخلاق کا فلسفہ جو بیان ہوا ہے وہ یہ ہے:

١۔روح کی لذّت :

امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں :

لاعیش ألذّ من حسن الخلق ( ۵۶ )

حسن خلق سے بڑھکر زندگی کی کوئی لذت نہیں ہے.

٢۔ دوستی کا باعث :

رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :حسن خلق دوستی کا باعث اور کینہ کے دور ہونے کا موجب بنتا ہے اور لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا نصف عقل ہے( ۵۷ )

٣۔ گناہوں کی نابودی :

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جس طرح سورج برف کو پگھلا کرختم کردیتا ہے اسی طرح اخلاق حسنہ گناہوں کی نابودی کا باعث بنتا ہے. نیز فرمایا : برااخلق انسان کے نیک اعمال کو اسے طرح ضائع کردیتا ہے جس طرح سرکہ شھد کو ضائع کر دیتاہے( ۵۸ ) .

٤۔رسول خدا سے قربت :

رسول خداصلی اللہ نے فرمایا :أقربکم منّی غداأحسنکم خلقا و اقربکم من الناس ( ۵۹ )

روز قیامت وہی میرے نزدیک ہوگا جس کا اخلاق اچھاہوگا اور لوگوں سے نزدیک ہوگا.

٥۔اجر برتر:

رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان حسن خلق کے ذریعہ سے روزہ داراور شب زندہ دار شخص کا اجر پا سکتاہے( ۶۰ )

٦۔گناہوں کا کفارہ:

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

التبسّم فی وجه المؤمن الغریب من کفّارة الذّنوب ( ۶۱ )

مسافر مومن کے سامنے مسکرانا گناہوں کے کفارہ کاباعث بنتا ہے.

٧۔وسعت رزق:

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

حُسن الخُلق من الّدین وهو یزید فی الرّزق ( ۶۲ )

حسن خلق ایمان کی علامت ہے اور رزق میں وسعت کاباعث بنتا ہے.

٨۔تکمیل ایمان:

امام رضا علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار اور انہوں نے اپنے اجداد سے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایمان کے لحاظ سے وہ لوگ کامل تر ہیں جن کااخلاق اچھا ہو اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھیجیجانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگوں کو اخلاقی برائیوں سے بچائیں اور انہیں سعادت و کمال اخروی تک پہنچاسکیں اسی لئے شریعت مقدسہ اسلام میں اخلاق پر اس قدر زور دیا گیا ہے آج ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یہی اخلاقی بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے آئے دن بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اگر لوگ اخلاق حسنہ کی خوبیوں اور اخلاق سیئہ کی برائیوں اور اس کے انجام سے آشنا ہو جائیں تو یہ سب برائیاں خود بخود دور ہو جائیں گی اس لئے کہ جب لوگوں کو معنوی غذا ملنی ہی نہیں تو وہ کیسے ان برائیوں سے چھٹکاراپاسکتے ہیں .اور اس کے کئی ایک عوامل ہیں کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن کیوں پستی کی طرف جاریا ہے ؟ کیوں ہمارے اندر اخلاقی برایئوں کا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.؟ اسکی وجہ کیا ہے اور یہ برائیا ں کہاں سے جنم لے رہی ہیں ؟

عزیزان گرامی ! کسی بھی شخص کے بد اخلاق ہونے کے تین عوامل ہیں :

١۔ جھالت:

امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

الخُلق المذموم من ثمار الجهل

برا اخلاق جھالت کا ثمرہ ہے.( ۶۳ )

آج ہمارے معاشرہ میں علم کا بہت فقدان ہے جس کی بناء پرطرح طرح کی برائیاں جنم لے رہی ہیں اور ایسی ایسی بیماریاں جن کا انسان تصور ہی نہیں کر سکتا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ جسم کی بیماری کا تعلقاخلاقی بیماریوں سے ہے جس قدر اخلاقی بیماریوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ویسے ہی جسمانی بیماریاںبھی نئی نئی وجود میں آتی جائیں گی. اگر آج سے بیس سال پہلے کے آدمی کو لایا جائے تو وہ موجودہ اخلاقی بیماریوں کو دیکھ کر حیران رہ جائے اس لئے کہ آج جو ڈش ، کیبل اور پھر ان سب سے بڑھ کر انٹر نیٹ کی بیماری ہے جس سے ہمارے بچے بگڑ رہے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دن بدن جسمانی بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے.

اور یہ سب دینی تعلیمات سے جھالت کا نتیجہ ہے جس قدر ھم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کا خیال رکھتے ہیں کیا کبھی اس کا دسواں حصہ بھی ان دینی تعلیم پر توجہ دی ہے

٢۔ پستی و نجاست:

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

النّفس الدّنیة لا تنفک عن الدّناآت ( ۶۴ )

نفس پست ہے اورپستیوں سے جدا ہونے والا نہیں اس لئے جب تک انسان اپنے نفس پر مسلط نہیں ہوگا تب تک وہ اسے اخلاقی بیماریوں میں مبتلا رکھے گا .تبھی تو نفس سے جھاد کو جھاد اکبر کا نام دیا گیاہے اس لئے کہ نفس کا مقابلہ کرنا انتھائی دشوار کام ہے.

٣۔وراثت:

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا : خداوند متعال نے جناب آدم علیہ السلام کے بیٹوں میں سے ایک کے لئے حور اور دوسرے کے لئے جنوں میں سے ایک عورت کا انتخاب کیا جن سے انہوں نے شادی کی جتنے بھی خوش اخلاق لوگ ہیں وہ سب اس حور کی اولاد ہیں اور بد اخلاق جن کی

آٹھواں درس

جھالت کا دین پر اثر (١)

قال الامام المهدی علیه السلام : آذانا جهلاء الشّیعة وحمقائهم ومن دینه جناح البعوضة أرجح منه ( ۶۵ )

تحقیق ہمیں جاہل اور کم عقل شیعہ اور ان لوگوں نے اذیت کی ہے جن کے دین سے مچھر کا پر بھی زیادہ محکم ہے

عزیزان گرامی ! کل کے درس میں یہ بیان کیا گیا کہ کسی بھی انسان کے بد اخلاق ہونے کا ایک عامل، ایک سبب اس کی دینی احکام سے جھالت ہے جھالت کی پستی اور اس کے ناپسند ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اگر آپ کسی کو جاھل کہیں تو وہ فورا ناراض ہو جائے گا

اس جھل کی دو قسمیں ہیں :

١: جھل بسیط:

کسی بھی انسان کا پڑھنا لکھنا نہ جاننا ، یا یہ کہ دنیا کاعلم تو اس کے پاس بہت ہے مگر علم دین سے بے بھرہ ہے تو ایسے شخص کو جاھل بسیط کا جائے گا. اس لئے کہ وہ خود بھی جانتا ہے کہ میرے پاس دین کا علم نہیں ہے .اور یہ اس کے لئے نقص شمار ہوتاہو گا. چاہے وہ مرد ہو یا عورت .اگر عورت ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام نے اولاد کی تربیت کے بارے میں کیا کیا احکام بیان فرمائے ہیں کس طرح اولاد کی صحیح تربیت کی جائے ، شریعت مقدسہ اسلام نے شوھر کے کیا حقوق بیان کئے ہیں اور اگر نوجوان ہے تو اسے یہ علم ہونا چاہئے کہ کیسی زوجہ کا انتخاب کرے ؟ اسلام نے نیک زوجہ کی کیا علامات بیان فرمائی ہیں ؟ تاکہ اس کے دین وایمان میں اس کی مدد گار بن سکے ورنہ کتنے افراد ایسے ہیں جو شادی سے پہلے تو نماز بھی پڑھتے تھے ، روزہ بھی رکھتے تھے اور باریش بھی تھے لیکن جیسے ہی بیوی آتی گئی نماز بھی گئی ، روزہ بھی گیا ، مسجد بھی گئی، امام بارگاہ جانا بھی ترک ہو گیا اور آہستہ آھستہ ڈاڑھی بھی کلین شیو ہونے لگی

یہ سب شریعت سے جھالت کا نتیجہ ہے اسی لئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :

طلب العلم فریضة علٰی کل مسلم ( ۶۶ )

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے

اور پھر فرمایا :

أطلبو االعلم من المهد الی اللّحد

گود سے لیکر گور تک علم حاصل کرو

اس میں کونسی شرم کی بات ہے کہ اگر انسان مولاناصاحب کے پاس جا کر اپنی نماز یا اپنے عقیدہ کی اصلاح کر لے .اور اپنی جھالت کو علم میںبدل دے اسلام نے بھی تو اہل علم ہی کی تعریف کی ہے :

یرفع اللّه الّذین آمنوا منکم و الّذین اُوتوا العلم درجات ( ۶۷ )

ترجمہ:خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتاہے.

یہ آیت مجیدہ بتا رہی ہے کہ ایسا شخص جو دین کی سوجھ بوجھ رکھتا ہے اس میں اور جو دین کے احکامات سے جاہل ہے اس میں بہت زیادہ فرق ہے اور آئمہ معصومیں نے بھی اپنی دوستی کا یہی معیار بتایا کہ اگر دیکھنا چاہتے ہو کہ کون ہم سے زیادہ قریب ہے تو ہماری روایات کو معیار قرار دو جو جس قدر ہماری روایات کو بہتر جانتا ہو گا اتنا ہی ہم سے قریب ہو گا

ہشام بن حکم سترہ یا اٹھارہ سال کا جوان ہے ابھی ڈاڑھی کے بال تک نہیں آئے لیکن جب چھٹے امام کی مجلس میں آتا ہے تو امام اپنے مقام سے بلند ہوتے ہیں اس کے استقبال کے لئے اور اسے اپنے پہلو میں بٹھاتے ہیں اب محفل میں موجود بوڑھے افراد پر یہ گراں گذرا کہ اتنا احترام ہمارا نہیں کیا جاتا جتنا ایک نوجوان کا کیا جارہا امام علیہ السلام نے فرمای

هذا ناصرنا بقلبه ولسانه و یده ( ۶۸ )

یہ دل ، زبان اور ہاتھوں سے ہماری مدد کرنے والا ہے یہ مبلّغ اسلام ہے اس کے پاس دین کا علم ہے اس کے بعد امام علیہ السلام نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی گویا امام یہ بتانا چاہ رہے کہ اگرچہ یہ نوجوان ہے لیکن چونکہ اس کے پاس دین کا علم ہے لہذا تم سب پر فضیلت رکھتا ہے اس لئے کہ اسلام میں برتری کا معیار علم ہے.کیونہ علم کمال بشریت ہے جو اپنے حامل کو ہمیشہ سرفراز اور سر بلند رکھتا ہے.

اب اگر کوئی مومن قرآن پڑھنا نہ جانتا ہو تو یہ ایک عیب ہے اسی طرح اگر کوئی ماں یا بہن طہارت و نجاست کے احکام سے آگاہ نہ تو اس کے لئے بھی یہ عیب ہے اس لئے کہ جب وہ طہارت و نجاست سے آگاہ نہ ہوگی تو خود بھی حرام کھائے گی اور اپنے شوہر اور اپنی اولاد کو بھی حرام کھلائے گی. ایسی عورت کبھی بھی کنیز فاطمہ نہیں بن سکتی کبھی بھی سیدہ زینب کی سچی چاہنے والی نہیں بن سکتی اس لئے کہ ان کے جو چیز محبت کا معیار ہے. وہ دین کا علم ہے

آج کتنے نوجوان ایسے ہیں جو بی اے، ایم اے کر چکے لیکن قرآن پڑھنا نہیں جانتے اور یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا نقص ہے

ورنہ ہر مرنے والا علی مولا کی زیارت کرتا ہی کرتا ہے چاہے دنیا میں زیارت کا منکر ہی کیوں نہ ہو مسلمان ہو یا کافر ، مومن ہو یا منافق ، شیعہ ہو یا علی کے شیعوں کو برا بھلا کہنے والا ہر ایک مرنے والا علی مولا کی زیارت کرتا ہے جیسا کہ مولائے کائنات نے حارث ھمدان سے فرمایا :

یا حارث همدان من یمت یرنی من مؤمن أو منافق قبل ( ۶۹ )

ہاں یہ الگ بات ہے کہ کوئی مولا کی زیارت کر کے خوش ہو جاتا ہے اور کوئی غمگین و پریشان اس لئے کہ اگر اس دنیا میں علی مولا کی پیروی کی ہوگی ، اپنے امام کی آواز پر لبیک کہی ہو گی تو جیسے ہی مولا کو دیکھے گا خوش ہو جائے گا لیکن اگر خدا نخواستہ مولا کی بات کو مانا ہی نہیں مسجد میں کبھی گیا ہی نہیں ، نماز کبھی پڑھی ہی نہیں ، روزہ رکھ لے تو تبخیر ہو جاتی ہے، یتیم کے سر پہ کبھی ہاتھ رکھا ہی نہیں. تو ایسا شخص یقینا مولاکو دیکھ کر گھبرا جائے گا اور کبھی بھی مولا کی زیارت کا مشتاق نہیں ہوگا اس لئے کہ اس نے مولا کی تعلیمات پر عمل ہی نہیں کیا اور ممکن ہے کہ اس کی یہ جھالت اسے مرتے وقت دشمن خدا وعلی اور دشمن عزرائیل بنا دے

اس لئے کہ سب کی روح مولا کے حکم سے قبض ہوگی.اگر علم ہوگا یقین ہو گا ایمان کامل ہوگا تو صحیح ورنہ بہت مشکل ہے کہ انسان کا خاتمہ خیر پر ہو اس لئے کہ ایک طرف توشیطان انسان پر مسلسل حملہ کر رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف دنیا کی محبت اسے اس دنیا سے جانے نہیں دیتی یہی وجہ ہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ بعض لوگوں کی روح اس قبض کی جائے گی جس طرح رگ کو بدن سے جدا کیا جاتا ہے یعنی وہ جانا نہیں جاتا اسے زبردستی لے جایا جاتا ہے اس کی روح زبردستی نکالی جاتی ہے اب جب مولائے کائنات اجازت دیں گے اور ملک مقرّب اس کی روح قبض کرنے لگے گا تو چونکہ وہ اس دنیا سے نہیں جانا چاہتا لہذادشمن خدا بھی بن جائے گا ، دشمن علی بھی اور دشمن عزرائیل بھی اب یہ جب دینا سے جا رہا تو دشمن خدا و علی بن کے جا رہا

عزیزان گرامی !میں اپنے واجب الاحترام بزرگوں اور خاص طور پر نوجواں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ھمیشہ یہ دعا پڑھتے رھا کریںکہ :الّلهمّ اجعل عاقبة أمرنا خیرا اے پالنے والے ! ہماری عاقبت نیکی پر ہو.ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو ، زندہ رہیں تو حسین حسین کرتے ہوئے اور اس دینا سے جائیں تو نام علی زبان پر ہو اور علی مولا کی زیارت نصیب ہو ایسی حالت میں کہ مولا ہم سے راضی ہوں خدانہ کرے کہیں ایسے نہ ہو کہ انسان ساٹھ یا ستر سال تک علی علی کرتا رہے اور موت کے وقت جھالت کی وجہ سے دشمن علی ہو کر مرے.

٢۔ جھل تردید:

جھل کی دوسری قسم جھل تردید ہے یعنی انسان ھمیشہ شک و تردید کا شکار رہے. ماتم ٹھیک ہے یا نہیں ، نماز کوئی فائدہ پہنچاتی ہے یا نہیں ؟ یا علی مدد کہنا درست ہے یا نہیں ؟ تقلیدکرنا جائز ہے یا نہیں؟اور پھر کیا یہ مذہب بھی ٹھیک ہے یا نہیں ؟ یا یہ کہ خدا بھی ہے یا نہیں ؟ اسی طرح پوری زندگی شک وتردید میں گذار دیتا ہے جس اس کی دنیا بھی تباہ ہو جاتی ہے اور دین بھی. اس کی یہ حالت ویسے ہی ہے جیسے بدن کے اندر کوئی کانٹا ہو جو اسے ہر وقت اذیت پہنچاتا رہتا ہو ایسے افراد خود تو گمراہ ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ دوسروں کو بھی گمراہ کردیتے ہیں اس لئے کہ جب انسان کے ذہن میں شک آگیا تو پھر وہ کوئی بھی فیصلہ نہیں کر پاتا اور آج تو لوگوں کے عقیدوں کو خراب کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انہیں دین ومذہب کے بارے میں شک میں مبتلا کردیں جیسے آج پوری پوری کتابیں لکھی جارہی ہیں کہ نماز کا کوئی فائدہ نہیں ! تقلید کا کوئی فائدہ نہیں !کس لئے علماء کی طرف رجوع کریں ! اور پھر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایسی کتابیں لکھنے والے خود کو عالم بھی کہلواتے ہیں اور لوگوں کو مسائل حل کروانے کے لئے اپنی طرف رجوع کرنے کا حکم بھی دیتے ہیں ایسے صاحبان سے ہمارا یہ سوال ہے کہ اگر شریعت میں کہیں پہ علماء و فقھاء کی طرف رجوع کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تو آپ کس عنوان سے لوگوں کے پاس جاکر انہیں ایسی تبلیغ کر رہے اور کس عنوان سے آپ کو دعوت دی جاتی ہے یقینا ایک عالم ہونے کے ناطے بلایا جاتا ہے اگرچہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ نہ صرف یہ کہ اہل بیت علیہم السلام کو مانتے نہیں بلکہ ان کے مقصد کے دشمن بھی ہیں اورضعیف مومنین کی جھالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اہل بیت علیہم السلام کی سیرت سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہی وہ علماء ہیں جو دین کا مقدس لبادہ اڑھ کر مومنین کو نامحسوس طریقے سے دین سے دور کررہے ہیں امام عسکری علیہ السلام نے ان کا تعارف یوں کروایا :

عزیزان گرامی ! ایسے علماء سوء سے بچنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم خود اور اپنی اولاد کو دین مبین اسلام کی نورانی تعلیمات سے مزیّن نہیں کرتے اس لئے کہ جب ہمیں دین اور غیر دین کی پہچان ہی نہ ہو گی تو پھر دشمنان اسلام و اہل بیت علیہم السلام ہمیں اور ہماری اولاد کو آسانی سے گمراہ کر سکیں گے لہذا خدارا علماء سے استفادہ کرتے ہوئے اس جھالت کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں.

خداوند متعال مومنین کو یزید صفت عالم نماملاؤں کے شر سے محفوظ رکھے

نواں درس

جھالت کا دین پر اثر (٢)

قا ل الامام المهدی علیه السلام : آذانا جهلاء الشّیعة و حُمقائهم و من دینه جناح البعوضة أرجح منه

عزیزان گرامی ! یہ امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کا فرمان ہے جس میں امام اپنے شیعوں سے ان کی جھالت کی شکایت کررہے کہ ہمارے ان شیعوں نے ہمیں اذیت کی ہے ہمیں دشمن سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے جو اپنی جھالت کے سبب دشمن کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ ہماری بھی توہیں کرے اور ہمارے بے گناہ شیعوں کا قتل عام بھی کرے آج جتنااپنے شیعہ، مذہب کو نقصان پہنچارہے ہیں شاید دشمن اسے تصور ہی نہ کر سکتا ہو یہ جاھل اپنی جھالت کو علم ظاہر کرتے ہوئے غلط عقائد کو آئمہ علیہم السلام یا مذہب شیعہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور پھر دشمن اسی کو بہانہ بنا کر مومنین پر کفر و شرک کے بے بنیاد فتوے لگا کر مساجد اور امام بارگاہوں میں ان کا بے گناہ خون بہاتا ہے .لیکن یاد رکھیں عزیزان گرامی ! بانیان مجالس اور سامعین محترم اس بے گناہ خون میں برابر کے شریک ہیں اس لئے کہ یہ بانیان مجالس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے افراد کو دعوت دیں جو فرامین اہل بیت علیہم السلام سے لوگوں کو آگاہ کریں اور پھر خود بھی باعمل ہوں، ایسا نہ کہ لوگوں کو تو تبلیغ کریں مگر خود نماز تک ن پڑھتے ہوں! لوگوں کو ماتم کی فضیلت بتاتے ہوں مگر خود زندگی میں کبھی ماتم کیا ہی نہ ہو

عزیزان گرامی! یہ لوگ خائن ہیں، جاہل ہیں لیکن چونکہ ہم خود بھی تو دین سے آگاہی نہیں رکھتے کہ اچھے برے کو سمجھ سکیں لہذا ان کو ہمیں بے وقوف بنانے اور امام زمانہ ارواحنالہ الفداء کو اذیت پہنچانے کا موقع مل جاتا ہے ہماری گفتگو جہل کی دوسری قسم یعنی جھل تردید کے بارے میں تھی کہ مومن کو اپنے عقیدہ میں شک و تردید کا شکار نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شک انسانی روح کے لئے ایسے ہی ہے جیسے خدانہ کرے کسی کی آنکھ میں خار دار کانٹاچبھا ہوا ہو کس قدر انسان پریشان ہوتا ہے اس کا بدن دکھی رہتا ہے اور جلد سے جلد اس کے علاج کے در پے ہوتا ہے اسی طرح شک بھی انسان کی روح کو ھمیشہ پریشان کئے رکھتا ہے وہ کوئی بھی فیصلہ صحیح طرح سے نہیں کر پاتا لہذا اس کے علاج میں بھی جلدی کرنا چاہئے اور پھر مومن توہے وہ جو شک کو عقیدہ میں آنے ہی نہیں دیتا .اس بارے میںامام صادق علیہ السلام سے دو روایتیں نقل کر رہا ہوں امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

ألمؤمن کالجبل الرّاسخ لا تحرّکه العواصف

مومن محکم پہاڑ کے مانند ہوتا ہے جسے آندھیاں اور طوفان اپنے مقام سے ہلا نہیں سکتے

جیسے سخت سے سخت آندھیاں اور طوفان پہاڑ کو اس کی جگہ سے حرکت نہیں دے سکتے اسی طرح زمانہ کے حالات اور تبدیلیاں مومن پر کبھی اثر انداز نہیں ہوتے اس کے عقیدہ کو کوئی شے متزلزل نہیں کرسکتی ، اور یہی وہ زمانہ ہوتا ہے کہ جب ثابت قدم مومنین ، شک وتردید کے شکار مومنین سے جدا ہوتے نظر آتے ہیں اس لئے کہ وہ ہر ایک کی بات کو قبول نہیں کرتے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے امام نے یہ فرمایا ہے :

ہماری غیبت کے زمانہ میں اگر کوئی نئی بات یا نیاعقیدہ تمھارے سامنے پیش کیا جائے تو اس کے بارے میں مت جھگڑو بلکہ جس طرح عمل کرتے چلے آرے ہو اسی پر باقی رہو یہاں تک کہ ہمارا ظہور ہو ( غیبت نعمانی)

آج پوری دنیا میں عقیدے کی جنگ جاری ہے اور خاص طور پر ہمارا ملک اس کا میدان بنا ہواہے اوراس کی وجہ بھی ہماری جہالت ہے جس سے دشمن بھر پور فائدہ اٹھارہا ہے .اور ہم آپس میں لڑ رہے ہیں ایسے حالات میں وہی اپنے ایمان کو بچا پائے گا جو ایمان مستقر کا حامل ہوگا آج کہیں نماز کے تشھّد میں أشھد أنّ علیا ولی اللہ کے نہ پڑھنے والوں کو دشمن اہل بیت کہا جارہا تو کہیں اذان میںسے اس مقدس گواہی کو نکالنے کی مذموم کوششیں کر کے جاہل مومنین کے ایمان کو، ان کے عقیدہ کو متزلزل کیا جارہا ہے لیکن جو مومنین اپنے امام کے فرمان سے آشنا ہیں وہ نہ ان کی بات پر توجہ کرتے ہیں اور نہ ان کی بات پر عمل کرتے ہیں بلکہ جس طرح علماء نے بیان فرمایا اور فقہاء نے فتوٰی دیا اور جس طرح پہلے عمل کر رہے اسی پر ثابت قدم ہیں. اسلئے کہ وہ جانتے ہیں کہ نہ ان کے اندر دین کادرد ہے اور نہ ہی اخلاص نام کی کوئی چیز، بلکہ ذاتیات کی جنگ ہے نام کی جنگ ہے شہرت کی جنگ ہے جس میں نقصان مومنین کا ہورہا ہے مومنین کی صفوںمیں پھوٹ ڈالی جارہی ہے زمانہ کے امام کو پریشان کیاجارہا ہے.

دوسری روایت: امام علیہ السلام فرماتے ہیںالمؤمن کالسّنبلة مومن گندم کی بالی کے مانند ہوتا ہے جس طرح گندم کی بالیاں ہوا کے ساتھ ساتھ مڑتی دکھائی دیتی ہیں لیکن پہاڑ کے مانند محکم ہوتی ہیں کبھی ٹوٹنے نہیں پاتیں.

اے نوجوانو! تم بھی اپنے عقیدہ میں پہاڑ کی طرح رہو،اسے دلیل سے مانواور اس پر ثابت قدم رہو. آج کچھ اور کل کچھ یہ درست بات نہیں ہے .آپ ایسے افراد کو جانتے ہوں گے جو آج اس کے مرید تو کل کسی اور کے مرید اور اس پہلے والے کے دشمن یہ کام ابتداء ہی سے اشتباہ ہے اور عام طور پر ایسا کام جاہل افراد ہی کرتے ہیں کہ کسی کی ایک اچھی تقریر سن لی فورا اس کے مرید بن گئے اور اس کے پیچھے دوڑنے لگے ، اس سے بڑھکر کسی کو عالم تسلیم کرنے پر راضی ہی نہیں ہوتے ، لیکن جیسے ہی اس سے کوئی اشتباہ ہوا فورا اس کے مخالف بن گئے

بعض گھرانوں کی عورتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں .شوہر نے دس سال بیس سال اچھاسلوک کیا ، ہمیشہ ہر خواہش پوری کی لیکن ایک دن غصہ میں کچھ کہہ دیا یا کوئی خواہش پوری نہ کرسکا توفورا مزاج بگڑ گیا ، پوری زندگی کی نیکیاں بھول گئیں اور بعض اوقات تو یہ جملے بھی زبان پہ جاری ہونے لگتے ہیں کہ تجھ سے تو پوری زندگی نیکی دیکھی ہی نہیں ، معلوم ہے کہ اسے شروع ہی سے شوہر سے محبت نہیں تھی

یا اس کے برعکس ایک عورت گھر کے کاموں کوانتہائی سلیقے سے انجام دیتی ہے کھانا وقت پر آمادہ رکھتی ہے لیکن ایک دن غلطی سے دیر ہو گئی یا کھانا خراب ہو گیا تو ساری محبت ختم ہوگئی ،ڈانٹ پلانا شروع کردی .واضح ہے کہ پہلے ہی سے یہ محبت پہاڑ کے مانند نہیں تھی

عزیزان گرامی ! اگر کسی سے محبت کرو تو بھی پہاڑ کے مانند محکم اور اگر کسی شے پر عقیدہ رکھو تو بھی پہاڑ کے مانند محکم واستوار .یعنی انسان کو محکم ارادہ کا مالک ہونا چاہئے تاکہ اس کی دنیا اور آخرت سنور سکے ورنہ اگر شک و تردید اور جھالت میں زندگی گذار دی تو دنیاو آخرت دونوں میں گھاٹا ہی گھاٹا ہو گا

چوتھا درس

رزق حلال

( ومن یتّق الله یجعل له مخرجا.و یرزقه من حیث لا یحتسب ) ( ۳۰ )

ترجمہ: اور جو بھی اللہ سے ڈرتاہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پید اکردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے

علی بن عبد العزیز کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے پوچھا عمر بن مسلم نے کیا کیا؟ میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوں وہ تو تجارت کو ترک کرکے عبادت میں مشغول ہوگیا ہے امام علیہ السلام نے فرمایا : وائے ہو اس پر ! کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ بے کا ر آدمی کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے بعض اصحاب رسول جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے اپنے اپنے گھروں کے دروازوں کو بند کردیا اور عبادت میں مشغول ہوگئے .وہ یہ کہتے تھے کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے جب یہ بات رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ کونسی چیز تمھارے اس عمل کا باعث بنی؟عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ ! جب خدا نے ہمارے رزق کی ذمہ داری لے لی ہے تو ہم عبادت میں مشغول ہوگئے

ہیں آنحضرت نے فرمایا : جو بھی ایسا کام کرے گا اس کی دعامستجاب نہیں ہوگی تمہارے لئے ضروری ہے کہ رزق کی تلاش میں نکلو.

عزیزان گرامی! اس میں شک نہیں ہے کہ خدا نے مومنین کے رزق کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے رکھی ہے لیکن وہ رزق اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک کہ انسان اس کی کوشش نہ کرے اور روزے کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان روزہ دار سحری و افطاری میں رزق حلال کھائے .اگر کوئی مومن خدا نخواستہ پاک رزق سے ، حلال رزق سے افطار نہ کرے تو اس کا یہ روزہ قبول نہیں ہوگا .اور اسی طرح باقی عبادات بھی ،آنے والے چند درسوں میں ہم یہ واضح کریں گے کہ کیسے رزق حلال حاصل کریں اور وہ کونسے عوامل ہیں جو انسان کے لئے حلال رزق کمانے میں مانع بنتے ہیں

عزیزان گرامی! دین مقدس اسلام میں رزق حلال کی اسقدراہمیت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے حلال مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جاتا ہے تو اسے شھید کا مرتبہ دیا ہے رسول مکرم اسلام فرماتے ہیں :

من قتل دون ماله فهو شهید ( ۳۱ )

جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شھید ہے .نیز فرمایا :

١۔ فرھنگ موضوعی مبلغان : ٢٣٣

عبادت سات قسموں پر مشتمل ہے جن میں سے افضل ترین قسم رزق حلال کا کمانا ہے( ١)

اسی طرح فرمایا :انّ الله یحبّ أن یری عبده تعبا فی طلب الحلال ( ۳۲ ) خدا وندمتعال پسند کرتا ہے کہ اپنے بندے کو رزق حلال کے حصول میں تھکتا ہوئے دیکھے

مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام کا یہ فرمان بھی رزق حلال کی اہمیت کو واضح کرتا ہے:

من أکل أربعین یوما نوّر الله قلبه ( ۳۳ )

جو شخص چالیس دن رزق حلال کھائے توخدا وند متعال اسکے دل کو نورانی کر دیتا ہے

رسولخدا سلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

حقّ الولد علی والده أن یعلّمه الکتابة والسّباحة والرّمایة وأن یرزقه الّا طیّبا ( ۳۴ )

بیٹے کا باپ پر حق یہ ہے کہ وہ اسے لکھنے ، تیرنے اورتیراندازی کی تعلیم دے اور اسے حلال غذاکھلائے.

نیز روایت میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا تزول قدما عبد یوم القیامة حتّی یسأل عن أربع : عن عمره فیما أفناه و عن شبابه فیما أبلاه و عن ماله من أین کسبه و فیما أنفقه و عن حبّنا أهل البیت ( ۳۵ )

روز قیامت انسان کو اس وقت تک آگے نہ بڑھنے دیا جائے گا جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے: ١۔ عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا

٢۔ جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں گذارا.

٣۔ مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاںخرچ کیا

٤۔ ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں

مال حلال کمانے اور اسے اپنی اولاد کو کھلانے کی بہت تاکید کی گئی ہے اس لئے کہ انسان کی دنیا وآخرت کی بد بختی کا ایک عامل رزق حرام ہے جو انسان کو ہمیشہ خداسے دور رکھتا ہے لذّت عبادت سے آشنا نہیں ہونے دیتا اور اگر انسان

حرام مال کھاکر عبادت بجابھی لائے تب بھی وہ اس عبادت کی لذّت حاصل نہیں کر سکتا اس لئے کہ ایسی عبادت کا کویء فائدہ نہیں ہے .رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

العبادة مع أکل الحرام کالبناء علی الرّمل و قیل : علی الماء ( ۳۶ )

حرام مال کھاکر کی جانے والی عبادت ، ریت کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے مانند ہے یا کہا گیاہے کہ پانی کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے مانند

یعنی ایسی عبادت کا کوئی اعتبار نہیں ہے کسی وقت بھی شیطان ایسے انسان کے عمل کو بھی ضائع کرسکتا ہے اور اس کے ایمان کوبھی امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

انّ الرّجل اذاأصاب مالا من الحرام لم یقبل منه حجّ ولا عمرة ولا صلة رحم ، حتیّ انّه یفسد فیه الفرج ( ۳۷ )

جب کسی شخص کے پاس مال حرام آتا ہے تو نہ تو اس کی حج قبول ہوتی ہے ، نہ عمرہ اور نہ ہی صلہ رحم یہاں تک کہ جماع پر بھی اسکا برا اثر پڑتا ہے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

کسب الحرام یبین فی الذریة ( ۳۸ )

حرام کی کمائی اولاد میں اثر رکھتی ہے

جب کوئی انسان حرام کھاکر بیٹھا ہو تو نہ تو اس پرنصیحت اثر کرتی ہے اور نہ ہی کسی بڑے کی بات آج اگر ہماری اولادیں نافرمان ہیں تو اس کا باعث ہم خود ہی ہیں کتنے لوگ ہیں ہم میں سے جو خمس کے پابند ہیں جنھوںحق زہراء سلام اللہ علیہا غصب نہ کیا ہو.جنھوں نے رسول خدا کی اکلوتی بیٹی کو پریشان نہ کیا ہو .آج ہم فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے مظلوم بیٹے کے قاتلوں پر لعنت تو کرتے ہیں لیکن کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ وہ لوگ مسلمان ہونے کے باوجود ، پیغمبر کا کلمہ پڑھنے کے باوجود کیسے امام وقت کے مقابلہ میں تیر اور تلواریں لے کر آگئے ؟ کیا وہ امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے نہیں تھے ؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ وہ جانتے تھے کہ یہ نواسہ رسول ہے ان کے نبی کا بیٹا ہے .تو پھر کونسی چیز باعث بنی کہ انہوں نے جہنم میں جانا قبول کرلیا ؟ اس کا جواب امام حسین علیہ السلام نے وہیں پہ کربلا کے میدان میں ہی دے دیا تھا .جب عمر سعد نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ حسین کے خیموں کا چاروں طرف سے محاصرہ کرلیں تو اس وقت امام علیہ السلام انہیں نصیحت کرنے کے لیے اپنے خیمہ سے باہر آئے اور ان سے مخاطب ہوئے لیکن ان میں سے کسی نے توجہ ہی نہ کی تو امام مظلوم نے فرمایا :

قد ملئت بطونکم من الحرام فطبع علی قلوبکم ، ویل لکم ! ألا تسمعون ( ۳۹ )

تم کیسے میری بات پر توجہ کروگے جبکہ تمھارے شکم حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تمھارے دلوں پر مہر لگ گئی ہے افسوس تم پر ! کیا میری بات نہیں سن رہے ہو

عزیزان گرامی! یہ لقمہ حرام کااثر ہی تھا جس نے عمر سعدملعون اور اس کی فوج کو زمانہ کے امام کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا .اس جملہ پر انتہائی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم بھی اپنی اولادوں کو حرام مال کھلا کر امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کے چاہنے والے ہونے کا دعوی کرتے ہوئے انہیں امام کا دشمن بنا رہے ہوں

خدایا ! تجھے امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کا واسطہ ہمیں رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرما اور ہمارا شمار امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حقیقی پیروکاروں میں سے فرما .آمین یا ربّ العالمین بحق محمد و آلہ الطاہرین.

پانچواں درس

نماز کی اہمیت (١)

( قال الله تبارک و تعالیٰ : أقیمواالصلٰوة ولا تکونوا من المشرکین

) ترجمہ: نماز قائم کرو اور مشرک مت بنو!

عزیزان گرامی ! نماز ایک ایسیعبادت ہے جسے انبیاء کرام اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے لئے سر لوحہ عبادت ، اسلام کاپرچم ، مومن کی معراج ، اعمال کے لئے میزان اور پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا ہے.

نماز ایسی عبادت ہے جس سے دل کو سکون ، روح کوتازگی ، رنج وغم سے نجات حاصل ہوتی ہے نمازہی ہے جو انسان کو شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہے اور قبر میں اس کی مونس و مدد گار ثابت ہوتی ہے.نماز ہی ہے جو انسان کے اعمال کی قبولیت میں اہم کردار رکھتی ہے اور اسے قیامت کے ہولناک عذاب سے بچاتی ہے

نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اسے دین اسلام میں وہی مقام دیا گیا جو سر کو بدن کی نسبت عطا کیا گیا جس طرح سر کے بغیر بدن کی شناخت مشکل ہے اسی طرح نماز کے بغیر اسلام اور مسلمان کی پہچان مشکل ہے

عزیزان گرامی ! حقیقی شیعہ، حقیقی ماتمی وہی ہے جونماز کو کسی حال میں تر ک نہ ہونے دے.اس لئے کہ نماز ہی کے ذریعہ سے ہم امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشیف کو راضی کر سکتے ہیںجیسا کہ روایات میں ملتا ہے : شیعتنا من اتّبعنا فی اعمالنا. ہمارا شیعہ وہ جو اعمال میں ہماری پیروی کرے بے نمازی شخص کو قیامت شفاعت آل محمد علیہم السلام نصیب نہیں ہو گی چاہے وہ کتنے ہی اعمال بجالائے. اس لئے کہ قیامت سب سے پہلا سوال ہی نماز کے بارے میں ہوگا.خاص طور پر میرے نوجوان بھائی اس نکتہ پر توجہ کریں اس لئے کہ نوجوان اور جوان کسی بھی قوم سرمایہ ہوتے ہیں اور شیطان بھی انہیں کو زیادہ گمراہ کرتا ہے .لیکن جو امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کے سپاہی ہیں وہ پنجگانہ نماز تو دور کی بات اپنی نماز تہجد بھی قضا نہیں ہونے دیتے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ کس چیز میں ان کے مولا و آقا کی خوشنودی ہے.اور پھر جب کوئی نوجوان مصلائے عبادت پر آکر کھڑا ہوتا ہے تو آواز ربّ العزت آتی ہے اے ملائکہ ! آؤ دیکھو جس آدم پر کل تم اعتراض کر رہے تھے آج اسی کا نوجوان فرزند اپنی تمام ترت مصروفیات کو چھوڑ کر میری بارگاہ میں سر جھکائے ہوئے ہے.آپ نوجوان ہیں خدانے آپ کو نوجوانی اور جوانی کی نعمت عطاکی اس سے بھر پور فائدہ اٹھاؤ اور اس دن کی ندامت و پشیمانی سے اپنے آپ کو نجات دو.خود بھی نماز پڑھو اور اپنے دوتوں کو بھی اسکی عادت ڈالو

عزیزان گرامی! نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ فروع دین میں سے جس قدر قرآن نے نماز پر تاکید کی اس قدر کسی اور حکم کے بارے میں نہیں کی تقریبا ٨٤ مقامات پر نماز کا حکم دیا گیا نماز کی ااہمیت کا پتہ اس کے آثار سے چلتا ہے .ہم آنے والے چند روز اسی موضوع پر گفتگو کریں گے تا کہ میرے نوجوان بھائیوں کے لئے اس اہمیت واضح ہو جائے اس لئے کہ ہمارے خیال کے مطابق جو لوگ نماز سے نزدیک نہیں جاتے اس کی وجہ ان کا اس کی اہمیت سے آگاہ نہ ہونا ہے ورنہ کونسا مومن ایسا ہو سکتاہے کہ اسے نماز کے نہ پڑھنے کے نقصانات اور اس پڑھنے کے اجر و ثواب کا علم ہو اور اس کے باوجود وہ اسے ترک کر دے.

١۔نماز کامیابی کا راستہ:

نمازی شخص دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب و کامران ہوتاہے جیسا کہ پروردگار عالم نے اپنی لاریب کتاب میں اس کی ضمانت دی ہے :

( قد افلح من تزکّی و ذکر اسم ربّه فصلّیٰ ) ( ۴۰ )

ترجمہ: بے شک پاکیزہ رہنے والا کامیاب ہو گیا جس نے اپنے ربّ کے نام کی تسبیح کی اور نماز پڑھی

آج ہر انسان کی کوشش یہی ہے کہ وہ اور اس کی اولاد کسی طرح اس دینا میں بھی کامیاب ہو اور آخرت میں بھی .مگر قرآن نے اس کے لئے انتہائی آسان نسخہ بتا دیا جس میں نہ تو کوئی خرچ ہے نہ کسی کی محتاجی ، اور پھر ضمانت بھی اس ذات کی طرف سے ہے جو قادر مطلق ہے .اب بھی اگر کوئی شخص اپنی کامیابی کے بارے میں پریشان ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے خدا پر یقین نہیں ہے.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ہمارا عقیدہ جس قدر ڈاکٹر صاحب پر ہے اس قدر خدا کی ذات پر نہیں ہے ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں اور یہی چیز مسلمانوں کی ناکامی اور پوری دنیا میں ذلت ورسوئی کا باعث بن رہی ہے اگر ہم نے خدا کی ذات پر بھروسہ کیا ہوتا تو آج اس قدر پریشان نہ ہوتے

٢۔خدا سے مدد کا ذریعہ :

نماز خشیت الٰھی کا مظھر اوراس سے مدد حاصل کرنے کاذریعہ ہے:

( واستعینوا بالصبر والصلاة وانها لکبیرة الّا علی الخاشعین ) ( ۴۱ )

ترجمہ:نماز اور صبر کے ذریعہ مدد طلب کرو ، نماز بہت مشکل کام ہے سوائے ان لوگوں کے جو خضوع و خشوع والے ہیں.

دوسرے مقام پر فرمایا :

( یاأیهاالّذین آمنوا استعینوابالصبروالصلاة انّ الله مع الصابرین ) ( ۴۲ )

ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد طلب کرو ،بے شک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.

٣۔تقوٰی کی علامت:

قرآن کریم نے متقی انسان کی علامات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

( ذلک الکتاب لاریب فیه هدی للمتقین الّذین یؤمنون بالغیب و یقیمون الصلاة ) ... ( ۴۳ )

ترجمہ: یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے متقیوں کے لئے ھدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں

٤۔ نماز ذکر خدا:

ذکر خدا کی کئی ایک اقسام ہیں لیکن وہ چیز جسے خودخدا نے اپنا ذکر کرنے کا وسیلہ بیان کیا ہے وہ نماز ہے جیسا کہ ارشاد ہوا :

( یا موسیٰ انیّ أنا ربّک فاخلع نعلیک انّک بالواد المقدس طوٰی و أنا أخترتک فاستمع لما یوحٰی انّنی أناا لله فاعبدنی و أقم الصلاة لذکری ) ( ۴۴ )

ترجمہ: اے موسٰی ! میں تمھارا پروردگار ہوں لہٰذا تم اپنی جویوں کو اتارو کیونکہ تم طوٰی نام کی مقدس اور پاکیزہ وادی میں ہو ، اور ہم نے تم کو منتخب کرلیا ہے لہٰذا جو وحی جاری کی جا رہی ہے اسے غور سے سنو ، میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے پس تم میری عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو

٥۔ رحمت خدا کا باعث:

اگر کوئی شخص پابندی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس دن جب ہر ایک شخص رحمت خدا کا منتظر ہو گا کہ کیا اس کو نصیب ہوتی ہے یا نہیں تو ایسے عالم میں نمازی ہی ہوگا جو اس رحمت پروردگار کا مستحق بنے گا جس کا اس نے اپنے نیک بندوں سے وعدہ کیا ہے :

( أقیمواالصلوة و آتوا الزکاة و أطیعوا الرسول لعلکم ترحمون ) ( ۴۵ )

ترجمہ: نماز قائم کرو ، زکات ادا کرو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو تاکہ تمھارے

حال پر رحم کیا جائے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح روز قیامت نمازیوں پر رحمت خدا نازل ہوگی اسی طرح بے نمازیوں پر کوئی رحم نہیں کیا جائے گا اور انہیں نماز میں سستی برتنے کی وکہ سے جھنّم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ خود پروردگار عالم نے اس کا فیصلہ فرمایا:( فویل اللمصلین الّذین هم عن صلاتهم ساهون ) ( ۴۶ )

ترجمہ: ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں.

خدا وند متعال ہم سب کو نمازیوں میں سے قرار دے

چھٹا درس

نماز کی اہمیت( ٢)

( أقیموالصلاة ولا تکونوا من المشرکین )

ترجمہ: نماز قائم کرو اور مشرک مت بنو

عزیزان گرامی! ہماری گفتگو نماز کی اہمیت کے بارے میںتھی کل کی تقریر میں قرآنی آیات کے ذریعہ سے یہ عرض کیا گیا کہ نماز کس قدر اہمیت کی حامل ہے اور آج انشاء اللہ یہ بیان کیا جائے گا کہ نماز نہ پڑھنے والے کی کیا سزاہے ؟ اس لئے کہ ہمارے خیال کے مطابق جتنے بھی نوجوان بھائی نماز پڑھنے سے کتراتے ہیں نماز کے وقت مسجد کے قریب سے بھی نہیں گذرتے اس کی وجہ ان کا نماز کے پڑھنے کی اسلام میں اہمیت اور اس کے ترک کرنے کے گناہ سے آشنا نہ ہونا ہے ورنہ کون ایسا مومن ہو گا جو اتنا بڑا گناہ جانتے ہوئے بجا لائے ، لہذا ہم آج نماز نہ پڑھنے کا گناہ اور اس کے نقصانات کو بیان کریں گے تا کہ ہمارے نوجوان عزیز اسے جان لینے کے بعد اسے کبھی ترک نہ کرنے پائیں .قرآن کریم کی آیات اور معصومین علیہم السلام کی روایات جو ہم تک پہنچی ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ نماز کسی بھی حالت میں معاف نہیں ہے چاہے انسان جنگ کے میدان میں ہی کیوں نہ ہویا اسے کسی اور وجہ سے جان کاخطرہ ہو. امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بھائی علی بن جعفر امام علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں کہ مولا اگر انسان ایسی حالت میں ہو کہ وحشی درندہ اس کو گھیرے ہوئے ہو اور نماز کا وقت بھی آپہنچا ہو اب اگر وہ نماز شروع کرے تو اسے اس درندہ حیوان کے حملہ کا زیادہ خطرہ ہے اس لیئے کہ اس کا رخ قبلہ کی جانب نہیں ہے تو ایسی صورت میں کیا کرے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : اسے چاہیئے کہ کھڑے ہو کرنماز پڑھے اور اشارے سے رکوع و سجود بجا لائے.اگرچہ قبلہ کی جانب منہ نہ ہی ہو( ۴۷ )

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص زمین پر پاؤں نہ رکھ سکتا ہو( خدا نخواستہ پانی میں غرق ہورہایاسولی پر لٹکا ہوا ہو) تو اسے چاہئے کہ اشارے سے نماز پڑھے

جس قدر روایات بے نمازی کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں شاید ہی کسی دوسرے گناہ گار کے بارے میں نازل ہوئی ہوں، بے نمازی انسان خدا ، ملائکہ، انبیاء اور یہاں تک کہ پرندے بھی اس پر لعنت بھیجتے ہیں امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

انّ الفاختة تقول ألّلهمّ العن من ترک الصّلاة متعمّدا

فاختہ کہتی ہے:... اے پروردگار ! جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والے پر لعنت فرما.

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا روایت کرتی ہیںکہ میں نے اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : بابا جان اگر کوئی شخص نماز پڑھنے میں لاپرواہی کرتا ہے تو اس کی کیا سزا ہوگی؟

تو آنحضرت نے فرمایا :اگر کوئی مرد یا عورت نماز کو حقیرسمجھتے ہوئے اسے ترک کردیتا ہے تو اسے دنیا و آخرت میں پندرہ قسم کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ، چھ دنیا میں ، تین مرتے وقت ، تین قبر میں اور تین اس وقت جب اسے قبر سے اٹھایا جایا گا .وہ چھ عذاب جن میں بے نمازی شخص اسی دنیا میں مبتلا ہو گا وہ یہ ہیں :

١۔اس کی عمر سے برکت کو اٹھا لیا جاتا ہے

٢۔ اس کے رزق میں برکت نہ رہتی

٣۔ اس کے چہرے سے نور کو سلب کرلیا جاتا ہے

٤۔ بے نمازی کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا

٥۔بے نمازی کی کوئی دعا مستجاب نہیں ہوتی

٦۔ کسی کی دعا اسکے حق میں قبول نہیں ہوتی

وہ تین عذاب جو موت کے وقت بے نمازی پر نازل ہوتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

١۔بے نمازی ذلّت کی موت مرتا ہے

٢۔ بھوک کے عالم میں اسکی روح قبض ہوتی ہے

٣۔ پیاس کی شدّت طاری ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر پوری دنیا کے دریاؤںاور سمندروں کا پانی پلا دیا جائے پھر بھی سیراب نہیں ہوتا

وہ تین عذاب جو عالم برزخ میں بے نمازی پر نازل ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:

١۔ اس پر ایک فرشتہ کو مأمور کیا جاتا ہے جو روز قیام تک اسے شکنجہ کرتا رہتا ہے

٢۔ اسے دفن کردینے کے بعد اس کی قبر اس پر تنگ کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے فشار قبر میں اضافہ ہو جاتا ہے.

٣۔ اسکی قبر میں تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے اور روشنی کانام و نشان نہیں رہتا

وہ تین عذاب جو روز محشر بے نمازی پر نازل ہونگے :

١۔ ملائکہ اسے پیٹ کے بل گھسیٹتے ہوئے میدان محشرمیں لائیں گے

٢۔ حسا ب لینے میں بہت سختی کی جائے گی

٣۔رحمت خداسے محروم رہے گا( ۴۸ )

بے نمازی انسان ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتاہے اورجس طرح نماز کا ترک کرنا اس کے دین کو نابود کرتا ہے اسی طرح اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے اور اس کا اثر صرف اس کی اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے آس پاس کے افراد بھی بے نمازی کی نحوست کی وجہ سے عذاب می مبتلا رہتے ہیں.اس لیے کہ یہ معاشرہ ایک کشتی کے مانند ہے جس کے اند ر سوار لوگوں میں سے کسی بھی ایک کی غلطی کا اثر اس میں سوار تمام افراد پر پڑھتا ہے اسی طرح گناہ کا اثر بھی اس کے انجام دینے والے کے علاوہ باقی تمام معاشرہ پر بھی پڑتا ہے اسی لیے تو پروردگار عالم نے فقط اپنے آپ کو گناہ سے بچنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا :( قوا أنفسکم و أهلیکم نارا ) جہاں اپنے کو جہنم کی آگ سے بچا رہے ہو وہاں اپنے گھر والوں کو بھی اس آگ سے بچاؤ .اور شاید اسی لئے روایا ت میں ملتا ہے کہ اگر باپ نماز پڑھ رھا ، آدھی رات سے مصلائے عبادت بچھائے ہو ئے عبادت الہی میں مشغول ہے لیکن جوان بیٹامزے سے سورہا تو اس باپ کی یہ عبادت قبول نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ اپنی اولاد کی دنیا کی فکر تو کرتا ہے مگر اس کی آخرت سے غافل ہے

ایک شخص رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ!میں ایک مالدار آدمی تھا لیکن ایک مرتبہ فقیر وتنگدست ہو گیا ہوں .فرمایا : کیا تم نماز نہیں پڑھتے ہو ؟ عرض کیا : پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھتا ہوں فرمایا : کیا روزہ نہیں رکھتا ؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! سال میں تین ماہ ( رجب ، شعبان اور رمضان ) روزے بھی رکھتا ہوں اب اللہ کے رسول تعجب میں پڑ گئے اور سوچنا شروع کیا کہ پھر تم نے کونسا ایسا گناہ کر لیاجسکی وجہ سے تیرے مال سے برکت اٹھ گئی .اتنے میں جناب جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ ! خدا آپ پر درود و سلام بھیجتا ہے اور فرما رہا ہے کہ اس بندے سے کہہ سے کہ اس کے گھر کے سامنے ایک باغ ہے جس میں ایک چڑیا کا گھونسلہ ہے اس گھونسلہ میں ایک بے نمازی کی ہڈی موجود ہے جس کی نحوست کی وجہ سے تمھارے مال سے برکت ختم ہو گئی اور تما مفلس و نادار ہو گئے ہو. رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بتایا .وہ شخص باغ میں داخل ہوااوراس ہڈی کو گھونسلہ سے اٹھا کر دور پھنکا جس کے بعد دوبارہ مالدار ہوگیا.( ۴۹ )

تو عزیزان گرامی ! آپ نے دیکھا کہ کس قدر بے نمازی انسان دوسروں کے لئے مشکلات ایجاد کرتا ہے.

اسی طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانہ کاواقعہ ہے کہ وہ ایک گاؤں میں پہنچے ، دیکھا انتہائی سر سبز اور شاداب ہے نہریں اورچشمے بہہ رہے لوگوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا انتہائی اچھا استقبال کیا ، بہت اچھے طریقے سے مہمان نوازی کی. جس سے آنحضرت سے بھی تعجب کیا لیکن جب اسی گاؤں سے تین سال کے بعد گذرے تو کیا دیکھا : نہریں اور چشمے خشک ہو چکے ہیں سارا سبزہ خشکی میں تبدیل ہو چکا ، حیران ہو کر اپنے پروردگار سے سوال کیا: پالنے والے اتنی کم مدت میں یہ سب کچھ کیا ہو گیا یہ بستی کیسے ویران ہو گئی ؟

وحی الہی نازل ہوئی اے عیسٰی ! اس بستی کے ویران ہونیکا سبب یہ ہے کہ ایک دن ایک بے نمازی اس بستی میں داخل ہوا اس نے اس کے چشمہ سے منہ ہاتھ دھویا جس کی نحوست کی وجہ سے چشمہ کا پانی بند ہو گیا ، دریا کی روانی رک گئی اور یوں یہ بستی ویران ہو گئی .اور اے عیسٰی سنو! جس طرح نماز نہ پڑھنے سے انسان کی آخرت تباہ ہو جاتی ہے اسی طرح اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہو جاتی ہے( ۵۰ ) .

یہ ہے نماز نہ پڑھنے کا اثر ، آج ہمارے مال میں برکت کیوں نہیں ہے؟ اس لئے کہ بڑا سے بڑا نمازی آپ دیکھ لیں خود نماز پڑھ رہا لیکن بچوں کی نماز کی کوئی فکر نہیں.بیوی نماز پڑھے یا نہ پڑھے اسے اس سے کوئی غرض نہیں جوان بیٹا نماز نہیں پڑھتا تو اسے کہنے کو تیار نہیں جبکہ اسی بیٹے کی دنیا بنانے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کر رہا

عزیزان گرامی ! دین مقدس اسلام نے آپ سے یہ نہیں کہا کہ اپنی نماز پڑھ لو اور بس نہیں بلکہ اس نے تو اپنی نماز کا بھی حکم دیا اور ساتھ ساتھ اپنے بیوی بچوں کو بھی اس کا حکم دینے کا امر صادر فرمایا ہے خدا وند متعال ہم سب کا شمار نماز یوں میں سے فرمائے اور اپنے گھر والوں، اپنے دوست احباب کو اس نیک کام کی طرف راغب کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

چوتھا درس

رزق حلال

( ومن یتّق الله یجعل له مخرجا.و یرزقه من حیث لا یحتسب ) ( ۳۰ )

ترجمہ: اور جو بھی اللہ سے ڈرتاہے اللہ اس کے لئے نجات کی راہ پید اکردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے

علی بن عبد العزیز کہتے ہیں: امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے پوچھا عمر بن مسلم نے کیا کیا؟ میں نے عرض کیا : میں آپ پر قربان ہوں وہ تو تجارت کو ترک کرکے عبادت میں مشغول ہوگیا ہے امام علیہ السلام نے فرمایا : وائے ہو اس پر ! کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ بے کا ر آدمی کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے بعض اصحاب رسول جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے اپنے اپنے گھروں کے دروازوں کو بند کردیا اور عبادت میں مشغول ہوگئے .وہ یہ کہتے تھے کہ خدا ہمارے لئے کافی ہے جب یہ بات رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ کونسی چیز تمھارے اس عمل کا باعث بنی؟عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ ! جب خدا نے ہمارے رزق کی ذمہ داری لے لی ہے تو ہم عبادت میں مشغول ہوگئے

ہیں آنحضرت نے فرمایا : جو بھی ایسا کام کرے گا اس کی دعامستجاب نہیں ہوگی تمہارے لئے ضروری ہے کہ رزق کی تلاش میں نکلو.

عزیزان گرامی! اس میں شک نہیں ہے کہ خدا نے مومنین کے رزق کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے رکھی ہے لیکن وہ رزق اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک کہ انسان اس کی کوشش نہ کرے اور روزے کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان روزہ دار سحری و افطاری میں رزق حلال کھائے .اگر کوئی مومن خدا نخواستہ پاک رزق سے ، حلال رزق سے افطار نہ کرے تو اس کا یہ روزہ قبول نہیں ہوگا .اور اسی طرح باقی عبادات بھی ،آنے والے چند درسوں میں ہم یہ واضح کریں گے کہ کیسے رزق حلال حاصل کریں اور وہ کونسے عوامل ہیں جو انسان کے لئے حلال رزق کمانے میں مانع بنتے ہیں

عزیزان گرامی! دین مقدس اسلام میں رزق حلال کی اسقدراہمیت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے حلال مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جاتا ہے تو اسے شھید کا مرتبہ دیا ہے رسول مکرم اسلام فرماتے ہیں :

من قتل دون ماله فهو شهید ( ۳۱ )

جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شھید ہے .نیز فرمایا :

١۔ فرھنگ موضوعی مبلغان : ٢٣٣

عبادت سات قسموں پر مشتمل ہے جن میں سے افضل ترین قسم رزق حلال کا کمانا ہے( ١)

اسی طرح فرمایا :انّ الله یحبّ أن یری عبده تعبا فی طلب الحلال ( ۳۲ ) خدا وندمتعال پسند کرتا ہے کہ اپنے بندے کو رزق حلال کے حصول میں تھکتا ہوئے دیکھے

مولائے کائنات امیرالمؤمنین علیہ السلام کا یہ فرمان بھی رزق حلال کی اہمیت کو واضح کرتا ہے:

من أکل أربعین یوما نوّر الله قلبه ( ۳۳ )

جو شخص چالیس دن رزق حلال کھائے توخدا وند متعال اسکے دل کو نورانی کر دیتا ہے

رسولخدا سلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

حقّ الولد علی والده أن یعلّمه الکتابة والسّباحة والرّمایة وأن یرزقه الّا طیّبا ( ۳۴ )

بیٹے کا باپ پر حق یہ ہے کہ وہ اسے لکھنے ، تیرنے اورتیراندازی کی تعلیم دے اور اسے حلال غذاکھلائے.

نیز روایت میں آیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لا تزول قدما عبد یوم القیامة حتّی یسأل عن أربع : عن عمره فیما أفناه و عن شبابه فیما أبلاه و عن ماله من أین کسبه و فیما أنفقه و عن حبّنا أهل البیت ( ۳۵ )

روز قیامت انسان کو اس وقت تک آگے نہ بڑھنے دیا جائے گا جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے: ١۔ عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا

٢۔ جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں گذارا.

٣۔ مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاںخرچ کیا

٤۔ ہم اہل بیت کی محبت کے بارے میں

مال حلال کمانے اور اسے اپنی اولاد کو کھلانے کی بہت تاکید کی گئی ہے اس لئے کہ انسان کی دنیا وآخرت کی بد بختی کا ایک عامل رزق حرام ہے جو انسان کو ہمیشہ خداسے دور رکھتا ہے لذّت عبادت سے آشنا نہیں ہونے دیتا اور اگر انسان

حرام مال کھاکر عبادت بجابھی لائے تب بھی وہ اس عبادت کی لذّت حاصل نہیں کر سکتا اس لئے کہ ایسی عبادت کا کویء فائدہ نہیں ہے .رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

العبادة مع أکل الحرام کالبناء علی الرّمل و قیل : علی الماء ( ۳۶ )

حرام مال کھاکر کی جانے والی عبادت ، ریت کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے مانند ہے یا کہا گیاہے کہ پانی کے اوپر کھڑی کی گئی عمارت کے مانند

یعنی ایسی عبادت کا کوئی اعتبار نہیں ہے کسی وقت بھی شیطان ایسے انسان کے عمل کو بھی ضائع کرسکتا ہے اور اس کے ایمان کوبھی امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

انّ الرّجل اذاأصاب مالا من الحرام لم یقبل منه حجّ ولا عمرة ولا صلة رحم ، حتیّ انّه یفسد فیه الفرج ( ۳۷ )

جب کسی شخص کے پاس مال حرام آتا ہے تو نہ تو اس کی حج قبول ہوتی ہے ، نہ عمرہ اور نہ ہی صلہ رحم یہاں تک کہ جماع پر بھی اسکا برا اثر پڑتا ہے

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

کسب الحرام یبین فی الذریة ( ۳۸ )

حرام کی کمائی اولاد میں اثر رکھتی ہے

جب کوئی انسان حرام کھاکر بیٹھا ہو تو نہ تو اس پرنصیحت اثر کرتی ہے اور نہ ہی کسی بڑے کی بات آج اگر ہماری اولادیں نافرمان ہیں تو اس کا باعث ہم خود ہی ہیں کتنے لوگ ہیں ہم میں سے جو خمس کے پابند ہیں جنھوںحق زہراء سلام اللہ علیہا غصب نہ کیا ہو.جنھوں نے رسول خدا کی اکلوتی بیٹی کو پریشان نہ کیا ہو .آج ہم فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے مظلوم بیٹے کے قاتلوں پر لعنت تو کرتے ہیں لیکن کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ وہ لوگ مسلمان ہونے کے باوجود ، پیغمبر کا کلمہ پڑھنے کے باوجود کیسے امام وقت کے مقابلہ میں تیر اور تلواریں لے کر آگئے ؟ کیا وہ امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے نہیں تھے ؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ وہ جانتے تھے کہ یہ نواسہ رسول ہے ان کے نبی کا بیٹا ہے .تو پھر کونسی چیز باعث بنی کہ انہوں نے جہنم میں جانا قبول کرلیا ؟ اس کا جواب امام حسین علیہ السلام نے وہیں پہ کربلا کے میدان میں ہی دے دیا تھا .جب عمر سعد نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ حسین کے خیموں کا چاروں طرف سے محاصرہ کرلیں تو اس وقت امام علیہ السلام انہیں نصیحت کرنے کے لیے اپنے خیمہ سے باہر آئے اور ان سے مخاطب ہوئے لیکن ان میں سے کسی نے توجہ ہی نہ کی تو امام مظلوم نے فرمایا :

قد ملئت بطونکم من الحرام فطبع علی قلوبکم ، ویل لکم ! ألا تسمعون ( ۳۹ )

تم کیسے میری بات پر توجہ کروگے جبکہ تمھارے شکم حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تمھارے دلوں پر مہر لگ گئی ہے افسوس تم پر ! کیا میری بات نہیں سن رہے ہو

عزیزان گرامی! یہ لقمہ حرام کااثر ہی تھا جس نے عمر سعدملعون اور اس کی فوج کو زمانہ کے امام کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا .اس جملہ پر انتہائی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم بھی اپنی اولادوں کو حرام مال کھلا کر امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کے چاہنے والے ہونے کا دعوی کرتے ہوئے انہیں امام کا دشمن بنا رہے ہوں

خدایا ! تجھے امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت کا واسطہ ہمیں رزق حلال کمانے کی توفیق عطا فرما اور ہمارا شمار امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حقیقی پیروکاروں میں سے فرما .آمین یا ربّ العالمین بحق محمد و آلہ الطاہرین.

پانچواں درس

نماز کی اہمیت (١)

( قال الله تبارک و تعالیٰ : أقیمواالصلٰوة ولا تکونوا من المشرکین

) ترجمہ: نماز قائم کرو اور مشرک مت بنو!

عزیزان گرامی ! نماز ایک ایسیعبادت ہے جسے انبیاء کرام اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے لئے سر لوحہ عبادت ، اسلام کاپرچم ، مومن کی معراج ، اعمال کے لئے میزان اور پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا ہے.

نماز ایسی عبادت ہے جس سے دل کو سکون ، روح کوتازگی ، رنج وغم سے نجات حاصل ہوتی ہے نمازہی ہے جو انسان کو شیطان کے وسوسوں سے محفوظ رکھتی ہے اور قبر میں اس کی مونس و مدد گار ثابت ہوتی ہے.نماز ہی ہے جو انسان کے اعمال کی قبولیت میں اہم کردار رکھتی ہے اور اسے قیامت کے ہولناک عذاب سے بچاتی ہے

نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اسے دین اسلام میں وہی مقام دیا گیا جو سر کو بدن کی نسبت عطا کیا گیا جس طرح سر کے بغیر بدن کی شناخت مشکل ہے اسی طرح نماز کے بغیر اسلام اور مسلمان کی پہچان مشکل ہے

عزیزان گرامی ! حقیقی شیعہ، حقیقی ماتمی وہی ہے جونماز کو کسی حال میں تر ک نہ ہونے دے.اس لئے کہ نماز ہی کے ذریعہ سے ہم امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشیف کو راضی کر سکتے ہیںجیسا کہ روایات میں ملتا ہے : شیعتنا من اتّبعنا فی اعمالنا. ہمارا شیعہ وہ جو اعمال میں ہماری پیروی کرے بے نمازی شخص کو قیامت شفاعت آل محمد علیہم السلام نصیب نہیں ہو گی چاہے وہ کتنے ہی اعمال بجالائے. اس لئے کہ قیامت سب سے پہلا سوال ہی نماز کے بارے میں ہوگا.خاص طور پر میرے نوجوان بھائی اس نکتہ پر توجہ کریں اس لئے کہ نوجوان اور جوان کسی بھی قوم سرمایہ ہوتے ہیں اور شیطان بھی انہیں کو زیادہ گمراہ کرتا ہے .لیکن جو امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء کے سپاہی ہیں وہ پنجگانہ نماز تو دور کی بات اپنی نماز تہجد بھی قضا نہیں ہونے دیتے اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ کس چیز میں ان کے مولا و آقا کی خوشنودی ہے.اور پھر جب کوئی نوجوان مصلائے عبادت پر آکر کھڑا ہوتا ہے تو آواز ربّ العزت آتی ہے اے ملائکہ ! آؤ دیکھو جس آدم پر کل تم اعتراض کر رہے تھے آج اسی کا نوجوان فرزند اپنی تمام ترت مصروفیات کو چھوڑ کر میری بارگاہ میں سر جھکائے ہوئے ہے.آپ نوجوان ہیں خدانے آپ کو نوجوانی اور جوانی کی نعمت عطاکی اس سے بھر پور فائدہ اٹھاؤ اور اس دن کی ندامت و پشیمانی سے اپنے آپ کو نجات دو.خود بھی نماز پڑھو اور اپنے دوتوں کو بھی اسکی عادت ڈالو

عزیزان گرامی! نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ فروع دین میں سے جس قدر قرآن نے نماز پر تاکید کی اس قدر کسی اور حکم کے بارے میں نہیں کی تقریبا ٨٤ مقامات پر نماز کا حکم دیا گیا نماز کی ااہمیت کا پتہ اس کے آثار سے چلتا ہے .ہم آنے والے چند روز اسی موضوع پر گفتگو کریں گے تا کہ میرے نوجوان بھائیوں کے لئے اس اہمیت واضح ہو جائے اس لئے کہ ہمارے خیال کے مطابق جو لوگ نماز سے نزدیک نہیں جاتے اس کی وجہ ان کا اس کی اہمیت سے آگاہ نہ ہونا ہے ورنہ کونسا مومن ایسا ہو سکتاہے کہ اسے نماز کے نہ پڑھنے کے نقصانات اور اس پڑھنے کے اجر و ثواب کا علم ہو اور اس کے باوجود وہ اسے ترک کر دے.

١۔نماز کامیابی کا راستہ:

نمازی شخص دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب و کامران ہوتاہے جیسا کہ پروردگار عالم نے اپنی لاریب کتاب میں اس کی ضمانت دی ہے :

( قد افلح من تزکّی و ذکر اسم ربّه فصلّیٰ ) ( ۴۰ )

ترجمہ: بے شک پاکیزہ رہنے والا کامیاب ہو گیا جس نے اپنے ربّ کے نام کی تسبیح کی اور نماز پڑھی

آج ہر انسان کی کوشش یہی ہے کہ وہ اور اس کی اولاد کسی طرح اس دینا میں بھی کامیاب ہو اور آخرت میں بھی .مگر قرآن نے اس کے لئے انتہائی آسان نسخہ بتا دیا جس میں نہ تو کوئی خرچ ہے نہ کسی کی محتاجی ، اور پھر ضمانت بھی اس ذات کی طرف سے ہے جو قادر مطلق ہے .اب بھی اگر کوئی شخص اپنی کامیابی کے بارے میں پریشان ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے خدا پر یقین نہیں ہے.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آج ہمارا عقیدہ جس قدر ڈاکٹر صاحب پر ہے اس قدر خدا کی ذات پر نہیں ہے ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں اور یہی چیز مسلمانوں کی ناکامی اور پوری دنیا میں ذلت ورسوئی کا باعث بن رہی ہے اگر ہم نے خدا کی ذات پر بھروسہ کیا ہوتا تو آج اس قدر پریشان نہ ہوتے

٢۔خدا سے مدد کا ذریعہ :

نماز خشیت الٰھی کا مظھر اوراس سے مدد حاصل کرنے کاذریعہ ہے:

( واستعینوا بالصبر والصلاة وانها لکبیرة الّا علی الخاشعین ) ( ۴۱ )

ترجمہ:نماز اور صبر کے ذریعہ مدد طلب کرو ، نماز بہت مشکل کام ہے سوائے ان لوگوں کے جو خضوع و خشوع والے ہیں.

دوسرے مقام پر فرمایا :

( یاأیهاالّذین آمنوا استعینوابالصبروالصلاة انّ الله مع الصابرین ) ( ۴۲ )

ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد طلب کرو ،بے شک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.

٣۔تقوٰی کی علامت:

قرآن کریم نے متقی انسان کی علامات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

( ذلک الکتاب لاریب فیه هدی للمتقین الّذین یؤمنون بالغیب و یقیمون الصلاة ) ... ( ۴۳ )

ترجمہ: یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے متقیوں کے لئے ھدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں

٤۔ نماز ذکر خدا:

ذکر خدا کی کئی ایک اقسام ہیں لیکن وہ چیز جسے خودخدا نے اپنا ذکر کرنے کا وسیلہ بیان کیا ہے وہ نماز ہے جیسا کہ ارشاد ہوا :

( یا موسیٰ انیّ أنا ربّک فاخلع نعلیک انّک بالواد المقدس طوٰی و أنا أخترتک فاستمع لما یوحٰی انّنی أناا لله فاعبدنی و أقم الصلاة لذکری ) ( ۴۴ )

ترجمہ: اے موسٰی ! میں تمھارا پروردگار ہوں لہٰذا تم اپنی جویوں کو اتارو کیونکہ تم طوٰی نام کی مقدس اور پاکیزہ وادی میں ہو ، اور ہم نے تم کو منتخب کرلیا ہے لہٰذا جو وحی جاری کی جا رہی ہے اسے غور سے سنو ، میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے پس تم میری عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو

٥۔ رحمت خدا کا باعث:

اگر کوئی شخص پابندی کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو اس دن جب ہر ایک شخص رحمت خدا کا منتظر ہو گا کہ کیا اس کو نصیب ہوتی ہے یا نہیں تو ایسے عالم میں نمازی ہی ہوگا جو اس رحمت پروردگار کا مستحق بنے گا جس کا اس نے اپنے نیک بندوں سے وعدہ کیا ہے :

( أقیمواالصلوة و آتوا الزکاة و أطیعوا الرسول لعلکم ترحمون ) ( ۴۵ )

ترجمہ: نماز قائم کرو ، زکات ادا کرو اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو تاکہ تمھارے

حال پر رحم کیا جائے

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس طرح روز قیامت نمازیوں پر رحمت خدا نازل ہوگی اسی طرح بے نمازیوں پر کوئی رحم نہیں کیا جائے گا اور انہیں نماز میں سستی برتنے کی وکہ سے جھنّم کی آگ میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ خود پروردگار عالم نے اس کا فیصلہ فرمایا:( فویل اللمصلین الّذین هم عن صلاتهم ساهون ) ( ۴۶ )

ترجمہ: ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں.

خدا وند متعال ہم سب کو نمازیوں میں سے قرار دے

چھٹا درس

نماز کی اہمیت( ٢)

( أقیموالصلاة ولا تکونوا من المشرکین )

ترجمہ: نماز قائم کرو اور مشرک مت بنو

عزیزان گرامی! ہماری گفتگو نماز کی اہمیت کے بارے میںتھی کل کی تقریر میں قرآنی آیات کے ذریعہ سے یہ عرض کیا گیا کہ نماز کس قدر اہمیت کی حامل ہے اور آج انشاء اللہ یہ بیان کیا جائے گا کہ نماز نہ پڑھنے والے کی کیا سزاہے ؟ اس لئے کہ ہمارے خیال کے مطابق جتنے بھی نوجوان بھائی نماز پڑھنے سے کتراتے ہیں نماز کے وقت مسجد کے قریب سے بھی نہیں گذرتے اس کی وجہ ان کا نماز کے پڑھنے کی اسلام میں اہمیت اور اس کے ترک کرنے کے گناہ سے آشنا نہ ہونا ہے ورنہ کون ایسا مومن ہو گا جو اتنا بڑا گناہ جانتے ہوئے بجا لائے ، لہذا ہم آج نماز نہ پڑھنے کا گناہ اور اس کے نقصانات کو بیان کریں گے تا کہ ہمارے نوجوان عزیز اسے جان لینے کے بعد اسے کبھی ترک نہ کرنے پائیں .قرآن کریم کی آیات اور معصومین علیہم السلام کی روایات جو ہم تک پہنچی ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ نماز کسی بھی حالت میں معاف نہیں ہے چاہے انسان جنگ کے میدان میں ہی کیوں نہ ہویا اسے کسی اور وجہ سے جان کاخطرہ ہو. امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بھائی علی بن جعفر امام علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں کہ مولا اگر انسان ایسی حالت میں ہو کہ وحشی درندہ اس کو گھیرے ہوئے ہو اور نماز کا وقت بھی آپہنچا ہو اب اگر وہ نماز شروع کرے تو اسے اس درندہ حیوان کے حملہ کا زیادہ خطرہ ہے اس لیئے کہ اس کا رخ قبلہ کی جانب نہیں ہے تو ایسی صورت میں کیا کرے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : اسے چاہیئے کہ کھڑے ہو کرنماز پڑھے اور اشارے سے رکوع و سجود بجا لائے.اگرچہ قبلہ کی جانب منہ نہ ہی ہو( ۴۷ )

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص زمین پر پاؤں نہ رکھ سکتا ہو( خدا نخواستہ پانی میں غرق ہورہایاسولی پر لٹکا ہوا ہو) تو اسے چاہئے کہ اشارے سے نماز پڑھے

جس قدر روایات بے نمازی کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں شاید ہی کسی دوسرے گناہ گار کے بارے میں نازل ہوئی ہوں، بے نمازی انسان خدا ، ملائکہ، انبیاء اور یہاں تک کہ پرندے بھی اس پر لعنت بھیجتے ہیں امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :

انّ الفاختة تقول ألّلهمّ العن من ترک الصّلاة متعمّدا

فاختہ کہتی ہے:... اے پروردگار ! جان بوجھ کر نماز ترک کرنے والے پر لعنت فرما.

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا روایت کرتی ہیںکہ میں نے اپنے بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : بابا جان اگر کوئی شخص نماز پڑھنے میں لاپرواہی کرتا ہے تو اس کی کیا سزا ہوگی؟

تو آنحضرت نے فرمایا :اگر کوئی مرد یا عورت نماز کو حقیرسمجھتے ہوئے اسے ترک کردیتا ہے تو اسے دنیا و آخرت میں پندرہ قسم کے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ، چھ دنیا میں ، تین مرتے وقت ، تین قبر میں اور تین اس وقت جب اسے قبر سے اٹھایا جایا گا .وہ چھ عذاب جن میں بے نمازی شخص اسی دنیا میں مبتلا ہو گا وہ یہ ہیں :

١۔اس کی عمر سے برکت کو اٹھا لیا جاتا ہے

٢۔ اس کے رزق میں برکت نہ رہتی

٣۔ اس کے چہرے سے نور کو سلب کرلیا جاتا ہے

٤۔ بے نمازی کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا

٥۔بے نمازی کی کوئی دعا مستجاب نہیں ہوتی

٦۔ کسی کی دعا اسکے حق میں قبول نہیں ہوتی

وہ تین عذاب جو موت کے وقت بے نمازی پر نازل ہوتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

١۔بے نمازی ذلّت کی موت مرتا ہے

٢۔ بھوک کے عالم میں اسکی روح قبض ہوتی ہے

٣۔ پیاس کی شدّت طاری ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر پوری دنیا کے دریاؤںاور سمندروں کا پانی پلا دیا جائے پھر بھی سیراب نہیں ہوتا

وہ تین عذاب جو عالم برزخ میں بے نمازی پر نازل ہوتے ہیں وہ یہ ہیں:

١۔ اس پر ایک فرشتہ کو مأمور کیا جاتا ہے جو روز قیام تک اسے شکنجہ کرتا رہتا ہے

٢۔ اسے دفن کردینے کے بعد اس کی قبر اس پر تنگ کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے فشار قبر میں اضافہ ہو جاتا ہے.

٣۔ اسکی قبر میں تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے اور روشنی کانام و نشان نہیں رہتا

وہ تین عذاب جو روز محشر بے نمازی پر نازل ہونگے :

١۔ ملائکہ اسے پیٹ کے بل گھسیٹتے ہوئے میدان محشرمیں لائیں گے

٢۔ حسا ب لینے میں بہت سختی کی جائے گی

٣۔رحمت خداسے محروم رہے گا( ۴۸ )

بے نمازی انسان ہمیشہ مشکلات کا شکار رہتاہے اورجس طرح نماز کا ترک کرنا اس کے دین کو نابود کرتا ہے اسی طرح اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہے اور اس کا اثر صرف اس کی اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے آس پاس کے افراد بھی بے نمازی کی نحوست کی وجہ سے عذاب می مبتلا رہتے ہیں.اس لیے کہ یہ معاشرہ ایک کشتی کے مانند ہے جس کے اند ر سوار لوگوں میں سے کسی بھی ایک کی غلطی کا اثر اس میں سوار تمام افراد پر پڑھتا ہے اسی طرح گناہ کا اثر بھی اس کے انجام دینے والے کے علاوہ باقی تمام معاشرہ پر بھی پڑتا ہے اسی لیے تو پروردگار عالم نے فقط اپنے آپ کو گناہ سے بچنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا :( قوا أنفسکم و أهلیکم نارا ) جہاں اپنے کو جہنم کی آگ سے بچا رہے ہو وہاں اپنے گھر والوں کو بھی اس آگ سے بچاؤ .اور شاید اسی لئے روایا ت میں ملتا ہے کہ اگر باپ نماز پڑھ رھا ، آدھی رات سے مصلائے عبادت بچھائے ہو ئے عبادت الہی میں مشغول ہے لیکن جوان بیٹامزے سے سورہا تو اس باپ کی یہ عبادت قبول نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ اپنی اولاد کی دنیا کی فکر تو کرتا ہے مگر اس کی آخرت سے غافل ہے

ایک شخص رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ!میں ایک مالدار آدمی تھا لیکن ایک مرتبہ فقیر وتنگدست ہو گیا ہوں .فرمایا : کیا تم نماز نہیں پڑھتے ہو ؟ عرض کیا : پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھتا ہوں فرمایا : کیا روزہ نہیں رکھتا ؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! سال میں تین ماہ ( رجب ، شعبان اور رمضان ) روزے بھی رکھتا ہوں اب اللہ کے رسول تعجب میں پڑ گئے اور سوچنا شروع کیا کہ پھر تم نے کونسا ایسا گناہ کر لیاجسکی وجہ سے تیرے مال سے برکت اٹھ گئی .اتنے میں جناب جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا :یا رسول اللہ ! خدا آپ پر درود و سلام بھیجتا ہے اور فرما رہا ہے کہ اس بندے سے کہہ سے کہ اس کے گھر کے سامنے ایک باغ ہے جس میں ایک چڑیا کا گھونسلہ ہے اس گھونسلہ میں ایک بے نمازی کی ہڈی موجود ہے جس کی نحوست کی وجہ سے تمھارے مال سے برکت ختم ہو گئی اور تما مفلس و نادار ہو گئے ہو. رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بتایا .وہ شخص باغ میں داخل ہوااوراس ہڈی کو گھونسلہ سے اٹھا کر دور پھنکا جس کے بعد دوبارہ مالدار ہوگیا.( ۴۹ )

تو عزیزان گرامی ! آپ نے دیکھا کہ کس قدر بے نمازی انسان دوسروں کے لئے مشکلات ایجاد کرتا ہے.

اسی طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام کے زمانہ کاواقعہ ہے کہ وہ ایک گاؤں میں پہنچے ، دیکھا انتہائی سر سبز اور شاداب ہے نہریں اورچشمے بہہ رہے لوگوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کا انتہائی اچھا استقبال کیا ، بہت اچھے طریقے سے مہمان نوازی کی. جس سے آنحضرت سے بھی تعجب کیا لیکن جب اسی گاؤں سے تین سال کے بعد گذرے تو کیا دیکھا : نہریں اور چشمے خشک ہو چکے ہیں سارا سبزہ خشکی میں تبدیل ہو چکا ، حیران ہو کر اپنے پروردگار سے سوال کیا: پالنے والے اتنی کم مدت میں یہ سب کچھ کیا ہو گیا یہ بستی کیسے ویران ہو گئی ؟

وحی الہی نازل ہوئی اے عیسٰی ! اس بستی کے ویران ہونیکا سبب یہ ہے کہ ایک دن ایک بے نمازی اس بستی میں داخل ہوا اس نے اس کے چشمہ سے منہ ہاتھ دھویا جس کی نحوست کی وجہ سے چشمہ کا پانی بند ہو گیا ، دریا کی روانی رک گئی اور یوں یہ بستی ویران ہو گئی .اور اے عیسٰی سنو! جس طرح نماز نہ پڑھنے سے انسان کی آخرت تباہ ہو جاتی ہے اسی طرح اس کی دنیا بھی تباہ و برباد ہو جاتی ہے( ۵۰ ) .

یہ ہے نماز نہ پڑھنے کا اثر ، آج ہمارے مال میں برکت کیوں نہیں ہے؟ اس لئے کہ بڑا سے بڑا نمازی آپ دیکھ لیں خود نماز پڑھ رہا لیکن بچوں کی نماز کی کوئی فکر نہیں.بیوی نماز پڑھے یا نہ پڑھے اسے اس سے کوئی غرض نہیں جوان بیٹا نماز نہیں پڑھتا تو اسے کہنے کو تیار نہیں جبکہ اسی بیٹے کی دنیا بنانے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کر رہا

عزیزان گرامی ! دین مقدس اسلام نے آپ سے یہ نہیں کہا کہ اپنی نماز پڑھ لو اور بس نہیں بلکہ اس نے تو اپنی نماز کا بھی حکم دیا اور ساتھ ساتھ اپنے بیوی بچوں کو بھی اس کا حکم دینے کا امر صادر فرمایا ہے خدا وند متعال ہم سب کا شمار نماز یوں میں سے فرمائے اور اپنے گھر والوں، اپنے دوست احباب کو اس نیک کام کی طرف راغب کرنے کی توفیق عطا فرمائے.


4

5

6