ساتواں درس
فلسفہ اخلاق
قال رسول الله صلی الله علیه و آله وسلم :انّی بعثت لأُتمّم مکارم الأخلاق
مؤمنین کرام رسول مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد مبارک ہے جس میں یہ فرما رہے کہ مجھے مکارم اخلاق کو کامل کرنے کے لئے مبعوث کیا گیا .اور یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام اخلاق کی اس اعلٰی منزل تک پہنچے کہ ارشاد قدرت ہوا : انّک لعلٰی خلق عظیم.
(اے میرے رسول ) آپ اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں.
تو جس مکارم اخلاق کی تکمیل کو رسالت کامقصد قرار دیا گیا اس سے مراد کیا ہے ؟ امام صادق علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں : مکارم اخلاق دس چیزیں ہیں ان کے حاصل کرنے میں کوتاہی مت برتو اس لئے کہ ممکن ہے ایک صفت بیٹے میں ہو مگر باپ میں نہ ہو یا باپ میں ہو اور بیٹے میں نہ ہو .اور اسی طرح ممکن ہے کہ غلام میں تو پائی جاتی ہو مگر آزاد میں نہ ہو ، اور وہ صفات یہ ہیں :صدق مع الناس و صدق و اللسان و أداء الأمانة صلة الرحم و اقراء الضیف و اطعام السائل و المکافاة علی الصنایع و التذمّم للجار و التذمّم للصاحب و رأسهنّ الحیاء
١۔ لوگوں سے سچائی
٢۔ صداقت
٣۔ امانت کا اداکرن
٤۔ صلہ رحمی
٥۔مہمان نوازی
٦۔فقراء کی مدد
٧۔ احسان
٨۔ نیکی کا بدلہ نیکی سے
٩۔ہمسایوں سے اچھا سلوک
١٠۔ دوستوں سے بھلائی اور ان تمام نیک صفات کا سر چشمہ حیاء ہے.
امام رضا علیہ السلام رویت کرتے ہیں کہ رسول خدا نے لوگوں سے فرمایا : اخلاق حسنہ کو حاص کرو اور برے اخلاق سے پرہیز کرو اس لئے کہ نیک اخلاق انسان کو جنّت میں لے جاتا ہے جبکہ برااخلاق اسے جھنّم میں لے جانے کا باعث بنتا
امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
حسن الاخلاق برهان الأعراق
اچھا اور نیک اخلاق انسان کی فطرت کے پاک ہونے کی علامت ہے
سئل عن الصادق( ع) : ما حدّ حسن الخلق ؟ قال: نلین جانبک و تقلّب کلامک و تلقٰی أخاک ببشر حسن
امام صادق(ع)
سے پوچھا گیا کہ حسن خلق کی کیاعلامت ہے ؟ فرمایا :١۔ نرم مزاج ہونا .٢۔ اچھی گفتگو کرنا .٣۔ دوسروں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا
ہم اکثر نماز کے قنوت میں یہ دعا پڑھتے رہتے ہیں : ربّنا آتنا فی الدنیا حسنة . اے پالنے والے ہمیں دنیا میں نیکی عطافرما اس نیکی سے مراد کیا ہے؟ امام معصو م(ع)
فرماتے ہیں : اس سے مراد اخلاق حسنہ ہے.(٢)
اسلام میں اخلاق کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:اخلاق حسنہ نصف ایمان ہے
اس اخلاق کا فلسفہ کیا ہے ؟ کس لئے شریعت مقدس اسلام نے اس کی اتنی تاکید فرمائی ہے؟ اس کا جواب واضح ہے کہ یقینا اس میں انسانوں کے لئے دینی و دنیاوی فائدہ پایا جاتا ہے کیو نکہ کوئی بھی حکم اسلام حکمت و فلسفہ سے خالی نہیں ہے روایات میں اخلاق کا فلسفہ جو بیان ہوا ہے وہ یہ ہے:
١۔روح کی لذّت :
امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں :
لاعیش ألذّ من حسن الخلق
حسن خلق سے بڑھکر زندگی کی کوئی لذت نہیں ہے.
٢۔ دوستی کا باعث :
رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :حسن خلق دوستی کا باعث اور کینہ کے دور ہونے کا موجب بنتا ہے اور لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا نصف عقل ہے
٣۔ گناہوں کی نابودی :
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : جس طرح سورج برف کو پگھلا کرختم کردیتا ہے اسی طرح اخلاق حسنہ گناہوں کی نابودی کا باعث بنتا ہے. نیز فرمایا : برااخلق انسان کے نیک اعمال کو اسے طرح ضائع کردیتا ہے جس طرح سرکہ شھد کو ضائع کر دیتاہے
.
٤۔رسول خدا سے قربت :
رسول خداصلی اللہ نے فرمایا :أقربکم منّی غداأحسنکم خلقا و اقربکم من الناس
روز قیامت وہی میرے نزدیک ہوگا جس کا اخلاق اچھاہوگا اور لوگوں سے نزدیک ہوگا.
٥۔اجر برتر:
رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان حسن خلق کے ذریعہ سے روزہ داراور شب زندہ دار شخص کا اجر پا سکتاہے
٦۔گناہوں کا کفارہ:
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
التبسّم فی وجه المؤمن الغریب من کفّارة الذّنوب
مسافر مومن کے سامنے مسکرانا گناہوں کے کفارہ کاباعث بنتا ہے.
٧۔وسعت رزق:
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
حُسن الخُلق من الّدین وهو یزید فی الرّزق
حسن خلق ایمان کی علامت ہے اور رزق میں وسعت کاباعث بنتا ہے.
٨۔تکمیل ایمان:
امام رضا علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار اور انہوں نے اپنے اجداد سے نقل کیا ہے کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ایمان کے لحاظ سے وہ لوگ کامل تر ہیں جن کااخلاق اچھا ہو اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ ہوں
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھیجیجانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگوں کو اخلاقی برائیوں سے بچائیں اور انہیں سعادت و کمال اخروی تک پہنچاسکیں اسی لئے شریعت مقدسہ اسلام میں اخلاق پر اس قدر زور دیا گیا ہے آج ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یہی اخلاقی بیماریاں ہیں جن کی وجہ سے آئے دن بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے اگر لوگ اخلاق حسنہ کی خوبیوں اور اخلاق سیئہ کی برائیوں اور اس کے انجام سے آشنا ہو جائیں تو یہ سب برائیاں خود بخود دور ہو جائیں گی اس لئے کہ جب لوگوں کو معنوی غذا ملنی ہی نہیں تو وہ کیسے ان برائیوں سے چھٹکاراپاسکتے ہیں .اور اس کے کئی ایک عوامل ہیں کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن کیوں پستی کی طرف جاریا ہے ؟ کیوں ہمارے اندر اخلاقی برایئوں کا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے.؟ اسکی وجہ کیا ہے اور یہ برائیا ں کہاں سے جنم لے رہی ہیں ؟
عزیزان گرامی ! کسی بھی شخص کے بد اخلاق ہونے کے تین عوامل ہیں :
١۔ جھالت:
امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
الخُلق المذموم من ثمار الجهل
برا اخلاق جھالت کا ثمرہ ہے.
آج ہمارے معاشرہ میں علم کا بہت فقدان ہے جس کی بناء پرطرح طرح کی برائیاں جنم لے رہی ہیں اور ایسی ایسی بیماریاں جن کا انسان تصور ہی نہیں کر سکتا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ جسم کی بیماری کا تعلقاخلاقی بیماریوں سے ہے جس قدر اخلاقی بیماریوں میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ویسے ہی جسمانی بیماریاںبھی نئی نئی وجود میں آتی جائیں گی. اگر آج سے بیس سال پہلے کے آدمی کو لایا جائے تو وہ موجودہ اخلاقی بیماریوں کو دیکھ کر حیران رہ جائے اس لئے کہ آج جو ڈش ، کیبل اور پھر ان سب سے بڑھ کر انٹر نیٹ کی بیماری ہے جس سے ہمارے بچے بگڑ رہے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دن بدن جسمانی بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے.
اور یہ سب دینی تعلیمات سے جھالت کا نتیجہ ہے جس قدر ھم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کا خیال رکھتے ہیں کیا کبھی اس کا دسواں حصہ بھی ان دینی تعلیم پر توجہ دی ہے
٢۔ پستی و نجاست:
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
النّفس الدّنیة لا تنفک عن الدّناآت
نفس پست ہے اورپستیوں سے جدا ہونے والا نہیں اس لئے جب تک انسان اپنے نفس پر مسلط نہیں ہوگا تب تک وہ اسے اخلاقی بیماریوں میں مبتلا رکھے گا .تبھی تو نفس سے جھاد کو جھاد اکبر کا نام دیا گیاہے اس لئے کہ نفس کا مقابلہ کرنا انتھائی دشوار کام ہے.
٣۔وراثت:
امام باقر علیہ السلام نے فرمایا : خداوند متعال نے جناب آدم علیہ السلام کے بیٹوں میں سے ایک کے لئے حور اور دوسرے کے لئے جنوں میں سے ایک عورت کا انتخاب کیا جن سے انہوں نے شادی کی جتنے بھی خوش اخلاق لوگ ہیں وہ سب اس حور کی اولاد ہیں اور بد اخلاق جن کی