ہدیہ مبلّغین

ہدیہ مبلّغین0%

ہدیہ مبلّغین مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

ہدیہ مبلّغین

مؤلف: مولانا صابر علی بخاری
زمرہ جات:

مشاہدے: 7297
ڈاؤنلوڈ: 2554

تبصرے:

ہدیہ مبلّغین
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7297 / ڈاؤنلوڈ: 2554
سائز سائز سائز
ہدیہ مبلّغین

ہدیہ مبلّغین

مؤلف:
اردو

دسواں درس

جہالت کا دین پر اثر (٣)

قال المهدیّ علیه السلام : آذانا جهلاء الشّیعة و حمقائهم ومن دینه جناح البعوضة أرجح منه.

عزیزان گرامی ! ہماری گفتگو جھالت کی اقسام کے بارے میں تھی گذشتہ دو درسوں میں جھل کی پہلی اور دوسری قسم کو بیان کیا گیاکہ جھل کی پہلی قسم ،جھل بسیط ہے جس کا معنی یہ ہے کہ انسان ایک چیز کے بارے میں جاھل ہے لیکن اپنی جھالت کے بارے میں علم رکھتا ہے دوسری قسم جھل تردید ہے کہ انسان اپنے عقیدہ کے بارے میں ہمیشہ شک وتردید کا شکار رہے اورجھل کی جس قسم کے بارے میں گفتگو ہو گی وہ جھل مرکب ہے جھل کی یہ قسم پہلی دوقسموں سے زیادہ خطرناک ہے اس قسم کو جھل مرکب کا نام دیا گیا ہے جس کی تعریف یہ کہ انسان ایک چیز کا علم نہیں رکھتا لیکن اپنے کو اس کا عالم سمجھتا ہے سب سے گنہگار ہے مگر اپنے کو سب سے مقدس مآب خیال کرتا ہے.گھر والے اس کی بد اخلاقی سے تنگ ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو سب سے خوش اخلاق تصور کرتا ہے سب سے فاسق ترین شخص ہے مگر خود کو سب سے بڑا مومن سمجھتا ہے جھالت کی یہ قسم اس قدر خطرناک ہے کہ قرآن فرماتا ہے: اگر یہ بری صفت کسی کے اندرراسخ ہوجائے تو ایسا شخص روز قیامت خداسے بھی جھگڑے گا اورقسمیں کھائے گاجب اسکا سیاہ اعمال نامہ اس کے سامنے پیش کیا جائے گا اور کہے گا:اے خدایا! میں تو ایک نیک انسان تھا یہ مجھ پر الزام لگایا جارہا ہے قرآن نے اسے یوں بیان فرمایا :

( یوم یبعثهم الله جمیعا فیحلفون له کما یحلفون لکم و یحسبون أنّهم علٰی شیء ألا انّهم هم الکاذبون ) ( ۷۰ )

ترجمہ: جس دن خدا ان سب کو دوبارہ زندہ کرے گا اور یہ اس سے بھی ایسی ہی قسمیں کھائیں گے جیسی تم سے کھاتے ہیں اور ان کا خیال ہو گا کہ ان کے پاس کوئی بات ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹے ہیں.

جسطرح لوگوں کے سامنے قسمیں کھایا کرتے کہ ہماچھے ہیں اسی طرح خدا کے سامنے بھی جھوٹی قسمیں کھائیں گے.قرآن فرماتا ہے کہ عجیب قسم کے جھوٹے ہیں اور جھوٹ میں اس حدّ تک آگے نکل چکے کہ روز قیامت خداکے سامنے بھی جھوٹ بولنے میں ان کو کوئی پریشانی نہیں ہورہی آج آپ اپنے منبروں کی حالت دیکھ لیں کہ بعض پڑھنے والے اس قدر واضح جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں کہ عام انسان بھی جان جاتا ہے لیکن وہ اس قدر بااعتمادی کے ساتھ بول رہے ہوں گے کہ جیسے کسی کو ان کے اس جھوٹ کا علم ہی نہیں ہوا اور پھر نہ تو یہ لوگ امام حسین علیہ السلام پر رحم کھاتے ہیں اور نہ خوف خدا کا ڈر ہوتا ہے.

پڑھے لکھے افراد میں بھی ایسوں کی کمی نہیں ہے .انہیں لوگوں کے بارے میںقرآن فرما رہا کہ خدا کے سامنے بھی اکڑ جائیں گے اور کہیں گے خدایا ! تو ہی اشتباہ کررہا ہے یا تیرے ملائکہ نے اشتباہ کیا ہے ہم تو انتہائی نیک لوگ ہیں

قرآن کریم ان افراد کو پست ترین افراد کہہ رہا اورانہیں سب سے زیادہ خسارہ پانے والا قرار دے رہا :

( قل هل ننبّئکم بالأخسرین أعمالا الّذین ضلّ سعیهم فی الحیوة الدّنیا وهم یحسبون أنّهم یحسنون صنعا. ) ( ۷۱ )

ترجمہ:پیغمبر کیا ہم آپ کو ان کے بارے میں اطلاع دیں جواپنے اعمال میں بد ترین خسارہ میں ہیں .یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں

مسجد میں کبھی گیا نہیں ، مجلس کبھی سنی نہیں ،جب اس کہا جاتا ہے کہ درس اخلاق میں شرکت کیا کرتو کہتا ہے میں ان مولویوں سے زیادہ جانتا ہوں.ایک عورت گھر میں انتہائی بد اخلاق ہے لیکن جب کوئی اسے کہتا ہے کہ تو بد اخلاق ہے تو کہتی ہے میرے جیسا کوئی بااخلاق ہے ہی نہیں تم اشتباہ کر رہے ہو ماں باپ سب نصیحت کررہے لیکن کسی کی بات قبول کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ وہی اپنا جھل مرکب دوسروں پر مسلط کرنا چاہ رہی

امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے اسے آپکے سامنے نقل کررہا ہوں تا کہ جھل مرکب کامعنی تمھارے لئے مزید واضح ہو جائے اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ جھل مرکب انسان کو بد بختی کی کس حدّ تک پہنچادیتا ہے .آپ کے چھٹے امام علیہ السلام فرماتے ہیں :

ایک شخص لوگوں کو درمیان بہت شہرت رکھتا تھالوگ اسے مستجاب الدعوات سمجھتے.اس قدر معروف تھا کہ میں سوچااس سے جا کر ملوں .امام علیہ السلام فرماتے ہیں ایک دن کوچے میں کھڑا تھا اور اسکے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ تھی میرے ساتھ والے شخص نے بتایا : یابن رسول اللہ ! یہی وہ شخص ہے جس سے آپ ملنا چاہ رہے تھے امام علیہ السلام فرماتے ہیں : میں آگے بڑھا لیکن اس کی نگاہ جیسے ہی مجھ پر پڑھی لوگوں کو وہیں پہ چھوڑ کر نکل گیا ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے تاکہ خلوت میں اس سے بات کر سکیں.

امام علیہ السلام فرماتے ہیں : یہ شخص ایک تنور پرپہنچا وہاں سے دو روٹیاں چرائیں اور باہر نکل آیا ، اس کے بعد ایک دوکان میں داخل ہوا وہاں سے دو انار چرائے اور باہر نکل آیا وہاں سے سیدھا ایک خرابہ میں داخل ہواوہ روٹیاںاور انار وہاں( چار آدمیوں کو ) صدقہ دیا اور اب جیسے ہی باہر آیا تو میں نے اسے روک کر پوچھا کہ یہ کیسا عمل تھا جو تو نے انجام دیا ، کہنے لگا : میں نے کیا کیا ہے ! میں نے کہا : میں تمھاری تمام تر حرکات کو دیکھ رہا تھا کہنے لگا : تو کون ہے ؟ میں نے کہا : میں جعفر بن محمد ہوں .جیسے اس شخص نے سنا تو کہنے لگا : تو فرزند پیغمبر ہے اور قرآن نہیں جانتا ، قرآن کہہ رہا ہے :

( من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها و من جاء بالسیئة فلا یجزٰی الاّ مثلها ) ( ۷۲ )

ترجمہ: جو شخص بھی نیکی کرے گا اسے دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کرے گا اسے اتنی ہی سزا ملے گی

میں نے کہا : اس آیت کا آپ کے اس عمل سے کیاتعلق ہے ؟ کہنے لگا : میں نے دو انار اور دو روٹیاں اٹھائیں جن کے بدلے میں مجھے چار گناہ ملے جبکہ انہیں صدقہ کرنے پر مجھے چالیس نیکیاں مل گیئں اب اگر چالیس میں سے چار کو کم کر دیا جائے تو پھر بھی میرے نامہ عمل میں چھتیس نیکیاں تو آگئیں اور یہ کتنا مفید معاملہ ہے .! میں نے کہا :ثکلتک أمّک تیری ما ں تجھ پر گریہ کرے تو نے تو ایک نیکی بھی نہ پائی بلکہ آٹھ گناہ تمہارے نامہ اعمال میں لکھ دئیے گئے چار چوری کرنے کے اور چار مالک کی اجازت کے بغیر ان چیزوں کو دوسروں کو دینے کے اور پھر فرمایا : دیکھا جھل مرکب انسان کے سا تھ کیا کرتا ہے

ممکن ہے آپ اس روایت سے تعجب کریں لیکن کیا ہمارے پاس ایسے افراد کی کمی ہے جو کم تولتے ہیں مہنگا بیچتے ہیں اور سال سال سامان کو سٹور کئے رکھتے ہیں تاکہ جب مہنگا ہو تب بیچیں لوگوں کا خون چوستے ہیں اور سال میں ایک آدھی مجلس کروا دی اور سمجھ لیا کہ ہماری بخشش ہو گئی ، ہم نے تو بہت بڑا کام کر دکھایا ہم سے بڑا تو کوئی مومن ہے ہی نہیں کیا فرق ہے اس میں اور اس چوری کرنے والے میں اس نے چوری کی راہ خدا میں صدقہ کردیا ،اس نے لوگوں کاخون چوسا ، غریبوں کا مال کھایا اور امام حسین کی مجلس کروا دی .!

ایک خاتون ساری رات عبادت الھی میں مشغول ہے کبھی دعائے توسل پڑھ رہی تو کبھی زیارت عاشورہ، پوری رات گریہ وبکاء میں گذار دی لیکن شوھر اس بیوی سے تنگ ہے اس کا حق کھا رہی اس عورت اور اس چورمیں، اس نے بھی دوسروں کا حق کھایا یہ بھی شوہر کا حق کھا رہی

اسی طرح ایک شخص صدقات و خیرات کررہا مگرگھر والے اچھا کھانے کو اچھا پہننے کو ترس رہے ، اسے اتنا بھی معلوم نہیں :

چراغی کہ بہ خانہ روا است بہ مسجد حرام است

اور اس سے بھی بڑھ کر جھالت تو یہ ہے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جو نہ تو خمس دیتے ہیں اور نہ زکات مگر عشروں کے عشرے کروا رہے جبکہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : قرآن کی یہ آیت مجیدہ ایسے ہی افراد کے بارے میں ہے :

( انّ الّذین یأکلون أموال الیتامٰی ظلما انّما یأکلون فی بطونهم نارا و سیصلون سعیرا ) ( ۷۳ )

ترجمہ:جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اورعنقریب واصل جھنّم ہوں گے.

ایسا شخص جو خمس ادا نہ کرے اور مجالس وغیرہ یا دوسرے نیکی کے کاموں پر پیسہ خرچ کر رہا ہے یہ بھی ویسا ہی چور ہے قیامت کے دن اسے جہنّم کی آگ کا ایندھن بنا دیا جائے گا

گیارہواں درس

جھالت کا علاج (١)

قال الامام المهدیّ علیه السلام : آذانا جهلاء الشیعة وحمقائهم ومن دینه جناح البعوضة أرجح منه .

عزیزان گرامی!ہماری گفتگو مسلسل کئی روز سے جھالت کی اقسام اور اس کا دین پر جو برا اثر ہے اسکے بارے میں جاری ہے. اور امام زمانہ علیہ السلام ارواحنا لہ الفداء کا فرمان آپ کے سامنے پیش کیا گیا جس میں امام علیہ السلام فرمارہے کہ ہمارے شیعوں نے ہمیں اذیت پہنچائی. اور اس کا باعث مومنین کی علم دین سے ، شریعت کے احکام سے جھالت ہے .جس کے نتیجہ میں وہ ہمیں فائدہ پہنچانے کے ، ہمارے مدد کرنے کے ، ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں جس سے زمانہ کے امام کا دل دکھتا ہے. امام پریشان ہوتے ہیں اس لئے کہ ہر روز کے اعمال امام زمانہ کی خدمت میں پہنچتے .ہیں ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہچنتے ہیں جب مومن کا نامہ عمل نیکیوں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے تو امام زمانہ ارواحنا لہ الفداء خوش ہوتے ہیں اور اپنے اس چاہنے والے کے حق میں دعا کرتے ہیں .لیکن خدانخواستہ اگر کسی کے نامہ عمل میں لوگوں کو گمراہ کرنے اور طرح طرح کی برائیوں سے پر ہو تو امام زمانہ پریشان ہو جاتے ہیں اس لئے کہ اس کا تعلق امام زمانہ سے ہے یہ اپنے آپ کو سپاہی امام کہلواتا ہے اور جوانسان جتنا کسی کے قریب ہو اور پھر نافرمانی کرے تو اتنا ہی زیا دہ دکھ ہوتا ہے .اب چونکہ یہ شخص شیعہ ہونے کا دعوٰ ی کررہا اور لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کی یہ اہل بیت علیہم السلام کا چاہنے والا ہے تو اب یہ جو بھی کام کرے گا لوگ اسے اہل بیت کی طرف نسبت دیں گے اسی لئے تو امام علیہ السلام نے فرمایا :

شیعتنا کونوا لنا زینا ولا تکونوا علینا شینا

اے ہمارے شیعو! ہمارے لئے باعث زینت بنو ، باعث ننگ وعار مت بنو.

امام یہ جملہ کن سے فرما رہے؟ اپنے چاہنے والوں سے ،اپنے شیعوں سے ، اپنے عزاداروں سے ،مثال کے طور پر آپ ابھی مسجد سے باہر نکلے اور دیکھا کچھ بچے راستے میں کھیل رہے،درس یا نماز میں شرکت نہیں کی آپ سب کو چھوڑ کر ایک بچے کو بلاکر سمجھانا شروع کرتے ہیں جب کوئی پوچھے گا کہ بھئی سب کو چھوڑ کر صرف اس بچے کو کیوں تبلیغ کر رہے جبکہ سب ہی کھیل رہے تھے تو آپ اس کے جواب میں یہی تو کہیں گے کہ اس کا تعلق ہم سے ہے اسی لئے امام علیہ السلام نے بھی کسی اور کو خطاب نہیں کیا بلکہ اپنے چاہنے والوں سے یہ فرما رہے کہ اگر ہماری دوستی کو اپنا ہی لیا ، اگر ہمارے شیعہ بن ہی گئے تو اب ایسا کا م مت کرو جس کی وجہ سے ہمیں خدا کی بارگاہ میں شرمندگی اٹھانا پڑے.

عزیزان گرامی ! یاد رکھیں کہ کوئی بھی مومن یہ نہیںچاہتا کہ اس کی وجہ سے اس کے امام پریشان ہوں .اور کسی مومن سے امام علیہ السلام کو پریشانی ہو رہی تو یہ اس کی جھالت کے باعث ہے اس لئے کہ وہ اپنے عقیدہ کی اصلاح ہی نہیں کرتا جبکہ اس کے پاس عالم دین بھی موجود ہے وقت بھی ہے لیکن چونکہ وہ یہ تصور کرتا ہے کہ جو کچھ میرے پاس پے وہی صحیح ہے اور یہی جھل مرکب ہے

تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان مومن کیا کرے کہ اس جھالت کو دور کر کے اپنے زمانہ کے امام کو راضی کرسکے ؟ تو اس کے لئے ہم جھل کی ہر ایک قسم کا علاج جدا جدا طور پر ذکر کر رہے ہیں امید ہے کہ آپ لوگ توجہ سے سنیں گے اور اس پر خود بھی عمل کریں اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی بتائیں گے تا کہ امام زمانہ ہم سب سے راضی ہوں خداہم سے راضی ، شفاعت اہل بیت رسول سب کے شامل حال ہو سکے.

جھل بسیط :جھل بسیط کے بارے میں بیان کیا جا چکا کہ ایک انسان کسی شے کا علم نہیں رکھتا اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ یہ چیز نہیں جانتا اسکا علاج انتہائی آسان ہے اس لئے کہ وہ رسول مکرم جنکے بارے میں روایات میں ملتاہے:

طبیب دوّار ایک ماہر طبیب تھے انہوں نے اس کا علاج بھی ایک حدیث میں بتا دیا فرمایا:طلب العلم فریضة علی کل مسلم

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے چاہے وہ مردہو یا عورت

واضح سی بات ہے کہ جب علم آئے گا توجھالت خود بخود دور ہو جائے گی اگر کوئی شخص علم کو چھوڑ کر کسی اور کام کے پیچھے جاتا ہے تو وہ انتہائی غلط کام کر رہا ہے اس لئے کہ سب سے اہم کام علم ہے اس کے بعد جو چاہے کرے رسول خد ا کی سیرت دیکھیں کہ جب بھی کوئی شخص مسلمان ہوتا تو اسے ایک ایسے مسلمان کے حوالے کرتے جو دین کے احکام سے آشنا ہوتا ،جب وہ شخص دین کے ضروری احکام کو سیکھ لیتا تب اسے اجازت دی جاتی یعنی پیغمبر فقط شھادتین پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ فرماتے اب اگر مسلمان ہو ہی گئے ہو تو آؤآداب مسلمانی بھی سیکھ لو نمازپڑھو بھی اور نماز کے احکام بھی سیکھو ، روزہ رکھو بھی اور روزہ کے احکام بھی سیکھو .اس لئے کہ اسلام کے احکام سے آشنائی کے بغیر مسلمان بننا کیسے ممکن ہے ؟

تعجب ہے آج کے پڑھے لکھے مسلمانوں سے جن کے پاس دین کے احکام سیکھنے کا وقت نہیں .نماز سیکھ لی سمجھا سارا دین اسی میں آگیا ، نہ تو نماز کے شکیات کا علم اور نہ ہی اس کے آداب کا جبکہ اتنا تو مکہ کے بدو عرب بھی جانتے تھے کہ جب تک اسلام کے ہرہر حکم پر عمل نہ کر لیا جائے تب تک انسان سچامسلمان بن ہی نہیں سکتا

پیغمبر کی خدمت میں ایک عرب بدو حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے مسلمانوں کے نبی !

میں نے اپنے علم اور اپنی معلومات کے ذریعہ یہ جان لیا ہے ،مجھے یہ یقین ہو چکا ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں لیکن آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا فرمایا یہ کیسے ایک طرف قبول کررہا اور پھر ایمان کیوں نہیں لاتا؟ کہنے لگا : میں اتنا بھی جاہل نہیں ہوں بلکہ جانتا ہوں کہ اگر آپ پر ایمان لے آیا تو پھر آپ پر جو کچھ نازل ہوا اس سب پر عمل کرنا پڑے گا اور اگر ایمان لے آؤں اور آپ کے بتائے ہوئے احکام پر عمل نہ کروں تو ایسا ایمان مجھے فائدہ نہیں دے سکتا لہذابہتر یہی ہے کہ آپ پر ایمان نہ لے آؤں .چونکہ مجھ میں تین ایسی بیماریاں ہیں جن کو میں چھوڑ نہیں سکتا اور آپ اس کی چھوٹ نہیں سے سکتے فرمایا : کونسی ایسی بیماریاں ہیں جنہیں تم چھوڑ نہیں سکتے ؟ کہنے لگا : اے مسلمانوں کے نبی ! ایک تو میں شراب پیتا ہوں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا دوسرا یہ کہ مجھے جھوٹ بولنے کی عادت ہے چاہوں یا نہ چاہوں جھوٹ بولتا رہتا ہوں اسے چھوڑنا بھی میرے لئے ممکن نہیں ہے اور آپ کا دین اس کی اجازت نہیں دیتا. تیسری بیماری میرے اندر یہ ہے کہ میں کبھی حلال کا مال کھایا ہی نہیں! ہیشہ چوری کر کے کھاتا ہوں .اور مجھے معلوم ہے کہ آپ اس کی اجازت نہیں دیں گے اس لئے میں نے کہا کہ میں آپ کو سچانبی ماننے کے باوجود آپ پر ایمان نہیں لاسکتا

اللہ کے رسول نے فرمایا : کیا ایک معاملہ کرو گے ؟کہا کونسا ؟ فرمایا: ایک کو تم چھوڑ دو، دو کی ہم تمہیں چھٹی دے دیتے ہیں .اب جو صحابہ کرام پاس بیٹھے تھے حیران ہو گئے کہا : بھئی اب چھوٹ کا زمانہ آیا ہے ہم تو اسلام لانے میں جلدی کربیٹھے.

فرمایا: ایک تم چھوڑ دو ، دو کی ہم تمہیں رخصت دے دیتے ہیں

یہ کہنے لگا: میں اس پر راضی ہوں ایک چیز کو آپ کی خاطر چھوڑنے کو تیار ہوں.

فرمایا : جھوٹ بولنا چھوڑ دے .باقی دو کا میںضامن ہوں .اس نے قبول کرلیا اور خوشی خوشی اٹھ کر چل دیا اب سارا دن اندھیرا چھانے کا انتظار کرتا رہا جیسے ہی رات ہوئی تو چوری کرنے کے ارادہ سے نکلا ایک ایسے مکان کے پاس پہنچا جس میں کوئی نہیں اور سامان سے بھرا ہوا ہے اس نے اطمینان سے چادر بچھائی اور ایک سے ایک چیز چن کر رکھنا شروع کی جب گٹھڑی باندھ کی تو کہا : تھوڑی دیر آرام کر لوں اس کے چلوں گا اب جیسے بیٹھا تو سوچنے لگا کہ اللہ کے نبی سے وعدہ کر کے آیا ہوں کہ جھوٹ نہیں بولوں گا .اور یہ سامان لے کر بازار میں بیچنے گیا تو لوگوں نے پوچھا کہ یہ سامان کہاں سے لایا ہوں تو کیا کہوں کہ شام سے قافلہ آیا تھا اس سے خریدا ، یہ تو جھوٹ ہو جائے گا اگر شراب خانہ سے واپس جا رہا اور کسی نے پوچھ لیا تو کیا جواب دوں گا

عزیزان گرامی ! اسلام نے اسی لئے فکر کی دعوت دی ہے کہ ہر انسان ہر روزسونے سے پہلے فکر کرے کہ آج میں نے کیا کیا کیا. اور پھر فرمایا :تفکّر ساعة افضل من عبادة سبعین سنة

ایک لمحہ کاتفکر ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے

آپ نے دیکھا کہ ایک لمحہ تفکر کرنے کی بنا پر یہ شخص سارے گناہوں کو ترک کر بیٹھا کہا مجھے اب سمجھ آئی کہ اللہ کے رسول نے مجھ سے فقط جھوٹ ہی نہیں چھڑوایا بلکہ اس کے ذریعہ سے تینوں کاموں سے روک دیا اب چونکہ اللہ کے رسول سے سب کے سامنے وعدہ کر چکا تھا لہذا سامان کو وہیں پہ چھوڑا اور سیدھا گھر پہنچا .نیند نہیں آرہی. اب تک جو اندھیرے کی تلاش میں تھا اب یہ انتظار کر رہا کہ کب سورج نکلے ،روشنی ہو اور وہ اللہ کے رسول کی خدمت میں پہنچ کر سچے مسلمان ہونے کا اظہار کرے

جیسے ہی صبح ہوئی سیدھا پیغمبر کی خدمت میںپہنچا. کہا: یا رسول اللہ میں اپنے سچا مسلمان ہونے کا اظہار کرنے آیا ہوں فرمایا : ٹھہر جاؤ ان صحابہ کو بھی بلا لیں جو کل یہاں موجود تھے سب کو بلایا گیا.اور پھر فرمایا : بتا اب کیا کہنا چاہتا ہے کہنے لگا: یا رسول اللہ میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ آپ سے چھوٹ لے لی لیکن حقیقت میں آپ نے جھوٹ سے روک کر مجھے تمام گناہوں سے بچا لیا

عزیزان گرامی! اسے کہتے ہیں طبیب دوار جو مریض کوخالی ہاتھ واپس نہ پلٹائے اب آپ نے دیکھا ؛ کہ پیغمبر کے پاس جانے کا کتنا فائدہ ہوا کہ ایک بھٹکا ہوا انسان راہ راست پر آگیا اسی طرح آج بھی اگر کوئی شخص وارثان رسول یعنی علماء کی صحبت میں رہے گا تو اپنی جھالت بھی دور کر سکتا ہے اور پھر کبھی گمراہ بھی نہیں ہوگا

بارہواں درس

جھالت کا علاج(٢)

قال المھدی علیہ السلام : آذانا جھلاء الشّیعة و حمقائھم ومن دینہ جناح البعوضة أرجح منہ

عزیزان گرامی ! ہماری گفتگو جھالت کے علاج کے بارے میں کہ کیا کیا جائے جس سے ہم اپنی جھالت کو دور کر کے امام زمانہ کوراضی کرسکیں توکل کے درس میں یہ بیان کیا گیا کہ جھل بسیط کو دور کرنے کا واحد علاج یہ ہے کہ انسان علم حاصل کرے علماء کی طرف رجوع کرے. اس لئے کہ علم کے بغیر عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہے قرآن مجید میں تقریبا پچھتر بار جہاں پہ ایمان کا تذکرہ ہوا سا تھ ہی عمل کے بارے میں بھی کہا گیا( الاّ الّذین آمنوا وعملوا الصالحات ) یعنی علم بغیر عمل کے مفید نہیں اور عمل بغیر علم کے فائدہ مند نہیں ہو سکتا

صدر اسلام کے مسلمان جب ایک دوسرے سے ملتے توکہا کرتے( والعصر انّ الانسان لفی خسر الاّ الّذین آمنوا و عملواالصالحات ) اگر کوئی شخص عمل کرنا چاہتا ہے تو اسے عالم ہونا چاہئے لیکن عالم ہونے کا معنی یہ نہیں کہ وہ پانچ یا دس سال مدرسہ میں پڑھے بلکہ اگر اپنی مسجد کے مولانا صاحب کے پاس ہر روز دس منٹ جائے اور اپنی نماز اور جو کچھ دین کے بارے میں جانتا ہے اسے پیش کرے اگر درست ہے تو الحمد للہ ورنہ اصلاح کرے جو لوگ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن صحیح نماز نہیں پڑھتے ، اس کے آداب سے ، احکام نماز شکیات وغیرہ سے آگاہ نہیں ہیں قیامت کے دن انہیں خطاب کیا جائے گاهلّا تعلّمت نماز کے احکام کو کیوں نہیں سیکھا کیا تمھارا بازار جانا ضروری تھا یا تمھاری نماز ، کیا تمھارا دوکان کھولنا ضروری تھا یا تمھاری نماز کیا ایف اے بی اے کرنا ضروری تھا یا احکام نماز تمھیں ان سب کاموں کی فکر تو تھی ، انہیں تو اہمیت دیتے تھے لیکن اگر کسی چیز کی اہمیت نہیں تھی

تو دین کا علم ہے وہ نماز و روزے کے احکام ہیں .پس اسے جھنّم میں لے جایا جائے کتنی حماقت کی بات ہے کہ انسان اس چند روزہ زندگی کے لئے جس کا کوئی بھروسہ ہی نہیں کہ کس وقت ختم ہوجائے اس کے لیے تو دن رات کوشش کرے لیکن وہ زندگی جو ابدی زندگی ہے جو انسان کا ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے اس سے بے خبر رہے اس گھر کے لئے کچھ نہ کرے

عزیزان گرامی !قرآن نے یہاں پر ایک اور بھی ذمہ داری بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ انسان جس طرح اپنی عاقبت کی فکر کرتا ہے اسی طرح اپنے گھر والوں اپنی بیوی ،اپنے بچوں کی بھی فکر کرے اس لئے کہ کہیں خدا نخواستہ یہ نہ کہ جس اولاد کی خاطر انسان اپنی پوری زندگی کا سکون تباہ کر کے بیٹھاہو وہی اولاد کل باپ کی آنکھوں کے سامنے جہنم کاایندھن بن رہی ہو .لہذاقرآن نے فرمایا:

( یاأیهاالّذین آمنوا قوا أنفسکم و أهلیکم نارا وقودها الناس و الحجارة ) ( ۷۴ )

ترجمہ:اے ایمان والو اپنے نفس اور اپنے اہل کو آگ سے بچاؤ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض اوقات منبر پر فرماتے: افسوس آخری زمانہ کے بچوں پر ان کے والدین کی وجہ سے. صحابہ کرام عرض کرتے : یا رسول اللہ کیا وہ مشرک ہوں گے ؟ فرماتے نہیں، ہونگے تو مسلمان لیکن انہیں ان کی دنیا کی فکر تو ہو گی مگر ان کی آخرت سے غافل ہوں گے( ۷۵ )

ماںباپ کو یہ فکر تو ہو گی کہ ہمارے بچے اچھی سے اچھی یونیورسٹی میں پڑھیں تاکہ ان کی دنیا سنور جائے لیکن ان کی آخرت سے بے پرواہ ہونگے ماں کی خواہش یہ ہو گی کہ میری بیٹی ڈاکٹر یا پروفیسر بن جائے لیکن اگر اسے اس کی فکر نہیں کہ اس نے کبھی حجاب کیا ہے یا نہیں ؟ اسے عورتوں کے ضروری مسائل سے آگاہی ہے یا نہیں ؟ ایسے ماں باپ اپنے ہاتھوں سے اپنی اولاد کے لئے جھنم خرید رہے اس لئے کہ اتنا پیسہ خرچ کر کے بیٹی کو کالج یا یونیورسٹی میں بھیجا جبکہ اسے نہ تو پردے سے آگا ہکیا اور نہ ہی نامحرم کے ساتھ بولنے یا اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے

تو یقینا ایسی بیٹی خود بھی جھنّم میں جائے گی اور اپنے والدین کو بھی جھنّم لے جائے گی

اگر بیٹی یا بیٹاامتحان میں ناکام ہو جائے تو ماں باپ کوپوری پوری رات نیند نہ آئے لیکن اگر صبح کی نماز نہ پڑھیں تو کوئی فکر نہیں

عزیزان گرامی!ضروری احکام کا سیکھنا سب پر واجب ہے. اے میرے عزیز دوستو اور اے میری ماں بہنو! یاد رکھ لو کہ ایک توضیح المسا ئل جو مجتھد کی ساٹھ یا ستر سال کی زحمت کا نتیجہ ہوتا ہے اسے گھر بیٹھے نہیں سمجھا جا سکتا .لہذاضروری ہے کہ کسی سے پوچھیں ، مجلس میں جائیں ، درس اخلاق میں جائیں علماء کی محفل سے فائدہ اٹھائیں اور یہ بھی یاد رکھ لیں اگر اپنی اولاد کو علماء سے دور رکھو گے اللہ کے رسول فرما رہے کہ ایسی تین بیماریوں میں مبتلا ہو گے جن کے درد کا علاج ممکن نہ ہو گا فرمایا:

سیأتی زمان علٰی امّتی یفرّون من العلماء کما یفرّ الغنم من الذّئب واذاکان کذٰلک سلّط الله علیهم من لا رحم له ولا علم له ولا حلم له و ترفع البرکة من أموالهم و یخرجون من الدّنیا بلا ایمان ( ۷۶ )

میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ علماء سے اسی طرح بھاگیں گے جیسے بھیڑ بھیڑئے سے بھاگتی ہے اور جب ایسی حالت ہوگی تو خدا وند متعال ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کر دے گا جن کے دل میں نہ تو ان کے بارے میں رحم ہوگا ، نہ علم ہوگا ، نہ صبر و بردباری ہوگی اور پھر ان کے اموال سے برکت اٹھا لی جائے گی. اور وہ ایسی حالت میں اس دنیا سے جائیں گے کہ ان کے دل میں ایمان کا ذرہ نہ ہوگا

آئمہ علیھم السلام کے اصحاب کی سیرت دیکھیں .کیا ہم ان سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں ؟ کیا ہم روایات کو بہتر سمجھتے ہیں یا وہ ؟ یقینا وہ ہم سے بہتر تھے لیکن اس کے با وجود اپنے شک کو دور کرنے کے لئے کیا کیا کرتے ؟ ہمیں بھی ویسا ہی کرنا چاہئے

امام صادق علیہ السلام ، امام رضا علیہ السلام اور امام ہادی علیہ السلام کے صحابہ میں بعض ایسے بھی تھے جو اپنے امام زمانہ کے سامنے اپنا عقیدہ پیش کرتے. جن میں سے ایک شہزادہ عبدالعظیم حسنی ہیں جن کا مقام اتنابلند کہ اگر کوئی ان کی زیارت کرلے تو اسے زیارت امام حسین علیہ السلام کا ثواب مل جائے گا ان کا روضہ تہران میں ہے یہ امام ہادی علیہ السلام کے نمائندہ بھی ہیں لیکن پھر بھی اطمینان قلب کی خاطر امام زمانہ کے پاس آتے ہیں اور آکر عرض کرتے ہیں: یابن رسول اللہ میں عقیدہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کہا : میں خدا کو اس کی صفات کے ساتھ مانتا ہوں ، پیغمبر کی نبوت اور آپ کی امامت پر ایمان رکھتا ہوں ، قیامت کو مانتا ہوں خلاصہ ایک ایک عقیدہ بیاں کیا. امام ہادی علیہ السلام نے اس کا عقیدہ سننے کے بعد فرمایا :

هذا دینی و دین آبائی

یہی میرا اور میرے آباؤ و اجداد کا دین ہے

یہ ہے شک اور جھالت کو دور کرنے کا راستہ کہ انسان کسی عالم کے سامنے اپنا عقیدہ پیش کرے اور یوں اپنی اصلاح کرے اور اگر ایسا نہیں کرتا تو آپ سن چکے کہ خدا وند متعال اسے تین طرح کے عذاب میں مبتلا کردے گا خدا ہم سب کو علماء کی صحبت اور ان سے اپنے اپنے عقیدوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین