دسواں درس
جہالت کا دین پر اثر (٣)
قال المهدیّ علیه السلام : آذانا جهلاء الشّیعة و حمقائهم ومن دینه جناح البعوضة أرجح منه.
عزیزان گرامی ! ہماری گفتگو جھالت کی اقسام کے بارے میں تھی گذشتہ دو درسوں میں جھل کی پہلی اور دوسری قسم کو بیان کیا گیاکہ جھل کی پہلی قسم ،جھل بسیط ہے جس کا معنی یہ ہے کہ انسان ایک چیز کے بارے میں جاھل ہے لیکن اپنی جھالت کے بارے میں علم رکھتا ہے دوسری قسم جھل تردید ہے کہ انسان اپنے عقیدہ کے بارے میں ہمیشہ شک وتردید کا شکار رہے اورجھل کی جس قسم کے بارے میں گفتگو ہو گی وہ جھل مرکب ہے جھل کی یہ قسم پہلی دوقسموں سے زیادہ خطرناک ہے اس قسم کو جھل مرکب کا نام دیا گیا ہے جس کی تعریف یہ کہ انسان ایک چیز کا علم نہیں رکھتا لیکن اپنے کو اس کا عالم سمجھتا ہے سب سے گنہگار ہے مگر اپنے کو سب سے مقدس مآب خیال کرتا ہے.گھر والے اس کی بد اخلاقی سے تنگ ہیں لیکن وہ اپنے آپ کو سب سے خوش اخلاق تصور کرتا ہے سب سے فاسق ترین شخص ہے مگر خود کو سب سے بڑا مومن سمجھتا ہے جھالت کی یہ قسم اس قدر خطرناک ہے کہ قرآن فرماتا ہے: اگر یہ بری صفت کسی کے اندرراسخ ہوجائے تو ایسا شخص روز قیامت خداسے بھی جھگڑے گا اورقسمیں کھائے گاجب اسکا سیاہ اعمال نامہ اس کے سامنے پیش کیا جائے گا اور کہے گا:اے خدایا! میں تو ایک نیک انسان تھا یہ مجھ پر الزام لگایا جارہا ہے قرآن نے اسے یوں بیان فرمایا :
(
یوم یبعثهم الله جمیعا فیحلفون له کما یحلفون لکم و یحسبون أنّهم علٰی شیء ألا انّهم هم الکاذبون
)
ترجمہ: جس دن خدا ان سب کو دوبارہ زندہ کرے گا اور یہ اس سے بھی ایسی ہی قسمیں کھائیں گے جیسی تم سے کھاتے ہیں اور ان کا خیال ہو گا کہ ان کے پاس کوئی بات ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹے ہیں.
جسطرح لوگوں کے سامنے قسمیں کھایا کرتے کہ ہماچھے ہیں اسی طرح خدا کے سامنے بھی جھوٹی قسمیں کھائیں گے.قرآن فرماتا ہے کہ عجیب قسم کے جھوٹے ہیں اور جھوٹ میں اس حدّ تک آگے نکل چکے کہ روز قیامت خداکے سامنے بھی جھوٹ بولنے میں ان کو کوئی پریشانی نہیں ہورہی آج آپ اپنے منبروں کی حالت دیکھ لیں کہ بعض پڑھنے والے اس قدر واضح جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں کہ عام انسان بھی جان جاتا ہے لیکن وہ اس قدر بااعتمادی کے ساتھ بول رہے ہوں گے کہ جیسے کسی کو ان کے اس جھوٹ کا علم ہی نہیں ہوا اور پھر نہ تو یہ لوگ امام حسین علیہ السلام پر رحم کھاتے ہیں اور نہ خوف خدا کا ڈر ہوتا ہے.
پڑھے لکھے افراد میں بھی ایسوں کی کمی نہیں ہے .انہیں لوگوں کے بارے میںقرآن فرما رہا کہ خدا کے سامنے بھی اکڑ جائیں گے اور کہیں گے خدایا ! تو ہی اشتباہ کررہا ہے یا تیرے ملائکہ نے اشتباہ کیا ہے ہم تو انتہائی نیک لوگ ہیں
قرآن کریم ان افراد کو پست ترین افراد کہہ رہا اورانہیں سب سے زیادہ خسارہ پانے والا قرار دے رہا :
(
قل هل ننبّئکم بالأخسرین أعمالا الّذین ضلّ سعیهم فی الحیوة الدّنیا وهم یحسبون أنّهم یحسنون صنعا.
)
ترجمہ:پیغمبر کیا ہم آپ کو ان کے بارے میں اطلاع دیں جواپنے اعمال میں بد ترین خسارہ میں ہیں .یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش زندگانی دنیا میں بہک گئی ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں
مسجد میں کبھی گیا نہیں ، مجلس کبھی سنی نہیں ،جب اس کہا جاتا ہے کہ درس اخلاق میں شرکت کیا کرتو کہتا ہے میں ان مولویوں سے زیادہ جانتا ہوں.ایک عورت گھر میں انتہائی بد اخلاق ہے لیکن جب کوئی اسے کہتا ہے کہ تو بد اخلاق ہے تو کہتی ہے میرے جیسا کوئی بااخلاق ہے ہی نہیں تم اشتباہ کر رہے ہو ماں باپ سب نصیحت کررہے لیکن کسی کی بات قبول کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ وہی اپنا جھل مرکب دوسروں پر مسلط کرنا چاہ رہی
امام صادق علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے اسے آپکے سامنے نقل کررہا ہوں تا کہ جھل مرکب کامعنی تمھارے لئے مزید واضح ہو جائے اور یہ بھی معلوم ہو جائے کہ جھل مرکب انسان کو بد بختی کی کس حدّ تک پہنچادیتا ہے .آپ کے چھٹے امام علیہ السلام فرماتے ہیں :
ایک شخص لوگوں کو درمیان بہت شہرت رکھتا تھالوگ اسے مستجاب الدعوات سمجھتے.اس قدر معروف تھا کہ میں سوچااس سے جا کر ملوں .امام علیہ السلام فرماتے ہیں ایک دن کوچے میں کھڑا تھا اور اسکے ارد گرد لوگوں کی بھیڑ تھی میرے ساتھ والے شخص نے بتایا : یابن رسول اللہ ! یہی وہ شخص ہے جس سے آپ ملنا چاہ رہے تھے امام علیہ السلام فرماتے ہیں : میں آگے بڑھا لیکن اس کی نگاہ جیسے ہی مجھ پر پڑھی لوگوں کو وہیں پہ چھوڑ کر نکل گیا ہم بھی اس کے پیچھے پیچھے چلے تاکہ خلوت میں اس سے بات کر سکیں.
امام علیہ السلام فرماتے ہیں : یہ شخص ایک تنور پرپہنچا وہاں سے دو روٹیاں چرائیں اور باہر نکل آیا ، اس کے بعد ایک دوکان میں داخل ہوا وہاں سے دو انار چرائے اور باہر نکل آیا وہاں سے سیدھا ایک خرابہ میں داخل ہواوہ روٹیاںاور انار وہاں( چار آدمیوں کو )
صدقہ دیا اور اب جیسے ہی باہر آیا تو میں نے اسے روک کر پوچھا کہ یہ کیسا عمل تھا جو تو نے انجام دیا ، کہنے لگا : میں نے کیا کیا ہے ! میں نے کہا : میں تمھاری تمام تر حرکات کو دیکھ رہا تھا کہنے لگا : تو کون ہے ؟ میں نے کہا : میں جعفر بن محمد ہوں .جیسے اس شخص نے سنا تو کہنے لگا : تو فرزند پیغمبر ہے اور قرآن نہیں جانتا ، قرآن کہہ رہا ہے :
(
من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها و من جاء بالسیئة فلا یجزٰی الاّ مثلها
)
ترجمہ: جو شخص بھی نیکی کرے گا اسے دس گنا اجر ملے گا اور جو برائی کرے گا اسے اتنی ہی سزا ملے گی
میں نے کہا : اس آیت کا آپ کے اس عمل سے کیاتعلق ہے ؟ کہنے لگا : میں نے دو انار اور دو روٹیاں اٹھائیں جن کے بدلے میں مجھے چار گناہ ملے جبکہ انہیں صدقہ کرنے پر مجھے چالیس نیکیاں مل گیئں اب اگر چالیس میں سے چار کو کم کر دیا جائے تو پھر بھی میرے نامہ عمل میں چھتیس نیکیاں تو آگئیں اور یہ کتنا مفید معاملہ ہے .! میں نے کہا :ثکلتک أمّک
تیری ما ں تجھ پر گریہ کرے تو نے تو ایک نیکی بھی نہ پائی بلکہ آٹھ گناہ تمہارے نامہ اعمال میں لکھ دئیے گئے چار چوری کرنے کے اور چار مالک کی اجازت کے بغیر ان چیزوں کو دوسروں کو دینے کے اور پھر فرمایا : دیکھا جھل مرکب انسان کے سا تھ کیا کرتا ہے
ممکن ہے آپ اس روایت سے تعجب کریں لیکن کیا ہمارے پاس ایسے افراد کی کمی ہے جو کم تولتے ہیں مہنگا بیچتے ہیں اور سال سال سامان کو سٹور کئے رکھتے ہیں تاکہ جب مہنگا ہو تب بیچیں لوگوں کا خون چوستے ہیں اور سال میں ایک آدھی مجلس کروا دی اور سمجھ لیا کہ ہماری بخشش ہو گئی ، ہم نے تو بہت بڑا کام کر دکھایا ہم سے بڑا تو کوئی مومن ہے ہی نہیں کیا فرق ہے اس میں اور اس چوری کرنے والے میں اس نے چوری کی راہ خدا میں صدقہ کردیا ،اس نے لوگوں کاخون چوسا ، غریبوں کا مال کھایا اور امام حسین کی مجلس کروا دی .!
ایک خاتون ساری رات عبادت الھی میں مشغول ہے کبھی دعائے توسل پڑھ رہی تو کبھی زیارت عاشورہ، پوری رات گریہ وبکاء میں گذار دی لیکن شوھر اس بیوی سے تنگ ہے اس کا حق کھا رہی اس عورت اور اس چورمیں، اس نے بھی دوسروں کا حق کھایا یہ بھی شوہر کا حق کھا رہی
اسی طرح ایک شخص صدقات و خیرات کررہا مگرگھر والے اچھا کھانے کو اچھا پہننے کو ترس رہے ، اسے اتنا بھی معلوم نہیں :
چراغی کہ بہ خانہ روا است بہ مسجد حرام است
اور اس سے بھی بڑھ کر جھالت تو یہ ہے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جو نہ تو خمس دیتے ہیں اور نہ زکات مگر عشروں کے عشرے کروا رہے جبکہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : قرآن کی یہ آیت مجیدہ ایسے ہی افراد کے بارے میں ہے :
(
انّ الّذین یأکلون أموال الیتامٰی ظلما انّما یأکلون فی بطونهم نارا و سیصلون سعیرا
)
ترجمہ:جو لوگ ظالمانہ انداز سے یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اورعنقریب واصل جھنّم ہوں گے.
ایسا شخص جو خمس ادا نہ کرے اور مجالس وغیرہ یا دوسرے نیکی کے کاموں پر پیسہ خرچ کر رہا ہے یہ بھی ویسا ہی چور ہے قیامت کے دن اسے جہنّم کی آگ کا ایندھن بنا دیا جائے گا