یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174868 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

آیت ۴۸:

(۴۸) ثُمَّ یَأْتِی مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ سَبْعٌ شِدَادٌ یَأْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ

'' پھر اسکے بعد بڑے سخت سات برس آئیں گے جو کچھ تم لوگوں نے ان سات سالوں کے واسطے پہلے سے جمع کررکھا ہوگا لوگ سب کھا جائیں گے مگر قدر قلیل جو تم (بیج کے طور پر)بچا رکھو گے ''۔

آیت ۴۹:

(۴۹)ثُمَّ یَأْتِی مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ عَامٌ فِیهِ یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیهِ یَعْصِرُونَ

''(بس) پھر اس کے بعد ایک سال آئے گا جس میں لوگوں کے لئے بارش ہوگی (اور خشک سالی کی مشکل حل ہوجائےگی) اور لوگ اس سال (پھلوں اور روغن دار دانوں کی فراوانی کی وجہ سے ان کا رس) نچوڑیں گے''۔

نکات:

'' یُغَاثُ النَّاسُ '' یاتو''غوث'' سے ہے یعنی لوگوں کو خداوندعالم کی طرف سے مدد حاصل ہوگی اور ۱۴ سالہ مشکلات حل ہوجائیں گی یا''غیث'' سے ہے یعنی بارش ہوگی اور تلخ حوادث ختم ہوجائیں گے۔(۱)

--------------

( ۱ )المیزان فی تفسیر القرآن.

۱۰۱

حضرت یوسف (ع)نے سات موٹی گائیں اور سات دبلی پتلی گائیوں اور سبز و خشک بالیوں کی تعبیر یہ فرمائی کہ ۱۴ چودہ سال نعمت اور خشک سالی کے ہوں گے لیکن پندرہواں سال جو باران رحمت اور نعمت کی فراوانی کا ہوگا اس کا تذکرہ بادشاہ کے خواب میں نہیں ہے درحقیقت یہ غیب کی خبر تھی جسے حضرت یوسف(ع) نے بیان فرمایا تاکہ آپ (ع)اعلان نبوت کے لئے راہ ہموار کرسکیں(ثُمَّ یَأْتِی مِن بَعد ذَلِکَ عام...)

سماج میں ایک کارآمد اور کامیاب منتظم اور انتظامیہ کےلئے درج ذیل شرائط کا حامل ہونا ضروری ہے۔

۱۔ لوگوں کا اعتماد۔(انا لنراک من المحسنین)

۲۔ صداقت۔(یوسف ایها الصدیق)

۳۔ علم و دانائی ۔(علّمنی ربّی)

۴۔ صحیح پیشین گوئی۔(فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

۵۔ قوم کی اطاعت۔کیونکہ لوگوں نے حضرت یوسف کی بیان کردہ تجاویزپر عمل کیا۔

۱۰۲

پیام:

۱۔ مستقبل کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے بچت کرنا اور منظم طریقے سے خرچ کرنا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔( سَبْعٌ شِدَادٌ یَأْکُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ...)

۲۔ خرچ کرتے وقت تھوڑا سا بیج اور سرمایہ ذخیرہ کرلیں( إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ) (۱)

۳۔ خواب نہ صرف آئندہ کے حوادث کو بتا سکتے ہیں بلکہ انسان کے لئے مشکلات سے رہائی اور پھر خوشحالی کا ذریعہ اور اشارہ بھی ہوسکتے ہیں( یُغَاثُ النَّاسُ وَفِیهِ یَعْصِرُونَ )

--------------

( ۱ )مِمَّا تُحْصِنُون یعنی محفوظ جگہ پر ذخیرہ کرلیں.

۱۰۳

آیت ۵۰:

(۵۰) وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِهِ فَلَمَّا جَاءَ هُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَ اللاَّتِی قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ إِنَّ رَبِّی بِکَیْدِهِنَّ عَلِیمٌ

''(یہ تعبیر سنتے ہی)بادشاہ نے حکم دیاکہ یوسف کو میرے حضور میں لے اور پھر جب (شاہی)چوبدار (یہ حکم لے کر)یوسف کے پاس آیا تو یوسف نے کہا تم اپنے بادشاہ کے پا س لوٹ ج اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا مسئلہ کیا تھا جنہوں نے (مجھے دیکھ کر) اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے ؟ آیا میں ان کا طالب تھا یا وہ (میری) ،اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ میرا پروردگار ہی ان کے مکروفریب سے خوب واقف ہے''۔

نکات:

جناب یوسف (ع)نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر اور سنجیدہ و منظم پروگرام، بغیر کسی شرط و قید کے بیان کرکے ثابت کردیا کہ وہ کوئی معمولی قیدی نہیں ہیں بلکہ ایک غیر معمولی اور دانا انسان ہیں ۔

جب بادشاہ کا فرستادہ حضرت یوسف (ع)کی خدمت میں آیا تو آپ (ع)نے آزادی کی خبر کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ سابقہ فائل پر دوبارہ تحقیق کی درخواست کی، اس لئے کہ آپ (ع) نہیں چاہتے تھے کہ بادشاہ کا عفو آپ (ع)کے شامل حال ہو بلکہ یہ چاہتے تھے کہ آپ (ع)کی بے گناہی اور پاکدامنی ثابت ہوجائے تاکہ بادشاہ کو سمجھا سکیں کہ تمہاری حکومت میں کس قدر فساد اور ناانصافی کارفرما ہے۔

۱۰۴

شاید حضرت یوسف (ع)نے عزیز مصر کے احترام میں اس کی بیوی کا نام نہیں لیا بلکہ اس مہمان نوازی والے واقعہ کی طرف اشارہ کیا۔(قطعهن ایدهن)

حدیث میں موجود ہے کہ پیغمبراسلام (ص)نے فرمایا: مجھے حضرت یوسف (ع)کے صبر پر تعجب ہے اس لئے کہ جب عزیز مصر نے خواب کی تعبیر چاہی تو نہیں فرمایاکہ جب تک قید خانہ سے آزاد نہیں ہوجاتا خواب کی تعبیر بیان نہیں کروں گا ۔لیکن جب حضرت یوسف (ع)کو آزاد کرنا چاہا تو آپ (ع)قیدخانہ سے اس وقت تک باہر تشریف نہ لائے جب تک تہمت کا بالکل خاتمہ نہ ہوگیا۔(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر اطیب البیان.

۱۰۵

پیام:

۱۔ وہ متفکر ذہن جن کی ملک کو ضرورت ہو اگر وہ کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تو حکومت کی مدد سے انہیں آزاد کردینا چاہیئے۔(قَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِه...)

۲۔ ہر طرح کی آزادی قابل اہمیت نہیں ہے بلکہ بے گناہی کا ثابت کرنا آزادی سے اہم ہے۔(ارْجِعْ إِلَی رَبِّکَ فَاسْأَلْهُ)

۳۔ جو قیدی آزادی کے بجائے فائل کی تحقیق کا مشورہ دیتا ہے وہ یقینا بے گناہ ہے۔(فَاسْأَلْهُ )

۴۔حضرت یوسف (ع)نے پہلے لوگوں کے ذہن کو پاک کیا پھر مسلیت قبول فرمائی( مَا بَالُ النِّسْوَ)

۵۔ آبرو اور عزت کا دفاع واجب ہے۔( مَا بَالُ النِّسْوَ )

۶۔ حضرت یوسف (ع)کو قید خانہ میں ڈالنے کی سازش میں تمام عورتیں شریک تھیں۔(کَیْدهنّ)

۷۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے پیغام میں بادشاہ کو یہ بھی بتا دیا کہ آزادی کے بعد آپ (ع) بادشاہ کو اپنا مالک نہیں سمجھیں گے اور نہ ہی وہ جناب یوسف (ع)کو اپنا غلام سمجھنے کا اختیار رکھتا ہے۔ بلکہ خدا کو اپنا مالک سمجھتے ہیں( إِنَّ رَبِّی بِکَیْدِهِنَّ عَلِیمٌ )

۱۰۶

آیت ۵۱:

(۵۱) قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ إِذْ رَاوَدتُّنَّ یُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوئقَالَتِ امْرَ الْعَزِیزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدتُّهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِینَ.

''چنانچہ بادشاہ نے ان عورتوں (کو طلب کیا اور)ان سے پوچھا کہ جس وقت تم لوگوں نے یوسف سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خود ان سے تمنا کی تھی تو تمہیں کیا معاملہ پیش آیا تھا وہ سب کی سب عرض کرنے لگیں پاکیزہ ہے اللہ ہم نے یوسف میں کسی طرح کی کوئی برائی نہیں دیکھی (تب)عزیز (مصر)کی بیوی (زلیخا) بول اٹھی اب تو حق سب پر ظاہر ہو ہی گیا ہے (اصل بات یہ ہے کہ) میں نے خود اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی تمنا کی تھی اور بے شک وہ یقینا سچوں میں سے ہے ''۔

نکات:

کسی اہم کام کے سلسلے میں دعوت دینے کو ''خطب '' کہتے ہیں۔

''خطیب'' اس شخص کو کہتے ہیں جولوگوں کو کسی اہم اور بڑے ہدف و مقصد کی دعوت دے''حصص'' یعنی حق کا باطل سے جدا ہوکرآشکار ہوجانا۔(۱)

اس داستان میں خداوندعالم کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ جلوہ نما ہوئی ہے کہ تقوی الٰہی اور پرہیز گاری کی وجہ سے مشکل کام آسان ہوجاتے ہیں(۲)

--------------

( ۱ ) تفسیر اطیب البیان.

( ۲ )(من یتق الله یجعل له مخرجا و یرزقه من حیث لایحتسب) اور جو تقوی الٰہی اختیار کرتا ہے اللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنادیتاہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ سوچ بھی نہ سکتا ہو۔ (سورہ طلاق آیت ۲ ،و ۳ )

۱۰۷

پیام:

۱۔ جب کوئی مسئلہ بہت سنگین ہوجائے اور کسی سے بھی حل نہ ہو پارہا ہو تو سربراہ مملکت کو اس میں مداخلت کرنی چاہیئے اور تحقیق کے بعد مشکل کو حل کرنا چاہیئے ۔( قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ ...)

۲۔متہم کو عدالت میں حاضر کرنا چاہیئے تاکہ وہ اپنا دفاع کرسکے ۔( قَالَ مَا خَطْبُکُنَّ ...) یہاں تک کہ زلیخا بھی عدالت میں حاضر تھی( قَالَتِ امْرَ الْعَزِیز)

۳۔ پریشانی کے ساتھ آسانی اور تلخی کے ساتھ شیرینی ہے کیونکہ جہاں (اراد باھلک سوئ)ہے وہاں اسی زبان پر( مَا عَلِمْنَا عَلَیْهِ مِنْ سُوئٍ) بھی جاری ہے۔

۴۔ حق ہمیشہ کے لئے مخفی نہیں رہ سکتا ۔(الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ )

۵۔ ضمیر کبھی نہ کبھی بیدار ہوکر حقیقت کا اعتراف کرتا ہے۔(أَنَا رَاوَدتُّهُ )

معاشرے اور ماحول کا دب ضمیر فروشوں کو حق کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیتا ہے (عزیز مصر کی بیوی نے جب دیکھا کہ تمام عورتوں نے یوسف (ع)کی پاک دامنی کا اقرار کر لیا ہے تو اس نے بھی حقیقت کا اعتراف کرلیا)

۱۰۸

آیت ۵۲:

(۵۲) ذَلِکَ لِیَعْلَمَ أَنِّی لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَأَنَّ اﷲَ لاَیَهْدِی کَیْدَ الْخَائِنِینَ

''(یوسف نے کہا)یہ قصہ میں نے اس لئے چھیڑا تاکہ(تمہارے )بادشاہ کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں اس کی (امانت میں)خیانت نہیں کی اور خدا خیانت کاروں کے مکر و فریب کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کرتا''۔

نکات:

یہ کلام حضرت یوسف علیہ السلام کی گفتگو ہے یا عزیز مصر کی بیوی کے کلام کا حصہ ہے؟اس سلسلے میں مفسرین کے دو نظرئےے ہیں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کا کلام ہے(۱) جب کہ بعض مفسرین اسے عزیز مصر کی بیوی کا بیان قراردیتے ہیں(۲) لیکن آیت کے مضمون کو مد نظر رکھتے ہوئے پہلا نظریہ صحیح ہے لہٰذا یہ جملہ عزیز مصر

--------------

( ۱ )تفسیر مجمع البیان، تفسیر المیزان

( ۲ )تفسیر نمونہ.

۱۰۹

کی بیوی کا کلام نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک بے گناہ کو سالہا سال قید خانے میں قیدی بنا کر رکھنے سے بڑی خیانت اور کیا ہوسکتی ہے ؟

یوسف علیہ السلام اپنے اس جملے سے قید خانہ سے دیر سے آزاد ہونے کی وجہ بیان فرما رہے ہیں : دوبارہ ان کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے اور وہ اپنی حقیقی حیثیت و فضیلت پرفائز ہوئے ہیں۔

پیام:

۱۔ کریم انسان انتقام لینے کے درپے نہیں ہوتا بلکہ حیثیت اور کشف حقیقت کی تلاش میں رہتا ہے( ذَلِکَ لِیَعْلَمَ )

۲۔ حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان تنہائی میں خیانت نہ کرے( لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَیْبِ)

۳۔ دوسروں کی ناموس پر بُری نگاہ ڈالنا گویا اس شخص کےساتھ خیانت کرنا ہے(لَمْ أَخُنْهُ)

۴۔ خیانت کار اپنے کام یا برے کام کی توجیہ بیان کرنے کےلئے سازش کرتا ہے(کَیْدَ الْخَائِنِینَ)

۵۔ خیانت کار ،نہ صرف اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا بلکہ اس کی عاقبت بھی بخیر نہیں ہوتی ،حقیقت میں اگر ہم پاک ہوں( لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَیْبِ) تو خداوندعالم اجازت نہیں دیتا کہ ناپاک افراد ہماری آبرو برباد کرسکیں ۔(انَّ اﷲَ لاَیَهْدِی کَیْدَ الْخَائِنِینَ)

۶۔ حضرت یوسف علیہ السلام اس کوشش میں تھے کہ بادشاہ کو آگاہ کردیں کہ تمام حوادث اور واقعات میں ارادہئ خداوندی اور سنت الٰہی کارفرما ہوتی ہے(انَّ اﷲَ لاَیَهْدِی ...)

۱۱۰

آیت ۵۳:

(۵۳) وَمَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّی إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَّحِیمٌ

''اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا کیونکہ (انسانی) نفس برائی پر اکساتا ہے مگریہ کہ میرا پروردگار رحم کرے بے شک میرا پروردگار بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

قرآن مجید میں نفس کی مختلف حالتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

۱۔ نفس امارہ: یہ نفس انسان کو برائی کی طرف لے جاتا ہے اگر عقل و ایمان کے ذریعہ لگام نہ لگائی جائے تو انسان یک بارگی ذلت و ہلاکت میں گر جائے گا ۔

۲۔ نفس لوّامہ : یہ وہ نفسانی حالت ہے جس کی بنیاد پر برائی کرنے والا انسان خود اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے ، تو بہ اورعذر خواہی کی طرف قدم بڑھاتا ہے، سورہ قیامت میں اس نفس کا تذکرہ ہے۔

۳۔ نفس مطمئنہ: یہ وہ نفسانی حالت ہے کہ جو انبیاء و اولیائے الٰہی اور ان کے حقیقی تریبت یافتہ افراد کو حاصل ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ ہر وسوسے اور حادثے سے کامیاب و کامران پلٹتے ہیں ایسے افراد فقط خدا سے لو لگائے رہتے ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام اس امتحان میں اپنی سربلندی اور عدم خیانت کو خداوندعالم کے لطف کرم کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں اور ایک انسان ہونے کی بنیاد پر جس میں انسانی خصلت موجود ہے خود کو اس سے الگ نہیں سمجھ رہے ہیں۔

متعدد روایات میں نفس کے خطرات اور خود کو بری الذمہ قرار دینے نیز نفس سے راضی ہونے کا تذکرہ موجود ہے اپنے نفس سے راضی ہونے کو روایات میں عقل کا دیوانہ پن اور شیطان کا سب سے بڑا پھندہ قراردیا گیا ہے(۱)

--------------

( ۱ )غررالحکم.

۱۱۱

پیام:

۱۔ کبھی بھی اپنے آپ کو پاکباز اور خواہشات نفسانی سے محفوظ قرار نہیں دینا چاہیئے ۔(وَمَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی )

۲۔ شرط کمال یہ ہے کہ اگرچہ ساری دنیا اسے کامل سمجھ رہی ہو لیکن وہ شخص کبھی خود کو کامل نہ سمجھے ۔ حضرت یوسف (ع)کی داستان میں برادران یوسف ، عزیز مصر کی بیوی ، گواہ ، بادشاہ ، شیطان ، قیدی، سب کے سب آپکی پاکدامنی کی گواہی دے رہے ہیں لیکن آپ (ع)خود فرما رہے تھے کہ۔(مَا أُبَرِّیئُ نَفْسِی )

۳۔ ہوا و ہوس اور نفس کا خطرہ بہت ہی خطرناک ہے اسے کھیل نہیں سمجھنا چاہیئے۔( إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ) (۱)

۴۔ انبیاء (ع)، معصوم ہونے کے باوجود انسانی فطری غرائز کے حامل ہیں۔( إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ)

۵۔ نفس اپنی خواہشات کی باربار تکرار کرتا ہے تاکہ تمہیں مصیبت میں گرفتار کردے۔(لَأَمَّارَ )

۶۔ اگر خداوندعالم کا لطف و کرم نہ ہو تو فطرت انسانی منفی امور کی طرف زیادہ میلان رکھتی ہے ۔(۲) ( لَأَمَّارَ بِالسُّوئِ)

۷۔ فقط رحمت خداوندی ہی سرمایہ نجات ہے اگر انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ قعر ضلالت و گمراہی میں گر پڑے گا۔( إِلاَّ مَا رَحِم)

۸۔جناب یوسف (ع)خداوندعالم کی خاص تربیت کے زیر سایہ تھے لہٰذا کلمہ(رَبِّی) کی تکرار ہوئی ہے۔

۹۔ مربی کو رحمت اور مہربانی سے کام لینا چاہیئے ۔( إِنَّ رَبِّی غَفُورٌ رَحِیمٌ )

۱۰۔ عفو و درگزر رحمت الٰہی تک پہنچنے کا مقدمہ ہے پہلے(غَفُور)فرمایا ہے بعد میں(رَحِیم) کا ذکر ہے۔

۱۱۔ تمام خطرات کے باوجود رحمت الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔( غَفُورٌ رَحِیمٌ )

--------------

( ۱ ) آیہ شریفہ میں چار طریقوں سے تاکید کی گئی ہے ۔إِنّ ۔ لام تاکید ۔ صیغہ مبالغہ۔ جملہ اسمیہ.

( ۲ )امام سجاد علیہ السلام نے مناجات شاکین میں نفس کے لئے ۱۵ پندرہ خطرے ذکر کئےے ہیں جن کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے.

۱۱۲

آیت ۵۴:

(۵۴) وَقَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی فَلَمَّا کَلَّمَهُ قَالَ إِنَّکَ الْیَوْمَ لَدَیْنَامَکِینٌ أَمِینٌ

''اور بادشاہ نے کہا یوسف کو میرے پاس لے ، میں ان کو خاص طور سے (بطور مشاور) اپنے لئے رکھوں گا اس نے یوسف سے باتیں کیں تو (یوسف کی اعلی قابلیت ثابت ہوئی اور)اس نے کہا بے شک آج سے آپ ہمارے بااختیار امانتدار ہیں''۔

نکات:

کتاب ''لسان العرب'' میں ہے :جب بھی انسان کسی کو اپنا محرمِ راز اور اسے اپنے امور میں دخیل قرار دیتا ہے تو ایسی صورت میں(استخلصه) کہا جاتا ہے ۔

جناب یوسف (ع)نے قید خانہ سے نکلتے وقت زندان کے دروازے پر چند جملے لکھے تھے جن میں آپ(ع) نے قید خانہ کی تصویر کشی کی ہے۔هذا قبور الاحیاء ،بیت الاحزان، تجرب الاصدقاء و شماته الاعداء ۔(۱) زندان؛ زندہ لوگوں کا قبرستان ، غم و الم

--------------

( ۱ )شماتت ،کسی کی تباہی و بربادی پر خوش ہونے کو کہتے ہیں.

۱۱۳

کا گھر، دوستوں کو پرکھنے کی جگہ اور دشمنوں کے لئے خندہ زنی کا مقام ہے(۱)

بادشاہ کو جب حضرت یوسف (ع) کی امانت و صداقت پر یقین ہوجاتا ہے اور آپ(ع) میں شمہ برابر بھی خیانت نہیں پاتا تو آپ (ع)کو اپنے لئے چن لیتا ہے (غور کیجئے کہ) اگر خدا اپنے بندوں میں خیانت نہ پائے گا تو وہ کیا کرے گا!؟

یقینا ایسے افراد کو خدا اپنے لئے چن لے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں انبیاء (ع)کے لئے یہ جملے مذکور ہیں ۔

(و انا اخترتک فاستمع لما یوحی) (۲) ترجمہ: اور میں نے آپ (حضرت موسیٰ) کو منتخب کرلیا ہے لہٰذا جو وحی کی جارہی ہے اسے سنیں(واصطنعتک لنفسی)( ۳) ترجمہ: اور میں نے آپ (حضرت موسیٰ) کو اپنے لئے اختیار کیا ہے۔

بادشاہ نے کلمہ ئ''لدینا'' سے یہ اعلان کیا کہ یوسف (ع)ہماری حکومت میں قدرومنزلت کے حامل ہیں، نہ کہ فقط ہمارے دل میں ۔لہٰذا تمام عہدہ دار افراد پر ان کی اطاعت ضروری ہے ۔

چونکہ حضرت یوسف کے لئے حکومت تقدیر الٰہی میں تھی، لہٰذا خداوند عالم نے آپ (ع)کو چند امتحانات میں مبتلا کیا تاکہ آپ (ع)کو تجربہ حاصل ہوجائے بھائیوں کے مکر و فریب میں گرفتار کیا تاکہ صبرکریں ۔ آپ (ع)کو کنویں اور قید خانے میں ڈلوایا تاکہ کسی (بے گناہ) کو

--------------

( ۱ ) تفسیر مجمع البیان.

( ۲ )سورہ طہ آیت ۱۳

( ۳ )سورہ طہ آیت ۴۱

۱۱۴

کنویں اور قیدخانے میں نہ ڈالیں ۔

غلامی کی طرف کھینچا تاکہ غلاموں پر رحم کریں. زلیخا کے دام میں گرفتار کیا تاکہ جنسی مسائل کی اہمیت کو سمجھیں. بادشاہ کی مصاحبت میں رکھا تاکہ آپ (ع)کی تدبیر جلوہ نما ہو۔

پیام:

۱۔ اگر خدا چاہے تو کل کے قیدی کو آج کا بادشاہ بنا سکتا ہے ۔(قَالَ الْمَلِکُ ائْتُونِی بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی)

۲۔ سربراہ مملکت کے خاص مشیروں کو باتقوی، با تدبیر، قوم کی فلاح و بہبودی کے لئے صحیح پروگرام بنانے کی صلاحیت رکھنے والے ، اور امانت دار ہونا چاہیئے ۔(أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی... مَکِینٌ أَمِینٌ) حضرت یوسف (ع)میں یہ تمام صفات موجود تھیں۔

۳۔ جب تک انسان خاموش رہے اس وقت تک اس کے عیوب و کمالات مخفی رہتے ہیں ۔( فَلَمَّا کَلَّمَهُ قَالَ)

۴۔ انتخاب کرتے وقت حضوری گفتگو مفید ہے( فَلَمَّا کَلَّمَهُ)

۵۔ اگر کسی پر اطمینان حاصل ہوجائے تو اسے اختیارات دے دینا چاہئے۔(لَدَیْنَا مَکِینٌ أَمِینٌ)

۶۔ کافر و مشرک بھی معنوی کمالات سے لذت محسوس کرتے ہیں ''کمال''کو پسند کرنا ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے ۔(أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِی)

۷بااختیار اور امانت دار ہونا دونوں بیک وقت ضروری ہیں(مَکِینٌ أَمِینٌ ) کیونکہ اگر کوئی امین ہو لیکن بااختیار نہ ہو تو بہت سے امور کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا اور اگر بااختیار ہو اور امین نہ ہو تو بیت المال کو بے دریغ خرچ کردے گا(۱)

--------------

( ۱ )اسی بنا پر حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے ایک خط میں مصر کے گورنر مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : لوگوں کو پہچاننے اور کام کرنے والوں کا انتخاب کرنے کے بعد انہیں کافی مقدار میں حقوق دو۔(اسبغ علیهم الارزاق) ،نہج البلاغہ مکتوب نمبر ۵۳

۱۱۵

آیت ۵۵:

(۵۵) قَالَ اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ

''یوسف نے کہا (جب آپ نے میری قدر دانی کی ہے تو) مجھے ملکی خزانوں پر مقرر کیجئے کیونکہ میں (اسکا ) امانت دار خزانچی (اور اس کے حساب کتاب سے بھی)واقف ہوں''۔

نکات:

سوال: حضرت یوسف علیہ السلام نے عہدہ کیوں مانگا ؟ بزبان دیگر جناب یوسف علیہ السلام نے ریاست طلبی کیوں کی؟

جواب: چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر کے خواب سے لوگوں کے لئے خطرے کو محسوس کرلیا اور خود کو اس اقتصادی بحران سے نجات دلانے کے لائق سمجھ رہے

تھے لہٰذا اس نقصان سے بچانے کے لئے انہوں نے ایسے عہدے کو قبول کرنے کا اعلان کردیا ۔

۱۱۶

سوال: حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی تعریف و توصیف کیوں کی ؟ جبکہ قرآن کا فرمان ہے کہ اپنی تعریف و تمجید نہ کرو۔(۱)

جواب: حضرت یوسف علیہ السلام اپنی ستائش کرکے اپنی قابلیت اور استعداد کی یاد دہانی کروا رہے تھے کہ میں عہدہ کو قبول کرنے کی قابلیت و صلاحیت رکھتا ہوں جس کی بنیاد پر قحط اور خشک سالی سے نجات دلائی جاسکتی ہے یہ ستائش تفاخر اور غلط فائدہ اٹھانے کے لئے نہ تھی۔

سوال:حضرت یوسف علیہ السلام نے کافر حکومت کا کیوں ہاتھ بٹایا ؟ جبکہ خداوندعالم نے اس سے روکا ہے(۲)

جواب:حضرت یوسف علیہ السلام نے ظالم کی حمایت کرنے کے لئے اس عہدہ کو قبول نہیں فرمایا تھا بلکہ مخلوق خدا کو خشک سالی کی مصیبت سے نجات دلانے کے لئے ایسا قدم اٹھایا تھا حضرت یوسف (ع) نے ذرہ برابر بھی چاپلوسی نہیں کی ۔

تفسیر''فی ظلال القرآن'' کے بیان کے مطابق سیاستمدار افراد ایسے خطرات کے وقت قوم کو چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں لیکن حضرت یوسف (ع)پر ایسے وقت میں مخلوق

کی حفاظت لازم ہے۔

--------------

( ۱ )فلا تزکوا انفسکم سورہ نجم آیت ۳۲

( ۲ )لا ترکنوا الی الذین ظلموا... سورہ ہود آیت ۱۱۳

۱۱۷

علاوہ از این اگر ظالم حکومت کو سرنگوں کرنا اور اسکے نظام میں تغیر و تبدل لانا ممکن نہ ہو توجہاں تک ممکن ہو وہاں تک ظلم و انحرافات کا مقابلہ کرنا چاہیئے ۔اگرچہ کچھ امور مملکت کو قبول کرنا پڑے۔

تفسیر نمونہ میں ملتا ہے کہ ''قانونِ اہم و مہم کی رعایت'' عقل اور شرع میں ایک بنیادی چیز ہے ،مشرک حکومت کی حمایت کرنا جائز نہیں ہے لیکن ایک قوم کو قحط سے نجات دلانا ایک اہم کام ہے ۔ اس دلیل کی بنیاد پر ''تفسیرتبیان میں''ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے سیاسی عہدہ قبول نہیں کیا تاکہ ظالم کی مدد نہ ہوسکے اور نہ ہی کوئی دفاعی و نظامی ذمہ داری قبول فرمائی تاکہ کسی کا ناحق خون نہ بہنے پائے فقط اور فقط اقتصادی ذمہ داری کو قبول فرمایا ۔ وہ بھی اس لئے کہ خلق خدا قحط سے محفوظ رہ سکے ۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا جب ضرورت نے اس بات کا تقاضا کیا کہ یوسف (ع)مصر کے خزانوں کے سرپرست ہوں تو انہوں نے خود اس بات کا مشورہ دیا(۱) علی بن یقطین امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی بتائی ہوئی نصیحتوں کے بعد عباسی حکومت کے وزیر بنے تھے، اسی قسم کے افراد مظلوموں کے لئے پناہ گاہ ہوسکتے ہیں ۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :کفار عمل السلطان قضاء حوائج الاخوان۔یعنی حکومتی نظام میں کام کرنے کا کفارہ برادر مومن کی مدد کرناہے(۲)

--------------

( ۱ )تفسیر نورالثقلین.

( ۲ )وسائل الشیعہ ج ۱۲ ص ۱۳۹

۱۱۸

حضرت امام رضا علیہ السلام سے لوگوں نے پوچھا : آپ نے مامون کی ولی عہدی کیوں قبول کی ؟ آپ (ع)نے جواب دیا : یوسف (ع)باوجودیکہ پیامبر (ع)تھے لیکن مشرک کی حکومت میں چلے گئے میں تو وصی پیامبر(ص) ہوں ۔ میں ایسے شخص کی حکومت میں داخل ہوا ہوں جو مسلمان ہونے کا اظہار کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں مجھے عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے جبکہ یوسف (ع)نے حالات کی اہمیت کے پیش نظر بذات خود عہدہ کو قبول کیا تھا ۔(۱)

حضرت یوسف (ع) نے مقام و منزلت حاصل کرتے ہی فوراً اپنے والدین سے ملاقات کی خواہش نہیں کی بلکہ خزانے کی مسلیت کا تقاضا کیا کیونکہ والدین کے دیدار میں عاطفی پہلوتھے جب کہ لوگوں کو خشک سالی سے نجات دلانا ان کی اجتماعی ومعاشرتی رسالت اور اجتماعی ذمہ داریوں کا تقاضا تھا ۔

امام صادق علیہ السلام نے ایسے افراد کو خطاب کرتے ہوئے کہ جو زہد اختیار کرنے اور دنیا سے کنارہ کشی کا اظہار کررہے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے رہے تھے کہ اپنی زندگی کس مپرسی میں گزر بسر کرو ،فرمایا: مجھے ذرا بت کہ تم لوگ یوسف (ع) پیامبر کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے ہو جنہوں نے بادشاہ مصر سے خود فرمائش کی کہ(اجعلنی علی خزائن الارض) اسکے بعد حضرت یوسف (ع) کے امور یہاں تک پہنچ گئے کہ پوری مملکت اور اس کے اطراف یمن کی سرحدوں تک اپنے ماتحت لے لئے تھے اسکے باوجود مجھے کوئی شخص نہیں ملتا کہ کسی نے اس کام کو حضرت یوسف (ع)کے لئے معیوب شمار کیا ہو(۲)

--------------

( ۱ )وسائل الشیعہ ج ۱۲ ص ۱۳۶

( ۲ ) تفسیر نورالثقلین.

۱۱۹

ایک روایت میں امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے : حضرت یوسف (ع)نے پہلے سات سال گیہوں کو جمع اور ذخیرہ کیا ، دوسرے سات سال میں کہ جب خشک سالی شروع ہوگئی تو آہستہ آہستہ بہت دقت کے ساتھ اسے لوگوں کے حوالے کیا تاکہ وہ اپنے روز مرہ کے مصارف میں اسے خرچ کرسکیں اور بڑی ہی امانت داری اور دقت نظر کے ساتھ مملکت مصر کو بدبختی سے نجات دلائی ۔

حضرت یوسف (ع) نے سات سالہ قحط کے زمانے میں پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ آپ (ع)بھوکے افراد کو فراموش کردیں۔(۱)

تفسیر مجمع البیان اور تفسیر المیزان میں حضرت یوسف (ع) کی انداز حکمرانی کو اس طرح ذکر کیا گیا ہے :

جب خشک سالی شروع ہوئی تو حضرت یوسف (ع) نے پہلے سال گیہوں سونے چاندی کے بدلے ، دوسرے سال جواہر اور زیورات کے بدلے ،تیسرے سال چارپایوں کے بدلے ، چوتھے سال غلام کے بدلے ،پانچویں سال گھروں کے عوض میں ۔ چھٹے سال گندم کھیتیوں کے عوض میں اور ساتویں سال خود لوگوں کو غلام بنانے کے عوض میں گندم فروخت کی ۔ جب ساتواں سال ختم ہوگیا تو آپ(ع) نے بادشاہ مصر سے کہا :

تمام افراد اور ان کا تمام سرمایہ میرے پاس ہے لیکن خدا شاہد ہے اور تو بھی گواہ رہ کہ تمام لوگوں کو آزاد کرکے ان کے تمام اموال ان کو لوٹا دوں گا اور تمہارا محل ، تخت ،

--------------

( ۱ ) تفسیر مجمع البیان.

۱۲۰

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(1)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (2)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (3)

--------------

( 1 ) سورہ سجدہ آیت 18

( 2 )سورہ واقعہ آیت 10 ۔ 11

( 3 )سورہ انفال آیت 72

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (1)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (2) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (3)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

1۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

2۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 247

( 2 )سورہ مریم آیت 28

( 3 )سورہ نساء آیت 95

۱۲۲

3۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

4۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

5۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

6۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت 56:

(56) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت 57:

(57) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(1) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( 1 )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(1) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (2)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (3)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (4)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (5)

--------------

( 1 )تفسیر نور الثقلین.

( 2 )سورہ اعلیٰ آیت 17

( 3 )سورہ بقرہ آیت 184

( 4 )سورہ حج آیت 36

( 5 )سورہ اعراف آیت 26

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (1)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (2)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (3)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (4)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (5)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (6)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (7)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 216

( 2 )سورہ زمر آیت 34

( 3 )سورہ فرقان آیت 16

( 4 )سورہ زمر آیت 74

( 5 )سورہ زمر آیت 10

( 6 )سورہ واقعہ آیت 19

( 7 )سورہ بقرہ آیت 112

۱۲۶

پیام:

1۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

2۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

3۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

4۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

5۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

6۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

7۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

8۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

9۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

10۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

11۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

12۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

13۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

14۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

15۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

16۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت 58:

(58) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً 20 بیس سے تیس 30 سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(1)

--------------

( 1 )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

1۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

2۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

3۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت 59:

(59) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(1)

--------------

( 1 )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت 72 ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت 155 ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت 89 ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت 30 ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت 109

۱۳۱

پیام:

1۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

2۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

3۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

4۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

5۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

6۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

7۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

8۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت 60:

(60) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

1۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

2۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

3۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

4۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت 61:

(61)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت 62:

(62) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

1۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

2۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

3۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

4۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

5۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

6۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

7۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت 63:

(63) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

1۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

2۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

3۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

4۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

5۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت 64:

(64) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

1۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

2۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

3۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

4۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

5۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

1۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

2۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

3۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

4۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (1) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

5۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت 65:

(65)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( 1 )آیت نمبر 12 میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246