یوسف قرآن

یوسف قرآن 30%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174820 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

تالیف: محمد رے شہری

۲

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

۳

مقدمہ

الحمد ﷲ رب العالمین والصلاة علیٰ عبده المصطفیٰ محمد وآله الطاهرین و خیارصحابته اجمعین

ہم کتاب ''علم و حکمت قرآن و حدیث کی روشنی میں ' کے مقدمہ میں اشارہ کر چکے ہیں کہ اس کتاب کے مباحث کی تکمیل کے لئے کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں '' کا مطالعہ کرنا ضروری ہے اور یہ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب ہے جو خدا کے فضل سے پہلی کتاب کی اشاعت کے تھوڑے ہی وقفہ کے بعد شائع ہو رہی ہے ۔

یہ کتاب آیات و روایات کی مدد سے معرفت کے موضوع پر نئے نکات پیش کرتی ہے امید ہے کہ ارباب علم و حکمت کے نزدیک مقبولیت کا درجہ حاصل کر ے گی ۔

اس بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اس کتاب کا پہلا حصہ حجۃ الاسلام جناب شیخ رضا برنجکار کے تعاون سے اور دوسرا حصہ حجۃ الاسلام جناب عبد الھادی مسعودی کی مدد سے مکمل ہوا۔لہذاہم ان دونوں اور ان تمام حضرات کا شکر یہ ادا کرتے ہیںکہ جنہوںنے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے ، صحیح روایات ڈھونڈ نے اور اس سے متعلق دیگر امور میں ہمارا تعاون کیا ہے،اور خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ خدا انہیں آثار اہلبیت کو مزید نشر کرنے کی توفیق عطا کرے اور جزائے خیر سے نوازے۔

آخر میں اختصار کے ساتھ اپنی تحقیق کا اسلوب بیان کرتے ہیں:

1۔ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک موضوع سے مربوط شیعی اور سنی روایات کو جدید وسائل تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے جامع ترین ، موثق ترین اور قدیم ترین مصادر سے اخذ کیا جائے۔

۴

2۔ کوشش کی گئی ہے کہ درج ذیل حالات کے علاوہ تکرار روایات سے اجتناب کیا جائے:

الف: روایت کے مصادر مختلف ہوں اور روایات میں واضح فرق ہو۔

ب: الفاظ اور اصطلاحات کے اختلاف میں کوئی خاص نکتہ مخفی ہو۔

ج: شیعہ اور سنی روایات کے الفاظ میں اختلاف ہو۔

د: متن روایت ایک سطر سے زیادہ نہ ہو لیکن دو بابوں سے مربوط ہو۔

3۔ اور جہاں ایک موضوع سے متعلق چند نصوص ہیں جن میں سے ایک نبی (ص) سے منقول ہو اور باقی ائمہ٪ سے تو اس صورت میں حدیث نبی (ص)کو متن میں اور بقیہ معصومین کی روایات کو حاشہ پر ذکر کیاہے ۔

4۔ہر موضوع سے متعلق آیات کے ذکر کے بعد معصومین(ع) کی روایات کو رسول خدا(ص) سے امام زمانہ (عج) تک بالترتیب نقل کیا جائیگا۔ مگر ان روایات کو جو آیات کی تفسیر کے لئے وارد ہوئی ہیں تمام روایات پر مقدم کیا گیا ہے اور بعض حالات میں مذکورہ ترتیب کا لحاظ نہیں کیا گیا ہے ۔

5۔ روایات کے شروع میں صرف معصوم (ص) کا نام ذکر کیا جائیگا لیکن اگر راوی نے فعلِ معلوم کو نقل کیا ہے یا ان سے مکالمہ کیا ہے یا راوی نے متن حدیث میں کوئی ایسی بات ذکر کی ہے جو معصوم (ع) سے مروی نہیںہے اس میں معصوم کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔

6۔ حاشیہ پر متعدد روایات کے مصادر کواعتبارکے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے ۔

۵

7۔ اگر بنیادی منابع تک دسترسی ہو تو حدیث بلا واسطہ انہیں منابع سے نقل کی جاتی ہے ''بہار الانوار'' اور ''کنزالعمال'' اور اس لحاظ سے کہ یہ دونوں احادیث کا جامع منبع ہیں لہذا منابع کے آخر میں انکا بھی ذکر کر دیا گیا ہے ۔

8۔ منابع کے ذکر کے بعد کہیں پر بعض دوسرے منابع کی طرف ''ملاحظہ کریں'' کے ذریعہ اشارہ کیا ہے ان موارد میں نقل شدہ متن اس متن سے جسکا حوالہ دیا گیا ہے کافی مختلف ہے ۔

9 ۔ اس کتاب میں دوسرے ابواب کا حوالہ اس وقت دیا گیا ہے جہاں روایات میں مناسبت ہے ۔

10۔ کتاب کا مقدمہ اور بعض فصول و ابواب کے آخر میں بیان ہونے والے توضیحات و نتائج اس کتاب یا اس باب کی روایات کا ایک کلی جائزہ ہے اور بعض روایات میں جو دشواریاں ہیں انہیں حل کیا گیا ہے ۔

11۔ اہمترین نکتہ یہ ہے کہ ہم نے حتی الامکان ہر باب میں معصوم سے صادر ہونے والی حدیث کی توثیق کےلئے عقلی و نقلی قرائن کا سہارا لیا ہے ۔

محمد رے شہری

8 صفر 1419ق ھ

۶

پیش لفظ

تفکر و تعقل اسلام کا ستون ہے اور عقائد و اخلاق اور اعمال میں اس کا مرکز ہے لیکن یہ آسمانی شریعت انسان کو اس بات کی ا جازت نہیں دیتی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو تسلیم کرے جس کو عقل صحیح نہیں سمجھتی اور نہ ہی ان صفات سے متصف ہونے کا اذن دیتی ہے جس کو عقل برا جانتی ہے۔ اور نہ ان اعمال کو بجالانے کا حق دیتی ہے کہ جن کو عقل اچھا نہیںسمجھتی ہے ۔

لہذا آیات قرآن ، احادیث رسول اور احادیث اہلبیت(ع) غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی جیسے تفکر، تذکر، تدبر، تعقل، تعلم، تفقہ، ذکر اور عقل و خرد ہیں یہی تمام چیزیں بنیاد ہیں اور دوسری چیزوں کی نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے ۔ قرآن کریم میں کلمہ علم اور اس کے مشتقات 779 بار، ذکر 274 بار، عقل 49 بار ، فقہ 20 بار ، فکر 18 بار، خرد 61 بار اور تدبر 4 بار آیا ہے ۔

اسلام کی نظر میں عقل انسان کی بنیاد، اسکی قدر و قیمت کا معیار، درجات کمال اور اعمال کے پر کھنے کی کسوٹی ، میزان جزا اور خداکی حجتِ باطنی ہے ۔

عقل انسان کے لئے گرانقدر ہدیہئ الٰہی ، اسلام کی پہلی بنیاد ، زندگی کا اساسی نقطہ اور انسان کا بہترین زیور ہے ۔

عقل بے بہا ثروت ، بہترین دوست و راہنمااور اہل ایمان کا بہترین مرکز ہے اسلام کے نقطئہ نظر سے علم عقل کا محتاج ہے لہذا علم عقل کے بغیر مضر ہے ۔ چنانچہ جسکا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو جاتا ہے اس کےلئے وبال جان ہو جاتا ہے ۔

۷

مختصر یہ کہ اسلام کی نظر میں مادی و معنوی ارتقائ، زندگانی ئدنیا و آخرت کی تعمیر، بلند انسانی سماج تک رسائی اور انسانیت کی اعلیٰ غرض و غایت کی تحقیق صحیح فکر کرنے سے ہی ممکن ہے اور انسان کی تمام مشکلات غلط فکر اور جہل کا نتیجہ ہے لہذا دنیا میں قیامت کے بعد باطل عقائد کے حامل افراد حساب کے وقت اپنے برے اعمال اور برے اخلاق کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہوںگے تو کہیں گے :

وقالوا لوکنا نسمع اونعقل ما کنا فی اصحاب السعیر، فاعترفوا بذنبهم فسحقا لاصحاب السعیر

اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے؛ تو انہوںنے خود اپنے گناہ کا اقرار کر لیا تو اب جہنم والوںکے لئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے ۔

عقل کے لغوی معنی

لغت میں عقل کے معنی منع کرنا، باز رکھنا، روکنا، اور حبس کرنے کے ہیں۔ جیسے اونٹ کو رسی سے باندھنا تاکہ کہیں جانہ سکے ، انسان کے اندر ایک قوت ہوتی ہے جسے عقل کہا جاتا ہے جو اسے فکری جہالت سے بچاتی ہے اور عملی لغزش سے باز رکھتی ہے لہذا رسول خدا)ص( فرماتے ہیں:

العقل عقال من الجهل

عقل جہالت سے باز رکھتی ہے ۔

۸

عقل اسلامی روایات میں

محدث کبیر شیخ حر عاملیؒ بابِ ''وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجہل'' کے آخر میں معانی عقل کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

علماء کے کلام میں عقل کئی معنی میں استعمال ہوئی ہے احادیث میں جستجو کے بعد عقل کے تین معنی دستیاب ہوتے ہیں:

1۔ وہ قوت ہے کہ جس سے اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک، ان دونوں میں امتیاز اور تمام امورکے اسباب کی معرفت وغیرہ حاصل کی جائے اور یہی شرعی تکلیف کا معیار ہے ۔

2۔ ایسی حالت و ملکہ کہ جو خیر و منافع کے انتخاب اور برائی و نقصانات سے اجتناب کی دعوت دیتا ہے ۔

3۔ تعقل علم کے معنی میں ہے کیوںکہ یہ جہل کے مقابل میں آتا ہے نہ کہ جنون کے اور اس موضوع کی تمام احادیث میں عقل دوسرے اور تیسرے معنی میں زیادہ استعمال ہوئی ہے ۔واللہ اعلم۔

جن موارد میں کلمئہ عقل اور اس کے مترادف کلمات اسلامی نصوص میں استعمال ہوئے ہیں ان میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ کبھی انسان کے سرچشمئہ ادراکات اور کبھی اس کے ادراکات سے حاصل شدہ نتیجہ میں استعمال ہوتا ہے اورکبھی دونوں مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

الف: عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ

1۔ تمام معارفِ انسانی کا سرچشمہ

جن احادیث جن میں حقیقتِ عقل کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے یا نور کو وجود عقل کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے یا عقل کو الہی ہدیہ اور انسان کی اصل قرار دیا گیا ہے ،وہ انہیں معنی کیطرف اشارہ کرتی ہیں۔

۹

ان احادیث کے مطابق انسان اپنے وجود میں ایک نورانی طاقت رکھتا ہے جو اسکی روح کی حیات ہے اگر یہ طاقت نشو ونما پائے اور سنور جائے تو انسان اسکی روشنی میں وجود کے حقائق کا ادراک، محسوس وغیر محسوس حقائق میں تمیز، حق و باطل میں امتیاز، خیر و شر اور اچھے و برے میں فرق قائم کر سکتا ہے ۔

اگر اس نورانی طاقت اور باطنی شعور کی تقویت کی جائے تو انسان کسبی ادراکات سے بلند ہو کر سوچے گا یہاں تک کہ تمام غیب کو غیبی بصیرت سے دیکھیگا اورہ رغیب اس کے لئے شہود ہو جائیگا۔ اسلامی نصوص میں اس رتبئہ عقل کو یقین سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

2۔ فکر کا سرچشمہ

اسلامی متون میں عقل کو فکر و نظر کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے ۔ ان موارد میں عقل ہوشیاری، فہم اور حفظ کے معنی میں استعمال ہوئی ہے جس کا مرکز دماغ ہے ۔

وہ آیات و احادیث جن میں انسان کو تعقل اور غور و فکر کی طرف ابھارا گیا ہے اسی طرح وہ احادیث جن میں عقل تجربی اور عقل تعلمی کو فطری و موہوبی عقل کے ساتھ بیان کیا ہے یہ ایسے نمونے ہیںجن میں لفظ عقل منبعِ فکر میں استعمال ہوا ہے ۔

3۔الہام کا سرچشمہ

اخلاقی وجدان ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کے باطن میں اخلاقی فضائل کی طرف دعوت اور رذائل سے روکتا ہے بعبارت دیگر اخلاقی فضائل کی طرف فطری کشش اور رذائل کی طرف سے فطری نفرت کا احساس ہے ۔

اگر انسان خود کو تمام عقائد و سنن اور مذہبی و اجتماعی آداب سے جدا فرض کرکے مفہوم عدل و ظلم، خیر و شر، صدق و کذب، وفا ئے عہد اور عہد شکنی کے بارے میں غور کریگا تو اسکی فطرت یہ فیصلہ کریگی کہ عدل، خیر ، صدق اور وفائے عہد اچھی چیز ہے جبکہ ظلم ، شر ، جھوٹ اور عہد شکنی بری بات ہے ۔

۱۰

فضائل کی طرف میلان اور رذائل کی طرف سے نفرت کے احساس کو قرآن نے الہی الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها وتقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا۔

یہ احساس اور یہ الہام انسان کےلئے خدا کی معرفت کا سنگ بنیاد ہے اسکا سرچشمہ یعنی نہفتہ احساس جو انسان کے اندر اخلاقی اقدار کا شعور پیدا کرتا ہے اسی منبع اسلام کو اسلامی متون میں عقل کہا گیا ہے اور تمام اخلاقی فضائل کوعقل کا لشکر اور تمام رذائل کو جہالت کا لشکر کہا گیا ہے ۔

نکتہ

بعض فلسفہ کی کتابوں میں اما م علی (ع) سے عقل کی تفسیر کے بارے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس کی تطبیق فلسفہ میں معانی عقل میں سے کسی ایک معنی پر کی جاتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے :

قال السائل: یا مولای وما العقل؟ قالں: العقل جوهر درّاک، محیط بالاشیاء من جمیع جهاتها عارف بالشی قبل کونه فهو علة الموجودات ونهایة المطالب

سائل نے کہا: مولا! عقل کیاہے؟ فرمایا: عقل درک کرنے والا جوہر ہے جو حقائق پر تمام جہات سے محیط ہے۔ اشیاء کو انکی خلقت سے قبل پہچان لیتا ہے یہ جوہر سبب موجودات اور امیدوں کی انتہا ہے ۔

حدیث کے مصادر میں تلاشِ بسیار کے باوجود مذکورہ حدیث کا کوئی مدرک نہیں مل سکا۔

۱۱

ب: عقل کا استعمال اورنتیجہ ادراکات

حقائق کی شناخت

لفظ عقل مدرِک کے ادراکات کے شعور میں تو استعمال ہوتا ہی ہے۔ مزید بر آن اسلامی متون میں عقلی مدرکات اور مبدا و معاد سے متعلق حقائق کی معرفت میں استعمال ہوتا ہے ۔

اور اسکی بہترین مثال وہ احادیث ہیںجو عقل کو انبیاء کا ہم پلہ اور خدا کی باطنی حجت قرار دیتی ہیں اسی طرح وہ احادیث جو عقل کو تہذیب وتربیت کے قابل سمجھتی ہیں اور اسی کو فضائلِ انسان کا معیار قرار دیتی ہیں کہ جس کے ذریعہ اعمال کی سزا و جزا دی جائیگی۔ یا عقل کو ''فطری''، ''تجربی''، ''مطبوع'' اور''مسموع'' میں تقسیم کرتی ہیں۔ عقل سے مراد شناخت و آگاہی ہے۔

عقل کے مطابق عمل

کبھی لفظ عقل کا استعمال قوت عاقلہ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ عقل کی تعریب کے بارے میں رسول خدا)ص( سے مروی ہے'' العمل بطاعة اﷲ و ان العمال بطاعة اﷲ هم العقلاء'' عقل خدا کے احکام کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں یقینا عاقل وہ لوگ ہیں جو خدا کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں۔

یا حضرت علی (ع) سے مروی ہے:'' العقل ان تقول ما تعرف و تعمل بما تنطق به'' عقل یہ ہے کہ جس کے بارے میں جانتے ہو وہ کہو اور جو کچھ کہتے ہو اس پر عمل کرو۔

لفظ جہل کا استعمال بھی لفظ عقل کے استعمال کی مانند طبیعت جہل کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ دعا میں وارد ہو اہے'' وکل جہل عملتہ...''اور ہر جہالت کو انجام دیا......

۱۲

عقل کی حیات

عقل روح کی حیات ہے لیکن اسلامی نصوص کے مطابق اسکی بھی موت و حیات ہوتی ہے ، انسان کا مادی و معنوی تکامل اسی کی حیات کا رہینِ منت ہے ۔ بشر کی حیاتِ عقلی کا اصلی راز قوت عاقلہ (جو کہ اخلاقی وجدان ہے ) کا زندہ ہونا ہے الہی انبیاء کی بعثت کے اغراض میں سے ایک اساسی غرض یہ بھی ہے۔

حضرت علی -نے اپنے اس جملہ ''هو یثیر والهم وفائن العقول'' (اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں) کے ذریعہ بعثت انبیاء کے فلسفہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اسرار کائنات کو کشف کرنے کےلئے فکر کو زندہ کرنا انسان کےلئے ممکن ہے ؛ لیکن کمال مطلق کی معرفت کےلئے عقل کو زندہ کرنا اور اعلیٰ مقصد انسانیت پر چلنے کےلئے منصوبہ سازی صرف خدا کے انبیاء ہی کےلئے ممکن ہے۔

قرآن و حدیث میں جو کچھ عقل و جہل اور عقل کے صفات و خصائص اور اس کے آثار و احکام کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ سب ہی عقل کے اسی معنی سے مخصوص ہے ۔

جب انسان انبیاء کی تعلیمات کی روشنی میں حیات عقلی کے بلند ترین مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اس میں ایسی نورانیت و معرفت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں نہ فقط یہ کہ عقل خطا سے دو چار نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنے کےلئے مدد گار بھی ہے ۔

چنانچہ علی - فرماتے ہیں:

ایسے شخص نے اپنی عقل کو زندہ رکھا ہے ، اور اپنے نفس کو مردہ بنا دیا تھا۔ اسکا جسم باریک ہو گیا ہے اور اس کا بھاری بھرکم جسد ہلکا ہو گیا ہے اس کے لئے بہترین ضو فشاں نور ہدایت چمک اٹھا ہے اور اس نے راستے کو واضح کر کے اسی پر چلا دیا ہے ۔ تمام در وازوں نے اسے سلامتی کے دروازہ اور ہمیشگی کے گھر تک پہنچا دیا ہے اور اس کے قدم طمانینتِ بدن کے ساتھ امن و راحت کی منزل میں ثابت ہو گئے ہیں کہ اس نے اپنے دل کو استعمال کیا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیا ہے ۔

۱۳

بنا بر ایں اور حقیقی علم و حکمت کی اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہم نے کتاب'' علم و حکمت قرآن و حدیث کی رونشی میں'' بیان کی ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نصوص نے انسان کے وجود میں باطنی نورانی قوت کو بیان کرنے کےلئے تین اصطلاحیں ، علم، حکمت اور عقل پیش کی ہیںاور یہ نورانی قوت، انسان کو مادی و معنوی تکامل کی طرف ہدایت کرتی ہے لہذا اسکو نور علم سے اور چونکہ اس قوت میں استحکام پایا جاتا ہے اور خطا کا امکان نہیں ہوتا لہذا حقیقی حکمت سے اور یہی قوت انسان کو نیک اعمال کے انتخاب پر ابھارتی ہے اور اسے فکری و عملی لغزشوں سے باز رکھتی ہے لہذا اسے عقل سے تعبیر کرتے ہیں۔ علم و حکمت اور عقل کے سرچشمے، اسباب آثار اور آفات و موانع کی تحقیق سے یہ مدعا اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے۔

عقل نظری اور عقل عملی

عقل نظری و عقل عملی کے سلسلہ میں دو نظریہ موجود ہیں:

پہلا نظریہ یہ ہے کہ عقل، ادراک کا سرچشمہ ہے ، یہاں پر عقل نظری و عقل عملی میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ بلکہ فرق مقصد میں ہے۔ اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد معرفت ہو تو اس کے چشمہئ ادراک کو عقل نظری کہتے ہیں؛ جیسے حقائقِ وجودکا ادراک اور اگرکسی چیز کے ادراک کا مقصد عمل ہو تو اس کے سر چشمہ ادراک کو عقل عملی کہتے ہیں؛ جیسے عدل کے حسن، ظلم کے قبیح، صبر کے پسندیدہ اور اور بیتابی کے مذموم ہونے کی معرفت وغیرہ....اس نظریہ کی نسبت مشہور فلاسفہ کی طرف دی گئی ہے اور اس نظریہ کی بناء پر عقل عملی ، ادراک کا سر چشمہ ہے نہ کہ تحریک کا۔

۱۴

دوسرا نظریہ ، یہ ہے کہ عقل عملی و عقل نظری میں بنیادی فرق ہے ، یعنی ان دونوں کے سرچشمہئ ادراک میں فرق ہے ، عقل نظری، سر چشمہ ادراک ہے چاہے ادراک کا مقصد معرفت ہو یا عمل؛ اور عقل عملی عمل پر ابھارے کا سر چشمہ ہے نہ کہ ادراک کا۔عقل عملی کا فریضہ، عقل نظری کے مدرکات کا جاری کرنا ہے ۔

سب سے پہلے جس نے اس نظریہ کو مشہور کے مقابل میں اختیار کیا ہے وہ ابن سینا ہیں ان کے بعد صاحب محاکمات قطب الدین رازی اور آخر میں صاحب جامع السعادات محقق نراقی ہیں۔

پہلا نظریہ، لفظ عقل کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے اور اس سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ عقل عملی کی مبدا ادراک و تحریک سے تفسیر کی جائے کیونکہ جو شعور اخلاقی اور عملی اقدار کو مقصد قرار دیتا ہے وہ مبدا ادراک بھی اور عین اسی وقت مبدا تحریک بھی ہے اور یہ قوت ادراک وہی چیز ہے کہ جس کو پہلے وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جا چکا ہے ۔ اور نصوص اسلامی میںجسے عقل فطری کا نام دیا گیا ہے ، اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔

۱۵

عقل فطری اور عقل تجربی

اسلامی نصوص میں عقل کی عملی و نظری تقسیم کے بجائے دوسری بھی تقسیم ہے اور وہ عقل فطری اور عقل تجربی یا عقل مطبوع اور عقل مسموع ہے ، امام علی - فرماتے ہیں:

العقل عقلان: عقل الطبع و عقل التجربہ، و کلاھما یؤدی المنفعۃ۔

عقل کی دو قسمیںہیں: فطری اور تجربی اور یہ دونوں منفعت بخش ہیں۔

نیز فرماتے ہیں:

رأیت العقل عقلین

فمطبوع و مسموع

ولا ینفع مسموع

اذا لم یک مطبوع

کما تنفع الشمس

و ضوء العین ممنوع

میں نے عقل کی دو قسمیں دیکھیں۔ فطری اور اکتسابی، اگر عقل فطری نہ ہو تو عقل اکتسابی نفع بخش نہیں ہو سکتی، جیسا کہ آنکھ میں روشنی نہ ہو تو سورج کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

ملحوظ خاطر رہے کہ علم کی بھی یہی تقسیم آپ سے منقول ہے:

العلم علمان: مطبوع و مسموع ولا ینفع المسموع اذا لم یکن المطبوع

۱۶

علم کی دو قسمیں ہیں: فطری اور اکتسابی ، اگر فطری علم نہ ہو تو اکتسابی علم فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ فطری عقل و علم کیا ہیں اور اکتسابی عقل و علم میں کیا فرق ہے ؟ اور فطری عقل و علم نہ ہونے کی صورت میں عقل تجربی اور علم اکتسابی فائدہ کیوں نہیں پہنچا سکتے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر فطری عقل و علم سے مقصود ایسے معارف ہیںکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوںکی فطرت میں ودیعت کیا ہے تاکہ اپنی راہ کمال پا سکیںاور اپنی غرض خلقت کی انتہا کو پہنچ سکیں۔ قرآن نے اس فطری معارف کو فسق و فجور اور تقویٰ کے الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها و تقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا ہے۔

اسی کو دور حاضر میں وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

عقل فطری یا وجدان اخلاقی ادراک کا سر چشمہ اور تحریک عمل کا منبع بھی ہے۔

اور اگر اسے انبیاء کی تعلیمات کی بنیاد پر زندہ کیا جائے اور رشد دیا جائے تو انسان وہ تمام معارف جو کسب و تجربہ کے راستوں سے حاصل کرتا ہے ان سے فیضیاب ہو سکتا ہے اور اسے انسانیت کی پاکیزہ زندگی میسر آجائےگی۔اگر عقل فطری خواہشات نفسانی کی پیروی اور شیطانی وسوسوں کے سبب مردہ ہو جائے تو انسان کو کوئی بھی معرفت اسکی مطلوب ومقصود زندگی تک نہیںپہنچا سکتی اور نہ ہی اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے؛جیسا کہ امیر المومنین (ع) کے حسین کلام میں موجود ہے کہ: عقل فطری کی مثال آنکھ کی سی ہے اور عقل تجربی کی مثال سورج کی سی ہے ، جیسا کہ سورج کی روشنی نابینا کو پھسلنے سے نہیں روک سکتی اسی طرح عقل تجربی بھی پھسلنے اور انحطاط سے ان لوگوں کو نہیں روک سکتی کہ جنکی عقل فطری اور وجدان اخلاقی مردہ ہو چکے ہیں۔

۱۷

عاقل و عالم کا فرق

ہم کتاب'' علم و حکمت ، قرآن و حدیث کی روشنی میں'' کے پیش گفتار میں وضاحت کر چکے ہیں کہ لفظ علم اسلامی نصوص میں دو معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ، ایک جوہر و حقیقت علم اور دوسرے سطحی و ظاہری علم، پہلے معنیٰ میں عقل اور علم میں تلازم پایا جاتا ہے ، جیسا کہ امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں:

العقل و العلم مقروناِ فی قرن لا یفترقان ولا یتباینان

عقل اور علم دونوں ایک ساتھ ہیںجو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں۔

اس بنیاد پر عالم و عاقل مینکوئی فرق نہیں ہے ۔ عاقل ہی عالم ہے اور عالم ہی عاقل ہے نیز ارشاد پروردگار ہے :

تلک الامثال نضربها للناس وما یعقلها الا العالمون

یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔

لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے؛ عاقل اور عالم میں فرق ہے ، علم کو عقل کی ضرورت ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کوئی عالم ہو لیکن عاقل نہ ہو۔ اگر علم ، عقل کے ساتھ ہو تو عالم اور کائنات دونوںکےلئے مفید ہے اور اگر علم ، عقل کے بغیر ہو تو نہ فقط یہ کہ مفید نہیںہے بلکہ مضر اور خطرناک ہے۔

۱۸

عقل کے بغیر علم کا خطرہ

امام علی (ع) کا ارشاد ہے العقل لم یجن علیٰ صاحبہ قط و العلم من غیر عقل یجنی علیٰ صاحبہ'' عقل، صاحب عقل کو کبھی تکلیف نہیں پہنچاتی لیکن عقل کے بغیر علم، صاحب علم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔

دورحاضر میں علم کافی ترقی کر چکا ہے لیکن عقل کم ہو گئی ہے ، آج کا معاشرہ مولائے کائنات کے اس قول کا مصداق بنا ہوا ہے :

من زاد علمه علیٰ عقله کان وبالا علیه

جس شخص کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو تا ہے وہ اس کےلئے وبال ہو جاتا ہے ۔

نیز اس شعر کا مصداق ہے ۔

اذا کنت ذاعلم و لم تک عاقلا

فانت کذی نعل لیس له رجل

اگر تم عالم ہو اور عاقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس نعلین تو ہے لیکن پیر نہیں ہے۔

آج علم ، عقل سے جدا ہونے کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ کو مادی و معنوی تکامل اور آرام و آسائش عطا کرنے کے بجائے انسان کے لئے بد امنی، اضطراب، فساد اور مادی و معنوی انحطاط کا باعث ہوا ہے ۔

آج کی دنیا میں علم، عیش طلب افراد، مستکبرین اور بے عقلوں کے لئے سیاسی ، اقتصادی اور مادی لذتوں کے حصول کا وسیلہ بنا ہو ا ہے کہ اس اسی سے دوسرے زمانوں سے زیادہ لوگوں کو انحراف و پستی کی طرف لے جارہے ہےں۔

۱۹

جب تک عقل کے ساتھ علم نہ ہو علم صحیح معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا اور انسانی معاشرہ کو آرام و سکون نصیب نہیں ہو سکتا، جیسا کہ امام علی (ع) کا ارشاد ہے :

افضل ما منّ اﷲ سبحانه به علیٰ عباده علم وعقل وملک وعدل

بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم، عقل ، بادشاہت اور عدل ہے ۔

مختصر یہ کہ دور حاضر میں علم دوسرے زمانوں سے زیادہ عقل کا محتاج ہے اور کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں''جو آپ کے ہاتھوں میں ہے،اسکی ضرورت فرہنگی، اجتماعی اور سیاسی لحاظ سے دوسرے زمانوں سے کہیں زیادہ ہے ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(۱)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (۲)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (۳)

--------------

( ۱ ) سورہ سجدہ آیت ۱۸

( ۲ )سورہ واقعہ آیت ۱۰ ۔ ۱۱

( ۳ )سورہ انفال آیت ۷۲

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (۱)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (۲) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (۳)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

۱۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

۲۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( ۱ )سورہ بقرہ آیت ۲۴۷

( ۲ )سورہ مریم آیت ۲۸

( ۳ )سورہ نساء آیت ۹۵

۱۲۲

۳۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

۴۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

۵۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

۶۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت ۵۶:

(۵۶) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت ۵۷:

(۵۷) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(۱) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( ۱ )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(۱) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (۲)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (۳)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (۴)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (۵)

--------------

( ۱ )تفسیر نور الثقلین.

( ۲ )سورہ اعلیٰ آیت ۱۷

( ۳ )سورہ بقرہ آیت ۱۸۴

( ۴ )سورہ حج آیت ۳۶

( ۵ )سورہ اعراف آیت ۲۶

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (۱)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (۲)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (۳)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (۴)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (۵)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (۶)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (۷)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( ۱ )سورہ بقرہ آیت ۲۱۶

( ۲ )سورہ زمر آیت ۳۴

( ۳ )سورہ فرقان آیت ۱۶

( ۴ )سورہ زمر آیت ۷۴

( ۵ )سورہ زمر آیت ۱۰

( ۶ )سورہ واقعہ آیت ۱۹

( ۷ )سورہ بقرہ آیت ۱۱۲

۱۲۶

پیام:

۱۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

۲۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

۳۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

۴۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

۵۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

۶۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

۷۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

۸۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

۹۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

۱۰۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

۱۱۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

۱۲۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

۱۳۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

۱۴۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

۱۵۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

۱۶۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت ۵۸:

(۵۸) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً ۲۰ بیس سے تیس ۳۰ سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(۱)

--------------

( ۱ )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

۱۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

۲۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

۳۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت ۵۹:

(۵۹) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(۱)

--------------

( ۱ )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت ۷۲ ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت ۱۵۵ ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت ۸۹ ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت ۳۰ ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت ۱۰۹

۱۳۱

پیام:

۱۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

۲۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

۳۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

۴۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

۵۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

۶۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

۷۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۸۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت ۶۰:

(۶۰) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

۱۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

۲۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

۳۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

۴۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت ۶۱:

(۶۱)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت ۶۲:

(۶۲) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

۱۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

۲۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

۳۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۴۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

۵۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

۶۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

۷۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت ۶۳:

(۶۳) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

۱۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

۲۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

۳۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

۴۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

۵۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت ۶۴:

(۶۴) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

۱۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

۲۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

۳۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

۴۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

۵۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

۱۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

۲۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

۳۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

۴۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (۱) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

۵۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت ۶۵:

(۶۵)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( ۱ )آیت نمبر ۱۲ میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246