یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174816 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عقیدۂ اختیار

اہل تشیع نے اس عقیدہ کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں اختیار کیا ہے، یعنی انسانوں کے کام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں اور وہ صاحب اختیار ہے لیکن خواستہ الٰہی بھی اس کے شامل حال ہے او رقضا ء وقدر الٰہی کا اثر بھی ہے۔ جس طرح تمام موجودات کاوجود خدا کے وجود کی بنا پر ہے اور ہر صاحب قدرت کی قوت اور ہر صاحب علم کا علم مرہون لطف الٰہی ہے اسی طرح سے ہر صاحب اختیار کا ارادہ اوراختیار خد ا کے ارادے اور اختیارکے سایہ میں جنم لیتا ہے ۔اسی لئے جب انسان کسی کام کاارادہ کرتاہے تویہ اختیار اور قدرت خداکی طرف سے ہے یا یوں کہاجائے کہ ارادہ وقدرت خدا وندی کے سایہ میں انسان کسی کام کا ارادہ کرکے اس کو انجام دے سکتا ہے اوریہی معنی ہیں۔( وما تشاؤن الا أن یشاء اللّه رب العالمین ) ( ۱ ) ''تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ عالمین کاپرور دگا ر خدا چاہے''(یعنی تمہا را ارادہ خدا کی چاہت ہے نہ یہ کہ تمہارا کام خدا کی درخواست اور ارادہ کی وجہ سے ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ تکویر آخری آیة

(۲) گم شدہ شما ۔محمد یزدی

۱۰۱

عقیدہ اختیار اور احادیث معصومین علیہم السلام

احمد بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلا م کی خدمت میں عرض کیا مولا بعض لوگ جبر اور''تفویض ''اختیار مطلق کے قائل ہیں امام علیہ السلام نے فرمایا لکھو !

قال علی ابن الحسینںقال عزوجل:''یا بن آدم بمشیتی کنت انت الذی تشاء بقوتی ادیت الی فرائضی وبنعمتی قویت علی معصیتی جعلتک سمیعاً بصیراً ما أصابکَ من حسنة فمِن اللّه وما أصابکَ من سیئةٍ فمن نفسک وذلکَ أنِّی أولیٰ بحسناتکَ منکَ وأنت أولیٰ بسیئاتک منیِ وذلکَ أنِّی لاأسئل عماأفعل وهم یُسئلون قد نظمت لکَ کلّ شیئٍ تُرید''

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا وند کریم کا فرمان ہے کہ اے فرزند آدم !تم ہمارے خواہش کے تحت ارادہ کرتے ہو اور ہماری دی ہو ئی طاقت سے ہما رے واجبات پر عمل کرتے ہو اور ہماری عطا کردہ نعمتوں کے نا جائز استعمال سے گناہ ومعصیت پر قدرت حاصل کرتے ہو ہم نے تم کو سننے او ر دیکھنے والا بنایا جو بھی نیکی تم تک پہنچے وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائی وجود میں آئے اس کے ذمہ دار تم ہو کیونکہ میں تمہاری نیکیو ں کے سلسلہ میں تم سے زیادہ حق دار ہوں اور تم اپنی برائی کے بابت مجھے سے زیادہ مستحق ہوکیونکہ میں کچھ بھی انجام دوںگا جو اب دہ نہیں ہوںگا لیکن وہ جو اب دہ ہو ں گے تم نے جو کچھ سوچا ہم نے تمہارے لئے مہیا کر دیا۔( ۱ )

ایک صحابی نے امام جعفر صادق سے سوال کیا کہ کیا خدا نے اپنے بندوں کو ان کے اعمال پر مجبور کیا ہے ۔ اما م نے فرمایا :''اللّهُ أعدل مِن أَن یجبر عبداً علیٰ فعلٍ ثُمَّ یعذّبه علیه''خدا عادل مطلق ہے اس کے لئے یہ بات روانہیں کہ وہ بندو ں کو کسی کا م پر مجبور کرے پھر انہیں اسی کام کے باعث سزادے۔( ۲ )

دوسری حدیث میں امام رضاںنے جبر وتفویض کی تردید کی ہے اور جس صحابی نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا خدا نے بندوں کو ان کے اعمال میں مکمل اختیار دیا ہے تو آپ نے جو اب میں فرمایا تھا ۔

''اللّه أعدلُ وأحکم من ذلک'' خدا اس سے کہیں زیادہ صاحب عدل وصاحب حکمت ہے کہ ایسا فعل انجام دے۔( ۳ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب امربین الامرین حدیث ۱۲

(۲) بحار الانوار ج ۵ ص ۵۱

(۳) اصول کا فی باب امر بین الامرین حدیث ۳

۱۰۲

جبر واختیار کا واضح راہ حل

عمومی فکر اور عالمی فطرت ،دونوں اختیار پر ایک واضح دلیل ہیں اور اختیار وجبر کے معتقد یں بھی ،عملی میدان میں آزادی اور اختیار ہی کو مانتے ہیںلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ !

۱۔ تمام لوگ اچھا ئی کرنے والوں کی مدح اور تحسین کرتے ہیں اور برائی کرنے والے کی تحقیر اورتوہین کرتے ہیں ،اگر انسان مجبور ہوتا اور اس کے اعمال بے اختیار

ہو تے تو مدح وتحسین، تحقیر وتوہین کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔

۲۔ سبھی لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوشش کرتے ہیں اگر انسان مجبور ہو تا تو تعلیم و تربیت کا کوئی مقصد نہیں باقی رہتا ہے۔

۳۔ کبھی انسان اپنے ماضی سے شرمندہ ہو تاہے اور اس بات کاارادہ کرتا ہے کہ ماضی کے بحرانی آئینہ میں مستقبل کو ضرور سنوارے گا ، اگر انسان مجبور ہوتا تو ماضی سے پشیمان نہ ہو تا اور مستقبل کے لئے فکر مند نہ ہو تا ۔

۴۔ پوری دنیا میں مجرموںپر مقدمہ چلا یا جاتاہے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اگر وہ لوگ اپنے کاموں میں مجبور تھے تو ان پر مقدمہ چلانا یاسزا دینا سراسر غلط ہے ۔

۵۔ انسان بہت سارے کاموں میں غور و خو ض کرتا ہے اور اگر اس کی پرواز فکر کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتی تو دوسرے افراد سے مشورہ کرتا ہے۔ اگر انسان مجبور ہو تا توغور وفکر او رمشورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے( ۱ )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ جلد ۲۶ ص ،۶۴ خلاصہ کے ساتھ۔'' عدالت کے سلسلہ میں ان کتب سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ اصول کا فی ،نہج البلا غہ ،پیام قران ،تفیسر نمونہ ،اصول عقائد ''

۱۰۳

سوالا ت

۱۔ جبروتفویض اور عقیدہ اختیار کی تعریف کریں ؟

۲۔ انسان کے مختار ہونے کے بارے میں شیعہ عقیدہ کیا ہے ؟

۳۔ عقیدۂ اختیار کے بارے میں سید سجا د کی حدیث پیش کریں ؟

۴۔ عقیدہ ٔجبر واختیار کاکوئی واضح راہ حل بیان کریں ؟

۱۰۴

پندرہواں سبق

نبوت عامہ (پہلی فصل )

اصول دین کی تیسری قسم نبوت ہے توحید وعدل کی بحث کے بعد انسان کی فطرت ایک رہبر ورہنما اور معصوم پیشوا کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔

یہاں وحی، حاملا ن وحی ا ور جو افراد لوگوں کو سعادت وکمال تک پہنچاتے ہیں ان کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی ۔

اس بحث میں سب سے پہلے انسان کووحی کی ضرورت اور بعثت انبیاء کے اغراض ومقاصد نیز ان کی صفات وخصوصیا ت بیان کئے جائیں گے جس کو علم کلام کی زبان میں نبوت عامہ کہتے ہیں۔

اس کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور ان کی خاتمیت کی بحث ہوگی کہ جس کو نبوت خاصہ کہتے ہیں ۔

وحی اور بعثت انبیاء کی ضرورت

۱) مخلوقات کو پہچاننے کے لئے بعثت لا زم ہے ۔

اگر انسان کا ئنات کو دیکھے تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ دنیا کی خلقت بغیر ہدف ومقصد کے ہوئی ہے گزشتہ بحث میں یہ بات گذر چکی ہے کہ خدا حکیم ہے اور عبث وبیکا ر کام نہیں کرتا ۔ کا ئنات کا نظم ،موجودات عالم کا ایک ساتھ چلنا بتاتا ہے کہ تخلیق کا کوئی معین ہدف ومقصد ہے لہٰذا یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ :

۱۔ خدا نے اس دنیا کو کس لئے پیدا کیا او رہما ری خلقت کا سبب کیا ہے ؟

۲۔ ہم کس طر ح سے اپنے مقصد تخلیق تک پہنچیں ، کامیا بی اور سعادت کا راستہ کون سا ہے اور اسے کس طرح سے طے کریں۔ ؟

۱۰۵

۳۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا کیا مو ت فنا ہے یا کوئی دوسری زندگی ؟ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ا ن سارے سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ کوئی خدا کی جانب سے آئے جو سبب خلقت اور راہ سعا دت کی نشان دہی کرے اور موت کے بعد کی زندی کی کیفیت کو ہما رے سامنے اجا گر کرے، انسان اپنی عقل کے ذریعہ دنیوی زندگی کے مسائل حل کر لیتا ہے، لیکن سعادت وکمال تک پہنچنے سے مربوط مسائل اور موت کے بعد کی زندگی اور اخروی حیات جو موت کے بعد شروع ہوگی یہ سب اس کے بس کے باہر ہے ۔

لہٰذا اس حکیم خدا کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم نبیوں کو ان تما م مسائل کے حل اور کمال تک پہنچنے کے لئے اس دنیا میں بھیجے ۔

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک لا مذہب شخص نے امام صادق سے سوال کیاکہ بعثت انبیا ء کی ضرورت کو کیسے ثابت کریں گے۔ ؟

آپنے فرمایا :ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہمارے پاس ایساخالق ہے جوتمام مخلوقات سے افضل واعلی ،حکیم وبلند مقام والا ہے چونکہ لوگ براہ راست اس سے رابطہ نہیں رکھ سکتے لہٰذا ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ ا پنی مخلوقات میں رسولو ں کو مبعوث کرتا ہے جو لوگو ں کو ان کے فائدے اور مصلحت کی چیزوں کو بتاتے ہیں اور اسی طرح ان چیزوں سے بھی آگا ہ کرتے ہیں جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہیں اور ترک میں فناونابودی ہے، لہٰذایہ بات ثابت ہو چکی کہ جو خدا کی جانب سے لوگو ں کے درمیان حکم دینے والے او ربرائیو ں سے روکنے والے ہیں، انہیں کو پیغمبر کہا جا تا ہے۔( ۱ )

امام رضا فرماتے ہیں:جبکہ وجود انسان میں مختلف خواہشات اور متعدد رمزی قوتیں ہیں، مگر وہ چیز جو کما ل تک پہنچا سکے اس کے اندر نہیں پا ئی جا تی اور چونکہ خدا دکھا ئی نہیں دیتا اور لوگ اس سے براہ راست رابطہ نہیں رکھ سکتے، لہٰذا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خد اپیغمبروں کو مبعوث کرے جو اس کے احکا م کوبندوں تک پہنچا ئیں اور بندو ں کو اچھا ئیوں کاحکم دیں اور برائیو سے بچنا سکھائیں۔( ۲ )

____________________

(۱) اصو ل کا فی کتاب الحجة با ب اضطرار ا لی الحجة حدیث ،۱

(۲) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۰

۱۰۶

۲) انسان کے لئے قانو ن تکا مل لا نے کے لئے پیغمبر کی ضرورت۔

انسان کو اپنے مقصد خلقت جوکہ کمال واقعی ہے اس تک پہنچنے کے لئے کچھ قانو ن گذار افراد کی ضرورت ہے جو ان شرائط کا حامل ہو۔

۱۔ انسان کو مکمل طریقہ سے پہچانتا ہو اور اس کے تمام جسمانی اسرار ورموز اس کے احساسات و خواہشات ارادے وشہوات سے مکمل آگاہ ہو ۔

۲۔ انسان کی تمام صلا حیت ، اس کے اندر پو شیدہ خصو صیات اور وہ کمالا ت جو امکا نی صورت میں پائے جا سکتے ہیں سب سے باخبر ہو ۔

۳ ۔انسان کو کمال تک پہنچانے والے تمام اصولو ں کو جانتاہو راہ سعادت میں آڑے آنے والی تمام رکاوٹوں سے آگاہ ہو ، اور شرائط کمال سے باخبر ہو ۔

۴۔ کبھی بھی اس سے خطا ،گناہ اور نسیا ن سرزد نہ ہو ۔ اس کے علا وہ وہ نرم دل مہربان ،شجاع ہو او ر کسی بھی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔

۵۔ لوگو ں سے کسی قسم کی منفعت کی توقع نہ رکھتا ہو تاکہ اپنی ذاتی منفعت سے متاثر ہو کر لوگوں کے لئے خلاف مصلحت قانون تیار کردے ۔

جس کے اندر مذکورہ شرائط پائے جاتے ہو ں وہ بہترین قانون گذار ہے کیا آپ کسی ایسے شخص کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو جرأت کے ساتھ اس بات کادعوی کر سکے کہ میں انسان کے تمام رموز واسرار سے واقف ہو ں، اس کے بر خلا ف تمام علمی شخصیتوں نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ ہم ابھی تک انسان کے اندر پائے جا نے والے بعض رموز تک پہنچ بھی نہیں سکے ہیں ۔ اور بعض نے انسان کو لا ینحل معمہ بتایاہے کیا آپ کی نظر میں کو ئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے انسان کے تمام کمالات کو سمجھ لیا ہے ۔اور کمال تک پہنچنے والے تمام شرائط وموانع کو جانتا ہو ں ۔کیا کوئی ایسا ہے جس سے کسی بھی خطاکا امکان نہ پایا جاتا ہو۔ ؟

۱۰۷

یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیامیں تلاش کر یں تب بھی کسی کو نہ پا ئیں گے جس میں مذکورہ تمام شرائط پائے جاتے ہوں یابعض شرطیں ہو ں ،اس کی سب سے بڑی دلیل مختلف مقامات پر متعدد قوانین کا پا یا جاناہے ۔لہٰذا ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ بہترین قانون بنا نے والا صرف اور صرف خدا ہے جوانسان کی خلقت کے تمام اسرار ورموز سے واقف ہے، صرف وہ ہے جودنیا کے ماضی، حال ،مستقبل کو جانتا ہے ۔فقط وہ ہر چیز سے بے نیا زہے اور لوگو ں سے کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا وہ خد اہے جو سب کے لئے شفیق و مہربان ہے او رانسانوں کے کمال تک پہنچنے کے تمام شرائط کو جانتا ہے ۔

لہٰذا صرف خدا یا وہ افراد جو براہ راست اس سے رابطہ میں ہیں، وہی لوگ قانون بنانے کی صلا حیت رکھتے ہیں اور اصو ل وقانون کو صرف مکتب انبیاء اور مرکز وحی سے سیکھنا چاہئے ۔

قرآن نے اسی حقیقت کی جا نب اشارہ کیا ہے :(وَلَقَد خَلَقنَا النسانَ وَنَعلمُ مَا تُوَسوِسُ بِہ نَفسُہُ)( ۱ ) اور ہم نے ہی انسان کو خلق کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیاکیا وسوسے پیدا کرتا ہے ۔

( وَمَا قَدرُوا اللّهَ حَقَّ قَدرِهِ اِذ قَالُوا مَا أنَزَلَ اللّهُ علیٰ بَشَرٍ مِّن

) ____________________

(۱) سورہ ق آیة: ۱۶

۱۰۸

( شیئٍ ) ( ۱ ) اور ان لوگو ں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیاکہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نہیں نازل کیا ۔

نتیجہ بحث

( اِن الحُکم اِلّا للّهِ ) ( ۲ ) حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام آیة: ۹۱

(۲) سورہ انعام آیة:۵۷

۱۰۹

سوالات

۱۔ سبب خلقت کو سمجھنے کے لئے بعثت انبیا، کیو ں ضروری ہے ؟

۲۔ کیا انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے حدیث امام صادق نقل کریں ؟

۳۔ بعثت کے لا زم ہونے پر امام رضاںنے کیا فرمایا ؟

۴ ۔ قانون گذار کے شرائط کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۱۱۰

سولھواں سبق

نبوت عامہ (دوسری فصل )

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال

انبیاء کی بعثت کا مقصد ،خو اہشات کا اعتدال اور فطرت کی جانب ہدایت کرنا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں کہ انسان خو اہشات اور فطرت کے روبرو ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے۔

خواہشات، انسان کے اندر مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہو تے ہیں اور فطرت انسان کو حیوانیت سے نکال کر کمال واقعی تک پہنچاتی ہے اگر فطرت کی ہدایت کی جا ئے تو انسان کمال کی بلندیو ں تک پہنچ جائے گا ،ورنہ خو اہشات سے متاثر ہو کر ذلّت کی پاتال میں غرق ہو جا ئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ خواہشات معتدل رہیں اور فطرت کی ہدایت ہو اور بغیر کسی شک وتردید کے اس اہم عہدہ کا ذمہ دار وہی ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر کے اسرار ورموز سے مکمل باخبر ہو ۔

خو اہشات کے اعتدال کی راہ ،نیز فطرت کی راہنمائی سے مکمل آگاہوباخبر ہو یہ بات ہم عرض کر چکے ہیں کہ دانشمند وں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان اسرار ورموز کا معمہ ہے ۔

نتیجة ً انسان کاپیدا کرنے والا جو کا ئنا ت کابھی مالک ہے صرف وہی تمام خصوصیات سے با خبر ہے اس کے لطف وکرم کا تقاضا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل او ر انسان کو کمال کی بلندیو ں تک پہنچنے کے لئے ایسے انبیا ء کو مبعوث کرے جوبراہ راست اس سے وحی کے ذریعہ منسلک ہیں تاکہ انسان کی ہدا یت ہوسکے ۔

۱۱۱

بعثت انبیاء کا مقصد

انبیاء کے عنوان سے قرآن نے چند اصول بیان کئے ہیں ۔

۱۔( هُوَ الّذیِ بَعَثَ فیِ الأمِیینَ رَسُولا مِنهُم یَتلُوا عَلَیهِم آیاتِه وَیُزکیّهِم وَیُعلّمُهُمُ الکِتَابَ والحِکمةَ و اِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبینٍ ) ( ۱ ) اس نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیا ت کی تلا وت کرے ان کے نفسوں کوپاکیزہ بنائے اور انہیںکتاب وحکمت کی تعلیم دے ،اگر چہ یہ لو گ بڑی کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا تھے اس میں کو ئی شک نہیں کہ سب سے پہلا زینہ جو انسان کے مادی ومعنوی کمال تک رسائی کا سبب ہے وہ علم ہے او رعلم کے بغیر کمال تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

مذکو رہ آیت میں علم سے مراد مادی علوم نہیں ہیں کیونکہ مادی علوم دنیا میں آرام وآسائش کی ضمانت لیتے ہیں اور انبیاء انسان کی سعادت کے لئے دنیوی واخروی دونو ں

____________________

(۱)سورہ جمعہ آیة: ۲

۱۱۲

زندگیو ں کی ضما نت لیتے ہیں۔

خداکی عبادت او رطاغو ت سے اجتناب ومقابلہ( وَلَقَد بَعَثنا فیِ کُلِّ أُمةٍ رَسَوُلاً أَن اعبُدُوا اللّه واَجتَنبُوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ''او ریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو او رطاغوت سے اجتناب کرو'' ۔

۲۔عدالت وآزادی دلا نا ۔( لَقَدْ أَرسَلَنا رُسُلَنَا بِالبَیّنَاتِ وأَنزَلَنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمِیزَانَ لَیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ ) ( ۲ )

بیشک ہم نے اپنے رسولو ں کو واضح دلا ئل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ اصل مقصد وہ تمام اصول جنہیں پیغمبروں کے مبعوث ہو نے کا سبب بتایا گیا ہے تمام کے تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہیں۔

یعنی انبیاء کے آنے کا اصل مقصد بندوں کو خدا پرست بنانا ہے اور یہ اللہ کی بامعرفت عبادت کے ذریعہ ہی میّسرہے اور انسان کی خلقت کا اصل مقصدبھی یہی ہے( ومَا خَلَقتُ الجِنّ وَالانسَ اِلّا لِیَعبُدونَ ) ( ۳ ) '' ہم نے جنا ت وانسان کو نہیں خلق کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں''۔

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ

لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیا ء کا مبعوث ہونا اس بحث کے بعد اب یہ بات

____________________

(۱) سورہ نحل آیة :۳۶

(۲) سورہ حدید آیة:۲۵

(۳) سورہ ذاریا ت،۵۶

۱۱۳

سامنے آتی ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ نبوت کا دعوی کرنے والااپنے دعوی میں سچا ہے۔؟

اگر کو ئی کسی منصب یاعہدے کا دعوی کرے جیسے ،سفیر ،مجسٹریٹ ، یا ڈی ایم، یا اس جیسا کو ئی اورہو جب تک وہ اپنے دعوی پر زندہ تحریر پیش نہ کرے کوئی بھی اس کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ۔

مقام رسالت او رسفیر ان الٰہی کا دعوی کرنے والوں کی تو بات ہی دیگر ہے نبوت و رسالت سے بلند مرتبہ اور کیاشی ٔ ہو سکتی ہے ؟ ایک انسان دعوی کرے کہ اللہ کا سفیر ہوں اور خدا نے مجھے زمین پر اپنا نمایندہ بناکر بھیجاہے لہٰذاسبھی کو چاہئے کہ میری اتباع کریں ۔

فطرت کسی بھی شخص کو بغیر کسی دلیل کے دعوی کوقبول کرنے کی اجا زت نہیں دیتی ،تاریخ گواہ ہے کہ کتنے جاہ طلب افراد نے سادہ دل انسانوں کو دھو کا دے کر نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے ،اسی لئے علماء علم کلا م نے پیغمبروں کوپہچاننے کے لئے راستے او رطریقے معین کئے ہیں ،ان میں سے ہر ایک پیغمبروں کو پہچاننے او ران کی حقانیت کے لئے زندہ دلیل ہے ۔

پہلی پہچان :معجزہ ہے علماء کلا م او ردیگر مذاہب کا کہنا ہے کہ معجزہ ایسے حیرت انگیز اور خلا ف طبیعت کام کو کہتے ہیں کہ جسے نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیتا ہے او ر تمام لوگو ں کواس کے مقابلہ کے لئے چیلنج کرتا ہے اور ہر شخص اس جیسا فعل انجام دینے سے قاصر ہے لہٰذا معجزہ کے تین رخ ہیں ۔

۱۔ایسا کام جو انسانو ں کی طاقت سے حتیٰ نوابغ دہر کی بس سے باہر ہو ۔

۲۔ معجزہ نبو ت ورسالت کے دعوی کے ساتھ ہو او ر اس کا عمل اس کے دعوی کے مطابق ہو۔

۳۔دنیا والو ںکے لئے اس کا مقابلہ کرنا ''اس کے مثل لانا''ممکن نہ ہو سبھی اس سے عاجز ہو ں ۔

اگر ان تینو ں میں سے کو ئی ایک چیز نہیں پائی جا تی تو وہ معجزہ نہیں ہے ابوبصیر کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادق سے پوچھا کہ ،اللہ نے انبیاء و مرسلین اور آپ ''ائمہ '' کو معجزہ کیو ں عطاکیا ؟آپ نے جواب میں فرمایا : تاکہ منصب کے لئے دلیل قرار پائے او رمعجزہ ایسی نشانی ہے جسے خدا اپنے انبیاء ،مرسلین اور اماموں کو عطا کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جھوٹے او رسچے کی پہچان ہو سکے ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۱ ،ص ۷۱

۱۱۴

سوالات

۱۔ فطرت کی راہنمائی او رخو اہشات کے میانہ روی کے لئے انبیا ء کا ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

۲۔ قرآن کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کا مقصد کیا ہے ؟

۳۔ پیغمبروں کے پہچاننے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔ معجزہ کیاہے اور اس کے شرائط کیا ہیں بیا ن کریں ؟

۱۱۵

سترہواں سبق

نبو ت عامہ (تیسری فصل )

جا دو ،سحر ،نظر بندی اور معجزہ میں فرق !

جب کبھی معجزہ کے بارے میں بات کی جا تی ہے تو کہا جا تا ہے کہ معجزہ ایک ایسے حیرت انگیز فعل کانام ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزہ ، جادو ، سحر نیز نظر بندکرنے والوں کے حیرت انگیزکرتبوں میں کیسے فرق قائم کیا جائے ۔

جو اب :معجزہ اور دوسرے خارق العادت کاموں میں بہت فرق ہے ۔

ا۔ نظر بندی او رجادو گری ایک قسم کی ریاضت کانام ہے اور جادوگر استاد سے جادو سیکھتا ہے لہٰذا ا ن کے کرتب مخصوص ہیںجو انھو ںنے سیکھا ہے وہ فقط اسی کو انجام دے سکتے ہیں اس کے علاوہ کسی کام کو انجام نہیں دے سکتے لیکن نبی ورسول معجزے کو کسی استاد سے نہیں سیکھتے ،لیکن پھر بھی معجزے کے ذریعہ ہرکام انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ حضرت صالح سے پہاڑ سے او نٹ نکالنے کوکہاگیا انہو ںنے نکا ل دیا ، جب حضرت مریم سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عیسی جوکہ گہوارے میں ابھی چند دن کے تھے فرماتے ہیں :

۱۱۶

( قا لَ أِنِّیِ عَبدُاللّهِ آتٰنی الکِتَابَ وَجَعلَنیِ نَبِیّاً ) ''میں اللہ کابندہ ہو ں اللہ نے مجھے کتا ب دی ہے اور نبی بناکر بھیجاہے''۔( ۱ )

یا جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ کی مانگ کی گئی تو پتھروں نے آنحضرت کے دست مبارک پرآکر ان کے رسالت کی گواہی دی ۔

۲۔ جادو گر وں یا شعبدہ بازوں کے کرتب زمان ومکان او رخاص شرائط میں محدود ہیں او رمخصوص چیزوں کے وسیلوں کے محتاج ہیں، لیکن پیغمبروںورسولوں کے معجزے چونکہ ان کا سرچشمہ خدا کی لا متناہی قدرت ہے لہٰذا کو ئی محددیت نہیں ہے وہ کبھی بھی کو ئی بھی معجزہ پیش کر سکتے ہیں ۔

۳۔جادوگروں اور نظربندوں کے کام زیادہ تر مادی مقصدکے پیش نظر انجام پاتے ہیں ( چاہے پیسوں کی خاطر ہو یا لوگو ں کو اپنی طرف کھینچنے یا دوسرے امور کے لئے ) لیکن انبیاء کامقصد متدین افراد کی تربیت اور معاشرہ کو نمونہ بنانا ہے ۔ اور وہ لوگ (انبیاء ومرسلین ) کہتے تھے( وَمَاَ أَسئَلُکُم عَلَیهِ مِنْ أَجرٍ اِن أَجرِی اِلَّا علیٰ رَبِّ العَالمِینَ ) ( ۲ ) ''اور میں تم سے اس کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہو ں اس لئے کہ میرا اجر تو عالمین کے رب کے ذمہ ہے'' ۔

۴۔جادوگروںاورشعبدہ بازوںکے کرتبوںکامقابلہ ممکن ہے یعنی دوسرے

____________________

(۱) سورہ مریم آیة :۳۰

(۲) سورہ شعراء آیة:۱۸۰ ،۱۶۴،۱۴۵،۱۲۷،۱۰۹

۱۱۷

بھی اس جیسا فعل انجام دے سکتے ہیں ،لیکن پیغمبروں کے معجزہ کی طرح کوئی غیرمعصوم شخص انجام نہیں دے سکتا ۔

ہر پیغمبر کا معجزہ مخصوص کیو ںتھا ؟

جبکہ ہر نبی ہر حیرت انگیز کام کو انجام دے سکتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے پاس متعد د معجزے تھے مگر ایک ہی کوزیادہ شہرت ملی ۔

ابن سکیت نامی ایک مفکر نے امام ہادی ں سے پوچھا :کیو ں خدا نے موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور جادوگروں جیسا معجزہ دیا؟ حضرت عیسیٰ کو مریضوں کو شفادینا اور مردوںکو زندہ کرنے والا معجزہ عطاکیا؟اور رسول اسلا م کو قران جیسے حیرت انگیز کلام کے مجموعے کے ساتھ لوگوں میں بھیجا۔

امام ںنے فرمایا : جب خدا نے حضرت موسی کو مبعوث کیاتو ان کے زمانے میں جادوکا بول با لا تھا لہٰذا خدانے اس زمانے جیسا معجزہ دیا چونکہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا او راپنے معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو شکست دی اور ا ن پر حجت تمام کی ۔

جب جنا ب عیسیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے آئے تواس وقت حکمت وطبابت کا شہرہ تھا لہٰذا خدا کی جانب سے اس زمانے کے مطابق معجزہ لے کر آئے اوراس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا، انھوں نے مردو ں کو زندہ کرکے اور مریضو ں کو شفا دے کر، نابینا کو آنکھ عطاکر کے جذام کودور کرکے تمام لوگوں پر حجت تمام کی ۔

۱۱۸

جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت فصاحت وبلا غت کا سکہ چل رہا تھا خطبہ او رانشاء اس وقت کے سکۂ رائج الوقت اور مقبول عام تھے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی جانب سے ان کو موعظہ ونصیحت کے حوالے سے گفتگو کی جس کا مقابلہ کرنالوگوں کی سکت میں نہیں تھا، اپنے مواعظ ونصائح کو قرآنی پرتو میں پیش کیا او رباطل خیالات کو نقش بر آب کردیا ۔

دوسری پہچان ۔انبیاء کی شناخت کادوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس نبی کی نبوت دلیل کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہو وہ اپنے آنے والے نبی کے نام اور خصوصیات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے جیساکہ تو ریت وانجیل میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے سے پیشین گوئیاںکی گئی ہیں ،قرآن ان پیشین گو ئیو ں میں سے حضرت عیسیٰ کے قول کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے( وَاِذْ قَالَ عِیسیٰ بنُ مَریَم یا بَنی اِسرائِیلَ اِنِّیِ رَسُوُلُ اللّهِ اِلیکُم مُصَدِّقاً لِمَا بَینَ یَدیَّ مِن التوراةِ ومُبشّراً بِرسُولٍ یَأتِی مِن بَعدیِ اسُمُه أحمدُ ) ( ۱ ) اس وقت کویاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو ںاپنے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا او راپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہو ں، جس کا نام احمد ہے اسی طرح سورہ اعراف کی آیة ۱۵۷ میں ارشاد ہوا( الذین یتبعون )

____________________

(۱) سورہ صف آیة: ۶

۱۱۹

تیسری پہچان ۔ تیسرا طریقہ انبیاء کو پہچاننے کا وہ قرائن وشواہد ہیںجوقطعی طور پر نبوت ورسالت کوثابت کرتے ہیں ۔

خلا صہ

۱۔جو نبوت کا دعوی کرے اس کے روحانی اور اخلاقی خصوصیات کی تحقیق۔ (مدعی نبوت کی صداقت کی نشانیوں میں سے اعلیٰ صفات او ربلند اخلاق ہو نا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں میں نیک چلن اور صاحب کردار کے نام سے جانا جائے)

۲۔ عقلی پیرائے میں اس کے احکام وقوانین کو پرکھاجائے کہ کیا اس کے احکام وقوانین ،الٰہی آئین کے تحت اور معارف اسلام وفضائل انسانی کے مطابق ہیں؟یا اس کی دوسری پہچان ہے ۔

۳۔ اپنے دعوی پہ ثابت قدم ہو ا ور اس کا عمل اس کے قول کاآئینہ دار ہو ۔

۴۔ اس کے ہمنوااور مخالفین کی شناخت ۔

۵۔ اسلو ب تبلیغ کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اپنے قوانین کے اثبات کے لئے کن وسائل اور کن راستو ں کاسہارالے رہا ہے ۔

جب یہ تمام قرآئن وشواہد اکٹھا ہو جائیں تو ممکن ہے مدعی نبوت کی نبوت کی یقین کاباعث بنے ۔

سوالات

۱۔ سحر ،نظر بندی، اور معجزہ میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ ہر نبی کا معجزہ مخصوص کیو ں تھا ؟

۳۔ انبیاء کی شناخت کے قرائن وشواہد کیاہیں ؟

۱۲۰

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(۱)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (۲)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (۳)

--------------

( ۱ ) سورہ سجدہ آیت ۱۸

( ۲ )سورہ واقعہ آیت ۱۰ ۔ ۱۱

( ۳ )سورہ انفال آیت ۷۲

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (۱)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (۲) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (۳)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

۱۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

۲۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( ۱ )سورہ بقرہ آیت ۲۴۷

( ۲ )سورہ مریم آیت ۲۸

( ۳ )سورہ نساء آیت ۹۵

۱۲۲

۳۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

۴۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

۵۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

۶۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت ۵۶:

(۵۶) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت ۵۷:

(۵۷) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(۱) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( ۱ )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(۱) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (۲)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (۳)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (۴)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (۵)

--------------

( ۱ )تفسیر نور الثقلین.

( ۲ )سورہ اعلیٰ آیت ۱۷

( ۳ )سورہ بقرہ آیت ۱۸۴

( ۴ )سورہ حج آیت ۳۶

( ۵ )سورہ اعراف آیت ۲۶

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (۱)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (۲)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (۳)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (۴)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (۵)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (۶)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (۷)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( ۱ )سورہ بقرہ آیت ۲۱۶

( ۲ )سورہ زمر آیت ۳۴

( ۳ )سورہ فرقان آیت ۱۶

( ۴ )سورہ زمر آیت ۷۴

( ۵ )سورہ زمر آیت ۱۰

( ۶ )سورہ واقعہ آیت ۱۹

( ۷ )سورہ بقرہ آیت ۱۱۲

۱۲۶

پیام:

۱۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

۲۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

۳۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

۴۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

۵۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

۶۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

۷۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

۸۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

۹۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

۱۰۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

۱۱۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

۱۲۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

۱۳۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

۱۴۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

۱۵۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

۱۶۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت ۵۸:

(۵۸) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً ۲۰ بیس سے تیس ۳۰ سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(۱)

--------------

( ۱ )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

۱۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

۲۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

۳۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت ۵۹:

(۵۹) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(۱)

--------------

( ۱ )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت ۷۲ ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت ۱۵۵ ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت ۸۹ ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت ۳۰ ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت ۱۰۹

۱۳۱

پیام:

۱۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

۲۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

۳۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

۴۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

۵۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

۶۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

۷۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۸۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت ۶۰:

(۶۰) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

۱۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

۲۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

۳۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

۴۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت ۶۱:

(۶۱)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت ۶۲:

(۶۲) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

۱۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

۲۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

۳۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۴۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

۵۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

۶۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

۷۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت ۶۳:

(۶۳) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

۱۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

۲۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

۳۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

۴۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

۵۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت ۶۴:

(۶۴) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

۱۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

۲۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

۳۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

۴۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

۵۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

۱۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

۲۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

۳۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

۴۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (۱) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

۵۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت ۶۵:

(۶۵)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( ۱ )آیت نمبر ۱۲ میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246