یوسف قرآن

یوسف قرآن 30%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174800 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(۱)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (۲)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (۳)

--------------

( ۱ ) سورہ سجدہ آیت ۱۸

( ۲ )سورہ واقعہ آیت ۱۰ ۔ ۱۱

( ۳ )سورہ انفال آیت ۷۲

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (۱)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (۲) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (۳)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

۱۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

۲۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( ۱ )سورہ بقرہ آیت ۲۴۷

( ۲ )سورہ مریم آیت ۲۸

( ۳ )سورہ نساء آیت ۹۵

۱۲۲

۳۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

۴۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

۵۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

۶۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت ۵۶:

(۵۶) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت ۵۷:

(۵۷) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(۱) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( ۱ )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(۱) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (۲)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (۳)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (۴)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (۵)

--------------

( ۱ )تفسیر نور الثقلین.

( ۲ )سورہ اعلیٰ آیت ۱۷

( ۳ )سورہ بقرہ آیت ۱۸۴

( ۴ )سورہ حج آیت ۳۶

( ۵ )سورہ اعراف آیت ۲۶

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (۱)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (۲)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (۳)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (۴)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (۵)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (۶)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (۷)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( ۱ )سورہ بقرہ آیت ۲۱۶

( ۲ )سورہ زمر آیت ۳۴

( ۳ )سورہ فرقان آیت ۱۶

( ۴ )سورہ زمر آیت ۷۴

( ۵ )سورہ زمر آیت ۱۰

( ۶ )سورہ واقعہ آیت ۱۹

( ۷ )سورہ بقرہ آیت ۱۱۲

۱۲۶

پیام:

۱۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

۲۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

۳۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

۴۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

۵۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

۶۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

۷۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

۸۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

۹۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

۱۰۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

۱۱۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

۱۲۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

۱۳۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

۱۴۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

۱۵۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

۱۶۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت ۵۸:

(۵۸) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً ۲۰ بیس سے تیس ۳۰ سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(۱)

--------------

( ۱ )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

۱۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

۲۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

۳۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت ۵۹:

(۵۹) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(۱)

--------------

( ۱ )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت ۷۲ ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت ۱۵۵ ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت ۸۹ ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت ۳۰ ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت ۱۰۹

۱۳۱

پیام:

۱۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

۲۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

۳۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

۴۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

۵۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

۶۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

۷۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۸۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت ۶۰:

(۶۰) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

۱۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

۲۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

۳۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

۴۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت ۶۱:

(۶۱)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت ۶۲:

(۶۲) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

۱۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

۲۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

۳۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۴۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

۵۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

۶۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

۷۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت ۶۳:

(۶۳) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

۱۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

۲۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

۳۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

۴۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

۵۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت ۶۴:

(۶۴) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

۱۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

۲۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

۳۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

۴۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

۵۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

۱۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

۲۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

۳۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

۴۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (۱) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

۵۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت ۶۵:

(۶۵)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( ۱ )آیت نمبر ۱۲ میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

(7)انفاق کرنے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنٰا کُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَأتِی یَوْم لَا بَیع فِیْهِ وَلَا خُلَّة وَلَا شَفَاعَة--- (بقره ٢٥٤)

ترجمہ:

اے ایمان والو جو تمھیں رزق دیا گیاہے، اس میں سے راہ خد میں خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش۔

پیغام:

خدا اور قیامت پر ایمان تمام امور خیریہ من جملہ انفاق کا پیش خیمہ ہے۔

حضرت علی ـسے مروی ہے کہ دنیا دوستان خدا کے لیے تجارت کی جگہ ہے جہاں وہ انفاق اور اعمال خیر کے ذریعہ اپنی آخرت کو آباد کرتے ہیں لیکن دوسرے افراد دنیا کوصرف دنیا کے لیے چاہتے ہیں۔

(8) پرہیز گار

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِصْبِرُوا وَصٰابِروا وَ رَابِطُوا واتَّقُواللّٰهَ لَعَلّکُم تُفْلِحُونَ- (آل عمران ٢٠٠)

۱۸۱

ترجمہ:

اے ایمان والو صبر کرو ، صبر کی تعلیم دو، جہاد کیلئے تیاری کرو اور اللہ سے ڈرو شاید تم فلاح یافتہ اور کامیاب ہوجاؤ۔

پیغام:

امام صادق ـ سے روایت ہے کہ واجبات الٰہی کے پابند رہو، مشکلات کے سامنے صبر واستقامت سے کام لو اور اپنے پیشوا کا دفاع کرو۔

(9)صابر

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا استَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوة انَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ-(بقره ١٥٣)

ترجمہ:

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو کہ خد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

پیغام:

نماز خدا سے رابطہ کا بہترین وسیلہ ہے۔ صبر مشکلات پر قابو پانے کا نام ہے۔ گناہ پر صبر تقوے الٰہی ہے ، شہوت پر صبر پاکدامنی ہے، مصیبت پر صبر اطمینان اور سکون پر دلیل ہے، خدا صابرین کے ساتھ ہے خدا نیک افراد کے ساتھ ہے، خدا صاحبان تقویٰ کے ساتھ ہے، یعنی اُن سے خاص محبت کرتاہے۔

۱۸۲

(10)عدالت خواہاں

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا کُونُوا قَوَامِیْنَ بِالقِسْط شُهدائَ لِلّٰهِ وََلَوْ علی أَنْفسِکُمْ أَوِالْوٰالِدَیْن وَالْأَقْرَبِیْنَ اَن یّکُن غَنَیًّا أَوْ فَقِیرًا فَاللّٰهِ اوُلٰی بِهِمٰا- (نساء ١٣٥)

ترجمہ:

اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لیے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقربا ہی کی خلاف کیوں نہ ہو جس کے لیے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیرخدا تو (تمھارے ساتھ) ان پر زیادہ مہربان ہے۔

پیغام:

انسان کو ہمیشہ اپنی ذات اور اپنے عزیز و اقارب کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے، زندگی کے ہر شعبہ میں عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے ، انبیاء کرام کے آنے کا مقصد عدل و انصاف کو معاشرہ میں قائم کرنا تھا، سورہ مائدہ کی آٹھویں آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دشمن کے بارے میں بھی عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے۔

امام علی ـ سے منقول ہے کہ خداوندعالم نے زمین و آسمان کو پایہ عدالت پر استوار کیا ہے۔

۱۸۳

(11) یاد رکھنے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اذکُروا نِعْمَة اللّٰهَ عَلَیْکُمْ اِذ جٰا ئَ تْکُمُ جُنُود فَأَرْسَلْنٰا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَ جُنُودًا لَمْ تَروهٰا وَکَاْنَ اللّٰهُ بِمٰا تَعْمَلُونَ بَصِیْرا - (احزاب ٩)

ترجمہ:

اے ایمان والو! اللہ کی اُس نعمت کو یاد کرو جب کفر کے لشکر تمھارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمھاری مدد کے لیے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمھارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

پیغام:

یہ آیت جنگ احزاب (جنگ خندق 5 ہجری) میں نازل ہوئی، یہ قانون الٰہی ہے کہ اگر ہم خدا کا ساتھ دیں تو وہ بھی ہماری نصرت و امداد کریگا، خدا کی ایک عظیم نعمت یہ ہے کہ اُس نے ہمیشہ اسلام اور اُمت مسلمہ کی حمایت کی ہے۔

(12)خبر فاسق کی تحقیق

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِنْ جٰاء کُمْ فٰاسِق بِنَبَائٍ فَتَبَیِّنُوا أَنْ تُصِیْبُوا قَوْمًا بِجَهٰالَةٍ فَتُصْبَحُوا عَلٰی فَعَلْتُمْ نٰادِمِیْنَ- (حجرات ٦)

۱۸۴

ترجمہ:

ایمان والو اگر فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے۔

پیغام:

جو شخص خدا کا مطیع و فرمانبردار نہ ہو وہ فاسق ہے، خدا کے اس دستور کی اہمیت کا اندازہ آج کے دور میں زیادہ سے زیادہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ زیادہ تر نشر واشاعت اور روابط کے امور کی انجام دہی مستکبرین اور منافقین کے ہاتھ میں ہی ہے۔

(13) مذاق نہ اڑانے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَوْم مِنْ قومً--- وَلَا تَنَابَروا بَالْأَلْقٰابِ---(حجرات ١١)

ترجمہ:

ایمان والو خبردار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑاے۔۔۔ اور آپس میں ایک دوسرے کو برے برے القاب سے بھی یاد نہ کرنا۔

پیغام:

قرآن کی بہت سی آیات معاشرتی آداب کو بیان کرتی ہیں، خداوند عالم چاہتا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں اتحاد اور پیار ومحبت سے زندگی گزاریں، اس آیت میں اور اسی طرح دوسری آیات میں ان عوامل اور اسباب سے جو تفرقہ اور جدائی کا باعث بنتے ہیں ، روکا ہے۔

۱۸۵

(14) اپنا محاسبہ کرنے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اتقواللّٰهَ وَلِتُنظُر نَفس ما قَدَّمَت لِغَدٍ وَاتَّقوا للّٰهُ خَبِیْر بِمٰا تَعْمَلُوْن-(حشر ١٨)

ترجمہ:

ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ یقینا تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔

پیغام:

تقوے کے دومرحلے ہیں، پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان نیک کام انجام دے اور بُرے کاموں سے پرہیز کرے، اور دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انجام شدہ کاموں پر تجدید نظر کرے۔

(15) مغضوب سے دوستی نہ کرنا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا لَا تَتَولَّوا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ قَدْ یَئِسوا مِنَ الاٰخِرَةِ کَمٰا یَئِسَ الکُفَّارُ مِنَ أَصْحٰابِ القُبُور- (ممتحنه ١٣)

۱۸۶

ترجمہ:

ایمان والو خبردار اُس قوم سے ہرگز دوستی نہ کرنا جس پر خدا نے غضب نازل کیا ہے کہ وہ آخرت سے اسی طرح مایوس ہونگے جس طرح کفار قبر والوں سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

پیغام:

جو لوگ روز آخرت پر یقین نہیں رکھتے اُن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اسلام (ص)سے منقول ہے جو شخص کسی قوم کی شبیہ بن جائے اس کا طور طریقہ اور چال چلن اپنالے تو اُسی قوم میں شمار کیا جائے گا۔

ہر قوم و ملت سے دوستی کے چند مرحلے ہیں:

اپنی جان اور مال سے ان کی مدد کرنا، ان کی روز بروز ترقی کا طلب گار ہونا، ان کی عادات کی پیروی کرنا۔

(16) جو کہو اُس پر عمل کرو

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مٰا لَا تَفْعَلُونَ - کَبُرَ مقتًا عِنْداللّٰهِ ان تَقُولُوا مٰا لَا تَفْعَلُونْ-(صف ٢،٣)

ترجمہ:

ایمان والو آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے، اللہ کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو۔

۱۸۷

پیغام:

خدا اُس سے ناراض ہوتا ہے جس کے قول اور فعل میں تضاد ہو۔

رسالت مآب (ص) سے منقول ہے کہ ایمان محض دعوے اور آرزو کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ایمان یہ ہے کہ دل میں خالص موجود ہو اور عمل اُس کی تائید کرے۔

امام صادق ـ سے مروی ہے کہ حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان حق کو جو ظاہری طور پر اس کے لیے نقصان دہ ہے اُس باطل پر ترجیح دے جو ظاہری طور پر اس کے لیے سود مند ہے۔

(17) متقی اور مجاہد

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا هَلْ أَدُّلْکُمْ عَلٰی تجارةٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِیْم تومنون باللّه وَ رَسُوْلِهِ وَتُجٰاهِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِأَمْوالِ کُمْ وَ أَنْفُسِکُمْ ذٰالِکُمْ خَیْر لَکُمْ اِنْ کُنْتُم تَعْلَمُونَ-(صف ١٠،١١)

ترجمہ:

اے ایمان والو کیا میں تمھیں ایک ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچالے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے جہاد کرو یہی تمھارے حق میں سب سے بہتر ہے اگر تم جاننے والے ہو۔

پیغام:

ہر معاملہ میں نفع اور نقصان کا احتمال ہوتا ہے ، لیکن اگر خدا سے معاملہ کیا جائے تو صرف نفع ہی نفع ہے، اور نفع بھی ایسا جو خدا کے مقام و منصب کے مناسب ہو۔

۱۸۸

(18)ذکر خدا میں تعجیل

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِذَا نُودیَ لِلصَّلوٰةِ مِنْ یَوْمِ الجُمْعَةِ فَاسْعُوا اِلٰی ذِکْرِاللّٰهِ ----(جمعه ٩)

ترجمہ:

اے ایمان والو جب تمھیں جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو ذکر خدا کی طرف دوڑو۔۔۔

پیغام:

پیغمبر اسلام (ص) سے منقول ہے کہ نماز جمعہ فقراء و مساکین کے لیے حج ہے۔

ایک اور روایت میں آنحضرت (ص) سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ بجالاتا ہے تو اُسے خدا کی بارگاہ سے قبول شدہ حج کا ثواب ملتا ہے اورجب نماز عصر بجالاتا ہے تو پھر عمرہ کا ثواب ملتاہے۔

(19)دشمن خدا سے بیزار

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا لَا تَتَّخِذوا عَدُّوِی وعَدُّوُکُمْ أَوْلِیٰائَ تُلْقُونَ اِلَیْهِمْ بِالمَودَّةِ و قَدْ کَفَروا بِمٰا جَائَ کُمْ مِنَ الحَقَّ--- (ممتحنه ١٠)

۱۸۹

ترجمہ:

ایمان والو خبردار میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جبکہ انھوں نے اس حق کا انکار کردیا ہے جو تمہارے پاس آچکا ہے۔

پیغام:

جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے وہ کفّار کے سامنے ذلت کو برداشت نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ خدا اور رسول کے دشمن مومن سے دشمنی رکھتے ہیں۔

اسلام میں دشمن شناسی ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

طاغوتی طاقتیں مختلف حربوں کے ذریعہ اپنے آپ کو حقوق بشر، آزادی اور امن وامنیت کا علمبردار کہہ کر اپنے ناپاک جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔

(20)خدا کا مددگار

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِن تَنْصُرو اللّٰهَ یَنْصُرْکُمْ ویُثبِّتْ أَقْدَامَکُمْ- وَالَّذِیْنَ کَفَرُوا فَتَعساً لَّهُمْ وَ أَضَل أَعْمٰالَهُمْ- (محمد ٧،٨)

ترجمہ:

ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ بھی تمھاری مدد کرے گا ، اور تمھیں ثابت قدم بنادے گا، اور جن لوگوں کفر اختیار کیا ان کے واسطے ڈگمگاہٹ ہے اور ان کے اعمال برباد ہیں۔

۱۹۰

پیغام:

جو لوگ کفر اختیار کرتے ہیں وہ لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں اور ان کے اعمال تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ، اس میں کوئی شخص نہیں ہے کہ خدا نے صاحبان ایمان سے نصرت کا وعدہ کیا ہے اور ان کی مدد بھی کرتا ہے، لیکن یہ سب اس بات پر مشروط ہے کہ بندہ خدا کی مدد کرے، تو خدا بھی بندے کی مدد کریگا، بندہ خدا کا ذکر کرے تو خدا بھی بندے کا ذکر کرے گا، بندہ خدا کا شکر کرے تو خدا نعمتوں میں اضافہ کرے گا۔

حق کو نابود کرنے کے لیے کفار کی کوششوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی چاہے کہ اپنے منہ سے نور خورشید کو بجھادے۔

(21)توبہ کرنے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا تُوبُوا اِلٰی اللّٰهِ تَوْبَةً نَصُوحًا----(تحریم ٨)

ترجمہ:

ایمان والو خلوص دل کے ساتھ توبہ کرو۔

پیغام:

امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے : توبہ نصوح سے مراد ہے کہ دل بھی اُسی طرح توبہ کرے جیسے اس کا ظاہر توبہ کررہا ہے۔ رسالت مآب (ص) سے روایت ہے کہ توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اُس نے گناہ ہی نہیں کیا۔

ایک اور مقام پر پیغمبر اسلام (ص)سے مروی ہے کہ خدا کے نزدیک محبوب ترین شخص توبہ کرنے والا مرد یا عورت ہے۔

تمّت بالخیر۔ نسیم حیدر زیدی

1427 ھ ق

۱۹۱

فہرست

آغازسخن 3

پہلی فصل(قرآن) 4

(ا) قرآن کا مثل نہیں لاسکتے 5

خالق اور مخلوق کا کیا مقابلہ۔ 5

(2) دس سورے لے آؤ 5

(3) ایک سورہ لے آؤ 6

(4) تد بّر کرو 7

(5) تلاوت سے پہلے 7

(6) غور سے سنو 8

(7) مجسمہ ہدایت 9

(8) نور کی طرف دعوت 9

(9) قرآن کی عظمت 10

(10) قرآن کی تلاوت 11

(11) پیغمبر اسلام کی فریاد 11

(12) کمالِ رحمت 12

(13) پہاڑ کا ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا 13

(14) قرآن کی دلوں پر تأثیر 13

(15) کفار کی بہانہ جوئی 14

(16) حفاظت الٰھی 15

(17) بابرکت کتاب 15

۱۹۲

(18) حجاب 16

(19)رحمت اور بشارت 17

(20) صاحبان تقویٰ کیلئے ہدایت 17

(21) تصدیق کرنے والی 18

دوسری فصل(اہل بیت(علیھم السلام) 19

(1) ریسمان الٰہی 20

(2) کمال د ین اور اتمام نعمت 20

(3) ولایت 21

(4) تکمیل رسالت 22

(5) صادقین 23

(6) ایثار کا نمونہ 24

(7) برائی سے دوری 24

(8) خوشنودی خدا 25

(9) انفاق 26

(10) پیغمبر(ص) کے مددگار 27

(11) اطاعت 27

(12) مودَّت اہل بیت 28

(13) بہترین خلائق 29

(14) محبوب خدا 29

(15) علم و حکمت کے پیکر اتم 30

(16) خیر کثیر 31

۱۹۳

(17) ھادی 31

(18) صراط مستقیم 32

(19) حقِ طہارت 33

(20) نور الھی 34

(21)جناب ابراہیم امیر المومنین کے شیعہ 35

تیسری فصل(امام زمان عج) 36

(1) مومنین کی خوشی اور مسر ت کا دن 37

(2) امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھی 37

(3) آئمہ کی معرفت 38

(4) حق کی کامیابی کا دن 39

(5) دین حق 39

(6) اہل زمین کا دوبارہ زندہ ہونا 40

(7) نورِ الٰہی 40

(8) امام زمانہ علیہ السلام 41

(9)اللّٰہ کا گروہ 42

(10) پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین 42

(11) کافروں کی سزا 43

(12) أَولیٰاء خدا 44

(13) وعدہ الٰہی 44

(14) ظالموں کا انجام 45

(15) زمین کے وارث 46

۱۹۴

(16) لوگوں کے پیشوا 46

(17) نماز کا قیام 47

(18)ذخیرہ الٰہی 48

(19) صالحین کی حکومت 48

(20)امام برحق 49

(21) زمین کا جگمگانا 50

چوتھی فصل(دعا) 51

(1) د نیا اور آخرت میں سعادت کی دعا 52

(2) اپنے اور اپنی اولاد کے حق میں دعا 52

(3) ثابت قدمی کے لئے دعا 53

(4)توبہ کیلئے دعا 54

(5) مومنین کی بخشش کیلئے دعا 55

(6) ہر کام کی اچھی ابتداء اور انتہا کے لئے دعا 56

(7) کافروں پر کامیابی کے لئے دعا 56

(8) صبر و استقامت کیلئے دعا 57

(9) متقیوں اور پرہیز گاروں کے پیشوا ہونے کی دعا 58

(10) طلب رحمت کے لئے دعا 59

(11) مغفرت کیلئے دعا 59

(12) نور ہدایت کی تکمیل کیلئے دعا 60

(13) صبر و تحمل کیلئے دعا 61

(14) ظالموں سے بیزاری کیلئے دعا 62

۱۹۵

(15)شرح صدر کے لئے دعا 62

(16) شکر گذاری کیلئے دعا 63

(17) فرزند صالح کے لئے دعا 64

(18) مومنین کے لئے طلب رحمت کی دعا 65

(19) ثابت قدمی اور کفار پر کامیابی کی دعا 65

(20) صالحین کے ساتھ ملحق ہونے کی دعا 66

(21) نیک افراد کے ساتھ محشور ہونے کی دعا 67

پانچویں فصل(علم) 68

(1) قلم علامت علم 69

(2) تربیت اور تعلیم 69

(3) وہ علم جس کے انبیاء معلم ہیں 70

(4)اسماء حسنی کی تعلیم 71

(5) باعث افتخار 71

(6) ثمر علم 72

(7) قدرت علم 73

(8) مقام و منصب کی شرط 73

(9) وسیلہ امتحان 74

(10) کمال سے روکنے والا 75

(11)ذرائع علم 75

(12) صاحبان علم ہی صاحبا عقل ہیں 76

(13) نقصان دہ علم 77

۱۹۶

(14) سؤال 78

(15) راسخون فی العلم 78

(16) جاننے والے اور نہ جاننے والے 79

(17) عالم بے عمل 80

(18) علم و قدرت خدمت انسان میں 81

(19) معلم بزرگ 81

(20) علم اور تقویٰ 82

(21)خیر فراوان 83

چھٹی فصل(اسرار کائنات) 84

(1) خاک سے پیدائش 85

(2) جَنِین کے مراحل 85

(3) تاریکی میں خلقت 86

(4) بڑھاپا 87

(5) کشش ثِقل 88

(6) زمین کی گردش 89

(7) وسعت آسمان 89

(8) سیاروں کی خلقت 90

(9)سبز درخت سے آگ 91

(10) پہاڑوں کی حرکت 91

(11) پہاڑ 92

(12) ہر چیز کا جوڑا 93

۱۹۷

(13) ستون آسمان 93

(14) گول زمین 94

(15) پانی سے خلقت 95

(16) درختوں میں نظام زوجیّت 95

(17) سورج کی گردش 96

(18)حیوانات کی گفتگو 97

(19) زمیں کے اردگرد کی فضائ 97

(20) پودوں میں عمل لقاح 98

(21) سورج کا تاریک ہونا 99

ساتویں فصل(غور وفکر) 100

(1) بہترین انتخاب 101

(2) صاحبان علم اور صاحبان عقل 102

(3) کم عقل لوگ خدا کے نزدیک 102

(4)صاحبان معرفت 103

(5) غورو فکر کی دعوت 104

(6) غور و فکر کا مقام (1) 104

(7)غور و فکر کا مقام (2) 105

(8) غور و فکر کا مقام (3) 106

(9) غور و فکر کا مقام (4) 106

(10) غور و فکر کا مقام (5) 107

(11) غور و فکر کا مقام (6) 108

۱۹۸

(12)غور و فکر کا مقام (7) 108

(13) کم عقل لوگ حق کے دشمن 109

(14) دشمنان حق کا سر انجام 110

(15)کم عقلی پلیدگی و گندگی ہے 110

(16) کم عقلی کا نتیجہ 111

(17) کیا صاحبان عقل اور کم عقل مساوی ہیں 112

(18) معرفت اور آگاہی کے ساتھ 112

(19) وسوسہ شیطان 113

(20)میدان عمل 114

(21) کافروں کی کم عقلی 114

آٹھویں فصل(انسان) 116

(1) بہترین ساخت 117

(2)خود آگاہ 117

(3) خود فریبی 118

(4) آزاد 119

(5) فرشتوں کے مقابل 119

(6) خبردار 120

(7) نقطہ ضعف کامل 121

(8) امتحان 121

(9) مورد تنقید 122

(10) زندگی کے مراحل 123

۱۹۹

(11) اختیار 124

(12) انسان کا سوال 124

(13) غلط سوچ 125

(14) جانشین 125

(15)شیطان انسان کا دشمن 126

(16) امانت دار 127

(17) انسان ہوشیار ہوجاؤ 127

(18) کائنات انسان کے لیے 128

(19) تلاش و کوشش کا ہدف 129

(20) خطرہ سے ہوشیار 129

(21)نا شکری 130

نویں فصل(عورت) 131

(1) معنوی مساوات 132

(2) خلقت میں مساوات 132

(3) دورِ جاہلیت میں۔ 133

(4) معاشرتی مسائل میں 134

(5) حجاب میں 134

(6) مورد خطاب 135

(7) کافروں کے لئے مثال 136

(8) نمونہ عمل 137

(9) صاحبان ایمان کے لیے مثال 137

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246