یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174810 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پیام:

۱۔فرزندان یعقوب (ع) اپنے باپ کے ساتھ تو زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کےلئے اسباب خوردونوش فراہم کرنے کےلئے تلاش و جستجو کرتے تھے۔( فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ یَاأَبَانَا...)

۲۔حضرت یوسف (ع) کا ہنر فقط یہ نہ تھا کہ وہ انسان کامل تھے بلکہ آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ انسان سازی کررہے تھے۔''اپنے حاسد اور جفاکار بھائیوں کو مخفی طور پر ہدیہ دیا تاکہ دوبارہ آنے کے لئے راستہ ہموار ہوسکے''(وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ) (۱)

۳۔اگر شروع میں جنس کی قیمت نہ لی جائے تو خریدار کی تحقیر ہو گی ۔ اگر ہدیہ کا قصد ہے تو پہلے قیمت لے لی جائے پھر محبت آمیز شکل میں پلٹا دیا جائے(رُدَّتْ إِلَیْهِمْ)

۴۔اگر فراری کبوتر کو پکڑنا چاہو تو تھوڑا سا دانہ اسے ڈالنا پڑے گا '' یوسف (ع) نے غلہ کی قیمت لوٹا دی تا کہ پلٹنے کا ارادہ اور قوی ہوجائے''( بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ )

۵۔مرد گھر والوں کو غذا فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔(نمیر اهلن)

۶۔قحط اور کمیابی کے حالات میں اشیاء خوردونوش کو محدود حصوں میں بانٹنا یوسفی سنت ہے۔(نَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ )

--------------

( ۱ )قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے(ادفع باللتی هی احسن ) یعنی برائی کا جواب اچھائی سے دو۔ سورہ فصلت آیت ۳۴

۱۴۱

آیت ۶۶:

(۶۶) قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَکُمْ حَتَّی تُتُونِ مَوْثِقًا مِّنْ اﷲِ لَتَأْتُنَنِیْ بِهِ إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ

''(یعقوب (ع) نے)کہا جب تک تم لوگ میرے سامنے خدا سے عہد نہ کرلو گے کہ تم اس کو ضرور مجھ تک (صحیح و سالم ) لے گے مگر یہ کہ تم خود کسی مشکل میں گھر ج (تو مجبوری

ہے ورنہ میں تو تمہارے ساتھ ہر گز اس کو نہ بھیجوں گا) پھر جب ان لوگوں نے ان کے سامنے عہد کرلیا تو یعقوب نے کہا کہ ہم لوگ جو کہہ رہے ہیں خدا اس کا ضامن ہے''۔

نکات:

موثق : یعنی وہ چیز جو مدّ مقابل یعنی مخاطب کے بارے میں مایہئ وثوق و اطمینان ہو جو عہد، قسم یا نذر ہوسکتی ہے۔(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ)

ہمارا پروردگار ہم پر ہمارے باپ سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اس داستان میں حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں کی ایک خیانت پر اپنے دوسرے فرزند کو ان کے حوالے نہ کیا۔ لیکن ہم لوگ ہر روز خداوندعالم کے احکام کی صریحا ً خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن وہ اس معصیت کے باوجود ہم سے اپنی نعمات کو سلب نہیں کرتا۔

۱۴۲

پیام:

۱۔خدا پر ایمان ، ذات خداوند کی قسم نذر و عہد کل بھی قوی ترین سہارا تھا اور آج بھی محکم پشت پناہ ہیں(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

۲۔کسی کی بدقولی و بدرفتاری کے مشاہدہ کے بعد دوسرے موقع پر اس سے محکم و مستحکم معاہدہ کرنا چاہیئے(مَوْثِقً)

۳۔اپنے بچوں کو آسانی کے ساتھ دوسروں کے ساتھ بھیجنا صحیح نہیں ہے۔(تُتُونِ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

۴۔معاہدہ کرتے وقت ناگہانی اورغیر متوقع حوادث کی پیش بینی بھی کرنا چاہیئے( إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ ) یعنی تکلیف مالا یطاق ممنوع ہے۔

۵۔تمام تر حقوقی اور قانونی معاہدوںکے ہوتے ہوئے خدا پر مکمل توکل سے غافل نہیں ہونا چاہیئے( اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ)

آیت ۶۷:

(۶۷) وَقَالَ یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَ وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُون

''اور یعقوب نے (نصیحت کے طور پر چلتے وقت بیٹوں سے کہا) اے فرزندو! (دیکھو خبردار) سب کے سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا (کہ کہیں نظر نہ لگ جائے) اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اس (بلا) کو جو خدا کی طرف سے (آئے کچھ بھی ٹال نہیں سکتا) حکم تو (دراصل) خدا ہی کے واسطے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے''۔

۱۴۳

پیام:

۱۔نافرمان بیٹوں سے بھی باپ کی محبت ختم نہیں ہوتی( یَابَنِیَّ)

۲۔بچوں کی حفاظت وسلامتی کےلئے تدبیر و غوروفکر ضروری ہے( یَابَنِیَّ لاَتَدْخُلُوا)

۳۔وعظ و نصیحت کے بہترین اوقات میں سے ایک اہم وقت وہ ہے جب انسان سفر کے لئے تیار ہو۔ حضرت یعقوب (ع) نے سفر کے موقع پر فرمایا:( یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ) (۱)

۴۔حساسیت ، بدگمانی اور بری نگاہ سے لوگوں کو بچانا چاہیئے جوانوں کا گروہی طور پر کسی اجنبی جگہ پر جانا بدگمانی و چغل خوری کا سبب بن سکتا ہے(لاَتَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ)

۵۔لطف و کرم اور قدرت خداوندی کو کسی ایک راہ میں منحصر نہیں سمجھنا چاہیئے اس ذات اقدس کا دست قدرت انتہائی وسیع ہے وہ جس راستہ سے چاہے مدد پہنچا سکتا ہے۔(لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ) (۲)

--------------

( ۱ )روایات میں بھی ہے کہ سفر کرتے وقت وعظ و نصیحت کرنی چاہیئے

( ۲ )روایات میں ہے کہ : تاجر افراد اپنی تمام جمع پونجی کی سرمایہ کاری ایک جگہ پر نہ کریں تا کہ اگر ایک راستہ بند ہوجائے تو دوسری راہ کھلی رہے.

۱۴۴

۶۔احتیاط اور تدبیر کے ساتھ ساتھ(لاَ تَدْخُلُوا...) خدا پر توکل اور بھروسہ بھی ضروری ہے(عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ)

۷۔بہترین مدیر و سربراہ وہ ہے جو پروگرام اور منصوبے کے علاوہ تمام احتمالات کو مدنظر رکھے کیونکہ انسان اپنے امور کی انجام دہی میں مستقل نہیں ہے یعنی تمام تر احتیاط اور دقت کے باوجود خدا کا دست قدرت وسیع تر ہے اور ہماری تمام تر احتیاط اور حساب و کتاب کے باوجود ان کی انجام دہی پر صد در صد ضمانت نہیں ہے(وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۸۔خدا کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے'' عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ'' کیونکہ وہ تن تنہا کافی ہے(و کفی بالله وکیل) (۱) اور اللہ بہترین وکیل ہے(نعم الوکیل) (۲)

۹۔حضرت یعقوب (ع) نے خود بھی خدا پر بھروسہ کیا اور دوسروں کو بھی خدا پر'' توکل'' کرنے کا حکم فرمایا۔( تَوَکَّلْت... فَلْیَتَوَکَّلْ ...)

۱۰۔خداوندمتعال کے فیصلوں کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔(مَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۱۱۔اس کائنات میں حکم کرنے کا مطلقا ًحق ، صرف ذات پروردگار کو ہے(إِن الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ )

--------------

( ۱ )سورہ نساء آیت ۸۱

( ۲ )سورہ آل عمران آیت ۱۷۳

۱۴۵

آیت ۶۸:

(۶۸) وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا کَانَ یُغْنِی عَنْهُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُون

''اورجب یہ سب بھائی جس طرح انکے والد نے حکم دیا تھا اسی طرح (مصر میں)داخل ہوئے تو (جو حکم) خدا (کی طرف سے آنے کو تھا اس ) سے انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا مگر (ہاں) یعقوب کے دل میں ایک تمنا تھی جسے انہوں نے بھی یوں پورا کرلیا چند مختلف دروازوں سے اپنے بیٹوں کو داخلے کا حکم دے کر یعقوب ان کو نظر بد سے بچانا چاہتے تھے کیونکہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اسے چونکہ ہم نے علم دیا تھا صاحب علم ضرور تھامگر بہتےرے لوگ (اس سے بھی)واقف نہیں ہیں''۔

نکات:

حضرت یعقوب علیہ السلام کی کونسی اندرونی خواہش پوری ہوئی اس میں چند احتمالات ہیں :

۱۔ بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام تک پہنچ جائیں اور حضرت یوسف (ع)کو تنہائی سے نجات ملے اگرچہ بنیامین پر چوری کی تہمت لگے ۔

۲۔ باپ بیٹے کے ملن میں سرعت اور جلدی ہوسکے جس کے بارے میں آئندہ اشارہ کیا جائے گا ۔

۳۔ فریضہ کی انجام دہی ، اگرچہ نتیجہ کی کوئی ضمانت نہ ہو حضرت یعقوب علیہ السلام کی حاجت یہ ہے کہ ملاقات کے مقدمات میں کوتاہی نہ ہو اور وہ لوگ ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں لیکن جو ہو گا وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔

۱۴۶

پیام:

۱۔ تلخ تجربے انسان کو باادب بنادیتے ہیں اور وہ بزرگوں کی باتوں کو قبول کرنے لگتا ہے ۔(دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ)

۲۔ اگر کسی کی بے ادبی کا ذکر کیا ہے تو اس کے ادب کو بھی بیان کرنا چاہیئے ۔(دَخَلُوا أَبُوهُمْ) (اگر برادران یوسف نے کل اپنے بابا پر گمراہی کا الزام لگایا تھا تو آج فرمان پدری پر سرتسلیم خم کردیا ہے۔)

۳۔ پروگرام ، عزائم ، تخمینہ جات اورمصمم ارادے کے ساتھ اگر خداوندمتعال کا ارادہ بھی ہو تو پھر تمام پروگرام عملی جامہ پہن سکتے ہیں لیکن اگر خدا کا ارادہ شامل حال نہ ہو تو تمام عزم و ارادے بے کار ہوجاتے ہیں ۔( مَا کَانَ یُغْنِی عنهم مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۴۔ جناب یعقوب (ع)تمام مطالب و اسرار سے آگاہ تھے لیکن مصلحتاً ان کا اظہار نہیں فرمایا۔(حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ)

۵۔ اولیائے خداکی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ۔( حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا )

۶۔ انبی(ع)ء کا علم خداوندعالم کی طرف سے ہے(عَلَّمْنَ)

۷۔ اکثر لوگ اسباب و علل کو دیکھا کرتے ہیں لیکن خدا کی حاکمیت اور لزوم توکل سے بے خبر ہوتے ہیں۔(أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُون)

۱۴۷

آیت ۶۹:

(۶۹)وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّی أَنَا أَخُوکَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ

''اور جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس جگہ دی اور (چپکے سے ) اس (بنیامین) سے کہہ دیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو جوکچھ (بدسلوکیاں) یہ لوگ تمہارے ساتھ کرتے رہے ہیں اسکا رنج نہ کرو ''۔

نکات:

تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب برادران یوسف (ع)وارد مصر ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کی مہمان نوازی فرمائی جس میں ہر دو آدمیوں کے لئے غذا کا ایک طبق معین کردیا آخر میں بنیامین تنہا رہ گئے تو حضرت یوسف (ع)نے ان کو اپنے نزدیک بٹھا لیا اس کے بعد ہر دو آدمیوں کے لئے ایک کمرہ معین کیا تو پھر بنیامین تنہا رہ گئے تو انہیں اپنے حجرے میں رکھ لیا وہاں بنیامین نے اپنے بھائیوں کی بے وفائی اور ظلم و ستم کا ذکر چھیڑ دیا جو انہوں نے حضرت یوسف (ع)پر ڈھائے تھے یہاں پر کاسہ صبر یوسفی لبریز ہوگیا ۔ فرمایا: پریشان مت ہو میں وہی یوسف ہوں اور تاکید کے ساتھ فرمایا۔(انی انا اخوک) میں ہی تمہارا بھائی ہوں تاکہ ایسا کوئی احتمال نہ آئے کہ میں تمہارے بھائی کی جگہ پر ہوں۔

جملہ(فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُون ) کے معنی کے سلسلے میں دو احتمال ہیں ۔

۱۔ یا تو یہ کہ وہ اپنے بھائیوں کی گزشتہ کارستانیوں سے غمناک نہ ہو۔

۲۔ یا یہ کہ وہ پروگرام جسے ہمارے غلاموں نے تمہارے لئے بنایا ہے کہ تمہارے حصے میں پیمانہ ڈال دیں گے تاکہ تم میرے پاس رہ سکو اس سے پریشان نہ ہونا۔

۱۴۸

پیام:

۱۔ وہ برادران جنہیں کل اپنی قدرت پر ناز تھا اور کہہ رہے تھے ''نحن عصبہ'' ہمارا گروہ قوی ہے وہی آج اس درجہ کو پہنچ چکے ہیں کہ اپنا آذوقہ (انتہائی کم غذا) مہیا کرنے کے لئے آستانہ حضرت یوسف (ع)پر تواضع کے ساتھ بوسہ دینے پر مجبور ہیں۔(دَخَلُوا عَلَی)

۲۔ کلام اور گفتگو کے مختلف مرحلے ہیں کہیں مخفیانہ گفتگو ہوتی ہے تو کہیں اعلانیہ، حضرت یوسف نے مخفیانہ انداز سے فقط بنیامین سے کہا :( إِنِّی أَنَا أَخُوک) (ہرسخن جائی و ہر نکتہ مقامی دارد) ہر سخن اور نکتہ کا اپنا موقع و محل ہوتا ہے۔

۳۔ بعض امور سے فقط خاص لوگوں کو باخبر کرنا چاہیئے(فَلاَ تَبْتَئِسْ )

۴۔ جب بھی کوئی نعمت حاصل ہوتو ماضی کی تلخ کامیوں کو بھول جانا چاہیئے (یوسف (ع)اور بنیامین نے ملاقات کی چاشنی محسوس کرلی ہے تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پرانی باتوں کو بھلا دیا جائے۔)(فَلاَ تَبْتَئِسْ)

۵۔ کسی بھی پروگرام اور نقشہ کو عملی جامہ پہنانے سے قبل بے گناہ شخص کو روحانی و نفسیاتی طور پر آمادہ کرلینا چاہیئے ۔ (بنیامین سے کہا گیا کہ تمہیں چور قراردے کر یہاں روکا جائے گا لہٰذاپریشان نہ ہونا۔)(فَلاَ تَبْتَئِسْ)

۱۴۹

آیت ۷۰:

(۷۰) فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَ فِی رَحْلِ أَخِیهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُذِّنٌ أَیَّتُهَا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ

''پھر جب یوسف نے ان کا ساز وسامان (سفر غلہ وغیرہ)تیار کرا دیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پانی پینے کا کٹورا رکھ دیا پھر ایک منادی للکار کے بولا کہ اے قافلے والو(ہو نہ ہو)یقینا تمہیں لوگ چور ہو''۔

نکات:

یہ دوسری نقشہ کشی ہے جسے حضرت یوسف علیہ السلام انجام دے رہے ہیں پہلی مرتبہ غلہ کی قیمت کو بھائیوں کے سامان میں رکھ دیا تاکہ وہ دوبارہ پلٹ آئیں اس بار قیمتی برتن اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا تاکہ اسے اپنے پاس رکھ سکیں ۔

''سقایه'' اس کٹورے اور پیمانے کو کہتے ہیں جس میں پانی پیا جاتا ہے''رحل'' اس خوگیر یا بوری کو کہتے ہیں جو اونٹ کے اوپر رکھی جاتی ہے اور اس کے دونوں اطراف سامان وغیرہ رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے (پالان ، محمل) ''عیر''اس قافلہ کو کہتے ہیں جو غذائی اجناس لے کر جاتا ہے(۱)

تفسیروں میں بیان ہوا ہے کہ حضرت یوسف اور بنیامین کے درمیان جو نشست ہوئی اس میں حضرت یوسف نے بنیامین سے پوچھا کہ کیا وہ یوسف کے پاس رہنا پسند کرتے ہیں ؟ تو جناب بنیامین نے رضایت کا اظہار کردیالیکن یہ بتا دیاکہ ان کے بابا نے بھائیوں سے تعہد لیا ہے کہ بنیامین کو اپنے ہمراہ واپس لے کر آئیں گے ۔ اس پر حضرت یوسف نے فرمایا : گھبر نہیں ، میں تمہارے رہنے کے لئے نقشہ کشی کرکے ایک راستہ نکال لوں گا۔

اس ماجرے میں بے گناہوں پر چوری کاالزام کیوں لگایا گیا؟

--------------

( ۱ )مفردات راغب.

۱۵۰

جواب: بنیامین نے اپنے بھائی کے پاس رکنے کے لئے بسر و چشم اس منصوبے کو قبول کیا تھا باقی برادران اگرچہ کچھ دیر کے لئے ناراض ہوئے لیکن تحقیق کے بعد ان سے الزامات مرتفع ہوگئے علاوہ ازیں کام کرنے والوں کو خبر نہ تھی کہ حضرت یوسف نے خود سامان کے درمیان پیمانہ ڈال دیا ہے ۔ (جعل) ان لوگوں نے تو طبیعی طور چیخنا شروع کردیا کہ(انکم لسارقون) تم ہی لوگ چور ہو۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں نے حضرت یوسف (ع)کو حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے چرا لیاتھا لہٰذاکام کرنے والوں نے یہ کہاکہ ہم نے بادشاہ کا پیمانہ گم کردیا ہے یہ نہیں کہا کہ تم لوگوں نے بادشاہ کا پیمانہ چرالیا ہے فقط حضرت یوسف علیہ السلام یہ بتانا چاہتے تھے تم لوگوں نے حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے یوسف (ع)کو چرایا ہے(۱)

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:''لاکذب علی المصلح'' اگر کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح و آشتی اور رفع اختلافات کے لئے جھوٹ کا سہارہ لیتا ہے تو وہ جھوٹ شمار نہیں ہوتا ، اس وقت آنحضرت (ص)نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۲)

--------------

(۱)تفسیر نور الثقلین ۔البتہ اس عمل کو اصطلاح میں''توریہ'' کہتے ہیں یعنی کہنے والا ایک خاص ہدف رکھتا ہے لیکن سننے والا دوسرا ہدف سمجھتا ہے ۔ بہرحال اگر موذن سے مراد آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام ہیں تو یہ توریہ صحیح ہے ۔ واللہ العالم۔

(۲)تفسیر نورالثقلین۔ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسے موارد کذب میں شمار ہوتے ہیں یا نہیں یعنی آیا مصلح یا اس قسم کے لوگوں سے کذب کا حکم اٹھا لیا گیا ہے یا اصلاً جھوٹ ہی نہیں ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کےلئے صدق و کذب ، سچ اور جھوٹ کے معنی کو دیکھنا پڑے گا عام طور پر صدق کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے : وہ خبر جو مطابق واقع ہو ۔ جھوٹ کی تعریف میںیہ کہا جاتا ہے : وہ خبر جو مخالف واقع ہو۔ اگر یہی تعریف صحیح ہے تو پھر بہت سے مقاما ت پر یہ قاعدہ ٹوٹ جائے گا مثال کے طور پر سورہ منافقین کی پہلی آیت میں خداوندعالم گواہی دیتا ہے کہ نبی اکرم (ص) خدا کے رسول ہیں لیکن وہیں پر فرماتا ہے کہ ''واﷲ یشھد ان المنافقین لکاذبون''اگر مطابق واقع خبر سچ ہے تو پھر منافقین کو سچا ہونا چاہیئے لیکن قرآن کریم فرما رہا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ اسی طرح مصلح خلاف واقع گفتگو کرتا ہے لیکن نبی اکرم فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹ نہیں ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ معیار صدق و کذب مطابق و مخالف واقع ہونا نہیں ہے بلکہ معیار کچھ اور ہے درحقیقت معیار صدق و کذب عدل و ظلم ہے جہاں ایک کلام عدل ہوگا وہ صدق ہوگا اور جہاں ظلم ہوگا وہاں کذب اور جھوٹ ہو گا غالبا ًجوکلام صادق ہوتا ہے وہ عدل ہوتا ہے لیکن بہت کم موارد میں ایسا ہوتا ہے جہاں کذب عدل ہوتا ہے دوسری طرف غالباً کذب ظلم ہوتا ہے اور کم مواقع ایسے آتے ہیں جہاں صدق اور سچ ظلم ہوتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ حکم شرعی ، حرام اور مباح ،دائر مدار صدق و کذب نہیں ہے بلکہ دائر مدار عدل و ظلم ہے ۔ بنابریں مصلح کا صلح قائم کرنے کےلئے صحیح بات بتانے سے گریز کرنا عدل ہے لہٰذا وہ جھوٹ نہیں ہے ، منافقوں کا رسول اکرم (ص) کو رسول کہنا باوجودیکہ دل سے ان کے مخالف تھے ظلم ہے، لہٰذا وہ سچ نہیں ہے ،جناب یوسف (ع)کا اپنے بھائی کو روکنا عدل ہے تاکہ آئندہ کےلئے راہ ہموار ہوسکے ، لہٰذا جھوٹ نہیں ہے۔مترجم۔

۱۵۱

پیام:

(۱) کبھی کبھی کسی ماجرے کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے نقشہ کشی اور سازش کا سہارہ لیا جاتا ہے(۱) بنابریں اہم مصلحتوں کے پیش نظر بے گناہ شخص پر چوری کا الزام لگانا کہ جس کے بارے میں پہلے آگاہ کردیا ہو کوئی مشکل کام نہیں ہے(۲)

آیت ۷۱:

(۷۱)قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَیْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ

''یہ سن کر یہ لوگ پکارنے والوں کی طرف رخ کرکے کہنے لگے (آخر) تمہاری کونسی چیز گم ہوگئی ہے ؟''

--------------

(۱)مثلاًنمائش ، تصاویر اورفلم وغیرہ میں بظاہر لوگوں کو مجرم ، گناہگاروغیرہ جیسے خطاب سے مخاطب کیا جاتا ہے حتی انکو شکنجہ بھی دیا جاتا ہے لیکن چونکہ ان لوگوں کو پہلے سے متوجہ کردیا جاتا ہے اور وہ راضی ہوتے ہیں اسی بنیاد پر اہم مصلحت کودیکھتے ہوئے اسے قبول کرلیتے ہیں۔

(۲)تفسیر المیزان ج ،۱۱ ص ۲۴۴

۱۵۲

آیت ۷۲:

(۷۲) قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِیمٌ

'' ان لوگوںنے جواب دیاکہ ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں ملتا ہے جو شخص اسے پیش کرے گا اس کےلئے بارشتر(غلہ انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں''۔

نکات:

'' صُوَاعَ '' (۱) اور''سقایہ''دونوں ہم معنی ہیں یعنی وہ ظرف جس سے پانی پیا جاتا ہو اور اسی سے گیہوں بھی تولا جاتا ہو جو صرفہ جوئی کی علامت ہے یعنی ایک چیز سے چند کام۔

''حِملْ'' بار کو کہتے ہیں ''حَمل'' بھی بار ہی کو کہتے ہیں لیکن اس بار کو جو پوشیدہ ہو مثلاًوہ بارش جو بادل میں چھپی ہو یا وہ بچہ جو شکم مادر میں ہو(۲)

جملہ''َلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر'' یعنی جو ایسا کرے گا اس کی جزا یہ ہو گی اسے فقہی اصطلاح میں''جُعاله '' کہتے ہیںجو سابقہ اور قانونی اعتبار کا حامل ہے

پیام:

۱۔ انعام و اکرام کی تعیین پرانی روش ہے(لِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر)

۲۔انعام و اکرام انسان اور زمانے کی مناسبت سے ہونا چاہیئے ۔ خشک سالی کے زمانے میں بہترین انعام غلے سے لدا ہوا ایک اونٹ ہے( حِمْلُ بَعِیر)

۳۔ حصول اطمینان کے لئے ضامن قرار دینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے(أَنَا بِهِ زَعِیم)

--------------

(۱) تفسیر اطیب البیان میں آیا ہے کہ صواع اس ظرف کو کہتے ہیں جس میںایک صاع (تقریبا تین کلو) گیہوں کی گنجائش ہوتی ہے.

(۲)مفردات راغب.

۱۵۳

آیت ۷۳:

(۷۳) قَالُوا تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ

''تب یہ لوگ کہنے لگے خدا کی قسم تم تو جانتے ہو کہ ہم (تمہارے )ملک میں فساد کرنے کی غرض سے نہیں آئے اور نہ ہی ہم لوگ چور ہیں ''۔

نکات:

برادران یوسف نے کہا : آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہم لوگ چوری اور فساد برپا کرنے کے لئے نہیں آئے وہ لوگ یہ کیسے جانتے تھے کہ یہ چور اور فسادی نہیں ہیں ؟ اس میں چند احتمال ہیں ۔(۱) شاید حضرت یوسف نے اشارہ کیا ہو کہ یہ لوگ چور نہیں ہیں(۲) شاید شخصی داخلہ کے وقت کچھ افراد معین ہوں کہ جو رفت و آمد پر نظر رکھتے ہوں۔ جی ہاں! یقینا باہر سے آنے جانے والے افراد کی نگرانی کرنی چاہیئے خصوصا ًاس وقت جب ملک بحرانی کیفیت میں ہو تو زیادہ گہری نگاہ رکھنی چاہئےے تاکہ آنے والے مسافرین کے اہداف کا علم رہے ۔

پیام:

۱۔ بے داغ ماضی ،بری الذمہ ہونے کی علامت ہے ۔( لَقَدْ عَلِمْتُم)

۲۔ ''چوری'' بھی زمین پر فساد کا ایک مصداق ہے( مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ )

۱۵۴

آیت ۷۴:

(۷۴) قَالُوا فَمَا جَزَهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ

''وہ (ملازمین) بولے کہ اگر تم جھوٹے نکلے تو پھر اس (چور) کی سزا کیا ہونی چاہیئے ''۔

نکات:

جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ سوال تیار کرنے والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں چونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائی کنعان کے علاقائی قانون اور حضرت یعقوب کے( نظریہ کے )مطابق اپنا نظریہ پیش کریں گے ۔

کیا قاضی کے علم اور ملزم کے قسم کھانے کے باوجود بھی تحقیق کرنا ضروری ہے ؟( تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ)

جواب: جی ہاں ۔ اس کی دلیل جملہ'' فَمَا جَزَهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ '' ہے۔

پیام:

۱۔ مجرم کی سزا کو معین کرنے کے لئے اس کے ضمیر سے سوال کیا جائے( فَمَا جَزَهُ...)

۱۵۵

آیت ۷۵:

(۷۵) قَالُوا جَزَهُ مَنْ وُّجِدَ فِی رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَهُ کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ

''وہ (بے دھڑک)بول اٹھے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے بورے میں وہ (پیالہ) پایا جائے تو وہی اس کا بدلہ ہے (تو وہ مال کے بدلے میں غلام بنایا جائے گا)ہم لوگ تو(اپنے یہاں کنعان میں) ظالموں(چوروں) کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں''۔

پیام:

۱۔ بعض گزشتہ اقوام میں چوری کی سزا چور کو غلام بنا لینا تھی(۱) ۔( فَهُوَ جَزَهُ)

۲۔ قانون میں کوئی استثناء اور پارٹی بازی نہیں ہونی چاہیئے ۔ جو بھی چور ہوگا غلامی کی زنجیر اس کے پیروں میں ہوگی۔( مَنْ وُجِدَ فِی رَحْلِهِ)

۳۔ ممکن ہے کہ مجرم کی سزا اس کے علاقے کے قانون کے مطابق ہو ۔ میزبان ملک کے قانون کے مطابق سزا دینا ضروری نہیں ہے۔(کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ)

۴۔ چوری ، ظلم کا کھلا ہوانمونہ ہے کیونکہ آیت کے آخری حصے میں لفظ ''سارق'' کے بجائے ''ظالم ''استعمال ہوا ہے۔

--------------

(۱) بنابر نقل تفسیر مجمع البیان اس غلامی کی مدت ایک سال تھی.

۱۵۶

آیت ۷۶:

(۷۶) فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِیهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِیهِ کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلاَّ أَنْ یَشَاءَ اﷲُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ

''غرض یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے کھولنے سے پہلے دوسرے بھائیوں کے شلیتوں سے (تلاشی) شروع کی اس کے بعد (آخر میں) اس (پیالے) کو یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتہ سے برآمد کیا ،یوسف کے (بھائی کو روکنے کی) ہم نے یوں تدبیر بتائی ورنہ وہ (بادشاہ مصر کے) قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں روک سکتے تھے مگر ہاں جب ہم چاہتے ہیں اس کے درجات بلند کر دیتے ہیں ،اور ہر صاحب علم سے بڑھ کر ایک بہت بڑی دانا ذات (بھی) ہے ''۔

نکات:

چونکہ بنیامین اس واقعہ سے آگاہ تھے لہٰذا تلاشی کے وقت کافی مطمئن تھے ، یہی وجہ ہے کہ اس پورے ماجرے میں کہیں بھی ان کی طرف سے کوئی اعتراض نقل نہیں کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازین تاکہ یہ نقشہ کشی مخفی رہ سکے اور بدگمانی کا سبب نہ بنے تلاشی کو دوسرے لوگوں سے شروع کیا گیا یہاں تک کہ بنیامین کی نوبت آگئی اور جب وہ پیمانہ ان کے سامان میں پایا گیا تو اب گزشتہ قراردادکے مطابق ان کا مصر میں رہنا ضروری ہوگیا ۔یہ خدائی تدبیر تھی کیونکہ جناب یوسف علیہ السلام مصری قوانین کے تحت چور کو بعنوان غلام نہیں رکھ سکتے تھے۔

کلمہ''کید'' تمام مقامات پر مذموم معنی میں استعمال نہیں ہواہے بلکہ تدبیر ، چارہ اندیشی اور منصوبہ بندی کے معنی میں بھی مستعمل ہے (کدنا)

۱۵۷

پیام:

۱۔اطلاعات جمع کرنے پر مامور افراد کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے دوسروں کو ان پر شک ہو جائے( فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِهِمْ ) (وہ تلاشی لینے کےلئے سب سے پہلے بنیامین کے پاس نہیں گئے بلکہ تلاشی دوسرں کے سامان سے شروع کی۔)

۲۔ کارکنان کے کاموں کی نسبت مسل کی طرف دی جاتی ہے (فَبَدَ) (برحسب ظاہر حضرت یوسف (ع)نے تلاشی نہیں لی تھی لیکن قرآن فرماتا ہے کہ تلاشی انہوں نے شروع کی تھی۔)

۳۔ فکر و تخلیقی صلاحیت، منصوبہ بندی و چارہ جوئی غیبی امداد سے حاصل ہوتی ہے(کِدْنَ)

۴۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی تدبیریں الہامی تھیں۔(کِدْنَا لِیُوسُفَ)

۵۔ حضرت یوسف (ع)کے پاس بنیامین کا رہنا حضرت یوسف کے لئے فائدہ مند تھا ۔(کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ )

۶۔ قانون کااحترام اور اس کی رعایت غیر الٰہی حکومت میں بھی ضروری ہے۔(مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِک)

۷۔ معنوی مقامات مختلف درجات اور مراتب کے ایک سلسلہ کے حامل ہیں ۔(نَرْفَعُ دَرَجَات...)

۸۔ علم و آگاہی برتری کا سرمایہ ہے( نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ. وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ)

۹۔ بشری علم محدود ہے(فَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ)

۱۵۸

آیت ۷۷:

(۷۷) قَالُوا إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ فَأَسَرَّهَا یُوسُفُ فِی نَفْسِهِ وَلَمْ یُبْدِهَالَهُمْ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانًا وَاﷲُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ

''(غرض بنیامین روک لئے گئے )تو یہ کہنے لگے اگر اس نے چوری کی ہے تو (کونسی تعجب کی بات ہے) اس سے پہلے اسکا بھائی (یوسف) چوری کرچکا ہے تو یوسف نے (اس تہمت کا کوئی جواب نہیں دیا اور)اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور ان پر ظاہر نہ ہونے دیا (مگر) یہ کہہ دیاکہ تم لوگ برے ہو(نہ کہ ہم دونوں) اور جو (اس کے بھائی کی چوری کا) حال تم بیان کررہے ہو اس سے خدا خوب واقف ہے ''۔

پیام:

۱۔ متہم یا تو انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں چور نہیں ہوں(ما کنا سارقین) یا یہ توجیہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا چوری کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس کا بھائی چوری بھی کر چکا ہے۔( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْل)

۲۔ حسد کا مریض سالہا سال کے بعد بھی چٹکی لینے سے باز نہیں آتا ۔( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْل)

۳۔ ایک بھائی کا اخلاق دوسرے بھائی پر اثر انداز ہوتاہے( أَخٌ لَهُ) ماں کا کردار بھی بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے (یوسف (ع)اور بنیامین کی ماں ایک تھی)

۱۵۹

۴۔ جہاں محبت اور دل صاف نہ ہو وہاں تہمت بہت جلد لگا دی جاتی ہے ۔(إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ...) (پیمانہ کا بنیامین کے سامان سے باہر نکلنا چوری کی دلیل نہیں ہے، لیکن چونکہ بھائیوں کو بنیامین سے محبت نہ تھی اس لئے ان لوگوں نے چوری کا الزام لگا دیا اور مسئلہ کو تسلیم کرلیا۔)

۵۔ جہاں محبت نہیں ہوتی وہاں جزئی اور چھوٹی سی غلطی کو کلی اور بڑی بھاری خطا شمار کیا جاتاہے (انہوں نے''سرق'' فعل ماضی کے بجائے فعل مضارع''یسرق' 'استعمال کیا یعنی اس کام میں استمرار ہے گویا بنیامین کا روزانہ کاکام یہی تھا)۔

۶۔ ہدف تک پہنچنے کے لئے لعن و طعن کے تیر سہنے پڑتے ہیں ۔( سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ)

۷۔ کچھ لوگ بعض مواقع پر اپنی آبرو بچانے کے لئے دوسرے پر تہمتیں لگاتے ہیں ۔( سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ)

۸۔ جواں مردی اور کشادہ قلبی رمز رہبری ہے۔(أَسَرَّهَا یُوسُفُ)

۹۔ راز کا فاش کرنا ہمیشہ قابل اہمیت و ارزش نہیں ہے ۔(وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ)

۱۰۔ ''تحقیر'' نہی از منکر کا ایک طریقہ ہے۔( أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانً)

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

1140۔ امام علی (ع): میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں، انہیں خدا نے مشہور دین کےساتھ بھیجا...یہ بعثت اسوقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمانِ دین ٹوٹ چکی تھی، یقین کے ستون ہل گئے تھے، اصول میں شدید اختلاف تھا، اور امور میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہو گئے تھے، ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسرعام، رحمن کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہو گیا تھا، اسکے ستون گرگئے تھے اور آثارناقابل شناخت ہوگئے تھے، راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں، لو گ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموںپر وارد ہو رہے تھے۔انہیں کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اسکے علم سر بلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوںنے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا، اورخود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے، یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے، پروردگار نے انہیں اس گھر( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسایہ، جنکی نیندیں بیداری تھیں اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سرزمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا۔

1141۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں اور حضرت محمد(ص) اسکے بندہ اور رسول ہیں، اس کے منتخب و مصطفیٰ ہیں، انکے فضل کا کوئی مقابلہ نہیںکر سکتا ہے، اور نہ انکے فقدان کی تلافی، انکی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریکی، جہالت کے غلبہ اور بدسرشتی و بد اخلاقی کی شدت کے بعد جب لوگ حرام کو حلال اور صاحبان حکمت کو ذلیل سمجھ رہے تھے، رسولوں سے خالی دور میں زندگی گذار رہے تھے اور کفر کی حالت میں مر رہے تھے، منور اور روشن ہو گئے۔

1142۔ امام علی (ع):(خدا وند متعال) نے آنحضرؐت کو مبعوث کیا اور اے گروہ عرب ! تم بدترین حالت میں تھے، تم میں سے بعض کتوں کو اپنی غذا بناتے تھے، اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے ،دوستوں کو غارت کرتے تھے اور جب پلٹے تھے تو دوسرے انہیں غارت کر چکے ہوتے تھے، تم لوگ حنظل و اندرائن کے دانے ، خون اور مردار کھاتے تھے، تمہاری بود و باش نا ہموار پتھروں اور گمراہ کرنے والے بتوں کے درمیان تھی، تم بد ذائقہ کھانا کھاتے اور بد مزہ پانی پیتے تھے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے اور ایک دوسرے کو اسیر کرتے تھے۔

۲۰۱

1143۔ امام علی (ع): یہ آپکے اس خط کا ایک حصہ ہے جو آپ نے محمد بن ابی بکر کے قتل کے بعد اپنے بعض اصحاب کو لکھا تھا۔ یقینا اللہ نے آنحضرؐت کو عالمین کےلئے عذاب الہی سے ڈرانے والا، تنزیل کا امانتدار اور اس امت کا گواہ بنا کر اسوقت بھیجا ہے، جب تم گروہ عرب ،بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے، نا ہموار پتھروں، زہریلے سانپوں اور خار مغیلاںکے درمیان بود و باش رکھتے تھے بد مزہ پانی پیتے اور بدذائقہ کھانا کھاتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے اور اپنے قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے کھاتے تھے، تمہارے راستے پر خطر تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے( اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے) اور ان میں سے اکثر کا خدا پر ایمان شرک سے مخلوط تھا۔

1144۔ امام علی (ع): نے ۔گذشتہ امتوں سے عبرت و نصیحت اور مغرور و گنہگار سے بچنے کے متعلق فرمایا: اب تم اولاد اسماعیل اور اولاد اسحاق و اسرائیل(یعقوب) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کسقدر ملتے ہوئے اور کیفیات کسقدر یکساںہیں، دیکھو انکے انتشار و افتراق کے دور میں انکا کیا عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ انکے ارباب بن گئے تھے، اور انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں، عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے نکال کر خار دار جھاڑیوں اور آندھیوں کی بے روک گذر گاہوں اورمعیشت کی دشوار گذار منزلوں تک پہنچ کر اس عالم میں چھوڑ دیاتھا کہ وہ فقیر و نادار، اونٹوں کی پشت پر چلنے والے اور بالوں کے خیموں میں قیام کرنے والے ہو گئے تھے، گھر بار کے اعتبار سے تمام قوموں سے زیادہ ذلیل اور جگہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ خشک سالیوں کا شکار تھے، نہ ان کی آواز تھی جنکی پناہ لیکر اپنا تحفظ کر سکیں اور نہ کوئی الفت کا سایہ تھا جس کی طاقت پر بھروسہ کر سکیں ، حالات مضطرب، طاقتیں منتشر، کثرت میں انتشار، بلائیں سخت، جہالت کا دور دورہ، زندہ در گور بیٹیاں، پتھر پر ستش کے قابل، رشتہ داریاں ٹوٹی ہوئی اور چاروں طرف سے حملوں کی یلغار۔

۲۰۲

اس کے بعد دیکھو کہ پروردگار نے ان پر کس قدر احسانات کئے جب ان کی طرف ایک رسول بھیج دیا ، جس نے اپنے نظام سے ان کی اطاعت کو پابند بنا یا اور اپنی دعوت پر ان کی الفتوں کو متحد کیا اور اس کے نتیجہ میں نعمتوں نے ان پر کرامت کے بال و پر پھلا دئےے اور راحتوں کے دریا بہا دئےے، شریعت نے انہیں اپنی برکتوں کے بیش قیمت فوائد میں لپیٹ لیا، وہ نعمتوں میں غرق ہو گئے اور زندگی کی شادابیوں میںمزے اڑانے لگے، ایک مضبوط حاکم کے زیر سایہ حالات ساز گار ہوگئے اور حالات نے غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دلوا دی اور ایک مستحکم ملک کی بلندیوں پر دنیا و دین کی سعادتیں انکی طرف جھک پڑیں، و ہ عالمین کے حکام ہو گئے اور اطراف زمین کے بادشاہ شمار ہونے لگے جو کل انکے امور کے مالک تھے آج وہ انکے امور کے مالک ہو گئے اور اپنے احکام ان پر نافذ کرنے لگے جو کل اپنے احکام ان پر نافذ کر رہے تھے کہ اب نہ انکا دم خم نکالا جا سکتا تھا اور نہ انکا زور ہی توڑا جا سکتا تھا دیکھو تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے چھڑا لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔

1145۔ : فاطمۃ ؑ: نے۔ وفات پیغمبر کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کرکے۔ فرمایا: تم لوگ آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے، پینے والوںکے لئے پانی ملا دودھ کا گھونٹ ، حریص کی فرصت اور اس شخص کے مانند تھے جو گھر میں داخل ہو اور صرف آگ لینے تک ٹھہرے، اور دوسروں کے پیروں تلے کچلے جا رہے تھے ، گدلا پانی پیتے تھے اور گوسفند کی کھال تمہاری غذائیں تھیں، ذلیل و پست تھے، اورخوف لا حق رہتا تھا کہ کہیں لوگ اطراف سے تمہیں اچک نہ لے جائیں ۔ پس اللہ نے تمہیں میرے باپ محمد(ص)کے ذریعہ نجات بخشی۔

۲۰۳

1146۔ اما م ہادی ؑ: نے۔ اپنے خطبہ میں فرمایا: حمد اس اللہ کے لئے ہے جو ہر موجود سے آگاہ ہے قبل اس کے کہ اسکی مخلوق میں سے کسی کا اسکی گردن پر قرض ہو... اور بیشک محمد(ص) اس کے بندہ اس کے برگزیدہ رسول اور پسندیدہ دوست ہیں اور ہدایت کے ساتھ مبعوث کئے گئے ہیں۔ اور انہیں رسولوں سے خالی عہد، امتوں کے اختلاف ، راستوں کے انقطاع، حکمت کی بوسیدگی اور نشانات ہدایت و شواہد کے محو ہونے کے زمانہ میں بھیجا ہے ۔ انہوںنے رسالت پروردگار کو پہنچایا۔ اور اس کے حکم کو واضح کیا۔ اور ان پر جوفریضہ تھا اس کو انجام دیا اور جب وفات پائی تو محمود و پسندیدہ تھے۔

جاہلیت کے متعلق کچھ باتیں

قرآن نے ظہور اسلام سے پہلے والے زمانہ کو جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ اس وقت علم کے بجائے جہالت، حق کے بجائے ہر چیز میں خلاف حق اور احمقانہ رائے کا دور دورہ تھا قرآن نے ان کی خصوصایت کو اس طرح بیان کیا ہے:

(یظنون باﷲ غیر الحق ظن الجاهلیة)

وہ لوگ خدا کے متعلق خلاف حق جاہلیت جیسے خیالات رکھتے تھے۔

اور فرمایا(افحکم الجاهلیة یبغون)

کیایہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں فرمایا:( اذ جعل الذین کفروا فی قلوبهم الحمیة حمیة الجالیة)

یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی۔

نیز فرماتا ہے:(ولا تبر جن تبرج الجاهلیة الاولیٰ)

اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو۔

۲۰۴

اس وقت عرب معاشرہ کے جنوب میں حبشہ کہ جہاں کے باشندوں کا مذہب نصرانی تھا، اور مغرب میں حکومتِ روم تھی کہ جسکا مذہب نصرانی تھاشمال میں ایران جسکا مذہب مجوسی تھا اور دوسرے اطراف میں ہندوستان اور مصر ایسے بت پرست ممالک واقع تھے۔

خود عرب کے درمیان یہودیوں کے چند گروہ آباد تھے، خود عرب بت پرست تھے، اکثرلوگ قبیلوں میں زندگی بسر کرتے تھے یہ تمام چیزیں اس چیز کی باعث ہوئیں کہ ایک بے بنیادبادیہ نشیں معاشرہ وجود میں آجائے کہ جو یہود و نصاریٰ اور مجوس کے آداب و رسوم سے مخلوط ہو، لوگ جہالت و نادانی اور مکمل بے خبری میں زندگی بسر کر رہے تھے۔خدا انکے بارے میں اس طرح فرمایا:

(ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اﷲ ان یتبعون الا الظن و ان هم الا یخرصون)

اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کر لیں گے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے اور یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۔

یہ صحرا نورد قبائل بہت پست زندگی گذارتے تھے؛ مسلسل جنگ و غارت گری ، لوٹ مار ایک دوسرے کی ناموس پر تجاوز کرتے تھے، ان میں کسی طرح کا امن و امان ، امانتداری اور صلح و آشتی نہ تھی، اسی کی چودھراہٹ و حکمرانی ہوتی جو ان میں نہایت سرکش و قدرتمند ہوتا تھا۔

ان کے درمیان مردوںکی فضیلت خونریزی، جاہلیت کی ضد، کبر و غرور، ظالموں کا اتباع، مظلوموں کا حق پامال کرنا، آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی، نفسہ نفسی، جوا کھیلنا شرابخوری، زنا کاری، مردار و خون اور کھجوروںکا بیج کھانا، تھی۔

لیکن ان کی عورتیں انسانی حقوق سے محروم تھیں، وہ خود مختار اور صاحب ارادہ نہیں ہوتی تھیں انہیں اپنے کسی کام میںکوئی اختیار نہیںہوتا تھا، یہاں تک کہ وراثت کی بھی مالک نہیںہوتی تھیں اور مرد بغیر کسی قید و بند کے ان سے شادیا ںکرتے تھے جیسا کہ بعض یہودی اور بت پرستوںکی عاد ت تھی۔ در عین حال عورتیں بھی خود کو آراستہ اور بناؤ سنگار کرکے جس کوچاہتی تھیں اپنے پاس بلا لیتی تھیں، زنا و بے حیائی ان میں عام تھی یہاں تک کہ شادی شدہ عورتیں بھی زنا کا ارتکاب کرتی تھیں اور بسا اوقات عریاں حج کے لئے آتی تھیں۔

۲۰۵

لیکن ان کی اولاد باپ سے منسوب ہوتی تھی، لیکن بچپن میں وراثت سے محروم ہوتی تھی، صرف بڑی اولاد کو میراث کے تصرف کا حق ہوتا تھا، منجملہ ان کی میراث متوفیٰ کی بیوہ ہوتی تھی، بطور کلی لڑکیاں چاہے چھو ٹی ہوں یا بڑی اور چھوٹے لڑکے میراث کا حق نہیں رکھتے تھے، مگر جب کوئی شخص مرتا اور کوئی کمسن بچہ چھوڑ کر جاتا تو سر غنہ قسم کے افراد زبردستی اس کے اموال کے سر پرست بن کر اس کے اموال کو کھاجاتے تھے، اور اگر یہ یتیم بچی ہوتی تو اس کے ساتھ شادی کرتے اور اس کے اموال کوچٹ کر جانے کے بعد اس کو طلاق دیکرنکال دیتے تھے اس صورت میں اس بچی کے پاس نہ مال ہوتا تھا کہ جس سے زندگی گذار سکے اور نہ ہی کوئی اس سے شادی کے لئے تیار ہوتا تھا کہ اس کے اخراجات کا ذمہ دار بنے۔

ان کے درمیان یتیموں کامال غصب کرنا عظیم ترین حادثہ تھا، تا ہم وہ ہمیشہ جنگ و جدال اور غارت گری میں مبتلا رہا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں قتل و خونریزی زیادہ ہوتی تھی لہذا بے سر پرست یتیموںکے حادثات اور رونما ہوتے تھے۔

ان کی اولاد کی عظیم بدبختی و شقاوت کا سبب یہ تھا کہ وہ بنجر اور نا ہموار زمینوں میں آباد تھے جو بہت جلد قحط کا شکار ہو جایا کرتی تھیں، لہذا فقر و ناداری کے خوف سے وہ اپنے بیٹوں کو قتل اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، ان کے لئے سب سے زیادہ ناگوار اور دردناک خبر ان کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوتی تھی۔

اگرچہ جزیرہ نما عرب کے اطراف میں کچھ بادشاہ حکومت کرتے تھے اور یہ عرب والے انہیں بادشاہوں میں سے اپنے سے قریب اور طاقتور بادشاہ کی زیر حمایت زندگی گذارتے تھے ۔ جیسے ایران شمال کی سمت میں ، روم مغرب کی سمت میںاور حبشہ مشرق کے اطراف میں آباد تھے مگر یہ کہ مرکزی شہر جیسے مکہ ، یثرت اور طائف وغیرہ ایسی کیفیت میں تھے کہ جو جمہوریت کے مثل تھے لیکن جمہوری نہیں تھے اور قبائل صحراؤں میں اور کبھی کبھار شہروں میں زندگی گذارتے تھے اور رؤساء اور بزرگان قبیلہ کے ذریعہ ان کی کفالت ہوتی تھی اور کبھی یہ کیفیت بادشاہی حکومت میں تبدیل ہو جاتی تھی۔

۲۰۶

یہ عجیب ہرج و مرج ان میں سے ہر گروہ میں ایک خاص صورت میں نمایاںتھا، اورجزیرہ نما عرب کی سرزمین کے ہر گوشے کا ہر گروہ عجیب و غریب آداب و رسوم اور باطل عقائد کا پابند تھا، اس سے قطع نظر وہ سب کے سب تعلیم و تعلم کے فقدان کی بلاء میں مبتلا تھے حتیٰ کہ شہر بھی چہ برسد عشائر و قبائل ۔

جو میں نے ان کے تمام حالات و کردار اور عادات و رسومات بیان کئے ہیں یہ ایسے امور ہیں جنہیں قرآن کی آیات اور ان ارشادات سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جن میں ان کا ذکر موجود ہے ۔

لہذاجوآیات پہلے مکہ میں پھر اسلام کے ظہور کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں کہ جن میں ان کے خصوصیات کا تجزیہ کیا گیا ہے، اسی طرح جن آیات میں ان کی شدید و معمولی سر زنش کی گئی ہے ان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ان مطالب کی سب سے بڑی سند ہے جو ہم نے بیان کئے ہیں نہایت مختصرجملہ جو ان تمام امور کو بخوبی ثابت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن نے اس زمانہ کو دور جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، فقط یہی مختصر سی تعبیر ان تمام معانی کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، یہ تھی اس زمانہ میں عرب کی حالت۔

۲۰۷

6/2

دین جاہلیت

الف : غیر اللہ کی عبادت

قرآن

(اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر ایسے خدا بنالئے ہیں جو کسی بھی شی کے خالق نہیںہیں بلکہ خود ہی مخلوق ہیں اور خود اپنے بھی کسی نقصان یا نفع کے مالک نہیںہیں اور نہ انکے اختیار میں موت و حیات یا حشر و نشر ہی ہے)

ب: خدا کے لئے بیٹا قرار دینا

(اور ان لوگوں کو ڈراؤ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو اپنا فرزند بنا یا :اس سلسلہ میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ انکے باپ دادا کو یہ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے کہ یہ جھوٹ کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے)

(اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں جبکہ وہ پاک ہے اور یہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب انہیں کےلئے ہیں)

(کیا یہ تمہارے رب نے تم لوگوں کےلئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو)

(یا خدا کے لئے لڑکیاں اور تمہارے لئے لڑکے ہیں)

(کیا تم لوگوں نے لات و عزی کو دیکھا ہے اور منات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے، تو کیاتمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے لڑکیاں ہیں یہ انتہائی ناانصافی کی تقسیم ہے)

۲۰۸

حدیث

1147۔ رسول خدا(ص): خدا نے فرمایا: فرزند آدم نے میری تکذیب کی، جبکہ اسکو یہ حق نہیں تھا اور مجھ کو گالی دی حالانکہ اس کےلئے یہ مناسب نہیں تھا، لیکن میری تکذیب اس لئے کی تھی کہ اسکا گمان تھا کہ وہ جسطرح دنیا میں ہے میں اسے اسی طرح نہیں پلٹا سکتا ہوں؛ اور اسکا مجھے گالی دینا اس لئے تھا کہ اس نے میرے لئے بیٹا قرار دیا۔ میں اس چیز سے منزہ ہوں کہ میرے لئے زوجہ اور بیٹا ہو۔

1148۔ مجاہد: کہ کفار قریش کہتے تھے: ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں بڑی پریوںکی بیٹیاں ہیں۔

1149۔ ابن عباس:نے اس آیت (اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں) کی تفسیر میںفرمایا:وہ لوگ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے تھے ، اور تم اس بات کو پسند کرتاتے ہو کہ میرے(خدا) یہاں لڑکیاں ہوں لیکن اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، اسی لئے دور جاہلیت میں جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی تو اسے ذلت و حقارت کے ساتھ باقی رکھتے تھے یا زندہ در گور کر دیتے تھے۔

ج: جنات کو خداکا شریک قرار دینا

( اور انہوں نے جنات کو خداکا شریک بنایا حالانکہ خدا نے انہیںپیدا کیا ہے پھر اس کےلئے بغیر جانے بوجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی تیار کر دی ہیں، جبکہ وہ بے نیاز اور انکے بیان کر دہ اوصاف سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے )

(اور جس دن خدا سب کو جمع کریگا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہیں پر ایمان رکھتی تھی)

۲۰۹

د: خدا اور جنات کا رشتہ

(اور انہوںنے خدا و جنات کے درمیان بھی رشتہ قرار دے دیا حالانکہ جنات کو معلوم ہے کہ انہیں بھی خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائےگا)

ھ: بعض چوپایوں کو حرام قرار دینا

(آپ کہہ دیجئے کہ خدا نے تمہارے لئے رزق نازل کیاتو تم نے اس میں بھی حلال و حرام بنانا شروع کر دیا تو کیا خدا نے تمہیں اسکی اجازت دی ہے یا تم خدا پر افتراء کر رہے ہو)

(لہذا اب تم اللہ کے دئےے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اسکی عبادت کرنے والے ہو تو اسکی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو اس نے تمہارے لئے صرف مردار، خون ، سور کا گوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اسے حرام کر دیا ہے اور اس میں بھی اگر کوئی شخص مضطر و مجبور ہو جائے اور نہ بغاوت کرے ، نہ حد سے تجاوز کرے تو خدا بہت بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور خبردار جو تمہاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اسکی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اس طرح خدا پر جھوٹا بہتان باندھنے والے ہو جاؤ گے اور جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح اور کامیابی نہیں ہے )

( اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی اچھوتی ہے اسے ان کے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیں جنکے بارے میں وہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیںجنکو ؟ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طرف دے رکھی ہے ، عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا اور کہتے ہیں کہ ان چوپایوں کے پیٹ میںجو بچے ہیں وہ صرف ہمارے مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں پر حرام ہیں ہاں، اگر مردار ہوں تو سب شریک ہوں گے، عنقریب خدا ان بیانات کا بدلہ دیگا کہ وہ صاحب حکمت بھی ہے اور سب کا جاننے والا بھی ہے )

۲۱۰

( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا یہ جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں اور ان میں کے اکثر بے عقل ہیں)

1150۔ امام صادق(ع): جب اونٹنی بچہ دیتی ہے پھر اس کا بچہ بھی بچہ دے دے تو اس ناقہ کو بحیرہ کہتے ہیں۔

1151۔ امام صادق(ع): نے خدا کے اس قول( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا)کے بارے میں فرمایا: دور جاہلیت کے لوگ اس اونٹنی کو جو جوڑواں بچہ دیتی تھی وصیلہ کہتے تھے لہذا اس کا ذبح کرنااور کھانا ناجائز سمجھتے تھے، اور اگر دس بچے پیدا ہو جاتے تھے تو اس اونٹنی کو سائبہ کہتے تھے اس پر سواری کرنا اور اس کے کھانے کو حلال نہیں سمجھتے تھے اور حام وہ نرجانور ہے (جس کے ذریعہ مادہ کو حاملہ کراتے تھے) وہ اسے بھی حلال نہیںسمجھتے تھے، پھر خدا نے آیت نازل کی کہ ان میں سے کسی کو حرام نہیںکیا ہے ۔

وضاحت

اسلام سے قبل عرب کی بدترین جاہلیت کی بدولت ان کے رؤسا اور بزرگان کے استفادہ کے لئے زمین ہموار تھی اور دور جاہلیت کے سرکش و ظالم افراد رسولوں سے خالی دور میں دینی اور اجتماعی آداب و رسومات کے نام پر لوگوں کے پاکیزہ احساسات سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے اور اپنے منافع کے لئے کچھ بدعات و خرافت ایجاد کررکھی تھیں، ان میں کا ایک کہ جس کو تاریخ عمروبن لحی کے نام سے جانتی ہے اس نے اس وقت عرب کی اہمترین ثروت یعنی اونٹ کو اپنے اختیار میں لیا اور اس کے لئے کچھ احکام بنا کر مقدس رسم کی صورت میںپیش کیا۔

۲۱۱

اس بدعت کے نتیجہ میں ان کی در آمد اونٹ کی چار قسموں ، بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، اورحام ، میں منحصرہو گئی تھی اور تفسیروں میں کم و بیش اختلاف کے ساتھ اس سلسلہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ اور تمام تفسیروں کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ ان چاروں اونٹوں کے لئے خود ساختہ احترام کے قائل تھے کہ دودھ، گوشت، اون، ا ن پر سواری کو اکثر کے لئے حرام اور بعض کے لئے منجملہ متولی اور بتوں کے خدمت گذاروںکے لئے حلال سمجھتے تھے۔

یہ بدعت ، عورتوںکے متعلق عرب کے حقارت آمیز نظریہ سے مل کر عورتوںکے لئے اس حکم کے مزید سخت ہونے کا باعث ہوئی؛ وہ یہ کہ عورتیں ان مذکورہ اونٹوں کا گوشت صرف مرنے کے بعد ہی کھا سکتی تھیں۔

اس کے علاوہ اس خیالی حرمت کے نتیجہ میں بتوںکے متولیوں اور خادموں کے لئے چراگاہوں ، پانی کے چشموں اور جزیرۃ العرب کے نایاب کنوؤں سے استفادہ کر ناجائز و مباح تھا۔ نیز اس چیز کابھی باعث ہوئی کہ وہ شکریہ کے طور پر یا اپنی حاجات کے پوری ہونے پر پتھر کے بتوں اور ان کے متولیوںکی خدمت میں نذرانہ پیش کریں۔

قرآن مجید مذکورہ چار آیات کے ذریعہ جاہلیت کے بدعات و خرافات سے برسرپیکار ہوا یعنی بت پرستوں ، اور ان کے خود ساختہ رسومات اور دعووں کو محض افتراء سے تعبیر کیا ہے ، متولیوں ،بت پرستوں، اور بت گروںکو بے نقاب کر دیا اور اعلان کیا کہ چوپایوں کا حرام یا حلا ل قرار دیناصرف خدائے سبحان کے اختیار میں ہے ، اور اس نے ان چار طرح کے حیوانات کو عرب کے عقیدئہ جاہلیت کے بر خلاف حرام نہیںجانا ہے ، فقط مردار اور وہ تمام چیزیں جو بتوں اور غیر خدا سے مربوط ہیں انہیں حرام قرار دیا ہے ۔

۲۱۲

و:خدا اور اصنام کے درمیان کھیتی اور چوپایوں کی تقسیم

قرآن

(اور ان لوگوں نے خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی میں اور جانوروںمیں اسکا حصہ بھی لگایا ہے اور یہ اعلان کیاہے کہ یہ انکے خیال کے مطابق خدا کےلئے ہے اور یہ ہمارے شریکوںکےلئے ہے ، اسکے بعد جو شرکاء کا حصہ ہے وہ خدا تک نہیں جاسکتا اور جو خدا کا حصہ ہے وہ انکے شریکوں تک پہنچ سکتاہے کس قدر بدترین فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں)

(اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی اچھوتی ہے اسے انکے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیںجنکے بارے میںوہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیں جنکو ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طر ف دے رکھی ہے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا)

( اور یہ ہمارے دئےے ہوئے رزق میں سے ان کا بھی حصہ قرار دیتے ہیں جنہیں جانتے بھی نہیں ہیں تو عنقریب تم سے تمہارے افتراء کے بارے میںبھی سوال کیا جائیگا)

۲۱۳

وضاحت

عقیدئہ جاہلیت (کہ بتوں کو خدا کا شرکاء قرار دیتے تھے) نے عرب کو اس چیز پر ابھارا کہ وہ اپنے خداؤں اور بتوںکےلئے بتکدہ بنائیں اور ان کے خدمت گذاروں اور متولیوں کے لئے معاش فراہم کریں، انہیں اپنی زندگی ، رزق اور مملکت میں شریک بنائیں اور اپنی عمدہ روت(زراعت و چوپائے) ان کے درمیان تقسیم کریں اور خدا کے حصہ کے ساتھ ان کا بھی حصہ قرار دیں۔ خدا کے حصہ کو عمومی مصارف جیسے مہمانوںکو کھانا کھلانے اور فقراء و مساکین کی مدد کرنے میں خرچ کرتے اور بتوںکے حصہ کو ان کے خدمت گذاروں کو عنایت کرتے تھے۔جب کبھی زراعت پر کوئی آفت آتی یا کم پیدوار ہوتی یا ان کا حصہ خدا کے حصہ سے مخلوط ہو جاتا تو یہ حریص و لالچی خدمت گذار اپنے مفاد کی خاطر دھوکا دھڑی سے کام لیتے اور کہتے (خدا بے نیازہے) لہذا وہ اپنا پورا حصہ بغیر کسی کم و کاست کے لے لےتے تھے اور اپنے حصوں کی کمی کا جبران خدا کے حصہ سے کرتے تھے اور کبھی بھی خدا کے حصہ کا جبران بتوں کے حصہ سے نہیں کرتے تھے محصول میںیہ کمی وزیادتی کبھی کبھار ان کی پہلے کی فریبکاریوںکی بنا پر ہوتی تھی؛ اور وہ یہ کہ جب سینچائی کے وقت خد اکے حصہ کے کھیتوں سے پانی بتوں کے کھیتوں میں جانے لگتا تھا تو وہ اس کو روکتے نہیں تھے، لیکن اس کے بر خلاف خداکے کھیتوں میں بتوںکے کھیتوں سے پانی نہیں جانے دیتے تھے۔ اسی طرح یہ فرسودہ رسم چوپایوںمیں بھی تقسیم و شراکت کے اعتبار سے بر قرار تھی کہ جس کی طرف گذشتہ فصل میں اشارہ ہو چکاہے ۔ملاحظہ کریں:تفسیر مجمع المبیان : 4/571، تفسیر قمی: 1/217، تفسیر طبری : 5، جزء 8/40 تفسیر در منثور:3،362، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام:6 /193

۲۱۴

ز: عریاں طواف

1152۔ امام صادق(ع): زمانہ جاہلیت میں عرب کے گروہ تھے : حل اور حمس۔ حمس قریش تھے۔ اور حل تمام عرب تھے حل میں سے کوئی فرد ایسی نہیںتھی جو حمس کی پناہ میں نہ ہوتی اور جو حمس کی پناہ میں نہیں ہوتا تھا وہ عریاں طواف کرتاتھا۔

رسول خدا(ص) عیاض بن حمار مجاشعی کو پناہ دیتے تھے ، عیاض عظیم المرتبت انسان تھا اور جاہلیت میں اہل عکاظ کا قاضی تھا، وہ جب بھی مکہ وارد ہوتا ، اپنے گناہ آلود لباس کو اتار دیتا اور چونکہ پیغمبر کا لباس پاک و پاکیزہ ہوتا تھا لہذآنحضرت کا لباس پہن کرطواف کرتا تھا، اور طواف کے بعد آپکا لباس واپس دے دیتا تھا۔جب پیغمبرؐ مبعوث برسالت ہوئے تو عیاض آپ کے لئے ایک ہدیہ لیکر آیا، لیکن نبیؐ نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا: اے عیاض! اگر مسلمان ہو جاؤگے تو تمہارا ہدیہ قبول کرونگا؛ یقینا خدا مشرکوں کی داد و دہش کو میرے لئے پسند نہیںکرتا، پھر اس کے بعد عیاض نے اسلام قبول کیا اور اس کا اسلام قابل تحسین ہوا۔ اور رسول خدا کے لئے ہدیہ لیکر آیا اور آپ نے اس کو قبول فرمایا۔

1153۔ امام صادق(ع): عرب کے درمیان یہ رائج تھا کہ جو بھی مکہ میں وارد ہوتا اور اپنے لباس میں طواف کرتااس کے لئے جائز نہ تھاکہ وہ اپنے لباس کو باقی رکھتا اور اسے دو بارہ پہنتا بلکہ وہ اسے صدقہ دے دیا کرتاتھا۔

؛ لہذا جب وہ لوگ مکہ میں داخل ہوتے تھے تو عاریتاً کسی سے لباس لیکر طواف کرتے پھر واپس کر دیتے تھے، اگر عاریتاً لباس نہیںملتا تھا تو کرایہ پر لیتے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتا اور ان کے پاس فقط ایک ہی لباس ہوتا تھا تو وہ برہنہ طواف کرتے تھے۔

لہذا عرب کی ایک حسین و جمیل عورت وارد مکہ ہوئی لیکن عاریت اور کرایہ پر کوئی لباس نہ مل سکا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اگر تونے اپنے اس لباس میں طواف کیا تو اس کو تجھے صدقہ دینا ہوگا، عورت نے کہا: کیونکر صدقہ دوں گی جبکہ میرے پاس اس کے علاوہ دوسرا لبا س نہیںہے؟!

۲۱۵

لہذا اس نے برہنہ طواف کرنا شروع کر دیا اور لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے جس کی وجہ سے اس نے ایک ہاتھ آگے اور دوسرا ہاتھ پیچھے رکھا اور اس طرح رجز خوانی کی :

'' آج شرمگاہ کا کچھ حصہ یا تما م حصہ ظاہر ہے ، اور جو ظاہرہے اس کو جائز نہیں جانتی''

پھر طواف کے بعد کچھ لوگوں نے اس کے پاس شادی کے لئے پیغا م بھیجا لیکن اس نے کہا میں شادی شدہ ہوں۔

ح: قیامت کا انکار

قرآن

( اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیاتو کیا تمہارے سامنے ہماری آیات کی تلاوت نہیںہو رہی تھی لیکن تم نے اکڑ سے کام لیا اور بیشک تم ایک مجرم قوم تھے اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیںہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیں جانتے ہیںہم اسے ایک خیالی بات سمجھتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں اور ان کے لئے ان کے اعمال کی برائیاں ثابت ہو گئیں اور انہیں اس عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مزا ق اڑا یا کرتے تھے اور ان سے کہا گیا کہ ہم تمہیں آج اسی طرح نظر انداز کریں گے جس طرح تم نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیاتھاا ور تم سب کا انجام جہنم ہے اور تمہارا کوئی مدد گار نہیںہے یہ سب اس لئے ہے کہ تم نے آیات الہی کا مذاق بنا یا تھا اور تمہیں زندگانی دنیا نے دھوکا میں رکھا تھا توآج یہ لوگ عذاب سے باہر نہیں نکالے جائیں گے اور انہیں معافی مانگنے کا موقع بھی نہیںدیا جائیگا۔

۲۱۶

جاہلیت کے عقائد پر ایک نظر

زمانہ جاہلیت یعنی وحی اور انبیاء سے خالی دور میں عرب وادی ضلالت و گمراہی میں زندگی بسر کر رہے تھے، حیران و سرگرداں اور مذہبی و فکر ی اختلاف کے شکار تھے، درج ذیل مطالب میں عرب کے فرق و مذاہب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے ۔

1۔ خدا اور قیامت کے معتقد نہیں تھے اور ہستی کو اسی دنیا میں محدود و منحصر خیال کرتے تھے اور کہتے تھے

(و ما هی الاحاتنا الدنیا نموت و نحیٰ و ما یهلکنا الا الدهر)

یہ صرف زندگانی دنیا ہے اسی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کر دیتا ہے ۔

2۔ قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ آیت سے واضح ہے:

( و اذا قیل ان وعد الله حق و الساعة لا ریب فیها قلتم ما ندری ما الساعة ان نظن الا ظناً وما نحن بمستیقنین)

اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میںکوئی شک نہیں ہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیںجانتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیںہیں۔ نیز ارشاد ہے

(و ضرب لنا مثلا و نسی خلقه قال من یحیی العظام و هی رمیم قل یحییها الذی انشأها اول مرة)

اور وہ ہمارے لئے مثال بیان کرتاہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیاہے وہی زندہ بھی کریگا ۔

اس آیت سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ پہلی خلقت پر اعتقاد رکھتے تھے اور تعبیر حدیث کے مطابق وجود خداکے قائل تھے لیکن:(لا یرجون من الله ثواباً ولا یخافون الله منه عقابا)

خدا کے ثواب کی امید نہیںرکھتے تھے اور نہ ہی اس کے عقاب سے ڈرتے تھے۔

۲۱۷

3۔ وہ کبھی ملائکہ و جنات میں سے اور کبھی اصنام و شیاطین میں سے خدا کا شریک قرار دیتے تھے۔ ان شرکاؤ کبھی اصل خلقت میں دخیل قرار دیتے اور کبھی تدبیر امور میں ؛ یا وہ لوگ خدا کو مادی موجودات سے تشبیہ دیتے اور یا انہیںمادی موجودات میں سے کسی ایک کی پروردگار عالم کے عنوان سے پرستش کرتے تھے؛ وہ مادی موجودات جیسے کواکب یا حیوانات اور یا اشجار ہیں، جزیرۃ العرب میں اس عقیدہ کے معتقد افراد( جو گذشتہ بالا عقیدہ کے معتقد افراد سے کچھ چیزوںمیں شبیہ ہیں) کی اکثریت تھی۔

(وما یؤمن بالله الا وهم مشرکون)

ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے مگر یہ کہ مشرک تھے۔

4۔ جزیرۃ العرب کے بعض مناطق میں اہل کتاب کے دو گروہ یہود و نصاریٰ آباد تھے جس کے ثبوت کے لئے منجملہ آیہ مباہلہ ہے جو نجران کے ان علماء اور نصاریٰ پر دلالت کرتی ہے جو مدینہ کے جنوب میں زندگی گذارتے تھے، نیز صدر اسلام کی عظیم جنگیں بھی اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ جن میں یہودیوںکا اساسی کردار تھا، جیسے جنگ احزاب (خندق) اور اس کے بعد بنی قینقاع اور بنی قریظہ کے ساتھ کشمکش یہاں تک کہ جنگ خیبر دلالت کرتی ہے ۔

5۔ کچھ مجوسی اور صائبہ بھی آباد تھے لیکن قابل اعتنا نہیں تھے۔

6۔ کچھ لوگ دین حنیف ابراہیم کے معتقد تھے جو نہایت اقلیت میں تھے جنکے اسماء حسب ذیل ہیں:

1۔ ابو طالب (رسول اکرم (ص) کے چچا)

2۔ ابو قیس صرمہ بن ابی انس

3۔ ارباب بن راب

4۔ اسعد ابوبکر حمیری

۲۱۸

5۔ امیہ بن ابی صلت

6۔ بحیرائے راہب

7۔ خالد بن سنان عبسی

8۔ زہیر بن ابی سلمی

9۔ زید بن عمرو بن نفیل عبد العزیٰ

10۔ سوید بن عامر مصطلقی

11۔ سیف بن ذی یزن

12۔ عامر بن ضرب عدوانی

13۔ عبد الطا نجہ بن ثعلب بن وبرۃ بن قضاعہ

14۔ عبد اللہ قضاعی

15۔ عبد اللہ (رسول اکرم ؐکے والد محترم)

16۔ عبد المطلب (رسول اکرمؐ کے دادا)

17۔ عبید بن ابرص اسدی

18۔ علاف بن شہاب تمیمی

19۔ عمیر بن جندب جہنی

20۔ کعب بن لو ئی بن غالب

21۔ ملتمس بن امیہ کنانی

22۔ وکیع بن زہیر ایادی

۲۱۹

6/3

دور جاہلیت کے اوصاف

قرآن

( یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی )

(کیا تم نے اسکو دیکھا ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے ، وہی ہے جو یتیم کو جھڑکتا ہے ، اور کسی کو مسکین کے کھلانے کےلئے تیار نہیں کرتا ہے)

حدیث

1154۔ رسول خدا(ص): جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تعصب ہوگا، خدا اس کو روز قیامت زمانہ جاہلیت کے عربوں کے ساتھ محشور کریگا۔

1155۔ رسول خدا(ص): جو شخص پرچم گمراہی کے نیچے جنگ کرے اور تعصب کی بنا پر غضبناک ہو یا تعصب کی دعوت دے یا کسی عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت پر ہوگا۔

1156۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے غرور جاہلیت اور انکے آباء و اجداد کے سبب تکبر کو دور کیا، تم سب کی نسبت آدم و حوا سے ایسی ہے جیسے ترازو کے دو پلڑے، بیشک تم میں سب سے زیادہ مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، لہذا جو تمہارے پاس شادی کا پیغام لیکر آئے اگر تم اسکی دینداری و امانتداری سے راضی ہو تو اس کے ساتھ شادی کر دو۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246