یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174837 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پیام:

۱۔فرزندان یعقوب (ع) اپنے باپ کے ساتھ تو زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کےلئے اسباب خوردونوش فراہم کرنے کےلئے تلاش و جستجو کرتے تھے۔( فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ یَاأَبَانَا...)

۲۔حضرت یوسف (ع) کا ہنر فقط یہ نہ تھا کہ وہ انسان کامل تھے بلکہ آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ انسان سازی کررہے تھے۔''اپنے حاسد اور جفاکار بھائیوں کو مخفی طور پر ہدیہ دیا تاکہ دوبارہ آنے کے لئے راستہ ہموار ہوسکے''(وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ) (۱)

۳۔اگر شروع میں جنس کی قیمت نہ لی جائے تو خریدار کی تحقیر ہو گی ۔ اگر ہدیہ کا قصد ہے تو پہلے قیمت لے لی جائے پھر محبت آمیز شکل میں پلٹا دیا جائے(رُدَّتْ إِلَیْهِمْ)

۴۔اگر فراری کبوتر کو پکڑنا چاہو تو تھوڑا سا دانہ اسے ڈالنا پڑے گا '' یوسف (ع) نے غلہ کی قیمت لوٹا دی تا کہ پلٹنے کا ارادہ اور قوی ہوجائے''( بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ )

۵۔مرد گھر والوں کو غذا فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔(نمیر اهلن)

۶۔قحط اور کمیابی کے حالات میں اشیاء خوردونوش کو محدود حصوں میں بانٹنا یوسفی سنت ہے۔(نَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ )

--------------

( ۱ )قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے(ادفع باللتی هی احسن ) یعنی برائی کا جواب اچھائی سے دو۔ سورہ فصلت آیت ۳۴

۱۴۱

آیت ۶۶:

(۶۶) قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَکُمْ حَتَّی تُتُونِ مَوْثِقًا مِّنْ اﷲِ لَتَأْتُنَنِیْ بِهِ إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ

''(یعقوب (ع) نے)کہا جب تک تم لوگ میرے سامنے خدا سے عہد نہ کرلو گے کہ تم اس کو ضرور مجھ تک (صحیح و سالم ) لے گے مگر یہ کہ تم خود کسی مشکل میں گھر ج (تو مجبوری

ہے ورنہ میں تو تمہارے ساتھ ہر گز اس کو نہ بھیجوں گا) پھر جب ان لوگوں نے ان کے سامنے عہد کرلیا تو یعقوب نے کہا کہ ہم لوگ جو کہہ رہے ہیں خدا اس کا ضامن ہے''۔

نکات:

موثق : یعنی وہ چیز جو مدّ مقابل یعنی مخاطب کے بارے میں مایہئ وثوق و اطمینان ہو جو عہد، قسم یا نذر ہوسکتی ہے۔(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ)

ہمارا پروردگار ہم پر ہمارے باپ سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اس داستان میں حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں کی ایک خیانت پر اپنے دوسرے فرزند کو ان کے حوالے نہ کیا۔ لیکن ہم لوگ ہر روز خداوندعالم کے احکام کی صریحا ً خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن وہ اس معصیت کے باوجود ہم سے اپنی نعمات کو سلب نہیں کرتا۔

۱۴۲

پیام:

۱۔خدا پر ایمان ، ذات خداوند کی قسم نذر و عہد کل بھی قوی ترین سہارا تھا اور آج بھی محکم پشت پناہ ہیں(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

۲۔کسی کی بدقولی و بدرفتاری کے مشاہدہ کے بعد دوسرے موقع پر اس سے محکم و مستحکم معاہدہ کرنا چاہیئے(مَوْثِقً)

۳۔اپنے بچوں کو آسانی کے ساتھ دوسروں کے ساتھ بھیجنا صحیح نہیں ہے۔(تُتُونِ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

۴۔معاہدہ کرتے وقت ناگہانی اورغیر متوقع حوادث کی پیش بینی بھی کرنا چاہیئے( إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ ) یعنی تکلیف مالا یطاق ممنوع ہے۔

۵۔تمام تر حقوقی اور قانونی معاہدوںکے ہوتے ہوئے خدا پر مکمل توکل سے غافل نہیں ہونا چاہیئے( اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ)

آیت ۶۷:

(۶۷) وَقَالَ یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَ وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُون

''اور یعقوب نے (نصیحت کے طور پر چلتے وقت بیٹوں سے کہا) اے فرزندو! (دیکھو خبردار) سب کے سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا (کہ کہیں نظر نہ لگ جائے) اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اس (بلا) کو جو خدا کی طرف سے (آئے کچھ بھی ٹال نہیں سکتا) حکم تو (دراصل) خدا ہی کے واسطے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے''۔

۱۴۳

پیام:

۱۔نافرمان بیٹوں سے بھی باپ کی محبت ختم نہیں ہوتی( یَابَنِیَّ)

۲۔بچوں کی حفاظت وسلامتی کےلئے تدبیر و غوروفکر ضروری ہے( یَابَنِیَّ لاَتَدْخُلُوا)

۳۔وعظ و نصیحت کے بہترین اوقات میں سے ایک اہم وقت وہ ہے جب انسان سفر کے لئے تیار ہو۔ حضرت یعقوب (ع) نے سفر کے موقع پر فرمایا:( یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ) (۱)

۴۔حساسیت ، بدگمانی اور بری نگاہ سے لوگوں کو بچانا چاہیئے جوانوں کا گروہی طور پر کسی اجنبی جگہ پر جانا بدگمانی و چغل خوری کا سبب بن سکتا ہے(لاَتَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ)

۵۔لطف و کرم اور قدرت خداوندی کو کسی ایک راہ میں منحصر نہیں سمجھنا چاہیئے اس ذات اقدس کا دست قدرت انتہائی وسیع ہے وہ جس راستہ سے چاہے مدد پہنچا سکتا ہے۔(لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ) (۲)

--------------

( ۱ )روایات میں بھی ہے کہ سفر کرتے وقت وعظ و نصیحت کرنی چاہیئے

( ۲ )روایات میں ہے کہ : تاجر افراد اپنی تمام جمع پونجی کی سرمایہ کاری ایک جگہ پر نہ کریں تا کہ اگر ایک راستہ بند ہوجائے تو دوسری راہ کھلی رہے.

۱۴۴

۶۔احتیاط اور تدبیر کے ساتھ ساتھ(لاَ تَدْخُلُوا...) خدا پر توکل اور بھروسہ بھی ضروری ہے(عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ)

۷۔بہترین مدیر و سربراہ وہ ہے جو پروگرام اور منصوبے کے علاوہ تمام احتمالات کو مدنظر رکھے کیونکہ انسان اپنے امور کی انجام دہی میں مستقل نہیں ہے یعنی تمام تر احتیاط اور دقت کے باوجود خدا کا دست قدرت وسیع تر ہے اور ہماری تمام تر احتیاط اور حساب و کتاب کے باوجود ان کی انجام دہی پر صد در صد ضمانت نہیں ہے(وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۸۔خدا کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے'' عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ'' کیونکہ وہ تن تنہا کافی ہے(و کفی بالله وکیل) (۱) اور اللہ بہترین وکیل ہے(نعم الوکیل) (۲)

۹۔حضرت یعقوب (ع) نے خود بھی خدا پر بھروسہ کیا اور دوسروں کو بھی خدا پر'' توکل'' کرنے کا حکم فرمایا۔( تَوَکَّلْت... فَلْیَتَوَکَّلْ ...)

۱۰۔خداوندمتعال کے فیصلوں کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔(مَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۱۱۔اس کائنات میں حکم کرنے کا مطلقا ًحق ، صرف ذات پروردگار کو ہے(إِن الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ )

--------------

( ۱ )سورہ نساء آیت ۸۱

( ۲ )سورہ آل عمران آیت ۱۷۳

۱۴۵

آیت ۶۸:

(۶۸) وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا کَانَ یُغْنِی عَنْهُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُون

''اورجب یہ سب بھائی جس طرح انکے والد نے حکم دیا تھا اسی طرح (مصر میں)داخل ہوئے تو (جو حکم) خدا (کی طرف سے آنے کو تھا اس ) سے انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا مگر (ہاں) یعقوب کے دل میں ایک تمنا تھی جسے انہوں نے بھی یوں پورا کرلیا چند مختلف دروازوں سے اپنے بیٹوں کو داخلے کا حکم دے کر یعقوب ان کو نظر بد سے بچانا چاہتے تھے کیونکہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اسے چونکہ ہم نے علم دیا تھا صاحب علم ضرور تھامگر بہتےرے لوگ (اس سے بھی)واقف نہیں ہیں''۔

نکات:

حضرت یعقوب علیہ السلام کی کونسی اندرونی خواہش پوری ہوئی اس میں چند احتمالات ہیں :

۱۔ بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام تک پہنچ جائیں اور حضرت یوسف (ع)کو تنہائی سے نجات ملے اگرچہ بنیامین پر چوری کی تہمت لگے ۔

۲۔ باپ بیٹے کے ملن میں سرعت اور جلدی ہوسکے جس کے بارے میں آئندہ اشارہ کیا جائے گا ۔

۳۔ فریضہ کی انجام دہی ، اگرچہ نتیجہ کی کوئی ضمانت نہ ہو حضرت یعقوب علیہ السلام کی حاجت یہ ہے کہ ملاقات کے مقدمات میں کوتاہی نہ ہو اور وہ لوگ ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں لیکن جو ہو گا وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔

۱۴۶

پیام:

۱۔ تلخ تجربے انسان کو باادب بنادیتے ہیں اور وہ بزرگوں کی باتوں کو قبول کرنے لگتا ہے ۔(دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ)

۲۔ اگر کسی کی بے ادبی کا ذکر کیا ہے تو اس کے ادب کو بھی بیان کرنا چاہیئے ۔(دَخَلُوا أَبُوهُمْ) (اگر برادران یوسف نے کل اپنے بابا پر گمراہی کا الزام لگایا تھا تو آج فرمان پدری پر سرتسلیم خم کردیا ہے۔)

۳۔ پروگرام ، عزائم ، تخمینہ جات اورمصمم ارادے کے ساتھ اگر خداوندمتعال کا ارادہ بھی ہو تو پھر تمام پروگرام عملی جامہ پہن سکتے ہیں لیکن اگر خدا کا ارادہ شامل حال نہ ہو تو تمام عزم و ارادے بے کار ہوجاتے ہیں ۔( مَا کَانَ یُغْنِی عنهم مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۴۔ جناب یعقوب (ع)تمام مطالب و اسرار سے آگاہ تھے لیکن مصلحتاً ان کا اظہار نہیں فرمایا۔(حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ)

۵۔ اولیائے خداکی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ۔( حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا )

۶۔ انبی(ع)ء کا علم خداوندعالم کی طرف سے ہے(عَلَّمْنَ)

۷۔ اکثر لوگ اسباب و علل کو دیکھا کرتے ہیں لیکن خدا کی حاکمیت اور لزوم توکل سے بے خبر ہوتے ہیں۔(أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُون)

۱۴۷

آیت ۶۹:

(۶۹)وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّی أَنَا أَخُوکَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ

''اور جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس جگہ دی اور (چپکے سے ) اس (بنیامین) سے کہہ دیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو جوکچھ (بدسلوکیاں) یہ لوگ تمہارے ساتھ کرتے رہے ہیں اسکا رنج نہ کرو ''۔

نکات:

تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب برادران یوسف (ع)وارد مصر ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کی مہمان نوازی فرمائی جس میں ہر دو آدمیوں کے لئے غذا کا ایک طبق معین کردیا آخر میں بنیامین تنہا رہ گئے تو حضرت یوسف (ع)نے ان کو اپنے نزدیک بٹھا لیا اس کے بعد ہر دو آدمیوں کے لئے ایک کمرہ معین کیا تو پھر بنیامین تنہا رہ گئے تو انہیں اپنے حجرے میں رکھ لیا وہاں بنیامین نے اپنے بھائیوں کی بے وفائی اور ظلم و ستم کا ذکر چھیڑ دیا جو انہوں نے حضرت یوسف (ع)پر ڈھائے تھے یہاں پر کاسہ صبر یوسفی لبریز ہوگیا ۔ فرمایا: پریشان مت ہو میں وہی یوسف ہوں اور تاکید کے ساتھ فرمایا۔(انی انا اخوک) میں ہی تمہارا بھائی ہوں تاکہ ایسا کوئی احتمال نہ آئے کہ میں تمہارے بھائی کی جگہ پر ہوں۔

جملہ(فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُون ) کے معنی کے سلسلے میں دو احتمال ہیں ۔

۱۔ یا تو یہ کہ وہ اپنے بھائیوں کی گزشتہ کارستانیوں سے غمناک نہ ہو۔

۲۔ یا یہ کہ وہ پروگرام جسے ہمارے غلاموں نے تمہارے لئے بنایا ہے کہ تمہارے حصے میں پیمانہ ڈال دیں گے تاکہ تم میرے پاس رہ سکو اس سے پریشان نہ ہونا۔

۱۴۸

پیام:

۱۔ وہ برادران جنہیں کل اپنی قدرت پر ناز تھا اور کہہ رہے تھے ''نحن عصبہ'' ہمارا گروہ قوی ہے وہی آج اس درجہ کو پہنچ چکے ہیں کہ اپنا آذوقہ (انتہائی کم غذا) مہیا کرنے کے لئے آستانہ حضرت یوسف (ع)پر تواضع کے ساتھ بوسہ دینے پر مجبور ہیں۔(دَخَلُوا عَلَی)

۲۔ کلام اور گفتگو کے مختلف مرحلے ہیں کہیں مخفیانہ گفتگو ہوتی ہے تو کہیں اعلانیہ، حضرت یوسف نے مخفیانہ انداز سے فقط بنیامین سے کہا :( إِنِّی أَنَا أَخُوک) (ہرسخن جائی و ہر نکتہ مقامی دارد) ہر سخن اور نکتہ کا اپنا موقع و محل ہوتا ہے۔

۳۔ بعض امور سے فقط خاص لوگوں کو باخبر کرنا چاہیئے(فَلاَ تَبْتَئِسْ )

۴۔ جب بھی کوئی نعمت حاصل ہوتو ماضی کی تلخ کامیوں کو بھول جانا چاہیئے (یوسف (ع)اور بنیامین نے ملاقات کی چاشنی محسوس کرلی ہے تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پرانی باتوں کو بھلا دیا جائے۔)(فَلاَ تَبْتَئِسْ)

۵۔ کسی بھی پروگرام اور نقشہ کو عملی جامہ پہنانے سے قبل بے گناہ شخص کو روحانی و نفسیاتی طور پر آمادہ کرلینا چاہیئے ۔ (بنیامین سے کہا گیا کہ تمہیں چور قراردے کر یہاں روکا جائے گا لہٰذاپریشان نہ ہونا۔)(فَلاَ تَبْتَئِسْ)

۱۴۹

آیت ۷۰:

(۷۰) فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَ فِی رَحْلِ أَخِیهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُذِّنٌ أَیَّتُهَا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ

''پھر جب یوسف نے ان کا ساز وسامان (سفر غلہ وغیرہ)تیار کرا دیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پانی پینے کا کٹورا رکھ دیا پھر ایک منادی للکار کے بولا کہ اے قافلے والو(ہو نہ ہو)یقینا تمہیں لوگ چور ہو''۔

نکات:

یہ دوسری نقشہ کشی ہے جسے حضرت یوسف علیہ السلام انجام دے رہے ہیں پہلی مرتبہ غلہ کی قیمت کو بھائیوں کے سامان میں رکھ دیا تاکہ وہ دوبارہ پلٹ آئیں اس بار قیمتی برتن اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا تاکہ اسے اپنے پاس رکھ سکیں ۔

''سقایه'' اس کٹورے اور پیمانے کو کہتے ہیں جس میں پانی پیا جاتا ہے''رحل'' اس خوگیر یا بوری کو کہتے ہیں جو اونٹ کے اوپر رکھی جاتی ہے اور اس کے دونوں اطراف سامان وغیرہ رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے (پالان ، محمل) ''عیر''اس قافلہ کو کہتے ہیں جو غذائی اجناس لے کر جاتا ہے(۱)

تفسیروں میں بیان ہوا ہے کہ حضرت یوسف اور بنیامین کے درمیان جو نشست ہوئی اس میں حضرت یوسف نے بنیامین سے پوچھا کہ کیا وہ یوسف کے پاس رہنا پسند کرتے ہیں ؟ تو جناب بنیامین نے رضایت کا اظہار کردیالیکن یہ بتا دیاکہ ان کے بابا نے بھائیوں سے تعہد لیا ہے کہ بنیامین کو اپنے ہمراہ واپس لے کر آئیں گے ۔ اس پر حضرت یوسف نے فرمایا : گھبر نہیں ، میں تمہارے رہنے کے لئے نقشہ کشی کرکے ایک راستہ نکال لوں گا۔

اس ماجرے میں بے گناہوں پر چوری کاالزام کیوں لگایا گیا؟

--------------

( ۱ )مفردات راغب.

۱۵۰

جواب: بنیامین نے اپنے بھائی کے پاس رکنے کے لئے بسر و چشم اس منصوبے کو قبول کیا تھا باقی برادران اگرچہ کچھ دیر کے لئے ناراض ہوئے لیکن تحقیق کے بعد ان سے الزامات مرتفع ہوگئے علاوہ ازیں کام کرنے والوں کو خبر نہ تھی کہ حضرت یوسف نے خود سامان کے درمیان پیمانہ ڈال دیا ہے ۔ (جعل) ان لوگوں نے تو طبیعی طور چیخنا شروع کردیا کہ(انکم لسارقون) تم ہی لوگ چور ہو۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں نے حضرت یوسف (ع)کو حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے چرا لیاتھا لہٰذاکام کرنے والوں نے یہ کہاکہ ہم نے بادشاہ کا پیمانہ گم کردیا ہے یہ نہیں کہا کہ تم لوگوں نے بادشاہ کا پیمانہ چرالیا ہے فقط حضرت یوسف علیہ السلام یہ بتانا چاہتے تھے تم لوگوں نے حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے یوسف (ع)کو چرایا ہے(۱)

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:''لاکذب علی المصلح'' اگر کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح و آشتی اور رفع اختلافات کے لئے جھوٹ کا سہارہ لیتا ہے تو وہ جھوٹ شمار نہیں ہوتا ، اس وقت آنحضرت (ص)نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۲)

--------------

(۱)تفسیر نور الثقلین ۔البتہ اس عمل کو اصطلاح میں''توریہ'' کہتے ہیں یعنی کہنے والا ایک خاص ہدف رکھتا ہے لیکن سننے والا دوسرا ہدف سمجھتا ہے ۔ بہرحال اگر موذن سے مراد آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام ہیں تو یہ توریہ صحیح ہے ۔ واللہ العالم۔

(۲)تفسیر نورالثقلین۔ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسے موارد کذب میں شمار ہوتے ہیں یا نہیں یعنی آیا مصلح یا اس قسم کے لوگوں سے کذب کا حکم اٹھا لیا گیا ہے یا اصلاً جھوٹ ہی نہیں ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کےلئے صدق و کذب ، سچ اور جھوٹ کے معنی کو دیکھنا پڑے گا عام طور پر صدق کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے : وہ خبر جو مطابق واقع ہو ۔ جھوٹ کی تعریف میںیہ کہا جاتا ہے : وہ خبر جو مخالف واقع ہو۔ اگر یہی تعریف صحیح ہے تو پھر بہت سے مقاما ت پر یہ قاعدہ ٹوٹ جائے گا مثال کے طور پر سورہ منافقین کی پہلی آیت میں خداوندعالم گواہی دیتا ہے کہ نبی اکرم (ص) خدا کے رسول ہیں لیکن وہیں پر فرماتا ہے کہ ''واﷲ یشھد ان المنافقین لکاذبون''اگر مطابق واقع خبر سچ ہے تو پھر منافقین کو سچا ہونا چاہیئے لیکن قرآن کریم فرما رہا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ اسی طرح مصلح خلاف واقع گفتگو کرتا ہے لیکن نبی اکرم فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹ نہیں ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ معیار صدق و کذب مطابق و مخالف واقع ہونا نہیں ہے بلکہ معیار کچھ اور ہے درحقیقت معیار صدق و کذب عدل و ظلم ہے جہاں ایک کلام عدل ہوگا وہ صدق ہوگا اور جہاں ظلم ہوگا وہاں کذب اور جھوٹ ہو گا غالبا ًجوکلام صادق ہوتا ہے وہ عدل ہوتا ہے لیکن بہت کم موارد میں ایسا ہوتا ہے جہاں کذب عدل ہوتا ہے دوسری طرف غالباً کذب ظلم ہوتا ہے اور کم مواقع ایسے آتے ہیں جہاں صدق اور سچ ظلم ہوتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ حکم شرعی ، حرام اور مباح ،دائر مدار صدق و کذب نہیں ہے بلکہ دائر مدار عدل و ظلم ہے ۔ بنابریں مصلح کا صلح قائم کرنے کےلئے صحیح بات بتانے سے گریز کرنا عدل ہے لہٰذا وہ جھوٹ نہیں ہے ، منافقوں کا رسول اکرم (ص) کو رسول کہنا باوجودیکہ دل سے ان کے مخالف تھے ظلم ہے، لہٰذا وہ سچ نہیں ہے ،جناب یوسف (ع)کا اپنے بھائی کو روکنا عدل ہے تاکہ آئندہ کےلئے راہ ہموار ہوسکے ، لہٰذا جھوٹ نہیں ہے۔مترجم۔

۱۵۱

پیام:

(۱) کبھی کبھی کسی ماجرے کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے نقشہ کشی اور سازش کا سہارہ لیا جاتا ہے(۱) بنابریں اہم مصلحتوں کے پیش نظر بے گناہ شخص پر چوری کا الزام لگانا کہ جس کے بارے میں پہلے آگاہ کردیا ہو کوئی مشکل کام نہیں ہے(۲)

آیت ۷۱:

(۷۱)قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَیْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ

''یہ سن کر یہ لوگ پکارنے والوں کی طرف رخ کرکے کہنے لگے (آخر) تمہاری کونسی چیز گم ہوگئی ہے ؟''

--------------

(۱)مثلاًنمائش ، تصاویر اورفلم وغیرہ میں بظاہر لوگوں کو مجرم ، گناہگاروغیرہ جیسے خطاب سے مخاطب کیا جاتا ہے حتی انکو شکنجہ بھی دیا جاتا ہے لیکن چونکہ ان لوگوں کو پہلے سے متوجہ کردیا جاتا ہے اور وہ راضی ہوتے ہیں اسی بنیاد پر اہم مصلحت کودیکھتے ہوئے اسے قبول کرلیتے ہیں۔

(۲)تفسیر المیزان ج ،۱۱ ص ۲۴۴

۱۵۲

آیت ۷۲:

(۷۲) قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِیمٌ

'' ان لوگوںنے جواب دیاکہ ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں ملتا ہے جو شخص اسے پیش کرے گا اس کےلئے بارشتر(غلہ انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں''۔

نکات:

'' صُوَاعَ '' (۱) اور''سقایہ''دونوں ہم معنی ہیں یعنی وہ ظرف جس سے پانی پیا جاتا ہو اور اسی سے گیہوں بھی تولا جاتا ہو جو صرفہ جوئی کی علامت ہے یعنی ایک چیز سے چند کام۔

''حِملْ'' بار کو کہتے ہیں ''حَمل'' بھی بار ہی کو کہتے ہیں لیکن اس بار کو جو پوشیدہ ہو مثلاًوہ بارش جو بادل میں چھپی ہو یا وہ بچہ جو شکم مادر میں ہو(۲)

جملہ''َلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر'' یعنی جو ایسا کرے گا اس کی جزا یہ ہو گی اسے فقہی اصطلاح میں''جُعاله '' کہتے ہیںجو سابقہ اور قانونی اعتبار کا حامل ہے

پیام:

۱۔ انعام و اکرام کی تعیین پرانی روش ہے(لِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر)

۲۔انعام و اکرام انسان اور زمانے کی مناسبت سے ہونا چاہیئے ۔ خشک سالی کے زمانے میں بہترین انعام غلے سے لدا ہوا ایک اونٹ ہے( حِمْلُ بَعِیر)

۳۔ حصول اطمینان کے لئے ضامن قرار دینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے(أَنَا بِهِ زَعِیم)

--------------

(۱) تفسیر اطیب البیان میں آیا ہے کہ صواع اس ظرف کو کہتے ہیں جس میںایک صاع (تقریبا تین کلو) گیہوں کی گنجائش ہوتی ہے.

(۲)مفردات راغب.

۱۵۳

آیت ۷۳:

(۷۳) قَالُوا تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ

''تب یہ لوگ کہنے لگے خدا کی قسم تم تو جانتے ہو کہ ہم (تمہارے )ملک میں فساد کرنے کی غرض سے نہیں آئے اور نہ ہی ہم لوگ چور ہیں ''۔

نکات:

برادران یوسف نے کہا : آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہم لوگ چوری اور فساد برپا کرنے کے لئے نہیں آئے وہ لوگ یہ کیسے جانتے تھے کہ یہ چور اور فسادی نہیں ہیں ؟ اس میں چند احتمال ہیں ۔(۱) شاید حضرت یوسف نے اشارہ کیا ہو کہ یہ لوگ چور نہیں ہیں(۲) شاید شخصی داخلہ کے وقت کچھ افراد معین ہوں کہ جو رفت و آمد پر نظر رکھتے ہوں۔ جی ہاں! یقینا باہر سے آنے جانے والے افراد کی نگرانی کرنی چاہیئے خصوصا ًاس وقت جب ملک بحرانی کیفیت میں ہو تو زیادہ گہری نگاہ رکھنی چاہئےے تاکہ آنے والے مسافرین کے اہداف کا علم رہے ۔

پیام:

۱۔ بے داغ ماضی ،بری الذمہ ہونے کی علامت ہے ۔( لَقَدْ عَلِمْتُم)

۲۔ ''چوری'' بھی زمین پر فساد کا ایک مصداق ہے( مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ )

۱۵۴

آیت ۷۴:

(۷۴) قَالُوا فَمَا جَزَهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ

''وہ (ملازمین) بولے کہ اگر تم جھوٹے نکلے تو پھر اس (چور) کی سزا کیا ہونی چاہیئے ''۔

نکات:

جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ سوال تیار کرنے والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں چونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائی کنعان کے علاقائی قانون اور حضرت یعقوب کے( نظریہ کے )مطابق اپنا نظریہ پیش کریں گے ۔

کیا قاضی کے علم اور ملزم کے قسم کھانے کے باوجود بھی تحقیق کرنا ضروری ہے ؟( تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ)

جواب: جی ہاں ۔ اس کی دلیل جملہ'' فَمَا جَزَهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ '' ہے۔

پیام:

۱۔ مجرم کی سزا کو معین کرنے کے لئے اس کے ضمیر سے سوال کیا جائے( فَمَا جَزَهُ...)

۱۵۵

آیت ۷۵:

(۷۵) قَالُوا جَزَهُ مَنْ وُّجِدَ فِی رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَهُ کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ

''وہ (بے دھڑک)بول اٹھے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے بورے میں وہ (پیالہ) پایا جائے تو وہی اس کا بدلہ ہے (تو وہ مال کے بدلے میں غلام بنایا جائے گا)ہم لوگ تو(اپنے یہاں کنعان میں) ظالموں(چوروں) کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں''۔

پیام:

۱۔ بعض گزشتہ اقوام میں چوری کی سزا چور کو غلام بنا لینا تھی(۱) ۔( فَهُوَ جَزَهُ)

۲۔ قانون میں کوئی استثناء اور پارٹی بازی نہیں ہونی چاہیئے ۔ جو بھی چور ہوگا غلامی کی زنجیر اس کے پیروں میں ہوگی۔( مَنْ وُجِدَ فِی رَحْلِهِ)

۳۔ ممکن ہے کہ مجرم کی سزا اس کے علاقے کے قانون کے مطابق ہو ۔ میزبان ملک کے قانون کے مطابق سزا دینا ضروری نہیں ہے۔(کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ)

۴۔ چوری ، ظلم کا کھلا ہوانمونہ ہے کیونکہ آیت کے آخری حصے میں لفظ ''سارق'' کے بجائے ''ظالم ''استعمال ہوا ہے۔

--------------

(۱) بنابر نقل تفسیر مجمع البیان اس غلامی کی مدت ایک سال تھی.

۱۵۶

آیت ۷۶:

(۷۶) فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِیهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِیهِ کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلاَّ أَنْ یَشَاءَ اﷲُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ

''غرض یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے کھولنے سے پہلے دوسرے بھائیوں کے شلیتوں سے (تلاشی) شروع کی اس کے بعد (آخر میں) اس (پیالے) کو یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتہ سے برآمد کیا ،یوسف کے (بھائی کو روکنے کی) ہم نے یوں تدبیر بتائی ورنہ وہ (بادشاہ مصر کے) قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں روک سکتے تھے مگر ہاں جب ہم چاہتے ہیں اس کے درجات بلند کر دیتے ہیں ،اور ہر صاحب علم سے بڑھ کر ایک بہت بڑی دانا ذات (بھی) ہے ''۔

نکات:

چونکہ بنیامین اس واقعہ سے آگاہ تھے لہٰذا تلاشی کے وقت کافی مطمئن تھے ، یہی وجہ ہے کہ اس پورے ماجرے میں کہیں بھی ان کی طرف سے کوئی اعتراض نقل نہیں کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازین تاکہ یہ نقشہ کشی مخفی رہ سکے اور بدگمانی کا سبب نہ بنے تلاشی کو دوسرے لوگوں سے شروع کیا گیا یہاں تک کہ بنیامین کی نوبت آگئی اور جب وہ پیمانہ ان کے سامان میں پایا گیا تو اب گزشتہ قراردادکے مطابق ان کا مصر میں رہنا ضروری ہوگیا ۔یہ خدائی تدبیر تھی کیونکہ جناب یوسف علیہ السلام مصری قوانین کے تحت چور کو بعنوان غلام نہیں رکھ سکتے تھے۔

کلمہ''کید'' تمام مقامات پر مذموم معنی میں استعمال نہیں ہواہے بلکہ تدبیر ، چارہ اندیشی اور منصوبہ بندی کے معنی میں بھی مستعمل ہے (کدنا)

۱۵۷

پیام:

۱۔اطلاعات جمع کرنے پر مامور افراد کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے دوسروں کو ان پر شک ہو جائے( فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِهِمْ ) (وہ تلاشی لینے کےلئے سب سے پہلے بنیامین کے پاس نہیں گئے بلکہ تلاشی دوسرں کے سامان سے شروع کی۔)

۲۔ کارکنان کے کاموں کی نسبت مسل کی طرف دی جاتی ہے (فَبَدَ) (برحسب ظاہر حضرت یوسف (ع)نے تلاشی نہیں لی تھی لیکن قرآن فرماتا ہے کہ تلاشی انہوں نے شروع کی تھی۔)

۳۔ فکر و تخلیقی صلاحیت، منصوبہ بندی و چارہ جوئی غیبی امداد سے حاصل ہوتی ہے(کِدْنَ)

۴۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی تدبیریں الہامی تھیں۔(کِدْنَا لِیُوسُفَ)

۵۔ حضرت یوسف (ع)کے پاس بنیامین کا رہنا حضرت یوسف کے لئے فائدہ مند تھا ۔(کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ )

۶۔ قانون کااحترام اور اس کی رعایت غیر الٰہی حکومت میں بھی ضروری ہے۔(مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِک)

۷۔ معنوی مقامات مختلف درجات اور مراتب کے ایک سلسلہ کے حامل ہیں ۔(نَرْفَعُ دَرَجَات...)

۸۔ علم و آگاہی برتری کا سرمایہ ہے( نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ. وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ)

۹۔ بشری علم محدود ہے(فَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ)

۱۵۸

آیت ۷۷:

(۷۷) قَالُوا إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ فَأَسَرَّهَا یُوسُفُ فِی نَفْسِهِ وَلَمْ یُبْدِهَالَهُمْ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانًا وَاﷲُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ

''(غرض بنیامین روک لئے گئے )تو یہ کہنے لگے اگر اس نے چوری کی ہے تو (کونسی تعجب کی بات ہے) اس سے پہلے اسکا بھائی (یوسف) چوری کرچکا ہے تو یوسف نے (اس تہمت کا کوئی جواب نہیں دیا اور)اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور ان پر ظاہر نہ ہونے دیا (مگر) یہ کہہ دیاکہ تم لوگ برے ہو(نہ کہ ہم دونوں) اور جو (اس کے بھائی کی چوری کا) حال تم بیان کررہے ہو اس سے خدا خوب واقف ہے ''۔

پیام:

۱۔ متہم یا تو انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں چور نہیں ہوں(ما کنا سارقین) یا یہ توجیہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا چوری کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس کا بھائی چوری بھی کر چکا ہے۔( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْل)

۲۔ حسد کا مریض سالہا سال کے بعد بھی چٹکی لینے سے باز نہیں آتا ۔( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْل)

۳۔ ایک بھائی کا اخلاق دوسرے بھائی پر اثر انداز ہوتاہے( أَخٌ لَهُ) ماں کا کردار بھی بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے (یوسف (ع)اور بنیامین کی ماں ایک تھی)

۱۵۹

۴۔ جہاں محبت اور دل صاف نہ ہو وہاں تہمت بہت جلد لگا دی جاتی ہے ۔(إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ...) (پیمانہ کا بنیامین کے سامان سے باہر نکلنا چوری کی دلیل نہیں ہے، لیکن چونکہ بھائیوں کو بنیامین سے محبت نہ تھی اس لئے ان لوگوں نے چوری کا الزام لگا دیا اور مسئلہ کو تسلیم کرلیا۔)

۵۔ جہاں محبت نہیں ہوتی وہاں جزئی اور چھوٹی سی غلطی کو کلی اور بڑی بھاری خطا شمار کیا جاتاہے (انہوں نے''سرق'' فعل ماضی کے بجائے فعل مضارع''یسرق' 'استعمال کیا یعنی اس کام میں استمرار ہے گویا بنیامین کا روزانہ کاکام یہی تھا)۔

۶۔ ہدف تک پہنچنے کے لئے لعن و طعن کے تیر سہنے پڑتے ہیں ۔( سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ)

۷۔ کچھ لوگ بعض مواقع پر اپنی آبرو بچانے کے لئے دوسرے پر تہمتیں لگاتے ہیں ۔( سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ)

۸۔ جواں مردی اور کشادہ قلبی رمز رہبری ہے۔(أَسَرَّهَا یُوسُفُ)

۹۔ راز کا فاش کرنا ہمیشہ قابل اہمیت و ارزش نہیں ہے ۔(وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ)

۱۰۔ ''تحقیر'' نہی از منکر کا ایک طریقہ ہے۔( أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانً)

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قرآن میں قیامت کے عینی نمونہ

عزیر یا ارمیا ی پیغمبر کاقصہ :

(( أَوکالَّذِ مَرَّعلیٰ قَریةٍ وَهِیَ خَاویةُ علیٰ عُرُوشِها قاَلَ أَنّی یُحییِ هذهِ اللَّهُ بَعَدَ مَوتِها فأَماتهُ اللَّه مِائةَ عام ثُمَّ بَعَثهُ قَالَ کَم لَبِثتَ قَالَ لَبِثتُ یَوماً أَوبَعضَ یَومٍ قَالَ بَل لبِثتَ مِائةَ عامٍ فَانظُر اِلیٰ طَعامِک وَشَرَابِک لَمْ یَتسنَّه وَأنظُر اِلیٰ حِمَارِک وَلِنَجعَلک آیةً للنَّاسِ وَانظُر اِلیٰ العِظَامِ کَیفَ نُنشزُهَا ثُمَّ نَکَسُوهَا لَحمًا فَلمَّا تَبَیّنَ لَهُ قَالَ أَعلمُ أَنَّ اللَّهَ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''جنا ب عزیر کا ایک دیہات سے گزر ہوا آپ نے دیکھا کہ وہ تباہ وبرباد پڑا ہو اہے ۔ کہا خدا ان مردوں کو کیسے زندہ کریگا خدانے انہیں سوسال کی موت دیدی پھر انہیںزندہ کیا پوچھاکتنے دن تک سوئے رہے کہا ایک دن یا اس سے کم خدا نے کہاتم یہا ں سوسال تک سوتے رہے ہو ذرا اپنے کھانے اورپینے کی طرف دیکھو جو ختم ہوچکا ہے اپنے گدھے کی طرف دیکھو جو خاک میں مل چکا ہے تاکہ میں تمہیں لوگوں کے لئے نشانی قرار دوں اپنی ہڈیوں کیطرف دیکھو کہ انہیں جمع کرکے ان پر گوشت چڑھا یا چونکہ یہ بات ان کے واسطے واضح ہوچکی تھی کہا: جانتا ہو ں خد اہر چیز پر قدرت وطاقت رکھتا ہے ''وہ برباد شہر جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ (بیت المقدس ) تھا اور یہ تباہی بخت النصر کے ذریعہ ہوئی ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیة :۲۵۹

۲۲۱

حضرت عزیر جب کھانا پانی لے کر اپنے گدھے پر سوار اس شہر سے گذرے دیکھا گھر تباہ اور ا ن کے رہنے والے مٹی میں مل چکے ہیں ان کی ہڈیا ں پرانی ہوکر زمین میں بکھری پڑی ہیں اس المناک منظر نے پیغمبر کوسونچنے پر مجبورکردیا اور خود سے کہنے لگے خدایا! انہیں کب اور کیسے زندہ کرے گا؟۔

خدا نے انہیں عملی جواب دیا انہیں اوران کے گدھے کو سوسال تک کے لئے موت دی اس کے بعد پہلے انہیں زندہ کیاتاکہ خد اکی طاقت کا وہ خود اندازہ لگائیں کہ کھانا جو جلدی خراب ہوجاتا ہے تبدیل نہیںہوا اور مردوں کو زندہ ہو تے وہ خو د دیکھ لیں ۔

حضرت عزیر نے جیسے ہی اپنی سواری کو زندہ ہو تے دیکھا کہا کہ جانتا ہو ںخدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے یہ آیة اور یہ پیغمبر کا قصہ معاد جسمانی کو ثابت کرنے کے لئے بہترین دلیل ہیں ۔

حضرت ابراہیم کاقصہ :( واِذ قَالَ اِبراهیمُ رَبِّ أَرنِی کَیفَ تُحییِ المَو تیٰ قَالَ أَولَم تُؤمِن قَالَ بَلیٰ وَلَکِن لِیَطمَئِنَّ قَلبِی قالَ فَخُذْ أَربعةً مِنَ الطَّیرِ فَصُرهُنَّ اِلِیک ثُمَّ اجعَلْ علیٰ کُلِّ جَبَلٍ مِنهُنَّ جُزأً ثُمَّ ادعُهُنَّ یَأتِینَک سَعیًا وَأَعلمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَیزُحَکیمُ ) ( ۱ ) ''جناب ابراہیم نے عرض کیا بارالہا! مجھے دکھا دے کیسے مردوں کو زندہ کرے گا؟ خدا نے کہامگر تمہیں

____________________

(۱) سورہ بقرہ :۲۶۰

۲۲۲

ہم پرایمان نہیں ہے کہا ہے تو مگر چاہتا ہو ں دل کو سکون مل جائے کہا چار طرح کے پرندوں کو جمع کرو (مرغ ،مور ،کبوتر ، کوا،)انہیں ذبح کرکے گوشت پہا ڑ پر رکھد و او ر ان کے ہر جزء کو اللہ کے نام پر بلا ئو وہ دوڑے چلے آئیں گے اورجان لو کہ خدا بڑی حکمت والا ہے'' ۔

مفسرین نے اس آیة کے ذیل میں لکھا کہ حضرت ابراہیم دریا کے کنارے سے گذر رہے تھے ایک مردے کو دیکھا کہ جو دریا کے کنارے پڑا ہے مردہ خور جانور اس کے چاروںطر ف جمع ہیں اورکھا رہے ہیں جب حضرت ابراہیم نے اس منظر کودیکھا تو مردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں سونچنے لگے کہ وہ کس طرح زندہ کئے جا ئیں گے (کیونکہ اس مردہ کا گوشت دوسرے کا جزء بن چکا تھا ) جبکہ جناب ابراہیم کو علم الیقین تھا کہ خد امردوں کو زندہ کرے گا لیکن اسے آنکھو ں سے زندہ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے ۔

مقتول بنی اسرائیل کاقصہ:

( واِذَ قَتَلتُم نَفسًا فَادَّارَأتُم فِیهَا واللَّه ُمخرِجُ مَاکُنتُم تَکتُمُونَ فَقُلنَا اَضرِبُوهُ بِبَعضِهَا کَذَلِک یُحیِی اللَّهُ المَوتیٰ وَیُرِیکُم آیاتِهِ لَعلَّکُم تَعقِلُونَ ) ( ۱ ) ''جب تم لوگو ں نے ایک شخص کو قتل کرکے اس کے سلسلے میں اختلاف کیا کہ کس نے قتل کیا ہے جسے تم چھپانا چاہتے تھے خدااسے ظاہر کرتاہے پس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة۷۲ تا۷۳

۲۲۳

ہم نے کہا اس گائے کا کچھ حصہ اس مقتول کے بدن پر مارو خدا مردوں کو اس طرح زندہ کرتاہے آیت خود تمہیں دکھا رہی ہے شاید عقل سے کام لو ''۔

بنی اسرائیل کا ایک آدمی مخفیانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا اس کے قاتل کے سلسلے میں اختلاف ہوا ہر قبیلہ دوسرے قبیلے پر الزام لگا رہا تھا قریب تھاکہ ایک جنگ چھڑ جائے ان لوگوں نے جنا ب موسی سے مدد چاہی جناب موسی نے لطف خدا سے ان کی مددکی حکم خدا کے مطابق گائے کو ذبح کرکے اس کے گوشت کومقتول کے جسم پرمارا وہ شخص تھوڑی دیر کے لئے زندہ ہوگیا اور قاتل کی شناخت کی یہ معا د اور مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بھی دلیل ہے ۔

قوم موسی ٰسے ستر آدمیوںکا زندہ ہو نا :( وَاِذ قُلتُم یَامُوسیٰ لَن نُؤمِنَ لَک حتیٰ نَرَیٰ اللَّهَ جَهَرةً فَاَخذتکُم الصَّاعِقَةُ وَأَنتُم تَنظُرُونَ ثُمّ بَعَثناکُم مِن بَعدِ مَوتِکُم لَعلَّکُم تَشکُرُونَ ) جب تم لوگو ں نے موسی سے کہا کہ ہم اس وقت تک خدا پرایمان نہیں لائیں گے جب تک اپنی آنکھو ں سے دیکھ نہ لیں پھر بجلی نے (موت ) تم سب کواپنی لپیٹ میں لے لیا اورتم دیکھتے رہے پھر ہم نے تم سب کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا تاکہ تم شکر گذار بن جائو ،بنی اسرائیل کے سرکردہ افراد جنا ب موسی کے ساتھ کو ہ طور پر گئے تھے اور خداکو اپنی آنکھو ں سے دیکھنے کی بات دہرائی موت کی بجلی چمکی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوا حضرت موسی ٰبے ہو ش ہو گئے بنی اسرائیل کے نمائندوں کو موت نے اپنی آغوش میں لیا پھر خدا نے انہیں زندہ کیا تاکہ اس کی نعمت کا شکریہ اداکریں۔( ۱ )

قیامت کو ثابت کرنے کے لئے قرآ ن کی دوسری دلیل ہے جس میں مردے کوزندہ کیاگیاہے ۔

____________________

(۱) سو رہ بقرہ آیة ۵۵

۲۲۴

سوالات

۱۔ فلسفہ خلقت کے ذریعہ کس طرح قیامت کو ثابت کریں گے ؟

۲۔ جنا ب عزیر یاارمیا پیغمبر کاواقعہ بیان کریں ؟

۳۔ جناب ابراہیم کا قصہ بیان کریں ؟

۴۔ مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ بیان کریں ؟

۲۲۵

تیتیسواں سبق

بقاء روح کی دلیل

روح باقی او رمستقل ہے :( وَلَا تَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ''جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے انہیں رزق ملتاہے''( ۱ ) ( وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقتلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُونَ ) جو اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے ہیں انہیں مردہ ہرگز نہ کہنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم انہیں نہیں سمجھ سکتے ہو۔( ۲ ) ( قُلْ یَتَوفاکُم مَلَکُٔ المَوتِ الَّذیِ وکِّلَ بِکُم ثُمَّ اِلیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) کہدو کہ موت کافرشتہ جوتم پر معین کیاگیا ہے وہ تمہاری روح قبض کر کے تمہارے رب کی طرف پلٹا دے گا۔( ۳ )

مذکورہ آیات بقاء روح کی بہترین دلیل ہے اگرموت زندگی کے خاتمہ کانام ہوتا توشہداء کے لئے حیات کا مختلف انداز میں ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا پہلے کی دو آییتں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والو ں کے لئے ہیں اور ان کی روح کی بقاء کے حوالے سے ہیں ۔

____________________

(۱)آل عمران آیة ۱۶۹

(۲) بقرہ آیة ۱۵۴

(۳) سجدہ آیة ۱۱

۲۲۶

تیسری آیت عام ہے کہ تمام لوگ خدا کی طر ف پلٹ کر جائیں گے جو تمام انسانوں کے باقی رہنے پردلیل ہے ۔کتاب مفردات میں راغب کے بقول وافی کے اصل معنی کمال تک پہونچنے کے ہیں لہٰذا توفی کے معنی مکمل گرفت کے ہیں اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موت فناکانام نہیں بلکہ مکمل طور پر دسترسی ہے۔

( وَیسئلُونَکَ عَنِ الرُّوح قُلْ الرِّوحُ مِن أمرِرَبِّی وَمَا أُوتِیتُم مِنَ العِلمِ اِلاَّ قَلِیلاً ) اے رسول! تم سے روح کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہدو روح امرخداہے اس کا تھوڑا ساعلم آپ کو عطاکیاگیاہے۔( ۱ )

انسان خواب و موت کو دیکھتا ہے کہ جسمانی کمی وبیشی کے علاوہ ایک خاص قسم کی تبدیلی پیداہوتی ہے یہیں سے پتہ چلتاہے کہ انسان کے پاس جسم کے علاوہ بھی کوئی جوہر ہے ۔ کسی نے بھی روح کے وجود کاانکا ر نہیں کیا ہے یہاں تک کہ مادی حضرات نے بھی اس کے وجود کوقبول کیاہے اسی بناء پر نفسیات ان علوم میں سے ہے جس پر دنیا کی بڑی بڑی یو نیورسٹیوں میں تحقیق ہورہی ہے ۔

وہ واحد بحث جو خد اکے ماننے والوں اورمادی حضرات کے درمیان چل رہی ہے وہ روح کے مستقل ہو نے یانہ ہونے کے سلسلے میں ہے اسلامی مفکرین اسلام کی بھر پور مدد سے اس بات کے قائل ہیںکہ روح باقی ہے اورمستقل ہے روح کے مستقل ہونے پر بہت سی دلیلیں ہیں ۔

____________________

(۱) اسراء آیة :۸۵

۲۲۷

پہلے عقلی دلیل پھر نقلی دلیل پیش کریں گے اگر چہ قرآن پر اعتقاد رکھنے والے بہترین دلیل کلام خدا کوتسلیم کرتے ہیں اور اسی کواصل مانتے ہیں۔

روح کے مستقل ہو نے پر دلیل

۱۔ہم اپنے اندر یہ محسوس کرتے ہیںکہ ہم متفکر ومدرک ومرید ہیں یہ چیز فکر اورارادہ اور ادراک سے الگ ہے دلیل یہ ہے کہ بولا جاتاہے میری فکر میرا ارادہ میرا ادارک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فکر سے الگ ہیں ہم ارادہ سے ہٹکر ہیں درک اورہے ہم اور ہیں یہ سب ہم سے ہے اورہم اسے اپنی ذات میں پا تے ہیں ہم دماغ، دل اور اعضاء سے الگ ہیں یہ (ہم ) وہی روح ہے ۔

۲۔ جب بھی انسان اپنے کو جسم سے جدا فرض کرتاہے اورتمام اعضاء بدن کا ناطہ اپنے آپ سے توڑ دیتاہے پھر بھی اپنے کو زندہ محسوس کرتاہے جبکہ اجزاء بدن نہیں ہیں اوریہ وجود وہی روح ہے جومستقل رہ سکتی ہے ۔

۳۔پوری عمرمیں شخصیت ایک ہے ۔ یہ ''ہم'' ابتداء زندگی سے آخر عمر تک ایک ہے یہ ''ہم'' دس سال پہلے بھی ہے اور پچاس سال بعد بھی، اگرچہ علم وقدرت زندگی کی کمال تک پہونچ جائے لیکن ''ہم'' اپنی جگہ برقرار ہے جبکہ آج کے علم نے ثابت کر دیا کہ انسان کے عمر میں کئی بار جسم میں ،رگو ں میں ،یہاں تک کہ دماغ کی شریانوں میں تبدیلی ہوتی ہے چوبیس گھنٹے کے اندر کروروں رگیں ختم ہو تی ہیں اور کروڑوں ان کی جگہ پیداہوتی ہیں جیسے بڑے حوض میں پانی ایک جگہ سے جاتاہے اور دوسری طرف سے آتاہے ظاہر ہے بڑے حوض کاپانی ہمیشہ بدلتاہے اگرچہ لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں اور اس کوایک ہی حالت میں دیکھتے ہیں ۔

نتیجہ:

اگر انسان صرف اجزاء بدن کا نام ہو تا اورصرف دل و دماغ ہو تا یعنی روح نہ ہوتی تواپنے اعمال کا ذمہ دار نہیں قرار پاتا ،مثلا اگر کو ئی دس سال پہلے کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسے سزا نہیں دے سکتے اس لئے کہ جسم کے تمام خلیئے تبدیل ہوگئے ہیں گویا اب وہ دس سال پرانا جسم نہیں ہے۔اگر انسان ہمیشہ ذمہ دار ہے یہاںتک کہ وہ خوداس کا اعتراف کررہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے اگرچہ تمام اعضاء بدل چکے ہیں مگر وہ خود باقی ہے اوریہ وہی روح ہے۔

۲۲۸

روح کی بقاء اور استقلال پر نقلی دلیل

تاریخ اسلام میں بہت سی جگہ موت کے بعد روح سے مربوط چیزیں آئی ہیں جن میں سے بعض یہاں پیش کی جارہی ہے جنگ بدر کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیاکہ دشمن کی لاشوں کوایک کنویں میں ڈال دیاجائے اس کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کنویں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا :''هل وجد تم ماوعدکم ربکم حقاً فِانّی قَد وجدت ماوعدنی رَبِّی حقاً ''کیا تم لوگو ںنے وعدہ خداکے مطابق سب کچھ پایاہے ؟ہم نے تو اللہ کے وعدہ کو حق دیکھا ) بعض افراد نے عرض کیا :کیا آپ بے جان لوگو ں سے باتیں کر رہے ہیں، وہ سب توایک لا ش کی شکل میں پڑے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا: وہ لوگ تم سے بہتر میری آواز سن رہے ہیں دوسرے لفظوں میں یو ں کہا جائے کہ تم لوگ ان سے بہتر میری بات نہیں سمجھ رہے ہو۔( ۱ )

سلمان فارسی مولا امیر المومنین کی طرف سے والی مدائن تھے اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں : ایک دن سلمان فارسی کی عیا دت کوگیا، جب وہ مریض تھے اورمرض میں اضافہ ہوتاجارہاتھا یہا ںتک کہ موت کی جانب قدم بڑھا رہے تھے مجھ سے ایک دن فرمایا اے اصبغ! رسول خد ا نے مجھ سے فرمایا ہے جب موت قریب ہو گی تو مردہ تم سے باتیں کریںگے ہمیں قبرستان کی طرف لے چلو حکم کے مطابق انہیں قبر ستان میں لے جایاگیا کہامجھے قبلہ رخ کرو اس وقت بلند آواز سے کہا :

''السلام علیکم یا اهلَ عرصة البلا ء السلام علیکم یامحتجبین عن الدُّنیا'' میرا سلام ہو تم پر اے بلا ء کی وادی میں رہنے والومیراسلام ہو اے اپنے کو دنیا سے چھپا لینے والو۔اسی وقت روحوں نے سلام کا جواب دیااورکہا جو چاہتے ہو سوال کرو جناب سلمان نے پوچھا تم جنتی ہویا جہنمی؟مردہ نے کہا خدا نے مجھے دامن عفو میں جگہ عنایت کی ہے اورمیں جنتی ہو ں جناب سلمان نے موت کی کیفیت اورموت کے بعد کے حالات دریافت کئے ا س نے

____________________

(۱) سیرہ ابن ہشام ج ،۱ ص ۶۳۹

۲۲۹

سب کاجواب دیا اس کے بعد جناب سلمان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی( ۱ )

مولا امیرالمومنین ںجنگ صفین سے واپسی پر شہر کوفہ کے پیچھے قبر ستا ن کے کنارے کھڑے ہو ئے اور قبروں کی طرف رخ کر کے فرمایا :اے حولناک او ر تاریک قبروں کے رہنے والوتم اس قافلہ کے پہلے افراد ہو ہم بھی تمہارے پیچھے آرہے ہیں لیکن تمہارے گھردوسروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں اور تمہاری بیویوں نے شادی کر لیں اورتمہارے مال واسباب تقسیم ہوچکے ہیں یہ سب میری خبر تھی تمہارے پاس کیا خبرہے ؟''ثُمَّ التفت اِلیٰ أَصحابه فقال أمّا لوأذِن فیِ الکلام لأخبروکم أَنَّ خیر الزاد التقویٰ ''( ۲ )

پھر اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا جان لو اگر انہیں بولنے کی اجازت ہوتی تویہ تمہیں بتا تے کہ بہترین زاد راہ تقوی وپرہیز گا ری ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج۱، معادفلسفی ۳۱۵

(۲)نہج البلاغہ ،کلمات قصار ۱۲۵

۲۳۰

سوالات

۱۔قرآن بقاء روح کے لئے کیا کہتا ہے آیت کے ذریعہ بیان کریں ؟

۲۔ استقلال روح کے لئے عقلی دلیل بیان کریں ؟

۳ بقاء روح کے لئے ایک نقلی دلیل بیان کریں ؟

۲۳۱

چوتیسواں سبق

معاد جسمانی اورروحانی ہے

کیاموت کے بعد زندگی روحانی ہے ؟یعنی جسم کہنہ ہو کر بکھر جائے گااور آخرت کی زندگی فقط روح سے مربوط ہے یافقط جسمانی ہے اور روح کاشمارجسم کے آثاروخواص میں ہے ؟یا یہ کہ آدھی روحانی اور آدھی جسمانی ہے جسم لطیف اس دنیا وی جسم سے افضل ہے یاموت کے بعد زندگی مادی او رروحانی ہے اور دوبارہ دونوں جمع ہوکر حاضر ہوںگے، ان چاروں نظریوں کے حامی اور طرفدارموجود ہیں لیکن شیعوں کا نظریہ (عقیدہ)یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں معاد جسمانی اور روحانی پر دلالت کرتی ہیں اور اس مسئلہ میں کوئی شک وتردید کی گنجائش نہیں ہے ۔

۱۔ بہت سی جگہو ں پر قرآن نے منکریں معاد کو جو یہ سوال کرتے ہیں کہ ''جب ہم خاک میں مل جائیں گے او رہماری ہڈیاں پرانی ہوکر پھر زندہ ہوںگی'' جواب دیا ہے ، اور انہیں اس بحث میں بیان کیا جاچکا ہے جہاں معاد پر قرآن کی دلیل پیش کی گئی ہے جیسے (سورہ یس آیة ۸۰) میں واضح طور پر معاد جسمانی اور روحانی کوبیان کیاگیا ہے ۔

۲۔ دوسری جگہ (سورہ قیامت آیة ۳،۴) میں فرمایا :کیاانسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیو ں کو جمع نہیں کریںگے بلکہ ہم قادر ہیں کہ انگلیو ں کے نشانات کو بھی ترتیب دیدیں ،ہڈیو ں کو جمع کرنا انگلیوں کے نشانات کو دوبارہ مرتب کرنا یہ معا د جسمانی اورروحانی کی ایک او ر دلیل ہے ۔

۲۳۲

۳۔ تیسری مثال وہ آیتیں جوکہتی ہیں کہ انسان قبر سے اٹھے گا اس سے ظاہر ہے کہ قبر انسانی جسم کے لئے گھر قرار دیا گیا ہے اور اسلامی منکرین کی نظر میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جسم کے بغیر روح کا پلٹنا ممکن نہیں ہے جسم بغیر روح کے صرف لاش ہے خلاصہ یہ کہ اس طرح کی آیتیں معاد جسمانی اور روحانی کے لئے واضح دلیل ہے ۔ (وَأَنَّ السَّاعةَ آتِیةُ لا رَیبَ فِیها وأَنَّ اللَّهَ یَبعَثُ مَن فی القُبُورِ )قیامت کے سلسلے میں کو ئی شک نہیں او رخدا وند عالم ان تمام افراد کو جو قبروں میں ہیں دوبارہ زندہ کرے گا ۔( ۱ ) سورہ یس کی آیة : ۱۵۱ اور ۱۵۲ اور دوسری آیات اس پر شاہد ہیں ۔

۴۔ وہ آیتیں جو بہشتی نعمتوں کے سلسلے میں ہیں ۔میوے ،غذائیں مختلف کپڑے اوردوسری جسمانی لذتیں وغیرہ ،جنت کی لذتییں اور نعمتیں صرف مادیت پر منحصر نہیں ہیں بلکہ معنوی اور روحی لذتیں بھی بہت ہیں جن کا تذکرہ جنت کی بحث میں آئے گا انشاء اللہ

لیکن سورہ رحمن اور اس جیسی آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ معاد جسمانی اور روحانی دونوںہی اعتبارسے ہے اور جسم اور روح کے لئے لذتیں ہیں یہ

____________________

(۱) سو رہ حج آیة ۷

۲۳۳

ہے کہ جنت کی نعمتیں دنیاوی نعمتوں سے الگ ہیں او ران سے بہتر ہیں مگر یہ سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیں ۔

۵۔وہ آیتیں جو مجرموں کے لئے مختلف طرح کے عذاب اور سزا کو بیان کرتی ہیں ان میں سے بہت سی جسم سے مربوط ہیں یہ آیتیں قرآن میں بہت ہیں ان میں بعض کی جانب اشارہ کررہے ہیں( یَومَ یُحمَیٰ عَلَیها فِی نَارِجَهَنَّم فَتُکویٰ بِها جِبَاهُهُم وَجُنُوبُهُم وَظُهُورُهُم ) ''جس دن انہیں دوزخ میں کھولایا جائے گا اورجلا یا جا ئے گا اور ان کی پیشانیاں نیز ان کے پہلو اور پشت کوداغا جائے گا''( ۱ ) ( یَومَ یُسحبُونُ فِی النّارِ عَلیٰ وُجُوههِمِ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ ) ''جس دن دوزخ کی آگ ان کے چہرے پر ڈالی جا ئیگی او ران سے کہا جا ئے گا آج دوزخ کی آگ کا مزہ چکھ لو''( ۲ ) ( تَصلیٰ نَاراً حَامِیةً تُسقیٰ مِن عَینٍ آنیةٍ لَیسَ لَهُم طَعَامُ اِلَّا مِن ضَرِیعُ لا یُسمن ولَا یُغنیٰ مِن جُوعٍ ) ( ۳ ) ''بھڑکتی آگ میں داخل ہونگے کھولتے پانی سے سیراب کیا جائے گا ،خشک کا نٹا کڑوا اور بدبو دار کھانے کے علاوہ کچھ میسر نہ ہو گا ایسا کھانا جو نہ انہیں موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے نجات دلائے گا''۔( کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهمُ بَدَّلنَاهُم جُلُوداً غَیرَها لِیَذُوقُوا العَذَابَ أِنَّ اللَّه کَانَ عَزِیزاً حَکِیماً ) ( ۴ ) جیسے ہی کافر کی کھال جل کر ختم ہو جا ئے گی اس کی جگہ دوسری کھال کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ عذاب

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة: ۳۵

(۲) سورہ قمر آیة :۴۸

(۳) غاشیہ آیة :۴۔۷

(۴) سورہ نسا ء آیة ۵۶

۲۳۴

کامکمل مزا چکھ لیں بیشک خدا عزیز اور حکمت والا ہے ۔

اس طرح کہ بہت سی آیتیں ہیں جن کا تذکرہ جہنم کی بحث میں آئیگا سب کے سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیںاگر معاد فقط جسمانی ہوتی تو روحانی غذ اکا کوئی مفہوم نہ ہوتا ؟۔

۶۔ وہ آیتیں جو روز قیامت اعضاء وانسان کے بات کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں وہ معا د جسمانی اور روحانی پر واضح دلیل ہیںچونکہ ایسی آیتیں بھی بہت ہیں لہٰذانمونہ کے طور پرکچھ کا یہاں ذکر کرتے ہیں( الیَومَ نَختِمُ عَلیٰ أَفوَاهِهِم وَتُکَلِّمُنَا أَیدِیهِم وَتَشهد أَرجلُهُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ) ''آج ان کی زبانو ں پر تالے لگ جائنگے ان کے ہاتھ باتیں کریں گے ان کے پائوں جو کئے ہوںگے اس پر گواہی دیں گے'' ۔( ۱ ) ( حَتیٰ اِذ مَا جَائُ وهَا شَهِدَ عَلَیهِم سَمعُهم وَأَبصَارُهُم وَجُلُودُهُم بِمَا کَانُوا یَعمَلُونَ ) '' یہاںتک کہ جب پہونچیں گے ان کی آنکھیں او رگوشت وپوست جو عمل انجام دیئے ہیں انکی گواہی دیں گے''( وَقَالُوا لِجُلُودِهِم لِمَ شَهِدتُم عَلَینَا قَالُوا أنطَقَنا اللَّهُ الَّذِی أنطَقَ کُلِّ شَیئٍ ) '' وہ اپنے جسم سے سوال کریں گے کیوں میرے خلاف گواہی دیتے ہو؟ وہ جواب میں کہیںگے وہ خدا جس نے سب کو قوت گویا ئی عطاکی ہے اس نے ہمیں بولنے کے لئے کہا''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ یس ۶۵

(۲) سورہ فصلت ،۲۱

۲۳۵

۷۔وہ آیتیں جومعاد جسمانی اور روحانی کو بطور نمونہ اس دنیا میں ثابت کرتی ہیں جیسے حضرت ابراہیم کا قصہ او رچار پرندے جوزندہ ہو ئے (سورہ بقرہ آیة۲۶۰) مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ جو زندہ ہوا (بقرہ آیة ۷۳) جنا ب ''عزیر'' یا''ارمیا ' ' پیغمبر کا واقعہ (بقرہ ۲۵۹ )جناب حزقیل پیغمبر کاقصہ اورموت کے بعد بہت سارے لوگوں کا زندہ ہوناجیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۳ میں ملتا ہے ،جناب عیسی کا مردو ں کو زندہ کرنا (مائدہ ۱۱۰ آل عمران۴۹) میں آیا ہے جناب موسی کے زمانے میں موت کے بعد ستر آدمیوں کازندہ ہونا (بقرہ ۵۶۵۵) یہ سب کے سب واقعے معاد جسمانی اور روحانی پر محکم دلیل ہیں ۔

سوالات

۱۔موت کے بعدکے حیات کی کیفیت کے بارے میں کیا نظر یہ ہے ؟

۲۔شیعہ موت کے بعد کی زندگی کو کس طرح جانتے ہیں ایک دلیل قرآن سے ذکر کریں ؟

۳۔ معادجسمانی اور روحانی کانمونہ جو اسی دنیا میں واقع ہوا ہے بیان کریں ؟

۲۳۶

پیتیسواں سبق

برزخ یا قیامت صغری

جوبھی اس دنیا میں آتاہے ان چار مراحل کو اسے طے کرنا ضروری ہے ۔

۱۔ پیدائش سے لے کر موت تک کیونکہ یہ دنیا کی زندگی ہے۔

۲۔موت کے بعدسے قیامت تک کی زندگی اسے عالم برزخ کہتے ہیں۔

۳۔قیامت کبری

۴۔جنت یا دوزخ

برزخ

برزخ؛ دو چیز کے درمیان کے فاصلے کانام ہے یہاں برزخ سے مراد وہ دنیا ہے جواس دنیا اور آخرت کے درمیان ہے جب روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے (قبل اس کے کہ یہ روح قیامت کے لئے دوبارہ اصل بدن میں واپس آئے ) ایک ایسے نازک جسم میں رہتی ہے جسے جسم مثالی کہتے ہیں تاکہ قیامت کے وقت وہ اسی کے ساتھ ہو ۔

۲۳۷

موت کے وقت انسان دنیا او رآخرت کے درمیان ہوتا ہے مولا امیر المومنین نے فرمایا: لِکلِّ دار باب وباب دار الآخرة الموت ہر گھر کا ایک دروازہ ہوتا ہے او رآخرت کا دروازہ موت ہے( ۱ ) جیسا کہ بعض احادیث میں واضح طور پر ملتا ہے کہ موت کے وقت بہت سی چیزیں ہمارے لئے واضح اور روشن ہوجاتی ہیں ۔

۱۔ملک الموت اور دوسرے فرشتوں کو دیکھنا

(۲) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او ر دوسرے ائمہ علیہم السلام کی زیارت

(۳) جنت یا دوزخ میں اپنی جگہ کا دیکھنا

(۴) اعمال کامجسم ہونا او راپنے گذرے ہوئے اعمال کو دیکھنا

(۵) دولت کا مجسم ہونا جو جمع کر رکھی ہے

(۶) اولا د رشتہ دار اور دوستوں کا مجسم ہونا

(۷) شیطان کامجسم ہونا

یہ کیفیت جس سے اچھے اعمال انجام دینے والے بھی ڈرتے ہیں اور خدا سے پناہ مانگتے ہیں ۔اس وقت انسان بعض پس پردہ رموز واسرار کو دیکھتا ہے او راس کا اعمال اس کے سامنے ہوتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو نیکیوں سے خالی اور گناہ کے بوجھ تلے محسوس کرتاہے اپنے کئے پرنادم وپشیمان ہو کر پلٹنے کی التجا کرتا ہے تاکہ اپنے کئے کا جبران کر سکے ۔( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحَدَ هُمُ المَوت قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلّیِ أَعمَلُ صَالِحاً فِیمَا تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمةُ هُوَ قَائِلُهَا ) ''جب ان

____________________

(۱) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید

۲۳۸

میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے فریاد کرتے ہیں بارالہا !مجھے پلٹادے تاکہ جو کچھ چھوٹ گیاہے اسے پورا کرلیں اور اچھے اعمال انجام دے لیں اس سے کہا جا ئے گا ایسا نہیں ہوسکتایہ فریاد ہے جو وہ کریں گے''۔( ۱ )

یہ باتیں زبان پر ہوںگی او راگر پلٹا دیا جائے تو اعمال پہلے کی طرح ہو ں گے جس طرح جب مجرم گرفتار ہوتاہے او راسے سزادی جاتی ہے تو یہی کہتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی گرفتاری اور سزاختم ہو جاتی ہے اکثر پھر وہی اعمال دہراتا ہے ۔

قَال لقمان لابنه: یَا بُنیِ اِنَّ الدُّنیا بحر عمیق وقد هلکَ فیها عالم کثیر فاجعل سفینتکَ فِیهَا الاِیمان بِاللَّه واجعل زادک فیها تقویٰ اللَّه واجعل شراعها التوکّل علیٰ اللَّه فَاِنْ نجوّت فبرحمة اللّه وان هلکت فیه فبذنوبکَ وأشد ساعاته یوم یولد ویوم یموت ویوم یُبعث ۔''جنا ب لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا :اے میرے لخت جگر !یہ دنیا بہت گہرا سمندر ہے کتنے لوگ اس میں ڈوب چکے ہیں لذا تم خدا پر ایما ن، اپنے لئے کشتی نجا ت اور زاد راہ، پرہیز گاری نیز لنگر خدا پر بھروسہ کرو اب اگر ڈوبنے سے بچ گئے تو یہ خدا کی رحمت ہے اور اگر غرق ہوگئے تو یہ تمہا رے گناہ کے با عث ہوگا اور سخت ترین لمحہ زندگی انسان کے لئے وہ ہے جب وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے یا وہ دن ہے جب اس دنیا کو خدا حافظ کہتاہے یا پھر وہ دن ہوگا جب پلٹایا جائے گا ''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ مومنون آیة ، ۹۹۔۱۰۰

(۲)بحارالانوار جلد ،۶ ص ۲۵۰

۲۳۹

عالم برزخ کے اثبات کے سلسلہ میں بہت سی آیتیں وروایتیں پائی جا تی ہیں اگر چہ یہ بات عقل ومحسوسات کے ذریعہ بھی ثابت ہو چکی ہے۔

برزخ کے سلسلے میں قرآنی آیا ت

( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلِّی أعمَلُ صَالِحاً فِیما تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمَة هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرائِهِم بَرزَخُ اِلیٰ یَوم یُبعثُونَ ) ( ۱ ) یہا ں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پرور دگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں ،ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جویہ کہہ رہا ہے او ر ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والاہے یہ آیت واضح طور پر برزخ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

( وَلَاتَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ( ۲ ) خبردار راہ خد امیں قتل ہونے والوں کومردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں او راپنے پرور دگا ر کے یہا ں سے رزق پارہے ہیں ۔( وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُون ) ( ۳ ) ''اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کاشعورنہیں ہے ''۔

یہ دو آیتیں برزخ کی زندگی اور شہداء کے رزق کو ثابت کرتی ہیں۔

____________________

(۱) سورہ مومنون ۔۹۹۔۱۰۰

(۲) آل عمران آیة ،۱۶۹

(۳) بقرہ آیة :۱۵۴

۲۴۰

241

242

243

244

245

246