یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174833 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اپنے کاموں کا نتیجہ پاتے ہیں _ سعیدہ بیٹی ہم آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہیں گے اچھے کام کرنے والے لوگ بہشت میں جائیں گے اور بہت راحت و آرام کی زندگی بسرکریں گے _ اور گنہکار جہنم میں جائیں گے _ اور عذاب اور سختی میں رہیں گے _

آخرت کی نعمتیں اور لذتیں دنیا کی لذتوں اور نعمتوں سے بہتر اور برتر ہیں ان میں کوئی عیب اور نقص نہیں ہوگا _ اہل بہشت ہمیشہ اللہ تعالی کی خاص توجہ اور محبت کا مرکز رہتے ہیں _ خدا انہیںہمیشہ تازہ نعمتوں سے نوازتا ہے اہل بہشت اللہ تعالی کی تازہ نعمتوں اور اس کی پاک محبت سے مستفید ہوتے ہیں اور ان نعمتوں اور محبت سے خوش و خرم رہتے ہیں _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ سعیدہ کس چیز کو بے فائدہ اور بے نتیجہ سمجھتی تھی او رکیوں؟

۲_ اس کی ماں نے اسے کیا جواب دیا؟

۳_ کیا ہم مرجانے سے فنا ہوجاتے ہیں اگر مرنے سے ہم فنا ہوجاتے ہوں تو پھر ہمارے کاموں اور کوششوں کا کیا نتیجہ ہوگا؟

۴_ اپنے کاموں کا پورا نتیجہ کس دنیا میں دیکھیں گے ؟

۵_ نیک لوگ آخرت میں کیسے رہیں گے اور گناہ کار کیسے رہیں گے ؟

۶_ '' دنیا آخرت کی کھیتی ہے '' سے کیا مراد ہے ؟

۴۱

چھٹا سبق

آخرت میں بہتر مستقبل

اس جہان کے علاوہ ایک جہان اور ہے جسے جہان آخرت کہا جاتا ہے _ خدانے ہمیں جہان آخرت کے لئے پیدا کیا ہے _ جب ہم مرتے ہیں تو فنا نہیں بلکہ اس جہان سے جہان آخرت کی طرف چلے جاتی ہیں ہم صرف کھا نے پینے سونے کے لئے اس جہاں میں نہیں آئے بلکہ ہم یہاں اس لئے آئے ہیں تا کہ خداوند عالم کی عبادت اور پرستش کریں _ اچھے اور مناسب کام انجام دیں تا کہ کامل ہوجائیں اور جہان آخرت میں اللہ کی ان نعمتوں سے جو اللہ نے ہمارے لئے پیدا کی ہیں _ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں _

جو کام بھی ہم اس دنیا انجام دیتے ہیں اس کا نتیجہ آخرت میں دیکھیں گے _

اگر ہم نے خدا کی عبادت کی اور نیک کام کرنے والے قرار پائے تو ہمارا مستقبل روشن ہو گا اور بہترین زندگی شروع کرینگے اور اگر ہم نے خدا کے فرمان کی پیروی نہ کی اور برے کام انجام دیئے تو آخرت میں بدبخت قرار پائیں گے اور اپنے کئے کی سزاپائیں گے اور سختی اور عذاب میں زندگی بسر کریں گے

۴۲

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ اس جہاں میں ہمارا فرض کیا ہے _ کامل بنے کے لئے ہمیں کیا کام انجام دینے چاہیئے ؟

۲_ اللہ کی بڑی اور اعلی نعمتیں کس جہان میں ہیں ؟

۳_ روشن مستقبل کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۴_ آخرت میں سخت عذاب کن لوگوں کے لئے ہے ؟

۵_ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کون سے کام اچھے اور مناسب ہیں اور کوں لوگ ہمیں اچھے اور مناسب کاموں کی تعلیم دیتے ہیں ؟

۴۳

تیسرا حصّہ

نبوت

۴۴

پہلا سبق

اللہ نے پیغمبڑ بھیجے ہیں

خدا چونکہ بندوں پر مہربان ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بند ے اس دنیا میں اچھی اور آرام دہ زندگی بسر کریں اور آخرت میں خوش بخت اور سعادتمند ہوں وہ دستور جوان کی دنیا اور آخرت کے لئے فائدہ مند ہیں _ پیغمبروں کے ذریعہ ان تک پہنچا ئے چونکہ پیغمبروں کی شخصیت عظیم ہوتی ہے اسی لئے خدا نے انہیں لوگوں کی رہنمائی کیلئےچنا_ پیغمبر لوگوں کو نیک کام اور خدائے مہربان کی پرستش کی طرف راہنمائی کرتے تھے _ پیغمبر ظالموں کے دشمن تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان مساوات و برابری قائم کریں _

سوالات

۱_ خدانے کیوں لوگوں کے لئے پیغمبر بھیجا ہے ؟

۲_ پیغمبر خدا سے کیا چیز لیکرآئے؟

۳_ پیغمبر کیا کرتے تھے؟

۴_ پیغمبر کس قسم کے لوگ ہوتے تھے؟

۵_ اگر ہم پیغمبروں کے دستور کے مطابق عمل کریں تو کیا ہوگا؟

۴۵

دوسرا سبق

انسانوں کے معلّم

پیغمبرانسانوں کے معلّم ہوتے ہیں _ ابتداء آفرینش سے لوگوں کے ساتھ _ اور ہمیشہ ان کی تعلیم و تربیت میں کوشاں رہے _ وہ بنی نوع انسان کو معاشرتی زندگی اور زندگی کے اچھے اصولوں کی تعلیم دیتے رہے _ مہربان خدا اور اس کی نعمتوں کو لوگوں کو بتلاتے تھے اور آخرت اور اس جہاں کی عمدہ نعمتوں کا تذکرہ لوگوں سے کرتے رہے _ پیغمبر ایک ہمدرد اور مخلص استاد کے مانند ہوتے تھے جو انسانوں کی تربیت کرتے تھے_ اللہ کی پرستش کا راستہ انہیں بتلاتے تھے پیغمبر نیکی اور اچھائی کا منبع تھے وہ نیک اور برے اخلاق کی وضاحت کرتے تھے_ مدد اور مہربانی خیرخواہی اور انسان دوستی کی ان میں ترویج کرتے تھے تمام انسانوں میں پہلے دور کے انسان بے لوث اور سادہ لوح تھے پیغمبروں نے ان کی رہنمائی کے لئے بہت کوشش کی اور بہت زحمت اور تکلیفیں برداشت کیں پیغمبروں کی محنت و کوشش اور رہنمائی کے نتیجے میں انسانوں نے بتدریج ترقی کی اور اچھے اخلاق سے واقف ہوئے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ زندگی کے اصول اور بہتر زندگی بسر کرنے کا درس انسانوں کو کس نے دیا ؟

۴۶

۲_ پیغمبر لوگوں کون سے تعلیم دیتے تھے؟

۳_ پیغمبروں نے کن لوگوں کے لئے سب سے زیادہ محنت اور کوشش کی ؟

۴_ پیغمبروں نے کس قسم کے لوگوں کے درمیان کن چیزوں کا رواج دیا ؟

۴۷

تیسرا سبق

خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام

کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں کا کیا دین تھا اور وہ کس طرح زندگی گزارتے تھے_ انہوں نے گذشتہ پیغمبروں کی تعلیم کو فراموش کردیا تھا وہ نہیں جانتے تھے کہ اس دنیا میں کس طرح زندگی گذار کر آخرت میں سعادت مند ہوسکتے ہیں وہ صحیح قانون اور نظم و ضبط سے ناواقف تھے اور خدا کی پرستش کے طریقے نہیں جانتے تھے _ چونکہ خدا اپنے بندوں پر مہربان ہے اسلئے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنی پیغمبری کے لئے منتخب فرمایا تا کہ لوگوں کو نیکی اور اللہ تعالی کی عبادت کی طرف راہنمائی فرمائیں

خدا کو علم تھا کہ لوگ تشخیص نہیں کر سکتے کہ کون سے کام آخرت کے لئے فائدہ مند اور کون سے کام نقصان دہ ہیں _ خدا جانتا تھا کہ لوگوں کے لئے راہنما اور استاد ضروری ہے اسی لئے جناب ابراہیم علیہ السلام کو چنا اور انہیں عبادت اور خدا پرستی کے طریقہ بتائے _ خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتلاتا تھا کہ کون سے کام لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لئے بہتر ہیں اور کون سے کام مضر ہیں _

حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اللہ تعالی کے پیغام اور احکام کو لوگوں تک پہنچاتے اور ان کی رہنمائی فرماتے تھے _

حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا کے پیغمبر اور لوگوں کے استاد اور معلّم تھے _

۴۸

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ پیغمبروں کو کون منتخب کرتا ہے ؟

۲_ پہلے انسانوں کا کردار کیا تھا؟

۳_ کون سے حضرات زندگی کا بہتر راستہ بتاتے ہیں؟

۴_ کیا لوگ خود سمجھ سکتے ہیں کہ کون سے کام آخرت کے لئے بہتر اور کون سے مضر ہیں ؟

۵_ حضرت ابراہیم (ع) لوگوں کو کیا تعلیم دیتے تھے ؟

۶_ حضرت ابراہیم (ع) کا پیغام اور احکام کس کی طرف سے تھے؟

۴۹

چوتھا سبق

لوگوں کا رہبر اور استاد

پیغمبر لوگوں کا رہبر اور استاد ہوتا ہے _ رہبری کے لئے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے _ اسے جانتا ہے _ دین کے تمام احکام جانتا ہے _ اچھے اور برے سب کاموں سے واقف ہوتا ہے _ وہ جانتا ہے کہ کون سے احکام آخرت کی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور کون سے کام آخرت کی بدبختی کا سبب بنتے ہیں _ پیغمبر خدا کو بہتر جانتا ہے _ آخرت اور بہشت اور جہنم سے آگاہ ہوتا ہے _ اچھے اور برے اخلاق سے پوری طرح با خبر ہوتا ہے _ علم اور دانش میں تمام لوگوں کا سردار ہوتا ہے اس کے اس مرتبہ کو کوئی نہیں پہنچانتا _ خداوند عالم تمام علوم پیغمبر کو عنایت فرما دیتا ہے تا کہ وہ لوگو۱ں کی اچھے طریقے سے رہبری کر سکے _چونکہ پیغمبررہبر کامل اور لوگوں کا معلم اور استاد ہوتا ہے _ اسلئے اسے دنیا اور آخرت کی سعادت کا علم ہونا چاہیے تا کہ سعادت کی طرف لوگوں کی رہبری کر سکے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ لوگوں کا رہبر اور استاد کون ہے اور ان کو کون سی چیزیں بتلاتا ہے ؟

۵۰

۲_ پیغمبر کا علم کیسا ہوتا ہے کیا کوئی علم میں اس کا ہم مرتبہ ہوسکتا ہے؟

۳_ پیغمبر کا علوم سے کون نواز تا ہے ؟

۴_ رہبر کامل کون ہوتا ہے؟

۵۱

پانچوان سبق

پیغمبر لوگوں کے رہبر ہوتے ہیں

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور تمام پیغمبران خدا انسان تھے _ اور اانہیں میں زندگی گذار تے تھے خدا کے حکم اور راہنمائی مطابق لوگوں کی سعادت اور ترقی میں کوشاں رہتے تھے _ پیغمبر ابتدائے آفرینش سے لوگوں کے ساتھ ہوتے تھے اور انہیں زندگی بہترین را ستے بتا تے تھے _ خدا شناسی آخرت اور اچھے کاموں کے بارے میں لوگوں سے گفتگو کرتے تھے _ بے دینی اور ظلم کے ساتھ مقابلہ کیا کرتے تھے اور مظلوموں کی حمایت کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے درمیان محبت اور مساوات کو بر قرار رکھیں پیغمبروں نے ہزاروں سال کوشش کی کہ عبادت کے طریقے خدا شناسی اور اچھی زندگی بسر کرنا لوگوں پر واضح کریں _آج پیغمبروں اور ان کے پیرو کاروں کی محنت اور مشقت سے استفادہ کررہے ہیں _ اس لئے ان کے شکر گزار ہیں اور ان پر درود وسلام بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں ;

... ...اللہ کے تمام پیغمبروں پر ہمارا سلام

... اللہ کے بڑ ے پیغمبر جناب ابراہیم پر ہمارا سلام

... جناب ابراہیم کے پیرو کاروں پر ہمارا سلام

۵۲

چھٹا سبق

اولوا لعزم پیغمبر

اللہ تعالی نے لوگوں کی راہنمائی کے لئے بہت زیادہ پیغمبر بھیجے ہیں کہ ان میں سب سے بڑ ے پیغمبر پانچ ہیں

____ حضرت نوح علیہ السلام

____ حضرت ابراہیم علیہ السلام

____ حضرت موسی علیہ السلام

____ حضرت عیسی علیہ السلام

____ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جناب موسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو یہودی کہا جاتا ہے اور جناب عیسی علیہ السلام کے ماننے والوں کو مسیحی یا عیسائی کہا جاتا ہے اور جناب محمڈ کے ماننے والوں کو مسلمان کہا جاتا ہے

تمام پیغمبر خدا کی طرف سے آئے ہیں اور ہم ان سب کا احترام کرتے ہیں

لیکن تمام پیغمبروں سے بزرگ و برتر آخری پیغمبر جناب محمد مصطفی (ص) ہیں آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر نہیں آئے گا _

۵۳

سوالات

۱_ بڑے پیغمبرکتنے ہیں اور ان کے نام کیا ہیں ؟

۲_ یہودی کسے کہا جاتا ہے ؟

۳_ مسیحی یا عیسائی کسے کہا جاتا ہے ؟

۴_ جناب محمد مصطفی (ص) کے ماننے والوں کو کیا کہا جاتا ہے ؟

۵_ سب سے بڑ ے اور بہتر اللہ کے پیغمبروں کون ہیں ؟

ان جملوں کو مکمل کیجئے

۱_ تمام پیغمبر ... آئے ہیں اور ہم ان ... کرتے ہیں

۲_ لیکن جناب محمد مصطفی (ص) تمام پیغمبروں سے ... و ...ہیں

۳_ آپ کے بعد نہیں آئے گا

۵۴

ساتواں سبق

حضرت محمد مصطفے (ص) کا بچپن

جناب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کے والد جناب عبد اللہ علیہ السلام تھے اور والدہ ماجدہ جناب آمنہ تھیں _ بچین ہی سے آپ نیک اور صحیح انسان تھے دستر خوان پر با ادب بیھٹتے تھے_ اپنی غذا کھا تے اور دوسرے بچوں کے ہاتھ سے ان غذا نہیں چھینتے تھے _ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے _ بچوں کو آزار نہ دیتے تھے بلکہ ان سے اچھا سلوک اور محبت کرتے تھے _ ہر روز زنبیل خرما سے پر کر کے بچوں کے در میان تقسیم کرتے تھے _

سوالات

۱_ جناب محمد مصطفی کس شہر میں پیدا ہوئے ؟

۲_ غذا کھا تے وقت کیا کہتے تھے اور کس طرح بیٹھتے تھے ؟

۳_ دوسرے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے ؟

۴_ تمہارا دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک ہے ؟

۵۵

آٹھواں سبق

آخری نبی حضرت محمد مصطفے (ص)

آپ کے والد کا نام جناب عبداللہ اور والدہ کانام آمنہ تھا _ عام الفیل میں سترہ ربیع الاوّل کو مکہّ میں پیدا ہوئے _ آپ کی پیدائشے سے قبل ہی آپ کے والد جناب عبداللہ کا انتقال ہو گیا _ جناب آمنہ نے آپکی چھ سال تک پرورش کی _ جب آپ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا _ والدہ کے فوت ہونے کے بعد آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ کی _ جناب عبد المطلب آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور آپ پر بہت مہربان تھے پیغمبر اسلام کے مستقبل کا آپ کو علم تھا عیسائی اور یہودی علماء سے آپ نے سن رکھا تھا کہ مکہّ سے ایک پیغمبر مبعوث ہو گا _ جناب عبد المطلب عربوں کے سردار تھے _ کعبہ کے نزدیک آپ کے لئے مخصوص جگہ تھی کہ جس پراور کوئی نہیں بیٹھ سکتا تھا _ صرف پیغمبر اسلام اس مخصوص جگہ پراپنے دادا کے پہلو میں بیٹھا کرتے تھے _ اگر آپ کو وہاں بیٹھنے سے کبھی کوئی منع کرتا تو جناب عبد المطلب فرماتے کہ میرے بیٹے کو آنے دو _ بخدا اس کے چہرے پر بزرگی کے آثار موجود ہیں _ میں دیکھ رہاہوں کہ ایک دن محمڈ تم سب کا سردار ہو گا _ جناب عبدالمطلب پیغمبر اسلام کو اپنے نزدیک بٹھا تے اور اپنے دست شفقت کو آپ کے سر پر پھیر تے تھے چونکہ حضوڑ کے مستقبل سے آگاہ تھے اسلئے انہیں کے ساتھ غذا تناول کرتے تھے اور اپنے سے کبھی آپ کو جدا نہیں کرتے تھے _

۵۶

پیغمبر اسلام کا بچپن

پیغمبر اسلام بچپنے میں بھی با ادب تھے _ آپ کے چچا جناب ابو طالب علیہ السلام فرما تے ہیں کہ محمڈ غذا کھا تے وقت بسم اللہ کہتے تھے اور غذا کے بعد الحمدللہ فرماتے _ میں نے محمڈ کونہ تو جھوٹ بولتے دیکھا اور نہ ہی برا اور نارو ا کام کرتے دیکھا _ آپ(ص) او نچی آواز سے نہیں ہنستے تھے بلکہ مسکراتے تھے _

جواب دیجئے

۱_ پیغمبر اسلام (ص) کس سال اور کس مہینہ اور کس دن پیدا ہوئے ؟

۲_ آپ کی والدہ آور آپ کے والدکا کیا نام تھا ؟

۳_ جناب عبدالمطلب کا پیغمبر اسلام (ص) سے کیارشتہ تھا اور آپ کے متعلق وہ کیا فرما تے تھے ؟

۴_ یہودی اور عیسائی علماء کیا کہا کرتے تھے؟

۵_ بچپن میں آپ (ص) کا کردار کیسا تھا اور آپ کے متعلق آپ کے چچا کیا فرمایا کرتے تھے ؟

۵۷

نواں سبق

پیغمبر (ص) کا بچوّں کے ساتھ سلوک

پیغمبر(ص) اسلام بچّوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان کا احترام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ ان کو سلام کرتے تھے _ آپ(ص) مسلمانوں سے کہتے تھے کہ بچوں کا احترام کیا کرو اور ان سے محبت کیا کرو اور جو بچوں سے محبت نہ کرے وہ مسلمان نہیں ہے _

ایک مسلمان کہتا ہے کہ میں نے رسول (ص) کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ کے ساتھ گھر تک گیا تو میں نے دیکھا کہ بچے گروہ در گروہ آپ کا استقبال کرنے کے لئے دوڑ کر آرہے تھے _ آپ نے انہیں پیار کیا اور اپنا دست مبارک ان کے سر اور چہرے پرپھیرا

سوالات:

۱_ پیغمبر اسلام(ص) کے والد کا نام کیا تھا؟

۲_ آپ کی والدہ کا کیا نام تھا؟

۳_ بچوں کو کیوں سلام کیا کرتے تھے؟

۴_ اپنے اصحاب سے بچوں کے متعلق کیا فرماتے تھے؟

۵_ بچّے کیوں آپ(ص) کے استقبال کیلئے دوڑ پڑتے تھے؟

۶_ کیا تم اپنے دوستوں کو سلام کرتے ہو؟

۵۸

دسواں سبق

امین

ایک زمانے میں مکہ کے لوگ خانہ کعبہ کو از سر نو بنارہے تھے _ تمام لوگ خانہ کعبہ بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے _ جب کعبہ کی دیوار ایک خاص اونچائی تک پہنچی کہ جہان حجر اسود رکھا جانا تھا'' حجر اسود ایک محترم پتھر ہے'' مكّہ کے سرداروں میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اس پتھر کو صرف وہی اس کی بناپر رکھے اوراس کام سے اپنے آپ اور اپنے قبیلے کی سربلندی کا موجب بنے _ اسی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑا شروع ہوا _ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ صرف میں حجر اسود کو اس کی جگہ نصب کروں گا ان کا اختلاف بہت بڑھ گیا تھا اور ایک خطرناک موڑ تک پہنچ گیا تھا قریب تھا کہ ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے _ جنگ کے لئے تیار بھی ہوچکے تھے اسے اثناء میں ایک دانا اور خیرخواہ آدمی نے کہا _ لوگو جنگ اوراختلاف سے بچو کیونکہ جنگ شہر اور گھروں کو ویران کردیتی ہے _ اور اختلاف لوگوں کو متفرق اور بدبخت کردیتا ہے _ جہالت سے کام نہ لو اور کوئی معقول حل تلاش کرو_ مكّہ کے سردار کہنے لگے کیا کریں _ اس دانا آدمی نے کہا تم اپنے درمیان میں سے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کرلو جو تمہارے اختلاف کو دور کردے _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے یہ مفید مشورہ ہے _ لیکن ہر قبیلہ کہتا تھا کہ وہ قاضی ہم میں سے ہو _ پھر بھی اختلاف اور نزاع برطرف نہ ہوا _ اسی خیرخواہ اور دانا آدمی نے کہا _ جب تم قاضی کے انتخاب میں بھی اتفاق نہیں کرپائے تو سب سے پہلا شخص جو

۵۹

اس مسجد کے دروازے سے اندر آئے اسے قاضی مان لو _ سب نے کہا یہ ہمیں قبول ہے تمام کی آنکھیں مسجد کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں اور دل دھڑک رہے تھے کہ کون پہلے اس مسجد سے اندر آتا ہے اور فیصلہ کس قبیلے کے حق میں ہوتا ہے ؟ ایک جوان اندر داخل ہوا _ سب میں خوشی کی امید دوڑگئی اور سب نے بیک زبان کہا بہت اچھا ہو کہ محمد (ص) ہی آیا ہے _ محمد (ص) امین محمد(ص) امین _ منصف اور صحیح فیصلہ دینے والا ہے اس کا فیصلہ ہم سب کو قبول ہے حضرت محمد (ص) وارد ہوئے انہوں نے اپنے اختلاف کی کہانی انہیں سنائی: آپ نے تھوڑا ساتامل کیا پھر فرمایا کہ اس کام میں تمام مكّہ کے سرداروں کو شریک ہونا چاہیے لوگوں نے پوچھا کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ اور کس طرح _ حضرت نے فرمایا کہ ہر قبیلے کا سردار یہاں حاضر ہو تمام سردار آپ کے پاس آئے _ آنحضرت (ص) نے اپنی عبا بچھائی پھر آپ نے فرمایا تمام سردار عبا کے کناروں کو پکڑیں اور حجر اسود کو لے چلیں _ تمام سردار نے حجر اسود اٹھایا اور اسے اسکی مخصوص جگہ تک لے آئے اس وقت آپ نے حجر اسود کو اٹھایا اور اسے اس کی جگہ نصب کردیا_ مكّہ کے تمام لوگ آپ کی اس حکمت عملی سے راضی اور خوش ہوگئے _ آپ کے اس فیصلے پر شاباش اور آفرین کہنے لگے _

ہمارے پیغمبر(ص) اس وقت جوان تھے اور ابھی اعلان رسالت نہیں فرمایا تھا لیکن اس قدر امین اور صحیح کام انجام دیتے تھے کہ آپ کا نام محمد(ص) امین پڑچکا تھا _

لوگ آپ پر اعتماد کرتے تھے اور قیمتی چیزیں آپ کے پاس امانت رکھتے تھے اور آپ ان کے امانتوں کی حفاظت کرتے تھے آپ صحیح و سالم انہیں واپس لوٹا دیتے تھے _ سبھی لوگ اپنے اختلاف دور کرنے میں آپ کی طرف

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پیام:

۱۔فرزندان یعقوب (ع) اپنے باپ کے ساتھ تو زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کےلئے اسباب خوردونوش فراہم کرنے کےلئے تلاش و جستجو کرتے تھے۔( فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ یَاأَبَانَا...)

۲۔حضرت یوسف (ع) کا ہنر فقط یہ نہ تھا کہ وہ انسان کامل تھے بلکہ آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ انسان سازی کررہے تھے۔''اپنے حاسد اور جفاکار بھائیوں کو مخفی طور پر ہدیہ دیا تاکہ دوبارہ آنے کے لئے راستہ ہموار ہوسکے''(وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ) (۱)

۳۔اگر شروع میں جنس کی قیمت نہ لی جائے تو خریدار کی تحقیر ہو گی ۔ اگر ہدیہ کا قصد ہے تو پہلے قیمت لے لی جائے پھر محبت آمیز شکل میں پلٹا دیا جائے(رُدَّتْ إِلَیْهِمْ)

۴۔اگر فراری کبوتر کو پکڑنا چاہو تو تھوڑا سا دانہ اسے ڈالنا پڑے گا '' یوسف (ع) نے غلہ کی قیمت لوٹا دی تا کہ پلٹنے کا ارادہ اور قوی ہوجائے''( بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ )

۵۔مرد گھر والوں کو غذا فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔(نمیر اهلن)

۶۔قحط اور کمیابی کے حالات میں اشیاء خوردونوش کو محدود حصوں میں بانٹنا یوسفی سنت ہے۔(نَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ )

--------------

( ۱ )قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے(ادفع باللتی هی احسن ) یعنی برائی کا جواب اچھائی سے دو۔ سورہ فصلت آیت ۳۴

۱۴۱

آیت ۶۶:

(۶۶) قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَکُمْ حَتَّی تُتُونِ مَوْثِقًا مِّنْ اﷲِ لَتَأْتُنَنِیْ بِهِ إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ

''(یعقوب (ع) نے)کہا جب تک تم لوگ میرے سامنے خدا سے عہد نہ کرلو گے کہ تم اس کو ضرور مجھ تک (صحیح و سالم ) لے گے مگر یہ کہ تم خود کسی مشکل میں گھر ج (تو مجبوری

ہے ورنہ میں تو تمہارے ساتھ ہر گز اس کو نہ بھیجوں گا) پھر جب ان لوگوں نے ان کے سامنے عہد کرلیا تو یعقوب نے کہا کہ ہم لوگ جو کہہ رہے ہیں خدا اس کا ضامن ہے''۔

نکات:

موثق : یعنی وہ چیز جو مدّ مقابل یعنی مخاطب کے بارے میں مایہئ وثوق و اطمینان ہو جو عہد، قسم یا نذر ہوسکتی ہے۔(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ)

ہمارا پروردگار ہم پر ہمارے باپ سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اس داستان میں حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں کی ایک خیانت پر اپنے دوسرے فرزند کو ان کے حوالے نہ کیا۔ لیکن ہم لوگ ہر روز خداوندعالم کے احکام کی صریحا ً خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن وہ اس معصیت کے باوجود ہم سے اپنی نعمات کو سلب نہیں کرتا۔

۱۴۲

پیام:

۱۔خدا پر ایمان ، ذات خداوند کی قسم نذر و عہد کل بھی قوی ترین سہارا تھا اور آج بھی محکم پشت پناہ ہیں(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

۲۔کسی کی بدقولی و بدرفتاری کے مشاہدہ کے بعد دوسرے موقع پر اس سے محکم و مستحکم معاہدہ کرنا چاہیئے(مَوْثِقً)

۳۔اپنے بچوں کو آسانی کے ساتھ دوسروں کے ساتھ بھیجنا صحیح نہیں ہے۔(تُتُونِ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

۴۔معاہدہ کرتے وقت ناگہانی اورغیر متوقع حوادث کی پیش بینی بھی کرنا چاہیئے( إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ ) یعنی تکلیف مالا یطاق ممنوع ہے۔

۵۔تمام تر حقوقی اور قانونی معاہدوںکے ہوتے ہوئے خدا پر مکمل توکل سے غافل نہیں ہونا چاہیئے( اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ)

آیت ۶۷:

(۶۷) وَقَالَ یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَ وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُون

''اور یعقوب نے (نصیحت کے طور پر چلتے وقت بیٹوں سے کہا) اے فرزندو! (دیکھو خبردار) سب کے سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا (کہ کہیں نظر نہ لگ جائے) اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اس (بلا) کو جو خدا کی طرف سے (آئے کچھ بھی ٹال نہیں سکتا) حکم تو (دراصل) خدا ہی کے واسطے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے''۔

۱۴۳

پیام:

۱۔نافرمان بیٹوں سے بھی باپ کی محبت ختم نہیں ہوتی( یَابَنِیَّ)

۲۔بچوں کی حفاظت وسلامتی کےلئے تدبیر و غوروفکر ضروری ہے( یَابَنِیَّ لاَتَدْخُلُوا)

۳۔وعظ و نصیحت کے بہترین اوقات میں سے ایک اہم وقت وہ ہے جب انسان سفر کے لئے تیار ہو۔ حضرت یعقوب (ع) نے سفر کے موقع پر فرمایا:( یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ) (۱)

۴۔حساسیت ، بدگمانی اور بری نگاہ سے لوگوں کو بچانا چاہیئے جوانوں کا گروہی طور پر کسی اجنبی جگہ پر جانا بدگمانی و چغل خوری کا سبب بن سکتا ہے(لاَتَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ)

۵۔لطف و کرم اور قدرت خداوندی کو کسی ایک راہ میں منحصر نہیں سمجھنا چاہیئے اس ذات اقدس کا دست قدرت انتہائی وسیع ہے وہ جس راستہ سے چاہے مدد پہنچا سکتا ہے۔(لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ) (۲)

--------------

( ۱ )روایات میں بھی ہے کہ سفر کرتے وقت وعظ و نصیحت کرنی چاہیئے

( ۲ )روایات میں ہے کہ : تاجر افراد اپنی تمام جمع پونجی کی سرمایہ کاری ایک جگہ پر نہ کریں تا کہ اگر ایک راستہ بند ہوجائے تو دوسری راہ کھلی رہے.

۱۴۴

۶۔احتیاط اور تدبیر کے ساتھ ساتھ(لاَ تَدْخُلُوا...) خدا پر توکل اور بھروسہ بھی ضروری ہے(عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ)

۷۔بہترین مدیر و سربراہ وہ ہے جو پروگرام اور منصوبے کے علاوہ تمام احتمالات کو مدنظر رکھے کیونکہ انسان اپنے امور کی انجام دہی میں مستقل نہیں ہے یعنی تمام تر احتیاط اور دقت کے باوجود خدا کا دست قدرت وسیع تر ہے اور ہماری تمام تر احتیاط اور حساب و کتاب کے باوجود ان کی انجام دہی پر صد در صد ضمانت نہیں ہے(وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۸۔خدا کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے'' عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ'' کیونکہ وہ تن تنہا کافی ہے(و کفی بالله وکیل) (۱) اور اللہ بہترین وکیل ہے(نعم الوکیل) (۲)

۹۔حضرت یعقوب (ع) نے خود بھی خدا پر بھروسہ کیا اور دوسروں کو بھی خدا پر'' توکل'' کرنے کا حکم فرمایا۔( تَوَکَّلْت... فَلْیَتَوَکَّلْ ...)

۱۰۔خداوندمتعال کے فیصلوں کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔(مَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۱۱۔اس کائنات میں حکم کرنے کا مطلقا ًحق ، صرف ذات پروردگار کو ہے(إِن الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ )

--------------

( ۱ )سورہ نساء آیت ۸۱

( ۲ )سورہ آل عمران آیت ۱۷۳

۱۴۵

آیت ۶۸:

(۶۸) وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا کَانَ یُغْنِی عَنْهُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُون

''اورجب یہ سب بھائی جس طرح انکے والد نے حکم دیا تھا اسی طرح (مصر میں)داخل ہوئے تو (جو حکم) خدا (کی طرف سے آنے کو تھا اس ) سے انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا مگر (ہاں) یعقوب کے دل میں ایک تمنا تھی جسے انہوں نے بھی یوں پورا کرلیا چند مختلف دروازوں سے اپنے بیٹوں کو داخلے کا حکم دے کر یعقوب ان کو نظر بد سے بچانا چاہتے تھے کیونکہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اسے چونکہ ہم نے علم دیا تھا صاحب علم ضرور تھامگر بہتےرے لوگ (اس سے بھی)واقف نہیں ہیں''۔

نکات:

حضرت یعقوب علیہ السلام کی کونسی اندرونی خواہش پوری ہوئی اس میں چند احتمالات ہیں :

۱۔ بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام تک پہنچ جائیں اور حضرت یوسف (ع)کو تنہائی سے نجات ملے اگرچہ بنیامین پر چوری کی تہمت لگے ۔

۲۔ باپ بیٹے کے ملن میں سرعت اور جلدی ہوسکے جس کے بارے میں آئندہ اشارہ کیا جائے گا ۔

۳۔ فریضہ کی انجام دہی ، اگرچہ نتیجہ کی کوئی ضمانت نہ ہو حضرت یعقوب علیہ السلام کی حاجت یہ ہے کہ ملاقات کے مقدمات میں کوتاہی نہ ہو اور وہ لوگ ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں لیکن جو ہو گا وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔

۱۴۶

پیام:

۱۔ تلخ تجربے انسان کو باادب بنادیتے ہیں اور وہ بزرگوں کی باتوں کو قبول کرنے لگتا ہے ۔(دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ)

۲۔ اگر کسی کی بے ادبی کا ذکر کیا ہے تو اس کے ادب کو بھی بیان کرنا چاہیئے ۔(دَخَلُوا أَبُوهُمْ) (اگر برادران یوسف نے کل اپنے بابا پر گمراہی کا الزام لگایا تھا تو آج فرمان پدری پر سرتسلیم خم کردیا ہے۔)

۳۔ پروگرام ، عزائم ، تخمینہ جات اورمصمم ارادے کے ساتھ اگر خداوندمتعال کا ارادہ بھی ہو تو پھر تمام پروگرام عملی جامہ پہن سکتے ہیں لیکن اگر خدا کا ارادہ شامل حال نہ ہو تو تمام عزم و ارادے بے کار ہوجاتے ہیں ۔( مَا کَانَ یُغْنِی عنهم مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۴۔ جناب یعقوب (ع)تمام مطالب و اسرار سے آگاہ تھے لیکن مصلحتاً ان کا اظہار نہیں فرمایا۔(حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ)

۵۔ اولیائے خداکی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ۔( حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا )

۶۔ انبی(ع)ء کا علم خداوندعالم کی طرف سے ہے(عَلَّمْنَ)

۷۔ اکثر لوگ اسباب و علل کو دیکھا کرتے ہیں لیکن خدا کی حاکمیت اور لزوم توکل سے بے خبر ہوتے ہیں۔(أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُون)

۱۴۷

آیت ۶۹:

(۶۹)وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّی أَنَا أَخُوکَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ

''اور جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس جگہ دی اور (چپکے سے ) اس (بنیامین) سے کہہ دیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو جوکچھ (بدسلوکیاں) یہ لوگ تمہارے ساتھ کرتے رہے ہیں اسکا رنج نہ کرو ''۔

نکات:

تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب برادران یوسف (ع)وارد مصر ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کی مہمان نوازی فرمائی جس میں ہر دو آدمیوں کے لئے غذا کا ایک طبق معین کردیا آخر میں بنیامین تنہا رہ گئے تو حضرت یوسف (ع)نے ان کو اپنے نزدیک بٹھا لیا اس کے بعد ہر دو آدمیوں کے لئے ایک کمرہ معین کیا تو پھر بنیامین تنہا رہ گئے تو انہیں اپنے حجرے میں رکھ لیا وہاں بنیامین نے اپنے بھائیوں کی بے وفائی اور ظلم و ستم کا ذکر چھیڑ دیا جو انہوں نے حضرت یوسف (ع)پر ڈھائے تھے یہاں پر کاسہ صبر یوسفی لبریز ہوگیا ۔ فرمایا: پریشان مت ہو میں وہی یوسف ہوں اور تاکید کے ساتھ فرمایا۔(انی انا اخوک) میں ہی تمہارا بھائی ہوں تاکہ ایسا کوئی احتمال نہ آئے کہ میں تمہارے بھائی کی جگہ پر ہوں۔

جملہ(فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُون ) کے معنی کے سلسلے میں دو احتمال ہیں ۔

۱۔ یا تو یہ کہ وہ اپنے بھائیوں کی گزشتہ کارستانیوں سے غمناک نہ ہو۔

۲۔ یا یہ کہ وہ پروگرام جسے ہمارے غلاموں نے تمہارے لئے بنایا ہے کہ تمہارے حصے میں پیمانہ ڈال دیں گے تاکہ تم میرے پاس رہ سکو اس سے پریشان نہ ہونا۔

۱۴۸

پیام:

۱۔ وہ برادران جنہیں کل اپنی قدرت پر ناز تھا اور کہہ رہے تھے ''نحن عصبہ'' ہمارا گروہ قوی ہے وہی آج اس درجہ کو پہنچ چکے ہیں کہ اپنا آذوقہ (انتہائی کم غذا) مہیا کرنے کے لئے آستانہ حضرت یوسف (ع)پر تواضع کے ساتھ بوسہ دینے پر مجبور ہیں۔(دَخَلُوا عَلَی)

۲۔ کلام اور گفتگو کے مختلف مرحلے ہیں کہیں مخفیانہ گفتگو ہوتی ہے تو کہیں اعلانیہ، حضرت یوسف نے مخفیانہ انداز سے فقط بنیامین سے کہا :( إِنِّی أَنَا أَخُوک) (ہرسخن جائی و ہر نکتہ مقامی دارد) ہر سخن اور نکتہ کا اپنا موقع و محل ہوتا ہے۔

۳۔ بعض امور سے فقط خاص لوگوں کو باخبر کرنا چاہیئے(فَلاَ تَبْتَئِسْ )

۴۔ جب بھی کوئی نعمت حاصل ہوتو ماضی کی تلخ کامیوں کو بھول جانا چاہیئے (یوسف (ع)اور بنیامین نے ملاقات کی چاشنی محسوس کرلی ہے تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پرانی باتوں کو بھلا دیا جائے۔)(فَلاَ تَبْتَئِسْ)

۵۔ کسی بھی پروگرام اور نقشہ کو عملی جامہ پہنانے سے قبل بے گناہ شخص کو روحانی و نفسیاتی طور پر آمادہ کرلینا چاہیئے ۔ (بنیامین سے کہا گیا کہ تمہیں چور قراردے کر یہاں روکا جائے گا لہٰذاپریشان نہ ہونا۔)(فَلاَ تَبْتَئِسْ)

۱۴۹

آیت ۷۰:

(۷۰) فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَ فِی رَحْلِ أَخِیهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُذِّنٌ أَیَّتُهَا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ

''پھر جب یوسف نے ان کا ساز وسامان (سفر غلہ وغیرہ)تیار کرا دیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پانی پینے کا کٹورا رکھ دیا پھر ایک منادی للکار کے بولا کہ اے قافلے والو(ہو نہ ہو)یقینا تمہیں لوگ چور ہو''۔

نکات:

یہ دوسری نقشہ کشی ہے جسے حضرت یوسف علیہ السلام انجام دے رہے ہیں پہلی مرتبہ غلہ کی قیمت کو بھائیوں کے سامان میں رکھ دیا تاکہ وہ دوبارہ پلٹ آئیں اس بار قیمتی برتن اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا تاکہ اسے اپنے پاس رکھ سکیں ۔

''سقایه'' اس کٹورے اور پیمانے کو کہتے ہیں جس میں پانی پیا جاتا ہے''رحل'' اس خوگیر یا بوری کو کہتے ہیں جو اونٹ کے اوپر رکھی جاتی ہے اور اس کے دونوں اطراف سامان وغیرہ رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے (پالان ، محمل) ''عیر''اس قافلہ کو کہتے ہیں جو غذائی اجناس لے کر جاتا ہے(۱)

تفسیروں میں بیان ہوا ہے کہ حضرت یوسف اور بنیامین کے درمیان جو نشست ہوئی اس میں حضرت یوسف نے بنیامین سے پوچھا کہ کیا وہ یوسف کے پاس رہنا پسند کرتے ہیں ؟ تو جناب بنیامین نے رضایت کا اظہار کردیالیکن یہ بتا دیاکہ ان کے بابا نے بھائیوں سے تعہد لیا ہے کہ بنیامین کو اپنے ہمراہ واپس لے کر آئیں گے ۔ اس پر حضرت یوسف نے فرمایا : گھبر نہیں ، میں تمہارے رہنے کے لئے نقشہ کشی کرکے ایک راستہ نکال لوں گا۔

اس ماجرے میں بے گناہوں پر چوری کاالزام کیوں لگایا گیا؟

--------------

( ۱ )مفردات راغب.

۱۵۰

جواب: بنیامین نے اپنے بھائی کے پاس رکنے کے لئے بسر و چشم اس منصوبے کو قبول کیا تھا باقی برادران اگرچہ کچھ دیر کے لئے ناراض ہوئے لیکن تحقیق کے بعد ان سے الزامات مرتفع ہوگئے علاوہ ازیں کام کرنے والوں کو خبر نہ تھی کہ حضرت یوسف نے خود سامان کے درمیان پیمانہ ڈال دیا ہے ۔ (جعل) ان لوگوں نے تو طبیعی طور چیخنا شروع کردیا کہ(انکم لسارقون) تم ہی لوگ چور ہو۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں نے حضرت یوسف (ع)کو حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے چرا لیاتھا لہٰذاکام کرنے والوں نے یہ کہاکہ ہم نے بادشاہ کا پیمانہ گم کردیا ہے یہ نہیں کہا کہ تم لوگوں نے بادشاہ کا پیمانہ چرالیا ہے فقط حضرت یوسف علیہ السلام یہ بتانا چاہتے تھے تم لوگوں نے حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے یوسف (ع)کو چرایا ہے(۱)

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:''لاکذب علی المصلح'' اگر کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح و آشتی اور رفع اختلافات کے لئے جھوٹ کا سہارہ لیتا ہے تو وہ جھوٹ شمار نہیں ہوتا ، اس وقت آنحضرت (ص)نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۲)

--------------

(۱)تفسیر نور الثقلین ۔البتہ اس عمل کو اصطلاح میں''توریہ'' کہتے ہیں یعنی کہنے والا ایک خاص ہدف رکھتا ہے لیکن سننے والا دوسرا ہدف سمجھتا ہے ۔ بہرحال اگر موذن سے مراد آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام ہیں تو یہ توریہ صحیح ہے ۔ واللہ العالم۔

(۲)تفسیر نورالثقلین۔ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسے موارد کذب میں شمار ہوتے ہیں یا نہیں یعنی آیا مصلح یا اس قسم کے لوگوں سے کذب کا حکم اٹھا لیا گیا ہے یا اصلاً جھوٹ ہی نہیں ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کےلئے صدق و کذب ، سچ اور جھوٹ کے معنی کو دیکھنا پڑے گا عام طور پر صدق کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے : وہ خبر جو مطابق واقع ہو ۔ جھوٹ کی تعریف میںیہ کہا جاتا ہے : وہ خبر جو مخالف واقع ہو۔ اگر یہی تعریف صحیح ہے تو پھر بہت سے مقاما ت پر یہ قاعدہ ٹوٹ جائے گا مثال کے طور پر سورہ منافقین کی پہلی آیت میں خداوندعالم گواہی دیتا ہے کہ نبی اکرم (ص) خدا کے رسول ہیں لیکن وہیں پر فرماتا ہے کہ ''واﷲ یشھد ان المنافقین لکاذبون''اگر مطابق واقع خبر سچ ہے تو پھر منافقین کو سچا ہونا چاہیئے لیکن قرآن کریم فرما رہا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ اسی طرح مصلح خلاف واقع گفتگو کرتا ہے لیکن نبی اکرم فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹ نہیں ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ معیار صدق و کذب مطابق و مخالف واقع ہونا نہیں ہے بلکہ معیار کچھ اور ہے درحقیقت معیار صدق و کذب عدل و ظلم ہے جہاں ایک کلام عدل ہوگا وہ صدق ہوگا اور جہاں ظلم ہوگا وہاں کذب اور جھوٹ ہو گا غالبا ًجوکلام صادق ہوتا ہے وہ عدل ہوتا ہے لیکن بہت کم موارد میں ایسا ہوتا ہے جہاں کذب عدل ہوتا ہے دوسری طرف غالباً کذب ظلم ہوتا ہے اور کم مواقع ایسے آتے ہیں جہاں صدق اور سچ ظلم ہوتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ حکم شرعی ، حرام اور مباح ،دائر مدار صدق و کذب نہیں ہے بلکہ دائر مدار عدل و ظلم ہے ۔ بنابریں مصلح کا صلح قائم کرنے کےلئے صحیح بات بتانے سے گریز کرنا عدل ہے لہٰذا وہ جھوٹ نہیں ہے ، منافقوں کا رسول اکرم (ص) کو رسول کہنا باوجودیکہ دل سے ان کے مخالف تھے ظلم ہے، لہٰذا وہ سچ نہیں ہے ،جناب یوسف (ع)کا اپنے بھائی کو روکنا عدل ہے تاکہ آئندہ کےلئے راہ ہموار ہوسکے ، لہٰذا جھوٹ نہیں ہے۔مترجم۔

۱۵۱

پیام:

(۱) کبھی کبھی کسی ماجرے کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے نقشہ کشی اور سازش کا سہارہ لیا جاتا ہے(۱) بنابریں اہم مصلحتوں کے پیش نظر بے گناہ شخص پر چوری کا الزام لگانا کہ جس کے بارے میں پہلے آگاہ کردیا ہو کوئی مشکل کام نہیں ہے(۲)

آیت ۷۱:

(۷۱)قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَیْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ

''یہ سن کر یہ لوگ پکارنے والوں کی طرف رخ کرکے کہنے لگے (آخر) تمہاری کونسی چیز گم ہوگئی ہے ؟''

--------------

(۱)مثلاًنمائش ، تصاویر اورفلم وغیرہ میں بظاہر لوگوں کو مجرم ، گناہگاروغیرہ جیسے خطاب سے مخاطب کیا جاتا ہے حتی انکو شکنجہ بھی دیا جاتا ہے لیکن چونکہ ان لوگوں کو پہلے سے متوجہ کردیا جاتا ہے اور وہ راضی ہوتے ہیں اسی بنیاد پر اہم مصلحت کودیکھتے ہوئے اسے قبول کرلیتے ہیں۔

(۲)تفسیر المیزان ج ،۱۱ ص ۲۴۴

۱۵۲

آیت ۷۲:

(۷۲) قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِیمٌ

'' ان لوگوںنے جواب دیاکہ ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں ملتا ہے جو شخص اسے پیش کرے گا اس کےلئے بارشتر(غلہ انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں''۔

نکات:

'' صُوَاعَ '' (۱) اور''سقایہ''دونوں ہم معنی ہیں یعنی وہ ظرف جس سے پانی پیا جاتا ہو اور اسی سے گیہوں بھی تولا جاتا ہو جو صرفہ جوئی کی علامت ہے یعنی ایک چیز سے چند کام۔

''حِملْ'' بار کو کہتے ہیں ''حَمل'' بھی بار ہی کو کہتے ہیں لیکن اس بار کو جو پوشیدہ ہو مثلاًوہ بارش جو بادل میں چھپی ہو یا وہ بچہ جو شکم مادر میں ہو(۲)

جملہ''َلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر'' یعنی جو ایسا کرے گا اس کی جزا یہ ہو گی اسے فقہی اصطلاح میں''جُعاله '' کہتے ہیںجو سابقہ اور قانونی اعتبار کا حامل ہے

پیام:

۱۔ انعام و اکرام کی تعیین پرانی روش ہے(لِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر)

۲۔انعام و اکرام انسان اور زمانے کی مناسبت سے ہونا چاہیئے ۔ خشک سالی کے زمانے میں بہترین انعام غلے سے لدا ہوا ایک اونٹ ہے( حِمْلُ بَعِیر)

۳۔ حصول اطمینان کے لئے ضامن قرار دینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے(أَنَا بِهِ زَعِیم)

--------------

(۱) تفسیر اطیب البیان میں آیا ہے کہ صواع اس ظرف کو کہتے ہیں جس میںایک صاع (تقریبا تین کلو) گیہوں کی گنجائش ہوتی ہے.

(۲)مفردات راغب.

۱۵۳

آیت ۷۳:

(۷۳) قَالُوا تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ

''تب یہ لوگ کہنے لگے خدا کی قسم تم تو جانتے ہو کہ ہم (تمہارے )ملک میں فساد کرنے کی غرض سے نہیں آئے اور نہ ہی ہم لوگ چور ہیں ''۔

نکات:

برادران یوسف نے کہا : آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہم لوگ چوری اور فساد برپا کرنے کے لئے نہیں آئے وہ لوگ یہ کیسے جانتے تھے کہ یہ چور اور فسادی نہیں ہیں ؟ اس میں چند احتمال ہیں ۔(۱) شاید حضرت یوسف نے اشارہ کیا ہو کہ یہ لوگ چور نہیں ہیں(۲) شاید شخصی داخلہ کے وقت کچھ افراد معین ہوں کہ جو رفت و آمد پر نظر رکھتے ہوں۔ جی ہاں! یقینا باہر سے آنے جانے والے افراد کی نگرانی کرنی چاہیئے خصوصا ًاس وقت جب ملک بحرانی کیفیت میں ہو تو زیادہ گہری نگاہ رکھنی چاہئےے تاکہ آنے والے مسافرین کے اہداف کا علم رہے ۔

پیام:

۱۔ بے داغ ماضی ،بری الذمہ ہونے کی علامت ہے ۔( لَقَدْ عَلِمْتُم)

۲۔ ''چوری'' بھی زمین پر فساد کا ایک مصداق ہے( مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ )

۱۵۴

آیت ۷۴:

(۷۴) قَالُوا فَمَا جَزَهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ

''وہ (ملازمین) بولے کہ اگر تم جھوٹے نکلے تو پھر اس (چور) کی سزا کیا ہونی چاہیئے ''۔

نکات:

جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ سوال تیار کرنے والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں چونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائی کنعان کے علاقائی قانون اور حضرت یعقوب کے( نظریہ کے )مطابق اپنا نظریہ پیش کریں گے ۔

کیا قاضی کے علم اور ملزم کے قسم کھانے کے باوجود بھی تحقیق کرنا ضروری ہے ؟( تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ)

جواب: جی ہاں ۔ اس کی دلیل جملہ'' فَمَا جَزَهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ '' ہے۔

پیام:

۱۔ مجرم کی سزا کو معین کرنے کے لئے اس کے ضمیر سے سوال کیا جائے( فَمَا جَزَهُ...)

۱۵۵

آیت ۷۵:

(۷۵) قَالُوا جَزَهُ مَنْ وُّجِدَ فِی رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَهُ کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ

''وہ (بے دھڑک)بول اٹھے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے بورے میں وہ (پیالہ) پایا جائے تو وہی اس کا بدلہ ہے (تو وہ مال کے بدلے میں غلام بنایا جائے گا)ہم لوگ تو(اپنے یہاں کنعان میں) ظالموں(چوروں) کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں''۔

پیام:

۱۔ بعض گزشتہ اقوام میں چوری کی سزا چور کو غلام بنا لینا تھی(۱) ۔( فَهُوَ جَزَهُ)

۲۔ قانون میں کوئی استثناء اور پارٹی بازی نہیں ہونی چاہیئے ۔ جو بھی چور ہوگا غلامی کی زنجیر اس کے پیروں میں ہوگی۔( مَنْ وُجِدَ فِی رَحْلِهِ)

۳۔ ممکن ہے کہ مجرم کی سزا اس کے علاقے کے قانون کے مطابق ہو ۔ میزبان ملک کے قانون کے مطابق سزا دینا ضروری نہیں ہے۔(کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ)

۴۔ چوری ، ظلم کا کھلا ہوانمونہ ہے کیونکہ آیت کے آخری حصے میں لفظ ''سارق'' کے بجائے ''ظالم ''استعمال ہوا ہے۔

--------------

(۱) بنابر نقل تفسیر مجمع البیان اس غلامی کی مدت ایک سال تھی.

۱۵۶

آیت ۷۶:

(۷۶) فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِیهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِیهِ کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلاَّ أَنْ یَشَاءَ اﷲُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ

''غرض یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے کھولنے سے پہلے دوسرے بھائیوں کے شلیتوں سے (تلاشی) شروع کی اس کے بعد (آخر میں) اس (پیالے) کو یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتہ سے برآمد کیا ،یوسف کے (بھائی کو روکنے کی) ہم نے یوں تدبیر بتائی ورنہ وہ (بادشاہ مصر کے) قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں روک سکتے تھے مگر ہاں جب ہم چاہتے ہیں اس کے درجات بلند کر دیتے ہیں ،اور ہر صاحب علم سے بڑھ کر ایک بہت بڑی دانا ذات (بھی) ہے ''۔

نکات:

چونکہ بنیامین اس واقعہ سے آگاہ تھے لہٰذا تلاشی کے وقت کافی مطمئن تھے ، یہی وجہ ہے کہ اس پورے ماجرے میں کہیں بھی ان کی طرف سے کوئی اعتراض نقل نہیں کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازین تاکہ یہ نقشہ کشی مخفی رہ سکے اور بدگمانی کا سبب نہ بنے تلاشی کو دوسرے لوگوں سے شروع کیا گیا یہاں تک کہ بنیامین کی نوبت آگئی اور جب وہ پیمانہ ان کے سامان میں پایا گیا تو اب گزشتہ قراردادکے مطابق ان کا مصر میں رہنا ضروری ہوگیا ۔یہ خدائی تدبیر تھی کیونکہ جناب یوسف علیہ السلام مصری قوانین کے تحت چور کو بعنوان غلام نہیں رکھ سکتے تھے۔

کلمہ''کید'' تمام مقامات پر مذموم معنی میں استعمال نہیں ہواہے بلکہ تدبیر ، چارہ اندیشی اور منصوبہ بندی کے معنی میں بھی مستعمل ہے (کدنا)

۱۵۷

پیام:

۱۔اطلاعات جمع کرنے پر مامور افراد کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے دوسروں کو ان پر شک ہو جائے( فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِهِمْ ) (وہ تلاشی لینے کےلئے سب سے پہلے بنیامین کے پاس نہیں گئے بلکہ تلاشی دوسرں کے سامان سے شروع کی۔)

۲۔ کارکنان کے کاموں کی نسبت مسل کی طرف دی جاتی ہے (فَبَدَ) (برحسب ظاہر حضرت یوسف (ع)نے تلاشی نہیں لی تھی لیکن قرآن فرماتا ہے کہ تلاشی انہوں نے شروع کی تھی۔)

۳۔ فکر و تخلیقی صلاحیت، منصوبہ بندی و چارہ جوئی غیبی امداد سے حاصل ہوتی ہے(کِدْنَ)

۴۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی تدبیریں الہامی تھیں۔(کِدْنَا لِیُوسُفَ)

۵۔ حضرت یوسف (ع)کے پاس بنیامین کا رہنا حضرت یوسف کے لئے فائدہ مند تھا ۔(کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ )

۶۔ قانون کااحترام اور اس کی رعایت غیر الٰہی حکومت میں بھی ضروری ہے۔(مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِک)

۷۔ معنوی مقامات مختلف درجات اور مراتب کے ایک سلسلہ کے حامل ہیں ۔(نَرْفَعُ دَرَجَات...)

۸۔ علم و آگاہی برتری کا سرمایہ ہے( نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ. وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ)

۹۔ بشری علم محدود ہے(فَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ)

۱۵۸

آیت ۷۷:

(۷۷) قَالُوا إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ فَأَسَرَّهَا یُوسُفُ فِی نَفْسِهِ وَلَمْ یُبْدِهَالَهُمْ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانًا وَاﷲُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ

''(غرض بنیامین روک لئے گئے )تو یہ کہنے لگے اگر اس نے چوری کی ہے تو (کونسی تعجب کی بات ہے) اس سے پہلے اسکا بھائی (یوسف) چوری کرچکا ہے تو یوسف نے (اس تہمت کا کوئی جواب نہیں دیا اور)اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور ان پر ظاہر نہ ہونے دیا (مگر) یہ کہہ دیاکہ تم لوگ برے ہو(نہ کہ ہم دونوں) اور جو (اس کے بھائی کی چوری کا) حال تم بیان کررہے ہو اس سے خدا خوب واقف ہے ''۔

پیام:

۱۔ متہم یا تو انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں چور نہیں ہوں(ما کنا سارقین) یا یہ توجیہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا چوری کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس کا بھائی چوری بھی کر چکا ہے۔( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْل)

۲۔ حسد کا مریض سالہا سال کے بعد بھی چٹکی لینے سے باز نہیں آتا ۔( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْل)

۳۔ ایک بھائی کا اخلاق دوسرے بھائی پر اثر انداز ہوتاہے( أَخٌ لَهُ) ماں کا کردار بھی بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے (یوسف (ع)اور بنیامین کی ماں ایک تھی)

۱۵۹

۴۔ جہاں محبت اور دل صاف نہ ہو وہاں تہمت بہت جلد لگا دی جاتی ہے ۔(إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ...) (پیمانہ کا بنیامین کے سامان سے باہر نکلنا چوری کی دلیل نہیں ہے، لیکن چونکہ بھائیوں کو بنیامین سے محبت نہ تھی اس لئے ان لوگوں نے چوری کا الزام لگا دیا اور مسئلہ کو تسلیم کرلیا۔)

۵۔ جہاں محبت نہیں ہوتی وہاں جزئی اور چھوٹی سی غلطی کو کلی اور بڑی بھاری خطا شمار کیا جاتاہے (انہوں نے''سرق'' فعل ماضی کے بجائے فعل مضارع''یسرق' 'استعمال کیا یعنی اس کام میں استمرار ہے گویا بنیامین کا روزانہ کاکام یہی تھا)۔

۶۔ ہدف تک پہنچنے کے لئے لعن و طعن کے تیر سہنے پڑتے ہیں ۔( سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ)

۷۔ کچھ لوگ بعض مواقع پر اپنی آبرو بچانے کے لئے دوسرے پر تہمتیں لگاتے ہیں ۔( سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ)

۸۔ جواں مردی اور کشادہ قلبی رمز رہبری ہے۔(أَسَرَّهَا یُوسُفُ)

۹۔ راز کا فاش کرنا ہمیشہ قابل اہمیت و ارزش نہیں ہے ۔(وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ)

۱۰۔ ''تحقیر'' نہی از منکر کا ایک طریقہ ہے۔( أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانً)

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246