یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174798 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پیام:

۱۔فرزندان یعقوب (ع) اپنے باپ کے ساتھ تو زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کےلئے اسباب خوردونوش فراہم کرنے کےلئے تلاش و جستجو کرتے تھے۔( فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ یَاأَبَانَا...)

۲۔حضرت یوسف (ع) کا ہنر فقط یہ نہ تھا کہ وہ انسان کامل تھے بلکہ آپ کا کمال یہ تھا کہ آپ انسان سازی کررہے تھے۔''اپنے حاسد اور جفاکار بھائیوں کو مخفی طور پر ہدیہ دیا تاکہ دوبارہ آنے کے لئے راستہ ہموار ہوسکے''(وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ) (۱)

۳۔اگر شروع میں جنس کی قیمت نہ لی جائے تو خریدار کی تحقیر ہو گی ۔ اگر ہدیہ کا قصد ہے تو پہلے قیمت لے لی جائے پھر محبت آمیز شکل میں پلٹا دیا جائے(رُدَّتْ إِلَیْهِمْ)

۴۔اگر فراری کبوتر کو پکڑنا چاہو تو تھوڑا سا دانہ اسے ڈالنا پڑے گا '' یوسف (ع) نے غلہ کی قیمت لوٹا دی تا کہ پلٹنے کا ارادہ اور قوی ہوجائے''( بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ )

۵۔مرد گھر والوں کو غذا فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔(نمیر اهلن)

۶۔قحط اور کمیابی کے حالات میں اشیاء خوردونوش کو محدود حصوں میں بانٹنا یوسفی سنت ہے۔(نَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ )

--------------

( ۱ )قرآن مجید میں خدا فرماتا ہے(ادفع باللتی هی احسن ) یعنی برائی کا جواب اچھائی سے دو۔ سورہ فصلت آیت ۳۴

۱۴۱

آیت ۶۶:

(۶۶) قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَکُمْ حَتَّی تُتُونِ مَوْثِقًا مِّنْ اﷲِ لَتَأْتُنَنِیْ بِهِ إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ

''(یعقوب (ع) نے)کہا جب تک تم لوگ میرے سامنے خدا سے عہد نہ کرلو گے کہ تم اس کو ضرور مجھ تک (صحیح و سالم ) لے گے مگر یہ کہ تم خود کسی مشکل میں گھر ج (تو مجبوری

ہے ورنہ میں تو تمہارے ساتھ ہر گز اس کو نہ بھیجوں گا) پھر جب ان لوگوں نے ان کے سامنے عہد کرلیا تو یعقوب نے کہا کہ ہم لوگ جو کہہ رہے ہیں خدا اس کا ضامن ہے''۔

نکات:

موثق : یعنی وہ چیز جو مدّ مقابل یعنی مخاطب کے بارے میں مایہئ وثوق و اطمینان ہو جو عہد، قسم یا نذر ہوسکتی ہے۔(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ)

ہمارا پروردگار ہم پر ہمارے باپ سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اس داستان میں حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں کی ایک خیانت پر اپنے دوسرے فرزند کو ان کے حوالے نہ کیا۔ لیکن ہم لوگ ہر روز خداوندعالم کے احکام کی صریحا ً خلاف ورزی کرتے ہیں لیکن وہ اس معصیت کے باوجود ہم سے اپنی نعمات کو سلب نہیں کرتا۔

۱۴۲

پیام:

۱۔خدا پر ایمان ، ذات خداوند کی قسم نذر و عہد کل بھی قوی ترین سہارا تھا اور آج بھی محکم پشت پناہ ہیں(مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

۲۔کسی کی بدقولی و بدرفتاری کے مشاہدہ کے بعد دوسرے موقع پر اس سے محکم و مستحکم معاہدہ کرنا چاہیئے(مَوْثِقً)

۳۔اپنے بچوں کو آسانی کے ساتھ دوسروں کے ساتھ بھیجنا صحیح نہیں ہے۔(تُتُونِ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ )

۴۔معاہدہ کرتے وقت ناگہانی اورغیر متوقع حوادث کی پیش بینی بھی کرنا چاہیئے( إِلاَّ أَنْ یُحَاطَ بِکُمْ ) یعنی تکلیف مالا یطاق ممنوع ہے۔

۵۔تمام تر حقوقی اور قانونی معاہدوںکے ہوتے ہوئے خدا پر مکمل توکل سے غافل نہیں ہونا چاہیئے( اﷲُ عَلَی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ)

آیت ۶۷:

(۶۷) وَقَالَ یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَ وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَعَلَیْهِ فَلْیَتَوَکَّلْ الْمُتَوَکِّلُون

''اور یعقوب نے (نصیحت کے طور پر چلتے وقت بیٹوں سے کہا) اے فرزندو! (دیکھو خبردار) سب کے سب ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا (کہ کہیں نظر نہ لگ جائے) اور متفرق دروازوں سے داخل ہونا اور میں تم سے اس (بلا) کو جو خدا کی طرف سے (آئے کچھ بھی ٹال نہیں سکتا) حکم تو (دراصل) خدا ہی کے واسطے ہے میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے''۔

۱۴۳

پیام:

۱۔نافرمان بیٹوں سے بھی باپ کی محبت ختم نہیں ہوتی( یَابَنِیَّ)

۲۔بچوں کی حفاظت وسلامتی کےلئے تدبیر و غوروفکر ضروری ہے( یَابَنِیَّ لاَتَدْخُلُوا)

۳۔وعظ و نصیحت کے بہترین اوقات میں سے ایک اہم وقت وہ ہے جب انسان سفر کے لئے تیار ہو۔ حضرت یعقوب (ع) نے سفر کے موقع پر فرمایا:( یَابَنِیَّ لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ) (۱)

۴۔حساسیت ، بدگمانی اور بری نگاہ سے لوگوں کو بچانا چاہیئے جوانوں کا گروہی طور پر کسی اجنبی جگہ پر جانا بدگمانی و چغل خوری کا سبب بن سکتا ہے(لاَتَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ)

۵۔لطف و کرم اور قدرت خداوندی کو کسی ایک راہ میں منحصر نہیں سمجھنا چاہیئے اس ذات اقدس کا دست قدرت انتہائی وسیع ہے وہ جس راستہ سے چاہے مدد پہنچا سکتا ہے۔(لاَ تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ) (۲)

--------------

( ۱ )روایات میں بھی ہے کہ سفر کرتے وقت وعظ و نصیحت کرنی چاہیئے

( ۲ )روایات میں ہے کہ : تاجر افراد اپنی تمام جمع پونجی کی سرمایہ کاری ایک جگہ پر نہ کریں تا کہ اگر ایک راستہ بند ہوجائے تو دوسری راہ کھلی رہے.

۱۴۴

۶۔احتیاط اور تدبیر کے ساتھ ساتھ(لاَ تَدْخُلُوا...) خدا پر توکل اور بھروسہ بھی ضروری ہے(عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ)

۷۔بہترین مدیر و سربراہ وہ ہے جو پروگرام اور منصوبے کے علاوہ تمام احتمالات کو مدنظر رکھے کیونکہ انسان اپنے امور کی انجام دہی میں مستقل نہیں ہے یعنی تمام تر احتیاط اور دقت کے باوجود خدا کا دست قدرت وسیع تر ہے اور ہماری تمام تر احتیاط اور حساب و کتاب کے باوجود ان کی انجام دہی پر صد در صد ضمانت نہیں ہے(وَمَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۸۔خدا کے علاوہ کسی دوسرے پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے'' عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ'' کیونکہ وہ تن تنہا کافی ہے(و کفی بالله وکیل) (۱) اور اللہ بہترین وکیل ہے(نعم الوکیل) (۲)

۹۔حضرت یعقوب (ع) نے خود بھی خدا پر بھروسہ کیا اور دوسروں کو بھی خدا پر'' توکل'' کرنے کا حکم فرمایا۔( تَوَکَّلْت... فَلْیَتَوَکَّلْ ...)

۱۰۔خداوندمتعال کے فیصلوں کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔(مَا أُغْنِی عَنکُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۱۱۔اس کائنات میں حکم کرنے کا مطلقا ًحق ، صرف ذات پروردگار کو ہے(إِن الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ )

--------------

( ۱ )سورہ نساء آیت ۸۱

( ۲ )سورہ آل عمران آیت ۱۷۳

۱۴۵

آیت ۶۸:

(۶۸) وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا کَانَ یُغْنِی عَنْهُمْ مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُون

''اورجب یہ سب بھائی جس طرح انکے والد نے حکم دیا تھا اسی طرح (مصر میں)داخل ہوئے تو (جو حکم) خدا (کی طرف سے آنے کو تھا اس ) سے انہیں کوئی بچانے والا نہ تھا مگر (ہاں) یعقوب کے دل میں ایک تمنا تھی جسے انہوں نے بھی یوں پورا کرلیا چند مختلف دروازوں سے اپنے بیٹوں کو داخلے کا حکم دے کر یعقوب ان کو نظر بد سے بچانا چاہتے تھے کیونکہ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ اسے چونکہ ہم نے علم دیا تھا صاحب علم ضرور تھامگر بہتےرے لوگ (اس سے بھی)واقف نہیں ہیں''۔

نکات:

حضرت یعقوب علیہ السلام کی کونسی اندرونی خواہش پوری ہوئی اس میں چند احتمالات ہیں :

۱۔ بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام تک پہنچ جائیں اور حضرت یوسف (ع)کو تنہائی سے نجات ملے اگرچہ بنیامین پر چوری کی تہمت لگے ۔

۲۔ باپ بیٹے کے ملن میں سرعت اور جلدی ہوسکے جس کے بارے میں آئندہ اشارہ کیا جائے گا ۔

۳۔ فریضہ کی انجام دہی ، اگرچہ نتیجہ کی کوئی ضمانت نہ ہو حضرت یعقوب علیہ السلام کی حاجت یہ ہے کہ ملاقات کے مقدمات میں کوتاہی نہ ہو اور وہ لوگ ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں لیکن جو ہو گا وہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔

۱۴۶

پیام:

۱۔ تلخ تجربے انسان کو باادب بنادیتے ہیں اور وہ بزرگوں کی باتوں کو قبول کرنے لگتا ہے ۔(دَخَلُوا مِنْ حَیْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ)

۲۔ اگر کسی کی بے ادبی کا ذکر کیا ہے تو اس کے ادب کو بھی بیان کرنا چاہیئے ۔(دَخَلُوا أَبُوهُمْ) (اگر برادران یوسف نے کل اپنے بابا پر گمراہی کا الزام لگایا تھا تو آج فرمان پدری پر سرتسلیم خم کردیا ہے۔)

۳۔ پروگرام ، عزائم ، تخمینہ جات اورمصمم ارادے کے ساتھ اگر خداوندمتعال کا ارادہ بھی ہو تو پھر تمام پروگرام عملی جامہ پہن سکتے ہیں لیکن اگر خدا کا ارادہ شامل حال نہ ہو تو تمام عزم و ارادے بے کار ہوجاتے ہیں ۔( مَا کَانَ یُغْنِی عنهم مِنْ اﷲِ مِنْ شَیْئٍ)

۴۔ جناب یعقوب (ع)تمام مطالب و اسرار سے آگاہ تھے لیکن مصلحتاً ان کا اظہار نہیں فرمایا۔(حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ)

۵۔ اولیائے خداکی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ۔( حَاجَ فِی نَفْسِ یَعْقُوبَ قَضَاهَا )

۶۔ انبی(ع)ء کا علم خداوندعالم کی طرف سے ہے(عَلَّمْنَ)

۷۔ اکثر لوگ اسباب و علل کو دیکھا کرتے ہیں لیکن خدا کی حاکمیت اور لزوم توکل سے بے خبر ہوتے ہیں۔(أَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُون)

۱۴۷

آیت ۶۹:

(۶۹)وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ أَخَاهُ قَالَ إِنِّی أَنَا أَخُوکَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ

''اور جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے حقیقی بھائی بنیامین کو اپنے پاس جگہ دی اور (چپکے سے ) اس (بنیامین) سے کہہ دیا کہ میں تمہارا بھائی ہوں تو جوکچھ (بدسلوکیاں) یہ لوگ تمہارے ساتھ کرتے رہے ہیں اسکا رنج نہ کرو ''۔

نکات:

تفسیروں میں مذکور ہے کہ جب برادران یوسف (ع)وارد مصر ہوئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کی مہمان نوازی فرمائی جس میں ہر دو آدمیوں کے لئے غذا کا ایک طبق معین کردیا آخر میں بنیامین تنہا رہ گئے تو حضرت یوسف (ع)نے ان کو اپنے نزدیک بٹھا لیا اس کے بعد ہر دو آدمیوں کے لئے ایک کمرہ معین کیا تو پھر بنیامین تنہا رہ گئے تو انہیں اپنے حجرے میں رکھ لیا وہاں بنیامین نے اپنے بھائیوں کی بے وفائی اور ظلم و ستم کا ذکر چھیڑ دیا جو انہوں نے حضرت یوسف (ع)پر ڈھائے تھے یہاں پر کاسہ صبر یوسفی لبریز ہوگیا ۔ فرمایا: پریشان مت ہو میں وہی یوسف ہوں اور تاکید کے ساتھ فرمایا۔(انی انا اخوک) میں ہی تمہارا بھائی ہوں تاکہ ایسا کوئی احتمال نہ آئے کہ میں تمہارے بھائی کی جگہ پر ہوں۔

جملہ(فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُون ) کے معنی کے سلسلے میں دو احتمال ہیں ۔

۱۔ یا تو یہ کہ وہ اپنے بھائیوں کی گزشتہ کارستانیوں سے غمناک نہ ہو۔

۲۔ یا یہ کہ وہ پروگرام جسے ہمارے غلاموں نے تمہارے لئے بنایا ہے کہ تمہارے حصے میں پیمانہ ڈال دیں گے تاکہ تم میرے پاس رہ سکو اس سے پریشان نہ ہونا۔

۱۴۸

پیام:

۱۔ وہ برادران جنہیں کل اپنی قدرت پر ناز تھا اور کہہ رہے تھے ''نحن عصبہ'' ہمارا گروہ قوی ہے وہی آج اس درجہ کو پہنچ چکے ہیں کہ اپنا آذوقہ (انتہائی کم غذا) مہیا کرنے کے لئے آستانہ حضرت یوسف (ع)پر تواضع کے ساتھ بوسہ دینے پر مجبور ہیں۔(دَخَلُوا عَلَی)

۲۔ کلام اور گفتگو کے مختلف مرحلے ہیں کہیں مخفیانہ گفتگو ہوتی ہے تو کہیں اعلانیہ، حضرت یوسف نے مخفیانہ انداز سے فقط بنیامین سے کہا :( إِنِّی أَنَا أَخُوک) (ہرسخن جائی و ہر نکتہ مقامی دارد) ہر سخن اور نکتہ کا اپنا موقع و محل ہوتا ہے۔

۳۔ بعض امور سے فقط خاص لوگوں کو باخبر کرنا چاہیئے(فَلاَ تَبْتَئِسْ )

۴۔ جب بھی کوئی نعمت حاصل ہوتو ماضی کی تلخ کامیوں کو بھول جانا چاہیئے (یوسف (ع)اور بنیامین نے ملاقات کی چاشنی محسوس کرلی ہے تو اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پرانی باتوں کو بھلا دیا جائے۔)(فَلاَ تَبْتَئِسْ)

۵۔ کسی بھی پروگرام اور نقشہ کو عملی جامہ پہنانے سے قبل بے گناہ شخص کو روحانی و نفسیاتی طور پر آمادہ کرلینا چاہیئے ۔ (بنیامین سے کہا گیا کہ تمہیں چور قراردے کر یہاں روکا جائے گا لہٰذاپریشان نہ ہونا۔)(فَلاَ تَبْتَئِسْ)

۱۴۹

آیت ۷۰:

(۷۰) فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَایَ فِی رَحْلِ أَخِیهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُذِّنٌ أَیَّتُهَا الْعِیرُ إِنَّکُمْ لَسَارِقُونَ

''پھر جب یوسف نے ان کا ساز وسامان (سفر غلہ وغیرہ)تیار کرا دیا تو اپنے بھائی کے سامان میں پانی پینے کا کٹورا رکھ دیا پھر ایک منادی للکار کے بولا کہ اے قافلے والو(ہو نہ ہو)یقینا تمہیں لوگ چور ہو''۔

نکات:

یہ دوسری نقشہ کشی ہے جسے حضرت یوسف علیہ السلام انجام دے رہے ہیں پہلی مرتبہ غلہ کی قیمت کو بھائیوں کے سامان میں رکھ دیا تاکہ وہ دوبارہ پلٹ آئیں اس بار قیمتی برتن اپنے بھائی کے سامان میں رکھ دیا تاکہ اسے اپنے پاس رکھ سکیں ۔

''سقایه'' اس کٹورے اور پیمانے کو کہتے ہیں جس میں پانی پیا جاتا ہے''رحل'' اس خوگیر یا بوری کو کہتے ہیں جو اونٹ کے اوپر رکھی جاتی ہے اور اس کے دونوں اطراف سامان وغیرہ رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے (پالان ، محمل) ''عیر''اس قافلہ کو کہتے ہیں جو غذائی اجناس لے کر جاتا ہے(۱)

تفسیروں میں بیان ہوا ہے کہ حضرت یوسف اور بنیامین کے درمیان جو نشست ہوئی اس میں حضرت یوسف نے بنیامین سے پوچھا کہ کیا وہ یوسف کے پاس رہنا پسند کرتے ہیں ؟ تو جناب بنیامین نے رضایت کا اظہار کردیالیکن یہ بتا دیاکہ ان کے بابا نے بھائیوں سے تعہد لیا ہے کہ بنیامین کو اپنے ہمراہ واپس لے کر آئیں گے ۔ اس پر حضرت یوسف نے فرمایا : گھبر نہیں ، میں تمہارے رہنے کے لئے نقشہ کشی کرکے ایک راستہ نکال لوں گا۔

اس ماجرے میں بے گناہوں پر چوری کاالزام کیوں لگایا گیا؟

--------------

( ۱ )مفردات راغب.

۱۵۰

جواب: بنیامین نے اپنے بھائی کے پاس رکنے کے لئے بسر و چشم اس منصوبے کو قبول کیا تھا باقی برادران اگرچہ کچھ دیر کے لئے ناراض ہوئے لیکن تحقیق کے بعد ان سے الزامات مرتفع ہوگئے علاوہ ازیں کام کرنے والوں کو خبر نہ تھی کہ حضرت یوسف نے خود سامان کے درمیان پیمانہ ڈال دیا ہے ۔ (جعل) ان لوگوں نے تو طبیعی طور چیخنا شروع کردیا کہ(انکم لسارقون) تم ہی لوگ چور ہو۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: ان لوگوں نے حضرت یوسف (ع)کو حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے چرا لیاتھا لہٰذاکام کرنے والوں نے یہ کہاکہ ہم نے بادشاہ کا پیمانہ گم کردیا ہے یہ نہیں کہا کہ تم لوگوں نے بادشاہ کا پیمانہ چرالیا ہے فقط حضرت یوسف علیہ السلام یہ بتانا چاہتے تھے تم لوگوں نے حضرت یعقوب (ع)کی بارگاہ سے یوسف (ع)کو چرایا ہے(۱)

پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا:''لاکذب علی المصلح'' اگر کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح و آشتی اور رفع اختلافات کے لئے جھوٹ کا سہارہ لیتا ہے تو وہ جھوٹ شمار نہیں ہوتا ، اس وقت آنحضرت (ص)نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۲)

--------------

(۱)تفسیر نور الثقلین ۔البتہ اس عمل کو اصطلاح میں''توریہ'' کہتے ہیں یعنی کہنے والا ایک خاص ہدف رکھتا ہے لیکن سننے والا دوسرا ہدف سمجھتا ہے ۔ بہرحال اگر موذن سے مراد آیت میں حضرت یوسف علیہ السلام ہیں تو یہ توریہ صحیح ہے ۔ واللہ العالم۔

(۲)تفسیر نورالثقلین۔ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایسے موارد کذب میں شمار ہوتے ہیں یا نہیں یعنی آیا مصلح یا اس قسم کے لوگوں سے کذب کا حکم اٹھا لیا گیا ہے یا اصلاً جھوٹ ہی نہیں ہے۔ اس مشکل کو حل کرنے کےلئے صدق و کذب ، سچ اور جھوٹ کے معنی کو دیکھنا پڑے گا عام طور پر صدق کی تعریف اس طرح کی جاتی ہے : وہ خبر جو مطابق واقع ہو ۔ جھوٹ کی تعریف میںیہ کہا جاتا ہے : وہ خبر جو مخالف واقع ہو۔ اگر یہی تعریف صحیح ہے تو پھر بہت سے مقاما ت پر یہ قاعدہ ٹوٹ جائے گا مثال کے طور پر سورہ منافقین کی پہلی آیت میں خداوندعالم گواہی دیتا ہے کہ نبی اکرم (ص) خدا کے رسول ہیں لیکن وہیں پر فرماتا ہے کہ ''واﷲ یشھد ان المنافقین لکاذبون''اگر مطابق واقع خبر سچ ہے تو پھر منافقین کو سچا ہونا چاہیئے لیکن قرآن کریم فرما رہا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ اسی طرح مصلح خلاف واقع گفتگو کرتا ہے لیکن نبی اکرم فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹ نہیں ہے ۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ معیار صدق و کذب مطابق و مخالف واقع ہونا نہیں ہے بلکہ معیار کچھ اور ہے درحقیقت معیار صدق و کذب عدل و ظلم ہے جہاں ایک کلام عدل ہوگا وہ صدق ہوگا اور جہاں ظلم ہوگا وہاں کذب اور جھوٹ ہو گا غالبا ًجوکلام صادق ہوتا ہے وہ عدل ہوتا ہے لیکن بہت کم موارد میں ایسا ہوتا ہے جہاں کذب عدل ہوتا ہے دوسری طرف غالباً کذب ظلم ہوتا ہے اور کم مواقع ایسے آتے ہیں جہاں صدق اور سچ ظلم ہوتا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ حکم شرعی ، حرام اور مباح ،دائر مدار صدق و کذب نہیں ہے بلکہ دائر مدار عدل و ظلم ہے ۔ بنابریں مصلح کا صلح قائم کرنے کےلئے صحیح بات بتانے سے گریز کرنا عدل ہے لہٰذا وہ جھوٹ نہیں ہے ، منافقوں کا رسول اکرم (ص) کو رسول کہنا باوجودیکہ دل سے ان کے مخالف تھے ظلم ہے، لہٰذا وہ سچ نہیں ہے ،جناب یوسف (ع)کا اپنے بھائی کو روکنا عدل ہے تاکہ آئندہ کےلئے راہ ہموار ہوسکے ، لہٰذا جھوٹ نہیں ہے۔مترجم۔

۱۵۱

پیام:

(۱) کبھی کبھی کسی ماجرے کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے نقشہ کشی اور سازش کا سہارہ لیا جاتا ہے(۱) بنابریں اہم مصلحتوں کے پیش نظر بے گناہ شخص پر چوری کا الزام لگانا کہ جس کے بارے میں پہلے آگاہ کردیا ہو کوئی مشکل کام نہیں ہے(۲)

آیت ۷۱:

(۷۱)قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَیْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ

''یہ سن کر یہ لوگ پکارنے والوں کی طرف رخ کرکے کہنے لگے (آخر) تمہاری کونسی چیز گم ہوگئی ہے ؟''

--------------

(۱)مثلاًنمائش ، تصاویر اورفلم وغیرہ میں بظاہر لوگوں کو مجرم ، گناہگاروغیرہ جیسے خطاب سے مخاطب کیا جاتا ہے حتی انکو شکنجہ بھی دیا جاتا ہے لیکن چونکہ ان لوگوں کو پہلے سے متوجہ کردیا جاتا ہے اور وہ راضی ہوتے ہیں اسی بنیاد پر اہم مصلحت کودیکھتے ہوئے اسے قبول کرلیتے ہیں۔

(۲)تفسیر المیزان ج ،۱۱ ص ۲۴۴

۱۵۲

آیت ۷۲:

(۷۲) قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِکِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِیمٌ

'' ان لوگوںنے جواب دیاکہ ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں ملتا ہے جو شخص اسے پیش کرے گا اس کےلئے بارشتر(غلہ انعام) ہے اور میں اس کا ضامن ہوں''۔

نکات:

'' صُوَاعَ '' (۱) اور''سقایہ''دونوں ہم معنی ہیں یعنی وہ ظرف جس سے پانی پیا جاتا ہو اور اسی سے گیہوں بھی تولا جاتا ہو جو صرفہ جوئی کی علامت ہے یعنی ایک چیز سے چند کام۔

''حِملْ'' بار کو کہتے ہیں ''حَمل'' بھی بار ہی کو کہتے ہیں لیکن اس بار کو جو پوشیدہ ہو مثلاًوہ بارش جو بادل میں چھپی ہو یا وہ بچہ جو شکم مادر میں ہو(۲)

جملہ''َلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر'' یعنی جو ایسا کرے گا اس کی جزا یہ ہو گی اسے فقہی اصطلاح میں''جُعاله '' کہتے ہیںجو سابقہ اور قانونی اعتبار کا حامل ہے

پیام:

۱۔ انعام و اکرام کی تعیین پرانی روش ہے(لِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِیر)

۲۔انعام و اکرام انسان اور زمانے کی مناسبت سے ہونا چاہیئے ۔ خشک سالی کے زمانے میں بہترین انعام غلے سے لدا ہوا ایک اونٹ ہے( حِمْلُ بَعِیر)

۳۔ حصول اطمینان کے لئے ضامن قرار دینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے(أَنَا بِهِ زَعِیم)

--------------

(۱) تفسیر اطیب البیان میں آیا ہے کہ صواع اس ظرف کو کہتے ہیں جس میںایک صاع (تقریبا تین کلو) گیہوں کی گنجائش ہوتی ہے.

(۲)مفردات راغب.

۱۵۳

آیت ۷۳:

(۷۳) قَالُوا تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ

''تب یہ لوگ کہنے لگے خدا کی قسم تم تو جانتے ہو کہ ہم (تمہارے )ملک میں فساد کرنے کی غرض سے نہیں آئے اور نہ ہی ہم لوگ چور ہیں ''۔

نکات:

برادران یوسف نے کہا : آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہم لوگ چوری اور فساد برپا کرنے کے لئے نہیں آئے وہ لوگ یہ کیسے جانتے تھے کہ یہ چور اور فسادی نہیں ہیں ؟ اس میں چند احتمال ہیں ۔(۱) شاید حضرت یوسف نے اشارہ کیا ہو کہ یہ لوگ چور نہیں ہیں(۲) شاید شخصی داخلہ کے وقت کچھ افراد معین ہوں کہ جو رفت و آمد پر نظر رکھتے ہوں۔ جی ہاں! یقینا باہر سے آنے جانے والے افراد کی نگرانی کرنی چاہیئے خصوصا ًاس وقت جب ملک بحرانی کیفیت میں ہو تو زیادہ گہری نگاہ رکھنی چاہئےے تاکہ آنے والے مسافرین کے اہداف کا علم رہے ۔

پیام:

۱۔ بے داغ ماضی ،بری الذمہ ہونے کی علامت ہے ۔( لَقَدْ عَلِمْتُم)

۲۔ ''چوری'' بھی زمین پر فساد کا ایک مصداق ہے( مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِی الْأَرْضِ وَمَا کُنَّا سَارِقِینَ )

۱۵۴

آیت ۷۴:

(۷۴) قَالُوا فَمَا جَزَهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ

''وہ (ملازمین) بولے کہ اگر تم جھوٹے نکلے تو پھر اس (چور) کی سزا کیا ہونی چاہیئے ''۔

نکات:

جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ سوال تیار کرنے والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں چونکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے بھائی کنعان کے علاقائی قانون اور حضرت یعقوب کے( نظریہ کے )مطابق اپنا نظریہ پیش کریں گے ۔

کیا قاضی کے علم اور ملزم کے قسم کھانے کے باوجود بھی تحقیق کرنا ضروری ہے ؟( تَاﷲِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ)

جواب: جی ہاں ۔ اس کی دلیل جملہ'' فَمَا جَزَهُ إِنْ کُنتُمْ کَاذِبِینَ '' ہے۔

پیام:

۱۔ مجرم کی سزا کو معین کرنے کے لئے اس کے ضمیر سے سوال کیا جائے( فَمَا جَزَهُ...)

۱۵۵

آیت ۷۵:

(۷۵) قَالُوا جَزَهُ مَنْ وُّجِدَ فِی رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَهُ کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ

''وہ (بے دھڑک)بول اٹھے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے بورے میں وہ (پیالہ) پایا جائے تو وہی اس کا بدلہ ہے (تو وہ مال کے بدلے میں غلام بنایا جائے گا)ہم لوگ تو(اپنے یہاں کنعان میں) ظالموں(چوروں) کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں''۔

پیام:

۱۔ بعض گزشتہ اقوام میں چوری کی سزا چور کو غلام بنا لینا تھی(۱) ۔( فَهُوَ جَزَهُ)

۲۔ قانون میں کوئی استثناء اور پارٹی بازی نہیں ہونی چاہیئے ۔ جو بھی چور ہوگا غلامی کی زنجیر اس کے پیروں میں ہوگی۔( مَنْ وُجِدَ فِی رَحْلِهِ)

۳۔ ممکن ہے کہ مجرم کی سزا اس کے علاقے کے قانون کے مطابق ہو ۔ میزبان ملک کے قانون کے مطابق سزا دینا ضروری نہیں ہے۔(کَذَلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ)

۴۔ چوری ، ظلم کا کھلا ہوانمونہ ہے کیونکہ آیت کے آخری حصے میں لفظ ''سارق'' کے بجائے ''ظالم ''استعمال ہوا ہے۔

--------------

(۱) بنابر نقل تفسیر مجمع البیان اس غلامی کی مدت ایک سال تھی.

۱۵۶

آیت ۷۶:

(۷۶) فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِیهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِیهِ کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِکِ إِلاَّ أَنْ یَشَاءَ اﷲُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ

''غرض یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے کھولنے سے پہلے دوسرے بھائیوں کے شلیتوں سے (تلاشی) شروع کی اس کے بعد (آخر میں) اس (پیالے) کو یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتہ سے برآمد کیا ،یوسف کے (بھائی کو روکنے کی) ہم نے یوں تدبیر بتائی ورنہ وہ (بادشاہ مصر کے) قانون کے مطابق اپنے بھائی کو نہیں روک سکتے تھے مگر ہاں جب ہم چاہتے ہیں اس کے درجات بلند کر دیتے ہیں ،اور ہر صاحب علم سے بڑھ کر ایک بہت بڑی دانا ذات (بھی) ہے ''۔

نکات:

چونکہ بنیامین اس واقعہ سے آگاہ تھے لہٰذا تلاشی کے وقت کافی مطمئن تھے ، یہی وجہ ہے کہ اس پورے ماجرے میں کہیں بھی ان کی طرف سے کوئی اعتراض نقل نہیں کیا گیا ہے ۔ علاوہ ازین تاکہ یہ نقشہ کشی مخفی رہ سکے اور بدگمانی کا سبب نہ بنے تلاشی کو دوسرے لوگوں سے شروع کیا گیا یہاں تک کہ بنیامین کی نوبت آگئی اور جب وہ پیمانہ ان کے سامان میں پایا گیا تو اب گزشتہ قراردادکے مطابق ان کا مصر میں رہنا ضروری ہوگیا ۔یہ خدائی تدبیر تھی کیونکہ جناب یوسف علیہ السلام مصری قوانین کے تحت چور کو بعنوان غلام نہیں رکھ سکتے تھے۔

کلمہ''کید'' تمام مقامات پر مذموم معنی میں استعمال نہیں ہواہے بلکہ تدبیر ، چارہ اندیشی اور منصوبہ بندی کے معنی میں بھی مستعمل ہے (کدنا)

۱۵۷

پیام:

۱۔اطلاعات جمع کرنے پر مامور افراد کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے دوسروں کو ان پر شک ہو جائے( فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِهِمْ ) (وہ تلاشی لینے کےلئے سب سے پہلے بنیامین کے پاس نہیں گئے بلکہ تلاشی دوسرں کے سامان سے شروع کی۔)

۲۔ کارکنان کے کاموں کی نسبت مسل کی طرف دی جاتی ہے (فَبَدَ) (برحسب ظاہر حضرت یوسف (ع)نے تلاشی نہیں لی تھی لیکن قرآن فرماتا ہے کہ تلاشی انہوں نے شروع کی تھی۔)

۳۔ فکر و تخلیقی صلاحیت، منصوبہ بندی و چارہ جوئی غیبی امداد سے حاصل ہوتی ہے(کِدْنَ)

۴۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی تدبیریں الہامی تھیں۔(کِدْنَا لِیُوسُفَ)

۵۔ حضرت یوسف (ع)کے پاس بنیامین کا رہنا حضرت یوسف کے لئے فائدہ مند تھا ۔(کَذَلِکَ کِدْنَا لِیُوسُفَ )

۶۔ قانون کااحترام اور اس کی رعایت غیر الٰہی حکومت میں بھی ضروری ہے۔(مَا کَانَ لِیَأْخُذَ أَخَاهُ فِی دِینِ الْمَلِک)

۷۔ معنوی مقامات مختلف درجات اور مراتب کے ایک سلسلہ کے حامل ہیں ۔(نَرْفَعُ دَرَجَات...)

۸۔ علم و آگاہی برتری کا سرمایہ ہے( نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ. وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ)

۹۔ بشری علم محدود ہے(فَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیمٌ)

۱۵۸

آیت ۷۷:

(۷۷) قَالُوا إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ فَأَسَرَّهَا یُوسُفُ فِی نَفْسِهِ وَلَمْ یُبْدِهَالَهُمْ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانًا وَاﷲُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ

''(غرض بنیامین روک لئے گئے )تو یہ کہنے لگے اگر اس نے چوری کی ہے تو (کونسی تعجب کی بات ہے) اس سے پہلے اسکا بھائی (یوسف) چوری کرچکا ہے تو یوسف نے (اس تہمت کا کوئی جواب نہیں دیا اور)اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا اور ان پر ظاہر نہ ہونے دیا (مگر) یہ کہہ دیاکہ تم لوگ برے ہو(نہ کہ ہم دونوں) اور جو (اس کے بھائی کی چوری کا) حال تم بیان کررہے ہو اس سے خدا خوب واقف ہے ''۔

پیام:

۱۔ متہم یا تو انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں چور نہیں ہوں(ما کنا سارقین) یا یہ توجیہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا چوری کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس کا بھائی چوری بھی کر چکا ہے۔( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْل)

۲۔ حسد کا مریض سالہا سال کے بعد بھی چٹکی لینے سے باز نہیں آتا ۔( فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْل)

۳۔ ایک بھائی کا اخلاق دوسرے بھائی پر اثر انداز ہوتاہے( أَخٌ لَهُ) ماں کا کردار بھی بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے (یوسف (ع)اور بنیامین کی ماں ایک تھی)

۱۵۹

۴۔ جہاں محبت اور دل صاف نہ ہو وہاں تہمت بہت جلد لگا دی جاتی ہے ۔(إِنْ یَسْرِقْ فَقَدْ...) (پیمانہ کا بنیامین کے سامان سے باہر نکلنا چوری کی دلیل نہیں ہے، لیکن چونکہ بھائیوں کو بنیامین سے محبت نہ تھی اس لئے ان لوگوں نے چوری کا الزام لگا دیا اور مسئلہ کو تسلیم کرلیا۔)

۵۔ جہاں محبت نہیں ہوتی وہاں جزئی اور چھوٹی سی غلطی کو کلی اور بڑی بھاری خطا شمار کیا جاتاہے (انہوں نے''سرق'' فعل ماضی کے بجائے فعل مضارع''یسرق' 'استعمال کیا یعنی اس کام میں استمرار ہے گویا بنیامین کا روزانہ کاکام یہی تھا)۔

۶۔ ہدف تک پہنچنے کے لئے لعن و طعن کے تیر سہنے پڑتے ہیں ۔( سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ)

۷۔ کچھ لوگ بعض مواقع پر اپنی آبرو بچانے کے لئے دوسرے پر تہمتیں لگاتے ہیں ۔( سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ)

۸۔ جواں مردی اور کشادہ قلبی رمز رہبری ہے۔(أَسَرَّهَا یُوسُفُ)

۹۔ راز کا فاش کرنا ہمیشہ قابل اہمیت و ارزش نہیں ہے ۔(وَلَمْ یُبْدِهَا لَهُمْ)

۱۰۔ ''تحقیر'' نہی از منکر کا ایک طریقہ ہے۔( أَنْتُمْ شَرٌّ مَکَانً)

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

(7)انفاق کرنے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنٰا کُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَأتِی یَوْم لَا بَیع فِیْهِ وَلَا خُلَّة وَلَا شَفَاعَة--- (بقره ٢٥٤)

ترجمہ:

اے ایمان والو جو تمھیں رزق دیا گیاہے، اس میں سے راہ خد میں خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ تجارت ہوگی نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش۔

پیغام:

خدا اور قیامت پر ایمان تمام امور خیریہ من جملہ انفاق کا پیش خیمہ ہے۔

حضرت علی ـسے مروی ہے کہ دنیا دوستان خدا کے لیے تجارت کی جگہ ہے جہاں وہ انفاق اور اعمال خیر کے ذریعہ اپنی آخرت کو آباد کرتے ہیں لیکن دوسرے افراد دنیا کوصرف دنیا کے لیے چاہتے ہیں۔

(8) پرہیز گار

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِصْبِرُوا وَصٰابِروا وَ رَابِطُوا واتَّقُواللّٰهَ لَعَلّکُم تُفْلِحُونَ- (آل عمران ٢٠٠)

۱۸۱

ترجمہ:

اے ایمان والو صبر کرو ، صبر کی تعلیم دو، جہاد کیلئے تیاری کرو اور اللہ سے ڈرو شاید تم فلاح یافتہ اور کامیاب ہوجاؤ۔

پیغام:

امام صادق ـ سے روایت ہے کہ واجبات الٰہی کے پابند رہو، مشکلات کے سامنے صبر واستقامت سے کام لو اور اپنے پیشوا کا دفاع کرو۔

(9)صابر

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا استَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوة انَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ-(بقره ١٥٣)

ترجمہ:

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو کہ خد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

پیغام:

نماز خدا سے رابطہ کا بہترین وسیلہ ہے۔ صبر مشکلات پر قابو پانے کا نام ہے۔ گناہ پر صبر تقوے الٰہی ہے ، شہوت پر صبر پاکدامنی ہے، مصیبت پر صبر اطمینان اور سکون پر دلیل ہے، خدا صابرین کے ساتھ ہے خدا نیک افراد کے ساتھ ہے، خدا صاحبان تقویٰ کے ساتھ ہے، یعنی اُن سے خاص محبت کرتاہے۔

۱۸۲

(10)عدالت خواہاں

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا کُونُوا قَوَامِیْنَ بِالقِسْط شُهدائَ لِلّٰهِ وََلَوْ علی أَنْفسِکُمْ أَوِالْوٰالِدَیْن وَالْأَقْرَبِیْنَ اَن یّکُن غَنَیًّا أَوْ فَقِیرًا فَاللّٰهِ اوُلٰی بِهِمٰا- (نساء ١٣٥)

ترجمہ:

اے ایمان والو! عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کے لیے گواہ بنو چاہے اپنی ذات یا اپنے والدین اور اقربا ہی کی خلاف کیوں نہ ہو جس کے لیے گواہی دینا ہے وہ غنی ہو یا فقیرخدا تو (تمھارے ساتھ) ان پر زیادہ مہربان ہے۔

پیغام:

انسان کو ہمیشہ اپنی ذات اور اپنے عزیز و اقارب کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے، زندگی کے ہر شعبہ میں عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے ، انبیاء کرام کے آنے کا مقصد عدل و انصاف کو معاشرہ میں قائم کرنا تھا، سورہ مائدہ کی آٹھویں آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دشمن کے بارے میں بھی عدل و انصاف سے کام لینا چاہیے۔

امام علی ـ سے منقول ہے کہ خداوندعالم نے زمین و آسمان کو پایہ عدالت پر استوار کیا ہے۔

۱۸۳

(11) یاد رکھنے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اذکُروا نِعْمَة اللّٰهَ عَلَیْکُمْ اِذ جٰا ئَ تْکُمُ جُنُود فَأَرْسَلْنٰا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَ جُنُودًا لَمْ تَروهٰا وَکَاْنَ اللّٰهُ بِمٰا تَعْمَلُونَ بَصِیْرا - (احزاب ٩)

ترجمہ:

اے ایمان والو! اللہ کی اُس نعمت کو یاد کرو جب کفر کے لشکر تمھارے سامنے آگئے اور ہم نے ان کے خلاف تمھاری مدد کے لیے تیز ہوا اور ایسے لشکر بھیج دیئے جن کو تم نے دیکھا بھی نہیں تھا اور اللہ تمھارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

پیغام:

یہ آیت جنگ احزاب (جنگ خندق 5 ہجری) میں نازل ہوئی، یہ قانون الٰہی ہے کہ اگر ہم خدا کا ساتھ دیں تو وہ بھی ہماری نصرت و امداد کریگا، خدا کی ایک عظیم نعمت یہ ہے کہ اُس نے ہمیشہ اسلام اور اُمت مسلمہ کی حمایت کی ہے۔

(12)خبر فاسق کی تحقیق

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِنْ جٰاء کُمْ فٰاسِق بِنَبَائٍ فَتَبَیِّنُوا أَنْ تُصِیْبُوا قَوْمًا بِجَهٰالَةٍ فَتُصْبَحُوا عَلٰی فَعَلْتُمْ نٰادِمِیْنَ- (حجرات ٦)

۱۸۴

ترجمہ:

ایمان والو اگر فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے۔

پیغام:

جو شخص خدا کا مطیع و فرمانبردار نہ ہو وہ فاسق ہے، خدا کے اس دستور کی اہمیت کا اندازہ آج کے دور میں زیادہ سے زیادہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ زیادہ تر نشر واشاعت اور روابط کے امور کی انجام دہی مستکبرین اور منافقین کے ہاتھ میں ہی ہے۔

(13) مذاق نہ اڑانے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَوْم مِنْ قومً--- وَلَا تَنَابَروا بَالْأَلْقٰابِ---(حجرات ١١)

ترجمہ:

ایمان والو خبردار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑاے۔۔۔ اور آپس میں ایک دوسرے کو برے برے القاب سے بھی یاد نہ کرنا۔

پیغام:

قرآن کی بہت سی آیات معاشرتی آداب کو بیان کرتی ہیں، خداوند عالم چاہتا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں اتحاد اور پیار ومحبت سے زندگی گزاریں، اس آیت میں اور اسی طرح دوسری آیات میں ان عوامل اور اسباب سے جو تفرقہ اور جدائی کا باعث بنتے ہیں ، روکا ہے۔

۱۸۵

(14) اپنا محاسبہ کرنے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اتقواللّٰهَ وَلِتُنظُر نَفس ما قَدَّمَت لِغَدٍ وَاتَّقوا للّٰهُ خَبِیْر بِمٰا تَعْمَلُوْن-(حشر ١٨)

ترجمہ:

ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ یقینا تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔

پیغام:

تقوے کے دومرحلے ہیں، پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان نیک کام انجام دے اور بُرے کاموں سے پرہیز کرے، اور دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انجام شدہ کاموں پر تجدید نظر کرے۔

(15) مغضوب سے دوستی نہ کرنا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا لَا تَتَولَّوا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ قَدْ یَئِسوا مِنَ الاٰخِرَةِ کَمٰا یَئِسَ الکُفَّارُ مِنَ أَصْحٰابِ القُبُور- (ممتحنه ١٣)

۱۸۶

ترجمہ:

ایمان والو خبردار اُس قوم سے ہرگز دوستی نہ کرنا جس پر خدا نے غضب نازل کیا ہے کہ وہ آخرت سے اسی طرح مایوس ہونگے جس طرح کفار قبر والوں سے مایوس ہوجاتے ہیں۔

پیغام:

جو لوگ روز آخرت پر یقین نہیں رکھتے اُن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے۔

پیغمبر اسلام (ص)سے منقول ہے جو شخص کسی قوم کی شبیہ بن جائے اس کا طور طریقہ اور چال چلن اپنالے تو اُسی قوم میں شمار کیا جائے گا۔

ہر قوم و ملت سے دوستی کے چند مرحلے ہیں:

اپنی جان اور مال سے ان کی مدد کرنا، ان کی روز بروز ترقی کا طلب گار ہونا، ان کی عادات کی پیروی کرنا۔

(16) جو کہو اُس پر عمل کرو

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مٰا لَا تَفْعَلُونَ - کَبُرَ مقتًا عِنْداللّٰهِ ان تَقُولُوا مٰا لَا تَفْعَلُونْ-(صف ٢،٣)

ترجمہ:

ایمان والو آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے، اللہ کے نزدیک یہ سخت ناراضگی کا سبب ہے کہ تم وہ کہو جس پر عمل نہیں کرتے ہو۔

۱۸۷

پیغام:

خدا اُس سے ناراض ہوتا ہے جس کے قول اور فعل میں تضاد ہو۔

رسالت مآب (ص) سے منقول ہے کہ ایمان محض دعوے اور آرزو کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ایمان یہ ہے کہ دل میں خالص موجود ہو اور عمل اُس کی تائید کرے۔

امام صادق ـ سے مروی ہے کہ حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان حق کو جو ظاہری طور پر اس کے لیے نقصان دہ ہے اُس باطل پر ترجیح دے جو ظاہری طور پر اس کے لیے سود مند ہے۔

(17) متقی اور مجاہد

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا هَلْ أَدُّلْکُمْ عَلٰی تجارةٍ تُنْجِیْکُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِیْم تومنون باللّه وَ رَسُوْلِهِ وَتُجٰاهِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِأَمْوالِ کُمْ وَ أَنْفُسِکُمْ ذٰالِکُمْ خَیْر لَکُمْ اِنْ کُنْتُم تَعْلَمُونَ-(صف ١٠،١١)

ترجمہ:

اے ایمان والو کیا میں تمھیں ایک ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچالے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے جہاد کرو یہی تمھارے حق میں سب سے بہتر ہے اگر تم جاننے والے ہو۔

پیغام:

ہر معاملہ میں نفع اور نقصان کا احتمال ہوتا ہے ، لیکن اگر خدا سے معاملہ کیا جائے تو صرف نفع ہی نفع ہے، اور نفع بھی ایسا جو خدا کے مقام و منصب کے مناسب ہو۔

۱۸۸

(18)ذکر خدا میں تعجیل

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِذَا نُودیَ لِلصَّلوٰةِ مِنْ یَوْمِ الجُمْعَةِ فَاسْعُوا اِلٰی ذِکْرِاللّٰهِ ----(جمعه ٩)

ترجمہ:

اے ایمان والو جب تمھیں جمعہ کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو ذکر خدا کی طرف دوڑو۔۔۔

پیغام:

پیغمبر اسلام (ص) سے منقول ہے کہ نماز جمعہ فقراء و مساکین کے لیے حج ہے۔

ایک اور روایت میں آنحضرت (ص) سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص جمعہ کے دن نماز جمعہ بجالاتا ہے تو اُسے خدا کی بارگاہ سے قبول شدہ حج کا ثواب ملتا ہے اورجب نماز عصر بجالاتا ہے تو پھر عمرہ کا ثواب ملتاہے۔

(19)دشمن خدا سے بیزار

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا لَا تَتَّخِذوا عَدُّوِی وعَدُّوُکُمْ أَوْلِیٰائَ تُلْقُونَ اِلَیْهِمْ بِالمَودَّةِ و قَدْ کَفَروا بِمٰا جَائَ کُمْ مِنَ الحَقَّ--- (ممتحنه ١٠)

۱۸۹

ترجمہ:

ایمان والو خبردار میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جبکہ انھوں نے اس حق کا انکار کردیا ہے جو تمہارے پاس آچکا ہے۔

پیغام:

جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے وہ کفّار کے سامنے ذلت کو برداشت نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ خدا اور رسول کے دشمن مومن سے دشمنی رکھتے ہیں۔

اسلام میں دشمن شناسی ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

طاغوتی طاقتیں مختلف حربوں کے ذریعہ اپنے آپ کو حقوق بشر، آزادی اور امن وامنیت کا علمبردار کہہ کر اپنے ناپاک جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔

(20)خدا کا مددگار

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا اِن تَنْصُرو اللّٰهَ یَنْصُرْکُمْ ویُثبِّتْ أَقْدَامَکُمْ- وَالَّذِیْنَ کَفَرُوا فَتَعساً لَّهُمْ وَ أَضَل أَعْمٰالَهُمْ- (محمد ٧،٨)

ترجمہ:

ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو اللہ بھی تمھاری مدد کرے گا ، اور تمھیں ثابت قدم بنادے گا، اور جن لوگوں کفر اختیار کیا ان کے واسطے ڈگمگاہٹ ہے اور ان کے اعمال برباد ہیں۔

۱۹۰

پیغام:

جو لوگ کفر اختیار کرتے ہیں وہ لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں اور ان کے اعمال تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ، اس میں کوئی شخص نہیں ہے کہ خدا نے صاحبان ایمان سے نصرت کا وعدہ کیا ہے اور ان کی مدد بھی کرتا ہے، لیکن یہ سب اس بات پر مشروط ہے کہ بندہ خدا کی مدد کرے، تو خدا بھی بندے کی مدد کریگا، بندہ خدا کا ذکر کرے تو خدا بھی بندے کا ذکر کرے گا، بندہ خدا کا شکر کرے تو خدا نعمتوں میں اضافہ کرے گا۔

حق کو نابود کرنے کے لیے کفار کی کوششوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی چاہے کہ اپنے منہ سے نور خورشید کو بجھادے۔

(21)توبہ کرنے والا

یٰاایّها الَّذِیْنَ أَمَنُوا تُوبُوا اِلٰی اللّٰهِ تَوْبَةً نَصُوحًا----(تحریم ٨)

ترجمہ:

ایمان والو خلوص دل کے ساتھ توبہ کرو۔

پیغام:

امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے : توبہ نصوح سے مراد ہے کہ دل بھی اُسی طرح توبہ کرے جیسے اس کا ظاہر توبہ کررہا ہے۔ رسالت مآب (ص) سے روایت ہے کہ توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اُس نے گناہ ہی نہیں کیا۔

ایک اور مقام پر پیغمبر اسلام (ص)سے مروی ہے کہ خدا کے نزدیک محبوب ترین شخص توبہ کرنے والا مرد یا عورت ہے۔

تمّت بالخیر۔ نسیم حیدر زیدی

1427 ھ ق

۱۹۱

فہرست

آغازسخن 3

پہلی فصل(قرآن) 4

(ا) قرآن کا مثل نہیں لاسکتے 5

خالق اور مخلوق کا کیا مقابلہ۔ 5

(2) دس سورے لے آؤ 5

(3) ایک سورہ لے آؤ 6

(4) تد بّر کرو 7

(5) تلاوت سے پہلے 7

(6) غور سے سنو 8

(7) مجسمہ ہدایت 9

(8) نور کی طرف دعوت 9

(9) قرآن کی عظمت 10

(10) قرآن کی تلاوت 11

(11) پیغمبر اسلام کی فریاد 11

(12) کمالِ رحمت 12

(13) پہاڑ کا ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا 13

(14) قرآن کی دلوں پر تأثیر 13

(15) کفار کی بہانہ جوئی 14

(16) حفاظت الٰھی 15

(17) بابرکت کتاب 15

۱۹۲

(18) حجاب 16

(19)رحمت اور بشارت 17

(20) صاحبان تقویٰ کیلئے ہدایت 17

(21) تصدیق کرنے والی 18

دوسری فصل(اہل بیت(علیھم السلام) 19

(1) ریسمان الٰہی 20

(2) کمال د ین اور اتمام نعمت 20

(3) ولایت 21

(4) تکمیل رسالت 22

(5) صادقین 23

(6) ایثار کا نمونہ 24

(7) برائی سے دوری 24

(8) خوشنودی خدا 25

(9) انفاق 26

(10) پیغمبر(ص) کے مددگار 27

(11) اطاعت 27

(12) مودَّت اہل بیت 28

(13) بہترین خلائق 29

(14) محبوب خدا 29

(15) علم و حکمت کے پیکر اتم 30

(16) خیر کثیر 31

۱۹۳

(17) ھادی 31

(18) صراط مستقیم 32

(19) حقِ طہارت 33

(20) نور الھی 34

(21)جناب ابراہیم امیر المومنین کے شیعہ 35

تیسری فصل(امام زمان عج) 36

(1) مومنین کی خوشی اور مسر ت کا دن 37

(2) امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھی 37

(3) آئمہ کی معرفت 38

(4) حق کی کامیابی کا دن 39

(5) دین حق 39

(6) اہل زمین کا دوبارہ زندہ ہونا 40

(7) نورِ الٰہی 40

(8) امام زمانہ علیہ السلام 41

(9)اللّٰہ کا گروہ 42

(10) پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین 42

(11) کافروں کی سزا 43

(12) أَولیٰاء خدا 44

(13) وعدہ الٰہی 44

(14) ظالموں کا انجام 45

(15) زمین کے وارث 46

۱۹۴

(16) لوگوں کے پیشوا 46

(17) نماز کا قیام 47

(18)ذخیرہ الٰہی 48

(19) صالحین کی حکومت 48

(20)امام برحق 49

(21) زمین کا جگمگانا 50

چوتھی فصل(دعا) 51

(1) د نیا اور آخرت میں سعادت کی دعا 52

(2) اپنے اور اپنی اولاد کے حق میں دعا 52

(3) ثابت قدمی کے لئے دعا 53

(4)توبہ کیلئے دعا 54

(5) مومنین کی بخشش کیلئے دعا 55

(6) ہر کام کی اچھی ابتداء اور انتہا کے لئے دعا 56

(7) کافروں پر کامیابی کے لئے دعا 56

(8) صبر و استقامت کیلئے دعا 57

(9) متقیوں اور پرہیز گاروں کے پیشوا ہونے کی دعا 58

(10) طلب رحمت کے لئے دعا 59

(11) مغفرت کیلئے دعا 59

(12) نور ہدایت کی تکمیل کیلئے دعا 60

(13) صبر و تحمل کیلئے دعا 61

(14) ظالموں سے بیزاری کیلئے دعا 62

۱۹۵

(15)شرح صدر کے لئے دعا 62

(16) شکر گذاری کیلئے دعا 63

(17) فرزند صالح کے لئے دعا 64

(18) مومنین کے لئے طلب رحمت کی دعا 65

(19) ثابت قدمی اور کفار پر کامیابی کی دعا 65

(20) صالحین کے ساتھ ملحق ہونے کی دعا 66

(21) نیک افراد کے ساتھ محشور ہونے کی دعا 67

پانچویں فصل(علم) 68

(1) قلم علامت علم 69

(2) تربیت اور تعلیم 69

(3) وہ علم جس کے انبیاء معلم ہیں 70

(4)اسماء حسنی کی تعلیم 71

(5) باعث افتخار 71

(6) ثمر علم 72

(7) قدرت علم 73

(8) مقام و منصب کی شرط 73

(9) وسیلہ امتحان 74

(10) کمال سے روکنے والا 75

(11)ذرائع علم 75

(12) صاحبان علم ہی صاحبا عقل ہیں 76

(13) نقصان دہ علم 77

۱۹۶

(14) سؤال 78

(15) راسخون فی العلم 78

(16) جاننے والے اور نہ جاننے والے 79

(17) عالم بے عمل 80

(18) علم و قدرت خدمت انسان میں 81

(19) معلم بزرگ 81

(20) علم اور تقویٰ 82

(21)خیر فراوان 83

چھٹی فصل(اسرار کائنات) 84

(1) خاک سے پیدائش 85

(2) جَنِین کے مراحل 85

(3) تاریکی میں خلقت 86

(4) بڑھاپا 87

(5) کشش ثِقل 88

(6) زمین کی گردش 89

(7) وسعت آسمان 89

(8) سیاروں کی خلقت 90

(9)سبز درخت سے آگ 91

(10) پہاڑوں کی حرکت 91

(11) پہاڑ 92

(12) ہر چیز کا جوڑا 93

۱۹۷

(13) ستون آسمان 93

(14) گول زمین 94

(15) پانی سے خلقت 95

(16) درختوں میں نظام زوجیّت 95

(17) سورج کی گردش 96

(18)حیوانات کی گفتگو 97

(19) زمیں کے اردگرد کی فضائ 97

(20) پودوں میں عمل لقاح 98

(21) سورج کا تاریک ہونا 99

ساتویں فصل(غور وفکر) 100

(1) بہترین انتخاب 101

(2) صاحبان علم اور صاحبان عقل 102

(3) کم عقل لوگ خدا کے نزدیک 102

(4)صاحبان معرفت 103

(5) غورو فکر کی دعوت 104

(6) غور و فکر کا مقام (1) 104

(7)غور و فکر کا مقام (2) 105

(8) غور و فکر کا مقام (3) 106

(9) غور و فکر کا مقام (4) 106

(10) غور و فکر کا مقام (5) 107

(11) غور و فکر کا مقام (6) 108

۱۹۸

(12)غور و فکر کا مقام (7) 108

(13) کم عقل لوگ حق کے دشمن 109

(14) دشمنان حق کا سر انجام 110

(15)کم عقلی پلیدگی و گندگی ہے 110

(16) کم عقلی کا نتیجہ 111

(17) کیا صاحبان عقل اور کم عقل مساوی ہیں 112

(18) معرفت اور آگاہی کے ساتھ 112

(19) وسوسہ شیطان 113

(20)میدان عمل 114

(21) کافروں کی کم عقلی 114

آٹھویں فصل(انسان) 116

(1) بہترین ساخت 117

(2)خود آگاہ 117

(3) خود فریبی 118

(4) آزاد 119

(5) فرشتوں کے مقابل 119

(6) خبردار 120

(7) نقطہ ضعف کامل 121

(8) امتحان 121

(9) مورد تنقید 122

(10) زندگی کے مراحل 123

۱۹۹

(11) اختیار 124

(12) انسان کا سوال 124

(13) غلط سوچ 125

(14) جانشین 125

(15)شیطان انسان کا دشمن 126

(16) امانت دار 127

(17) انسان ہوشیار ہوجاؤ 127

(18) کائنات انسان کے لیے 128

(19) تلاش و کوشش کا ہدف 129

(20) خطرہ سے ہوشیار 129

(21)نا شکری 130

نویں فصل(عورت) 131

(1) معنوی مساوات 132

(2) خلقت میں مساوات 132

(3) دورِ جاہلیت میں۔ 133

(4) معاشرتی مسائل میں 134

(5) حجاب میں 134

(6) مورد خطاب 135

(7) کافروں کے لئے مثال 136

(8) نمونہ عمل 137

(9) صاحبان ایمان کے لیے مثال 137

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246