یوسف قرآن

یوسف قرآن 30%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174813 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کی ہے ایسی خالص عبادت، عشق محبوب سے مکمل لبریز ہے اور اس محبت کا اثر خدا کی جانب پیش قدمی کا بہت اہم سبب ہے، کمال مطلق کی جانب پیش قدمی گناہو ں اور تمام آلودگیو ں سے کنارہ کشی کا پیش خیمہ ہے ۔

حقیقی عبادت گذار اس بات کی سعی پیہم کرتا ہے کہ خود کو محبوب کے جیسا قراردے اور ا سی طرح سے خود کو صفات جمال و جلا ل الٰہیہ کا پر توقرار دیتا ہے اور یہ امور انسان کے تربیت وتکامل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

سوالات

۱۔خدا کی وحدانیت پر دلیل پیش کریں ؟

۲۔ مراتب توحید کیا ہیں ؟

۳۔ توحید افعال سے مراد کیاہے ؟

۴۔ توحید در عبادت کی وضاحت کیجئے ؟

۶۱

آٹھواں سبق

صفات خدا (فصل اول )

جس طرح سے شناخت خدا وندمتعال اور اس کے اصل وجو د کو جا ننا آسان ہے اسی طرح اس کے صفات سے آگاہی چنداں آسان نہیں ہے .کیونکہ خد اکی شنا خت کے لئے آسمان کے ستارے، درختوں کے پتے ،متنوع برگ وگیاہ ، جاندار اشیاء بلکہ ایٹمی ذرات کی تعداد یہ سب اس کے وجود پر دلیل ہیں یہ سب کے سب اس کے عظمت کی نشانیاں ہیں، لیکن اس کی صفات کی پہچان کے لئے غوروخو ض او ر دقت نظر کی ضرورت ہے تاکہ تشبیہ اور قیا س آرائی سے دور رہیں صفات خدا کی شناخت کی پہلی شرط ،صفات مخلو قات کی خدا سے نفی کرنا او رخدا کاکسی مخلوق سے تشبیہ نہ دینا ہے کیو نکہ خدا کی کسی صفت کا مخلوقات کی صفت سے کسی طرح موازنہ ہو ہی نہیں سکتا ،مادی صفات میں سے کو ئی صفت اس کی پاک ذات میں دخیل نہیں ہے کیو نکہ مادی صفت محدودیت کا سبب ہے اور وہ لا محدود ہے اور تمام مراتب کمال کا مجموعہ ہے لہٰذا ہم اس کی ذات کوکماحقہ درک نہیں کر سکتے اور اس طرح کی کو ئی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے ۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ عقل، خد اکی حقیقت ذات اور اس کے صفات کو کیوں نہیں درک کر سکتی ؟ تو اس کاجواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس ہررخ سے بے نظیر و لا محدود ہے ،علم ،قدرت اور اس کے تمام صفات اس کی ذات کی طرح لا محدود ہیں ، اور دوسری طرف ہم او رجو کچھ ہم سے مربوط ہے ، علم ،قدرت ،حیات ،فرمان ،مکا ن، سب محدود ومتناہی ہے ۔تو ان تمام تر محدودیت کے ساتھ اس کی حقیقت ذات کو کہ جولامحدود ہے کیسے درک کر سکتے ہیں ؟!اس کی حقیقت ذات کو آخر کیسے درک کریں جس کی کو ئی شبیہ ومثیل نہیں ؟۔

۶۲

صفات ثبوتیہ و سلبیہ :

صفات خدا کو دو قسموںمیں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ثبوتیہ و سلبیہ

صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

''عالم ،قادر ، حی، مرید ، مدرک ، سمیع ، بصیر ، متکلم و صادق ''۔خدا وند کمال مطلق ہے جو کچھ صفات ثبوتیہ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے وہ اصول صفات ہیں نہ یہ کہ خدا ان میں منحصر و محدود ہے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ

''وہ مرکب ومجسم نہیں ، قابل دید و محلول نہیں ،اس کا کوئی شریک نہیں ''

صفات ذات و صفات فعل

صفات ثبوتیہ کی دوقسمیں ہیں ۔ صفات ذات و صفات فعل

صفات ذات: جو اس کی عین ذات ہیں انہیں کو ذات خدا وندی سے جدا نہیں کرسکتے جیسے علم ،قدرت،حیات ،اور جن کی بھی ان تینوں صفات کی طرف بازگشت ہو جیسے سمیع ، بصیر، قدیم، ازلی، ابدی، مدرک، حکیم، غنی، کریم ،عزیز و غیرہ ۔

صفات فعل : وہ صفات جو افعال خدا وندسے متعلق ہیں یعنی جب تک وہ افعال اس سے صادر نہ ہو ں وہ صفات اس سے متصف نہیں ہو ںگے جیسے خالق رازق یااس کے ماننددوسرے صفات اور کبھی اس سے یہ صفات سلب بھی ہو جا تے ہیں جیسے''کان اللّٰهُ ولمْ یُخلق شیئاً ثُم خَلَق ۔أراد اللّه شیئاً ولم یرد شیئاً آخر شاء ولم یشائ''وه خدا تھا جس نے خلق نہیں کیا تھا پھراس نے خلق کیا، خدا نے ایک چیز کا ارادہ، کیا دوسری چیز کا ارادہ نہیں کیا ، چاہا اور نہیں چاہا ۔''تکلم مع موسیٰ ولم یتکلم مع فرعون یُحب مَن أطاعہُ ولا یُحب مَنْ عصاہ'' حضرت موسی سے ہم کلام ہوا فرعون سے کلام نہیںکیا ،جو اس کی اطاعت کرتا ہے اس کو دوست رکھتا ہے اور جو اس کی نا فرمانی کرتاہے اس کو دوست نہیں رکھتا ، اس کے صفات فعل میں ''اذا '' اور ''اِن'' کا لفظ داخل و شامل ہو تا ہے جیسے '' اِذا أراد شیئاً و اِن شائَ اللّه'' اس کی صفات ذات میں ''اِذا عَلِم اللّه ''اور''اِن عَلِم ''نہیں کہہ سکتے۔

۶۳

علم خداوند

وہ واجب الوجود جو عالم علم کل ہے اس کی حیرت انگیز نظم و ہماہنگی پوری کائنات پر محیط ہے ،جو اس کے لا متناہی علم کا بیّن ثبوت ہے اس کے علم کے لئے ماضی حال ،مستقبل سب برابر ہے ، اس کا علم ازل و ابد پر محیط ہے کروڑوں سال قبل و بعد کاعلم اس کے نزدیک آج کے علم کے برابر ہے جس طرح سے کل کا ئنا ت کا خالق ہے اسی طرح تمام ذرات کی تعداد اور ان کے اسرار مکنونہ کا مکمل عالم ہے انسان کے نیک و بد اعمال نیز ان کی نیات ومقاصد سے آگا ہ و باخبر ہے ،علم خداوند اس کی عین ذات ہے اور اس کی ذات سے جدا نہیں ۔

( وَ اعلموا أَنَّ اللّهَ بِکلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) جان لو کہ خد اہر شی ٔسے آگا ہ ہے۔( وَهَوَ اللّهُ فیِ السَّمٰواتِ وَ فیِ الأَرضِ یَعلَمُ سرَّکُم وَجَهَرَکُم وَ یَعلمُ ما تََکسِبُونَ ) ( ۲ ) ''وہ خد اوہ ہے جو زمینو ں و آسمانو ں میں تمہارے ظاہر و باطن کا عالم ہے او رجو کچھ تم انجام دیتے ہو اس کا عالم ہے'' ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة ۲۳۱

(۲)سورہ انعام آیة ،۳

۶۴

سوالات

۱۔عقل، خد اکی حقیقت ذات اور ا س کے صفات تک کیو ں نہیں پہنچ سکتی ؟

۲۔صفات ثبوتیہ وصفات سلبیہ کی تعریف کریں ؟

۳۔ صفات ذات و صفا ت فعل میں کیافرق ہے ؟

۶۵

نواں سبق

صفات خدا وند (فصل دوم )

خد اوند متعال بے پنا ہ قوتوں کامالک ہے اتنی بڑی کا ئنا ت اپنی تمام عظمتوں او روسعتوں کے ساتھ سیارات وکواکب ،کہکشائیں، بے کراں سمندر ، دریا اور ان میں مختلف النوع مخلو قات و موجودات سب کے سب اس کی قدرتوں کے کرشمہ ہیں ! خدا ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شی ٔپر اس کی قدرت یکساں و مساوی ہے۔

( تَبَارَک الّذیِ بِیَدِهِ المُلک وَهُوعلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں کا ئنا ت کی باگ ڈور ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے'' ۔

( لِلّه مُلک السَّمٰواتِ والأَرضِ وَماَ فِیهنَّ وَ هُو علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۲ ) ''زمین وآسمان اورجوکچھ اس کے درمیان ہے ان سب کی حکومت خدا سے مخصوص ہے او روہ ہرچیز پرقادر ہے'' ۔

( فلَا أُقسِمُ بِربِّ المَشَارقِ وَالمَغَاربِ اِنَّا لَقَادِرُونَ ) ( ۳ ) میں

____________________

(۱) سورہ ملک آیة ۱

(۲) مائدہ آیة ۱۲۰

(۳) معارج آیة ۴۰

۶۶

تمام مشرق و مغرب کے پروردگا ر کی قسم کھا کر کہتا ہو ں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں۔

قران کی متعدد آیات جوقدرت خداوندعالم کو بیا ن کرتی ہیں اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قدرت خد الئے کو ئی حدو قید نہیں ہے بلکہ جس وقت وہ چاہے انجام دے دیتا ہے او رجب کسی چیز کی نا بودی کا ارادہ کرے تواس چیز کومٹ ہی جا نا ہے ۔

خلا صہ یہ کہ کسی قسم کی ناتوانی او رضعف کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔آسمان، عظیم ترین سیارات اور ذرات سب اس کے لئے یکساںاور برابر ہیں ۔

عن علیٍّ علیه السلام :وما الجلیل واللطیف والثقیل والخفیف والقوی والضعیف من خلقه اِلّا سواء

امیر المومنین فرماتے ہیں:'' آشکا ر وپوشیدہ، وزنی او ر ہلکا ،قوی وضعیف یہ سب کے سب خلقت میں اس کے نزدیک برابر ہیں''( ۱ )

امام جعفر صادق نے فرمایا : جس وقت حضرت موسیٰ طور پر تشریف لے گئے عرض کی ! خدا یا ! اپنے خزانے کا نظارہ کرادے تو خدا نے فرمایا : میراخزانہ یوں ہے کہ جس وقت میں کسی چیز کا ارادہ کرکے کسی چیز کو کہو ںکہ ہو جا تو وہ وجو د میں آجائے گی( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۷

قدرت خداکے متعلق ایک سوال

کبھی کبھی یہ سوال اٹھا یا جا تا ہے کہ کیا خدا اپنا جیسا ایک خدا پیدا کرسکتا ہے؟

اگر یہ جواب دیا جا ئے کہ کیو ں نہیں ؟تو دو خداہو جا ئیں گے ! اوراگر کہا جائے کہ نہیں کرسکتا تو ایسی صورت میں قدرت خدا محدود ہو جا ئے گی ۔ یا یہ کہ کیا خدا اتنی بڑی کائنات کو ایک مرغی کے انڈے کے اندر دنیا کو چھوٹی اور انڈے کو بڑ ا کئے بغیر سمو سکتاہے۔؟

اس کے جو اب میں یہ کہا جا ئے گا کہ ایسے مواقع کے لئے (نہیں ہو سکتا ) یا (نہیں کرسکتا ) کی لفظیں استعمال نہیں کریں گے ،یا واضح لفظوں میں یہ کہا جا ئے کہ یہ سوال ہی نامعقول ہے کیو نکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ کیا خدا اپنے جیسا دوسرا بنا سکتا ہے تو خود لفظ (خلقت) کے یہ معنی ہیں کہ وہ شیء ممکن الوجود و مخلو ق ہے اور جب ہم یہ کہیں گے (خدا وند ) کے معنی وہ شی ٔہے جو واجب الوجود ہے ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کیا خدا اس با ت پر قادر ہے کہ ایسی چیز کو خلق کرے جو ایک ہی وقت میں واجب الوجو د بھی ہو اور نہ بھی ہو، ممکن الوجود بھی ہو اور غیر ممکن الوجود بھی ، خالق بھی ہو اور مخلوق بھی یہ سوال غلط ہے خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی طرح سے جب یہ کہا جا ئے کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ کل کا ئنا ت کو ایک مرغی کے انڈے میں سمودے اس طرح سے کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا تو اس کے معنی یہ ہو ئے کہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ بڑی بھی ہے اور چھوٹی بھی اس سوال کے بے تکے ہو نے کی وجہ سے جواب کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیو نکہ محال سے قدرت کا تعلق خود محال ہے ۔

اسی سوال کو ایک شخص نے حضرت امیرںسے پوچھا تھا آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۸

اِنَّ اللّه تبارک وتعالیٰ لا ینسب اِلیٰ العجز والّذیِ سألتنیِ لا یکون ''خدا کی جا نب عجز و ناتوانی کی نسبت نہیں دی جاسکتی ؛لیکن تم نے جو سوال کیا وہ انہونی ہے''( ۱ )

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاںنے ( اس سوال کے جو اب میں ) فرمایا : ہا ں کیو ں نہیں انڈے سے بھی چھوٹی چیزمیں اس دنیا کو رکھ سکتا ہے خدا اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کو تمہاری آنکھ کے اندر رکھ دے جو انڈے سے بھی چھوٹی ہے (در حقیقت یہ جو اب مولا کا نقضی جو اب تھا کیو نکہ سوال کرنے والا ایسے مسائل کے تحلیل کی طاقت نہیں رکھتا تھا)۔( ۲ )

خدا حی وقیوم ہے

خدا حیات جاوداں کا مالک ہے وہ ثابت و قائم ہے وہ اپنی ذات پر قائم ہے دوسری موجودات اس کی وجہ سے قائم ہیں حیات خدا اور حیات موجو دات میں فرق ہے کیو نکہ حیات ،خد اکی عین ذات ہے نہ عارضی ہے اور نہ ہی وقتی ۔

حیات خدا یعنی اس کا علم او راس کی قدرت ،خدا کی حیات ذاتی ،ازلی ،ابدی، نہ بدلنے والی اور ہر طرح کی محدودیت سے خالی ہے وہ قیوم ہے یعنی موجودات کے مختلف امو ر اس کے ہاتھ میں ہیں مخلوقات کی رزق ،عمر ،حیات اور موت اس کے حسن تدبیر کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) توحید صدوق باب ۹ ، حدیث ۹

(۲)پیام قرآن ج ۴، ص ۱۸۳

۶۹

اسی لئے یا حی یا قیوم جا مع اذکا رمیں سے ایک ہے اس لئے کہ (حی) اس کے بہترین صفات ذات یعنی علم وقدرت میں سے ہے اور (قیوم ) اس کے صفات فعل میں سے ہے اس وجہ سے امیر المومنین سے نے ارشاد فرمایا :فلسنا نعلمُ کُنه عظمتک ِالَّا انَّا نعلم اِنَّک حیّ قیُّوم لا تاخذ ک سِنةُ ولا نوم ( ۱ )

''ہم کبھی تیری حقیقت ذات کو درک نہیں کر سکتے ہم بس اتنا جا نتے ہیں کہ حی و قیوم ہے اور کبھی بھی تجھے نینداور جھپکی نہیں آتی (اپنے بندوں کے حال سے بے خبر نہیں ہے )''

امیر المو منین سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ سجدے میں سر رکھ کر ''یا حی یا قیوم '' کا ورد کر رہے ہیں کئی دفعہ گیا اور واپس آگیا آپ مستقل اسی ذکر کا ورد فرمارہے تھے یہا ں تک جنگ بدر فتح ہو گئی ۔( ۲ )

جو کچھ اب تک ذکر کیا گیا ہے وہ صفات خد ا کے اصول تھے اور دوسری صفات بھی ہیں کہ جن کے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا جائے گا ۔

قدیم و ابدی : یعنی ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا اس کے لئے آغاز و انتہا نہیں ہے( هُوَ الأَوّلُ و الآخِرُ والظَّاهرُ والباطِنُ وَ هُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۳ ) ''وہ اول و آخر ہے وہ ظاہر و باطن ہے وہ ہرشی ٔکا جاننے والا ہے ''۔

____________________

(۱) نہج البلا غہ خ ،۱۶۰

(۲) تفسیر روح البیا ن آیہ الکرسی کے بیان میں۔

(۳) حدید آیة،۳

۷۰

مرید : یعنی وہ صاحب ارادہ ہے وہ اپنے کاموں میں مجبو ر نہیں ہے وہ جس کام کو بھی انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور اس کی حکمت پیش نظر ہو تی ہے (وہ حکیم ہے )

مدرک : ساری چیزوں کو درک کرتا ہے .ساری چیزوں کو دیکھتا ہے او رہر آواز کو سنتا ہے۔ ( وہ سمیع و بصیر ہے )

متکلم : خدا ہو ائوں میں آواز پیدا کر سکتا ہے وہ اپنے رسولوں سے گفتگو کرتا ہے اس کی گفتگو زبا ن و لب و حلق کی محتا ج نہیں ۔

صادق : یعنی خدا جوکچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اور عین حقیقت ہے کیو نکہ جھوٹ جھل ونادانی کے باعث یا کسی کمزوری کے سبب ہوتا ہے او رخد اان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلام یہ کہ خد اکمال مطلق ہے او رکسی قسم کا نقض و عیب اس کی ذات سے متصف نہیں اور ہم کو اس کی صفات کی شناخت میں بھی اپنے عجز کا اعتراف کرنا چاہئے ۔

۷۱

ذات خد امیں تفکر منع ہے

صفات کے بارے میں جو مختصر بیا ن تھا اس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ صفات خدا عین ذات ہیں لہٰذانہ اس کی ذات او ر نہ ہی اس کی صفات میں از حد تفکر کریں کیو نکہ از حد تفکر حیرانی او ر سر گردانی کاسبب ہے صرف اس کی مخلوقات میں غور خوض کریں ۔

قال الاما مُ البا قر علیه السلام : ''تکلموا فیِ خلق اللّه ولا تکلموا فیِ اللّٰه فأَنَّ الکلام فی اللّٰهِ لا یزاد صاحبة الا تحیّراً ''خلقت خداکے با رے میں گفتگو کرو .خدا کے با رے میں گفتگو نہ کرو اس لئے کہ خدا کے بارے میں گفتگو صاحب کلا م کے حق میں تحیّر کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرے گا۔

علامہ مجلسی او ردیگر علما ء نے کہا ہے کہ ذات و صفات خدا میں تفکر و تکلم سے منع کرنے کا مطلب کیفیت ذات خدا وندعالم ہے ۔

قال الامام الباقر علیه السلام: اِیاکم و التفکّر فی اللّٰه لکن اِذَا أردتم أن تَنظروا اِلیٰ عظمته فانظروا اِلیٰ عظیم خلقه '' ذات خد امیں غور و خو ض سے پرہیز کرو جب جب بھی اس کی عظمتوں کودیکھنا چاہوتو اس کی عظیم خلقت (اس دنیا )کودیکھو ''۔( ۱ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب نہی از کلام در کیفیت حدیث ،۱۔۷

۷۲

سوالا ت

۱۔ خدا کے قدرت کی نشانیا ں کیا ہیں ؟

۲۔ قدیم ، ابدی ،متکلم ، صادق کے کیا معنی ہیں ؟

۳۔ ذات خد امیں غو ر و خو ض کیوں منع ہے ؟

۷۳

دسواں سبق

صفات سلبیہ

ایک جملہ میں یو ں کہا جا سکتا ہے کہ صفات سلبیہ یعنی : خدا وند ہر طرح کے عیب و نقص ، عوارض نیز صفات ممکنات سے پاک ومنزہ ہے ۔ لیکن ان صفات میں بعض پر بحث کی گئی ہے جیسے وہ مرکب نہیں ہے ، جسم نہیں رکھتا ، قابل رئویت نہیں ، اس کے لئے زمان ومکا ن ،کو ئی ٹھکا نہ یا جہت معین نہیں کرسکتے .وہ ہر طرح کے نیاز و احتیاج سے دور ہے، اس کی ذات والا صفات محل حوادث نہیں اور عوارض وتغییر وتبدل کا شکا ر نہیں ہو سکتی ،صفات خدا ونداس کی عین ذات ہے اس کی ذات مقدس پر اضا فہ نہیں ہے ۔

سید الاولیاء امیرالمومنین ایک خطبہ کی ابتدا میں یو ں گویا ہیں''لا یشغله شأن ولا یغیره زمان ولا یحویه مکان ولایصفه لسان ''کو ئی چیز اس کو اپنے آپ میں مشغول نہیں کرسکتی، زما نہ کا تغییر وتبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا کو ئی مکان اپنے میں سمو نہیں سکتا ،کو ئی زبا ن اس کی مدح نہیں کر سکتی۔( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ،۱۷۸

۷۴

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق سے نقل ہے کہ''اِنَّ اللّهَ تبارک و تعالیٰ لا یُوصف بزمان ولا مکان ولا حرکة ولا انتقال ولا سکون بل هو خالق الزمان والمکان والحرکة والانتقال تعالی اللّه عما یقول الظالمون علوًا کبیراً ''خدا وندتعالی کی تعریف وتوصیف زمان و مکا ن ،حرکت و انتقال مکان و سکو ن کے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی ، وہ زمان ومکا ن نیزحرکت ونقل مکا ن، ،اور سکون کا خالق ہے ،خدا اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جو ظالم او رستمگر افراد تصور کرتے ہیں۔( ۱ )

صفات سلبی کی وضاحت

خدا مرکب نہیں ہے یعنی اجزاء ترکیبی نہیں رکھتا کیو نکہ ہر مرکب اپنے اجزاء کامحتاج ہو تا ہے جبکہ خدا کسی شی ٔ کا محتا ج نہیں ہے ، وحدانیت کی بحث میں ہم نے یہ بات کہی تھی کہ خدا کمال مطلق ہے ، اور ا س کے لئے کو ئی حد ومقدار نہیں ہیں ،لہٰذا اس بات کی جا نب ہماری توجہ ضروری ہے کہ جو محدودیت یا احتیا ج کا سبب ہے وہ ممکنات سے مخصوص ہے خدا ان سے پاک و منزہ ہے تعالی اللّہ عنہ ذلک علواً کبیراً۔

خدا جسم نہیں رکھتا اور دکھائی نہیں دے گا

( لاَ تُدرِکُهُ الأبصَارُ و هُوَ یُدرِک الأبصارَ وَهو اللّطِیفُ الخَبِیر ) ( ۲ ) آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی وہ تمام آنکھوں کو دیکھتا ہے وہ لطیف وخبیر ہے

____________________

(۱) کتاب بحارالانوار ج۳ ،ص،۳۰۹

(۲) سورہ انعام آیة ۔۱۰۳

۷۵

سوال : خدا کو دیکھنا کیو ں ناممکن ہے ؟

جواب : اس لئے کہ دیکھنے کے جو لوازمات ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں یعنی خدا کو اگردیکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو جہت اورسمت رکھتا ہو ،اجزاء رکھتا ہو اس لئے کہ ہر جسم اجزاء و عوارض جیسے رنگ ،حجم اور ابعاد رکھتا ہے ،نیز تمام اجسام تغییر وتبدل رکھتے ہیں اور مکا ن کے محتاج ہیں اور یہ سب ممکنات کی خصوصیات ہیں ، اورنیاز واحتیاج کے شکا رہیں خدا ان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلا م یہ کہ نہ خدا جسم ہے اورنہ ہی دیکھا جاسکتا ہے ( اہل سنت کے بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ خدا روز محشر مجسم ہوگا اور دکھا ئی دے گا اس کے ضمن میں ان کی جانب سے بہت ساری باتیں مضحکہ خیز ہیں اورکسی عقل و منطق سے سروکا ر نہیں رکھتیں ۔

امام علی رضا سے روایت ہے :أنّه لَیس مِنَّا مَن زعم أَنَّ اللّٰه عزَّوجلَّ جسم ونحن منه براء فی الدنیا والآخرة ( ۱ ) جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ خدا جسم و جسمانیت رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے او رہم دنیا وآخرت میں ایسے شخص سے دور و بیزار ہیں ۔

____________________

(۱)توحید صدوق باب ۶، حدیث، ۲۰

۷۶

وہ لا مکاں ہے او رہر جگہ ہے

مادہ سے خالی ایک شی ٔ کی شناخت ان انسانو ں کے لئے جو ہمیشہ مادی

قیدخانہ میں اسیر رہے اور اس کے عادی ہو گئے بہت ہی مشکل کام ہے شناخت خدا کا پہلا زینہ اس (خدا ) کو صفات مخلوقات سے منزہ جاننا ہے ،جب تک ہم خداکو لا مکا ن ولا زمان نہ جا نیں گے در حقیقت اس کی معرفت ہی حاصل نہیںکر سکتے ۔محل او رمکان رکھنا جسم وجسمانیت کالازمہ ہے او رہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ وہ جسم نہیں رکھتا وہ ہر جگہ ہے ۔

وہ ہر جگہ ہے

( وَللَّهِ المَشرِقُ والمَغرِبُ فَأَینَمَا تُولُوا فَثَمَّ وَجهُ اللَّهِ اِنَّ اللّٰهَ واسِعُ عَلیمُ ) ( ۱ ) مشرق ومغرب اللہ ہی کے لئے ہے اور تم جس جانب بھی رخ کروگے خدا وہاں موجود ہے خدا بے نیاز اور صاحب علم و حکمت ہے ۔

( وَهُوَ مَعَکُم أَینَ مَا کُنتُم وَاللّهُ بِمَا تَعملُونَ بَصیرُ ) ( ۲ ) تم جس جگہ بھی ہو خدا تمہارے ہمراہ ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس پر ناظر ہے ۔

امام موسی کا ظم ںنے فرمایا :اِنَّ اللّٰهَ تبارک وتعالیٰ کان لم ینزل بلا زمان ولا مکان وهو الآن کما کان لا یخلو منه مکان ولا یشغل به مکان ولا یحلّ فی مکان ( ۳ ) خدا ہمیشہ سے زمان ومکان کے بغیر موجود تھا اور اب بھی ہے، کو ئی جگہ اس سے خالی نہیں اور درعین حال کسی جگہ میں قید نہیںاس نے کسی مکا ن میں حلول نہیںکیا۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ص ۱۱۵۔

(۲) سورہ حدید آیة ،۴

(۳) توحید صدوق باب ۲۸،حدیث ۱۲

۷۷

ایک شخص نے حضرت امام علی سے سوال کیا کہ مولا ہمارا خدازمین وآسمان کو پید اکرنے سے پہلے کہاں تھا ؟آپ نے فرمایا : کہاں کا لفظ مکا ن کے حوالے سے ہے جبکہ وہ اس وقت بھی تھا جب مکان نہیں تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) سابق حوالہ حدیث،۴

۷۸

خدا کہا ں ہے ؟

کتاب ارشاد واحتجاج میں ذکر ہے کہ ایک یہودی مفّکر، خلفاء میں سے ایک کے پاس آیا او رسوال کیا کہ آپ جانشین رسول ہیں ؟ انھو ں نے جو اب دیا ہاں اس نے کہا خد اکہا ں ہے ؟

انہو ں نے جواب دیا آسمان میں عرش اعظم پر بر اجمان ہے اس نے کہا پھر تو زمین اس کے حیطۂ قدرت سے خالی ہے خلیفہ ناراض ہو گئے اور چیخ کر بولے فوراً یہاں سے دفع ہو جا ئو ورنہ قتل کرادوںگا ،یہودی حیران ہوکر اسلام کا مذاق اڑا تا ہو ا باہر نکل گیا۔

جب امیرالمومنین ںکو اس بات کی اطلاع ہو ئی توآپ نے اس کو طلب کیا اور فرمایا میں تمہارے سوال اور دئے گئے جواب دونوںسے باخبر ہوں،لیکن میں بتاتا ہو ں کہ اس نے مکا ن کو خلق کیا ہے لہٰذا اس کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود صاحب مکان ہو اور کسی مکان میں مقید ہو۔

وہ اس سے کہیں بلند وبالا ہے کہ مکان اس کو اپنے آپ میں سمو لے ،کیاتم

۷۹

نے اپنی کتابوں میں نہیں پڑھا کہ ایک دن حضرت موسی بن عمران بیٹھے ہو ئے تھے۔

ایک فرشتہ مشرق سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ مغرب سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ آیاآپ نے سوال کیاکہاں سے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ساتویں آسمان میں خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ اور آیا اس سے سوال کیا کہا ں تھے؟ اس نے کہازمین کے ساتویں طبق سے خدا کے پاس تھا ،اس کے بعد حضرت موسی نے کہاپاک ہے وہ ذات جس کے وجود سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور اس کے نزدیک کوئی جگہ دوسری سے نزدیک نہیں ۔

یہودی نے کہا کہ : میں اس بات کی گواہی دیتا ہو ںکہ حق مبین یہی ہے اور آپ پوری کائنات میں سب سے زیادہ وصی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اہلیت رکھتے ہیں ۔( ۱ )

ہم دعا کرتے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیوں بلند کرتے ہیں ؟

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک کا فر ،حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور'' الرحمن علی العرش استوی '' کی تفسیر جاننی چاہی امام نے دوران تفسیر وضاحت فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا : خدا کسی مخلوق ومکان کا محتاج نہیں بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہیں ، اس نے عرض کی تو پھر دعا کرتے وقت

____________________

(۱) پیام قرآن نقل جلد۴ ،ص ۲۷۴

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

آیت ۷۸:

(۷۸) قَالُوا یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَیْخًا کَبِیرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَکَانَهُ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ

(اس پر) ان لوگوں نے کہا : اے عزیز ! اس (بنیامین) کے والد بہت بوڑھے (آدمی) ہیں (اور اس کو بہت چاہتے ہیں)تو آپ اس کے عوض ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے اور اس کو چھوڑ دیجئے کیونکہ ہم آپ کو نیکوکار بزرگ سمجھتے ہیں ''۔

نکات:

جب برادران یوسف (ع)نے دیکھ لیا کہ بنیامین کا روکا جانا قطعی ہوگیا ہے تو حضرت یوسف (ع)کے سلسلے میں اپنے سابقے اور بنیامین کے بارے میں اپنے باپ سے کئے گئے عہد و پیمان کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز یہ احساس کرتے ہوئے کہ بنیامین کے بغیر پلٹنے کے نتائج بڑے تلخ ہوں گے، نفسیاتی طریقے سے حضرت یوسف (ع)سے التماس کرنے لگے۔ گڑگڑانے لگے اور احساسات کو بھڑکاتے ہوئے یہ کہنے لگے آپ(ع) صاحب عزت و قدرت اور نیک کردار ہیں ۔ اس کا باپ بوڑھا ہے اس کے بدلے میں آپ ہم میں سے کسی کو بھی غلام بنالیجئے اور سب بھائی بنیامین کی بخشش کرانے کےلئے آمادہ ہو گئے ۔

پیام:

۱۔ مقدارت الٰہی ایک دن ہر سنگ دل اور ستمگر کو ذلت ورسوائی کی خاک چٹواتی ہے بلکہ گڑگڑانے پر مجبور کردیتی ہے ان لوگوں کے جملہ( یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ...) کے آہنگ میں اس بات کا ثبوت موجود ہے۔

۲۔ اقتدار کے زمانے میںبھی حضرت یوسف (ع)کا نیک کردار نمایاں تھا۔(نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ )

۱۶۱

آیت ۷۹:

(۷۹) قَالَ مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ

''(حضرت یوسف نے)کہا : معاذاللہ (یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ )ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اسے چھوڑ کر دوسرے کو پکڑ لیں ؟(اگر ہم ایسا کریں)تو ہم ضروربڑے بے انصاف ٹھہریں گے''۔

نکات:

حضرت یوسف علیہ السلام کے نپے تلے الفاظ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ (ع)بنیامین کو چور ثابت کرنا نہیں چاہتے ہیں اسی لئے آپ (ع)نے ''وجدنا سارقا '' نہیں فرمایا بلکہ'' وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ'' فرمایا ۔ یعنی متاع و پیمانہ اس کے سامان میں تھا وہ خود چور نہیںہے ۔

اگر جناب یوسف (ع)بنیامین کے بجائے کسی دوسرے بھائی کو رکھ لیتے تو ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتا اس کے علاوہ دوسرے بھائی ، بنیامین کے ساتھ چوروں جیسا سلوک کرتے انہیں مختلف طریقوں سے اذیت پہنچاتے اور جو شخص بنیامین کے بجائے رکتا وہ یہ سوچتا کہ ناحق گرفتار ہوگیا ہوں۔

پیام:

۱۔ قانون کی رعایت ہر شخص پر لازم ہے حتی عزیز مصر کےلئے بھی قانون شکنی ممنوع ہے ۔(مَعَاذَ اﷲِ )

۲۔ قانون شکنی ظلم ہے (کسی کے کہنے پر قانون توڑنا صحیح نہیں ہے)( مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ لَظَالِمُونَ )

۳۔ بے گناہ کو گناہ گار کے بدلے سزا نہیں دینی چاہیئے اگرچہ وہ خود اس پر راضی ہو،(مَعَاذَ اﷲ)

۱۶۲

آیت ۸۰:

(۸۰) فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیًّا قَالَ کَبِیرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاکُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّی یَأْذَنَ لِی أَبِی أَوْ یَحْکُمَ اﷲُ لِی وَهُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ

''پھر جب یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو باہم مشورہ کرنے کے لئے الگ کھڑے ہوئے ۔ تو جو شخص ان سب میں بڑا تھا کہنے لگا ! (بھائیو!)کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ تمہارے والد نے تم سے خداکا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے تم لوگ یوسف کے بارے میں کیا کچھ تقصیر کر ہی چکے ہو،تو(بھائی) جب تک میرے والد مجھے اجازت (نہ) دیں یا خدا مجھے کوئی حکم (نہ) دے میں اس سرزمین سے ہرگز نہ ہلوں گا ۔اور خدا تو سب حکم دینے والوں سے کہیں بہتر ہے ''۔

نکات:

''خلصوا''یعنی اپنے گروہ کو دوسرے سے جدا کرنا'' نَجِیًّا'' یعنی سرگوشی کرنا ، لہٰذا''خَلَصُوا نَجِیًّا '' یعنی محرمانہ نشست( secret meeting ) تشکیل دی کہ اب کیا کریں ۔

۱۶۳

پیام:

۱۔ احکام الٰہی کو جاری کرنے کی راہ میں التماس و خواہشات مانع نہیں ہونا چاہئے۔(اسْتَیْئَسُوا مِنْه)

۲۔ ایک دن وہ تھا جب یہی بھائی اپنی قدرت کے نشہ میں مست ہوکر جناب یوسف (ع)کے سلسلے میں مشورہ کر رہے تھے کہ ان کو کیسے ختم کریں(اقتلوا یوسف او طرحوه ارضا لاتقتلوا القوه...) آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ کاسہئ التماس ہاتھوں میں لئے بنیامین کی آزادی کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اسی کاسہئ التماس کے ہمراہ نجویٰ اور سرگوشی کررہے ہیں کہ کیسے بنیامین کو آزاد کرایا جائے ۔(خَلَصُوا نَجِیًّ)

۳۔ تلخ اور ناگوار حوادث میں بڑے لوگ زیادہ ذمہ دار اور شرمسار ہوتے ہیں(قَالَ کَبِیرُ هُمْ)

۴۔ عہد و پیمان کا پوراکرنا ضروری ہوتا ہے۔( أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً)

۵۔ سخت اور محکم عہد وپیمان غلط فائدہ اٹھانے کی راہ کو مسدود کردیتے ہیں۔(أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً)

۶۔ خیانت اور جنایت مرتے دم تک زندہ ضمیروں کو اذیت پہنچاتی رہتی ہے۔(مِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ)

۷۔ دھرنا ڈالنا ایک پرانی روش اور انداز ہے۔(فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْض)

۸۔ غربت (یعنی پردیس کو وطن پر ترجیح دینا)شرمندگی سے بہتر ہے( فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ)

۹۔ خداوندعالم کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھناچاہئے ۔(هُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ )

۱۶۴

آیت ۸۱:

(۸۱) إِرْجِعُوا إِلَی أَبِیکُمْ فَقُولُوا یَاأَبَانَا إِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حافِظِینَ

''تم لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر ج اور (ان سے جاکر) عرض کرو اے بابا آپ کے صاحبزادے نے سچ مچ چوری کی ہے اور ہم لوگوں نے تواپنی دانست کے مطابق (اس کے لئے آنے کا عہد کیا تھا )اور ہم کچھ (از) غیبی (آفت )کے نگہبان تو تھے نہیں''۔

پیام:

۱۔ انسان خود خواہ ہے ،جب زیادہ گیہوں لانے کی بات تھی تو بھائیوں نے(ارسل معنا اخان) کہا یعنی ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ روانہ کردیجئے لیکن جب آج تہمت کی بات آئی تو(ابْنَکَ) (یعنی آپ کے صاحبزادے نے چوری کی )کہنے لگے ۔ ''ہمارے بھائی'' نہیں کہا۔

۲۔ شہادت اور گواہی ، علم کی بنیاد پرہونا چاہیئے ۔( وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَ)

۳۔ عہد و پیمان میں ان حوادث کے سلسلے میں بھی ایک تبصرہ کرنا چاہیئے جس کی پیش بینی نہ ہوئی ہو( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ...)

۴۔ عذر کو صراحت کے ساتھ پیش کرنا چاہیئے ۔( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ)

۱۶۵

آیت ۸۲:

(۸۲) وَسْئَلِ الْقَرْیَ الَّتِی کُنَّا فِیهَا وَالْعِیرَ الَّتِی أَقْبَلْنَا فِیهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

''اور (اگر ہماری باتوں پر اعتبار نہیں ہے تو)آپ اس بستی کے لوگوں سے جس میں ہم لوگ تھے پوچھ لیجئے اور اس قافلہ سے بھی جس میں ہم آئے ہیں (دریافت کرلیجئے ) اور ہم یقینا بالکل سچے ہیں ''۔

نکات:

''قریہ'' فقط دیہات کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر محل اجتماع اور رہائشی علاقہ کو ''قریہ'' کہتے ہیں چاہے وہ شہر ہو یا دیہات ۔ یہاں پر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہوسئل القریه سے مراد'' واسئل اهل القریه'' ہےں ۔یعنی اہل قریہ سے سوال کیجئے ۔

''عیر'' خوردونوش کی چیزوں کو لانے لے جانے والے کارواں کو کہا جاتا ہے۔

کل حضرت یوسف (ع)کے قتل کے سلسلے میں (کہ بھیڑیا یوسف کو کھا گیا) بھائیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی لیکن یہاں پر انہوں نے اپنے دعوے کی دو دلیلیں پیش کیں(۱) اہل مصر سے سوال کیجئے(۲) اہل قافلہ سے سوال کیجئے کہ جن کے ساتھ ہم نے سفر کیا، علاوہ ازیں حضرت یوسف (ع)کے قتل کے واقعہ میں ان لوگوں نے''لوکنا صادقین'' کہا تھا جس میں ''لو'' تردید ، بے چینی اور سستی کی علامت ہے لیکن اس واقعہ میں کلمہ''انّا' 'اور حرف لام کو جو''لَصَادِقُونَ ''میں ہے استعمال کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ و ہ قطعا ًسچے ہیں ۔

پیام:

۱۔ برا سابقہ اور جھوٹ تادم مرگ، انسان کی گفتگو قبول کرنے میں شک و تردید پیدا کردیتاہے ۔( وَاسْأَلْ الْقَرْیَ)

۲۔ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے عینی شاہدوں کی گواہی ایک معتبر روش ہے۔(وَاسْأَلْ الْقَرْیَ...وَالْعِیرَ...)

۱۶۶

آیت ۸۳:

(۸۳) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ

''(غرض جب ان لوگوں نے جاکر بیان کیا تو )یعقوب نے کہا :(اس نے چوری نہیں کی ہے)بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے گڑھ لی ہے، میں توصبر جمیل (اور خدا کاشکر)کروںگا خدا سے تو مجھے امید ہے کہ میرے سب (لڑکوں) کو میرے پاس پہنچا دے بے شک وہ بڑا واقف کار حکیم ہے''۔

نکات:

جب حضرت یوسف (ع)کے بھائی بناوٹی غمگین صورت میں ٹسوے بہاتے ہوئے خون بھرا کرتا لے کر اپنے بابا کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو اس وقت حضرت یعقوب (ع)نے فرمایا تھا(َبَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ ) یعنی یہ تمہارا نفس ہے جس نے اس کام کو تمہارے سامنے اچھا کرکے پیش کیا ہے لیکن میں بہترین صبرکروں گا۔

اور آج اس موقع پر جب آپ (ع)کے دو فرزند (بنیامین اور بڑا بیٹا) آپ (ع)سے جدا ہوگئے تو آپ (ع)نے پھر وہی جملہ دھرایا ۔ یہاں پر ممکن ہے ایک سوال پیداہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ماجرے میں تو ان لوگوں نے سازش اور خیانت کی تھی لیکن بنیامین کے سلسلے میں اس قسم کی بات نہ تھی پھر دونوں مواقع پر حضرت یعقوب (ع)کا لب ولہجہ ایک ہی کیوں ہے ؟(بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أمراً فَصَبْرٌ جَمِیل) تفسیر المیزان میں اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے: ''حضرت یعقوب (ع)بتانا چاہتے تھے کہ بنیامین کی دوری بھی تمہاری اسی پہلی حرکت کا نتیجہ ہے جو تم نے حضرت یوسف (ع)کے ساتھ انجام دی تھی یعنی یہ تمام تلخیاں اسی بدرفتاری کا نتیجہ ہیں ''۔

۱۶۷

یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا مقصد یہ تھاکہ تم یہاں بھی یہی خیال کررہے ہو کہ تم بے گناہ ہو اور تمہارا کام صحیح ہے جبکہ تم گناہ گار ہو کیونکہ سب سے پہلے تو یہ کہ تم نے اپنے بھائی کے سامان میں پیمانہ دیکھ کر اسے چور سمجھ لیا، ہوسکتا ہے کسی دوسرے نے اس کے غلہ میں پیمانہ ڈال دیا ہو ۔ دوسری بات یہ کہ تم لوگ اتنا جلدی کیوں پلٹ آئے ،تمہیں تحقیق کرنا چاہیئے تھی ۔ اور تیسری بات یہ کہ تم نے چور کی سزا اس کو غلام بنانا کیوں قراردیا(۱)

صبر کبھی ناچاری اور بے چارگی کی بنیاد پر ہوتا ہے جیساکہ اہل جہنم کہیں گے(سواء اصبرنا ام جز عنا) مقصود یہ ہے کہ صبر یا فریاد کرنا ہماری نجات کا باعث نہیں بن سکتا ، لیکن کبھی کبھی صبر باخبر ہونے کے باوجود اپنی پسند سے خداوندعالم کی رضا کی خاطر کیا جاتا ہے اس صبر کا رخ زیبا مختلف مقامات پر مختلف اندازمیں نکھرتا ہے ۔ میدان جنگ میں اس کا نام ''شجاعت'' ، دار دنیا میں اس کانام''زہد''، گناہوں کے مقابلے میں اس کانام ''تقوی''، شہوت کے مقابلے میں اس کانام ''عفت'' اور مال حرام کے مقابلے میں اس کانام ''ورع''ہے۔

--------------

(۱) تفسیر نمونہ، لیکن صاحب تفسیر المیزان کا کلام زیادہ مناسب ہے کیونکہ بنیامین کے سامان میں پیمانہ ملنے کی وجہ سے سب کو یقین ہو جاتاہے کہ وہی چور ہیں علاوہ ازیں بڑے بھائی کا مصر میں رکنا اسی کام کی تحقیق اور احساسات کو جلب کرنے کے لئے تھا اور چور کی سزا کی جو بات ہے تو اس علاقے میں چور کی سزا وہی تھی جو انہوں نے قرار دی بنابریں ان تینوںمیں سے کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں نفس کا دخل ہواور( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) کہا جائے۔

۱۶۸

پیام:

۱۔ نفس گناہوں کی توجیہ کے لئے برے کام کو انسان کی نگاہ میں اچھا کرکے دکھاتاہے( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) (۱)

۲۔ صبر کرنا مردان خدا کا شیوہ ہے اور'' صبر جمیل' 'اس صبر کو کہتے ہیں جس میں رضائے الٰہی کے لئے سر تسلیم خم کیا جائے اور زبان سے کوئی فقرہ بھی ادا نہ ہو(۲) ( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ )

۳۔ کبھی بھی قدرت خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے(عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعً)

۴۔ حضرت یعقوب (ع)کو اپنے تینوں فرزندوں (یوسف ، بنیامین ۔ بڑے بیٹے) کی زندگی کا یقین تھا اور ان سے ملاقات کی امید تھی(أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعً)

۵۔ پروردگار عالم تمام مسائل کو حل کرنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے خداوندعالم کل کے یوسف اور آج کے بنیامین وغیرہ کو جمع کرسکتا ہے ۔( جَمِیعً)

۶۔ مومن ،تلخ حوادث کو بھی خداوندعالم کی حکمت سمجھتا ہے ۔(الْحَکِیمُ )

۷۔ افعال الٰہی کے عالمانہ اور حکیمانہ ہونے پر یقین رکھنا انسان کو دشوار سے دشوار حادثات میں صبر وشکیبائی پر آمادہ کرتا ہے۔(فَصَبْرٌ جَمِیلٌ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیم)

--------------

(۱)شیطان بھی اسی چال کا استعمال کرتا ہے ۔(زین لھم الشیطان ماکانوا یعملون۔ انعام:۴۳)اسی طرح دنیا کے زرق برق بھی اس قسم کی خوشنمائی میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں ۔ حتی اذا اخذت الارض زخرفھا و ازینت ۔یونس ۲۴.

(۲)تفسیر نور اثقلین.

۱۶۹

آیت ۸۴:

(۸۴) وَتَوَلَّی عَنْهُمْ وَقَالَ یَاأَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ کَظِیمٌ

''اور یعقوب نے ان لوگوں سے منہ پھیر لیا اور (روکر) کہنے لگے : ہائے افسوس یوسف پر (اور اس قدر روئے کہ) غم کی وجہ سے ان کی آنکھیںسفید ہوگئیں وہ تو بڑے رنج کے ضابط تھے''۔

نکات:

کلمہ ''اسف'' غضب کے ہمراہ حزن وملال کو کہتے ہیں جناب یعقوب (ع)کی آنکھیں گریاں ، زبان پر ''یااسفا''اوردل میں حزن و ملال تھا ۔

ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا: میرے بابا علی بن الحسین + واقعہئ کربلا کے بعد بیس )۲۰(سال تک ہر گھڑی آنسو بہاتے رہے۔ آپ (ع)سے سوال کیا گیا آپ اتنا کیوں روتے ہیں ؟ تو آپ (ع)نے جواب دیا : یعقوب کے گیارہ فرزند تھے جس میں سے ایک غائب ہوا تھا جبکہ (وہ جانتے تھے کہ) وہ زندہ ہے لیکن اتنا روئے کہ آنکھےں سفید ہوگئیں جبکہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بابا، اپنے بھائیوں اور خاندان نبوت کے سترہ افراد کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے (ذرا بت)ہم کیسے آنسو نہ بہائیں؟

۱۷۰

پیام:

۱۔ حاسد کو ایک زمانہ تک حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔( وَتَوَلَّی عَنْهُمْ)

۲۔ ان لوگوں نے چاہا کہ یوسف کو درمیان سے نکال کر اپنے بابا کے محبوب ہوجائیں گے ۔(یخل لکم وجه ابیکم) لیکن حسد و جلن نے باپ کے قہر و غضب میں اضافہ کردیا(تَوَلَّی عَنْهُم)

۳۔ غم و اندوہ اور گریہ و زاری کبھی کبھی بصارت کے زائل ہونے کا سبب ہوتی ہے ۔(ابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْن)

۴۔ گریہ و غم، ضبط و تحمل اور صبر کے منافی نہیں ہے( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ یَاأَسَفَی، فَهُوَ کَظِیمٌ )

۵۔ حضرت یعقوب (ع)کو معلوم تھا کہ ظلم صرف یوسف (ع)پر ہوا ہے دوسروں پر نہیں۔(یاأَسَفَا عَلَی یُوسُف)

۶۔ فریاد وبکا سوز وعشق معرفت کے محتاج ہےں (حضرت یعقوب(ع) کو حضرت یوسف (ع)کی معرفت تھی اسی بنیاد پر ان کی آنکھوں کی بنیائی زائل ہوگئی۔)

۷۔ مصائب کی اہمیت کا دارومدار افراد کی شخصیت پر ہے (یوسف (ع)پر ڈھائے گئے مظالم دوسروں پر کئے گئے مظالم سے فرق رکھتے ہیں اسی لئے یوسف (ع)کا نام لیا جاتا ہے دوسروں کا ذکر بھی نہیں ہوتا)

۸۔ عزیزوں کے فراق میں غم واندوہ، آہ و بکا اور نوحہ و ماتم جائز ہے۔(وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ)

۱۷۱

آیت ۸۵:

(۸۵) قَالُوا تَاﷲِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِینَ

''(یہ دیکھ کر ان کے بیٹے )کہنے لگے آپ تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہئےے گا یہاں تک کہ بیمار ہوجائےے گا یا جان دے دیجئے گا''۔

نکات:

''حرض '' اس شخص کو کہتے ہیں جسے عشق یاحز ن ، کمزور و ناتواں بنادے۔

پیام:

۱۔ ہر یوسف (ع)کو ہمیشہ اپنی یادوں کے فانوس میں سجائے رکھنا چاہئےے(تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ) (جیسا کہ اولیائے الٰہی دعائے ندبہ میں یوسف زماں کو آواز دے کر آنسو بہاتے ہیں ۔)

۲۔ مقدس عشق اورملکوتی آہیں قابل قدر ہیں ۔( تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضً) (اولیائے خدا کی یاد خدا کی یاد ہے )(۱)

۳۔ نفسیاتی اور روحی مسائل جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں(حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِین) (فراق اور جدائی انسان کے وجود کو توڑ دیتی ہے بلکہ موت کی حد تک پہنچا دیتی ہے چہ جائیکہ اگر کوئی داغ مفارقت اور مصیبت کے پہاڑ اٹھائے ہوئے ہو۔)

۴۔ باپ کی محبت عام محبتوں سے جدا ہے۔( تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِینَ)

--------------

(۱) یعقوب (ع)اس سوز و گداز میں ہیں جسے عام افراد سمجھ نہیں سکتے ہیں(مجلس عزا ،نوحہ و ماتم پر طنز نہ کیجئے)

۱۷۲

آیت ۸۶:

(۸۶)قَالَ إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اﷲِ وَأَعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ

''یعقوب نے کہا : (میں تم سے کچھ نہیں کہتا ) میں تو اپنی بے

قراری اور رنج کی شکایت خدا ہی سے کرتا ہوں اور خدا کی طرف سے جوباتیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے''۔

نکات:

''بث'' اس شدید حزن وملال کو کہتے ہیں جس کی شدت کو صاحب غم بیان نہیں کرپاتا ۔

قرآن مجید میں ہے کہ حضرت آدم (ع)نے اپنے فعل پر خدا کی بارگاہ میں نالہ و شیون کیا(ربنا ظلمنا انفسنا) (۱) حضرت ایوب (ع)نے اپنی بیماری پر خدا سے فریاد کی(مسّنی الضر) (۲) حضرت موسی (ع)نے فقر و ناداری کی شکایت کی(رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر) (۳) اور حضرت یعقوب(ع) نے فراق فرزند میں آنسو بہائے(انما اشکو بثی و حزنی)

پیام:

۱۔ توحید پرست انسان ،اپنا درد فقط خدا سے کہتا ہے( إِنَّمَا أَشْکُو... إِلَی اﷲِ)

۲۔ جو چیز مذموم ہے وہ یا تو خاموشی ہے جو انسان کے قلب و اعضاء پر حملہ آور ہوتی ہے اور انسان کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے یا وہ نالہ و شیون ہے جو انسان کے

--------------

(۱)سورہ اعراف آیت ۲۳.

(۲) انبیاء آیت ۸۳

(۳)سورہ قصص آیت ۲۴.

۱۷۳

سامنے کیا جاتا ہے جس سے انسان کی قدر و منزلت میں کمی آجاتی ہے لیکن خد اسے شکایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(أَشْکُو... إِلَی اﷲِ)

۳۔ خدا سے گفتگو کرنے میں ایک لذت ہے جسے عام لوگ نہیں سمجھ سکتے ہیں۔(أَشْکُو بَثِّی إِلَی اﷲِ ...مَا لاَ تَعْلَمُونَ.) (۱)

۴۔ ظاہر بین افراد ،حوادث کے سامنے سے بڑی آسانی سے گزر جاتے ہیں اور اس سے کچھ حاصل نہیں کرپاتے ہیں، لیکن حقیقت بین افراد حادثات کے آثار کا تا قیامت مشاہدہ کرتے ہیں ۔(أَعْلَمُ مِنْ اﷲِ ...)

۵۔ حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی ، فراق کے خاتمہ کی مدت ،نیز خداوندعالم اور اس کی صفات سے آگاہ تھے لیکن یہ امور دوسروں پر مخفی تھے ۔(اعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

--------------

(۱)ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

دست حاجت چوں بری نزد خداوند بر

کہ کریم است و رحیم است و غفور است و ودود

نعمتش نامتناہی کرمش بی پایاں

ھیچ خوانندہ از این در نرود بی مقصود

۱۷۴

آیت ۸۷:

(۸۷)یَابَنِیَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَأَخِیهِ وَلاَ تَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِنَّهُ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ.

''اے میرے بیٹو! (ایک بار پھر مصر)ج اور یوسف اور اس کے بھائی کو (جس طرح بنے) تلاش کرو اور خدا کے فیض سے ناامید نہ ہونا کیونکہ خدا کے فیض سے کافروں کے سوا اور کوئی ناامید نہیں ہوا کرتا ''۔

نکات:

کسی چیز کے بارے میں حواس کے ذریعہ جستجو کرنے کو''تحسس'' کہتے ہیں ،''تحسس'' کسی کی اچھائی کے سلسلے میں جستجو کو کہتے ہیںلیکن کسی کی برائی کے کھوج اور تلاش میں لگنے کو''تجسس'' کہتے ہیں۔

راغب اصفہانی کے بیان کے مطابق ''رَوح اور رُوح'' دونوں جان کے معنی میں استعمال ہوتے ہیںلیکن روح، فرج ، گشائش اور رحمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے گویا مشکلات کا حل ہونا، انسان میں ایک تازہ اور نئی جان ڈال دیتا ہے، تفسیر تبیان میں ہے کہ رَوح کا مادہ ریح ہے جس طرح انسان ہوںکے جھونکوں سے سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے اسی طرح رحمت الٰہی سے بھی شادمان ہوتا ہے ۔

۱۷۵

پیام:

۱۔ باپ کو اپنے بچوں سے دائمی طور پر قطع تعلق نہیں کرنا چاہیئے ۔(فتولی عنهم یابنی)

۲۔ معرفت و شناخت کے لئے کوشش ضروری ہے۔(اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُو)

۳۔ لطف الٰہی تک پہنچنے میں سستی و کاہلی مانع ہے(اذْهَبُوا ، وَلاَ تَیْئَسُو) (۱)

۴۔اولیائے خدا بھی مایوس نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی ناامیدی کی راہ سے دور رکھتے ہیں(لاَ تَیْئَسُو)

۵۔ ناامیدی ، کفر کی علامت ہے کیونکہ مایوس ہونے والااپنے اندر یہی محسوس کرتا ہے کہ خدا کی قدرت ختم ہوگئی(لاَ یَیْئَسُ...إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ)

آیت ۸۸:

(۸۸) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْهِ قَالُوا یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَ مُزْجَ فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ

'' پھر جب یہ لوگ (تیسری بار) یوسف کے پاس گئے تو (بہت گڑگڑاکر ) عرض کی : اے عزیز مصر ! ہم کو اور ہمارے (سارے) کنبہ کو قحط کی وجہ سے بڑی تکلیف ہورہی ہے اور ہم کچھ تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں تو ہم کو (اس کے عوض ) پورا غلہ دلوا دیجئے اور (قیمت ہی پر نہیں) ہمیں (اپنا) صدقہ خیرات دیجئے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خدا صدقہ و خیرات دینے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے۔

--------------

(۱)روایات سے ثابت ہے کہ رحمت خداوندی سے مایوسی گناہ کبیرہ ہے (من لا یحضرہ الفقیہ باب معرف الکبائر)

۱۷۶

نکات:

''بضاعت'' اس مال کو کہتے ہیں جس پر قیمت کا عنوان صادق آتا ہو''مزج'' کا مادہ ''ازجاء '' ہے جس کے معنی ''دور کرنے'' کے ہیں کیونکہ بیچنے والے کم قیمت دیتے ہیں اس لئے ''بضاعت مزج'' کہتے ہیں ۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ'' تصدق علینا'' سے مراد یہ ہے کہ آپ بنیامین کو لوٹا دیجئے ۔

روایت میں ہے کہ حضرت یعقوب (ع)نے حضرت یوسف (ع)کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں ان کی جلالت قدر کو بیان فرمایا تھا۔ کنعان کی خشک سالی کا ذکر تھا اور بنیامین کی آزادی کی درخواست تھی آپ (ع)نے لکھاتھا کہ ''اب ہم پر رحم کرو اور احسان کرکے اسے رہائی دیدو اور اسے چوری کے الزام سے بری کردو '' اس خط کو آپ نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ حضرت یوسف (ع)کی خدمت میں روانہ کیا تھا، جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کے سامنے اس خط کو کھول کر پڑھا اس کا بوسہ لیا آنکھوں سے لگایا اور آنسوںکی بارش ہونے لگی جن کے قطرات آپ کے لباس پر گرنے لگے برادران جو ابھی تک حضرت یوسف (ع)کو نہیں پہنچانتے تھے تعجب کرنے لگے کہ یہ ہمارے باپ کا اتنا احترام کیوں کررہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں امیدوں کی کرن پھوٹنے لگی جب حضرت یوسف علیہ السلام کو ہنستے ہوئے دیکھا تو سوچنے لگے کہ کہیں یہی یوسف (ع)نہ ہوں(۱)

--------------

(۱)تفسیر نمونہ.

۱۷۷

پیام:

۱۔ حضرت یعقوب کو یوسف (ع)کی تلاش ہے ۔(فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُف) لیکن بھائیوں کو گیہوں کی پڑی ہے ۔( فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ)

۲۔ رسوا کرنے والے ایک دن خود رسوا ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ جو کل کہہ رہے تھے(نحن عصب) ہم طاقتور ہیں(سرق اخ له من قبل )اس سے پہلے اس کے بھائی نے چوری کی ہے ۔(انا ابانا لفی ضلال) ہمارے بابا گمراہی میں پڑ گئے ہیں ۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ذلیل و رسوا ہوکر خود کہہ رہے ہیں ۔(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرّ)

۳۔ حمایت اور مدد حاصل کرنے کے کچھ خاص طریقے ہیں۔

جس نے حمایت و مدد کی ہے اس کی تعریف و تمجید کی جائے۔( یَاأَیُّهَا الْعَزِیز)

اپنی نیاز مندی کے حال و احوال بیان کئے جائیں(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرّ)

مالی فقر کا تذکرہ ہو ۔(ِبِضَاعَ مُزْجَ)

مدد کے لئے کوئی سبب و علت ایجاد کرنا(وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ)

۴۔ فقر و محتاجی انسان کو ذلیل کردیتی ہے۔(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّر)

بقول فارسی شاعر:

آنچہ شیران را کند روبہ مزاج

احتیاج است احتیاج است احتیاج

۱۷۸

آیت ۸۹:

(۸۹) قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوسُفَ وَأَخِیهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ

''(اب تو یوسف سے نہ رہا گیا) کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ جب تم نادان تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟''

نکات:

ایک سوال میں ممکن ہے کہ مختلف مقاصد و اہداف پوشیدہ ہوں ، مثبت اورتعمیری اہداف یا منفی اور اذیت کنندہ مقاصد ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ سوال : تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۱۔ شاید اس لئے ہوکہ مجھے سب کچھ معلوم ہے۔

۲۔ ممکن ہے کہ سوال کا مقصد یہ ہو کہ تم نے بہت برا کام کیا ہے لہٰذا توبہ کرو ۔

۳۔ ممکن ہے بنیامین کی تسلی خاطر مدنظر ہو جو وہاں موجود تھے ۔

۴۔ممکن ہے کہ ان کی سرزنش اور ملامت مدنظر ہو ۔

۵۔ یا اپنی عزت آشکار کرنا مقصود ہو ۔

۶۔ یا اس بات کی سرزنش کررہے ہوں کہ تم کو اتنے مظالم کے بعد صدقہ و خیرات کی امید کیسے ہوگئی ؟ مذکورہ اہداف ومقاصد میں سے پہلے تین اہداف حضرت یوسف علیہ السلام کے اہداف سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن بقیہ موارد یوسفی کرامت اور جواں مردی (جسے آئندہ آیتیں واضح کریں گی ) کے خلاف ہےں( آپ (ع)نے بادشاہت کے رتبہ پر پہنچنے کے بعد چوری کا الزام سنا ) ، آپ کو چور کہا گیا لیکن آپ (ع)نے کچھ نہ کہا اور آخر کا ر اپنے بھائیوں سے کہہ دیا(لا تثریب علیکم الیوم)

جہالت فقط نادانی کانام نہیں ہے بلکہ ہوا و ہوس کا غلبہ بھی ایک قسم کی جہالت ہے ۔ گناہگار انسان چاہے جتنا بڑا عالم ہو جاہل ہے کیونکہ وہ متوجہ نہیں ہے کہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ خرید رہا ہے ۔

۱۷۹

پیام:

۱۔ جواں مردی یہ ہے کہ جرم کی جزئیات کو بیان نہ کیا جائے۔(مَا فَعَلْتُمْ)

۲۔ جوان مردی یہ ہے کہ( اشاروں میں) خطا کار کو عذر خواہی کا راستہ دکھایا جائے۔( إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُون)

آیت ۹۰:

(۹۰) قَالُوا أَإِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ قَالَ أَنَا یُوسُفُ وَهذَا أَخِی قَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَا إِنَّهُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ

''(اس پر وہ لوگ چونکے اور) کہنے لگے (ہائیں)کیا تم ہی یوسف ہو ؟ یوسف نے کہا : ہاں میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، بے شک خدانے مجھ پر احسان کیا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص (اس سے) ڈرتا ہے اور (مصیبت میں) صبر کرتا ہے تو خدا ہرگز (ایسے) نیکوکاروں کا اجر برباد نہیں کرتا ''۔ نکات:

زمانہ جتنا گزرتا جارہاتھا برادران اتنا ہی تعجب کی شدت سے مبہوت ہوئے جارہے تھے کہ عزیز مصر ہمارے بابا کے خط کو دیکھ کر کیوں رو رہے ہیں ؟ عزیز کو ماجرائے یوسف (ع)کا علم کہاں سے ہوگیا! غور سے دیکھا جائے تو اس کا چہرہ بالکل یوسف (ع)سے ملتا جلتا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ یہی یوسف (ع)ہو ؟ بہتر ہے کہ انہی سے پوچھ لیں اگر یہ یوسف (ع)نہ ہوئے تو کوئی ہمیں دیوانہ نہیں کہے گا لیکن اگر یہ یوسف (ع)ہوئے تو شرمندگی کی پھٹکار کا کیا ہوگا ؟ اس فکر نے بھائیوں کے وجود میں ہیجان برپا کردیا کہ ہم کیا کریں ؟ اسی ادھیڑ بن میں یکایک اس سوال سے سکوت کا طلسم ٹوٹا :أَاِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ ۔ کیا آپ ہی یوسف(ع) ہیں اس طلسم کے ٹوٹنے کے بعد کا سماں کیسا تھا وہاں کا ماحول کیا تھا آیا کسی نقاش میں اتنی صلاحیت ہے کہ اس کا نقشہ کھینچ سکے ؟ آیا شرمندگی و خوشی ، گریہ و محبت اور آغوش پھیلا کر سمیٹ لینا ان تمام دل کش اور روح فرسا مناظر کی تصویر کشی ہوسکتی ہے ؟ اسے تو بس خدا ہی جانتا ہے اور کوئی نہیں ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246