یوسف قرآن

یوسف قرآن 30%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174843 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

محمد نصراللہ نصرؔ (ہاوڑہ)

( ۱)

پھول کو خوشبو قمر کی روشنی تو نے ہی دی

کائنات حسن کو یوں دلکشی تو نے ہی دی

*

اک فلک کو ماہ و انجم، اک زمیں کو پھول پھل

دونوں عالم کو ہر اک شئے دیدنی تو نے ہی دی

*

وسعت صحرا کو نخلستان کی ٹھنڈی ہوا

موج بحر بے کراں کو بے کلی تو نے ہی دی

*

طائر دلکش ادا کو حسن بھی دلکش دیا

عندلیب خوش نوا کو راگنی تو نے ہی دی

*

دن کو روشن کر دیا خورشید نور خاص سے

شب گزیدہ دہر کو یہ چاندنی تو نے ہی دی

*

علم کی دولت عطا کی، عقل بھی تیری عطا

ہاں بشر کو نیک و بد کی آگہی تو نے ہی دی

*

تیری حکمت کا بیاں ممکن نہیں الفاظ میں

ایک لفظ کن سے ہم کو زندگی تو نے ہی دی

*

بندۂ کمتر تری توصیف کرنا کس طرح

نصرؔ کو توفیق یا رب! مدح کی تو نے ہی دی

***

۸۱

(۲)

یہ مہر و ماہ منور غلام تیرے ہیں

تمام نور کے مظہر غلام تیرے ہیں

*

تغیرات زمانہ ہیں تری قدرت میں

یہ عرش و فرش کے منظر غلام تیرے ہیں

*

ترے غلام خدایا ہیں نغمہ بار پرند

تو نامہ بر یہ کبوتر غلام تیرے ہیں

*

ترے جہاں کے گداؤں کا ذکر کیا یا رب

زمانے بھر کے سکندر غلام تیرے ہیں

*

کروں نہ کیوں میں اطاعت تری مرے مولا

تمام پیر و پیمبر غلام تیرے ہیں

*

کہاں کہاں نہ غلامی میں ہے تری خلقت

یہ سیپ سیپ میں گوہر غلام تیرے ہیں

*

تری رضا پہ ہے موقوف فکر کی پرواز

تخیلات کے شہپر غلام تیرے ہیں

*

ترا غلام ترا نصرؔ کیوں نہ ہو یا رب

کہ ذی وقار سخنور غلام تیرے ہیں

***

۸۲

مشرف حسین محضر (علی گڑھ)

آنکھوں میں تو ہے دل میں تو ہے دل کے احساسات میں تو

تیری ذات کا میں شیدائی پنہاں میری ذات میں تو

*

صبح طرب کی سطح افق سے سورج بن کر ابھرا ہے

چاند کا روپ لیے آیا ہے غم کی کالی رات میں تو

*

عیش و مسرت تیرا کرم ہے فکرو فاقہ تیری رضا!

آسودہ لمحات میں تو تھا آشفتہ لمحات میں تو!

*

قہر ترا نافرمانوں پر رحم ترا ہر تابع پر

فیض و غضب کی آندھی میں تو رحمت کی برسات میں تو

*

کعبے کی دیوار پہ لکھے مصرعوں سے یہ ثابت ہے

لاثانی ہے تیرا کلام اور یکتا اپنی ذات میں تو

*

ماضی تیرا حال بھی تیرا مستقبل کا تو مالک!

ماضی کے حالات میں تو تھا موجودہ حالات میں تو

*

تو چاہے محضرؔ کے حق میں ناممکن، ممکن کر دے

ہر اک شئے پر تو قادر ہے سارے امکانات میں تو

***

۸۳

مراق مرزا (بمبئی)

گلستاں اس کے ریگزار اس کا

سارے عالم پہ اختیار اس کا

*

چاند ستاروں میں جلوہ گر ہے وہی

پھول کلیوں پہ ہے نکھار اس کا

*

اس کے دم سے رواں سمندر ہے

ہے ندی اس کی، آبشار اس کا

*

جانے کیوں ان دنوں لبوں پہ مرے

نام آتا ہے بار بار اس کا

*

ذرے ذرے میں وہ سمایا ہے

ہے زمیں اس کی کوہسار اس کا

*

جسم اس کا ہے، سانس اس کی ہے

ابن آدم ہے قرض دار اس کا

*

وہ مرا ہر گناہ بخشے گا

ہے مرے دل کو اعتبار اس کا

***

۸۴

رحمت اللہ راشد احمدآبادی (ناگپور)

ہے ترا ہر ذرے پہ احسان رب العالمین

کیا بیاں ہ سے ہو تیری شان رب العالمین

*

سرخرو ہو جائے ہر انسان رب العالمین

کر عطا ہر ایک کو ایمان رب العالمین

*

ساری خلقت آج بھی بے بس ہے تیرے سامنے

تیرے قبضے میں ہے سب کی جان رب العالمین

*

ذکر ہر مخلوق کرتی ہے ترا شام و سحر

لہر ہو دریا کی یا طوفان رب العالمین

*

سارا عالم، ساری دنیا تیرے ہی قبضے میں ہے

ہے ترا قرآں میں یہ اعلان رب العالمین

*

اک اشارے پر ترے پیارے خلیل اللہ نے

کر دیا بیٹے کو بھی قربان رب العالمین

*

جب بھی ٹوٹے تیرے راشدؔ پر مصیبت کے پہاڑ

کر دیا تو نے انھیں آسان رب العالمین

***

۸۵

حافظ اسرارسیفی (آرہ)

تو ہی میری آرزو ہے تو ہی میری جستجو

اول و آخر بھی تو ہے ظاہر و باطن بھی تو

*

تو نے دامان زمیں کو موتیوں سے بھر دیا

اور جہان آسماں کو قمقموں سے بھر دیا

*

رازق و خلاق تو ہے حافظ و ناصر ہے تو

آنکھ سے اوجھل ہے لیکن ہر جگہ ظاہر ہے تو

*

نعمتیں ہیں ان گنت اور رحمتیں ہیں بے شمار

ہر قدم پر ہے عنایت تیری اے پروردگار

*

ہے منور نور بھی اور نور کا محور بھی تو

تو ہی ہے تحسین فطرت اور مہہ و اختر بھی تو

*

تو ہی مندر کا جرس ہے تو ہی مسجد کی اذاں

ذرے ذرے میں ہے روشن تیرے جلووں کا نشاں

*

قطرۂ ناچیز ہوں میں اور تو بحر رواں

تیری مدحت کے لیے ہے گنگ ناطق کی زباں

*

بخش دے سیفیؔ کو مولا ہے کرم تیرا بڑا

بندۂ ناچیز یہ ہے بحر عصیاں میں پڑا

***

۸۶

شاغل ادیب (حیدرآباد)

کاش مل جاتے مرے نالوں کو تاثیرنئی

تجھ سے اللہ ملے خوشیوں کی جاگیر نئی

*

رکھنا ایمان سلامت تو مرا اے اللہ

ہے یہ وعدہ نہ کروں گا کوئی تقصیر نئی

*

ہر نئی صبح رہے حمد نئی ہونٹوں پر

ہر نئی شام ہو، دل میں تری توقیر نئی

*

رات کے خواب مرے کڑوے بہت ہیں یارو

دن کے لمحات کو دے میٹھی سی تعبیر نئی

*

تیرے محبوبؐ کا بیمار جو ہو جاتا ہے

اس کو بے مانگے تو دے دیتا ہے اکسیر نئی

*

اپنے محبوبؐ کی امت پہ ہو رحمت کی نظر

اپنے محبوبؐ کی امت دے توقیر نئی

*

تیرے قرآں میں مسائل ہیں قیامت تک کے

آیتیں اس کی عطا کرتی ہیں تفسیر نئی

*

حمد شاغلؔ میں لکھوں یا کہ مناجات لکھوں

دے دے مولا تو قلم کو مرے تاثیر نئی

***

۸۷

فراغ روہوی (کلکتہ)

اعزاز مجھ کو ایک یہی ذوالجلال! دے

میری نگاہِ شوق کو ذوقِ جمال دے

*

مجھ کو خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھال دے

ایسا دے پھر مزاج کہ دنیا مثال دے

*

تو نے عطا کیے ہیں یہ لوح و قلم تو پھر

جو دل گداز ہو وہی حسن خیال دے

*

شہرت سے تو نے مجھ کو نوازا تو ہے، مگر

تھوڑا سا انکسار بھی اے ذوالجلال! دے

*

میری نظر میں وہ کسی دریا سے کم نہیں

قطرہ جو میرے کوزے میں یا رب! تو ڈال دے

*

گمنامیوں کی قید میں گوہر جو ہے ابھی

یا رب! اسے صدف سے تو باہر نکال دے

*

محروم تیرے فیض سے صحرا جو ہے یہاں

اک بار اس کے سامنے دریا اچھال دے

*

ہو فیض یاب حرف دعا سے ترا فراغؔ

تاثیر بھی زباں میں اگر اس کی ڈال دے

***

۸۸

خضر ناگپوری (ناگپور)

اے مرے مالک مرے پروردگار

تیری رحمت ایک بحر بے کنار

*

آتش نمرود تو نے سرد کی

تو نے عیسیٰ کی بچائی زندگی

تو نے یوسف کا رکھا قائم وقار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

نور بخشا دیدۂ یعقوب کو

دم میں اچھا کر دیا ایوب کو

دی زلیخا کو جوانی کی بہار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

ہے عطا کی شان بھی کیا دیدنی

آگ کے طالب کو دی پیغمبری

ایک مانگے کوئی تو دے تو ہزار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

۸۹

نوح کی کشتی کا تو ہی ناخدا

راستہ موسیٰ کو دریا میں دیا

تیری قدرت ہے جہاں پر آشکار

اے مرے مالک مرے پروردگار

*

تاجدار انبیا کا واسطا

نعمت کونین اسے بھی کر عطا

خضرؔ بھی رحمت کا ہے امیدوار

اے مرے مالک مرے پروردگار

***

۹۰

بولو وہ کون ہے ؟

ڈاکٹر منشاء الرحمن خان منشاء (ناگپور)

بولو وہ کون ہے ؟ نظروں سے جو رہ کر پنہاں

ایک اک شے کے پس پردہ ہے جلوہ افشاں

*

بولو وہ کون ہے ؟ دیتا ہے جو سامان حیات

ہم کو بن مانگے عطا کرتا ہے کیا کیا نعمات

*

بولو وہ کون ہے ؟ ہر سمت ہے جس کا سکہ

حکمراں جو ہے فلک اور زمیں پر تنہا

*

بولو وہ کون ہے ؟ یہ دھرتی سجائی جس نے

چرخ پہ چادر نورانی بچھائی جس نے

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو قادر و قیوم بھی ہے

ہر دو عالم کا جو مسجود بھی مخدوم بھی ہے

*

بولو وہ کون ہے ؟ نازل کیا جس نے قرآں

اس میں صادر کئے حکمت بھرے کتنے فرماں

*

بولو وہ کون ہے ؟ جو رزق عطا کرتا ہے

جس کی مرضی کے بنا پتہ نہیں ہلتا ہے

*

۹۱

بولو وہ کون ہے ؟ ہر امر پہ قدرت والا

جس سے بڑھ کر نہیں ہے کوئی بھی حکمت والا

جس نے پیدا کیا انساں کو بطرز احسن

زندگی کرنے کے پھر اس کو سکھائے ہیں چلن

جس نے مخلوق میں انساں کو بنایا اشرف

*

کون ہے وہ؟ جو ہے سجدوں کا ہمارے حقدار

ہر قدم پر ہمیں اس کی ہی مدد ہے درکار

ایسی ہی ہستی تو بجز رب العلیٰ کوئی نہیں

لائق حمد و ثنا اس کے سوا کوئی نہیں

***

۹۲

محسن باعشن حسرت (کلکتہ)

وہ جس نے دی ہم کو زندگانی

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

جو سب سے افضل ہے سب سے برتر

جو سب کا والی ہے سب کا یاور

*

وہ جس نے دونوں جہاں بنائے

زمین اور آسماں بنائے

*

وہ جس نے دولت ہمیں عطا کی

وہ جس نے شہرت ہمیں عطا کی

*

وہ جس نے دی ہم سبھوں کو عزت

وہ جس نے بخشی ہمیں مسرت

*

وہ جس کی ہم پر ہے مہربانی!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

*

وہ جس نے بخشی گلوں کو خوشبو

وہ جس نے دلکش بنائے جگنو

*

۹۳

وہ جس نے تارے سجائے ہر سو

وہ جس نے غنچے کھلائے ہر سو

*

یہ چاند سورج دیئے ہیں جس نے

پہاڑ پیدا کئے ہیں جس نے

*

وہ جس کے گن گا رہے ہیں سارے

وہ جس کے دم سے ہیں سب نظارے

*

جہاں پہ جس کی ہے حکمرانی!!

نہیں ہے کوئی بھی اس کا ثانی

***

۹۴

ڈاکٹر شرف الدین ساحلؔ

(۱)

شکست میرا مقدر سہی سنبھال مجھے

متاعِ صبر عطا کر دے ذوالجلال مجھے

*

فقط تری ہی محبت ہو خانۂ دل میں

اس آرزوئے حقیقی سے کر نہال مجھے

*

انا سے دل کو مرے پاک رکھ کہ اس کے سبب

عروج لے کے چلا جانبِ زوال مجھے

*

درست کر مری فطرت میں خامیاں ہیں بہت

نواز خوبیِ کردار و خوش خصال مجھے

*

وہ جس کمال نے صلحا کو سرفرازی دی

مرے کریم عطا کر وہی کمال مجھے

*

گناہگار ہوں ڈوبا ہوا ہوں عصیاں میں

تو اس عمیق سمندر سے اب نکال مجھے

***

۹۵

(۲)

میں بے قرار ہوں مجھ کو قرار دے ربی

مرا نصیب و مقدر سنوار دے ربی

*

ہوا ہے گلشنِ امید میرا پژمردہ

خزاں کی کوکھ سے فصلِ بہار دے ربی

*

قدم قدم پہ ہیں خارِ نفاق و بغض و حسد

اس امتحاں سے سلامت گزار دے ربی

*

میں مخلصانہ دعا دشمنوں کو دیتا رہوں

تو میرے دل میں وہ جذبہ ابھار دے ربی

*

میں جو کہوں یا لکھوں سب میں عشق ہو تیرا

میرے خیال کو اتنا نکھار دے ربی

*

بہت برا ہے گنا ہوں سے حال ساحلؔ کا

یہ بار سر سے تو اس کے اتار دے ربی

***

۹۶

(۳)

شمعِ عرفان و یقیں دل میں جلا دے مولیٰ

راہ جو سیدھی ہے، وہ راہ بتا دے مولیٰ

*

تجھ کو پانے میں یہ قوت ہے رکاوٹ کا سبب

فتنہ و شر کو مرے دل سے مٹا دے مولیٰ

*

یہ گرفتار ہے گردابِ مسائل میں ابھی

کشتیِ زیست مری پار لگا دے مولیٰ

*

میرا ہر لفظ ترے عشق کا مظہر بن جائے

سوچ کو میری وہ پاکیزہ ادا دے مولیٰ

*

تیرے مصحف کی تلاوت کروں آسانی سے

نور آنکھوں کا مری اتنا بڑھا دے مولیٰ

*

عالمِ فانی و باقی میں بھلائی دے دے

نار دوزخ سے بھی ساحلؔ کو بچا دے مولیٰ

***

۹۷

(۴)

فکر جب دی ہے مجھے اس میں اثر بھی دے دے

پیڑسرسبز دیا ہے تو ثمر بھی دے دے

*

راہِ پر خار سے میں ہنس کے گزر جاؤں گا

عزم کے ساتھ ہی توفیقِ سفر بھی دے دے

*

خانۂ دل مرا خالی ہے محبت سے تری

سیپ تو دی ہے مجھے اس میں گہر بھی دے دے

*

شکر تیرا کہ مجھے طاقت گویائی دی

التجا یہ ہے دعاؤں میں اثر بھی دے دے

*

سوچ کی ساری حدیں ختم ہوئیں تو نہ ملا

صبح کاذب کو مری نورِ سحر بھی دے دے

*

دوستی کرنے کا ساحل کو سلیقہ تو دیا

زیر کرنے کا حریفوں کو ہنر بھی دے دے

***

۹۸

فرید تنویر (ناگپور)

میرے دل میں ہوئی جب بھی کوئی خواہش مولا

ہو گئی تیری عنایات کی بارش مولا

*

تیرے خورشید کرم کی یہ ضیا باری ہے

زندگی میں ہے اجالوں کی نمائش مولا

*

نکلا طوفان حوادث سے سفینہ میرا

یہ ترا فضل ہے، یہ تیری نوازش مولا

*

ہو مرے حال پہ ہر وقت ترا لطف و کرم

دور ہر دم رہے افلاک کی گردش مولا

*

التجا ہے ترے تنویرؔ کی اے رب کریم

زندگی بھر نہ ہو اس سے کوئی لغزش مولا

***

۹۹

منظورالحسن منظور (پونہ)

حیات مہنگی، ممات سستی ہے کیسا قہر و وبال یا رب

کہیں تو آ کر ہو ختم آخر، یہ دور حزن و ملال یا رب

*

یہ چینچی میں عتاب روسی، یہ بوسنی میں لہو کے دریا

ہے خوں میں ڈوبا ہوا فلسطیں، یہ کیسا طرز رجال یا رب

*

نکل کے بدر و احد سے آگے، یہ آئے ہیں کربلا سے غازی

تھکے ہیں سارے ہی آبلہ پا، تو آ کے انکو سنبھال یا رب

*

چلے ہیں سر سے کفن کو باندھے، صلیب کاندھوں پہ لیکے اپنے

زباں پہ تیرا ہے ذکر پیہم، نظر میں تیرا جمال یا رب

*

دلوں میں خیر البشرؐ کی عظمت، ادا میں قرآں کا بانکپن ہے

یہی تو ہے زادِ راہ اپنا، یہی ہے مال و منال یا رب

*

کھڑے ہیں دارو رسن کی زد پر، مگر ہنسی ہے سبھوں کے لب پر

یہ سرفروشی کا عزمِ راسخ، ہے مومنانہ کمال یا رب

*

یہ جوش صہبائے عشق احمدؐ، کہ زیر خنجر بھی کہہ رہے ہیں

لہو سے ہو کر ہی سرخ رو اب، ملے گا تیرا وصال یا رب

*

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

آیت ۷۸:

(۷۸) قَالُوا یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَیْخًا کَبِیرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَکَانَهُ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ

(اس پر) ان لوگوں نے کہا : اے عزیز ! اس (بنیامین) کے والد بہت بوڑھے (آدمی) ہیں (اور اس کو بہت چاہتے ہیں)تو آپ اس کے عوض ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے اور اس کو چھوڑ دیجئے کیونکہ ہم آپ کو نیکوکار بزرگ سمجھتے ہیں ''۔

نکات:

جب برادران یوسف (ع)نے دیکھ لیا کہ بنیامین کا روکا جانا قطعی ہوگیا ہے تو حضرت یوسف (ع)کے سلسلے میں اپنے سابقے اور بنیامین کے بارے میں اپنے باپ سے کئے گئے عہد و پیمان کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز یہ احساس کرتے ہوئے کہ بنیامین کے بغیر پلٹنے کے نتائج بڑے تلخ ہوں گے، نفسیاتی طریقے سے حضرت یوسف (ع)سے التماس کرنے لگے۔ گڑگڑانے لگے اور احساسات کو بھڑکاتے ہوئے یہ کہنے لگے آپ(ع) صاحب عزت و قدرت اور نیک کردار ہیں ۔ اس کا باپ بوڑھا ہے اس کے بدلے میں آپ ہم میں سے کسی کو بھی غلام بنالیجئے اور سب بھائی بنیامین کی بخشش کرانے کےلئے آمادہ ہو گئے ۔

پیام:

۱۔ مقدارت الٰہی ایک دن ہر سنگ دل اور ستمگر کو ذلت ورسوائی کی خاک چٹواتی ہے بلکہ گڑگڑانے پر مجبور کردیتی ہے ان لوگوں کے جملہ( یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ...) کے آہنگ میں اس بات کا ثبوت موجود ہے۔

۲۔ اقتدار کے زمانے میںبھی حضرت یوسف (ع)کا نیک کردار نمایاں تھا۔(نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ )

۱۶۱

آیت ۷۹:

(۷۹) قَالَ مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ

''(حضرت یوسف نے)کہا : معاذاللہ (یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ )ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اسے چھوڑ کر دوسرے کو پکڑ لیں ؟(اگر ہم ایسا کریں)تو ہم ضروربڑے بے انصاف ٹھہریں گے''۔

نکات:

حضرت یوسف علیہ السلام کے نپے تلے الفاظ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ (ع)بنیامین کو چور ثابت کرنا نہیں چاہتے ہیں اسی لئے آپ (ع)نے ''وجدنا سارقا '' نہیں فرمایا بلکہ'' وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ'' فرمایا ۔ یعنی متاع و پیمانہ اس کے سامان میں تھا وہ خود چور نہیںہے ۔

اگر جناب یوسف (ع)بنیامین کے بجائے کسی دوسرے بھائی کو رکھ لیتے تو ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتا اس کے علاوہ دوسرے بھائی ، بنیامین کے ساتھ چوروں جیسا سلوک کرتے انہیں مختلف طریقوں سے اذیت پہنچاتے اور جو شخص بنیامین کے بجائے رکتا وہ یہ سوچتا کہ ناحق گرفتار ہوگیا ہوں۔

پیام:

۱۔ قانون کی رعایت ہر شخص پر لازم ہے حتی عزیز مصر کےلئے بھی قانون شکنی ممنوع ہے ۔(مَعَاذَ اﷲِ )

۲۔ قانون شکنی ظلم ہے (کسی کے کہنے پر قانون توڑنا صحیح نہیں ہے)( مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ لَظَالِمُونَ )

۳۔ بے گناہ کو گناہ گار کے بدلے سزا نہیں دینی چاہیئے اگرچہ وہ خود اس پر راضی ہو،(مَعَاذَ اﷲ)

۱۶۲

آیت ۸۰:

(۸۰) فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیًّا قَالَ کَبِیرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاکُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّی یَأْذَنَ لِی أَبِی أَوْ یَحْکُمَ اﷲُ لِی وَهُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ

''پھر جب یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو باہم مشورہ کرنے کے لئے الگ کھڑے ہوئے ۔ تو جو شخص ان سب میں بڑا تھا کہنے لگا ! (بھائیو!)کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ تمہارے والد نے تم سے خداکا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے تم لوگ یوسف کے بارے میں کیا کچھ تقصیر کر ہی چکے ہو،تو(بھائی) جب تک میرے والد مجھے اجازت (نہ) دیں یا خدا مجھے کوئی حکم (نہ) دے میں اس سرزمین سے ہرگز نہ ہلوں گا ۔اور خدا تو سب حکم دینے والوں سے کہیں بہتر ہے ''۔

نکات:

''خلصوا''یعنی اپنے گروہ کو دوسرے سے جدا کرنا'' نَجِیًّا'' یعنی سرگوشی کرنا ، لہٰذا''خَلَصُوا نَجِیًّا '' یعنی محرمانہ نشست( secret meeting ) تشکیل دی کہ اب کیا کریں ۔

۱۶۳

پیام:

۱۔ احکام الٰہی کو جاری کرنے کی راہ میں التماس و خواہشات مانع نہیں ہونا چاہئے۔(اسْتَیْئَسُوا مِنْه)

۲۔ ایک دن وہ تھا جب یہی بھائی اپنی قدرت کے نشہ میں مست ہوکر جناب یوسف (ع)کے سلسلے میں مشورہ کر رہے تھے کہ ان کو کیسے ختم کریں(اقتلوا یوسف او طرحوه ارضا لاتقتلوا القوه...) آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ کاسہئ التماس ہاتھوں میں لئے بنیامین کی آزادی کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اسی کاسہئ التماس کے ہمراہ نجویٰ اور سرگوشی کررہے ہیں کہ کیسے بنیامین کو آزاد کرایا جائے ۔(خَلَصُوا نَجِیًّ)

۳۔ تلخ اور ناگوار حوادث میں بڑے لوگ زیادہ ذمہ دار اور شرمسار ہوتے ہیں(قَالَ کَبِیرُ هُمْ)

۴۔ عہد و پیمان کا پوراکرنا ضروری ہوتا ہے۔( أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً)

۵۔ سخت اور محکم عہد وپیمان غلط فائدہ اٹھانے کی راہ کو مسدود کردیتے ہیں۔(أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً)

۶۔ خیانت اور جنایت مرتے دم تک زندہ ضمیروں کو اذیت پہنچاتی رہتی ہے۔(مِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ)

۷۔ دھرنا ڈالنا ایک پرانی روش اور انداز ہے۔(فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْض)

۸۔ غربت (یعنی پردیس کو وطن پر ترجیح دینا)شرمندگی سے بہتر ہے( فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ)

۹۔ خداوندعالم کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھناچاہئے ۔(هُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ )

۱۶۴

آیت ۸۱:

(۸۱) إِرْجِعُوا إِلَی أَبِیکُمْ فَقُولُوا یَاأَبَانَا إِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حافِظِینَ

''تم لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر ج اور (ان سے جاکر) عرض کرو اے بابا آپ کے صاحبزادے نے سچ مچ چوری کی ہے اور ہم لوگوں نے تواپنی دانست کے مطابق (اس کے لئے آنے کا عہد کیا تھا )اور ہم کچھ (از) غیبی (آفت )کے نگہبان تو تھے نہیں''۔

پیام:

۱۔ انسان خود خواہ ہے ،جب زیادہ گیہوں لانے کی بات تھی تو بھائیوں نے(ارسل معنا اخان) کہا یعنی ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ روانہ کردیجئے لیکن جب آج تہمت کی بات آئی تو(ابْنَکَ) (یعنی آپ کے صاحبزادے نے چوری کی )کہنے لگے ۔ ''ہمارے بھائی'' نہیں کہا۔

۲۔ شہادت اور گواہی ، علم کی بنیاد پرہونا چاہیئے ۔( وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَ)

۳۔ عہد و پیمان میں ان حوادث کے سلسلے میں بھی ایک تبصرہ کرنا چاہیئے جس کی پیش بینی نہ ہوئی ہو( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ...)

۴۔ عذر کو صراحت کے ساتھ پیش کرنا چاہیئے ۔( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ)

۱۶۵

آیت ۸۲:

(۸۲) وَسْئَلِ الْقَرْیَ الَّتِی کُنَّا فِیهَا وَالْعِیرَ الَّتِی أَقْبَلْنَا فِیهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

''اور (اگر ہماری باتوں پر اعتبار نہیں ہے تو)آپ اس بستی کے لوگوں سے جس میں ہم لوگ تھے پوچھ لیجئے اور اس قافلہ سے بھی جس میں ہم آئے ہیں (دریافت کرلیجئے ) اور ہم یقینا بالکل سچے ہیں ''۔

نکات:

''قریہ'' فقط دیہات کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر محل اجتماع اور رہائشی علاقہ کو ''قریہ'' کہتے ہیں چاہے وہ شہر ہو یا دیہات ۔ یہاں پر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہوسئل القریه سے مراد'' واسئل اهل القریه'' ہےں ۔یعنی اہل قریہ سے سوال کیجئے ۔

''عیر'' خوردونوش کی چیزوں کو لانے لے جانے والے کارواں کو کہا جاتا ہے۔

کل حضرت یوسف (ع)کے قتل کے سلسلے میں (کہ بھیڑیا یوسف کو کھا گیا) بھائیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی لیکن یہاں پر انہوں نے اپنے دعوے کی دو دلیلیں پیش کیں(۱) اہل مصر سے سوال کیجئے(۲) اہل قافلہ سے سوال کیجئے کہ جن کے ساتھ ہم نے سفر کیا، علاوہ ازیں حضرت یوسف (ع)کے قتل کے واقعہ میں ان لوگوں نے''لوکنا صادقین'' کہا تھا جس میں ''لو'' تردید ، بے چینی اور سستی کی علامت ہے لیکن اس واقعہ میں کلمہ''انّا' 'اور حرف لام کو جو''لَصَادِقُونَ ''میں ہے استعمال کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ و ہ قطعا ًسچے ہیں ۔

پیام:

۱۔ برا سابقہ اور جھوٹ تادم مرگ، انسان کی گفتگو قبول کرنے میں شک و تردید پیدا کردیتاہے ۔( وَاسْأَلْ الْقَرْیَ)

۲۔ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے عینی شاہدوں کی گواہی ایک معتبر روش ہے۔(وَاسْأَلْ الْقَرْیَ...وَالْعِیرَ...)

۱۶۶

آیت ۸۳:

(۸۳) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ

''(غرض جب ان لوگوں نے جاکر بیان کیا تو )یعقوب نے کہا :(اس نے چوری نہیں کی ہے)بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے گڑھ لی ہے، میں توصبر جمیل (اور خدا کاشکر)کروںگا خدا سے تو مجھے امید ہے کہ میرے سب (لڑکوں) کو میرے پاس پہنچا دے بے شک وہ بڑا واقف کار حکیم ہے''۔

نکات:

جب حضرت یوسف (ع)کے بھائی بناوٹی غمگین صورت میں ٹسوے بہاتے ہوئے خون بھرا کرتا لے کر اپنے بابا کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو اس وقت حضرت یعقوب (ع)نے فرمایا تھا(َبَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ ) یعنی یہ تمہارا نفس ہے جس نے اس کام کو تمہارے سامنے اچھا کرکے پیش کیا ہے لیکن میں بہترین صبرکروں گا۔

اور آج اس موقع پر جب آپ (ع)کے دو فرزند (بنیامین اور بڑا بیٹا) آپ (ع)سے جدا ہوگئے تو آپ (ع)نے پھر وہی جملہ دھرایا ۔ یہاں پر ممکن ہے ایک سوال پیداہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ماجرے میں تو ان لوگوں نے سازش اور خیانت کی تھی لیکن بنیامین کے سلسلے میں اس قسم کی بات نہ تھی پھر دونوں مواقع پر حضرت یعقوب (ع)کا لب ولہجہ ایک ہی کیوں ہے ؟(بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أمراً فَصَبْرٌ جَمِیل) تفسیر المیزان میں اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے: ''حضرت یعقوب (ع)بتانا چاہتے تھے کہ بنیامین کی دوری بھی تمہاری اسی پہلی حرکت کا نتیجہ ہے جو تم نے حضرت یوسف (ع)کے ساتھ انجام دی تھی یعنی یہ تمام تلخیاں اسی بدرفتاری کا نتیجہ ہیں ''۔

۱۶۷

یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا مقصد یہ تھاکہ تم یہاں بھی یہی خیال کررہے ہو کہ تم بے گناہ ہو اور تمہارا کام صحیح ہے جبکہ تم گناہ گار ہو کیونکہ سب سے پہلے تو یہ کہ تم نے اپنے بھائی کے سامان میں پیمانہ دیکھ کر اسے چور سمجھ لیا، ہوسکتا ہے کسی دوسرے نے اس کے غلہ میں پیمانہ ڈال دیا ہو ۔ دوسری بات یہ کہ تم لوگ اتنا جلدی کیوں پلٹ آئے ،تمہیں تحقیق کرنا چاہیئے تھی ۔ اور تیسری بات یہ کہ تم نے چور کی سزا اس کو غلام بنانا کیوں قراردیا(۱)

صبر کبھی ناچاری اور بے چارگی کی بنیاد پر ہوتا ہے جیساکہ اہل جہنم کہیں گے(سواء اصبرنا ام جز عنا) مقصود یہ ہے کہ صبر یا فریاد کرنا ہماری نجات کا باعث نہیں بن سکتا ، لیکن کبھی کبھی صبر باخبر ہونے کے باوجود اپنی پسند سے خداوندعالم کی رضا کی خاطر کیا جاتا ہے اس صبر کا رخ زیبا مختلف مقامات پر مختلف اندازمیں نکھرتا ہے ۔ میدان جنگ میں اس کا نام ''شجاعت'' ، دار دنیا میں اس کانام''زہد''، گناہوں کے مقابلے میں اس کانام ''تقوی''، شہوت کے مقابلے میں اس کانام ''عفت'' اور مال حرام کے مقابلے میں اس کانام ''ورع''ہے۔

--------------

(۱) تفسیر نمونہ، لیکن صاحب تفسیر المیزان کا کلام زیادہ مناسب ہے کیونکہ بنیامین کے سامان میں پیمانہ ملنے کی وجہ سے سب کو یقین ہو جاتاہے کہ وہی چور ہیں علاوہ ازیں بڑے بھائی کا مصر میں رکنا اسی کام کی تحقیق اور احساسات کو جلب کرنے کے لئے تھا اور چور کی سزا کی جو بات ہے تو اس علاقے میں چور کی سزا وہی تھی جو انہوں نے قرار دی بنابریں ان تینوںمیں سے کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں نفس کا دخل ہواور( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) کہا جائے۔

۱۶۸

پیام:

۱۔ نفس گناہوں کی توجیہ کے لئے برے کام کو انسان کی نگاہ میں اچھا کرکے دکھاتاہے( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) (۱)

۲۔ صبر کرنا مردان خدا کا شیوہ ہے اور'' صبر جمیل' 'اس صبر کو کہتے ہیں جس میں رضائے الٰہی کے لئے سر تسلیم خم کیا جائے اور زبان سے کوئی فقرہ بھی ادا نہ ہو(۲) ( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ )

۳۔ کبھی بھی قدرت خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے(عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعً)

۴۔ حضرت یعقوب (ع)کو اپنے تینوں فرزندوں (یوسف ، بنیامین ۔ بڑے بیٹے) کی زندگی کا یقین تھا اور ان سے ملاقات کی امید تھی(أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعً)

۵۔ پروردگار عالم تمام مسائل کو حل کرنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے خداوندعالم کل کے یوسف اور آج کے بنیامین وغیرہ کو جمع کرسکتا ہے ۔( جَمِیعً)

۶۔ مومن ،تلخ حوادث کو بھی خداوندعالم کی حکمت سمجھتا ہے ۔(الْحَکِیمُ )

۷۔ افعال الٰہی کے عالمانہ اور حکیمانہ ہونے پر یقین رکھنا انسان کو دشوار سے دشوار حادثات میں صبر وشکیبائی پر آمادہ کرتا ہے۔(فَصَبْرٌ جَمِیلٌ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیم)

--------------

(۱)شیطان بھی اسی چال کا استعمال کرتا ہے ۔(زین لھم الشیطان ماکانوا یعملون۔ انعام:۴۳)اسی طرح دنیا کے زرق برق بھی اس قسم کی خوشنمائی میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں ۔ حتی اذا اخذت الارض زخرفھا و ازینت ۔یونس ۲۴.

(۲)تفسیر نور اثقلین.

۱۶۹

آیت ۸۴:

(۸۴) وَتَوَلَّی عَنْهُمْ وَقَالَ یَاأَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ کَظِیمٌ

''اور یعقوب نے ان لوگوں سے منہ پھیر لیا اور (روکر) کہنے لگے : ہائے افسوس یوسف پر (اور اس قدر روئے کہ) غم کی وجہ سے ان کی آنکھیںسفید ہوگئیں وہ تو بڑے رنج کے ضابط تھے''۔

نکات:

کلمہ ''اسف'' غضب کے ہمراہ حزن وملال کو کہتے ہیں جناب یعقوب (ع)کی آنکھیں گریاں ، زبان پر ''یااسفا''اوردل میں حزن و ملال تھا ۔

ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا: میرے بابا علی بن الحسین + واقعہئ کربلا کے بعد بیس )۲۰(سال تک ہر گھڑی آنسو بہاتے رہے۔ آپ (ع)سے سوال کیا گیا آپ اتنا کیوں روتے ہیں ؟ تو آپ (ع)نے جواب دیا : یعقوب کے گیارہ فرزند تھے جس میں سے ایک غائب ہوا تھا جبکہ (وہ جانتے تھے کہ) وہ زندہ ہے لیکن اتنا روئے کہ آنکھےں سفید ہوگئیں جبکہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بابا، اپنے بھائیوں اور خاندان نبوت کے سترہ افراد کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے (ذرا بت)ہم کیسے آنسو نہ بہائیں؟

۱۷۰

پیام:

۱۔ حاسد کو ایک زمانہ تک حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔( وَتَوَلَّی عَنْهُمْ)

۲۔ ان لوگوں نے چاہا کہ یوسف کو درمیان سے نکال کر اپنے بابا کے محبوب ہوجائیں گے ۔(یخل لکم وجه ابیکم) لیکن حسد و جلن نے باپ کے قہر و غضب میں اضافہ کردیا(تَوَلَّی عَنْهُم)

۳۔ غم و اندوہ اور گریہ و زاری کبھی کبھی بصارت کے زائل ہونے کا سبب ہوتی ہے ۔(ابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْن)

۴۔ گریہ و غم، ضبط و تحمل اور صبر کے منافی نہیں ہے( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ یَاأَسَفَی، فَهُوَ کَظِیمٌ )

۵۔ حضرت یعقوب (ع)کو معلوم تھا کہ ظلم صرف یوسف (ع)پر ہوا ہے دوسروں پر نہیں۔(یاأَسَفَا عَلَی یُوسُف)

۶۔ فریاد وبکا سوز وعشق معرفت کے محتاج ہےں (حضرت یعقوب(ع) کو حضرت یوسف (ع)کی معرفت تھی اسی بنیاد پر ان کی آنکھوں کی بنیائی زائل ہوگئی۔)

۷۔ مصائب کی اہمیت کا دارومدار افراد کی شخصیت پر ہے (یوسف (ع)پر ڈھائے گئے مظالم دوسروں پر کئے گئے مظالم سے فرق رکھتے ہیں اسی لئے یوسف (ع)کا نام لیا جاتا ہے دوسروں کا ذکر بھی نہیں ہوتا)

۸۔ عزیزوں کے فراق میں غم واندوہ، آہ و بکا اور نوحہ و ماتم جائز ہے۔(وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ)

۱۷۱

آیت ۸۵:

(۸۵) قَالُوا تَاﷲِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِینَ

''(یہ دیکھ کر ان کے بیٹے )کہنے لگے آپ تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہئےے گا یہاں تک کہ بیمار ہوجائےے گا یا جان دے دیجئے گا''۔

نکات:

''حرض '' اس شخص کو کہتے ہیں جسے عشق یاحز ن ، کمزور و ناتواں بنادے۔

پیام:

۱۔ ہر یوسف (ع)کو ہمیشہ اپنی یادوں کے فانوس میں سجائے رکھنا چاہئےے(تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ) (جیسا کہ اولیائے الٰہی دعائے ندبہ میں یوسف زماں کو آواز دے کر آنسو بہاتے ہیں ۔)

۲۔ مقدس عشق اورملکوتی آہیں قابل قدر ہیں ۔( تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضً) (اولیائے خدا کی یاد خدا کی یاد ہے )(۱)

۳۔ نفسیاتی اور روحی مسائل جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں(حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِین) (فراق اور جدائی انسان کے وجود کو توڑ دیتی ہے بلکہ موت کی حد تک پہنچا دیتی ہے چہ جائیکہ اگر کوئی داغ مفارقت اور مصیبت کے پہاڑ اٹھائے ہوئے ہو۔)

۴۔ باپ کی محبت عام محبتوں سے جدا ہے۔( تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِینَ)

--------------

(۱) یعقوب (ع)اس سوز و گداز میں ہیں جسے عام افراد سمجھ نہیں سکتے ہیں(مجلس عزا ،نوحہ و ماتم پر طنز نہ کیجئے)

۱۷۲

آیت ۸۶:

(۸۶)قَالَ إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اﷲِ وَأَعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ

''یعقوب نے کہا : (میں تم سے کچھ نہیں کہتا ) میں تو اپنی بے

قراری اور رنج کی شکایت خدا ہی سے کرتا ہوں اور خدا کی طرف سے جوباتیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے''۔

نکات:

''بث'' اس شدید حزن وملال کو کہتے ہیں جس کی شدت کو صاحب غم بیان نہیں کرپاتا ۔

قرآن مجید میں ہے کہ حضرت آدم (ع)نے اپنے فعل پر خدا کی بارگاہ میں نالہ و شیون کیا(ربنا ظلمنا انفسنا) (۱) حضرت ایوب (ع)نے اپنی بیماری پر خدا سے فریاد کی(مسّنی الضر) (۲) حضرت موسی (ع)نے فقر و ناداری کی شکایت کی(رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر) (۳) اور حضرت یعقوب(ع) نے فراق فرزند میں آنسو بہائے(انما اشکو بثی و حزنی)

پیام:

۱۔ توحید پرست انسان ،اپنا درد فقط خدا سے کہتا ہے( إِنَّمَا أَشْکُو... إِلَی اﷲِ)

۲۔ جو چیز مذموم ہے وہ یا تو خاموشی ہے جو انسان کے قلب و اعضاء پر حملہ آور ہوتی ہے اور انسان کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے یا وہ نالہ و شیون ہے جو انسان کے

--------------

(۱)سورہ اعراف آیت ۲۳.

(۲) انبیاء آیت ۸۳

(۳)سورہ قصص آیت ۲۴.

۱۷۳

سامنے کیا جاتا ہے جس سے انسان کی قدر و منزلت میں کمی آجاتی ہے لیکن خد اسے شکایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(أَشْکُو... إِلَی اﷲِ)

۳۔ خدا سے گفتگو کرنے میں ایک لذت ہے جسے عام لوگ نہیں سمجھ سکتے ہیں۔(أَشْکُو بَثِّی إِلَی اﷲِ ...مَا لاَ تَعْلَمُونَ.) (۱)

۴۔ ظاہر بین افراد ،حوادث کے سامنے سے بڑی آسانی سے گزر جاتے ہیں اور اس سے کچھ حاصل نہیں کرپاتے ہیں، لیکن حقیقت بین افراد حادثات کے آثار کا تا قیامت مشاہدہ کرتے ہیں ۔(أَعْلَمُ مِنْ اﷲِ ...)

۵۔ حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی ، فراق کے خاتمہ کی مدت ،نیز خداوندعالم اور اس کی صفات سے آگاہ تھے لیکن یہ امور دوسروں پر مخفی تھے ۔(اعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

--------------

(۱)ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

دست حاجت چوں بری نزد خداوند بر

کہ کریم است و رحیم است و غفور است و ودود

نعمتش نامتناہی کرمش بی پایاں

ھیچ خوانندہ از این در نرود بی مقصود

۱۷۴

آیت ۸۷:

(۸۷)یَابَنِیَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَأَخِیهِ وَلاَ تَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِنَّهُ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ.

''اے میرے بیٹو! (ایک بار پھر مصر)ج اور یوسف اور اس کے بھائی کو (جس طرح بنے) تلاش کرو اور خدا کے فیض سے ناامید نہ ہونا کیونکہ خدا کے فیض سے کافروں کے سوا اور کوئی ناامید نہیں ہوا کرتا ''۔

نکات:

کسی چیز کے بارے میں حواس کے ذریعہ جستجو کرنے کو''تحسس'' کہتے ہیں ،''تحسس'' کسی کی اچھائی کے سلسلے میں جستجو کو کہتے ہیںلیکن کسی کی برائی کے کھوج اور تلاش میں لگنے کو''تجسس'' کہتے ہیں۔

راغب اصفہانی کے بیان کے مطابق ''رَوح اور رُوح'' دونوں جان کے معنی میں استعمال ہوتے ہیںلیکن روح، فرج ، گشائش اور رحمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے گویا مشکلات کا حل ہونا، انسان میں ایک تازہ اور نئی جان ڈال دیتا ہے، تفسیر تبیان میں ہے کہ رَوح کا مادہ ریح ہے جس طرح انسان ہوںکے جھونکوں سے سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے اسی طرح رحمت الٰہی سے بھی شادمان ہوتا ہے ۔

۱۷۵

پیام:

۱۔ باپ کو اپنے بچوں سے دائمی طور پر قطع تعلق نہیں کرنا چاہیئے ۔(فتولی عنهم یابنی)

۲۔ معرفت و شناخت کے لئے کوشش ضروری ہے۔(اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُو)

۳۔ لطف الٰہی تک پہنچنے میں سستی و کاہلی مانع ہے(اذْهَبُوا ، وَلاَ تَیْئَسُو) (۱)

۴۔اولیائے خدا بھی مایوس نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی ناامیدی کی راہ سے دور رکھتے ہیں(لاَ تَیْئَسُو)

۵۔ ناامیدی ، کفر کی علامت ہے کیونکہ مایوس ہونے والااپنے اندر یہی محسوس کرتا ہے کہ خدا کی قدرت ختم ہوگئی(لاَ یَیْئَسُ...إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ)

آیت ۸۸:

(۸۸) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْهِ قَالُوا یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَ مُزْجَ فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ

'' پھر جب یہ لوگ (تیسری بار) یوسف کے پاس گئے تو (بہت گڑگڑاکر ) عرض کی : اے عزیز مصر ! ہم کو اور ہمارے (سارے) کنبہ کو قحط کی وجہ سے بڑی تکلیف ہورہی ہے اور ہم کچھ تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں تو ہم کو (اس کے عوض ) پورا غلہ دلوا دیجئے اور (قیمت ہی پر نہیں) ہمیں (اپنا) صدقہ خیرات دیجئے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خدا صدقہ و خیرات دینے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے۔

--------------

(۱)روایات سے ثابت ہے کہ رحمت خداوندی سے مایوسی گناہ کبیرہ ہے (من لا یحضرہ الفقیہ باب معرف الکبائر)

۱۷۶

نکات:

''بضاعت'' اس مال کو کہتے ہیں جس پر قیمت کا عنوان صادق آتا ہو''مزج'' کا مادہ ''ازجاء '' ہے جس کے معنی ''دور کرنے'' کے ہیں کیونکہ بیچنے والے کم قیمت دیتے ہیں اس لئے ''بضاعت مزج'' کہتے ہیں ۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ'' تصدق علینا'' سے مراد یہ ہے کہ آپ بنیامین کو لوٹا دیجئے ۔

روایت میں ہے کہ حضرت یعقوب (ع)نے حضرت یوسف (ع)کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں ان کی جلالت قدر کو بیان فرمایا تھا۔ کنعان کی خشک سالی کا ذکر تھا اور بنیامین کی آزادی کی درخواست تھی آپ (ع)نے لکھاتھا کہ ''اب ہم پر رحم کرو اور احسان کرکے اسے رہائی دیدو اور اسے چوری کے الزام سے بری کردو '' اس خط کو آپ نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ حضرت یوسف (ع)کی خدمت میں روانہ کیا تھا، جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کے سامنے اس خط کو کھول کر پڑھا اس کا بوسہ لیا آنکھوں سے لگایا اور آنسوںکی بارش ہونے لگی جن کے قطرات آپ کے لباس پر گرنے لگے برادران جو ابھی تک حضرت یوسف (ع)کو نہیں پہنچانتے تھے تعجب کرنے لگے کہ یہ ہمارے باپ کا اتنا احترام کیوں کررہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں امیدوں کی کرن پھوٹنے لگی جب حضرت یوسف علیہ السلام کو ہنستے ہوئے دیکھا تو سوچنے لگے کہ کہیں یہی یوسف (ع)نہ ہوں(۱)

--------------

(۱)تفسیر نمونہ.

۱۷۷

پیام:

۱۔ حضرت یعقوب کو یوسف (ع)کی تلاش ہے ۔(فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُف) لیکن بھائیوں کو گیہوں کی پڑی ہے ۔( فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ)

۲۔ رسوا کرنے والے ایک دن خود رسوا ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ جو کل کہہ رہے تھے(نحن عصب) ہم طاقتور ہیں(سرق اخ له من قبل )اس سے پہلے اس کے بھائی نے چوری کی ہے ۔(انا ابانا لفی ضلال) ہمارے بابا گمراہی میں پڑ گئے ہیں ۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ذلیل و رسوا ہوکر خود کہہ رہے ہیں ۔(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرّ)

۳۔ حمایت اور مدد حاصل کرنے کے کچھ خاص طریقے ہیں۔

جس نے حمایت و مدد کی ہے اس کی تعریف و تمجید کی جائے۔( یَاأَیُّهَا الْعَزِیز)

اپنی نیاز مندی کے حال و احوال بیان کئے جائیں(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرّ)

مالی فقر کا تذکرہ ہو ۔(ِبِضَاعَ مُزْجَ)

مدد کے لئے کوئی سبب و علت ایجاد کرنا(وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ)

۴۔ فقر و محتاجی انسان کو ذلیل کردیتی ہے۔(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّر)

بقول فارسی شاعر:

آنچہ شیران را کند روبہ مزاج

احتیاج است احتیاج است احتیاج

۱۷۸

آیت ۸۹:

(۸۹) قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوسُفَ وَأَخِیهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ

''(اب تو یوسف سے نہ رہا گیا) کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ جب تم نادان تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟''

نکات:

ایک سوال میں ممکن ہے کہ مختلف مقاصد و اہداف پوشیدہ ہوں ، مثبت اورتعمیری اہداف یا منفی اور اذیت کنندہ مقاصد ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ سوال : تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۱۔ شاید اس لئے ہوکہ مجھے سب کچھ معلوم ہے۔

۲۔ ممکن ہے کہ سوال کا مقصد یہ ہو کہ تم نے بہت برا کام کیا ہے لہٰذا توبہ کرو ۔

۳۔ ممکن ہے بنیامین کی تسلی خاطر مدنظر ہو جو وہاں موجود تھے ۔

۴۔ممکن ہے کہ ان کی سرزنش اور ملامت مدنظر ہو ۔

۵۔ یا اپنی عزت آشکار کرنا مقصود ہو ۔

۶۔ یا اس بات کی سرزنش کررہے ہوں کہ تم کو اتنے مظالم کے بعد صدقہ و خیرات کی امید کیسے ہوگئی ؟ مذکورہ اہداف ومقاصد میں سے پہلے تین اہداف حضرت یوسف علیہ السلام کے اہداف سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن بقیہ موارد یوسفی کرامت اور جواں مردی (جسے آئندہ آیتیں واضح کریں گی ) کے خلاف ہےں( آپ (ع)نے بادشاہت کے رتبہ پر پہنچنے کے بعد چوری کا الزام سنا ) ، آپ کو چور کہا گیا لیکن آپ (ع)نے کچھ نہ کہا اور آخر کا ر اپنے بھائیوں سے کہہ دیا(لا تثریب علیکم الیوم)

جہالت فقط نادانی کانام نہیں ہے بلکہ ہوا و ہوس کا غلبہ بھی ایک قسم کی جہالت ہے ۔ گناہگار انسان چاہے جتنا بڑا عالم ہو جاہل ہے کیونکہ وہ متوجہ نہیں ہے کہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ خرید رہا ہے ۔

۱۷۹

پیام:

۱۔ جواں مردی یہ ہے کہ جرم کی جزئیات کو بیان نہ کیا جائے۔(مَا فَعَلْتُمْ)

۲۔ جوان مردی یہ ہے کہ( اشاروں میں) خطا کار کو عذر خواہی کا راستہ دکھایا جائے۔( إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُون)

آیت ۹۰:

(۹۰) قَالُوا أَإِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ قَالَ أَنَا یُوسُفُ وَهذَا أَخِی قَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَا إِنَّهُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ

''(اس پر وہ لوگ چونکے اور) کہنے لگے (ہائیں)کیا تم ہی یوسف ہو ؟ یوسف نے کہا : ہاں میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، بے شک خدانے مجھ پر احسان کیا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص (اس سے) ڈرتا ہے اور (مصیبت میں) صبر کرتا ہے تو خدا ہرگز (ایسے) نیکوکاروں کا اجر برباد نہیں کرتا ''۔ نکات:

زمانہ جتنا گزرتا جارہاتھا برادران اتنا ہی تعجب کی شدت سے مبہوت ہوئے جارہے تھے کہ عزیز مصر ہمارے بابا کے خط کو دیکھ کر کیوں رو رہے ہیں ؟ عزیز کو ماجرائے یوسف (ع)کا علم کہاں سے ہوگیا! غور سے دیکھا جائے تو اس کا چہرہ بالکل یوسف (ع)سے ملتا جلتا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ یہی یوسف (ع)ہو ؟ بہتر ہے کہ انہی سے پوچھ لیں اگر یہ یوسف (ع)نہ ہوئے تو کوئی ہمیں دیوانہ نہیں کہے گا لیکن اگر یہ یوسف (ع)ہوئے تو شرمندگی کی پھٹکار کا کیا ہوگا ؟ اس فکر نے بھائیوں کے وجود میں ہیجان برپا کردیا کہ ہم کیا کریں ؟ اسی ادھیڑ بن میں یکایک اس سوال سے سکوت کا طلسم ٹوٹا :أَاِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ ۔ کیا آپ ہی یوسف(ع) ہیں اس طلسم کے ٹوٹنے کے بعد کا سماں کیسا تھا وہاں کا ماحول کیا تھا آیا کسی نقاش میں اتنی صلاحیت ہے کہ اس کا نقشہ کھینچ سکے ؟ آیا شرمندگی و خوشی ، گریہ و محبت اور آغوش پھیلا کر سمیٹ لینا ان تمام دل کش اور روح فرسا مناظر کی تصویر کشی ہوسکتی ہے ؟ اسے تو بس خدا ہی جانتا ہے اور کوئی نہیں ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246