یوسف قرآن

یوسف قرآن 30%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174882 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : ‏تعلیم دین - ساده زبان میں-جلد اول

تالیف : آیة الله ابراهیم امینی

ترجمه :شیخ الجامعه مولانا الحاج اختر عباس صاحب

نظرثانی : حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

کتابت : جعفرخان سلطانپوری

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم ایران

طبع : صدر قم

تعداد : سه هزار

تاریخ : ۱۴۱۴ ھ

۳

عرض ناشر

کتاب تعلیم دین سادہ زبان میں حوزہ علمیہ قم کی ایک بلند پایہ علمی شخصیت حضرت آیة اللہ ابراہیم امینی کی گران مایہ تالیفات میں سے ایک سلسلہ ''آموزش دین در زبان سادہ کا اردو ترجمہ ہے _

اس کتاب کو خصوصیت کے ساتھ بچوں اور نوجوانوں کے لئے تحریر کیا گیا ہے _ لیکن اس کے مطالب اعلی علمی پیمانہ کے حامل ہیں اس بناپر اعلی تعلیم یافتہ اور پختہ عمر کے افراد بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں _

بچوں اور جوانوں کی مختلف ذہنی سطحوں کے پیش نظر اس سلسلہ کتب کو چار جلدوں میں تیار کیا گیا ہے _ کتاب ہذا اس سلسلہ کتب کی چوتھی جلد کے ایک حصّہ پر مشتمل ہے جسے کتاب کی ضخامت کے پیش نظر علیحدہ شائع کیا جارہا ہے _

اس سلسلہ کتب کی امتیازی خصوصیات درج ذیل ہے _

_کتاب کے مضامین گوکہ اعلی مطالب پر مشتمل ہیں لیکن انھیں دل نشین پیرائے اور سادہ زبان میں پیش کیا گیا ہے تا کہ یہ بچّوں کے لئے قابل

۴

فہم اور دلچسپ ہوں _

_اصول عقائد کے بیان کے وقت فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اتنا سادہ استدلالی طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ نو عمر طلبا اسے آسانی سے سمجھ سکتے ہیں _

_مطالب و معانی کے بیان کے وقت یہ کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والوں کی فطرت خداجوئی بیدار کی جائے تا کہ وہ از خود مطالب و مفاہیم سے آگاہ ہوکر انھیں دل کی گہرائیوں سے قبول کریں اور ان کا ایمان استوار پائیدار ہوجائے _

_ہماری درخواست پر حضرت حجة الاسلام و المسلمین شیخ الجامعہ الحاج مولانا اختر عباس صاحب قبلہ دام ظلہ نے ان چاروں کتابوں کا ترجمہ کیا _

ان کتابوں کا پہلا ایڈیشن پاکستان میں شائع ہواتھا اور اب اصل متن مؤلف محترم کی نظر ثانی کے بعد اور اردو ترجمہ حجة الاسلام جناب مولانا نثار احمد ہندی کی نظر ثانی اور بازنویسی کے بعد دوبارہ شائع کیا جارہاہے اپنی اس ناچیز سعی کو حضرت بقیة اللہ الاعظم امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں ہدیہ کرتا ہوں _

_ ہماری دلی آرزو ہے کہ قارئین گرامی کتاب سے متعلق اپنی آراء اور قیمتی مشوروں سے مطلع فرمائیں _

والسلام ناشر محمد تقی انصاریان

۵

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیش لفظ

یہ کتاب جس کا نام تعلیم دین سادہ زبان میں رکھا گیا ہے '' آموزش دین '' نامی کتاب کا اردو ترجمہ ہے _ جو معارف اسلامی کے مبتدی طلبا کے لئے تدوین اور ترتیب دی گئی ہے _ اس کتاب کے پڑھنے سے اصول عقائد کے ایک کامل باب اور اخلاق و آداب اور احکام اسلامی کے ضروری حصّہ سے واقفیت حاصل کی جا سکتی ہے _ اس میں کسی استاد کی بھی ضرورت نہیں رہتی _ اس کتاب کو خود آموز بھی کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ یہ کتاب سادہ زبان میں معارف اسلامی کے مبتدی طلبا کے لئے تدوین اور ترتیب دی گئی ہے لیکن اس کے مطالب بہت گہرے اور بلند پایہ ہیں کہ اس سے بڑے اور زیادہ استعداد رکھنے والے بھی مستفید ہوسکتے ہیں یہ کتاب چھ حصوں پر مشتمل ہے _

پہلا حصّہ خداشناسی _ دوسرا حصّہ معاد_ تیسرا حصّہ نبوت _ چوتھا حصّہ امامت پانچواں حصّہ احکام اور فروع دین اور چھٹا حصّہ اخلاق اور آداب کے بارے میں ہے اس کے ابتدائی حصّہ میں عقائد کا ایک پورا باب نہایت سادہ اور عام فہم ہے اور کچھ مطالب اخلاق و آداب اور ضروری احکام کے بارے میں ہیں_ اس کے حصّہ میں بھی اصول عقائد اور معارف اسلامی بیان کئے گئے ہیں لیکن طرز بیان ذرا

۶

اونچی سطح پر رکھا گیا ہے دیگر وہ اسلامی احکام اور اخلاق و آداب بھی بیان کئے گئے ہیں جن کا جاننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے _ گویا اس کتاب کے دونوں حصوں کے مطالب ایک دوسرے سے مربوط اور جڑے ہوئے ہیں _ جیسے ایک بدن کے اعضاء اور جوارح ہر طرح ہم آہنگ اور جڑے ہوئے ہوتے ہیں _

اس کتاب میں مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھا گیا ہے :

۱_ کتاب کے مطالب کو قصہ کے طور پر سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے تا کہ تمام لوگوں کے لئے موجب توجہ اور عام فہم ہوں اور ان کے اذہان میں بہتر طریقے سے اثر انداز ہوکر ان کے ایمان کے لئے موجب تقویت نہیں _

۲_ عقائد کا بیان استدلالی طور سے کیا گیا ہے اور اس کے دلائل سادہ اور مضبوط طریقے سے اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ جسکو ہر چھوٹا اور بڑا سمجھ سکے _

۳_ اس میں فلسفیانہ اور علم کلام کے مشکل طرز کے دلائل سے اجتناب کیا گیا ہے _

۴_ اللہ تعالی اور اس کے صفات کے اثبات کے لئے قرآنی طرز استدلالی کو اپنا یا گیا ہے _ یعنی جہان عالم اور نفوس انسانیہ کے مطالعے کو محور بنایا گیا ہے کہ جسے در حقیقت برہان نظم اور پیدائشے جہان کی غرض کے مشاہدہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے _

۵_ مطالب کے بیان کرنے میں کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے والے کی جستجو اور خدا کی فطرت کو اجاگر کیا جائے تا کہ وہ ان مطالب کو سمجھ سکے اور اس کے اندر نور ایمان پیدا ہوجائے کہ اس قسم کا ایمان مضبوط اور مستحکم اور پائیدار ہوتا ہے _

۶_ اخلاق اور آداب کے بیان کرنے میں بھی یہی کوشش کی گئی ہے کہ پڑھنے

۷

والے کی اس فطرت کو بیدار کیا جائے جو اچھائی کی طرف میلان رکھتی ہے اور کمال کو حاصل کرنے کی خواہشمند ہوتی ہے تا کہ اچھے اور بری صفات کا خود مشاہدہ کرتے ہوئے تکمیل کے راستے کو پالے اور اس کو اپنائے

۷_ ہر سبق کے آخر میں اس سبق کا خلاصہ اور ضروری مطالب کو سوال اور جواب کی صورت میں بیان کیا گیا ہے تا کہ پڑھنے والا ان کے جوابات دینے کے لئے دوبارہ اس سبق کو دیکھے اور پڑھے اور اپنی کوشش اور سعی سے اسے حل کرے

آخر میں یہ بتلانا ضروری ہے کہ یہ کتاب اگر چہ نئی اور حیرت انگیز ہے لیکن یہ کوئی نئی تالیف نہیں بلکہ وہی کتاب ہے کہ جس کا نام آموزش دین تھا جسے پانچ جلدوں میں چھاپا جا چکا ہے لیکن اب اسے'' انصاریان پیبلیشرز'' کی خواہش پر انہیں مطالب کو اس طرز بیان کے ساتھ تبدیل کرکے منظم کردیا گیا ہے _ اور یہ بتلانا بھی ضروری ہے کہ اس کے پہلے اور دوسرے حصّہ میں مسئلہ عدل اور دیگر فروعات دین سے بحث اس لئے انہیں کی گئی کہ اس کا سمجھنا اکثر پڑھنے والوں کے لئے مشکل تھا _ انشاء اللہ یہ مطالب اس کتاب کے تیسرے اور چوتھے حصّہ میں بیان کئے جائیں گے _ امید ہے کہ یہ کاوش بارگاہ خدا میں مقبول اور پڑھنے والوں کے لئے فائدہ مند اور قابل توجہ قرار پائے

ابراہیم امینی

قم _ حوزہ علمیہ

بہمن ماہ سنہ ۱۳۶۱ شمسی

۸

پہلا حصّہ

خداشناسی

۹

پہلا سبق

۱ مچھلی

کیا آپ کے گھر میں مچھلی ہے ؟

کیا آپ مچھلی کو پسند کرتے ہیں؟

مچھلی کہاں زندگی گزارتی ہے؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ مچھلی کس ذریعہ سے پانی میں تیرتی ہے؟

اگر مچھلی کے پر نہ ہوں تو کیا وہ پانی میں تیر سکے گی ؟

کیا مچھلی نے اپنے لئے پر خود بنا لے ہیں؟

نہیں مچھلی نے اپنے پر خود نہیں بنالے اور نہ ہی کسی انسان نے اس کے پر بنائے ہیں بلکہ خداوند قادر و مہربان جانتا تھا کہ اس خوبصورت حیوان کے لئے پر ضرور ی ہیں اس لئے اسے پر عطا کئے تا کہ وہ پانی میں تیر سکے

گھر میں کسی برتن میں مچھلی ڈالٹے اور اپنے دوست کے ساتھ مل کر دیکھئے اور دیکھئے کہ مچھلی کس طرح سانس لیتی ہے ؟ کس طرح تیرتی ہے ؟ کس طرح پانی میں اوپر نیچے جاتے ہیں؟ کس وقت اپنی دم ہلا تی ہے ؟ اس وقت اپنے دوست سے پوچھئے _ کہ مچھلی کو کس نے پیدا کیا ہے _

۱۰

دوسرا سبق

پانی میں مچھلی کا دم کیوں نہیں گھٹتا

ایک دن احمد بچوں کے ساتھ گر میں کھیل رہا تھا_ اس کی ماں نے کہا _ بیٹا احمد ہوشیار حوض کے نزدیک نہ جانا _ ڈرتی ہوں کہ تم حوض میں نہ گرپڑو کیا تم نے ہمسائے کے لڑکے حسن کو نہیں دیکھا تھا کہ وہ حوض میں گر کر مرگیا تھا؟ احمد نے کہا اماں جان ہم اگر حوض میں گر جائیں تو مرجاتے ہیں _ اور مچھلیاں پانی کے نیچے رہتے ہوئے کیوں نہیں مرجاتیں؟ دیکھئے وہ پانی میں کتنا عمدہ تیر رہے ہیں ؟ اس کی ماں نے جواب دیا _ انسان کے لئے سانس لینا ضروری ہے تا کہ وہ زندہ رہ سکے _ اسی لئے ہم پانی کے نیچے زندہ نہیں رہ سکتے لیکن مچھلی کے اندر ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے ذریعے پانی میں سانس لے سکتی ہے اور جو تھوڑی بہت ہوا پانی کے اندر موجود ہے اس سے استفادہ کرتی رہتی ہے_ اسی لئے وہ پانی کے اندر زندہ رہ سکتی

کون مچھلی کیلئے فکرکررہا تھا

احمد نے ماں سے پوچھا: اماں جان کون مچھلی کے لئے ایسا فکر کررہا تھا _ مچھلی از خود تو نہیں جانتی تھی کہ کہاں اسے زندہ رہنا چاہی ے اور کون سی

۱۱

چیز اس کے لئے ضروری ہے _

اس کی ماں نے جواب دیا : بیٹا خدائے علیم اور مہربان مچھلی کے لئے فکر کررہا تھا _ اللہ تعالی جانتا تھا کہ اس خوبصورت جانور کو پانی کے اندر زندگی گزارنا ہے _ اس لئے اس نے مچھلی کے اندر ایسا وسیلہ رکھ دیا کہ جس کے ذریعہ سے وہ سانس لے سکے مچھلی پانی میں آبی پھپیھڑوں کے ذریعہ سانس لیتی ہے _

سوالات

۱_ احمد کی ماں کو کس چیز کا خوف تھا؟

۲_ ہمسائے کے لڑکے کا کیا نام تھا؟

۳_ وہ کیوں ڈوب گیا ؟

۴_ کیا وہ تیرنا جانتا تھا؟

۵_ کیا انسان پانی میں زندہ رہ سکتا ہے؟

۶_ پانی میں مچھلی کیوں نہیں مرتی؟

۷_ کون سی ذات مچھلی کے فکر میں تھی؟

۸_ کسی نے مچھلی کو پیدا کیا ؟

درج ذیل جملے مکمل کیجئے

اللہ _ جانتا _ کہ اس خوبصورت جانور کو پانی کے اندر زندگی گزارنی ہے اس کے لئے _ کہ جس کے ذریعے وہ وہاں سانس لے سکے

۱۲

تیسرا سبق

۳ داؤد اور سعید سیر کو گئے

داؤد اور سعید باپ کے ساتھ باغ میں سیر کرنے گئے _ باغ بہت خوبصورت تھا درخت سرسبز اور بلند تھے _ رنگارنگ عمدہ پھول تھے _ باغ کے وسط میں ایک نہر گزرتی تھی کہ جس میں بطخیں تیر رہی تھیں _ بطخیں بہت آرام سے پانی میں تیر رہی تھیں وہ پانی میں اپنا سرڈبوکرکوئی چیز پکڑکرکھارہی تھیں _ اچانک سعید نے ایک چڑیا دیکھی کہ جس کے پر تر ہو چکے تھے اور وہ نہیں اڑ سکتی تھی اس نے داؤد سے کہا:

بھائی جان دیکھئے : اس بیچاری چڑیا کہ پر پھیگ چکے ہیں اور وہ نہیں اڑ سکتی داؤد نے ایک نگاہ چڑیا پر او دوسری نگاہ بطخوں پر ڈالی اور تعجب سے کہا کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے کتنی آرام سے پانی میں تیر رہی ہیں اور جب پانی سے باہر آتی ہیں تو اس کے پر اس طرح خشک ہوتے ہیں _ جیسے وہ پانی میں گئی ہی نہیں _ سعید نے ایک نظر بطخوں پر ڈالی اور کہا آپ سچ کہہ رہے ہیں _ لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟ بہتر یہی ہے کہ یہ بات اپنے والد سے پوچھیں کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے اور چھڑیوں کے پر کیوں بھیگ جاتے ہیں

بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے

سعید اور داود ڈرتے ہوئے والد کے پاس گئے اور ان سے کہا _ ابا جان آیئےطخوں کو پانی میں تیرتے دیکھئے کہ ان کے پر بالکل نہیں بھیگتے _ ابا جان بطخوں کے پر کیوں

۱۳

نہیں بھیگتے ؟ یہ سب نہر کے کنارے آئے _ والد نے کہا: شاباش ابھی سے ان چیزوں کو سمجھنے کی فکر میں ہو انسان کو چاہیئے کہ وہ جس چیز کو دیکھے اس میں غور و فکر کرے اور جسے نہیں جانتا وہ اس سے پوچھے کہ جواسے جانتا ہے _ تا کہ یہ بھی اس سے آگاہ ہوجائے _

خوبصورت بطخوں کو خدا نے پیدا کیا ہے

چونکہ بطخوں کے پر چکنے ہوتے ہیں اس لئے پانی کا ان پر اثر نہیں ہوتا ہے اگر بطخوں کے پر چکنے نہ ہوتے تو پانی میں بھیگ جاتے اور بھاری ہوجاتے اور مرغابی پانی میں نہ تیر سکتی اور نہ ہوا میں اڑسکتی _

سعید نہ کہا: ابا جان یہ حکمت کس ذات کی تھی؟ بطخیں خود تو نہیں جانتی تھیں کہ کس طرح اور کس ذریعے سے وہ اپنے پروں کو چکنا بنائیں _ باپ نے جواب دیا : عالم اور مہربان خدا کہ جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے _ وہ جانتا تھا کہ بطخوں کو پانی میں تیرنا ہے انہیں اس طرح پیدا کیا کہ ان کے پر ہمیشہ چکنے رہیں تا کہ وہ آسانی کے ساتھ پانی میں تیرسکیں _ اور ہوامیں اڑسکیں _

سوالات

۱_ سعید اور داؤد باغ میں کس لئے گئے تھے؟

۲_ انہوں نے باغ میں کیا دیکھا؟

۱۴

۳_ نہر کے کنارے چڑیا کیوں گری پڑی تھی اور اڑنہیں سکتی تھی؟

۴_ سعید کو کس چیز سے تعجب ہوا؟

۵_ انسان کو جب کسی چیز کا علم نہ ہو تو کیا کرے ؟

۶_ سوال کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟

۷_ جب کسی چیز کو نہ جانے تو کس سے پوچھے؟

۸_ اگر بطخ کے پر چکنے نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟

۹_ کیا بطخیں جانتی تھیں کہ اس کے پروں کو چکنا ہونا چاہیئے؟

۱۰_ کس نے بطخ کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے پر ہمیشہ کیلئے چکنے ہوتے ہیں؟

۱۱_ ان چیزوں کو کس نے پیدا کیا ہے ؟

یہ جملے مکمل کیجئے

۱_ خوبصورت بطخوں کو ... ... کسے پیدا کیا ہے

۲_ شاباش ابھی سے تم ... ... کے سمجھنے کی فکر میں ہو

۳_ ہم جن چیزوں کو دیکھتے ہیں اس میں ... ... کریں

۴_ اور جسے نہیں جانتے وہ اس سے ... ... جو اسے جانتا ہے

۵_ چونکہ بطخوں کے پر ... ... ... پانی کو وہاں تک نہیں پہونچنے دیتے

۶_ اگر بطخوں کے پر چکنے نہ ہوتے تو ... ... ... جاتے

۷_ اللہ تعالی کی ... ... ... مہربان ذات کہ جسے تمام چیزوں کو پید اکیا ہے ... ... کہ بطخوں کو ... میں تیرنا ہے انہیں ... ... کہ انکے پر ہمیشہ چکنے رہیں

۸_ تاکہ وہ آسانی ... پانی میں ... اور ہوا میں ... سکے

۹_ اللہ تعالی کی ... ... مہربان ذات ... ... ... بطخوں کی فکر میں بھی تھی

۱۵

چوتھاسبق

۴ خوبصورت نو مولود بچہ

زہرا کا ایک بھائی پیدا ہوا جس کا نام مجید تھا _ زہرا بہت خوش تھی اور اسے اپنے نو مولود بھائی سے بہت محبت تھی _ ایک دن اپنے بھائی کے گہوارے کے پاس کھڑی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی تھوڑی دیر بعد اپنی ماں سے کہنے لگی اماں جان مجید کب بڑا ہوگا تا کہ وہ مجھ سے کھیل سکے : میں اپنے بھائی کو بہت چاہتی ہوں اس کی ماں نے کہا: پیاری زہرا صبرکرو _ انشاء اللہ مجید بڑا ہوگا اور تم آپس میں کھیلوگی اچانک مجید جاگ اٹھا اور اپنی نحیف آواز سے رونا شروع کردیا _ زہرا بے تاب ہوکر ماں سے کہنے لگی : اماں جان مجید کیوں رورہا ہے _ اس کی ماں نے جواب دیا _ شاید یہ بھوکا ہے _ زہرا دوڑی اور تھوڑی سی مٹھائی لے کر اس کے منھ میں ڈالنے لگی : جلدی سے ماں نے کہا پیاری زہرا مجید مٹھائی نہیں کھا سکتا _ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اس کے دانت نہیں ہیں خبردار کوئی چیز اس کے منہ میں نہ ڈالنا _ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ گلے میں پھنس جائے اور اس کا دم گھٹ جائے _ زہرا نے پوچھا پھر مجید کی غذا کون سی ہے _ ماں نے کہا: بیٹی مجید کی غذا دودھ ہے _ وہ دودھ پی کر یسر ہو تا ہے _ ماں اٹھی اور اس نے نو مولود کو دامن میں لے کر اپنے پستان اس کے منہ میں دے دیئے مجید نے ماں کے پستان منہ میں لے کر اپنے نازک لبوں سے انہیں چومنا شروع کردیا _ زہرا نے تھوڑی دیر مجید کو اور ماں کو دیکھا: اور پھر تعجب سے بولی اماں جان

۱۶

کیا آپ کے پستانوں میں اسے سے پہلے بھی دودھ تھا ؟ ماں نے کہا : نہیں ان میں پہلے دودھ نہ تھا : لیکن جس دن سے مجید نے دنیا میں قدم رکھا ہے میرے پستانوں میں دودھ بھر گیا ہے _ زہرا بولی اماں جان آپ کیسے مجید کے لئے دودھ بناتی ہیں ماں نے کہا کہ دودھ کا بن جانا میرے ہاتھ میں نہیں ہے میں غذا کھاتی ہوں : غذا سے دودھ بن جاتا ہے _ زہرا بولی کہ آپ اس سے پہلے بھی تو غذا کھاتی تھیں تو اس وقت یہ دودھ کیوں نہیں بنتا تھا؟ ماں نے جواب دیا صحیح ہے : میں اس سے پہلے بھی ہی غذا کی فکر تھی_ خدا جانتا تھا کہ جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے _ اور خدا یہ بھی جانتا تھا کہ مجید کے دانت نہیں ہیں اور وہ ہماری طرح غذا نہیں کھا سکتا اسی لئے خدا نے اس کی ماں کے پستانوں کو دودھ سے بھردیا ہے تا کہ ناتواں بچہ بہتر اور سالم غذا کھا سکے _ پیاری زہرا دودھ ایک مکمل غذا ہے جس میں بچے کے بدن کی تمام ضروریات موجود ہیں _ اور بچہ آسانی سے اسے ہضم بھی کر سکتا ہے _ زہرا نے کہا اماں جان ہمارا خدا کتنا مہربان اور جاننے والا ہے _ اگر دودھ نہ ہوتا تو چھوٹا بچہ کیا کھاتا _ ماں نے کہا جی ہاں بیٹا خدا ہی تو ہے جس نے بچہ کو پیدا کیا ہے اور اسے غذا دیتا ہے _ خدائے مہربان ہی صحیح اور سالم دودھ بچے کے لئے بناتا ہے _ خداوند عالم کو بچے کی کمزوری کا علم تھا اسی لئے اسنے بچہ کی محبت ماں کے دل میں ڈالی تا کہ وہ اس کی نگہداشت اور پرورش کرے

۱۷

خداوند عالم نے کمزور اور بے زبان بچے کو یہ سکھایا ہے کہ جب وہ بھوکا ہو تو وہ رونا شروع کردے تا کہ ماں اس کی مدد کرے_

سوچ کران سوالوں کا جواب دیجئے

۱_ جب زہرا نے مجید کو دیکھا تھا تو اس نے اپنی ماں سے کیا کہا؟

۲_ کیا زہرا اپنے بھائی سے محبت کرتی تھی؟ اس کی دلیل دیجئے؟

۳_ کیا دودھ کا بنانا ماں کی قدرت میں ہے _ اورکیوں؟

۴_ یہ بات تمہیں کہاں سے معلوم ہوئی کہ خداوند عالم کو مجید کے مستقبل کا علم تھا ؟

۵_ کیسے علم ہوا ہے کہ خداوند : عالم اور مہربان ہے ؟

۶_ اگر دودھ نہ ہوتا تو نو مولود بچے کیا کھاتے ؟

۷_ اگر ماں کو بچے سے محبت نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟

۸_ کس نے بچے کی محبت ماں کے دل میں ڈالی ہے ؟

۹_ اگر بچہ بھوک کے وقت نہ روتا تو کیا ہوتا ؟

۱۰_ اگر بچہ چو سنا نہ جانتا تو ماں اسے کیسے دودھ دیتی ؟

۱۱_ رونا اور چوسنا کس نے بچہ کی فطرت میں رکھا ہے ؟

۱۸

پانچو سبق

۵ چروا ہے نے درس دیا

اکبر اور حسین چھٹی کے دن علی آباد نامی گاؤں میں گئے _ علے آباد بہت خوبصورت اور آباد گاؤں ہے اس میں بڑے بڑے باغ اور سبز کھیت ہیں گائے اور بھیڑوں کے گلے آبادی کے اطراف میں چرر ہے تھے _ بکریوں اوربھیڑوں کے بچے اپنی ماؤں کے ساتھ کھیل کودرہے تھے _ اکبر اور حسین ان کا تماشا دیکھ کر لطف اندوز ہورہے تھے _ اچانک اکبر کی نگاہ ایک خوبصورت بھیڑ پر پڑی جس نے ابھی بچہ جنا تھا اور وہ اسے چاٹ رہی تھی _ اکبر نے چروا ہے سے کہا کہ یہ بھیڑ کیوں اپنے بچے کو چاٹ رہی ہے ؟ چروا ہے نے کہا : اس بھیڑنے ابھی بچہ جنا ہے _ بچے کو دوست رکھتی ہے اور اسے صاف کرنا چاہتی ہے _ بچہ صاف ستھرا ہوگیا اور ماں کے تھنوں کی طرف لپکا _ تھن کو منہ میں لیا اور دودھ پینا شروع کردیا _ اکبر نے حسین سے کہا: اس بچے کو دیکھو ابھی دنیا میں آیا ہے لیکن فوراماں کے تھن معلوم کرلئے ہیں اسے کہاں سے معلوم ہوگیا کہ تھنوں میں دودھ ہے اور تھین ماں کے پیٹ کے نیچے ہے ؟ کس نے اسے یہ بتلایا ہے _ اس چوٹے بچے نے اس فہم اور دانائی کو کس سے سیکھا ہے ؟

چرواہا اکبر اور حسین کی یہ گفتگو سن رہا تھا _ اس نے کہا : پیارے بچو اللہ تعالی جو مہربان اور علیم ہے اس نے ایسی سمجھ چھوٹے بچے کو عطا کردی ہے یہ بچہ بھوکا ہے اور علم ہے کہ ماں کے تھنوں میں دودھ ہے اور وہ ماں کے پیٹ کے نیچے ہیں

۱۹

اور وہ بھی جانتا ہے اسکے علاوہ اور غذا اس کے لئے اچھی نہیں ہے _ یہ تمام چیزیں اللہ تعالی نے اسے سکھائی ہیں اگر بچے کو ان چیزوں کا علم نہ ہو تو ممکن ہے کہ یہ مرجائے حسین نہ کہا: اچھا ہے کہ دودھ اس کے گلے میں نہیں پھنستا ور نا یہ مرجاتا _ چرواہے نے کہا : پیارے بچو اللہ بہت دانا اور بہت مہربان ہے اس نے تھنوں میں بڑا سوراخ نہیں رکھاتا کہ اس سے زیادہ دودھ نہ نکل آئے اور بچے کے گلے میں پھنس جائے تھنوں کے سرپر کئی ایک چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں کہ بچے کو چوسنے سے اس سے دودھ باہر آتا ہے _ اس کے علاوہ تھنوں کے سرے کو اس طرح بنا دیا گیا ہے کہ بچہ بہت آسانی سے اس کو منہ میں لے کر دودھ پی لیتا ہے _

سوچ کر جواب دیجئے

۱_ تم نے جب بچہ پیدا ہوتا دیکھا تو وہ کیا کرتا ہے ؟

۲_ اگر بچہ کو علم نہ ہوتا کہ دودھ کے تھن کہاں ہیں تو کیا ہوتا؟

۳_ اگر بچہ سنا نہ چانتا تو کیا ہوتا؟

۴_ جب بچہ بھوکا ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے ؟

۵_ کس نے یہ ہوش اور دانانی بھیڑ کے بچے کو عنایت کی ہے ؟

۶_ آیا تم نے کبھی بھیڑ کے بچے کو بغل میں لیا ہے کیا تم نے کبھی اسے بوتل سے دودھ پلایا ہے؟

۷_ اگر تھنوں کا سوراخ بڑا ہوتا تو کیا ہوتا؟

۸_ چروا ہے نے اکبر اور حسین کو کون سا درس دیا ؟

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

آیت ۷۸:

(۷۸) قَالُوا یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَیْخًا کَبِیرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَکَانَهُ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ

(اس پر) ان لوگوں نے کہا : اے عزیز ! اس (بنیامین) کے والد بہت بوڑھے (آدمی) ہیں (اور اس کو بہت چاہتے ہیں)تو آپ اس کے عوض ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے اور اس کو چھوڑ دیجئے کیونکہ ہم آپ کو نیکوکار بزرگ سمجھتے ہیں ''۔

نکات:

جب برادران یوسف (ع)نے دیکھ لیا کہ بنیامین کا روکا جانا قطعی ہوگیا ہے تو حضرت یوسف (ع)کے سلسلے میں اپنے سابقے اور بنیامین کے بارے میں اپنے باپ سے کئے گئے عہد و پیمان کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز یہ احساس کرتے ہوئے کہ بنیامین کے بغیر پلٹنے کے نتائج بڑے تلخ ہوں گے، نفسیاتی طریقے سے حضرت یوسف (ع)سے التماس کرنے لگے۔ گڑگڑانے لگے اور احساسات کو بھڑکاتے ہوئے یہ کہنے لگے آپ(ع) صاحب عزت و قدرت اور نیک کردار ہیں ۔ اس کا باپ بوڑھا ہے اس کے بدلے میں آپ ہم میں سے کسی کو بھی غلام بنالیجئے اور سب بھائی بنیامین کی بخشش کرانے کےلئے آمادہ ہو گئے ۔

پیام:

۱۔ مقدارت الٰہی ایک دن ہر سنگ دل اور ستمگر کو ذلت ورسوائی کی خاک چٹواتی ہے بلکہ گڑگڑانے پر مجبور کردیتی ہے ان لوگوں کے جملہ( یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ...) کے آہنگ میں اس بات کا ثبوت موجود ہے۔

۲۔ اقتدار کے زمانے میںبھی حضرت یوسف (ع)کا نیک کردار نمایاں تھا۔(نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ )

۱۶۱

آیت ۷۹:

(۷۹) قَالَ مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ

''(حضرت یوسف نے)کہا : معاذاللہ (یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ )ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اسے چھوڑ کر دوسرے کو پکڑ لیں ؟(اگر ہم ایسا کریں)تو ہم ضروربڑے بے انصاف ٹھہریں گے''۔

نکات:

حضرت یوسف علیہ السلام کے نپے تلے الفاظ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ (ع)بنیامین کو چور ثابت کرنا نہیں چاہتے ہیں اسی لئے آپ (ع)نے ''وجدنا سارقا '' نہیں فرمایا بلکہ'' وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ'' فرمایا ۔ یعنی متاع و پیمانہ اس کے سامان میں تھا وہ خود چور نہیںہے ۔

اگر جناب یوسف (ع)بنیامین کے بجائے کسی دوسرے بھائی کو رکھ لیتے تو ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتا اس کے علاوہ دوسرے بھائی ، بنیامین کے ساتھ چوروں جیسا سلوک کرتے انہیں مختلف طریقوں سے اذیت پہنچاتے اور جو شخص بنیامین کے بجائے رکتا وہ یہ سوچتا کہ ناحق گرفتار ہوگیا ہوں۔

پیام:

۱۔ قانون کی رعایت ہر شخص پر لازم ہے حتی عزیز مصر کےلئے بھی قانون شکنی ممنوع ہے ۔(مَعَاذَ اﷲِ )

۲۔ قانون شکنی ظلم ہے (کسی کے کہنے پر قانون توڑنا صحیح نہیں ہے)( مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ لَظَالِمُونَ )

۳۔ بے گناہ کو گناہ گار کے بدلے سزا نہیں دینی چاہیئے اگرچہ وہ خود اس پر راضی ہو،(مَعَاذَ اﷲ)

۱۶۲

آیت ۸۰:

(۸۰) فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیًّا قَالَ کَبِیرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاکُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّی یَأْذَنَ لِی أَبِی أَوْ یَحْکُمَ اﷲُ لِی وَهُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ

''پھر جب یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو باہم مشورہ کرنے کے لئے الگ کھڑے ہوئے ۔ تو جو شخص ان سب میں بڑا تھا کہنے لگا ! (بھائیو!)کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ تمہارے والد نے تم سے خداکا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے تم لوگ یوسف کے بارے میں کیا کچھ تقصیر کر ہی چکے ہو،تو(بھائی) جب تک میرے والد مجھے اجازت (نہ) دیں یا خدا مجھے کوئی حکم (نہ) دے میں اس سرزمین سے ہرگز نہ ہلوں گا ۔اور خدا تو سب حکم دینے والوں سے کہیں بہتر ہے ''۔

نکات:

''خلصوا''یعنی اپنے گروہ کو دوسرے سے جدا کرنا'' نَجِیًّا'' یعنی سرگوشی کرنا ، لہٰذا''خَلَصُوا نَجِیًّا '' یعنی محرمانہ نشست( secret meeting ) تشکیل دی کہ اب کیا کریں ۔

۱۶۳

پیام:

۱۔ احکام الٰہی کو جاری کرنے کی راہ میں التماس و خواہشات مانع نہیں ہونا چاہئے۔(اسْتَیْئَسُوا مِنْه)

۲۔ ایک دن وہ تھا جب یہی بھائی اپنی قدرت کے نشہ میں مست ہوکر جناب یوسف (ع)کے سلسلے میں مشورہ کر رہے تھے کہ ان کو کیسے ختم کریں(اقتلوا یوسف او طرحوه ارضا لاتقتلوا القوه...) آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ کاسہئ التماس ہاتھوں میں لئے بنیامین کی آزادی کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اسی کاسہئ التماس کے ہمراہ نجویٰ اور سرگوشی کررہے ہیں کہ کیسے بنیامین کو آزاد کرایا جائے ۔(خَلَصُوا نَجِیًّ)

۳۔ تلخ اور ناگوار حوادث میں بڑے لوگ زیادہ ذمہ دار اور شرمسار ہوتے ہیں(قَالَ کَبِیرُ هُمْ)

۴۔ عہد و پیمان کا پوراکرنا ضروری ہوتا ہے۔( أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً)

۵۔ سخت اور محکم عہد وپیمان غلط فائدہ اٹھانے کی راہ کو مسدود کردیتے ہیں۔(أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً)

۶۔ خیانت اور جنایت مرتے دم تک زندہ ضمیروں کو اذیت پہنچاتی رہتی ہے۔(مِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ)

۷۔ دھرنا ڈالنا ایک پرانی روش اور انداز ہے۔(فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْض)

۸۔ غربت (یعنی پردیس کو وطن پر ترجیح دینا)شرمندگی سے بہتر ہے( فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ)

۹۔ خداوندعالم کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھناچاہئے ۔(هُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ )

۱۶۴

آیت ۸۱:

(۸۱) إِرْجِعُوا إِلَی أَبِیکُمْ فَقُولُوا یَاأَبَانَا إِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حافِظِینَ

''تم لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر ج اور (ان سے جاکر) عرض کرو اے بابا آپ کے صاحبزادے نے سچ مچ چوری کی ہے اور ہم لوگوں نے تواپنی دانست کے مطابق (اس کے لئے آنے کا عہد کیا تھا )اور ہم کچھ (از) غیبی (آفت )کے نگہبان تو تھے نہیں''۔

پیام:

۱۔ انسان خود خواہ ہے ،جب زیادہ گیہوں لانے کی بات تھی تو بھائیوں نے(ارسل معنا اخان) کہا یعنی ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ روانہ کردیجئے لیکن جب آج تہمت کی بات آئی تو(ابْنَکَ) (یعنی آپ کے صاحبزادے نے چوری کی )کہنے لگے ۔ ''ہمارے بھائی'' نہیں کہا۔

۲۔ شہادت اور گواہی ، علم کی بنیاد پرہونا چاہیئے ۔( وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَ)

۳۔ عہد و پیمان میں ان حوادث کے سلسلے میں بھی ایک تبصرہ کرنا چاہیئے جس کی پیش بینی نہ ہوئی ہو( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ...)

۴۔ عذر کو صراحت کے ساتھ پیش کرنا چاہیئے ۔( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ)

۱۶۵

آیت ۸۲:

(۸۲) وَسْئَلِ الْقَرْیَ الَّتِی کُنَّا فِیهَا وَالْعِیرَ الَّتِی أَقْبَلْنَا فِیهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

''اور (اگر ہماری باتوں پر اعتبار نہیں ہے تو)آپ اس بستی کے لوگوں سے جس میں ہم لوگ تھے پوچھ لیجئے اور اس قافلہ سے بھی جس میں ہم آئے ہیں (دریافت کرلیجئے ) اور ہم یقینا بالکل سچے ہیں ''۔

نکات:

''قریہ'' فقط دیہات کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر محل اجتماع اور رہائشی علاقہ کو ''قریہ'' کہتے ہیں چاہے وہ شہر ہو یا دیہات ۔ یہاں پر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہوسئل القریه سے مراد'' واسئل اهل القریه'' ہےں ۔یعنی اہل قریہ سے سوال کیجئے ۔

''عیر'' خوردونوش کی چیزوں کو لانے لے جانے والے کارواں کو کہا جاتا ہے۔

کل حضرت یوسف (ع)کے قتل کے سلسلے میں (کہ بھیڑیا یوسف کو کھا گیا) بھائیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی لیکن یہاں پر انہوں نے اپنے دعوے کی دو دلیلیں پیش کیں(۱) اہل مصر سے سوال کیجئے(۲) اہل قافلہ سے سوال کیجئے کہ جن کے ساتھ ہم نے سفر کیا، علاوہ ازیں حضرت یوسف (ع)کے قتل کے واقعہ میں ان لوگوں نے''لوکنا صادقین'' کہا تھا جس میں ''لو'' تردید ، بے چینی اور سستی کی علامت ہے لیکن اس واقعہ میں کلمہ''انّا' 'اور حرف لام کو جو''لَصَادِقُونَ ''میں ہے استعمال کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ و ہ قطعا ًسچے ہیں ۔

پیام:

۱۔ برا سابقہ اور جھوٹ تادم مرگ، انسان کی گفتگو قبول کرنے میں شک و تردید پیدا کردیتاہے ۔( وَاسْأَلْ الْقَرْیَ)

۲۔ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے عینی شاہدوں کی گواہی ایک معتبر روش ہے۔(وَاسْأَلْ الْقَرْیَ...وَالْعِیرَ...)

۱۶۶

آیت ۸۳:

(۸۳) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ

''(غرض جب ان لوگوں نے جاکر بیان کیا تو )یعقوب نے کہا :(اس نے چوری نہیں کی ہے)بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے گڑھ لی ہے، میں توصبر جمیل (اور خدا کاشکر)کروںگا خدا سے تو مجھے امید ہے کہ میرے سب (لڑکوں) کو میرے پاس پہنچا دے بے شک وہ بڑا واقف کار حکیم ہے''۔

نکات:

جب حضرت یوسف (ع)کے بھائی بناوٹی غمگین صورت میں ٹسوے بہاتے ہوئے خون بھرا کرتا لے کر اپنے بابا کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو اس وقت حضرت یعقوب (ع)نے فرمایا تھا(َبَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ ) یعنی یہ تمہارا نفس ہے جس نے اس کام کو تمہارے سامنے اچھا کرکے پیش کیا ہے لیکن میں بہترین صبرکروں گا۔

اور آج اس موقع پر جب آپ (ع)کے دو فرزند (بنیامین اور بڑا بیٹا) آپ (ع)سے جدا ہوگئے تو آپ (ع)نے پھر وہی جملہ دھرایا ۔ یہاں پر ممکن ہے ایک سوال پیداہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ماجرے میں تو ان لوگوں نے سازش اور خیانت کی تھی لیکن بنیامین کے سلسلے میں اس قسم کی بات نہ تھی پھر دونوں مواقع پر حضرت یعقوب (ع)کا لب ولہجہ ایک ہی کیوں ہے ؟(بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أمراً فَصَبْرٌ جَمِیل) تفسیر المیزان میں اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے: ''حضرت یعقوب (ع)بتانا چاہتے تھے کہ بنیامین کی دوری بھی تمہاری اسی پہلی حرکت کا نتیجہ ہے جو تم نے حضرت یوسف (ع)کے ساتھ انجام دی تھی یعنی یہ تمام تلخیاں اسی بدرفتاری کا نتیجہ ہیں ''۔

۱۶۷

یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا مقصد یہ تھاکہ تم یہاں بھی یہی خیال کررہے ہو کہ تم بے گناہ ہو اور تمہارا کام صحیح ہے جبکہ تم گناہ گار ہو کیونکہ سب سے پہلے تو یہ کہ تم نے اپنے بھائی کے سامان میں پیمانہ دیکھ کر اسے چور سمجھ لیا، ہوسکتا ہے کسی دوسرے نے اس کے غلہ میں پیمانہ ڈال دیا ہو ۔ دوسری بات یہ کہ تم لوگ اتنا جلدی کیوں پلٹ آئے ،تمہیں تحقیق کرنا چاہیئے تھی ۔ اور تیسری بات یہ کہ تم نے چور کی سزا اس کو غلام بنانا کیوں قراردیا(۱)

صبر کبھی ناچاری اور بے چارگی کی بنیاد پر ہوتا ہے جیساکہ اہل جہنم کہیں گے(سواء اصبرنا ام جز عنا) مقصود یہ ہے کہ صبر یا فریاد کرنا ہماری نجات کا باعث نہیں بن سکتا ، لیکن کبھی کبھی صبر باخبر ہونے کے باوجود اپنی پسند سے خداوندعالم کی رضا کی خاطر کیا جاتا ہے اس صبر کا رخ زیبا مختلف مقامات پر مختلف اندازمیں نکھرتا ہے ۔ میدان جنگ میں اس کا نام ''شجاعت'' ، دار دنیا میں اس کانام''زہد''، گناہوں کے مقابلے میں اس کانام ''تقوی''، شہوت کے مقابلے میں اس کانام ''عفت'' اور مال حرام کے مقابلے میں اس کانام ''ورع''ہے۔

--------------

(۱) تفسیر نمونہ، لیکن صاحب تفسیر المیزان کا کلام زیادہ مناسب ہے کیونکہ بنیامین کے سامان میں پیمانہ ملنے کی وجہ سے سب کو یقین ہو جاتاہے کہ وہی چور ہیں علاوہ ازیں بڑے بھائی کا مصر میں رکنا اسی کام کی تحقیق اور احساسات کو جلب کرنے کے لئے تھا اور چور کی سزا کی جو بات ہے تو اس علاقے میں چور کی سزا وہی تھی جو انہوں نے قرار دی بنابریں ان تینوںمیں سے کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں نفس کا دخل ہواور( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) کہا جائے۔

۱۶۸

پیام:

۱۔ نفس گناہوں کی توجیہ کے لئے برے کام کو انسان کی نگاہ میں اچھا کرکے دکھاتاہے( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) (۱)

۲۔ صبر کرنا مردان خدا کا شیوہ ہے اور'' صبر جمیل' 'اس صبر کو کہتے ہیں جس میں رضائے الٰہی کے لئے سر تسلیم خم کیا جائے اور زبان سے کوئی فقرہ بھی ادا نہ ہو(۲) ( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ )

۳۔ کبھی بھی قدرت خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے(عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعً)

۴۔ حضرت یعقوب (ع)کو اپنے تینوں فرزندوں (یوسف ، بنیامین ۔ بڑے بیٹے) کی زندگی کا یقین تھا اور ان سے ملاقات کی امید تھی(أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعً)

۵۔ پروردگار عالم تمام مسائل کو حل کرنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے خداوندعالم کل کے یوسف اور آج کے بنیامین وغیرہ کو جمع کرسکتا ہے ۔( جَمِیعً)

۶۔ مومن ،تلخ حوادث کو بھی خداوندعالم کی حکمت سمجھتا ہے ۔(الْحَکِیمُ )

۷۔ افعال الٰہی کے عالمانہ اور حکیمانہ ہونے پر یقین رکھنا انسان کو دشوار سے دشوار حادثات میں صبر وشکیبائی پر آمادہ کرتا ہے۔(فَصَبْرٌ جَمِیلٌ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیم)

--------------

(۱)شیطان بھی اسی چال کا استعمال کرتا ہے ۔(زین لھم الشیطان ماکانوا یعملون۔ انعام:۴۳)اسی طرح دنیا کے زرق برق بھی اس قسم کی خوشنمائی میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں ۔ حتی اذا اخذت الارض زخرفھا و ازینت ۔یونس ۲۴.

(۲)تفسیر نور اثقلین.

۱۶۹

آیت ۸۴:

(۸۴) وَتَوَلَّی عَنْهُمْ وَقَالَ یَاأَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ کَظِیمٌ

''اور یعقوب نے ان لوگوں سے منہ پھیر لیا اور (روکر) کہنے لگے : ہائے افسوس یوسف پر (اور اس قدر روئے کہ) غم کی وجہ سے ان کی آنکھیںسفید ہوگئیں وہ تو بڑے رنج کے ضابط تھے''۔

نکات:

کلمہ ''اسف'' غضب کے ہمراہ حزن وملال کو کہتے ہیں جناب یعقوب (ع)کی آنکھیں گریاں ، زبان پر ''یااسفا''اوردل میں حزن و ملال تھا ۔

ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا: میرے بابا علی بن الحسین + واقعہئ کربلا کے بعد بیس )۲۰(سال تک ہر گھڑی آنسو بہاتے رہے۔ آپ (ع)سے سوال کیا گیا آپ اتنا کیوں روتے ہیں ؟ تو آپ (ع)نے جواب دیا : یعقوب کے گیارہ فرزند تھے جس میں سے ایک غائب ہوا تھا جبکہ (وہ جانتے تھے کہ) وہ زندہ ہے لیکن اتنا روئے کہ آنکھےں سفید ہوگئیں جبکہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بابا، اپنے بھائیوں اور خاندان نبوت کے سترہ افراد کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے (ذرا بت)ہم کیسے آنسو نہ بہائیں؟

۱۷۰

پیام:

۱۔ حاسد کو ایک زمانہ تک حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔( وَتَوَلَّی عَنْهُمْ)

۲۔ ان لوگوں نے چاہا کہ یوسف کو درمیان سے نکال کر اپنے بابا کے محبوب ہوجائیں گے ۔(یخل لکم وجه ابیکم) لیکن حسد و جلن نے باپ کے قہر و غضب میں اضافہ کردیا(تَوَلَّی عَنْهُم)

۳۔ غم و اندوہ اور گریہ و زاری کبھی کبھی بصارت کے زائل ہونے کا سبب ہوتی ہے ۔(ابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْن)

۴۔ گریہ و غم، ضبط و تحمل اور صبر کے منافی نہیں ہے( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ یَاأَسَفَی، فَهُوَ کَظِیمٌ )

۵۔ حضرت یعقوب (ع)کو معلوم تھا کہ ظلم صرف یوسف (ع)پر ہوا ہے دوسروں پر نہیں۔(یاأَسَفَا عَلَی یُوسُف)

۶۔ فریاد وبکا سوز وعشق معرفت کے محتاج ہےں (حضرت یعقوب(ع) کو حضرت یوسف (ع)کی معرفت تھی اسی بنیاد پر ان کی آنکھوں کی بنیائی زائل ہوگئی۔)

۷۔ مصائب کی اہمیت کا دارومدار افراد کی شخصیت پر ہے (یوسف (ع)پر ڈھائے گئے مظالم دوسروں پر کئے گئے مظالم سے فرق رکھتے ہیں اسی لئے یوسف (ع)کا نام لیا جاتا ہے دوسروں کا ذکر بھی نہیں ہوتا)

۸۔ عزیزوں کے فراق میں غم واندوہ، آہ و بکا اور نوحہ و ماتم جائز ہے۔(وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ)

۱۷۱

آیت ۸۵:

(۸۵) قَالُوا تَاﷲِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِینَ

''(یہ دیکھ کر ان کے بیٹے )کہنے لگے آپ تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہئےے گا یہاں تک کہ بیمار ہوجائےے گا یا جان دے دیجئے گا''۔

نکات:

''حرض '' اس شخص کو کہتے ہیں جسے عشق یاحز ن ، کمزور و ناتواں بنادے۔

پیام:

۱۔ ہر یوسف (ع)کو ہمیشہ اپنی یادوں کے فانوس میں سجائے رکھنا چاہئےے(تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ) (جیسا کہ اولیائے الٰہی دعائے ندبہ میں یوسف زماں کو آواز دے کر آنسو بہاتے ہیں ۔)

۲۔ مقدس عشق اورملکوتی آہیں قابل قدر ہیں ۔( تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضً) (اولیائے خدا کی یاد خدا کی یاد ہے )(۱)

۳۔ نفسیاتی اور روحی مسائل جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں(حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِین) (فراق اور جدائی انسان کے وجود کو توڑ دیتی ہے بلکہ موت کی حد تک پہنچا دیتی ہے چہ جائیکہ اگر کوئی داغ مفارقت اور مصیبت کے پہاڑ اٹھائے ہوئے ہو۔)

۴۔ باپ کی محبت عام محبتوں سے جدا ہے۔( تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِینَ)

--------------

(۱) یعقوب (ع)اس سوز و گداز میں ہیں جسے عام افراد سمجھ نہیں سکتے ہیں(مجلس عزا ،نوحہ و ماتم پر طنز نہ کیجئے)

۱۷۲

آیت ۸۶:

(۸۶)قَالَ إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اﷲِ وَأَعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ

''یعقوب نے کہا : (میں تم سے کچھ نہیں کہتا ) میں تو اپنی بے

قراری اور رنج کی شکایت خدا ہی سے کرتا ہوں اور خدا کی طرف سے جوباتیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے''۔

نکات:

''بث'' اس شدید حزن وملال کو کہتے ہیں جس کی شدت کو صاحب غم بیان نہیں کرپاتا ۔

قرآن مجید میں ہے کہ حضرت آدم (ع)نے اپنے فعل پر خدا کی بارگاہ میں نالہ و شیون کیا(ربنا ظلمنا انفسنا) (۱) حضرت ایوب (ع)نے اپنی بیماری پر خدا سے فریاد کی(مسّنی الضر) (۲) حضرت موسی (ع)نے فقر و ناداری کی شکایت کی(رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر) (۳) اور حضرت یعقوب(ع) نے فراق فرزند میں آنسو بہائے(انما اشکو بثی و حزنی)

پیام:

۱۔ توحید پرست انسان ،اپنا درد فقط خدا سے کہتا ہے( إِنَّمَا أَشْکُو... إِلَی اﷲِ)

۲۔ جو چیز مذموم ہے وہ یا تو خاموشی ہے جو انسان کے قلب و اعضاء پر حملہ آور ہوتی ہے اور انسان کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے یا وہ نالہ و شیون ہے جو انسان کے

--------------

(۱)سورہ اعراف آیت ۲۳.

(۲) انبیاء آیت ۸۳

(۳)سورہ قصص آیت ۲۴.

۱۷۳

سامنے کیا جاتا ہے جس سے انسان کی قدر و منزلت میں کمی آجاتی ہے لیکن خد اسے شکایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(أَشْکُو... إِلَی اﷲِ)

۳۔ خدا سے گفتگو کرنے میں ایک لذت ہے جسے عام لوگ نہیں سمجھ سکتے ہیں۔(أَشْکُو بَثِّی إِلَی اﷲِ ...مَا لاَ تَعْلَمُونَ.) (۱)

۴۔ ظاہر بین افراد ،حوادث کے سامنے سے بڑی آسانی سے گزر جاتے ہیں اور اس سے کچھ حاصل نہیں کرپاتے ہیں، لیکن حقیقت بین افراد حادثات کے آثار کا تا قیامت مشاہدہ کرتے ہیں ۔(أَعْلَمُ مِنْ اﷲِ ...)

۵۔ حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی ، فراق کے خاتمہ کی مدت ،نیز خداوندعالم اور اس کی صفات سے آگاہ تھے لیکن یہ امور دوسروں پر مخفی تھے ۔(اعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

--------------

(۱)ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

دست حاجت چوں بری نزد خداوند بر

کہ کریم است و رحیم است و غفور است و ودود

نعمتش نامتناہی کرمش بی پایاں

ھیچ خوانندہ از این در نرود بی مقصود

۱۷۴

آیت ۸۷:

(۸۷)یَابَنِیَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَأَخِیهِ وَلاَ تَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِنَّهُ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ.

''اے میرے بیٹو! (ایک بار پھر مصر)ج اور یوسف اور اس کے بھائی کو (جس طرح بنے) تلاش کرو اور خدا کے فیض سے ناامید نہ ہونا کیونکہ خدا کے فیض سے کافروں کے سوا اور کوئی ناامید نہیں ہوا کرتا ''۔

نکات:

کسی چیز کے بارے میں حواس کے ذریعہ جستجو کرنے کو''تحسس'' کہتے ہیں ،''تحسس'' کسی کی اچھائی کے سلسلے میں جستجو کو کہتے ہیںلیکن کسی کی برائی کے کھوج اور تلاش میں لگنے کو''تجسس'' کہتے ہیں۔

راغب اصفہانی کے بیان کے مطابق ''رَوح اور رُوح'' دونوں جان کے معنی میں استعمال ہوتے ہیںلیکن روح، فرج ، گشائش اور رحمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے گویا مشکلات کا حل ہونا، انسان میں ایک تازہ اور نئی جان ڈال دیتا ہے، تفسیر تبیان میں ہے کہ رَوح کا مادہ ریح ہے جس طرح انسان ہوںکے جھونکوں سے سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے اسی طرح رحمت الٰہی سے بھی شادمان ہوتا ہے ۔

۱۷۵

پیام:

۱۔ باپ کو اپنے بچوں سے دائمی طور پر قطع تعلق نہیں کرنا چاہیئے ۔(فتولی عنهم یابنی)

۲۔ معرفت و شناخت کے لئے کوشش ضروری ہے۔(اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُو)

۳۔ لطف الٰہی تک پہنچنے میں سستی و کاہلی مانع ہے(اذْهَبُوا ، وَلاَ تَیْئَسُو) (۱)

۴۔اولیائے خدا بھی مایوس نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی ناامیدی کی راہ سے دور رکھتے ہیں(لاَ تَیْئَسُو)

۵۔ ناامیدی ، کفر کی علامت ہے کیونکہ مایوس ہونے والااپنے اندر یہی محسوس کرتا ہے کہ خدا کی قدرت ختم ہوگئی(لاَ یَیْئَسُ...إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ)

آیت ۸۸:

(۸۸) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْهِ قَالُوا یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَ مُزْجَ فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ

'' پھر جب یہ لوگ (تیسری بار) یوسف کے پاس گئے تو (بہت گڑگڑاکر ) عرض کی : اے عزیز مصر ! ہم کو اور ہمارے (سارے) کنبہ کو قحط کی وجہ سے بڑی تکلیف ہورہی ہے اور ہم کچھ تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں تو ہم کو (اس کے عوض ) پورا غلہ دلوا دیجئے اور (قیمت ہی پر نہیں) ہمیں (اپنا) صدقہ خیرات دیجئے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خدا صدقہ و خیرات دینے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے۔

--------------

(۱)روایات سے ثابت ہے کہ رحمت خداوندی سے مایوسی گناہ کبیرہ ہے (من لا یحضرہ الفقیہ باب معرف الکبائر)

۱۷۶

نکات:

''بضاعت'' اس مال کو کہتے ہیں جس پر قیمت کا عنوان صادق آتا ہو''مزج'' کا مادہ ''ازجاء '' ہے جس کے معنی ''دور کرنے'' کے ہیں کیونکہ بیچنے والے کم قیمت دیتے ہیں اس لئے ''بضاعت مزج'' کہتے ہیں ۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ'' تصدق علینا'' سے مراد یہ ہے کہ آپ بنیامین کو لوٹا دیجئے ۔

روایت میں ہے کہ حضرت یعقوب (ع)نے حضرت یوسف (ع)کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں ان کی جلالت قدر کو بیان فرمایا تھا۔ کنعان کی خشک سالی کا ذکر تھا اور بنیامین کی آزادی کی درخواست تھی آپ (ع)نے لکھاتھا کہ ''اب ہم پر رحم کرو اور احسان کرکے اسے رہائی دیدو اور اسے چوری کے الزام سے بری کردو '' اس خط کو آپ نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ حضرت یوسف (ع)کی خدمت میں روانہ کیا تھا، جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کے سامنے اس خط کو کھول کر پڑھا اس کا بوسہ لیا آنکھوں سے لگایا اور آنسوںکی بارش ہونے لگی جن کے قطرات آپ کے لباس پر گرنے لگے برادران جو ابھی تک حضرت یوسف (ع)کو نہیں پہنچانتے تھے تعجب کرنے لگے کہ یہ ہمارے باپ کا اتنا احترام کیوں کررہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں امیدوں کی کرن پھوٹنے لگی جب حضرت یوسف علیہ السلام کو ہنستے ہوئے دیکھا تو سوچنے لگے کہ کہیں یہی یوسف (ع)نہ ہوں(۱)

--------------

(۱)تفسیر نمونہ.

۱۷۷

پیام:

۱۔ حضرت یعقوب کو یوسف (ع)کی تلاش ہے ۔(فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُف) لیکن بھائیوں کو گیہوں کی پڑی ہے ۔( فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ)

۲۔ رسوا کرنے والے ایک دن خود رسوا ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ جو کل کہہ رہے تھے(نحن عصب) ہم طاقتور ہیں(سرق اخ له من قبل )اس سے پہلے اس کے بھائی نے چوری کی ہے ۔(انا ابانا لفی ضلال) ہمارے بابا گمراہی میں پڑ گئے ہیں ۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ذلیل و رسوا ہوکر خود کہہ رہے ہیں ۔(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرّ)

۳۔ حمایت اور مدد حاصل کرنے کے کچھ خاص طریقے ہیں۔

جس نے حمایت و مدد کی ہے اس کی تعریف و تمجید کی جائے۔( یَاأَیُّهَا الْعَزِیز)

اپنی نیاز مندی کے حال و احوال بیان کئے جائیں(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرّ)

مالی فقر کا تذکرہ ہو ۔(ِبِضَاعَ مُزْجَ)

مدد کے لئے کوئی سبب و علت ایجاد کرنا(وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ)

۴۔ فقر و محتاجی انسان کو ذلیل کردیتی ہے۔(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّر)

بقول فارسی شاعر:

آنچہ شیران را کند روبہ مزاج

احتیاج است احتیاج است احتیاج

۱۷۸

آیت ۸۹:

(۸۹) قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوسُفَ وَأَخِیهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ

''(اب تو یوسف سے نہ رہا گیا) کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ جب تم نادان تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟''

نکات:

ایک سوال میں ممکن ہے کہ مختلف مقاصد و اہداف پوشیدہ ہوں ، مثبت اورتعمیری اہداف یا منفی اور اذیت کنندہ مقاصد ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ سوال : تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۱۔ شاید اس لئے ہوکہ مجھے سب کچھ معلوم ہے۔

۲۔ ممکن ہے کہ سوال کا مقصد یہ ہو کہ تم نے بہت برا کام کیا ہے لہٰذا توبہ کرو ۔

۳۔ ممکن ہے بنیامین کی تسلی خاطر مدنظر ہو جو وہاں موجود تھے ۔

۴۔ممکن ہے کہ ان کی سرزنش اور ملامت مدنظر ہو ۔

۵۔ یا اپنی عزت آشکار کرنا مقصود ہو ۔

۶۔ یا اس بات کی سرزنش کررہے ہوں کہ تم کو اتنے مظالم کے بعد صدقہ و خیرات کی امید کیسے ہوگئی ؟ مذکورہ اہداف ومقاصد میں سے پہلے تین اہداف حضرت یوسف علیہ السلام کے اہداف سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن بقیہ موارد یوسفی کرامت اور جواں مردی (جسے آئندہ آیتیں واضح کریں گی ) کے خلاف ہےں( آپ (ع)نے بادشاہت کے رتبہ پر پہنچنے کے بعد چوری کا الزام سنا ) ، آپ کو چور کہا گیا لیکن آپ (ع)نے کچھ نہ کہا اور آخر کا ر اپنے بھائیوں سے کہہ دیا(لا تثریب علیکم الیوم)

جہالت فقط نادانی کانام نہیں ہے بلکہ ہوا و ہوس کا غلبہ بھی ایک قسم کی جہالت ہے ۔ گناہگار انسان چاہے جتنا بڑا عالم ہو جاہل ہے کیونکہ وہ متوجہ نہیں ہے کہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ خرید رہا ہے ۔

۱۷۹

پیام:

۱۔ جواں مردی یہ ہے کہ جرم کی جزئیات کو بیان نہ کیا جائے۔(مَا فَعَلْتُمْ)

۲۔ جوان مردی یہ ہے کہ( اشاروں میں) خطا کار کو عذر خواہی کا راستہ دکھایا جائے۔( إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُون)

آیت ۹۰:

(۹۰) قَالُوا أَإِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ قَالَ أَنَا یُوسُفُ وَهذَا أَخِی قَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَا إِنَّهُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ

''(اس پر وہ لوگ چونکے اور) کہنے لگے (ہائیں)کیا تم ہی یوسف ہو ؟ یوسف نے کہا : ہاں میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، بے شک خدانے مجھ پر احسان کیا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص (اس سے) ڈرتا ہے اور (مصیبت میں) صبر کرتا ہے تو خدا ہرگز (ایسے) نیکوکاروں کا اجر برباد نہیں کرتا ''۔ نکات:

زمانہ جتنا گزرتا جارہاتھا برادران اتنا ہی تعجب کی شدت سے مبہوت ہوئے جارہے تھے کہ عزیز مصر ہمارے بابا کے خط کو دیکھ کر کیوں رو رہے ہیں ؟ عزیز کو ماجرائے یوسف (ع)کا علم کہاں سے ہوگیا! غور سے دیکھا جائے تو اس کا چہرہ بالکل یوسف (ع)سے ملتا جلتا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ یہی یوسف (ع)ہو ؟ بہتر ہے کہ انہی سے پوچھ لیں اگر یہ یوسف (ع)نہ ہوئے تو کوئی ہمیں دیوانہ نہیں کہے گا لیکن اگر یہ یوسف (ع)ہوئے تو شرمندگی کی پھٹکار کا کیا ہوگا ؟ اس فکر نے بھائیوں کے وجود میں ہیجان برپا کردیا کہ ہم کیا کریں ؟ اسی ادھیڑ بن میں یکایک اس سوال سے سکوت کا طلسم ٹوٹا :أَاِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ ۔ کیا آپ ہی یوسف(ع) ہیں اس طلسم کے ٹوٹنے کے بعد کا سماں کیسا تھا وہاں کا ماحول کیا تھا آیا کسی نقاش میں اتنی صلاحیت ہے کہ اس کا نقشہ کھینچ سکے ؟ آیا شرمندگی و خوشی ، گریہ و محبت اور آغوش پھیلا کر سمیٹ لینا ان تمام دل کش اور روح فرسا مناظر کی تصویر کشی ہوسکتی ہے ؟ اسے تو بس خدا ہی جانتا ہے اور کوئی نہیں ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246