یوسف قرآن

یوسف قرآن 30%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174878 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ڈاکٹر بختیار نواز (بجرڈیہہ)

ابتدا تو ہے انتہا تو ہے

دونوں عالم کا رہنما تو ہے

*

چاند تاروں میں نور ہے تیرا

حد امکاں ظہور ہے تیرا

*

غنچۂ و گل میں ہے ادا تیری

تیرگی میں بھی ہے ضیا تیری

*

میں ہوں کمزور اور قوی تو ہے

میں ہوں محتاج اور غنی تو ہے

*

میرے ہستی سنوار دے مولیٰ

میرے دل کو قرار دے مولیٰ

*

سب کا ہے تو ہی مالک و مختار

تیرے آگے نوازؔ ہے لاچار

***

۶۱

حمد باری تعالیٰ

یونس انیس (ناگپور)

اے خالق رب العلا

اے مالک ارض و سما

اے ذات باری اے خدا

تو لائق حمد و ثنا

*

روز و شب و صبح مسا

ہم سب ترے مدحت سرا

*

الحمد للہ سب نور نور

ہر سمت بس تیرا ظہور

یہ کوہ یہ دشت و طیور

سب کلمہ گو تیرے حضور

*

پروردگار جز و کل

آب و گل و ہر خار و گل

*

سب سے بڑا سب سے عظیم

تو صاحبِ لطف عمیم

محتاج ہم سب تو نعیم

رحمن تو ہے تو رحیم

*

۶۲

اے کردگار انس و جاں

تو رحم والا مہرباں

*

ہم عاصیِ دامن تہی

از بسکہ ہے شرمندگی

اک آسرا ہے بس یہی

لا تقنطوا من رحمتی

*

لاریب فیہ اے خدا

تو مالکِ روزِ جزا

*

ہر چیز میں موجود تو

ہر چیز کا مقصود تو

ہم عابد و معبود تو

تو شاہد و مشہود تو

*

ہم ساجد و مسجود تو

ہم عابد و معبود تو

*

یا ربنا، یا ربنا

جو راہ حق ہے حق نما

وہ راہِ حق ہم کو دکھا

گم کردہ را ہوں سے بچا

*

فیضانِ جنت ہو مدام

نارِ جہنم ہو حرام

۶۳

حمد ربِ کائنات

کیفی اسماعیلی (کامٹی)

میرا اللہ تعالیٰ تو ہے رحمان بہت

مجھ گنہگار کی بخشش کا ہے امکان بہت

*

ہے رحیم اور بھی اک نام مرے مالک کا

کر رہا ہوں میں اسی نام کی گردان بہت

*

ڈوبتے ڈوبتے ایمان مرا تیر گیا؟

میں نے دل سے جو پڑھی سورۂ رحمان بہت

*

ورد آیات کریمہ کا اثر کیا کہئے

ہوتی رہتی ہیں مری مشکلیں آسان بہت

*

جس نے یونسؑ کو بچایا شکم ماہی میں

ہے بہر حال وہی میرا نگہبان بہت

*

دونوں عالم کے سمجھنے کو یہی کافی ہے

ہے ہمارے لئے اللہ کا عرفان بہت

*

سچ تو یہ ہے، کہ ہے سائنس اسی کا صدقہ

ہر مسلمان سمجھ کر پڑھے قرآن بہت

*

۶۴

ہر گھڑی کلمۂ توحید پڑھا کرتا ہوں

ہے اسی نور میں کھو جانے کا ارمان بہت

*

تر ہیں رخسار اگر اشک پشیمانی سے

ہے گنہگار کی بخشش کا یہ سامان بہت

*

مشرکین لاکھ لگاتے رہیں بہتان مگر

میرا مالک مرا مولا تو ہے سبحان بہت

*

ہے خداوند تعالیٰ کا کرم لامحدود

حمد کہنے کے لئے ملتے ہیں عنوان بہت

*

اس کی روزی میں بڑی برکتیں دیکھیں ہم نے

جس کے گھر آتے ہیں اللہ کے مہمان بہت

*

ہم نے خود رکھ دیا دشوار بنا کے ورنہ

ہے مرا مذہب اسلام تو آسان بہت

*

دے رہا ہے وہ بلا کسب ہی روزی کیفیؔ

مجھ پہ رزاق دو عالم کا ہے احسان بہت

***

۶۵

احمدرئیس (کلکتہ)

اعلیٰ ہے تو، عظیم ہے تو، رب ذوالجلال

رحمن ہے، رحیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

تیری نوازشوں کے طلب گار ہیں سبھی

سب س بڑا کریم ہے تو رب ذوالجلال

*

شعلوں میں کون، کون ہے مچھلی کے پیٹ میں

عالم ہے تو، علیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

صدیوں سے ہے یہ فرش زمیں بے ستون عرش

ان سب سے بھی قدیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

پوشیدہ حکمتیں ہیں ترے حرف حرف میں

حاکم ہے تو، حکیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

دیتا ہے رزق سب کو تو سب کے نصیب کا

قاسم ہے تو، قسیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

ذہن رئیسؔ پر بھی ہے مولا ترا کرم

اور دل میں بھی مقیم ہے تو رب ذوالجلال

***

۶۶

محمد افضل خان (ہوڑہ)

خالق، مالک، اعلیٰ تو ہی

سب سے عظمت والا تو ہی

*

شاہ و گدا سب تیرے غلام

پاتے ہیں تجھ سے انعام

*

عزت ذلت ہاتھ میں تیرے

شہرت دولت ہاتھ میں تیرے

*

جس کو چاہے علم و ہنر دے

تو ہی روزی روٹی گھر دے

*

رکھوالا عالم کا تو ہی

سب سے برتر بالا تو ہی

*

روز و شب ہیں تیرے دم سے

ہم ہیں زندہ تیرے کرم سے

*

تیری ثنا پڑھتا ہے افضلؔ

دم تیرا بھرتا ہے افضلؔ

***

۶۷

رزاق افسر (میسور)

تیری آرزو مری زندگی، مری بندگی تری جستجو

یہ ہے روز و شب مرا مشغلہ، مرے سلسلے یہی کو بکو

*

تری ذات منبع نور ہے، ترا نور کل کا ظہور ہے

تو مجیب اسود و طور ہے، تو نہاں کہیں کہیں روبرو

*

کوئی ایسا دیدہ و دل کہاں، تری ذات جس پہ نہ ہو عیاں

تو قدیم و خالق کن فکاں، تو محیط عالم رنگ و بو

*

تری راہ صبح کے رابطے، ترے فاصلے مرے رت جگے

یہ نیاز و ناز کے مرحلے، کہیں تشنہ لب کہیں آبجو

*

تری عظمتوں کے سرور سے ہوئی فکر میری نہال جب

تو ملا کمال سخن مجھے، بنی آئینہ مری گفتگو

*

ہو بیان کیا تری برتری، ترا نام جب بھی لیا کوئی

تو زبان خلق ہے کہہ اٹھی، تری شان جل جلالہٗ

***

۶۸

نظیر احمد نظیر (کامٹی)

شکم میں ماں کے ہر اک شکل کو بناتا ہے

مگر کسی کو کسی سے نہیں ملاتا ہے

*

میرے خدا یہ تیری شان کبریائی ہے

اندھیرے گھر سے اجالے میں تو ہی لاتا ہے

*

ملا کے رکھ دیا دہقاں نے خاک میں گندم

یہ تیری شان ہے اس کو تو ہی اگاتا ہے

*

میں اپنی نیند سے جاگوں مری مجال کہاں

تو ہی سلاتا ہے یا رب تو ہی اٹھاتا ہے

*

نظر میں تاب کہاں دیکھنے کی نظارے

تیرا ہی نور ہے آنکھوں میں جو دکھاتا ہے

*

پلک جھپکتے ہی یہ زندگی ہو جائے فنا

تیرا کرم ہے جو سانسوں میں آتا جاتا ہے

*

یہ بات سچ ہے کے جس کا مجھے نہیں انکار

نظیرؔ حکم سے تیرے قلم اٹھاتا ہے

***

۶۹

طالب صدیقی (کلکتہ)

درد کا درماں چین کا عنوان اک تو ہی

سب کے خانۂ دل کا مہماں اک تو ہی

*

تیری ذات لافانی کا کیا کہنا

ذرے ذرے میں ہے نمایاں اک تو ہی

*

باغ بھی تیرے، گل بھی تیرے ہیں مالک

رکھتا ہے شاداب گلستاں اک تو ہی

*

غم کی کوئی گنجائش ہو تو کیسے

جب رکھتا ہے دل کو شاداں اک تو ہی

*

کرنا ہے تا عمر خدایا مجھ کو طواف

میں پروانہ، شمع فروزاں اک تو ہی

*

بخشی ہے سورج کو تو نے تابانی

چاند کو بھی کرتا ہے درخشاں اک تو ہی

*

ہوتا ہے تاریک دل طالبؔ جب بھی

کر دیتا ہے اس میں چراغاں اک تو ہی

***

۷۰

رخشاں ہاشمی (مونگیر)

زندگی تیری مہربانی ہے

تیری بس تیری ہی کہانی ہے

*

تیرا جلوہ ہے چار سو روشن

ہے کرم تیرا زندگانی ہے

*

سارے منظر میں تجھ کو دیکھا ہے

سارا عالم تری نشانی ہے

*

تو ہی عزت دے تو ہی ذلت دے

آگ بھی تو ہے، تو ہی پانی ہے

*

تو جو چاہے تو سب فنا کر دے

ہر جگہ تیری راجدھانی ہے

*

یاد میں تیری کر رہا ہے جو

رخشاں ؔ کی آنکھ کا وہ پانی ہے

***

۷۱

صابر فخر الدین (یادگر)

جس کو حاصل ہے آگہی تیری

اس پہ رحمت فزوں ہوئی تیری

*

خود پہ احسان ہی تو کرتا ہے

وہ جو کرتا ہے بندگی تیری

*

میں اندھیروں کو چیر جاؤں گا

ہو اگر ساتھ روشنی تیری

*

ہر کہہ و مہہ کو جو نوازے ہے

ہو نظر مجھ پہ بھی وہی تیری

*

ٹھیک منزل سے جا ملاتی ہے

گم رہوں کو بھی رہبری تیری

*

چاند سورج ہوں یا وہ ارض و سما

سب ہی کرتے ہیں بندگی تیری

*

تیرے صابرؔ کے سامنے کیوں کر

ہو نہ مد نظر خوشی تیری

***

۷۲

صابر فخر الدین (یادگر)

نئے چراغ پرانے چراغ بھی تیرے

جو آ رہے ہیں نظر وہ ایاغ بھی تیرے

*

ہمارے دل کا گلستاں بھی ہے ترا یا رب

جو ہیں بہشت بریں میں وہ باغ بھی تیرے

*

نظر سے تیری نہیں ہے کوئی بھی شئے مخفی

قدم قدم پہ ہیں پھیلے سراغ بھی تیرے

*

جو تنگیاں ہیں وہ میرا نصیب ہیں یا رب

تمام وسعتیں سارے فراغ بھی تیرے

*

مجھے ملی ہیں جو علم و عمل کی سوغاتیں

ہیں ان کے طاق میں روشن چراغ بھی تیرے

***

۷۳

علیم الدین علیم (کلکتہ)

ہم کو ہر شے میں نظر آتا ہے جلوہ تیرا

سارے عالم میں ہے معبود اجالا تیرا

*

ایک پتا نہیں ہلتا کبھی شاخ گل پر

جب تلک ہوتا نہیں کوئی اشارا تیرا

*

لفظ کن سے کیا تخلیق جہاں کو تو نے

تیری مخلوق پہ احسان ہے ربا تیرا

*

کوئی معبود نہیں تیرے سوا اے اللہ

سر بہ سجدہ ہے ترے سامنے بندا تیرا

*

ہو کوئی جن کہ بشر یا ہوں چرند اور پرند

سب پہ یکساں ہے کرم خالق دنیا تیرا

*

تیرے بندوں کی عبادت کا ہے پہلا مرکز

کیوں نہ معمور ہو انوار سے کعبا تیرا

*

سانس جب تک مری چلتی رہے اے رب قدیر

ہو ادا مجھ سے ہر اک حال میں سجدا تیرا

*

سر جھکاتا ہے علیمؔ اس لیے تیرے آگے

اس کا معبود ہے تو اور وہ بندا تیرا

***

۷۴

حیدر علی ظفر دیگلوری

افضل ارفع اعلیٰ تو

مالک سب کا مولا تو

*

قائم دنیا تجھ سے ہے

ایسی ہستی والا تو

*

سب تیرے گن گاتے ہیں

شان و شوکت والا تو

*

خوشبو تیری ہر گل میں

گلشن گلشن صحرا تو

*

ہندو مسلم سکھ تیرے

سب کاموں داتا تو

*

بت خانہ ہو یا ہو کعبہ

ہر گھر کا رکھوالا تو

*

ہے تیرا محتاج ظفرؔ

میں بندہ ہوں آقا تو

***

۷۵

حامد رضوی حیدرآبادی

سب پہ لازم احترام اللہ کا

ذرہ ذرہ ہے غلام اللہ کا

*

سارے بندوں کی بھلائی کے لئے

عرش سے اترا کلام اللہ کا

*

بھوک دے کر بھول وہ جاتا نہیں

رزق کا دینا ہے کام اللہ کا

*

جس کو رکھنا ہے جہاں رکھتا ہے وہ

ایسا بہتر ہے نظام اللہ کا

*

ہے وہی مختار کل معبود حق

ہو لبوں پر صرف نام اللہ کا

*

یہ زمین و آسماں کل کائنات

راج ہے ہر جا تمام اللہ کا

*

کہتے ہیں حامدؔ جسے وہ رات دن

نام لیتا ہے مدام اللہ کا

***

۷۶

سکندر عرفان (کھنڈوہ)

سب کو جزا کا دینے والا اللہ تو

اور سزا کا دینے والا اللہ تو

*

یوں تو دوا کا دینے والا ہے انساں

صرف شفا کا دینے والا اللہ تو

*

ذلت تری ہی صرف بقا کی حامل ہے

حکم فنا کا دینے والا اللہ تو

*

موسیٰ جب مجبور کھڑے تھے دریا پر

ان کو عصا کا دینے والا اللہ تو

*

یہ نہ ملیں تو پل بھر میں مر جاتے ہم

پانی ہوا کا دینے والا اللہ تو

*

پودوں کے ان پژمردہ سے ہونٹوں کو

جام گھٹا کا دینے والا اللہ تو

*

غم بھی دئے ایوبؔ کو تو نے یہ سچ ہے

صبر و رضا کو دینے والا اللہ تو

*

میں نے کی عرفانؔ جو میری دنیا

صلہ وفا کا دینے والا اللہ تو

***

۷۷

صابر جوہری (بھدوہی)

(۱)

رقم اوصاف رب کے کر رہا ہے

قلم کاغذ پہ سجدے کر رہا ہے

*

کرم کی ہو رہی ہے عام بارش

زمانہ اس کے چرچے کر رہا ہے

*

منور نور ہستی سے تو یا رب!

دلوں کے آبگینے کر رہا ہے

*

عطا کر کے لقب یٰسین و طہٰ

بلند انساں کے درجے کر رہا ہے

*

اسے بھی رزق تو دیتا ہے یا رب!

خدائی کے جو دعوے کر رہا ہے

*

جہنم سے ڈراتا ہے اگر تو

تو جنت کے بھی وعدے کر رہا ہے

*

ترا احساں کہ ہر طوفاں کی زد سے

مری کشتی کنارے کر رہا ہے

*

۷۸

پرندہ بیٹھ کر ڈالی پہ ہر دم

ترا ہی ذکر جیسے کر رہا ہے

*

عطا ہو جائے علم و فن کی دولت

دعا صابرؔ یہ دل سے کر رہا ہے

***

۷۹

(۲)

سیاروں کی گردش میں پنہاں تیری قدرت ہے

تار نفس کی ہر لے میں جیسی تیری حکمت ہے

*

پھولوں سے اور خاروں سے سورج چاند ستاروں سے

دریاؤں کہساروں سے ظاہر تیری عظمت ہے

*

ہر اک پھول کی خوشبو میں قوس قزح کے جادو میں

جگمگ جگمگ جگنو میں یا رب! تیری جلوت ہے

*

مہر و ماہ و اختر میں، برق و شرر کے تیور میں

گردوں کے ہر منظر میں ترا جمال وحدت ہے

*

علم دیا عرفاں بخشا، لاثانی قرآں بخشا

بخشش کا ساماں بخشا تیری کیا کیا رحمت ہے

*

تیری رحمت کا طالب تنکا تنکا ہے لاریب

تیرے قہر سے خوف زدہ یا رب پربت پربت ہے

*

نوک خامہ تو بھی لکھ رب کی تحمید و تقدیس

ذرہ ذرہ روز و شب جب مشغول مدحت ہے

*

نور شمع ایماں سے روشن ہے دنیائے دل

صابرؔ پر مولائے کل تیری کتنی رحمت ہے

***

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

آیت ۷۸:

(۷۸) قَالُوا یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَیْخًا کَبِیرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَکَانَهُ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ

(اس پر) ان لوگوں نے کہا : اے عزیز ! اس (بنیامین) کے والد بہت بوڑھے (آدمی) ہیں (اور اس کو بہت چاہتے ہیں)تو آپ اس کے عوض ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے اور اس کو چھوڑ دیجئے کیونکہ ہم آپ کو نیکوکار بزرگ سمجھتے ہیں ''۔

نکات:

جب برادران یوسف (ع)نے دیکھ لیا کہ بنیامین کا روکا جانا قطعی ہوگیا ہے تو حضرت یوسف (ع)کے سلسلے میں اپنے سابقے اور بنیامین کے بارے میں اپنے باپ سے کئے گئے عہد و پیمان کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز یہ احساس کرتے ہوئے کہ بنیامین کے بغیر پلٹنے کے نتائج بڑے تلخ ہوں گے، نفسیاتی طریقے سے حضرت یوسف (ع)سے التماس کرنے لگے۔ گڑگڑانے لگے اور احساسات کو بھڑکاتے ہوئے یہ کہنے لگے آپ(ع) صاحب عزت و قدرت اور نیک کردار ہیں ۔ اس کا باپ بوڑھا ہے اس کے بدلے میں آپ ہم میں سے کسی کو بھی غلام بنالیجئے اور سب بھائی بنیامین کی بخشش کرانے کےلئے آمادہ ہو گئے ۔

پیام:

۱۔ مقدارت الٰہی ایک دن ہر سنگ دل اور ستمگر کو ذلت ورسوائی کی خاک چٹواتی ہے بلکہ گڑگڑانے پر مجبور کردیتی ہے ان لوگوں کے جملہ( یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ...) کے آہنگ میں اس بات کا ثبوت موجود ہے۔

۲۔ اقتدار کے زمانے میںبھی حضرت یوسف (ع)کا نیک کردار نمایاں تھا۔(نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ )

۱۶۱

آیت ۷۹:

(۷۹) قَالَ مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ

''(حضرت یوسف نے)کہا : معاذاللہ (یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ )ہم نے جس کے پاس اپنی چیز پائی ہے اسے چھوڑ کر دوسرے کو پکڑ لیں ؟(اگر ہم ایسا کریں)تو ہم ضروربڑے بے انصاف ٹھہریں گے''۔

نکات:

حضرت یوسف علیہ السلام کے نپے تلے الفاظ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ آپ (ع)بنیامین کو چور ثابت کرنا نہیں چاہتے ہیں اسی لئے آپ (ع)نے ''وجدنا سارقا '' نہیں فرمایا بلکہ'' وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ'' فرمایا ۔ یعنی متاع و پیمانہ اس کے سامان میں تھا وہ خود چور نہیںہے ۔

اگر جناب یوسف (ع)بنیامین کے بجائے کسی دوسرے بھائی کو رکھ لیتے تو ان کے سارے کئے کرائے پر پانی پھر جاتا اس کے علاوہ دوسرے بھائی ، بنیامین کے ساتھ چوروں جیسا سلوک کرتے انہیں مختلف طریقوں سے اذیت پہنچاتے اور جو شخص بنیامین کے بجائے رکتا وہ یہ سوچتا کہ ناحق گرفتار ہوگیا ہوں۔

پیام:

۱۔ قانون کی رعایت ہر شخص پر لازم ہے حتی عزیز مصر کےلئے بھی قانون شکنی ممنوع ہے ۔(مَعَاذَ اﷲِ )

۲۔ قانون شکنی ظلم ہے (کسی کے کہنے پر قانون توڑنا صحیح نہیں ہے)( مَعَاذَ اﷲِ أَنْ نَأْخُذَ لَظَالِمُونَ )

۳۔ بے گناہ کو گناہ گار کے بدلے سزا نہیں دینی چاہیئے اگرچہ وہ خود اس پر راضی ہو،(مَعَاذَ اﷲ)

۱۶۲

آیت ۸۰:

(۸۰) فَلَمَّا اسْتَیْئَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِیًّا قَالَ کَبِیرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاکُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقًا مِنْ اﷲِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّی یَأْذَنَ لِی أَبِی أَوْ یَحْکُمَ اﷲُ لِی وَهُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ

''پھر جب یوسف کی طرف سے مایوس ہوگئے تو باہم مشورہ کرنے کے لئے الگ کھڑے ہوئے ۔ تو جو شخص ان سب میں بڑا تھا کہنے لگا ! (بھائیو!)کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ تمہارے والد نے تم سے خداکا عہد لیا ہے اور اس سے پہلے تم لوگ یوسف کے بارے میں کیا کچھ تقصیر کر ہی چکے ہو،تو(بھائی) جب تک میرے والد مجھے اجازت (نہ) دیں یا خدا مجھے کوئی حکم (نہ) دے میں اس سرزمین سے ہرگز نہ ہلوں گا ۔اور خدا تو سب حکم دینے والوں سے کہیں بہتر ہے ''۔

نکات:

''خلصوا''یعنی اپنے گروہ کو دوسرے سے جدا کرنا'' نَجِیًّا'' یعنی سرگوشی کرنا ، لہٰذا''خَلَصُوا نَجِیًّا '' یعنی محرمانہ نشست( secret meeting ) تشکیل دی کہ اب کیا کریں ۔

۱۶۳

پیام:

۱۔ احکام الٰہی کو جاری کرنے کی راہ میں التماس و خواہشات مانع نہیں ہونا چاہئے۔(اسْتَیْئَسُوا مِنْه)

۲۔ ایک دن وہ تھا جب یہی بھائی اپنی قدرت کے نشہ میں مست ہوکر جناب یوسف (ع)کے سلسلے میں مشورہ کر رہے تھے کہ ان کو کیسے ختم کریں(اقتلوا یوسف او طرحوه ارضا لاتقتلوا القوه...) آج وہ زمانہ آگیا ہے کہ کاسہئ التماس ہاتھوں میں لئے بنیامین کی آزادی کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اسی کاسہئ التماس کے ہمراہ نجویٰ اور سرگوشی کررہے ہیں کہ کیسے بنیامین کو آزاد کرایا جائے ۔(خَلَصُوا نَجِیًّ)

۳۔ تلخ اور ناگوار حوادث میں بڑے لوگ زیادہ ذمہ دار اور شرمسار ہوتے ہیں(قَالَ کَبِیرُ هُمْ)

۴۔ عہد و پیمان کا پوراکرنا ضروری ہوتا ہے۔( أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً)

۵۔ سخت اور محکم عہد وپیمان غلط فائدہ اٹھانے کی راہ کو مسدود کردیتے ہیں۔(أَخَذَ عَلَیْکُمْ مَوْثِقً)

۶۔ خیانت اور جنایت مرتے دم تک زندہ ضمیروں کو اذیت پہنچاتی رہتی ہے۔(مِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِی یُوسُفَ)

۷۔ دھرنا ڈالنا ایک پرانی روش اور انداز ہے۔(فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْض)

۸۔ غربت (یعنی پردیس کو وطن پر ترجیح دینا)شرمندگی سے بہتر ہے( فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ)

۹۔ خداوندعالم کے بارے میں ہمیشہ حسن ظن رکھناچاہئے ۔(هُوَ خَیْرُ الْحَاکِمِینَ )

۱۶۴

آیت ۸۱:

(۸۱) إِرْجِعُوا إِلَی أَبِیکُمْ فَقُولُوا یَاأَبَانَا إِنَّ ابْنَکَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَا وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حافِظِینَ

''تم لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر ج اور (ان سے جاکر) عرض کرو اے بابا آپ کے صاحبزادے نے سچ مچ چوری کی ہے اور ہم لوگوں نے تواپنی دانست کے مطابق (اس کے لئے آنے کا عہد کیا تھا )اور ہم کچھ (از) غیبی (آفت )کے نگہبان تو تھے نہیں''۔

پیام:

۱۔ انسان خود خواہ ہے ،جب زیادہ گیہوں لانے کی بات تھی تو بھائیوں نے(ارسل معنا اخان) کہا یعنی ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ روانہ کردیجئے لیکن جب آج تہمت کی بات آئی تو(ابْنَکَ) (یعنی آپ کے صاحبزادے نے چوری کی )کہنے لگے ۔ ''ہمارے بھائی'' نہیں کہا۔

۲۔ شہادت اور گواہی ، علم کی بنیاد پرہونا چاہیئے ۔( وَمَا شَهِدْنَا إِلاَّ بِمَا عَلِمْنَ)

۳۔ عہد و پیمان میں ان حوادث کے سلسلے میں بھی ایک تبصرہ کرنا چاہیئے جس کی پیش بینی نہ ہوئی ہو( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ...)

۴۔ عذر کو صراحت کے ساتھ پیش کرنا چاہیئے ۔( وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ)

۱۶۵

آیت ۸۲:

(۸۲) وَسْئَلِ الْقَرْیَ الَّتِی کُنَّا فِیهَا وَالْعِیرَ الَّتِی أَقْبَلْنَا فِیهَا وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

''اور (اگر ہماری باتوں پر اعتبار نہیں ہے تو)آپ اس بستی کے لوگوں سے جس میں ہم لوگ تھے پوچھ لیجئے اور اس قافلہ سے بھی جس میں ہم آئے ہیں (دریافت کرلیجئے ) اور ہم یقینا بالکل سچے ہیں ''۔

نکات:

''قریہ'' فقط دیہات کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر محل اجتماع اور رہائشی علاقہ کو ''قریہ'' کہتے ہیں چاہے وہ شہر ہو یا دیہات ۔ یہاں پر یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہوسئل القریه سے مراد'' واسئل اهل القریه'' ہےں ۔یعنی اہل قریہ سے سوال کیجئے ۔

''عیر'' خوردونوش کی چیزوں کو لانے لے جانے والے کارواں کو کہا جاتا ہے۔

کل حضرت یوسف (ع)کے قتل کے سلسلے میں (کہ بھیڑیا یوسف کو کھا گیا) بھائیوں کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی لیکن یہاں پر انہوں نے اپنے دعوے کی دو دلیلیں پیش کیں(۱) اہل مصر سے سوال کیجئے(۲) اہل قافلہ سے سوال کیجئے کہ جن کے ساتھ ہم نے سفر کیا، علاوہ ازیں حضرت یوسف (ع)کے قتل کے واقعہ میں ان لوگوں نے''لوکنا صادقین'' کہا تھا جس میں ''لو'' تردید ، بے چینی اور سستی کی علامت ہے لیکن اس واقعہ میں کلمہ''انّا' 'اور حرف لام کو جو''لَصَادِقُونَ ''میں ہے استعمال کیا ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ و ہ قطعا ًسچے ہیں ۔

پیام:

۱۔ برا سابقہ اور جھوٹ تادم مرگ، انسان کی گفتگو قبول کرنے میں شک و تردید پیدا کردیتاہے ۔( وَاسْأَلْ الْقَرْیَ)

۲۔ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے عینی شاہدوں کی گواہی ایک معتبر روش ہے۔(وَاسْأَلْ الْقَرْیَ...وَالْعِیرَ...)

۱۶۶

آیت ۸۳:

(۸۳) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعًا إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ

''(غرض جب ان لوگوں نے جاکر بیان کیا تو )یعقوب نے کہا :(اس نے چوری نہیں کی ہے)بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے گڑھ لی ہے، میں توصبر جمیل (اور خدا کاشکر)کروںگا خدا سے تو مجھے امید ہے کہ میرے سب (لڑکوں) کو میرے پاس پہنچا دے بے شک وہ بڑا واقف کار حکیم ہے''۔

نکات:

جب حضرت یوسف (ع)کے بھائی بناوٹی غمگین صورت میں ٹسوے بہاتے ہوئے خون بھرا کرتا لے کر اپنے بابا کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا تو اس وقت حضرت یعقوب (ع)نے فرمایا تھا(َبَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ ) یعنی یہ تمہارا نفس ہے جس نے اس کام کو تمہارے سامنے اچھا کرکے پیش کیا ہے لیکن میں بہترین صبرکروں گا۔

اور آج اس موقع پر جب آپ (ع)کے دو فرزند (بنیامین اور بڑا بیٹا) آپ (ع)سے جدا ہوگئے تو آپ (ع)نے پھر وہی جملہ دھرایا ۔ یہاں پر ممکن ہے ایک سوال پیداہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے ماجرے میں تو ان لوگوں نے سازش اور خیانت کی تھی لیکن بنیامین کے سلسلے میں اس قسم کی بات نہ تھی پھر دونوں مواقع پر حضرت یعقوب (ع)کا لب ولہجہ ایک ہی کیوں ہے ؟(بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أمراً فَصَبْرٌ جَمِیل) تفسیر المیزان میں اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے: ''حضرت یعقوب (ع)بتانا چاہتے تھے کہ بنیامین کی دوری بھی تمہاری اسی پہلی حرکت کا نتیجہ ہے جو تم نے حضرت یوسف (ع)کے ساتھ انجام دی تھی یعنی یہ تمام تلخیاں اسی بدرفتاری کا نتیجہ ہیں ''۔

۱۶۷

یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا مقصد یہ تھاکہ تم یہاں بھی یہی خیال کررہے ہو کہ تم بے گناہ ہو اور تمہارا کام صحیح ہے جبکہ تم گناہ گار ہو کیونکہ سب سے پہلے تو یہ کہ تم نے اپنے بھائی کے سامان میں پیمانہ دیکھ کر اسے چور سمجھ لیا، ہوسکتا ہے کسی دوسرے نے اس کے غلہ میں پیمانہ ڈال دیا ہو ۔ دوسری بات یہ کہ تم لوگ اتنا جلدی کیوں پلٹ آئے ،تمہیں تحقیق کرنا چاہیئے تھی ۔ اور تیسری بات یہ کہ تم نے چور کی سزا اس کو غلام بنانا کیوں قراردیا(۱)

صبر کبھی ناچاری اور بے چارگی کی بنیاد پر ہوتا ہے جیساکہ اہل جہنم کہیں گے(سواء اصبرنا ام جز عنا) مقصود یہ ہے کہ صبر یا فریاد کرنا ہماری نجات کا باعث نہیں بن سکتا ، لیکن کبھی کبھی صبر باخبر ہونے کے باوجود اپنی پسند سے خداوندعالم کی رضا کی خاطر کیا جاتا ہے اس صبر کا رخ زیبا مختلف مقامات پر مختلف اندازمیں نکھرتا ہے ۔ میدان جنگ میں اس کا نام ''شجاعت'' ، دار دنیا میں اس کانام''زہد''، گناہوں کے مقابلے میں اس کانام ''تقوی''، شہوت کے مقابلے میں اس کانام ''عفت'' اور مال حرام کے مقابلے میں اس کانام ''ورع''ہے۔

--------------

(۱) تفسیر نمونہ، لیکن صاحب تفسیر المیزان کا کلام زیادہ مناسب ہے کیونکہ بنیامین کے سامان میں پیمانہ ملنے کی وجہ سے سب کو یقین ہو جاتاہے کہ وہی چور ہیں علاوہ ازیں بڑے بھائی کا مصر میں رکنا اسی کام کی تحقیق اور احساسات کو جلب کرنے کے لئے تھا اور چور کی سزا کی جو بات ہے تو اس علاقے میں چور کی سزا وہی تھی جو انہوں نے قرار دی بنابریں ان تینوںمیں سے کوئی ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ہے جس میں نفس کا دخل ہواور( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) کہا جائے۔

۱۶۸

پیام:

۱۔ نفس گناہوں کی توجیہ کے لئے برے کام کو انسان کی نگاہ میں اچھا کرکے دکھاتاہے( بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ) (۱)

۲۔ صبر کرنا مردان خدا کا شیوہ ہے اور'' صبر جمیل' 'اس صبر کو کہتے ہیں جس میں رضائے الٰہی کے لئے سر تسلیم خم کیا جائے اور زبان سے کوئی فقرہ بھی ادا نہ ہو(۲) ( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ )

۳۔ کبھی بھی قدرت خدا سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے(عَسَی اﷲُ أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعً)

۴۔ حضرت یعقوب (ع)کو اپنے تینوں فرزندوں (یوسف ، بنیامین ۔ بڑے بیٹے) کی زندگی کا یقین تھا اور ان سے ملاقات کی امید تھی(أَنْ یَأْتِیَنِی بِهِمْ جَمِیعً)

۵۔ پروردگار عالم تمام مسائل کو حل کرنے پر مکمل قدرت رکھتا ہے خداوندعالم کل کے یوسف اور آج کے بنیامین وغیرہ کو جمع کرسکتا ہے ۔( جَمِیعً)

۶۔ مومن ،تلخ حوادث کو بھی خداوندعالم کی حکمت سمجھتا ہے ۔(الْحَکِیمُ )

۷۔ افعال الٰہی کے عالمانہ اور حکیمانہ ہونے پر یقین رکھنا انسان کو دشوار سے دشوار حادثات میں صبر وشکیبائی پر آمادہ کرتا ہے۔(فَصَبْرٌ جَمِیلٌ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیم)

--------------

(۱)شیطان بھی اسی چال کا استعمال کرتا ہے ۔(زین لھم الشیطان ماکانوا یعملون۔ انعام:۴۳)اسی طرح دنیا کے زرق برق بھی اس قسم کی خوشنمائی میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں ۔ حتی اذا اخذت الارض زخرفھا و ازینت ۔یونس ۲۴.

(۲)تفسیر نور اثقلین.

۱۶۹

آیت ۸۴:

(۸۴) وَتَوَلَّی عَنْهُمْ وَقَالَ یَاأَسَفَی عَلَی یُوسُفَ وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ کَظِیمٌ

''اور یعقوب نے ان لوگوں سے منہ پھیر لیا اور (روکر) کہنے لگے : ہائے افسوس یوسف پر (اور اس قدر روئے کہ) غم کی وجہ سے ان کی آنکھیںسفید ہوگئیں وہ تو بڑے رنج کے ضابط تھے''۔

نکات:

کلمہ ''اسف'' غضب کے ہمراہ حزن وملال کو کہتے ہیں جناب یعقوب (ع)کی آنکھیں گریاں ، زبان پر ''یااسفا''اوردل میں حزن و ملال تھا ۔

ایک روایت میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا: میرے بابا علی بن الحسین + واقعہئ کربلا کے بعد بیس )۲۰(سال تک ہر گھڑی آنسو بہاتے رہے۔ آپ (ع)سے سوال کیا گیا آپ اتنا کیوں روتے ہیں ؟ تو آپ (ع)نے جواب دیا : یعقوب کے گیارہ فرزند تھے جس میں سے ایک غائب ہوا تھا جبکہ (وہ جانتے تھے کہ) وہ زندہ ہے لیکن اتنا روئے کہ آنکھےں سفید ہوگئیں جبکہ ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بابا، اپنے بھائیوں اور خاندان نبوت کے سترہ افراد کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا ہے (ذرا بت)ہم کیسے آنسو نہ بہائیں؟

۱۷۰

پیام:

۱۔ حاسد کو ایک زمانہ تک حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔( وَتَوَلَّی عَنْهُمْ)

۲۔ ان لوگوں نے چاہا کہ یوسف کو درمیان سے نکال کر اپنے بابا کے محبوب ہوجائیں گے ۔(یخل لکم وجه ابیکم) لیکن حسد و جلن نے باپ کے قہر و غضب میں اضافہ کردیا(تَوَلَّی عَنْهُم)

۳۔ غم و اندوہ اور گریہ و زاری کبھی کبھی بصارت کے زائل ہونے کا سبب ہوتی ہے ۔(ابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْن)

۴۔ گریہ و غم، ضبط و تحمل اور صبر کے منافی نہیں ہے( فَصَبْرٌ جَمِیلٌ یَاأَسَفَی، فَهُوَ کَظِیمٌ )

۵۔ حضرت یعقوب (ع)کو معلوم تھا کہ ظلم صرف یوسف (ع)پر ہوا ہے دوسروں پر نہیں۔(یاأَسَفَا عَلَی یُوسُف)

۶۔ فریاد وبکا سوز وعشق معرفت کے محتاج ہےں (حضرت یعقوب(ع) کو حضرت یوسف (ع)کی معرفت تھی اسی بنیاد پر ان کی آنکھوں کی بنیائی زائل ہوگئی۔)

۷۔ مصائب کی اہمیت کا دارومدار افراد کی شخصیت پر ہے (یوسف (ع)پر ڈھائے گئے مظالم دوسروں پر کئے گئے مظالم سے فرق رکھتے ہیں اسی لئے یوسف (ع)کا نام لیا جاتا ہے دوسروں کا ذکر بھی نہیں ہوتا)

۸۔ عزیزوں کے فراق میں غم واندوہ، آہ و بکا اور نوحہ و ماتم جائز ہے۔(وَابْیَضَّتْ عَیْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ)

۱۷۱

آیت ۸۵:

(۸۵) قَالُوا تَاﷲِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِینَ

''(یہ دیکھ کر ان کے بیٹے )کہنے لگے آپ تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہئےے گا یہاں تک کہ بیمار ہوجائےے گا یا جان دے دیجئے گا''۔

نکات:

''حرض '' اس شخص کو کہتے ہیں جسے عشق یاحز ن ، کمزور و ناتواں بنادے۔

پیام:

۱۔ ہر یوسف (ع)کو ہمیشہ اپنی یادوں کے فانوس میں سجائے رکھنا چاہئےے(تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ) (جیسا کہ اولیائے الٰہی دعائے ندبہ میں یوسف زماں کو آواز دے کر آنسو بہاتے ہیں ۔)

۲۔ مقدس عشق اورملکوتی آہیں قابل قدر ہیں ۔( تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضً) (اولیائے خدا کی یاد خدا کی یاد ہے )(۱)

۳۔ نفسیاتی اور روحی مسائل جسم پر اثر انداز ہوتے ہیں(حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِین) (فراق اور جدائی انسان کے وجود کو توڑ دیتی ہے بلکہ موت کی حد تک پہنچا دیتی ہے چہ جائیکہ اگر کوئی داغ مفارقت اور مصیبت کے پہاڑ اٹھائے ہوئے ہو۔)

۴۔ باپ کی محبت عام محبتوں سے جدا ہے۔( تَکُونَ مِنَ الْهَالِکِینَ)

--------------

(۱) یعقوب (ع)اس سوز و گداز میں ہیں جسے عام افراد سمجھ نہیں سکتے ہیں(مجلس عزا ،نوحہ و ماتم پر طنز نہ کیجئے)

۱۷۲

آیت ۸۶:

(۸۶)قَالَ إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَی اﷲِ وَأَعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ

''یعقوب نے کہا : (میں تم سے کچھ نہیں کہتا ) میں تو اپنی بے

قراری اور رنج کی شکایت خدا ہی سے کرتا ہوں اور خدا کی طرف سے جوباتیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے''۔

نکات:

''بث'' اس شدید حزن وملال کو کہتے ہیں جس کی شدت کو صاحب غم بیان نہیں کرپاتا ۔

قرآن مجید میں ہے کہ حضرت آدم (ع)نے اپنے فعل پر خدا کی بارگاہ میں نالہ و شیون کیا(ربنا ظلمنا انفسنا) (۱) حضرت ایوب (ع)نے اپنی بیماری پر خدا سے فریاد کی(مسّنی الضر) (۲) حضرت موسی (ع)نے فقر و ناداری کی شکایت کی(رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر) (۳) اور حضرت یعقوب(ع) نے فراق فرزند میں آنسو بہائے(انما اشکو بثی و حزنی)

پیام:

۱۔ توحید پرست انسان ،اپنا درد فقط خدا سے کہتا ہے( إِنَّمَا أَشْکُو... إِلَی اﷲِ)

۲۔ جو چیز مذموم ہے وہ یا تو خاموشی ہے جو انسان کے قلب و اعضاء پر حملہ آور ہوتی ہے اور انسان کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے یا وہ نالہ و شیون ہے جو انسان کے

--------------

(۱)سورہ اعراف آیت ۲۳.

(۲) انبیاء آیت ۸۳

(۳)سورہ قصص آیت ۲۴.

۱۷۳

سامنے کیا جاتا ہے جس سے انسان کی قدر و منزلت میں کمی آجاتی ہے لیکن خد اسے شکایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔(أَشْکُو... إِلَی اﷲِ)

۳۔ خدا سے گفتگو کرنے میں ایک لذت ہے جسے عام لوگ نہیں سمجھ سکتے ہیں۔(أَشْکُو بَثِّی إِلَی اﷲِ ...مَا لاَ تَعْلَمُونَ.) (۱)

۴۔ ظاہر بین افراد ،حوادث کے سامنے سے بڑی آسانی سے گزر جاتے ہیں اور اس سے کچھ حاصل نہیں کرپاتے ہیں، لیکن حقیقت بین افراد حادثات کے آثار کا تا قیامت مشاہدہ کرتے ہیں ۔(أَعْلَمُ مِنْ اﷲِ ...)

۵۔ حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی ، فراق کے خاتمہ کی مدت ،نیز خداوندعالم اور اس کی صفات سے آگاہ تھے لیکن یہ امور دوسروں پر مخفی تھے ۔(اعْلَمُ مِنْ اﷲِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )

--------------

(۱)ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

دست حاجت چوں بری نزد خداوند بر

کہ کریم است و رحیم است و غفور است و ودود

نعمتش نامتناہی کرمش بی پایاں

ھیچ خوانندہ از این در نرود بی مقصود

۱۷۴

آیت ۸۷:

(۸۷)یَابَنِیَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَأَخِیهِ وَلاَ تَیْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِنَّهُ لاَ یَایْئَسُ مِنْ رَوْحِ اﷲِ إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ.

''اے میرے بیٹو! (ایک بار پھر مصر)ج اور یوسف اور اس کے بھائی کو (جس طرح بنے) تلاش کرو اور خدا کے فیض سے ناامید نہ ہونا کیونکہ خدا کے فیض سے کافروں کے سوا اور کوئی ناامید نہیں ہوا کرتا ''۔

نکات:

کسی چیز کے بارے میں حواس کے ذریعہ جستجو کرنے کو''تحسس'' کہتے ہیں ،''تحسس'' کسی کی اچھائی کے سلسلے میں جستجو کو کہتے ہیںلیکن کسی کی برائی کے کھوج اور تلاش میں لگنے کو''تجسس'' کہتے ہیں۔

راغب اصفہانی کے بیان کے مطابق ''رَوح اور رُوح'' دونوں جان کے معنی میں استعمال ہوتے ہیںلیکن روح، فرج ، گشائش اور رحمت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے گویا مشکلات کا حل ہونا، انسان میں ایک تازہ اور نئی جان ڈال دیتا ہے، تفسیر تبیان میں ہے کہ رَوح کا مادہ ریح ہے جس طرح انسان ہوںکے جھونکوں سے سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے اسی طرح رحمت الٰہی سے بھی شادمان ہوتا ہے ۔

۱۷۵

پیام:

۱۔ باپ کو اپنے بچوں سے دائمی طور پر قطع تعلق نہیں کرنا چاہیئے ۔(فتولی عنهم یابنی)

۲۔ معرفت و شناخت کے لئے کوشش ضروری ہے۔(اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُو)

۳۔ لطف الٰہی تک پہنچنے میں سستی و کاہلی مانع ہے(اذْهَبُوا ، وَلاَ تَیْئَسُو) (۱)

۴۔اولیائے خدا بھی مایوس نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی ناامیدی کی راہ سے دور رکھتے ہیں(لاَ تَیْئَسُو)

۵۔ ناامیدی ، کفر کی علامت ہے کیونکہ مایوس ہونے والااپنے اندر یہی محسوس کرتا ہے کہ خدا کی قدرت ختم ہوگئی(لاَ یَیْئَسُ...إِلاَّ الْقَوْمُ الکَافِرُونَ)

آیت ۸۸:

(۸۸) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیْهِ قَالُوا یَاأَیُّهَا الْعَزِیزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَ مُزْجَ فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ

'' پھر جب یہ لوگ (تیسری بار) یوسف کے پاس گئے تو (بہت گڑگڑاکر ) عرض کی : اے عزیز مصر ! ہم کو اور ہمارے (سارے) کنبہ کو قحط کی وجہ سے بڑی تکلیف ہورہی ہے اور ہم کچھ تھوڑی سی پونجی لے کر آئے ہیں تو ہم کو (اس کے عوض ) پورا غلہ دلوا دیجئے اور (قیمت ہی پر نہیں) ہمیں (اپنا) صدقہ خیرات دیجئے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ خدا صدقہ و خیرات دینے والوں کو جزائے خیر دیتا ہے۔

--------------

(۱)روایات سے ثابت ہے کہ رحمت خداوندی سے مایوسی گناہ کبیرہ ہے (من لا یحضرہ الفقیہ باب معرف الکبائر)

۱۷۶

نکات:

''بضاعت'' اس مال کو کہتے ہیں جس پر قیمت کا عنوان صادق آتا ہو''مزج'' کا مادہ ''ازجاء '' ہے جس کے معنی ''دور کرنے'' کے ہیں کیونکہ بیچنے والے کم قیمت دیتے ہیں اس لئے ''بضاعت مزج'' کہتے ہیں ۔

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ'' تصدق علینا'' سے مراد یہ ہے کہ آپ بنیامین کو لوٹا دیجئے ۔

روایت میں ہے کہ حضرت یعقوب (ع)نے حضرت یوسف (ع)کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں ان کی جلالت قدر کو بیان فرمایا تھا۔ کنعان کی خشک سالی کا ذکر تھا اور بنیامین کی آزادی کی درخواست تھی آپ (ع)نے لکھاتھا کہ ''اب ہم پر رحم کرو اور احسان کرکے اسے رہائی دیدو اور اسے چوری کے الزام سے بری کردو '' اس خط کو آپ نے اپنے بیٹوں کے ہمراہ حضرت یوسف (ع)کی خدمت میں روانہ کیا تھا، جب حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کے سامنے اس خط کو کھول کر پڑھا اس کا بوسہ لیا آنکھوں سے لگایا اور آنسوںکی بارش ہونے لگی جن کے قطرات آپ کے لباس پر گرنے لگے برادران جو ابھی تک حضرت یوسف (ع)کو نہیں پہنچانتے تھے تعجب کرنے لگے کہ یہ ہمارے باپ کا اتنا احترام کیوں کررہے ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کے دلوں میں امیدوں کی کرن پھوٹنے لگی جب حضرت یوسف علیہ السلام کو ہنستے ہوئے دیکھا تو سوچنے لگے کہ کہیں یہی یوسف (ع)نہ ہوں(۱)

--------------

(۱)تفسیر نمونہ.

۱۷۷

پیام:

۱۔ حضرت یعقوب کو یوسف (ع)کی تلاش ہے ۔(فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُف) لیکن بھائیوں کو گیہوں کی پڑی ہے ۔( فَأَوْفِ لَنَا الْکَیْلَ)

۲۔ رسوا کرنے والے ایک دن خود رسوا ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ جو کل کہہ رہے تھے(نحن عصب) ہم طاقتور ہیں(سرق اخ له من قبل )اس سے پہلے اس کے بھائی نے چوری کی ہے ۔(انا ابانا لفی ضلال) ہمارے بابا گمراہی میں پڑ گئے ہیں ۔ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ذلیل و رسوا ہوکر خود کہہ رہے ہیں ۔(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرّ)

۳۔ حمایت اور مدد حاصل کرنے کے کچھ خاص طریقے ہیں۔

جس نے حمایت و مدد کی ہے اس کی تعریف و تمجید کی جائے۔( یَاأَیُّهَا الْعَزِیز)

اپنی نیاز مندی کے حال و احوال بیان کئے جائیں(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرّ)

مالی فقر کا تذکرہ ہو ۔(ِبِضَاعَ مُزْجَ)

مدد کے لئے کوئی سبب و علت ایجاد کرنا(وَتَصَدَّقْ عَلَیْنَا إِنَّ اﷲَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِینَ)

۴۔ فقر و محتاجی انسان کو ذلیل کردیتی ہے۔(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّر)

بقول فارسی شاعر:

آنچہ شیران را کند روبہ مزاج

احتیاج است احتیاج است احتیاج

۱۷۸

آیت ۸۹:

(۸۹) قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَّا فَعَلْتُمْ بِیُوسُفَ وَأَخِیهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ

''(اب تو یوسف سے نہ رہا گیا) کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ جب تم نادان تھے تو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟''

نکات:

ایک سوال میں ممکن ہے کہ مختلف مقاصد و اہداف پوشیدہ ہوں ، مثبت اورتعمیری اہداف یا منفی اور اذیت کنندہ مقاصد ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ سوال : تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور ان کے بھائی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟

۱۔ شاید اس لئے ہوکہ مجھے سب کچھ معلوم ہے۔

۲۔ ممکن ہے کہ سوال کا مقصد یہ ہو کہ تم نے بہت برا کام کیا ہے لہٰذا توبہ کرو ۔

۳۔ ممکن ہے بنیامین کی تسلی خاطر مدنظر ہو جو وہاں موجود تھے ۔

۴۔ممکن ہے کہ ان کی سرزنش اور ملامت مدنظر ہو ۔

۵۔ یا اپنی عزت آشکار کرنا مقصود ہو ۔

۶۔ یا اس بات کی سرزنش کررہے ہوں کہ تم کو اتنے مظالم کے بعد صدقہ و خیرات کی امید کیسے ہوگئی ؟ مذکورہ اہداف ومقاصد میں سے پہلے تین اہداف حضرت یوسف علیہ السلام کے اہداف سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن بقیہ موارد یوسفی کرامت اور جواں مردی (جسے آئندہ آیتیں واضح کریں گی ) کے خلاف ہےں( آپ (ع)نے بادشاہت کے رتبہ پر پہنچنے کے بعد چوری کا الزام سنا ) ، آپ کو چور کہا گیا لیکن آپ (ع)نے کچھ نہ کہا اور آخر کا ر اپنے بھائیوں سے کہہ دیا(لا تثریب علیکم الیوم)

جہالت فقط نادانی کانام نہیں ہے بلکہ ہوا و ہوس کا غلبہ بھی ایک قسم کی جہالت ہے ۔ گناہگار انسان چاہے جتنا بڑا عالم ہو جاہل ہے کیونکہ وہ متوجہ نہیں ہے کہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ خرید رہا ہے ۔

۱۷۹

پیام:

۱۔ جواں مردی یہ ہے کہ جرم کی جزئیات کو بیان نہ کیا جائے۔(مَا فَعَلْتُمْ)

۲۔ جوان مردی یہ ہے کہ( اشاروں میں) خطا کار کو عذر خواہی کا راستہ دکھایا جائے۔( إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُون)

آیت ۹۰:

(۹۰) قَالُوا أَإِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ قَالَ أَنَا یُوسُفُ وَهذَا أَخِی قَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَا إِنَّهُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ

''(اس پر وہ لوگ چونکے اور) کہنے لگے (ہائیں)کیا تم ہی یوسف ہو ؟ یوسف نے کہا : ہاں میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، بے شک خدانے مجھ پر احسان کیا ہے کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص (اس سے) ڈرتا ہے اور (مصیبت میں) صبر کرتا ہے تو خدا ہرگز (ایسے) نیکوکاروں کا اجر برباد نہیں کرتا ''۔ نکات:

زمانہ جتنا گزرتا جارہاتھا برادران اتنا ہی تعجب کی شدت سے مبہوت ہوئے جارہے تھے کہ عزیز مصر ہمارے بابا کے خط کو دیکھ کر کیوں رو رہے ہیں ؟ عزیز کو ماجرائے یوسف (ع)کا علم کہاں سے ہوگیا! غور سے دیکھا جائے تو اس کا چہرہ بالکل یوسف (ع)سے ملتا جلتا ہے کہیں ایسا نہ ہوکہ یہی یوسف (ع)ہو ؟ بہتر ہے کہ انہی سے پوچھ لیں اگر یہ یوسف (ع)نہ ہوئے تو کوئی ہمیں دیوانہ نہیں کہے گا لیکن اگر یہ یوسف (ع)ہوئے تو شرمندگی کی پھٹکار کا کیا ہوگا ؟ اس فکر نے بھائیوں کے وجود میں ہیجان برپا کردیا کہ ہم کیا کریں ؟ اسی ادھیڑ بن میں یکایک اس سوال سے سکوت کا طلسم ٹوٹا :أَاِنَّکَ لَأَنْتََ یُوسُفُ ۔ کیا آپ ہی یوسف(ع) ہیں اس طلسم کے ٹوٹنے کے بعد کا سماں کیسا تھا وہاں کا ماحول کیا تھا آیا کسی نقاش میں اتنی صلاحیت ہے کہ اس کا نقشہ کھینچ سکے ؟ آیا شرمندگی و خوشی ، گریہ و محبت اور آغوش پھیلا کر سمیٹ لینا ان تمام دل کش اور روح فرسا مناظر کی تصویر کشی ہوسکتی ہے ؟ اسے تو بس خدا ہی جانتا ہے اور کوئی نہیں ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246