یوسف قرآن

یوسف قرآن 0%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استادمحسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 246
مشاہدے: 149950
ڈاؤنلوڈ: 3364

تبصرے:

یوسف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 149950 / ڈاؤنلوڈ: 3364
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ایسا ماحول فراہم کردیا جائے کہ لوگ خود سوال کرنے لگیں ۔ رشد و تربیت کے لئے جوش و ولولہ کو بلند کرنا چاہئےے ۔ بھائیوں کے لحظہ بہ لحظہ جذبہئ جستجو اور سوال میں زیادتی ہورہی تھی ۔ اپنے آپ سے کہہ رہے تھے ۔ انہیں اصرار کیوں تھا کہ ہم بنیامین کو اپنے ساتھ لائیں؟ پیمانہ ہمارے ہی غلے میں کیوں ملا ؟ پہلی مرتبہ ہمارا پیسہ کیوں لوٹا دیا گیا یوسف (ع)کے قصہ سے یہ کیسے باخبر ہوگئے ؟ کہیں ایسا نہ ہوکہ اب ہمیں غلہ نہ دیں ؟جب یہ تمام ہیجانات ذہن پر اثر انداز ہوئے ، جب روح بلبلا اٹھی ، ذہن کی نسیں پھٹنے لگیں تو یکایک سوال کردیا : کیا آپ(ع) ہی یوسف ہیں ؟ جواب دیا: ہاں !

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا درحقیقت حضرت قائم علیہ السلام کے سلسلے میں حضرت یوسف (ع)کی سنت ہے لوگ ان کو نہیں پہچانیں گے مگر جب خداوندعالم انہیں اجازت دے گا تو وہ خود کو پہچنوائیں گے(1)

پیام:

1۔ گزرتے وقت اور تلخ و شیریں حوادث سے روابط اور شناسائی میں تبدیلی آتی

ہے۔(أاِنَّکَ َأَنْتََ یُوسُف)

2۔ عوام کے احسانات تلخ ہیں لیکن احسانات الٰہی شیریں ہیں۔( مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَ)

3۔ اولیائے الٰہی تمام نعمتوں کا مصدر و منبع خداوندعالم کو جانتے ہیں۔( مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَ)

4۔ لطف خداوندی ،حکیمانہ اور معیار کے مطابق ہوتا ہے( مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ ...)

--------------

(1)بحار الانوار ج 12 ص 283.

۱۸۱

5۔ جوعہدہ داری اور حکومت کا اہل ہوتا ہے اسے حوادث ، حسادت ، شہوت ، ذلت، قیدخانہ، اور پروپیگنڈے جیسے امتحانات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔(مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ...)

6۔ خطرناک اور حساس ترین اوقات سے تبلیغ کے لئے استفادہ کرنا چاہیئے ۔ جب بھائیوں کو اپنے کئے پر شرمندگی کا پورا احساس ہوگیا اور وہ دریائے شرم میں ڈوبنے لگے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی تمام باتوں کو بغور سننے کے لئے آمادہ ہوگئے تب آپ (ع)نے فرمایا:(مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ...)

7۔ صبر اور تقوی عزت کا پیش خیمہ ہیں( مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ لاَ یُضِیعُ...)

8۔ صالحین کی حکومت ،خدا کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے(لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

آیت 91:

(91) قَالُوا تَاﷲِ لَقَدْ آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَا وَإِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ

''وہ لوگ کہنے لگے خدا کی قسم آپ کو خدا نے ہم پر فضیلت دی ہے اور بےشک ہم ہی (سرتاپا) خطاکار تھے ''۔

نکات:

ایثار یعنی دوسروں کو خود پر برتری دینا ۔ یوسف (ع)کے بھائیوں نے اپنی کج فکری (نحن عصب)کی بنیاد پراتنا بڑا غلط کام انجام دیاکہ کہنے لگے اسے کنویں میں پھینک دو، ''القوہ فی غیابت الجب'' خداوندعالم نے ان کو ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے گدائی پر مجبور ہوگئے(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّر)

۱۸۲

آخر کار اعتراف پر مجبور ہوگئے کہ ہماری ساری سازشوں پر پانی پھر گیا'' کُنَّا خَاطِئِینَ '' بالآخر انہوں نے اپنے غلط تفکر کے بجائے ایک حقیقت کو قبول کرلیا'' لَقَدْ آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَا''

برادران یوسف (ع)نے تاللہ کہہ کر چند بار قسم کھائی ہے ۔( تَاﷲِ لقد علمتم ما جئنا لنفسد فی الارض) خدا کی قسم آپ خود جانتے ہیں کہ ہم فساد اور چوری کےلئے آپ کی سرزمین پر نہیں آئے ہیں ۔

( تَاﷲِ تفت تذکر یوسف) اللہ کی قسم آپ تو ہمیشہ یوسف یوسف کرتے رہتے ہیں ۔(تَاﷲِ انک لفی ضلالک القدیم) خدا کی قسم باباجان آپ تو یوسف کی محبت میں گمراہ ہوکر اپنی پرانی گمراہی میں پڑے ہیں۔

( تَاﷲِ لَقَدْ آثَرَکَ عَلَیْنَا) خداکی قسم اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت دی ہے۔

پیام:

1۔اگر حسد و بغض کی بنیاد پر ہم کسی کی فضیلت کا اعتراف نہیں کریں گے تو ذلت و خواری کے ساتھ اس کا اقرار کرنا پڑے گا ۔(لَقَدْ آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَ)

2۔ خدا کے ارادے کے مقابلے میں کوئی ٹھہر نہیں سکتاہے(1) ۔( آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَ)

3۔ خطا و غلطی کا اعتراف ،عفو و بخشش کی راہیں ہموار کرتا ہے ۔(إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ )

--------------

(1) فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

۱۸۳

آیت 92:

(92)قَالَ لاَ تَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''یوسف نے کہا : آج تم پر کوئی عقاب نہیں ہوگا خدا تمہارے گناہ معاف فرمائے وہ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ''۔

نکات:

''تثریب'' کے معنی توبیخ ، گناہ گنوانااور زیادہ ملامت کرنا ہے ۔فتح مکہ کے موقع پر مشرکین نے کعبہ میں پناہ لی تھی ۔ عمر نے کہا : ہم تو انتقام لے کر رہیں گے ۔ پیغمبر (ص) نے فرمایا : آج کا دن ،رحمت کا دن ہے، پھر مشرکین سے پوچھا : آج تم لوگ میرے بارے میں کیا گمان رکھتے ہو ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : بہتری ! آپ (ع)ہمارے کریم بھائی ہیں ۔ اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا : آج میں وہی کہوں گا جو حضرت یوسف علیہ السلام کا کلام تھا۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ) عمر نے کہا : میں اپنی بات پر شرمندہ ہوگیا۔(1)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :اذا قدرتَ علی عدوّک فاجعل العفو عنه شکر القدر علیه جب تم اپنے دشمن پر قابو پالو تو اس کا شکر اس کی بخشش قراردو(2)

حدیث میں وارد ہوا ہے : جوان کا دل نرم ہوتا ہے پھر معصوم نے اسی آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمائی:، فرمایا: یوسف چونکہ جوان تھے اس لئے بھائیوں کو فوراً بخش دیا(3)

--------------

(1)تفسیر قرطبی

(2) نہج البلاغہ کلمات قصار 11.

(3)بحار الانوار ج 12 ص 280.

۱۸۴

پیام:

1۔ کشادہ قلبی ، ریاست و حکومت کا سبب ہے ۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ)

2۔ جواں مردی حضرت یوسف سے سیکھنا چاہیئے جنہوں نے اپنا حق بھی معاف کردیا اور خداوندعالم سے بھی عفو و درگزرکی درخواست کی ۔( لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ یَغْفِرُ اﷲُ )

3۔ لوگوں کی خطں کو فوراً معاف کردینا چاہیئے ۔(الْیَوْمَ)

4۔ جیسے ہی برائی کرنے والا غلطی کا اعتراف کرلے اسے فوراً قبول کرلینا چاہیئے اسے زیادہ شرمندہ نہیں کرنا چاہیئے ۔(إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ قَالَ لَاتَثْرِیبَ ...)

5۔ عفو و درگزر کا اعلان کردینا چاہیئے تاکہ دوسرے افراد بھی سرزنش نہ کریں(لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُم)

6۔ بھر پور عزت و قدرت کے وقت عفو و درگزرکرنا، اولیائے الٰہی کی سیرت رہی ہے(لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ )

7۔ خداوندعالم کی بخشش ان لوگوں کے بھی شامل حال ہوتی ہے جنہوں نے سالہاسال خدا کے دو پیغمبروں (یعقوب (ع)و یوسف(ع)) کو اذیت پہنچائی تھی ۔(هُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

8۔ جب بندہ معاف کررہا ہے تو''ارحم الراحمین '' خدا سے بخشش کے علاوہ کیا امید رکھی جاسکتی ہے(یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ)

9۔ شرمندہ افراد کو معاف کردینا الٰہی سنت ہے (یغفر۔ صیغہ مضارع ہے جو استمرار پر دلالت کرتاہے )

10۔ مظلومین کا ظالموں کو معاف کردینا رحمت الٰہی کے شامل حال ہونے کا پیش خیمہ ہے لیکن ایسے افراد کو معاف کردیا جانا مغفرت و رحمت الٰہی پر موقوف ہے ۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ .)

11۔ خداوندعالم کو صفت مغفرت و رحمت (مانند ارحم الراحمین) سے یاد کرنا، دعا و استغفار کے آداب میں سے ہے ۔

۱۸۵

آیت 93:

(93) اذْهَبُوا بِقَمِیصِی هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَی وَجْهِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیرًا وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ

''یہ میرا کرتا لے ج اور اس کو ابا جان کے چہرہ پر ڈال دینا کہ وہ پھر بینا ہوجائیں گے اور تم لوگ اپنے سب اہل و عیال کو لے کر میرے پاس آج''۔

نکات:

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان میں آپ (ع)کے کرتے کا تذکرہ مختلف مقامات پر ملتا ہے ۔

(الف) (و جا علی قمیصہ بدم کذب)بھائیوں نے جناب یوسف(ع) کے کرتے کو جھوٹے خون سے آ غشتہ کردیا اور اسے باپ کے پاس لے گئے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

(ب)(قدّ قمیصه من دبر) پیچھے سے پھٹا ہوا کرتا جرم اور مجرم کے کشف کا سبب بنا ۔

(ج)(اذْهَبُوا بِقَمِیصِی) کرتا نابینا یعقوب (ع)کے لئے شفا کا سبب بنا ۔

اگر ایک کرتا یوسف (ع)کے ہمراہ رہنے کی بنیاد پر نابینا کو بینا بنا دیتاہے تو مرقد و صحن اس کے در و دیوار اور کپڑے بلکہ ہر وہ چیز جو اولیائے الٰہی کے جوار میں ہے وہ تبرک ہے اور اس سے شفا کی امید ہے ۔

یہ مرحلہ توحل ہوگیاجس میں بھائیوں نے جناب یوسف (ع)کو پہچان لیا، عذر خواہی کرلی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بخش بھی دیا ۔ لیکن ابھی دوسرا مرحلہ باقی ہے ابھی بھائیوں کے ظلم کے آثار باپ کی نابینائی کی شکل میں آشکار ہیں ۔لہٰذا اسی مشکل کو یوسفی تدبیر نے اس آیت میں حل کیا ۔ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: میرا کرتا لے کر بابا کے پاس وہی جائے جو میرا خون بھرا کرتا لے گےا تھا تاکہ جس طرح بابا کو آزردہ خاطر کیاتھا اسی طرح ان کا دل شاد کرے ۔

۱۸۶

روایتوں میں آیاہے کہ اس عذر خواہی وغیرہ کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام ہر روز و شب اپنے بھائیوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے جس کی وجہ سے( حضرت یوسف (ع)کا سامنا کرنا پڑتا اور) بھائیوں کو شدید شرمندگی کا احساس ہوتا لہٰذا ان لوگوںنے پیغام بھیجاکہ ہمارا کھانا الگ لگایا جائے کیونکہ آپ(ع) کاچہرہ دیکھ کر ہم بے حد شرمندہ ہوتے ہیں اس پر حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا : لیکن میرے لئے یہ باعث افتخار ہے کہ میں آپ لوگوں کے ساتھ رہوں اور ایک ساتھ کھانا تناول کروں ۔ دنیا جب مجھے دیکھتی تھی تو یہ کہتی تھی: ''سبحان من بلغ عبدا بیع بعشرین درھما ما بلغ''خدا کی شان تو دیکھو کہ بیس درہم میں بکنے والا غلام آج کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔ لیکن آج آپ لوگوں کا وجود میرے لئے عزت کا سبب ہے ان لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ میں غلام اور بے حسب و نسب نہیں ہوں بلکہ آپ جیسے ہمارے بھائی اور حضرت یعقوب(ع) جیسے ہمارے بابا ہیں، یہ الگ بات ہے کہ میں غریب الوطن ہوگیا تھا (اللہ اکبر یہ جواں مردی ، یہ حلم و بردباری)

ظاہم واقعہ : منقول ہے کہ جب حضرت آی اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری یزدی اعلی اللہ مقامہ (حوزہ علمیہ قم کے مسس)نے علاج کے لئے اراک سے تہران کی سمت حرکت فرمائی تو درمیان راہ ایک شب قم میں ٹھہرے وہاں لوگوں نے تقاضا کیا کہ حوزہ علمیہ اراک کو قم منتقل کردیجئے کیونکہ قم حرم اہلبیت اور حضرت معصومہ ٭ کا مدفن ہے ۔ آپ نے استخارہ کیا تو یہ آیت برآمد ہوئی( وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ )

۱۸۷

پیام:

1۔ جو چیزیں اولیائے الٰہی سے مربوط ہیں ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے۔( اذْهَبُوا بِقَمِیصِی ) (یوسفی کرتا نابینا کو بینا بنا دیتاہے )

2۔ جو ہوا و ہوس کا مقابلہ کرتا ہے اس کا لباس بھی مقدسات میں شمار ہوجاتا ہے(بِقَمِیصِی)

3۔ غم اور خوشی آنکھوں کی روشنی میں موثر ہیں ۔(وابیضت عیناه من الحزن... یَأْتِ بَصِیرًا ) شاید اسی وجہ سے ہونہار فرزند کو''قر عین '' اور خنکی چشم کہا جاتا ہے (یہ اس صورت میں ہے جب اس واقعہ کے معجزاتی پہلو کو مدنظر نہ رکھا جائے )

4۔ معجزہ اور کرامت میں سن و سال کی قید نہیں ہے (بیٹے کا کرتا باپ کی آنکھوں کی بینائی کا باعث بنتا ہے)

5۔ حضرت یوسف علیہ السلام عالم علم غیب تھے وگرنہ انہیں کہاں سے معلوم ہوگیا کہ یہ کرتا باپ کو بینائی عطا کردے گا( یَأْتِ بَصِیرً)

6۔ صاحب قدرت فرزندوں کو اپنے کمزور رشتہ داروں خصوصا ً بوڑھے ماں باپ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیئے ۔( وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ )

7۔ معاشرتی حالات ، فریضہ کی انجام دہی میں موثر ہیں( وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ) (جناب یوسف (ع)کاایسے حالات میں صلہ رحم ایسا تھا کہ رشتہ داروں کو مصر آنا ہی پڑا )

8۔ تمام افراد کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے رشتہ داروں کاخیال رکھنا لازم ہے۔(أْتُونِی بِأَهْلِکُم)

9۔ گھر کا بدل دینا اور ہجرت کرنا بہت سارے آثار کا حامل ہے مثلاًغم انگیز یادیں خوشیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔(وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ)

10۔ جن لوگوں نے فراق اور جدائی کی مصیبت اٹھائی ہے ان کی آسائش کی فکر کرنا چاہیئے۔(أَجْمَعِینَ) اب حضرت یعقوب (ع)مزید فراق کی تاب نہیں رکھتے ۔

11۔ بہترین لطف وہ ہے جو سب کے شامل حال ہو۔( أَجْمَعِینَ)

۱۸۸

آیت 94:

(94) وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّی لَأَجِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ.

''اور جوں ہی یہ قافلہ (مصر سے حضرت یعقوب کے شہر کنعان کی طرف) چلا تو ان لوگوں کے والد (یعقوب) نے کہہ دیا کہ اگر مجھ کو سیٹھایا ہوا نہ کہو تو (ایک بات کہوںکہ) مجھے یوسف کی بو معلوم ہورہی ہے ''۔

نکات:

'' فَصَلَتْ'' یعنی دور ہوگئے ۔فَصَلَتِ الْعِیرُ ۔یعنی کارواں، مصر سے دور ہوگیا ۔''ْ تُفَنِّدُون'' کا مادہ (فند)سٹھیانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

جناب یعقوب(ع) کو اس کی فکر تھی کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ان کی عقل جواب دے گئی ہے۔ لیکن ہائے افسوس پیغمبر اسلام (ص) کے اردگرد رہنے والے بعض صحابیوں نے پیغمبر (ص) کو اس نسبت سے منسوب کردیا یہ اس وقت ہوا جب بوقت رحلت آپ (ص)نے فرمایا : قلم و کاغذ لے تاکہ ایسی چیز لکھ دوں کہ اگر اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اس وقت تاریخ کی ایک طویل القامت شخصیت نے کہا : ان الرجل لیھجر۔یہ مرد ہذیان بک رہا ہے۔ اسکے بعدآنحضرت(ص) کو کچھ لکھنے نہ دیا ۔

انی لاجد ریح یوسف۔ کوئی مشکل نہیں ہے ۔ کیونکہ جس طرح انبیاء (ع)وحی کو درک کرتے ہیں لیکن ہم درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اسی طرح بقیہ امور میں بھی ممکن ہے کہ ایسی چیزوں کو درک کرلیں جو ہماری عقول سے بالاتر ہیں ۔ کیا پیغمبر اسلام (ص)نے جنگ خندق میں خندق کھودتے ہوئے کدال اور پتھر سے مل کر نکلتی ہوئی چنگاری کو دیکھ کر نہیں فرمایا کہ میں نے اس چنگاری میں بڑے بڑوں کو خاک چاٹتے ہوئے دیکھ لیا ؟ لیکن جو ضعیف الایمان تھے وہ کہنے لگے پیغمبر (ص) تو اپنی جان کے خوف سے اردگرد خندق کھود رہے ہیں لیکن آنحضرت(ص) نے کدال کی ہر ضرب پر ایک حکومت کی شکست اور فتح کا وعدہ دےدیا ۔

۱۸۹

شرح نہج البلاغہ آی اللہ خوئی قدس سرہ میں ہے کہ امام کے لئے ایک نوری ستون ہے جب خدا چاہتا ہے تو امام اس پر نگاہ کرنے کی وجہ سے آئند ہ کو دیکھ لیتا ہے اور کبھی ایک عام آدمی کی طرح ہوتا ہے(1) ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہاہے :

زمصر بوی پیراہن شنیدی

چرا در چاہ کنعانش ندیدی۔

مصر سے تو (حضرت یعقوب(ع))کو کرتے کی خوشبو آگئی مگر کنعان کے کنویں میں حضرت یوسف (ع)کو آپ نہ دیکھ سکے.

بگفت احوال ما برق جہان است

گہی پیدا و دیگر دم نہان است

انھوں نے کہا: ہمارا حال آسمانی بجلی کی مانند ہے کبھی روشن اور کبھی پنہان ہوجاتی ہے.

گہی برطارم اعلی نشینم

گہی تا پشت پای خود نبینم

(حکمت خدا کے تحت)کبھی ہم لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں اور کبھی اپنے پں کے نیچے پڑی چیز سے بھی بے خبر ہوتے ہیں ممکن ہے کہ خوشبوئے یوسف (ع)سے مراد جناب یوسف (ع)کے بارے میں کوئی نئی خبر ہو یہ

--------------

(1) تفسیر نمونہ.

۱۹۰

مسئلہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بنام( telepathy ) (یعنی انتقال فکر یا ارتباط معنوی و فکری )مشہور و معروف ہے اور ''مسلّم علمی مسئلہ ''کے عنوان سے قبول شدہ ہے ۔ یعنی جو لوگ ایک دوسرے سے نزدیکی تعلق رکھتے ہیں یا ایک خاص قسم کی روحی قدرت سے سرشار ہیں جیسے ہی دنیا کے کسی گوشے میں کسی شخص پر کوئی مصیبت آتی ہے وہ دوسری جگہ اس سے مطلع ہوجاتے ہیں(1)

ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا : کبھی کبھی میرادل کسی سبب کے بغیر غمناک ہوجاتا ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ دوسرے سمجھ لیتے ہیں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : مسلمین خلقت میں ایک حقیقت وطینت سے ہیں جیسے ہی کوئی تلخ حادثہ کسی پر رونما ہوتا ہے دوسرا شخص دوسری زمین پر غمناک ہوجاتا ہے۔

اگر حضرت یوسف (ع)کی خوشبو کے سونگھنے کا تعلق صرف ''قوت شامہ '' سے ہے تو یہ ایک معجزہ اور خارق عادت واقعہ ہے کہ حضرت یعقوب (ع)اتنے طویل فاصلے پر حضرت یوسف (ع)کی خوشبو کو محسوس کرلیتے ہیں۔

آپ بیتی:جس وقت عراق نے ایران پر حملہ کیا تھا اور امام خمینی (رح)کے فرمان پرپوری قوم غربی و جنوبی محاذ پر موجود اور حاضر تھی میں بھی شہید آی اللہ اشرفی کے ہمراہ جو 90/ نوے سال کے تھے، عملیات ''مسلم بن عقیل'' میں موجود تھا ۔ انہوں نے بارہا حملے کی رات مجھ سے کہا : میں بہشت کی خوشبو محسوس کررہا ہوں ۔ لیکن میں نے اپنی تمام تر کوششوں

--------------

(1) تفسیر نمونہ.

۱۹۱

کے باوجود کوئی خوشبو محسوس نہ کی ۔ ہاں کیوں نہ ہو جس نے نوے سال علم و تقوی و زہد میں اپنی زندگی گزاری ہو وہ اتنی قدرت رکھتا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کا احساس کرے جس سے دوسرے عاجز ہوں ۔ اسی طرح آپ کی وہ پیشین گوئی کہ میں چوتھا شہید محراب ہوں ،دنیا کے سامنے آشکار ہوگئی(1) بہرحال ممکن ہے کہ بوئے بہشت سے مراد عرفانی خوشبو ہو جیسے مناجات کی شیرینی جو ایک معنوی مزہ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ طبیعی خوشبو ہو لیکن ہر مشام اس خوشبو کو محسوس نہیں کرپاتا ۔ جیسے فضا میں ریڈیو کی تمام موجیں ہیں لیکن تمام ریڈیو اسے نہیں کھینچ پاتے۔

پیام:

1۔ انسان باطنی صفات کے ذریعہ معنوی حقائق کو درک کر سکتا ہے ۔ (انی لاجد ریح یوسف)۔ لیکن درک حقائق محدود ہے ایسا نہیں ہے کہ ہر زمان و مکان میں جو چاہیں درک کرلیں ، یہی وجہ ہے کہ یوسف کی خوشبو کو اس وقت محسوس کیا جب کاروان مصر سے دور ہوگیا( فَصَلَتِ الْعِیرُ)

2۔ اگر حقائق کو درک نہیں کرسکتے تو دوسروں کے بلند مقام کا انکار نہیں کرنا چاہیئے ۔(لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ)

3۔ نادانوں کے درمیان عالموں کی زندگی بڑی تکلیف دہ ہے( لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ)

--------------

(1)منافقین نے ایک دوسال کے اندر اندر آیت اللہ مدنی، صدوقی ، دستغیب، کو نماز جمعہ یا نماز جمعہ کے راستے میں بم سے شہید کردیا.

۱۹۲

آیت 95:

(95) قَالُوا تَاﷲِ إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ

''وہ لوگ کہنے لگے : آپ یقینا اپنے پرانے خبط (محبت) میں (مبتلا) ہیں''۔

نکات:

اس سورہ کی آٹھویں آیت میں ہم نے پڑھا کہ بھائیوں نے باپ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا:(انا ابانا لفی ضلال مبین) ہمارے بابا تو یوسف (ع)اور اس کے بھائی کی بے جا محبت میں آشکارا گمراہی میں پڑ گئے ہیں ۔ اس آیت میں کہہ رہے ہیں کہ(ضلالک القدیم ) یوسف(ع) کے سلسلے میں اب بھی اسی غلطی پر ڈٹے ہیں ۔

عوام الناس ،اولیائے الٰہی کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر نہ تولیں اور یہ فیصلہ صادر نہ کریں کہ فلاں کام ہوسکتا ہے اور فلاں کام نہیں ہوسکتا ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: الناس اعداء ماجهلوا ۔انسان ہر اس چیز کا دشمن ہے جسے نہیں جانتا۔

پیام:

1۔ نیک کردار افراد کے افعال کو خود سے قیاس نہ کیجئے(إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِک...) (باپ کی طرف گمراہی کی نسبت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ نبی کو اپنی عقل سے درک کرنا چاہتے تھے )

2۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اس جدائی کی طولانی مدت میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی سے مطمئن تھے اور اس کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے اسی وجہ سے آپ کے بیٹوں نے کہا(إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ )

۱۹۳

آیت 96:

(96) فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِیرُ أَلْقَاهُ عَلَی وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ مِنَ اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ.

''پھر یوسف کی خوشخبری دینے والا آیا اور یوسف کے کرتے کو یعقوب کے چہرہ پر ڈال دیا تو یعقوب فوراً بینا ہوگئے (تب یعقوب نے) کہا کیوں میں تم سے نہ کہتا تھا جو باتیں خدا کی طرف سے میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے''۔

نکات:

اگر آنکھ کے سفید ہونے''وابیضت عیناه'' سے مراد بینائی میں کمی واقع ہونا ہے تو''بصیراً'' سے مراد آنکھوں کا پر نور ہونا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خوشی اور غم انسان کی قوت باصرہ پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اگر مراد مطلق نابینائی ہے یعنی جناب یعقوب (ع)فراق یوسف (ع)میں دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے جیساکہ ظاہر آیت''فَارْتَدَّ بَصِیرًا'' سے یہی سمجھ میں آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ اورتوسل تھا جس کی طرف قرآن مجید اشارہ کررہا ہے۔

دنیا نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے حضرت یوسف (ع)کے بھائیوں نے ایک دن خبر پہنچائی تھی کہ یوسف (ع)کو بھیڑیا کھا گیا اور آج وہی بھائی حضرت یوسف (ع)کے حاکم ہونے کی خبر لا رہے ہےں ۔

پیام:

1۔ علم انبیاء (ع)کا سرچشمہ، علم الٰہی ہوتا ہے ۔( أَعْلَمُ مِنَ اﷲِ ...)

2۔ الٰہی نمائندوں کو خدا کے وعدوں پر یقین و اطمینان ہوتا ہے ۔( أَلَمْ أَقُلْ...)

3۔ حضرت یعقوب(ع) اپنے فرزندوں کے برعکس حضرت یوسف (ع)کی زندگی اور فراق کے وصال میں تبدیل ہونے پر مطمئن تھے ۔( أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ)

4۔ ارادہ الٰہی طبیعی قوانین پر حاکم ہوتا ہے۔( فَارْتَدَّ بَصِیرً)

5۔ اولیائے الٰہی کا لباس اور ان سے ارتباط بااثر ہوسکتا ہے۔( فَارْتَدَّ بَصِیرً)

۱۹۴

آیت 97:

(97) قَالُوا یَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ

''ان لوگوں نے عرض کی : اے بابا ہمارے گناہوں کی مغفرت کی (خدا کی بارگاہ میں )ہمارے واسطے دعا مانگئے ہم بے شک از سر تاپا گنہگار ہیں''۔

نکات:

فرزندان حضرت یعقوب(ع) موحد تھے اور اپنے باپ کے والا مقام سے آگاہ تھے( یَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا) بنابریں اپنے باپ کو جو ''گمراہی اور ضلالت '' کی نسبت دی تھی اس کا مقصد عقیدہ میں گمراہی نہ تھا بلکہ ان کے زعم ناقص میں حضرت یعقوب (ع)حضرت یوسف (ع)کی محبت میں غلط تشخیص کی بنا پر گمراہ تھے ۔

ظالم کے تین طرح کے دن ہوتے ہیں:

1۔ قدرت کے روز۔

2۔ مہلت کے روز۔

3۔ ندامت کے روز۔

اسی طرح مظلوم کے بھی تینطرح کے دن ہوتے ہیں:

1۔ ''روز حسرت'' جس دن اس پر ظلم ہوتا ہے۔

2۔ ''روز حیرت'' جس میں وہ کسی تدبیر کی فکر میں ہوتا ہے۔

3۔ ''روز نصرت ومدد'' چاہے وہ دنیا میں ہو یاآخرت میں۔

۱۹۵

پیام:

1۔ ظلم، مایہ ذلت و خواری ہے ، جس دن بھائیوں نے حضرت یوسف کو کنویں میں ڈالا تھا وہ روز ان کی خوشی اور حضرت یوسف (ع)کی ذلت کا دن تھا ۔لیکن آج معاملہ برعکس ہے ۔

2۔ گناہوں کی بخشش کے لئے اولیائے الٰہی سے توسل جائز ہے۔( یَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَ)

آیت 98:

(98) قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ

''یعقوب نے کہا میں بہت جلد اپنے پروردگار سے تمہاری مغفرت کی دعا کروں گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ''۔

نکات:

جو کل اپنی غلطیوں کی بنیاد پر اپنے باپ کو(ان ابانا لفی ضلال مبین) کہہ رہے تھے، آج وہی اپنی غلطیوں کی طرف متوجہ ہو کر(إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ) کہہ رہے ہیں۔

۱۹۶

پیام:

1۔باپ کو کینہ توز نہیں ہونا چاہیئے اور بچوں کی لغزشوں کو دل میں نہیں رکھنا چاہیئے۔(استَغْفِرُ لَکُمْ )

2۔ دعا کے لئے خاص اوقات اولویت رکھتے ہیں ۔( سَوْف) (1)

3۔ لطف الٰہی، عظیم سے عظیم گناہ اور بڑے بڑے گناہگاروں کے بھی شامل حال ہوتا ہے۔( هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ) حالانکہ سالہا سال دو الٰہی نمائندے اذیت وآزار میں مبتلا رہے لیکن پھر بھی بخشش کی امید ہے ۔

4۔ باپ کی دعا فرزندوں کے حق میں انتہائی موثر ہوتی ہے( سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ) (2)

5۔ اگر غلطی کرنے والا غلطی کا اعتراف کرلے تو اس کی ملامت نہیں کرنا چاہیئے جیسے ہی بیٹوں نے کہا( إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ ) ہم خطا کار تھے ۔ویسے ہی باپ نے کہا(سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ )

--------------

(1)تفسیر مجمع البیان میں اور اطیب البیان میں موجود ہے کہ حضرت یعقوب شب جمعہ یا سحر کے منتظر تھے تاکہ بچوں کے لئے دعائیں کریں.

(2) اس سلسلے میں بہت ساری روایات موجود ہیں.

۱۹۷

آیت 99:

(99) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ أَبَوَیْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اﷲُ آمِنِینَ

''(غرض) جب یہ لوگ (حضرت یوسف کے والد، والدہ ، اور بھائی) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا: مصر میں داخل ہوجاہیئے اللہ نے چاہا توا من سے رہیں گے ''۔

نکات:

داستان کے اس حصے کو میں کیسے لکھوں میں نہیں جانتا حضرت یوسف (ع)اپنے والدین کے استقبال کے لئے بیرون شہر خیمہ ڈال کر انتظار کی گھڑیاں گزار رہے ہیں تاکہ بڑے ہی عزت و احترام سے انہیں شہر مصر میں لے جائیں(دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ... ادْخُلُوا مِصْرَ...)

اسی طرح فطری بات ہے کہ ادھر جب حضرت یوسف (ع)کے والدین اور بھائی سفرکی تیاری کررہے ہوں گے تو پورے کنعان میں ہنگامہ ہوگا ۔ لوگ بغور ملاحظہ کر رہے تھے کہ کس طرح سالہاسال کے بعد بیٹے کی سلامتی کی خبر سن کر خوشی سے جھومتے ہوئے حضرت یعقوب روشن و منور آنکھوں کے ہمراہ مشتاقانہ دیدار فرزند کے لئے آمادہ سفر ہیں۔

اہل کنعان بھی باپ اور بیٹے کے اس ملن کی خبر سے بے حد خوشحال تھے بطور خاص اس بات پر خوش تھے کہ حضرت یوسف (ع)مصر کے خزانہ دار ہیں اور خشک سالی کے زمانے میں غلہ بھیج کران کی مدد فرمائی ہے ۔نہیں معلوم کس شوق و ولولہ اور عشق و محبت کے ساتھ اس واقعہ کو حوالہئ قرطاس کیا جائے اور کہاں پراسے تمام کیا جائے !

۱۹۸

کلمہ ''ابویہ'' سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع)کی مادر گرامی بھی زندہ تھیں ۔ لیکن سوال جو ذہن میں اٹھتا ہے اور میں خود بھی اس کا جواب نہیں جانتا کہ آخر وجہ کیا تھی کہ پورے قصے میں حضرت یوسف(ع) کی مادر گرامی کا گریہ ، نالہ و شیو ن کہیں نہیں ملتا ۔ پوری داستان اس سلسلے میں خاموش ہے ۔(1)

روایات میں آیا ہے کہ حضرت یعقوب(ع) نے قسم دے کر حضرت یوسف (ع)سے اصرار کیا کہ انہیں اپنی پوری داستان سنائیں ۔ حکم پدری پر حضرت یوسف (ع)نے داستان شروع کی جب اس موقع پر پہنچے کہ بھائیوں نے کنویں کے پاس لے جا کر زبردستی میرا کرتا اتروا لیا تو یہ سنتے ہی حضرت یعقوب (ع)بے ہوش ہوگئے ۔ جیسے ہی ہوش میں آئے فرمایا : داستان سناتے رہو لیکن حضرت یوسف (ع)نے فرمایا : بابا آپ (ع)کو ابراہیم و اسماعیل و اسحق ٪ کے حق کا واسطہ، مجھے اس داستان کے سنانے سے معاف فرمائیں! حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسے قبول فرمالیا(2)

--------------

(1)تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جناب یوسف کی ماں بچپن میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں، حضرت یوسف کو ان کی خالہ نے پالا تھا، آیہئ شریفہ میں ''ابویہ'' اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ F کی خالہ آپ کی تربیت کی ذمہ داری تھیں، جس طرح قرآن مجید نے آذر کو جناب ابراہیم(ع) کا باپ کہا ہے، جبکہ وہ آپ کا چچا تھا۔

علاوہ از ایں، ماں کا گریہ، آہ و نالہ، نوحہ و ماتم او رفریاد و زاری ایک عام بات ہے، کیونکہ ہر ماں اپنے بچے کے فراق پر آنسو بہاتی ہے، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن اس کے مقابلہ میں مرد عقل کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا ہے، باپ ہونے کے باوجود وہ صبر و ضبط سے کام لیتا ہے، اور اگر وہ باپ نبی ہو تو پھر اس کا آنسو بہانا بہت بعید ہے، کیونکہ یہ خلاف عقل ہے ،گمشدہ چیز پر رونے سے کیا فائدہ، خصوصاً جب یقین ہو کہ فرزند زندہ ہے تو پھر آنسو بہانا دیوانہ پن ہے، زندہ شخص پر آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔

انہی تمام پندار غلط اور تصورات ناقص پر خط بطلان کھینچنے کے لئے خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) کے آنسووں کا تذکرہ فرمایا کہ جو اپنے وقت کے نبی بھی تھے اور اس کی تائید بھی فرمائی کہ یہ آنسو مقدس ہے، اور اس کا ذکر کرکے دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کرنا ہے کہ یوسف کے فراق میں حزن و ملال، نالہ و شیون مقدس ہے، قابل اعتراض نہیں۔ مترجم۔

(2)تفسیر نمونہ، تفسیر مجمع البیان.

۱۹۹

پیام:

1۔ بیرون شہر استقبال کرنا اچھی بات ہے ۔( دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ) شہر کے باہر استقبالیہ مراسم ادا کئے گئے تھے اور وہیں پر خیمہ ڈالاگیا تھا۔

2۔عہدہ اور مقام ہمیں والدین کے احترام سے غافل نہ کریں(قَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ...)

3۔سربراہ مملکت بھی اگر اپنے ملک کے امن و امان کے سلسلے میں گفتگو کررہا ہے تو اس کو بھی خدا وندعالم کے لطف کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے(إِنْ شَاءَ اﷲُ ) (1)

4۔رہائش ومحل وقوع کے انتخاب میں سب سے پہلا قابل غور مرحلہ امنیت ہے۔(آمِنِینَ)

5۔ اگر ہر دور میں یوسف زمان حاکم ہوں تو امینت برقرار ہوجائے گی۔(آمِنِینَ)

--------------

(1)ایک قوم نے پہاڑوں کو تراش کر اپنے گھر بنالئے تھے تاکہ امن و سکون سے رہ سکیں لیکن خدائی قہر نے ان کے امن و امان کو درہم برہم کردیا۔(وکانوا ینحتون من الجبال بیوتاآمنین فاخذتہم الصیح مصبحین) حجر 82۔83.

۲۰۰