یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174796 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ایسا ماحول فراہم کردیا جائے کہ لوگ خود سوال کرنے لگیں ۔ رشد و تربیت کے لئے جوش و ولولہ کو بلند کرنا چاہئےے ۔ بھائیوں کے لحظہ بہ لحظہ جذبہئ جستجو اور سوال میں زیادتی ہورہی تھی ۔ اپنے آپ سے کہہ رہے تھے ۔ انہیں اصرار کیوں تھا کہ ہم بنیامین کو اپنے ساتھ لائیں؟ پیمانہ ہمارے ہی غلے میں کیوں ملا ؟ پہلی مرتبہ ہمارا پیسہ کیوں لوٹا دیا گیا یوسف (ع)کے قصہ سے یہ کیسے باخبر ہوگئے ؟ کہیں ایسا نہ ہوکہ اب ہمیں غلہ نہ دیں ؟جب یہ تمام ہیجانات ذہن پر اثر انداز ہوئے ، جب روح بلبلا اٹھی ، ذہن کی نسیں پھٹنے لگیں تو یکایک سوال کردیا : کیا آپ(ع) ہی یوسف ہیں ؟ جواب دیا: ہاں !

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا درحقیقت حضرت قائم علیہ السلام کے سلسلے میں حضرت یوسف (ع)کی سنت ہے لوگ ان کو نہیں پہچانیں گے مگر جب خداوندعالم انہیں اجازت دے گا تو وہ خود کو پہچنوائیں گے(۱)

پیام:

۱۔ گزرتے وقت اور تلخ و شیریں حوادث سے روابط اور شناسائی میں تبدیلی آتی

ہے۔(أاِنَّکَ َأَنْتََ یُوسُف)

۲۔ عوام کے احسانات تلخ ہیں لیکن احسانات الٰہی شیریں ہیں۔( مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَ)

۳۔ اولیائے الٰہی تمام نعمتوں کا مصدر و منبع خداوندعالم کو جانتے ہیں۔( مَنَّ اﷲُ عَلَیْنَ)

۴۔ لطف خداوندی ،حکیمانہ اور معیار کے مطابق ہوتا ہے( مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ ...)

--------------

(۱)بحار الانوار ج ۱۲ ص ۲۸۳.

۱۸۱

۵۔ جوعہدہ داری اور حکومت کا اہل ہوتا ہے اسے حوادث ، حسادت ، شہوت ، ذلت، قیدخانہ، اور پروپیگنڈے جیسے امتحانات کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔(مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ...)

۶۔ خطرناک اور حساس ترین اوقات سے تبلیغ کے لئے استفادہ کرنا چاہیئے ۔ جب بھائیوں کو اپنے کئے پر شرمندگی کا پورا احساس ہوگیا اور وہ دریائے شرم میں ڈوبنے لگے اور حضرت یوسف علیہ السلام کی تمام باتوں کو بغور سننے کے لئے آمادہ ہوگئے تب آپ (ع)نے فرمایا:(مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ...)

۷۔ صبر اور تقوی عزت کا پیش خیمہ ہیں( مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اﷲَ لاَ یُضِیعُ...)

۸۔ صالحین کی حکومت ،خدا کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے(لاَ یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

آیت ۹۱:

(۹۱) قَالُوا تَاﷲِ لَقَدْ آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَا وَإِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ

''وہ لوگ کہنے لگے خدا کی قسم آپ کو خدا نے ہم پر فضیلت دی ہے اور بےشک ہم ہی (سرتاپا) خطاکار تھے ''۔

نکات:

ایثار یعنی دوسروں کو خود پر برتری دینا ۔ یوسف (ع)کے بھائیوں نے اپنی کج فکری (نحن عصب)کی بنیاد پراتنا بڑا غلط کام انجام دیاکہ کہنے لگے اسے کنویں میں پھینک دو، ''القوہ فی غیابت الجب'' خداوندعالم نے ان کو ایسے مقام پر پہنچا دیا کہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے گدائی پر مجبور ہوگئے(مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّر)

۱۸۲

آخر کار اعتراف پر مجبور ہوگئے کہ ہماری ساری سازشوں پر پانی پھر گیا'' کُنَّا خَاطِئِینَ '' بالآخر انہوں نے اپنے غلط تفکر کے بجائے ایک حقیقت کو قبول کرلیا'' لَقَدْ آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَا''

برادران یوسف (ع)نے تاللہ کہہ کر چند بار قسم کھائی ہے ۔( تَاﷲِ لقد علمتم ما جئنا لنفسد فی الارض) خدا کی قسم آپ خود جانتے ہیں کہ ہم فساد اور چوری کےلئے آپ کی سرزمین پر نہیں آئے ہیں ۔

( تَاﷲِ تفت تذکر یوسف) اللہ کی قسم آپ تو ہمیشہ یوسف یوسف کرتے رہتے ہیں ۔(تَاﷲِ انک لفی ضلالک القدیم) خدا کی قسم باباجان آپ تو یوسف کی محبت میں گمراہ ہوکر اپنی پرانی گمراہی میں پڑے ہیں۔

( تَاﷲِ لَقَدْ آثَرَکَ عَلَیْنَا) خداکی قسم اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت دی ہے۔

پیام:

۱۔اگر حسد و بغض کی بنیاد پر ہم کسی کی فضیلت کا اعتراف نہیں کریں گے تو ذلت و خواری کے ساتھ اس کا اقرار کرنا پڑے گا ۔(لَقَدْ آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَ)

۲۔ خدا کے ارادے کے مقابلے میں کوئی ٹھہر نہیں سکتاہے(۱) ۔( آثَرَکَ اﷲُ عَلَیْنَ)

۳۔ خطا و غلطی کا اعتراف ،عفو و بخشش کی راہیں ہموار کرتا ہے ۔(إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ )

--------------

(۱) فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

۱۸۳

آیت ۹۲:

(۹۲)قَالَ لاَ تَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''یوسف نے کہا : آج تم پر کوئی عقاب نہیں ہوگا خدا تمہارے گناہ معاف فرمائے وہ تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ''۔

نکات:

''تثریب'' کے معنی توبیخ ، گناہ گنوانااور زیادہ ملامت کرنا ہے ۔فتح مکہ کے موقع پر مشرکین نے کعبہ میں پناہ لی تھی ۔ عمر نے کہا : ہم تو انتقام لے کر رہیں گے ۔ پیغمبر (ص) نے فرمایا : آج کا دن ،رحمت کا دن ہے، پھر مشرکین سے پوچھا : آج تم لوگ میرے بارے میں کیا گمان رکھتے ہو ؟ ان لوگوں نے جواب دیا : بہتری ! آپ (ع)ہمارے کریم بھائی ہیں ۔ اس وقت پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا : آج میں وہی کہوں گا جو حضرت یوسف علیہ السلام کا کلام تھا۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ) عمر نے کہا : میں اپنی بات پر شرمندہ ہوگیا۔(۱)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :اذا قدرتَ علی عدوّک فاجعل العفو عنه شکر القدر علیه جب تم اپنے دشمن پر قابو پالو تو اس کا شکر اس کی بخشش قراردو(۲)

حدیث میں وارد ہوا ہے : جوان کا دل نرم ہوتا ہے پھر معصوم نے اسی آیہئ شریفہ کی تلاوت فرمائی:، فرمایا: یوسف چونکہ جوان تھے اس لئے بھائیوں کو فوراً بخش دیا(۳)

--------------

(۱)تفسیر قرطبی

(۲) نہج البلاغہ کلمات قصار ۱۱.

(۳)بحار الانوار ج ۱۲ ص ۲۸۰.

۱۸۴

پیام:

۱۔ کشادہ قلبی ، ریاست و حکومت کا سبب ہے ۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ)

۲۔ جواں مردی حضرت یوسف سے سیکھنا چاہیئے جنہوں نے اپنا حق بھی معاف کردیا اور خداوندعالم سے بھی عفو و درگزرکی درخواست کی ۔( لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ یَغْفِرُ اﷲُ )

۳۔ لوگوں کی خطں کو فوراً معاف کردینا چاہیئے ۔(الْیَوْمَ)

۴۔ جیسے ہی برائی کرنے والا غلطی کا اعتراف کرلے اسے فوراً قبول کرلینا چاہیئے اسے زیادہ شرمندہ نہیں کرنا چاہیئے ۔(إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ قَالَ لَاتَثْرِیبَ ...)

۵۔ عفو و درگزر کا اعلان کردینا چاہیئے تاکہ دوسرے افراد بھی سرزنش نہ کریں(لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُم)

۶۔ بھر پور عزت و قدرت کے وقت عفو و درگزرکرنا، اولیائے الٰہی کی سیرت رہی ہے(لَاتَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ )

۷۔ خداوندعالم کی بخشش ان لوگوں کے بھی شامل حال ہوتی ہے جنہوں نے سالہاسال خدا کے دو پیغمبروں (یعقوب (ع)و یوسف(ع)) کو اذیت پہنچائی تھی ۔(هُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

۸۔ جب بندہ معاف کررہا ہے تو''ارحم الراحمین '' خدا سے بخشش کے علاوہ کیا امید رکھی جاسکتی ہے(یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ)

۹۔ شرمندہ افراد کو معاف کردینا الٰہی سنت ہے (یغفر۔ صیغہ مضارع ہے جو استمرار پر دلالت کرتاہے )

۱۰۔ مظلومین کا ظالموں کو معاف کردینا رحمت الٰہی کے شامل حال ہونے کا پیش خیمہ ہے لیکن ایسے افراد کو معاف کردیا جانا مغفرت و رحمت الٰہی پر موقوف ہے ۔( لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمْ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ .)

۱۱۔ خداوندعالم کو صفت مغفرت و رحمت (مانند ارحم الراحمین) سے یاد کرنا، دعا و استغفار کے آداب میں سے ہے ۔

۱۸۵

آیت ۹۳:

(۹۳) اذْهَبُوا بِقَمِیصِی هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَی وَجْهِ أَبِیْ یَأْتِ بَصِیرًا وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ

''یہ میرا کرتا لے ج اور اس کو ابا جان کے چہرہ پر ڈال دینا کہ وہ پھر بینا ہوجائیں گے اور تم لوگ اپنے سب اہل و عیال کو لے کر میرے پاس آج''۔

نکات:

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان میں آپ (ع)کے کرتے کا تذکرہ مختلف مقامات پر ملتا ہے ۔

(الف) (و جا علی قمیصہ بدم کذب)بھائیوں نے جناب یوسف(ع) کے کرتے کو جھوٹے خون سے آ غشتہ کردیا اور اسے باپ کے پاس لے گئے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

(ب)(قدّ قمیصه من دبر) پیچھے سے پھٹا ہوا کرتا جرم اور مجرم کے کشف کا سبب بنا ۔

(ج)(اذْهَبُوا بِقَمِیصِی) کرتا نابینا یعقوب (ع)کے لئے شفا کا سبب بنا ۔

اگر ایک کرتا یوسف (ع)کے ہمراہ رہنے کی بنیاد پر نابینا کو بینا بنا دیتاہے تو مرقد و صحن اس کے در و دیوار اور کپڑے بلکہ ہر وہ چیز جو اولیائے الٰہی کے جوار میں ہے وہ تبرک ہے اور اس سے شفا کی امید ہے ۔

یہ مرحلہ توحل ہوگیاجس میں بھائیوں نے جناب یوسف (ع)کو پہچان لیا، عذر خواہی کرلی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بخش بھی دیا ۔ لیکن ابھی دوسرا مرحلہ باقی ہے ابھی بھائیوں کے ظلم کے آثار باپ کی نابینائی کی شکل میں آشکار ہیں ۔لہٰذا اسی مشکل کو یوسفی تدبیر نے اس آیت میں حل کیا ۔ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: میرا کرتا لے کر بابا کے پاس وہی جائے جو میرا خون بھرا کرتا لے گےا تھا تاکہ جس طرح بابا کو آزردہ خاطر کیاتھا اسی طرح ان کا دل شاد کرے ۔

۱۸۶

روایتوں میں آیاہے کہ اس عذر خواہی وغیرہ کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام ہر روز و شب اپنے بھائیوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے جس کی وجہ سے( حضرت یوسف (ع)کا سامنا کرنا پڑتا اور) بھائیوں کو شدید شرمندگی کا احساس ہوتا لہٰذا ان لوگوںنے پیغام بھیجاکہ ہمارا کھانا الگ لگایا جائے کیونکہ آپ(ع) کاچہرہ دیکھ کر ہم بے حد شرمندہ ہوتے ہیں اس پر حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا : لیکن میرے لئے یہ باعث افتخار ہے کہ میں آپ لوگوں کے ساتھ رہوں اور ایک ساتھ کھانا تناول کروں ۔ دنیا جب مجھے دیکھتی تھی تو یہ کہتی تھی: ''سبحان من بلغ عبدا بیع بعشرین درھما ما بلغ''خدا کی شان تو دیکھو کہ بیس درہم میں بکنے والا غلام آج کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔ لیکن آج آپ لوگوں کا وجود میرے لئے عزت کا سبب ہے ان لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ میں غلام اور بے حسب و نسب نہیں ہوں بلکہ آپ جیسے ہمارے بھائی اور حضرت یعقوب(ع) جیسے ہمارے بابا ہیں، یہ الگ بات ہے کہ میں غریب الوطن ہوگیا تھا (اللہ اکبر یہ جواں مردی ، یہ حلم و بردباری)

ظاہم واقعہ : منقول ہے کہ جب حضرت آی اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری یزدی اعلی اللہ مقامہ (حوزہ علمیہ قم کے مسس)نے علاج کے لئے اراک سے تہران کی سمت حرکت فرمائی تو درمیان راہ ایک شب قم میں ٹھہرے وہاں لوگوں نے تقاضا کیا کہ حوزہ علمیہ اراک کو قم منتقل کردیجئے کیونکہ قم حرم اہلبیت اور حضرت معصومہ ٭ کا مدفن ہے ۔ آپ نے استخارہ کیا تو یہ آیت برآمد ہوئی( وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ )

۱۸۷

پیام:

۱۔ جو چیزیں اولیائے الٰہی سے مربوط ہیں ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے۔( اذْهَبُوا بِقَمِیصِی ) (یوسفی کرتا نابینا کو بینا بنا دیتاہے )

۲۔ جو ہوا و ہوس کا مقابلہ کرتا ہے اس کا لباس بھی مقدسات میں شمار ہوجاتا ہے(بِقَمِیصِی)

۳۔ غم اور خوشی آنکھوں کی روشنی میں موثر ہیں ۔(وابیضت عیناه من الحزن... یَأْتِ بَصِیرًا ) شاید اسی وجہ سے ہونہار فرزند کو''قر عین '' اور خنکی چشم کہا جاتا ہے (یہ اس صورت میں ہے جب اس واقعہ کے معجزاتی پہلو کو مدنظر نہ رکھا جائے )

۴۔ معجزہ اور کرامت میں سن و سال کی قید نہیں ہے (بیٹے کا کرتا باپ کی آنکھوں کی بینائی کا باعث بنتا ہے)

۵۔ حضرت یوسف علیہ السلام عالم علم غیب تھے وگرنہ انہیں کہاں سے معلوم ہوگیا کہ یہ کرتا باپ کو بینائی عطا کردے گا( یَأْتِ بَصِیرً)

۶۔ صاحب قدرت فرزندوں کو اپنے کمزور رشتہ داروں خصوصا ً بوڑھے ماں باپ کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیئے ۔( وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ )

۷۔ معاشرتی حالات ، فریضہ کی انجام دہی میں موثر ہیں( وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ) (جناب یوسف (ع)کاایسے حالات میں صلہ رحم ایسا تھا کہ رشتہ داروں کو مصر آنا ہی پڑا )

۸۔ تمام افراد کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے رشتہ داروں کاخیال رکھنا لازم ہے۔(أْتُونِی بِأَهْلِکُم)

۹۔ گھر کا بدل دینا اور ہجرت کرنا بہت سارے آثار کا حامل ہے مثلاًغم انگیز یادیں خوشیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔(وَأْتُونِی بِأَهْلِکُمْ أَجْمَعِینَ)

۱۰۔ جن لوگوں نے فراق اور جدائی کی مصیبت اٹھائی ہے ان کی آسائش کی فکر کرنا چاہیئے۔(أَجْمَعِینَ) اب حضرت یعقوب (ع)مزید فراق کی تاب نہیں رکھتے ۔

۱۱۔ بہترین لطف وہ ہے جو سب کے شامل حال ہو۔( أَجْمَعِینَ)

۱۸۸

آیت ۹۴:

(۹۴) وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِیرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّی لَأَجِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ.

''اور جوں ہی یہ قافلہ (مصر سے حضرت یعقوب کے شہر کنعان کی طرف) چلا تو ان لوگوں کے والد (یعقوب) نے کہہ دیا کہ اگر مجھ کو سیٹھایا ہوا نہ کہو تو (ایک بات کہوںکہ) مجھے یوسف کی بو معلوم ہورہی ہے ''۔

نکات:

'' فَصَلَتْ'' یعنی دور ہوگئے ۔فَصَلَتِ الْعِیرُ ۔یعنی کارواں، مصر سے دور ہوگیا ۔''ْ تُفَنِّدُون'' کا مادہ (فند)سٹھیانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

جناب یعقوب(ع) کو اس کی فکر تھی کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ان کی عقل جواب دے گئی ہے۔ لیکن ہائے افسوس پیغمبر اسلام (ص) کے اردگرد رہنے والے بعض صحابیوں نے پیغمبر (ص) کو اس نسبت سے منسوب کردیا یہ اس وقت ہوا جب بوقت رحلت آپ (ص)نے فرمایا : قلم و کاغذ لے تاکہ ایسی چیز لکھ دوں کہ اگر اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اس وقت تاریخ کی ایک طویل القامت شخصیت نے کہا : ان الرجل لیھجر۔یہ مرد ہذیان بک رہا ہے۔ اسکے بعدآنحضرت(ص) کو کچھ لکھنے نہ دیا ۔

انی لاجد ریح یوسف۔ کوئی مشکل نہیں ہے ۔ کیونکہ جس طرح انبیاء (ع)وحی کو درک کرتے ہیں لیکن ہم درک کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اسی طرح بقیہ امور میں بھی ممکن ہے کہ ایسی چیزوں کو درک کرلیں جو ہماری عقول سے بالاتر ہیں ۔ کیا پیغمبر اسلام (ص)نے جنگ خندق میں خندق کھودتے ہوئے کدال اور پتھر سے مل کر نکلتی ہوئی چنگاری کو دیکھ کر نہیں فرمایا کہ میں نے اس چنگاری میں بڑے بڑوں کو خاک چاٹتے ہوئے دیکھ لیا ؟ لیکن جو ضعیف الایمان تھے وہ کہنے لگے پیغمبر (ص) تو اپنی جان کے خوف سے اردگرد خندق کھود رہے ہیں لیکن آنحضرت(ص) نے کدال کی ہر ضرب پر ایک حکومت کی شکست اور فتح کا وعدہ دےدیا ۔

۱۸۹

شرح نہج البلاغہ آی اللہ خوئی قدس سرہ میں ہے کہ امام کے لئے ایک نوری ستون ہے جب خدا چاہتا ہے تو امام اس پر نگاہ کرنے کی وجہ سے آئند ہ کو دیکھ لیتا ہے اور کبھی ایک عام آدمی کی طرح ہوتا ہے(۱) ایک فارسی شاعر نے کیا خوب کہاہے :

زمصر بوی پیراہن شنیدی

چرا در چاہ کنعانش ندیدی۔

مصر سے تو (حضرت یعقوب(ع))کو کرتے کی خوشبو آگئی مگر کنعان کے کنویں میں حضرت یوسف (ع)کو آپ نہ دیکھ سکے.

بگفت احوال ما برق جہان است

گہی پیدا و دیگر دم نہان است

انھوں نے کہا: ہمارا حال آسمانی بجلی کی مانند ہے کبھی روشن اور کبھی پنہان ہوجاتی ہے.

گہی برطارم اعلی نشینم

گہی تا پشت پای خود نبینم

(حکمت خدا کے تحت)کبھی ہم لوح محفوظ کا مطالعہ کرتے ہیں اور کبھی اپنے پں کے نیچے پڑی چیز سے بھی بے خبر ہوتے ہیں ممکن ہے کہ خوشبوئے یوسف (ع)سے مراد جناب یوسف (ع)کے بارے میں کوئی نئی خبر ہو یہ

--------------

(۱) تفسیر نمونہ.

۱۹۰

مسئلہ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بنام( telepathy ) (یعنی انتقال فکر یا ارتباط معنوی و فکری )مشہور و معروف ہے اور ''مسلّم علمی مسئلہ ''کے عنوان سے قبول شدہ ہے ۔ یعنی جو لوگ ایک دوسرے سے نزدیکی تعلق رکھتے ہیں یا ایک خاص قسم کی روحی قدرت سے سرشار ہیں جیسے ہی دنیا کے کسی گوشے میں کسی شخص پر کوئی مصیبت آتی ہے وہ دوسری جگہ اس سے مطلع ہوجاتے ہیں(۱)

ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا : کبھی کبھی میرادل کسی سبب کے بغیر غمناک ہوجاتا ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ دوسرے سمجھ لیتے ہیں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا : مسلمین خلقت میں ایک حقیقت وطینت سے ہیں جیسے ہی کوئی تلخ حادثہ کسی پر رونما ہوتا ہے دوسرا شخص دوسری زمین پر غمناک ہوجاتا ہے۔

اگر حضرت یوسف (ع)کی خوشبو کے سونگھنے کا تعلق صرف ''قوت شامہ '' سے ہے تو یہ ایک معجزہ اور خارق عادت واقعہ ہے کہ حضرت یعقوب (ع)اتنے طویل فاصلے پر حضرت یوسف (ع)کی خوشبو کو محسوس کرلیتے ہیں۔

آپ بیتی:جس وقت عراق نے ایران پر حملہ کیا تھا اور امام خمینی (رح)کے فرمان پرپوری قوم غربی و جنوبی محاذ پر موجود اور حاضر تھی میں بھی شہید آی اللہ اشرفی کے ہمراہ جو ۹۰/ نوے سال کے تھے، عملیات ''مسلم بن عقیل'' میں موجود تھا ۔ انہوں نے بارہا حملے کی رات مجھ سے کہا : میں بہشت کی خوشبو محسوس کررہا ہوں ۔ لیکن میں نے اپنی تمام تر کوششوں

--------------

(۱) تفسیر نمونہ.

۱۹۱

کے باوجود کوئی خوشبو محسوس نہ کی ۔ ہاں کیوں نہ ہو جس نے نوے سال علم و تقوی و زہد میں اپنی زندگی گزاری ہو وہ اتنی قدرت رکھتا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کا احساس کرے جس سے دوسرے عاجز ہوں ۔ اسی طرح آپ کی وہ پیشین گوئی کہ میں چوتھا شہید محراب ہوں ،دنیا کے سامنے آشکار ہوگئی(۱) بہرحال ممکن ہے کہ بوئے بہشت سے مراد عرفانی خوشبو ہو جیسے مناجات کی شیرینی جو ایک معنوی مزہ ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ طبیعی خوشبو ہو لیکن ہر مشام اس خوشبو کو محسوس نہیں کرپاتا ۔ جیسے فضا میں ریڈیو کی تمام موجیں ہیں لیکن تمام ریڈیو اسے نہیں کھینچ پاتے۔

پیام:

۱۔ انسان باطنی صفات کے ذریعہ معنوی حقائق کو درک کر سکتا ہے ۔ (انی لاجد ریح یوسف)۔ لیکن درک حقائق محدود ہے ایسا نہیں ہے کہ ہر زمان و مکان میں جو چاہیں درک کرلیں ، یہی وجہ ہے کہ یوسف کی خوشبو کو اس وقت محسوس کیا جب کاروان مصر سے دور ہوگیا( فَصَلَتِ الْعِیرُ)

۲۔ اگر حقائق کو درک نہیں کرسکتے تو دوسروں کے بلند مقام کا انکار نہیں کرنا چاہیئے ۔(لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ)

۳۔ نادانوں کے درمیان عالموں کی زندگی بڑی تکلیف دہ ہے( لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ)

--------------

(۱)منافقین نے ایک دوسال کے اندر اندر آیت اللہ مدنی، صدوقی ، دستغیب، کو نماز جمعہ یا نماز جمعہ کے راستے میں بم سے شہید کردیا.

۱۹۲

آیت ۹۵:

(۹۵) قَالُوا تَاﷲِ إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ

''وہ لوگ کہنے لگے : آپ یقینا اپنے پرانے خبط (محبت) میں (مبتلا) ہیں''۔

نکات:

اس سورہ کی آٹھویں آیت میں ہم نے پڑھا کہ بھائیوں نے باپ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے کہا:(انا ابانا لفی ضلال مبین) ہمارے بابا تو یوسف (ع)اور اس کے بھائی کی بے جا محبت میں آشکارا گمراہی میں پڑ گئے ہیں ۔ اس آیت میں کہہ رہے ہیں کہ(ضلالک القدیم ) یوسف(ع) کے سلسلے میں اب بھی اسی غلطی پر ڈٹے ہیں ۔

عوام الناس ،اولیائے الٰہی کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر نہ تولیں اور یہ فیصلہ صادر نہ کریں کہ فلاں کام ہوسکتا ہے اور فلاں کام نہیں ہوسکتا ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: الناس اعداء ماجهلوا ۔انسان ہر اس چیز کا دشمن ہے جسے نہیں جانتا۔

پیام:

۱۔ نیک کردار افراد کے افعال کو خود سے قیاس نہ کیجئے(إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِک...) (باپ کی طرف گمراہی کی نسبت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ نبی کو اپنی عقل سے درک کرنا چاہتے تھے )

۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اس جدائی کی طولانی مدت میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی سے مطمئن تھے اور اس کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے اسی وجہ سے آپ کے بیٹوں نے کہا(إِنَّکَ لَفِی ضَلَالِکَ الْقَدِیمِ )

۱۹۳

آیت ۹۶:

(۹۶) فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِیرُ أَلْقَاهُ عَلَی وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ إِنِّی أَعْلَمُ مِنَ اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ.

''پھر یوسف کی خوشخبری دینے والا آیا اور یوسف کے کرتے کو یعقوب کے چہرہ پر ڈال دیا تو یعقوب فوراً بینا ہوگئے (تب یعقوب نے) کہا کیوں میں تم سے نہ کہتا تھا جو باتیں خدا کی طرف سے میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے''۔

نکات:

اگر آنکھ کے سفید ہونے''وابیضت عیناه'' سے مراد بینائی میں کمی واقع ہونا ہے تو''بصیراً'' سے مراد آنکھوں کا پر نور ہونا ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خوشی اور غم انسان کی قوت باصرہ پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اگر مراد مطلق نابینائی ہے یعنی جناب یعقوب (ع)فراق یوسف (ع)میں دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے جیساکہ ظاہر آیت''فَارْتَدَّ بَصِیرًا'' سے یہی سمجھ میں آتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ اورتوسل تھا جس کی طرف قرآن مجید اشارہ کررہا ہے۔

دنیا نشیب و فراز سے بھری ہوئی ہے حضرت یوسف (ع)کے بھائیوں نے ایک دن خبر پہنچائی تھی کہ یوسف (ع)کو بھیڑیا کھا گیا اور آج وہی بھائی حضرت یوسف (ع)کے حاکم ہونے کی خبر لا رہے ہےں ۔

پیام:

۱۔ علم انبیاء (ع)کا سرچشمہ، علم الٰہی ہوتا ہے ۔( أَعْلَمُ مِنَ اﷲِ ...)

۲۔ الٰہی نمائندوں کو خدا کے وعدوں پر یقین و اطمینان ہوتا ہے ۔( أَلَمْ أَقُلْ...)

۳۔ حضرت یعقوب(ع) اپنے فرزندوں کے برعکس حضرت یوسف (ع)کی زندگی اور فراق کے وصال میں تبدیل ہونے پر مطمئن تھے ۔( أَلَمْ أَقُلْ لَکُمْ)

۴۔ ارادہ الٰہی طبیعی قوانین پر حاکم ہوتا ہے۔( فَارْتَدَّ بَصِیرً)

۵۔ اولیائے الٰہی کا لباس اور ان سے ارتباط بااثر ہوسکتا ہے۔( فَارْتَدَّ بَصِیرً)

۱۹۴

آیت ۹۷:

(۹۷) قَالُوا یَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ

''ان لوگوں نے عرض کی : اے بابا ہمارے گناہوں کی مغفرت کی (خدا کی بارگاہ میں )ہمارے واسطے دعا مانگئے ہم بے شک از سر تاپا گنہگار ہیں''۔

نکات:

فرزندان حضرت یعقوب(ع) موحد تھے اور اپنے باپ کے والا مقام سے آگاہ تھے( یَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا) بنابریں اپنے باپ کو جو ''گمراہی اور ضلالت '' کی نسبت دی تھی اس کا مقصد عقیدہ میں گمراہی نہ تھا بلکہ ان کے زعم ناقص میں حضرت یعقوب (ع)حضرت یوسف (ع)کی محبت میں غلط تشخیص کی بنا پر گمراہ تھے ۔

ظالم کے تین طرح کے دن ہوتے ہیں:

۱۔ قدرت کے روز۔

۲۔ مہلت کے روز۔

۳۔ ندامت کے روز۔

اسی طرح مظلوم کے بھی تینطرح کے دن ہوتے ہیں:

۱۔ ''روز حسرت'' جس دن اس پر ظلم ہوتا ہے۔

۲۔ ''روز حیرت'' جس میں وہ کسی تدبیر کی فکر میں ہوتا ہے۔

۳۔ ''روز نصرت ومدد'' چاہے وہ دنیا میں ہو یاآخرت میں۔

۱۹۵

پیام:

۱۔ ظلم، مایہ ذلت و خواری ہے ، جس دن بھائیوں نے حضرت یوسف کو کنویں میں ڈالا تھا وہ روز ان کی خوشی اور حضرت یوسف (ع)کی ذلت کا دن تھا ۔لیکن آج معاملہ برعکس ہے ۔

۲۔ گناہوں کی بخشش کے لئے اولیائے الٰہی سے توسل جائز ہے۔( یَاأَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَ)

آیت ۹۸:

(۹۸) قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّی إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ

''یعقوب نے کہا میں بہت جلد اپنے پروردگار سے تمہاری مغفرت کی دعا کروں گا بے شک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ''۔

نکات:

جو کل اپنی غلطیوں کی بنیاد پر اپنے باپ کو(ان ابانا لفی ضلال مبین) کہہ رہے تھے، آج وہی اپنی غلطیوں کی طرف متوجہ ہو کر(إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ) کہہ رہے ہیں۔

۱۹۶

پیام:

۱۔باپ کو کینہ توز نہیں ہونا چاہیئے اور بچوں کی لغزشوں کو دل میں نہیں رکھنا چاہیئے۔(استَغْفِرُ لَکُمْ )

۲۔ دعا کے لئے خاص اوقات اولویت رکھتے ہیں ۔( سَوْف) (۱)

۳۔ لطف الٰہی، عظیم سے عظیم گناہ اور بڑے بڑے گناہگاروں کے بھی شامل حال ہوتا ہے۔( هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ) حالانکہ سالہا سال دو الٰہی نمائندے اذیت وآزار میں مبتلا رہے لیکن پھر بھی بخشش کی امید ہے ۔

۴۔ باپ کی دعا فرزندوں کے حق میں انتہائی موثر ہوتی ہے( سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ) (۲)

۵۔ اگر غلطی کرنے والا غلطی کا اعتراف کرلے تو اس کی ملامت نہیں کرنا چاہیئے جیسے ہی بیٹوں نے کہا( إِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَ ) ہم خطا کار تھے ۔ویسے ہی باپ نے کہا(سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَکُمْ )

--------------

(۱)تفسیر مجمع البیان میں اور اطیب البیان میں موجود ہے کہ حضرت یعقوب شب جمعہ یا سحر کے منتظر تھے تاکہ بچوں کے لئے دعائیں کریں.

(۲) اس سلسلے میں بہت ساری روایات موجود ہیں.

۱۹۷

آیت ۹۹:

(۹۹) فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ آوَی إِلَیْهِ أَبَوَیْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اﷲُ آمِنِینَ

''(غرض) جب یہ لوگ (حضرت یوسف کے والد، والدہ ، اور بھائی) یوسف کے پاس پہنچے تو یوسف نے اپنے والدین کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا: مصر میں داخل ہوجاہیئے اللہ نے چاہا توا من سے رہیں گے ''۔

نکات:

داستان کے اس حصے کو میں کیسے لکھوں میں نہیں جانتا حضرت یوسف (ع)اپنے والدین کے استقبال کے لئے بیرون شہر خیمہ ڈال کر انتظار کی گھڑیاں گزار رہے ہیں تاکہ بڑے ہی عزت و احترام سے انہیں شہر مصر میں لے جائیں(دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ... ادْخُلُوا مِصْرَ...)

اسی طرح فطری بات ہے کہ ادھر جب حضرت یوسف (ع)کے والدین اور بھائی سفرکی تیاری کررہے ہوں گے تو پورے کنعان میں ہنگامہ ہوگا ۔ لوگ بغور ملاحظہ کر رہے تھے کہ کس طرح سالہاسال کے بعد بیٹے کی سلامتی کی خبر سن کر خوشی سے جھومتے ہوئے حضرت یعقوب روشن و منور آنکھوں کے ہمراہ مشتاقانہ دیدار فرزند کے لئے آمادہ سفر ہیں۔

اہل کنعان بھی باپ اور بیٹے کے اس ملن کی خبر سے بے حد خوشحال تھے بطور خاص اس بات پر خوش تھے کہ حضرت یوسف (ع)مصر کے خزانہ دار ہیں اور خشک سالی کے زمانے میں غلہ بھیج کران کی مدد فرمائی ہے ۔نہیں معلوم کس شوق و ولولہ اور عشق و محبت کے ساتھ اس واقعہ کو حوالہئ قرطاس کیا جائے اور کہاں پراسے تمام کیا جائے !

۱۹۸

کلمہ ''ابویہ'' سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع)کی مادر گرامی بھی زندہ تھیں ۔ لیکن سوال جو ذہن میں اٹھتا ہے اور میں خود بھی اس کا جواب نہیں جانتا کہ آخر وجہ کیا تھی کہ پورے قصے میں حضرت یوسف(ع) کی مادر گرامی کا گریہ ، نالہ و شیو ن کہیں نہیں ملتا ۔ پوری داستان اس سلسلے میں خاموش ہے ۔(۱)

روایات میں آیا ہے کہ حضرت یعقوب(ع) نے قسم دے کر حضرت یوسف (ع)سے اصرار کیا کہ انہیں اپنی پوری داستان سنائیں ۔ حکم پدری پر حضرت یوسف (ع)نے داستان شروع کی جب اس موقع پر پہنچے کہ بھائیوں نے کنویں کے پاس لے جا کر زبردستی میرا کرتا اتروا لیا تو یہ سنتے ہی حضرت یعقوب (ع)بے ہوش ہوگئے ۔ جیسے ہی ہوش میں آئے فرمایا : داستان سناتے رہو لیکن حضرت یوسف (ع)نے فرمایا : بابا آپ (ع)کو ابراہیم و اسماعیل و اسحق ٪ کے حق کا واسطہ، مجھے اس داستان کے سنانے سے معاف فرمائیں! حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسے قبول فرمالیا(۲)

--------------

(۱)تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جناب یوسف کی ماں بچپن میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں، حضرت یوسف کو ان کی خالہ نے پالا تھا، آیہئ شریفہ میں ''ابویہ'' اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ F کی خالہ آپ کی تربیت کی ذمہ داری تھیں، جس طرح قرآن مجید نے آذر کو جناب ابراہیم(ع) کا باپ کہا ہے، جبکہ وہ آپ کا چچا تھا۔

علاوہ از ایں، ماں کا گریہ، آہ و نالہ، نوحہ و ماتم او رفریاد و زاری ایک عام بات ہے، کیونکہ ہر ماں اپنے بچے کے فراق پر آنسو بہاتی ہے، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن اس کے مقابلہ میں مرد عقل کے ساتھ قدم آگے بڑھاتا ہے، باپ ہونے کے باوجود وہ صبر و ضبط سے کام لیتا ہے، اور اگر وہ باپ نبی ہو تو پھر اس کا آنسو بہانا بہت بعید ہے، کیونکہ یہ خلاف عقل ہے ،گمشدہ چیز پر رونے سے کیا فائدہ، خصوصاً جب یقین ہو کہ فرزند زندہ ہے تو پھر آنسو بہانا دیوانہ پن ہے، زندہ شخص پر آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔

انہی تمام پندار غلط اور تصورات ناقص پر خط بطلان کھینچنے کے لئے خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) کے آنسووں کا تذکرہ فرمایا کہ جو اپنے وقت کے نبی بھی تھے اور اس کی تائید بھی فرمائی کہ یہ آنسو مقدس ہے، اور اس کا ذکر کرکے دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کرنا ہے کہ یوسف کے فراق میں حزن و ملال، نالہ و شیون مقدس ہے، قابل اعتراض نہیں۔ مترجم۔

(۲)تفسیر نمونہ، تفسیر مجمع البیان.

۱۹۹

پیام:

۱۔ بیرون شہر استقبال کرنا اچھی بات ہے ۔( دَخَلُوا عَلَی یُوسُفَ) شہر کے باہر استقبالیہ مراسم ادا کئے گئے تھے اور وہیں پر خیمہ ڈالاگیا تھا۔

۲۔عہدہ اور مقام ہمیں والدین کے احترام سے غافل نہ کریں(قَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ...)

۳۔سربراہ مملکت بھی اگر اپنے ملک کے امن و امان کے سلسلے میں گفتگو کررہا ہے تو اس کو بھی خدا وندعالم کے لطف کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے(إِنْ شَاءَ اﷲُ ) (۱)

۴۔رہائش ومحل وقوع کے انتخاب میں سب سے پہلا قابل غور مرحلہ امنیت ہے۔(آمِنِینَ)

۵۔ اگر ہر دور میں یوسف زمان حاکم ہوں تو امینت برقرار ہوجائے گی۔(آمِنِینَ)

--------------

(۱)ایک قوم نے پہاڑوں کو تراش کر اپنے گھر بنالئے تھے تاکہ امن و سکون سے رہ سکیں لیکن خدائی قہر نے ان کے امن و امان کو درہم برہم کردیا۔(وکانوا ینحتون من الجبال بیوتاآمنین فاخذتہم الصیح مصبحین) حجر ۸۲۔۸۳.

۲۰۰

1140۔ امام علی (ع): میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں، انہیں خدا نے مشہور دین کےساتھ بھیجا...یہ بعثت اسوقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمانِ دین ٹوٹ چکی تھی، یقین کے ستون ہل گئے تھے، اصول میں شدید اختلاف تھا، اور امور میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہو گئے تھے، ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسرعام، رحمن کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہو گیا تھا، اسکے ستون گرگئے تھے اور آثارناقابل شناخت ہوگئے تھے، راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں، لو گ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموںپر وارد ہو رہے تھے۔انہیں کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اسکے علم سر بلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوںنے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا، اورخود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے، یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے، پروردگار نے انہیں اس گھر( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسایہ، جنکی نیندیں بیداری تھیں اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سرزمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا۔

1141۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں اور حضرت محمد(ص) اسکے بندہ اور رسول ہیں، اس کے منتخب و مصطفیٰ ہیں، انکے فضل کا کوئی مقابلہ نہیںکر سکتا ہے، اور نہ انکے فقدان کی تلافی، انکی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریکی، جہالت کے غلبہ اور بدسرشتی و بد اخلاقی کی شدت کے بعد جب لوگ حرام کو حلال اور صاحبان حکمت کو ذلیل سمجھ رہے تھے، رسولوں سے خالی دور میں زندگی گذار رہے تھے اور کفر کی حالت میں مر رہے تھے، منور اور روشن ہو گئے۔

1142۔ امام علی (ع):(خدا وند متعال) نے آنحضرؐت کو مبعوث کیا اور اے گروہ عرب ! تم بدترین حالت میں تھے، تم میں سے بعض کتوں کو اپنی غذا بناتے تھے، اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے ،دوستوں کو غارت کرتے تھے اور جب پلٹے تھے تو دوسرے انہیں غارت کر چکے ہوتے تھے، تم لوگ حنظل و اندرائن کے دانے ، خون اور مردار کھاتے تھے، تمہاری بود و باش نا ہموار پتھروں اور گمراہ کرنے والے بتوں کے درمیان تھی، تم بد ذائقہ کھانا کھاتے اور بد مزہ پانی پیتے تھے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے اور ایک دوسرے کو اسیر کرتے تھے۔

۲۰۱

1143۔ امام علی (ع): یہ آپکے اس خط کا ایک حصہ ہے جو آپ نے محمد بن ابی بکر کے قتل کے بعد اپنے بعض اصحاب کو لکھا تھا۔ یقینا اللہ نے آنحضرؐت کو عالمین کےلئے عذاب الہی سے ڈرانے والا، تنزیل کا امانتدار اور اس امت کا گواہ بنا کر اسوقت بھیجا ہے، جب تم گروہ عرب ،بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے، نا ہموار پتھروں، زہریلے سانپوں اور خار مغیلاںکے درمیان بود و باش رکھتے تھے بد مزہ پانی پیتے اور بدذائقہ کھانا کھاتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے اور اپنے قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے کھاتے تھے، تمہارے راستے پر خطر تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے( اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے) اور ان میں سے اکثر کا خدا پر ایمان شرک سے مخلوط تھا۔

1144۔ امام علی (ع): نے ۔گذشتہ امتوں سے عبرت و نصیحت اور مغرور و گنہگار سے بچنے کے متعلق فرمایا: اب تم اولاد اسماعیل اور اولاد اسحاق و اسرائیل(یعقوب) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کسقدر ملتے ہوئے اور کیفیات کسقدر یکساںہیں، دیکھو انکے انتشار و افتراق کے دور میں انکا کیا عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ انکے ارباب بن گئے تھے، اور انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں، عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے نکال کر خار دار جھاڑیوں اور آندھیوں کی بے روک گذر گاہوں اورمعیشت کی دشوار گذار منزلوں تک پہنچ کر اس عالم میں چھوڑ دیاتھا کہ وہ فقیر و نادار، اونٹوں کی پشت پر چلنے والے اور بالوں کے خیموں میں قیام کرنے والے ہو گئے تھے، گھر بار کے اعتبار سے تمام قوموں سے زیادہ ذلیل اور جگہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ خشک سالیوں کا شکار تھے، نہ ان کی آواز تھی جنکی پناہ لیکر اپنا تحفظ کر سکیں اور نہ کوئی الفت کا سایہ تھا جس کی طاقت پر بھروسہ کر سکیں ، حالات مضطرب، طاقتیں منتشر، کثرت میں انتشار، بلائیں سخت، جہالت کا دور دورہ، زندہ در گور بیٹیاں، پتھر پر ستش کے قابل، رشتہ داریاں ٹوٹی ہوئی اور چاروں طرف سے حملوں کی یلغار۔

۲۰۲

اس کے بعد دیکھو کہ پروردگار نے ان پر کس قدر احسانات کئے جب ان کی طرف ایک رسول بھیج دیا ، جس نے اپنے نظام سے ان کی اطاعت کو پابند بنا یا اور اپنی دعوت پر ان کی الفتوں کو متحد کیا اور اس کے نتیجہ میں نعمتوں نے ان پر کرامت کے بال و پر پھلا دئےے اور راحتوں کے دریا بہا دئےے، شریعت نے انہیں اپنی برکتوں کے بیش قیمت فوائد میں لپیٹ لیا، وہ نعمتوں میں غرق ہو گئے اور زندگی کی شادابیوں میںمزے اڑانے لگے، ایک مضبوط حاکم کے زیر سایہ حالات ساز گار ہوگئے اور حالات نے غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دلوا دی اور ایک مستحکم ملک کی بلندیوں پر دنیا و دین کی سعادتیں انکی طرف جھک پڑیں، و ہ عالمین کے حکام ہو گئے اور اطراف زمین کے بادشاہ شمار ہونے لگے جو کل انکے امور کے مالک تھے آج وہ انکے امور کے مالک ہو گئے اور اپنے احکام ان پر نافذ کرنے لگے جو کل اپنے احکام ان پر نافذ کر رہے تھے کہ اب نہ انکا دم خم نکالا جا سکتا تھا اور نہ انکا زور ہی توڑا جا سکتا تھا دیکھو تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے چھڑا لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔

1145۔ : فاطمۃ ؑ: نے۔ وفات پیغمبر کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کرکے۔ فرمایا: تم لوگ آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے، پینے والوںکے لئے پانی ملا دودھ کا گھونٹ ، حریص کی فرصت اور اس شخص کے مانند تھے جو گھر میں داخل ہو اور صرف آگ لینے تک ٹھہرے، اور دوسروں کے پیروں تلے کچلے جا رہے تھے ، گدلا پانی پیتے تھے اور گوسفند کی کھال تمہاری غذائیں تھیں، ذلیل و پست تھے، اورخوف لا حق رہتا تھا کہ کہیں لوگ اطراف سے تمہیں اچک نہ لے جائیں ۔ پس اللہ نے تمہیں میرے باپ محمد(ص)کے ذریعہ نجات بخشی۔

۲۰۳

1146۔ اما م ہادی ؑ: نے۔ اپنے خطبہ میں فرمایا: حمد اس اللہ کے لئے ہے جو ہر موجود سے آگاہ ہے قبل اس کے کہ اسکی مخلوق میں سے کسی کا اسکی گردن پر قرض ہو... اور بیشک محمد(ص) اس کے بندہ اس کے برگزیدہ رسول اور پسندیدہ دوست ہیں اور ہدایت کے ساتھ مبعوث کئے گئے ہیں۔ اور انہیں رسولوں سے خالی عہد، امتوں کے اختلاف ، راستوں کے انقطاع، حکمت کی بوسیدگی اور نشانات ہدایت و شواہد کے محو ہونے کے زمانہ میں بھیجا ہے ۔ انہوںنے رسالت پروردگار کو پہنچایا۔ اور اس کے حکم کو واضح کیا۔ اور ان پر جوفریضہ تھا اس کو انجام دیا اور جب وفات پائی تو محمود و پسندیدہ تھے۔

جاہلیت کے متعلق کچھ باتیں

قرآن نے ظہور اسلام سے پہلے والے زمانہ کو جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ اس وقت علم کے بجائے جہالت، حق کے بجائے ہر چیز میں خلاف حق اور احمقانہ رائے کا دور دورہ تھا قرآن نے ان کی خصوصایت کو اس طرح بیان کیا ہے:

(یظنون باﷲ غیر الحق ظن الجاهلیة)

وہ لوگ خدا کے متعلق خلاف حق جاہلیت جیسے خیالات رکھتے تھے۔

اور فرمایا(افحکم الجاهلیة یبغون)

کیایہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں فرمایا:( اذ جعل الذین کفروا فی قلوبهم الحمیة حمیة الجالیة)

یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی۔

نیز فرماتا ہے:(ولا تبر جن تبرج الجاهلیة الاولیٰ)

اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو۔

۲۰۴

اس وقت عرب معاشرہ کے جنوب میں حبشہ کہ جہاں کے باشندوں کا مذہب نصرانی تھا، اور مغرب میں حکومتِ روم تھی کہ جسکا مذہب نصرانی تھاشمال میں ایران جسکا مذہب مجوسی تھا اور دوسرے اطراف میں ہندوستان اور مصر ایسے بت پرست ممالک واقع تھے۔

خود عرب کے درمیان یہودیوں کے چند گروہ آباد تھے، خود عرب بت پرست تھے، اکثرلوگ قبیلوں میں زندگی بسر کرتے تھے یہ تمام چیزیں اس چیز کی باعث ہوئیں کہ ایک بے بنیادبادیہ نشیں معاشرہ وجود میں آجائے کہ جو یہود و نصاریٰ اور مجوس کے آداب و رسوم سے مخلوط ہو، لوگ جہالت و نادانی اور مکمل بے خبری میں زندگی بسر کر رہے تھے۔خدا انکے بارے میں اس طرح فرمایا:

(ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اﷲ ان یتبعون الا الظن و ان هم الا یخرصون)

اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کر لیں گے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے اور یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۔

یہ صحرا نورد قبائل بہت پست زندگی گذارتے تھے؛ مسلسل جنگ و غارت گری ، لوٹ مار ایک دوسرے کی ناموس پر تجاوز کرتے تھے، ان میں کسی طرح کا امن و امان ، امانتداری اور صلح و آشتی نہ تھی، اسی کی چودھراہٹ و حکمرانی ہوتی جو ان میں نہایت سرکش و قدرتمند ہوتا تھا۔

ان کے درمیان مردوںکی فضیلت خونریزی، جاہلیت کی ضد، کبر و غرور، ظالموں کا اتباع، مظلوموں کا حق پامال کرنا، آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی، نفسہ نفسی، جوا کھیلنا شرابخوری، زنا کاری، مردار و خون اور کھجوروںکا بیج کھانا، تھی۔

لیکن ان کی عورتیں انسانی حقوق سے محروم تھیں، وہ خود مختار اور صاحب ارادہ نہیں ہوتی تھیں انہیں اپنے کسی کام میںکوئی اختیار نہیںہوتا تھا، یہاں تک کہ وراثت کی بھی مالک نہیںہوتی تھیں اور مرد بغیر کسی قید و بند کے ان سے شادیا ںکرتے تھے جیسا کہ بعض یہودی اور بت پرستوںکی عاد ت تھی۔ در عین حال عورتیں بھی خود کو آراستہ اور بناؤ سنگار کرکے جس کوچاہتی تھیں اپنے پاس بلا لیتی تھیں، زنا و بے حیائی ان میں عام تھی یہاں تک کہ شادی شدہ عورتیں بھی زنا کا ارتکاب کرتی تھیں اور بسا اوقات عریاں حج کے لئے آتی تھیں۔

۲۰۵

لیکن ان کی اولاد باپ سے منسوب ہوتی تھی، لیکن بچپن میں وراثت سے محروم ہوتی تھی، صرف بڑی اولاد کو میراث کے تصرف کا حق ہوتا تھا، منجملہ ان کی میراث متوفیٰ کی بیوہ ہوتی تھی، بطور کلی لڑکیاں چاہے چھو ٹی ہوں یا بڑی اور چھوٹے لڑکے میراث کا حق نہیں رکھتے تھے، مگر جب کوئی شخص مرتا اور کوئی کمسن بچہ چھوڑ کر جاتا تو سر غنہ قسم کے افراد زبردستی اس کے اموال کے سر پرست بن کر اس کے اموال کو کھاجاتے تھے، اور اگر یہ یتیم بچی ہوتی تو اس کے ساتھ شادی کرتے اور اس کے اموال کوچٹ کر جانے کے بعد اس کو طلاق دیکرنکال دیتے تھے اس صورت میں اس بچی کے پاس نہ مال ہوتا تھا کہ جس سے زندگی گذار سکے اور نہ ہی کوئی اس سے شادی کے لئے تیار ہوتا تھا کہ اس کے اخراجات کا ذمہ دار بنے۔

ان کے درمیان یتیموں کامال غصب کرنا عظیم ترین حادثہ تھا، تا ہم وہ ہمیشہ جنگ و جدال اور غارت گری میں مبتلا رہا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں قتل و خونریزی زیادہ ہوتی تھی لہذا بے سر پرست یتیموںکے حادثات اور رونما ہوتے تھے۔

ان کی اولاد کی عظیم بدبختی و شقاوت کا سبب یہ تھا کہ وہ بنجر اور نا ہموار زمینوں میں آباد تھے جو بہت جلد قحط کا شکار ہو جایا کرتی تھیں، لہذا فقر و ناداری کے خوف سے وہ اپنے بیٹوں کو قتل اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، ان کے لئے سب سے زیادہ ناگوار اور دردناک خبر ان کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوتی تھی۔

اگرچہ جزیرہ نما عرب کے اطراف میں کچھ بادشاہ حکومت کرتے تھے اور یہ عرب والے انہیں بادشاہوں میں سے اپنے سے قریب اور طاقتور بادشاہ کی زیر حمایت زندگی گذارتے تھے ۔ جیسے ایران شمال کی سمت میں ، روم مغرب کی سمت میںاور حبشہ مشرق کے اطراف میں آباد تھے مگر یہ کہ مرکزی شہر جیسے مکہ ، یثرت اور طائف وغیرہ ایسی کیفیت میں تھے کہ جو جمہوریت کے مثل تھے لیکن جمہوری نہیں تھے اور قبائل صحراؤں میں اور کبھی کبھار شہروں میں زندگی گذارتے تھے اور رؤساء اور بزرگان قبیلہ کے ذریعہ ان کی کفالت ہوتی تھی اور کبھی یہ کیفیت بادشاہی حکومت میں تبدیل ہو جاتی تھی۔

۲۰۶

یہ عجیب ہرج و مرج ان میں سے ہر گروہ میں ایک خاص صورت میں نمایاںتھا، اورجزیرہ نما عرب کی سرزمین کے ہر گوشے کا ہر گروہ عجیب و غریب آداب و رسوم اور باطل عقائد کا پابند تھا، اس سے قطع نظر وہ سب کے سب تعلیم و تعلم کے فقدان کی بلاء میں مبتلا تھے حتیٰ کہ شہر بھی چہ برسد عشائر و قبائل ۔

جو میں نے ان کے تمام حالات و کردار اور عادات و رسومات بیان کئے ہیں یہ ایسے امور ہیں جنہیں قرآن کی آیات اور ان ارشادات سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جن میں ان کا ذکر موجود ہے ۔

لہذاجوآیات پہلے مکہ میں پھر اسلام کے ظہور کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں کہ جن میں ان کے خصوصیات کا تجزیہ کیا گیا ہے، اسی طرح جن آیات میں ان کی شدید و معمولی سر زنش کی گئی ہے ان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ان مطالب کی سب سے بڑی سند ہے جو ہم نے بیان کئے ہیں نہایت مختصرجملہ جو ان تمام امور کو بخوبی ثابت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن نے اس زمانہ کو دور جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، فقط یہی مختصر سی تعبیر ان تمام معانی کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، یہ تھی اس زمانہ میں عرب کی حالت۔

۲۰۷

6/2

دین جاہلیت

الف : غیر اللہ کی عبادت

قرآن

(اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر ایسے خدا بنالئے ہیں جو کسی بھی شی کے خالق نہیںہیں بلکہ خود ہی مخلوق ہیں اور خود اپنے بھی کسی نقصان یا نفع کے مالک نہیںہیں اور نہ انکے اختیار میں موت و حیات یا حشر و نشر ہی ہے)

ب: خدا کے لئے بیٹا قرار دینا

(اور ان لوگوں کو ڈراؤ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو اپنا فرزند بنا یا :اس سلسلہ میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ انکے باپ دادا کو یہ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے کہ یہ جھوٹ کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے)

(اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں جبکہ وہ پاک ہے اور یہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب انہیں کےلئے ہیں)

(کیا یہ تمہارے رب نے تم لوگوں کےلئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو)

(یا خدا کے لئے لڑکیاں اور تمہارے لئے لڑکے ہیں)

(کیا تم لوگوں نے لات و عزی کو دیکھا ہے اور منات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے، تو کیاتمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے لڑکیاں ہیں یہ انتہائی ناانصافی کی تقسیم ہے)

۲۰۸

حدیث

1147۔ رسول خدا(ص): خدا نے فرمایا: فرزند آدم نے میری تکذیب کی، جبکہ اسکو یہ حق نہیں تھا اور مجھ کو گالی دی حالانکہ اس کےلئے یہ مناسب نہیں تھا، لیکن میری تکذیب اس لئے کی تھی کہ اسکا گمان تھا کہ وہ جسطرح دنیا میں ہے میں اسے اسی طرح نہیں پلٹا سکتا ہوں؛ اور اسکا مجھے گالی دینا اس لئے تھا کہ اس نے میرے لئے بیٹا قرار دیا۔ میں اس چیز سے منزہ ہوں کہ میرے لئے زوجہ اور بیٹا ہو۔

1148۔ مجاہد: کہ کفار قریش کہتے تھے: ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں بڑی پریوںکی بیٹیاں ہیں۔

1149۔ ابن عباس:نے اس آیت (اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں) کی تفسیر میںفرمایا:وہ لوگ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے تھے ، اور تم اس بات کو پسند کرتاتے ہو کہ میرے(خدا) یہاں لڑکیاں ہوں لیکن اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، اسی لئے دور جاہلیت میں جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی تو اسے ذلت و حقارت کے ساتھ باقی رکھتے تھے یا زندہ در گور کر دیتے تھے۔

ج: جنات کو خداکا شریک قرار دینا

( اور انہوں نے جنات کو خداکا شریک بنایا حالانکہ خدا نے انہیںپیدا کیا ہے پھر اس کےلئے بغیر جانے بوجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی تیار کر دی ہیں، جبکہ وہ بے نیاز اور انکے بیان کر دہ اوصاف سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے )

(اور جس دن خدا سب کو جمع کریگا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہیں پر ایمان رکھتی تھی)

۲۰۹

د: خدا اور جنات کا رشتہ

(اور انہوںنے خدا و جنات کے درمیان بھی رشتہ قرار دے دیا حالانکہ جنات کو معلوم ہے کہ انہیں بھی خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائےگا)

ھ: بعض چوپایوں کو حرام قرار دینا

(آپ کہہ دیجئے کہ خدا نے تمہارے لئے رزق نازل کیاتو تم نے اس میں بھی حلال و حرام بنانا شروع کر دیا تو کیا خدا نے تمہیں اسکی اجازت دی ہے یا تم خدا پر افتراء کر رہے ہو)

(لہذا اب تم اللہ کے دئےے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اسکی عبادت کرنے والے ہو تو اسکی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو اس نے تمہارے لئے صرف مردار، خون ، سور کا گوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اسے حرام کر دیا ہے اور اس میں بھی اگر کوئی شخص مضطر و مجبور ہو جائے اور نہ بغاوت کرے ، نہ حد سے تجاوز کرے تو خدا بہت بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور خبردار جو تمہاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اسکی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اس طرح خدا پر جھوٹا بہتان باندھنے والے ہو جاؤ گے اور جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح اور کامیابی نہیں ہے )

( اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی اچھوتی ہے اسے ان کے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیں جنکے بارے میں وہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیںجنکو ؟ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طرف دے رکھی ہے ، عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا اور کہتے ہیں کہ ان چوپایوں کے پیٹ میںجو بچے ہیں وہ صرف ہمارے مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں پر حرام ہیں ہاں، اگر مردار ہوں تو سب شریک ہوں گے، عنقریب خدا ان بیانات کا بدلہ دیگا کہ وہ صاحب حکمت بھی ہے اور سب کا جاننے والا بھی ہے )

۲۱۰

( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا یہ جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں اور ان میں کے اکثر بے عقل ہیں)

1150۔ امام صادق(ع): جب اونٹنی بچہ دیتی ہے پھر اس کا بچہ بھی بچہ دے دے تو اس ناقہ کو بحیرہ کہتے ہیں۔

1151۔ امام صادق(ع): نے خدا کے اس قول( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا)کے بارے میں فرمایا: دور جاہلیت کے لوگ اس اونٹنی کو جو جوڑواں بچہ دیتی تھی وصیلہ کہتے تھے لہذا اس کا ذبح کرنااور کھانا ناجائز سمجھتے تھے، اور اگر دس بچے پیدا ہو جاتے تھے تو اس اونٹنی کو سائبہ کہتے تھے اس پر سواری کرنا اور اس کے کھانے کو حلال نہیں سمجھتے تھے اور حام وہ نرجانور ہے (جس کے ذریعہ مادہ کو حاملہ کراتے تھے) وہ اسے بھی حلال نہیںسمجھتے تھے، پھر خدا نے آیت نازل کی کہ ان میں سے کسی کو حرام نہیںکیا ہے ۔

وضاحت

اسلام سے قبل عرب کی بدترین جاہلیت کی بدولت ان کے رؤسا اور بزرگان کے استفادہ کے لئے زمین ہموار تھی اور دور جاہلیت کے سرکش و ظالم افراد رسولوں سے خالی دور میں دینی اور اجتماعی آداب و رسومات کے نام پر لوگوں کے پاکیزہ احساسات سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے اور اپنے منافع کے لئے کچھ بدعات و خرافت ایجاد کررکھی تھیں، ان میں کا ایک کہ جس کو تاریخ عمروبن لحی کے نام سے جانتی ہے اس نے اس وقت عرب کی اہمترین ثروت یعنی اونٹ کو اپنے اختیار میں لیا اور اس کے لئے کچھ احکام بنا کر مقدس رسم کی صورت میںپیش کیا۔

۲۱۱

اس بدعت کے نتیجہ میں ان کی در آمد اونٹ کی چار قسموں ، بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، اورحام ، میں منحصرہو گئی تھی اور تفسیروں میں کم و بیش اختلاف کے ساتھ اس سلسلہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ اور تمام تفسیروں کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ ان چاروں اونٹوں کے لئے خود ساختہ احترام کے قائل تھے کہ دودھ، گوشت، اون، ا ن پر سواری کو اکثر کے لئے حرام اور بعض کے لئے منجملہ متولی اور بتوں کے خدمت گذاروںکے لئے حلال سمجھتے تھے۔

یہ بدعت ، عورتوںکے متعلق عرب کے حقارت آمیز نظریہ سے مل کر عورتوںکے لئے اس حکم کے مزید سخت ہونے کا باعث ہوئی؛ وہ یہ کہ عورتیں ان مذکورہ اونٹوں کا گوشت صرف مرنے کے بعد ہی کھا سکتی تھیں۔

اس کے علاوہ اس خیالی حرمت کے نتیجہ میں بتوںکے متولیوں اور خادموں کے لئے چراگاہوں ، پانی کے چشموں اور جزیرۃ العرب کے نایاب کنوؤں سے استفادہ کر ناجائز و مباح تھا۔ نیز اس چیز کابھی باعث ہوئی کہ وہ شکریہ کے طور پر یا اپنی حاجات کے پوری ہونے پر پتھر کے بتوں اور ان کے متولیوںکی خدمت میں نذرانہ پیش کریں۔

قرآن مجید مذکورہ چار آیات کے ذریعہ جاہلیت کے بدعات و خرافات سے برسرپیکار ہوا یعنی بت پرستوں ، اور ان کے خود ساختہ رسومات اور دعووں کو محض افتراء سے تعبیر کیا ہے ، متولیوں ،بت پرستوں، اور بت گروںکو بے نقاب کر دیا اور اعلان کیا کہ چوپایوں کا حرام یا حلا ل قرار دیناصرف خدائے سبحان کے اختیار میں ہے ، اور اس نے ان چار طرح کے حیوانات کو عرب کے عقیدئہ جاہلیت کے بر خلاف حرام نہیںجانا ہے ، فقط مردار اور وہ تمام چیزیں جو بتوں اور غیر خدا سے مربوط ہیں انہیں حرام قرار دیا ہے ۔

۲۱۲

و:خدا اور اصنام کے درمیان کھیتی اور چوپایوں کی تقسیم

قرآن

(اور ان لوگوں نے خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی میں اور جانوروںمیں اسکا حصہ بھی لگایا ہے اور یہ اعلان کیاہے کہ یہ انکے خیال کے مطابق خدا کےلئے ہے اور یہ ہمارے شریکوںکےلئے ہے ، اسکے بعد جو شرکاء کا حصہ ہے وہ خدا تک نہیں جاسکتا اور جو خدا کا حصہ ہے وہ انکے شریکوں تک پہنچ سکتاہے کس قدر بدترین فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں)

(اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی اچھوتی ہے اسے انکے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیںجنکے بارے میںوہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیں جنکو ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طر ف دے رکھی ہے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا)

( اور یہ ہمارے دئےے ہوئے رزق میں سے ان کا بھی حصہ قرار دیتے ہیں جنہیں جانتے بھی نہیں ہیں تو عنقریب تم سے تمہارے افتراء کے بارے میںبھی سوال کیا جائیگا)

۲۱۳

وضاحت

عقیدئہ جاہلیت (کہ بتوں کو خدا کا شرکاء قرار دیتے تھے) نے عرب کو اس چیز پر ابھارا کہ وہ اپنے خداؤں اور بتوںکےلئے بتکدہ بنائیں اور ان کے خدمت گذاروں اور متولیوں کے لئے معاش فراہم کریں، انہیں اپنی زندگی ، رزق اور مملکت میں شریک بنائیں اور اپنی عمدہ روت(زراعت و چوپائے) ان کے درمیان تقسیم کریں اور خدا کے حصہ کے ساتھ ان کا بھی حصہ قرار دیں۔ خدا کے حصہ کو عمومی مصارف جیسے مہمانوںکو کھانا کھلانے اور فقراء و مساکین کی مدد کرنے میں خرچ کرتے اور بتوںکے حصہ کو ان کے خدمت گذاروں کو عنایت کرتے تھے۔جب کبھی زراعت پر کوئی آفت آتی یا کم پیدوار ہوتی یا ان کا حصہ خدا کے حصہ سے مخلوط ہو جاتا تو یہ حریص و لالچی خدمت گذار اپنے مفاد کی خاطر دھوکا دھڑی سے کام لیتے اور کہتے (خدا بے نیازہے) لہذا وہ اپنا پورا حصہ بغیر کسی کم و کاست کے لے لےتے تھے اور اپنے حصوں کی کمی کا جبران خدا کے حصہ سے کرتے تھے اور کبھی بھی خدا کے حصہ کا جبران بتوں کے حصہ سے نہیں کرتے تھے محصول میںیہ کمی وزیادتی کبھی کبھار ان کی پہلے کی فریبکاریوںکی بنا پر ہوتی تھی؛ اور وہ یہ کہ جب سینچائی کے وقت خد اکے حصہ کے کھیتوں سے پانی بتوں کے کھیتوں میں جانے لگتا تھا تو وہ اس کو روکتے نہیں تھے، لیکن اس کے بر خلاف خداکے کھیتوں میں بتوںکے کھیتوں سے پانی نہیں جانے دیتے تھے۔ اسی طرح یہ فرسودہ رسم چوپایوںمیں بھی تقسیم و شراکت کے اعتبار سے بر قرار تھی کہ جس کی طرف گذشتہ فصل میں اشارہ ہو چکاہے ۔ملاحظہ کریں:تفسیر مجمع المبیان : 4/571، تفسیر قمی: 1/217، تفسیر طبری : 5، جزء 8/40 تفسیر در منثور:3،362، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام:6 /193

۲۱۴

ز: عریاں طواف

1152۔ امام صادق(ع): زمانہ جاہلیت میں عرب کے گروہ تھے : حل اور حمس۔ حمس قریش تھے۔ اور حل تمام عرب تھے حل میں سے کوئی فرد ایسی نہیںتھی جو حمس کی پناہ میں نہ ہوتی اور جو حمس کی پناہ میں نہیں ہوتا تھا وہ عریاں طواف کرتاتھا۔

رسول خدا(ص) عیاض بن حمار مجاشعی کو پناہ دیتے تھے ، عیاض عظیم المرتبت انسان تھا اور جاہلیت میں اہل عکاظ کا قاضی تھا، وہ جب بھی مکہ وارد ہوتا ، اپنے گناہ آلود لباس کو اتار دیتا اور چونکہ پیغمبر کا لباس پاک و پاکیزہ ہوتا تھا لہذآنحضرت کا لباس پہن کرطواف کرتا تھا، اور طواف کے بعد آپکا لباس واپس دے دیتا تھا۔جب پیغمبرؐ مبعوث برسالت ہوئے تو عیاض آپ کے لئے ایک ہدیہ لیکر آیا، لیکن نبیؐ نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا: اے عیاض! اگر مسلمان ہو جاؤگے تو تمہارا ہدیہ قبول کرونگا؛ یقینا خدا مشرکوں کی داد و دہش کو میرے لئے پسند نہیںکرتا، پھر اس کے بعد عیاض نے اسلام قبول کیا اور اس کا اسلام قابل تحسین ہوا۔ اور رسول خدا کے لئے ہدیہ لیکر آیا اور آپ نے اس کو قبول فرمایا۔

1153۔ امام صادق(ع): عرب کے درمیان یہ رائج تھا کہ جو بھی مکہ میں وارد ہوتا اور اپنے لباس میں طواف کرتااس کے لئے جائز نہ تھاکہ وہ اپنے لباس کو باقی رکھتا اور اسے دو بارہ پہنتا بلکہ وہ اسے صدقہ دے دیا کرتاتھا۔

؛ لہذا جب وہ لوگ مکہ میں داخل ہوتے تھے تو عاریتاً کسی سے لباس لیکر طواف کرتے پھر واپس کر دیتے تھے، اگر عاریتاً لباس نہیںملتا تھا تو کرایہ پر لیتے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتا اور ان کے پاس فقط ایک ہی لباس ہوتا تھا تو وہ برہنہ طواف کرتے تھے۔

لہذا عرب کی ایک حسین و جمیل عورت وارد مکہ ہوئی لیکن عاریت اور کرایہ پر کوئی لباس نہ مل سکا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اگر تونے اپنے اس لباس میں طواف کیا تو اس کو تجھے صدقہ دینا ہوگا، عورت نے کہا: کیونکر صدقہ دوں گی جبکہ میرے پاس اس کے علاوہ دوسرا لبا س نہیںہے؟!

۲۱۵

لہذا اس نے برہنہ طواف کرنا شروع کر دیا اور لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے جس کی وجہ سے اس نے ایک ہاتھ آگے اور دوسرا ہاتھ پیچھے رکھا اور اس طرح رجز خوانی کی :

'' آج شرمگاہ کا کچھ حصہ یا تما م حصہ ظاہر ہے ، اور جو ظاہرہے اس کو جائز نہیں جانتی''

پھر طواف کے بعد کچھ لوگوں نے اس کے پاس شادی کے لئے پیغا م بھیجا لیکن اس نے کہا میں شادی شدہ ہوں۔

ح: قیامت کا انکار

قرآن

( اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیاتو کیا تمہارے سامنے ہماری آیات کی تلاوت نہیںہو رہی تھی لیکن تم نے اکڑ سے کام لیا اور بیشک تم ایک مجرم قوم تھے اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیںہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیں جانتے ہیںہم اسے ایک خیالی بات سمجھتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں اور ان کے لئے ان کے اعمال کی برائیاں ثابت ہو گئیں اور انہیں اس عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مزا ق اڑا یا کرتے تھے اور ان سے کہا گیا کہ ہم تمہیں آج اسی طرح نظر انداز کریں گے جس طرح تم نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیاتھاا ور تم سب کا انجام جہنم ہے اور تمہارا کوئی مدد گار نہیںہے یہ سب اس لئے ہے کہ تم نے آیات الہی کا مذاق بنا یا تھا اور تمہیں زندگانی دنیا نے دھوکا میں رکھا تھا توآج یہ لوگ عذاب سے باہر نہیں نکالے جائیں گے اور انہیں معافی مانگنے کا موقع بھی نہیںدیا جائیگا۔

۲۱۶

جاہلیت کے عقائد پر ایک نظر

زمانہ جاہلیت یعنی وحی اور انبیاء سے خالی دور میں عرب وادی ضلالت و گمراہی میں زندگی بسر کر رہے تھے، حیران و سرگرداں اور مذہبی و فکر ی اختلاف کے شکار تھے، درج ذیل مطالب میں عرب کے فرق و مذاہب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے ۔

1۔ خدا اور قیامت کے معتقد نہیں تھے اور ہستی کو اسی دنیا میں محدود و منحصر خیال کرتے تھے اور کہتے تھے

(و ما هی الاحاتنا الدنیا نموت و نحیٰ و ما یهلکنا الا الدهر)

یہ صرف زندگانی دنیا ہے اسی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کر دیتا ہے ۔

2۔ قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ آیت سے واضح ہے:

( و اذا قیل ان وعد الله حق و الساعة لا ریب فیها قلتم ما ندری ما الساعة ان نظن الا ظناً وما نحن بمستیقنین)

اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میںکوئی شک نہیں ہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیںجانتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیںہیں۔ نیز ارشاد ہے

(و ضرب لنا مثلا و نسی خلقه قال من یحیی العظام و هی رمیم قل یحییها الذی انشأها اول مرة)

اور وہ ہمارے لئے مثال بیان کرتاہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیاہے وہی زندہ بھی کریگا ۔

اس آیت سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ پہلی خلقت پر اعتقاد رکھتے تھے اور تعبیر حدیث کے مطابق وجود خداکے قائل تھے لیکن:(لا یرجون من الله ثواباً ولا یخافون الله منه عقابا)

خدا کے ثواب کی امید نہیںرکھتے تھے اور نہ ہی اس کے عقاب سے ڈرتے تھے۔

۲۱۷

3۔ وہ کبھی ملائکہ و جنات میں سے اور کبھی اصنام و شیاطین میں سے خدا کا شریک قرار دیتے تھے۔ ان شرکاؤ کبھی اصل خلقت میں دخیل قرار دیتے اور کبھی تدبیر امور میں ؛ یا وہ لوگ خدا کو مادی موجودات سے تشبیہ دیتے اور یا انہیںمادی موجودات میں سے کسی ایک کی پروردگار عالم کے عنوان سے پرستش کرتے تھے؛ وہ مادی موجودات جیسے کواکب یا حیوانات اور یا اشجار ہیں، جزیرۃ العرب میں اس عقیدہ کے معتقد افراد( جو گذشتہ بالا عقیدہ کے معتقد افراد سے کچھ چیزوںمیں شبیہ ہیں) کی اکثریت تھی۔

(وما یؤمن بالله الا وهم مشرکون)

ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے مگر یہ کہ مشرک تھے۔

4۔ جزیرۃ العرب کے بعض مناطق میں اہل کتاب کے دو گروہ یہود و نصاریٰ آباد تھے جس کے ثبوت کے لئے منجملہ آیہ مباہلہ ہے جو نجران کے ان علماء اور نصاریٰ پر دلالت کرتی ہے جو مدینہ کے جنوب میں زندگی گذارتے تھے، نیز صدر اسلام کی عظیم جنگیں بھی اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ جن میں یہودیوںکا اساسی کردار تھا، جیسے جنگ احزاب (خندق) اور اس کے بعد بنی قینقاع اور بنی قریظہ کے ساتھ کشمکش یہاں تک کہ جنگ خیبر دلالت کرتی ہے ۔

5۔ کچھ مجوسی اور صائبہ بھی آباد تھے لیکن قابل اعتنا نہیں تھے۔

6۔ کچھ لوگ دین حنیف ابراہیم کے معتقد تھے جو نہایت اقلیت میں تھے جنکے اسماء حسب ذیل ہیں:

1۔ ابو طالب (رسول اکرم (ص) کے چچا)

2۔ ابو قیس صرمہ بن ابی انس

3۔ ارباب بن راب

4۔ اسعد ابوبکر حمیری

۲۱۸

5۔ امیہ بن ابی صلت

6۔ بحیرائے راہب

7۔ خالد بن سنان عبسی

8۔ زہیر بن ابی سلمی

9۔ زید بن عمرو بن نفیل عبد العزیٰ

10۔ سوید بن عامر مصطلقی

11۔ سیف بن ذی یزن

12۔ عامر بن ضرب عدوانی

13۔ عبد الطا نجہ بن ثعلب بن وبرۃ بن قضاعہ

14۔ عبد اللہ قضاعی

15۔ عبد اللہ (رسول اکرم ؐکے والد محترم)

16۔ عبد المطلب (رسول اکرمؐ کے دادا)

17۔ عبید بن ابرص اسدی

18۔ علاف بن شہاب تمیمی

19۔ عمیر بن جندب جہنی

20۔ کعب بن لو ئی بن غالب

21۔ ملتمس بن امیہ کنانی

22۔ وکیع بن زہیر ایادی

۲۱۹

6/3

دور جاہلیت کے اوصاف

قرآن

( یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی )

(کیا تم نے اسکو دیکھا ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے ، وہی ہے جو یتیم کو جھڑکتا ہے ، اور کسی کو مسکین کے کھلانے کےلئے تیار نہیں کرتا ہے)

حدیث

1154۔ رسول خدا(ص): جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تعصب ہوگا، خدا اس کو روز قیامت زمانہ جاہلیت کے عربوں کے ساتھ محشور کریگا۔

1155۔ رسول خدا(ص): جو شخص پرچم گمراہی کے نیچے جنگ کرے اور تعصب کی بنا پر غضبناک ہو یا تعصب کی دعوت دے یا کسی عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت پر ہوگا۔

1156۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے غرور جاہلیت اور انکے آباء و اجداد کے سبب تکبر کو دور کیا، تم سب کی نسبت آدم و حوا سے ایسی ہے جیسے ترازو کے دو پلڑے، بیشک تم میں سب سے زیادہ مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، لہذا جو تمہارے پاس شادی کا پیغام لیکر آئے اگر تم اسکی دینداری و امانتداری سے راضی ہو تو اس کے ساتھ شادی کر دو۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246