یوسف قرآن

یوسف قرآن 15%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174811 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

آیت ۱۰۰:

(۱۰۰) وَرَفَعَ أَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاأَبَتِ هَذَا تَأْوِیلُ رُیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ وَجَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی إِنَّ رَبِّی لَطِیفٌ لِمَا یَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ

''اور(مصر پہنچ کر) یوسف نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب کے سب (یوسف کی تعظیم کے واسطے )ان کے سامنے سجدہ میں گر پڑے اور (اس وقت)یوسف نے کہا : اے بابا یہ تعبیر ہے میرے اس پہلے خواب کی میرے پروردگار نے اسے سچ کردکھایا،بے شک اس نے میرے ساتھ احسان کیا ہے جب اس نے مجھے قیدخانہ سے نکالااور باوجودیکہ کہ مجھ میں اور میرے بھائیوں میں شیطان نے فساد ڈال دیا تھا ،اس کے بعد بھی آپ لوگوں کو صحرا سے (کنعان سے مصر)لے آیا (اور مجھ سے ملا دیا) بے شک میرا پروردگارجو چاہتا ہے اسے تدبیر خفی سے انجام دیتا ہے ، بے شک وہ بڑا واقف کار حکمت والا ہے ''۔

نکات:

''عرش'' اس تخت کو کہتے ہیں جس پر بادشاہ بیٹھتا ہے''خرّوا'' زمین پر گرنا ''بدو'' بادیہ اور صحرا،''نزغ'' کسی کے درمیان فساد کی غرض سے وارد ہونا۔

''لطیف'' خداوندعالم کا ایک نام ہے ، یعنی اس کی قدرت پیچیدہ اور مشکل امور میں بھی اپنا راستہ بنالیتی ہے اس نام کا تناسب آیت میں یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں ایک ایسی مشکل گرہ تھی جسے صرف قدرت خدائی ہی کھول سکتی تھی ۔

حضرت یوسف علیہ السلام مثل کعبہ ہوگئے تھے اور انکے ماں باپ اور بھائیوں نے انکے بلند رتبے اور کرامت کی وجہ سے انکی طرف رخ کرکے خداوند عالم کا سجدہ کیا(خَرُّوا لَهُ سُجَّدًا) اگر یہ سجدہ غیر خدا کےلئے اور شرک کا باعث ہوتا تو یوسف اوریعقوب + جیسے دو پیغمبر الٰہی کبھی ایسے عظیم گناہ کے مرتکب نہ ہوتے ۔

۲۰۱

پیام:

۱۔ ہم جس مقام پر بھی ہیں اپنے والدین کو اپنے سے برترسمجھیں(رَفَعَ أَبَوَیْهِ) جس نے زیادہ رنج و مصیبت کاسامنا کیا ہے اس کو زیادہ صاحب عزت ہونا چاہئےے۔

۲۔ انبیاء بھی تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوئے ہیں( عَلَی الْعَرْش)

۳۔ حاکم برحق کا احترام اور اس کے سامنے تواضع ضروری ہے۔(خَرُّوا لَهُ سُجَّدً)

۴۔ سجدہئ شکر ،تاریخی سابقہ رکھتا ہے(خَرُّوا لَهُ سُجَّدً) (۱)

۵۔خداوندعالم حکیم ہے کبھی کبھی سالہاسال کی طولانی مدت کے بعد دعا مستجاب فرماتاہے یا خواب کی تعبیر دکھاتاہے( هَذَا تَأْوِیلُ رُیَای مِنْ قَبْل)

۶۔ تمام پروگرام کو اس کے حقیقی انجام تک پہنچانا خداوندعالم کے ہاتھ میں ہے( قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّ) جی ہاں حضرت یوسف (ع)اپنی مقاومت اور صبر کے سلسلے میں رطب اللسان نہ تھے بلکہ ہر چیز کو خداوندعالم کا لطف سمجھ رہے تھے ۔

۷۔ اولیاء خدا کے خواب برحق ہوتے ہیں(جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّ)

۸۔ تمام اسباب و علل اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیشہ حقیقی اصل اور سبب خداوندعالم کو سمجھنا چاہیئے حضرت یوسف کی زندگی میں مختلف اسباب و علل نے مل کر انہیں اس بزرگ مقام تک پہنچایا لیکن پھر فرماتے ہیں(قَدْ أَحْسَنَ بِی)

۹۔ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت گزشتہ تلخیوں کا ذکر نہیں کرنا چاہیئے۔(أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ) باپ سے ملاقات کے وقت حضرت یوسف (ع)کا سب سے پہلاکام خدا کا شکر تھا گزشتہ واقعات کی تلخیوں کا ذکر نہیں فرمایا۔

۱۰۔انسان کو جواں مرد ہونا چاہیئے اور مہمان کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیئے (آیہ شریفہ میں حضرت یوسف (ع)زندان سے نکلنے کا واقعہ تو بیان فرماتے ہیں لیکن کنویں سے

--------------

(۱)امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: جناب یعقوب (ع)اور ان کے فرزندوں کا سجدہ ،سجدہئ شکر تھا۔ احسن القصص.

۲۰۲

باہر نکلنے کی داستان نہیں دہراتے کہ کہیںدوبارہ ایسا نہ ہو کہ بھائی شرمندہ ہوجائیں )( إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ )

۱۱۔انسان کو جواں مرد ہونا چاہیئے اہل کینہ و انتقام نہیں حضرت یوسف (ع)فرمارہے ہیں ۔(نَزَغَ الشَّیْطَانُ) یعنی شیطان نے وسوسہ کیا ورنہ میرے بھائی برے نہیں ہیں ۔

۱۲۔اولیائے الٰہی زندان میں قید ہونے اور وہاں سے آزادی کو توحید و ربوبیت کا محور سمجھتے ہیں (رب السجن احب)گزشتہ آیتوں میں ملتا ہے اور ابھی فرمایا:(أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ )

۱۳۔مصیبتوں کے بعد خوشی ہے ، مشکلوں کے بعد آسانی ہے ۔(أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ)

۱۴۔بادیہ نشینی ضرورت ہے، فضیلت نہیں۔(قَدْ أَحْسَنَ بِی إِذ...جَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ...)

۱۵۔بچوں کے ہمراہ والدین کا زندگی بسر کرنا ایک لطف الٰہی ہے(قَدْ أَحْسَنَ بِی إِذ...جَاءَ بِکُمْ )

۱۶۔بھائیوں ،بلکہ گھر کے ہر ہر فرد کو یہ جان لینا چاہیئے کہ شیطان ان کے درمیان اختلاف، افتراق اور جھگڑا کرانے کے چکر میں لگا رہتا ہے ۔( نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی )

۱۷۔اپنے آپ کو برتر شمار نہ کیجئے( بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی ) حضرت یوسف (ع)نے یہ نہیں کہاکہ شیطان نے ان لوگوں کو فریب اور دھوکادیا بلکہ فرمایا میرے اور ان کے درمیان یعنی اپنے آپ کو بھی ان کے ہمراہ مدمقابل قراردیا ۔

۱۸۔خداوندعالم کے امور نرمی، مہربانی ، اور لطف و کرم پر استوار ہوتے ہیں۔(لَطِیف)

۱۹۔تمام تلخ و شیریں حادثات ،علم و حکمت الٰہی کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔(الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ)

۲۰۔کسی کو معاف کرنے کے بعد اسے شرمندہ نہ کیجئے جب حضرت یوسف (ع)نے بھائیوں کو بخش دیا تو واقعہ بیان کرنے میں کنویں کا نام نہیں لیتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بھائیوں کو شرمندگی ہو۔

۲۰۳

آیت ۱۰۱:

(۱۰۱) رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ

''(اس کے بعد یوسف نے دعا کی )پروردگار تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ بھی عطا فرمایا اور مجھے خواب کی تعبیر بھی سکھائی، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی میرا مالک و سرپرست ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو مجھے (دنیا سے)مسلمان اٹھالے اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما''۔

نکات:

اولیائے خدا جب بھی اپنی عزت و قدرت کو ملاحظہ کرتے ہیں تو فوراً یاد خدا میں سر نیاز خم کردیتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں: خدایاجو کچھ بھی ہے تیرا ہی دیا ہوا ہے۔ حضرت یوسف(ع) نے بھی یہی کہا ،باپ سے گفتگو کرتے کرتے خدا کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ خداوندعالم نے مصر کی حکومت دو افراد کے ہاتھ میں دی ایک فرعون کہ جس نے اس حکومت کو اپنی طرف منسوب کرلیا۔(الیس لی ملک مصر) (۱) دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام جنہوں نے اس کی نسبت خداوندعالم کی طرف دی(اتیتنی من الملک)

ابراہیمی طرز تفکر ،ان کی نسل میں بھی جلوہ گر ہے ۔کل حضرت ابراہیم (ع)نے فرمایا تھا۔(اسلمت لرب العالمین) (۲) میںپروردگارعالم کے سامنے تسلیم ہوں ۔ آپ(ع) کے بعد آپ (ع)کے پوتے حضرت یعقوب (ع)اپنے فرزندوں سے وصیت فرماتے ہیں کہ باایمان اس دنیا سے رخصت ہوں(لاتموتن الا و انتم مسلمون) (۳) یہاںفرزند یعقوب حضرت یوسف بھی وقت وفات تسلیم و رضائے الٰہی کی درخواست کررہے ہیں (توفنی مسلما)۔ بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شمار صالحین میں ہوتا ہے(انه فی الاخر لمن الصالحین) (۴) اورحضرت یوسف (ع)چاہتے ہیں کہ انہی سے ملحق

--------------

(۱) سورہ زخرف آیت ۵۱ (۲)سورہ بقر آیت ۱۳۱.

(۳) سورہ بقر آیت ۱۳۲ (۴) سورہ بقر آیت ۱۳۰

۲۰۴

ہوجائیں(الحقنی بالصالحین)

خداوندعالم نے حضرت آدم (ع)کو اسما کی تعلیم دی(علم آدم الاسماء کلها) (۱) حضرت دد (ع)کو زرہ سازی کی تعلیم دی(علمناه صنعه لبوس) (۲) حضرت سلیمان (ع)کومنطق الطیر (پرندوں کی بولی سمجھنا )کا علم دیا(علمنامنطق الطیر) (۳) اسی طرح حضرت یوسف (ع)کو تعبیر خواب کا علم عنایت فرمایا(علمتنی من تاویل الاحادیث) لیکن ہمارے نبی کو علم اولین و آخرین عنایت فرمایا۔علمک مالم تکن تعلم (۴)

یوسفی چہرہ (ایک کامیاب رہبر کی صفات و خصوصیات)

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کے اختتام پر ان کا رخ زیبا دیکھتے چلیں۔

--------------

(۱) سورہ بقر آیت ۳۱

(۲) سورہ انبیاء آیت ۸۰.

(۳) سورہ نمل آیت ۱۶.

(۴) سورہ نساء آیت۱۱۳.

۲۰۵

(۱) تلخیوں میں خداوندعالم پر بھرپور بھروسہ(رب السجن احب...) اور خوشی و شاد کامی میں بھی اسی پر توجہ(رب قد اتیتنی من الملک)

(۲) ہر منحرف گروہ کی انحرافی را ہ اور نقوش ترک کرنا(انی ترکت مل قوم لا یومنون باللّٰه و هم بالاخر کافرون)

(۳) بزرگوں کی راہ ِمستقیم پر گامزن ہونا(واتبعت مل آبائی ابراهیم ،

والحقنی بالصالحین)

(۴) خدا کی راہ میں تادم مرگ پائیداری(توفنی مسلما)

(۵) رقیبوں کے مقابلے میں وقار(احب الی ابینا منّا)

(۶) حوادث اور تلخیوں میں صبر(یجعلوه فی غیابت الجب ، ارادباهلک سوئ)

(۷) آرام و آسائش پر پاکدامنی اور تقوی کو ترجیح دینا(معاذاللّٰه ، رب السجن احب الی مما یدعوننی)

(۸) غیروں سے باتوں کو چھپانا(وشروه بثمن بخس)

(۹) وافر علم(علمنی من تاویل الاحادیث ، انی حفیظ علیم...)

(۱۰)فصیح اور خوبصورت انداز بیان(فلما کلّمه قال انک لدینامکین)

(۱۱)خاندانی عظمت وبزرگی(آبائی ابراهیم و اسحق...)

۲۰۶

(۱۲)دینی اور فکری مخالفین سے محبت سے پیش آنا(یا صاحبی السجن)

(۱۳)اخلاص۔(کان من المخلصین)

(۱۴)دوسروں کی ہدایت کے لئے سوز دل(ءَ ارباب متفرقون)

(۱۵)منصوبہ بندی کرنے کی قدرت وتخلیقی صلاحیت(جعل السقای ، ائتونی باخ لکم ، فذروه فی سنبله...)

(۱۶)تواضع اور فروتنی(رفع ابویه علی العرش )

(۱۷)عفو و اغماض نظر(لاتثریب علیکم)

(۱۸)شجاعت وجواں مردی(نزغ الشیطان بینی و بین اخوتی)

(۱۹)امانتداری(اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم)

(۲۰)مہمان نوازی(انا خیرالمنزلین)

۲۰۷

پیام:

۱۔اعطائے حکومت؛ الٰہی ربوبیت کی شان ہے( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ )

۲۔حکومت کو اپنی فکر، مال، قدرت، یارومددگار اور منصوبہ بندی کا نتیجہ نہ سمجھئے بلکہ ارادہ خداوندی اصلی اور حقیقی عامل ہے(آتَیْتَنِی )

۳۔جو چیز خدا ہمیں دیتا ہے یا ہم سے لے لیتا ہے سب کے سب ہماری تربیت کے لئے ہیں(رب بما اتیتنی، رب السجن احبّ)

۴۔حکومت تعلیم یافتہ افراد کا حق ہے جاہلوں کا نہیں( آتَیْتَنِی... عَلَّمْتَنِی) حضرت یوسف (ع)کا علم ان کی حاکمیت کا وسیلہ قرار پایا۔

۵۔ہر حال میں خود کو خدا کے سپرد کردینا چاہیئے(أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

۶۔قدرت و حکومت و سیاست ، دین الٰہی سے دور ہونے کی راہ کو ہموار کرتے ہیں مگر یہ کہ لطف خداوندشامل حال ہو( تَوَفَّنِی مُسْلِمً) (حضرت یوسف (ع)نے کنویں میں ایک دعا کی ، قید خانہ میں ایک دوسری دعا کی لیکن جیسے ہی مسند حکومت پر پہنچے آپ (ع)کی دعا یہ تھی: ''خدایا میںمسلمان اس دنیا سے رخصت ہوں '')

۲۰۸

۷۔اللہ کے بندے عزت و طاقت کی معراج پر بھی موت ، قیامت اور عاقبت کی یاد میں ہوتے ہیں(توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین) (۱)

۸۔عظمت خدا فقط یہی نہیں کہ وہ ہماری نعمتوں میں اضافہ کردے بلکہ وہ تمام ہستی کو معرض وجود میں منصہئ شہود پر ظہور پذیر کرنے والا ہے( فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)

۹۔افتخار یوسف (ع)یہ نہیں کہ وہ لوگوں پر حاکم ہیں بلکہ آپ (ع)کا افتخار یہ ہے کہ خدا آپ (ع)پر حاکم ہے(أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

۱۰۔کار خیر میں پائیداری اور اس کا نیک انجام اس کے شروع ہونے سے بہتر ہے ۔ انبیاء حسن عاقبت کے لئے دعا فرماتے ہیں( تَوَفَّنِی مُسْلِمً) یعنی مجھے اپنی تسلیم و رضا کی راہ میں تادم مرگ پائیداری عنایت فرما(۲)

۱۱۔دعا میں پہلے خداوندعالم کی نعمتوں کا ذکر کیجئے( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی) اس کے بعد اپنی

--------------

(۱)اسی طرح فرعون کی بیوی آسیہ بھی اس کے محل میں قیامت کی فکر میں تھیں۔ فرمایا:(رب ابن لی عندک بیت فی الجن ة ) خدایا جنت میں تو اپنے پاس میرے لئے ایک گھر بنا دے.

(۲)تفسیر المیزان.

۲۰۹

درخواست پیش کیجئے(تَوَفَّنِی مُسْلِمًا) (۱)

۱۲۔جب قدرت مل جائے تو خدا سے مناجات فراموش نہ ہو(رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی...)

۱۳۔دعا اور مناجات میں فقط دنیا اور مادیات کے چکر میں نہیں رہنا چاہیئے(فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

۱۴۔انسان کی قدرت ناچیز ہے(مِنْ الْمُلْکِ ) انسان کا علم کم ہے(مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ...) لیکن خدا وندعالم کی حکومت تمام ہستی پر حکم فرما ہے( فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)

۱۵۔باایمان دنیا سے رخصت ہونا اور صالحین میں شمار ہونا ایک بہت بڑی فضلیت ہے ۔(تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ )

--------------

(۱)حضرت یوسف (ع)جن کو خداوندعالم نے شروع سے محفوظ رکھا، انہیں علم عطا فرمایا۔حکومت عنایت فرمائی ، خطرات سے بچایا، وہ اپنی عاقبت اور انجام کار سے مضطرب اور پریشان ہیں ،ان لوگوں کا کیا برا حال ہوگا جنہوں نے کرسی ، حکومت ، علم سب کے سب مکاری اور فریب کاری سے حاصل کئے ہیں.

۲۱۰

آیت ۱۰۲:

(۱۰۲)ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهِ إِلَیْکَ وَمَا کُنتَ لَدَیْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْکُرُونَ

''(اے رسول) یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی کررہے ہیں ورنہ جس وقت یوسف کے بھائی مشورہ کررہے تھے اور ( ہلاک کرنے کی) تدبیریں کررہے تھے آپ انکے پاس موجودنہ تھے ''۔

پیام:

۱۔انبیاء (ع)بذریعہ وحی غیب کی باتوں سے آشنا ہوتے ہیں(ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ...)

۲۔انبیاء (ع)غیب کی تمام خبروں سے واقف نہیں ہوتے(مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ)

۳۔جب تک مشیت خداوندی نہ ہو تو نہ کسی کا ارادہ(أَمْرَهُم) نہ کسی قوم کا اجماع(أَجْمَعُو) اور نہ ہی کسی کی پالیسی اور سازش( یَمْکُرُونَ) کوئی بھی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔

۴۔جب پے درپے حوادث رونما ہورہے ہوں تو اس میں اصلی نکتہ اور شروع ہونے کے محل کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئےے حضرت یوسف (ع)کی داستان کا مرکزی نقطہ حضرت یوسف (ع)کو نابود کرنا تھا۔(أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْکُرُون)

۲۱۱

آیت ۱۰۳:

(۱۰۳)وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُمِنِینَ

''اور آپ کتنے ہی خواہش مند ہوں مگر بہترے لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں ''۔

نکات:

''حرص'' یعنی کسی چیز سے بے حد لگ اور اس کو پانے کے لئے حد سے زیادہ جدوجہد کرنا۔

پیام:

۱۔بارہا قرآن مجید میں انسانوں کی کثیر تعداد اپنے دینی عقائد و نظریات کی وجہ سے مورد تنقید قرار پائی ہے(وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ... بِمُمِنِینَ)

۲۔الٰہی نمایندے دوسروں کی ہدایت کےلئے سوز، درد ، اور اشتیاق رکھتے ہیں(حَرَصْت)

۳۔اکثر و بیشتر لوگوں کا ایمان نہ لانا پیغمبروں (ع)کی کوتاہی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خود انسان کی آزادی اور اختیار کا نتیجہ ہے کہ وہ ایمان لانا نہیں چاہتے تھے(مَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُمِنِینَ)

۲۱۲

آیت ۱۰۴:

(۱۰۴) وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ

''حالانکہ آپ ان سے اس بات (تبلیغ رسالت)کا کوئی صلہ بھی نہیں مانگتے اور یہ قرآن تو تمام جہان کے واسطے نصیحت (ہی نصیحت) ہے''۔

نکات:

دوسرے پیغمبروں ٪ کی طرح پیغمبر اسلام (ص) نے بھی قوم کی ہدایت کے لئے کوئی اجزت نہیں مانگی کیونکہ اگر لوگوں سے اجر کی توقع رکھی جائے تو لوگ دعوت حق کو قبول کرنے سے اجتناب اور بوجھ محسوس کرتے ہیں ۔سورہ طور کی ۴۰ویں آیت میں خداوندعالم فرماتا ہے :(ام تسئلھم اجرا فھم من مغرمٍ مثقلون)مگر کیا ان سے آپ نے کسی اجر کی درخواست کی ہے کہ جس کی ادائیگی ان پر بھاری ہے ۔اب اگر ہم دوسری آیت میں ملاحظہ فرماتے ہیں کہ قربی کی مدت اجر رسالت قرار پارہی ہے(الاّالمد فی القربی) (۱) تو اس کا ہدف یہ ہے کہ اہلبیت (ع)کی پیروی میں خود امت کا فائدہ ہے، پیغمبر اسلام (ص) کا نہیں۔ کیونکہ اسی قرآن میں ایک دوسری جگہ پر موجود ہے کہ(وماسئلتکم من اجر فهو لکم) (۲) ہم جو اجر تم سے مانگ رہے ہیںوہ تمہارے لئے ہی ہے ۔ جی ہاں جوشخص اہل بیت (ع)سے محبت کرے گا اور ان کی اطاعت کرے گا در حقیقت اس نے خداوپیغمبر (ص) کی اطاعت کی ہے۔

--------------

(۱)سورہئ شوری آیت۔۲۳.

(۲)سورہ ئسبا آیت۴۳.

۲۱۳

قرآن ذکر ہے اس لئے کہ :

خدا کی آیات و نعمات و صفات کا یاد دلانے والا ہے ۔

انسان کے ماضی و مستقبل کویاد دلانے والا ہے ۔

سماج کی عزت و ذلت کے اسباب کو یاددلانے والا ہے۔

میدان قیامت کے احوال یاد دلانے والا ہے ۔

جہان و ہستی کی عظمتوں کو یاد دلانے والا ہے۔

تاریخ ساز شخصیتوں کی تاریخ اور زندگی یاد دلانے والا ہے۔

قرآن مجید کے معارف و احکام وہ حقائق ہیں جن کا جاننا ضروری ہے اور انہیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ ''ذکر'' اس علم و معرفت کو کہتے ہیں جو ذہن میں حاضر ہو اور اس سے کبھی غفلت نہ ہو۔

پیام:

۱۔جس طرح انبیاء (ع)،قوم سے کوئی توقع نہیں رکھتے اس طرح مبلغ کو بھی قوم سے توقع نہیں رکھنی چاہیئے(مَا تَسْأَلُهُمْ مِنْ أَجْر)

۲۔اجر کی درخواست بری چیز ہے نہ اجر کا دریافت کرنا( تَسْئل)

۳۔پیغمبراسلام (ص) کی رسالت تمام کائنات کے لئے ہے( لِلْعَالَمِینَ )

۴۔امت کا ایک گروہ حتی اکثریت کہیں کسی وقت ایمان نہ لائے تو دینی مبلغ کو مایوس اور غمگین نہیں ہونا چاہیئے اگر زمین کے کسی حصے میں کسی گروہ نے ایمان قبول نہیں کیا تو دوسری جگہ جاکر تبلیغ کرنی چاہیئے( لِلْعَالَمِینَ )

۲۱۴

آیت ۱۰۵:

(۱۰۵)وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ

''اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کی قدرت کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ (دن رات) گزرا کرتے ہیں اور اس سے منہ پھیرے رہتے ہیں''۔

نکات:

در حقیقت یہ آیہ شریفہ رسول اکرم (ص) کی تسلی خاطر کے لئے نازل ہوئی ، بلکہ ہر برحق رہبر و پیشوا کے لئے تسلی ہے کہ اگر قوم ان کے فرامین کی نسبت بے توجہ ہے اور اسے قبول نہیں کررہی ہے تو اس سے پریشان نہ ہوں ،ایسے لوگ تو ہمیشہ طبیعت و خلقت خدائی میں قدرت و حکمت خداوندی کے شاہکار کا سامنا کرتے ہیں لیکن کبھی بھی اس سلسلے میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ زلزلے ،سورج گرہن چاند گرہن ، بجلیوںکی کڑک ستاروں کی گردش ، کہکشں کا اپنے مدار پر حرکت کرنا ان سب نشانیوں کو دیکھتے ہیں پھر بھی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

یمرون علیھا کا تین طرح معنی کیا گیا ہے :(الف) آیات الٰہی کا سامنا کرنے سے مقصود ان نشانیوں کا مشاہدہ کرنا ہے ۔(ب)انسانوں کا'' الٰہی نشانیوںسے گزرنے'' سے مراد زمین کی حرکت ہے کیونکہ زمین کی حرکت سے انسان اجرام فلکی پر مرور کرتا ہے۔(۱)

--------------

(۱)تفسیر المیزان.

۲۱۵

۳۔'' الٰہی نشانیوں سے گزرنا''ایک پیشنگوئی ہے کہ انسان فضائی وسائل پر سوار ہوگا اور آسمانوں میں حرکت کرے گا۔(۱)

کسی چیز سے منہ موڑنا ، غفلت سے زیادہ خطرناک ہے چونکہ ان نشانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے(کَأَیِّنْ ) اور انسان ان سے دائماً رابطے میں بھی ہے'' یَمُرُّونَ'' لیکن اسکے باوجود نہ صرف اسے فراموش کرتا ، اور ان سے غافل رہتا ہے بلکہ بعض اوقات متوجہ ہونے کے باوجود ان سے منہ موڑ لیتا ہے ۔

پیام:

۱۔انسان اگر ہٹ دھرمی سے کام لے تو کسی نشانی کو بھی قبول نہیں کرسکتا(وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَ... یَمُرُّونَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُون)

۲۔تمام کائنات خدا کی پہچان کے اسرار و رموز اور نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔(آیَ)

--------------

(۱)سفر نامہ حج آیت اللہ صافی.

۲۱۶

آیت ۱۰۶:

(۱۰۶) وَمَا یُمِنُ أَکْثَرُهُمْ بِاﷲِ إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ

''اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ''۔

نکات:

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:شرک اس آیت میں کفر و بت پرستی کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ غیر خدا کی طرف لو لگانا مقصودہے(۱)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایاشرک انسان میں ''اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی کی حرکت ''سے بھی خفیف تر ہے(۲)

امام باقر علیہ السلام نے بھی فرمایا لوگ عبادت میں موحد ہیں لیکن اطاعت میں غیر خدا کو شریک بنالیتے ہیں(۳) دوسری روایات میں آیا ہے کہ اس آیت میں شرک سے مراد شرک نعمت ہے۔

مثلاًانسان کہے ''کہ فلاں انسان نے ہمارا کام کردیا ''۔ ''اگر فلاں صاحب نہ ہوتے تو ہم نابود ہو گئے ہوتے ''اس جیسی دوسری مثالیں(۴)

--------------

(۱)تفسیر نمونہ.

(۲)سفینہ البحار، ج ۱، ص ۶۹۷.

(۳)کافی ،ج ۲، ص ۶۹۲.

(۴)تفسیر نمونہ.

۲۱۷

مخلص انسان کی علامتیں

۱۔انفاق میںکسی سے اجر کی توقع اور تشکر کا انتظار نہیں رکھتا(لانرید منکم جزاء ولا شکور) (۱)

۲۔عبادت میںخدا کے علاوہ کسی دوسرے کی بندگی نہیں کرتا۔(ولا یشرک بعباد ربه احد )(۱)

۳۔تبلیغ میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے اجر نہیں چاہتا(ان اجری الا علی اللّٰه) (۲)

۴۔شادی بیاہ میں فقر و تنگدستی سے نہیں ڈرتا بلکہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے شادی کرلیتا ہے(ان یکونوا فقراء یغنهم اللّٰه من فضله) (۳)

۵۔لوگوں سے سلوک کرنے میں خدا کی رضا کے علاوہ دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے(قل اللّٰه ثم ذرهم) (۴)

۶۔جنگ اور دشمن سے مقابلہ کرنے میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔(لایخشون احداالا اللّٰه ) (۵)

۷۔مہرو محبت میں خدا سے زیادہ کسی سے محبت نہیں کرتا(والذین آمنوا اشد حبا للّٰه) (۶)

--------------

(۱)سورہ انسان آیت ۹.

(۱)سورہ کہف آیت ۱۱۰.

(۲)سورہ یونس آیت ۷۲.

(۳)سورہ نور آیت ۳۲.

(۴)سورہ انعام آیت ۹۱.

(۵)سورہ احزاب آیت ۳۹.

(۶)سورہ بقرہ آیت ۱۶۵.

۲۱۸

(٭)عباس ساجری ہو کہ اکبر سامہہ جبیں

تجھ کو سبھی عزیز تھے لیکن خدا کے بعد

۸۔تجارت اور کسب معاش میں خداوندعالم کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔(لاتلهیهم تجار ولا بیع عن ذکر اللّٰه) (۱)

مومن مشرک کی علامتیں

۱۔دوسروں سے عزت کا آرزومند ہوتا ہے(ایبتغون عندهم العز) (۲)

۲۔عمل میںاچھے اور برے عمل کو مخلوط کردیتاہے(خلطوا عملا صالحا و آخر سیّ) (۳)

۳۔لوگوں سے ارتباط میں حزبی اور گروہی تعصبات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔(کل حزب بما لدیهم فرحون) (۴)

۴۔عبادت میںبے توجہ اور ریاکار ہوجاتا ہے(الذین هم عن صلاتهم ساهون والذین هم یرن )(۵)

۵۔جنگ و جدال میں انسانوں سے ڈرتا ہے(یخشون الناس کخشی اللّٰه ) (۶)

--------------

(۱)سورہ نور آیت ۳۷.

(۲)سورہ نساء آیت ۱۳۹.

(۳)سورہ توبہ آیت ۱۰۲.

(۴)سورہ مومنون آیت ۵۳.

(۵)سورہ ماعون آیت ۶۔۵.

(۶)سورہ نساء آیت ۷۷.

۲۱۹

۶۔تجارت اوردنیاوی امورمیں زیادتی اور اضافہ کی طلب اسے سرگرم کئے رکھتی ہے(الهٰکم التکاثر) (۱)

۷۔دنیا اور دین کے انتخاب میں دنیا کو منتخب کرلیتے ہیں اور پیغمبر (ص) کو تنہا چھوڑ دیتے ہےں(واذا رأو تجار او لهوا انفضوا الیها وترکوک قائم) (۲)

پیام:

۱۔ایمان کے مختلف مراتب ہیں۔خالص ایمان جس میں کوئی شرک نہ ہو بہت کم ہے۔(وَمَا یُمِنُ...إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ)

آیت ۱۰۷:

(۱۰۷)أَفَأَمِنُوا أَنْ تَأْتِیَهُمْ غَاشِیَ مِنْ عَذَابِ اﷲِ أَوْ تَأْتِیَهُمْ السَّاعَ بَغْتَ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ.

''کیا وہ لوگ (جو ایمان نہیں لائے) اس بات سے مامون ہیں کہ خدا کی طرف سے گھیرنے والا عذاب جو ان پر چھا جائے یا ان پر اچانک قیامت کی گھڑی آجائے اور ان کو کچھ خبربھی نہ ہو''۔

نکات:

''غاشیہ'' اس عذاب و عقاب کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا معاشرے کو اپنے گھیرے میں لے لے۔

--------------

(۳)سورہ تکاثر آیت ۱.

(۴)سورہ جمعہ آیت ۱۱.

۲۲۰

پیام:

1۔کوئی بھی خود کو ضمانت یافتہ نہ سمجھے(افامنوا...)

2۔خدائی قہر ،ناگہاں دامن گیر ہوتا ہے۔(بغت)

3۔خدائی قہر ،ہمہ گیر ہوتا ہے جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے(غاشیه)

4۔قہر الٰہی کا احتمال ہی انسان کے لئے حق کی طرف قدم بڑھانے کے لئے کافی ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ بعض افراد قہر الٰہی کا احتمال بھی نہیں دیتے ۔(افامنو)

5۔عذاب کا ایک چھوٹا سا نمونہ انسان کو گرفتار کرنے کے لئے کافی ہے۔(غاشیمن عذاب)

6۔قیامت کی یاد، تربیت کے لئے بہترین عامل ہے۔( تَأْتِیَهُمْ السَّاعَ )

۲۲۱

آیت 108:

(108) قُلْ هَذِهِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَی اﷲِ عَلَی بَصِیرَ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اﷲِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ.

''(اے رسول) ان سے کہہ دو : یہی میر ا راستہ ہے میں اور میرے پیروکار پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور خدا (ہر عیب و نقص سے)پاک و پاکیزہ ہے اور میں مشرکین سے نہیں ہوں''۔

نکات:

توحید کی طرف دعوت دینے والا شخص عوام سے جدا ہوتا ہے کیونکہ گزشتہ دو آیتوں سے ثابت ہے کہ عوام الناس کا ایمان غالباً شرک سے آلودہ ہوتا ہے( وَمَا یُمِنُ أَکْثَرُهُمْ بِاﷲِ إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ ) لیکن دینی مبلغ کو ایسا ہونا چاہیئے کہ علی الاعلان کہہ سکے :(وما انا من المشرکین)

پیام:

1۔انبیاء (ع)کی راہ تمام افراد کے سامنے واضح اور روشن ہے( هَذِهِ سَبِیلِی)

2۔رہبر کو بصیرتِ کامل کا حامل ہونا چاہیئے(عَلَی بَصِیرَ )

3۔رہبر کی دعوت خدا کی طرف سے ہو ،نہ کہ اپنی طرف سے( أَدْعُو إِلَی اﷲ)

4۔دینی مبلغ کو خالص و مخلص ہونا چاہیئے(وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ)

5۔تبلیغ کا مرکز و محور ''خداوند عالم کو ہر شرک و شریک سے منزہ کرنا'' ہونا چاہیئے(سُبْحَانَ اﷲِ)

6۔پیغمبر اسلام (ص) کے ہر پیروکار کو ایسا مبلغ ہونا چاہیئے کہ وہ بصیرت و آگاہی کے ساتھ لوگوں کو خدا کی طرف بلا سکے(أَدْعُو إِلَی اﷲِ...أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی)

7۔توحید کا اقرار اور شرک کی نفی دین اسلام کی بنیاد ہے۔(أَدْعُو إِلَی اﷲِ...َمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ)

۲۲۲

آیت 109:

(109)وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالًا نُوحِی إِلَیْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَی أَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا أَفَلاَتَعْقِلُونَ

''اور (اے رسول )آپ سے پہلے بھی ہم ان بستیوں میں صرف مردوں کو ہی بھیجتے رہے ہیں جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے تو کیا یہ لوگ روئے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ؟ اور جن لوگوں نے پرہیز گاری اختیارکی ان کے لئے آخرت کا گھر (دنیا سے )یقینا بدرجہا بہتر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟''

نکات:

مخالفین انبیاء ٪ نے یہی بہانہ تراشی کی کہ پیغمبران (ع)ہم ہی جیسے انسان کیوں ہیں ؟گویا پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں بھی یہی فکر کار فرماتھی اور لوگ یہی سوال کررہے تھے، یہ آیہ شریفہ اسی کا جواب ہے اور لوگوں کو خبردار کررہی ہے۔

پیام:

1۔تمام انبیاء (ع)مرد تھے(رجالً) کیونکہ تبلیغ اور ہجرت و جستجو کا امکان مرد کے لئے زیادہ ہے ۔

2۔انبیاء (ع)کے علوم، وحی کے ذریعے یا بعبارت دیگر''لدنی'' تھے(نُوحِی إِلَیْهِمْ )

3۔انبیاء (ع)انسانوں ہی کی صنف سے تھے اور انسانوں کے درمیان ہی زندگی بسر کرتے تھے (نہ تو فرشتہ تھے نہ ہی گوشہ نشین تھے اور نہ ہی آرام و آسائش کے خوگر تھے)(مِنْ أَهْلِ الْقُرَی)

۲۲۳

4۔سیر و سفر باہدف ہونا چاہئے۔(أَفَلَمْ یَسِیرُوا... فَیَنْظُرُو)

5۔زمین میں سیر و سیاحت کرنا ، تاریخی معلومات اور اس سے عبرت حاصل کرنا ہدایت و تربیت کے لئے بے حد مثر ہے(فَیَنْظُرُو)

6۔عبرت اور آنے والی نسلوں کے لئے آثار قدیمہ کا محفوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔(فَیَنْظُرُو)

7۔انبیاء (ع)کا بھیجنا ، وحی کا نزول اور ہٹ دھرم مخالفین کی ہلاکت سب کے سب تاریخ میں سنت الٰہی کے عنوان سے محفوظ ہیں(کَیْفَ کَانَ عَاقِبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ)

8۔پیغمبروں (ع)کی مخالفت کرکے کفار کچھ بھی حاصل نہیں کرپاتے بلکہ دنیا ہی میں قہر وعذاب میں گرفتار ہوجاتے ہیں جبکہ اہل تقوی آخرت تک پہنچتے ہیں جو دنیا سے بہتر ہے ۔( وَلَدَارُ الْآخِرَ خَیْر)

9۔عقل و خرد انسان کو انبیائی مکتب کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔(أَفَلاَ تَعْقِلُونَ)

۲۲۴

آیت 110:

(110) حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَ هُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَاءُ وَلاَیُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ

''(پیغمبران ماسلف نے تبلیغ رسالت کی) یہاں تک کہ جب (قوم کے ایمان لانے سے ) انبیاء مایوس ہوگئے اورلوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے (عذاب کا وعدہ بطور) جھوٹ کہا گیا تھا توانبیاء کے لئے ہماری نصرت پہنچ گئی اس کے بعد جسے ہم نے چاہا اسے نجات مل گئی اور مجرموں سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا''۔

نکات:

ہمیشہ سے تاریخ گواہ ہے کہ انبیاء (ع)اپنی دعوت میں پائیدار اورمُصرّ رہے اور آخری وقت تک خداوندعالم کی طرف بلایا کرتے تھے ۔ مگر یہ کہ کسی کی ہدایت سے مایوس ہوجائیں ۔! اسی طرح ہٹ دھرم مخالفین بھی مقابلہ سے دست بردار نہیں ہوتے تھے ۔ اس کے نمونے قرآن مجید میں موجود ہیں :

۲۲۵

انبیاء (ع)کی ناامیدی کا نمونہ

سالہا سال حضرت نوح علیہ السلام قوم کو خدا کی طرف دعوت دیتے رہے لیکن چند افراد کے علاوہ کوئی بھی دولت ایمان سے بہرہ مند نہ ہوا ،خداوندعالم نے حضرت نوح (ع)کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:(لن یمن من قومک الا من قدامن) (1) جو ایمان لاچکے ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی آپ کی قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا۔

حضرت نوح (ع)اپنی قوم کےلئے بددعا کرتے ہوئے جو ان کی مایوسی کی علامت ہے فرماتے ہیں :(لایلدوا الّافاجراً وکفار) (2) ان سے کافر و فاجر کے علاوہ کوئی دوسرا پیدا نہ ہوگا اسی طرح حضرت ہو د، صالح، شعیب، موسیٰ، عیسیٰ ٪ بھی اپنی اپنی زندگی میں امت کے ایمان لانے سے مایوس دکھائی دیتے ہیں ۔

قوم کی انبیاء (ع)سے بدگمانی کا نمونہ

انبیاء ٪ کی تہدید کو کفار کھوکھلے دعوے اور جھوٹ سمجھتے تھے ۔ سورہ ہود کی 27ویں آیت میں کفار کا قول نقل کیا گیا ہے کہ(بل نظنکم کاذبین) یعنی ہمارا گمان تو یہی ہے کہ تم لوگ جھوٹے ہو ،یا فرعون نے حضرت مو(ع)سیٰ سے کہا(انی لاظنک یا موسیٰ مسحور) (3) درحقیقت میرا گمان ہے کہ اے موسیٰ تم سحرزدہ ہوگئے ہو۔

--------------

(1)سورہ ہود آیت 36.

(2)سورہ نوح آیت 27

(3)سورہ بنی اسرائیل آیت 101.

۲۲۶

خداکی مدد

ایسی حالت میں خداوندعالم نے نصرت و مدد کو اپنا حق بتایا ہے اور اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ مومنین کی نصرت فرمائے(وکان حقا علینا نصر المومنین) (1) یادوسری جگہ فرمایا:(نجینا هودا والذین آمنوا معه) (2) ہم نے ہود اور ان مومنین کو نجات دی جو ان کے ساتھ تھے ۔

خدائی قہر

وہی خداوندعالم یہ بھی فرماتا ہے کہ میرا قہر وغضب نازل ہونے کے بعد پلٹنے والا نہیں ہے ۔ سورہ رعد میں ارشاد ہوا :(اذا اراد اﷲ بقوم سوء فلا مردّله) (3) جب بھی خدا کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کرلے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی ۔

پیام:

1۔انسان میں قساوت اور ہٹ دھرمی کبھی کبھی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ بردبار خدائی نمائندوں کو بھی مایوس کردیتی ہے۔(إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ )

2۔خوش بینی ، حسن نیت اور حوصلہ کی ایک حد ہوتی ہے (حتی)

--------------

(1)سورہ روم آیت 47.

(2)سورہ ھود آیت 58.

(3) سورہ رعد آیت 11.

۲۲۷

3۔اپنی طاقت کو غیر قابل نفوذ افراد میں صرف نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بعض لوگوں سے صرف نظر کرلینا چاہیئے(اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ)

4۔مجرمین کو مہلت دینا اور انکے عذاب میں تاخیر کرنا سنت الٰہی ہے(حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ) یعنی ہم نے مجرموں کو اتنی مہلت دی کہ انبیاء بھی ان کی ہدایت سے مایوس ہوگئے۔

5۔عذاب الٰہی میں تاخیر مجرموں کو جری بنا دیتی ہے اور وہ جھٹلانے لگتے ہیں۔( حَتَّی إِذَا... وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ کُذِبُو)

6۔انبیاء (ع)کا کسی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوجانا نزول عذاب کی شرط ہے۔(إِذَا اسْتَیْئَسَ...لاَیُرَدُّ بَأْسُنَا ...)

7۔پیغمبروں (ع)کے لئے خدائی امداد کی بھی ایک خاص گھڑی ہوتی ہے(إِذَا اسْتَیْئَسَ... جاء هم)

8۔قہر الٰہی ،انبیاء (ع)اور حقیقی مومنین کے شامل حال نہیں ہوتا(فَنُجِّیَ)

9۔قہر و عذاب اور لطف و امداد دونوں خدا کے دست قدرت میں ہیں(نَصْرُنَا...بأسن)

10۔قہر یا نجات کاانجام خودانسان ہی کے ہاتھ میں ہے( مَنْ نَشَاءُ ، مُجْرِمِینَ )

11۔خداوندعالم کا ارادہ، قانون مندہے(مَنْ نَشَاء وَلاَیُرَدُّ بَأْسُنَا عَنْ الْقَوْمِ لْمُجْرِمِینَ)

12۔خدا کی راہ کہیں پر ختم نہیں ہوتی(إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ... جَاءَ هُمْ نَصْرُنَا )

(یعنی جہاں پر لوگ راستہ کو بند پاتے ہیں اور اندھیرے کا احساس کرتے ہیں وہیں پر خدائی قدرت جلوہ نما ہوتی ہے)

13۔قہر خدا کو کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی( لَا یُرَدُّ بَأْسُنَا )

14۔انبیاء (ع)کی حمایت ، مجرمین کی ہلاکت، سنت خداوندی ہے(جَاءَ هُمْ نَصْرُنَا، لاَ یُرَدُّ بَأْسُنَا )

۲۲۸

آیت 111:

(111) لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِهِمْ عِبْرَ لِّأُوْلِی الْأَلْبَابِ مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَیٰ وَلَکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیلَ کُلِّ شَیْءٍ وَهُدًی وَرَحْمَ لِقَوْمٍ یُمِنُونَ

''اس میں شک نہیں کہ ان انبیاء کے قصوں میں عقل مندوں کے واسطے (اچھی خاصی) عبرت و نصیحت ) ہے یہ (قرآن) کوئی ایسی بات نہیں جو (خوامخواہ) گڑھ لی گئی ہو بلکہ (جو آسمانی کتابیں) اسکے پہلے سے موجودہیں یہ قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان داروں کے واسطے (از سرتاپا) ہدایت ورحمت ہے''۔

نکات:

''عبرت'' و ''تعبیر'' یعنی عبور کرنا ، ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ کی طرف عبور کرنا، ''تعبیر خواب'' یعنی خواب سے حقیقت کی طرف عبور کرنا۔ ''عبرت'' یعنی دیکھنے والی اور سنی جانے والی چیزوں سے ایسی چیز کی طرف عبور کرنا جو دیکھی اور سنی نہ جاسکیں ۔

'قصصهم'' سے مراد شاید تمام انبیاء (ع)کی داستان ہو ، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ حضرات یعقوب (ع)و یوسف(ع) اور ان کے بھائیوں اور عزیز مصر کی داستان مدنظر ہو جس میں تلخ و شیریں حوادث رونما ہوئے جو اسی سورہ میں آئے ہیں ۔

۲۲۹

پیام:

1۔داستانوں کے امتیاز کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ وہ نصیحت آموز ہوں۔ سورہ کے شروع میں ارشاد فرمایا:(نحن نقص علیک احسن القصص) اور آخر میں فرمایا( لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِهِمْ عِبْرَ )

2۔قرآن مجید کی داستانیں چشم دید واقعات کو بیان کرتی ہیں اور عبرت آموز ہوتی ہیں (گڑھے ہوئے افسانے نہیں ہیں)(مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی )

3۔سچی اور حقیقی باتیں زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں ۔(عبر...مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی )

4۔فقط عقلمند افراد ہی داستانوں سے پند و عبرت حاصل کرتے ہیں(عِبْرَ لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ)

5۔قرآن مجید دوسری آسمانی کتابوں سے جدا نہیں ہے بلکہ ان کی تصدیق کرتا ہے (ان کے شانہ بشانہ ہے)( تَصْدِیقَ الَّذِی...)

6۔قرآن مجید انسان کی تمام نیاز مندیوں اور احتیاجات کو بیان فرماتا ہے(تَفْصِیلَ کُلِّ شَیْئٍ)

7۔قرآن عظیم خالص ہدایت ہے اور کسی گمراہی سے آمیختہ نہیں ہے۔(هُدًی)

8۔فقط اہل ایمان ہی قرآنی ہدایت اور رحمت سے بہرہ مند ہوتے ہیں(هُدًی وَرَحْمَ لِقَوْمٍ یُمِنُونَ )

9۔نکتہ سنجی اور درس حاصل کرنے کے لئے عقل درکار ہے(عِبْرَ لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ) لیکن نور اور رحمت الٰہی کو درک کرنے کے لئے ایمان بھی لازمی ہے(لِقَوْمٍ یُمِنُونَ )

10۔قرآنی قصوں سے عبرت اور نصیحت آموزی کسی ایک زمانے سے مخصوص نہیں ہے۔(لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ)

اللّٰهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجهم.

تمت بالخیر

۲۳۰

فہرست

حرف اول 3

گفتارمؤلف 6

سورہ یوسف کا رخ زیبا 8

آیت 1: 10

آیت 2: 10

نکات: 10

پیام: 12

آیت 3: 13

نکات: 13

پیام: 18

آیت 4: 19

نکات : 19

خواب کے سلسلے میں ایک اور گفتگو 20

پیام: 25

آیت 5: 26

نکات: 26

پیام: 27

آیت 6: 28

نکات: 28

پیام: 29

۲۳۱

آیت 7: 30

نکات: 30

پیام: 32

آیت 8: 32

نکات: 32

پیام: 34

آیت 9: 35

نکات: 35

پیام: 36

آیت 10: 36

نکات: 37

پیام: 37

آیت 11: 38

پیام: 38

آیت 12: 39

نکات: 39

پیام: 40

آیت 13: 41

نکات: 41

پیام: 42

آیت 14: 43

۲۳۲

نکات: 43

پیام: 43

آیت 15: 44

نکات: 44

پیام: 44

آیت 16: 46

پیام: 46

آیت 17: 47

نکات: 47

پیام: 47

آیت 18: 48

نکات: 48

پیام: 49

آیت 19: 50

نکات: 50

پیام: 51

آیت 20: 52

نکات: 52

پیام: 52

آیت 21: 53

نکات: 53

۲۳۳

پیام: 54

آیت 22: 55

نکات: 55

پیام: 56

آیت 23: 56

نکات: 57

پیام: 58

آیت 24: 61

نکات: 61

آیت 25: 63

نکات: 63

پیام: 64

آیت 26: 65

نکات: 65

پیام: 66

آیت 27: 66

نکات: 66

پیام: 67

آیت 28: 67

نکات: 68

پیام: 68

۲۳۴

آیت 29: 69

پیام: 69

آیت 30: 70

نکات: 70

پیام: 71

آیت 31: 71

نکات: 71

پیام: 72

آیت 32: 73

نکات: 73

پیام: 74

آیت 33: 75

نکات: 75

پیام: 76

آیت 34: 78

پیام: 78

آیت 35: 78

پیام: 79

آیت 36: 80

نکات: 80

پیام: 81

۲۳۵

آیت 37: 82

نکات: 82

پیام: 84

آیت 38: 85

نکات: 85

پیام: 86

آیت 39: 87

پیام: 88

آیت 40: 88

پیام: 89

آیت 41: 90

نکات: 90

پیام: 90

آیت 42: 91

نکات: 91

پیام: 92

آیت 43: 92

نکات: 93

پیام: 94

آیت 44: 95

نکات: 95

۲۳۶

پیام: 95

آیت 45: 96

نکات: 96

پیام: 96

آیت 46: 97

نکات: 98

پیام: 99

آیت 47: 99

نکات: 99

پیام: 100

آیت 48: 101

آیت 49: 101

نکات: 101

پیام: 103

آیت 50: 104

نکات: 104

پیام: 106

آیت 51: 107

نکات: 107

پیام: 108

آیت 52: 109

۲۳۷

نکات: 109

پیام: 110

آیت 53: 111

نکات: 111

پیام: 112

آیت 54: 113

نکات: 113

پیام: 115

آیت 55: 116

نکات: 116

پیام: 122

آیت 56: 123

آیت 57: 124

نکات: 124

پیام: 127

آیت 58: 129

نکات: 129

پیام: 130

آیت 59: 130

نکات: 131

پیام: 132

۲۳۸

آیت 60: 133

پیام: 133

آیت 61: 134

نکات: 134

آیت 62: 135

نکات: 135

پیام: 136

آیت 63: 137

پیام: 137

آیت 64: 138

نکات: 138

پیام: 139

آیت 65: 139

نکات: 140

پیام: 141

آیت 66: 142

نکات: 142

پیام: 143

آیت 67: 143

پیام: 144

آیت 68: 146

۲۳۹

نکات: 146

پیام: 147

آیت 69: 148

نکات: 148

پیام: 149

آیت 70: 150

نکات: 150

پیام: 152

آیت 71: 152

آیت 72: 153

نکات: 153

پیام: 153

آیت 73: 154

نکات: 154

پیام: 154

آیت 74: 155

نکات: 155

پیام: 155

آیت 75: 156

پیام: 156

آیت 76: 157

۲۴۰

241

242

243

244

245

246