یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174869 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

اورمہروانگوٹھی بھی تمہیں لوٹا دوںگا حکومت میرے لئے خلائق کو نجات دینے کے علاوہ کچھ نہیں تھی ۔

تم ان کے ساتھ عدالت کے ساتھ پیش بادشاہ ان باتوں کو سننے کے بعد ایسا مسحور ہوا اور خود کو یوسف (ع)کی معنوی عظمتوں کے مقابلے میں اس طرح حقیر سمجھنے لگا کہ یک بارگی بول اٹھا(اشهدان لا اله الا اللّٰه و انک رسوله) میں بھی ایمان لے آیا لیکن تم کو حاکم رہنا پڑے گا۔(فإنّکَ لدینا مکین امین)

افراد کی تشخیص اور ان کے انتخاب میں قرآنی معیار کی طرف توجہ کرنی چاہیئے''حفیظ و علیم'' کے علاوہ قرآن مجید میں دوسرے معیار بھی ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:

ایمان: افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون ۔(1)

کیا جو مومن ہو وہ فاسق کی طرح ہوسکتا ہے ؟ یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔

سبقت:والسابقون السابقون اولئک المقربون (2)

اور سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں یہی مقرب لوگ ہیں۔

ہجرت:والذین آمنوا و لم یهاجروا ما لکم من ولایتهم من شی (3)

--------------

( 1 ) سورہ سجدہ آیت 18

( 2 )سورہ واقعہ آیت 10 ۔ 11

( 3 )سورہ انفال آیت 72

۱۲۱

اور جو لوگ ایمان تو لائے مگر انہوں نے ہجرت نہیں کی انکی ولایت سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

علمی و جسمی قوت:وزاده بسط فی العلم والجسم (1)

اور اسے (طالوت کو) اللہ نے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازاہے۔

خاندانی فضیلت:ماکان ابوک امرأَ سوءٍ (2) تیرا باپ برا آدمی نہ تھا۔

جہادومبارزت:فضل اللّٰه المجاهدین علی القاعدین اجراً عظیما (3)

اللہ تعالی نے بیٹھنے والوں کی نسبت جہاد کرنے والوں کو اجر عظیم کی فضیلت بخشی ہے۔

پیام:

1۔جب ضرروت پڑے تو حساس عہدوں کی فرمائش کرنی چاہیئے(اجْعَلْنِی )

2۔نبوت؛ حکومت اور سیاست سے جدا نہیں ہے جس طرح دیانت سیاست سے جدا نہیں ہے(اجْعَلْنِی عَلَی خَزَائِنِ الْأَرْضِ)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 247

( 2 )سورہ مریم آیت 28

( 3 )سورہ نساء آیت 95

۱۲۲

3۔اسلامی حاکم کےلئے کسی خاص مملکت کا باشندہ ہونا ضروری نہیں ہے حضرت یوسف (ع) مصری نہیں تھے لیکن حکومت مصر میں عہدہ دار ہوئے(بعبارت دیگر قوم پرستی ( Nationalism )ممنوع ہے)

4۔بوقت ضرورت اپنی لیاقت و شائستگی کا بیان توکل ، زہد ، اور اخلاص سے منافات نہیں رکھتا۔(إِنِّی حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

5۔دو صفات جو بادشاہ نے حضرت یوسف (ع) کے لئے بیان کئے ''مکین ، امین'' اور دو صفات جو حضرت یوسف (ع) نے خود اپنے لئے بیان فرمائے''حفیظ ، علیم'' ہیں ،ان بیانات سے بہترین اور شائستہ عہدےداروں کے اوصاف سمجھ میں آتے ہیں کہ ان کے اوصاف قدرت ، امانت ، حفاظت اور اپنے متعلقہ کام میں مہارت عہدےداروں کے لئے ضروری ہے ۔

6۔منصوبہ بندی اور مصارف و اخراجات کی نگرانی کرتے وقت آئندہ آنی والی نسلوں کا حصہ بھی ملحوظ خاطر ہونا چاہیئے(حَفِیظٌ عَلِیمٌ )

آیت 56:

(56) وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَاءُ نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ وَلاَنُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ۔

''اور ہم نے یوسف کو اس ملک میں اقتدار دیا کہ اس میں جہاں چاہیں اپنا مسکن بنالیں ہم جس پر چاہتے ہیں اپنا فضل کرتے ہیں اور ہم نیکوکاروں کے اجر کو اکارت نہیں کرتے''۔

۱۲۳

آیت 57:

(57) وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ

''اور جو لوگ ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے رہے ان کےلئے آخرت کا اجر اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے''۔

نکات:

ان دو آیتوں میں حضرت یوسف (ع) کی توصیف محسن ، مومن اور متقی کہہ کر کی گئی ہے(1) اس پورے سورہ میں خداوندعالم کے ارادے کا مخلوق کے ارادہ سے تقابل کیا جاسکتا ہے (یعنی اس سورہ میں مختلف لوگوں کے مختلف ارادے تھے لیکن خدا کا ارادہ سب پر مسلط ہو کر رہا )

برادران یوسف (ع) نے ارادہ کیا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو کنویںمیں ڈال کر انکو غلام بنا کر ذلیل و رسوا کریں لیکن عزیز مصر نے سفارش کرتے ہوئے کہا تھا''اکرمی مثواه' 'یعنی انکی عزت کرو۔

-------------

( 1 )خداوندعالم نے آیہ شریفہ میں یوسف علیہ السلام کو محسنین کے مصادیق میں سے ایک مصداق قرار دیا ہے قرآن مجید میں محسنین کے لئے دس سے زیادہ الطاف خاصہ خداوندی مذکور ہیں۔

۱۲۴

عزیز مصر کی بیوی نے ارادہ کیا تھا کہ آپ (ع)کے دامن کردار کو آلودہ کردے لیکن خداوندعالم نے اس سے بچا لیا۔زلیخا نے چاہا تھا کہ حضرت یوسف (ع) کو زندان میں بھیج کر ان کی مقاومت کو درہم برہم کردے اور ان کی تحقیر کرے ''لیسجنن ولیکونا من الصاغرین'' لیکن ان سب کے مقابلے میں خداوندعالم نے ارادہ کیا تھا کہ ان کو صاحب عزت قرار دے اور ان کو مصر کا حاکم قراردے۔(مَکَّنَّا لِیُوسُفَ...)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا یوسف (ع) اس آزاد مرد انسان کا نام ہے جس پر بھائیوں کی حسادت ، کنویں میں ڈالا جانا ، شہوت ، تہمت ، ریاست و قدرت کوئی چیز بھی ان کی مقاومت پر اثرانداز نہ ہوسکی(1) ۔

قرآن مجید میں لفظ'' خیر '' مختلف امور کے سلسلے میں استعمال کیا گیا ہے ۔

مومن کے لئے آخرت بہتر ہے(والاخر خیر و ابقی) (2)

روزہ داروں کے لئے روزہ بہتر ہے(ان تصومواخیرلکم) (3)

حاجی کے لئے قربانی بہتر ہے(لکم فیها خیر) (4)

انسانوں کے لئے تقوی بہتر ہے(ولباس التقوی ذلک خیر) (5)

--------------

( 1 )تفسیر نور الثقلین.

( 2 )سورہ اعلیٰ آیت 17

( 3 )سورہ بقرہ آیت 184

( 4 )سورہ حج آیت 36

( 5 )سورہ اعراف آیت 26

۱۲۵

سپاہی کے لئے جہاد بہتر ہے(عسی ان تکرهوا شیائً و هو خیرلکم) (1)

جزائے اخروی جزائے دنیوی سے بہتر ہے کیونکہ آخرت کی جزا :

(الف) نامحدود ہے(لهم ما یشاون) (2)

(ب) ختم ہونے والی نہیں ہے(خالدین) (3)

(ج)کسی خاص مکان میںمحدود نہ ہوگی(نتبوا من الجنه حیث نشائ) (4)

(د)ہمارے لئے اس کا حساب کرنا ممکن نہیں(اجرَهم بغیر حساب) (5)

(ھ)وہاںامراض ، آفات اور پریشانیوں کا گزر نہیں(لایصدعون) (6)

(و)اضطراب و بے چینی کا گزر نہیں(لاخوف علیهم ولا هم یحزنون) (7)

(ز)جزا پانے والے اولیا، خداوندعالم کے پڑوسی ہیں(وهم جیرانی)

--------------

( 1 )سورہ بقرہ آیت 216

( 2 )سورہ زمر آیت 34

( 3 )سورہ فرقان آیت 16

( 4 )سورہ زمر آیت 74

( 5 )سورہ زمر آیت 10

( 6 )سورہ واقعہ آیت 19

( 7 )سورہ بقرہ آیت 112

۱۲۶

پیام:

1۔خدا کی سنت ہے کہ پاکدامن اور باتقوی افراد کو عزت بخشے گا۔(کذلک...)

2۔اگرچہ بظاہر بادشاہ مصر نے حضرت یوسف (ع) سے کہا تھا کہ(انک الیوم لدینا مکین) لیکن در حقیقت خدا وندعالم نے حضرت یوسف (ع) کو قدرت دی تھی(مکن)

3۔حضرت یوسف (ع) کے اختیارات کا دائرہ وسیع تھا(حیث یشائ)

4۔مملکت کے بحرانی حالات میں حکومتیں اس بات کا اختیار رکھتی ہیں کہ لوگوں کے اپنے اموال و املاک میں تصرف کی آزادی کو محدود کرتے ہوئے اسے اپنے اختیار میںلے کر عمومی مصالح میں خرچ کریں(یَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَائ)

5۔قدرت اگر اہل افراد کے ہاتھوں میں ہوتو رحمت ہے وگرنہ نقصان دہ ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَ)

6۔اگر انسان تقوی الٰہی اختیار کرے تو خدا اپنی رحمتیں اس پر نازل کرتا ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا...لِلَّذِینَ...کَانُوا یَتَّقُونَ)

7۔الٰہی نظریہئ کائنات میں کوئی کام بھی بغیر اجر کے نہیں رہتا ہے(لاَنُضِیعُ )

8۔لوگوں کے حقوق کا ضائع کرنایا تو جہالت کی بنیاد پر ہوتا ہے یا بخل کی وجہ سے یا پھر نادانی کی وجہ سے یا...جن میں سے کوئی بھی خدا میں موجود نہیں ہے۔(لاَنُضِیعُ)

9۔مشیت الٰہی ،بانظم اور قانون وضابطہ سے ہے(نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا... وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ )

10۔حالانکہ تمام چیزیں مشیت الٰہی کے تحت ہوتی ہےں لیکن چونکہ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا کسی کوبھی بغیر لیاقت کے قدرت و صلاحیت نہیں دیتا(أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ)

۱۲۷

11۔نیک سیرت اور اچھے اعمال بجالانے والے اشخاص جہاں دنیاوی زندگی میں نعمتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں وہاں آخرت میں اس سے کہیں بہتر اجر و ثواب ان کے شامل حال ہوتا ہے۔( وَلاَ نُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

12۔راہ خدا پر گامزن مردانِ خدا کے لئے مادی وسائل اور ظاہری حکومت لذت آور نہیں ہے بلکہ ان کے لئے جو چیز مطلوب و محبوب ہے وہ آخرت ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ )

13۔ایمان کے ساتھ ساتھ باتقوی ہونا بھی ضروری ہے وگرنہ گنہگار مومن کی عاقبت مبہم اور غیر یقینی ہے( آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ)

14۔وہ تقوی قابل قدر ہے جس میں پائیداری و ہمیشگی پائی جائے،(کَانُوا یَتَّقُونَ)

15۔ایمان و تقوی کا لازم ملزوم ہونا آخرت کے اجر و ثواب سے بہرہ مند

ہونے کی شرط ہے(وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ )

16۔اگر نیک سیرت افراد کو اس دنیا میں اجر و مقام و منزلت نہ مل سکے تو اسے مایوس اور مضمحل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ آخرت میںاس کی جزا مل جائے گی۔(لاَنُضِیع... وَلَأَجْرُ الْآخِرَ خَیْرٌ)

۱۲۸

آیت 58:

(58) وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَیْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنکِرُونَ

''اور (چونکہ کنعان میں بھی قحط تھا، اس وجہ سے) یوسف (ع) کے (سوتیلے)بھائی (غلہ خریدنے کےلئے مصر میں)آئے اور یوسف کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو فوراً پہچان لیا اور وہ یوسف کو پہچان نہیں رہے تھے''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) کی پیشین گوئی کے عین مطابق لوگوں کو سات سال تک بے حساب نعمت اور بارش میسر رہی ۔لیکن جب دوسرے سات سال آئے اور لوگ قحط وخشک سالی سے دوچار ہوئے تو اس خشک سالی کا دائرہ مصر سے فلسطین و کنعان تک آگے بڑھ گیا۔

حضرت یعقوب (ع) نے اپنے فرزندوں سے کہا کہ گیہوں مہیا کرنے کے لئے مصر ج ۔ وہ لوگ مصر میں وارد ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی ۔ حضرت یوسف (ع) نے ان تقاضا مندوں کے درمیان اپنے بھائیوں کو دیکھ لیا لیکن وہ لوگ حضرت یوسف (ع) کو پہچان نہ سکے اور حق بھی یہی تھا کہ نہ پہچانیں کیونکہ حضرت یوسف (ع) کو کنویں میں ڈالنے سے لے کر مصر کی حکومت تک پہنچنے میں تقریباً 20 بیس سے تیس 30 سال کا عرصہ گزر چکا تھا ۔(1)

--------------

( 1 )یوسف (ع)کو جب کنویں سے نکالا گیاتو آپ (ع)نوجوان تھے (یابشری ھذا غلام)چند سال عزیز مصر کے خدمت گزار رہے،چندسال قید خانہ میں زندگی بسر کی، زندان سے آزادی کے بعد بھی سات سال کا دور(نعمات کی فراوانی اورکثیر پانی کا زمانہ )گزرچکا تھا۔ اب جب قحط کا زمانہ آیا تو اس وقت برادران یوسف مصر آئے۔

۱۲۹

پیام:

1۔خشک سالی کے زمانہ میں معین اور محدود مقدارمیں غذا تقسیم کرنی چاہیئے اور ہر شخص کوا پنا حصہ لینے کے لئے خود آنا چاہیئے تا کہ دوسرے اس کے نام سے سوء استفادہ نہ کرسکیں(اخو )حالانکہ ممکن تھا کہ ایک بھائی کو سب کا نمائندہ بنا کر مصر روانہ کردیا جاتا لیکن سب بھائی اکٹھے مصر آئے ۔

2۔خشک سالی کے زمانہ میں اگر دوسرے شہروں کے افراد امداد طلب کریں تو ان کی مدد کرنی چاہیئے( وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ)

3۔حضرت یوسف (ع) سے لوگ بہت آسانی سے ملاقات کرلیا کرتے تھے یہاں تک کہ غیر مصری افراد بھی(وَجَاءَ إِخْوَ یُوسُفَ ...فَدَخَلُو) (حکمرانوں کو ایسا پروگرام بنانا چاہیئے کہ لوگ بآسانی ان سے ملاقات کرسکیں)

آیت 59:

(59) وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ ألاَ تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ وَأَنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ

''اور جب یوسف ان کے لئے سامان تیار کرچکے تو کہنے لگے :(دوبارہ تو)باپ کی طرف سے اپنے ایک سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں اور بہترین مہمان نواز ہوں؟''

۱۳۰

نکات:

حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ ) یعنی آئندہ اپنے اس بھائی کو اپنے ہمراہ لانا جو تمہارا پدری بھائی ہے آپ (ع)نے یہ نہیں فرمایا : میرے بھائی کو لیتے آنا ،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (ع) نے دانستہ تجاہل سے گفتگو کا سلسلہ جاری کیا تھا ۔

ان لوگوں نے بھی (جیسا کہ تفاسیر میں آیا ہے) بتانا شروع کردیا کہ ہم حضرت یعقوب (ع) کے فرزند اور جناب ابراہیم کے پوتے ہیں، ہمارے والدگرامی ضعیف ہوچکے ہیں جو اپنے اس فرزند کے غم و اندوہ میں جسے بھیڑئے نے پھاڑ ڈالا تھا،وہ سالہاسال سے گریہ کررہے ہیں ۔ انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے اور نابینا ہوچکے ہیں ہم لوگوں نے اپنے ایک بھائی کو انہی کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا ہے ممکن ہو تو اس بھائی اور والد کا حصہ ہمیں عنایت فرمادیں تاکہ ہم خوشحال ہوکر واپس لوٹیں (یہ سن کر)حضرت یوسف (ع)نے حکم دیا کہ :دس اونٹوں پر لادے جانے والے بار میں دو حصوں( حضرت یعقوب (ع) اور ان کے بیٹے کے لئے )کا اضافہ کردیا جائے۔ حضرت یوسف (ع)نے اپنے بھائیوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کےلئے فرمایا(انَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) (یعنی ) میں بہترین میزبان ہوں اس کا اثر یہ ہوا کہ اس جملے کو سنتے ہی وہ لوگ حضرت یوسف کے زیادہ قریب ہوگئے لیکن (مقام افسوس ہے) کہ خداوندعالم اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچنے اور جذب کرنے کے لئے مختلف تعبیرات استعمال فرماتا ہے لیکن اس کے باوجود بہت سے افراد اس کی طرف مائل نہیں ہوتے!!۔(1)

--------------

( 1 )خیر الرازقین ، وہ بہترین روزی دینے والا ہے۔سورہ مومنون آیت 72 ۔ خیر الغافرین ، وہ بہترین بخشنے والا ہے سورہ اعراف آیت 155 ۔ خیر الفاتحین ، وہ بہترین گشایش کرنے والا ہے۔سورہ اعراف آیت 89 ۔ خیرالماکرین ، وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے سورہ انفال آیت 30 ۔ خیر الحاکمین ، وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، سورہ یونس آیت 109

۱۳۱

پیام:

1۔حضرت یوسف (ع) اس غلے کی ذاتی طور پر نگرانی فرمارہے تھے جو مصر میںخشک سالی کے ایام کے لئے ذخیرہ کیا گیا تھا(جَهَّزَهُمْ )

2۔راز داری و سچائی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے فرمایا(أَخٍ لَکُمْ) ''تمہارا بھائی'' ''میرا بھائی نہیں فرمایا'' تاکہ سچائی اور راز داری دونوں کا پاس رکھا جاسکے ۔

3۔بحران اورخشک سالی کے زمانہ میں بھی بے عدالتی اور کم ناپ تول ممنوع ہے(أُوفِی الْکَیْل)

4۔معاملے کے دوران ''جنس'' کی مقدار معین ہونی چاہیئے(الْکَیْل)

5۔جولوگ ، ادارے یا ممالک کسی کی اقتصادی مدد کرتے ہیں وہ اس کی صحیح سمت رہنمائی یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر بعض شرطوں کو پیش کرسکتے ہیں(ائْتُونِی بِأَخٍ...)

6۔کسی ادارے یا ملک میں کام کرنے والے افراد اگر کوئی برا کام کریں یا عدل و انصاف سے کام لیں تو اس کا سارا کریڈٹ سربراہ کو جاتا ہے۔(أَنِّی أُوفِی (ع)(ع)الْکَیْلَ )

7۔مہمان نوازی انبیاء (ع)کے اخلاق میں سے ہے(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

8۔وہ مسافر یا کاروان جو آپ کے علاقہ میں وارد ہو ،اس کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ قحط کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو۔(خَیْرُ الْمُنزِلِین)

۱۳۲

آیت 60:

(60) فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی بِهِ فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ عِندِی وَلاَ تَقْرَبُونِ.

''پس اگر تم اس کو میرے پاس نہ ل گے تو تمہارے لئے نہ میرے پاس کچھ (غلہ وغیرہ) ہوگا اور نہ ہی تم میرے نزدیک آسکوگے''۔

پیام:

1۔انتظامی امور میں محبت و دھمکی دونوں ضروری ہیں حضرت یوسف (ع) نے پہلے مژدہ ئ محبت دیا(أنَا خَیْرُ الْمُنزِلِینَ ) پھر تہدید اورالٹی میٹم ( ultimatum )دیا(فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِی)

2۔قانون کو جاری کرتے وقت ،بھائی، خاندان اور دیگر افراد کے درمیان فرق نہیں کرنا چاہیئے(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ ) (ہر شخص کا ایک خاص حصہ تھا اور اسے اپنا حصہ خود آکر لینا تھا)

3۔دھمکی و وعید میں ضروری نہیں ہے کہ سربراہ و مدیر صددرصد اس دھمکی کے اجرا کا ارادہ بھی رکھتا ہو(فَلاَکَیْلَ لَکُمْ) (کیونکہ حضرت یوسف (ع) ایسے نہ تھے کہ وہ قحط کے زمانہ میں اپنے بھائیوں کو مرتا ہوا دیکھےں)

4۔رہبری کی ایک بڑی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے منصوبے اور پروگرام ( program ) کا اجرا کرنے میں مصمم ارادے کا حامل ہو( فَلاَ کَیْلَ لَکُمْ وَلاَ تَقْرَبُون)

۱۳۳

آیت 61:

(61)قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ

''وہ لوگ کہنے لگے ہم اس کے والد سے اس کے بارے میں جاتے ہی درخواست کریں گے اور ہم ضرور اس کام کو کریں گے''۔

نکات:

مراود: یعنی پے درپے اور مسلسل التماس کے ساتھ یا دھوکہ کے ساتھ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔

ان بھائیوں کی گفتگو میں اب بھی حسد کی بو محسوس کی جاسکتی ہے ذرا غور کیجئے ''ابانا'' ہمارے باپ کی بجائے ''اباہ'' اس کے باپ کہا ہے جب کہ سورہ کے آغاز میں ان کی گفتگو یہ ہے کہ (لیوسف و اخوہ احب الی ابینا منا)یعنی حضرت یعقوب (ع)ہمارے باپ ہیں لیکن یوسف (ع)اور ان کے بھائی کو ہم سے زیادہ چاہتے ہیں۔

۱۳۴

آیت 62:

(62) وَقَالَ لِفِتْیَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَعْرِفُونَهَا إِذَا انقَلَبُوا إِلَی أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ

''اور یوسف نے اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ ان کی (جمع)پونجی جو غلے کی قیمت تھی ان کے سامان میں (چپکے سے) رکھ دو تاکہ جب یہ لوگ اپنے اہل (و عیال) کے پاس لوٹ کرجائیں تو اپنی پونجی کو پہچان لیں (اور اس طمع میں) شاید پھر لوٹ کر آئیں''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع) جیسی شخصیت جن کے بارے میں گزشتہ آیات نے صادق ، محسن ، مخلص جیسے گراں بہا الفاظ کے ذریعہ قصیدے پڑھے ،ان سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ بیت المال کو اپنے باپ اوربھائیوں میں تقسیم کردیں، ممکن ہے کہ آپ (ع)نے غلے کی قیمت اپنی ذاتی ملکیت سے ادا کی ہو۔

پیسہ لوٹا دیا تا کہ فقر و ناداری دوسرے سفر میں حائل نہ ہونے پائے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

علاوہ ازیں پیسہ کا لوٹا دینا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم قلبی لگ کی بنیاد پر دوبارہ بلا رہے ہیں اور بھائی کو بلانے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ بھی نہیں ہے ،نیز حضرت یوسف، اجناس کے درمیان ان کی رقم کو مخفیانہ طور پر رکھوا کر نہ صرف ان پر کوئی احسان جتلانا نہیں چاہتے تھے بلکہ چوروں اور رہزنوں سے اس رقم کو محفوظ بھی کررہے تھے ۔

حضرت یوسف (ع) کہ جو کل تک غلام تھے آج آپ کے اردگرد غلام ہیں( لِفِتْیَانِهِ) لیکن بھائیوں سے ملاقات کے وقت نہ ہی ان سے انتقام لیا ،نہ ہی کوئی گلہ شکوہ کیا اور نہ ہی دل میں کینہ رکھا، بلکہ ان کا سرمایہ لوٹا کر انہیں متوجہ کیا کہ میں تم لوگوں کو چاہتا ہوں ۔

۱۳۵

پیام:

1۔لائق و فائق رہبر کے منصوبے ، نئے اور جدید ہونے چاہیئےں( اجْعَلُو)

2۔انتقام و کینہ کچھ بھی نہیں بلکہ آئندہ کے رابطے کو یقینی بنانے کے لئے ہدیہ پیش کیا جارہا ہے۔( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ )

3۔لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے روپے پیسے کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْْ... لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

4۔محتاجی و نیاز مندی کے زمانے میں بوڑھے باپ اور بھائیوں سے پیسہ لینا کرامت نفس کے منافی ہے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِی رِحَالِهِمْ)

5۔صلہ رحم یعنی مدد کرنا ، نہ کہ کاروبار کرنا( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

6۔برائیوں کا بدلہ اچھائیوں سے دینا چاہیئے( اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُم)

7۔پروگرام ( pragrams )اور منصوبوں کے سو فیصد قابل عمل ہونے کا یقین ضروری نہیں ہے( لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُونَ)

۱۳۶

آیت 63:

(63) فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَی أَبِیهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْکَیْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَکْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

''غرض جب یہ لوگ اپنے والد کے پاس پلٹ کر آئے تو سب نے مل کر عرض کی اے بابا! ہمیں (آئندہ) غلہ ملنے کی ممانعت کردی گئی ہے لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بنیامین) کو بھیج دیجئے تاکہ ہم (پھر) غلہ حاصل کریں اور بے شک ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے''۔

پیام:

1۔حضرت یعقوب (ع) کو اپنے خاندان اور بیٹوں پر مکمل کنٹرول اور تسلط حاصل تھا(یَاأَبَانَا مُنِعَ )

2۔باپ کو حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو حکم دے یا کسی کام سے روک دے(فَأَرْسِلْ)

3۔بنیامین اپنے باپ کی اجازت کے بغیر سفر نہیں کرتے تھے(فَأَرْسِلْ مَعَنَ)

4۔کسی چیز کو لینے اور کسی کے اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے عواطف و احساسات سے استفادہ کیا جاتا ہے(أَخَانَا )

5۔مجرم چونکہ اپنے ضمیر کی عدالت میں پریشان ہوتا ہے لہٰذا اپنی گفتگو میںپے درپے یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے(إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ) ''لفظإنّا ''اور حرف لام اور اس جملے کا جملہ اسمیہ ہونا یہ سب تاکید پر دلالت کرتے ہیں یعنی آپ(ع) کے بیٹے آپ(ع) کو بھرپور یقین دلوانا چاہتے تھے ۔

۱۳۷

آیت 64:

(64) قَالَ هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ إِلاَّ کَمَا أَمِنتُکُمْ عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ

''(حضرت )یعقوب(ع) بولے : کیا میں اس کے بارے میں تم پر اسی طرح اعتماد کروں جس طرح اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں کیا تھا؟ اللہ بہترین محافظ ہے اور وہ بہترین رحم کرنے والا ہے''۔

نکات:

سوال: حضرت یعقوب(ع) کے بیٹوںکی بری سیرت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سوال اٹھتا ہے کہ دوبارہ حضرت یعقوب (ع) نے پھر کیوں اپنے دوسرے فرزند (بنیامین ) کو ان کے حوالے کردیا؟

اس سوال کے جواب میں فخر رازی نے متعدد احتمالات پیش کئے ہیں جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع) کے اس عمل کی توجیہ کی جاسکتی ہے :

1۔حضرت یوسف (ع) کے بھائی گزشتہ عمل کی بنیاد پر اپنا مقصد (باپ کی نگاہ میں محبوبیت) حاصل نہ کرسکے تھے۔

2۔وہ بنیامین سے حضرت یوسف (ع) کی نسبت کم حسد کرتے تھے ۔

3۔شایدخشک سالی کی وجہ سے مشکلات اتنی زیادہ ہوگئی ہوں کہ بنیامین کے ہمراہ دوسرا سفر ضروری ہو گیا ہو۔

4۔حضرت یوسف (ع) کے واقعہ کو دسیوں سال گزر چکے تھے اور اس کا زخم کافی ہلکا ہوچکا تھا۔

5۔خداوندعالم نے حضرت یعقوب(ع) سے ان کے بچے کی حفاظت کا وعدہ کرلیا تھا۔

۱۳۸

پیام:

1۔جس شخص کا گزشتہ ریکارڈ( record ) خراب ہو اس پر فوراً اعتماد کرنا صحیح نہیںہے۔(هَلْ آمَنُکُمْ )

2۔ماضی کی تلخ یادیں انسان کو آئندہ پیش آنے والے حادثات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کردیتی ہیں۔( هَلْ آمَنُکُمْ ...عَلَی أَخِیهِ مِنْ قَبْلُ)

3۔خداوندعالم کی بے نظیر رحمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز اس پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے حادثات ِ زندگی کا مقابلہ کرنا چاہیئے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

4۔ایک شکست یا کسی تلخ تجربے کی بنیاد پر انسان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے۔(هَلْ آمَنُکُمْ عَلَیْهِ...فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظً) (1) یعقوب نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ بھی دوسرے فرزند کو ان کے حوالے کردیا۔

5۔رحمت خدا، سرچشمہ حفاظت ہے( فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ)

آیت 65:

(65)وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَیْهِمْ قَالُوا یَاأَبَانَا مَا نَبْغِی هَذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَیْنَا وَنَمِیرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ

''اور جب ان لوگوں نے اپنے اپنے اسباب کھولے تو اپنی اپنی پونجی کو دیکھا کہ بعینہ واپس کردی گئی ہے (تو اپنے باپ سے) کہنے لگے اے بابا! ہمیں(اور) کیا چاہیے (دیکھئے ) یہ ہماری (جمع) پونجی تک تو ہمیں واپس دےدی گئی ہے (اور

--------------

( 1 )آیت نمبر 12 میں حضرت یعقوب(ع) نے حضرت یوسف (ع)کے لئے ان کے بھائیوں کے محافظ ہونے پر بھروسہ کیا تھا جس کے نتیجے میں یوسف (ع)کی جدائی اور نابینائی کا داغ اٹھانا پڑا لیکن بنیامین کے مورد میں خدا پر بھروسہ کیا اور کہا(فَاﷲُ خَیْرٌ حَافِظًا) نتیجہ یہ ہوا کہ بینائی بھی مل گئی اور فراق و جدائی ،وصال و ملن میں تبدیل ہوگئی۔

۱۳۹

غلہ مفت ملا اب آپ بنیامین کو جانے دیجئے تو ) ہم اپنے اہل و عیال کے واسطے غلہ لائیں گے اور اپنے بھائی کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور ایک بار شتر غلہ اور بڑھوا لائیں گے یہ (جو اب کی دفعہ لائے تھے ) تھوڑا سا غلہ ہے (یا معنی یہ ہو کہ ایک اضافی اونٹ کا بار عزیز مصر کےلئے معمولی چیز ہے)''

نکات:

کلمہ ''نمیر'' مادہ ''میر ''سے ہے یعنی کھانے پینے کا سامان''نمیر اهلنا'' یعنی اپنے گھر والوں کی غذا فراہم کریں گے ۔

جملہ'' َنَزْدَادُ کَیْلَ بَعِیرٍ'' سے استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کا حصہ ایک بارِ شتر تھا جس کی بنیاد پر خود حاضر ہونا ضروری تھاتا کہ اسے حاصل کرسکے ۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

آیت ۱۰۰:

(۱۰۰) وَرَفَعَ أَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاأَبَتِ هَذَا تَأْوِیلُ رُیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ وَجَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی إِنَّ رَبِّی لَطِیفٌ لِمَا یَشَاءُ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ

''اور(مصر پہنچ کر) یوسف نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب کے سب (یوسف کی تعظیم کے واسطے )ان کے سامنے سجدہ میں گر پڑے اور (اس وقت)یوسف نے کہا : اے بابا یہ تعبیر ہے میرے اس پہلے خواب کی میرے پروردگار نے اسے سچ کردکھایا،بے شک اس نے میرے ساتھ احسان کیا ہے جب اس نے مجھے قیدخانہ سے نکالااور باوجودیکہ کہ مجھ میں اور میرے بھائیوں میں شیطان نے فساد ڈال دیا تھا ،اس کے بعد بھی آپ لوگوں کو صحرا سے (کنعان سے مصر)لے آیا (اور مجھ سے ملا دیا) بے شک میرا پروردگارجو چاہتا ہے اسے تدبیر خفی سے انجام دیتا ہے ، بے شک وہ بڑا واقف کار حکمت والا ہے ''۔

نکات:

''عرش'' اس تخت کو کہتے ہیں جس پر بادشاہ بیٹھتا ہے''خرّوا'' زمین پر گرنا ''بدو'' بادیہ اور صحرا،''نزغ'' کسی کے درمیان فساد کی غرض سے وارد ہونا۔

''لطیف'' خداوندعالم کا ایک نام ہے ، یعنی اس کی قدرت پیچیدہ اور مشکل امور میں بھی اپنا راستہ بنالیتی ہے اس نام کا تناسب آیت میں یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں ایک ایسی مشکل گرہ تھی جسے صرف قدرت خدائی ہی کھول سکتی تھی ۔

حضرت یوسف علیہ السلام مثل کعبہ ہوگئے تھے اور انکے ماں باپ اور بھائیوں نے انکے بلند رتبے اور کرامت کی وجہ سے انکی طرف رخ کرکے خداوند عالم کا سجدہ کیا(خَرُّوا لَهُ سُجَّدًا) اگر یہ سجدہ غیر خدا کےلئے اور شرک کا باعث ہوتا تو یوسف اوریعقوب + جیسے دو پیغمبر الٰہی کبھی ایسے عظیم گناہ کے مرتکب نہ ہوتے ۔

۲۰۱

پیام:

۱۔ ہم جس مقام پر بھی ہیں اپنے والدین کو اپنے سے برترسمجھیں(رَفَعَ أَبَوَیْهِ) جس نے زیادہ رنج و مصیبت کاسامنا کیا ہے اس کو زیادہ صاحب عزت ہونا چاہئےے۔

۲۔ انبیاء بھی تخت حکومت پر جلوہ افروز ہوئے ہیں( عَلَی الْعَرْش)

۳۔ حاکم برحق کا احترام اور اس کے سامنے تواضع ضروری ہے۔(خَرُّوا لَهُ سُجَّدً)

۴۔ سجدہئ شکر ،تاریخی سابقہ رکھتا ہے(خَرُّوا لَهُ سُجَّدً) (۱)

۵۔خداوندعالم حکیم ہے کبھی کبھی سالہاسال کی طولانی مدت کے بعد دعا مستجاب فرماتاہے یا خواب کی تعبیر دکھاتاہے( هَذَا تَأْوِیلُ رُیَای مِنْ قَبْل)

۶۔ تمام پروگرام کو اس کے حقیقی انجام تک پہنچانا خداوندعالم کے ہاتھ میں ہے( قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّ) جی ہاں حضرت یوسف (ع)اپنی مقاومت اور صبر کے سلسلے میں رطب اللسان نہ تھے بلکہ ہر چیز کو خداوندعالم کا لطف سمجھ رہے تھے ۔

۷۔ اولیاء خدا کے خواب برحق ہوتے ہیں(جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّ)

۸۔ تمام اسباب و علل اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیشہ حقیقی اصل اور سبب خداوندعالم کو سمجھنا چاہیئے حضرت یوسف کی زندگی میں مختلف اسباب و علل نے مل کر انہیں اس بزرگ مقام تک پہنچایا لیکن پھر فرماتے ہیں(قَدْ أَحْسَنَ بِی)

۹۔ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت گزشتہ تلخیوں کا ذکر نہیں کرنا چاہیئے۔(أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ) باپ سے ملاقات کے وقت حضرت یوسف (ع)کا سب سے پہلاکام خدا کا شکر تھا گزشتہ واقعات کی تلخیوں کا ذکر نہیں فرمایا۔

۱۰۔انسان کو جواں مرد ہونا چاہیئے اور مہمان کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیئے (آیہ شریفہ میں حضرت یوسف (ع)زندان سے نکلنے کا واقعہ تو بیان فرماتے ہیں لیکن کنویں سے

--------------

(۱)امام علی نقی علیہ السلام نے فرمایا: جناب یعقوب (ع)اور ان کے فرزندوں کا سجدہ ،سجدہئ شکر تھا۔ احسن القصص.

۲۰۲

باہر نکلنے کی داستان نہیں دہراتے کہ کہیںدوبارہ ایسا نہ ہو کہ بھائی شرمندہ ہوجائیں )( إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ )

۱۱۔انسان کو جواں مرد ہونا چاہیئے اہل کینہ و انتقام نہیں حضرت یوسف (ع)فرمارہے ہیں ۔(نَزَغَ الشَّیْطَانُ) یعنی شیطان نے وسوسہ کیا ورنہ میرے بھائی برے نہیں ہیں ۔

۱۲۔اولیائے الٰہی زندان میں قید ہونے اور وہاں سے آزادی کو توحید و ربوبیت کا محور سمجھتے ہیں (رب السجن احب)گزشتہ آیتوں میں ملتا ہے اور ابھی فرمایا:(أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ )

۱۳۔مصیبتوں کے بعد خوشی ہے ، مشکلوں کے بعد آسانی ہے ۔(أَخْرَجَنِی مِنْ السِّجْنِ)

۱۴۔بادیہ نشینی ضرورت ہے، فضیلت نہیں۔(قَدْ أَحْسَنَ بِی إِذ...جَاءَ بِکُمْ مِنْ الْبَدْوِ...)

۱۵۔بچوں کے ہمراہ والدین کا زندگی بسر کرنا ایک لطف الٰہی ہے(قَدْ أَحْسَنَ بِی إِذ...جَاءَ بِکُمْ )

۱۶۔بھائیوں ،بلکہ گھر کے ہر ہر فرد کو یہ جان لینا چاہیئے کہ شیطان ان کے درمیان اختلاف، افتراق اور جھگڑا کرانے کے چکر میں لگا رہتا ہے ۔( نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی )

۱۷۔اپنے آپ کو برتر شمار نہ کیجئے( بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی ) حضرت یوسف (ع)نے یہ نہیں کہاکہ شیطان نے ان لوگوں کو فریب اور دھوکادیا بلکہ فرمایا میرے اور ان کے درمیان یعنی اپنے آپ کو بھی ان کے ہمراہ مدمقابل قراردیا ۔

۱۸۔خداوندعالم کے امور نرمی، مہربانی ، اور لطف و کرم پر استوار ہوتے ہیں۔(لَطِیف)

۱۹۔تمام تلخ و شیریں حادثات ،علم و حکمت الٰہی کی بنیاد پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔(الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ)

۲۰۔کسی کو معاف کرنے کے بعد اسے شرمندہ نہ کیجئے جب حضرت یوسف (ع)نے بھائیوں کو بخش دیا تو واقعہ بیان کرنے میں کنویں کا نام نہیں لیتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ بھائیوں کو شرمندگی ہو۔

۲۰۳

آیت ۱۰۱:

(۱۰۱) رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ

''(اس کے بعد یوسف نے دعا کی )پروردگار تو نے مجھے اقتدار کا ایک حصہ بھی عطا فرمایا اور مجھے خواب کی تعبیر بھی سکھائی، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی میرا مالک و سرپرست ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو مجھے (دنیا سے)مسلمان اٹھالے اور مجھے نیکوکاروں میں شامل فرما''۔

نکات:

اولیائے خدا جب بھی اپنی عزت و قدرت کو ملاحظہ کرتے ہیں تو فوراً یاد خدا میں سر نیاز خم کردیتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں: خدایاجو کچھ بھی ہے تیرا ہی دیا ہوا ہے۔ حضرت یوسف(ع) نے بھی یہی کہا ،باپ سے گفتگو کرتے کرتے خدا کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ خداوندعالم نے مصر کی حکومت دو افراد کے ہاتھ میں دی ایک فرعون کہ جس نے اس حکومت کو اپنی طرف منسوب کرلیا۔(الیس لی ملک مصر) (۱) دوسرے حضرت یوسف علیہ السلام جنہوں نے اس کی نسبت خداوندعالم کی طرف دی(اتیتنی من الملک)

ابراہیمی طرز تفکر ،ان کی نسل میں بھی جلوہ گر ہے ۔کل حضرت ابراہیم (ع)نے فرمایا تھا۔(اسلمت لرب العالمین) (۲) میںپروردگارعالم کے سامنے تسلیم ہوں ۔ آپ(ع) کے بعد آپ (ع)کے پوتے حضرت یعقوب (ع)اپنے فرزندوں سے وصیت فرماتے ہیں کہ باایمان اس دنیا سے رخصت ہوں(لاتموتن الا و انتم مسلمون) (۳) یہاںفرزند یعقوب حضرت یوسف بھی وقت وفات تسلیم و رضائے الٰہی کی درخواست کررہے ہیں (توفنی مسلما)۔ بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شمار صالحین میں ہوتا ہے(انه فی الاخر لمن الصالحین) (۴) اورحضرت یوسف (ع)چاہتے ہیں کہ انہی سے ملحق

--------------

(۱) سورہ زخرف آیت ۵۱ (۲)سورہ بقر آیت ۱۳۱.

(۳) سورہ بقر آیت ۱۳۲ (۴) سورہ بقر آیت ۱۳۰

۲۰۴

ہوجائیں(الحقنی بالصالحین)

خداوندعالم نے حضرت آدم (ع)کو اسما کی تعلیم دی(علم آدم الاسماء کلها) (۱) حضرت دد (ع)کو زرہ سازی کی تعلیم دی(علمناه صنعه لبوس) (۲) حضرت سلیمان (ع)کومنطق الطیر (پرندوں کی بولی سمجھنا )کا علم دیا(علمنامنطق الطیر) (۳) اسی طرح حضرت یوسف (ع)کو تعبیر خواب کا علم عنایت فرمایا(علمتنی من تاویل الاحادیث) لیکن ہمارے نبی کو علم اولین و آخرین عنایت فرمایا۔علمک مالم تکن تعلم (۴)

یوسفی چہرہ (ایک کامیاب رہبر کی صفات و خصوصیات)

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کے اختتام پر ان کا رخ زیبا دیکھتے چلیں۔

--------------

(۱) سورہ بقر آیت ۳۱

(۲) سورہ انبیاء آیت ۸۰.

(۳) سورہ نمل آیت ۱۶.

(۴) سورہ نساء آیت۱۱۳.

۲۰۵

(۱) تلخیوں میں خداوندعالم پر بھرپور بھروسہ(رب السجن احب...) اور خوشی و شاد کامی میں بھی اسی پر توجہ(رب قد اتیتنی من الملک)

(۲) ہر منحرف گروہ کی انحرافی را ہ اور نقوش ترک کرنا(انی ترکت مل قوم لا یومنون باللّٰه و هم بالاخر کافرون)

(۳) بزرگوں کی راہ ِمستقیم پر گامزن ہونا(واتبعت مل آبائی ابراهیم ،

والحقنی بالصالحین)

(۴) خدا کی راہ میں تادم مرگ پائیداری(توفنی مسلما)

(۵) رقیبوں کے مقابلے میں وقار(احب الی ابینا منّا)

(۶) حوادث اور تلخیوں میں صبر(یجعلوه فی غیابت الجب ، ارادباهلک سوئ)

(۷) آرام و آسائش پر پاکدامنی اور تقوی کو ترجیح دینا(معاذاللّٰه ، رب السجن احب الی مما یدعوننی)

(۸) غیروں سے باتوں کو چھپانا(وشروه بثمن بخس)

(۹) وافر علم(علمنی من تاویل الاحادیث ، انی حفیظ علیم...)

(۱۰)فصیح اور خوبصورت انداز بیان(فلما کلّمه قال انک لدینامکین)

(۱۱)خاندانی عظمت وبزرگی(آبائی ابراهیم و اسحق...)

۲۰۶

(۱۲)دینی اور فکری مخالفین سے محبت سے پیش آنا(یا صاحبی السجن)

(۱۳)اخلاص۔(کان من المخلصین)

(۱۴)دوسروں کی ہدایت کے لئے سوز دل(ءَ ارباب متفرقون)

(۱۵)منصوبہ بندی کرنے کی قدرت وتخلیقی صلاحیت(جعل السقای ، ائتونی باخ لکم ، فذروه فی سنبله...)

(۱۶)تواضع اور فروتنی(رفع ابویه علی العرش )

(۱۷)عفو و اغماض نظر(لاتثریب علیکم)

(۱۸)شجاعت وجواں مردی(نزغ الشیطان بینی و بین اخوتی)

(۱۹)امانتداری(اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم)

(۲۰)مہمان نوازی(انا خیرالمنزلین)

۲۰۷

پیام:

۱۔اعطائے حکومت؛ الٰہی ربوبیت کی شان ہے( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنْ الْمُلْکِ )

۲۔حکومت کو اپنی فکر، مال، قدرت، یارومددگار اور منصوبہ بندی کا نتیجہ نہ سمجھئے بلکہ ارادہ خداوندی اصلی اور حقیقی عامل ہے(آتَیْتَنِی )

۳۔جو چیز خدا ہمیں دیتا ہے یا ہم سے لے لیتا ہے سب کے سب ہماری تربیت کے لئے ہیں(رب بما اتیتنی، رب السجن احبّ)

۴۔حکومت تعلیم یافتہ افراد کا حق ہے جاہلوں کا نہیں( آتَیْتَنِی... عَلَّمْتَنِی) حضرت یوسف (ع)کا علم ان کی حاکمیت کا وسیلہ قرار پایا۔

۵۔ہر حال میں خود کو خدا کے سپرد کردینا چاہیئے(أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

۶۔قدرت و حکومت و سیاست ، دین الٰہی سے دور ہونے کی راہ کو ہموار کرتے ہیں مگر یہ کہ لطف خداوندشامل حال ہو( تَوَفَّنِی مُسْلِمً) (حضرت یوسف (ع)نے کنویں میں ایک دعا کی ، قید خانہ میں ایک دوسری دعا کی لیکن جیسے ہی مسند حکومت پر پہنچے آپ (ع)کی دعا یہ تھی: ''خدایا میںمسلمان اس دنیا سے رخصت ہوں '')

۲۰۸

۷۔اللہ کے بندے عزت و طاقت کی معراج پر بھی موت ، قیامت اور عاقبت کی یاد میں ہوتے ہیں(توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین) (۱)

۸۔عظمت خدا فقط یہی نہیں کہ وہ ہماری نعمتوں میں اضافہ کردے بلکہ وہ تمام ہستی کو معرض وجود میں منصہئ شہود پر ظہور پذیر کرنے والا ہے( فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)

۹۔افتخار یوسف (ع)یہ نہیں کہ وہ لوگوں پر حاکم ہیں بلکہ آپ (ع)کا افتخار یہ ہے کہ خدا آپ (ع)پر حاکم ہے(أَنْتَ وَلِیِّ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

۱۰۔کار خیر میں پائیداری اور اس کا نیک انجام اس کے شروع ہونے سے بہتر ہے ۔ انبیاء حسن عاقبت کے لئے دعا فرماتے ہیں( تَوَفَّنِی مُسْلِمً) یعنی مجھے اپنی تسلیم و رضا کی راہ میں تادم مرگ پائیداری عنایت فرما(۲)

۱۱۔دعا میں پہلے خداوندعالم کی نعمتوں کا ذکر کیجئے( رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی) اس کے بعد اپنی

--------------

(۱)اسی طرح فرعون کی بیوی آسیہ بھی اس کے محل میں قیامت کی فکر میں تھیں۔ فرمایا:(رب ابن لی عندک بیت فی الجن ة ) خدایا جنت میں تو اپنے پاس میرے لئے ایک گھر بنا دے.

(۲)تفسیر المیزان.

۲۰۹

درخواست پیش کیجئے(تَوَفَّنِی مُسْلِمًا) (۱)

۱۲۔جب قدرت مل جائے تو خدا سے مناجات فراموش نہ ہو(رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی...)

۱۳۔دعا اور مناجات میں فقط دنیا اور مادیات کے چکر میں نہیں رہنا چاہیئے(فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَ )

۱۴۔انسان کی قدرت ناچیز ہے(مِنْ الْمُلْکِ ) انسان کا علم کم ہے(مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ...) لیکن خدا وندعالم کی حکومت تمام ہستی پر حکم فرما ہے( فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ)

۱۵۔باایمان دنیا سے رخصت ہونا اور صالحین میں شمار ہونا ایک بہت بڑی فضلیت ہے ۔(تَوَفَّنِی مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ )

--------------

(۱)حضرت یوسف (ع)جن کو خداوندعالم نے شروع سے محفوظ رکھا، انہیں علم عطا فرمایا۔حکومت عنایت فرمائی ، خطرات سے بچایا، وہ اپنی عاقبت اور انجام کار سے مضطرب اور پریشان ہیں ،ان لوگوں کا کیا برا حال ہوگا جنہوں نے کرسی ، حکومت ، علم سب کے سب مکاری اور فریب کاری سے حاصل کئے ہیں.

۲۱۰

آیت ۱۰۲:

(۱۰۲)ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهِ إِلَیْکَ وَمَا کُنتَ لَدَیْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْکُرُونَ

''(اے رسول) یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی کررہے ہیں ورنہ جس وقت یوسف کے بھائی مشورہ کررہے تھے اور ( ہلاک کرنے کی) تدبیریں کررہے تھے آپ انکے پاس موجودنہ تھے ''۔

پیام:

۱۔انبیاء (ع)بذریعہ وحی غیب کی باتوں سے آشنا ہوتے ہیں(ذَلِکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ...)

۲۔انبیاء (ع)غیب کی تمام خبروں سے واقف نہیں ہوتے(مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ)

۳۔جب تک مشیت خداوندی نہ ہو تو نہ کسی کا ارادہ(أَمْرَهُم) نہ کسی قوم کا اجماع(أَجْمَعُو) اور نہ ہی کسی کی پالیسی اور سازش( یَمْکُرُونَ) کوئی بھی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔

۴۔جب پے درپے حوادث رونما ہورہے ہوں تو اس میں اصلی نکتہ اور شروع ہونے کے محل کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئےے حضرت یوسف (ع)کی داستان کا مرکزی نقطہ حضرت یوسف (ع)کو نابود کرنا تھا۔(أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ یَمْکُرُون)

۲۱۱

آیت ۱۰۳:

(۱۰۳)وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُمِنِینَ

''اور آپ کتنے ہی خواہش مند ہوں مگر بہترے لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں ''۔

نکات:

''حرص'' یعنی کسی چیز سے بے حد لگ اور اس کو پانے کے لئے حد سے زیادہ جدوجہد کرنا۔

پیام:

۱۔بارہا قرآن مجید میں انسانوں کی کثیر تعداد اپنے دینی عقائد و نظریات کی وجہ سے مورد تنقید قرار پائی ہے(وَمَا أَکْثَرُ النَّاسِ... بِمُمِنِینَ)

۲۔الٰہی نمایندے دوسروں کی ہدایت کےلئے سوز، درد ، اور اشتیاق رکھتے ہیں(حَرَصْت)

۳۔اکثر و بیشتر لوگوں کا ایمان نہ لانا پیغمبروں (ع)کی کوتاہی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خود انسان کی آزادی اور اختیار کا نتیجہ ہے کہ وہ ایمان لانا نہیں چاہتے تھے(مَا أَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُمِنِینَ)

۲۱۲

آیت ۱۰۴:

(۱۰۴) وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِکْرٌ لِلْعَالَمِینَ

''حالانکہ آپ ان سے اس بات (تبلیغ رسالت)کا کوئی صلہ بھی نہیں مانگتے اور یہ قرآن تو تمام جہان کے واسطے نصیحت (ہی نصیحت) ہے''۔

نکات:

دوسرے پیغمبروں ٪ کی طرح پیغمبر اسلام (ص) نے بھی قوم کی ہدایت کے لئے کوئی اجزت نہیں مانگی کیونکہ اگر لوگوں سے اجر کی توقع رکھی جائے تو لوگ دعوت حق کو قبول کرنے سے اجتناب اور بوجھ محسوس کرتے ہیں ۔سورہ طور کی ۴۰ویں آیت میں خداوندعالم فرماتا ہے :(ام تسئلھم اجرا فھم من مغرمٍ مثقلون)مگر کیا ان سے آپ نے کسی اجر کی درخواست کی ہے کہ جس کی ادائیگی ان پر بھاری ہے ۔اب اگر ہم دوسری آیت میں ملاحظہ فرماتے ہیں کہ قربی کی مدت اجر رسالت قرار پارہی ہے(الاّالمد فی القربی) (۱) تو اس کا ہدف یہ ہے کہ اہلبیت (ع)کی پیروی میں خود امت کا فائدہ ہے، پیغمبر اسلام (ص) کا نہیں۔ کیونکہ اسی قرآن میں ایک دوسری جگہ پر موجود ہے کہ(وماسئلتکم من اجر فهو لکم) (۲) ہم جو اجر تم سے مانگ رہے ہیںوہ تمہارے لئے ہی ہے ۔ جی ہاں جوشخص اہل بیت (ع)سے محبت کرے گا اور ان کی اطاعت کرے گا در حقیقت اس نے خداوپیغمبر (ص) کی اطاعت کی ہے۔

--------------

(۱)سورہئ شوری آیت۔۲۳.

(۲)سورہ ئسبا آیت۴۳.

۲۱۳

قرآن ذکر ہے اس لئے کہ :

خدا کی آیات و نعمات و صفات کا یاد دلانے والا ہے ۔

انسان کے ماضی و مستقبل کویاد دلانے والا ہے ۔

سماج کی عزت و ذلت کے اسباب کو یاددلانے والا ہے۔

میدان قیامت کے احوال یاد دلانے والا ہے ۔

جہان و ہستی کی عظمتوں کو یاد دلانے والا ہے۔

تاریخ ساز شخصیتوں کی تاریخ اور زندگی یاد دلانے والا ہے۔

قرآن مجید کے معارف و احکام وہ حقائق ہیں جن کا جاننا ضروری ہے اور انہیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کیونکہ ''ذکر'' اس علم و معرفت کو کہتے ہیں جو ذہن میں حاضر ہو اور اس سے کبھی غفلت نہ ہو۔

پیام:

۱۔جس طرح انبیاء (ع)،قوم سے کوئی توقع نہیں رکھتے اس طرح مبلغ کو بھی قوم سے توقع نہیں رکھنی چاہیئے(مَا تَسْأَلُهُمْ مِنْ أَجْر)

۲۔اجر کی درخواست بری چیز ہے نہ اجر کا دریافت کرنا( تَسْئل)

۳۔پیغمبراسلام (ص) کی رسالت تمام کائنات کے لئے ہے( لِلْعَالَمِینَ )

۴۔امت کا ایک گروہ حتی اکثریت کہیں کسی وقت ایمان نہ لائے تو دینی مبلغ کو مایوس اور غمگین نہیں ہونا چاہیئے اگر زمین کے کسی حصے میں کسی گروہ نے ایمان قبول نہیں کیا تو دوسری جگہ جاکر تبلیغ کرنی چاہیئے( لِلْعَالَمِینَ )

۲۱۴

آیت ۱۰۵:

(۱۰۵)وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَمُرُّونَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ

''اور آسمانوں اور زمین میں (خدا کی قدرت کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ (دن رات) گزرا کرتے ہیں اور اس سے منہ پھیرے رہتے ہیں''۔

نکات:

در حقیقت یہ آیہ شریفہ رسول اکرم (ص) کی تسلی خاطر کے لئے نازل ہوئی ، بلکہ ہر برحق رہبر و پیشوا کے لئے تسلی ہے کہ اگر قوم ان کے فرامین کی نسبت بے توجہ ہے اور اسے قبول نہیں کررہی ہے تو اس سے پریشان نہ ہوں ،ایسے لوگ تو ہمیشہ طبیعت و خلقت خدائی میں قدرت و حکمت خداوندی کے شاہکار کا سامنا کرتے ہیں لیکن کبھی بھی اس سلسلے میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ زلزلے ،سورج گرہن چاند گرہن ، بجلیوںکی کڑک ستاروں کی گردش ، کہکشں کا اپنے مدار پر حرکت کرنا ان سب نشانیوں کو دیکھتے ہیں پھر بھی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

یمرون علیھا کا تین طرح معنی کیا گیا ہے :(الف) آیات الٰہی کا سامنا کرنے سے مقصود ان نشانیوں کا مشاہدہ کرنا ہے ۔(ب)انسانوں کا'' الٰہی نشانیوںسے گزرنے'' سے مراد زمین کی حرکت ہے کیونکہ زمین کی حرکت سے انسان اجرام فلکی پر مرور کرتا ہے۔(۱)

--------------

(۱)تفسیر المیزان.

۲۱۵

۳۔'' الٰہی نشانیوں سے گزرنا''ایک پیشنگوئی ہے کہ انسان فضائی وسائل پر سوار ہوگا اور آسمانوں میں حرکت کرے گا۔(۱)

کسی چیز سے منہ موڑنا ، غفلت سے زیادہ خطرناک ہے چونکہ ان نشانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے(کَأَیِّنْ ) اور انسان ان سے دائماً رابطے میں بھی ہے'' یَمُرُّونَ'' لیکن اسکے باوجود نہ صرف اسے فراموش کرتا ، اور ان سے غافل رہتا ہے بلکہ بعض اوقات متوجہ ہونے کے باوجود ان سے منہ موڑ لیتا ہے ۔

پیام:

۱۔انسان اگر ہٹ دھرمی سے کام لے تو کسی نشانی کو بھی قبول نہیں کرسکتا(وَکَأَیِّنْ مِنْ آیَ... یَمُرُّونَ عَلَیْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُون)

۲۔تمام کائنات خدا کی پہچان کے اسرار و رموز اور نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔(آیَ)

--------------

(۱)سفر نامہ حج آیت اللہ صافی.

۲۱۶

آیت ۱۰۶:

(۱۰۶) وَمَا یُمِنُ أَکْثَرُهُمْ بِاﷲِ إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ

''اور ان میں کی اکثریت خدا پر ایمان بھی لاتی ہے تو شرک کے ساتھ''۔

نکات:

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:شرک اس آیت میں کفر و بت پرستی کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے بلکہ غیر خدا کی طرف لو لگانا مقصودہے(۱)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایاشرک انسان میں ''اندھیری رات میں سیاہ پتھر پر سیاہ چیونٹی کی حرکت ''سے بھی خفیف تر ہے(۲)

امام باقر علیہ السلام نے بھی فرمایا لوگ عبادت میں موحد ہیں لیکن اطاعت میں غیر خدا کو شریک بنالیتے ہیں(۳) دوسری روایات میں آیا ہے کہ اس آیت میں شرک سے مراد شرک نعمت ہے۔

مثلاًانسان کہے ''کہ فلاں انسان نے ہمارا کام کردیا ''۔ ''اگر فلاں صاحب نہ ہوتے تو ہم نابود ہو گئے ہوتے ''اس جیسی دوسری مثالیں(۴)

--------------

(۱)تفسیر نمونہ.

(۲)سفینہ البحار، ج ۱، ص ۶۹۷.

(۳)کافی ،ج ۲، ص ۶۹۲.

(۴)تفسیر نمونہ.

۲۱۷

مخلص انسان کی علامتیں

۱۔انفاق میںکسی سے اجر کی توقع اور تشکر کا انتظار نہیں رکھتا(لانرید منکم جزاء ولا شکور) (۱)

۲۔عبادت میںخدا کے علاوہ کسی دوسرے کی بندگی نہیں کرتا۔(ولا یشرک بعباد ربه احد )(۱)

۳۔تبلیغ میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے اجر نہیں چاہتا(ان اجری الا علی اللّٰه) (۲)

۴۔شادی بیاہ میں فقر و تنگدستی سے نہیں ڈرتا بلکہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے شادی کرلیتا ہے(ان یکونوا فقراء یغنهم اللّٰه من فضله) (۳)

۵۔لوگوں سے سلوک کرنے میں خدا کی رضا کے علاوہ دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے(قل اللّٰه ثم ذرهم) (۴)

۶۔جنگ اور دشمن سے مقابلہ کرنے میں خدا کے علاوہ کسی دوسرے سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔(لایخشون احداالا اللّٰه ) (۵)

۷۔مہرو محبت میں خدا سے زیادہ کسی سے محبت نہیں کرتا(والذین آمنوا اشد حبا للّٰه) (۶)

--------------

(۱)سورہ انسان آیت ۹.

(۱)سورہ کہف آیت ۱۱۰.

(۲)سورہ یونس آیت ۷۲.

(۳)سورہ نور آیت ۳۲.

(۴)سورہ انعام آیت ۹۱.

(۵)سورہ احزاب آیت ۳۹.

(۶)سورہ بقرہ آیت ۱۶۵.

۲۱۸

(٭)عباس ساجری ہو کہ اکبر سامہہ جبیں

تجھ کو سبھی عزیز تھے لیکن خدا کے بعد

۸۔تجارت اور کسب معاش میں خداوندعالم کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔(لاتلهیهم تجار ولا بیع عن ذکر اللّٰه) (۱)

مومن مشرک کی علامتیں

۱۔دوسروں سے عزت کا آرزومند ہوتا ہے(ایبتغون عندهم العز) (۲)

۲۔عمل میںاچھے اور برے عمل کو مخلوط کردیتاہے(خلطوا عملا صالحا و آخر سیّ) (۳)

۳۔لوگوں سے ارتباط میں حزبی اور گروہی تعصبات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔(کل حزب بما لدیهم فرحون) (۴)

۴۔عبادت میںبے توجہ اور ریاکار ہوجاتا ہے(الذین هم عن صلاتهم ساهون والذین هم یرن )(۵)

۵۔جنگ و جدال میں انسانوں سے ڈرتا ہے(یخشون الناس کخشی اللّٰه ) (۶)

--------------

(۱)سورہ نور آیت ۳۷.

(۲)سورہ نساء آیت ۱۳۹.

(۳)سورہ توبہ آیت ۱۰۲.

(۴)سورہ مومنون آیت ۵۳.

(۵)سورہ ماعون آیت ۶۔۵.

(۶)سورہ نساء آیت ۷۷.

۲۱۹

۶۔تجارت اوردنیاوی امورمیں زیادتی اور اضافہ کی طلب اسے سرگرم کئے رکھتی ہے(الهٰکم التکاثر) (۱)

۷۔دنیا اور دین کے انتخاب میں دنیا کو منتخب کرلیتے ہیں اور پیغمبر (ص) کو تنہا چھوڑ دیتے ہےں(واذا رأو تجار او لهوا انفضوا الیها وترکوک قائم) (۲)

پیام:

۱۔ایمان کے مختلف مراتب ہیں۔خالص ایمان جس میں کوئی شرک نہ ہو بہت کم ہے۔(وَمَا یُمِنُ...إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ)

آیت ۱۰۷:

(۱۰۷)أَفَأَمِنُوا أَنْ تَأْتِیَهُمْ غَاشِیَ مِنْ عَذَابِ اﷲِ أَوْ تَأْتِیَهُمْ السَّاعَ بَغْتَ وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ.

''کیا وہ لوگ (جو ایمان نہیں لائے) اس بات سے مامون ہیں کہ خدا کی طرف سے گھیرنے والا عذاب جو ان پر چھا جائے یا ان پر اچانک قیامت کی گھڑی آجائے اور ان کو کچھ خبربھی نہ ہو''۔

نکات:

''غاشیہ'' اس عذاب و عقاب کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا معاشرے کو اپنے گھیرے میں لے لے۔

--------------

(۳)سورہ تکاثر آیت ۱.

(۴)سورہ جمعہ آیت ۱۱.

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246