یوسف قرآن

یوسف قرآن 15%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174880 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

ڈاکٹر بختیار نواز (بجرڈیہہ)

ابتدا تو ہے انتہا تو ہے

دونوں عالم کا رہنما تو ہے

*

چاند تاروں میں نور ہے تیرا

حد امکاں ظہور ہے تیرا

*

غنچۂ و گل میں ہے ادا تیری

تیرگی میں بھی ہے ضیا تیری

*

میں ہوں کمزور اور قوی تو ہے

میں ہوں محتاج اور غنی تو ہے

*

میرے ہستی سنوار دے مولیٰ

میرے دل کو قرار دے مولیٰ

*

سب کا ہے تو ہی مالک و مختار

تیرے آگے نوازؔ ہے لاچار

***

۶۱

حمد باری تعالیٰ

یونس انیس (ناگپور)

اے خالق رب العلا

اے مالک ارض و سما

اے ذات باری اے خدا

تو لائق حمد و ثنا

*

روز و شب و صبح مسا

ہم سب ترے مدحت سرا

*

الحمد للہ سب نور نور

ہر سمت بس تیرا ظہور

یہ کوہ یہ دشت و طیور

سب کلمہ گو تیرے حضور

*

پروردگار جز و کل

آب و گل و ہر خار و گل

*

سب سے بڑا سب سے عظیم

تو صاحبِ لطف عمیم

محتاج ہم سب تو نعیم

رحمن تو ہے تو رحیم

*

۶۲

اے کردگار انس و جاں

تو رحم والا مہرباں

*

ہم عاصیِ دامن تہی

از بسکہ ہے شرمندگی

اک آسرا ہے بس یہی

لا تقنطوا من رحمتی

*

لاریب فیہ اے خدا

تو مالکِ روزِ جزا

*

ہر چیز میں موجود تو

ہر چیز کا مقصود تو

ہم عابد و معبود تو

تو شاہد و مشہود تو

*

ہم ساجد و مسجود تو

ہم عابد و معبود تو

*

یا ربنا، یا ربنا

جو راہ حق ہے حق نما

وہ راہِ حق ہم کو دکھا

گم کردہ را ہوں سے بچا

*

فیضانِ جنت ہو مدام

نارِ جہنم ہو حرام

۶۳

حمد ربِ کائنات

کیفی اسماعیلی (کامٹی)

میرا اللہ تعالیٰ تو ہے رحمان بہت

مجھ گنہگار کی بخشش کا ہے امکان بہت

*

ہے رحیم اور بھی اک نام مرے مالک کا

کر رہا ہوں میں اسی نام کی گردان بہت

*

ڈوبتے ڈوبتے ایمان مرا تیر گیا؟

میں نے دل سے جو پڑھی سورۂ رحمان بہت

*

ورد آیات کریمہ کا اثر کیا کہئے

ہوتی رہتی ہیں مری مشکلیں آسان بہت

*

جس نے یونسؑ کو بچایا شکم ماہی میں

ہے بہر حال وہی میرا نگہبان بہت

*

دونوں عالم کے سمجھنے کو یہی کافی ہے

ہے ہمارے لئے اللہ کا عرفان بہت

*

سچ تو یہ ہے، کہ ہے سائنس اسی کا صدقہ

ہر مسلمان سمجھ کر پڑھے قرآن بہت

*

۶۴

ہر گھڑی کلمۂ توحید پڑھا کرتا ہوں

ہے اسی نور میں کھو جانے کا ارمان بہت

*

تر ہیں رخسار اگر اشک پشیمانی سے

ہے گنہگار کی بخشش کا یہ سامان بہت

*

مشرکین لاکھ لگاتے رہیں بہتان مگر

میرا مالک مرا مولا تو ہے سبحان بہت

*

ہے خداوند تعالیٰ کا کرم لامحدود

حمد کہنے کے لئے ملتے ہیں عنوان بہت

*

اس کی روزی میں بڑی برکتیں دیکھیں ہم نے

جس کے گھر آتے ہیں اللہ کے مہمان بہت

*

ہم نے خود رکھ دیا دشوار بنا کے ورنہ

ہے مرا مذہب اسلام تو آسان بہت

*

دے رہا ہے وہ بلا کسب ہی روزی کیفیؔ

مجھ پہ رزاق دو عالم کا ہے احسان بہت

***

۶۵

احمدرئیس (کلکتہ)

اعلیٰ ہے تو، عظیم ہے تو، رب ذوالجلال

رحمن ہے، رحیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

تیری نوازشوں کے طلب گار ہیں سبھی

سب س بڑا کریم ہے تو رب ذوالجلال

*

شعلوں میں کون، کون ہے مچھلی کے پیٹ میں

عالم ہے تو، علیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

صدیوں سے ہے یہ فرش زمیں بے ستون عرش

ان سب سے بھی قدیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

پوشیدہ حکمتیں ہیں ترے حرف حرف میں

حاکم ہے تو، حکیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

دیتا ہے رزق سب کو تو سب کے نصیب کا

قاسم ہے تو، قسیم ہے تو، رب ذوالجلال

*

ذہن رئیسؔ پر بھی ہے مولا ترا کرم

اور دل میں بھی مقیم ہے تو رب ذوالجلال

***

۶۶

محمد افضل خان (ہوڑہ)

خالق، مالک، اعلیٰ تو ہی

سب سے عظمت والا تو ہی

*

شاہ و گدا سب تیرے غلام

پاتے ہیں تجھ سے انعام

*

عزت ذلت ہاتھ میں تیرے

شہرت دولت ہاتھ میں تیرے

*

جس کو چاہے علم و ہنر دے

تو ہی روزی روٹی گھر دے

*

رکھوالا عالم کا تو ہی

سب سے برتر بالا تو ہی

*

روز و شب ہیں تیرے دم سے

ہم ہیں زندہ تیرے کرم سے

*

تیری ثنا پڑھتا ہے افضلؔ

دم تیرا بھرتا ہے افضلؔ

***

۶۷

رزاق افسر (میسور)

تیری آرزو مری زندگی، مری بندگی تری جستجو

یہ ہے روز و شب مرا مشغلہ، مرے سلسلے یہی کو بکو

*

تری ذات منبع نور ہے، ترا نور کل کا ظہور ہے

تو مجیب اسود و طور ہے، تو نہاں کہیں کہیں روبرو

*

کوئی ایسا دیدہ و دل کہاں، تری ذات جس پہ نہ ہو عیاں

تو قدیم و خالق کن فکاں، تو محیط عالم رنگ و بو

*

تری راہ صبح کے رابطے، ترے فاصلے مرے رت جگے

یہ نیاز و ناز کے مرحلے، کہیں تشنہ لب کہیں آبجو

*

تری عظمتوں کے سرور سے ہوئی فکر میری نہال جب

تو ملا کمال سخن مجھے، بنی آئینہ مری گفتگو

*

ہو بیان کیا تری برتری، ترا نام جب بھی لیا کوئی

تو زبان خلق ہے کہہ اٹھی، تری شان جل جلالہٗ

***

۶۸

نظیر احمد نظیر (کامٹی)

شکم میں ماں کے ہر اک شکل کو بناتا ہے

مگر کسی کو کسی سے نہیں ملاتا ہے

*

میرے خدا یہ تیری شان کبریائی ہے

اندھیرے گھر سے اجالے میں تو ہی لاتا ہے

*

ملا کے رکھ دیا دہقاں نے خاک میں گندم

یہ تیری شان ہے اس کو تو ہی اگاتا ہے

*

میں اپنی نیند سے جاگوں مری مجال کہاں

تو ہی سلاتا ہے یا رب تو ہی اٹھاتا ہے

*

نظر میں تاب کہاں دیکھنے کی نظارے

تیرا ہی نور ہے آنکھوں میں جو دکھاتا ہے

*

پلک جھپکتے ہی یہ زندگی ہو جائے فنا

تیرا کرم ہے جو سانسوں میں آتا جاتا ہے

*

یہ بات سچ ہے کے جس کا مجھے نہیں انکار

نظیرؔ حکم سے تیرے قلم اٹھاتا ہے

***

۶۹

طالب صدیقی (کلکتہ)

درد کا درماں چین کا عنوان اک تو ہی

سب کے خانۂ دل کا مہماں اک تو ہی

*

تیری ذات لافانی کا کیا کہنا

ذرے ذرے میں ہے نمایاں اک تو ہی

*

باغ بھی تیرے، گل بھی تیرے ہیں مالک

رکھتا ہے شاداب گلستاں اک تو ہی

*

غم کی کوئی گنجائش ہو تو کیسے

جب رکھتا ہے دل کو شاداں اک تو ہی

*

کرنا ہے تا عمر خدایا مجھ کو طواف

میں پروانہ، شمع فروزاں اک تو ہی

*

بخشی ہے سورج کو تو نے تابانی

چاند کو بھی کرتا ہے درخشاں اک تو ہی

*

ہوتا ہے تاریک دل طالبؔ جب بھی

کر دیتا ہے اس میں چراغاں اک تو ہی

***

۷۰

رخشاں ہاشمی (مونگیر)

زندگی تیری مہربانی ہے

تیری بس تیری ہی کہانی ہے

*

تیرا جلوہ ہے چار سو روشن

ہے کرم تیرا زندگانی ہے

*

سارے منظر میں تجھ کو دیکھا ہے

سارا عالم تری نشانی ہے

*

تو ہی عزت دے تو ہی ذلت دے

آگ بھی تو ہے، تو ہی پانی ہے

*

تو جو چاہے تو سب فنا کر دے

ہر جگہ تیری راجدھانی ہے

*

یاد میں تیری کر رہا ہے جو

رخشاں ؔ کی آنکھ کا وہ پانی ہے

***

۷۱

صابر فخر الدین (یادگر)

جس کو حاصل ہے آگہی تیری

اس پہ رحمت فزوں ہوئی تیری

*

خود پہ احسان ہی تو کرتا ہے

وہ جو کرتا ہے بندگی تیری

*

میں اندھیروں کو چیر جاؤں گا

ہو اگر ساتھ روشنی تیری

*

ہر کہہ و مہہ کو جو نوازے ہے

ہو نظر مجھ پہ بھی وہی تیری

*

ٹھیک منزل سے جا ملاتی ہے

گم رہوں کو بھی رہبری تیری

*

چاند سورج ہوں یا وہ ارض و سما

سب ہی کرتے ہیں بندگی تیری

*

تیرے صابرؔ کے سامنے کیوں کر

ہو نہ مد نظر خوشی تیری

***

۷۲

صابر فخر الدین (یادگر)

نئے چراغ پرانے چراغ بھی تیرے

جو آ رہے ہیں نظر وہ ایاغ بھی تیرے

*

ہمارے دل کا گلستاں بھی ہے ترا یا رب

جو ہیں بہشت بریں میں وہ باغ بھی تیرے

*

نظر سے تیری نہیں ہے کوئی بھی شئے مخفی

قدم قدم پہ ہیں پھیلے سراغ بھی تیرے

*

جو تنگیاں ہیں وہ میرا نصیب ہیں یا رب

تمام وسعتیں سارے فراغ بھی تیرے

*

مجھے ملی ہیں جو علم و عمل کی سوغاتیں

ہیں ان کے طاق میں روشن چراغ بھی تیرے

***

۷۳

علیم الدین علیم (کلکتہ)

ہم کو ہر شے میں نظر آتا ہے جلوہ تیرا

سارے عالم میں ہے معبود اجالا تیرا

*

ایک پتا نہیں ہلتا کبھی شاخ گل پر

جب تلک ہوتا نہیں کوئی اشارا تیرا

*

لفظ کن سے کیا تخلیق جہاں کو تو نے

تیری مخلوق پہ احسان ہے ربا تیرا

*

کوئی معبود نہیں تیرے سوا اے اللہ

سر بہ سجدہ ہے ترے سامنے بندا تیرا

*

ہو کوئی جن کہ بشر یا ہوں چرند اور پرند

سب پہ یکساں ہے کرم خالق دنیا تیرا

*

تیرے بندوں کی عبادت کا ہے پہلا مرکز

کیوں نہ معمور ہو انوار سے کعبا تیرا

*

سانس جب تک مری چلتی رہے اے رب قدیر

ہو ادا مجھ سے ہر اک حال میں سجدا تیرا

*

سر جھکاتا ہے علیمؔ اس لیے تیرے آگے

اس کا معبود ہے تو اور وہ بندا تیرا

***

۷۴

حیدر علی ظفر دیگلوری

افضل ارفع اعلیٰ تو

مالک سب کا مولا تو

*

قائم دنیا تجھ سے ہے

ایسی ہستی والا تو

*

سب تیرے گن گاتے ہیں

شان و شوکت والا تو

*

خوشبو تیری ہر گل میں

گلشن گلشن صحرا تو

*

ہندو مسلم سکھ تیرے

سب کاموں داتا تو

*

بت خانہ ہو یا ہو کعبہ

ہر گھر کا رکھوالا تو

*

ہے تیرا محتاج ظفرؔ

میں بندہ ہوں آقا تو

***

۷۵

حامد رضوی حیدرآبادی

سب پہ لازم احترام اللہ کا

ذرہ ذرہ ہے غلام اللہ کا

*

سارے بندوں کی بھلائی کے لئے

عرش سے اترا کلام اللہ کا

*

بھوک دے کر بھول وہ جاتا نہیں

رزق کا دینا ہے کام اللہ کا

*

جس کو رکھنا ہے جہاں رکھتا ہے وہ

ایسا بہتر ہے نظام اللہ کا

*

ہے وہی مختار کل معبود حق

ہو لبوں پر صرف نام اللہ کا

*

یہ زمین و آسماں کل کائنات

راج ہے ہر جا تمام اللہ کا

*

کہتے ہیں حامدؔ جسے وہ رات دن

نام لیتا ہے مدام اللہ کا

***

۷۶

سکندر عرفان (کھنڈوہ)

سب کو جزا کا دینے والا اللہ تو

اور سزا کا دینے والا اللہ تو

*

یوں تو دوا کا دینے والا ہے انساں

صرف شفا کا دینے والا اللہ تو

*

ذلت تری ہی صرف بقا کی حامل ہے

حکم فنا کا دینے والا اللہ تو

*

موسیٰ جب مجبور کھڑے تھے دریا پر

ان کو عصا کا دینے والا اللہ تو

*

یہ نہ ملیں تو پل بھر میں مر جاتے ہم

پانی ہوا کا دینے والا اللہ تو

*

پودوں کے ان پژمردہ سے ہونٹوں کو

جام گھٹا کا دینے والا اللہ تو

*

غم بھی دئے ایوبؔ کو تو نے یہ سچ ہے

صبر و رضا کو دینے والا اللہ تو

*

میں نے کی عرفانؔ جو میری دنیا

صلہ وفا کا دینے والا اللہ تو

***

۷۷

صابر جوہری (بھدوہی)

(۱)

رقم اوصاف رب کے کر رہا ہے

قلم کاغذ پہ سجدے کر رہا ہے

*

کرم کی ہو رہی ہے عام بارش

زمانہ اس کے چرچے کر رہا ہے

*

منور نور ہستی سے تو یا رب!

دلوں کے آبگینے کر رہا ہے

*

عطا کر کے لقب یٰسین و طہٰ

بلند انساں کے درجے کر رہا ہے

*

اسے بھی رزق تو دیتا ہے یا رب!

خدائی کے جو دعوے کر رہا ہے

*

جہنم سے ڈراتا ہے اگر تو

تو جنت کے بھی وعدے کر رہا ہے

*

ترا احساں کہ ہر طوفاں کی زد سے

مری کشتی کنارے کر رہا ہے

*

۷۸

پرندہ بیٹھ کر ڈالی پہ ہر دم

ترا ہی ذکر جیسے کر رہا ہے

*

عطا ہو جائے علم و فن کی دولت

دعا صابرؔ یہ دل سے کر رہا ہے

***

۷۹

(۲)

سیاروں کی گردش میں پنہاں تیری قدرت ہے

تار نفس کی ہر لے میں جیسی تیری حکمت ہے

*

پھولوں سے اور خاروں سے سورج چاند ستاروں سے

دریاؤں کہساروں سے ظاہر تیری عظمت ہے

*

ہر اک پھول کی خوشبو میں قوس قزح کے جادو میں

جگمگ جگمگ جگنو میں یا رب! تیری جلوت ہے

*

مہر و ماہ و اختر میں، برق و شرر کے تیور میں

گردوں کے ہر منظر میں ترا جمال وحدت ہے

*

علم دیا عرفاں بخشا، لاثانی قرآں بخشا

بخشش کا ساماں بخشا تیری کیا کیا رحمت ہے

*

تیری رحمت کا طالب تنکا تنکا ہے لاریب

تیرے قہر سے خوف زدہ یا رب پربت پربت ہے

*

نوک خامہ تو بھی لکھ رب کی تحمید و تقدیس

ذرہ ذرہ روز و شب جب مشغول مدحت ہے

*

نور شمع ایماں سے روشن ہے دنیائے دل

صابرؔ پر مولائے کل تیری کتنی رحمت ہے

***

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

پیام:

۱۔کوئی بھی خود کو ضمانت یافتہ نہ سمجھے(افامنوا...)

۲۔خدائی قہر ،ناگہاں دامن گیر ہوتا ہے۔(بغت)

۳۔خدائی قہر ،ہمہ گیر ہوتا ہے جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے(غاشیه)

۴۔قہر الٰہی کا احتمال ہی انسان کے لئے حق کی طرف قدم بڑھانے کے لئے کافی ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ بعض افراد قہر الٰہی کا احتمال بھی نہیں دیتے ۔(افامنو)

۵۔عذاب کا ایک چھوٹا سا نمونہ انسان کو گرفتار کرنے کے لئے کافی ہے۔(غاشیمن عذاب)

۶۔قیامت کی یاد، تربیت کے لئے بہترین عامل ہے۔( تَأْتِیَهُمْ السَّاعَ )

۲۲۱

آیت ۱۰۸:

(۱۰۸) قُلْ هَذِهِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَی اﷲِ عَلَی بَصِیرَ أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اﷲِ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ.

''(اے رسول) ان سے کہہ دو : یہی میر ا راستہ ہے میں اور میرے پیروکار پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں اور خدا (ہر عیب و نقص سے)پاک و پاکیزہ ہے اور میں مشرکین سے نہیں ہوں''۔

نکات:

توحید کی طرف دعوت دینے والا شخص عوام سے جدا ہوتا ہے کیونکہ گزشتہ دو آیتوں سے ثابت ہے کہ عوام الناس کا ایمان غالباً شرک سے آلودہ ہوتا ہے( وَمَا یُمِنُ أَکْثَرُهُمْ بِاﷲِ إِلاَّ وَهُمْ مُشْرِکُونَ ) لیکن دینی مبلغ کو ایسا ہونا چاہیئے کہ علی الاعلان کہہ سکے :(وما انا من المشرکین)

پیام:

۱۔انبیاء (ع)کی راہ تمام افراد کے سامنے واضح اور روشن ہے( هَذِهِ سَبِیلِی)

۲۔رہبر کو بصیرتِ کامل کا حامل ہونا چاہیئے(عَلَی بَصِیرَ )

۳۔رہبر کی دعوت خدا کی طرف سے ہو ،نہ کہ اپنی طرف سے( أَدْعُو إِلَی اﷲ)

۴۔دینی مبلغ کو خالص و مخلص ہونا چاہیئے(وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ)

۵۔تبلیغ کا مرکز و محور ''خداوند عالم کو ہر شرک و شریک سے منزہ کرنا'' ہونا چاہیئے(سُبْحَانَ اﷲِ)

۶۔پیغمبر اسلام (ص) کے ہر پیروکار کو ایسا مبلغ ہونا چاہیئے کہ وہ بصیرت و آگاہی کے ساتھ لوگوں کو خدا کی طرف بلا سکے(أَدْعُو إِلَی اﷲِ...أَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی)

۷۔توحید کا اقرار اور شرک کی نفی دین اسلام کی بنیاد ہے۔(أَدْعُو إِلَی اﷲِ...َمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ)

۲۲۲

آیت ۱۰۹:

(۱۰۹)وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلاَّ رِجَالًا نُوحِی إِلَیْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَی أَفَلَمْ یَسِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَیَنْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَ خَیْرٌ لِلَّذِینَ اتَّقَوْا أَفَلاَتَعْقِلُونَ

''اور (اے رسول )آپ سے پہلے بھی ہم ان بستیوں میں صرف مردوں کو ہی بھیجتے رہے ہیں جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے تو کیا یہ لوگ روئے زمین پر چل پھر کر نہیں دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ؟ اور جن لوگوں نے پرہیز گاری اختیارکی ان کے لئے آخرت کا گھر (دنیا سے )یقینا بدرجہا بہتر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟''

نکات:

مخالفین انبیاء ٪ نے یہی بہانہ تراشی کی کہ پیغمبران (ع)ہم ہی جیسے انسان کیوں ہیں ؟گویا پیغمبر اسلام (ص) کے زمانے میں بھی یہی فکر کار فرماتھی اور لوگ یہی سوال کررہے تھے، یہ آیہ شریفہ اسی کا جواب ہے اور لوگوں کو خبردار کررہی ہے۔

پیام:

۱۔تمام انبیاء (ع)مرد تھے(رجالً) کیونکہ تبلیغ اور ہجرت و جستجو کا امکان مرد کے لئے زیادہ ہے ۔

۲۔انبیاء (ع)کے علوم، وحی کے ذریعے یا بعبارت دیگر''لدنی'' تھے(نُوحِی إِلَیْهِمْ )

۳۔انبیاء (ع)انسانوں ہی کی صنف سے تھے اور انسانوں کے درمیان ہی زندگی بسر کرتے تھے (نہ تو فرشتہ تھے نہ ہی گوشہ نشین تھے اور نہ ہی آرام و آسائش کے خوگر تھے)(مِنْ أَهْلِ الْقُرَی)

۲۲۳

۴۔سیر و سفر باہدف ہونا چاہئے۔(أَفَلَمْ یَسِیرُوا... فَیَنْظُرُو)

۵۔زمین میں سیر و سیاحت کرنا ، تاریخی معلومات اور اس سے عبرت حاصل کرنا ہدایت و تربیت کے لئے بے حد مثر ہے(فَیَنْظُرُو)

۶۔عبرت اور آنے والی نسلوں کے لئے آثار قدیمہ کا محفوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔(فَیَنْظُرُو)

۷۔انبیاء (ع)کا بھیجنا ، وحی کا نزول اور ہٹ دھرم مخالفین کی ہلاکت سب کے سب تاریخ میں سنت الٰہی کے عنوان سے محفوظ ہیں(کَیْفَ کَانَ عَاقِبَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ)

۸۔پیغمبروں (ع)کی مخالفت کرکے کفار کچھ بھی حاصل نہیں کرپاتے بلکہ دنیا ہی میں قہر وعذاب میں گرفتار ہوجاتے ہیں جبکہ اہل تقوی آخرت تک پہنچتے ہیں جو دنیا سے بہتر ہے ۔( وَلَدَارُ الْآخِرَ خَیْر)

۹۔عقل و خرد انسان کو انبیائی مکتب کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔(أَفَلاَ تَعْقِلُونَ)

۲۲۴

آیت ۱۱۰:

(۱۱۰) حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ کُذِبُوا جَاءَ هُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَاءُ وَلاَیُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ

''(پیغمبران ماسلف نے تبلیغ رسالت کی) یہاں تک کہ جب (قوم کے ایمان لانے سے ) انبیاء مایوس ہوگئے اورلوگ بھی یہ خیال کرنے لگے کہ ان سے (عذاب کا وعدہ بطور) جھوٹ کہا گیا تھا توانبیاء کے لئے ہماری نصرت پہنچ گئی اس کے بعد جسے ہم نے چاہا اسے نجات مل گئی اور مجرموں سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جاسکتا''۔

نکات:

ہمیشہ سے تاریخ گواہ ہے کہ انبیاء (ع)اپنی دعوت میں پائیدار اورمُصرّ رہے اور آخری وقت تک خداوندعالم کی طرف بلایا کرتے تھے ۔ مگر یہ کہ کسی کی ہدایت سے مایوس ہوجائیں ۔! اسی طرح ہٹ دھرم مخالفین بھی مقابلہ سے دست بردار نہیں ہوتے تھے ۔ اس کے نمونے قرآن مجید میں موجود ہیں :

۲۲۵

انبیاء (ع)کی ناامیدی کا نمونہ

سالہا سال حضرت نوح علیہ السلام قوم کو خدا کی طرف دعوت دیتے رہے لیکن چند افراد کے علاوہ کوئی بھی دولت ایمان سے بہرہ مند نہ ہوا ،خداوندعالم نے حضرت نوح (ع)کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:(لن یمن من قومک الا من قدامن) (۱) جو ایمان لاچکے ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی آپ کی قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا۔

حضرت نوح (ع)اپنی قوم کےلئے بددعا کرتے ہوئے جو ان کی مایوسی کی علامت ہے فرماتے ہیں :(لایلدوا الّافاجراً وکفار) (۲) ان سے کافر و فاجر کے علاوہ کوئی دوسرا پیدا نہ ہوگا اسی طرح حضرت ہو د، صالح، شعیب، موسیٰ، عیسیٰ ٪ بھی اپنی اپنی زندگی میں امت کے ایمان لانے سے مایوس دکھائی دیتے ہیں ۔

قوم کی انبیاء (ع)سے بدگمانی کا نمونہ

انبیاء ٪ کی تہدید کو کفار کھوکھلے دعوے اور جھوٹ سمجھتے تھے ۔ سورہ ہود کی ۲۷ویں آیت میں کفار کا قول نقل کیا گیا ہے کہ(بل نظنکم کاذبین) یعنی ہمارا گمان تو یہی ہے کہ تم لوگ جھوٹے ہو ،یا فرعون نے حضرت مو(ع)سیٰ سے کہا(انی لاظنک یا موسیٰ مسحور) (۳) درحقیقت میرا گمان ہے کہ اے موسیٰ تم سحرزدہ ہوگئے ہو۔

--------------

(۱)سورہ ہود آیت ۳۶.

(۲)سورہ نوح آیت ۲۷

(۳)سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۰۱.

۲۲۶

خداکی مدد

ایسی حالت میں خداوندعالم نے نصرت و مدد کو اپنا حق بتایا ہے اور اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ مومنین کی نصرت فرمائے(وکان حقا علینا نصر المومنین) (۱) یادوسری جگہ فرمایا:(نجینا هودا والذین آمنوا معه) (۲) ہم نے ہود اور ان مومنین کو نجات دی جو ان کے ساتھ تھے ۔

خدائی قہر

وہی خداوندعالم یہ بھی فرماتا ہے کہ میرا قہر وغضب نازل ہونے کے بعد پلٹنے والا نہیں ہے ۔ سورہ رعد میں ارشاد ہوا :(اذا اراد اﷲ بقوم سوء فلا مردّله) (۳) جب بھی خدا کسی قوم کو برے حال سے دوچار کرنے کا ارادہ کرلے تو اس کے ٹلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی ۔

پیام:

۱۔انسان میں قساوت اور ہٹ دھرمی کبھی کبھی اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ بردبار خدائی نمائندوں کو بھی مایوس کردیتی ہے۔(إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ )

۲۔خوش بینی ، حسن نیت اور حوصلہ کی ایک حد ہوتی ہے (حتی)

--------------

(۱)سورہ روم آیت ۴۷.

(۲)سورہ ھود آیت ۵۸.

(۳) سورہ رعد آیت ۱۱.

۲۲۷

۳۔اپنی طاقت کو غیر قابل نفوذ افراد میں صرف نہیں کرنا چاہیئے بلکہ بعض لوگوں سے صرف نظر کرلینا چاہیئے(اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ)

۴۔مجرمین کو مہلت دینا اور انکے عذاب میں تاخیر کرنا سنت الٰہی ہے(حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ) یعنی ہم نے مجرموں کو اتنی مہلت دی کہ انبیاء بھی ان کی ہدایت سے مایوس ہوگئے۔

۵۔عذاب الٰہی میں تاخیر مجرموں کو جری بنا دیتی ہے اور وہ جھٹلانے لگتے ہیں۔( حَتَّی إِذَا... وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ کُذِبُو)

۶۔انبیاء (ع)کا کسی قوم کی ہدایت سے مایوس ہوجانا نزول عذاب کی شرط ہے۔(إِذَا اسْتَیْئَسَ...لاَیُرَدُّ بَأْسُنَا ...)

۷۔پیغمبروں (ع)کے لئے خدائی امداد کی بھی ایک خاص گھڑی ہوتی ہے(إِذَا اسْتَیْئَسَ... جاء هم)

۸۔قہر الٰہی ،انبیاء (ع)اور حقیقی مومنین کے شامل حال نہیں ہوتا(فَنُجِّیَ)

۹۔قہر و عذاب اور لطف و امداد دونوں خدا کے دست قدرت میں ہیں(نَصْرُنَا...بأسن)

۱۰۔قہر یا نجات کاانجام خودانسان ہی کے ہاتھ میں ہے( مَنْ نَشَاءُ ، مُجْرِمِینَ )

۱۱۔خداوندعالم کا ارادہ، قانون مندہے(مَنْ نَشَاء وَلاَیُرَدُّ بَأْسُنَا عَنْ الْقَوْمِ لْمُجْرِمِینَ)

۱۲۔خدا کی راہ کہیں پر ختم نہیں ہوتی(إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ... جَاءَ هُمْ نَصْرُنَا )

(یعنی جہاں پر لوگ راستہ کو بند پاتے ہیں اور اندھیرے کا احساس کرتے ہیں وہیں پر خدائی قدرت جلوہ نما ہوتی ہے)

۱۳۔قہر خدا کو کوئی طاقت ٹال نہیں سکتی( لَا یُرَدُّ بَأْسُنَا )

۱۴۔انبیاء (ع)کی حمایت ، مجرمین کی ہلاکت، سنت خداوندی ہے(جَاءَ هُمْ نَصْرُنَا، لاَ یُرَدُّ بَأْسُنَا )

۲۲۸

آیت ۱۱۱:

(۱۱۱) لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِهِمْ عِبْرَ لِّأُوْلِی الْأَلْبَابِ مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَیٰ وَلَکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِی بَیْنَ یَدَیْهِ وَتَفْصِیلَ کُلِّ شَیْءٍ وَهُدًی وَرَحْمَ لِقَوْمٍ یُمِنُونَ

''اس میں شک نہیں کہ ان انبیاء کے قصوں میں عقل مندوں کے واسطے (اچھی خاصی) عبرت و نصیحت ) ہے یہ (قرآن) کوئی ایسی بات نہیں جو (خوامخواہ) گڑھ لی گئی ہو بلکہ (جو آسمانی کتابیں) اسکے پہلے سے موجودہیں یہ قرآن ان کی تصدیق کرتا ہے اور ہر چیز کی تفصیل اور ایمان داروں کے واسطے (از سرتاپا) ہدایت ورحمت ہے''۔

نکات:

''عبرت'' و ''تعبیر'' یعنی عبور کرنا ، ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ کی طرف عبور کرنا، ''تعبیر خواب'' یعنی خواب سے حقیقت کی طرف عبور کرنا۔ ''عبرت'' یعنی دیکھنے والی اور سنی جانے والی چیزوں سے ایسی چیز کی طرف عبور کرنا جو دیکھی اور سنی نہ جاسکیں ۔

'قصصهم'' سے مراد شاید تمام انبیاء (ع)کی داستان ہو ، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ حضرات یعقوب (ع)و یوسف(ع) اور ان کے بھائیوں اور عزیز مصر کی داستان مدنظر ہو جس میں تلخ و شیریں حوادث رونما ہوئے جو اسی سورہ میں آئے ہیں ۔

۲۲۹

پیام:

۱۔داستانوں کے امتیاز کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ وہ نصیحت آموز ہوں۔ سورہ کے شروع میں ارشاد فرمایا:(نحن نقص علیک احسن القصص) اور آخر میں فرمایا( لَقَدْ کَانَ فِی قَصَصِهِمْ عِبْرَ )

۲۔قرآن مجید کی داستانیں چشم دید واقعات کو بیان کرتی ہیں اور عبرت آموز ہوتی ہیں (گڑھے ہوئے افسانے نہیں ہیں)(مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی )

۳۔سچی اور حقیقی باتیں زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں ۔(عبر...مَا کَانَ حَدِیثًا یُفْتَرَی )

۴۔فقط عقلمند افراد ہی داستانوں سے پند و عبرت حاصل کرتے ہیں(عِبْرَ لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ)

۵۔قرآن مجید دوسری آسمانی کتابوں سے جدا نہیں ہے بلکہ ان کی تصدیق کرتا ہے (ان کے شانہ بشانہ ہے)( تَصْدِیقَ الَّذِی...)

۶۔قرآن مجید انسان کی تمام نیاز مندیوں اور احتیاجات کو بیان فرماتا ہے(تَفْصِیلَ کُلِّ شَیْئٍ)

۷۔قرآن عظیم خالص ہدایت ہے اور کسی گمراہی سے آمیختہ نہیں ہے۔(هُدًی)

۸۔فقط اہل ایمان ہی قرآنی ہدایت اور رحمت سے بہرہ مند ہوتے ہیں(هُدًی وَرَحْمَ لِقَوْمٍ یُمِنُونَ )

۹۔نکتہ سنجی اور درس حاصل کرنے کے لئے عقل درکار ہے(عِبْرَ لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ) لیکن نور اور رحمت الٰہی کو درک کرنے کے لئے ایمان بھی لازمی ہے(لِقَوْمٍ یُمِنُونَ )

۱۰۔قرآنی قصوں سے عبرت اور نصیحت آموزی کسی ایک زمانے سے مخصوص نہیں ہے۔(لِأُوْلِی الْأَلْبَابِ)

اللّٰهم صل علی محمد و آل محمد و عجل فرجهم.

تمت بالخیر

۲۳۰

فہرست

حرف اول ۳

گفتارمؤلف ۶

سورہ یوسف کا رخ زیبا ۸

آیت ۱: ۱۰

آیت ۲: ۱۰

نکات: ۱۰

پیام: ۱۲

آیت ۳: ۱۳

نکات: ۱۳

پیام: ۱۸

آیت ۴: ۱۹

نکات : ۱۹

خواب کے سلسلے میں ایک اور گفتگو ۲۰

پیام: ۲۵

آیت ۵: ۲۶

نکات: ۲۶

پیام: ۲۷

آیت ۶: ۲۸

نکات: ۲۸

پیام: ۲۹

۲۳۱

آیت ۷: ۳۰

نکات: ۳۰

پیام: ۳۲

آیت ۸: ۳۲

نکات: ۳۲

پیام: ۳۴

آیت ۹: ۳۵

نکات: ۳۵

پیام: ۳۶

آیت ۱۰: ۳۶

نکات: ۳۷

پیام: ۳۷

آیت ۱۱: ۳۸

پیام: ۳۸

آیت ۱۲: ۳۹

نکات: ۳۹

پیام: ۴۰

آیت ۱۳: ۴۱

نکات: ۴۱

پیام: ۴۲

آیت ۱۴: ۴۳

۲۳۲

نکات: ۴۳

پیام: ۴۳

آیت ۱۵: ۴۴

نکات: ۴۴

پیام: ۴۴

آیت ۱۶: ۴۶

پیام: ۴۶

آیت ۱۷: ۴۷

نکات: ۴۷

پیام: ۴۷

آیت ۱۸: ۴۸

نکات: ۴۸

پیام: ۴۹

آیت ۱۹: ۵۰

نکات: ۵۰

پیام: ۵۱

آیت ۲۰: ۵۲

نکات: ۵۲

پیام: ۵۲

آیت ۲۱: ۵۳

نکات: ۵۳

۲۳۳

پیام: ۵۴

آیت ۲۲: ۵۵

نکات: ۵۵

پیام: ۵۶

آیت ۲۳: ۵۶

نکات: ۵۷

پیام: ۵۸

آیت ۲۴: ۶۱

نکات: ۶۱

آیت ۲۵: ۶۳

نکات: ۶۳

پیام: ۶۴

آیت ۲۶: ۶۵

نکات: ۶۵

پیام: ۶۶

آیت ۲۷: ۶۶

نکات: ۶۶

پیام: ۶۷

آیت ۲۸: ۶۷

نکات: ۶۸

پیام: ۶۸

۲۳۴

آیت ۲۹: ۶۹

پیام: ۶۹

آیت ۳۰: ۷۰

نکات: ۷۰

پیام: ۷۱

آیت ۳۱: ۷۱

نکات: ۷۱

پیام: ۷۲

آیت ۳۲: ۷۳

نکات: ۷۳

پیام: ۷۴

آیت ۳۳: ۷۵

نکات: ۷۵

پیام: ۷۶

آیت ۳۴: ۷۸

پیام: ۷۸

آیت ۳۵: ۷۸

پیام: ۷۹

آیت ۳۶: ۸۰

نکات: ۸۰

پیام: ۸۱

۲۳۵

آیت ۳۷: ۸۲

نکات: ۸۲

پیام: ۸۴

آیت ۳۸: ۸۵

نکات: ۸۵

پیام: ۸۶

آیت ۳۹: ۸۷

پیام: ۸۸

آیت ۴۰: ۸۸

پیام: ۸۹

آیت ۴۱: ۹۰

نکات: ۹۰

پیام: ۹۰

آیت ۴۲: ۹۱

نکات: ۹۱

پیام: ۹۲

آیت ۴۳: ۹۲

نکات: ۹۳

پیام: ۹۴

آیت ۴۴: ۹۵

نکات: ۹۵

۲۳۶

پیام: ۹۵

آیت ۴۵: ۹۶

نکات: ۹۶

پیام: ۹۶

آیت ۴۶: ۹۷

نکات: ۹۸

پیام: ۹۹

آیت ۴۷: ۹۹

نکات: ۹۹

پیام: ۱۰۰

آیت ۴۸: ۱۰۱

آیت ۴۹: ۱۰۱

نکات: ۱۰۱

پیام: ۱۰۳

آیت ۵۰: ۱۰۴

نکات: ۱۰۴

پیام: ۱۰۶

آیت ۵۱: ۱۰۷

نکات: ۱۰۷

پیام: ۱۰۸

آیت ۵۲: ۱۰۹

۲۳۷

نکات: ۱۰۹

پیام: ۱۱۰

آیت ۵۳: ۱۱۱

نکات: ۱۱۱

پیام: ۱۱۲

آیت ۵۴: ۱۱۳

نکات: ۱۱۳

پیام: ۱۱۵

آیت ۵۵: ۱۱۶

نکات: ۱۱۶

پیام: ۱۲۲

آیت ۵۶: ۱۲۳

آیت ۵۷: ۱۲۴

نکات: ۱۲۴

پیام: ۱۲۷

آیت ۵۸: ۱۲۹

نکات: ۱۲۹

پیام: ۱۳۰

آیت ۵۹: ۱۳۰

نکات: ۱۳۱

پیام: ۱۳۲

۲۳۸

آیت ۶۰: ۱۳۳

پیام: ۱۳۳

آیت ۶۱: ۱۳۴

نکات: ۱۳۴

آیت ۶۲: ۱۳۵

نکات: ۱۳۵

پیام: ۱۳۶

آیت ۶۳: ۱۳۷

پیام: ۱۳۷

آیت ۶۴: ۱۳۸

نکات: ۱۳۸

پیام: ۱۳۹

آیت ۶۵: ۱۳۹

نکات: ۱۴۰

پیام: ۱۴۱

آیت ۶۶: ۱۴۲

نکات: ۱۴۲

پیام: ۱۴۳

آیت ۶۷: ۱۴۳

پیام: ۱۴۴

آیت ۶۸: ۱۴۶

۲۳۹

نکات: ۱۴۶

پیام: ۱۴۷

آیت ۶۹: ۱۴۸

نکات: ۱۴۸

پیام: ۱۴۹

آیت ۷۰: ۱۵۰

نکات: ۱۵۰

پیام: ۱۵۲

آیت ۷۱: ۱۵۲

آیت ۷۲: ۱۵۳

نکات: ۱۵۳

پیام: ۱۵۳

آیت ۷۳: ۱۵۴

نکات: ۱۵۴

پیام: ۱۵۴

آیت ۷۴: ۱۵۵

نکات: ۱۵۵

پیام: ۱۵۵

آیت ۷۵: ۱۵۶

پیام: ۱۵۶

آیت ۷۶: ۱۵۷

۲۴۰

241

242

243

244

245

246