یوسف قرآن

یوسف قرآن 30%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174815 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اگرچہ خواب کے سلسلے میں مختلف نظریات ہیں لیکن کسی نے بھی خواب کی حقیقت و اصلیت سے انکار نہیں کیا ہے ۔ہاں اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ تمام خواب ایک ہی تحلیل کے ذریعہ قابل حل نہیں ہیں ۔

علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان(۱) میں فرماتے ہیں : عالم وجود تین ہیں(۱) عالم طبیعت(۲) عالم مثال(۳) عالم عقل ، چونکہ انسان کی روح مجرد ہے لہٰذا خواب میں ان دو عالم سے ارتباط پیدا کرتی ہے اور استعداد و امکان کے مطابق حقائق کو درک کرتی ہے اگر روح کامل ہو تو صاف فضا میںحقائق کو درک کرلیتی ہے اور اگر روح کمال کے آخری درجوں تک نہ پہنچی ہو تب بھی حقائق کو دوسرے سانچوںمیں درک کرلیتی ہے ۔

جس طرح عالم بیداری میں ہم شجاعت کو شیر کے سانچے میں ،حیلہ و مکر کو لومڑی کے قالب میں اور بلندی کو پہاڑکی صورت میں دیکھتے ہیں اسی طرح خواب میں علم کو نور ، شادی بیاہ کو لباس اور جہل ونادانی کو سیاہ چہرہ کے قالب میں دیکھتے ہیں ۔اس بحث کے نتیجہ کو ہم چند مثالوں میں پیش کرتے ہیں ۔ جو لوگ خواب دیکھتے ہیں ان کی متعدد قسمیں ہیں :

پہلی قسم : ان لوگوں کا خواب جو کامل اور مجرد روح کے حامل ہیں وہ حواس کے خواب آلود ہونے کے بعد عالم عقل سے ارتباط پیداکرتے ہوئے حقائق کو صاف وشفاف دوسری دنیا سے حاصل کرلیتے ہیں (جیسے ٹی۔وی اپنے مخصوص انٹینے کے ذریعہ کہ جو بلندی پر نصب ہوتاہے دور دراز کی امواج کو بھی باآسانی پکڑ لیتاہے )ایسے خواب جو حقائق کو

--------------

( ۱ )المیزان فی تفسیر القرآن ج ۱۱ ص ۲۹۹

۲۱

براہ راست درک کرلیتے ہیں وہ تعبیر کے محتاج نہیں ہوتے ہیں ۔

دوسری قسم : ان لوگوں کا خواب جو متوسط روح کے حامل ہوتے ہیں ایسے افراد حقائق کو دھندلا ، اور تشبیہ و تخیل کے ساتھ دیکھتے ہیں (ایسے خواب کی تعبیر کے لئے ایسا مفسر درکار ہے جو مشاہدات کی دنیا سے دور رہ کر تفسیر کرے یعنی جوکہ خوابوں کی تعبیر جانتا ہو اسے خواب کی تعبیر کرنی چاہیئے)

تیسری قسم : ایسے افراد کا خواب جن کی روح حد درجہ پریشان اور گوناگوں خیالات میں گم ہوتی ہے ایسے لوگوں کا خواب کوئی مفہوم ہی نہیں رکھتا یہ خواب کی وہ قسم ہے جو تعبیر کے قابل نہیں ہے ایسے ہی خواب کو قرآن نے ''اضغاث احلام''(یعنی پریشان کرنے والے خواب)کے نام سے یاد فرمایا ہے۔

ابن سیرین نے خواب کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب کسی نے اس سے پوچھا کہ اس خواب کی تعبیر کیا ہے کہ ایک شخص عالم خواب میں منہ اور شرمگاہ پر مہر لگا رہا ہے ؟ تو ابن سیرین نے جواب دیا : وہ شخص ماہ مبارک رمضان کا موذن ہوگا جو اذان کے ذریعہ کھانے اور جماع کوممنوع اعلان کرے گا (یعنی اذان سنتے ہی کھانا پینا اور جماع حرام ہے)

قرآن نے کچھ ایسے خوابوں کا ذکر کیا ہے جو تحقق پذیر ہوئے ہیں ۔ آپ حضرات مندرجہ ذیل خوابوں کو ملاحظہ فرمائیں :

الف۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب جس میں انہوں نے گیارہ ستارے اور چاند و سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔ اس کی تعبیر یہ ہوئی کہ حضرت یوسف (ع)بادشاہ ہوگئے اور بھائیوں اور ماں باپ نے سرتسلیم خم کردیا۔

۲۲

ب۔ قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دونوں ساتھیوں کا خواب جس کی تعبیر یہ ہوئی کہ ایک آزاد ہو گیا دوسرے کو سزائے موت سنائی گئی ۔

ج۔ عزیز مصر کا خواب کہ لاغر اور کمزور گائے موٹی تازی گائے کو کھا رہی ہے جس کی تعبیر یہ ہوئی کہ کھیتی ،سرسبزو شادابی کے بعد خشک سالی میں تبدیل ہوگئی ۔

د۔ جنگ بدر میں پیغمبر اسلام (ص) کا خواب جس میں آپ (ص)نے مشرکین کی تعداد کو کم دیکھاجس کی تعبیر مشرکوں کی شکست ہوئی(۱)

ھ۔ حضرت پیغمبر اسلام (ص) کا وہ خواب کہ مسلمین اپنا سر منڈوائے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہورہے ہیں ۔ جس کی تعبیر فتح مکہ اور خانہ خدا کی زیارت ہوئی(۲)

و۔ حضرت موسیٰ (ع)کی مادر گرامی کا خواب جس میں انہیں جناب موسیٰ (ع)کو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا(اذ اوحینا الی امک ما یوحی ان اقذفیه فی التابوت) (۳)

''جب ہم نے آپ کی والدہ کی طرف اس بات کا الہام کیا جو بات الہام کی جاتی ہے (وہ یہ)کہ اس (بچے)کو صندوق میں رکھ دیں...''، روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ

--------------

( ۱ )سورہ انفال آیت ۴۳.( إِذْ یُرِیکَهُمُ اﷲُ فِي مَنَامِکَ قَلِیلًا وَلَوْ أَرَاکَهُمْ کَثِیراً لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ...)

( ۲ )سورہ فتح آیت ۲۷.( لَقَدْ صَدَقَ اﷲُ رَسُولَهُ الرُّیَا بِالْحَقِّ ...)

( ۳ )سورہ طہ آیت ۳۸ ۔ ۳۹

۲۳

یہاں وحی سے مراد وہی''خواب''ہے

ز۔ حضرت ابراہیم (ع)کا خواب کہ وہ اپنے فرزند اسماعیل (ع)کو ذبح کررہے ہیں(۱)

قرآنی خوابوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے افراد کو جانتے ہیں جنہوںنے خواب کے ذریعہ بعض ایسے امور سے آگاہی حاصل کی ہے کہ جہاںتک معمولاً انسان کی رسائی ناممکن ہوتی ہے ۔

سید قطب فرماتے ہیں :میں نے امریکہ میں خواب دیکھاکہ میرے بھانجے کی آنکھ سے خون بہہ رہا ہے ۔ میں نے مصر ایک خط لکھا جواب ملایہ بات صحیح ہے حالانکہ خونریزی ظاہراً آنکھوں سے نہیں ہورہی تھی ۔

ملا علی ہمدانی جو کہ مراجع تقلید میں سے تھے ان سے حکایت ہوئی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے ایک عالم نے خواب میں پیغمبراکرم (ص) کو دیکھا جنہوںنے اس سے فرمایا:

'' ابھی جو پیغام ایران سے پہنچا ہے کہ اس سال وجوہات سامرہ سے نہیں پہنچیں گی اس سے پریشان نہ ہوں، الماری میں سو تومان ہیں انہیں لے لو''۔

جب میں خواب سے بیدارہوا تو میرزائے شیرازی کے نمائندے نے دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھے ان کے سامنے پیش کردیا میں جیسے ہی حاضر ہوا میرزائے شیرازی نے فرمایا :الماری میں سو تومان ہیں دروازہ کھول کر نکال لو اور مجھے سمجھایا کہ خواب کے موضوع کو ظاہر نہ کرو۔

--------------

(۱)سورہ صافات آیت ۱۰۲(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَيَّ إِنِّي أَرَیٰ فِی الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُکَ...)

۲۴

صاحب مفاتیح الجنان جناب شیخ عباس قمی (رح) نے اپنے بیٹے کو خواب میں آکرکہا : میرے پاس ایک کتاب امانت تھی اس کو اس کے مالک تک پہنچا دو تاکہ میں برزخ میں آرام سے رہ سکوں۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئے تو اس کتاب کی تلاش میں لگ گئے جو علامتیں باپ نے بتائی تھیں ان کے مطابق کتاب کو لے کر چلے لیکن راستے میں وہ کتاب گر کر تھوڑی سی خراب ہوگئی ۔اسی کتاب کو انہوںنے مالک تک پہنچادیا اور باپ کی طرف سے عذر خواہی بھی کرلی۔ رات کو محدث قمی دوبارہ اپنے فرزندکے خواب میں آئے اور فرمایا: تم نے اس کتاب کے مالک سے کیوں نہیں کہاکہ وہ کتاب تھوڑی سی خراب ہوگئی ہے تاکہ وہ اگرتاوان چاہتا تو تم سے اسکا مطالبہ کرتایا اسی عیب پر راضی ہوجاتا ۔

پیام:

۱۔ ماںباپ اپنے بچوں کی مشکلات کو حل کرنے کیا بہترین ذریعہ ہیں(یا ابت)

۲۔ والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچے کے خواب کے بارے میں بھی متوجہ رہیں(یا ابت)

۳۔ خواب کی لغت میں ''اشیاء حقائق کی نمائندگی کرتی ہیں ''(مثلاً خورشید باپ کی اور چاند ماں کی اور ستارے بھائیوں کی علامت ہیں)۔(رایت احد عشرا کوکبا...)

۴۔ کبھی خواب دیکھنا حقائق کو دریافت کرنے کا ایک راستہ ہوتاہے ۔( انی رایت)

۵۔ کبھی نوجوانوں میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے جو بزرگوں کو سرجھکانے پر مجبور کردیتی ہے(ساجدین)

۶۔ اولیائے خدا کا خواب سچا ہوتاہے(ر ایت)

اس آیت میں ''رایت ''کی تکرار اس بات کی علامت ہے کہ حتماًدیکھاہے۔ واقعہ خیالی و تصوری نہیں ہے بلکہ خارجی حقیقت رکھتاہے ۔

۷۔ حضرت یوسف (ع)شروع میں خواب کی تعبیر نہیں جانتے تھے لہٰذا خواب کی تعبیر کے لئے اپنے باپ سے مدد طلب کی(یا ابت)

۲۵

آیت ۵:

(۵) قَالَ یَابُنَیَّ لاَتَقْصُصْ رُیَاکَ عَلَی إِخْوَتِکَ فَیَکِیدُوا لَکَ کَیْدًا إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُبِینٌ

''یعقوب (ع)نے کہا: اے بیٹا (دیکھو خبردار)کہیں اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا (ورنہ) وہ لو گ تمہارے لئے مکاری کی تدبیر کرنے لگیں گے اس میں تو شک ہی نہیں ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا ہوا دشمن ہے''۔

نکات:

اصول زندگی میں سے ایک اصل ''راز داری'' ہے اگر مسلمانوں نے اس آیت کی روشنی میں عمل کیا ہوتا تو یہ سب استعداد و سرمایہ ، خطی کتابیں ،علمی آثار اور تما م آثار قدیمہ دوسرے ممالک کے میوزیم میںنہ ہوتے اور محقق ( Diplomite )وسیاح کے روپ میں دشمن ہمارے منافع ، منابع اور امکانات سے باخبر نہ ہوتااور سادہ لوحی و خیانت کی وجہ سے ہمارے اسرار ایسے لوگوںکے ہاتھ میں نہ جاتے جو ہمیشہ مکر وفریب کے ذریعہ ہماری تاک میں رہتے ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوںکے سامنے اپنے خواب کو اپنے باپ سے بیان نہ کرنا خود آپ (ع)کی عقل مندی کی علامت ہے ۔

۲۶

پیام:

۱۔والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کی خواہشات اور عادات سے آگاہ ہوں تاکہ صحیح راستہ کی رہنمائی کرسکیں۔(فیکیدوالک کید)

۲۔ معلومات اور اطلاعات کی تقسیم بندی کرتے ہوئے پوشیدہ اور آشکار چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا چاہئے(لاتقصص)

۳۔ ہر بات کو ہرکس وناکس سے نہیں کہنا چاہیئے(لاتقصص)

۴۔حسادت کی راہوں کو نہ بھڑکائیں(لاتقصص...فیکیدو)

۵۔اگر کچھ خواب بیان کرنے کے لائق نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہواکہ بیداری میں دیکھی جانے والی بہت ساری چیزوں کو بھی بیان نہیں کرنا چاہئے(لاتقصص)

۶۔ انبیاء (ع)کے گھرانوں میں بھی مسائل اخلاقی مثلاً حسد و حیلہ وغیرہ موجود ہیں(یا بنی لاتقصص...فیکیدوا...)

۷۔ اہم مسائل کی صحیح پیش بینی کرتے ہوئے اگر سوء ظن کا اظہار کیا جائے یا بعض خصلتوں سے پردہ فاش کیا جائے تو کوئی برائی نہیں ہے ۔(فیکیدوالک کید)

۸۔ انسان کا مکر و فریب میں مبتلا ہونا شیطانی کام ہے(فیکیدوا...ان الشیطان)

۹۔ شیطان ہماری اندرونی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم پر مسلط ہوجاتا ہے ۔ بھائیوں کے درمیان حسد و جلن کے ماحول نے شیطان کے لئے انسان سے دشمنی کرنے کی راہ کو ہموار کردیا(فیکیدوا...ان الشیطان للانسان عدو مبین)

۲۷

آیت ۶:

(۶) وَکَذَلِکَ یَجْتَبِیکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ یَعْقُوبَ کَمَا أَتَمَّهَا عَلَی أَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّکَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ

''(جو تم نے دیکھا ہے )ایسا ہی ہو گا تمہارا پروردگار تم کو برگزیدہ قرار دے گا اور تمہیں ان باتوں کے انجام کا علم (اور خوابوں کی تعبیر)سکھائے گا اور وہ اپنی نعمت کو تم پر اور خاندان یعقوب پر اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے تمہارے دادا و پردادا پر اپنی نعمتیں پوری کرچکا ہے بے شک تمہارا پروردگار بڑا واقف کار حکمت والا ہے''۔

نکات:

تاویل خواب باطن کو بیان کرنا اور خواب کے وقوع کی کیفیت ہے ''احادیث''کلمہ ''حدیث'' کی جمع ہے یہ کلمہ ''ماجرا بیان کرنے''کے معنی میں استعمال ہوتاہے چونکہ انسان اپنے خواب کو مختلف لوگوں سے بیان کرتاہے لہٰذا خواب کو بھی حدیث کہا جاتا ہے بنابریں''تاویل الاحادیث'' یعنی خوابوں کی تعبیر۔

حضرت یعقوب (ع)اس آیت میں اپنے فرزند جناب یوسف (ع)کو ان کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے ان کے مستقبل کی خبر دے رہے ہیں

۲۸

پیام:

۱۔ اولیائے الٰہی خواب کے ذریعہ افراد کے مستقبل کا نظارہ کرتے ہیں(یجتبیک ربک و یعلمک)

۲۔ انبیاء علیہم السلام، خداوندعالم کے برگزیدہ افراد ہیں( یجتبیک )

۳۔ انبیاء (ع)اللہ کے بلا واسطہ شاگرد ہیں( یعلمک)

۴۔ مقام نبوت و حکومت، نعمتوں کا سرچشمہ ہے( ویتم نعمته)

۵۔ انبیاء گرامی (ع)کا انتخاب علم و حکمت الٰہی کی بنیاد پر ہے(یجتبیک. علیم حکیم)

۶۔ اپنے برگزیدہ بندوں کے لئے خدا وند عالم کا سب سے پہلا تحفہ ''علم ''ہے(یجتبیک ربک و یعلمک)

۷۔ تعبیر خواب ان امور میں سے ہے جسے خداوندمتعال انسان کو عطاکرتاہے ۔(یعلمک من تاویل الاحادیث)

۸۔ انتخاب میں لیاقت کے علاوہ اصل و نسب بھی اہمیت رکھتاہے(یجتبیک ...و ابویک من قبل )

۹۔ قرآن کی لغت میں اجداد باپ کے حکم میں ہیں:( ابویک من قبل ابراهیم و اسحاق )

۲۹

آیت ۷:

(۷) لَقَدْ کَانَ فِی یُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آیَاتٌ لِلسَّائِلِینَ

'' یوسف اور انکے بھائیوں (کے قصہ)میں پوچھنے والوں کےلئے یقینا بہت سی (ارادہ خداکے حاکم ہونے کی) نشانیاں ہیں''۔

نکات:

حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کی داستان میں بہت سی ایسی علامتیں اور نشانیاں موجود ہیں جن سے خداوندعالم کی قدرت آشکار ہوتی ہے ان میں سے ہر ایک اہل تحقیق و جستجو کے لئے عبرت و نصیحت کا باعث ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا پُر اسرار خواب (۲)تعبیر خواب کا علم (۳) حضرت یعقوب (ع)کا اپنے فرزند کے مستقبل سے مکمل طور پر آگاہ ہونا (۴)کنویں میں رہنا اور کسی خطرے سے دوچار نہ ہونا(۵) اندھا ہونا اوردوبارہ بینائی کا لوٹنا (۶)کنویںکی گہرائی اور جاہ و جلال کی بلندی (۷)قید خانہ میں جانااور حکومت تک پہنچنا (۸)پاک رہنا اور ناپاکی کی تہمت سننا (۹) فراق و وصال (۱۰)غلامی و بادشاہی (۱۱)گناہوں کی آلودگی کے بجائے زندان کو ترجیح دینا (۱۲)اپنی بزرگواری سے بھائیوںکی غلطیوں کو جلد معاف کردینا۔

انہیں نشانیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے سوالات بھی ہیں جن میں سے ہر ایک کا جواب زندگی کی راہوں کو روشن کرنے والا ہے ۔

۳۰

حسادت انسان کو بھائی کے قتل پر کیسے آمادہ کردیتی ہے ؟

دس آدمی ایک خیانت میں کیسے متحد ہوجاتے ہیں ؟

حضرت یوسف علیہ السلام اپنی بزرگواری کی وجہ سے اپنے خیانت کار بھائیوں کو سزا دینے سے کیسے صرف نظر کرلیتے ہیں ؟

انسان آلودگی اور لذت گناہ پر یاد الٰہی کے ساتھ قید خانہ کو کیسے ترجیح دیتاہے؟

یہ سورہ اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر اسلام (ص) اقتصادی اور اجتماعی محاصرہ میں سخت گرفتار تھے۔ یہ داستان ا نحضر(ص)ت کی تسلی ئخاطر کا باعث ہوئی کہ اے پیغمبر اگر آپ کے بعض رشتہ دار ایمان نہیں لاتے ہیں تو آپ رنجیدہ نہ ہوں ،جناب یوسف کے بھائیوں نے تو ان کو کنویں میں ڈال دیا تھا ۔

اس سورہ کی اہم آیتیں سازشوں پر خدا کے غلبہ کے بارے میں ہیں(بشری سازشیں ارادہ الٰہی کے سامنے بیکار ہوجاتی ہیں) حضرت یوسف (ع)کو کنویں میں ڈال دیاتاکہ باپ کے نزدیک محبوب ہوجائیں ۔ لیکن مبغوض ہو گئے دروازوں کو بند کیا گیا تاکہ آپ (ع)شہوت سے آلودہ ہوجائیں لیکن آپ(ع) کی پاکیزگی ثابت ہوگئی ،نہ کنواں ، نہ غلامی نہ قید خانہ نہ قصر اور نہ سازشیں کوئی بھی ارادہ الٰہی پر غالب نہ آسکیں ۔

۳۱

پیام:

۱۔ قصہ بیان کرنے سے پہلے سننے والے کو داستان سننے اور عبرت آموزی کے لئے آمادہ کریں(لقد کان فی یوسف)

۲۔ جب تک سننے اور سیکھنے کے عاشق نہ ہوں اس وقت تک قرآنی درسوں سے بطور کامل فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں(للسائلین)

۳۔ داستان ایک ہے لیکن اس واقعہ سے حاصل ہونے والے درس اور نکات بہت ہیں( آیات)

۴۔ قرآنی داستانیں زندگی میں پیش آنے والے بہت سے سوالوں کا جواب دیتی ہیں(للسائلین)

۵۔ ''حسد''خاندان اور رشتہ داری کے محکم ستون کو بھی منہدم کردیتاہے(لقد کان فی یوسف)

آیت ۸:

(۸)إِذْ قَالُوا لَیُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَی أَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَ إِنَّ أَبَانَا لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ

''جب (یوسف کے بھائیوں نے)کہا کہ باوجودیکہ ہماری جماعت بڑی طاقت ور ہے تاہم یوسف اور اس کا حقیقی بھائی (بنیامین )ہمارے والد کے نزدیک ہم سے بہت زیادہ پیارے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے والد یقینا صریح غلطی میں ہیں''۔

نکات:

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ لڑکے تھے ان میں سے دو (یوسف و بنیامین) ایک ماں سے تھے جبکہ باقی دوسری ماں سے تھے۔ باپ کی محبت جناب یوسف (ع)سے (آپ (ع)کے چھوٹے ہونے یا کمالات کی وجہ سے تھی)بھائیوں کے لئے حسد و جلن کا سبب بنی اور حسادت کے علاوہ ''نحن عصب''کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر خوئے تکبر اور غرور بھی موجود تھی اور اسی غرور و تکبرکے نتیجہ میں باپ کو بچوں سے محبت کرنے پر انحراف اور غلطی سے متہم کرنے لگے

۳۲

معاشرے اور سماج میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو خود کو بلندی پر لے جانے کے بجائے بلند افراد کو نیچے لے آتے ہیں ۔ خود محبوب نہیں ہیں لہٰذا محبوب افراد کو داغدار کرتے ہیں ۔

تبعیض و تفاوت کے درمیان فرق: تبعیض کسی کو بغیر دلیل کے برتری دینا ۔تفاوت:لیاقت و شرافت کی بنیاد پر برتری دینا ۔ مثلاًڈاکٹر کے نسخے اور معلم کے نمبر فرق کرتے ہیں لیکن یہ تفاوت حکیمانہ ہے ظالمانہ نہیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے محبت حکیمانہ تھی نہ کہ ظالمانہ لیکن حضرت یوسف (ع)کے بھائی اس محبت کو تبعیض اور بدون دلیل سمجھ رہے تھے ۔

کبھی زیادہ محبت مصیبتوں کا سبب بنتی ہے ۔ حضرت یعقوب - حضرت یوسف - کو بہت چاہتے تھے یہی محبت بھائیوںکے کینہ اور ان کے کنویں میں ڈالے جانے کا سبب بنی اسی طرح'' زلیخا کی حضرت یوسف (ع)سے محبت '' قید خانہ میں جانے کا سبب بنی لہٰذا جب حضرت (ع)کے اخلاق سے متاثر ہو کر زندان بان نے کہاکہ میں آپ (ع)سے محبت کرتا ہوں تو حضرت (ع)نے فرمایا : میں ڈرتا ہوں کہیں اس محبت و دوستی کے پیچھے بھی کوئی مصیبت پوشیدہ نہ ہو۔(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر الستین الجامع.

۳۳

پیام:

۱۔ اگر اولاد تبعیض اور دو گانگی کا احساس کرلے توا ن کے درمیان حسادت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے(احب ابینامنّ)

۲۔ بچوں کے درمیان تفاوت کرنے سے باپ سے ان کا عشق و محبت کم ہوجاتاہے(ان ابانا لفی ضلال مبین)

۳۔ طاقت و قدرت محبت آور نہیں ہے(احب الی ابینا و نحن عصب)

۴۔ ''حسد ''نبوت اور پدری حدود کو بھی توڑ دیتاہے اور بچے اپنے باپ کو جو پیغمبر بھی ہیں ''منحرف''اور ''بے انصاف''کہنے لگتے ہیں(ان ابانا لفی ضلال مبین)

۵۔ محبوب نظر ہونے کا عشق اور اسکی محبت ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے اگر کوئی انسان سے محبت نہ کرے یا کم توجہی برتے تو انسان کو اس سے تکلیف ہوتی ہے(احب الی ابین)

۳۴

آیت ۹:

(۹) اقْتُلُوا یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا یَخْلُ لَکُمْ وَجْهُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِینَ

''(بھائیوں نے ایک دوسرے سے کہاخیر تو اب مناسب یہ ہے کہ یاتو)یوسف کو مار ڈالو یا (کم از کم ) اس کو کسی جگہ (چل کر)پھینک تو البتہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی اور اسکے بعد تم سب کے سب (باپ کی توجہ سے)اچھے آدمی بن ج گے''۔

نکات:

جب انسان کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو اس کی چار حالتیں ہوتی ہیں ۔حسادت ، بخل ، ایثار، غبطہ ۔ جب یہ فکر ہو کہ اگر ہمارے پاس فلاں نعمت نہیں ہے تو دوسرے بھی اس نعمت سے محروم رہیں تو اسے ''حسادت'' کہتے ہیں۔اگر یہ فکر ہو کہ یہ نعمت فقط میرے پاس رہے دوسرے اس سے بہرہ مند نہ ہوں تو اسے ''بخل''کہتے ہیں اگریہ فکر ہو کہ دوسرے اس سے بہرہ مند ہوں اگرچہ ہم محروم رہیں تو اسے ''ایثار'' کہتے ہیں۔ اگر یہ کہے کہ دوسرے افراد نعمت سے بہرہ مند رہیں ۔اے کاش ہم بھی نعمت سے بہرہ مند ہوتے تو اسے غطبہ اور رشک کہتے ہیں ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں کبھی اپنے بچوں سے اظہار محبت کرتاہوں اور انہیں اپنے زانوں پر بٹھاتاہوں جبکہ وہ ان تمام محبتوں کے مستحق نہیں ہوتے (میں اس لئے ایسا کرتا ہوں کہ) کہیں ایسا نہ ہوکہ میرے تمام فرزند ایک دوسرے سے حسد وجلن کرنے لگیں اور حضرت یوسف (ع)کے ماجرے کی تکرار ہوجائے۔(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر نمونہ بنقل بحار، ج ۷۴ ص ۸۷

۳۵

پیام:

۱۔ بُری فکر انسان کو خطرناک عمل کی طرف لے جاتی ہے(لیوسف.احب .اقتلو)

۲۔ حسد وجلن انسان کو بھائی کے قتل پر آمادہ کرتی ہے(اقتلوا یوسف)

۳۔انسان ، محبت کا خواہاں ہے اور محبت کا کم ہونابہت بڑے خطرات و انحرافات کا باعث ہوتاہے(یخل لکم وجه ابیکم)

۴۔ اگرچہ قرآن ''محبوبیت کی راہ''ایمان و عمل صالح کو قرار دیتاہے ان الذین

امنوا و عملوا الصالحات سیجعل لهم الرحمن ودّا (۱) لیکن شیطان محبوبیت کی راہ کو برادر کشی بتاتا ہے(اقتلوا ...یخل لکم وجه ابیکم)

۵۔ حسد کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ دوسروں کو نابود کرنے سے اسے نعمتیں مل جائیں گی ۔(اقتلوا ...یخل لکم وجه ابیکم)

۶۔ شیطان کل توبہ کرلینے کا دھوکا دے کر آج گناہ کا راستہ دکھاتا ہے۔(وتکونوا من بعده قوماً صالحین)

۷۔ علم و آگاہی ہمیشہ انحراف سے دوری کا سبب نہیں ہے ۔ جناب یوسف (ع)کے بھائیوں نے قتل اور شہر بدر کرنے کو برا سمجھنے کے باوجود اسی کو انجام دی(و تکونوا من بعدہ قوما صالحین)

آیت ۱۰:

(۱۰) قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لاَتَقْتُلُوا یُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِی غَیَابَ الْجُبِّ یَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّیَّارَ إِنْ کُنتُمْ فَاعِلِینَ

''ان میں سے ایک کہنے والا بول اٹھا کہ یوسف کو جان سے تو نہ مارو (ہاں اگر تم کو ایسا ہی کرنا ہے) تو کسی اندھے کنویں میں (لے جاکر)ڈال دو کوئی راہ گیر اسے نکال کر لے جائے گا(اور تمہارا مطلب بھی حاصل ہوجائےگا)''

--------------

( ۱ )سورہ مریم آیت ۹۶

۳۶

نکات:

''جُبّ'' اس کنویں کو کہتے ہیں جس میں پتھر نہ بچھائے گئے ہوں''غیابت'' بھی ان طاقچوں کوکہتے ہیں جو کنویںکی دیوار میں پانی کے قریب ہوتے ہیں جو اوپر سے دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔

نہی از منکر(برائیوں سے روکنا) ایسی برکتوں کا حامل ہے جو آئندہ روشن ہوتے ہیں۔(لا تقتلوا) نے حضرت یوسف (ع)کو نجات دلائی اور اس کے بعد آپ (ع)نے ایک مملکت کو قحط سے نجات دلائی اسی طرح جس طرح ایک دن جناب آسیہ نے فرعون سے'' لاتقتلوا'' کہہ کرجناب موسی (ع)کو نجات دلائی اور اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی در حقیقت یہ وعدہ الٰہی کا روشن نمونہ ہے خداوندعالم فرماتاہےمن احیاء ها فکانما أحیا الناس جمیعا (۱) جو بھی ایک شخص کو حیات دے گا گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

پیام:

۱۔ اگر برائیوں کو بطور کامل نہیں روک سکتے تو جہاں تک ممکن ہو روکنا چاہئیے۔(لاتقتلوا ...والقوه)

-----------

۱:سورہ مائدہ آیت ۳۲.

۳۷

آیت ۱۱:

(۱۱) قَالُوا یَاأَبَانَا مَا لَکَ لاَتَأْمَنَّا عَلَی یُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ

''سب نے (یعقوب سے)کہا اباجان آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم لوگ تو اس کے خیر خواہ ہیں''۔

پیام:

۱۔ جو لوگ کچھ نہیں ہوتے وہ زیادہ دعوی اور پروپیگنڈا کرتے ہیں۔(انا له لناصحون)

۲۔ ہر بھائی قابل اطمینان نہیںہے(گویاحضرت یعقوب نے جناب یوسف کوبارہا بھائیوں کےساتھ جا نے سے روکا ہے اسی لئے بھائیوں نے یہ کہہ کر(مالک لاتأمنّ) اعتراض کیا ہے )

۳۔ نعرے بازی سے دھوکا نہ کھ اور بے مسمی اسم سے پرہیز کرو (خائن اپنا نام ناصح رکھتا ہے)(لناصحون)

۴۔ دشمن بد گمانی کو دور کرنے کے لئے ہر قسم کا اطمینان دلاتا ہے ۔(اناله لناصحون)

۵۔ خیانت کار اپنی غلطی کو دوسروں کی گردن پر ڈالتاہے ۔(مالک)

۳۸

۶۔ روز اول ہی سے انسان نے خیر خواہی کے نام پر دھوکا کھایا ہے ، شیطان نے جناب آدم و حوا کوغفلت میں ڈالنے کے لئے یہی کہا تھا کہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں(وقاسمهما انی لکما لمن الناصحین) (۱) (انا له لناصحون)

۷۔بعض و حسد،انسان کو مختلف گناہوں پر مجبور کرتاہے (جیسے جھوٹ ، دھوکہ دینا یہاں تک کہ اپنے محبوب ترین رشتہ دارکو بھی دھوکہ دینا چاہتا ہے ۔(انا له لناصحون)

آیت ۱۲:

(۱۲) أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.

'' آپ اس کو کل ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ ذرا (جنگل) سے پھل پھلاری کھائے اور کھیلے کودے اور ہم لوگ تو اس کے نگہبان ہی ہیں''۔

نکات:

انسان تفریح و ورزش کا محتاج ہے جیسا کہ اس آیت میں مشاہدہ ہوتاہے کہ وہ قوی ترین منطق و دلیل جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع)کو اپنے بیٹوں کی خواہش کو تسلیم کرنا پڑا وہی تفریح ہے کہ یوسف کو تفریح کی ضرورت ہے، بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مومن کو اپنا کچھ وقت تفریح ولذات کے لئے مخصوص کرنا چاہیئے تا کہ اس کے وسیلہ سے تمام کام بخوبی انجام دے(۲)

--------------

( ۱ )سورہ اعراف آیت ۲۱

( ۲ )نہج البلاغہ حکمت ۳۹۰

۳۹

فقط کل ہی نہیںبلکہ آج بھی اور آئندہ بھی اس کھیل اور ورزش کے بہانے جوانوں کو سرگرم کیاجارہا ہے اور کیاجاتا رہے گا ہمارے جوانوں کو حقیقی ہدف سے دور اور غفلت میں رکھا جا رہا ہے کھیلوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں تاکہ اہم چیزیں کھیل شمار ہونے لگیں۔ استکبار اور سازشی لوگ صرف کھیل کود سے سوء استفادہ نہیں کرتے بلکہ ہر پسندیدہ و مقبول نام سے اپنے برے اہداف کی ترویج کرتے ہیں، ڈپلومیٹ ( diplomate ) کے روپ میں خطرناک ترین جاسوسوں کو دوسرے ممالک میں روانہ کرتے ہیں فورس اور دفاعی امور کے مشیر ہونے کے پیچھے سازش کرتے ہیں اور اس کے راز حاصل کرلیتے ہیں۔

حقوق بشر کے بہانے کرکے اپنے نوکروں کی حمایت کرتے ہیں، دوا کے نام پر اپنے نوکروں کے لئے اسلحہ روانہ کرتے ہیں ، اقتصادی ماہرین کے بہانے ممالک کو کمزور تر بنا دیتے ہیں ، سم پاشی کے بہانے باغات اور کھیتوں کو برباد کردیتے ہیں ۔حتی اسلامی ماہرین کے روپ میں غیر اسلامی چیزوں کو اسلامی لباس میں پیش کرتے ہیں۔

پیام:

۱۔بچے کی تفریح باپ کی اجازت سے ہونی چاہیئے(ارسله)

۲۔ورزش و تفریح ، کھیل کود شیطانی جالوںمیں سے ایک جال ہے اور غافل کرنے کا ذریعہ ہے(ارسله معنا غدا یرتع و یلعب)

۳۔ بھائیوں نے دھوکہ دینے کے لئے مباح اور منطقی وسیلہ سے سوء استفادہ کیا(ارسله ...یرتع و یلعب)

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عقیدۂ اختیار

اہل تشیع نے اس عقیدہ کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں اختیار کیا ہے، یعنی انسانوں کے کام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں اور وہ صاحب اختیار ہے لیکن خواستہ الٰہی بھی اس کے شامل حال ہے او رقضا ء وقدر الٰہی کا اثر بھی ہے۔ جس طرح تمام موجودات کاوجود خدا کے وجود کی بنا پر ہے اور ہر صاحب قدرت کی قوت اور ہر صاحب علم کا علم مرہون لطف الٰہی ہے اسی طرح سے ہر صاحب اختیار کا ارادہ اوراختیار خد ا کے ارادے اور اختیارکے سایہ میں جنم لیتا ہے ۔اسی لئے جب انسان کسی کام کاارادہ کرتاہے تویہ اختیار اور قدرت خداکی طرف سے ہے یا یوں کہاجائے کہ ارادہ وقدرت خدا وندی کے سایہ میں انسان کسی کام کا ارادہ کرکے اس کو انجام دے سکتا ہے اوریہی معنی ہیں۔( وما تشاؤن الا أن یشاء اللّه رب العالمین ) ( ۱ ) ''تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ عالمین کاپرور دگا ر خدا چاہے''(یعنی تمہا را ارادہ خدا کی چاہت ہے نہ یہ کہ تمہارا کام خدا کی درخواست اور ارادہ کی وجہ سے ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ تکویر آخری آیة

(۲) گم شدہ شما ۔محمد یزدی

۱۰۱

عقیدہ اختیار اور احادیث معصومین علیہم السلام

احمد بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلا م کی خدمت میں عرض کیا مولا بعض لوگ جبر اور''تفویض ''اختیار مطلق کے قائل ہیں امام علیہ السلام نے فرمایا لکھو !

قال علی ابن الحسینںقال عزوجل:''یا بن آدم بمشیتی کنت انت الذی تشاء بقوتی ادیت الی فرائضی وبنعمتی قویت علی معصیتی جعلتک سمیعاً بصیراً ما أصابکَ من حسنة فمِن اللّه وما أصابکَ من سیئةٍ فمن نفسک وذلکَ أنِّی أولیٰ بحسناتکَ منکَ وأنت أولیٰ بسیئاتک منیِ وذلکَ أنِّی لاأسئل عماأفعل وهم یُسئلون قد نظمت لکَ کلّ شیئٍ تُرید''

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا وند کریم کا فرمان ہے کہ اے فرزند آدم !تم ہمارے خواہش کے تحت ارادہ کرتے ہو اور ہماری دی ہو ئی طاقت سے ہما رے واجبات پر عمل کرتے ہو اور ہماری عطا کردہ نعمتوں کے نا جائز استعمال سے گناہ ومعصیت پر قدرت حاصل کرتے ہو ہم نے تم کو سننے او ر دیکھنے والا بنایا جو بھی نیکی تم تک پہنچے وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائی وجود میں آئے اس کے ذمہ دار تم ہو کیونکہ میں تمہاری نیکیو ں کے سلسلہ میں تم سے زیادہ حق دار ہوں اور تم اپنی برائی کے بابت مجھے سے زیادہ مستحق ہوکیونکہ میں کچھ بھی انجام دوںگا جو اب دہ نہیں ہوںگا لیکن وہ جو اب دہ ہو ں گے تم نے جو کچھ سوچا ہم نے تمہارے لئے مہیا کر دیا۔( ۱ )

ایک صحابی نے امام جعفر صادق سے سوال کیا کہ کیا خدا نے اپنے بندوں کو ان کے اعمال پر مجبور کیا ہے ۔ اما م نے فرمایا :''اللّهُ أعدل مِن أَن یجبر عبداً علیٰ فعلٍ ثُمَّ یعذّبه علیه''خدا عادل مطلق ہے اس کے لئے یہ بات روانہیں کہ وہ بندو ں کو کسی کا م پر مجبور کرے پھر انہیں اسی کام کے باعث سزادے۔( ۲ )

دوسری حدیث میں امام رضاںنے جبر وتفویض کی تردید کی ہے اور جس صحابی نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا خدا نے بندوں کو ان کے اعمال میں مکمل اختیار دیا ہے تو آپ نے جو اب میں فرمایا تھا ۔

''اللّه أعدلُ وأحکم من ذلک'' خدا اس سے کہیں زیادہ صاحب عدل وصاحب حکمت ہے کہ ایسا فعل انجام دے۔( ۳ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب امربین الامرین حدیث ۱۲

(۲) بحار الانوار ج ۵ ص ۵۱

(۳) اصول کا فی باب امر بین الامرین حدیث ۳

۱۰۲

جبر واختیار کا واضح راہ حل

عمومی فکر اور عالمی فطرت ،دونوں اختیار پر ایک واضح دلیل ہیں اور اختیار وجبر کے معتقد یں بھی ،عملی میدان میں آزادی اور اختیار ہی کو مانتے ہیںلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ !

۱۔ تمام لوگ اچھا ئی کرنے والوں کی مدح اور تحسین کرتے ہیں اور برائی کرنے والے کی تحقیر اورتوہین کرتے ہیں ،اگر انسان مجبور ہوتا اور اس کے اعمال بے اختیار

ہو تے تو مدح وتحسین، تحقیر وتوہین کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔

۲۔ سبھی لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوشش کرتے ہیں اگر انسان مجبور ہو تا تو تعلیم و تربیت کا کوئی مقصد نہیں باقی رہتا ہے۔

۳۔ کبھی انسان اپنے ماضی سے شرمندہ ہو تاہے اور اس بات کاارادہ کرتا ہے کہ ماضی کے بحرانی آئینہ میں مستقبل کو ضرور سنوارے گا ، اگر انسان مجبور ہوتا تو ماضی سے پشیمان نہ ہو تا اور مستقبل کے لئے فکر مند نہ ہو تا ۔

۴۔ پوری دنیا میں مجرموںپر مقدمہ چلا یا جاتاہے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اگر وہ لوگ اپنے کاموں میں مجبور تھے تو ان پر مقدمہ چلانا یاسزا دینا سراسر غلط ہے ۔

۵۔ انسان بہت سارے کاموں میں غور و خو ض کرتا ہے اور اگر اس کی پرواز فکر کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتی تو دوسرے افراد سے مشورہ کرتا ہے۔ اگر انسان مجبور ہو تا توغور وفکر او رمشورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے( ۱ )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ جلد ۲۶ ص ،۶۴ خلاصہ کے ساتھ۔'' عدالت کے سلسلہ میں ان کتب سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ اصول کا فی ،نہج البلا غہ ،پیام قران ،تفیسر نمونہ ،اصول عقائد ''

۱۰۳

سوالا ت

۱۔ جبروتفویض اور عقیدہ اختیار کی تعریف کریں ؟

۲۔ انسان کے مختار ہونے کے بارے میں شیعہ عقیدہ کیا ہے ؟

۳۔ عقیدۂ اختیار کے بارے میں سید سجا د کی حدیث پیش کریں ؟

۴۔ عقیدہ ٔجبر واختیار کاکوئی واضح راہ حل بیان کریں ؟

۱۰۴

پندرہواں سبق

نبوت عامہ (پہلی فصل )

اصول دین کی تیسری قسم نبوت ہے توحید وعدل کی بحث کے بعد انسان کی فطرت ایک رہبر ورہنما اور معصوم پیشوا کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔

یہاں وحی، حاملا ن وحی ا ور جو افراد لوگوں کو سعادت وکمال تک پہنچاتے ہیں ان کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی ۔

اس بحث میں سب سے پہلے انسان کووحی کی ضرورت اور بعثت انبیاء کے اغراض ومقاصد نیز ان کی صفات وخصوصیا ت بیان کئے جائیں گے جس کو علم کلام کی زبان میں نبوت عامہ کہتے ہیں۔

اس کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور ان کی خاتمیت کی بحث ہوگی کہ جس کو نبوت خاصہ کہتے ہیں ۔

وحی اور بعثت انبیاء کی ضرورت

۱) مخلوقات کو پہچاننے کے لئے بعثت لا زم ہے ۔

اگر انسان کا ئنات کو دیکھے تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ دنیا کی خلقت بغیر ہدف ومقصد کے ہوئی ہے گزشتہ بحث میں یہ بات گذر چکی ہے کہ خدا حکیم ہے اور عبث وبیکا ر کام نہیں کرتا ۔ کا ئنات کا نظم ،موجودات عالم کا ایک ساتھ چلنا بتاتا ہے کہ تخلیق کا کوئی معین ہدف ومقصد ہے لہٰذا یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ :

۱۔ خدا نے اس دنیا کو کس لئے پیدا کیا او رہما ری خلقت کا سبب کیا ہے ؟

۲۔ ہم کس طر ح سے اپنے مقصد تخلیق تک پہنچیں ، کامیا بی اور سعادت کا راستہ کون سا ہے اور اسے کس طرح سے طے کریں۔ ؟

۱۰۵

۳۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا کیا مو ت فنا ہے یا کوئی دوسری زندگی ؟ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ا ن سارے سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ کوئی خدا کی جانب سے آئے جو سبب خلقت اور راہ سعا دت کی نشان دہی کرے اور موت کے بعد کی زندی کی کیفیت کو ہما رے سامنے اجا گر کرے، انسان اپنی عقل کے ذریعہ دنیوی زندگی کے مسائل حل کر لیتا ہے، لیکن سعادت وکمال تک پہنچنے سے مربوط مسائل اور موت کے بعد کی زندگی اور اخروی حیات جو موت کے بعد شروع ہوگی یہ سب اس کے بس کے باہر ہے ۔

لہٰذا اس حکیم خدا کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم نبیوں کو ان تما م مسائل کے حل اور کمال تک پہنچنے کے لئے اس دنیا میں بھیجے ۔

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک لا مذہب شخص نے امام صادق سے سوال کیاکہ بعثت انبیا ء کی ضرورت کو کیسے ثابت کریں گے۔ ؟

آپنے فرمایا :ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہمارے پاس ایساخالق ہے جوتمام مخلوقات سے افضل واعلی ،حکیم وبلند مقام والا ہے چونکہ لوگ براہ راست اس سے رابطہ نہیں رکھ سکتے لہٰذا ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ ا پنی مخلوقات میں رسولو ں کو مبعوث کرتا ہے جو لوگو ں کو ان کے فائدے اور مصلحت کی چیزوں کو بتاتے ہیں اور اسی طرح ان چیزوں سے بھی آگا ہ کرتے ہیں جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہیں اور ترک میں فناونابودی ہے، لہٰذایہ بات ثابت ہو چکی کہ جو خدا کی جانب سے لوگو ں کے درمیان حکم دینے والے او ربرائیو ں سے روکنے والے ہیں، انہیں کو پیغمبر کہا جا تا ہے۔( ۱ )

امام رضا فرماتے ہیں:جبکہ وجود انسان میں مختلف خواہشات اور متعدد رمزی قوتیں ہیں، مگر وہ چیز جو کما ل تک پہنچا سکے اس کے اندر نہیں پا ئی جا تی اور چونکہ خدا دکھا ئی نہیں دیتا اور لوگ اس سے براہ راست رابطہ نہیں رکھ سکتے، لہٰذا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خد اپیغمبروں کو مبعوث کرے جو اس کے احکا م کوبندوں تک پہنچا ئیں اور بندو ں کو اچھا ئیوں کاحکم دیں اور برائیو سے بچنا سکھائیں۔( ۲ )

____________________

(۱) اصو ل کا فی کتاب الحجة با ب اضطرار ا لی الحجة حدیث ،۱

(۲) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۰

۱۰۶

۲) انسان کے لئے قانو ن تکا مل لا نے کے لئے پیغمبر کی ضرورت۔

انسان کو اپنے مقصد خلقت جوکہ کمال واقعی ہے اس تک پہنچنے کے لئے کچھ قانو ن گذار افراد کی ضرورت ہے جو ان شرائط کا حامل ہو۔

۱۔ انسان کو مکمل طریقہ سے پہچانتا ہو اور اس کے تمام جسمانی اسرار ورموز اس کے احساسات و خواہشات ارادے وشہوات سے مکمل آگاہ ہو ۔

۲۔ انسان کی تمام صلا حیت ، اس کے اندر پو شیدہ خصو صیات اور وہ کمالا ت جو امکا نی صورت میں پائے جا سکتے ہیں سب سے باخبر ہو ۔

۳ ۔انسان کو کمال تک پہنچانے والے تمام اصولو ں کو جانتاہو راہ سعادت میں آڑے آنے والی تمام رکاوٹوں سے آگاہ ہو ، اور شرائط کمال سے باخبر ہو ۔

۴۔ کبھی بھی اس سے خطا ،گناہ اور نسیا ن سرزد نہ ہو ۔ اس کے علا وہ وہ نرم دل مہربان ،شجاع ہو او ر کسی بھی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔

۵۔ لوگو ں سے کسی قسم کی منفعت کی توقع نہ رکھتا ہو تاکہ اپنی ذاتی منفعت سے متاثر ہو کر لوگوں کے لئے خلاف مصلحت قانون تیار کردے ۔

جس کے اندر مذکورہ شرائط پائے جاتے ہو ں وہ بہترین قانون گذار ہے کیا آپ کسی ایسے شخص کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو جرأت کے ساتھ اس بات کادعوی کر سکے کہ میں انسان کے تمام رموز واسرار سے واقف ہو ں، اس کے بر خلا ف تمام علمی شخصیتوں نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ ہم ابھی تک انسان کے اندر پائے جا نے والے بعض رموز تک پہنچ بھی نہیں سکے ہیں ۔ اور بعض نے انسان کو لا ینحل معمہ بتایاہے کیا آپ کی نظر میں کو ئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے انسان کے تمام کمالات کو سمجھ لیا ہے ۔اور کمال تک پہنچنے والے تمام شرائط وموانع کو جانتا ہو ں ۔کیا کوئی ایسا ہے جس سے کسی بھی خطاکا امکان نہ پایا جاتا ہو۔ ؟

۱۰۷

یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیامیں تلاش کر یں تب بھی کسی کو نہ پا ئیں گے جس میں مذکورہ تمام شرائط پائے جاتے ہوں یابعض شرطیں ہو ں ،اس کی سب سے بڑی دلیل مختلف مقامات پر متعدد قوانین کا پا یا جاناہے ۔لہٰذا ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ بہترین قانون بنا نے والا صرف اور صرف خدا ہے جوانسان کی خلقت کے تمام اسرار ورموز سے واقف ہے، صرف وہ ہے جودنیا کے ماضی، حال ،مستقبل کو جانتا ہے ۔فقط وہ ہر چیز سے بے نیا زہے اور لوگو ں سے کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا وہ خد اہے جو سب کے لئے شفیق و مہربان ہے او رانسانوں کے کمال تک پہنچنے کے تمام شرائط کو جانتا ہے ۔

لہٰذا صرف خدا یا وہ افراد جو براہ راست اس سے رابطہ میں ہیں، وہی لوگ قانون بنانے کی صلا حیت رکھتے ہیں اور اصو ل وقانون کو صرف مکتب انبیاء اور مرکز وحی سے سیکھنا چاہئے ۔

قرآن نے اسی حقیقت کی جا نب اشارہ کیا ہے :(وَلَقَد خَلَقنَا النسانَ وَنَعلمُ مَا تُوَسوِسُ بِہ نَفسُہُ)( ۱ ) اور ہم نے ہی انسان کو خلق کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیاکیا وسوسے پیدا کرتا ہے ۔

( وَمَا قَدرُوا اللّهَ حَقَّ قَدرِهِ اِذ قَالُوا مَا أنَزَلَ اللّهُ علیٰ بَشَرٍ مِّن

) ____________________

(۱) سورہ ق آیة: ۱۶

۱۰۸

( شیئٍ ) ( ۱ ) اور ان لوگو ں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیاکہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نہیں نازل کیا ۔

نتیجہ بحث

( اِن الحُکم اِلّا للّهِ ) ( ۲ ) حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام آیة: ۹۱

(۲) سورہ انعام آیة:۵۷

۱۰۹

سوالات

۱۔ سبب خلقت کو سمجھنے کے لئے بعثت انبیا، کیو ں ضروری ہے ؟

۲۔ کیا انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے حدیث امام صادق نقل کریں ؟

۳۔ بعثت کے لا زم ہونے پر امام رضاںنے کیا فرمایا ؟

۴ ۔ قانون گذار کے شرائط کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۱۱۰

سولھواں سبق

نبوت عامہ (دوسری فصل )

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال

انبیاء کی بعثت کا مقصد ،خو اہشات کا اعتدال اور فطرت کی جانب ہدایت کرنا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں کہ انسان خو اہشات اور فطرت کے روبرو ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے۔

خواہشات، انسان کے اندر مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہو تے ہیں اور فطرت انسان کو حیوانیت سے نکال کر کمال واقعی تک پہنچاتی ہے اگر فطرت کی ہدایت کی جا ئے تو انسان کمال کی بلندیو ں تک پہنچ جائے گا ،ورنہ خو اہشات سے متاثر ہو کر ذلّت کی پاتال میں غرق ہو جا ئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ خواہشات معتدل رہیں اور فطرت کی ہدایت ہو اور بغیر کسی شک وتردید کے اس اہم عہدہ کا ذمہ دار وہی ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر کے اسرار ورموز سے مکمل باخبر ہو ۔

خو اہشات کے اعتدال کی راہ ،نیز فطرت کی راہنمائی سے مکمل آگاہوباخبر ہو یہ بات ہم عرض کر چکے ہیں کہ دانشمند وں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان اسرار ورموز کا معمہ ہے ۔

نتیجة ً انسان کاپیدا کرنے والا جو کا ئنا ت کابھی مالک ہے صرف وہی تمام خصوصیات سے با خبر ہے اس کے لطف وکرم کا تقاضا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل او ر انسان کو کمال کی بلندیو ں تک پہنچنے کے لئے ایسے انبیا ء کو مبعوث کرے جوبراہ راست اس سے وحی کے ذریعہ منسلک ہیں تاکہ انسان کی ہدا یت ہوسکے ۔

۱۱۱

بعثت انبیاء کا مقصد

انبیاء کے عنوان سے قرآن نے چند اصول بیان کئے ہیں ۔

۱۔( هُوَ الّذیِ بَعَثَ فیِ الأمِیینَ رَسُولا مِنهُم یَتلُوا عَلَیهِم آیاتِه وَیُزکیّهِم وَیُعلّمُهُمُ الکِتَابَ والحِکمةَ و اِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبینٍ ) ( ۱ ) اس نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیا ت کی تلا وت کرے ان کے نفسوں کوپاکیزہ بنائے اور انہیںکتاب وحکمت کی تعلیم دے ،اگر چہ یہ لو گ بڑی کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا تھے اس میں کو ئی شک نہیں کہ سب سے پہلا زینہ جو انسان کے مادی ومعنوی کمال تک رسائی کا سبب ہے وہ علم ہے او رعلم کے بغیر کمال تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

مذکو رہ آیت میں علم سے مراد مادی علوم نہیں ہیں کیونکہ مادی علوم دنیا میں آرام وآسائش کی ضمانت لیتے ہیں اور انبیاء انسان کی سعادت کے لئے دنیوی واخروی دونو ں

____________________

(۱)سورہ جمعہ آیة: ۲

۱۱۲

زندگیو ں کی ضما نت لیتے ہیں۔

خداکی عبادت او رطاغو ت سے اجتناب ومقابلہ( وَلَقَد بَعَثنا فیِ کُلِّ أُمةٍ رَسَوُلاً أَن اعبُدُوا اللّه واَجتَنبُوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ''او ریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو او رطاغوت سے اجتناب کرو'' ۔

۲۔عدالت وآزادی دلا نا ۔( لَقَدْ أَرسَلَنا رُسُلَنَا بِالبَیّنَاتِ وأَنزَلَنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمِیزَانَ لَیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ ) ( ۲ )

بیشک ہم نے اپنے رسولو ں کو واضح دلا ئل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ اصل مقصد وہ تمام اصول جنہیں پیغمبروں کے مبعوث ہو نے کا سبب بتایا گیا ہے تمام کے تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہیں۔

یعنی انبیاء کے آنے کا اصل مقصد بندوں کو خدا پرست بنانا ہے اور یہ اللہ کی بامعرفت عبادت کے ذریعہ ہی میّسرہے اور انسان کی خلقت کا اصل مقصدبھی یہی ہے( ومَا خَلَقتُ الجِنّ وَالانسَ اِلّا لِیَعبُدونَ ) ( ۳ ) '' ہم نے جنا ت وانسان کو نہیں خلق کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں''۔

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ

لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیا ء کا مبعوث ہونا اس بحث کے بعد اب یہ بات

____________________

(۱) سورہ نحل آیة :۳۶

(۲) سورہ حدید آیة:۲۵

(۳) سورہ ذاریا ت،۵۶

۱۱۳

سامنے آتی ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ نبوت کا دعوی کرنے والااپنے دعوی میں سچا ہے۔؟

اگر کو ئی کسی منصب یاعہدے کا دعوی کرے جیسے ،سفیر ،مجسٹریٹ ، یا ڈی ایم، یا اس جیسا کو ئی اورہو جب تک وہ اپنے دعوی پر زندہ تحریر پیش نہ کرے کوئی بھی اس کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ۔

مقام رسالت او رسفیر ان الٰہی کا دعوی کرنے والوں کی تو بات ہی دیگر ہے نبوت و رسالت سے بلند مرتبہ اور کیاشی ٔ ہو سکتی ہے ؟ ایک انسان دعوی کرے کہ اللہ کا سفیر ہوں اور خدا نے مجھے زمین پر اپنا نمایندہ بناکر بھیجاہے لہٰذاسبھی کو چاہئے کہ میری اتباع کریں ۔

فطرت کسی بھی شخص کو بغیر کسی دلیل کے دعوی کوقبول کرنے کی اجا زت نہیں دیتی ،تاریخ گواہ ہے کہ کتنے جاہ طلب افراد نے سادہ دل انسانوں کو دھو کا دے کر نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے ،اسی لئے علماء علم کلا م نے پیغمبروں کوپہچاننے کے لئے راستے او رطریقے معین کئے ہیں ،ان میں سے ہر ایک پیغمبروں کو پہچاننے او ران کی حقانیت کے لئے زندہ دلیل ہے ۔

پہلی پہچان :معجزہ ہے علماء کلا م او ردیگر مذاہب کا کہنا ہے کہ معجزہ ایسے حیرت انگیز اور خلا ف طبیعت کام کو کہتے ہیں کہ جسے نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیتا ہے او ر تمام لوگو ں کواس کے مقابلہ کے لئے چیلنج کرتا ہے اور ہر شخص اس جیسا فعل انجام دینے سے قاصر ہے لہٰذا معجزہ کے تین رخ ہیں ۔

۱۔ایسا کام جو انسانو ں کی طاقت سے حتیٰ نوابغ دہر کی بس سے باہر ہو ۔

۲۔ معجزہ نبو ت ورسالت کے دعوی کے ساتھ ہو او ر اس کا عمل اس کے دعوی کے مطابق ہو۔

۳۔دنیا والو ںکے لئے اس کا مقابلہ کرنا ''اس کے مثل لانا''ممکن نہ ہو سبھی اس سے عاجز ہو ں ۔

اگر ان تینو ں میں سے کو ئی ایک چیز نہیں پائی جا تی تو وہ معجزہ نہیں ہے ابوبصیر کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادق سے پوچھا کہ ،اللہ نے انبیاء و مرسلین اور آپ ''ائمہ '' کو معجزہ کیو ں عطاکیا ؟آپ نے جواب میں فرمایا : تاکہ منصب کے لئے دلیل قرار پائے او رمعجزہ ایسی نشانی ہے جسے خدا اپنے انبیاء ،مرسلین اور اماموں کو عطا کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جھوٹے او رسچے کی پہچان ہو سکے ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۱ ،ص ۷۱

۱۱۴

سوالات

۱۔ فطرت کی راہنمائی او رخو اہشات کے میانہ روی کے لئے انبیا ء کا ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

۲۔ قرآن کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کا مقصد کیا ہے ؟

۳۔ پیغمبروں کے پہچاننے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔ معجزہ کیاہے اور اس کے شرائط کیا ہیں بیا ن کریں ؟

۱۱۵

سترہواں سبق

نبو ت عامہ (تیسری فصل )

جا دو ،سحر ،نظر بندی اور معجزہ میں فرق !

جب کبھی معجزہ کے بارے میں بات کی جا تی ہے تو کہا جا تا ہے کہ معجزہ ایک ایسے حیرت انگیز فعل کانام ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزہ ، جادو ، سحر نیز نظر بندکرنے والوں کے حیرت انگیزکرتبوں میں کیسے فرق قائم کیا جائے ۔

جو اب :معجزہ اور دوسرے خارق العادت کاموں میں بہت فرق ہے ۔

ا۔ نظر بندی او رجادو گری ایک قسم کی ریاضت کانام ہے اور جادوگر استاد سے جادو سیکھتا ہے لہٰذا ا ن کے کرتب مخصوص ہیںجو انھو ںنے سیکھا ہے وہ فقط اسی کو انجام دے سکتے ہیں اس کے علاوہ کسی کام کو انجام نہیں دے سکتے لیکن نبی ورسول معجزے کو کسی استاد سے نہیں سیکھتے ،لیکن پھر بھی معجزے کے ذریعہ ہرکام انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ حضرت صالح سے پہاڑ سے او نٹ نکالنے کوکہاگیا انہو ںنے نکا ل دیا ، جب حضرت مریم سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عیسی جوکہ گہوارے میں ابھی چند دن کے تھے فرماتے ہیں :

۱۱۶

( قا لَ أِنِّیِ عَبدُاللّهِ آتٰنی الکِتَابَ وَجَعلَنیِ نَبِیّاً ) ''میں اللہ کابندہ ہو ں اللہ نے مجھے کتا ب دی ہے اور نبی بناکر بھیجاہے''۔( ۱ )

یا جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ کی مانگ کی گئی تو پتھروں نے آنحضرت کے دست مبارک پرآکر ان کے رسالت کی گواہی دی ۔

۲۔ جادو گر وں یا شعبدہ بازوں کے کرتب زمان ومکان او رخاص شرائط میں محدود ہیں او رمخصوص چیزوں کے وسیلوں کے محتاج ہیں، لیکن پیغمبروںورسولوں کے معجزے چونکہ ان کا سرچشمہ خدا کی لا متناہی قدرت ہے لہٰذا کو ئی محددیت نہیں ہے وہ کبھی بھی کو ئی بھی معجزہ پیش کر سکتے ہیں ۔

۳۔جادوگروں اور نظربندوں کے کام زیادہ تر مادی مقصدکے پیش نظر انجام پاتے ہیں ( چاہے پیسوں کی خاطر ہو یا لوگو ں کو اپنی طرف کھینچنے یا دوسرے امور کے لئے ) لیکن انبیاء کامقصد متدین افراد کی تربیت اور معاشرہ کو نمونہ بنانا ہے ۔ اور وہ لوگ (انبیاء ومرسلین ) کہتے تھے( وَمَاَ أَسئَلُکُم عَلَیهِ مِنْ أَجرٍ اِن أَجرِی اِلَّا علیٰ رَبِّ العَالمِینَ ) ( ۲ ) ''اور میں تم سے اس کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہو ں اس لئے کہ میرا اجر تو عالمین کے رب کے ذمہ ہے'' ۔

۴۔جادوگروںاورشعبدہ بازوںکے کرتبوںکامقابلہ ممکن ہے یعنی دوسرے

____________________

(۱) سورہ مریم آیة :۳۰

(۲) سورہ شعراء آیة:۱۸۰ ،۱۶۴،۱۴۵،۱۲۷،۱۰۹

۱۱۷

بھی اس جیسا فعل انجام دے سکتے ہیں ،لیکن پیغمبروں کے معجزہ کی طرح کوئی غیرمعصوم شخص انجام نہیں دے سکتا ۔

ہر پیغمبر کا معجزہ مخصوص کیو ںتھا ؟

جبکہ ہر نبی ہر حیرت انگیز کام کو انجام دے سکتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے پاس متعد د معجزے تھے مگر ایک ہی کوزیادہ شہرت ملی ۔

ابن سکیت نامی ایک مفکر نے امام ہادی ں سے پوچھا :کیو ں خدا نے موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور جادوگروں جیسا معجزہ دیا؟ حضرت عیسیٰ کو مریضوں کو شفادینا اور مردوںکو زندہ کرنے والا معجزہ عطاکیا؟اور رسول اسلا م کو قران جیسے حیرت انگیز کلام کے مجموعے کے ساتھ لوگوں میں بھیجا۔

امام ںنے فرمایا : جب خدا نے حضرت موسی کو مبعوث کیاتو ان کے زمانے میں جادوکا بول با لا تھا لہٰذا خدانے اس زمانے جیسا معجزہ دیا چونکہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا او راپنے معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو شکست دی اور ا ن پر حجت تمام کی ۔

جب جنا ب عیسیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے آئے تواس وقت حکمت وطبابت کا شہرہ تھا لہٰذا خدا کی جانب سے اس زمانے کے مطابق معجزہ لے کر آئے اوراس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا، انھوں نے مردو ں کو زندہ کرکے اور مریضو ں کو شفا دے کر، نابینا کو آنکھ عطاکر کے جذام کودور کرکے تمام لوگوں پر حجت تمام کی ۔

۱۱۸

جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت فصاحت وبلا غت کا سکہ چل رہا تھا خطبہ او رانشاء اس وقت کے سکۂ رائج الوقت اور مقبول عام تھے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی جانب سے ان کو موعظہ ونصیحت کے حوالے سے گفتگو کی جس کا مقابلہ کرنالوگوں کی سکت میں نہیں تھا، اپنے مواعظ ونصائح کو قرآنی پرتو میں پیش کیا او رباطل خیالات کو نقش بر آب کردیا ۔

دوسری پہچان ۔انبیاء کی شناخت کادوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس نبی کی نبوت دلیل کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہو وہ اپنے آنے والے نبی کے نام اور خصوصیات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے جیساکہ تو ریت وانجیل میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے سے پیشین گوئیاںکی گئی ہیں ،قرآن ان پیشین گو ئیو ں میں سے حضرت عیسیٰ کے قول کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے( وَاِذْ قَالَ عِیسیٰ بنُ مَریَم یا بَنی اِسرائِیلَ اِنِّیِ رَسُوُلُ اللّهِ اِلیکُم مُصَدِّقاً لِمَا بَینَ یَدیَّ مِن التوراةِ ومُبشّراً بِرسُولٍ یَأتِی مِن بَعدیِ اسُمُه أحمدُ ) ( ۱ ) اس وقت کویاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو ںاپنے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا او راپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہو ں، جس کا نام احمد ہے اسی طرح سورہ اعراف کی آیة ۱۵۷ میں ارشاد ہوا( الذین یتبعون )

____________________

(۱) سورہ صف آیة: ۶

۱۱۹

تیسری پہچان ۔ تیسرا طریقہ انبیاء کو پہچاننے کا وہ قرائن وشواہد ہیںجوقطعی طور پر نبوت ورسالت کوثابت کرتے ہیں ۔

خلا صہ

۱۔جو نبوت کا دعوی کرے اس کے روحانی اور اخلاقی خصوصیات کی تحقیق۔ (مدعی نبوت کی صداقت کی نشانیوں میں سے اعلیٰ صفات او ربلند اخلاق ہو نا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں میں نیک چلن اور صاحب کردار کے نام سے جانا جائے)

۲۔ عقلی پیرائے میں اس کے احکام وقوانین کو پرکھاجائے کہ کیا اس کے احکام وقوانین ،الٰہی آئین کے تحت اور معارف اسلام وفضائل انسانی کے مطابق ہیں؟یا اس کی دوسری پہچان ہے ۔

۳۔ اپنے دعوی پہ ثابت قدم ہو ا ور اس کا عمل اس کے قول کاآئینہ دار ہو ۔

۴۔ اس کے ہمنوااور مخالفین کی شناخت ۔

۵۔ اسلو ب تبلیغ کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اپنے قوانین کے اثبات کے لئے کن وسائل اور کن راستو ں کاسہارالے رہا ہے ۔

جب یہ تمام قرآئن وشواہد اکٹھا ہو جائیں تو ممکن ہے مدعی نبوت کی نبوت کی یقین کاباعث بنے ۔

سوالات

۱۔ سحر ،نظر بندی، اور معجزہ میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ ہر نبی کا معجزہ مخصوص کیو ں تھا ؟

۳۔ انبیاء کی شناخت کے قرائن وشواہد کیاہیں ؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246