یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174792 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

اگرچہ خواب کے سلسلے میں مختلف نظریات ہیں لیکن کسی نے بھی خواب کی حقیقت و اصلیت سے انکار نہیں کیا ہے ۔ہاں اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ تمام خواب ایک ہی تحلیل کے ذریعہ قابل حل نہیں ہیں ۔

علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان(۱) میں فرماتے ہیں : عالم وجود تین ہیں(۱) عالم طبیعت(۲) عالم مثال(۳) عالم عقل ، چونکہ انسان کی روح مجرد ہے لہٰذا خواب میں ان دو عالم سے ارتباط پیدا کرتی ہے اور استعداد و امکان کے مطابق حقائق کو درک کرتی ہے اگر روح کامل ہو تو صاف فضا میںحقائق کو درک کرلیتی ہے اور اگر روح کمال کے آخری درجوں تک نہ پہنچی ہو تب بھی حقائق کو دوسرے سانچوںمیں درک کرلیتی ہے ۔

جس طرح عالم بیداری میں ہم شجاعت کو شیر کے سانچے میں ،حیلہ و مکر کو لومڑی کے قالب میں اور بلندی کو پہاڑکی صورت میں دیکھتے ہیں اسی طرح خواب میں علم کو نور ، شادی بیاہ کو لباس اور جہل ونادانی کو سیاہ چہرہ کے قالب میں دیکھتے ہیں ۔اس بحث کے نتیجہ کو ہم چند مثالوں میں پیش کرتے ہیں ۔ جو لوگ خواب دیکھتے ہیں ان کی متعدد قسمیں ہیں :

پہلی قسم : ان لوگوں کا خواب جو کامل اور مجرد روح کے حامل ہیں وہ حواس کے خواب آلود ہونے کے بعد عالم عقل سے ارتباط پیداکرتے ہوئے حقائق کو صاف وشفاف دوسری دنیا سے حاصل کرلیتے ہیں (جیسے ٹی۔وی اپنے مخصوص انٹینے کے ذریعہ کہ جو بلندی پر نصب ہوتاہے دور دراز کی امواج کو بھی باآسانی پکڑ لیتاہے )ایسے خواب جو حقائق کو

--------------

( ۱ )المیزان فی تفسیر القرآن ج ۱۱ ص ۲۹۹

۲۱

براہ راست درک کرلیتے ہیں وہ تعبیر کے محتاج نہیں ہوتے ہیں ۔

دوسری قسم : ان لوگوں کا خواب جو متوسط روح کے حامل ہوتے ہیں ایسے افراد حقائق کو دھندلا ، اور تشبیہ و تخیل کے ساتھ دیکھتے ہیں (ایسے خواب کی تعبیر کے لئے ایسا مفسر درکار ہے جو مشاہدات کی دنیا سے دور رہ کر تفسیر کرے یعنی جوکہ خوابوں کی تعبیر جانتا ہو اسے خواب کی تعبیر کرنی چاہیئے)

تیسری قسم : ایسے افراد کا خواب جن کی روح حد درجہ پریشان اور گوناگوں خیالات میں گم ہوتی ہے ایسے لوگوں کا خواب کوئی مفہوم ہی نہیں رکھتا یہ خواب کی وہ قسم ہے جو تعبیر کے قابل نہیں ہے ایسے ہی خواب کو قرآن نے ''اضغاث احلام''(یعنی پریشان کرنے والے خواب)کے نام سے یاد فرمایا ہے۔

ابن سیرین نے خواب کے موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب کسی نے اس سے پوچھا کہ اس خواب کی تعبیر کیا ہے کہ ایک شخص عالم خواب میں منہ اور شرمگاہ پر مہر لگا رہا ہے ؟ تو ابن سیرین نے جواب دیا : وہ شخص ماہ مبارک رمضان کا موذن ہوگا جو اذان کے ذریعہ کھانے اور جماع کوممنوع اعلان کرے گا (یعنی اذان سنتے ہی کھانا پینا اور جماع حرام ہے)

قرآن نے کچھ ایسے خوابوں کا ذکر کیا ہے جو تحقق پذیر ہوئے ہیں ۔ آپ حضرات مندرجہ ذیل خوابوں کو ملاحظہ فرمائیں :

الف۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب جس میں انہوں نے گیارہ ستارے اور چاند و سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔ اس کی تعبیر یہ ہوئی کہ حضرت یوسف (ع)بادشاہ ہوگئے اور بھائیوں اور ماں باپ نے سرتسلیم خم کردیا۔

۲۲

ب۔ قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے دونوں ساتھیوں کا خواب جس کی تعبیر یہ ہوئی کہ ایک آزاد ہو گیا دوسرے کو سزائے موت سنائی گئی ۔

ج۔ عزیز مصر کا خواب کہ لاغر اور کمزور گائے موٹی تازی گائے کو کھا رہی ہے جس کی تعبیر یہ ہوئی کہ کھیتی ،سرسبزو شادابی کے بعد خشک سالی میں تبدیل ہوگئی ۔

د۔ جنگ بدر میں پیغمبر اسلام (ص) کا خواب جس میں آپ (ص)نے مشرکین کی تعداد کو کم دیکھاجس کی تعبیر مشرکوں کی شکست ہوئی(۱)

ھ۔ حضرت پیغمبر اسلام (ص) کا وہ خواب کہ مسلمین اپنا سر منڈوائے ہوئے مسجد الحرام میں داخل ہورہے ہیں ۔ جس کی تعبیر فتح مکہ اور خانہ خدا کی زیارت ہوئی(۲)

و۔ حضرت موسیٰ (ع)کی مادر گرامی کا خواب جس میں انہیں جناب موسیٰ (ع)کو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا(اذ اوحینا الی امک ما یوحی ان اقذفیه فی التابوت) (۳)

''جب ہم نے آپ کی والدہ کی طرف اس بات کا الہام کیا جو بات الہام کی جاتی ہے (وہ یہ)کہ اس (بچے)کو صندوق میں رکھ دیں...''، روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ

--------------

( ۱ )سورہ انفال آیت ۴۳.( إِذْ یُرِیکَهُمُ اﷲُ فِي مَنَامِکَ قَلِیلًا وَلَوْ أَرَاکَهُمْ کَثِیراً لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ...)

( ۲ )سورہ فتح آیت ۲۷.( لَقَدْ صَدَقَ اﷲُ رَسُولَهُ الرُّیَا بِالْحَقِّ ...)

( ۳ )سورہ طہ آیت ۳۸ ۔ ۳۹

۲۳

یہاں وحی سے مراد وہی''خواب''ہے

ز۔ حضرت ابراہیم (ع)کا خواب کہ وہ اپنے فرزند اسماعیل (ع)کو ذبح کررہے ہیں(۱)

قرآنی خوابوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے افراد کو جانتے ہیں جنہوںنے خواب کے ذریعہ بعض ایسے امور سے آگاہی حاصل کی ہے کہ جہاںتک معمولاً انسان کی رسائی ناممکن ہوتی ہے ۔

سید قطب فرماتے ہیں :میں نے امریکہ میں خواب دیکھاکہ میرے بھانجے کی آنکھ سے خون بہہ رہا ہے ۔ میں نے مصر ایک خط لکھا جواب ملایہ بات صحیح ہے حالانکہ خونریزی ظاہراً آنکھوں سے نہیں ہورہی تھی ۔

ملا علی ہمدانی جو کہ مراجع تقلید میں سے تھے ان سے حکایت ہوئی ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے ایک عالم نے خواب میں پیغمبراکرم (ص) کو دیکھا جنہوںنے اس سے فرمایا:

'' ابھی جو پیغام ایران سے پہنچا ہے کہ اس سال وجوہات سامرہ سے نہیں پہنچیں گی اس سے پریشان نہ ہوں، الماری میں سو تومان ہیں انہیں لے لو''۔

جب میں خواب سے بیدارہوا تو میرزائے شیرازی کے نمائندے نے دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھے ان کے سامنے پیش کردیا میں جیسے ہی حاضر ہوا میرزائے شیرازی نے فرمایا :الماری میں سو تومان ہیں دروازہ کھول کر نکال لو اور مجھے سمجھایا کہ خواب کے موضوع کو ظاہر نہ کرو۔

--------------

(۱)سورہ صافات آیت ۱۰۲(فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَيَّ إِنِّي أَرَیٰ فِی الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُکَ...)

۲۴

صاحب مفاتیح الجنان جناب شیخ عباس قمی (رح) نے اپنے بیٹے کو خواب میں آکرکہا : میرے پاس ایک کتاب امانت تھی اس کو اس کے مالک تک پہنچا دو تاکہ میں برزخ میں آرام سے رہ سکوں۔ جب وہ خواب سے بیدار ہوئے تو اس کتاب کی تلاش میں لگ گئے جو علامتیں باپ نے بتائی تھیں ان کے مطابق کتاب کو لے کر چلے لیکن راستے میں وہ کتاب گر کر تھوڑی سی خراب ہوگئی ۔اسی کتاب کو انہوںنے مالک تک پہنچادیا اور باپ کی طرف سے عذر خواہی بھی کرلی۔ رات کو محدث قمی دوبارہ اپنے فرزندکے خواب میں آئے اور فرمایا: تم نے اس کتاب کے مالک سے کیوں نہیں کہاکہ وہ کتاب تھوڑی سی خراب ہوگئی ہے تاکہ وہ اگرتاوان چاہتا تو تم سے اسکا مطالبہ کرتایا اسی عیب پر راضی ہوجاتا ۔

پیام:

۱۔ ماںباپ اپنے بچوں کی مشکلات کو حل کرنے کیا بہترین ذریعہ ہیں(یا ابت)

۲۔ والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچے کے خواب کے بارے میں بھی متوجہ رہیں(یا ابت)

۳۔ خواب کی لغت میں ''اشیاء حقائق کی نمائندگی کرتی ہیں ''(مثلاً خورشید باپ کی اور چاند ماں کی اور ستارے بھائیوں کی علامت ہیں)۔(رایت احد عشرا کوکبا...)

۴۔ کبھی خواب دیکھنا حقائق کو دریافت کرنے کا ایک راستہ ہوتاہے ۔( انی رایت)

۵۔ کبھی نوجوانوں میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے جو بزرگوں کو سرجھکانے پر مجبور کردیتی ہے(ساجدین)

۶۔ اولیائے خدا کا خواب سچا ہوتاہے(ر ایت)

اس آیت میں ''رایت ''کی تکرار اس بات کی علامت ہے کہ حتماًدیکھاہے۔ واقعہ خیالی و تصوری نہیں ہے بلکہ خارجی حقیقت رکھتاہے ۔

۷۔ حضرت یوسف (ع)شروع میں خواب کی تعبیر نہیں جانتے تھے لہٰذا خواب کی تعبیر کے لئے اپنے باپ سے مدد طلب کی(یا ابت)

۲۵

آیت ۵:

(۵) قَالَ یَابُنَیَّ لاَتَقْصُصْ رُیَاکَ عَلَی إِخْوَتِکَ فَیَکِیدُوا لَکَ کَیْدًا إِنَّ الشَّیْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُبِینٌ

''یعقوب (ع)نے کہا: اے بیٹا (دیکھو خبردار)کہیں اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا (ورنہ) وہ لو گ تمہارے لئے مکاری کی تدبیر کرنے لگیں گے اس میں تو شک ہی نہیں ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا ہوا دشمن ہے''۔

نکات:

اصول زندگی میں سے ایک اصل ''راز داری'' ہے اگر مسلمانوں نے اس آیت کی روشنی میں عمل کیا ہوتا تو یہ سب استعداد و سرمایہ ، خطی کتابیں ،علمی آثار اور تما م آثار قدیمہ دوسرے ممالک کے میوزیم میںنہ ہوتے اور محقق ( Diplomite )وسیاح کے روپ میں دشمن ہمارے منافع ، منابع اور امکانات سے باخبر نہ ہوتااور سادہ لوحی و خیانت کی وجہ سے ہمارے اسرار ایسے لوگوںکے ہاتھ میں نہ جاتے جو ہمیشہ مکر وفریب کے ذریعہ ہماری تاک میں رہتے ہیں ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوںکے سامنے اپنے خواب کو اپنے باپ سے بیان نہ کرنا خود آپ (ع)کی عقل مندی کی علامت ہے ۔

۲۶

پیام:

۱۔والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنے بچوں کی خواہشات اور عادات سے آگاہ ہوں تاکہ صحیح راستہ کی رہنمائی کرسکیں۔(فیکیدوالک کید)

۲۔ معلومات اور اطلاعات کی تقسیم بندی کرتے ہوئے پوشیدہ اور آشکار چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا چاہئے(لاتقصص)

۳۔ ہر بات کو ہرکس وناکس سے نہیں کہنا چاہیئے(لاتقصص)

۴۔حسادت کی راہوں کو نہ بھڑکائیں(لاتقصص...فیکیدو)

۵۔اگر کچھ خواب بیان کرنے کے لائق نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہواکہ بیداری میں دیکھی جانے والی بہت ساری چیزوں کو بھی بیان نہیں کرنا چاہئے(لاتقصص)

۶۔ انبیاء (ع)کے گھرانوں میں بھی مسائل اخلاقی مثلاً حسد و حیلہ وغیرہ موجود ہیں(یا بنی لاتقصص...فیکیدوا...)

۷۔ اہم مسائل کی صحیح پیش بینی کرتے ہوئے اگر سوء ظن کا اظہار کیا جائے یا بعض خصلتوں سے پردہ فاش کیا جائے تو کوئی برائی نہیں ہے ۔(فیکیدوالک کید)

۸۔ انسان کا مکر و فریب میں مبتلا ہونا شیطانی کام ہے(فیکیدوا...ان الشیطان)

۹۔ شیطان ہماری اندرونی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم پر مسلط ہوجاتا ہے ۔ بھائیوں کے درمیان حسد و جلن کے ماحول نے شیطان کے لئے انسان سے دشمنی کرنے کی راہ کو ہموار کردیا(فیکیدوا...ان الشیطان للانسان عدو مبین)

۲۷

آیت ۶:

(۶) وَکَذَلِکَ یَجْتَبِیکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَیْکَ وَعَلَی آلِ یَعْقُوبَ کَمَا أَتَمَّهَا عَلَی أَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ إِنَّ رَبَّکَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ

''(جو تم نے دیکھا ہے )ایسا ہی ہو گا تمہارا پروردگار تم کو برگزیدہ قرار دے گا اور تمہیں ان باتوں کے انجام کا علم (اور خوابوں کی تعبیر)سکھائے گا اور وہ اپنی نعمت کو تم پر اور خاندان یعقوب پر اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے تمہارے دادا و پردادا پر اپنی نعمتیں پوری کرچکا ہے بے شک تمہارا پروردگار بڑا واقف کار حکمت والا ہے''۔

نکات:

تاویل خواب باطن کو بیان کرنا اور خواب کے وقوع کی کیفیت ہے ''احادیث''کلمہ ''حدیث'' کی جمع ہے یہ کلمہ ''ماجرا بیان کرنے''کے معنی میں استعمال ہوتاہے چونکہ انسان اپنے خواب کو مختلف لوگوں سے بیان کرتاہے لہٰذا خواب کو بھی حدیث کہا جاتا ہے بنابریں''تاویل الاحادیث'' یعنی خوابوں کی تعبیر۔

حضرت یعقوب (ع)اس آیت میں اپنے فرزند جناب یوسف (ع)کو ان کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے ان کے مستقبل کی خبر دے رہے ہیں

۲۸

پیام:

۱۔ اولیائے الٰہی خواب کے ذریعہ افراد کے مستقبل کا نظارہ کرتے ہیں(یجتبیک ربک و یعلمک)

۲۔ انبیاء علیہم السلام، خداوندعالم کے برگزیدہ افراد ہیں( یجتبیک )

۳۔ انبیاء (ع)اللہ کے بلا واسطہ شاگرد ہیں( یعلمک)

۴۔ مقام نبوت و حکومت، نعمتوں کا سرچشمہ ہے( ویتم نعمته)

۵۔ انبیاء گرامی (ع)کا انتخاب علم و حکمت الٰہی کی بنیاد پر ہے(یجتبیک. علیم حکیم)

۶۔ اپنے برگزیدہ بندوں کے لئے خدا وند عالم کا سب سے پہلا تحفہ ''علم ''ہے(یجتبیک ربک و یعلمک)

۷۔ تعبیر خواب ان امور میں سے ہے جسے خداوندمتعال انسان کو عطاکرتاہے ۔(یعلمک من تاویل الاحادیث)

۸۔ انتخاب میں لیاقت کے علاوہ اصل و نسب بھی اہمیت رکھتاہے(یجتبیک ...و ابویک من قبل )

۹۔ قرآن کی لغت میں اجداد باپ کے حکم میں ہیں:( ابویک من قبل ابراهیم و اسحاق )

۲۹

آیت ۷:

(۷) لَقَدْ کَانَ فِی یُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آیَاتٌ لِلسَّائِلِینَ

'' یوسف اور انکے بھائیوں (کے قصہ)میں پوچھنے والوں کےلئے یقینا بہت سی (ارادہ خداکے حاکم ہونے کی) نشانیاں ہیں''۔

نکات:

حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کی داستان میں بہت سی ایسی علامتیں اور نشانیاں موجود ہیں جن سے خداوندعالم کی قدرت آشکار ہوتی ہے ان میں سے ہر ایک اہل تحقیق و جستجو کے لئے عبرت و نصیحت کا باعث ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا پُر اسرار خواب (۲)تعبیر خواب کا علم (۳) حضرت یعقوب (ع)کا اپنے فرزند کے مستقبل سے مکمل طور پر آگاہ ہونا (۴)کنویں میں رہنا اور کسی خطرے سے دوچار نہ ہونا(۵) اندھا ہونا اوردوبارہ بینائی کا لوٹنا (۶)کنویںکی گہرائی اور جاہ و جلال کی بلندی (۷)قید خانہ میں جانااور حکومت تک پہنچنا (۸)پاک رہنا اور ناپاکی کی تہمت سننا (۹) فراق و وصال (۱۰)غلامی و بادشاہی (۱۱)گناہوں کی آلودگی کے بجائے زندان کو ترجیح دینا (۱۲)اپنی بزرگواری سے بھائیوںکی غلطیوں کو جلد معاف کردینا۔

انہیں نشانیوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے سوالات بھی ہیں جن میں سے ہر ایک کا جواب زندگی کی راہوں کو روشن کرنے والا ہے ۔

۳۰

حسادت انسان کو بھائی کے قتل پر کیسے آمادہ کردیتی ہے ؟

دس آدمی ایک خیانت میں کیسے متحد ہوجاتے ہیں ؟

حضرت یوسف علیہ السلام اپنی بزرگواری کی وجہ سے اپنے خیانت کار بھائیوں کو سزا دینے سے کیسے صرف نظر کرلیتے ہیں ؟

انسان آلودگی اور لذت گناہ پر یاد الٰہی کے ساتھ قید خانہ کو کیسے ترجیح دیتاہے؟

یہ سورہ اس وقت نازل ہوا جب پیغمبر اسلام (ص) اقتصادی اور اجتماعی محاصرہ میں سخت گرفتار تھے۔ یہ داستان ا نحضر(ص)ت کی تسلی ئخاطر کا باعث ہوئی کہ اے پیغمبر اگر آپ کے بعض رشتہ دار ایمان نہیں لاتے ہیں تو آپ رنجیدہ نہ ہوں ،جناب یوسف کے بھائیوں نے تو ان کو کنویں میں ڈال دیا تھا ۔

اس سورہ کی اہم آیتیں سازشوں پر خدا کے غلبہ کے بارے میں ہیں(بشری سازشیں ارادہ الٰہی کے سامنے بیکار ہوجاتی ہیں) حضرت یوسف (ع)کو کنویں میں ڈال دیاتاکہ باپ کے نزدیک محبوب ہوجائیں ۔ لیکن مبغوض ہو گئے دروازوں کو بند کیا گیا تاکہ آپ (ع)شہوت سے آلودہ ہوجائیں لیکن آپ(ع) کی پاکیزگی ثابت ہوگئی ،نہ کنواں ، نہ غلامی نہ قید خانہ نہ قصر اور نہ سازشیں کوئی بھی ارادہ الٰہی پر غالب نہ آسکیں ۔

۳۱

پیام:

۱۔ قصہ بیان کرنے سے پہلے سننے والے کو داستان سننے اور عبرت آموزی کے لئے آمادہ کریں(لقد کان فی یوسف)

۲۔ جب تک سننے اور سیکھنے کے عاشق نہ ہوں اس وقت تک قرآنی درسوں سے بطور کامل فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں(للسائلین)

۳۔ داستان ایک ہے لیکن اس واقعہ سے حاصل ہونے والے درس اور نکات بہت ہیں( آیات)

۴۔ قرآنی داستانیں زندگی میں پیش آنے والے بہت سے سوالوں کا جواب دیتی ہیں(للسائلین)

۵۔ ''حسد''خاندان اور رشتہ داری کے محکم ستون کو بھی منہدم کردیتاہے(لقد کان فی یوسف)

آیت ۸:

(۸)إِذْ قَالُوا لَیُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَی أَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَ إِنَّ أَبَانَا لَفِیْ ضَلَالٍ مُبِیْنٍ

''جب (یوسف کے بھائیوں نے)کہا کہ باوجودیکہ ہماری جماعت بڑی طاقت ور ہے تاہم یوسف اور اس کا حقیقی بھائی (بنیامین )ہمارے والد کے نزدیک ہم سے بہت زیادہ پیارے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے والد یقینا صریح غلطی میں ہیں''۔

نکات:

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ لڑکے تھے ان میں سے دو (یوسف و بنیامین) ایک ماں سے تھے جبکہ باقی دوسری ماں سے تھے۔ باپ کی محبت جناب یوسف (ع)سے (آپ (ع)کے چھوٹے ہونے یا کمالات کی وجہ سے تھی)بھائیوں کے لئے حسد و جلن کا سبب بنی اور حسادت کے علاوہ ''نحن عصب''کہنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر خوئے تکبر اور غرور بھی موجود تھی اور اسی غرور و تکبرکے نتیجہ میں باپ کو بچوں سے محبت کرنے پر انحراف اور غلطی سے متہم کرنے لگے

۳۲

معاشرے اور سماج میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو خود کو بلندی پر لے جانے کے بجائے بلند افراد کو نیچے لے آتے ہیں ۔ خود محبوب نہیں ہیں لہٰذا محبوب افراد کو داغدار کرتے ہیں ۔

تبعیض و تفاوت کے درمیان فرق: تبعیض کسی کو بغیر دلیل کے برتری دینا ۔تفاوت:لیاقت و شرافت کی بنیاد پر برتری دینا ۔ مثلاًڈاکٹر کے نسخے اور معلم کے نمبر فرق کرتے ہیں لیکن یہ تفاوت حکیمانہ ہے ظالمانہ نہیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی حضرت یوسف علیہ السلام سے محبت حکیمانہ تھی نہ کہ ظالمانہ لیکن حضرت یوسف (ع)کے بھائی اس محبت کو تبعیض اور بدون دلیل سمجھ رہے تھے ۔

کبھی زیادہ محبت مصیبتوں کا سبب بنتی ہے ۔ حضرت یعقوب - حضرت یوسف - کو بہت چاہتے تھے یہی محبت بھائیوںکے کینہ اور ان کے کنویں میں ڈالے جانے کا سبب بنی اسی طرح'' زلیخا کی حضرت یوسف (ع)سے محبت '' قید خانہ میں جانے کا سبب بنی لہٰذا جب حضرت (ع)کے اخلاق سے متاثر ہو کر زندان بان نے کہاکہ میں آپ (ع)سے محبت کرتا ہوں تو حضرت (ع)نے فرمایا : میں ڈرتا ہوں کہیں اس محبت و دوستی کے پیچھے بھی کوئی مصیبت پوشیدہ نہ ہو۔(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر الستین الجامع.

۳۳

پیام:

۱۔ اگر اولاد تبعیض اور دو گانگی کا احساس کرلے توا ن کے درمیان حسادت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے(احب ابینامنّ)

۲۔ بچوں کے درمیان تفاوت کرنے سے باپ سے ان کا عشق و محبت کم ہوجاتاہے(ان ابانا لفی ضلال مبین)

۳۔ طاقت و قدرت محبت آور نہیں ہے(احب الی ابینا و نحن عصب)

۴۔ ''حسد ''نبوت اور پدری حدود کو بھی توڑ دیتاہے اور بچے اپنے باپ کو جو پیغمبر بھی ہیں ''منحرف''اور ''بے انصاف''کہنے لگتے ہیں(ان ابانا لفی ضلال مبین)

۵۔ محبوب نظر ہونے کا عشق اور اسکی محبت ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے اگر کوئی انسان سے محبت نہ کرے یا کم توجہی برتے تو انسان کو اس سے تکلیف ہوتی ہے(احب الی ابین)

۳۴

آیت ۹:

(۹) اقْتُلُوا یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا یَخْلُ لَکُمْ وَجْهُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِینَ

''(بھائیوں نے ایک دوسرے سے کہاخیر تو اب مناسب یہ ہے کہ یاتو)یوسف کو مار ڈالو یا (کم از کم ) اس کو کسی جگہ (چل کر)پھینک تو البتہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری طرف ہوجائے گی اور اسکے بعد تم سب کے سب (باپ کی توجہ سے)اچھے آدمی بن ج گے''۔

نکات:

جب انسان کو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں تو اس کی چار حالتیں ہوتی ہیں ۔حسادت ، بخل ، ایثار، غبطہ ۔ جب یہ فکر ہو کہ اگر ہمارے پاس فلاں نعمت نہیں ہے تو دوسرے بھی اس نعمت سے محروم رہیں تو اسے ''حسادت'' کہتے ہیں۔اگر یہ فکر ہو کہ یہ نعمت فقط میرے پاس رہے دوسرے اس سے بہرہ مند نہ ہوں تو اسے ''بخل''کہتے ہیں اگریہ فکر ہو کہ دوسرے اس سے بہرہ مند ہوں اگرچہ ہم محروم رہیں تو اسے ''ایثار'' کہتے ہیں۔ اگر یہ کہے کہ دوسرے افراد نعمت سے بہرہ مند رہیں ۔اے کاش ہم بھی نعمت سے بہرہ مند ہوتے تو اسے غطبہ اور رشک کہتے ہیں ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: میں کبھی اپنے بچوں سے اظہار محبت کرتاہوں اور انہیں اپنے زانوں پر بٹھاتاہوں جبکہ وہ ان تمام محبتوں کے مستحق نہیں ہوتے (میں اس لئے ایسا کرتا ہوں کہ) کہیں ایسا نہ ہوکہ میرے تمام فرزند ایک دوسرے سے حسد وجلن کرنے لگیں اور حضرت یوسف (ع)کے ماجرے کی تکرار ہوجائے۔(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر نمونہ بنقل بحار، ج ۷۴ ص ۸۷

۳۵

پیام:

۱۔ بُری فکر انسان کو خطرناک عمل کی طرف لے جاتی ہے(لیوسف.احب .اقتلو)

۲۔ حسد وجلن انسان کو بھائی کے قتل پر آمادہ کرتی ہے(اقتلوا یوسف)

۳۔انسان ، محبت کا خواہاں ہے اور محبت کا کم ہونابہت بڑے خطرات و انحرافات کا باعث ہوتاہے(یخل لکم وجه ابیکم)

۴۔ اگرچہ قرآن ''محبوبیت کی راہ''ایمان و عمل صالح کو قرار دیتاہے ان الذین

امنوا و عملوا الصالحات سیجعل لهم الرحمن ودّا (۱) لیکن شیطان محبوبیت کی راہ کو برادر کشی بتاتا ہے(اقتلوا ...یخل لکم وجه ابیکم)

۵۔ حسد کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ دوسروں کو نابود کرنے سے اسے نعمتیں مل جائیں گی ۔(اقتلوا ...یخل لکم وجه ابیکم)

۶۔ شیطان کل توبہ کرلینے کا دھوکا دے کر آج گناہ کا راستہ دکھاتا ہے۔(وتکونوا من بعده قوماً صالحین)

۷۔ علم و آگاہی ہمیشہ انحراف سے دوری کا سبب نہیں ہے ۔ جناب یوسف (ع)کے بھائیوں نے قتل اور شہر بدر کرنے کو برا سمجھنے کے باوجود اسی کو انجام دی(و تکونوا من بعدہ قوما صالحین)

آیت ۱۰:

(۱۰) قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لاَتَقْتُلُوا یُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِی غَیَابَ الْجُبِّ یَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّیَّارَ إِنْ کُنتُمْ فَاعِلِینَ

''ان میں سے ایک کہنے والا بول اٹھا کہ یوسف کو جان سے تو نہ مارو (ہاں اگر تم کو ایسا ہی کرنا ہے) تو کسی اندھے کنویں میں (لے جاکر)ڈال دو کوئی راہ گیر اسے نکال کر لے جائے گا(اور تمہارا مطلب بھی حاصل ہوجائےگا)''

--------------

( ۱ )سورہ مریم آیت ۹۶

۳۶

نکات:

''جُبّ'' اس کنویں کو کہتے ہیں جس میں پتھر نہ بچھائے گئے ہوں''غیابت'' بھی ان طاقچوں کوکہتے ہیں جو کنویںکی دیوار میں پانی کے قریب ہوتے ہیں جو اوپر سے دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔

نہی از منکر(برائیوں سے روکنا) ایسی برکتوں کا حامل ہے جو آئندہ روشن ہوتے ہیں۔(لا تقتلوا) نے حضرت یوسف (ع)کو نجات دلائی اور اس کے بعد آپ (ع)نے ایک مملکت کو قحط سے نجات دلائی اسی طرح جس طرح ایک دن جناب آسیہ نے فرعون سے'' لاتقتلوا'' کہہ کرجناب موسی (ع)کو نجات دلائی اور اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی در حقیقت یہ وعدہ الٰہی کا روشن نمونہ ہے خداوندعالم فرماتاہےمن احیاء ها فکانما أحیا الناس جمیعا (۱) جو بھی ایک شخص کو حیات دے گا گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

پیام:

۱۔ اگر برائیوں کو بطور کامل نہیں روک سکتے تو جہاں تک ممکن ہو روکنا چاہئیے۔(لاتقتلوا ...والقوه)

-----------

۱:سورہ مائدہ آیت ۳۲.

۳۷

آیت ۱۱:

(۱۱) قَالُوا یَاأَبَانَا مَا لَکَ لاَتَأْمَنَّا عَلَی یُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ

''سب نے (یعقوب سے)کہا اباجان آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم لوگ تو اس کے خیر خواہ ہیں''۔

پیام:

۱۔ جو لوگ کچھ نہیں ہوتے وہ زیادہ دعوی اور پروپیگنڈا کرتے ہیں۔(انا له لناصحون)

۲۔ ہر بھائی قابل اطمینان نہیںہے(گویاحضرت یعقوب نے جناب یوسف کوبارہا بھائیوں کےساتھ جا نے سے روکا ہے اسی لئے بھائیوں نے یہ کہہ کر(مالک لاتأمنّ) اعتراض کیا ہے )

۳۔ نعرے بازی سے دھوکا نہ کھ اور بے مسمی اسم سے پرہیز کرو (خائن اپنا نام ناصح رکھتا ہے)(لناصحون)

۴۔ دشمن بد گمانی کو دور کرنے کے لئے ہر قسم کا اطمینان دلاتا ہے ۔(اناله لناصحون)

۵۔ خیانت کار اپنی غلطی کو دوسروں کی گردن پر ڈالتاہے ۔(مالک)

۳۸

۶۔ روز اول ہی سے انسان نے خیر خواہی کے نام پر دھوکا کھایا ہے ، شیطان نے جناب آدم و حوا کوغفلت میں ڈالنے کے لئے یہی کہا تھا کہ میں آپ کا خیر خواہ ہوں(وقاسمهما انی لکما لمن الناصحین) (۱) (انا له لناصحون)

۷۔بعض و حسد،انسان کو مختلف گناہوں پر مجبور کرتاہے (جیسے جھوٹ ، دھوکہ دینا یہاں تک کہ اپنے محبوب ترین رشتہ دارکو بھی دھوکہ دینا چاہتا ہے ۔(انا له لناصحون)

آیت ۱۲:

(۱۲) أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.

'' آپ اس کو کل ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ ذرا (جنگل) سے پھل پھلاری کھائے اور کھیلے کودے اور ہم لوگ تو اس کے نگہبان ہی ہیں''۔

نکات:

انسان تفریح و ورزش کا محتاج ہے جیسا کہ اس آیت میں مشاہدہ ہوتاہے کہ وہ قوی ترین منطق و دلیل جس کی بنیاد پر حضرت یعقوب (ع)کو اپنے بیٹوں کی خواہش کو تسلیم کرنا پڑا وہی تفریح ہے کہ یوسف کو تفریح کی ضرورت ہے، بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مومن کو اپنا کچھ وقت تفریح ولذات کے لئے مخصوص کرنا چاہیئے تا کہ اس کے وسیلہ سے تمام کام بخوبی انجام دے(۲)

--------------

( ۱ )سورہ اعراف آیت ۲۱

( ۲ )نہج البلاغہ حکمت ۳۹۰

۳۹

فقط کل ہی نہیںبلکہ آج بھی اور آئندہ بھی اس کھیل اور ورزش کے بہانے جوانوں کو سرگرم کیاجارہا ہے اور کیاجاتا رہے گا ہمارے جوانوں کو حقیقی ہدف سے دور اور غفلت میں رکھا جا رہا ہے کھیلوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں تاکہ اہم چیزیں کھیل شمار ہونے لگیں۔ استکبار اور سازشی لوگ صرف کھیل کود سے سوء استفادہ نہیں کرتے بلکہ ہر پسندیدہ و مقبول نام سے اپنے برے اہداف کی ترویج کرتے ہیں، ڈپلومیٹ ( diplomate ) کے روپ میں خطرناک ترین جاسوسوں کو دوسرے ممالک میں روانہ کرتے ہیں فورس اور دفاعی امور کے مشیر ہونے کے پیچھے سازش کرتے ہیں اور اس کے راز حاصل کرلیتے ہیں۔

حقوق بشر کے بہانے کرکے اپنے نوکروں کی حمایت کرتے ہیں، دوا کے نام پر اپنے نوکروں کے لئے اسلحہ روانہ کرتے ہیں ، اقتصادی ماہرین کے بہانے ممالک کو کمزور تر بنا دیتے ہیں ، سم پاشی کے بہانے باغات اور کھیتوں کو برباد کردیتے ہیں ۔حتی اسلامی ماہرین کے روپ میں غیر اسلامی چیزوں کو اسلامی لباس میں پیش کرتے ہیں۔

پیام:

۱۔بچے کی تفریح باپ کی اجازت سے ہونی چاہیئے(ارسله)

۲۔ورزش و تفریح ، کھیل کود شیطانی جالوںمیں سے ایک جال ہے اور غافل کرنے کا ذریعہ ہے(ارسله معنا غدا یرتع و یلعب)

۳۔ بھائیوں نے دھوکہ دینے کے لئے مباح اور منطقی وسیلہ سے سوء استفادہ کیا(ارسله ...یرتع و یلعب)

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

حقیقت ماجرا:

بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان ''میں لکھا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد قبیلۂ ''ازد '' نے اسلام سے منہ موڑا اور مرتد ہوگیا ۔ اس کی رہبری ''لقیط بن مالک ذوالتاّج'' کے ہاتھ میں تھی ۔ یہ لوگ ''دبا'' کیطرف بڑھے ۔ ابوبکر نے قبیلۂ ازد سے ''حذیفہ بن محصن بارقی'' اور ''عکرمہ بن ابی جہل مخرومی'' کو ایک گروہ کے ہمراہ ان کی سرکوبی کے لئے مامو کیا ۔

حذیفہ اوراس کے ساتھیوں نے ''دبا '' میں لقیط اور اس ساتھیوں سے جنگ کی،لقیط مارا گیا اور ''دبا'' کے باشنددوں کاایک گروہ اسیر ہوا ، انھیں ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا گیا ، اس طرح یہ ماجر ا ختم ہوا اور قبیلۂ ''ازد '' دوبارہ اسلام لے آیا۔

بلاذری اضافہ کرکے لکھتا ہے :

''مہرہ بن حیدان بن عمرو قضا عہ '' کے کچھ گھرانے آپس میں جمع ہوئے ، عکرمہ ان کی طرف بڑھا لیکن ان سے جنگ نہیں کی ،کیو نکہ انہوں نے اپنے مال کی زکا ت خلیفہ کو ادا کر دی اور جان بچالی۔

ابن عثم نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں لکھا ہے :

عکرمہ نے اس جنگ میں ''دبا'' کے ایک سوافراد کو قتل کر ڈالا تب وہ ہتھیا ر ڈال کر تسلیم ہوئے ۔ اس کے بعد ان کے سرداروں کے سرتن سے جدا کئے اور باقی بچے تین سو جنگی اور چار سو عورتوں اور بچوں کو اسیر بنا کر ابوبکر کے پاس مدینہ بھیج دیا۔

ابوبکر نے حکم دیا کہ مردوں کے سرتن سے جدا کئے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو فروخت کیا جائے ۔ لیکن عمر نے شفاعت کی اور کہا یہ مسلمان ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہ ہم نے کبھی اسلام منہ نہیں موڑ ا تھا ۔ یہاں پر ابوبکر نے اپنا فیصلہ بدل دیا کہ ان کے مال و منال پر قبضہ کر کے انہیں زندان بھیجدیا جائے ۔ یہ ابوبکر کے زمانے میں قیدی بنے رہے ۔ عمر نے خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد انھیں آزاد کیا۔

۱۶۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ :

سیف کہتا ہے کہ مسلمانوں نے ''دبا''کی جنگ میں مشرکین کے دس ہزار افراد قتل کردئے اور اسراء کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ صرف ان کا پانچوں حصہ آٹھ سو افراد پر مشتمل ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیحا گیا !!

جب کہ دوسروں نے مقتولین واسرا حتیٰ ان کے سردار جن کے سرتن فتح کے بعد سے جدا کر کے قتل کیا گیا سب کی تعداد کل ملاکر آٹھ سو افراد بتائی ہے ۔

سیف کہتا ہے کہ ''مہرہ'' کی جنگ میں مشرکین دو گرو ہوں میں تقسیم ہو کر ریاست کے مسٔلہ پر ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے تھے ۔ ان میں سے ایک بنام شخریت مسلمانوں سے جاملا اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر مشرکین کی بیخ کنی کی اور ''دبا'' سے شدید تر جنگ ان کے ساتھ ہوئی۔ عکرمہ نے ان کے سردار کو قتل کیا اور باقی لوگوں کو خاک و خون میں غلطان کیا اور دل خواہ حدتک ان کو قتل ومجروح کر کے رکھدیا ۔ نیز دو ہزار نجیب اور آزاد عورتوں کو جنگی غنائم کے ساتھ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجدیا ۔ اس فتح کے بعد اس علاقہ کے لوگوں نے اسلام کے سامنے سر تسلیم خم کیا اور دوبارہ اسلام کے دائرہ میں آئے جبکہ دوسروں نے کہا ہے کہ :

جون ہی عکرمہ اور اس کے ساتھی ''مھرہ '' کے نزدیک پہنچے وہا ں کے باشندوں نے زکات و مالیا ت دینے کا عہد کیا اور جنگ کی مصیبت سے اپنے آپ کو نجات دیدی ۔

جھوٹااور زندیقی سیف تن تنہا ان افسانوں کو جعل کر تا ہے تاکہ خون کے دریا بہا کر ، جانی تلفات کو حد سے زیا د ہ دکھا کر ، انسانوں کی بے احترامی کر کے صدر اسلام کے مسلمانوں کو بے رحم اور قسی القلب دکھا ئے اور اسلام اور مسلمانوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس کی وہ تمنا اور آرزو رکھتا ہے ۔

افسوس اس بات پر ہے کہ طبری جیسا عالم سیف کے ان تمام جھوٹ کے پلندوں کو اس کی اصلیت و حقیقیت کو جانتے ہوئے بھی اپنی تاریخ میں نقل کرتا ہے !!

۱۶۲

اور جب ابن اثیر ، ابن کثیر اور ابن خلدون جیسے علماء کی باری آتی ہے تو وہ بھی ان مطالب کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں منعکس کرتے ہیں ۔

یاقوت حموی نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے اس کے خیا لی مقامات جیسے ،جیروت ، ریاضتہ الروضہ ، ذات الخیم ، صبرات' ظہور ، لبان ،المر ، ینصب اور ان جیسی دیگر جگہوں کو اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں درج کر کے ان پر شرحیں لکھی ہیں ۔

سرانجام علامہ ابن حجر سیف کے افسانوں کے اداکاروں کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں قرار دیتا ہے ۔اور''لہ ادراکُ''کا حکم جاری کرکے ان کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے ۔اور اپنی بات کے خاتمہ پر حرف ''ز'' لکھ کر اعلا ن کر تا ہے کہ اس نے اس صحابی کا انکشاف کیاہے اور اس کے حالات پر شرح لکھکر دوسرے تذکرہ نویسوں پر اضافہ کیا ہے ۔

مصادر و مآخذ

صیحان بن صوحان کے بارے میں :

١۔''اصابہ ابن حجر (٢/١٩٣) دوسرا حصہ نمبر:٤٤٣١

عباد ناجی کے بارے میں :

١۔''اصابہ ''ابن حجر (٣/٨٧) تیسرا حصہ نمبر : ٦٢٩٨)

شحریب کے بارے میں :

''اصابہ'' ابن حجر (٢/١٦٠) نمبر: ٣٩٦٢

خریت بن راشد کے بارے میں :

١۔''اکمال '' ابن ماکولا (٢/٤٣٢)

۱۶۳

سیحان بن صو حان کے بارے میں :

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٠٢) نمبر: ٣٦٣٠

تین صحابیوں کے بارے میں سیف کی روایتیں :

١۔''تاریخ طبری'' (١/١٩٧٩)

جنگ ''دبا' کے حقا ئق :

١۔''تاریخ اعثم '' (١/٧٤)

٢۔''فتوح البلدان'' بلاذری (٩٢۔٩٣) عمان کی خبر میں

عباد بن منصور ناجی کے بارے میں :

١۔''فہرست تاریخ طبری '' (٣٠٩)

٢۔''تاریخ طبری '' (٢/١٩٨٤)و(٢/٢٠١٧)و(٣/١١و٧٥و٨١و٨٤و٩١و٣١٩)

کہ جہاں بصرہ میں اس کے منصب قضاوت کے بارے میں گفتگو آئی ہے۔

٣۔خلاصہ تذھیب الکمال '' (١٥٨) اس کی تاریخ و فات بھی ذکر کی گئی ہے۔

٤۔''جرح و تعدیل '' (١/٨٦) تیسرا حصہ

۱۶۴

صوحان کے بیٹوں کے نام :

١۔''جمہرۂ انساب '' ابن حزم (٢٩٧) لفظ ''بنی عجل''

٢۔''اللباب '' ابن اثیر (٢/٦٢)

٣۔''تاریخ خلیفہ بن خیاط'' (١/١٧٢)

٤۔''طبقات''ابن خیاط (١/٣٢٧)سیف کی روایتوں میں ذکر ہوئے

سیف کی روایتوں میں مذکور اس داستان کے مقامات کی تفصیلات :

١۔''معجم البلدان'' حموی لفظ:

خیم (٢/٥١٠)

ریاضتہ الروضتہ (٢/٨٨١)

جیروت (٢/١٧٥)

صبرات (٣/٣٦٦)

ظہور (٣/٥٨٢)

اللبّان (٤/٣٤٥)

المر (٤/٤٩٥)

ینعب (٤/١٠٤١)

۱۶۵

چھٹا حصّہ:

ابو بکر کی مصاحبت کے سبب بننے والے اصحاب

یہ لوگ اس لئے اصحاب ہیں کہ :

٨٢۔شریک فزاری :نمائندہ کے طور پر ابوبکر کی خدمت پہنچا ہے ۔

٨٣۔ مسور بن عمرو: ابوبکر کے خط میں گواہ رہا ہے ۔

٨٤۔ معاویئہ عذری :. ابو بکر نے اس کے نام خط لکھا ہے

٨٥۔ ذویناق،و شہرذویناق: ابوبکر نے اس کو خط لکھا ہے ۔

٨٦۔معاویۂ ثقفی : ابو بکر کی سپاہ کا ایک افسر رہا ہے ۔

۱۶۶

٨٢واں جعلی صحابی شریک فزاری

ابن حجرکی ''اصابہ ''میں یہ صحابی یوں پہچنوایا گیا ہے :

شریک فزاری :

سیف بن عمر نے اس کانام لیا ہے اور کہا ہے ، جب خالدین ولید طلیحہ کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو اسی زمانہ میں شریک فزاری نما ٰئندہ کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ہے ۔ ہم نے اس کی اس ملاقات کی داستان ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں بیان کی ہے ۔(ز)( ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کے لئے سیف کا خلق کیا ہوا نسب :

سیف نے شریف کو ''فزاری ''سے نسبت دی ہے اور یہ ''فزارةبن ذبیا ن بن بغیض بن ۔۔۔نزاربن معدبن عدنان'' سے نسبت ہے

فزاریوں کا شجرہ ٔ نسب ابن حزم کی کتاب ''جمہرۂ انساب''میں بطور کا مل آیاہے لیکن اس میں شریک '' نام کا کوئی شخص کہیں پر دکھائی نہیں دیتا ۔

شریک کی داستان :

ابن حجر نے شریک کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے ، اس کے اشارہ کے پیش نظر نہ اس کی کتاب میں کسی اور جگہ اس کا ذکر ہے اور نہ کسی اور کتاب میں یہ روایت ملتی ہے اور یہ عالم ''خارجہ بن حصن '' کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب خالدبن ولید '' بنی اسد '' کی جنگ سے فارغ ہوا ، تو''خارجہ'' ایک دوسرے گروہ کے ہمراہ نمایندگی کی حیثیت سے ابوبکر کی خدمت میں پہنچا ۔ اس خبر میں شریک کا کہیں نام و نشان نہیں آیا ہے !

اسی طرح طبری نے بھی ''شریک '' کے بارے میں سیف کی روایت کو درج نہیں کیا ہے ۔ یہ صرف ابن حجر ہے جس نے سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے''شریک فزاری ''کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کی حیثیت سے تعارف کرایا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس عالم نے اپنی کتاب کی جلد اول میں کسی اور ''شریک ''کا '' شریک غیر منسوب '' کے نام سے ذکر کیا ہے اور اس کے حالت پر روشنی ڈالی ہے۔

اس طرح علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں ''شریک '' کے نام سے دو ہم نام صحابیوں کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ، کہ ان میں سے ایک سیف کا خیالی اور جعلی صحابی ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہے ۔!!

۱۶۷

مصادر و مآخذ

شریک فزاری کے حالات :

١۔ ''اصابہ '' ابن حجر (٢/١٦٢) تیسرا حصہ نمبر :٣٩٧٧

شریک غیر منسوب کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر ( ٢/١٤٩)

٢۔تاریخ بخاری (٢/٢٣٨) دوسرا حصہ

خارجہ بن حصن کے حالات:

١۔ ''اصابہ ''بن حجر (ا/٣٩٩)

فزارہ کا نسب:

''جمہرۂ انساب'' ابن حزم (٢٥٥۔٢٥٩)

٨٣واں جعلی صحابی مسور بن عمرو

ابن حجر نے اس صحابی کا تعارف یوں کرایا ہے :

مسوربن عمرو:

سیف بن عمر نے طلحہ بن اعلم سے اور اس نے عکرمہ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد جو عہد نامہ ابو بکر صدیقنے ''نجران '' کے باشندوں کے ساتھ طے کیا ، اس پر یہ صحابی بطور گواہ تھا ۔

۱۶۸

ابن فتحون نے اس صحابی کو ابن عبدالبر کی کتاب ''استیصاب'' سے دریافت کیا ہے۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مذکورہ روایت کو طبری نے سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ''اخابثِ عک'' کی داستان میں تفصیل کے ساتھ یوں درج کیا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کی خبر ''نجران '' کے باشندوں کو ملی ،توانہوں نے ایک وفد منتخب کر کے نمائندہ کے طور پر ابوبکرکے پاس بھیجا تاکہ خلیفہ کے ساتھ تجدید عہد کریں ۔ ''نجران'' کے باشندوں میں ''بنی افعی '' کے چالیس ہزار جنگجوتھے وہ ''بنی حارث''سے پہلے وہاں ساکن ہوئے تھے ۔

اس گروہ کے افراد ابوبکر کی خدمت میں پہنچے ، اوراپنے مطالبات بیان کئے ۔ابوبکر نے ان کے مطالبات منظور کئے اور یوں لکھا :

بسم اﷲالر حمن الر ّحیم

یہ پیمان بندہ ٔ خدا ابو بکر ،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے جانشین کی طرف سے نجران کے باشندوں کے لئے ہے۔ وہ نجران کے باشندوں کواپنی اور اپنے لشکر کی پناہ میں قرار دیتا ہے اور جس چیز کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں اپنے ذمہ لیا تھا ، سب کی تائید کر تاہے ، مگر وہ چیز جس کے بارے میں خود حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدائے عزوجل کے حکم سے ان کی سرزمینوں میں اور دوسری عرب سرزمینوں میں اس سے عدول کیاہوکیونکہ ایک علاقہ میں دو قوانین راہلج نہ ہو سکتے ۔

اس بنا پر نجران کے باشندے اپنی جان ، قومیت ،تمام اموال و متعلقات ، جنگجوؤں ، حاضر و غائب ، پادریوں ، وراہبوں ،خرید و فروش جس صورت میں انجام پائے ، اورجو کچھ کم و زیادجو اختیار میں رکھتے ہیں سب کو اپنی پناہ میں لیتا ہے اور امان میں ہونے اعلان کرتاہے ۔ انہوں نے جو کچھ اپنے ذمہ لیا ہے اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں ، کہ اگر اسے اداکیا ، تو ان سے ،مواخذہ بھی نہیں ہوگا اور نہ ان سے ان کے مال کا دسواں حصہ ضبط کیا جائے گا اور نہ پادری تبدیل ہوگا اور نہ کوئی راہب۔ ابوبکر ان تمام چیزوں کو نجران کے باشندوں کے لئے قبول کرتا ہے جنھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے رسما ً قبول فرمایا ہے ، اور جو اس پیمان نامہ میں ذکرہوا ہے اور محمدرسول اﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اوردوسرے مسلمانوں نے قبول کیاہے ان تمام چیزوں کو قبول کرتا ہے ۔ ضروری راہنما ئیوں اورنظم وانتظام چلا نے میں ان کے حق کو اور ان دیگر حقوق کو قبول کرتاہے ۔

۱۶۹

مندجہ بالا مطالب موادتایئد ہیں ۔ دستخط مسوربن عمر و و عمرو غلام ابو بکر نئی سطر سے جیسا کہ ہم نے کہا ، طبری نے اس پیمان نامہ کو درج کیا ہے لیکن اس کی سند کا ذکر نہیں کیا ہے ۔ اس کے بر عکس ابن حجر نے ابوبکر کے پیمان نامہ کی سند کا ذکر کیا ہے لیکن اصل خط کو ثبت نہیں کیا ہے۔

ابن فتحون نے بھی سیف کی اس روایت پر اعتماد کر کے ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب ''کے ضمیمہ میں ''مسور'' کے وجود پر باور کر کے اس کے حالات لکھے ہیں

جیسا کہ گزرا ، ابن حجر نے بھی سیف کی اسی روایت پر اعتماد کر کے ''مسور'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے زمرہ میں قراردیا ہے اور اس کی دلیل یہ تھی کہ سیف کے کہنے کے مطابق ''مسور''نے ابوبکر کے نجران کے باشندوں کے ساتھ کئے گئے عہدنامہ پر گواہی اور تایئد کی ہے ۔

ابن حجر نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے پہلے حصہ میں درج کیا ہے ، چونکہ سیف نے اپنے جعل کئے گئے اس صحابی کا نسب مشخص نہیں کیا ہے ، اسلئے ابن حجر نے بھی اس حد سے نہ گزر کر اس کے لئے کوئی نسب درج نہیں کیا ہے ۔

قابل ذکر ہے کہ ١٢٦ ھ میں سیف کا ہم عصر ، ''مسوربن عمربن عباد'' نامی ایک شخص بصرہ میں زندگی بسرکر تا تھا اور اس قدر مشہور ومعروف شخص تھا کہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں اسے درج کیاہے ۔ اس شخص کا دادا یعنی ''عباد بن حصین حبطی''اپنے زمانہ کا ایک ناموار شہسوار تھا ۔ وہ بصرہ میں ''عبداﷲ زبیر '' کی حکومت کے دوران پلیس کا افسرتھا ۔ ایران کا '' آبادان''اسی کے نام پر رکھاگیا ہے ۔

اب یہ معلوم نہیں ہے کہ سیف نے اسی ''مسوربن عمروبن عباد ''کا نام اپنے جعلی صحابی کے لئے منتخب کیا ہے اور اسے عاریت لیا ہے تاکہ ابوبکر کے عہدنامہ میں اسے شاہد قرار دے یا یوں ہی ایک نام اس کے ذہن میں آیا ہے اور اس نے اپنی خیالی مخلوق پر وہ نام رکھ لیا ہے!!

۱۷۰

مصادر و مآخذ

مسور بن عمرو کے حالات :

١۔ ''اصابہ ''ابن حجر (٣/٣٩٩) حصہ اول نمبر: ٧٩٩٤

٢۔تاریخ طبری (١/١٩٨٨)کہ سیف کی روایت اور ابوبکر کا خط درج کیا ہے ۔

مسور بن عمروبن عباد کے حالات :

١۔''تاریخ ابن اثیر'' (٥/٢٤٣)

عباد بن حصین کے حالات:

١۔''معارف '' ابن قتیبہ (١٨٢)

٢۔''محبر'' (٢٢٢،٤٤٤)

٣۔''عیوان الاخبار'' ابن قتیبہ (١٢٨)

٤۔''معجم البلدان'' حموی لفظ ''عبادان''

٥۔''فتوح البلدان'' بلا ذری (٤٥٣)

مسور بن عمروعباد کا نسب:

''جمہرہ ٔ انساب'' ابن حزم (٢٠٧)

۱۷۱

٨٤ واں جعلی صحابی معاویہ عذری

ابن حجر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

معاویہ عذری :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابوبکر نے ایک خط میں اسے حکم دیا ہے کہ دین سے منحرف لوگوں اور مرتدوں سے لڑنے میں کسی قسم کی کسر باقی نہ رکھے۔ اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدما صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالاری کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اس صحابی کے لئے سیف نے کیا نسب لکھا :

تاریخ طبری اور ''اصابہ '' میں سیف کی روایت کے مطابق اس صحابی کا نسب''عذری'' ہے۔ شہرت کی بنا پر یہ نسبت ''قضاعہ '' کے ایک قبیلہ ''عذرةبن سعد ھذیم ''تک پہنچتا ہے اور سیف کی مراد بھی یہی نسب تھا کیونکہ وہ سعد بن حذیم کے ارتداد کی بات کرتا ہے ۔

لیکن تاریخ ابن عساکر میں یہ نسب ''عدوی'' ذکر ہوا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ غلط ہے ۔

۱۷۲

معاویہ عذری کی داستان :

جس روایت کو ابن حجر نے معاویہ ٔ عذری ''کے تعارف میں درج کیا ہے اور ابن عساکر اور طبری نے اسی کو اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ، ہم نے اس کو ''پینتالیسویں جعلی صحابی '' ''عمروبن حکم قضاعی ''(۱) کے حالات میں بیان کیا ہے۔

سیف کی اس روایت میں آیا تھا:

قبیلہ ٔ سعد ھذیم معاویہ اور اس کے ہم فکروں کا ایک گروہ مر تد ہوگیا۔ ان کے ارتداد کے نتیجہ میں ابوبکر نے ایک خط کے ذریعہ امام حسین کی بیٹی سکینہ کے جدماوری ، ''امرالقیس بن فلان '' اور ''عمروبن حکم '' کو حکم دیا کہ ''زمیل''سے نبردآزما ہونے کے لئے آمادہ ہو جایئں اور اسی قسم کا ایک دوسرا خط مغاویۂ عذری '' کے نام بھیجا۔

اور جب ''اسامہ بن زید ''واپس لوٹ کر ''قبائل قضاعہ ''میں پہنچا تو ابوبکر کے حکم کے مطابق ۔۔ (داستان کے آخر تک )

ابن حجر نے سیف کے اس مختصر جملہ یعنی:معاویہ عذری کو بھی ایسا ہی ایک خط لکھا ہے، پر تکیہ کر کے اس پر لباسِ وجود زیب تن کیا ہے اور طرح اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے پہلے دستہ میں شامل کرنے بعد اس کے حالات لکھے ہیں !!

یہ عالم اس تنہانام کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے پہچنوانے کے سلسلے میں یوں

____________________

١) ١٥٠ صحابی ساختگی (٣/١٩٥۔١٩٨)

۱۷۳

استدلال کرتا ہے کہ ''ہم نے بارہا کہا ہے کہ قدمانے۔۔۔۔تاآخر)

جبکہ ہم نے اس روایت کے صیحح نہ ہونے کے سلسلہ میں حقائق اور تاریخی روداوں سے اس کا موازنہ کر کے اسی کتاب کی ابتداء میں مفصل بحث کی ہے اور اب اس کی تکرار ضروری نہیں سمجھتے ہیں ۔

مصادر و مآخذ

معاویہ عذری کے حالات:

١۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر : ٨٠٨٧

سعد ھذیم کے ارتداد کے بارے میں سیف کی روایت:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٧٢)

٢۔''تاریخ ابن عساکر '' (١/٤٣٢)

بنی عذرہ کا نسب

١۔''اللبا ب'' (٢/١٢٩)

٨٥واں جعلی صحابی ایک جعلی صحابی کے دو چہرے

شہر ذویناف (ذویناق)

ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لفظ''ذیناق'' کے تحت لکھاہے :

اس صحابی کے حالات کی تشریح لفظ ''شہر'' کے تحت کی جائے گی(ز)

اس کے بعد لفظ'' شہر ْ'' کے تحت لکھتا ہے :

''شہر ذویناق'' یمن کا ایک علاقائی فرماں رواتھا ۔ طبری نے اس کانام ایک روایت کے تحت اپنی کتاب میں یوں درج کیاہے :

ابوبکر نے ''عمیر ذومران ، سعید ذی رود اور شہر ذی یناق '' کو ایک خط کے ضمن میں حکم دیا کہ ''فیروز'' کی اطاعت کریں اورمرتدوں کے ایک ساتھ جنگ میں اس کے احکام پر عمل کریں ۔(ز)

۱۷۴

ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

اب ہم دیکھتے ہیں کہ طبری کی روایت کی داستان کیا تھی ۔

طبری نے اپنی تاریخ میں '' یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' کے عنوان سے اور ١١ھ کی روداد کے تحت سیف بن عمر سے نقل کر کے لکھا ہے :

جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کی خبر یمن کے لوگوں کو پہنچی تو ''قیس بن عبدیغوث مکشوح '' نے سرکشی کرکے ''فیروز، داذویہ ا ورجشیش''کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔

ابوبکر نے ، ''عمرذی مران ، سعید ذی زود، سمیفع ذی کلاع، حوشب ذی ظلیم اور شہر ذی یناف '' کے نام لکھے گئے ایک خط میں اٹھیں اسلام سے متمسک ہونے ، خدا کی اطاعت کرنے اور لوگوں کی خدمت کرنے کی دعوت دی اور وعدہ کیاکہ ان کی مدد کیلئے ایک سپاہ کو بھی بھیجیں گے۔

اس خط کا متن یوں ہے :

ابوبکر ،جانشین رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ''عمیر بن افلح ذی مران ، سعید بن عاقب ذی زود ، سمیفع ناکورذیکلاع ، حوشب ذی ظلیم اورشہری ذی یناف '' کے نام۔

امابعد، ایرانیوں کی مدد کے لئے جلدی کرو اور ان کے دشمنوں سے لڑو اور انھیں اپنی پناہ میں لے لو ، ''فیروز''کی اطاعت کرو اس کی خدمت کرنے کی کوشش کرووہ میری طرف سے اس علاقہ کا حکمراں ہے

ابوبکر نے اس خط کو ان سرداروں کے نام اس حالت میں لکھا کہ اس زمانہ میں وہ علاقہ''فیروز، دازویہ ،جشیش اورقیس '' کی باہمی حکمرانی میں تھا ۔ اس کے باوجود ابوبکرنے اس خط کے ذریعہ یمن کی حکومت کاحاکم فیروزکو منصوب کیا اور اس کے اس نئے عہدہ کا یمن کے سرداروں کو اعلان کیا ۔

جب یہ خبر ''قیس کوپہنچی توسخت بر ہم ہوا اور انتقام پر ُاتر آیا ۔ لہذا اس نے ذی کلاع کے نام ایک خط میں لکھا کہ ایرانی خانہ بدوش اور آوارہ لوگ ہیں اورآپ کی سرزمیوں میں سردار بن بیٹھے ہیں اور اگر انھیں فرصت دی جائے تو ہمیشہ آپ لوگوں پر سرداری کرتے رہیں گے۔ میرے خیال میں عقلمندی یہی ہے کہ ہم ان کے سرداروں کو قتل کر ڈالیں اور باقی لوگوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کریں

۱۷۵

ذی کلاع اور دیگر سرداروں نے اگر چہ قیس کے خط پر کوئی اعتنا نہ کیا لیکن فیروز اور دوسرے ایرانیوں کو بھی اپنے حال پر چھوڑ دیااوران کی کوئی مدد نہیں کی.

قیس نے اکیلے ہی ایرانی سرداروں کو قتل کرکے باقی سب لوگوں کو یمن کی سرزمین سے بھگانے پر کمر کس لی سرانجام اس مقصد کو پانے کے لئے فرصت کی تلاش میں تھا. بالاخراس نے پیغمبری کے مدعی ''اسود عنسی '' جوکچھ مدت پہلے قتل کیا گیا تھا اور اس کے حامی یمن کے شہروں میں پراکندہ ہوگئے تھے ' ان کو اپنے مقصد کے لئے مناسب جانا۔لہذا اس نے مخفی طور سے ان کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور انھیں اپنے گرد جمع کیا .وہ بھی ایک پناہ کی تلاش میں تھے ، قیس کی دعوت قبول کرکے اس کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اس مخفیا نہ رابطہ سے کوئی آگاہ نہ ہوا۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ یمن کے شہر صنعا میں یہ افواہ پھیلی کہ اسودعنسی کے حامی شہر پر قبضہ کرنے کے لئے آرہے ہیں اس موقع پرقیس ریاکار نہ طور پر فوراً فیروزاور دازویہ '' کے پاس پہنچا اور خوف و وحشت کے عالم میں موجودہ حالات پران سے صلاح و مشورہ کرنے لگا تاکہ وہ شک نہ کریں کہ اس قضیہ میں اس کا اپنا ہاتھ ہے ۔ اس قدر ریا کاری اور مکاری سے پیش آیا کہ انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیااوراس کی رانمہایوئں سے مطمئن ہوگئے ۔

حکومت کا تختہ الٹنے میں قیس کی فریب کاریا ں :

دوسرے دن قیس نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ''فیروز''داذویہ اور جشیش کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی ۔

داذویہ نے اپنے دو دوستوں سے پہلے قیس کے گھر میں قدم رکھا اور قیس نے بھی فرصت کو غنیمت سمجھ کر بے رحمی کے ساتھ اس کو

فوراً قتل کر ڈالا اور اس طرح اپنی راہ میں موجود رکاوٹوں میں سے ایک کو ہٹا نے میں کامیاب ہوا

زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ ''فیروز ''بھی آپہنچا ۔ جوں ہی قیس کے گھر کے قریب پہنچا اس نے دو عورتوں کوجن کے مکانوں کی چھتیں ایک دوسرے کے روبرو تھیں یہ کہتے ہوئے سنا :

بیچارہ فیروز!وہ بھی اپنے دوست ''داذویہ'' کے مانند قتل کیا جائے گا!

۱۷۶

فیروز یہ باتیں سنکر ہل کے رہ گیا اور فوراً پر وہا ں سے ہٹ گیا ۔

اسی حالت میں جشیش بھی آپہنچا اور رودا د سے مطلع ہوا اوردونوں جلدی سے وہا ں سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔

قیس کے محافظوں اور حامیوں کو فیرز اور اس کے ساتھی کے فرار کے بارے میں ذرا دیر سے خبر ملی ۔ انہوں نے ان کا پیچھا کیا

لیکن فیروز اور جشیش بڑی تیزی کے ساتھہ ان سے دور ہو کر ''خولاں '' کے پہاڑ کی طرف بھاگ گئے تھے ،جہاں پر فیروز کے ماموں اور اس کے رشتہ دار رہتے تھے ، انہوں نے ان کے ہاں پناہ لے لی ۔قیس کے سپا ہی بھی مجبور ہو کر واپس لوٹے اور ماجر ا قیس سے بیان کیا ۔

قیس نے کسی مزاحمت کے بغیر صنعا پرحملہ کیا اور اسے بڑی آسانی کے ساتھ فتح کیا اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بھی

قبضہ جما لیا ۔اسی اثنا ء میں ''اسودعنسی'' کے سوار بھی مشہرصنعا میں داخل ہوگئے اور قیس کی ہمت افزائی کی

اس دوران یمن کے لوگوں کی ایک جماعت فیروز کے گرد جمع ہوگئی ۔ اور اس نے بھی ان حالات کے بارہ میں خلیفہ ابو بکر کو رپورٹ بھیجی۔ عام لوگ بھی جن کے سرداروں کے نام ابوبکر نے''فیروز''کی اطاعت کے سلسلے میں خط لکھا تھا ، قیس کے گرد جمع ہوگئے ، لیکن ان کے سرداروں نے اس ماجرا کے سلسلے میں گوشہ نشینی اختیار کی ۔

قیس نے ایرانیوں کی نابودی کا بگل بجادیا اور انھیں تین حصوں میں تقسیم کردیا ۔ ایک وہ گروہ تھا جنہوں نے تسلیم ہوکر اس کی اطاعت اختیار کر لی تھی ،انھیں قیس نے ان کے رشتہ داروں کے ہمراہ پناہ دیدی ۔ اور فیروزکی وفا داری پر باقی رہنے والے لوگوں کو دوگروہوں میں

تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو عدن بھیجدیا تاکہ وہا ں سے سمندری راستہ سے ایران چلے جائیں ۔ دوسرے گروہ کو براہ راست خشکی کے راستے ایران بھیجدیا اور ان سے کہا کہ اپنے وطن واپس چلے جاؤ۔ دونوں گروہوں کے ساتھ اپنے مامور بھی رکھے۔ (فیروز ) کے بیوی بچوں کو اس گروہ کے ہمراہ بھیجا جنھیں زمینی راستہ سے ایران بھیجدیا گیا تھا اور داذویہ کے رشتہ دار سمندری راستے سے بھیجدئے گئے تھے ۔

۱۷۷

فیروز کی قیس سے جنگ:

جب فیروذ،قیس کے اس کام سے آگاہ ہوا تو اس نے قیس سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اوراس منصوبہ پر عمل کرنے کی غرض سے ''

''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر صعصعہ'' کے پاس ایک قاصد بھیجا اوراس سے مدد طلب کی ، انہوں نے اس کی درخواست منظورکی اور اس کی مدد کے لئے آگئے ۔

ایک اور قاصد کو ''عک '' بھیجا اور عکیوں سے بھی مدد طلب کی ۔ بنی عقیل کے سپاہی جو فیروز کی مدد کے لئے آئے تھے ، ''معاویہ''نامی حلفاء کا ایک شخص ان کا سپہ سالار تھا ۔راستے میں اس گروہ کی اس قافلے سے مڈبھیڑ ہوئی جسے قیس کے کچھ سوار اسیروں کے طور پر ایران لے جارئے تھے ۔ ایک شدید جنگ میں قیس کے تمام سوار مارے گئے اور اسیروں کے خاندان آزاد کرالئے گئے ۔

عکیوں کے سپاہیوں کی بھی راستے میں دوسرے گروہ سے مڈبھیڑ ہوئی اور ان کے درمیان بھی ایک گھمسان کی جنگ کے بعد تمام سپاہی مارے گئے اور ایرانی اسراء آزاد کرالئے گئے ۔

اس فتح و کامرانی کے بعد عقیلی اور عکی جنگجو فیروز کی مدد کے لئے آگے بڑھے۔فیروز بھی ان کی اور دوسرے یمینوں کی مدد سے جو اس سے ملحق ہوئے تھے، قیس سے جنگ کرنے کے لئے باہر نکلا اور شہر صنعاکے باہر قیس کے سپاہیوں سے نبرد آزما ہوا ۔ ان دو فوجیو ں کے درمیان ایک گھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔ یہ جنگ سرانجام قیس اور اس کے ساتھیوں کی برُی شکست پر تمام ہوئی ۔ اس جنگ میں قیس اور اس کے چند رشتہ دار بڑی مشکل سے زند ہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔

عمر وبن معدی کرب نے ''قیس '' کی سرزنش میں یہ اشعار کہے ہیں :

تم نے صیحح وفاداری نہیں کی بلکہ اس کے برعکس مکروفریب سے کا م لیا ۔ اس دوران ایک تجربہ کار اور سختیاں برداشت کئے ہوئے شخص کے علاوہ کوئی یہ مشکلات برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس حملے سے قیس کیسے افتخار کا تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے جبکہ اس کا وہی حقدارہے جو اس کاسزاوارہو۔

۱۷۸

قیس نے عمروکے طنزاور سرزنش کے جواب میں اشعار کہے :

میں نے اپنی قوم کے ساتھ بے وفائی اور ظلم نہیں کیا ہے ۔

میں نے ان ظالموں کے خلاف ایک جرأتمندفوج تشکیل دی جنہوں نے قبائل ''عمروومرثد'' پر حملہ کیا تھا ۔

میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایک دلیر اورشجاع اور باعزت پہلوان تھا ۔

داذویہ تمہارے لئے فخرو مباہا ت کا سبب نہیں ہے ، وہ ایسا ہے جس نے اس کے ہاں پناہ لی اس کو دشمن کے حوالے کیا ہے ۔

اور فیروز تو اس نے کل تم پر ظلم کیاہے اور تمہارے مال ومنال کو لوٹ چکا ہے اور تمہارے خاندان کو نابود کر چکا ہے ،لیکن آج

اس نے ناتواں اور ذلیل و خوار ہو کر تمہارے ہاں پناہ لے لی ہے !!

طبری اس داستان کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

ابوبکر نے قیس کی گوشمالی اوراسود عنسی کے فراری سپاہیو ں کا پیچھا کرنے کے لئے ''مھاجر بن ابی امیہ ''کا انتخاب کیا ۔ مھاجر بن ابی امیہ ان

سب کو قتل عام کر کے فاتحانہ طور پر صنعا میں داخل ہوا اور قیس کو قیدی بناکرابوبکر کی خدمت میں بھیجدیا ۔ ابوبکر کی نگاہ جب قیس

پر پڑی ، تو انہوں نے پوچھا :

قیس !کیاتم نے خدا کے بندں سے جنگ کی ہے اور انھیں قتل کیا ہے ؟

اور مومنوں و مسلمانو ں کے بجائے دین سے مخرف مرتدوں و کافروں سے دوستی کرکے مدد طلب کی ہے؟

ابوبکر نے فیصلہ کیا کہ اگر داذویہ کے قتل میں قیس کی شرکت ثابت ہوجائے تو اسے قصاص کے طور پر سزائے موت دے گا

لیکن قیس نے پوری طاقت کے ساتھ اس قسم کے بے رحمانہ قتل کے الزام سے انکار کر دیا۔ سرانجام کافی دلائل وثبوت مہیانہ ہونے ٍکی وجہ سے ابوبکر نے قیس کو معاف کردیا اور نتیجہ کے طور پر وہ بھی صیحح وسالم اپنے گھر اورخاندان میں واپس چلاگیا۔(طبری کی بات کا خاتمہ )

۱۷۹

اس افسانہ کے راویوں کی تحقیق:

سیف نے اس روایت میں درج ذیل نام بعنوان راوی ذکر کئے ہیں :

١۔ مستینر بن یزید

٢۔عروة بن غزیہ دثینی ۔ ان دو کا نام سند کے طور پر روایت میں دوبار ذکر کیا گیا ہے ۔

٣۔ سہل بن یوسف ۔ روایت میں اس کا ایک بارنام آیا ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے بارہا کہا ہے کہ سیف کے یہ تینوں راوی جعلی ہیں اور ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ۔

اصل حقیقت:

قیس کی داستان اور اس پر داذو یہ کے قتل کے الزام کے بارے میں بلاذری کی کتاب فتوح البلدان ۔ جس میں سیف ابن عمر سے روایت نقل نہیں کی گئی ہے، میں یوں لکھا ہے :

قیس کو ''داذویہ '' کو قتل کرنے کا ملزم ٹھہر یا گیا ۔ یہ خبر اور یہ کہ وہ ایرانیوں کو صنعاسے نکال باہر کرنا چاہتا ہے اس کی خبر بھی، ابوبکر کو پہنچی۔ ابوبکر اس خبر کو سن کر سخت برہم ہوئے ، اور صنعا میں مامور اپنے کاگزار ''مہاجر بن ابی امیہ'کو لکھا کہ قیس کوفوراً گرفتار کر کے مدینہ بیھجدے ۔

قیس کے مدینہ میں خلیفہ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد ابوبکر نے منبر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس اسے پچاس بارقسم دی کہ '' اس نے داذویہ کو قتل نہیں کیا ہے ۔''

قیس نے خلیفہ کے حکم مطابق قسم کھائی ، ابوبکر نے بھی اسے چھوڑ دیا اور اس کو دیگر سپاہیوں کے ہمراہ رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے شام کے محا ذکی طرف روانہ کر دیا ۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246