یوسف قرآن

یوسف قرآن 30%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174819 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں

تالیف: محمد رے شہری

۲

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

۳

مقدمہ

الحمد ﷲ رب العالمین والصلاة علیٰ عبده المصطفیٰ محمد وآله الطاهرین و خیارصحابته اجمعین

ہم کتاب ''علم و حکمت قرآن و حدیث کی روشنی میں ' کے مقدمہ میں اشارہ کر چکے ہیں کہ اس کتاب کے مباحث کی تکمیل کے لئے کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں '' کا مطالعہ کرنا ضروری ہے اور یہ اس سلسلہ کی پانچویں کتاب ہے جو خدا کے فضل سے پہلی کتاب کی اشاعت کے تھوڑے ہی وقفہ کے بعد شائع ہو رہی ہے ۔

یہ کتاب آیات و روایات کی مدد سے معرفت کے موضوع پر نئے نکات پیش کرتی ہے امید ہے کہ ارباب علم و حکمت کے نزدیک مقبولیت کا درجہ حاصل کر ے گی ۔

اس بات کی طرف اشارہ کر دینا ضروری ہے کہ اس کتاب کا پہلا حصہ حجۃ الاسلام جناب شیخ رضا برنجکار کے تعاون سے اور دوسرا حصہ حجۃ الاسلام جناب عبد الھادی مسعودی کی مدد سے مکمل ہوا۔لہذاہم ان دونوں اور ان تمام حضرات کا شکر یہ ادا کرتے ہیںکہ جنہوںنے اس کتاب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے ، صحیح روایات ڈھونڈ نے اور اس سے متعلق دیگر امور میں ہمارا تعاون کیا ہے،اور خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ خدا انہیں آثار اہلبیت کو مزید نشر کرنے کی توفیق عطا کرے اور جزائے خیر سے نوازے۔

آخر میں اختصار کے ساتھ اپنی تحقیق کا اسلوب بیان کرتے ہیں:

1۔ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ ایک موضوع سے مربوط شیعی اور سنی روایات کو جدید وسائل تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے جامع ترین ، موثق ترین اور قدیم ترین مصادر سے اخذ کیا جائے۔

۴

2۔ کوشش کی گئی ہے کہ درج ذیل حالات کے علاوہ تکرار روایات سے اجتناب کیا جائے:

الف: روایت کے مصادر مختلف ہوں اور روایات میں واضح فرق ہو۔

ب: الفاظ اور اصطلاحات کے اختلاف میں کوئی خاص نکتہ مخفی ہو۔

ج: شیعہ اور سنی روایات کے الفاظ میں اختلاف ہو۔

د: متن روایت ایک سطر سے زیادہ نہ ہو لیکن دو بابوں سے مربوط ہو۔

3۔ اور جہاں ایک موضوع سے متعلق چند نصوص ہیں جن میں سے ایک نبی (ص) سے منقول ہو اور باقی ائمہ٪ سے تو اس صورت میں حدیث نبی (ص)کو متن میں اور بقیہ معصومین کی روایات کو حاشہ پر ذکر کیاہے ۔

4۔ہر موضوع سے متعلق آیات کے ذکر کے بعد معصومین(ع) کی روایات کو رسول خدا(ص) سے امام زمانہ (عج) تک بالترتیب نقل کیا جائیگا۔ مگر ان روایات کو جو آیات کی تفسیر کے لئے وارد ہوئی ہیں تمام روایات پر مقدم کیا گیا ہے اور بعض حالات میں مذکورہ ترتیب کا لحاظ نہیں کیا گیا ہے ۔

5۔ روایات کے شروع میں صرف معصوم (ص) کا نام ذکر کیا جائیگا لیکن اگر راوی نے فعلِ معلوم کو نقل کیا ہے یا ان سے مکالمہ کیا ہے یا راوی نے متن حدیث میں کوئی ایسی بات ذکر کی ہے جو معصوم (ع) سے مروی نہیںہے اس میں معصوم کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔

6۔ حاشیہ پر متعدد روایات کے مصادر کواعتبارکے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے ۔

۵

7۔ اگر بنیادی منابع تک دسترسی ہو تو حدیث بلا واسطہ انہیں منابع سے نقل کی جاتی ہے ''بہار الانوار'' اور ''کنزالعمال'' اور اس لحاظ سے کہ یہ دونوں احادیث کا جامع منبع ہیں لہذا منابع کے آخر میں انکا بھی ذکر کر دیا گیا ہے ۔

8۔ منابع کے ذکر کے بعد کہیں پر بعض دوسرے منابع کی طرف ''ملاحظہ کریں'' کے ذریعہ اشارہ کیا ہے ان موارد میں نقل شدہ متن اس متن سے جسکا حوالہ دیا گیا ہے کافی مختلف ہے ۔

9 ۔ اس کتاب میں دوسرے ابواب کا حوالہ اس وقت دیا گیا ہے جہاں روایات میں مناسبت ہے ۔

10۔ کتاب کا مقدمہ اور بعض فصول و ابواب کے آخر میں بیان ہونے والے توضیحات و نتائج اس کتاب یا اس باب کی روایات کا ایک کلی جائزہ ہے اور بعض روایات میں جو دشواریاں ہیں انہیں حل کیا گیا ہے ۔

11۔ اہمترین نکتہ یہ ہے کہ ہم نے حتی الامکان ہر باب میں معصوم سے صادر ہونے والی حدیث کی توثیق کےلئے عقلی و نقلی قرائن کا سہارا لیا ہے ۔

محمد رے شہری

8 صفر 1419ق ھ

۶

پیش لفظ

تفکر و تعقل اسلام کا ستون ہے اور عقائد و اخلاق اور اعمال میں اس کا مرکز ہے لیکن یہ آسمانی شریعت انسان کو اس بات کی ا جازت نہیں دیتی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو تسلیم کرے جس کو عقل صحیح نہیں سمجھتی اور نہ ہی ان صفات سے متصف ہونے کا اذن دیتی ہے جس کو عقل برا جانتی ہے۔ اور نہ ان اعمال کو بجالانے کا حق دیتی ہے کہ جن کو عقل اچھا نہیںسمجھتی ہے ۔

لہذا آیات قرآن ، احادیث رسول اور احادیث اہلبیت(ع) غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی جیسے تفکر، تذکر، تدبر، تعقل، تعلم، تفقہ، ذکر اور عقل و خرد ہیں یہی تمام چیزیں بنیاد ہیں اور دوسری چیزوں کی نسبت ان کی طرف زیادہ توجہ دلائی گئی ہے ۔ قرآن کریم میں کلمہ علم اور اس کے مشتقات 779 بار، ذکر 274 بار، عقل 49 بار ، فقہ 20 بار ، فکر 18 بار، خرد 61 بار اور تدبر 4 بار آیا ہے ۔

اسلام کی نظر میں عقل انسان کی بنیاد، اسکی قدر و قیمت کا معیار، درجات کمال اور اعمال کے پر کھنے کی کسوٹی ، میزان جزا اور خداکی حجتِ باطنی ہے ۔

عقل انسان کے لئے گرانقدر ہدیہئ الٰہی ، اسلام کی پہلی بنیاد ، زندگی کا اساسی نقطہ اور انسان کا بہترین زیور ہے ۔

عقل بے بہا ثروت ، بہترین دوست و راہنمااور اہل ایمان کا بہترین مرکز ہے اسلام کے نقطئہ نظر سے علم عقل کا محتاج ہے لہذا علم عقل کے بغیر مضر ہے ۔ چنانچہ جسکا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو جاتا ہے اس کےلئے وبال جان ہو جاتا ہے ۔

۷

مختصر یہ کہ اسلام کی نظر میں مادی و معنوی ارتقائ، زندگانی ئدنیا و آخرت کی تعمیر، بلند انسانی سماج تک رسائی اور انسانیت کی اعلیٰ غرض و غایت کی تحقیق صحیح فکر کرنے سے ہی ممکن ہے اور انسان کی تمام مشکلات غلط فکر اور جہل کا نتیجہ ہے لہذا دنیا میں قیامت کے بعد باطل عقائد کے حامل افراد حساب کے وقت اپنے برے اعمال اور برے اخلاق کی وجہ سے مشکلات میں مبتلا ہوںگے تو کہیں گے :

وقالوا لوکنا نسمع اونعقل ما کنا فی اصحاب السعیر، فاعترفوا بذنبهم فسحقا لاصحاب السعیر

اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے؛ تو انہوںنے خود اپنے گناہ کا اقرار کر لیا تو اب جہنم والوںکے لئے تو رحمت خدا سے دوری ہی دوری ہے ۔

عقل کے لغوی معنی

لغت میں عقل کے معنی منع کرنا، باز رکھنا، روکنا، اور حبس کرنے کے ہیں۔ جیسے اونٹ کو رسی سے باندھنا تاکہ کہیں جانہ سکے ، انسان کے اندر ایک قوت ہوتی ہے جسے عقل کہا جاتا ہے جو اسے فکری جہالت سے بچاتی ہے اور عملی لغزش سے باز رکھتی ہے لہذا رسول خدا)ص( فرماتے ہیں:

العقل عقال من الجهل

عقل جہالت سے باز رکھتی ہے ۔

۸

عقل اسلامی روایات میں

محدث کبیر شیخ حر عاملیؒ بابِ ''وجوب طاعۃ العقل و مخالفۃ الجہل'' کے آخر میں معانی عقل کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

علماء کے کلام میں عقل کئی معنی میں استعمال ہوئی ہے احادیث میں جستجو کے بعد عقل کے تین معنی دستیاب ہوتے ہیں:

1۔ وہ قوت ہے کہ جس سے اچھائیوں اور برائیوں کا ادراک، ان دونوں میں امتیاز اور تمام امورکے اسباب کی معرفت وغیرہ حاصل کی جائے اور یہی شرعی تکلیف کا معیار ہے ۔

2۔ ایسی حالت و ملکہ کہ جو خیر و منافع کے انتخاب اور برائی و نقصانات سے اجتناب کی دعوت دیتا ہے ۔

3۔ تعقل علم کے معنی میں ہے کیوںکہ یہ جہل کے مقابل میں آتا ہے نہ کہ جنون کے اور اس موضوع کی تمام احادیث میں عقل دوسرے اور تیسرے معنی میں زیادہ استعمال ہوئی ہے ۔واللہ اعلم۔

جن موارد میں کلمئہ عقل اور اس کے مترادف کلمات اسلامی نصوص میں استعمال ہوئے ہیں ان میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ کبھی انسان کے سرچشمئہ ادراکات اور کبھی اس کے ادراکات سے حاصل شدہ نتیجہ میں استعمال ہوتا ہے اورکبھی دونوں مختلف معنی میں استعمال ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

الف: عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ

1۔ تمام معارفِ انسانی کا سرچشمہ

جن احادیث جن میں حقیقتِ عقل کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے یا نور کو وجود عقل کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے یا عقل کو الہی ہدیہ اور انسان کی اصل قرار دیا گیا ہے ،وہ انہیں معنی کیطرف اشارہ کرتی ہیں۔

۹

ان احادیث کے مطابق انسان اپنے وجود میں ایک نورانی طاقت رکھتا ہے جو اسکی روح کی حیات ہے اگر یہ طاقت نشو ونما پائے اور سنور جائے تو انسان اسکی روشنی میں وجود کے حقائق کا ادراک، محسوس وغیر محسوس حقائق میں تمیز، حق و باطل میں امتیاز، خیر و شر اور اچھے و برے میں فرق قائم کر سکتا ہے ۔

اگر اس نورانی طاقت اور باطنی شعور کی تقویت کی جائے تو انسان کسبی ادراکات سے بلند ہو کر سوچے گا یہاں تک کہ تمام غیب کو غیبی بصیرت سے دیکھیگا اورہ رغیب اس کے لئے شہود ہو جائیگا۔ اسلامی نصوص میں اس رتبئہ عقل کو یقین سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

2۔ فکر کا سرچشمہ

اسلامی متون میں عقل کو فکر و نظر کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے ۔ ان موارد میں عقل ہوشیاری، فہم اور حفظ کے معنی میں استعمال ہوئی ہے جس کا مرکز دماغ ہے ۔

وہ آیات و احادیث جن میں انسان کو تعقل اور غور و فکر کی طرف ابھارا گیا ہے اسی طرح وہ احادیث جن میں عقل تجربی اور عقل تعلمی کو فطری و موہوبی عقل کے ساتھ بیان کیا ہے یہ ایسے نمونے ہیںجن میں لفظ عقل منبعِ فکر میں استعمال ہوا ہے ۔

3۔الہام کا سرچشمہ

اخلاقی وجدان ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کے باطن میں اخلاقی فضائل کی طرف دعوت اور رذائل سے روکتا ہے بعبارت دیگر اخلاقی فضائل کی طرف فطری کشش اور رذائل کی طرف سے فطری نفرت کا احساس ہے ۔

اگر انسان خود کو تمام عقائد و سنن اور مذہبی و اجتماعی آداب سے جدا فرض کرکے مفہوم عدل و ظلم، خیر و شر، صدق و کذب، وفا ئے عہد اور عہد شکنی کے بارے میں غور کریگا تو اسکی فطرت یہ فیصلہ کریگی کہ عدل، خیر ، صدق اور وفائے عہد اچھی چیز ہے جبکہ ظلم ، شر ، جھوٹ اور عہد شکنی بری بات ہے ۔

۱۰

فضائل کی طرف میلان اور رذائل کی طرف سے نفرت کے احساس کو قرآن نے الہی الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها وتقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا۔

یہ احساس اور یہ الہام انسان کےلئے خدا کی معرفت کا سنگ بنیاد ہے اسکا سرچشمہ یعنی نہفتہ احساس جو انسان کے اندر اخلاقی اقدار کا شعور پیدا کرتا ہے اسی منبع اسلام کو اسلامی متون میں عقل کہا گیا ہے اور تمام اخلاقی فضائل کوعقل کا لشکر اور تمام رذائل کو جہالت کا لشکر کہا گیا ہے ۔

نکتہ

بعض فلسفہ کی کتابوں میں اما م علی (ع) سے عقل کی تفسیر کے بارے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس کی تطبیق فلسفہ میں معانی عقل میں سے کسی ایک معنی پر کی جاتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے :

قال السائل: یا مولای وما العقل؟ قالں: العقل جوهر درّاک، محیط بالاشیاء من جمیع جهاتها عارف بالشی قبل کونه فهو علة الموجودات ونهایة المطالب

سائل نے کہا: مولا! عقل کیاہے؟ فرمایا: عقل درک کرنے والا جوہر ہے جو حقائق پر تمام جہات سے محیط ہے۔ اشیاء کو انکی خلقت سے قبل پہچان لیتا ہے یہ جوہر سبب موجودات اور امیدوں کی انتہا ہے ۔

حدیث کے مصادر میں تلاشِ بسیار کے باوجود مذکورہ حدیث کا کوئی مدرک نہیں مل سکا۔

۱۱

ب: عقل کا استعمال اورنتیجہ ادراکات

حقائق کی شناخت

لفظ عقل مدرِک کے ادراکات کے شعور میں تو استعمال ہوتا ہی ہے۔ مزید بر آن اسلامی متون میں عقلی مدرکات اور مبدا و معاد سے متعلق حقائق کی معرفت میں استعمال ہوتا ہے ۔

اور اسکی بہترین مثال وہ احادیث ہیںجو عقل کو انبیاء کا ہم پلہ اور خدا کی باطنی حجت قرار دیتی ہیں اسی طرح وہ احادیث جو عقل کو تہذیب وتربیت کے قابل سمجھتی ہیں اور اسی کو فضائلِ انسان کا معیار قرار دیتی ہیں کہ جس کے ذریعہ اعمال کی سزا و جزا دی جائیگی۔ یا عقل کو ''فطری''، ''تجربی''، ''مطبوع'' اور''مسموع'' میں تقسیم کرتی ہیں۔ عقل سے مراد شناخت و آگاہی ہے۔

عقل کے مطابق عمل

کبھی لفظ عقل کا استعمال قوت عاقلہ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ عقل کی تعریب کے بارے میں رسول خدا)ص( سے مروی ہے'' العمل بطاعة اﷲ و ان العمال بطاعة اﷲ هم العقلاء'' عقل خدا کے احکام کی پیروی کرنے کو کہتے ہیں یقینا عاقل وہ لوگ ہیں جو خدا کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں۔

یا حضرت علی (ع) سے مروی ہے:'' العقل ان تقول ما تعرف و تعمل بما تنطق به'' عقل یہ ہے کہ جس کے بارے میں جانتے ہو وہ کہو اور جو کچھ کہتے ہو اس پر عمل کرو۔

لفظ جہل کا استعمال بھی لفظ عقل کے استعمال کی مانند طبیعت جہل کے مقتضیٰ کے مطابق عمل کرنے کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ دعا میں وارد ہو اہے'' وکل جہل عملتہ...''اور ہر جہالت کو انجام دیا......

۱۲

عقل کی حیات

عقل روح کی حیات ہے لیکن اسلامی نصوص کے مطابق اسکی بھی موت و حیات ہوتی ہے ، انسان کا مادی و معنوی تکامل اسی کی حیات کا رہینِ منت ہے ۔ بشر کی حیاتِ عقلی کا اصلی راز قوت عاقلہ (جو کہ اخلاقی وجدان ہے ) کا زندہ ہونا ہے الہی انبیاء کی بعثت کے اغراض میں سے ایک اساسی غرض یہ بھی ہے۔

حضرت علی -نے اپنے اس جملہ ''هو یثیر والهم وفائن العقول'' (اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں) کے ذریعہ بعثت انبیاء کے فلسفہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اسرار کائنات کو کشف کرنے کےلئے فکر کو زندہ کرنا انسان کےلئے ممکن ہے ؛ لیکن کمال مطلق کی معرفت کےلئے عقل کو زندہ کرنا اور اعلیٰ مقصد انسانیت پر چلنے کےلئے منصوبہ سازی صرف خدا کے انبیاء ہی کےلئے ممکن ہے۔

قرآن و حدیث میں جو کچھ عقل و جہل اور عقل کے صفات و خصائص اور اس کے آثار و احکام کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ سب ہی عقل کے اسی معنی سے مخصوص ہے ۔

جب انسان انبیاء کی تعلیمات کی روشنی میں حیات عقلی کے بلند ترین مقام پر فائز ہو جاتا ہے تو اس میں ایسی نورانیت و معرفت پیدا ہو جاتی ہے کہ جس کے نتیجہ میں نہ فقط یہ کہ عقل خطا سے دو چار نہیں ہوتی بلکہ انسانیت کے اعلیٰ مقاصد تک پہنچنے کےلئے مدد گار بھی ہے ۔

چنانچہ علی - فرماتے ہیں:

ایسے شخص نے اپنی عقل کو زندہ رکھا ہے ، اور اپنے نفس کو مردہ بنا دیا تھا۔ اسکا جسم باریک ہو گیا ہے اور اس کا بھاری بھرکم جسد ہلکا ہو گیا ہے اس کے لئے بہترین ضو فشاں نور ہدایت چمک اٹھا ہے اور اس نے راستے کو واضح کر کے اسی پر چلا دیا ہے ۔ تمام در وازوں نے اسے سلامتی کے دروازہ اور ہمیشگی کے گھر تک پہنچا دیا ہے اور اس کے قدم طمانینتِ بدن کے ساتھ امن و راحت کی منزل میں ثابت ہو گئے ہیں کہ اس نے اپنے دل کو استعمال کیا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیا ہے ۔

۱۳

بنا بر ایں اور حقیقی علم و حکمت کی اس تعریف کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہم نے کتاب'' علم و حکمت قرآن و حدیث کی رونشی میں'' بیان کی ہے اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نصوص نے انسان کے وجود میں باطنی نورانی قوت کو بیان کرنے کےلئے تین اصطلاحیں ، علم، حکمت اور عقل پیش کی ہیںاور یہ نورانی قوت، انسان کو مادی و معنوی تکامل کی طرف ہدایت کرتی ہے لہذا اسکو نور علم سے اور چونکہ اس قوت میں استحکام پایا جاتا ہے اور خطا کا امکان نہیں ہوتا لہذا حقیقی حکمت سے اور یہی قوت انسان کو نیک اعمال کے انتخاب پر ابھارتی ہے اور اسے فکری و عملی لغزشوں سے باز رکھتی ہے لہذا اسے عقل سے تعبیر کرتے ہیں۔ علم و حکمت اور عقل کے سرچشمے، اسباب آثار اور آفات و موانع کی تحقیق سے یہ مدعا اچھی طرح ثابت ہو جاتا ہے۔

عقل نظری اور عقل عملی

عقل نظری و عقل عملی کے سلسلہ میں دو نظریہ موجود ہیں:

پہلا نظریہ یہ ہے کہ عقل، ادراک کا سرچشمہ ہے ، یہاں پر عقل نظری و عقل عملی میں کوئی فرق نہیں ہے ؛ بلکہ فرق مقصد میں ہے۔ اگر کسی چیز کے ادراک کا مقصد معرفت ہو تو اس کے چشمہئ ادراک کو عقل نظری کہتے ہیں؛ جیسے حقائقِ وجودکا ادراک اور اگرکسی چیز کے ادراک کا مقصد عمل ہو تو اس کے سر چشمہ ادراک کو عقل عملی کہتے ہیں؛ جیسے عدل کے حسن، ظلم کے قبیح، صبر کے پسندیدہ اور اور بیتابی کے مذموم ہونے کی معرفت وغیرہ....اس نظریہ کی نسبت مشہور فلاسفہ کی طرف دی گئی ہے اور اس نظریہ کی بناء پر عقل عملی ، ادراک کا سر چشمہ ہے نہ کہ تحریک کا۔

۱۴

دوسرا نظریہ ، یہ ہے کہ عقل عملی و عقل نظری میں بنیادی فرق ہے ، یعنی ان دونوں کے سرچشمہئ ادراک میں فرق ہے ، عقل نظری، سر چشمہ ادراک ہے چاہے ادراک کا مقصد معرفت ہو یا عمل؛ اور عقل عملی عمل پر ابھارے کا سر چشمہ ہے نہ کہ ادراک کا۔عقل عملی کا فریضہ، عقل نظری کے مدرکات کا جاری کرنا ہے ۔

سب سے پہلے جس نے اس نظریہ کو مشہور کے مقابل میں اختیار کیا ہے وہ ابن سینا ہیں ان کے بعد صاحب محاکمات قطب الدین رازی اور آخر میں صاحب جامع السعادات محقق نراقی ہیں۔

پہلا نظریہ، لفظ عقل کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے اور اس سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ عقل عملی کی مبدا ادراک و تحریک سے تفسیر کی جائے کیونکہ جو شعور اخلاقی اور عملی اقدار کو مقصد قرار دیتا ہے وہ مبدا ادراک بھی اور عین اسی وقت مبدا تحریک بھی ہے اور یہ قوت ادراک وہی چیز ہے کہ جس کو پہلے وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جا چکا ہے ۔ اور نصوص اسلامی میںجسے عقل فطری کا نام دیا گیا ہے ، اس کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔

۱۵

عقل فطری اور عقل تجربی

اسلامی نصوص میں عقل کی عملی و نظری تقسیم کے بجائے دوسری بھی تقسیم ہے اور وہ عقل فطری اور عقل تجربی یا عقل مطبوع اور عقل مسموع ہے ، امام علی - فرماتے ہیں:

العقل عقلان: عقل الطبع و عقل التجربہ، و کلاھما یؤدی المنفعۃ۔

عقل کی دو قسمیںہیں: فطری اور تجربی اور یہ دونوں منفعت بخش ہیں۔

نیز فرماتے ہیں:

رأیت العقل عقلین

فمطبوع و مسموع

ولا ینفع مسموع

اذا لم یک مطبوع

کما تنفع الشمس

و ضوء العین ممنوع

میں نے عقل کی دو قسمیں دیکھیں۔ فطری اور اکتسابی، اگر عقل فطری نہ ہو تو عقل اکتسابی نفع بخش نہیں ہو سکتی، جیسا کہ آنکھ میں روشنی نہ ہو تو سورج کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

ملحوظ خاطر رہے کہ علم کی بھی یہی تقسیم آپ سے منقول ہے:

العلم علمان: مطبوع و مسموع ولا ینفع المسموع اذا لم یکن المطبوع

۱۶

علم کی دو قسمیں ہیں: فطری اور اکتسابی ، اگر فطری علم نہ ہو تو اکتسابی علم فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ فطری عقل و علم کیا ہیں اور اکتسابی عقل و علم میں کیا فرق ہے ؟ اور فطری عقل و علم نہ ہونے کی صورت میں عقل تجربی اور علم اکتسابی فائدہ کیوں نہیں پہنچا سکتے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ بظاہر فطری عقل و علم سے مقصود ایسے معارف ہیںکہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوںکی فطرت میں ودیعت کیا ہے تاکہ اپنی راہ کمال پا سکیںاور اپنی غرض خلقت کی انتہا کو پہنچ سکیں۔ قرآن نے اس فطری معارف کو فسق و فجور اور تقویٰ کے الہام سے تعبیر کیا ہے چنانچہ ارشاد ہے :

ونفس وما سواها فالهمها فجورها و تقواها

قسم ہے نفس اور اسکی جس نے اسے سنوارا ہے۔

اسی کو دور حاضر میں وجدان اخلاقی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔

عقل فطری یا وجدان اخلاقی ادراک کا سر چشمہ اور تحریک عمل کا منبع بھی ہے۔

اور اگر اسے انبیاء کی تعلیمات کی بنیاد پر زندہ کیا جائے اور رشد دیا جائے تو انسان وہ تمام معارف جو کسب و تجربہ کے راستوں سے حاصل کرتا ہے ان سے فیضیاب ہو سکتا ہے اور اسے انسانیت کی پاکیزہ زندگی میسر آجائےگی۔اگر عقل فطری خواہشات نفسانی کی پیروی اور شیطانی وسوسوں کے سبب مردہ ہو جائے تو انسان کو کوئی بھی معرفت اسکی مطلوب ومقصود زندگی تک نہیںپہنچا سکتی اور نہ ہی اس کے لئے مفید ہو سکتی ہے؛جیسا کہ امیر المومنین (ع) کے حسین کلام میں موجود ہے کہ: عقل فطری کی مثال آنکھ کی سی ہے اور عقل تجربی کی مثال سورج کی سی ہے ، جیسا کہ سورج کی روشنی نابینا کو پھسلنے سے نہیں روک سکتی اسی طرح عقل تجربی بھی پھسلنے اور انحطاط سے ان لوگوں کو نہیں روک سکتی کہ جنکی عقل فطری اور وجدان اخلاقی مردہ ہو چکے ہیں۔

۱۷

عاقل و عالم کا فرق

ہم کتاب'' علم و حکمت ، قرآن و حدیث کی روشنی میں'' کے پیش گفتار میں وضاحت کر چکے ہیں کہ لفظ علم اسلامی نصوص میں دو معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ، ایک جوہر و حقیقت علم اور دوسرے سطحی و ظاہری علم، پہلے معنیٰ میں عقل اور علم میں تلازم پایا جاتا ہے ، جیسا کہ امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں:

العقل و العلم مقروناِ فی قرن لا یفترقان ولا یتباینان

عقل اور علم دونوں ایک ساتھ ہیںجو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں۔

اس بنیاد پر عالم و عاقل مینکوئی فرق نہیں ہے ۔ عاقل ہی عالم ہے اور عالم ہی عاقل ہے نیز ارشاد پروردگار ہے :

تلک الامثال نضربها للناس وما یعقلها الا العالمون

یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ۔

لیکن دوسرے معنی کے لحاظ سے؛ عاقل اور عالم میں فرق ہے ، علم کو عقل کی ضرورت ہے کیوں کہ ممکن ہے کہ کوئی عالم ہو لیکن عاقل نہ ہو۔ اگر علم ، عقل کے ساتھ ہو تو عالم اور کائنات دونوںکےلئے مفید ہے اور اگر علم ، عقل کے بغیر ہو تو نہ فقط یہ کہ مفید نہیںہے بلکہ مضر اور خطرناک ہے۔

۱۸

عقل کے بغیر علم کا خطرہ

امام علی (ع) کا ارشاد ہے العقل لم یجن علیٰ صاحبہ قط و العلم من غیر عقل یجنی علیٰ صاحبہ'' عقل، صاحب عقل کو کبھی تکلیف نہیں پہنچاتی لیکن عقل کے بغیر علم، صاحب علم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔

دورحاضر میں علم کافی ترقی کر چکا ہے لیکن عقل کم ہو گئی ہے ، آج کا معاشرہ مولائے کائنات کے اس قول کا مصداق بنا ہوا ہے :

من زاد علمه علیٰ عقله کان وبالا علیه

جس شخص کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہو تا ہے وہ اس کےلئے وبال ہو جاتا ہے ۔

نیز اس شعر کا مصداق ہے ۔

اذا کنت ذاعلم و لم تک عاقلا

فانت کذی نعل لیس له رجل

اگر تم عالم ہو اور عاقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس نعلین تو ہے لیکن پیر نہیں ہے۔

آج علم ، عقل سے جدا ہونے کے نتیجہ میں انسانی معاشرہ کو مادی و معنوی تکامل اور آرام و آسائش عطا کرنے کے بجائے انسان کے لئے بد امنی، اضطراب، فساد اور مادی و معنوی انحطاط کا باعث ہوا ہے ۔

آج کی دنیا میں علم، عیش طلب افراد، مستکبرین اور بے عقلوں کے لئے سیاسی ، اقتصادی اور مادی لذتوں کے حصول کا وسیلہ بنا ہو ا ہے کہ اس اسی سے دوسرے زمانوں سے زیادہ لوگوں کو انحراف و پستی کی طرف لے جارہے ہےں۔

۱۹

جب تک عقل کے ساتھ علم نہ ہو علم صحیح معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا اور انسانی معاشرہ کو آرام و سکون نصیب نہیں ہو سکتا، جیسا کہ امام علی (ع) کا ارشاد ہے :

افضل ما منّ اﷲ سبحانه به علیٰ عباده علم وعقل وملک وعدل

بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم، عقل ، بادشاہت اور عدل ہے ۔

مختصر یہ کہ دور حاضر میں علم دوسرے زمانوں سے زیادہ عقل کا محتاج ہے اور کتاب ''عقل و جہل قرآن و حدیث کی روشنی میں''جو آپ کے ہاتھوں میں ہے،اسکی ضرورت فرہنگی، اجتماعی اور سیاسی لحاظ سے دوسرے زمانوں سے کہیں زیادہ ہے ۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

آیت ۱۳:

(۱۳) قَالَ إِنِّی لَیَحْزُنُنِی أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ یَأْکُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ.

''(یعقوب نے)کہا تمہارا اس کو لے جانا مجھے صدمہ پہنچاتا ہے اور میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ تم سب کے سب اس سے بے خبر ہوج اور (مبادا)اسے بھیڑیا کھا جائے''۔

نکات:

حضرت یعقوب (ع)نے بظاہر بھیڑئے کے حملے سے خوف کا اظہار کیا۔ مصلحتوں کی بنیاد پر حسادت کا ذکر نہیں فرمایاہمارا حال بھی یہی ہے کہ ہمیں جس چیز سے ڈرنا چاہیئے اس سے نہیں ڈرتے۔ ہمیں حساب و کتاب دوزخ سے ڈرنا چاہیئے لیکن نہیں ڈرتے ۔ رزق و روزی، مقام و دولت جو پہلے سے مقدر ہیں اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے لیکن ہم پھر بھی ڈرتے ہیں!!۔

۴۱

پیام:

۱۔ راز فاش نہ کریں(اخاف ان یاکلہ الذئب) حضرت یعقوب علیہ السلاماپنے بیٹوں کی حسادت سے واقف تھے اسی لئے حضرت یوسف (ع)سے فرمایا تھاکہ بھائیوں سے اپنا خواب بیان نہ کرنا ، لیکن یہاں پر ان کی حسادت کا ذکر نہیں کرتے بلکہ بھیڑئےے اور غفلت کا بہانہ کررہے ہیں ۔

۲۔ اپنے بچوں کی نسبت احساس ذمہ داری پیغمبروں (ع)کی ایک خصلت ہے۔(لَیَحْزُنُنِی...اخاف)

۳۔ اپنے بچوں کو مستقل بنائیں، عشق پدری اور اپنے بچے کو آنے والے احتمالی خطرہ سے بچانادو حقیقتیں ہیں، لیکن اپنے بچے کو مستقل بنانا بھی ایک حقیقت ہے حضرت یعقوب (ع)نے جناب یوسف (ع)کو تمام بھائیوں کےساتھ روانہ کردیا اسلئے کہ نوجوان کو آہستہ آہستہ باپ سے جدا ہوکر اپنے لئے دوست بنانا چاہیئے اسے فکر کرکے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیئے چاہے کتنی ہی مشکلات اور غم والم کا سامنا کرنا پڑے۔

۴۔جھوٹے کو راستہ نہ دکھ(روایتوںمیں آیا ہے کہ بھیڑئےے کا موضوع جناب یوسف (ع)کے بھائیوں کے ذہن میں نہیں تھا بلکہ حضرت یعقوب (ع)کے بیان نے انہیںاس طرف متوجہ کیا)(۱)

--------------

( ۱ )تفسیرنورالثقلین

۴۲

آیت ۱۴:

(۱۴)قَالُوا لَئِنْ أَکَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ

'' وہ لوگ (یعقوب کے بیٹے)کہنے لگے جبکہ ہماری جماعت قوی ہے (اس پر بھی)اگر اس کو بھیڑےا کھاجائے تو ہم لوگ یقینا بڑے گھاٹا اٹھانے والے(نکمے) ٹھہریں گے''۔

نکات:

''عصب'' متحدو قوی گروہ و جماعت کو کہتے ہیں اس لئے کہ وحدت و یکجہتی میں اعصاب بدن کی طرح ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔

پیام:

۱۔ کبھی بزرگ اپنے تجربہ اور آگاہی کی بنیاد پر خطرے کا احساس کرلیتے ہیں لیکن جوان اپنی طاقت و قدرت پر مغرور ہوتے ہیںاور خطرہ کو مذاق سمجھتے ہیں ۔(نحن عصب)باپ پریشان ہے لیکن بچے اپنی طاقت و قدرت پر نازاں ہیں۔

۲۔اگر کوئی ذمہ داری کو قبول کرلے اور اسے نہ نبھا سکے تو وہ اپنا سرمایہ ، شخصیت ، آبرواور ضمیر کوخطرے میں ڈال دیتا ہے اور آخر کار نقصان اٹھاتاہے(لخاسرون)

۳۔ظاہری فریب اور جھوٹے احساسات کا اظہار جناب یوسف (ع)کے بھائیوں کا ایک دوسرا حربہ تھا۔(إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ)

۴۳

آیت ۱۵:

(۱۵) فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ یَجْعَلُوهُ فِی غَیَابَ الْجُبِّ وَأَوْحَیْنَا إِلَیْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ

''غرض یوسف کوجب یہ لوگ لے گئے اور اس پر اتفاق کرلیا کہ اسکو اندھے کنویں میں ڈال دیں اور (آخر کاریہ لوگ کر گزرے تو)ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (تم گھبر نہیں)ہم عنقریب تمہیں بڑے مرتبہ پر پہنچائیں گے (تب آپ انکے)اس فعل (بد)کے بارے میں انہیں ضرور بتائیں گے جبکہ انہیں اس بات کا شعور تک نہیں ہوگا''۔

نکات:

جب سے خدا نے حضرت یوسف (ع)کوحاکم بنانے کا ارادہ کیا اسی وقت سے ضروری ہوگیاکہ جناب یوسف (ع)چند مراحل سے گزریں غلام بنیں تاکہ غلاموں پر رحم کریں، کنویں اور قید خانہ میں رہیں تاکہ قیدیوں پر رحم کریں ۔ اسی طرح خداوندمتعال اپنے پیغمبر حضرت محمد (ص) سے فرماتاہے کہ آپ فقیر و یتیم تھے پس یتیم و فقیر کو اپنے پاس سے نہ بھگائےں(الم یجدک یتیمافاوی...فاما الیتیم فلا تقهر...) (۱)

پیام:

۱۔ کنویں کے اندر جناب یوسف (ع)کے اطمینان کا بہترین وسیلہ روشن مستقبل اور نجات کے بارے میں ''خداکی طرف سے الہام ہے''(اوحینا الیه)

--------------

( ۱ )سورہ ضحی آیت ۶ تا ۹

۴۴

۲۔مخالفین کااتفاق نظر اور اجتماع تمام مقامات پر کارساز اور حقانیت کی دلیل نہیں ہے بلکہ قانون خداوندی ہی حق ہونے کی دلیل ہے ۔(اجمعوا و اوحیناالیه)

۳۔ حساس مواقع پر امداد الٰہی ،اولیاء ِخداکی طرف آتی ہے(فی غیابت الجب ...و اوحیناالیه)

۴۔ جناب یوسف (ع)جوانی میں بھی وحی الٰہی کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے(اوحیناالیه)

سازش اور عمل کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے (بھائیوں نے کنویں میں پھینکنے کی سازش کی(القوه) لیکن جب عمل کا مرحلہ آیا تو جناب یوسف (ع)کو کنویں میں چھوڑ دیا(یجعلوه)

۴۵

آیت ۱۶:

(۱۶) وَجَائُوا أَبَاهُمْ عِشَائً یَبْکُونَ.

''اور یہ لوگ (اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے بعد) رات کی ابتدا میں اپنے باپ کے پاس (بناوٹی رونا ) روتے ہوئے آئے ''۔

پیام:

۱۔ سازش کرنے والے احساسات اور مناسب موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔(عشائ)

۲۔گریہ ہمیشہ صداقت کی علامت نہیں ہے لہٰذا ہر آنسو پر بھروسہ نہ کریں ۔(یبکون) (۱)

--------------

( ۱ )قرآن مجید میں گریہ اور آنسو کی چار قسمیں ہیں:

۱ ۔شوق و محبت کے آنسو۔ عیسائیوں کا ایک گروہ قرآن مجید کی آیتیں سن کر آنسو بہاتا تھا(...تری اعینهم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق) (سورہ مائدہ آیت ۸۳ )

۲ ۔حزن و حسرت کے آنسو ۔ عشق و محبت سے سرشارمسلمان جیسے ہی رسول اکرم (ص)سے سنتے تھے کہ جنگ میں جانے کی جگہ نہیں ہے تو رونے لگتے تھے۔(تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون) (سورہ توبہ آیت ۹۲ )

۳ ۔خوف وہراس کے آنسو: اولیاء الٰہی کے سامنے جیسے ہی آیات کی تلاوت ہوتی ہے روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں:(خرّواسجداو بکیا) (سورہ مریم آیت ۵۸ )(و یخرون للاذقان یبکون و یزیدهم خشوعا) ( سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۰۹ )

۴ ۔ مگرمچھ کے آنسو:سورہ یوسف کی یہی سولہویں آیت جس میں برادران یوسف اپنے باپ کی خدمت میں روتے ہوئے آئے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا(یبکون)

۴۶

آیت ۱۷:

(۱۷) قَالُوا یَاأَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَکَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنْتَ بِمُمِنٍ لَنَا وَلَوْ کُنَّا صَادِقِینَ

''اور کہنے لگے : اے بابا !ہم لوگ تو جاکر دوڑ لگانے لگے اور یوسف کو (تنہا)اپنے اسباب کے پاس چھوڑ دیا اتنے میں بھیڑیاآکر اسے کھا گیا اور ہم لوگ سچے بھی ہوں پھر بھی آپ کو ہماری باتوں پر یقین نہیں آئے گا''۔

نکات:

بھائیوں نے اپنی خطا کی توجیہ کے لئے پے درپے تین جھوٹ کا سہارہ لیا:

۱۔ کھیلنے گئے تھے۔

۲۔ یوسف کو سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا۔

۳۔ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

پیام:

۱۔خیانت کار ؛ڈرپوک اور جھوٹا ہوتاہے ، راز فاش ہونے سے ڈرتاہے(ما انت بمومن لنا و لو کنا صادقین)

۲۔مقابلہ و مسابقہ کا رواج گزشتہ ادیان میں بھی تھا ۔(نستبق)

۴۷

آیت ۱۸:

(۱۸)وَجَائُوا عَلَی قَمِیصِهِ بِدَمٍ کَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاﷲُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ

''یہ لوگ یوسف کے کرتے پر جھوٹ موٹ (بھیڑ)کا خون بھی(لگا کے باپ کے پاس)لے آئے ۔ یعقوب نے کہا (بھیڑئےے نے نہیںکھایا ہے)بلکہ تمہارے دل نے تمہارے بچ کے لئے ایک بات گڑھی ہے پھر (تو مجھ کو)صبر جمیل (کرنا)ہے اور جو تم لوگ کہتے ہو اس پر خدا ہی سے مدد مانگی جاتی ہے''۔

نکات:

مقدرات الٰہی پر صبر کرنا اچھی بات ہے لیکن ایک بچے پر جو ظلم ہوا ہے اس پر صبر کرنا کون سی ایسی بات ہے جسے حضرت یعقوب(ع)''فصبر جمیل'' سے یاد فرما رہے ہیں؟

جواب :سب سے پہلی بات تو یہ کہ حضرت یعقوب (ع)وحی کے ذریعہ سے جانتے تھے کہ جناب یوسف (ع)زندہ ہیں ۔دوسری بات یہ کہ جناب یعقوب(ع) کی ذرا سی ایسی حرکت جس سے بھائیوں کو گمان ہوجاتا کہ حضرت یوسف (ع)زندہ ہیں تو وہ کنویں پر جاکر انہیں نیست و نابود کردیتے ،تیسری بات یہ کہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیئے کہ حتی ظالموں پر بھی مکمل طور پر توبہ کی راہیں بند ہوجائیں۔

۴۸

پیام:

۱۔ مظلوم نمائی کے دھوکے میں نہ (جناب یعقوب (ع)خون بھرے کرتے اور آنسو کے فریب میں نہ آئے بلکہ فرمایا یہ تم نے اپنے بچ کے لئے گڑھا ہے)(بل سولت لکم انفسکم)

۲۔سازشوں سے بچتے رہو۔(بدم کذب)

۳۔نفس اور شیطان، انسان کے نزدیک گناہ کو اچھا کرکے پیش کرتے ہیں اور گناہگاروں کے لئے طرح طرح کے بہانے بناتے ہیں ۔(بل سولت لکم انفسکم)

۴۔ بہترین صبر وہ ہے جہاں دل جل رہا ہو آنسو نہ تھمتے ہوں پھر بھی خدا فراموش نہ ہو ۔(واللّٰه المستعان)

۵۔ باطنی طاقت اور صبر کے علاوہ حوادث میں انسان کو اللہ سے بھی مدد حاصل کرنی چاہیئے(فصبر جمیل واللّٰه المستعان)

۴۹

آیت ۱۹:

(۱۹) وَجَائَتْ سَیَّارَ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَی دَلْوَهُ قَالَ یَابُشْرَی هَذَا غُلَامٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَ وَاﷲُ عَلِیمٌ بِمَا یَعْمَلُونَ

''اور (خدا کی شان دیکھویوسف کنویں میں تھے کہ )ایک قافلہ (وہاں)آکر اترا ان لوگوں نے اپنے سقے کو (پانی بھرنے)بھیجا اس نے اپنا ڈول ڈالا ہی تھا (کہ یوسف اس میں ہو بیٹھے اور اس نے کھینچا تو باہر نکل آئے)وہ پکارا ! آہا یہ تو لڑکا ہے اور قافلہ والوں نے یوسف کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا رکھا حالانکہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں خدا اس سے خوب واقف ہے''۔

نکات:

خداوندمتعال اپنے مخلص بندوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑتا بلکہ مصیبتوں اور مشکلات سے نجات دیتا ہے ۔

جیسا کہ جناب نوح (ع) کو پانی کے اوپر ، جناب یونس (ع) کو پانی کے اندراور جناب یوسف (ع)کو پانی کے کنارے نجات دی ۔ اسی طرح جناب ابراہیم (ع)کو آگ سے جناب موسیٰ(ع) کو وسط دریا میں اور حضرت محمد مصطفی (ص) کو غارکے اندر ، حضرت علی علیہ السلام کو شب ہجرت رسول اکرم (ص)کے بستر پر سوتے ہوئے نجات دی۔

جب بھی خدا ارادہ کرتا ہے تو انسانی درخواست اور خواہش کے بغیر وہ جامہ عمل سے آراستہ ہوجاتا ہے ۔ جناب موسیٰ(ع) آگ لانے گئے تھے لیکن وحی اور پیغمبری کے ساتھ لوٹے، یہ قافلہ پانی لانے کے لئے گیا تھا لیکن وہ جناب یوسف (ع)کو نجات دے کر لوٹا۔

ارادئہ الٰہی سے کنویں کی رسی وسیلہ قرار پائی کہ جناب یوسف (ع)کنویں کی گہرائی سے نکل کر تخت و تاج اور حکومت تک پہنچیں تو ذرا غور کریں کہ''حبل الله'' ( اللہ کی رسی )سے کیا کیا کارنامے انجام پذیر ہوسکتے ہیں اور انسان بلندیوں کی کن منازل تک پہنچ سکتا ہے ۔

۵۰

پیام:

۱۔ جب اپنے حمایت نہیں کرتے توخدا غیروں کے ذریعہ سے مدد کرتا ہے جناب یوسف کے بھائی انہیں کنویں میں ڈال کر چلے گئے لیکن نا آشنا قافلہ نے انہیں نجات دی(جائت سیار)

۲۔کام کا آپس میں تقسیم کرنا معاشرتی زندگی کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے(واردهم) (پانی لانے کے ذمہ دار شخص کا ذکر ہے)

۳۔ کچھ لوگ انسان کو بھی بضاعت اور پونجی سمجھنے لگتے ہیں ۔(بضاع)

۴۔حقیقت دوسروں سے پوشیدہ ہوسکتی ہے لیکن عالم الغیب خدا سے کیسے پوشیدہ ہو(۱) (اسروه والله علیم)

--------------

( ۱ )واقعہ یوسف میں ہر گروہ نے کچھ نہ کچھ چھپانا چاہا لیکن خداوندعالم نے سب کچھ آشکار کردیا بھائیوں نے کنویں میں ڈالنے کو چھپایا، زلیخا نے اپنے عشق کو چھپایا ۔ لیکن خدانے ظاہر کردیا.

۵۱

آیت ۲۰:

(۲۰) وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَ وَکَانُوا فِیهِ مِنْ الزَّاهِدِینَ

''(قافلے والوں نے)یوسف کو بڑی کم قیمت پر چند گنتی کے کھوٹے درہم کے عوض بیچ ڈالا اور وہ لوگ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے ''۔

نکات:

ہر آدمی اپنے وجود کے یوسف کو سستا بیچ کر پشیمان ہوتا ہے کیونکہ ، عمر ، جوانی ، عزت و استقلال اور انسان کی پاکیزگی ان میں سے ہر ایک یوسف ہے جسے سستا نہیں بیچنا چاہیئے۔

پیام:

۱۔ وہ مال جو آسانی سے آتا ہے وہ آسانی سے چلا بھی جاتا ہے (شَرَوْه)

۲۔ جو شخص کسی چیز کی اہمیت اور قیمت کو نہیں پہچانتااسے سستا بیچ دیتا ہے(بِثَمَنٍ بَخْسٍ )(قافلہ والے حضرت یوسف (ع)کی حقیقت و اہمیت سے نا آشنا تھے)

۳۔ انسان پہلے گرایا جاتا ہے پھر غلام بنایا جاتا ہے اس کے بعد سستا بیچ دیا جاتا ہے۔

۴۔ پیسوں کی تاریخ ،اسلام سے ہزاروں سال پرانی ہے (دَرَاهِمَ )

۵۔ نظام غلامی اور غلام فروشی کا سابقہ طولانی ہے ۔ (شَرَوْه)

۶۔ قانون طلب و رسد (بازار میں مال کی آمد اور خریدار کی کثرت )قیمت کی تعیین میں موثر ہے (چونکہ قافلے والے بیزار تھے اس لئے یوسف کو ارزاں بیچ دیا)

۷۔بے معرفت مردوں نے جناب یوسف (ع)کو کم قیمت میں بیچ دیا لیکن با معرفت عورتوں نے جناب یوسف(ع) کو ایک کریم فرشتہ کہا ۔ روایت میں آیا ہے''رُبّ امرئ افقه من الرجل'' کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جو مردوں سے زیادہ سمجھ دار ہوتی ہیں۔

۵۲

آیت ۲۱:

(۲۱) وَقَالَ الَّذِی اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَکْرِمِی مَثْوَاهُ عَسَی أَنْ یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَاﷲُ غَالِبٌ عَلَی أَمْرِهِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ

''اور مصر کے لوگوں میں سے جس نے ان کو خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا : اس کو عزت و آبرو سے رکھو (غلام نہ سمجھو) عجب نہیں یہ ہمیں کچھ نفع پہنچائے یا (شاید) اسکو اپنا بیٹا ہی بنالیں ۔اور یوں ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں (جگہ دے کر)قابض بنایا اور غرض یہ تھی کہ ہم اسے خواب کی باتوں کی تعبیر سکھائیں اورخدا تو اپنے کام پر ہر طرح سے غالب و قادر ہے مگر بہتیرے لوگ اسے نہیں جانتے ہیں''۔

نکات:

اگر انسان کا خریدار عزیز ہو تو تلخ حوادث میں بھی انجام اچھا ہوتا ہے لہٰذااگر ہم خود کو واقعی عزیز (یعنی خدائے متعال) کے ہاتھوں بیچ ڈالیں تو آخرت میں خسارت و حسرت میں گرفتار نہ ہوں گے ۔

۵۳

پیام:

۱۔ بزرگواری جناب یوسف (ع)کے چہرہ سے نمایاں تھی یہاں تک کہ جس نے آپ (ع)کو خریدا اس نے بھی اپنی بیوی سے تاکید کردی کہ ان کو غلام کی نگاہ سے نہ دیکھے۔(أَکْرِمِی مَثْوَاهُ )

۲۔ دل، اللہ کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا حضرت یوسف (ع)کی محبت خریدار کے دل میں بیٹھ گئی( عَسَی أَنْ یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا )

۳۔ لوگوں کا احترام کرکے ان سے مدد کی امید رکھ سکتے ہیں(اکرمی... ینفعن)

۴۔ بچے کو گود لینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے( نَتَّخِذَهُ وَلَدًا )

۵۔ علم و قدرت ،ذمہ داری کو قبول کرنے کی دوشرطیں اور نعمت الٰہی ہیں(مَکَّنَّا... َلِنُعَلِّمَه)

۶۔ تلخیاں برداشت کرنے کا نتیجہ شیرینی ہے( بِثَمَنٍ بَخْسٍ... مَکَّنَّا لِیُوسُفَ )

۷۔ خدا کا غالب ارادہ جناب یوسف (ع)کو چاہ سے جاہ تک لے گی( مَکَّنَّا لِیُوسُفَ )

۸۔ جس کو ہم حادثہ سمجھتے ہیں در حقیقت خداوندعالم اس کے ذریعہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ ہموار کرتا ہے( غَالِبٌ عَلَی أَمْرِهِ )

۹۔ لوگ ظاہری حوادث کو دیکھتے ہیں لیکن الٰہی اہداف سے بے خبر ہوتے ہیں(لاَیَعْلَمُون)

۵۴

آیت ۲۲:

(۲۲) وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَیْنَاهُ حُکْمًا وَعِلْمًا وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ

''اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو حکم (نبوت یا حکمت)اور علم عطا کیا اور نیکوکاروں کو ہم ایسے ہی جزا دیا کرتے ہیں ''۔

نکات:

کلمہ''أَشُد'' کا ریشہ'' شدّ''ہے جو مضبوط گرہ کے معنی میں استعمال ہوتاہے یہاں بطور استعارہ(۱) ''روحی و جسمی استحکام ''کے لئے آیاہے ۔

یہ کلمہ قرآن مجید میں کبھی بلوغ کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ہے''حتی یبلغ اشده'' (۲) یعنی مال یتیم کے قریب نہ ج یہاں تک کہ وہ سن بلوغ تک پہنچ جائے ۔اور کبھی ''یہی ''اشد چالیس سال کے سن کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے سورہ احقاف میں ارشاد ہوا ہے''بلغ اشده و بلغ اربعین سن' '(۳) اور کبھی بڑھاپے سے پہلی والی زندگی کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے سورہ غافر میں ارشاد ہوا''ثم یخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشد کم ثم لتکونوا شیوخا'' (۴)

--------------

( ۱ )استعارہ علم معانی بیان کی ایک اصطلاح ہے جو در حقیقت تشبیہ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ تشبیہ میں مشبہ و مشبہ بہ مذکور ہوتاہے لیکن جب یہ حذف ہوجاتے ہیں تو اسے ''استعارہ ''کہتے ہیں۔مترجم

( ۲ ) سورہ انعام آیت ۱۵۲ ،

( ۳ ) سورہ احقاف آیت ۱۵ ،

( ۴ ) سورہ غافر آیت ۶۲

۵۵

پیام:

۱۔ایک قوم و معاشرے کی رہبری کے لئے علم و حکمت کے علاوہ جسمی طاقت بھی ضروری ہے( بَلَغَ أَشُدَّه)

۲۔علوم انبیاء (ع)اکتسابی نہیں ہیں(آتَیْنَاهُ عِلْمً)

۳۔ الطافِ الٰہی انسان کی لیاقت اور قانون کی بنیاد پر ہےں( نَجْزِی الْمُحْسِنِین)

۴۔ پہلے نیکی اور احسان کرنا چاہیئے تاکہ انعام الٰہی کے لائق ہوسکیں( نَجْزِی الْمُحْسِنِین)

۵۔نیک کام کرنے والے اس دنیا میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں(کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ)

۶۔ ہر وہ شخص جو علمی اورجسمانی طاقت رکھتا ہے لطف الٰہی اس کے شامل حال نہیں ہوتا بلکہ محسن ہونا بھی ضروری ہے۔(نَجْزِی الْمُحْسِنِین)

آیت ۲۳:

(۲۳) وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی هُوَ فِی بَیْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّهُ لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

'' اور جس عورت کے گھر میں حضرت یوسف رہتے تھے اس نے( اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے) خود ان سے آرزو کی اور تمام دروازے بند کردیئے اور (بے تابانہ ) کہنے لگی : لو میں تمہارے لئے آمادہ ہوںیوسف نے کہا: معاذاللہ(اللہ کی پناہ)وہ میرا پروردگار ہے اس نے مجھے اچھامقام دیا ہے (میں ایسا ظلم کیونکر کرسکتا ہوں)بے شک (ایسا)ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے ''۔

۵۶

نکات:

اآیت کے اس جملہ''إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ'' کی تفسیر میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:

۱۔خداوندمتعال میرا پروردگار ہے جس نے مجھے عزت دی ہے اور میں نے اسی کی طرف پناہ لی ہے ۔

۲۔عزیز مصر میرا مالک ہے اور میں نے اس کے دسترخوان پر زندگی گزاری ہے ، اس نے تم سے میرے بارے میں ''اکرمی مثواہ '' کہا ہے لہٰذا میں اس سے خیانت نہیں کرسکتا ۔

یہ دونوں احتمال اپنے لئے دلائل رکھتے ہیں اور شواہد کی بنیاد پر استناد بھی کیا جاتا ہے ۔لیکن ہماری نظر میں پہلا احتمال بہتر ہے کیونکہ حضرت یوسف (ع)نے تقوی الٰہی کی بنیاد پر خود کو گناہ سے آلودہ نہ کیا ۔ نہ یہ کہ اس بنیاد پر پرہیز کیا کہ چونکہ میں عزیز مصر کے گھر میں رہتا ہوں اور اس کے مجھ پر حق ہیں لہٰذا اس کی بیوی کے ساتھ برا قصد نہیں کروں گا ۔ کیونکہ یہ کام تقوی سے کم تر ہے۔

یقینا اس سورہ میں چند جگہوں پر کلمہ(ربّک) سے مراد ''عزیز مصر''ہے لیکن کلمہ''ربیّ'' جو استعمال ہوا ہے اس سے مراد خداوندمتعال ہے۔ دوسری طرف جناب یوسف (ع)کی شان سے بعید ہے کہ وہ خود کو اتنا حقیر بنالیں کہ عزیز مصر کو''ربیّ'' کہنے لگیں۔

۵۷

پیام:

۱۔ جہاں کم تقوی اور نامحرم عورتیں رہتی ہیں وہاں جوان لڑکوں کو نہیں چھوڑنا چاہیئے کیونکہ وہاں غلط آرزں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ( وَرَاوَدَتْهُ فِی بَیْتِهَ)

۲۔ بڑے گناہ نرم لطیف انداز سے شروع ہوتے ہیں ۔ (وَرَاوَدَتْهُ )

۳۔غلط کام کرنے والوں کا نام لینے سے پرہیز کرنا چاہیئے ان کے سلسلے میں فقط اشارہ کنایہ سے بات کرنی چاہیے (الَّتِی)

۴۔ مرد کا پاک ہونا کافی نہیں ہے کیونکہ کبھی کبھی عورتیں بھی مردوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتی ہیں (وَرَاوَدَتْهُ )

۵۔ نامحرم مرد و عورت کا کسی ایسی جگہ جمع ہونا جہاں کوئی نہ ہو ،گناہ کی راہ ہموار کرتا ہے (غَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَکَ)

۶۔ہمیشہ تاریخ میں ''زنا کا گناہ ایک ثابت شدہ جرم ہے''اسی وجہ سے عزیز مصر کی بیوی نے تمام دروازوں کو مضبوطی سے بند کردیا تھا ۔(غَلَّقَتْ الْأَبْوَابَ)

۷۔ رسوائی سے بچنے کے لئے بذات خود اقدامات کئےے۔ (غَلَّقَتْ)

۸۔ عشق بطور دفعی اور یک بارگی نہیںہوتا بلکہ دل لبھانے کے نتیجہ میں تدریجاً پیدا ہوتا ہے یوسف کا مسلسل گھر میں رہنا عشق کا باعث ہوا ( فِی بَیْتِهَ)

۵۸

۹۔ شہوت کی طاقت اس حد تک ہے کہ بادشاہ کی بیوی بھی اپنے غلام کی اسیر ہوجاتی ہے ۔ ( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی)

۱۰۔ تقوی کی بہترین قسم یہ ہے کہ خدا سے محبت کی بنیاد پر گناہ نہ کریں نہ کہ دنیا میں رسوائی اور آخرت کے خوف سے گناہ ترک کریں ( مَعَاذَ اﷲِ إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ )

۱۱۔تمام دروازے بند ہیں لیکن خدا کی پناہ کا دروازہ کھلا ہے۔ (غَلَّقَتِ الْأَبْوَاب ...مَعَاذَ اﷲِ)

۱۲۔ تقوی اور انسانی ارادہ انحراف اور غلطیوں کی راہ پرغالب آسکتا ہے (مَعَاذَ اﷲِ) (۱)

--------------

(۱)اولیاء الٰہی خدا کی پناہ حاصل کرتے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں ۔حضرت موسیٰ(ع) نے فرعون کے فتنوں سے خدا کی پناہ مانگی( انی عذت بربی و ربکم من کل متکبر لا یومن بیوم الحساب .) (سورہ مومن آیت ۲۷)،جناب مریم کی والدہ فرماتی ہیں : خدایا میں مریم اور اسکی نسل کو تیری پناہ میں دیتی ہوں(انی اعیذها بک و ذریتها من الشیطان الرجیم ) (سورہ آل عمران آیت ۳۶)خداوندعالم اپنے پیغمبر کو اپنی ذات کی پناہ حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے(قل اعوذ... ) (سورہ فلق آیت ۱، سورہ ناس آیت ۱)

۵۹

۱۳۔خدا سے لو لگانا گناہ اور لغزش سے دور رہنے کا سبب ہے( مَعَاذَ اﷲِ)

۱۴۔ اگر ہماراکوئی بزرگ یا سربراہ گناہ کا حکم دے تو ہمیں اس کی اطاعت نہیںکرنا چاہیئے( هَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ ) (لا طاع لمخلوق فی معصی الخالق) لوگوں کی اطاعت کے لئے اللہ کی معصیت نہیں کرنا چاہیئے(۱)

۱۵۔ اعوذ باللہ کہنے کے بجائے یک بیک خدا کی پناہ میں چلے گئے اور''مَعَاذَ اﷲِ'' کہہ دیا تاکہ اپنی پناہندگی (کہ میں نے خود پناہ حاصل کی ہے)کو بیان نہ کریں درحقیقت حضرت یوسف(ع) اپنے لئے کسی کمال کے قائل نہ ہوئے۔

۱۶۔گناہ کے انجام کی یاد، گناہ کرنے سے روکتی ہے(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون)

۱۷۔ زنا یا پاک دل نوجوان کے خلاف سازش کرنا ،خود اپنے او پر ،اپنے شوہر یا بیوی پر ،معاشرے اور معاشرے کے افراد پر ظلم ہے۔(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون)

۱۸۔ پل بھر کا گناہ انسان کو ابدی فلاح و بہبود سے روک دیتا ہے۔(لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُون)

۱۹۔ گناہ کرنا ناشکری اور کفران نعمت ہے ۔(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون)

--------------

( ۱ )بحار۔ج، ۱۰ ص ۲۲۷

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246