یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174841 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

آیت ۱۳:

(۱۳) قَالَ إِنِّی لَیَحْزُنُنِی أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ یَأْکُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ.

''(یعقوب نے)کہا تمہارا اس کو لے جانا مجھے صدمہ پہنچاتا ہے اور میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ تم سب کے سب اس سے بے خبر ہوج اور (مبادا)اسے بھیڑیا کھا جائے''۔

نکات:

حضرت یعقوب (ع)نے بظاہر بھیڑئے کے حملے سے خوف کا اظہار کیا۔ مصلحتوں کی بنیاد پر حسادت کا ذکر نہیں فرمایاہمارا حال بھی یہی ہے کہ ہمیں جس چیز سے ڈرنا چاہیئے اس سے نہیں ڈرتے۔ ہمیں حساب و کتاب دوزخ سے ڈرنا چاہیئے لیکن نہیں ڈرتے ۔ رزق و روزی، مقام و دولت جو پہلے سے مقدر ہیں اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے لیکن ہم پھر بھی ڈرتے ہیں!!۔

۴۱

پیام:

۱۔ راز فاش نہ کریں(اخاف ان یاکلہ الذئب) حضرت یعقوب علیہ السلاماپنے بیٹوں کی حسادت سے واقف تھے اسی لئے حضرت یوسف (ع)سے فرمایا تھاکہ بھائیوں سے اپنا خواب بیان نہ کرنا ، لیکن یہاں پر ان کی حسادت کا ذکر نہیں کرتے بلکہ بھیڑئےے اور غفلت کا بہانہ کررہے ہیں ۔

۲۔ اپنے بچوں کی نسبت احساس ذمہ داری پیغمبروں (ع)کی ایک خصلت ہے۔(لَیَحْزُنُنِی...اخاف)

۳۔ اپنے بچوں کو مستقل بنائیں، عشق پدری اور اپنے بچے کو آنے والے احتمالی خطرہ سے بچانادو حقیقتیں ہیں، لیکن اپنے بچے کو مستقل بنانا بھی ایک حقیقت ہے حضرت یعقوب (ع)نے جناب یوسف (ع)کو تمام بھائیوں کےساتھ روانہ کردیا اسلئے کہ نوجوان کو آہستہ آہستہ باپ سے جدا ہوکر اپنے لئے دوست بنانا چاہیئے اسے فکر کرکے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیئے چاہے کتنی ہی مشکلات اور غم والم کا سامنا کرنا پڑے۔

۴۔جھوٹے کو راستہ نہ دکھ(روایتوںمیں آیا ہے کہ بھیڑئےے کا موضوع جناب یوسف (ع)کے بھائیوں کے ذہن میں نہیں تھا بلکہ حضرت یعقوب (ع)کے بیان نے انہیںاس طرف متوجہ کیا)(۱)

--------------

( ۱ )تفسیرنورالثقلین

۴۲

آیت ۱۴:

(۱۴)قَالُوا لَئِنْ أَکَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ

'' وہ لوگ (یعقوب کے بیٹے)کہنے لگے جبکہ ہماری جماعت قوی ہے (اس پر بھی)اگر اس کو بھیڑےا کھاجائے تو ہم لوگ یقینا بڑے گھاٹا اٹھانے والے(نکمے) ٹھہریں گے''۔

نکات:

''عصب'' متحدو قوی گروہ و جماعت کو کہتے ہیں اس لئے کہ وحدت و یکجہتی میں اعصاب بدن کی طرح ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔

پیام:

۱۔ کبھی بزرگ اپنے تجربہ اور آگاہی کی بنیاد پر خطرے کا احساس کرلیتے ہیں لیکن جوان اپنی طاقت و قدرت پر مغرور ہوتے ہیںاور خطرہ کو مذاق سمجھتے ہیں ۔(نحن عصب)باپ پریشان ہے لیکن بچے اپنی طاقت و قدرت پر نازاں ہیں۔

۲۔اگر کوئی ذمہ داری کو قبول کرلے اور اسے نہ نبھا سکے تو وہ اپنا سرمایہ ، شخصیت ، آبرواور ضمیر کوخطرے میں ڈال دیتا ہے اور آخر کار نقصان اٹھاتاہے(لخاسرون)

۳۔ظاہری فریب اور جھوٹے احساسات کا اظہار جناب یوسف (ع)کے بھائیوں کا ایک دوسرا حربہ تھا۔(إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ)

۴۳

آیت ۱۵:

(۱۵) فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ یَجْعَلُوهُ فِی غَیَابَ الْجُبِّ وَأَوْحَیْنَا إِلَیْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَذَا وَهُمْ لاَیَشْعُرُونَ

''غرض یوسف کوجب یہ لوگ لے گئے اور اس پر اتفاق کرلیا کہ اسکو اندھے کنویں میں ڈال دیں اور (آخر کاریہ لوگ کر گزرے تو)ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (تم گھبر نہیں)ہم عنقریب تمہیں بڑے مرتبہ پر پہنچائیں گے (تب آپ انکے)اس فعل (بد)کے بارے میں انہیں ضرور بتائیں گے جبکہ انہیں اس بات کا شعور تک نہیں ہوگا''۔

نکات:

جب سے خدا نے حضرت یوسف (ع)کوحاکم بنانے کا ارادہ کیا اسی وقت سے ضروری ہوگیاکہ جناب یوسف (ع)چند مراحل سے گزریں غلام بنیں تاکہ غلاموں پر رحم کریں، کنویں اور قید خانہ میں رہیں تاکہ قیدیوں پر رحم کریں ۔ اسی طرح خداوندمتعال اپنے پیغمبر حضرت محمد (ص) سے فرماتاہے کہ آپ فقیر و یتیم تھے پس یتیم و فقیر کو اپنے پاس سے نہ بھگائےں(الم یجدک یتیمافاوی...فاما الیتیم فلا تقهر...) (۱)

پیام:

۱۔ کنویں کے اندر جناب یوسف (ع)کے اطمینان کا بہترین وسیلہ روشن مستقبل اور نجات کے بارے میں ''خداکی طرف سے الہام ہے''(اوحینا الیه)

--------------

( ۱ )سورہ ضحی آیت ۶ تا ۹

۴۴

۲۔مخالفین کااتفاق نظر اور اجتماع تمام مقامات پر کارساز اور حقانیت کی دلیل نہیں ہے بلکہ قانون خداوندی ہی حق ہونے کی دلیل ہے ۔(اجمعوا و اوحیناالیه)

۳۔ حساس مواقع پر امداد الٰہی ،اولیاء ِخداکی طرف آتی ہے(فی غیابت الجب ...و اوحیناالیه)

۴۔ جناب یوسف (ع)جوانی میں بھی وحی الٰہی کو حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے(اوحیناالیه)

سازش اور عمل کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے (بھائیوں نے کنویں میں پھینکنے کی سازش کی(القوه) لیکن جب عمل کا مرحلہ آیا تو جناب یوسف (ع)کو کنویں میں چھوڑ دیا(یجعلوه)

۴۵

آیت ۱۶:

(۱۶) وَجَائُوا أَبَاهُمْ عِشَائً یَبْکُونَ.

''اور یہ لوگ (اپنی سازش کو عملی جامہ پہنانے کے بعد) رات کی ابتدا میں اپنے باپ کے پاس (بناوٹی رونا ) روتے ہوئے آئے ''۔

پیام:

۱۔ سازش کرنے والے احساسات اور مناسب موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔(عشائ)

۲۔گریہ ہمیشہ صداقت کی علامت نہیں ہے لہٰذا ہر آنسو پر بھروسہ نہ کریں ۔(یبکون) (۱)

--------------

( ۱ )قرآن مجید میں گریہ اور آنسو کی چار قسمیں ہیں:

۱ ۔شوق و محبت کے آنسو۔ عیسائیوں کا ایک گروہ قرآن مجید کی آیتیں سن کر آنسو بہاتا تھا(...تری اعینهم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق) (سورہ مائدہ آیت ۸۳ )

۲ ۔حزن و حسرت کے آنسو ۔ عشق و محبت سے سرشارمسلمان جیسے ہی رسول اکرم (ص)سے سنتے تھے کہ جنگ میں جانے کی جگہ نہیں ہے تو رونے لگتے تھے۔(تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون) (سورہ توبہ آیت ۹۲ )

۳ ۔خوف وہراس کے آنسو: اولیاء الٰہی کے سامنے جیسے ہی آیات کی تلاوت ہوتی ہے روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں:(خرّواسجداو بکیا) (سورہ مریم آیت ۵۸ )(و یخرون للاذقان یبکون و یزیدهم خشوعا) ( سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۰۹ )

۴ ۔ مگرمچھ کے آنسو:سورہ یوسف کی یہی سولہویں آیت جس میں برادران یوسف اپنے باپ کی خدمت میں روتے ہوئے آئے کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا(یبکون)

۴۶

آیت ۱۷:

(۱۷) قَالُوا یَاأَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَکَلَهُ الذِّئْبُ وَمَا أَنْتَ بِمُمِنٍ لَنَا وَلَوْ کُنَّا صَادِقِینَ

''اور کہنے لگے : اے بابا !ہم لوگ تو جاکر دوڑ لگانے لگے اور یوسف کو (تنہا)اپنے اسباب کے پاس چھوڑ دیا اتنے میں بھیڑیاآکر اسے کھا گیا اور ہم لوگ سچے بھی ہوں پھر بھی آپ کو ہماری باتوں پر یقین نہیں آئے گا''۔

نکات:

بھائیوں نے اپنی خطا کی توجیہ کے لئے پے درپے تین جھوٹ کا سہارہ لیا:

۱۔ کھیلنے گئے تھے۔

۲۔ یوسف کو سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا۔

۳۔ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا۔

پیام:

۱۔خیانت کار ؛ڈرپوک اور جھوٹا ہوتاہے ، راز فاش ہونے سے ڈرتاہے(ما انت بمومن لنا و لو کنا صادقین)

۲۔مقابلہ و مسابقہ کا رواج گزشتہ ادیان میں بھی تھا ۔(نستبق)

۴۷

آیت ۱۸:

(۱۸)وَجَائُوا عَلَی قَمِیصِهِ بِدَمٍ کَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفُسُکُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیلٌ وَاﷲُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ

''یہ لوگ یوسف کے کرتے پر جھوٹ موٹ (بھیڑ)کا خون بھی(لگا کے باپ کے پاس)لے آئے ۔ یعقوب نے کہا (بھیڑئےے نے نہیںکھایا ہے)بلکہ تمہارے دل نے تمہارے بچ کے لئے ایک بات گڑھی ہے پھر (تو مجھ کو)صبر جمیل (کرنا)ہے اور جو تم لوگ کہتے ہو اس پر خدا ہی سے مدد مانگی جاتی ہے''۔

نکات:

مقدرات الٰہی پر صبر کرنا اچھی بات ہے لیکن ایک بچے پر جو ظلم ہوا ہے اس پر صبر کرنا کون سی ایسی بات ہے جسے حضرت یعقوب(ع)''فصبر جمیل'' سے یاد فرما رہے ہیں؟

جواب :سب سے پہلی بات تو یہ کہ حضرت یعقوب (ع)وحی کے ذریعہ سے جانتے تھے کہ جناب یوسف (ع)زندہ ہیں ۔دوسری بات یہ کہ جناب یعقوب(ع) کی ذرا سی ایسی حرکت جس سے بھائیوں کو گمان ہوجاتا کہ حضرت یوسف (ع)زندہ ہیں تو وہ کنویں پر جاکر انہیں نیست و نابود کردیتے ،تیسری بات یہ کہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیئے کہ حتی ظالموں پر بھی مکمل طور پر توبہ کی راہیں بند ہوجائیں۔

۴۸

پیام:

۱۔ مظلوم نمائی کے دھوکے میں نہ (جناب یعقوب (ع)خون بھرے کرتے اور آنسو کے فریب میں نہ آئے بلکہ فرمایا یہ تم نے اپنے بچ کے لئے گڑھا ہے)(بل سولت لکم انفسکم)

۲۔سازشوں سے بچتے رہو۔(بدم کذب)

۳۔نفس اور شیطان، انسان کے نزدیک گناہ کو اچھا کرکے پیش کرتے ہیں اور گناہگاروں کے لئے طرح طرح کے بہانے بناتے ہیں ۔(بل سولت لکم انفسکم)

۴۔ بہترین صبر وہ ہے جہاں دل جل رہا ہو آنسو نہ تھمتے ہوں پھر بھی خدا فراموش نہ ہو ۔(واللّٰه المستعان)

۵۔ باطنی طاقت اور صبر کے علاوہ حوادث میں انسان کو اللہ سے بھی مدد حاصل کرنی چاہیئے(فصبر جمیل واللّٰه المستعان)

۴۹

آیت ۱۹:

(۱۹) وَجَائَتْ سَیَّارَ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَی دَلْوَهُ قَالَ یَابُشْرَی هَذَا غُلَامٌ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَ وَاﷲُ عَلِیمٌ بِمَا یَعْمَلُونَ

''اور (خدا کی شان دیکھویوسف کنویں میں تھے کہ )ایک قافلہ (وہاں)آکر اترا ان لوگوں نے اپنے سقے کو (پانی بھرنے)بھیجا اس نے اپنا ڈول ڈالا ہی تھا (کہ یوسف اس میں ہو بیٹھے اور اس نے کھینچا تو باہر نکل آئے)وہ پکارا ! آہا یہ تو لڑکا ہے اور قافلہ والوں نے یوسف کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا رکھا حالانکہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں خدا اس سے خوب واقف ہے''۔

نکات:

خداوندمتعال اپنے مخلص بندوں کو ان کے حال پر نہیں چھوڑتا بلکہ مصیبتوں اور مشکلات سے نجات دیتا ہے ۔

جیسا کہ جناب نوح (ع) کو پانی کے اوپر ، جناب یونس (ع) کو پانی کے اندراور جناب یوسف (ع)کو پانی کے کنارے نجات دی ۔ اسی طرح جناب ابراہیم (ع)کو آگ سے جناب موسیٰ(ع) کو وسط دریا میں اور حضرت محمد مصطفی (ص) کو غارکے اندر ، حضرت علی علیہ السلام کو شب ہجرت رسول اکرم (ص)کے بستر پر سوتے ہوئے نجات دی۔

جب بھی خدا ارادہ کرتا ہے تو انسانی درخواست اور خواہش کے بغیر وہ جامہ عمل سے آراستہ ہوجاتا ہے ۔ جناب موسیٰ(ع) آگ لانے گئے تھے لیکن وحی اور پیغمبری کے ساتھ لوٹے، یہ قافلہ پانی لانے کے لئے گیا تھا لیکن وہ جناب یوسف (ع)کو نجات دے کر لوٹا۔

ارادئہ الٰہی سے کنویں کی رسی وسیلہ قرار پائی کہ جناب یوسف (ع)کنویں کی گہرائی سے نکل کر تخت و تاج اور حکومت تک پہنچیں تو ذرا غور کریں کہ''حبل الله'' ( اللہ کی رسی )سے کیا کیا کارنامے انجام پذیر ہوسکتے ہیں اور انسان بلندیوں کی کن منازل تک پہنچ سکتا ہے ۔

۵۰

پیام:

۱۔ جب اپنے حمایت نہیں کرتے توخدا غیروں کے ذریعہ سے مدد کرتا ہے جناب یوسف کے بھائی انہیں کنویں میں ڈال کر چلے گئے لیکن نا آشنا قافلہ نے انہیں نجات دی(جائت سیار)

۲۔کام کا آپس میں تقسیم کرنا معاشرتی زندگی کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے(واردهم) (پانی لانے کے ذمہ دار شخص کا ذکر ہے)

۳۔ کچھ لوگ انسان کو بھی بضاعت اور پونجی سمجھنے لگتے ہیں ۔(بضاع)

۴۔حقیقت دوسروں سے پوشیدہ ہوسکتی ہے لیکن عالم الغیب خدا سے کیسے پوشیدہ ہو(۱) (اسروه والله علیم)

--------------

( ۱ )واقعہ یوسف میں ہر گروہ نے کچھ نہ کچھ چھپانا چاہا لیکن خداوندعالم نے سب کچھ آشکار کردیا بھائیوں نے کنویں میں ڈالنے کو چھپایا، زلیخا نے اپنے عشق کو چھپایا ۔ لیکن خدانے ظاہر کردیا.

۵۱

آیت ۲۰:

(۲۰) وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَ وَکَانُوا فِیهِ مِنْ الزَّاهِدِینَ

''(قافلے والوں نے)یوسف کو بڑی کم قیمت پر چند گنتی کے کھوٹے درہم کے عوض بیچ ڈالا اور وہ لوگ اس میں زیادہ طمع بھی نہیں رکھتے تھے ''۔

نکات:

ہر آدمی اپنے وجود کے یوسف کو سستا بیچ کر پشیمان ہوتا ہے کیونکہ ، عمر ، جوانی ، عزت و استقلال اور انسان کی پاکیزگی ان میں سے ہر ایک یوسف ہے جسے سستا نہیں بیچنا چاہیئے۔

پیام:

۱۔ وہ مال جو آسانی سے آتا ہے وہ آسانی سے چلا بھی جاتا ہے (شَرَوْه)

۲۔ جو شخص کسی چیز کی اہمیت اور قیمت کو نہیں پہچانتااسے سستا بیچ دیتا ہے(بِثَمَنٍ بَخْسٍ )(قافلہ والے حضرت یوسف (ع)کی حقیقت و اہمیت سے نا آشنا تھے)

۳۔ انسان پہلے گرایا جاتا ہے پھر غلام بنایا جاتا ہے اس کے بعد سستا بیچ دیا جاتا ہے۔

۴۔ پیسوں کی تاریخ ،اسلام سے ہزاروں سال پرانی ہے (دَرَاهِمَ )

۵۔ نظام غلامی اور غلام فروشی کا سابقہ طولانی ہے ۔ (شَرَوْه)

۶۔ قانون طلب و رسد (بازار میں مال کی آمد اور خریدار کی کثرت )قیمت کی تعیین میں موثر ہے (چونکہ قافلے والے بیزار تھے اس لئے یوسف کو ارزاں بیچ دیا)

۷۔بے معرفت مردوں نے جناب یوسف (ع)کو کم قیمت میں بیچ دیا لیکن با معرفت عورتوں نے جناب یوسف(ع) کو ایک کریم فرشتہ کہا ۔ روایت میں آیا ہے''رُبّ امرئ افقه من الرجل'' کتنی ہی ایسی عورتیں ہیں جو مردوں سے زیادہ سمجھ دار ہوتی ہیں۔

۵۲

آیت ۲۱:

(۲۱) وَقَالَ الَّذِی اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَکْرِمِی مَثْوَاهُ عَسَی أَنْ یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَاﷲُ غَالِبٌ عَلَی أَمْرِهِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ

''اور مصر کے لوگوں میں سے جس نے ان کو خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا : اس کو عزت و آبرو سے رکھو (غلام نہ سمجھو) عجب نہیں یہ ہمیں کچھ نفع پہنچائے یا (شاید) اسکو اپنا بیٹا ہی بنالیں ۔اور یوں ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں (جگہ دے کر)قابض بنایا اور غرض یہ تھی کہ ہم اسے خواب کی باتوں کی تعبیر سکھائیں اورخدا تو اپنے کام پر ہر طرح سے غالب و قادر ہے مگر بہتیرے لوگ اسے نہیں جانتے ہیں''۔

نکات:

اگر انسان کا خریدار عزیز ہو تو تلخ حوادث میں بھی انجام اچھا ہوتا ہے لہٰذااگر ہم خود کو واقعی عزیز (یعنی خدائے متعال) کے ہاتھوں بیچ ڈالیں تو آخرت میں خسارت و حسرت میں گرفتار نہ ہوں گے ۔

۵۳

پیام:

۱۔ بزرگواری جناب یوسف (ع)کے چہرہ سے نمایاں تھی یہاں تک کہ جس نے آپ (ع)کو خریدا اس نے بھی اپنی بیوی سے تاکید کردی کہ ان کو غلام کی نگاہ سے نہ دیکھے۔(أَکْرِمِی مَثْوَاهُ )

۲۔ دل، اللہ کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا حضرت یوسف (ع)کی محبت خریدار کے دل میں بیٹھ گئی( عَسَی أَنْ یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا )

۳۔ لوگوں کا احترام کرکے ان سے مدد کی امید رکھ سکتے ہیں(اکرمی... ینفعن)

۴۔ بچے کو گود لینا تاریخی سابقہ رکھتا ہے( نَتَّخِذَهُ وَلَدًا )

۵۔ علم و قدرت ،ذمہ داری کو قبول کرنے کی دوشرطیں اور نعمت الٰہی ہیں(مَکَّنَّا... َلِنُعَلِّمَه)

۶۔ تلخیاں برداشت کرنے کا نتیجہ شیرینی ہے( بِثَمَنٍ بَخْسٍ... مَکَّنَّا لِیُوسُفَ )

۷۔ خدا کا غالب ارادہ جناب یوسف (ع)کو چاہ سے جاہ تک لے گی( مَکَّنَّا لِیُوسُفَ )

۸۔ جس کو ہم حادثہ سمجھتے ہیں در حقیقت خداوندعالم اس کے ذریعہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی راہ ہموار کرتا ہے( غَالِبٌ عَلَی أَمْرِهِ )

۹۔ لوگ ظاہری حوادث کو دیکھتے ہیں لیکن الٰہی اہداف سے بے خبر ہوتے ہیں(لاَیَعْلَمُون)

۵۴

آیت ۲۲:

(۲۲) وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَیْنَاهُ حُکْمًا وَعِلْمًا وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ

''اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو حکم (نبوت یا حکمت)اور علم عطا کیا اور نیکوکاروں کو ہم ایسے ہی جزا دیا کرتے ہیں ''۔

نکات:

کلمہ''أَشُد'' کا ریشہ'' شدّ''ہے جو مضبوط گرہ کے معنی میں استعمال ہوتاہے یہاں بطور استعارہ(۱) ''روحی و جسمی استحکام ''کے لئے آیاہے ۔

یہ کلمہ قرآن مجید میں کبھی بلوغ کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا ہے''حتی یبلغ اشده'' (۲) یعنی مال یتیم کے قریب نہ ج یہاں تک کہ وہ سن بلوغ تک پہنچ جائے ۔اور کبھی ''یہی ''اشد چالیس سال کے سن کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے سورہ احقاف میں ارشاد ہوا ہے''بلغ اشده و بلغ اربعین سن' '(۳) اور کبھی بڑھاپے سے پہلی والی زندگی کے لئے استعمال ہوا ہے جیسے سورہ غافر میں ارشاد ہوا''ثم یخرجکم طفلا ثم لتبلغوا اشد کم ثم لتکونوا شیوخا'' (۴)

--------------

( ۱ )استعارہ علم معانی بیان کی ایک اصطلاح ہے جو در حقیقت تشبیہ ہے لیکن فرق یہ ہے کہ تشبیہ میں مشبہ و مشبہ بہ مذکور ہوتاہے لیکن جب یہ حذف ہوجاتے ہیں تو اسے ''استعارہ ''کہتے ہیں۔مترجم

( ۲ ) سورہ انعام آیت ۱۵۲ ،

( ۳ ) سورہ احقاف آیت ۱۵ ،

( ۴ ) سورہ غافر آیت ۶۲

۵۵

پیام:

۱۔ایک قوم و معاشرے کی رہبری کے لئے علم و حکمت کے علاوہ جسمی طاقت بھی ضروری ہے( بَلَغَ أَشُدَّه)

۲۔علوم انبیاء (ع)اکتسابی نہیں ہیں(آتَیْنَاهُ عِلْمً)

۳۔ الطافِ الٰہی انسان کی لیاقت اور قانون کی بنیاد پر ہےں( نَجْزِی الْمُحْسِنِین)

۴۔ پہلے نیکی اور احسان کرنا چاہیئے تاکہ انعام الٰہی کے لائق ہوسکیں( نَجْزِی الْمُحْسِنِین)

۵۔نیک کام کرنے والے اس دنیا میں بھی کامیاب ہوجاتے ہیں(کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ)

۶۔ ہر وہ شخص جو علمی اورجسمانی طاقت رکھتا ہے لطف الٰہی اس کے شامل حال نہیں ہوتا بلکہ محسن ہونا بھی ضروری ہے۔(نَجْزِی الْمُحْسِنِین)

آیت ۲۳:

(۲۳) وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی هُوَ فِی بَیْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّهُ لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

'' اور جس عورت کے گھر میں حضرت یوسف رہتے تھے اس نے( اپنا مطلب حاصل کرنے کے لئے) خود ان سے آرزو کی اور تمام دروازے بند کردیئے اور (بے تابانہ ) کہنے لگی : لو میں تمہارے لئے آمادہ ہوںیوسف نے کہا: معاذاللہ(اللہ کی پناہ)وہ میرا پروردگار ہے اس نے مجھے اچھامقام دیا ہے (میں ایسا ظلم کیونکر کرسکتا ہوں)بے شک (ایسا)ظلم کرنے والے فلاح نہیں پاتے ''۔

۵۶

نکات:

اآیت کے اس جملہ''إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ'' کی تفسیر میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:

۱۔خداوندمتعال میرا پروردگار ہے جس نے مجھے عزت دی ہے اور میں نے اسی کی طرف پناہ لی ہے ۔

۲۔عزیز مصر میرا مالک ہے اور میں نے اس کے دسترخوان پر زندگی گزاری ہے ، اس نے تم سے میرے بارے میں ''اکرمی مثواہ '' کہا ہے لہٰذا میں اس سے خیانت نہیں کرسکتا ۔

یہ دونوں احتمال اپنے لئے دلائل رکھتے ہیں اور شواہد کی بنیاد پر استناد بھی کیا جاتا ہے ۔لیکن ہماری نظر میں پہلا احتمال بہتر ہے کیونکہ حضرت یوسف (ع)نے تقوی الٰہی کی بنیاد پر خود کو گناہ سے آلودہ نہ کیا ۔ نہ یہ کہ اس بنیاد پر پرہیز کیا کہ چونکہ میں عزیز مصر کے گھر میں رہتا ہوں اور اس کے مجھ پر حق ہیں لہٰذا اس کی بیوی کے ساتھ برا قصد نہیں کروں گا ۔ کیونکہ یہ کام تقوی سے کم تر ہے۔

یقینا اس سورہ میں چند جگہوں پر کلمہ(ربّک) سے مراد ''عزیز مصر''ہے لیکن کلمہ''ربیّ'' جو استعمال ہوا ہے اس سے مراد خداوندمتعال ہے۔ دوسری طرف جناب یوسف (ع)کی شان سے بعید ہے کہ وہ خود کو اتنا حقیر بنالیں کہ عزیز مصر کو''ربیّ'' کہنے لگیں۔

۵۷

پیام:

۱۔ جہاں کم تقوی اور نامحرم عورتیں رہتی ہیں وہاں جوان لڑکوں کو نہیں چھوڑنا چاہیئے کیونکہ وہاں غلط آرزں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ( وَرَاوَدَتْهُ فِی بَیْتِهَ)

۲۔ بڑے گناہ نرم لطیف انداز سے شروع ہوتے ہیں ۔ (وَرَاوَدَتْهُ )

۳۔غلط کام کرنے والوں کا نام لینے سے پرہیز کرنا چاہیئے ان کے سلسلے میں فقط اشارہ کنایہ سے بات کرنی چاہیے (الَّتِی)

۴۔ مرد کا پاک ہونا کافی نہیں ہے کیونکہ کبھی کبھی عورتیں بھی مردوں کے لئے پریشانی کا باعث ہوتی ہیں (وَرَاوَدَتْهُ )

۵۔ نامحرم مرد و عورت کا کسی ایسی جگہ جمع ہونا جہاں کوئی نہ ہو ،گناہ کی راہ ہموار کرتا ہے (غَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَکَ)

۶۔ہمیشہ تاریخ میں ''زنا کا گناہ ایک ثابت شدہ جرم ہے''اسی وجہ سے عزیز مصر کی بیوی نے تمام دروازوں کو مضبوطی سے بند کردیا تھا ۔(غَلَّقَتْ الْأَبْوَابَ)

۷۔ رسوائی سے بچنے کے لئے بذات خود اقدامات کئےے۔ (غَلَّقَتْ)

۸۔ عشق بطور دفعی اور یک بارگی نہیںہوتا بلکہ دل لبھانے کے نتیجہ میں تدریجاً پیدا ہوتا ہے یوسف کا مسلسل گھر میں رہنا عشق کا باعث ہوا ( فِی بَیْتِهَ)

۵۸

۹۔ شہوت کی طاقت اس حد تک ہے کہ بادشاہ کی بیوی بھی اپنے غلام کی اسیر ہوجاتی ہے ۔ ( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی)

۱۰۔ تقوی کی بہترین قسم یہ ہے کہ خدا سے محبت کی بنیاد پر گناہ نہ کریں نہ کہ دنیا میں رسوائی اور آخرت کے خوف سے گناہ ترک کریں ( مَعَاذَ اﷲِ إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ )

۱۱۔تمام دروازے بند ہیں لیکن خدا کی پناہ کا دروازہ کھلا ہے۔ (غَلَّقَتِ الْأَبْوَاب ...مَعَاذَ اﷲِ)

۱۲۔ تقوی اور انسانی ارادہ انحراف اور غلطیوں کی راہ پرغالب آسکتا ہے (مَعَاذَ اﷲِ) (۱)

--------------

(۱)اولیاء الٰہی خدا کی پناہ حاصل کرتے ہیں اور اس سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں ۔حضرت موسیٰ(ع) نے فرعون کے فتنوں سے خدا کی پناہ مانگی( انی عذت بربی و ربکم من کل متکبر لا یومن بیوم الحساب .) (سورہ مومن آیت ۲۷)،جناب مریم کی والدہ فرماتی ہیں : خدایا میں مریم اور اسکی نسل کو تیری پناہ میں دیتی ہوں(انی اعیذها بک و ذریتها من الشیطان الرجیم ) (سورہ آل عمران آیت ۳۶)خداوندعالم اپنے پیغمبر کو اپنی ذات کی پناہ حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے(قل اعوذ... ) (سورہ فلق آیت ۱، سورہ ناس آیت ۱)

۵۹

۱۳۔خدا سے لو لگانا گناہ اور لغزش سے دور رہنے کا سبب ہے( مَعَاذَ اﷲِ)

۱۴۔ اگر ہماراکوئی بزرگ یا سربراہ گناہ کا حکم دے تو ہمیں اس کی اطاعت نہیںکرنا چاہیئے( هَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اﷲِ ) (لا طاع لمخلوق فی معصی الخالق) لوگوں کی اطاعت کے لئے اللہ کی معصیت نہیں کرنا چاہیئے(۱)

۱۵۔ اعوذ باللہ کہنے کے بجائے یک بیک خدا کی پناہ میں چلے گئے اور''مَعَاذَ اﷲِ'' کہہ دیا تاکہ اپنی پناہندگی (کہ میں نے خود پناہ حاصل کی ہے)کو بیان نہ کریں درحقیقت حضرت یوسف(ع) اپنے لئے کسی کمال کے قائل نہ ہوئے۔

۱۶۔گناہ کے انجام کی یاد، گناہ کرنے سے روکتی ہے(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون)

۱۷۔ زنا یا پاک دل نوجوان کے خلاف سازش کرنا ،خود اپنے او پر ،اپنے شوہر یا بیوی پر ،معاشرے اور معاشرے کے افراد پر ظلم ہے۔(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون)

۱۸۔ پل بھر کا گناہ انسان کو ابدی فلاح و بہبود سے روک دیتا ہے۔(لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُون)

۱۹۔ گناہ کرنا ناشکری اور کفران نعمت ہے ۔(لاَ یُفْلِحُ الظَّالِمُون)

--------------

( ۱ )بحار۔ج، ۱۰ ص ۲۲۷

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عقیدۂ اختیار

اہل تشیع نے اس عقیدہ کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے ارشادات کی روشنی میں اختیار کیا ہے، یعنی انسانوں کے کام خود اس کی ذات سے مربوط ہیں اور وہ صاحب اختیار ہے لیکن خواستہ الٰہی بھی اس کے شامل حال ہے او رقضا ء وقدر الٰہی کا اثر بھی ہے۔ جس طرح تمام موجودات کاوجود خدا کے وجود کی بنا پر ہے اور ہر صاحب قدرت کی قوت اور ہر صاحب علم کا علم مرہون لطف الٰہی ہے اسی طرح سے ہر صاحب اختیار کا ارادہ اوراختیار خد ا کے ارادے اور اختیارکے سایہ میں جنم لیتا ہے ۔اسی لئے جب انسان کسی کام کاارادہ کرتاہے تویہ اختیار اور قدرت خداکی طرف سے ہے یا یوں کہاجائے کہ ارادہ وقدرت خدا وندی کے سایہ میں انسان کسی کام کا ارادہ کرکے اس کو انجام دے سکتا ہے اوریہی معنی ہیں۔( وما تشاؤن الا أن یشاء اللّه رب العالمین ) ( ۱ ) ''تم لوگ کچھ نہیں چاہ سکتے مگر یہ کہ عالمین کاپرور دگا ر خدا چاہے''(یعنی تمہا را ارادہ خدا کی چاہت ہے نہ یہ کہ تمہارا کام خدا کی درخواست اور ارادہ کی وجہ سے ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ تکویر آخری آیة

(۲) گم شدہ شما ۔محمد یزدی

۱۰۱

عقیدہ اختیار اور احادیث معصومین علیہم السلام

احمد بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا علیہ السلا م کی خدمت میں عرض کیا مولا بعض لوگ جبر اور''تفویض ''اختیار مطلق کے قائل ہیں امام علیہ السلام نے فرمایا لکھو !

قال علی ابن الحسینںقال عزوجل:''یا بن آدم بمشیتی کنت انت الذی تشاء بقوتی ادیت الی فرائضی وبنعمتی قویت علی معصیتی جعلتک سمیعاً بصیراً ما أصابکَ من حسنة فمِن اللّه وما أصابکَ من سیئةٍ فمن نفسک وذلکَ أنِّی أولیٰ بحسناتکَ منکَ وأنت أولیٰ بسیئاتک منیِ وذلکَ أنِّی لاأسئل عماأفعل وهم یُسئلون قد نظمت لکَ کلّ شیئٍ تُرید''

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا وند کریم کا فرمان ہے کہ اے فرزند آدم !تم ہمارے خواہش کے تحت ارادہ کرتے ہو اور ہماری دی ہو ئی طاقت سے ہما رے واجبات پر عمل کرتے ہو اور ہماری عطا کردہ نعمتوں کے نا جائز استعمال سے گناہ ومعصیت پر قدرت حاصل کرتے ہو ہم نے تم کو سننے او ر دیکھنے والا بنایا جو بھی نیکی تم تک پہنچے وہ خدا کی جانب سے ہے اور جو بھی برائی وجود میں آئے اس کے ذمہ دار تم ہو کیونکہ میں تمہاری نیکیو ں کے سلسلہ میں تم سے زیادہ حق دار ہوں اور تم اپنی برائی کے بابت مجھے سے زیادہ مستحق ہوکیونکہ میں کچھ بھی انجام دوںگا جو اب دہ نہیں ہوںگا لیکن وہ جو اب دہ ہو ں گے تم نے جو کچھ سوچا ہم نے تمہارے لئے مہیا کر دیا۔( ۱ )

ایک صحابی نے امام جعفر صادق سے سوال کیا کہ کیا خدا نے اپنے بندوں کو ان کے اعمال پر مجبور کیا ہے ۔ اما م نے فرمایا :''اللّهُ أعدل مِن أَن یجبر عبداً علیٰ فعلٍ ثُمَّ یعذّبه علیه''خدا عادل مطلق ہے اس کے لئے یہ بات روانہیں کہ وہ بندو ں کو کسی کا م پر مجبور کرے پھر انہیں اسی کام کے باعث سزادے۔( ۲ )

دوسری حدیث میں امام رضاںنے جبر وتفویض کی تردید کی ہے اور جس صحابی نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا خدا نے بندوں کو ان کے اعمال میں مکمل اختیار دیا ہے تو آپ نے جو اب میں فرمایا تھا ۔

''اللّه أعدلُ وأحکم من ذلک'' خدا اس سے کہیں زیادہ صاحب عدل وصاحب حکمت ہے کہ ایسا فعل انجام دے۔( ۳ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب امربین الامرین حدیث ۱۲

(۲) بحار الانوار ج ۵ ص ۵۱

(۳) اصول کا فی باب امر بین الامرین حدیث ۳

۱۰۲

جبر واختیار کا واضح راہ حل

عمومی فکر اور عالمی فطرت ،دونوں اختیار پر ایک واضح دلیل ہیں اور اختیار وجبر کے معتقد یں بھی ،عملی میدان میں آزادی اور اختیار ہی کو مانتے ہیںلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ !

۱۔ تمام لوگ اچھا ئی کرنے والوں کی مدح اور تحسین کرتے ہیں اور برائی کرنے والے کی تحقیر اورتوہین کرتے ہیں ،اگر انسان مجبور ہوتا اور اس کے اعمال بے اختیار

ہو تے تو مدح وتحسین، تحقیر وتوہین کو ئی معنی نہیں رکھتی ۔

۲۔ سبھی لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوشش کرتے ہیں اگر انسان مجبور ہو تا تو تعلیم و تربیت کا کوئی مقصد نہیں باقی رہتا ہے۔

۳۔ کبھی انسان اپنے ماضی سے شرمندہ ہو تاہے اور اس بات کاارادہ کرتا ہے کہ ماضی کے بحرانی آئینہ میں مستقبل کو ضرور سنوارے گا ، اگر انسان مجبور ہوتا تو ماضی سے پشیمان نہ ہو تا اور مستقبل کے لئے فکر مند نہ ہو تا ۔

۴۔ پوری دنیا میں مجرموںپر مقدمہ چلا یا جاتاہے اور ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا ہے اگر وہ لوگ اپنے کاموں میں مجبور تھے تو ان پر مقدمہ چلانا یاسزا دینا سراسر غلط ہے ۔

۵۔ انسان بہت سارے کاموں میں غور و خو ض کرتا ہے اور اگر اس کی پرواز فکر کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ پاتی تو دوسرے افراد سے مشورہ کرتا ہے۔ اگر انسان مجبور ہو تا توغور وفکر او رمشورت کا کوئی فائدہ نہیں ہے( ۱ )

____________________

(۱) تفسیر نمونہ جلد ۲۶ ص ،۶۴ خلاصہ کے ساتھ۔'' عدالت کے سلسلہ میں ان کتب سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ اصول کا فی ،نہج البلا غہ ،پیام قران ،تفیسر نمونہ ،اصول عقائد ''

۱۰۳

سوالا ت

۱۔ جبروتفویض اور عقیدہ اختیار کی تعریف کریں ؟

۲۔ انسان کے مختار ہونے کے بارے میں شیعہ عقیدہ کیا ہے ؟

۳۔ عقیدۂ اختیار کے بارے میں سید سجا د کی حدیث پیش کریں ؟

۴۔ عقیدہ ٔجبر واختیار کاکوئی واضح راہ حل بیان کریں ؟

۱۰۴

پندرہواں سبق

نبوت عامہ (پہلی فصل )

اصول دین کی تیسری قسم نبوت ہے توحید وعدل کی بحث کے بعد انسان کی فطرت ایک رہبر ورہنما اور معصوم پیشوا کی ضرورت محسوس کرتی ہے ۔

یہاں وحی، حاملا ن وحی ا ور جو افراد لوگوں کو سعادت وکمال تک پہنچاتے ہیں ان کی شناخت کے سلسلہ میں بحث کی جائے گی ۔

اس بحث میں سب سے پہلے انسان کووحی کی ضرورت اور بعثت انبیاء کے اغراض ومقاصد نیز ان کی صفات وخصوصیا ت بیان کئے جائیں گے جس کو علم کلام کی زبان میں نبوت عامہ کہتے ہیں۔

اس کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت اور ان کی خاتمیت کی بحث ہوگی کہ جس کو نبوت خاصہ کہتے ہیں ۔

وحی اور بعثت انبیاء کی ضرورت

۱) مخلوقات کو پہچاننے کے لئے بعثت لا زم ہے ۔

اگر انسان کا ئنات کو دیکھے تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا کہ دنیا کی خلقت بغیر ہدف ومقصد کے ہوئی ہے گزشتہ بحث میں یہ بات گذر چکی ہے کہ خدا حکیم ہے اور عبث وبیکا ر کام نہیں کرتا ۔ کا ئنات کا نظم ،موجودات عالم کا ایک ساتھ چلنا بتاتا ہے کہ تخلیق کا کوئی معین ہدف ومقصد ہے لہٰذا یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ :

۱۔ خدا نے اس دنیا کو کس لئے پیدا کیا او رہما ری خلقت کا سبب کیا ہے ؟

۲۔ ہم کس طر ح سے اپنے مقصد تخلیق تک پہنچیں ، کامیا بی اور سعادت کا راستہ کون سا ہے اور اسے کس طرح سے طے کریں۔ ؟

۱۰۵

۳۔ مرنے کے بعد کیا ہو گا کیا مو ت فنا ہے یا کوئی دوسری زندگی ؟ موت کے بعد کی زندگی کیسی ہو گی ؟ا ن سارے سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے کہ کوئی خدا کی جانب سے آئے جو سبب خلقت اور راہ سعا دت کی نشان دہی کرے اور موت کے بعد کی زندی کی کیفیت کو ہما رے سامنے اجا گر کرے، انسان اپنی عقل کے ذریعہ دنیوی زندگی کے مسائل حل کر لیتا ہے، لیکن سعادت وکمال تک پہنچنے سے مربوط مسائل اور موت کے بعد کی زندگی اور اخروی حیات جو موت کے بعد شروع ہوگی یہ سب اس کے بس کے باہر ہے ۔

لہٰذا اس حکیم خدا کے لئے ضروری ہے کہ وہ معصوم نبیوں کو ان تما م مسائل کے حل اور کمال تک پہنچنے کے لئے اس دنیا میں بھیجے ۔

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک لا مذہب شخص نے امام صادق سے سوال کیاکہ بعثت انبیا ء کی ضرورت کو کیسے ثابت کریں گے۔ ؟

آپنے فرمایا :ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ہمارے پاس ایساخالق ہے جوتمام مخلوقات سے افضل واعلی ،حکیم وبلند مقام والا ہے چونکہ لوگ براہ راست اس سے رابطہ نہیں رکھ سکتے لہٰذا ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ وہ ا پنی مخلوقات میں رسولو ں کو مبعوث کرتا ہے جو لوگو ں کو ان کے فائدے اور مصلحت کی چیزوں کو بتاتے ہیں اور اسی طرح ان چیزوں سے بھی آگا ہ کرتے ہیں جو انسان کی بقاء کے لئے ضروری ہیں اور ترک میں فناونابودی ہے، لہٰذایہ بات ثابت ہو چکی کہ جو خدا کی جانب سے لوگو ں کے درمیان حکم دینے والے او ربرائیو ں سے روکنے والے ہیں، انہیں کو پیغمبر کہا جا تا ہے۔( ۱ )

امام رضا فرماتے ہیں:جبکہ وجود انسان میں مختلف خواہشات اور متعدد رمزی قوتیں ہیں، مگر وہ چیز جو کما ل تک پہنچا سکے اس کے اندر نہیں پا ئی جا تی اور چونکہ خدا دکھا ئی نہیں دیتا اور لوگ اس سے براہ راست رابطہ نہیں رکھ سکتے، لہٰذا اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خد اپیغمبروں کو مبعوث کرے جو اس کے احکا م کوبندوں تک پہنچا ئیں اور بندو ں کو اچھا ئیوں کاحکم دیں اور برائیو سے بچنا سکھائیں۔( ۲ )

____________________

(۱) اصو ل کا فی کتاب الحجة با ب اضطرار ا لی الحجة حدیث ،۱

(۲) بحارالانوار جلد ۱۱ ،ص ۴۰

۱۰۶

۲) انسان کے لئے قانو ن تکا مل لا نے کے لئے پیغمبر کی ضرورت۔

انسان کو اپنے مقصد خلقت جوکہ کمال واقعی ہے اس تک پہنچنے کے لئے کچھ قانو ن گذار افراد کی ضرورت ہے جو ان شرائط کا حامل ہو۔

۱۔ انسان کو مکمل طریقہ سے پہچانتا ہو اور اس کے تمام جسمانی اسرار ورموز اس کے احساسات و خواہشات ارادے وشہوات سے مکمل آگاہ ہو ۔

۲۔ انسان کی تمام صلا حیت ، اس کے اندر پو شیدہ خصو صیات اور وہ کمالا ت جو امکا نی صورت میں پائے جا سکتے ہیں سب سے باخبر ہو ۔

۳ ۔انسان کو کمال تک پہنچانے والے تمام اصولو ں کو جانتاہو راہ سعادت میں آڑے آنے والی تمام رکاوٹوں سے آگاہ ہو ، اور شرائط کمال سے باخبر ہو ۔

۴۔ کبھی بھی اس سے خطا ،گناہ اور نسیا ن سرزد نہ ہو ۔ اس کے علا وہ وہ نرم دل مہربان ،شجاع ہو او ر کسی بھی قوت سے مرعوب نہ ہو ۔

۵۔ لوگو ں سے کسی قسم کی منفعت کی توقع نہ رکھتا ہو تاکہ اپنی ذاتی منفعت سے متاثر ہو کر لوگوں کے لئے خلاف مصلحت قانون تیار کردے ۔

جس کے اندر مذکورہ شرائط پائے جاتے ہو ں وہ بہترین قانون گذار ہے کیا آپ کسی ایسے شخص کی نشان دہی کر سکتے ہیں جو جرأت کے ساتھ اس بات کادعوی کر سکے کہ میں انسان کے تمام رموز واسرار سے واقف ہو ں، اس کے بر خلا ف تمام علمی شخصیتوں نے اس بات کااعتراف کیاہے کہ ہم ابھی تک انسان کے اندر پائے جا نے والے بعض رموز تک پہنچ بھی نہیں سکے ہیں ۔ اور بعض نے انسان کو لا ینحل معمہ بتایاہے کیا آپ کی نظر میں کو ئی ایسا شخص ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے انسان کے تمام کمالات کو سمجھ لیا ہے ۔اور کمال تک پہنچنے والے تمام شرائط وموانع کو جانتا ہو ں ۔کیا کوئی ایسا ہے جس سے کسی بھی خطاکا امکان نہ پایا جاتا ہو۔ ؟

۱۰۷

یہ بات بالکل مسلّم ہے کہ اگر دنیامیں تلاش کر یں تب بھی کسی کو نہ پا ئیں گے جس میں مذکورہ تمام شرائط پائے جاتے ہوں یابعض شرطیں ہو ں ،اس کی سب سے بڑی دلیل مختلف مقامات پر متعدد قوانین کا پا یا جاناہے ۔لہٰذا ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ بہترین قانون بنا نے والا صرف اور صرف خدا ہے جوانسان کی خلقت کے تمام اسرار ورموز سے واقف ہے، صرف وہ ہے جودنیا کے ماضی، حال ،مستقبل کو جانتا ہے ۔فقط وہ ہر چیز سے بے نیا زہے اور لوگو ں سے کسی چیز کی توقع نہیں رکھتا وہ خد اہے جو سب کے لئے شفیق و مہربان ہے او رانسانوں کے کمال تک پہنچنے کے تمام شرائط کو جانتا ہے ۔

لہٰذا صرف خدا یا وہ افراد جو براہ راست اس سے رابطہ میں ہیں، وہی لوگ قانون بنانے کی صلا حیت رکھتے ہیں اور اصو ل وقانون کو صرف مکتب انبیاء اور مرکز وحی سے سیکھنا چاہئے ۔

قرآن نے اسی حقیقت کی جا نب اشارہ کیا ہے :(وَلَقَد خَلَقنَا النسانَ وَنَعلمُ مَا تُوَسوِسُ بِہ نَفسُہُ)( ۱ ) اور ہم نے ہی انسان کو خلق کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیاکیا وسوسے پیدا کرتا ہے ۔

( وَمَا قَدرُوا اللّهَ حَقَّ قَدرِهِ اِذ قَالُوا مَا أنَزَلَ اللّهُ علیٰ بَشَرٍ مِّن

) ____________________

(۱) سورہ ق آیة: ۱۶

۱۰۸

( شیئٍ ) ( ۱ ) اور ان لوگو ں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیاکہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نہیں نازل کیا ۔

نتیجہ بحث

( اِن الحُکم اِلّا للّهِ ) ( ۲ ) حکم صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔

____________________

(۱) سورہ انعام آیة: ۹۱

(۲) سورہ انعام آیة:۵۷

۱۰۹

سوالات

۱۔ سبب خلقت کو سمجھنے کے لئے بعثت انبیا، کیو ں ضروری ہے ؟

۲۔ کیا انبیاء کا مبعوث ہو نا ضروری ہے حدیث امام صادق نقل کریں ؟

۳۔ بعثت کے لا زم ہونے پر امام رضاںنے کیا فرمایا ؟

۴ ۔ قانون گذار کے شرائط کو بطور خلا صہ بیان کریں ؟

۱۱۰

سولھواں سبق

نبوت عامہ (دوسری فصل )

ہدایت تکوینی اور خواہشات کا اعتدال

انبیاء کی بعثت کا مقصد ،خو اہشات کا اعتدال اور فطرت کی جانب ہدایت کرنا ہے ،اس میں کو ئی شک نہیں کہ انسان خو اہشات اور فطرت کے روبرو ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنی ضرورت ہے۔

خواہشات، انسان کے اندر مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہو تے ہیں اور فطرت انسان کو حیوانیت سے نکال کر کمال واقعی تک پہنچاتی ہے اگر فطرت کی ہدایت کی جا ئے تو انسان کمال کی بلندیو ں تک پہنچ جائے گا ،ورنہ خو اہشات سے متاثر ہو کر ذلّت کی پاتال میں غرق ہو جا ئے گا لہٰذا ضروری ہے کہ خواہشات معتدل رہیں اور فطرت کی ہدایت ہو اور بغیر کسی شک وتردید کے اس اہم عہدہ کا ذمہ دار وہی ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر کے اسرار ورموز سے مکمل باخبر ہو ۔

خو اہشات کے اعتدال کی راہ ،نیز فطرت کی راہنمائی سے مکمل آگاہوباخبر ہو یہ بات ہم عرض کر چکے ہیں کہ دانشمند وں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انسان اسرار ورموز کا معمہ ہے ۔

نتیجة ً انسان کاپیدا کرنے والا جو کا ئنا ت کابھی مالک ہے صرف وہی تمام خصوصیات سے با خبر ہے اس کے لطف وکرم کا تقاضا ہے کہ نعمتوں کی تکمیل او ر انسان کو کمال کی بلندیو ں تک پہنچنے کے لئے ایسے انبیا ء کو مبعوث کرے جوبراہ راست اس سے وحی کے ذریعہ منسلک ہیں تاکہ انسان کی ہدا یت ہوسکے ۔

۱۱۱

بعثت انبیاء کا مقصد

انبیاء کے عنوان سے قرآن نے چند اصول بیان کئے ہیں ۔

۱۔( هُوَ الّذیِ بَعَثَ فیِ الأمِیینَ رَسُولا مِنهُم یَتلُوا عَلَیهِم آیاتِه وَیُزکیّهِم وَیُعلّمُهُمُ الکِتَابَ والحِکمةَ و اِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلاَلٍ مُبینٍ ) ( ۱ ) اس نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں میں سے تھا تاکہ ان کے سامنے آیا ت کی تلا وت کرے ان کے نفسوں کوپاکیزہ بنائے اور انہیںکتاب وحکمت کی تعلیم دے ،اگر چہ یہ لو گ بڑی کھلی ہو ئی گمراہی میں مبتلا تھے اس میں کو ئی شک نہیں کہ سب سے پہلا زینہ جو انسان کے مادی ومعنوی کمال تک رسائی کا سبب ہے وہ علم ہے او رعلم کے بغیر کمال تک پہنچنا ناممکن ہے ۔

مذکو رہ آیت میں علم سے مراد مادی علوم نہیں ہیں کیونکہ مادی علوم دنیا میں آرام وآسائش کی ضمانت لیتے ہیں اور انبیاء انسان کی سعادت کے لئے دنیوی واخروی دونو ں

____________________

(۱)سورہ جمعہ آیة: ۲

۱۱۲

زندگیو ں کی ضما نت لیتے ہیں۔

خداکی عبادت او رطاغو ت سے اجتناب ومقابلہ( وَلَقَد بَعَثنا فیِ کُلِّ أُمةٍ رَسَوُلاً أَن اعبُدُوا اللّه واَجتَنبُوا الطَّاغُوتَ ) ( ۱ ) ''او ریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو او رطاغوت سے اجتناب کرو'' ۔

۲۔عدالت وآزادی دلا نا ۔( لَقَدْ أَرسَلَنا رُسُلَنَا بِالبَیّنَاتِ وأَنزَلَنا مَعَهُمُ الکِتابَ وَالمِیزَانَ لَیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ ) ( ۲ )

بیشک ہم نے اپنے رسولو ں کو واضح دلا ئل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان کو نازل کیا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں ۔ اصل مقصد وہ تمام اصول جنہیں پیغمبروں کے مبعوث ہو نے کا سبب بتایا گیا ہے تمام کے تمام انسان کو کمال تک پہنچانے کے لئے ہیں۔

یعنی انبیاء کے آنے کا اصل مقصد بندوں کو خدا پرست بنانا ہے اور یہ اللہ کی بامعرفت عبادت کے ذریعہ ہی میّسرہے اور انسان کی خلقت کا اصل مقصدبھی یہی ہے( ومَا خَلَقتُ الجِنّ وَالانسَ اِلّا لِیَعبُدونَ ) ( ۳ ) '' ہم نے جنا ت وانسان کو نہیں خلق کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں''۔

پیغمبروں کے پہچاننے کا طریقہ

لوگوں کی ہدایت کے لئے انبیا ء کا مبعوث ہونا اس بحث کے بعد اب یہ بات

____________________

(۱) سورہ نحل آیة :۳۶

(۲) سورہ حدید آیة:۲۵

(۳) سورہ ذاریا ت،۵۶

۱۱۳

سامنے آتی ہے کہ ہم کیسے پہچانیں کہ نبوت کا دعوی کرنے والااپنے دعوی میں سچا ہے۔؟

اگر کو ئی کسی منصب یاعہدے کا دعوی کرے جیسے ،سفیر ،مجسٹریٹ ، یا ڈی ایم، یا اس جیسا کو ئی اورہو جب تک وہ اپنے دعوی پر زندہ تحریر پیش نہ کرے کوئی بھی اس کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گا ۔

مقام رسالت او رسفیر ان الٰہی کا دعوی کرنے والوں کی تو بات ہی دیگر ہے نبوت و رسالت سے بلند مرتبہ اور کیاشی ٔ ہو سکتی ہے ؟ ایک انسان دعوی کرے کہ اللہ کا سفیر ہوں اور خدا نے مجھے زمین پر اپنا نمایندہ بناکر بھیجاہے لہٰذاسبھی کو چاہئے کہ میری اتباع کریں ۔

فطرت کسی بھی شخص کو بغیر کسی دلیل کے دعوی کوقبول کرنے کی اجا زت نہیں دیتی ،تاریخ گواہ ہے کہ کتنے جاہ طلب افراد نے سادہ دل انسانوں کو دھو کا دے کر نبوت ورسالت کا دعوی کیا ہے ،اسی لئے علماء علم کلا م نے پیغمبروں کوپہچاننے کے لئے راستے او رطریقے معین کئے ہیں ،ان میں سے ہر ایک پیغمبروں کو پہچاننے او ران کی حقانیت کے لئے زندہ دلیل ہے ۔

پہلی پہچان :معجزہ ہے علماء کلا م او ردیگر مذاہب کا کہنا ہے کہ معجزہ ایسے حیرت انگیز اور خلا ف طبیعت کام کو کہتے ہیں کہ جسے نبوت کا دعوی کرنے والا اپنے اور خدا کے درمیان رابطہ کو ثابت کرنے کے لئے انجام دیتا ہے او ر تمام لوگو ں کواس کے مقابلہ کے لئے چیلنج کرتا ہے اور ہر شخص اس جیسا فعل انجام دینے سے قاصر ہے لہٰذا معجزہ کے تین رخ ہیں ۔

۱۔ایسا کام جو انسانو ں کی طاقت سے حتیٰ نوابغ دہر کی بس سے باہر ہو ۔

۲۔ معجزہ نبو ت ورسالت کے دعوی کے ساتھ ہو او ر اس کا عمل اس کے دعوی کے مطابق ہو۔

۳۔دنیا والو ںکے لئے اس کا مقابلہ کرنا ''اس کے مثل لانا''ممکن نہ ہو سبھی اس سے عاجز ہو ں ۔

اگر ان تینو ں میں سے کو ئی ایک چیز نہیں پائی جا تی تو وہ معجزہ نہیں ہے ابوبصیر کہتے ہیں کہ ہم نے امام صادق سے پوچھا کہ ،اللہ نے انبیاء و مرسلین اور آپ ''ائمہ '' کو معجزہ کیو ں عطاکیا ؟آپ نے جواب میں فرمایا : تاکہ منصب کے لئے دلیل قرار پائے او رمعجزہ ایسی نشانی ہے جسے خدا اپنے انبیاء ،مرسلین اور اماموں کو عطا کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ جھوٹے او رسچے کی پہچان ہو سکے ۔( ۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار جلد ۱۱ ،ص ۷۱

۱۱۴

سوالات

۱۔ فطرت کی راہنمائی او رخو اہشات کے میانہ روی کے لئے انبیا ء کا ہو نا کیوں ضروری ہے ؟

۲۔ قرآن کی نظر میں پیغمبروں کی بعثت کا مقصد کیا ہے ؟

۳۔ پیغمبروں کے پہچاننے کا راستہ کیا ہے؟

۴۔ معجزہ کیاہے اور اس کے شرائط کیا ہیں بیا ن کریں ؟

۱۱۵

سترہواں سبق

نبو ت عامہ (تیسری فصل )

جا دو ،سحر ،نظر بندی اور معجزہ میں فرق !

جب کبھی معجزہ کے بارے میں بات کی جا تی ہے تو کہا جا تا ہے کہ معجزہ ایک ایسے حیرت انگیز فعل کانام ہے جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معجزہ ، جادو ، سحر نیز نظر بندکرنے والوں کے حیرت انگیزکرتبوں میں کیسے فرق قائم کیا جائے ۔

جو اب :معجزہ اور دوسرے خارق العادت کاموں میں بہت فرق ہے ۔

ا۔ نظر بندی او رجادو گری ایک قسم کی ریاضت کانام ہے اور جادوگر استاد سے جادو سیکھتا ہے لہٰذا ا ن کے کرتب مخصوص ہیںجو انھو ںنے سیکھا ہے وہ فقط اسی کو انجام دے سکتے ہیں اس کے علاوہ کسی کام کو انجام نہیں دے سکتے لیکن نبی ورسول معجزے کو کسی استاد سے نہیں سیکھتے ،لیکن پھر بھی معجزے کے ذریعہ ہرکام انجام دے سکتے ہیں جیسا کہ حضرت صالح سے پہاڑ سے او نٹ نکالنے کوکہاگیا انہو ںنے نکا ل دیا ، جب حضرت مریم سے بیٹے کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت عیسی جوکہ گہوارے میں ابھی چند دن کے تھے فرماتے ہیں :

۱۱۶

( قا لَ أِنِّیِ عَبدُاللّهِ آتٰنی الکِتَابَ وَجَعلَنیِ نَبِیّاً ) ''میں اللہ کابندہ ہو ں اللہ نے مجھے کتا ب دی ہے اور نبی بناکر بھیجاہے''۔( ۱ )

یا جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے معجزہ کی مانگ کی گئی تو پتھروں نے آنحضرت کے دست مبارک پرآکر ان کے رسالت کی گواہی دی ۔

۲۔ جادو گر وں یا شعبدہ بازوں کے کرتب زمان ومکان او رخاص شرائط میں محدود ہیں او رمخصوص چیزوں کے وسیلوں کے محتاج ہیں، لیکن پیغمبروںورسولوں کے معجزے چونکہ ان کا سرچشمہ خدا کی لا متناہی قدرت ہے لہٰذا کو ئی محددیت نہیں ہے وہ کبھی بھی کو ئی بھی معجزہ پیش کر سکتے ہیں ۔

۳۔جادوگروں اور نظربندوں کے کام زیادہ تر مادی مقصدکے پیش نظر انجام پاتے ہیں ( چاہے پیسوں کی خاطر ہو یا لوگو ں کو اپنی طرف کھینچنے یا دوسرے امور کے لئے ) لیکن انبیاء کامقصد متدین افراد کی تربیت اور معاشرہ کو نمونہ بنانا ہے ۔ اور وہ لوگ (انبیاء ومرسلین ) کہتے تھے( وَمَاَ أَسئَلُکُم عَلَیهِ مِنْ أَجرٍ اِن أَجرِی اِلَّا علیٰ رَبِّ العَالمِینَ ) ( ۲ ) ''اور میں تم سے اس کی کوئی اجرت بھی نہیں چاہتا ہو ں اس لئے کہ میرا اجر تو عالمین کے رب کے ذمہ ہے'' ۔

۴۔جادوگروںاورشعبدہ بازوںکے کرتبوںکامقابلہ ممکن ہے یعنی دوسرے

____________________

(۱) سورہ مریم آیة :۳۰

(۲) سورہ شعراء آیة:۱۸۰ ،۱۶۴،۱۴۵،۱۲۷،۱۰۹

۱۱۷

بھی اس جیسا فعل انجام دے سکتے ہیں ،لیکن پیغمبروں کے معجزہ کی طرح کوئی غیرمعصوم شخص انجام نہیں دے سکتا ۔

ہر پیغمبر کا معجزہ مخصوص کیو ںتھا ؟

جبکہ ہر نبی ہر حیرت انگیز کام کو انجام دے سکتا تھا اور ان میں سے ہر ایک کے پاس متعد د معجزے تھے مگر ایک ہی کوزیادہ شہرت ملی ۔

ابن سکیت نامی ایک مفکر نے امام ہادی ں سے پوچھا :کیو ں خدا نے موسیٰ بن عمران کو ید بیضا اور جادوگروں جیسا معجزہ دیا؟ حضرت عیسیٰ کو مریضوں کو شفادینا اور مردوںکو زندہ کرنے والا معجزہ عطاکیا؟اور رسول اسلا م کو قران جیسے حیرت انگیز کلام کے مجموعے کے ساتھ لوگوں میں بھیجا۔

امام ںنے فرمایا : جب خدا نے حضرت موسی کو مبعوث کیاتو ان کے زمانے میں جادوکا بول با لا تھا لہٰذا خدانے اس زمانے جیسا معجزہ دیا چونکہ اس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس میں نہیں تھا او راپنے معجزہ کے ذریعہ جادوگروں کے جادو کو شکست دی اور ا ن پر حجت تمام کی ۔

جب جنا ب عیسیٰ لوگوں کی ہدایت کے لئے آئے تواس وقت حکمت وطبابت کا شہرہ تھا لہٰذا خدا کی جانب سے اس زمانے کے مطابق معجزہ لے کر آئے اوراس کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا، انھوں نے مردو ں کو زندہ کرکے اور مریضو ں کو شفا دے کر، نابینا کو آنکھ عطاکر کے جذام کودور کرکے تمام لوگوں پر حجت تمام کی ۔

۱۱۸

جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت فصاحت وبلا غت کا سکہ چل رہا تھا خطبہ او رانشاء اس وقت کے سکۂ رائج الوقت اور مقبول عام تھے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خدا کی جانب سے ان کو موعظہ ونصیحت کے حوالے سے گفتگو کی جس کا مقابلہ کرنالوگوں کی سکت میں نہیں تھا، اپنے مواعظ ونصائح کو قرآنی پرتو میں پیش کیا او رباطل خیالات کو نقش بر آب کردیا ۔

دوسری پہچان ۔انبیاء کی شناخت کادوسرا طریقہ یہ ہے کہ جس نبی کی نبوت دلیل کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہو وہ اپنے آنے والے نبی کے نام اور خصوصیات کو لوگوں کے سامنے پیش کرے جیساکہ تو ریت وانجیل میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوالے سے پیشین گوئیاںکی گئی ہیں ،قرآن ان پیشین گو ئیو ں میں سے حضرت عیسیٰ کے قول کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے( وَاِذْ قَالَ عِیسیٰ بنُ مَریَم یا بَنی اِسرائِیلَ اِنِّیِ رَسُوُلُ اللّهِ اِلیکُم مُصَدِّقاً لِمَا بَینَ یَدیَّ مِن التوراةِ ومُبشّراً بِرسُولٍ یَأتِی مِن بَعدیِ اسُمُه أحمدُ ) ( ۱ ) اس وقت کویاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو ںاپنے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا او راپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ہو ں، جس کا نام احمد ہے اسی طرح سورہ اعراف کی آیة ۱۵۷ میں ارشاد ہوا( الذین یتبعون )

____________________

(۱) سورہ صف آیة: ۶

۱۱۹

تیسری پہچان ۔ تیسرا طریقہ انبیاء کو پہچاننے کا وہ قرائن وشواہد ہیںجوقطعی طور پر نبوت ورسالت کوثابت کرتے ہیں ۔

خلا صہ

۱۔جو نبوت کا دعوی کرے اس کے روحانی اور اخلاقی خصوصیات کی تحقیق۔ (مدعی نبوت کی صداقت کی نشانیوں میں سے اعلیٰ صفات او ربلند اخلاق ہو نا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ لوگوں میں نیک چلن اور صاحب کردار کے نام سے جانا جائے)

۲۔ عقلی پیرائے میں اس کے احکام وقوانین کو پرکھاجائے کہ کیا اس کے احکام وقوانین ،الٰہی آئین کے تحت اور معارف اسلام وفضائل انسانی کے مطابق ہیں؟یا اس کی دوسری پہچان ہے ۔

۳۔ اپنے دعوی پہ ثابت قدم ہو ا ور اس کا عمل اس کے قول کاآئینہ دار ہو ۔

۴۔ اس کے ہمنوااور مخالفین کی شناخت ۔

۵۔ اسلو ب تبلیغ کے ساتھ یہ دیکھیں کہ اپنے قوانین کے اثبات کے لئے کن وسائل اور کن راستو ں کاسہارالے رہا ہے ۔

جب یہ تمام قرآئن وشواہد اکٹھا ہو جائیں تو ممکن ہے مدعی نبوت کی نبوت کی یقین کاباعث بنے ۔

سوالات

۱۔ سحر ،نظر بندی، اور معجزہ میں کیا فرق ہے ؟

۲ ۔ ہر نبی کا معجزہ مخصوص کیو ں تھا ؟

۳۔ انبیاء کی شناخت کے قرائن وشواہد کیاہیں ؟

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246