یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174602 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یوسف قرآن

استادمحسن قرائتی

مترجم: سید مراد رضا رضوی

مجمع جہانی اہل بیت (ع)

۲

بسم الله الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی (ص) غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمہئ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۳

اگرچہ رسول اسلام (ص) کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمہئ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

۴

(عالمی اہل بیت (ع)کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت(ع) عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت(ع) عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت(ص)و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، استاد محسن قرائتی کی گرانقدر کتاب یوسف قرآن کو مولاناسید مراد رضا رضوی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت،

مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۵

گفتارمؤلف

بسم الله الرحمن الرحیم الحمد للّٰه رب العالمین

انبیاء گرامی (ع)خصوصا پیغمبراسلام(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت علیہم السلام پر خداوندمتعال، فرشتوں اور اس کے اولیاء کا درود و سلام ہو۔ خدا کاشکر ادا کرتاہوں کہ اب تک قرآن مجید کے پچیس (۲۵)پاروںکی تفسیر لکھ چکاہوں اور پانچ سالوں میں دس ایڈیشن سے زیادہ شائع ہوچکے ہیں ۔نیز۱۳۷۶ شمسی میںیہ کتاب بعنوان ''کتاب سال جمہوری اسلامی ایران '' کااعزاز بھی حاصل کرچکی ہے ۔خداوندعالم کالطف وکرم ہے کہ اس تفسیرکا خلاصہ بیس سے زیادہ زبانوں میںترجمہ ہوچکاہے اور دوسرے ممالک میں ریڈیو پر بھی نشر ہواہے اس کے علاوہ یہ تفسیر دوسرے مسلمانوں کے درمیان بھی مورد استقبال قرار پائی ہے اگرچہ سورہ یوسف تفسیر نور کی چھٹی جلد میں شائع ہوچکاہے ۔لیکن چونکہ داستان حضرت یوسف علیہ السلام بہت شیریں اور پرکشش ہے. علاوہ ازیں نئی نسل کی تفسیر سے آشنائی اورقرآن کریم کے لطائف اور اشارات و نکات سے معرفت کے لئے بہترین راہ قرآنی داستانیں ہیں ۔لہٰذا ہم نے یہ ارادہ کیاکہ تفسیر نور کے اس حصہ کو علیحدہ شائع کراؤں تاکہ وہ لوگ جو پوری تفسیر کے مطالعہ کا وقت یا حوصلہ نہیں رکھتے یا تفسیر کاایک مکمل دورہ ( set )خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ بالکل محروم نہ رہ جائیں بلکہ کم از کم قرآن کے کچھ حصہ اور اس کی تفسیر سے آشنا ہوجائیں۔

ہمارے جوانوں کو اس کتاب کے مطالعہ کے بعد یقین ہوجائے گا کہ کس طرح خداوند عالم نے قرآن مجید کے (تقریباً)بارہ صفحات میں ایک ایسی داستان بیان فرمائی ہے جس میںہزاروںنکات پوشیدہ ہیں ۔ میں اپنی کم معلومات کے باوجود تقریباً نو سو (۹۰۰) نکات حاصل کرکے اس کتاب میں آپ کے سامنے پیش کررہاہوں ۔اس داستان میں تمام سازشوں پر خدا کے ارادہ کاغلبہ ،بدترین اور سخت ترین حالات میں ایک جوان کی پاکدامنی، تدبیر وحکمت سے ایک قحط زدہ ملک کو نجات دلانا ، تلخ حوادث کے مقابلہ میں ایک بوڑھے باپ کاصبر ،حاسدوں کے مقابلے میں عفو و بخشش، نیک کردار افراد پر خدا کا خاص لطف موجود ہے اس کے علاوہ سینکڑوں تربیتی ، خاندانی،اجتماعی ،سیاسی ، اعتقادی ، اور انتظامی نکتے بھی ہیں۔

۶

ہم سمجھتے ہیں کہ اس سورہ کا مطالعہ دنیائے تفسیر میں وارد ہونے کے لئے بہترین راستہ قرار پائے گا ۔ لیکن اس کے باوجود جلد بازی میں قضاوت کرنا نہیں چاہتابلکہ کتاب کے مطالعہ کے بعد اس سلسلے میں آپ کے فیصلے کامنتظر ہوں ۔

بہرحال جو کچھ بھی ہے خداوندمتعال ، انبیاء (ع)، ائمہ معصومین (ع)، مراجع ، علماء اور مدرسین کے وسیلے سے ہم تک پہنچا ہے اس کے علاوہ ہمیں اسلامی انقلاب ، امام خمینی (رح) اور شہداء کے خون نے قرآن مجید سے انس اور اس میں غور و فکر کی راہ عنایت فرمائی ہے جس کے شکر سے ہم عاجز ہیں ۔ جن افراد کے ذہن میں کوئی نئے نکات یا اعتراضات پیدا ہوں، ہمیں ان سے آگاہ فرمائیں، ہم ان کے شکرگزار ہوں گے ۔

محسن قرائتی

۲۱۔۳۔۱۳۷۹ شمسی

۷

سورہ یوسف کا رخ زیبا

سورہ یوسف مکی سورتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی ایک سو گیارہ ( ۱۱۱) آیتیں ہیں ، حضرت یوسف علیہ السلام کا نام قرآن میں ۲۷/مرتبہ آیا ہے جس میں پچیس بار خود اسی سورہ میں ہے اس سورہ کی آیتیں آپس میں ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں اور چند فصلوں میں جذاب انداز اور خلاصہ کے ساتھ حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کو بچپن سے لے کر مصر کی خزانہ داری تک بیان کیا گیا ، آپ(ع) کی عفت و پاکدامنی ، آپ(ع) کے خلاف تمام سازشوں کا پردہ فاش ہونا اور قدرت الٰہی کی جلوہ نمائی اس سورہ میں نمایاں ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان فقط اسی سورہ میں بیان ہوئی ہے ۔ جبکہ دوسرے انبیاء (ع)کی داستانیں مختلف سوروں میں موجود ہے ۔(۱) حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان توریت کی ''کتاب پیدائش''میں فصل نمبر ۳۷ سے لیکر پچاس ۵۰ تک مذکور ہے۔

لیکن قرآن اورتوریت کا تقابلی جائزہ لینے سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قرآن محفوظ ہے اور تورات میں تحریف ہوئی ہے ۔

ادبی دنیا میں بھی یوسف و زلیخا کی داستان ایک خاص اہمیت کی حامل ہے ۔ ''نظامی گنجوی کی منظوم یوسف و زلیخا'' ''فردوسی کی طرف منسوب یوسف و زلیخا''کا نام اس ادبی دنیا میں لیا جاسکتا ہے۔

--------------

( ۱ )حضرت آدم و نوح (علیہما السلام) دونوں کی داستانیں بارہ ۱۲ سورتوں میں ، داستان حضرت ابراہیم (ع) اٹھارہ ۱۸ سورتوں میں ، داستان حضرت صالح(ع) گیارہ ۱۱ /سورتوں میں، حضرت داؤود(ع) کا واقعہ پانچ سورتوں میں ، حضرت ہود (ع)و سلیمان (ع)دونوں کی داستانیں چار ۴ سورتوں میں اور حضرت عیسیٰ (ع)و زکری(ع) کی داستانیں تین ۳ سورتوں میں مذکور ہیں ۔ تفسیر حدائق

۸

قرآن حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان میں خود آپ(ع) کی شخصیت کو حوادث کی بھٹی سے گزرنے ہی کو داستان کا اصلی مرکز و محور قرار دیتاہے ۔

جبکہ دوسرے انبیاء (ع)کی داستانوں میں زیادہ تر مخالفین کا انجام ، ان کی ہٹ دھرمی اور ان کی ہلاکت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

بعض روایتوں میں عورتوں کو سورہ یوسف کی تعلیم سے روکا گیا ہے لیکن بعض صاحبان نظر کے نزدیک ان روایتوں کی سند معتبر نہیں ہے ۔(۲)

اس کے علاوہ نہی کا سبب ؛عزیز مصر کی بیوی زلیخاکا عشق کرنا ہے ، جس میں قرآنی بیان کی بنیاد پر کوئی منفی پہلو نہیں ہے ۔

--------------

(۲)تفسیر نمونہ.

۹

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.

شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو بڑا رحم کرنے والا مہربان ہے ۔

آیت ۱:

(۱) الۤرٰ تِلْکَ ا یاتُ الْکِتَابِ الْمُبِینِ.

'' الف لام را وہ واضح اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں''۔

آیت ۲:

(۲) اِنّا اَنْزَلْنَاهُ قُرْ اناً عَرَبِیّاً لَعَلّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.

'' ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیاہے تاکہ تم سمجھو''.

نکات:

قرآن جس زبان میں بھی نازل ہوتا دوسروں پر اس سے آشنائی لازم ہوتی لیکن قرآن کا عربی زبان میں نازل ہونا ایک خاص امتیاز کاحامل ہے ، ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

الف ۔ عربی زبان کی لغات اتنی وسیع اور اس کے قوانین اتنے محکم ہیں کہ دوسری زبانوں میں ایسی باتیں نہیں ملتیں۔

ب۔ روایات کے مطابق اہل جنت کی زبان عربی ہے ۔

ج۔ جس علاقے کے لوگوں میں قرآن نازل ہوا ان کی زبان عربی تھی لہٰذا آسمانی کتاب کا کسی دوسری زبان میں ہونا ممکن نہ تھا ۔

۱۰

خداوندعالم نے قرآن مجید کے بھیجنے کے طریقے کو ''نزول '' کہا ہے جیساکہ بارش کے سلسلے میں بھی ''نزول'' ہی استعمال کیا گیا ہے قرآن اور بارش کے درمیان کچھ ایسی مشابہتیں ہیں جن کا ذکر مناسب ہے :

الف۔دونوں آسمان سے نازل ہوتے ہیں(نزّلنا) (۱)

ب۔ دونوں خود بھی پاک ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں(لیطهرکم ) (۲) (یزکّیهم ) (۳ )

ج۔دونوں زندگی کا وسیلہ ہیں(دعا کم لما یحییکم ) (۴) (لنحی به بلدمیتا) (۵)

د۔ دونوں باعث برکت ہیں(مبارکاً ) (۶)

--------------

( ۱ )سورہ ق آیت ۹

( ۲ )یُنزّل علیکم من السماء ماء لیُطهرّکم بہ۔انفال ،آیت ۱۱

( ۳ )ربناوابعث فیهم رسولاً یعلمهم الکتاب والحکم ویزکیهم ۔ بقرہ آیت ۱۲۹

( ۴ )انفال آیت ۲۴

( ۵ )فرقان آیت ۴۹

( ۶ )هذا کتاب انزلناه مبارک انعام آیت ۹۲نزّلنا من السماء ماء مبارکا ۔(سورہ ق آیت ۹

۱۱

ھ۔ قرآن بارش کی طرح قطرہ قطرہ ، آیت آیت نازل ہواہے(نزول تدریجی)

شائد قرآن کے عربی ہونے پر تاکید کی وجہ یہ ہو کہ ان لوگوں کا جواب دےدیا جائے جو کہتے ہیں کہ قرآن کو ایک عجمی شخص نے پیغمبر اسلام(ص) کو سکھایا تھا۔(۱)

پیام:

۱۔ قرآن خود معجزہ ہے اس میں معجزات کی تمام اقسام: علمی ، تاریخی ، عینی سب شامل ہیں اس میں انہیں حروف تہجی کو استعمال کیا گیا ہے جنہیں تم استعمال کرتے ہو ۔(الۤر) (سورہ کی پہلی آیت میں اسی طرف اشارہ ہے )

۲۔ قرآن کا مقام ومرتبہ بہت بزرگ و برتر ہے(تلک)

۳۔ قرآن عربی زبان میں ہے لہٰذا دوسری زبانوں میں اس کاترجمہ نماز میں عربی کا قائم مقام نہیں ہوسکتا(قرآناً عربی)

۴۔ ایک طرف قرآن کا عربی میں نازل ہونا ، اور دوسری طرف اس میں تدبراور غور و فکر کا حکم اس بات کی علامت ہے کہ تمام مسلمانوں پر عربی زبان سے آشنائی لازمی ہے(قرآناً عربی)

۵-قرآن فقط تلاوت ، تبرّک اور حفظ کے لئے نہیں ہے بلکہ بشر کے لئے تعقل اور تکامل کا ذریعہ ہے ۔(لعلکم تعقلون)

--------------

( ۱ )۔.۔وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ یَقُولُونَ إِنَّمَا یُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِی یُلْحِدُونَ إِلَیْهِ أَعْجَمِیٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُبِینٌ .( سورہ نحل آیت ۱۰۳ )

۱۲

آیت ۳:

(۳) نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ هَذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ کُنتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنْ الْغَافِلِینَ.

''ہم اس قرآن کو آپ کی طرف وحی کرکے آپ سے ایک نہایت عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں اگرچہ آپ اس سے پہلے (ان واقعات سے بالکل) بے خبر تھے ''۔

نکات:

''قصص'' داستان اور بیانِ داستان دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے ۔

قصہ اور داستان انسان کی تربیت میں قابل توجہ حصہ رکھتے ہیں کیونکہ داستان ایک امت کی زندگی کا عینی مجسمہ اور عملی تجربہ ہے ۔ تاریخ اقوام کا آئینہ ہے ہم جس قدر ماضی کی تاریخ سے آشنا ہوں گے اتنا ہی محسوس ہو گا کہ ہم نے ان لوگوں کی عمر کے برابر زندگی گزاری ہے ۔

حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے مکتوب نمبر ۳۱ میں اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو مخاطب کرکے کچھ باتیں بیان فرمائی ہیں جن کا مضمون یہ ہے :

''اے میرے لخت جگر ! میں نے ماضی کی تاریخ اور سرگزشت کا اس طریقے سے مطالعہ کیا ہے اور آگاہ ہوں گویا میں نے ان لوگوںکے ساتھ زندگی گزاری ہو اور ان کی عمر پائی ہو ''۔

۱۳

شاید انسان پر قصہ اور داستان کی تاثیر کی وجہ یہ ہو کہ انسان داستان سے قلبی لگ رکھتا ہے تاریخی کتابیں اور داستانی آثار معمولاً تاریخ بشریت میں ایک خاص اہمیت کے حامل اور اکثر لوگوں کے لئے قابل فہم رہے ہیں ۔ جبکہ عقلی و استدلالی بحثوں کو بہت کم افراد ہی درک کرپاتے ہیں ۔

قرآن مجید نے حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان کو بعنوان ''احسن القصص'' یاد کیا ہے لیکن روایات میں پورے قرآن کو ''احسن القصص'' کہا گیا ہے ۔یقینا ان دونوں باتوںمیں کوئی تضاد نہیں ہے اس لئے کہ پورا قرآن تمام کتب آسمانی کے درمیان ''احسن القصص'' ہے جبکہ سورہ یوسف تمام قرآنی سورتوں میں ''احسن القصص'' ہے۔(۱)(۲)

--------------

(۱)تفسیر کنزالدقائق.

(۲)اگر آیت کے اس ٹکڑے ''احسن القصص'' کو بغور دیکھا جائے تو اس توجیح کی ضرورت پیش نہیں آئے گی جسے صاحب کنزالدقائق نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ یہاں بہترین داستان مقصود نہیں ہے اس لئے کہ قصہ کی جمع ''قَصص ''نہیں بلکہ '' قِصص ''ہے یہاں خداوندمتعال کا مقصود یہ ہے کہ ہم قصہ گوئی کا بہترین طریقہ اور اس کی روش بیان کررہے ہیں یعنی پورا قرآن ''احسن القصص'' ہے لیکن اس سورہ میں بہترین شیوہ اور اسلوب کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ پورے سورہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجائے گی کہ کون سا بہترین شیوہ یہاں استعمال کیا گیا ہے ۔ جو قصہ گوئی کے فن سے آگاہ ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بہترین قصہ وہ ہے جو بامقصد ہو۔ قرآن مجید کے سارے سورے بامقصدہیںاور وہ بھی عالی ترین مقصد جو ہدایت ہے وہ اس سورہ میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے ۔لیکن دوسری شرط یہ ہے کہ قصہ ایک جگہ بیان کیا جائے اسی لئے جو چاشنی ایک مکمل ناول میں ہوتی ہے وہ قسط وار میں نہیں ہوتی ۔ یہی وہ بہترین روش ہے جو اس سورے میں استعمال کی گئی ہے۔ اس سے قبل آپ نے ''سورہ یوسف کا رخ زیبا'' عنوان میں ملاحظہ فرمایا کہ دوسرے انبیاء (ع)کی داستان قرآن مجید کے مختلف سوروں میں ملتی ہے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ فقط اسی سورہ میں ہے وہ بھی اپنی خاص زیبائی و خوبصورتی کے ساتھ لہٰذا پورا قرآن احسن القصص ہے لیکن جناب یوسف کا قصہ ، قصہ گوئی کے تما م فنون سے بہرہ مند ہے ۔(مترجم)

۱۴

دوسری داستانوں سے قرآنی داستانوں کا فرق:

۱۔قصہ کہنے والا خدا ہے(نحن نقص) (۱)

۲۔ بامقصد ہے(نقص علیک من انباء الرسل ما نثبّت به فادک) (۲)

۳۔صحیح اور سچ ہے نہ کہ خیال و تصور۔(نقص علیک نبأهم بالحق) (۳)

۴۔ علمی بنیاد پر ہے نہ کہ وہمی و گمانی(فلنقصّنّ علیهم بعلم) (۴)

۵۔وسیلہ تفکر ہے نہ کہ ذریعہ بے حسی(فاقصص القصص لعلهم یتفکرون) (۵)

۶۔عبرت و نصیحت کا ذریعہ ہے نہ کہ تفریح و سرگرمی(کان فی قصصهم عبر) (۶)

--------------

( ۱ ) سورہ یوسف آیت ۳

( ۲ ) سورہ ہود، آیت ۱۲۰

( ۳ )سورہ کہف آیت ۱۳

( ۴ )سورہ اعراف آیت ۷

( ۵ )سورہ اعراف آیت ۱۷۶

( ۶ )سورہ یوسف آیت ۱۱۱

۱۵

حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ''احسن القصص ''ہے ، چونکہ:

۱۔ تمام قصوں میں معتبرترین قصہ ہے ۔(بما اوحین)

۲۔ اس داستان میں عظیم ترین جہاد (جسے جہاد بالنفس سے تعبیر کیا گیا ہے)کا تذکرہ ہے۔

۳۔اس داستان کا مرکزی کردار ایک ایسا نوجوان ہے جو تمام انسانی کمالات کا حامل ہے(یعنی صبر، تقویٰ ، پاکدامنی ، ایمان ، امانت ، حکمت ، بخشش ، احسان، وغیرہ)

۴۔ اس داستان کے تمام افراد آخرکار خوشبخت ہوگئے ، مثلاًحضرت یوسف (ع)بادشاہ ہوگئے جناب یوسف (ع)کے بھائیوںنے توبہ کرلی ، آپ (ع)کے پدر بزرگوار کی بینائی لوٹ آئی ، قحط زدہ ملک کو نجات مل گئی ، مایوسی اور حسادت ، وصال اور محبت میں تبدیل ہو گئی۔

۵۔ اس قصے میں تمام اضداد کو ایک دوسرے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ مثلاًفراق ووصال، خوشی و غم ، خشک سالی و سبزہ زاری ، وفاداری و جفاکاری ، مالک و مملوک ، کنواں اور محل ، فقر و غنا، غلامی و بادشاہی ، نابینائی و بینائی ، ناجائز تہمت اور پاکدامنی ۔

فقط الٰہی قصے ہی نہیں بلکہ خداوندعالم کے تمام کام ''عمدہ '' ہیں اس لئے کہ وہ :

۱۶

بہترین پیداکرنے والا ہے ۔احسن الخالقین (۱)

بہترین کتاب کا نازل کرنے والا ہے ۔نزّل احسن الحدیث (۲)

بہترین صورت بنانے والا ہے ۔فاحسن صورکم (۳)

بہترین دین کا مالک ہے۔و من احسن دینا ممن اسلم وجهه للّٰ ہ(۴)

بہترین جزا دینے والا ہےلیجزیهم الله احسن ما عملوا (۵)

اورخداوندعالم ان تمام اچھائیوںکے مقابلے میں انسان سے بہترین عمل چاہتا ہےلیبلوکم ایّکم احسن عملا (۶)

قرآن مجید میں غفلت کے تین معانی بیان ہوئے ہیں :

الف ۔ بری غفلت:(و انّ کثیرا من الناس عن ایاتنا لغافلون) (۷) اگرچہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل رہتے ہیں ۔

ب۔ اچھی غفلت :(الذین یرمون المحصنات الغافلات المومنات

--------------

( ۱ )سورہ مومنون آیت ۱۴

( ۲ )سورہ زمر آیت ۲۳

( ۳ )سورہ غافر آیت ۶۴

( ۴ )سورہ نساء آیت ۱۲۵

( ۵ )سورہ نور آیت ۳۸

( ۶ )سورہ ہود آیت ۷

( ۷ )سورہ یونس آیت ۹۲

۱۷

لعنوا فی الدنیا والاخر) (۱) جو لوگ بے خبر پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیاو آخرت میں لعنت ہے ۔

ج۔ طبیعی غفلت :یعنی آگاہ نہ ہونا(و ان کنت من قبله لمن الغافلین)

پیام:

۱۔ قرآنی داستانوں میں قصہ گو ،خود خداوندعالم ہے(نحن نقص)

۲۔دوسروں کےلئے نمونہ پیش کرنے کےلئے بہترین افراد کا انتخاب اور تعارف کروائیں۔(احسن)

۳۔ قرآن ''احسن الحدیث'' اور سورہ یوسف ''احسن القصص''ہے( احسن القصص)

۴۔بہترین داستان وہ ہے جو وحی کی بنیاد پر ہو(احسن القصص بما اوحین)

۵۔قرآن شریف بہترین اور خوبصورت انداز میں داستان بیان کرنے والا ہے۔(احسن القصص)

۶- پیغمبر گرامی (ص) وحی کے نازل ہونے سے پہلے ''گزشتہ تاریخ''سے ناآشنا تھے...(لمن الغافلین)

--------------

( ۱ )سورہ نور آیت ۲۳

۱۸

آیت ۴:

(۴) إِذْ قَالَ یُوسُفُ لِأَبِیهِ یَاأَبَتِ إِنِّی رَأَیْتُ أَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُهُمْ لِی سَاجِدِینَ

'' (وہ وقت یاد کرو )جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا: اے بابا! میں نے (خواب میں)گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ سب مجھے سجدہ کر رہے ہیں''۔

نکات :

حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان خواب سے شروع ہوتی ہے تفسیر المیزان میں علامہ طباطبائی(رح) فرماتے ہیں حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان ایک ایسے خواب سے شروع ہوتی ہے جو انہیں بشارت دیتا ہے اور مستقبل کے بارے میں روشن امید دلاتا ہے تاکہ انہیں تربیت الٰہی کی راہ میں صابر و بردبار بنائے ۔

جناب یوسف (ع)حضرت یعقوب (ع)کے گیارہویں فرزند ہیں جو بنیامین کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ بنیامین کے علاوہ دوسرے بھائی دوسری ماں سے ہیں۔ حضرت یعقوب (ع)حضرت اسحاق (ع)کے اور حضرت اسحاق (ع)حضرت ابراہیم (ع)کے فرزند ہیں(۱) ۔

اولیاء ِالٰہی کے خواب مختلف ہوتے ہیں۔ کبھی تعبیر کے محتاج ہوتے ہیں جیسے حضرت یوسف (ع)کا خواب اور کبھی تعبیر کی ضرورت نہیں ہوتی ہے جیسے حضرت ابراہیم کا خواب جس میں حضرت اسماعیل (ع)کو ذبح کرنے کا حکم دیاگیا تھا ۔

--------------

( ۱ )تفسیر مجمع البیان

۱۹

خواب کے سلسلے میں ایک اور گفتگو

پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : الرویا ثلاث : بشری من اللہ ، تحزین من الشیطان والذی یحدث بہ الانسان نفسہ فیراہ فی منامہ(۱)

یعنی خواب کی تین قسمیں ہیں: (الف)خدا کی طرف سے بشارت۔ (ب)شیطان کی طرف سے غم و غصہ (ج) وہ مشکلات جن سے انسان روزمرہ دچار ہوتاہے پھر انہیں خواب میں دیکھتا ہے ۔

بعض دانشمند اور علوم نفسیات کے ماہرین خواب دیکھنے کو شکست اور ناکامی کا نتیجہ سمجھتے ہیں وہ اپنی بات کو مستند کرنے کے لئے ایک پرانی ضرب المثل پیش کرتے ہیں ''شتر در خواب بیند پنبہ دانہ'' جسے اردو میں ''بلی کے خواب میں چھیچھڑے ''کہہ سکتے ہیں ۔ بعض تو خواب کو خوف کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور اسکے لئے یہ ضرب المثل پیش کرتے ہیں ''دور از شتر بخواب تا خواب آشفتہ نبینی''(اونٹ سے دورسو تاکہ پریشان کنندہ خواب نہ دیکھو)بعض ، خواب کو غرائز اور ہوس کا آئینہ سمجھتے ہیں ۔

--------------

( ۱ )بحار الانوار ج ۱۴ صفحہ ۴۴۱

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تمام مہمان چپ بیٹھے تھے کسی نے بھی اس آسمانی دعوت کو جواب نہیں دیا: صرف حضرت علی (ع) کہ جن کی عمر تقریباً چودہ سال کی تھی اٹھے اور کہا اے خدا کے رسول(ص) : میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی نصرت و مدد کروں_ پیغمبر اسلام (ص) نے محبت کے انداز میں حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا اور پھر اپنی گفتگو کو دوبارہ حاضرین کے لئے دہرایا اور آخر میں دوبارہ پوچھا کون میرے اس کام میں مدد کرنے کے لئے تیار ہے تا کہ میرا بھائی اور وزیر اور وصی او رجانشین اور خلیفہ ہو؟ اس دفعہ بھی پیغمبر اسلام (ص) کی آسمانی دعوت کا کسی نے جواب نہیں دیا تمام چپ بیٹھے رہے_

حضرت علی علیہ السلام نے اس سکوت کوتوڑتے ہوئے محکم ارادے اور جذبے بھرے انداز میں کہا یا رسول اللہ میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی اعانت کروں پیغمبر اسلام (ص) نے محبت بھری نگاہ اس فداکار نوجوان پر ڈالی اور اپنی بات کا تیسری بار پھر تکرار کیا اور کہا_ اے میرے رشتہ دارو میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں تمہارے لئے لایا ہوں مجھے محکم ہوا ہے کہ تمہیں خداپرستی اور توحید کی دعوت دوں کون ہے کہ اس کام میں میری مدد کرے تا کہ وہ میرا بھائی اور وزیر، وصی، اور جانشین و خلیفہ ہو اس دفعہ بھی تمام خاموش تھے فقط حضرت علی علیہ السلام ان کے درمیان سے اٹھے اور محکم ارادے سے کہا یا رسول اللہ(ص) میں حاضر ہوں کہ آپ(ص) کی مدد کروں میں آپ(ص) کے تمام کاموں میں مدد کروں گا اس وقت مہمانوں کی حیرت زدگی کے عالم میں پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا

۱۲۱

اور ان کے مدد کے معاہدہ اور پیمان کو قبول فرمایا اور مہمانوں میں اعلان کیا_ کہ یہ نوجوان میرا بھائی میرا وزیر میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے اس کی بات کو سنو اور اس پر عمل کرو بہت سے مہمان ناراض ہوئے وہ وہاں سے اٹھے اور پیغمبر اسلام(ص) کی باتوں کا مزاق اڑانے لگے اور ابوطالب (ع) سے کہنے لگے کہ آج سے علی علیہ السلام تمہارا حاکم ہوگیا ہے_ محمد(ص) نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنوں اور اس پر عمل کرو اور اس کی پیروی کرو_

سوالات

۱)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو ابتداء میں اسلام کے لئے کیسے مدعو کرتے تھے اور کتنے عرصہ تک ایسا کرتے رہے؟

۲)___ پیغمبر اسلام(ص) لوگوں کو کس غرض اور ہدف کی طرف دعوت دیتے تھے اور ان سے کیا چاہتے تھے؟

۳)___ تین سال کے بعد اللہ تعالی کا آپ(ص) کو کیا حکم ملا؟

۴)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حکم کی تعمیل کے لئے کیا کیا ؟

۵)___ جب مہمان گھر سے باہر نکلتے تھے تو ایک دوسرے سے کیا کہتے تھے نیز انہوں نے ابولہب سے کیا کہا؟

۶)___ دوسرے دن کی مجلس میں پیغمبر (ص) نے اپنے رشتہ داروں سے کیا فرمایا تھا اور ان سے کس چیز کا مطالبہ کیا تھا ؟

۱۲۲

۷)___ کس نے پیغمبر اسلام(ص) کی دعو کا مثبت جواب دیا اور کیا کہا؟

۸)___ پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کا تعارف کس عنوان سے کرایا؟

۹)___ مہمانوں نے حضرت رسول (ص) کی بات کا کیا مطلب سمجھا اور اسے جناب ابوطالب (ع) سے کس انداز میں کہنا شروع کیا؟

اپنے دوستوں کو بلایئےہ واقعہ کو سنایئےور اس موضوع پر ان سے گفتگو کیجئے تا کہ اس پیغام کے پہنچانے میں آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرسکیں؟

۱۲۳

پندرہواں سبق

صبر و استقامت

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی اور جو تھے بھی ان کی اکثریت فقیر، کا رکن اور مزدور قسم کے لوگوں کی تھی لیکن اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) پر صحیح اور پختہ ایمان لاچکے تھے_ اللہ پر ایمان کو قیمتی سرمایہ جانتے تھے دین اسلام کی عظمت کے قائل تھے اور اس عظیم دین اسلام کی حفاظت کے لئے کوشش کرتے تھے اور اسلام کی ترقی کے لئے جان کی قربانی تک پیش کردیتے اور استقامت دکھلاتے تھے وہ صحیح بامراد، مستقل مزاج اور فدا ہونے والے انسان تھے_

مكّہ کے طاقتور اور بت پرست نئے نئے مسلمان ہونے والوں کا مذاق اڑاتے اور گالیاں دیتے اور ناروا کلمات کہتے تھے ان کو بہت سخت کاموں پر لگاتے اور انہیں تکلیفیں پہنچاتے تا کہ دین اسلام

۱۲۴

سے دست بردار اور کافر ہوجائیں_ لوہے کی زرہ ان کے بدن پر پہناتے اور پہاڑ اور میدان کے درمیان تپتے سورج کے سامنے کھڑا کئے رکھتے زرہ گرم ہوجاتی اور ان کے جسم کو جلا ڈالتی پھر ان کو اسی حالت میں پتھروں اور گرم ریت پر گھیسٹتے اور کہتے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو اور محمد(ص) کو ناروا اور ناسزا کلمات کہو تا کہ ہم تمہیں ایسے شکنجہ میں نہ ڈالیں لیکن وہ فداکار مسلمان تھے لہذا وہ سخت شکنجوں کو برداشت کرتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے اور اللہ پر ایمان اور حضرت محمد(ص) کی پیروی سے دست بردار نہ ہوتے تھے انہوں نے اتنا صبر اور استقامت کا ثبوت دیا کہ مكّہ کے بہانہ باز بت پرست تھک گئے اور اپنی کمزوری اور پریشانی کا اظہار کیا ان بہادر مسلمانوں کا ایمان اور ان کی استقامت تھی کہ جس نے اسلام کو نابود ہونے سے محفوظ رکھا عمّار ایسے ہی بہادر مسلمانوں میں ایک تھے ظالم بت پرست انہیں اور ان کے باپ یاسر اور ان کی ماں سميّہ کو پکڑ کر شہر سے باہر لے جاتے اور گرم و جلا دینے والی ریت پر مكّہ کے اطراف میں دوپہر کے وقت مختلف اذیتیں دیتے عمّار کی ماں کہ جس پر ہمارے بہت درود و سلام ہوں پہلی عورت ہیں جو اسلام کے راستے میں شہید ہوئیں جب پیغمبر(ص) ان کی دردناک اذیتوں سے مطلع ہوتے اور ان فداکار مسلمانوں کا دفاع نہ کرسکتے تھے تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور فرماتے کہ صبر و استقامت سے کام لو اپنے ایمان اور عقیدہ کو محفوظ رکھو کیونکہ سب کو آخرت ہی کی طرف لوٹنا ہے اور تمہارے لئے اللہ کا وعدہ بہشت بریں ہے یہ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے آخر کار تم ہی کامیاب

۱۲۵

ہوگے بلال بھی ان بہادر اور فداکار مسلمانوں میں سے ایک تھے وہ دین اسلام کو اپی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے تھے ظالم انسان انھیں دوپہر کے وقت جلتی دھوپ میں ریت پر لٹاتے اور بہت بڑا پتھر ان کے سینے پر رکھ دیتے تھے اور ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ دین اسلام سے پھر جائیں اور خدا و پیغمبر اسلام (ص) کو ناسزا کلمات کہیں اور بتوں کی عظمت بیان کریں لیکن وہ بجائے اس کے کہ اسلام کا انکار کرتے اور بتوں کی تعریف کرتے ہمیشہ یہی کہتے تھے، احد، احد، یعنی ایک خدا، ایک خدا، صمد، صمد، یعنی بے نیاز اور محتاجوں کی پناہ گاہ خدا_

اسلام کے فدائیوں نے تکلیفیں اٹھائیں اور مصیبتیں برداشت کیں اور اس طرح دین اسلام کی حفاظت کی اور اسے ہم تک پہنچایا_ اب دین اسلام کے راستے میں ہماری فداکاری اور جہاد کاوقت ہے دیکھیں کس طرح ہم اتنی بڑی ذمہ داری سے عہدہ براء ہوتے ہیں_

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ وہ مسلمانوں جو صحیح ایمان لائے تھے ان کی صفات کیسی تھیں؟

۲)___ بت پرست مسلمانوں کو کیوں تکلیفیں اور اذیتیں پہنچاتے تھے؟

۱۲۶

۳)___ صبر کا کیا مطلب ہے ان سچّے مسلمانوں کا دین کے راستے میں صبر کس طرح تھا؟

۴)___ اسلام میں پہلے شہدی کا نام کیا ہے اور وہ کس طرح شہید ہوا؟

۴)___ ہمارے پیغمبر(ص) نے ان فداکار مسلمانوں سے کیا فرمایا اور ان کی کیسے دلجوئی کی؟

۵)___ بلال کون تھے بت پرست ان سے کیا چاہتے تھے اور وہ جواب میں کیا کہتے تھے؟

۷)___ دین اسلام کو صحیح مسلمانوں نے کس طرح حفاظت کی؟

۸)___ اسلام کے قوانین کی حفاظت اور اس کے دفاع کے بارے میں ہماری کیا ذمّہ داری ہے؟

۱۲۷

سولہواں سبق

دین اسلام کا تعارف

ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی مكّہ کے بت پرست ان مسلمانوں سے دشمنی اور مخالفت کرتے تھے اور انھیں تکلیف پہنچاتے تھے مسلمانوں کے پاس چونکہ قدرت اور طاقت نہ تھی وہ ان بت پرستوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے انہوںیہی بہتر سمجھا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرجائیں تا کہ ملک میں دین اسلام پر آزادانہ عمل کرسکیں اسی نظریہ کے تحت گروہ در گروہ کشتی پر سوار ہوتے اور مخفی طور پر حبشہ کی طرف ہجرت کرجاتے_

حبشہ کا بادشاہ نجّاشی تھا (نجّاشی حبشہ کے چند ایک بادشاہوں کا لقب تھا) یہ عیسائی تھا مسلمانوں کے وہاں پہنچنے سے باخبر ہوا تو ان کو مہربانی اور خوش اخلاقی سے پناہ دی_ جب مكّہ کے بت پرستوں کو

۱۲۸

مسلمانوں کے ہجرت کرجانے کی اطلاع ملی تو بہت ناراض اور غضبناک ہوئے دو آدمیوں کو بہت قیمتی تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا تا کہ مسلمانوں کو وہاں سے پکڑ کر مكّہ واپس لے آئیں_ وہ دو آدمی حبشہ آئے اور نجاشی کے پاس گئے اور اس کی تعظیم بجالائے اور اسے تحائف پیش کئے نجّاشی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے دیدار کے لئے شہر مكّہ سے آئے ہیں ہمارے نادان جوانوں میں سے ایک تعداد ہمارے دین سے خارج ہوگئی ہے اور ہمارے بتوں کی پرستش سے ہاتھ اٹھایا ہے یہ آپ کے ملک میں بھاگ کر آگئے ہیںمكّہ کے اشراف اور سردار آپ سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کو پکڑ کر ہمارے حوالے کردیں تا کہ ان کو ہم اپنے شہر لے جائیں اور انہیں سزا و تنبیہ کریں، نجّاشی نے ان دونوں سے کہا کہ مجھے تحقیق کرنی ہوگی اس کے بعد نجّاشی نے مسلمانوں کو اپنے محل میں دعوت دی اور عیسائی علماء کے سامنے ان سے سوالات کئے نجّاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ تمہارا اس سے پہلے کیا دین تھا اب تمہارا کیا دین ہے کیوں ہمارے ملک میں ہجرت کی ہے جناب جعفر ابن ابی طالب (ع) نے جو ایک فداکار او رمومن جو ان تھے جواب دیا کہ ہمارے شہر میں طاقت ور کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں وہاں کے لوگ بت پرست ہیں مردار گوشت کھاتے ہیں برے اور ناپسندیدہ کام انجام دیتے ہیں اپنوں کے ساتھ باوفا اور مہربان نہیں ہیں_ ہمسایوں کو تکلیف دیتے ہیں ان حالات میں اللہ تعالی نے ہمارے لئے ایک پیغمبر جو ہمارے در میان سچائی اور امانت میں مشہور ہے بھیجا ہے وہ ہمارے لئے

۱۲۹

اللہ تعالی کی طرف سے دین اسلام لایا ہے، دین اسلام اس وقت نجّاشی نے اپنی جگہ س حرکت اور تھوڑاسا آگے بڑھا تا کہ غور سے سنے کہ دین اسلام کیا ہے اور کیا کہتا ہے_

جناب جعفر تھوڑی دیر کے لئے چپ ہوگئے اور ایک نگاہ عیسائی علماء کی طرف کی اور کہا کہ دین اسلام ہمیں کہتا ہے کہ بت پرستی نہ کرو اور ایک خدا کی عبادت کرو اور صرف اسی کے حکم کو قبول کرو دین اسلام ہمیں کہتا ہے: سچّے بنو_ امانت دار بنو وفادار ہوجاؤ رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی کرو_ کسی کا رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی کرو_ ہمسایوں سے اچھائی نہ کرو، کسی کو گالیاں نہ دو، لغو اور بیہودہ کلام نہ کرو، یتیم کا مال ظلم سے نہ کھاؤ نماز پڑھو، اور اپنے مال کا کچھ حصّہ اچھے کاموں میں خرچ کرو نجاشی اور عیسائی علماء خوب غور سے سن رہے تھے اور آپ کی گفتگو سے لذّت حاصل کر رہے تھے لیکن وہ دو آدمی غصّے سے اپنے ہونٹوں کو چبا رہے تھے اور غصّے کے عالم میں مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے_

جناب جعفر نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا_ اے حبشہ کے بادشاہ دین اسلام کو حضرت محمد(ص) اللہ کی طرف سے لائے ہیں ہم نے اسے قبول کیا ہے اور خدا و اس کے پیغمبر(ص) پر ایمان لائے ہیں اور مسلمان ہوگئے ہیں مكّہ کے بت پرست اس سے ناراض ہوئے اور جتنا ہوسکتا تھا انہوں نے ہمیں تکلیف پہنچائی اور اذیتیں دیں_ ہم مجبور ہوئے کہ اپنے شہر سے ہجرت کر کے اس ملک میں پناہ لیں تا

۱۳۰

کہ اللہ تعالی کی عبادت کرسکیں اور اپنے مذہب کے اعمال اور عبادات کو آزادنہ طور پر بجالاسکیں_

نجاشی حضرت جعفر کی گفتگو سن کر خوش ہوا اور کہا کہ تمہارے پیغمبر(ص) کے کلام اور جناب عیسی علیہ السلام کے کلام کا سرچشمہ ایک ہے دونوں اللہ کے کلام ہیں تم اس ملک میں آزاد ہو تو اپنے دین کے اعمال کو اور عبادت کو آزادانہ طور سے انجام دے سکتے ہو اور دین اسلام پر باقی رہو واقعی کتنا اچھا دین ہے_

اس کے بعد ان دو بت پرستوں کو آوازدی اور کہا کہ میں رشوت نہیں لیتا جو چیزیں تم لائے تھے انھیں اٹھا لو اور جلدی یہاں سے چلے جاؤ_

یقین جانو کہ میں مسلمانوں کو تمہارے حوالہ نہیں کروں گا جتنا جلدی ہو مكّہ لوٹ جاؤ_

وہ دو آدمی تحائف کو لیکر شرمندہ باہر نکلے اور مكّہ کی طرف چلے گئے_

سوالات

۱)___ ہجرت کے کیا معنی ہیں مسلمانوں نے کیوں ہجرت کی_

۲)___ حبشہ کے بادشاہ کیا دین تھا اور مسلمانوں کو کیوں واپس نہ کیا؟

۱۳۱

۳)___ جعفر کون تھے انہوں نے عیسائی علماء کے سامنے پیغمبر(ص) اور دین اسلام کے متعلق کیا گفتگو کی؟

۴)___ اگر آپ سے دین اسلام اور پیغمبر(ص) کے بارے میں سوال کیا جائے تو کیا جواب دیں گے؟ اسلام اور پیغمبر(ص) کا کیسے تعارف کروائیں گے؟

۵)___ نجّاشی نے جناب جعفر کی گفتگو سننے کے بعد کیا کہا_ بت پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا اور کیا ان کے تحائف کو قبول کرلیا_ اور کیوں؟

۱۳۲

سترہواں سبق

مظلوم کا دفاع

ایک بوڑھا آدمی کسی بیابان میں رہتا تھا اونٹوں کی پرورش اور نگہبانی کرتا تھا اونٹوں کو شہروں میں لے جا کر بیجتا اور اس سے اپنے گھر بار اور بچّوں کی ضروریات خریدتا تھا ایک دفعہ اونٹوں کو لیکر مکہ گیا_ لوگ اس کے اردگرد جمع تھے اور اونٹوں کی قیمت کے متعلق گفتگو کر رہے تھے اچانک ابوجہل آیا اور دوسروں کی پرواہ کئے بغیر اس بوڑھے آدمی سے کہا کہ اونٹ صرف مجھے فروخت کرنا صرف مجھے سمجھ گئے دوسروں نے جب ابوجہل کی سخت لہجے میں بات سنی تو سب وہاں سے چلے گئے اور اسے اس بوڑھے اونٹ فروش کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا ابوجہل نے کہا کہ اونٹ میرے گھر لے آؤ اس بوڑھے آدمی نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور اونٹ اس کے گھر پہنچا دیئےور روپیہ کا تقاضہ کیا ابوجہل نے بلند آواز سے

۱۳۳

کہا کون سا روپیہ میں اس شہر کا سردار ہوں اگر چاہتے ہو پھر مكّہ آؤ اور اونٹ فروخت کرو تو پھر تمہیں چاہیے کہ اونٹوں کا روپیہ مجھ سے نہ لو سمجھ گئے بوڑھے آدمی نے کہا کہ یہی اونٹ میرا سارا سرمایہ ہے میں نے اس کی پرورش اور حفاظت میں بہت مصیبتیں اٹھائی ہیں اس سرمایہ سے چاہتا تھا کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لئے روزی مہيّا کروں اس لئے تمہیں زیب نہیں دیتا کہ میں خالی ہاتھ لوٹ جاؤں اور تمام زندگی اور کام سے رہ جاؤں چونکہ ابوجہل ایک ظالم اورخودپسند آدمی تھا بجائے اس کے کہ اس کا حق ادا کرتا غضبناک ہو کر کہا کہ تم نے وہ نہیں سنا جو میں نے کہا ہے بہت جلدی یہاں سے دفع ہوجاؤ ورنہ کوڑوں سے تیرا جواب دوں گا سمجھ گئے اس بوڑھے آدمی نے دیکھا کہ اگر تھوڑی دیر اور بیٹھتا ہوں تو ممکن ہے کہ مار بھی کھاؤں مجبور ہوکر وہ اس ظالم بے رحم کے گھر سے اٹھ کر چلا گیا راستے میں اپنے واقعہ کو چند گزرنے والوں سے بیان کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن کوئی بھی اس کی مدد کرنے کو تیار نہ ہوا بلکہ وہ جواب دیتے کہ ابوجہل ہمارا شہری ہے وہ قریش میں سے طاقت ور آدمی ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی بھی روک نہیں سکتا وہ بوڑھا آدمی گلی کوچہ میں سرگردان جارہا تھا کہ مسجد الحرام تک پہنچ گیا وہاں قریش کی عمومی مجلس میں ابوجہل کی شکایت کی دو آدمیوں نے از راہ مذاق اس بوڑھے آدمی سے کہا اس آدمی کو دیکھو_ یہ محمد(ص) ہے اس نے کہنا شروع کیا ہے کہ میں خدا کا آخری پیغمبر ہوں وہ ابوجہل کا دوست ہے وہ تیرا حق ابوجہل سے لے سکتا ہے جاؤ اس کے پاس وہ جھوٹ

۱۳۴

بول رہے تھے ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست نہ تھے بلکہ اس کے اور اس کے کاموں کے دشمن تھے خدا نے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا تھا تا کہ وہ ظالموں کے دشمن رہیں اور ان کے ساتھ مقابلہ کریں اور بہادر نیک لوگوں کی مدد سے ظالموں اور خودپسندوں کو ختم کریں خدا نے حضرت محمد(ص) کو لوگوں کی رہبری کے لئے بھیجا تھا تا کہ اجتماع میں عدل اور انصاف کو برقرار رکھیں اور لوگ آزادانہ خدا کی پرستش کریں وہ جھوٹ بول رہے تھے لیکن بوڑھا مظلوم انسان ان کی باتوں کو صحیح خیال کر رہا تھا وہ سمجھتا تھا کہ واقعی حضرت محمد(ص) ابوجہل کے دوست ہیں لہذا وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس آیا تا کہ آپ(ص) سے مدد کرنے کی درخواست کرے جو لوگ قریش کی عمومی مجلس میں بیٹھے ہوے تھے ہنس رہے تھے اور مذاق کر رہے تھے اور کہتے تھے کون ہے جو ابوجہل سے بات کرسکتا ہے وہ قریش کا طاقتور انسان ہے کسی میں جرات نہیںکہ اس کی مخالفت کرے ابوجہل محمد(ص) کو بھی مارے گا اور وہ شرمندہ واپس لوٹیں گے وہ بوڑھا آدمی حضرت محمد(ص) کے پاس پہنچا اور اپنی سرگزست بیان کی اور آپ سے مدد چاہی حضرت محمد(ص) نے اس کی شکایت کو غور سے سنا اور فرمایا کہ میرے ساتھ آو وہ بوڑھا آدمی پیغمبر اسلام(ص) کے ساتھ ابوجہل کے گھر پہنچا کچھ آڈمی تھوڑے فاصلے پر ان کے پیچھے ہولئے تا کہ دیکھیں کہ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ابوجہل کے گھر پہنچے اونٹوں کی آواز اوبجہل کے گھر سے سنائی دے رہی تھی پیغمبر اسلام (ص) نے دروازہ کھٹکھٹایا ابوجہل نے سخت لہجے میں کہا کہ

۱۳۵

کون ہے دروازہ کھولو محمد(ص) ہوں: بوڑھے آدمی نے جب ابوجہل کی سخت آواز سنی تو چند قدم پیچھے ہٹ کر علیحدہ کھڑا ہوگیا ابوجہل نے دروازہ کھولا_ حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جائزہ لیا اور پھر تیز نگاہ سے اسے دیکھا اور سخت غصّے کی حالت میں فرمایا اے ابوجہل کیوں کیوں کھڑے ہو جلدی کرو اس کے پیسے دو ابوجہل گھر گیا جو لوگ دور کھڑے تھے انہوں نے گمان کیا کہ ابوجہل اندر گیا ہے تا کہ چابک یا تلوار اٹھالائے گا لیکن ان کی امید کے برعکس وہ پریشان حالت میں گھر سے باہر آیا اور لرزتے ہاتھ سے اشرفیوں کی ایک تھیلی بوڑھے آدمی کو دے دی بوڑھے آدمی نے وہ تھیلی لے لی_ پیغمبر اسلام(ص) نے اس سے فرمایا کہ تھیلی کو کھولو اور روپیہ گن کر دیکھو کہیں کم نہ ہوں اس بوڑھے آدمی نے روپیہ گنا اور کہا کہ پورے ہیں اس نے پیغمبر اسلام(ص) کا شکریہ ادا کیا جو لوگ دور سے اس واقعہ کا مشاہدہ کر رہے تھے انہوں نے تعجب کیا اس کے بعد جب ابوجہل کو دیکھا تو اسے ملامت کی اور کہا کہ محمد(ص) سے ڈرگیا تھا کتنا ڈرپوک ہے تو ابوجہل نے جواب میں کہا وہ جب میرے گھر آئے اور غصّے سے مجھے دیکھ کر روپیہ دینے کے لئے کہا تو اس قدر خوف اور اضطراب مجھ پر طاری ہوا کہ میں مجبور ہوگیا کہ ان کے حکم پر عمل کروں اور اونٹوں کی قیمت ادا کروں اگر تم میری جگہ ہوتے تو اس کے سوا کوئی چارہ تمہارے لئے بھی نہ ہوتا_

اس دن کے بعد جب بھی ابوجہل اور اشراف مكّہ اکٹھے مل کر

۱۳۶

بیٹھتے اور حضرت محمد(ص) اور آپ کے اصحاب کے متعلق گفتگو کرتے تو کہتے کہ محمد(ص) کے پیروکاروں کو اتنی تکلیفیں دیں گے وہ محمد(ص) کو تنہا چھوڑدیںگے اور دین اسلام سے دست پردار ہوجائیں گے محمد(ص) کو اتنا تنگ کریں گے کہ پھر وہ ہم سے مقابلہ نہ کرسکیں گے اور کمزوروں کا حق ہم سے وصول نہ کرسکیں گے آپ کی سمجھے ہیں کیا تکلیف دینے اور اذیتیں پہنچانے سے سچے مسلمانوں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا تھا؟

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ان سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ پھر پیغمبر اسلام(ص) نے مظلوموں کی مدد نہیں کی ...؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱)___ کیاہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل کے دوست تھے خدا نے آپ(ص) کو کس غرض کے لئے پیغمبری کے لئے چنا تھا؟

۲)___ لوگوں نے اس بوڑھے آدمی کی مدد کیوں نہ کی؟

۳)___ جب وہ آدمی لوگوں سے مدد مانگتا تھا تو اس کو کیا جواب ملتا تھا اور کیا ان کا جواب درست تھا اور اگر درست نہیں تھا تو کیوں؟

۴)___ اگر کوئی تم سے مدد طلب کرے تو اسے کیا جواب دوگے؟

۵)___ تم نے آج تک کسی مظلوم کی مدد کی ہے اور کسی طرح بیان کیجئے؟

۱۳۷

۶)___ ہمارے پیغمبر(ص) ابوجہل سے کیسے پیش آئے اور اس سے کیا فرمایا؟

۷)___ پیغمبر اسلام(ص) کے اس کردار سے آپ کیا درس لیتے ہیں اور کس طرح پیغمبر(ص) کے اس کردار کی آپ پیروری کریں گے؟

۸)___ بت پرستوں نے کیوں مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے کا ارادہ کیا تھا؟

۱۳۸

اٹھارہواں سبق

خدا کا آخری پیغمبر حضرت محمد(ص)

اللہ تعالی نے جب سے محمد مصطفی (ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انہیں اپنا آخری پیغمبر قرار دیا ہے ہمارے پیغمبر گرامی قدر نے اس ابتدائی دعوت کے وقت سے اللہ تعالی کے حکم سے خود کو آخری نبی ہونے کا اعلان کردیا تھا یعنی اعلان کیا تھا کہ میں اللہ کا آخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا تمام وہ لوگ جو ابتداء اسلام میں آنحضرت(ص) پر ایمان لائے تھے اور مسلمان ہوئے تھے جانتے تھے کہ آپ خدا کے آخری پیغمبر ہیں قرآن کریم نے بھی جو اللہ کا کلام اور پیغمبر اسلام(ص) کا دائمی معجزہ ہے_

حضرت محمد مصطفی (ص) کو آخری پیغمبر بتلایا ہے قرآن فرماتا ہے کہ محمد(ص) رسول خدا اور خاتم النبین ہیں لہذا جو مسلمان ہیں اور قرآن کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں حضرت محمد(ص) کو اللہ کا آخری پیغمبر تسلیم کرتے ہیں_

۱۳۹

ہمارا یہ ایمان ہے کہ اسلام کا آئین اتنا دقیق اور کامل ہے کہ حق طلب انسانوں کو ہمیشہ اور ہر وقت سعادت اور کمال تک پہنچاتا ہے وہ خدا جو تمام انسانوں کی ضروریات کو تمام زبانوں میں جانتا تھا قرآن کے تربیتی پروگرام کو اس طرح دقیق اور کامل و منظّم کیا ہے کہ انسان کے کمال کی ضروریات مہيّا کردی ہیں اسی لئے جتنا بھی انسان ترقی کرجائے اور اس کے علم و کمال میں زیادتی ہوجائے پھر بھی قرآن کا جو اللہ کا کلام اور اس کی طرف سے ہدایت ہے اسی طرح محتاج ہے جس طرح اللہ کی دوسری مخلوقات جیسے پانی، سورج، ہوا، و غیرہ ہمیشہ او رہر حالت میں محتاج ہیں_

انسان کی اسلامی تربیت کا آئین قرآن میں ہے اور قرآن آسمانی کتابوں کی آخری کتاب ہے اور دین اسلام کی ہمیشہ رہنے والی کتاب ہے کہ جس کی خداوند عالم نے فداکار مسلمانوں کی مدد سے محافظت کی ہے اور ہم تک پہنچایا ہے یہ عظیم کتاب انسان کی تربیت کا کامل ترین آئین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے دین اسلام کو آخری آسمانی دین اور ہمارے پیغمبر(ص) کو آخری پیغام لے آنے والا بتلایا ہے_

ان مطالب کو دیکھتے ہوئے مندرجہ ذیل جملے مکمل کیجئے

۱)___ اللہ تعالی نے جب سے حضرت محمد(ص) کو پیغمبری کے لئے چنا ہے انھیں___ دیا ہے

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246