یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174840 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیت ۲۴:

(۲۴) وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلاَ أَنْ رَّأَی بُرْهَانَ رَبِّهِ کَذَلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ

''(عزیز مصر کی بیوی )زلیخا نے تو ان کے ساتھ (برا)ارادہ کر ہی لیا تھا اور اگر یہ بھی اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھ چکے ہوتے تو (غریزہ کی بنیاد پر)قصد کر بیٹھتے(ہم نے اس کو یوں بچایا)تاکہ ہم اس کو برائی اور بدکاری سے دور رکھیں، بے شک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھا''۔

نکات:

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: ''برہان رب'' علم و یقین اور حکمت کا نور تھا جس کو خداوندعالم نے گزشتہ آیتوں میں ذکر فرمایا ہے(آتیناه علما و حکما) (۱) اور جیسا کہ بعض روایتوں میں آیاہے کہ برہان رب سے مراد ؛باپ یا جبرئیل (ع)کی صورت دیکھنا ہے، اس کی کوئی محکم سند نہیں ہے۔

قرآن مجید میں کئی مرتبہ اولیائے خداکے بارے میں دشمنان دین کی سازشوں اور ارادوں کا ذکر آیا ہے لیکن ان تمام موارد میںخداوندعالم نے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا مثلاًجنگ تبوک سے واپسی پر منافقین نے چاہاکہ پیغمبر اسلام (ص)کے اونٹ کو بھڑکا کر آنحضر(ص)ت کو شہید کردیں لیکن وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکے ،(وهموا بما لم ینالوا) (۲)

--------------

( ۱ )تفسیر کشف الاسرار.

( ۲ )۔ سورہ توبہ آیت ۷۴

۶۱

نیز کچھ لوگوں نے پیغمبر اسل(ص)م کو منحرف کرنے کاارادہ کیا(فهمّت طائف منهم ان یضلوک) (۱)

یا دست درازی کا ارادہ کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے(همَّ قوم ان یبسطوا الیکم ایدیهم فکف ایدیهم عنکم (۲)

پیام:

۱۔ اگر امداد الٰہی نہ ہو تو ہر شخص کے پیر پھسل جائیں(وَهَمَّ بِهَا لَوْلاَ أَنْ رَأَی بُرْهَانَ رَبِّهِ)

۲۔ خداوندمتعال اپنے مخلص بندوں کی حفاظت کرتا ہے( لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوئَ... إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ)

۳۔انبیاء (ع)میں عام انسانوں کی طرح غریزہ شہوت موجود ہے لیکن خدا پر قوی ایمان ہونے کی بنیاد پر گناہ نہیں کرتے(۳) (هَمَّ بِهَا لَوْلاَ أَنْ رَأَی بُرْهَانَ رَبِّه)

--------------

(۱) سورہ نساء آیت ۱۱۳.

(۲)سورہ مائدہ آیت ۱۱.

(۳)حضرت یوسف (ع)پاکدامن اور معصوم تھے ۔ اسکی دلیل ان لوگوں کا بیان ہے جو کسی نہ کسی طرح آپ (ع)سے متعلق تھے ۔ بطور نمونہ کچھ دلیلیں ملاحظہ ہوں۔۱۔خداوندعالم نے فرمایا:لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ ۔۲۔خود حضرت یوسف (ع)نے فرمایا:رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ۔پروردگارا! قید خانہ میرے لئے اس سے بہتر ہے جسکی طرف یہ لوگ مجھے بلا رہے ہیں ۔دوسری جگہ پھر فرمایا:انی لم اخنه بالغیب ۔میں نے صاحب خانہ کے پیچھے خیانت نہیں کی ہے ۔۳۔زلیخا نے کہا :لقد روادته عن نفسه فاستعصم ۔یقینا میں نے یوسف کو لبھایا تھا لیکن وہ معصوم ہیں ۔۴۔عزیز مصر نے کہا :یوسف اعرض عن هذا واستغفری لذنبک ۔اے یوسف تم اس ماجرا سے صرف نظر کرلو ۔ اور زلیخا سے کہا : تم اپنے گناہ سے توبہ کرو۔۵۔شاہد جس نے گواہی دی کہ اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو معلوم ہو گا کہ یوسف پاکدامن ہیں(ان کان قمیصه...) ۔۶۔ مصر کی عورتوں نے گواہی دی کہ ہم جناب یوسف کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جانتیں،(ما علمنا علیه من السوئ) ۷۔ابلیس کہ جس نے تمام لوگوں کو فریب دینے کا وعدہ کیا ہے اس نے کہا :الاعبادک منهم المخلَصین میں تیرے مخلص بندوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، اور یہ آیت جناب یوسف (ع)کو ''مخلَص'' کہہ رہی ہے ۔

۶۲

آیت ۲۵:

(۲۵) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدَی الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوئً ا إِلاَّ أَنْ یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ

''اور دونوں دروازے کی طرف جھپٹ پڑے اور زلیخا نے پیچھے سے ان کا کرتہ (پکڑ کر کھینچا)اور پھاڑ ڈالا ،ناگہانی دونوں نے زلیخا کے شوہر کو دروازے کے پاس کھڑا پایا، زلیخا (یوسف سے انتقام لینے یا اپنی پاکدامنی ثابت کرنے کے لئے )جھٹ (اپنے شوہر)سے کہنے لگی کہ جو تمہاری بیوی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے اسکی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یا تو قید کردیا جائے یا دردناک عذاب میں مبتلا کردیا جائے ''؟۔

نکات:

''استباق'' کے معنی یہ ہیں کہ دو یا چند آدمی ایک دوسرے سے سبقت و پہل کریں''قدّ'' لمبائی میں پھٹ جانے کو کہتے ہیں۔''لفائ'' یعنی ناگہاں پالینا۔

۶۳

پیام:

۱۔ صرف معاذاللہ کہنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ گناہ سے فرار بھی ضروری ہے۔(وَاسْتَبَقَا )

۲۔ کبھی ظاہری عمل ایک ہوتا ہے لیکن اہداف مختلف ہوتے ہیں ایک دوڑتا ہے تاکہ گناہ میں ملوث نہ ہو ،دوسرا دوڑتا ہے تاکہ گناہ سے آلودہ کردے( اسْتَبَقَا )

۳۔ گناہ کی جگہ سے فرار کرنا اور ہجرت ضروری ہے(اسْتَبَقَا الْبَابَ)

۴۔دروازے بند ہونے کا بہانہ کرنا کافی نہیں ہے بلکہ بند دروازے کی طرف بھاگنا چاہیئے شاید کھل جائے ۔(اسْتَبَقَا الْبَابَ)

۵۔ عزیز مصر کی بیوی نے اپنے شوہر کے احساس اور اس کی محبت سے خوب خوب فائدہ اٹھانا چاہا( بِأَهْلِک)

۶۔ مجرم خود کو بری الذمہ کرنے کےلئے دوسروں پر تہمت لگاتا ہے(أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوئ)

۷۔ شکایت کرنے والا کبھی کبھی خود مجرم ہوتاہے( قَالَتْ مَا جَزَائ...)

۸۔ ہمیشہ سے شوہر دار عورت پر دست درازی کوجرم شمار کیا گیا ہے( مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوئً)

۹۔ قید خانہ اور مجرموں کو قید کرنا تاریخی سابقہ رکھتاہے( یُسْجَنَ)

۱۰۔ عزیز مصر کی طرف سے سزا کا اعلان کرنا بیوی کی قدرت و طاقت کی علامت ہے( یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ )

۱۱۔ ہوس آلود عشق ،ایک پل میں عاشق کو قاتل بنا دیتاہے۔( یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ )

۶۴

آیت ۲۶:

(۲۶) قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَفْسِی وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنْ الْکَاذِبِینَ

''یوسف نے کہا : اس نے خود مجھ سے (میری خواہش کے برخلاف)میری آرزو کی تھی اور زلیخا ہی کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہی دینے والے نے گواہی دی کہ اگر ان کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹے (کیونکہ ایسی صورت میں یوسف اور عزیز مصر کی بیوی آگے سے ایک دوسرے سے درگیر ہوتے اور کرتا آگے سے پھٹتا)''

نکات:

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ وہ گواہ ایک بچہ تھا جس نے جناب عیسی ٰ علیہ السلام کی طرح گہوارے میں گواہی دی لیکن چونکہ اس کی سند محکم نہیں ہے لہٰذا اس پر اعتبار نہیں کرسکتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ عزیز مصر کے مشاوروں میں سے ایک مشورہ دینے والے کو مانیں جو اس کی زوجہ کے خاندان سے تھا اور ذہین و ہوشمند تھا اور وہ عزیز مصر ہی کی طرح واقعہ کا گواہ ہو گیا۔ کیونکہ اگر وہ ماجرے کا عینی گواہ ہوتا تو جملہ شرطیہ کے ساتھ واقعہ کی گواہی دینا بے معنی ہو جائے گا(ان کان...) (۱) (اگرایسا...)

--------------

( ۱ )مقدسات پر تہمت لگانے کا مسئلہ قرآن مجید میں بہت جگہوں پر موجود ہے مثلاًحضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی گئی لیکن خداوند نے نجات دی ۔ پیغمبر اسلام کی بیوی پر بھی تہمت لگائی گئی اور یہاں جناب یوسف (ع)کی طرف بدکاری کی نسبت دی گئی۔

۶۵

پیام:

۱۔جناب یوسف (ع)نے بات شروع نہیں کی ۔ اگر عزیز کی زوجہ آپ (ع)پر تہمت نہ لگاتی تو شاید آپ(ع) اس کی آبروریزی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے:( هِیَ رَاوَدَتْنِی)

۲۔ جس پر تہمت لگائی جارہی ہے اس کو اپنا دفاع کرنا چاہیئے اور اصلی مجرم کو پہنچنواناچاہیئے۔( هِیَ رَاوَدَتْنِی)

۳۔ جن راہوں کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا خدائے متعال ان راہوں سے مدد فرماتاہے ۔(شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَ)

۴۔ جرم شناسی میں باریک نکات سے مسائل کو کشف کیا جاتا ہے ۔( إِنْ کَانَ قَمِیصُه...)

۵۔ قاضی قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتا ہے۔( مِنْ قُبُل)

۶۔ بے گناہ کا دفاع واجب ہے ، خاموشی ہر جگہ اچھی نہیں ہوتی۔(شَهِدَ شَاهِدٌ)

۷۔ جب خدا چاہتا ہے تو مجرم کے رشتہ دار بھی اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔(شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَ)

۸۔ گواہی میں حسب و نسب ، موقعیت اور رشتہ داری نہیں دیکھنی چاہئےے ۔(شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَ)

آیت ۲۷:

(۲۷) وَإِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَهُوَ مِنْ الصَّادِقِینَ

''اور اگر ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچے ہیں''۔

نکات:

جناب یوسف (ع)کی داستان میں آپ (ع)کا کرتا بڑا کار ساز ہے ۔ ایک جگہ کرتہ کا پیچھے سے پھٹا ہوناآپ(ع) کی بے گناہی اور زلیخا کا جرم ثابت کر گیا ۔

۶۶

دوسری جگہ کرتہ کا نہ پھٹنا بھائیوں کے جرم کا گواہ بن گیا کیونکہ جب انہوں نے جناب یوسف (ع)کو کنویں میں ڈالنے کے بعد آپ (ع)کے پیراہن کو خون آلودکر کے باپ کی خدمت میں دکھایا اور کہا کہ جناب یوسف (ع)کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو جناب یعقوب (ع)نے پوچھا : پھر کرتہ کیوںنہیں پھٹا ؟ اور قصہ کے آخر میں بھی کرتہ باپ کی بینائی کا سبب بنا۔

پیام:

۱۔ جرم اور مجرم کی تشخیص کے لئے جرم شناسی کے طریقوں کا اپنانا ضروری ہے ۔(إِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ...)

آیت ۲۸:

(۲۸) فَلَمَّا رَأَی قَمِیصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ

''پھر جب عزیز مصر نے ان کا کرتاپیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا (تواپنی بیوی سے )کہنے لگا: یہ تم ہی لوگوں کے چلتر ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے چلتر بڑے (غضب کے)ہوتے ہیں''۔

۶۷

نکات:

کَیْدَکُنَّ سے مراد یہ ہے کہ پاک لوگوں پر تہمت لگانا اور خود سے بغیر پریشانی کے جلد از جلد تہمت کو دور کردینا۔

اگرچہ قرآن مجید نے شیطان کے کید اور فریب کو کمزور شمار کیا ہے ۔ان کید الشیطان کان ضعیفا ۔(۱) لیکن اس آیت میں عورتوں کے چلتر کو بڑا بتایا گیا ہے۔ صاحب تفسیر صافی فرماتے ہیں شیطان کا وسوسہ تھوڑی دیر کے لئے ، پیچھے سے ، غائبانہ اور چوری چھپے ہوتا ہے لیکن عورت کا فریب لطائف و محبت کے ساتھ ، سامنے سے اور دائمی ہوتاہے ۔

کبھی کبھی خدا بڑے بڑے کام چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعہ انجام دیتا ہے ۔ ابرہہ کو ابابیل کے ذریعہ سرنگوں کرتاہے ، مکڑی کے جالے سے پیغمبر اسلام کی حفاظت کرتاہے ، کوّے کے ذریعہ نسل بشر کو تعلیم دی جاتی ہے ، گود کے بچے کے ذریعہ جناب مریم (ع)کی عفت اور پاکدامنی ثابت ہوتی ہے ، پیچھے سے پھٹے ہوئے کرتے سے جناب یوسف کی پاکدامنی ثابت کرتاہے ،ہدہد کی خبر ایک ملک کو باایمان بنا دیتی ہے اور اصحاب کہف کا انکشاف پیسے کے نمونے کے ذریعہ فرماتا ہے۔

پیام:

۱۔ حق نہیں چھپتا لیکن مجرم رسوا ہوجاتا ہے( إِنَّهُ مِنْ کَیْدِکُنَّ )

۲۔ ناپاک عورتوں کے مکر و فریب سے بچنا چاہیئے کیونکہ ان کا چلتر بڑے غضب کا ہوتا ہے ۔( إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ )

--------------

( ۱ )سورہ نساء آیت ۷۶

۶۸

آیت ۲۹:

(۲۹) یُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِکِ إِنَّکِ کُنتِ مِنْ الْخَاطِئِین.

''(اور عزیز مصر نے یوسف سے کہا:)اے یوسف اس کو جانے دو (اسے کہیں اور بیان نہ کرنا)اور (اپنی بیوی سے کہا:)تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، کیونکہ بے شک تم ہی از سر تاپا خطاکاروں میں سے ہو''۔

پیام:

۱۔ عزیز مصر چاہتا تھا کہ یہ بات مخفی رہ جائے لیکن سارا جہاں اس واقعہ سے مطلع ہو گیا تا کہ جناب یوسف (ع)کی پاکدامنی ثابت ہوجائے( یُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَ)

۲۔ عزیز مصر نے بھی دوسرے کاخ نشینوں کی طرح ناموس اور غیرت کے سلسلے میں کاہلی کی اور اپنی بیوی کی سرزنش و توبیخ سنجیدگی سے نہیں کی ۔(وَاسْتَغْفِرِی)

۳۔ غیر الٰہی نمائندے اپنی بیویوں کی غیر اخلاقی حرکات پر ان کے خلاف کوئی سنجیدہ اور فیصلہ کن اقدام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔(وَاسْتَغْفِرِی)

۴۔ عورت کا اپنے شوہرکے علاوہ کسی دوسرے سے جنسی رابطہ نامشروع و ناجائز ہے ۔(وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِک)

۶۹

آیت ۳۰:

(۳۰) وَقَالَ نِسْوَهٌ فِی الْمَدِینَ امْرَ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ

''اور شہر (مصر) میں عورتیں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز (مصر) کی بیوی اپنے غلام سے (ناجائز) مطلب حاصل کرنے کی آرزومند ہے بےشک غلام نے اسے اپنی الفت میں لبھایا ہے ہم لوگ تو اسے صریح غلطی میں مبتلا دیکھتے ہیں''۔

نکات:

''شغاف '' ''دل کے اوپر پیچیدگی کو یادل کے اوپر نازک جلد جو دل کو اپنے گھیرے میں لئے رہتی ہے ''اسے کہتے ہیں اس جملہ میںشَغَفَهَا حُبًّا ،کے معنی یہ ہیں کہ دل میں محبت رچ بس گئی ہے اور عشق شدید ہو گیا ہے(۱)

ہر شخص جناب یوسف (ع)کو اپنانا چاہتاہے جناب یعقوب (ع)اپنا فرزند جانتے ہیں(یا بُنیَّ ) قافلے والے آپ (ع)کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں(شروه بثمن بخس) عزیز مصر آپ (ع)کو اپنا گود لیا ہوا فرزند سمجھتا ہے(نتخذه ولدا) زلیخا آپ (ع)کو اپنا معشوق سمجھتی ہے(ْ شَغَفَهَا حُبًّا) قیدی آپ (ع)کو خواب کی تعبیرکرنے والا سمجھتے ہیں(نبئنا بتاویله) لیکن خدا آپ کو اپنا برگزیدہ بندہ اور رسول سمجھتا ہے(یجتبیک ربک) اور جو کچھ جناب یوسف (ع)کے لئے رہ گیا تھا وہ مقام رسالت تھا(والله غالب علی امره)

--------------

( ۱ )تفسیر نمونہ.

۷۰

پیام:

۱۔ حکومتی افراد اور ان کے خاندان کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں ۔(قَالَ نِسْوَ امْرَ الْعَزِیز)

۲۔ جب خدا چاہتا ہے تو دروازہ بند کرنے کے بعد بھی رسوائی کا داغ دامن کردار پر لگ ہی جاتا ہے ۔(قَالَ نِسْوَ امْرَ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ...)

آیت ۳۱:

(۳۱) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّکَأً وَآتَتْ کُلَّ وَاحِدَ مِّنْهُنَّ سِکِّینًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْهِنَّ فَلَمَّا رَأَیْنَهُ أَکْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیمٌ

''تو جب زلیخا نے ان کے طعنے (اور بد گوئی) سنے تو اس نے عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کےلئے ایک تکیہ گاہ آمادہ کی اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دے دی (تاکہ پھل وغیرہ کاٹ سکیں)اور یوسف سے کہا : اب ان کے سامنے سے نکل تو ج ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ سب کی سب (بیخودی ) میں اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں پاک ہے اللہ ،یہ آدمی نہیں ہے یہ تو (ہو نہ ہو بس)ایک معزز فرشتہ ہے ''۔

نکات:

کلمہ'' حاشا'' اور''تحاشی'' کنارے اور الگ تھلگ رہنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،پرانے زمانے میں یہ رسم تھی کہ لوگ کسی کو بے عیب بتانا چاہتے تھے تو سب سے پہلے خداوندعالم کے بے عیب ہونے کو بیان کرتے پھر اس شخص کی بے عیبی کو بیان کرتے تھے۔(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر المیزان.

۷۱

پیام:

۱۔کبھی کبھی دوسروں کے مسائل پیش کرنے کا ہدف دلسوزی نہیں ہوتی بلکہ حسد و جلن، سازش اور ان کے خلاف نقشہ کشی مدنظر ہوتی ہے(مَکْرِهِنّ)

۲۔ جب عشق ہو جاتا ہے تو انسان ہاتھ کٹنے پر بھی متوجہ نہیں ہوتا ۔(قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنّ) (اب اگر آپ نے سنا کہ نماز کے وقت حضرت علی علیہ السلام کے پیروں سے تیر نکال لیا گیا لیکن آپ متوجہ نہ ہوئے تو اس پر تعجب نہ کیجئے ، اس لئے کہ اگر ظاہری حسن اور سطحی عشق ہاتھ کٹنے کی حد تک بڑھ سکتا ہے تو جمال واقعی سے گہرا عشق و محبت انسان کو کس کمال تک پہنچا سکتا ہے؟)

۳۔ فوراً کسی پر تنقید نہیں کرنی چاہیئے اس لئے کہ اگر اس کی جگہ پر آپ ہوتے تو شاید وہی کام کرتے ۔(قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنّ) (تنقید کرنے والیوں نے جب ایک لحظہ کے لئے جناب یوسف کو دیکھا تو عزیز مصر کی بیوی کی طرح یوسف کی محبت میں گرفتار ہو گئیں۔)

۴۔کبھی کبھی مکر کا جواب مکر سے دیا جاتا ہے (عورتوں نے عزیز مصر کی بیوی کا راز فاش کرنے کی سازش کی تھی لیکن اس نے مہمان بلا کر تمام سازشوں سے پردہ فاش کردیا۔( أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنّ)

۵ ۔ بزرگ اور بزرگواری کے مقابلہ میں انسان فطری طور پر انکساری وتواضع سے پیش آتا ہے ۔(أَکْبَرْنَه)

۶۔ اہل مصر اس زمانے میں خدا اور فرشتوں پر ایمان رکھتے تھے ۔( حَاشَ لِلَّهِ مَلَکٌ کَرِیمٌ )

۷۲

آیت ۳۲:

(۳۲) قَالَتْ فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیهِ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَیُسْجَنَنَّ وَلِیَکُوناً مِّنَ الصَّاغِرِینَ

''(تب زلیخا ان عورتوں سے بولی جو اپنے ہاتھ کاٹ چکیں تھیں)بس یہ وہی تو ہے جس کے بارے تم سبمجھے ملامت کرتی تھیں اور ہاں بے شک میں اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خود اس سے آرزو مند تھی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور جس کام کا میں حکم دیتی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو ضرور قید بھی کیا جائے گا اور خوار بھی ہوگا''۔

نکات:

نفسیاتی اور معاشرتی شرائط انسان کے عکس العمل میں اثر انداز ہوتے ہیں جب زلیخا اپنے برے کام کے آشکار ہونے سے ڈری تو''غلقت الابواب'' دروازے بند کر ڈالے ،لیکن جب مصر کی عورتوں کو اپنی طرح دیکھتی ہے تو علی الاعلان کہتی ہے''انا راودته'' میں اس کی آرزومند تھی ۔

اسی طرح جب کسی معاشرے میں برائی کا احساس ختم ہوجاتا ہے تو ان کے لئے گناہ بڑے آسان ہو جاتے ہیں۔ شاید اسی کو روکنے کے لئے ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں''اللهم اغفرلی الذنوب التی تهتک العصم '' پروردگارا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو حیا کے پردے کو چاک کر دیتے ہیں ۔ کیونکہ شروع میں انسان کے لئے گناہ کرنا سخت ہوتا ہے لیکن جب حیا و شرم ختم ہوجاتی ہے تو پھر گناہ کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔

۷۳

پیام:

۱۔ دوسروں پر ایسی ملامت نہ کرو جس میں خود ہی گرفتار ہوج( فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیهِ)

۲۔گناہ سے آلودہ عشق ،رسوائی کا سبب ہوتا ہے ۔( رَاوَدتُّه)

۳۔ جھوٹا رسوا ہوتا ہے ۔ جس نے کل کہا تھا کہ یوسف (ع)بدکاری کرنا چاہتے تھے (اراد باھلک سوئ)وہی آج کہہ رہی ہے۔( لقدرَاوَدتُّه) میں نے آرزو کی تھی ۔

۴۔ کبھی دشمن بھی اپنے مدمقابل کی پاکدامنی کی گواہی دیتا ہے۔(فَاسْتَعْصَمَ) کبھی کبھی مجرم کا ضمیر بھی بیدار ہوجاتا ہے ۔

۵۔ پاکدامنی نبوت کا لازمہ ہے ۔( فَاسْتَعْصَمَ )

۶۔ بہت سے پاکدامن افراد اپنے ارادے اور قصد سے زندان میں جاتے ہیں(فَاسْتَعْصَمَ... لَیُسْجَنَنَّ) جناب یوسف اپنی پاکدامنی کے باوجود قید خانہ میں ڈال دئے جاتے ہیں۔

۷۔ قدرت و طاقت سے غلط فائدہ اٹھانا اہل طاغوت کا طریقہ کار ہے۔(لَیُسْجَنَن)

۸۔ قید اور رسوا ئی کی دھمکی ،اہل طاغوت کا وطیرہ و حربہ ہے ۔( لَیُسْجَنَنَّ... الصَّاغِرِین)

۹۔ ناکام عاشق دشمن ہو جاتا ہے ۔( قَالَت...لَیُسْجَنَنَّ وَلِیَکُوناً مِنَ الصَّاغِرِینَ)

۱۰۔ محل میں رہنے والوں میں غیرت کی حس ختم ہوجاتی ہے( عزیز مصر نے اپنی بیوی کی خیانت کو سمجھ لیا تھا اور اس سے توبہ کرنے کے لئے بھی کہا تھا لیکن اس کے باوجود جناب یوسف (ع)اور زلیخا کے درمیان جدائی نہ ڈالی)

۷۴

آیت ۳۳:

(۳۳) قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْهِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی کَیْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَیْهِنَّ وَأَکُنْ مِّنَ الْجَاهِلِینَ.

''(یہ سب باتیں سن کر یوسف نے)عرض کی اے میرے پالنے والے جس بات کی یہ عورتیں مجھ سے خواہش رکھتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اور اگر تو ان عورتوں کا فریب مجھ سے دفع نہ فرمائے گا تو (مبادا)میں ان کی طرف مائل ہوجں اور جاہلوں سے شمار کیا جں''۔

نکات:

جناب یوسف (ع)،سراپا جواں مرد تھے۔ ایک بار بھائیوں کی حسادت کے نتیجے میں فدا ہوئے لیکن دشمنی نہیں کی ۔دوسری مرتبہ زلیخا کی شہوت کی وجہ سے قربان ہوئے لیکن گناہ نہیں کیا ۔ تیسری دفعہ قدرت کے وقت آپ (ع)نے اپنے بھائیوں سے انتقام نہیں لیا۔ چوتھی مرتبہ جیسے ہی ملک کوخطرے میں دیکھاتو وطن لوٹنے کی خواہش کے بجائے ملک کی نجات اور اقتصادی امور کی تدبیر میں لگ گئے ۔

ہر شخص کے لئے کوئی نہ کوئی چیز محبوب ہوتی ہے جناب یوسف (ع)کو اپنی پاکدامنی، عورتوں کی آرزں سے زیادہ محبوب ہے۔ ایک گروہ کےلئے دنیا زیادہ محبوب ہےیستحبون الحیوٰ الدنیا (۱) اور مومنین کے لئے اللہ محبوب تر ہے ۔والذین آمنوا اشد حبّاً للّٰ ہ(۲)(۳)

--------------

( ۱ )سورہ ابراہیم آیت ۳

( ۲ )سورہ بقر آیت ۱۶۵

( ۳ )واضح ہے کہ جناب یوسف(ع) کامرتبہ اس سے بھی بلند و بالا ہے ۔ مترجم.

۷۵

پیام:

۱۔ خداکی ربوبیت کی طرف متوجہ ہونا آداب دعا میں سے ایک ادب ہے۔ (رَبِّ )

۲۔ اولیائے خدا شریفانہ زندگی کی پریشانیوں کو،گناہوں میں ملوث آرام دہ زندگی سے بہتر سمجھتے ہیں ۔( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ )

۳۔ہر آزادی کی اہمیت و عظمت نہیں ہے اور ہر قید خانہ عیب کا باعث نہیں ہے( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ)

۴۔ انسان، خداکی مدد کی بنیاد پر ہر قسم کے حالات اور شرائط میں گناہ سے کنارہ کشی کرسکتا ہے( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ) (گناہ کے ماحول سے ہجرت ضروری ہے)

۵۔ رنج ومحن گناہ کے مرتکب ہونے کا جواز نہیں ہوسکتے۔( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ ...)

۶۔ گناہ اور جنسی انحرافات سے محفوظ رہنے کےلئے خدا سے دعا اور مدد مانگنی چاہیئے(رَبِّ السِّجْنُّ ...)

۷۔ انسان کی شخصیت اسکی روح سے وابستہ ہے نہ کہ اسکے جسم سے اگر روح آزاد ہو تو زندان بھی بہشت ہے اور اگر روح تکلیف میں ہو تو محل سرا بھی قید خانہ ہوتا ہے( السِّجْنُ أَحَبّ)

۸۔یا تو تمام عورتیں جناب یوسف (ع)کی عاشق ہو گئیں اور ان تک پیغام بھجوایا یا پھر انہوں نے جناب یوسف (ع)کو عزیز مصر کی بیوی کی درخواست قبول کرنے کے لئے کہا(کَیْدَهُنَّ ، یَدْعُونَنِی)

۷۶

۹۔ کوئی بھی انسان لطف خدا کے بغیر ،گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتاہے۔(وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی...) بحرانی مواقع میں تنہا راہ نجات خدا پر بھروسہ ہے۔

۱۰۔الٰہی امتحان لحظہ بہ لحظہ سخت سے سخت تر ہوتا جاتا ہے جناب یوسف (ع)پہلے ایک عورت کے مکر میں گرفتار تھے اب کئی عورتوں کے مکر میں گرفتار ہوگئے( کَیْدَهُنَّ ، إِلَیْهِنَّ)

۱۱۔ خدا کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کو راضی کرنا ،جہالت اور نادانی ہے۔(مِمَّا یَدْعُونَنِی وَأَکُنْ مِنْ الْجَاهِلِینَ)

۱۲۔ گناہ ؛ وہبی اور خدا دادی علم کے سلب ہونے کا باعث بنتا ہے۔(اتیناه علما وحکما...اکن من الجاهلین)

۱۳۔ صرف علم کا نہ ہونا جہالت نہیں ہے بلکہ ایک لحظہ کی لذت کا انتخاب کرنا اور رضائے الٰہی سے چشم پوشی بھی سب سے بڑی نادانی ہے۔(اکن من الجاهلین)

۷۷

آیت ۳۴:

(۳۴) فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ کَیْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ

''تو ان کے پروردگار نے ان کی سن لی اور ان سے عورتوں کے مکر کو دفع کردیا اس میں شک نہیں کہ وہ بڑا سننے والا واقف کار ہے''۔

پیام:

۱۔اللہ والےمستجاب الدعوات ہوتے ہیں۔( فَاسْتَجَابَ لَهُ)

۲۔ جو شخص بھی خدا کی پناہ گاہ میں چلاجائے وہ ہر چیز سے محفوظ رہتا ہے۔(فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ کَیْدَهُنَّ )

۳۔ استجابت دعا خدا کےسمیع و بصیرا ورعلیم ہونے کی دلیل ہے۔(فَاسْتَجَاب هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ )

آیت ۳۵:

(۳۵) ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّهُ حَتَّی حِینٍ

''پھر (عزیز مصر اور اس کے لوگوں نے )باوجودیکہ (یوسف کی پاکدامنی کی )نشانیاں دیکھ لی تھیں اسکے بعد بھی ان کو یہی مناسب معلوم ہوا کہ کچھ مدت کے لئے ان کو قید ہی کر دیں''۔

۷۸

پیام:

۱۔ حسن و خوبصورتی ہمیشہ خوش بختی نہیں ہے بلکہ )کبھی کبھی( درد سر بھی بن جاتا ہے ۔( ثُمَّ بَدَا لَهُمْ لَیَسْجُنُنَّهُ )

۲۔ ایک دیوانہ اگر کنویں میں ایک سوئی ڈال دے توسو(۱۰۰) عقلمند مل کر بھی باہر نہیں نکال سکتے ایک عورت عاشق ہو گئی لیکن اتنے مرد اور حکومتی افراد مل کر بھی اس رسوائی سے بچنے کے لئے کوئی فکر اور تدبیر نہ کر سکے۔(بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوْ)

۳۔ اہل طاغوت کے درباروں اور محلوں میں عدالت کا نفاذ اور محاکمہ دکھاوے کے لئے ہوتاہے تاکہ بے گناہ لوگوں کو محکوم کیا جا سکے ۔( لَیَسْجُنُنَّهُ)

۴۔ کاخ نشین عام طور پر لا پرواہ اور بے شرم ہوتے ہیں ۔( مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّهُ ) جناب یوسف کی پاکدامنی کی ان تمام دلیلوں کے باوجود آپ کو قید خانہ میں ڈال دیتے ہیں۔

۷۹

آیت ۳۶:

(۳۶) وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیَانِ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّی أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّی أَرَانِی أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِی خُبْزًا تَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِیلِهِ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ

''اور قید خانے میں یوسف کے ساتھ دو جوان بھی داخل ہوئے (چند دن کے بعد)ان میںسے ایک نے کہا کہ میںنے (خواب) دیکھا ہے کہ میں شراب (بنانے کے واسطے انگور) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا (میں نے بھی خواب میں)اپنے کو دیکھاکہ میں اپنے سرپر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں (یوسف) ہمیں اس کی تاویل بت ،یقینا آپ ہمیں ایک نیک انسان نظر آتے ہیں ''۔

نکات:

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جناب یوسف (ع)کو نیک انسان کہنے کی وجہ یہ تھی آپ (ع)قید خانہ میں مریضوں کی خدمت کرتے تھے اور محتاجوں کی مشکلات کو دور کرنے نیز تمام لوگوں کی مشکل حل کرنے کی سعی فرماتے تھے(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر نور الثقلین ۔ میزان الحکم مادہ (سجن)

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

قرآن میں قیامت کے عینی نمونہ

عزیر یا ارمیا ی پیغمبر کاقصہ :

(( أَوکالَّذِ مَرَّعلیٰ قَریةٍ وَهِیَ خَاویةُ علیٰ عُرُوشِها قاَلَ أَنّی یُحییِ هذهِ اللَّهُ بَعَدَ مَوتِها فأَماتهُ اللَّه مِائةَ عام ثُمَّ بَعَثهُ قَالَ کَم لَبِثتَ قَالَ لَبِثتُ یَوماً أَوبَعضَ یَومٍ قَالَ بَل لبِثتَ مِائةَ عامٍ فَانظُر اِلیٰ طَعامِک وَشَرَابِک لَمْ یَتسنَّه وَأنظُر اِلیٰ حِمَارِک وَلِنَجعَلک آیةً للنَّاسِ وَانظُر اِلیٰ العِظَامِ کَیفَ نُنشزُهَا ثُمَّ نَکَسُوهَا لَحمًا فَلمَّا تَبَیّنَ لَهُ قَالَ أَعلمُ أَنَّ اللَّهَ عَلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''جنا ب عزیر کا ایک دیہات سے گزر ہوا آپ نے دیکھا کہ وہ تباہ وبرباد پڑا ہو اہے ۔ کہا خدا ان مردوں کو کیسے زندہ کریگا خدانے انہیں سوسال کی موت دیدی پھر انہیںزندہ کیا پوچھاکتنے دن تک سوئے رہے کہا ایک دن یا اس سے کم خدا نے کہاتم یہا ں سوسال تک سوتے رہے ہو ذرا اپنے کھانے اورپینے کی طرف دیکھو جو ختم ہوچکا ہے اپنے گدھے کی طرف دیکھو جو خاک میں مل چکا ہے تاکہ میں تمہیں لوگوں کے لئے نشانی قرار دوں اپنی ہڈیوں کیطرف دیکھو کہ انہیں جمع کرکے ان پر گوشت چڑھا یا چونکہ یہ بات ان کے واسطے واضح ہوچکی تھی کہا: جانتا ہو ں خد اہر چیز پر قدرت وطاقت رکھتا ہے ''وہ برباد شہر جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ (بیت المقدس ) تھا اور یہ تباہی بخت النصر کے ذریعہ ہوئی ہے۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ آیة :۲۵۹

۲۲۱

حضرت عزیر جب کھانا پانی لے کر اپنے گدھے پر سوار اس شہر سے گذرے دیکھا گھر تباہ اور ا ن کے رہنے والے مٹی میں مل چکے ہیں ان کی ہڈیا ں پرانی ہوکر زمین میں بکھری پڑی ہیں اس المناک منظر نے پیغمبر کوسونچنے پر مجبورکردیا اور خود سے کہنے لگے خدایا! انہیں کب اور کیسے زندہ کرے گا؟۔

خدا نے انہیں عملی جواب دیا انہیں اوران کے گدھے کو سوسال تک کے لئے موت دی اس کے بعد پہلے انہیں زندہ کیاتاکہ خد اکی طاقت کا وہ خود اندازہ لگائیں کہ کھانا جو جلدی خراب ہوجاتا ہے تبدیل نہیںہوا اور مردوں کو زندہ ہو تے وہ خو د دیکھ لیں ۔

حضرت عزیر نے جیسے ہی اپنی سواری کو زندہ ہو تے دیکھا کہا کہ جانتا ہو ںخدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے یہ آیة اور یہ پیغمبر کا قصہ معاد جسمانی کو ثابت کرنے کے لئے بہترین دلیل ہیں ۔

حضرت ابراہیم کاقصہ :( واِذ قَالَ اِبراهیمُ رَبِّ أَرنِی کَیفَ تُحییِ المَو تیٰ قَالَ أَولَم تُؤمِن قَالَ بَلیٰ وَلَکِن لِیَطمَئِنَّ قَلبِی قالَ فَخُذْ أَربعةً مِنَ الطَّیرِ فَصُرهُنَّ اِلِیک ثُمَّ اجعَلْ علیٰ کُلِّ جَبَلٍ مِنهُنَّ جُزأً ثُمَّ ادعُهُنَّ یَأتِینَک سَعیًا وَأَعلمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَیزُحَکیمُ ) ( ۱ ) ''جناب ابراہیم نے عرض کیا بارالہا! مجھے دکھا دے کیسے مردوں کو زندہ کرے گا؟ خدا نے کہامگر تمہیں

____________________

(۱) سورہ بقرہ :۲۶۰

۲۲۲

ہم پرایمان نہیں ہے کہا ہے تو مگر چاہتا ہو ں دل کو سکون مل جائے کہا چار طرح کے پرندوں کو جمع کرو (مرغ ،مور ،کبوتر ، کوا،)انہیں ذبح کرکے گوشت پہا ڑ پر رکھد و او ر ان کے ہر جزء کو اللہ کے نام پر بلا ئو وہ دوڑے چلے آئیں گے اورجان لو کہ خدا بڑی حکمت والا ہے'' ۔

مفسرین نے اس آیة کے ذیل میں لکھا کہ حضرت ابراہیم دریا کے کنارے سے گذر رہے تھے ایک مردے کو دیکھا کہ جو دریا کے کنارے پڑا ہے مردہ خور جانور اس کے چاروںطر ف جمع ہیں اورکھا رہے ہیں جب حضرت ابراہیم نے اس منظر کودیکھا تو مردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں سونچنے لگے کہ وہ کس طرح زندہ کئے جا ئیں گے (کیونکہ اس مردہ کا گوشت دوسرے کا جزء بن چکا تھا ) جبکہ جناب ابراہیم کو علم الیقین تھا کہ خد امردوں کو زندہ کرے گا لیکن اسے آنکھو ں سے زندہ ہوتے دیکھنا چاہتے تھے ۔

مقتول بنی اسرائیل کاقصہ:

( واِذَ قَتَلتُم نَفسًا فَادَّارَأتُم فِیهَا واللَّه ُمخرِجُ مَاکُنتُم تَکتُمُونَ فَقُلنَا اَضرِبُوهُ بِبَعضِهَا کَذَلِک یُحیِی اللَّهُ المَوتیٰ وَیُرِیکُم آیاتِهِ لَعلَّکُم تَعقِلُونَ ) ( ۱ ) ''جب تم لوگو ں نے ایک شخص کو قتل کرکے اس کے سلسلے میں اختلاف کیا کہ کس نے قتل کیا ہے جسے تم چھپانا چاہتے تھے خدااسے ظاہر کرتاہے پس

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة۷۲ تا۷۳

۲۲۳

ہم نے کہا اس گائے کا کچھ حصہ اس مقتول کے بدن پر مارو خدا مردوں کو اس طرح زندہ کرتاہے آیت خود تمہیں دکھا رہی ہے شاید عقل سے کام لو ''۔

بنی اسرائیل کا ایک آدمی مخفیانہ طور پر قتل کردیا گیا تھا اس کے قاتل کے سلسلے میں اختلاف ہوا ہر قبیلہ دوسرے قبیلے پر الزام لگا رہا تھا قریب تھاکہ ایک جنگ چھڑ جائے ان لوگوں نے جنا ب موسی سے مدد چاہی جناب موسی نے لطف خدا سے ان کی مددکی حکم خدا کے مطابق گائے کو ذبح کرکے اس کے گوشت کومقتول کے جسم پرمارا وہ شخص تھوڑی دیر کے لئے زندہ ہوگیا اور قاتل کی شناخت کی یہ معا د اور مردوں کے زندہ ہونے کے لئے بھی دلیل ہے ۔

قوم موسی ٰسے ستر آدمیوںکا زندہ ہو نا :( وَاِذ قُلتُم یَامُوسیٰ لَن نُؤمِنَ لَک حتیٰ نَرَیٰ اللَّهَ جَهَرةً فَاَخذتکُم الصَّاعِقَةُ وَأَنتُم تَنظُرُونَ ثُمّ بَعَثناکُم مِن بَعدِ مَوتِکُم لَعلَّکُم تَشکُرُونَ ) جب تم لوگو ں نے موسی سے کہا کہ ہم اس وقت تک خدا پرایمان نہیں لائیں گے جب تک اپنی آنکھو ں سے دیکھ نہ لیں پھر بجلی نے (موت ) تم سب کواپنی لپیٹ میں لے لیا اورتم دیکھتے رہے پھر ہم نے تم سب کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا تاکہ تم شکر گذار بن جائو ،بنی اسرائیل کے سرکردہ افراد جنا ب موسی کے ساتھ کو ہ طور پر گئے تھے اور خداکو اپنی آنکھو ں سے دیکھنے کی بات دہرائی موت کی بجلی چمکی پہاڑ ریزہ ریزہ ہوا حضرت موسی ٰبے ہو ش ہو گئے بنی اسرائیل کے نمائندوں کو موت نے اپنی آغوش میں لیا پھر خدا نے انہیں زندہ کیا تاکہ اس کی نعمت کا شکریہ اداکریں۔( ۱ )

قیامت کو ثابت کرنے کے لئے قرآ ن کی دوسری دلیل ہے جس میں مردے کوزندہ کیاگیاہے ۔

____________________

(۱) سو رہ بقرہ آیة ۵۵

۲۲۴

سوالات

۱۔ فلسفہ خلقت کے ذریعہ کس طرح قیامت کو ثابت کریں گے ؟

۲۔ جنا ب عزیر یاارمیا پیغمبر کاواقعہ بیان کریں ؟

۳۔ جناب ابراہیم کا قصہ بیان کریں ؟

۴۔ مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ بیان کریں ؟

۲۲۵

تیتیسواں سبق

بقاء روح کی دلیل

روح باقی او رمستقل ہے :( وَلَا تَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ''جو اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کی طر ف سے انہیں رزق ملتاہے''( ۱ ) ( وَلَا تَقُولُوا لِمَن یُقتلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُونَ ) جو اللہ کی راہ میں قتل ہو گئے ہیں انہیں مردہ ہرگز نہ کہنا بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم انہیں نہیں سمجھ سکتے ہو۔( ۲ ) ( قُلْ یَتَوفاکُم مَلَکُٔ المَوتِ الَّذیِ وکِّلَ بِکُم ثُمَّ اِلیٰ رَبِّکُم تُرجَعُونَ ) کہدو کہ موت کافرشتہ جوتم پر معین کیاگیا ہے وہ تمہاری روح قبض کر کے تمہارے رب کی طرف پلٹا دے گا۔( ۳ )

مذکورہ آیات بقاء روح کی بہترین دلیل ہے اگرموت زندگی کے خاتمہ کانام ہوتا توشہداء کے لئے حیات کا مختلف انداز میں ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا پہلے کی دو آییتں اللہ کی راہ میں شہید ہونے والو ں کے لئے ہیں اور ان کی روح کی بقاء کے حوالے سے ہیں ۔

____________________

(۱)آل عمران آیة ۱۶۹

(۲) بقرہ آیة ۱۵۴

(۳) سجدہ آیة ۱۱

۲۲۶

تیسری آیت عام ہے کہ تمام لوگ خدا کی طر ف پلٹ کر جائیں گے جو تمام انسانوں کے باقی رہنے پردلیل ہے ۔کتاب مفردات میں راغب کے بقول وافی کے اصل معنی کمال تک پہونچنے کے ہیں لہٰذا توفی کے معنی مکمل گرفت کے ہیں اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ موت فناکانام نہیں بلکہ مکمل طور پر دسترسی ہے۔

( وَیسئلُونَکَ عَنِ الرُّوح قُلْ الرِّوحُ مِن أمرِرَبِّی وَمَا أُوتِیتُم مِنَ العِلمِ اِلاَّ قَلِیلاً ) اے رسول! تم سے روح کے بارے میں سوال ہوتا ہے کہدو روح امرخداہے اس کا تھوڑا ساعلم آپ کو عطاکیاگیاہے۔( ۱ )

انسان خواب و موت کو دیکھتا ہے کہ جسمانی کمی وبیشی کے علاوہ ایک خاص قسم کی تبدیلی پیداہوتی ہے یہیں سے پتہ چلتاہے کہ انسان کے پاس جسم کے علاوہ بھی کوئی جوہر ہے ۔ کسی نے بھی روح کے وجود کاانکا ر نہیں کیا ہے یہاں تک کہ مادی حضرات نے بھی اس کے وجود کوقبول کیاہے اسی بناء پر نفسیات ان علوم میں سے ہے جس پر دنیا کی بڑی بڑی یو نیورسٹیوں میں تحقیق ہورہی ہے ۔

وہ واحد بحث جو خد اکے ماننے والوں اورمادی حضرات کے درمیان چل رہی ہے وہ روح کے مستقل ہو نے یانہ ہونے کے سلسلے میں ہے اسلامی مفکرین اسلام کی بھر پور مدد سے اس بات کے قائل ہیںکہ روح باقی ہے اورمستقل ہے روح کے مستقل ہونے پر بہت سی دلیلیں ہیں ۔

____________________

(۱) اسراء آیة :۸۵

۲۲۷

پہلے عقلی دلیل پھر نقلی دلیل پیش کریں گے اگر چہ قرآن پر اعتقاد رکھنے والے بہترین دلیل کلام خدا کوتسلیم کرتے ہیں اور اسی کواصل مانتے ہیں۔

روح کے مستقل ہو نے پر دلیل

۱۔ہم اپنے اندر یہ محسوس کرتے ہیںکہ ہم متفکر ومدرک ومرید ہیں یہ چیز فکر اورارادہ اور ادراک سے الگ ہے دلیل یہ ہے کہ بولا جاتاہے میری فکر میرا ارادہ میرا ادارک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فکر سے الگ ہیں ہم ارادہ سے ہٹکر ہیں درک اورہے ہم اور ہیں یہ سب ہم سے ہے اورہم اسے اپنی ذات میں پا تے ہیں ہم دماغ، دل اور اعضاء سے الگ ہیں یہ (ہم ) وہی روح ہے ۔

۲۔ جب بھی انسان اپنے کو جسم سے جدا فرض کرتاہے اورتمام اعضاء بدن کا ناطہ اپنے آپ سے توڑ دیتاہے پھر بھی اپنے کو زندہ محسوس کرتاہے جبکہ اجزاء بدن نہیں ہیں اوریہ وجود وہی روح ہے جومستقل رہ سکتی ہے ۔

۳۔پوری عمرمیں شخصیت ایک ہے ۔ یہ ''ہم'' ابتداء زندگی سے آخر عمر تک ایک ہے یہ ''ہم'' دس سال پہلے بھی ہے اور پچاس سال بعد بھی، اگرچہ علم وقدرت زندگی کی کمال تک پہونچ جائے لیکن ''ہم'' اپنی جگہ برقرار ہے جبکہ آج کے علم نے ثابت کر دیا کہ انسان کے عمر میں کئی بار جسم میں ،رگو ں میں ،یہاں تک کہ دماغ کی شریانوں میں تبدیلی ہوتی ہے چوبیس گھنٹے کے اندر کروروں رگیں ختم ہو تی ہیں اور کروڑوں ان کی جگہ پیداہوتی ہیں جیسے بڑے حوض میں پانی ایک جگہ سے جاتاہے اور دوسری طرف سے آتاہے ظاہر ہے بڑے حوض کاپانی ہمیشہ بدلتاہے اگرچہ لوگ اس پر توجہ نہیں دیتے ہیں اور اس کوایک ہی حالت میں دیکھتے ہیں ۔

نتیجہ:

اگر انسان صرف اجزاء بدن کا نام ہو تا اورصرف دل و دماغ ہو تا یعنی روح نہ ہوتی تواپنے اعمال کا ذمہ دار نہیں قرار پاتا ،مثلا اگر کو ئی دس سال پہلے کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسے سزا نہیں دے سکتے اس لئے کہ جسم کے تمام خلیئے تبدیل ہوگئے ہیں گویا اب وہ دس سال پرانا جسم نہیں ہے۔اگر انسان ہمیشہ ذمہ دار ہے یہاںتک کہ وہ خوداس کا اعتراف کررہا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے اگرچہ تمام اعضاء بدل چکے ہیں مگر وہ خود باقی ہے اوریہ وہی روح ہے۔

۲۲۸

روح کی بقاء اور استقلال پر نقلی دلیل

تاریخ اسلام میں بہت سی جگہ موت کے بعد روح سے مربوط چیزیں آئی ہیں جن میں سے بعض یہاں پیش کی جارہی ہے جنگ بدر کے بعد پیغمبر اسلا مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیاکہ دشمن کی لاشوں کوایک کنویں میں ڈال دیاجائے اس کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کنویں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا :''هل وجد تم ماوعدکم ربکم حقاً فِانّی قَد وجدت ماوعدنی رَبِّی حقاً ''کیا تم لوگو ںنے وعدہ خداکے مطابق سب کچھ پایاہے ؟ہم نے تو اللہ کے وعدہ کو حق دیکھا ) بعض افراد نے عرض کیا :کیا آپ بے جان لوگو ں سے باتیں کر رہے ہیں، وہ سب توایک لا ش کی شکل میں پڑے ہیں پیغمبر اسلام نے فرمایا: وہ لوگ تم سے بہتر میری آواز سن رہے ہیں دوسرے لفظوں میں یو ں کہا جائے کہ تم لوگ ان سے بہتر میری بات نہیں سمجھ رہے ہو۔( ۱ )

سلمان فارسی مولا امیر المومنین کی طرف سے والی مدائن تھے اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں : ایک دن سلمان فارسی کی عیا دت کوگیا، جب وہ مریض تھے اورمرض میں اضافہ ہوتاجارہاتھا یہا ںتک کہ موت کی جانب قدم بڑھا رہے تھے مجھ سے ایک دن فرمایا اے اصبغ! رسول خد ا نے مجھ سے فرمایا ہے جب موت قریب ہو گی تو مردہ تم سے باتیں کریںگے ہمیں قبرستان کی طرف لے چلو حکم کے مطابق انہیں قبر ستان میں لے جایاگیا کہامجھے قبلہ رخ کرو اس وقت بلند آواز سے کہا :

''السلام علیکم یا اهلَ عرصة البلا ء السلام علیکم یامحتجبین عن الدُّنیا'' میرا سلام ہو تم پر اے بلا ء کی وادی میں رہنے والومیراسلام ہو اے اپنے کو دنیا سے چھپا لینے والو۔اسی وقت روحوں نے سلام کا جواب دیااورکہا جو چاہتے ہو سوال کرو جناب سلمان نے پوچھا تم جنتی ہویا جہنمی؟مردہ نے کہا خدا نے مجھے دامن عفو میں جگہ عنایت کی ہے اورمیں جنتی ہو ں جناب سلمان نے موت کی کیفیت اورموت کے بعد کے حالات دریافت کئے ا س نے

____________________

(۱) سیرہ ابن ہشام ج ،۱ ص ۶۳۹

۲۲۹

سب کاجواب دیا اس کے بعد جناب سلمان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی( ۱ )

مولا امیرالمومنین ںجنگ صفین سے واپسی پر شہر کوفہ کے پیچھے قبر ستا ن کے کنارے کھڑے ہو ئے اور قبروں کی طرف رخ کر کے فرمایا :اے حولناک او ر تاریک قبروں کے رہنے والوتم اس قافلہ کے پہلے افراد ہو ہم بھی تمہارے پیچھے آرہے ہیں لیکن تمہارے گھردوسروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں اور تمہاری بیویوں نے شادی کر لیں اورتمہارے مال واسباب تقسیم ہوچکے ہیں یہ سب میری خبر تھی تمہارے پاس کیا خبرہے ؟''ثُمَّ التفت اِلیٰ أَصحابه فقال أمّا لوأذِن فیِ الکلام لأخبروکم أَنَّ خیر الزاد التقویٰ ''( ۲ )

پھر اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا جان لو اگر انہیں بولنے کی اجازت ہوتی تویہ تمہیں بتا تے کہ بہترین زاد راہ تقوی وپرہیز گا ری ہے ۔

____________________

(۱) بحار الانوار ج۱، معادفلسفی ۳۱۵

(۲)نہج البلاغہ ،کلمات قصار ۱۲۵

۲۳۰

سوالات

۱۔قرآن بقاء روح کے لئے کیا کہتا ہے آیت کے ذریعہ بیان کریں ؟

۲۔ استقلال روح کے لئے عقلی دلیل بیان کریں ؟

۳ بقاء روح کے لئے ایک نقلی دلیل بیان کریں ؟

۲۳۱

چوتیسواں سبق

معاد جسمانی اورروحانی ہے

کیاموت کے بعد زندگی روحانی ہے ؟یعنی جسم کہنہ ہو کر بکھر جائے گااور آخرت کی زندگی فقط روح سے مربوط ہے یافقط جسمانی ہے اور روح کاشمارجسم کے آثاروخواص میں ہے ؟یا یہ کہ آدھی روحانی اور آدھی جسمانی ہے جسم لطیف اس دنیا وی جسم سے افضل ہے یاموت کے بعد زندگی مادی او رروحانی ہے اور دوبارہ دونوں جمع ہوکر حاضر ہوںگے، ان چاروں نظریوں کے حامی اور طرفدارموجود ہیں لیکن شیعوں کا نظریہ (عقیدہ)یہ ہے کہ قرآن کی بہت سی آیتیں اور حدیثیں معاد جسمانی اور روحانی پر دلالت کرتی ہیں اور اس مسئلہ میں کوئی شک وتردید کی گنجائش نہیں ہے ۔

۱۔ بہت سی جگہو ں پر قرآن نے منکریں معاد کو جو یہ سوال کرتے ہیں کہ ''جب ہم خاک میں مل جائیں گے او رہماری ہڈیاں پرانی ہوکر پھر زندہ ہوںگی'' جواب دیا ہے ، اور انہیں اس بحث میں بیان کیا جاچکا ہے جہاں معاد پر قرآن کی دلیل پیش کی گئی ہے جیسے (سورہ یس آیة ۸۰) میں واضح طور پر معاد جسمانی اور روحانی کوبیان کیاگیا ہے ۔

۲۔ دوسری جگہ (سورہ قیامت آیة ۳،۴) میں فرمایا :کیاانسان یہ خیال کرتاہے کہ ہم اس کی ہڈیو ں کو جمع نہیں کریںگے بلکہ ہم قادر ہیں کہ انگلیو ں کے نشانات کو بھی ترتیب دیدیں ،ہڈیو ں کو جمع کرنا انگلیوں کے نشانات کو دوبارہ مرتب کرنا یہ معا د جسمانی اورروحانی کی ایک او ر دلیل ہے ۔

۲۳۲

۳۔ تیسری مثال وہ آیتیں جوکہتی ہیں کہ انسان قبر سے اٹھے گا اس سے ظاہر ہے کہ قبر انسانی جسم کے لئے گھر قرار دیا گیا ہے اور اسلامی منکرین کی نظر میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جسم کے بغیر روح کا پلٹنا ممکن نہیں ہے جسم بغیر روح کے صرف لاش ہے خلاصہ یہ کہ اس طرح کی آیتیں معاد جسمانی اور روحانی کے لئے واضح دلیل ہے ۔ (وَأَنَّ السَّاعةَ آتِیةُ لا رَیبَ فِیها وأَنَّ اللَّهَ یَبعَثُ مَن فی القُبُورِ )قیامت کے سلسلے میں کو ئی شک نہیں او رخدا وند عالم ان تمام افراد کو جو قبروں میں ہیں دوبارہ زندہ کرے گا ۔( ۱ ) سورہ یس کی آیة : ۱۵۱ اور ۱۵۲ اور دوسری آیات اس پر شاہد ہیں ۔

۴۔ وہ آیتیں جو بہشتی نعمتوں کے سلسلے میں ہیں ۔میوے ،غذائیں مختلف کپڑے اوردوسری جسمانی لذتیں وغیرہ ،جنت کی لذتییں اور نعمتیں صرف مادیت پر منحصر نہیں ہیں بلکہ معنوی اور روحی لذتیں بھی بہت ہیں جن کا تذکرہ جنت کی بحث میں آئے گا انشاء اللہ

لیکن سورہ رحمن اور اس جیسی آیتوں سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ معاد جسمانی اور روحانی دونوںہی اعتبارسے ہے اور جسم اور روح کے لئے لذتیں ہیں یہ

____________________

(۱) سو رہ حج آیة ۷

۲۳۳

ہے کہ جنت کی نعمتیں دنیاوی نعمتوں سے الگ ہیں او ران سے بہتر ہیں مگر یہ سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیں ۔

۵۔وہ آیتیں جو مجرموں کے لئے مختلف طرح کے عذاب اور سزا کو بیان کرتی ہیں ان میں سے بہت سی جسم سے مربوط ہیں یہ آیتیں قرآن میں بہت ہیں ان میں بعض کی جانب اشارہ کررہے ہیں( یَومَ یُحمَیٰ عَلَیها فِی نَارِجَهَنَّم فَتُکویٰ بِها جِبَاهُهُم وَجُنُوبُهُم وَظُهُورُهُم ) ''جس دن انہیں دوزخ میں کھولایا جائے گا اورجلا یا جا ئے گا اور ان کی پیشانیاں نیز ان کے پہلو اور پشت کوداغا جائے گا''( ۱ ) ( یَومَ یُسحبُونُ فِی النّارِ عَلیٰ وُجُوههِمِ ذُوقُوا مَسَّ سَقَرَ ) ''جس دن دوزخ کی آگ ان کے چہرے پر ڈالی جا ئیگی او ران سے کہا جا ئے گا آج دوزخ کی آگ کا مزہ چکھ لو''( ۲ ) ( تَصلیٰ نَاراً حَامِیةً تُسقیٰ مِن عَینٍ آنیةٍ لَیسَ لَهُم طَعَامُ اِلَّا مِن ضَرِیعُ لا یُسمن ولَا یُغنیٰ مِن جُوعٍ ) ( ۳ ) ''بھڑکتی آگ میں داخل ہونگے کھولتے پانی سے سیراب کیا جائے گا ،خشک کا نٹا کڑوا اور بدبو دار کھانے کے علاوہ کچھ میسر نہ ہو گا ایسا کھانا جو نہ انہیں موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے نجات دلائے گا''۔( کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهمُ بَدَّلنَاهُم جُلُوداً غَیرَها لِیَذُوقُوا العَذَابَ أِنَّ اللَّه کَانَ عَزِیزاً حَکِیماً ) ( ۴ ) جیسے ہی کافر کی کھال جل کر ختم ہو جا ئے گی اس کی جگہ دوسری کھال کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ عذاب

____________________

(۱) سورہ توبہ آیة: ۳۵

(۲) سورہ قمر آیة :۴۸

(۳) غاشیہ آیة :۴۔۷

(۴) سورہ نسا ء آیة ۵۶

۲۳۴

کامکمل مزا چکھ لیں بیشک خدا عزیز اور حکمت والا ہے ۔

اس طرح کہ بہت سی آیتیں ہیں جن کا تذکرہ جہنم کی بحث میں آئیگا سب کے سب معاد جسمانی اور روحانی کے لئے دلیل ہیںاگر معاد فقط جسمانی ہوتی تو روحانی غذ اکا کوئی مفہوم نہ ہوتا ؟۔

۶۔ وہ آیتیں جو روز قیامت اعضاء وانسان کے بات کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں وہ معا د جسمانی اور روحانی پر واضح دلیل ہیںچونکہ ایسی آیتیں بھی بہت ہیں لہٰذانمونہ کے طور پرکچھ کا یہاں ذکر کرتے ہیں( الیَومَ نَختِمُ عَلیٰ أَفوَاهِهِم وَتُکَلِّمُنَا أَیدِیهِم وَتَشهد أَرجلُهُم بِمَا کَانُوا یَکسِبُونَ ) ''آج ان کی زبانو ں پر تالے لگ جائنگے ان کے ہاتھ باتیں کریں گے ان کے پائوں جو کئے ہوںگے اس پر گواہی دیں گے'' ۔( ۱ ) ( حَتیٰ اِذ مَا جَائُ وهَا شَهِدَ عَلَیهِم سَمعُهم وَأَبصَارُهُم وَجُلُودُهُم بِمَا کَانُوا یَعمَلُونَ ) '' یہاںتک کہ جب پہونچیں گے ان کی آنکھیں او رگوشت وپوست جو عمل انجام دیئے ہیں انکی گواہی دیں گے''( وَقَالُوا لِجُلُودِهِم لِمَ شَهِدتُم عَلَینَا قَالُوا أنطَقَنا اللَّهُ الَّذِی أنطَقَ کُلِّ شَیئٍ ) '' وہ اپنے جسم سے سوال کریں گے کیوں میرے خلاف گواہی دیتے ہو؟ وہ جواب میں کہیںگے وہ خدا جس نے سب کو قوت گویا ئی عطاکی ہے اس نے ہمیں بولنے کے لئے کہا''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ یس ۶۵

(۲) سورہ فصلت ،۲۱

۲۳۵

۷۔وہ آیتیں جومعاد جسمانی اور روحانی کو بطور نمونہ اس دنیا میں ثابت کرتی ہیں جیسے حضرت ابراہیم کا قصہ او رچار پرندے جوزندہ ہو ئے (سورہ بقرہ آیة۲۶۰) مقتول بنی اسرائیل کا واقعہ جو زندہ ہوا (بقرہ آیة ۷۳) جنا ب ''عزیر'' یا''ارمیا ' ' پیغمبر کا واقعہ (بقرہ ۲۵۹ )جناب حزقیل پیغمبر کاقصہ اورموت کے بعد بہت سارے لوگوں کا زندہ ہوناجیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۳ میں ملتا ہے ،جناب عیسی کا مردو ں کو زندہ کرنا (مائدہ ۱۱۰ آل عمران۴۹) میں آیا ہے جناب موسی کے زمانے میں موت کے بعد ستر آدمیوں کازندہ ہونا (بقرہ ۵۶۵۵) یہ سب کے سب واقعے معاد جسمانی اور روحانی پر محکم دلیل ہیں ۔

سوالات

۱۔موت کے بعدکے حیات کی کیفیت کے بارے میں کیا نظر یہ ہے ؟

۲۔شیعہ موت کے بعد کی زندگی کو کس طرح جانتے ہیں ایک دلیل قرآن سے ذکر کریں ؟

۳۔ معادجسمانی اور روحانی کانمونہ جو اسی دنیا میں واقع ہوا ہے بیان کریں ؟

۲۳۶

پیتیسواں سبق

برزخ یا قیامت صغری

جوبھی اس دنیا میں آتاہے ان چار مراحل کو اسے طے کرنا ضروری ہے ۔

۱۔ پیدائش سے لے کر موت تک کیونکہ یہ دنیا کی زندگی ہے۔

۲۔موت کے بعدسے قیامت تک کی زندگی اسے عالم برزخ کہتے ہیں۔

۳۔قیامت کبری

۴۔جنت یا دوزخ

برزخ

برزخ؛ دو چیز کے درمیان کے فاصلے کانام ہے یہاں برزخ سے مراد وہ دنیا ہے جواس دنیا اور آخرت کے درمیان ہے جب روح قفس عنصری سے پرواز کرجاتی ہے (قبل اس کے کہ یہ روح قیامت کے لئے دوبارہ اصل بدن میں واپس آئے ) ایک ایسے نازک جسم میں رہتی ہے جسے جسم مثالی کہتے ہیں تاکہ قیامت کے وقت وہ اسی کے ساتھ ہو ۔

۲۳۷

موت کے وقت انسان دنیا او رآخرت کے درمیان ہوتا ہے مولا امیر المومنین نے فرمایا: لِکلِّ دار باب وباب دار الآخرة الموت ہر گھر کا ایک دروازہ ہوتا ہے او رآخرت کا دروازہ موت ہے( ۱ ) جیسا کہ بعض احادیث میں واضح طور پر ملتا ہے کہ موت کے وقت بہت سی چیزیں ہمارے لئے واضح اور روشن ہوجاتی ہیں ۔

۱۔ملک الموت اور دوسرے فرشتوں کو دیکھنا

(۲) پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم او ر دوسرے ائمہ علیہم السلام کی زیارت

(۳) جنت یا دوزخ میں اپنی جگہ کا دیکھنا

(۴) اعمال کامجسم ہونا او راپنے گذرے ہوئے اعمال کو دیکھنا

(۵) دولت کا مجسم ہونا جو جمع کر رکھی ہے

(۶) اولا د رشتہ دار اور دوستوں کا مجسم ہونا

(۷) شیطان کامجسم ہونا

یہ کیفیت جس سے اچھے اعمال انجام دینے والے بھی ڈرتے ہیں اور خدا سے پناہ مانگتے ہیں ۔اس وقت انسان بعض پس پردہ رموز واسرار کو دیکھتا ہے او راس کا اعمال اس کے سامنے ہوتا ہے اور اپنے ہاتھوں کو نیکیوں سے خالی اور گناہ کے بوجھ تلے محسوس کرتاہے اپنے کئے پرنادم وپشیمان ہو کر پلٹنے کی التجا کرتا ہے تاکہ اپنے کئے کا جبران کر سکے ۔( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحَدَ هُمُ المَوت قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلّیِ أَعمَلُ صَالِحاً فِیمَا تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمةُ هُوَ قَائِلُهَا ) ''جب ان

____________________

(۱) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید

۲۳۸

میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے فریاد کرتے ہیں بارالہا !مجھے پلٹادے تاکہ جو کچھ چھوٹ گیاہے اسے پورا کرلیں اور اچھے اعمال انجام دے لیں اس سے کہا جا ئے گا ایسا نہیں ہوسکتایہ فریاد ہے جو وہ کریں گے''۔( ۱ )

یہ باتیں زبان پر ہوںگی او راگر پلٹا دیا جائے تو اعمال پہلے کی طرح ہو ں گے جس طرح جب مجرم گرفتار ہوتاہے او راسے سزادی جاتی ہے تو یہی کہتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی گرفتاری اور سزاختم ہو جاتی ہے اکثر پھر وہی اعمال دہراتا ہے ۔

قَال لقمان لابنه: یَا بُنیِ اِنَّ الدُّنیا بحر عمیق وقد هلکَ فیها عالم کثیر فاجعل سفینتکَ فِیهَا الاِیمان بِاللَّه واجعل زادک فیها تقویٰ اللَّه واجعل شراعها التوکّل علیٰ اللَّه فَاِنْ نجوّت فبرحمة اللّه وان هلکت فیه فبذنوبکَ وأشد ساعاته یوم یولد ویوم یموت ویوم یُبعث ۔''جنا ب لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا :اے میرے لخت جگر !یہ دنیا بہت گہرا سمندر ہے کتنے لوگ اس میں ڈوب چکے ہیں لذا تم خدا پر ایما ن، اپنے لئے کشتی نجا ت اور زاد راہ، پرہیز گاری نیز لنگر خدا پر بھروسہ کرو اب اگر ڈوبنے سے بچ گئے تو یہ خدا کی رحمت ہے اور اگر غرق ہوگئے تو یہ تمہا رے گناہ کے با عث ہوگا اور سخت ترین لمحہ زندگی انسان کے لئے وہ ہے جب وہ اس دنیا میں قدم رکھتا ہے یا وہ دن ہے جب اس دنیا کو خدا حافظ کہتاہے یا پھر وہ دن ہوگا جب پلٹایا جائے گا ''۔( ۲ )

____________________

(۱) سورہ مومنون آیة ، ۹۹۔۱۰۰

(۲)بحارالانوار جلد ،۶ ص ۲۵۰

۲۳۹

عالم برزخ کے اثبات کے سلسلہ میں بہت سی آیتیں وروایتیں پائی جا تی ہیں اگر چہ یہ بات عقل ومحسوسات کے ذریعہ بھی ثابت ہو چکی ہے۔

برزخ کے سلسلے میں قرآنی آیا ت

( حَتیٰ اِذَا جَائَ أَحدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعُونِ لَعلِّی أعمَلُ صَالِحاً فِیما تَرکتُ کَلَّا اِنَّهَا کَلِمَة هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرائِهِم بَرزَخُ اِلیٰ یَوم یُبعثُونَ ) ( ۱ ) یہا ں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پرور دگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں ،ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جویہ کہہ رہا ہے او ر ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والاہے یہ آیت واضح طور پر برزخ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔

( وَلَاتَحسَبَنّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیل اللَّهِ أَمواتاً بَلْ أَحیائُ عِندَ رَبِّهِم یُرزَقُونَ ) ( ۲ ) خبردار راہ خد امیں قتل ہونے والوں کومردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں او راپنے پرور دگا ر کے یہا ں سے رزق پارہے ہیں ۔( وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمواتُ بَل أَحیائُ ولکِن لَا تَشعُرُون ) ( ۳ ) ''اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کاشعورنہیں ہے ''۔

یہ دو آیتیں برزخ کی زندگی اور شہداء کے رزق کو ثابت کرتی ہیں۔

____________________

(۱) سورہ مومنون ۔۹۹۔۱۰۰

(۲) آل عمران آیة ،۱۶۹

(۳) بقرہ آیة :۱۵۴

۲۴۰

241

242

243

244

245

246