یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174789 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیت ۲۴:

(۲۴) وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلاَ أَنْ رَّأَی بُرْهَانَ رَبِّهِ کَذَلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ

''(عزیز مصر کی بیوی )زلیخا نے تو ان کے ساتھ (برا)ارادہ کر ہی لیا تھا اور اگر یہ بھی اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھ چکے ہوتے تو (غریزہ کی بنیاد پر)قصد کر بیٹھتے(ہم نے اس کو یوں بچایا)تاکہ ہم اس کو برائی اور بدکاری سے دور رکھیں، بے شک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھا''۔

نکات:

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: ''برہان رب'' علم و یقین اور حکمت کا نور تھا جس کو خداوندعالم نے گزشتہ آیتوں میں ذکر فرمایا ہے(آتیناه علما و حکما) (۱) اور جیسا کہ بعض روایتوں میں آیاہے کہ برہان رب سے مراد ؛باپ یا جبرئیل (ع)کی صورت دیکھنا ہے، اس کی کوئی محکم سند نہیں ہے۔

قرآن مجید میں کئی مرتبہ اولیائے خداکے بارے میں دشمنان دین کی سازشوں اور ارادوں کا ذکر آیا ہے لیکن ان تمام موارد میںخداوندعالم نے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا مثلاًجنگ تبوک سے واپسی پر منافقین نے چاہاکہ پیغمبر اسلام (ص)کے اونٹ کو بھڑکا کر آنحضر(ص)ت کو شہید کردیں لیکن وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکے ،(وهموا بما لم ینالوا) (۲)

--------------

( ۱ )تفسیر کشف الاسرار.

( ۲ )۔ سورہ توبہ آیت ۷۴

۶۱

نیز کچھ لوگوں نے پیغمبر اسل(ص)م کو منحرف کرنے کاارادہ کیا(فهمّت طائف منهم ان یضلوک) (۱)

یا دست درازی کا ارادہ کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے(همَّ قوم ان یبسطوا الیکم ایدیهم فکف ایدیهم عنکم (۲)

پیام:

۱۔ اگر امداد الٰہی نہ ہو تو ہر شخص کے پیر پھسل جائیں(وَهَمَّ بِهَا لَوْلاَ أَنْ رَأَی بُرْهَانَ رَبِّهِ)

۲۔ خداوندمتعال اپنے مخلص بندوں کی حفاظت کرتا ہے( لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوئَ... إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ)

۳۔انبیاء (ع)میں عام انسانوں کی طرح غریزہ شہوت موجود ہے لیکن خدا پر قوی ایمان ہونے کی بنیاد پر گناہ نہیں کرتے(۳) (هَمَّ بِهَا لَوْلاَ أَنْ رَأَی بُرْهَانَ رَبِّه)

--------------

(۱) سورہ نساء آیت ۱۱۳.

(۲)سورہ مائدہ آیت ۱۱.

(۳)حضرت یوسف (ع)پاکدامن اور معصوم تھے ۔ اسکی دلیل ان لوگوں کا بیان ہے جو کسی نہ کسی طرح آپ (ع)سے متعلق تھے ۔ بطور نمونہ کچھ دلیلیں ملاحظہ ہوں۔۱۔خداوندعالم نے فرمایا:لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ ۔۲۔خود حضرت یوسف (ع)نے فرمایا:رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ۔پروردگارا! قید خانہ میرے لئے اس سے بہتر ہے جسکی طرف یہ لوگ مجھے بلا رہے ہیں ۔دوسری جگہ پھر فرمایا:انی لم اخنه بالغیب ۔میں نے صاحب خانہ کے پیچھے خیانت نہیں کی ہے ۔۳۔زلیخا نے کہا :لقد روادته عن نفسه فاستعصم ۔یقینا میں نے یوسف کو لبھایا تھا لیکن وہ معصوم ہیں ۔۴۔عزیز مصر نے کہا :یوسف اعرض عن هذا واستغفری لذنبک ۔اے یوسف تم اس ماجرا سے صرف نظر کرلو ۔ اور زلیخا سے کہا : تم اپنے گناہ سے توبہ کرو۔۵۔شاہد جس نے گواہی دی کہ اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو معلوم ہو گا کہ یوسف پاکدامن ہیں(ان کان قمیصه...) ۔۶۔ مصر کی عورتوں نے گواہی دی کہ ہم جناب یوسف کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جانتیں،(ما علمنا علیه من السوئ) ۷۔ابلیس کہ جس نے تمام لوگوں کو فریب دینے کا وعدہ کیا ہے اس نے کہا :الاعبادک منهم المخلَصین میں تیرے مخلص بندوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، اور یہ آیت جناب یوسف (ع)کو ''مخلَص'' کہہ رہی ہے ۔

۶۲

آیت ۲۵:

(۲۵) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدَی الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوئً ا إِلاَّ أَنْ یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ

''اور دونوں دروازے کی طرف جھپٹ پڑے اور زلیخا نے پیچھے سے ان کا کرتہ (پکڑ کر کھینچا)اور پھاڑ ڈالا ،ناگہانی دونوں نے زلیخا کے شوہر کو دروازے کے پاس کھڑا پایا، زلیخا (یوسف سے انتقام لینے یا اپنی پاکدامنی ثابت کرنے کے لئے )جھٹ (اپنے شوہر)سے کہنے لگی کہ جو تمہاری بیوی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے اسکی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یا تو قید کردیا جائے یا دردناک عذاب میں مبتلا کردیا جائے ''؟۔

نکات:

''استباق'' کے معنی یہ ہیں کہ دو یا چند آدمی ایک دوسرے سے سبقت و پہل کریں''قدّ'' لمبائی میں پھٹ جانے کو کہتے ہیں۔''لفائ'' یعنی ناگہاں پالینا۔

۶۳

پیام:

۱۔ صرف معاذاللہ کہنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ گناہ سے فرار بھی ضروری ہے۔(وَاسْتَبَقَا )

۲۔ کبھی ظاہری عمل ایک ہوتا ہے لیکن اہداف مختلف ہوتے ہیں ایک دوڑتا ہے تاکہ گناہ میں ملوث نہ ہو ،دوسرا دوڑتا ہے تاکہ گناہ سے آلودہ کردے( اسْتَبَقَا )

۳۔ گناہ کی جگہ سے فرار کرنا اور ہجرت ضروری ہے(اسْتَبَقَا الْبَابَ)

۴۔دروازے بند ہونے کا بہانہ کرنا کافی نہیں ہے بلکہ بند دروازے کی طرف بھاگنا چاہیئے شاید کھل جائے ۔(اسْتَبَقَا الْبَابَ)

۵۔ عزیز مصر کی بیوی نے اپنے شوہر کے احساس اور اس کی محبت سے خوب خوب فائدہ اٹھانا چاہا( بِأَهْلِک)

۶۔ مجرم خود کو بری الذمہ کرنے کےلئے دوسروں پر تہمت لگاتا ہے(أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوئ)

۷۔ شکایت کرنے والا کبھی کبھی خود مجرم ہوتاہے( قَالَتْ مَا جَزَائ...)

۸۔ ہمیشہ سے شوہر دار عورت پر دست درازی کوجرم شمار کیا گیا ہے( مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوئً)

۹۔ قید خانہ اور مجرموں کو قید کرنا تاریخی سابقہ رکھتاہے( یُسْجَنَ)

۱۰۔ عزیز مصر کی طرف سے سزا کا اعلان کرنا بیوی کی قدرت و طاقت کی علامت ہے( یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ )

۱۱۔ ہوس آلود عشق ،ایک پل میں عاشق کو قاتل بنا دیتاہے۔( یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ )

۶۴

آیت ۲۶:

(۲۶) قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَفْسِی وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنْ الْکَاذِبِینَ

''یوسف نے کہا : اس نے خود مجھ سے (میری خواہش کے برخلاف)میری آرزو کی تھی اور زلیخا ہی کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہی دینے والے نے گواہی دی کہ اگر ان کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹے (کیونکہ ایسی صورت میں یوسف اور عزیز مصر کی بیوی آگے سے ایک دوسرے سے درگیر ہوتے اور کرتا آگے سے پھٹتا)''

نکات:

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ وہ گواہ ایک بچہ تھا جس نے جناب عیسی ٰ علیہ السلام کی طرح گہوارے میں گواہی دی لیکن چونکہ اس کی سند محکم نہیں ہے لہٰذا اس پر اعتبار نہیں کرسکتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ عزیز مصر کے مشاوروں میں سے ایک مشورہ دینے والے کو مانیں جو اس کی زوجہ کے خاندان سے تھا اور ذہین و ہوشمند تھا اور وہ عزیز مصر ہی کی طرح واقعہ کا گواہ ہو گیا۔ کیونکہ اگر وہ ماجرے کا عینی گواہ ہوتا تو جملہ شرطیہ کے ساتھ واقعہ کی گواہی دینا بے معنی ہو جائے گا(ان کان...) (۱) (اگرایسا...)

--------------

( ۱ )مقدسات پر تہمت لگانے کا مسئلہ قرآن مجید میں بہت جگہوں پر موجود ہے مثلاًحضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی گئی لیکن خداوند نے نجات دی ۔ پیغمبر اسلام کی بیوی پر بھی تہمت لگائی گئی اور یہاں جناب یوسف (ع)کی طرف بدکاری کی نسبت دی گئی۔

۶۵

پیام:

۱۔جناب یوسف (ع)نے بات شروع نہیں کی ۔ اگر عزیز کی زوجہ آپ (ع)پر تہمت نہ لگاتی تو شاید آپ(ع) اس کی آبروریزی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے:( هِیَ رَاوَدَتْنِی)

۲۔ جس پر تہمت لگائی جارہی ہے اس کو اپنا دفاع کرنا چاہیئے اور اصلی مجرم کو پہنچنواناچاہیئے۔( هِیَ رَاوَدَتْنِی)

۳۔ جن راہوں کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا خدائے متعال ان راہوں سے مدد فرماتاہے ۔(شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَ)

۴۔ جرم شناسی میں باریک نکات سے مسائل کو کشف کیا جاتا ہے ۔( إِنْ کَانَ قَمِیصُه...)

۵۔ قاضی قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتا ہے۔( مِنْ قُبُل)

۶۔ بے گناہ کا دفاع واجب ہے ، خاموشی ہر جگہ اچھی نہیں ہوتی۔(شَهِدَ شَاهِدٌ)

۷۔ جب خدا چاہتا ہے تو مجرم کے رشتہ دار بھی اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔(شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَ)

۸۔ گواہی میں حسب و نسب ، موقعیت اور رشتہ داری نہیں دیکھنی چاہئےے ۔(شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَ)

آیت ۲۷:

(۲۷) وَإِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَهُوَ مِنْ الصَّادِقِینَ

''اور اگر ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچے ہیں''۔

نکات:

جناب یوسف (ع)کی داستان میں آپ (ع)کا کرتا بڑا کار ساز ہے ۔ ایک جگہ کرتہ کا پیچھے سے پھٹا ہوناآپ(ع) کی بے گناہی اور زلیخا کا جرم ثابت کر گیا ۔

۶۶

دوسری جگہ کرتہ کا نہ پھٹنا بھائیوں کے جرم کا گواہ بن گیا کیونکہ جب انہوں نے جناب یوسف (ع)کو کنویں میں ڈالنے کے بعد آپ (ع)کے پیراہن کو خون آلودکر کے باپ کی خدمت میں دکھایا اور کہا کہ جناب یوسف (ع)کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو جناب یعقوب (ع)نے پوچھا : پھر کرتہ کیوںنہیں پھٹا ؟ اور قصہ کے آخر میں بھی کرتہ باپ کی بینائی کا سبب بنا۔

پیام:

۱۔ جرم اور مجرم کی تشخیص کے لئے جرم شناسی کے طریقوں کا اپنانا ضروری ہے ۔(إِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ...)

آیت ۲۸:

(۲۸) فَلَمَّا رَأَی قَمِیصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ

''پھر جب عزیز مصر نے ان کا کرتاپیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا (تواپنی بیوی سے )کہنے لگا: یہ تم ہی لوگوں کے چلتر ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے چلتر بڑے (غضب کے)ہوتے ہیں''۔

۶۷

نکات:

کَیْدَکُنَّ سے مراد یہ ہے کہ پاک لوگوں پر تہمت لگانا اور خود سے بغیر پریشانی کے جلد از جلد تہمت کو دور کردینا۔

اگرچہ قرآن مجید نے شیطان کے کید اور فریب کو کمزور شمار کیا ہے ۔ان کید الشیطان کان ضعیفا ۔(۱) لیکن اس آیت میں عورتوں کے چلتر کو بڑا بتایا گیا ہے۔ صاحب تفسیر صافی فرماتے ہیں شیطان کا وسوسہ تھوڑی دیر کے لئے ، پیچھے سے ، غائبانہ اور چوری چھپے ہوتا ہے لیکن عورت کا فریب لطائف و محبت کے ساتھ ، سامنے سے اور دائمی ہوتاہے ۔

کبھی کبھی خدا بڑے بڑے کام چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعہ انجام دیتا ہے ۔ ابرہہ کو ابابیل کے ذریعہ سرنگوں کرتاہے ، مکڑی کے جالے سے پیغمبر اسلام کی حفاظت کرتاہے ، کوّے کے ذریعہ نسل بشر کو تعلیم دی جاتی ہے ، گود کے بچے کے ذریعہ جناب مریم (ع)کی عفت اور پاکدامنی ثابت ہوتی ہے ، پیچھے سے پھٹے ہوئے کرتے سے جناب یوسف کی پاکدامنی ثابت کرتاہے ،ہدہد کی خبر ایک ملک کو باایمان بنا دیتی ہے اور اصحاب کہف کا انکشاف پیسے کے نمونے کے ذریعہ فرماتا ہے۔

پیام:

۱۔ حق نہیں چھپتا لیکن مجرم رسوا ہوجاتا ہے( إِنَّهُ مِنْ کَیْدِکُنَّ )

۲۔ ناپاک عورتوں کے مکر و فریب سے بچنا چاہیئے کیونکہ ان کا چلتر بڑے غضب کا ہوتا ہے ۔( إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ )

--------------

( ۱ )سورہ نساء آیت ۷۶

۶۸

آیت ۲۹:

(۲۹) یُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِکِ إِنَّکِ کُنتِ مِنْ الْخَاطِئِین.

''(اور عزیز مصر نے یوسف سے کہا:)اے یوسف اس کو جانے دو (اسے کہیں اور بیان نہ کرنا)اور (اپنی بیوی سے کہا:)تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، کیونکہ بے شک تم ہی از سر تاپا خطاکاروں میں سے ہو''۔

پیام:

۱۔ عزیز مصر چاہتا تھا کہ یہ بات مخفی رہ جائے لیکن سارا جہاں اس واقعہ سے مطلع ہو گیا تا کہ جناب یوسف (ع)کی پاکدامنی ثابت ہوجائے( یُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَ)

۲۔ عزیز مصر نے بھی دوسرے کاخ نشینوں کی طرح ناموس اور غیرت کے سلسلے میں کاہلی کی اور اپنی بیوی کی سرزنش و توبیخ سنجیدگی سے نہیں کی ۔(وَاسْتَغْفِرِی)

۳۔ غیر الٰہی نمائندے اپنی بیویوں کی غیر اخلاقی حرکات پر ان کے خلاف کوئی سنجیدہ اور فیصلہ کن اقدام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔(وَاسْتَغْفِرِی)

۴۔ عورت کا اپنے شوہرکے علاوہ کسی دوسرے سے جنسی رابطہ نامشروع و ناجائز ہے ۔(وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِک)

۶۹

آیت ۳۰:

(۳۰) وَقَالَ نِسْوَهٌ فِی الْمَدِینَ امْرَ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ

''اور شہر (مصر) میں عورتیں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز (مصر) کی بیوی اپنے غلام سے (ناجائز) مطلب حاصل کرنے کی آرزومند ہے بےشک غلام نے اسے اپنی الفت میں لبھایا ہے ہم لوگ تو اسے صریح غلطی میں مبتلا دیکھتے ہیں''۔

نکات:

''شغاف '' ''دل کے اوپر پیچیدگی کو یادل کے اوپر نازک جلد جو دل کو اپنے گھیرے میں لئے رہتی ہے ''اسے کہتے ہیں اس جملہ میںشَغَفَهَا حُبًّا ،کے معنی یہ ہیں کہ دل میں محبت رچ بس گئی ہے اور عشق شدید ہو گیا ہے(۱)

ہر شخص جناب یوسف (ع)کو اپنانا چاہتاہے جناب یعقوب (ع)اپنا فرزند جانتے ہیں(یا بُنیَّ ) قافلے والے آپ (ع)کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں(شروه بثمن بخس) عزیز مصر آپ (ع)کو اپنا گود لیا ہوا فرزند سمجھتا ہے(نتخذه ولدا) زلیخا آپ (ع)کو اپنا معشوق سمجھتی ہے(ْ شَغَفَهَا حُبًّا) قیدی آپ (ع)کو خواب کی تعبیرکرنے والا سمجھتے ہیں(نبئنا بتاویله) لیکن خدا آپ کو اپنا برگزیدہ بندہ اور رسول سمجھتا ہے(یجتبیک ربک) اور جو کچھ جناب یوسف (ع)کے لئے رہ گیا تھا وہ مقام رسالت تھا(والله غالب علی امره)

--------------

( ۱ )تفسیر نمونہ.

۷۰

پیام:

۱۔ حکومتی افراد اور ان کے خاندان کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں ۔(قَالَ نِسْوَ امْرَ الْعَزِیز)

۲۔ جب خدا چاہتا ہے تو دروازہ بند کرنے کے بعد بھی رسوائی کا داغ دامن کردار پر لگ ہی جاتا ہے ۔(قَالَ نِسْوَ امْرَ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ...)

آیت ۳۱:

(۳۱) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّکَأً وَآتَتْ کُلَّ وَاحِدَ مِّنْهُنَّ سِکِّینًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْهِنَّ فَلَمَّا رَأَیْنَهُ أَکْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیمٌ

''تو جب زلیخا نے ان کے طعنے (اور بد گوئی) سنے تو اس نے عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کےلئے ایک تکیہ گاہ آمادہ کی اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دے دی (تاکہ پھل وغیرہ کاٹ سکیں)اور یوسف سے کہا : اب ان کے سامنے سے نکل تو ج ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ سب کی سب (بیخودی ) میں اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں پاک ہے اللہ ،یہ آدمی نہیں ہے یہ تو (ہو نہ ہو بس)ایک معزز فرشتہ ہے ''۔

نکات:

کلمہ'' حاشا'' اور''تحاشی'' کنارے اور الگ تھلگ رہنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،پرانے زمانے میں یہ رسم تھی کہ لوگ کسی کو بے عیب بتانا چاہتے تھے تو سب سے پہلے خداوندعالم کے بے عیب ہونے کو بیان کرتے پھر اس شخص کی بے عیبی کو بیان کرتے تھے۔(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر المیزان.

۷۱

پیام:

۱۔کبھی کبھی دوسروں کے مسائل پیش کرنے کا ہدف دلسوزی نہیں ہوتی بلکہ حسد و جلن، سازش اور ان کے خلاف نقشہ کشی مدنظر ہوتی ہے(مَکْرِهِنّ)

۲۔ جب عشق ہو جاتا ہے تو انسان ہاتھ کٹنے پر بھی متوجہ نہیں ہوتا ۔(قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنّ) (اب اگر آپ نے سنا کہ نماز کے وقت حضرت علی علیہ السلام کے پیروں سے تیر نکال لیا گیا لیکن آپ متوجہ نہ ہوئے تو اس پر تعجب نہ کیجئے ، اس لئے کہ اگر ظاہری حسن اور سطحی عشق ہاتھ کٹنے کی حد تک بڑھ سکتا ہے تو جمال واقعی سے گہرا عشق و محبت انسان کو کس کمال تک پہنچا سکتا ہے؟)

۳۔ فوراً کسی پر تنقید نہیں کرنی چاہیئے اس لئے کہ اگر اس کی جگہ پر آپ ہوتے تو شاید وہی کام کرتے ۔(قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنّ) (تنقید کرنے والیوں نے جب ایک لحظہ کے لئے جناب یوسف کو دیکھا تو عزیز مصر کی بیوی کی طرح یوسف کی محبت میں گرفتار ہو گئیں۔)

۴۔کبھی کبھی مکر کا جواب مکر سے دیا جاتا ہے (عورتوں نے عزیز مصر کی بیوی کا راز فاش کرنے کی سازش کی تھی لیکن اس نے مہمان بلا کر تمام سازشوں سے پردہ فاش کردیا۔( أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنّ)

۵ ۔ بزرگ اور بزرگواری کے مقابلہ میں انسان فطری طور پر انکساری وتواضع سے پیش آتا ہے ۔(أَکْبَرْنَه)

۶۔ اہل مصر اس زمانے میں خدا اور فرشتوں پر ایمان رکھتے تھے ۔( حَاشَ لِلَّهِ مَلَکٌ کَرِیمٌ )

۷۲

آیت ۳۲:

(۳۲) قَالَتْ فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیهِ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَیُسْجَنَنَّ وَلِیَکُوناً مِّنَ الصَّاغِرِینَ

''(تب زلیخا ان عورتوں سے بولی جو اپنے ہاتھ کاٹ چکیں تھیں)بس یہ وہی تو ہے جس کے بارے تم سبمجھے ملامت کرتی تھیں اور ہاں بے شک میں اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خود اس سے آرزو مند تھی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور جس کام کا میں حکم دیتی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو ضرور قید بھی کیا جائے گا اور خوار بھی ہوگا''۔

نکات:

نفسیاتی اور معاشرتی شرائط انسان کے عکس العمل میں اثر انداز ہوتے ہیں جب زلیخا اپنے برے کام کے آشکار ہونے سے ڈری تو''غلقت الابواب'' دروازے بند کر ڈالے ،لیکن جب مصر کی عورتوں کو اپنی طرح دیکھتی ہے تو علی الاعلان کہتی ہے''انا راودته'' میں اس کی آرزومند تھی ۔

اسی طرح جب کسی معاشرے میں برائی کا احساس ختم ہوجاتا ہے تو ان کے لئے گناہ بڑے آسان ہو جاتے ہیں۔ شاید اسی کو روکنے کے لئے ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں''اللهم اغفرلی الذنوب التی تهتک العصم '' پروردگارا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو حیا کے پردے کو چاک کر دیتے ہیں ۔ کیونکہ شروع میں انسان کے لئے گناہ کرنا سخت ہوتا ہے لیکن جب حیا و شرم ختم ہوجاتی ہے تو پھر گناہ کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔

۷۳

پیام:

۱۔ دوسروں پر ایسی ملامت نہ کرو جس میں خود ہی گرفتار ہوج( فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیهِ)

۲۔گناہ سے آلودہ عشق ،رسوائی کا سبب ہوتا ہے ۔( رَاوَدتُّه)

۳۔ جھوٹا رسوا ہوتا ہے ۔ جس نے کل کہا تھا کہ یوسف (ع)بدکاری کرنا چاہتے تھے (اراد باھلک سوئ)وہی آج کہہ رہی ہے۔( لقدرَاوَدتُّه) میں نے آرزو کی تھی ۔

۴۔ کبھی دشمن بھی اپنے مدمقابل کی پاکدامنی کی گواہی دیتا ہے۔(فَاسْتَعْصَمَ) کبھی کبھی مجرم کا ضمیر بھی بیدار ہوجاتا ہے ۔

۵۔ پاکدامنی نبوت کا لازمہ ہے ۔( فَاسْتَعْصَمَ )

۶۔ بہت سے پاکدامن افراد اپنے ارادے اور قصد سے زندان میں جاتے ہیں(فَاسْتَعْصَمَ... لَیُسْجَنَنَّ) جناب یوسف اپنی پاکدامنی کے باوجود قید خانہ میں ڈال دئے جاتے ہیں۔

۷۔ قدرت و طاقت سے غلط فائدہ اٹھانا اہل طاغوت کا طریقہ کار ہے۔(لَیُسْجَنَن)

۸۔ قید اور رسوا ئی کی دھمکی ،اہل طاغوت کا وطیرہ و حربہ ہے ۔( لَیُسْجَنَنَّ... الصَّاغِرِین)

۹۔ ناکام عاشق دشمن ہو جاتا ہے ۔( قَالَت...لَیُسْجَنَنَّ وَلِیَکُوناً مِنَ الصَّاغِرِینَ)

۱۰۔ محل میں رہنے والوں میں غیرت کی حس ختم ہوجاتی ہے( عزیز مصر نے اپنی بیوی کی خیانت کو سمجھ لیا تھا اور اس سے توبہ کرنے کے لئے بھی کہا تھا لیکن اس کے باوجود جناب یوسف (ع)اور زلیخا کے درمیان جدائی نہ ڈالی)

۷۴

آیت ۳۳:

(۳۳) قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْهِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی کَیْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَیْهِنَّ وَأَکُنْ مِّنَ الْجَاهِلِینَ.

''(یہ سب باتیں سن کر یوسف نے)عرض کی اے میرے پالنے والے جس بات کی یہ عورتیں مجھ سے خواہش رکھتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اور اگر تو ان عورتوں کا فریب مجھ سے دفع نہ فرمائے گا تو (مبادا)میں ان کی طرف مائل ہوجں اور جاہلوں سے شمار کیا جں''۔

نکات:

جناب یوسف (ع)،سراپا جواں مرد تھے۔ ایک بار بھائیوں کی حسادت کے نتیجے میں فدا ہوئے لیکن دشمنی نہیں کی ۔دوسری مرتبہ زلیخا کی شہوت کی وجہ سے قربان ہوئے لیکن گناہ نہیں کیا ۔ تیسری دفعہ قدرت کے وقت آپ (ع)نے اپنے بھائیوں سے انتقام نہیں لیا۔ چوتھی مرتبہ جیسے ہی ملک کوخطرے میں دیکھاتو وطن لوٹنے کی خواہش کے بجائے ملک کی نجات اور اقتصادی امور کی تدبیر میں لگ گئے ۔

ہر شخص کے لئے کوئی نہ کوئی چیز محبوب ہوتی ہے جناب یوسف (ع)کو اپنی پاکدامنی، عورتوں کی آرزں سے زیادہ محبوب ہے۔ ایک گروہ کےلئے دنیا زیادہ محبوب ہےیستحبون الحیوٰ الدنیا (۱) اور مومنین کے لئے اللہ محبوب تر ہے ۔والذین آمنوا اشد حبّاً للّٰ ہ(۲)(۳)

--------------

( ۱ )سورہ ابراہیم آیت ۳

( ۲ )سورہ بقر آیت ۱۶۵

( ۳ )واضح ہے کہ جناب یوسف(ع) کامرتبہ اس سے بھی بلند و بالا ہے ۔ مترجم.

۷۵

پیام:

۱۔ خداکی ربوبیت کی طرف متوجہ ہونا آداب دعا میں سے ایک ادب ہے۔ (رَبِّ )

۲۔ اولیائے خدا شریفانہ زندگی کی پریشانیوں کو،گناہوں میں ملوث آرام دہ زندگی سے بہتر سمجھتے ہیں ۔( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ )

۳۔ہر آزادی کی اہمیت و عظمت نہیں ہے اور ہر قید خانہ عیب کا باعث نہیں ہے( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ)

۴۔ انسان، خداکی مدد کی بنیاد پر ہر قسم کے حالات اور شرائط میں گناہ سے کنارہ کشی کرسکتا ہے( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ) (گناہ کے ماحول سے ہجرت ضروری ہے)

۵۔ رنج ومحن گناہ کے مرتکب ہونے کا جواز نہیں ہوسکتے۔( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ ...)

۶۔ گناہ اور جنسی انحرافات سے محفوظ رہنے کےلئے خدا سے دعا اور مدد مانگنی چاہیئے(رَبِّ السِّجْنُّ ...)

۷۔ انسان کی شخصیت اسکی روح سے وابستہ ہے نہ کہ اسکے جسم سے اگر روح آزاد ہو تو زندان بھی بہشت ہے اور اگر روح تکلیف میں ہو تو محل سرا بھی قید خانہ ہوتا ہے( السِّجْنُ أَحَبّ)

۸۔یا تو تمام عورتیں جناب یوسف (ع)کی عاشق ہو گئیں اور ان تک پیغام بھجوایا یا پھر انہوں نے جناب یوسف (ع)کو عزیز مصر کی بیوی کی درخواست قبول کرنے کے لئے کہا(کَیْدَهُنَّ ، یَدْعُونَنِی)

۷۶

۹۔ کوئی بھی انسان لطف خدا کے بغیر ،گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتاہے۔(وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی...) بحرانی مواقع میں تنہا راہ نجات خدا پر بھروسہ ہے۔

۱۰۔الٰہی امتحان لحظہ بہ لحظہ سخت سے سخت تر ہوتا جاتا ہے جناب یوسف (ع)پہلے ایک عورت کے مکر میں گرفتار تھے اب کئی عورتوں کے مکر میں گرفتار ہوگئے( کَیْدَهُنَّ ، إِلَیْهِنَّ)

۱۱۔ خدا کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کو راضی کرنا ،جہالت اور نادانی ہے۔(مِمَّا یَدْعُونَنِی وَأَکُنْ مِنْ الْجَاهِلِینَ)

۱۲۔ گناہ ؛ وہبی اور خدا دادی علم کے سلب ہونے کا باعث بنتا ہے۔(اتیناه علما وحکما...اکن من الجاهلین)

۱۳۔ صرف علم کا نہ ہونا جہالت نہیں ہے بلکہ ایک لحظہ کی لذت کا انتخاب کرنا اور رضائے الٰہی سے چشم پوشی بھی سب سے بڑی نادانی ہے۔(اکن من الجاهلین)

۷۷

آیت ۳۴:

(۳۴) فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ کَیْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ

''تو ان کے پروردگار نے ان کی سن لی اور ان سے عورتوں کے مکر کو دفع کردیا اس میں شک نہیں کہ وہ بڑا سننے والا واقف کار ہے''۔

پیام:

۱۔اللہ والےمستجاب الدعوات ہوتے ہیں۔( فَاسْتَجَابَ لَهُ)

۲۔ جو شخص بھی خدا کی پناہ گاہ میں چلاجائے وہ ہر چیز سے محفوظ رہتا ہے۔(فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ کَیْدَهُنَّ )

۳۔ استجابت دعا خدا کےسمیع و بصیرا ورعلیم ہونے کی دلیل ہے۔(فَاسْتَجَاب هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ )

آیت ۳۵:

(۳۵) ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّهُ حَتَّی حِینٍ

''پھر (عزیز مصر اور اس کے لوگوں نے )باوجودیکہ (یوسف کی پاکدامنی کی )نشانیاں دیکھ لی تھیں اسکے بعد بھی ان کو یہی مناسب معلوم ہوا کہ کچھ مدت کے لئے ان کو قید ہی کر دیں''۔

۷۸

پیام:

۱۔ حسن و خوبصورتی ہمیشہ خوش بختی نہیں ہے بلکہ )کبھی کبھی( درد سر بھی بن جاتا ہے ۔( ثُمَّ بَدَا لَهُمْ لَیَسْجُنُنَّهُ )

۲۔ ایک دیوانہ اگر کنویں میں ایک سوئی ڈال دے توسو(۱۰۰) عقلمند مل کر بھی باہر نہیں نکال سکتے ایک عورت عاشق ہو گئی لیکن اتنے مرد اور حکومتی افراد مل کر بھی اس رسوائی سے بچنے کے لئے کوئی فکر اور تدبیر نہ کر سکے۔(بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوْ)

۳۔ اہل طاغوت کے درباروں اور محلوں میں عدالت کا نفاذ اور محاکمہ دکھاوے کے لئے ہوتاہے تاکہ بے گناہ لوگوں کو محکوم کیا جا سکے ۔( لَیَسْجُنُنَّهُ)

۴۔ کاخ نشین عام طور پر لا پرواہ اور بے شرم ہوتے ہیں ۔( مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّهُ ) جناب یوسف کی پاکدامنی کی ان تمام دلیلوں کے باوجود آپ کو قید خانہ میں ڈال دیتے ہیں۔

۷۹

آیت ۳۶:

(۳۶) وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیَانِ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّی أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّی أَرَانِی أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِی خُبْزًا تَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِیلِهِ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ

''اور قید خانے میں یوسف کے ساتھ دو جوان بھی داخل ہوئے (چند دن کے بعد)ان میںسے ایک نے کہا کہ میںنے (خواب) دیکھا ہے کہ میں شراب (بنانے کے واسطے انگور) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا (میں نے بھی خواب میں)اپنے کو دیکھاکہ میں اپنے سرپر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں (یوسف) ہمیں اس کی تاویل بت ،یقینا آپ ہمیں ایک نیک انسان نظر آتے ہیں ''۔

نکات:

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جناب یوسف (ع)کو نیک انسان کہنے کی وجہ یہ تھی آپ (ع)قید خانہ میں مریضوں کی خدمت کرتے تھے اور محتاجوں کی مشکلات کو دور کرنے نیز تمام لوگوں کی مشکل حل کرنے کی سعی فرماتے تھے(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر نور الثقلین ۔ میزان الحکم مادہ (سجن)

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳

د: تعلیم

1111۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

1112۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

1113۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

1114۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

1115۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

۱۹۴

ز: اعراض

قرآن

(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث

1116۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

1117۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

1118۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

1119۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

1120۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

1121۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

۱۹۵

1122۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

1123۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

1124۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

1125۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

1126۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

1127۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

1128۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

1129۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

1130۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

۱۹۶

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

6/1

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)

حدیث

1131۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

۱۹۷

1132۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

1133۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

1134۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

۱۹۸

1135۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔

1136۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔

1137۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضرؐت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔

1138۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

۱۹۹

1139۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246