یوسف قرآن

یوسف قرآن 15%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174842 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

آیت ۲۴:

(۲۴) وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلاَ أَنْ رَّأَی بُرْهَانَ رَبِّهِ کَذَلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ

''(عزیز مصر کی بیوی )زلیخا نے تو ان کے ساتھ (برا)ارادہ کر ہی لیا تھا اور اگر یہ بھی اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھ چکے ہوتے تو (غریزہ کی بنیاد پر)قصد کر بیٹھتے(ہم نے اس کو یوں بچایا)تاکہ ہم اس کو برائی اور بدکاری سے دور رکھیں، بے شک وہ ہمارے خالص بندوں میں سے تھا''۔

نکات:

امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا: ''برہان رب'' علم و یقین اور حکمت کا نور تھا جس کو خداوندعالم نے گزشتہ آیتوں میں ذکر فرمایا ہے(آتیناه علما و حکما) (۱) اور جیسا کہ بعض روایتوں میں آیاہے کہ برہان رب سے مراد ؛باپ یا جبرئیل (ع)کی صورت دیکھنا ہے، اس کی کوئی محکم سند نہیں ہے۔

قرآن مجید میں کئی مرتبہ اولیائے خداکے بارے میں دشمنان دین کی سازشوں اور ارادوں کا ذکر آیا ہے لیکن ان تمام موارد میںخداوندعالم نے ان کی سازشوں پر پانی پھیر دیا مثلاًجنگ تبوک سے واپسی پر منافقین نے چاہاکہ پیغمبر اسلام (ص)کے اونٹ کو بھڑکا کر آنحضر(ص)ت کو شہید کردیں لیکن وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکے ،(وهموا بما لم ینالوا) (۲)

--------------

( ۱ )تفسیر کشف الاسرار.

( ۲ )۔ سورہ توبہ آیت ۷۴

۶۱

نیز کچھ لوگوں نے پیغمبر اسل(ص)م کو منحرف کرنے کاارادہ کیا(فهمّت طائف منهم ان یضلوک) (۱)

یا دست درازی کا ارادہ کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے(همَّ قوم ان یبسطوا الیکم ایدیهم فکف ایدیهم عنکم (۲)

پیام:

۱۔ اگر امداد الٰہی نہ ہو تو ہر شخص کے پیر پھسل جائیں(وَهَمَّ بِهَا لَوْلاَ أَنْ رَأَی بُرْهَانَ رَبِّهِ)

۲۔ خداوندمتعال اپنے مخلص بندوں کی حفاظت کرتا ہے( لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوئَ... إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ)

۳۔انبیاء (ع)میں عام انسانوں کی طرح غریزہ شہوت موجود ہے لیکن خدا پر قوی ایمان ہونے کی بنیاد پر گناہ نہیں کرتے(۳) (هَمَّ بِهَا لَوْلاَ أَنْ رَأَی بُرْهَانَ رَبِّه)

--------------

(۱) سورہ نساء آیت ۱۱۳.

(۲)سورہ مائدہ آیت ۱۱.

(۳)حضرت یوسف (ع)پاکدامن اور معصوم تھے ۔ اسکی دلیل ان لوگوں کا بیان ہے جو کسی نہ کسی طرح آپ (ع)سے متعلق تھے ۔ بطور نمونہ کچھ دلیلیں ملاحظہ ہوں۔۱۔خداوندعالم نے فرمایا:لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِینَ ۔۲۔خود حضرت یوسف (ع)نے فرمایا:رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ۔پروردگارا! قید خانہ میرے لئے اس سے بہتر ہے جسکی طرف یہ لوگ مجھے بلا رہے ہیں ۔دوسری جگہ پھر فرمایا:انی لم اخنه بالغیب ۔میں نے صاحب خانہ کے پیچھے خیانت نہیں کی ہے ۔۳۔زلیخا نے کہا :لقد روادته عن نفسه فاستعصم ۔یقینا میں نے یوسف کو لبھایا تھا لیکن وہ معصوم ہیں ۔۴۔عزیز مصر نے کہا :یوسف اعرض عن هذا واستغفری لذنبک ۔اے یوسف تم اس ماجرا سے صرف نظر کرلو ۔ اور زلیخا سے کہا : تم اپنے گناہ سے توبہ کرو۔۵۔شاہد جس نے گواہی دی کہ اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہے تو معلوم ہو گا کہ یوسف پاکدامن ہیں(ان کان قمیصه...) ۔۶۔ مصر کی عورتوں نے گواہی دی کہ ہم جناب یوسف کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جانتیں،(ما علمنا علیه من السوئ) ۷۔ابلیس کہ جس نے تمام لوگوں کو فریب دینے کا وعدہ کیا ہے اس نے کہا :الاعبادک منهم المخلَصین میں تیرے مخلص بندوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، اور یہ آیت جناب یوسف (ع)کو ''مخلَص'' کہہ رہی ہے ۔

۶۲

آیت ۲۵:

(۲۵) وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدَی الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوئً ا إِلاَّ أَنْ یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ

''اور دونوں دروازے کی طرف جھپٹ پڑے اور زلیخا نے پیچھے سے ان کا کرتہ (پکڑ کر کھینچا)اور پھاڑ ڈالا ،ناگہانی دونوں نے زلیخا کے شوہر کو دروازے کے پاس کھڑا پایا، زلیخا (یوسف سے انتقام لینے یا اپنی پاکدامنی ثابت کرنے کے لئے )جھٹ (اپنے شوہر)سے کہنے لگی کہ جو تمہاری بیوی کے ساتھ بدکاری کا ارادہ کرے اسکی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یا تو قید کردیا جائے یا دردناک عذاب میں مبتلا کردیا جائے ''؟۔

نکات:

''استباق'' کے معنی یہ ہیں کہ دو یا چند آدمی ایک دوسرے سے سبقت و پہل کریں''قدّ'' لمبائی میں پھٹ جانے کو کہتے ہیں۔''لفائ'' یعنی ناگہاں پالینا۔

۶۳

پیام:

۱۔ صرف معاذاللہ کہنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ گناہ سے فرار بھی ضروری ہے۔(وَاسْتَبَقَا )

۲۔ کبھی ظاہری عمل ایک ہوتا ہے لیکن اہداف مختلف ہوتے ہیں ایک دوڑتا ہے تاکہ گناہ میں ملوث نہ ہو ،دوسرا دوڑتا ہے تاکہ گناہ سے آلودہ کردے( اسْتَبَقَا )

۳۔ گناہ کی جگہ سے فرار کرنا اور ہجرت ضروری ہے(اسْتَبَقَا الْبَابَ)

۴۔دروازے بند ہونے کا بہانہ کرنا کافی نہیں ہے بلکہ بند دروازے کی طرف بھاگنا چاہیئے شاید کھل جائے ۔(اسْتَبَقَا الْبَابَ)

۵۔ عزیز مصر کی بیوی نے اپنے شوہر کے احساس اور اس کی محبت سے خوب خوب فائدہ اٹھانا چاہا( بِأَهْلِک)

۶۔ مجرم خود کو بری الذمہ کرنے کےلئے دوسروں پر تہمت لگاتا ہے(أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوئ)

۷۔ شکایت کرنے والا کبھی کبھی خود مجرم ہوتاہے( قَالَتْ مَا جَزَائ...)

۸۔ ہمیشہ سے شوہر دار عورت پر دست درازی کوجرم شمار کیا گیا ہے( مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِکَ سُوئً)

۹۔ قید خانہ اور مجرموں کو قید کرنا تاریخی سابقہ رکھتاہے( یُسْجَنَ)

۱۰۔ عزیز مصر کی طرف سے سزا کا اعلان کرنا بیوی کی قدرت و طاقت کی علامت ہے( یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ )

۱۱۔ ہوس آلود عشق ،ایک پل میں عاشق کو قاتل بنا دیتاہے۔( یُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِیمٌ )

۶۴

آیت ۲۶:

(۲۶) قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَفْسِی وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنْ الْکَاذِبِینَ

''یوسف نے کہا : اس نے خود مجھ سے (میری خواہش کے برخلاف)میری آرزو کی تھی اور زلیخا ہی کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہی دینے والے نے گواہی دی کہ اگر ان کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹے (کیونکہ ایسی صورت میں یوسف اور عزیز مصر کی بیوی آگے سے ایک دوسرے سے درگیر ہوتے اور کرتا آگے سے پھٹتا)''

نکات:

بعض روایتوں میں آیا ہے کہ وہ گواہ ایک بچہ تھا جس نے جناب عیسی ٰ علیہ السلام کی طرح گہوارے میں گواہی دی لیکن چونکہ اس کی سند محکم نہیں ہے لہٰذا اس پر اعتبار نہیں کرسکتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ عزیز مصر کے مشاوروں میں سے ایک مشورہ دینے والے کو مانیں جو اس کی زوجہ کے خاندان سے تھا اور ذہین و ہوشمند تھا اور وہ عزیز مصر ہی کی طرح واقعہ کا گواہ ہو گیا۔ کیونکہ اگر وہ ماجرے کا عینی گواہ ہوتا تو جملہ شرطیہ کے ساتھ واقعہ کی گواہی دینا بے معنی ہو جائے گا(ان کان...) (۱) (اگرایسا...)

--------------

( ۱ )مقدسات پر تہمت لگانے کا مسئلہ قرآن مجید میں بہت جگہوں پر موجود ہے مثلاًحضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی گئی لیکن خداوند نے نجات دی ۔ پیغمبر اسلام کی بیوی پر بھی تہمت لگائی گئی اور یہاں جناب یوسف (ع)کی طرف بدکاری کی نسبت دی گئی۔

۶۵

پیام:

۱۔جناب یوسف (ع)نے بات شروع نہیں کی ۔ اگر عزیز کی زوجہ آپ (ع)پر تہمت نہ لگاتی تو شاید آپ(ع) اس کی آبروریزی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے:( هِیَ رَاوَدَتْنِی)

۲۔ جس پر تہمت لگائی جارہی ہے اس کو اپنا دفاع کرنا چاہیئے اور اصلی مجرم کو پہنچنواناچاہیئے۔( هِیَ رَاوَدَتْنِی)

۳۔ جن راہوں کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا خدائے متعال ان راہوں سے مدد فرماتاہے ۔(شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَ)

۴۔ جرم شناسی میں باریک نکات سے مسائل کو کشف کیا جاتا ہے ۔( إِنْ کَانَ قَمِیصُه...)

۵۔ قاضی قرائن کی بنیاد پر فیصلہ کرسکتا ہے۔( مِنْ قُبُل)

۶۔ بے گناہ کا دفاع واجب ہے ، خاموشی ہر جگہ اچھی نہیں ہوتی۔(شَهِدَ شَاهِدٌ)

۷۔ جب خدا چاہتا ہے تو مجرم کے رشتہ دار بھی اس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔(شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَ)

۸۔ گواہی میں حسب و نسب ، موقعیت اور رشتہ داری نہیں دیکھنی چاہئےے ۔(شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَ)

آیت ۲۷:

(۲۷) وَإِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَهُوَ مِنْ الصَّادِقِینَ

''اور اگر ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہو تو یہ جھوٹی اور وہ سچے ہیں''۔

نکات:

جناب یوسف (ع)کی داستان میں آپ (ع)کا کرتا بڑا کار ساز ہے ۔ ایک جگہ کرتہ کا پیچھے سے پھٹا ہوناآپ(ع) کی بے گناہی اور زلیخا کا جرم ثابت کر گیا ۔

۶۶

دوسری جگہ کرتہ کا نہ پھٹنا بھائیوں کے جرم کا گواہ بن گیا کیونکہ جب انہوں نے جناب یوسف (ع)کو کنویں میں ڈالنے کے بعد آپ (ع)کے پیراہن کو خون آلودکر کے باپ کی خدمت میں دکھایا اور کہا کہ جناب یوسف (ع)کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو جناب یعقوب (ع)نے پوچھا : پھر کرتہ کیوںنہیں پھٹا ؟ اور قصہ کے آخر میں بھی کرتہ باپ کی بینائی کا سبب بنا۔

پیام:

۱۔ جرم اور مجرم کی تشخیص کے لئے جرم شناسی کے طریقوں کا اپنانا ضروری ہے ۔(إِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ...)

آیت ۲۸:

(۲۸) فَلَمَّا رَأَی قَمِیصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ

''پھر جب عزیز مصر نے ان کا کرتاپیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا (تواپنی بیوی سے )کہنے لگا: یہ تم ہی لوگوں کے چلتر ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے چلتر بڑے (غضب کے)ہوتے ہیں''۔

۶۷

نکات:

کَیْدَکُنَّ سے مراد یہ ہے کہ پاک لوگوں پر تہمت لگانا اور خود سے بغیر پریشانی کے جلد از جلد تہمت کو دور کردینا۔

اگرچہ قرآن مجید نے شیطان کے کید اور فریب کو کمزور شمار کیا ہے ۔ان کید الشیطان کان ضعیفا ۔(۱) لیکن اس آیت میں عورتوں کے چلتر کو بڑا بتایا گیا ہے۔ صاحب تفسیر صافی فرماتے ہیں شیطان کا وسوسہ تھوڑی دیر کے لئے ، پیچھے سے ، غائبانہ اور چوری چھپے ہوتا ہے لیکن عورت کا فریب لطائف و محبت کے ساتھ ، سامنے سے اور دائمی ہوتاہے ۔

کبھی کبھی خدا بڑے بڑے کام چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعہ انجام دیتا ہے ۔ ابرہہ کو ابابیل کے ذریعہ سرنگوں کرتاہے ، مکڑی کے جالے سے پیغمبر اسلام کی حفاظت کرتاہے ، کوّے کے ذریعہ نسل بشر کو تعلیم دی جاتی ہے ، گود کے بچے کے ذریعہ جناب مریم (ع)کی عفت اور پاکدامنی ثابت ہوتی ہے ، پیچھے سے پھٹے ہوئے کرتے سے جناب یوسف کی پاکدامنی ثابت کرتاہے ،ہدہد کی خبر ایک ملک کو باایمان بنا دیتی ہے اور اصحاب کہف کا انکشاف پیسے کے نمونے کے ذریعہ فرماتا ہے۔

پیام:

۱۔ حق نہیں چھپتا لیکن مجرم رسوا ہوجاتا ہے( إِنَّهُ مِنْ کَیْدِکُنَّ )

۲۔ ناپاک عورتوں کے مکر و فریب سے بچنا چاہیئے کیونکہ ان کا چلتر بڑے غضب کا ہوتا ہے ۔( إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ )

--------------

( ۱ )سورہ نساء آیت ۷۶

۶۸

آیت ۲۹:

(۲۹) یُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِکِ إِنَّکِ کُنتِ مِنْ الْخَاطِئِین.

''(اور عزیز مصر نے یوسف سے کہا:)اے یوسف اس کو جانے دو (اسے کہیں اور بیان نہ کرنا)اور (اپنی بیوی سے کہا:)تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، کیونکہ بے شک تم ہی از سر تاپا خطاکاروں میں سے ہو''۔

پیام:

۱۔ عزیز مصر چاہتا تھا کہ یہ بات مخفی رہ جائے لیکن سارا جہاں اس واقعہ سے مطلع ہو گیا تا کہ جناب یوسف (ع)کی پاکدامنی ثابت ہوجائے( یُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَ)

۲۔ عزیز مصر نے بھی دوسرے کاخ نشینوں کی طرح ناموس اور غیرت کے سلسلے میں کاہلی کی اور اپنی بیوی کی سرزنش و توبیخ سنجیدگی سے نہیں کی ۔(وَاسْتَغْفِرِی)

۳۔ غیر الٰہی نمائندے اپنی بیویوں کی غیر اخلاقی حرکات پر ان کے خلاف کوئی سنجیدہ اور فیصلہ کن اقدام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔(وَاسْتَغْفِرِی)

۴۔ عورت کا اپنے شوہرکے علاوہ کسی دوسرے سے جنسی رابطہ نامشروع و ناجائز ہے ۔(وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِک)

۶۹

آیت ۳۰:

(۳۰) وَقَالَ نِسْوَهٌ فِی الْمَدِینَ امْرَ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا إِنَّا لَنَرَاهَا فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ

''اور شہر (مصر) میں عورتیں چرچا کرنے لگیں کہ عزیز (مصر) کی بیوی اپنے غلام سے (ناجائز) مطلب حاصل کرنے کی آرزومند ہے بےشک غلام نے اسے اپنی الفت میں لبھایا ہے ہم لوگ تو اسے صریح غلطی میں مبتلا دیکھتے ہیں''۔

نکات:

''شغاف '' ''دل کے اوپر پیچیدگی کو یادل کے اوپر نازک جلد جو دل کو اپنے گھیرے میں لئے رہتی ہے ''اسے کہتے ہیں اس جملہ میںشَغَفَهَا حُبًّا ،کے معنی یہ ہیں کہ دل میں محبت رچ بس گئی ہے اور عشق شدید ہو گیا ہے(۱)

ہر شخص جناب یوسف (ع)کو اپنانا چاہتاہے جناب یعقوب (ع)اپنا فرزند جانتے ہیں(یا بُنیَّ ) قافلے والے آپ (ع)کو اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں(شروه بثمن بخس) عزیز مصر آپ (ع)کو اپنا گود لیا ہوا فرزند سمجھتا ہے(نتخذه ولدا) زلیخا آپ (ع)کو اپنا معشوق سمجھتی ہے(ْ شَغَفَهَا حُبًّا) قیدی آپ (ع)کو خواب کی تعبیرکرنے والا سمجھتے ہیں(نبئنا بتاویله) لیکن خدا آپ کو اپنا برگزیدہ بندہ اور رسول سمجھتا ہے(یجتبیک ربک) اور جو کچھ جناب یوسف (ع)کے لئے رہ گیا تھا وہ مقام رسالت تھا(والله غالب علی امره)

--------------

( ۱ )تفسیر نمونہ.

۷۰

پیام:

۱۔ حکومتی افراد اور ان کے خاندان کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں ۔(قَالَ نِسْوَ امْرَ الْعَزِیز)

۲۔ جب خدا چاہتا ہے تو دروازہ بند کرنے کے بعد بھی رسوائی کا داغ دامن کردار پر لگ ہی جاتا ہے ۔(قَالَ نِسْوَ امْرَ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ...)

آیت ۳۱:

(۳۱) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّکَأً وَآتَتْ کُلَّ وَاحِدَ مِّنْهُنَّ سِکِّینًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْهِنَّ فَلَمَّا رَأَیْنَهُ أَکْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیمٌ

''تو جب زلیخا نے ان کے طعنے (اور بد گوئی) سنے تو اس نے عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کےلئے ایک تکیہ گاہ آمادہ کی اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دے دی (تاکہ پھل وغیرہ کاٹ سکیں)اور یوسف سے کہا : اب ان کے سامنے سے نکل تو ج ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ سب کی سب (بیخودی ) میں اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں پاک ہے اللہ ،یہ آدمی نہیں ہے یہ تو (ہو نہ ہو بس)ایک معزز فرشتہ ہے ''۔

نکات:

کلمہ'' حاشا'' اور''تحاشی'' کنارے اور الگ تھلگ رہنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،پرانے زمانے میں یہ رسم تھی کہ لوگ کسی کو بے عیب بتانا چاہتے تھے تو سب سے پہلے خداوندعالم کے بے عیب ہونے کو بیان کرتے پھر اس شخص کی بے عیبی کو بیان کرتے تھے۔(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر المیزان.

۷۱

پیام:

۱۔کبھی کبھی دوسروں کے مسائل پیش کرنے کا ہدف دلسوزی نہیں ہوتی بلکہ حسد و جلن، سازش اور ان کے خلاف نقشہ کشی مدنظر ہوتی ہے(مَکْرِهِنّ)

۲۔ جب عشق ہو جاتا ہے تو انسان ہاتھ کٹنے پر بھی متوجہ نہیں ہوتا ۔(قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنّ) (اب اگر آپ نے سنا کہ نماز کے وقت حضرت علی علیہ السلام کے پیروں سے تیر نکال لیا گیا لیکن آپ متوجہ نہ ہوئے تو اس پر تعجب نہ کیجئے ، اس لئے کہ اگر ظاہری حسن اور سطحی عشق ہاتھ کٹنے کی حد تک بڑھ سکتا ہے تو جمال واقعی سے گہرا عشق و محبت انسان کو کس کمال تک پہنچا سکتا ہے؟)

۳۔ فوراً کسی پر تنقید نہیں کرنی چاہیئے اس لئے کہ اگر اس کی جگہ پر آپ ہوتے تو شاید وہی کام کرتے ۔(قَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنّ) (تنقید کرنے والیوں نے جب ایک لحظہ کے لئے جناب یوسف کو دیکھا تو عزیز مصر کی بیوی کی طرح یوسف کی محبت میں گرفتار ہو گئیں۔)

۴۔کبھی کبھی مکر کا جواب مکر سے دیا جاتا ہے (عورتوں نے عزیز مصر کی بیوی کا راز فاش کرنے کی سازش کی تھی لیکن اس نے مہمان بلا کر تمام سازشوں سے پردہ فاش کردیا۔( أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنّ)

۵ ۔ بزرگ اور بزرگواری کے مقابلہ میں انسان فطری طور پر انکساری وتواضع سے پیش آتا ہے ۔(أَکْبَرْنَه)

۶۔ اہل مصر اس زمانے میں خدا اور فرشتوں پر ایمان رکھتے تھے ۔( حَاشَ لِلَّهِ مَلَکٌ کَرِیمٌ )

۷۲

آیت ۳۲:

(۳۲) قَالَتْ فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیهِ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَیُسْجَنَنَّ وَلِیَکُوناً مِّنَ الصَّاغِرِینَ

''(تب زلیخا ان عورتوں سے بولی جو اپنے ہاتھ کاٹ چکیں تھیں)بس یہ وہی تو ہے جس کے بارے تم سبمجھے ملامت کرتی تھیں اور ہاں بے شک میں اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خود اس سے آرزو مند تھی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور جس کام کا میں حکم دیتی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو ضرور قید بھی کیا جائے گا اور خوار بھی ہوگا''۔

نکات:

نفسیاتی اور معاشرتی شرائط انسان کے عکس العمل میں اثر انداز ہوتے ہیں جب زلیخا اپنے برے کام کے آشکار ہونے سے ڈری تو''غلقت الابواب'' دروازے بند کر ڈالے ،لیکن جب مصر کی عورتوں کو اپنی طرح دیکھتی ہے تو علی الاعلان کہتی ہے''انا راودته'' میں اس کی آرزومند تھی ۔

اسی طرح جب کسی معاشرے میں برائی کا احساس ختم ہوجاتا ہے تو ان کے لئے گناہ بڑے آسان ہو جاتے ہیں۔ شاید اسی کو روکنے کے لئے ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں''اللهم اغفرلی الذنوب التی تهتک العصم '' پروردگارا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو حیا کے پردے کو چاک کر دیتے ہیں ۔ کیونکہ شروع میں انسان کے لئے گناہ کرنا سخت ہوتا ہے لیکن جب حیا و شرم ختم ہوجاتی ہے تو پھر گناہ کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔

۷۳

پیام:

۱۔ دوسروں پر ایسی ملامت نہ کرو جس میں خود ہی گرفتار ہوج( فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیهِ)

۲۔گناہ سے آلودہ عشق ،رسوائی کا سبب ہوتا ہے ۔( رَاوَدتُّه)

۳۔ جھوٹا رسوا ہوتا ہے ۔ جس نے کل کہا تھا کہ یوسف (ع)بدکاری کرنا چاہتے تھے (اراد باھلک سوئ)وہی آج کہہ رہی ہے۔( لقدرَاوَدتُّه) میں نے آرزو کی تھی ۔

۴۔ کبھی دشمن بھی اپنے مدمقابل کی پاکدامنی کی گواہی دیتا ہے۔(فَاسْتَعْصَمَ) کبھی کبھی مجرم کا ضمیر بھی بیدار ہوجاتا ہے ۔

۵۔ پاکدامنی نبوت کا لازمہ ہے ۔( فَاسْتَعْصَمَ )

۶۔ بہت سے پاکدامن افراد اپنے ارادے اور قصد سے زندان میں جاتے ہیں(فَاسْتَعْصَمَ... لَیُسْجَنَنَّ) جناب یوسف اپنی پاکدامنی کے باوجود قید خانہ میں ڈال دئے جاتے ہیں۔

۷۔ قدرت و طاقت سے غلط فائدہ اٹھانا اہل طاغوت کا طریقہ کار ہے۔(لَیُسْجَنَن)

۸۔ قید اور رسوا ئی کی دھمکی ،اہل طاغوت کا وطیرہ و حربہ ہے ۔( لَیُسْجَنَنَّ... الصَّاغِرِین)

۹۔ ناکام عاشق دشمن ہو جاتا ہے ۔( قَالَت...لَیُسْجَنَنَّ وَلِیَکُوناً مِنَ الصَّاغِرِینَ)

۱۰۔ محل میں رہنے والوں میں غیرت کی حس ختم ہوجاتی ہے( عزیز مصر نے اپنی بیوی کی خیانت کو سمجھ لیا تھا اور اس سے توبہ کرنے کے لئے بھی کہا تھا لیکن اس کے باوجود جناب یوسف (ع)اور زلیخا کے درمیان جدائی نہ ڈالی)

۷۴

آیت ۳۳:

(۳۳) قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْهِ وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی کَیْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَیْهِنَّ وَأَکُنْ مِّنَ الْجَاهِلِینَ.

''(یہ سب باتیں سن کر یوسف نے)عرض کی اے میرے پالنے والے جس بات کی یہ عورتیں مجھ سے خواہش رکھتی ہیں اس کی نسبت مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اور اگر تو ان عورتوں کا فریب مجھ سے دفع نہ فرمائے گا تو (مبادا)میں ان کی طرف مائل ہوجں اور جاہلوں سے شمار کیا جں''۔

نکات:

جناب یوسف (ع)،سراپا جواں مرد تھے۔ ایک بار بھائیوں کی حسادت کے نتیجے میں فدا ہوئے لیکن دشمنی نہیں کی ۔دوسری مرتبہ زلیخا کی شہوت کی وجہ سے قربان ہوئے لیکن گناہ نہیں کیا ۔ تیسری دفعہ قدرت کے وقت آپ (ع)نے اپنے بھائیوں سے انتقام نہیں لیا۔ چوتھی مرتبہ جیسے ہی ملک کوخطرے میں دیکھاتو وطن لوٹنے کی خواہش کے بجائے ملک کی نجات اور اقتصادی امور کی تدبیر میں لگ گئے ۔

ہر شخص کے لئے کوئی نہ کوئی چیز محبوب ہوتی ہے جناب یوسف (ع)کو اپنی پاکدامنی، عورتوں کی آرزں سے زیادہ محبوب ہے۔ ایک گروہ کےلئے دنیا زیادہ محبوب ہےیستحبون الحیوٰ الدنیا (۱) اور مومنین کے لئے اللہ محبوب تر ہے ۔والذین آمنوا اشد حبّاً للّٰ ہ(۲)(۳)

--------------

( ۱ )سورہ ابراہیم آیت ۳

( ۲ )سورہ بقر آیت ۱۶۵

( ۳ )واضح ہے کہ جناب یوسف(ع) کامرتبہ اس سے بھی بلند و بالا ہے ۔ مترجم.

۷۵

پیام:

۱۔ خداکی ربوبیت کی طرف متوجہ ہونا آداب دعا میں سے ایک ادب ہے۔ (رَبِّ )

۲۔ اولیائے خدا شریفانہ زندگی کی پریشانیوں کو،گناہوں میں ملوث آرام دہ زندگی سے بہتر سمجھتے ہیں ۔( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ )

۳۔ہر آزادی کی اہمیت و عظمت نہیں ہے اور ہر قید خانہ عیب کا باعث نہیں ہے( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ)

۴۔ انسان، خداکی مدد کی بنیاد پر ہر قسم کے حالات اور شرائط میں گناہ سے کنارہ کشی کرسکتا ہے( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ) (گناہ کے ماحول سے ہجرت ضروری ہے)

۵۔ رنج ومحن گناہ کے مرتکب ہونے کا جواز نہیں ہوسکتے۔( رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ ...)

۶۔ گناہ اور جنسی انحرافات سے محفوظ رہنے کےلئے خدا سے دعا اور مدد مانگنی چاہیئے(رَبِّ السِّجْنُّ ...)

۷۔ انسان کی شخصیت اسکی روح سے وابستہ ہے نہ کہ اسکے جسم سے اگر روح آزاد ہو تو زندان بھی بہشت ہے اور اگر روح تکلیف میں ہو تو محل سرا بھی قید خانہ ہوتا ہے( السِّجْنُ أَحَبّ)

۸۔یا تو تمام عورتیں جناب یوسف (ع)کی عاشق ہو گئیں اور ان تک پیغام بھجوایا یا پھر انہوں نے جناب یوسف (ع)کو عزیز مصر کی بیوی کی درخواست قبول کرنے کے لئے کہا(کَیْدَهُنَّ ، یَدْعُونَنِی)

۷۶

۹۔ کوئی بھی انسان لطف خدا کے بغیر ،گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتاہے۔(وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّی...) بحرانی مواقع میں تنہا راہ نجات خدا پر بھروسہ ہے۔

۱۰۔الٰہی امتحان لحظہ بہ لحظہ سخت سے سخت تر ہوتا جاتا ہے جناب یوسف (ع)پہلے ایک عورت کے مکر میں گرفتار تھے اب کئی عورتوں کے مکر میں گرفتار ہوگئے( کَیْدَهُنَّ ، إِلَیْهِنَّ)

۱۱۔ خدا کی ناراضگی مول لے کر لوگوں کو راضی کرنا ،جہالت اور نادانی ہے۔(مِمَّا یَدْعُونَنِی وَأَکُنْ مِنْ الْجَاهِلِینَ)

۱۲۔ گناہ ؛ وہبی اور خدا دادی علم کے سلب ہونے کا باعث بنتا ہے۔(اتیناه علما وحکما...اکن من الجاهلین)

۱۳۔ صرف علم کا نہ ہونا جہالت نہیں ہے بلکہ ایک لحظہ کی لذت کا انتخاب کرنا اور رضائے الٰہی سے چشم پوشی بھی سب سے بڑی نادانی ہے۔(اکن من الجاهلین)

۷۷

آیت ۳۴:

(۳۴) فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ کَیْدَهُنَّ إِنَّهُ هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ

''تو ان کے پروردگار نے ان کی سن لی اور ان سے عورتوں کے مکر کو دفع کردیا اس میں شک نہیں کہ وہ بڑا سننے والا واقف کار ہے''۔

پیام:

۱۔اللہ والےمستجاب الدعوات ہوتے ہیں۔( فَاسْتَجَابَ لَهُ)

۲۔ جو شخص بھی خدا کی پناہ گاہ میں چلاجائے وہ ہر چیز سے محفوظ رہتا ہے۔(فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ کَیْدَهُنَّ )

۳۔ استجابت دعا خدا کےسمیع و بصیرا ورعلیم ہونے کی دلیل ہے۔(فَاسْتَجَاب هُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ )

آیت ۳۵:

(۳۵) ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّهُ حَتَّی حِینٍ

''پھر (عزیز مصر اور اس کے لوگوں نے )باوجودیکہ (یوسف کی پاکدامنی کی )نشانیاں دیکھ لی تھیں اسکے بعد بھی ان کو یہی مناسب معلوم ہوا کہ کچھ مدت کے لئے ان کو قید ہی کر دیں''۔

۷۸

پیام:

۱۔ حسن و خوبصورتی ہمیشہ خوش بختی نہیں ہے بلکہ )کبھی کبھی( درد سر بھی بن جاتا ہے ۔( ثُمَّ بَدَا لَهُمْ لَیَسْجُنُنَّهُ )

۲۔ ایک دیوانہ اگر کنویں میں ایک سوئی ڈال دے توسو(۱۰۰) عقلمند مل کر بھی باہر نہیں نکال سکتے ایک عورت عاشق ہو گئی لیکن اتنے مرد اور حکومتی افراد مل کر بھی اس رسوائی سے بچنے کے لئے کوئی فکر اور تدبیر نہ کر سکے۔(بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوْ)

۳۔ اہل طاغوت کے درباروں اور محلوں میں عدالت کا نفاذ اور محاکمہ دکھاوے کے لئے ہوتاہے تاکہ بے گناہ لوگوں کو محکوم کیا جا سکے ۔( لَیَسْجُنُنَّهُ)

۴۔ کاخ نشین عام طور پر لا پرواہ اور بے شرم ہوتے ہیں ۔( مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآیَاتِ لَیَسْجُنُنَّهُ ) جناب یوسف کی پاکدامنی کی ان تمام دلیلوں کے باوجود آپ کو قید خانہ میں ڈال دیتے ہیں۔

۷۹

آیت ۳۶:

(۳۶) وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَیَانِ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّی أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّی أَرَانِی أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِی خُبْزًا تَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْهُ نَبِّئْنَا بِتَأْوِیلِهِ إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ

''اور قید خانے میں یوسف کے ساتھ دو جوان بھی داخل ہوئے (چند دن کے بعد)ان میںسے ایک نے کہا کہ میںنے (خواب) دیکھا ہے کہ میں شراب (بنانے کے واسطے انگور) نچوڑ رہا ہوں اور دوسرے نے کہا (میں نے بھی خواب میں)اپنے کو دیکھاکہ میں اپنے سرپر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے اس میں سے کھا رہے ہیں (یوسف) ہمیں اس کی تاویل بت ،یقینا آپ ہمیں ایک نیک انسان نظر آتے ہیں ''۔

نکات:

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جناب یوسف (ع)کو نیک انسان کہنے کی وجہ یہ تھی آپ (ع)قید خانہ میں مریضوں کی خدمت کرتے تھے اور محتاجوں کی مشکلات کو دور کرنے نیز تمام لوگوں کی مشکل حل کرنے کی سعی فرماتے تھے(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر نور الثقلین ۔ میزان الحکم مادہ (سجن)

۸۰

پیام:

1۔ تاریخی طور پر قیدی اور قید خانہ کا سابقہ بہت قدیمی ہے ۔( وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ)

2۔ جناب یوسف (ع)کا قید خانہ ،عمومی تھا۔( مَعَهُ السِّجْن)

3۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے۔ قرآن کریم جناب یوسف (ع)کے قیدی ساتھیوں کو

(فتیان) کہہ رہا ہے ۔

4۔ تمام خوابوں کو آسان نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ بعض خوابوں میں اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں(أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرً) ۔(ممکن ہے کہ معمولی انسان بھی اہم خواب دیکھ لیں)

5۔ اگرانسان کسی پر اعتماد کرلیتاہے تو اسکو اپنے تمام راز بتا دیتاہے( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

6۔نیک سیرت افراد قید خانہ میں بھی دوسروں کو متاثر کردیتے ہیں( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

7۔ مجرم اور گناہ کار لوگ بھی نیک طینت افراد کے لئے ایک خاص مقام و منزلت کے قائل ہوتے ہیں ۔( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

۸۱

آیت 37:

(37) قَالَ لاَیَأْتِیکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلاَّ نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَکُمَا ذَلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِی رَبِّی إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ بِاﷲِ وَهُمْ بِالْآخِرَ هُمْ کَافِرُونَ.

''یوسف نے کہا : اس سے پہلے کہ جو کھانا تمہیں (قید خانہ سے ) دیا جاتا ہے وہ آئے میں تمہیں اسکی تعبیر بتادوں گا یہ (تعبیر خواب بھی)منجملہ ان باتوں میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم فرمائی ہیں،میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو خدا پرایمان نہیں لاتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں ''۔

نکات:

آیت کے ترجمے کے پہلے حصے میں یہ احتمال ہے کہلاَیَأْتِیکُمَا ... کا مقصود یہ ہو کہ میں خدا کی طرف سے جانتا ہوں کہ وہ غذا جو تمہارے لئے لائیں گے وہ کیا ہے ۔ لہٰذا میں تمہارے خواب کی تعبیر بھی کرسکتا ہوں یعنی جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب کے علاوہ دوسری چیزوں کی بھی خبردی ہے جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھروںمیںجو کچھ غذں کا ذخیرہ ہوتا تھا اور جو لوگ جو کچھ کھاتے تھے سب کی خبر دے دیتے تھے ۔

۸۲

سوال:جناب یوسف (ع) نے ان کے خواب کی تعبیر فوراً کیوںنہیں بتائی بلکہ اس کو کچھ دیرکے لئے مخر کیوںکردیا؟ اس سوال کے جواب کو فخر رازی کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے:

1۔جناب یوسف (ع)ان کو انتظار میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ اس مدت میں ان کو نصیحت اور تبلیغ کرسکیں تاکہ شاید وہ شخص جس کو پھانسی دی جانے والی ہے وہ ایمان لے آئے اور باایمان اور عاقبت بخیر اس دنیا سے کوچ کرے ۔

2۔جناب یوسف (ع)اس غذا کی قسم کو بیان کر کے جو ابھی نہیں آئی تھی ا نکا اعتماد حاصل کرنا چاہتے تھے ۔

3۔جناب یوسف (ع)ان کو زیادہ تشنہ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح سنیں ۔

4۔چونکہ ان میں سے ایک کے خواب کی تعبیر پھانسی تھی لہٰذا دھر ادھر کی باتیں کررہے تھے تاکہ یہ بات سنتے ہی اس کی روح پرواز نہ کرجائے۔

۸۳

پیام:

1۔ کبھی کبھی زیادہ متاثر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان علمی قدرت اور کمالات کو دوسروں سے بیان کرے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ)

2۔ فرصت سے خوب فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ... إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ...) جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب سے پہلے انکی تربیت اور عقیدہ کی اصلاح شروع کی۔

3۔ اپنی معلومات اور علم کو خدا کی عطا قرار دینا چاہیئے ۔(عَلَّمَنِی رَبِّی )

4۔ تعلیم کاہدف تربیت بھی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی )

5۔ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا بغیر کسی وجہ کے اپنے علم کے دروازے ہر کس و ناکس پر نہیں کھولتا(عَلَّمَنِی رَبِّی ) اس لئے کہ میں نے( تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ) اس قوم کے عقیدہ کو چھوڑ دیا جو ایمان دار نہیں ہے ۔

6۔جو کفر کی ظلمتوں سے فرار کرتا ہے اسکی نور ِعلم تک رسائی ہوتی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی... إِنِّی تَرَکْتُ) میرے علم کا سبب کفر کو ترک کرنا ہے ۔

7۔ تمام ادیان آسمانی میں توحید اور معاد کا عقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم ہے ۔(قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ بِاﷲِ وَهُمْ بِالْآخِرَ هُمْ کَافِرُونَ )

8۔ ایمان کی بنیاد تولیٰ اور تبرا ہے لہٰذا اس آیت میں کفار سے برائت اور بعد والی آیت میں اولیاء الٰہی سے تولیٰ کا تذکرہ ہے۔(إِنِّی تَرَکْتُ...واتبعت)

۸۴

آیت 38:

(38)وَاتَّبَعْتُ مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ مَا کَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْءٍ ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ

''اور میں تو اپنے باپ دادا ابراہیم و اسحاق و یعقوب کے مذہب کا پیرو ہوں ہمارے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم خدا کے ساتھ کسی چیز کو (اس کا) شریک بنائیں یہ بھی خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے ہم پر بھی اور تمام لوگوں پر، مگر بہترے لوگ (اس کا)شکر (بھی )ادا نہیں کرتے''۔

نکات:

خاندانی شرافت جس طرح لوگوں کی شخصیت سازی میں موثر ہے اسی طرح قبول کرنے میں بھی اثر انداز ہے لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام خود کو پہچنوانے کےلئے نہ صرف اپنے باپ دادا کے انبیاء (ع)ہونے پر انحصار کررہے ہیں بلکہ اپنی خاندانی شرافت و عظمت کو پیش کرنے کےساتھ ہی ساتھ اپنی دعوت حق کی اہمیت کو بھی اجاگر کر رہے ہیں یہ وہی روش ہے جسے اپنا تعارف کروانے کےلئے ہمارے پیغمبر (ص) نے اختیار فرمایا : میں وہی نبی امی ہوں جسکا نام و تعارف توریت و انجیل میں موجود ہے ۔ نیز امام حسین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام نے بھی کربلا و شام میں اپنی معرفت کروانے کےلئے اسی روش سے استفادہ فرمایا تھا:(انا بن فاطم الزهر(ع) (1) ۔

کلمہ ''ملت'' قرآن مجید میںدین و مذہب کے معنی میں استعمال ہوا ہے سورہ حج کی 78 ویں آیت میں مل ابراھیم کی تصویر کشی اسطرح کی گئی ہے ''اور خدا کی راہ میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے اس( خدا)نے تمہیں منتخب کیا اور دین کے معاملہ میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا ،یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے .۔۔لہٰذا نماز قائم کرو اور زکو دیا کرو اوراللہ کے ساتھ متمسک رہو۔۔''

--------------

( 1 )میں فرزند فاطمہ الزہرا (ع)ہوں۔

۸۵

پیام:

1۔ حق تک پہنچنے کے لئے باطل کی شناخت اور اسے ترک کرنا ضروری ہے(تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّ...)

2۔ دادا ، باپ کے حکم میں ہے لہٰذا دادا کو بھی ''اب ''کہا گیا ہے ۔( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ)

3۔انبیاء (ع)کو پاک اور شریف خاندان سے ہونا چاہیئے( آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ...)

4۔تمام انبی(ع)ء ِالٰہی کا ہدف ایک ہے( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ...)

5۔نبوت اور ہدایت تمام بشریت کےلئے توفیق اور فضل الٰہی ہے(عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ )

6۔ منفی راہوں کے ساتھ مثبت راستوں کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے۔(تَرَکْتُ مِلَّ... وَاتَّبَعْتُ مِلَّ ...)

7۔ توحید کی طرف رجحان اور شرک سے پرہیز کے لئے ''توفیق الہی''ضروری ہے۔(ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ ...)

8۔ شرک تمام صورتوں میں قابل مذمت ہے (ذات ، صفات ، افعال اور عبادات)( مِنْ شَیْئٍ)

9۔ ''کثرت افراد ''شناخت کے لئے صحیح معیار نہیں ہے(أَکْثَر النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ)

10۔ انبیاء (ع)کی راہ سے روگردانی بہت بڑی کفران نعمت ہے ۔( لاَیَشْکُرُونَ)

11۔ شرک کرنا ، خداتعالیٰ کی ناشکری ہے( لاَیَشْکُرُونَ)

۸۶

آیت 39:

(39) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ أَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ.

''اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (ذرا غور تو کرو کہ) بھلا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا خدائے یکتا زبردست''۔

انسانو ں کی تین قسمیں ہیں :

1۔ ''قالب پذیر'' یعنی جن کی اپنی کوئی شکل نہ ہو جیسے پانی اور ہوا ، جس قالب میں ڈالیں وہی شکل اختیار کرلیں گے ۔

2۔ نفوذ ناپذیر اور مقاومت کرنے والے جیسے لوہا جو بیرونی طاقت کے مقابلے میں سختی سے مقابلہ کرتا ہے۔

3۔ لیکن تیسری قسم ان افراد کی ہے جو دوسروں پر اثرانداز ہوتے ہیں جیسے ''امام اور رہبر''جو دوسروں کو خدائی رنگ میں رنگ دیتے ہےں حضرت یوسف علیہ السلام انسانوں کی اس تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ قید خانہ میں مشرک کو موحد بنا رہے ہیں ۔

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر سوالات اور تقابلی جائزہ لینے کی روش سے استفادہ کیا گیا ہے خداوندعالم کے سلسلے میں اس کے بعض نمونے قابل توجہ ہیں ۔

(هل من شرکائکم من یبدأالخلق ثم یعیده) (1) کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو خلقت کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے ؟( هل من شرکائکم من یهدی الی الحق ) (2) کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے ؟(أ غیر الله ابغی رباً وهو رب کل شی) (3)

آیا خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدا کو قبول کرلوں حالانکہ وہی تمام چیزوں کا پروردگار رہے؟(ءَ اﷲ خیر اما یشرکون ) (4) اللہ بہتر ہے یا وہ جس کو (خدا کا) شریک بنا رہے ہیں؟

--------------

( 1 )سورہ یونس آیت 34

( 2 ) سورہ یونس آیت 35

( 3 ) سورہ انعام آیت 164

(4) سورہ نمل آیت 59

۸۷

پیام:

1۔ لوگوں کو پیار محبت سے دعوت دیں( یَاصَاحِبَیِ)

2۔ حساس زمان و مکان سے تبلیغ کےلئے استفادہ کرنا چاہیئے ۔( یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ .)

(قید خانہ میں جیسے ہی حضرت یوسف (ع) نے مشاہدہ کیا کہ یہ لوگ تعبیر خواب کے محتاج ہیں فوراً اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس سے تبلیغ کے لئے فائدہ اٹھایا )

3۔سوال و جواب اور تقابلی جائزہ ،ارشاد و ہدایت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔( أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ...)

آیت 40:

(40) مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ مَا أَنزَلَ اﷲُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ.

''(افسوس) تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر بس ان چند ناموں ہی کی پرستش کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گڑھ لیاہے ،خدا نے تو ان کے لئے کوئی دلیل نہیں نازل کی ، حکومت تو بس خدا ہی کے واسطے (خاص)ہے اس نے (تو)حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی مستحکم دین ہے مگر (افسوس) بہتیرے لوگ نہیں جانتے''۔

۸۸

پیام:

1۔خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدں کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ صرف تمہارے اور تمہارے بزرگوں کی خیال پروری ہے ۔( مَا تَعْبُدُونَ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ)

2۔ بہت ساری طاقتیں، کمیٹیاں ، انجمنیں، ادارے ، سیمنار، قراردادیں، ملاقاتیں ، حمایتیں، اطاعتیںاور دوسرے عناوین و القاب ''بے مسمی'' اسم اور ہمارے جدید دور کے بت ہیں جن کو ہم نے خود بنایا ہے اور خدا کے بجائے ان کے گرویدہ ہوگئے ہیں ۔( مَا تَعْبُدُونَ...إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا )

3۔ انسان کے عقائد عقلی اور شرعی دلائل پر استوار ہونے چاہییں۔( مِنْ سُلْطَانٍ)

4۔ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے حکم پر فروتنی کا مظاہرہ نہ کیجئے کیونکہ حکم صادر کرنے کا حق فقط خدا کو ہے ۔( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ )

5۔ خدا کے قانون کے علاوہ ہر قانون متزلزل ہے ۔(ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ)

6۔ جہالت و نادانی شرک کا باعث بنتی ہے۔(لاَیَعْلَمُونَ)

7۔ اکثر و بیشتر لوگ جاہل ہیں ۔( أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ) ( یا تو جاہل بسیط ہیں یعنی اپنی نادانی سے واقف ہےں یا جہل مرکب ہیں یعنی اپنے گمان میں عالم ہے حالانکہ حقیقت میں جاہل ہےں)

۸۹

آیت 41:

(41) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُکُمَا فَیَسْقِی رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّأْسِهِ قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیهِ تَسْتَفْتِیَانِ

''اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (اچھا اب تعبیر خواب سنو)تم میں سے ایک (جس نے انگور دیکھے ہیں، رہا ہو کر)اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا (جس نے روٹیاں سر پر دیکھی ہیں)سولی پر چڑھایا جائےگا اور پرندے اس کا سر (نوچ نوچ کر)کھائیں گے جس امر کو تم دونوں دریافت کرتے ہو (وہ یہ ہے اور) اس کا فیصلہ ہو چکا ہے''۔

نکات:

کلمہ'' ربّ'' حاکم، مالک اورارباب کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔ بطور مثال ''رب الدار'' یعنی مکان کا مالک۔ پس اس جملہ''فَیَسْقِی رَبَّهُ خمراً'' کا معنی ''اپنے حاکم کو شراب پلائے گا''ہوگا۔

پیام:

1۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ وہ آپ کے ہم فکر نہ ہوں۔(یَا صَاحِبَی)

2۔ نوبت اورباری کی رعایت کرنی چاہیئے( أَمَّا أَحَدُکُمَا...) (پہلے وہ جس نے پہلے خواب کا تذکرہ کیا تھا)

3۔ بعض خوابوں کی تعبیر بہت اہم ہو سکتی ہے اگرچہ اس کا دیکھنے والا مشرک ہی کیوں نہ ہو ۔(فَیَسْقِی رَبَّهُ خَمْرً)

4۔ حضرت یوسف (ع) کا خواب کی تعبیر بیان کرنا قیاس یا پیش بینی نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے قطعی خبر ہے۔( قُضِیَ الْأَمْرُ)

۹۰

آیت 42:

(42) وَقَالَ لِلَّذِی ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ ذِکْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِینَ

''اور ان دونوں میں سے جس کی نسبت یوسف نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے کہا : اپنے مالک (عزیز مصر)کے پاس میرا تذکرہ کرنا مگر شیطان نے اسے اپنے آقا سے (یوسف کا)ذکر کرنا بھلا دیا یوں یوسف قید خانہ میں کئی برس رہے ''۔

نکات:

''ظَنّ'' علم و اعتقاد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے چونکہ حضرت یوسف (ع) نے گذشتہ آیت میں یقین و صراحت کے ساتھ ایک قیدی کی آزادی اور دوسرے کو سزائے موت کی خبر دی ہے لہٰذا یہاں پر ''ظن' 'کے معنی گمان اور شک و تردید کے نہیں ہیں۔

کلمہ'' بِضْعَ'' دس سے کم عدد کے لئے استعمال کیاجاتاہے اوراکثر مفسرین نے حضرت یوسف (ع)کی قید کی مدت سات سال ذکرکی ہے(والله اعلم)

بعض تفسیروں میں اس جملہ'' فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ'' کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے: ''شیطان نے پروردگار کی یاد کو جناب یوسف(ع) کے ذہن سے بھلا دیا اور آپ (ع)نے خدا سے مدد طلب کرنے کے بجائے بادشاہ کے ساقی سے مدد چاہی'' یہ حضرت یوسف (ع)کا ترک اولی تھا لہٰذا چند سال مزید آپ(ع) زندان میں رہے مگر صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی (رح)تحریر فرماتے ہیں کہ ایسی روایات قرآن مجید کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ قرآن مجید نے حضرت یوسف (ع)کو مخلصین میں شمار کیا ہے اور مخلصین تک شیطان کی رسائی نہیں ہے اس کے علاوہ 45ویں آیت میں آیا ہے کہ''َقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْهُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ ''ان دو قیدیوںمیں سے جس (قیدی)نے رہائی پائی تھی اسے بڑی مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی۔ یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ فراموشی، ساقی سے مربوط ہے حضرت یوسف (ع)سے نہیں۔

۹۱

پیام:

1۔ انبیاء (ع)بھی معمولی راستوں سے اپنی مشکلات حل کرنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں اور یہ توحید و توکل الٰہی کے منافی بھی نہیںہے۔(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ)

2۔ ہر تقاضا رشوت نہیں ہے(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ) جناب حضرت یوسف (ع)نے ہدایت اور تعبیر خواب کے لئے کوئی اجرت اور رشوت کی درخواست نہیں کی بلکہ فرمایا کہ میری مظلومیت کی خبر بادشاہ تک پہنچادو۔

3۔عام طور پر لوگ کسی مرتبے ، مقام اور آسائش کے بعد پرانے دوستوں کو بھول جاتے ہیں ۔( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)

4۔ حضرت یوسف (ع)کا قید خانہ سے نکلنا اور تہمت سے بری ہونا، شیطان کے اہداف کے خلاف تھا لہٰذا اس نے جناب یوسف (ع)کی یاد کو ساقی کے ذہن سے محو کرنے کی سازش کی( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)

آیت 43:

(43) وَقَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ یَاأَیُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِی فِی رُیَای إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ

''اور (ایک دن)بادشاہ نے (بھی خواب دیکھا اور)کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انکو ساتھ دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی سبز بالیاں اور (سات) سوکھی خشک بالیاں خواب میں دیکھی ہیں اے (میرے دربار کے)سردارو! اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہے تو میرے (اس) خواب کے بارے میں نظریہ پیش کرو''۔

۹۲

نکات:

ابھی تک اس سورہ میں تین خواب ذکر ہوئے ہیں(1) خود حضرت یوسف (ع)کا خواب(2) قید خانہ کے رفیقوں کا خواب(3) بادشاہ مصر کا خواب۔

پہلا خواب آپ (ع) کے لئے پریشانی کا سبب بنا لیکن دوسروں کے خوابوں کی تعبیر کا بتانا آپ(ع) کےلئے عزت و شرف کا باعث بنا۔ توریت میں آیا ہے کہ ایک بار بادشاہ نے دیکھا کہ لاغر اور کمزور گائیں موٹی تازی گائیوں کو کھائے جارہی ہیں اور دوسری مرتبہ دیکھا کہ سبز بالیاں خشک بالیوں کےساتھ ہیں(1)

--------------

( 1 )تفسیر المیزان.

۹۳

آیا عزیز مصر وہی بادشاہ مصر ہے یا دوالگ الگ شخصیات ہیں ؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے چونکہ اس بحث کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے لہٰذا ہم اس بحث سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

کتاب ''روضہ کافی'' میں ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں :

1۔خدا کی طرف سے خوشخبری۔

2۔شیطان کی طرف سے وحشت زدہ کرنا ۔

3۔ بے سروپا اور پریشان کرنے والے خواب۔

پیام:

1۔ ایک ظالم بادشاہ کے خواب دیکھنے سے خدا ایک قوم کو خشک سالی سے نجات دیتا ہے (بشرطیکہ تعبیر بتانے والا یوسف(ع) ہو)۔(قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی)

2۔ بادشاہ مصر نے اپنے تعجب آور خواب کو کئی بار دیکھا تھا۔(أَرَی)

3۔ رسا اور صاحب قدرت افراد تھوڑی سی ناگواری سے خطرے کا احساس کرنے لگتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے قدرت چھین لی جائے ۔(قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی ...أَفْتُونِی فِی رُیَای)

4۔ تعبیر خواب کے لئے اہل کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ہر کس و ناکس کی تعبیر پر اعتماد اور توجہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(أَفْتُونِی إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ)

۹۴

آیت 44:

(44) قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ

''ان لوگوں نے عرض کی یہ تو پریشان خوابوں میں سے ہے اور ہم لوگ اس قسم کے پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے''۔

نکات:

لفظ''اضغاث'' ضَغث کی جمع ہے جو ''مخلوط کرنے'' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور''ضغث'' لکڑی کے گٹھڑ کوبھی کہتے ہیں، لفظ''احلام'' حلم کی جمع ہے جو پریشان خواب کے معنی میں ہے''اضغاث احلام'' یعنی وہ پراکندہ اور پریشان خواب جس کا سرا تعبیر کرنے والوں کی سمجھ سے باہر ہو۔

پیام:

1۔اپنی جہالت اور نادانی کی توجیہ نہیں کرنی چاہیئے چونکہ اہل دربار خواب کی صحیح تعبیر سے ناواقف تھے لہٰذا بادشاہ کے خواب کو پریشان خواب کہہ دیا ۔(قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ )

2۔ ہر کام کو اس کے اہل کے سپرد کرنا چاہیئے (ماہر محقق اور دانشمند ، تعبیر خواب کرتا ہے لیکن جو اس سے نابلد ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ خواب پریشان ہے جو قابل تعبیر نہیں ہے)۔(مَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ )

۹۵

آیت 45:

(45) وَقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْهُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِهِ فَأَرْسِلُونِ

''اور جس (قیدی )نے ان دونوں( قیدیوں)میں سے رہائی پائی تھی اور اسے ایک زمانہ کے بعد (یوسف کا قصہ) یاد آیا ،بول اٹھا کہ مجھے (قید خانہ تک)جانے دیجئے تو میں اس کی تعبیر بتائے دیتا ہوں'' ۔

نکات:

''ام'' اگرچہ انسانوں کے اجتماع کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں پر ایام (مدتوں)کے اجتماع کے معنی میں استعمال ہوا ہے(1) ۔

پیام:

1۔ اچھائیاں اپنے اثرات کو دیر یا سویر آشکار کر ہی دیتی ہیں ۔(ادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ)

2۔ صاحبان علم کو معاشرے کے سامنے پہچنوائیں تاکہ لوگ ان سے بہرہ مند ہوسکیں۔(فَأَرْسِلُونِ)

3۔ بعض محققین بڑی سخت زندگی گزار رہے ہیں ان سے غافل نہیں ہونا چاہیئے۔(فارْسِلُونِ)

--------------

( 1 )تفسیر کبیر وتفسیرالمیزان.

۹۶

آیت 46:

(46) یُوسُفُ أَیُّهَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَا فِی سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ لَعَلِّی أَرْجِعُ إِلَی النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُونَ

''(غرض وہ گیا اور یوسف سے کہنے لگا)اے یوسف اے بڑے سچے (یوسف) ذرا ہمیں یہ تو بتائےے کہ سات موٹی تازی گائیوں کو سات دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی ہری بالیاں اور پھر سات سوکھی مرجھائی ہوئی (اس کی تعبیر کیا ہے)تا کہ میں لوگوں کے پاس پلٹ کر جں (اور بیان کروں)تا کہ ان کو بھی (تمہاری قدر اور اس خواب کی حقیقت)معلوم ہوجائے''۔

۹۷

نکات:

' صدّیق' اس شخص کو کہتے ہیں جس کی رفتار و گفتار اور عقیدہ سب ایک دوسرے کی تصدیق کریں ۔چونکہ حضرت یوسف (ع)کے دوست ان کی رفتار و گفتار کا قید خانہ میں مشاہدہ کرچکے تھے اور دوسری طرف اس شخص نے اپنے اور اپنے ساتھی کے خواب کی تعبیر کو واقع کے مطابق پایا تھا لہٰذا حضرت یوسف (ع)کو صدیق کہہ کر پکارا ۔

خداوندعالم نے حضرت ابراہیم (ع)کو صدیق کہا تو انہیں اپنا خلیل بنا لیا(واتخذ الله ابراهیم خلیلا) (1)

حضرت مریم (ع)کو صدیقہ کہا توانہیں برگزیدہ بنا دیا(ان اﷲاصطفاکِ) (2) اورحضرت یوسف (ع)کو صدیق کہا تو ان کو ہر طرح کی قدرت عطا کر دی(وکذلک مکّنا لیوسف ) (3)

حضرت ادریس (ع)کو صدیق کہا تو بلند مقام تک پہنچا دیا(و رفعناه مکاناًعلیاً) (4) اور جو لوگ اس درجہ کے لائق نہیں ہیں انہیں صدیقین اور سچوں کے ساتھ رہنا چاہیئے(فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیهم من النبیین والصدیقین...) ۔(5)

'' صدّیق'' ان القاب میں سے ایک لقب ہے جسے پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے۔(6)

ایک احتمال یہ ہے کہ جملہ''لعلهم یعلمون'' کا مقصود لوگوں کو حضرت یوسف کی

ارزش و اہمیت سے واقف کرنا ہو یعنی میں لوگوں کی طرف پلٹوں تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ آپ کیسے گوہر نایاب ہیں۔

--------------

( 1 )سورہ نساء آیت 125

( 2 ) سورہ آل عمران آیت 42

( 3 ) سورہ یوسف آیت 56

( 4 )سورہ مریم آیت 57

( 5 )سورہ نساء آیت 69

( 6 )تفیسر اطبیب البیان و تفسیر الکبیر سورہ مومن آیت 28 کے ذیل میں.

۹۸

پیام:

1۔ درخواست سے پہلے مناسب ہے کہ شخص کے ذاتی کمالات کو بیان کریں۔(أَیُّهَا الصِّدِّیقُ )

2۔ اپنے سوالات اور مشکلات کو ایسے لوگوں کے سامنے پیش کریں جن کا سابقہ اچھا ہو اور وہ سچے ہوں۔( أَیُّهَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَ)

آیت 47:

(47)قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوْهُ فِی سُنْبُلِهِ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ

''(یوسف نے جواب میں )کہا (اسکی تعبیر یہ ہے)کہ تم لوگ متواتر سات برس کاشتکاری کرتے رہو گے توجو (فصل)تم کاٹو اس (کے دانہ) کو بالیوں ہی میں رہنے دو (چھڑانا نہیں)مگر وہ تھوڑا (بہت) جو تم خود کھ ''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع)نے اپنے قیدی ساتھی سے بغیر کسی گلے شکوے کے کہ مجھے کیوں بھول گئے ؟ بادشاہ کے خواب کی تعبیر فوراً بتادی کیونکہ علم و حکمت کا چھپانا بالخصوص ایسے مواقع پر کہ جب لوگ( بلکہ معاشرہ) اس کے بہت زیادہ محتاج ہوں ایک پاک اور نیک خصلت انسان کی شان کے خلاف ہے۔

حضرت یوسف (ع) تعبیر خواب کے بجائے اس خشک سالی سے مقابلہ کرنے کے طریقے تفصیلی طور پر بیان فرما رہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ میں خوابوں کی تعبیر کے علاوہ منصوبہ بندی اور انتظامی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہوں ۔

زراعت کا علم ، ذخیرہ سازی کی سیاست اورخرچ کرنے میں صرفہ جوئی سے کام لینے کے حکمت آمیز پیغامات اس آیت میں واضح طورپر بیان کیے گئے ہیں ۔

۹۹

پیام:

1۔خدائی افراد کو لوگوں کی فلاح و بہبود اور آرام و آسائش کے متعلق ہمیشہ غور و فکر کرنا چاہیئے نیز طویل مدت اور کم مدت کے پروگرام بھی پیش کرنے چاہئیں ۔( تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ )

2۔اگر گیہوں اپنی بالیوں کے ساتھ ہو تو اسکی زندگی بڑھ جاتی ہے( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

3۔ منظم پروگرام بنانے کے بعد قدرتی حوادث مثلاًزلزلہ ، سیلاب ، اور خشک سالی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

4۔ منصوبہ بندی اور مستقبل کے لئے تدبیر کرنا۔ خدا پر توکل اور اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے منافی نہیں ہے( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ) (تدبیر کے ساتھ تقدیر کا استقبال کرنا چاہیئے)

5۔ تمام پروگرام عملی صلاحیت کے حامل ہونے چاہئیں( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

اس زمانے میں چونکہ گندم کو محفوظ کرنے کے لئے مخصوص برج نما گودام یاکوئی جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی لہٰذا گندم کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ گیہوں کو اس کی بالیوں میں رہنے دیا جائے)

6۔ ہر مصیبت اور سختی ، بُری نہیں ہوتی ۔ یہی خشک سالی جناب یوسف (ع)کی حاکمیت کا پیش خیمہ بنی۔ اسی طرح یہ قحط صرفہ جوئی اور لوگوں کے درمیان زیادہ کام کرنے کا رجحان پیداکرنے کا باعث بنا۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ، إِلاَّ قَلِیلًا...)

7۔ آج کی کفایت شعاری، کل کی خود کفائی ہے اور آج کی فضول خرچی کل کے لئے باعث پریشانی ہے۔( قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ )

8۔ مستقبل کے بارے میں فکر کرنا اور معاشرے کی اقتصادی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے طویل مدت کے پروگرام بنانا ملکی نظام کے لئے ضروری ہے۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ... إِلاَّ قَلِیلًا )

9۔ بحرانی حالات اور شرائط میں تولید و توزیع پر حکومت کا کنٹرول ضروری ہے۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ... )

10۔ کافروں کے خواب بھی حقائق کو بیان کرسکتے ہیں اور معاشرے کی حفاظت کے لئے دستورالعمل بھی ہوسکتے ہیں۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246