یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174861 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

پیام:

۱۔ تاریخی طور پر قیدی اور قید خانہ کا سابقہ بہت قدیمی ہے ۔( وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ)

۲۔ جناب یوسف (ع)کا قید خانہ ،عمومی تھا۔( مَعَهُ السِّجْن)

۳۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے۔ قرآن کریم جناب یوسف (ع)کے قیدی ساتھیوں کو

(فتیان) کہہ رہا ہے ۔

۴۔ تمام خوابوں کو آسان نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ بعض خوابوں میں اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں(أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرً) ۔(ممکن ہے کہ معمولی انسان بھی اہم خواب دیکھ لیں)

۵۔ اگرانسان کسی پر اعتماد کرلیتاہے تو اسکو اپنے تمام راز بتا دیتاہے( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

۶۔نیک سیرت افراد قید خانہ میں بھی دوسروں کو متاثر کردیتے ہیں( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

۷۔ مجرم اور گناہ کار لوگ بھی نیک طینت افراد کے لئے ایک خاص مقام و منزلت کے قائل ہوتے ہیں ۔( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

۸۱

آیت ۳۷:

(۳۷) قَالَ لاَیَأْتِیکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلاَّ نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَکُمَا ذَلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِی رَبِّی إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ بِاﷲِ وَهُمْ بِالْآخِرَ هُمْ کَافِرُونَ.

''یوسف نے کہا : اس سے پہلے کہ جو کھانا تمہیں (قید خانہ سے ) دیا جاتا ہے وہ آئے میں تمہیں اسکی تعبیر بتادوں گا یہ (تعبیر خواب بھی)منجملہ ان باتوں میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم فرمائی ہیں،میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو خدا پرایمان نہیں لاتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں ''۔

نکات:

آیت کے ترجمے کے پہلے حصے میں یہ احتمال ہے کہلاَیَأْتِیکُمَا ... کا مقصود یہ ہو کہ میں خدا کی طرف سے جانتا ہوں کہ وہ غذا جو تمہارے لئے لائیں گے وہ کیا ہے ۔ لہٰذا میں تمہارے خواب کی تعبیر بھی کرسکتا ہوں یعنی جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب کے علاوہ دوسری چیزوں کی بھی خبردی ہے جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھروںمیںجو کچھ غذں کا ذخیرہ ہوتا تھا اور جو لوگ جو کچھ کھاتے تھے سب کی خبر دے دیتے تھے ۔

۸۲

سوال:جناب یوسف (ع) نے ان کے خواب کی تعبیر فوراً کیوںنہیں بتائی بلکہ اس کو کچھ دیرکے لئے مخر کیوںکردیا؟ اس سوال کے جواب کو فخر رازی کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے:

۱۔جناب یوسف (ع)ان کو انتظار میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ اس مدت میں ان کو نصیحت اور تبلیغ کرسکیں تاکہ شاید وہ شخص جس کو پھانسی دی جانے والی ہے وہ ایمان لے آئے اور باایمان اور عاقبت بخیر اس دنیا سے کوچ کرے ۔

۲۔جناب یوسف (ع)اس غذا کی قسم کو بیان کر کے جو ابھی نہیں آئی تھی ا نکا اعتماد حاصل کرنا چاہتے تھے ۔

۳۔جناب یوسف (ع)ان کو زیادہ تشنہ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح سنیں ۔

۴۔چونکہ ان میں سے ایک کے خواب کی تعبیر پھانسی تھی لہٰذا دھر ادھر کی باتیں کررہے تھے تاکہ یہ بات سنتے ہی اس کی روح پرواز نہ کرجائے۔

۸۳

پیام:

۱۔ کبھی کبھی زیادہ متاثر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان علمی قدرت اور کمالات کو دوسروں سے بیان کرے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ)

۲۔ فرصت سے خوب فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ... إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ...) جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب سے پہلے انکی تربیت اور عقیدہ کی اصلاح شروع کی۔

۳۔ اپنی معلومات اور علم کو خدا کی عطا قرار دینا چاہیئے ۔(عَلَّمَنِی رَبِّی )

۴۔ تعلیم کاہدف تربیت بھی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی )

۵۔ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا بغیر کسی وجہ کے اپنے علم کے دروازے ہر کس و ناکس پر نہیں کھولتا(عَلَّمَنِی رَبِّی ) اس لئے کہ میں نے( تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ) اس قوم کے عقیدہ کو چھوڑ دیا جو ایمان دار نہیں ہے ۔

۶۔جو کفر کی ظلمتوں سے فرار کرتا ہے اسکی نور ِعلم تک رسائی ہوتی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی... إِنِّی تَرَکْتُ) میرے علم کا سبب کفر کو ترک کرنا ہے ۔

۷۔ تمام ادیان آسمانی میں توحید اور معاد کا عقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم ہے ۔(قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ بِاﷲِ وَهُمْ بِالْآخِرَ هُمْ کَافِرُونَ )

۸۔ ایمان کی بنیاد تولیٰ اور تبرا ہے لہٰذا اس آیت میں کفار سے برائت اور بعد والی آیت میں اولیاء الٰہی سے تولیٰ کا تذکرہ ہے۔(إِنِّی تَرَکْتُ...واتبعت)

۸۴

آیت ۳۸:

(۳۸)وَاتَّبَعْتُ مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ مَا کَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْءٍ ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ

''اور میں تو اپنے باپ دادا ابراہیم و اسحاق و یعقوب کے مذہب کا پیرو ہوں ہمارے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم خدا کے ساتھ کسی چیز کو (اس کا) شریک بنائیں یہ بھی خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے ہم پر بھی اور تمام لوگوں پر، مگر بہترے لوگ (اس کا)شکر (بھی )ادا نہیں کرتے''۔

نکات:

خاندانی شرافت جس طرح لوگوں کی شخصیت سازی میں موثر ہے اسی طرح قبول کرنے میں بھی اثر انداز ہے لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام خود کو پہچنوانے کےلئے نہ صرف اپنے باپ دادا کے انبیاء (ع)ہونے پر انحصار کررہے ہیں بلکہ اپنی خاندانی شرافت و عظمت کو پیش کرنے کےساتھ ہی ساتھ اپنی دعوت حق کی اہمیت کو بھی اجاگر کر رہے ہیں یہ وہی روش ہے جسے اپنا تعارف کروانے کےلئے ہمارے پیغمبر (ص) نے اختیار فرمایا : میں وہی نبی امی ہوں جسکا نام و تعارف توریت و انجیل میں موجود ہے ۔ نیز امام حسین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام نے بھی کربلا و شام میں اپنی معرفت کروانے کےلئے اسی روش سے استفادہ فرمایا تھا:(انا بن فاطم الزهر(ع) (۱) ۔

کلمہ ''ملت'' قرآن مجید میںدین و مذہب کے معنی میں استعمال ہوا ہے سورہ حج کی ۷۸ ویں آیت میں مل ابراھیم کی تصویر کشی اسطرح کی گئی ہے ''اور خدا کی راہ میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے اس( خدا)نے تمہیں منتخب کیا اور دین کے معاملہ میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا ،یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے .۔۔لہٰذا نماز قائم کرو اور زکو دیا کرو اوراللہ کے ساتھ متمسک رہو۔۔''

--------------

( ۱ )میں فرزند فاطمہ الزہرا (ع)ہوں۔

۸۵

پیام:

۱۔ حق تک پہنچنے کے لئے باطل کی شناخت اور اسے ترک کرنا ضروری ہے(تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّ...)

۲۔ دادا ، باپ کے حکم میں ہے لہٰذا دادا کو بھی ''اب ''کہا گیا ہے ۔( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ)

۳۔انبیاء (ع)کو پاک اور شریف خاندان سے ہونا چاہیئے( آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ...)

۴۔تمام انبی(ع)ء ِالٰہی کا ہدف ایک ہے( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ...)

۵۔نبوت اور ہدایت تمام بشریت کےلئے توفیق اور فضل الٰہی ہے(عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ )

۶۔ منفی راہوں کے ساتھ مثبت راستوں کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے۔(تَرَکْتُ مِلَّ... وَاتَّبَعْتُ مِلَّ ...)

۷۔ توحید کی طرف رجحان اور شرک سے پرہیز کے لئے ''توفیق الہی''ضروری ہے۔(ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ ...)

۸۔ شرک تمام صورتوں میں قابل مذمت ہے (ذات ، صفات ، افعال اور عبادات)( مِنْ شَیْئٍ)

۹۔ ''کثرت افراد ''شناخت کے لئے صحیح معیار نہیں ہے(أَکْثَر النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ)

۱۰۔ انبیاء (ع)کی راہ سے روگردانی بہت بڑی کفران نعمت ہے ۔( لاَیَشْکُرُونَ)

۱۱۔ شرک کرنا ، خداتعالیٰ کی ناشکری ہے( لاَیَشْکُرُونَ)

۸۶

آیت ۳۹:

(۳۹) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ أَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ.

''اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (ذرا غور تو کرو کہ) بھلا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا خدائے یکتا زبردست''۔

انسانو ں کی تین قسمیں ہیں :

۱۔ ''قالب پذیر'' یعنی جن کی اپنی کوئی شکل نہ ہو جیسے پانی اور ہوا ، جس قالب میں ڈالیں وہی شکل اختیار کرلیں گے ۔

۲۔ نفوذ ناپذیر اور مقاومت کرنے والے جیسے لوہا جو بیرونی طاقت کے مقابلے میں سختی سے مقابلہ کرتا ہے۔

۳۔ لیکن تیسری قسم ان افراد کی ہے جو دوسروں پر اثرانداز ہوتے ہیں جیسے ''امام اور رہبر''جو دوسروں کو خدائی رنگ میں رنگ دیتے ہےں حضرت یوسف علیہ السلام انسانوں کی اس تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ قید خانہ میں مشرک کو موحد بنا رہے ہیں ۔

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر سوالات اور تقابلی جائزہ لینے کی روش سے استفادہ کیا گیا ہے خداوندعالم کے سلسلے میں اس کے بعض نمونے قابل توجہ ہیں ۔

(هل من شرکائکم من یبدأالخلق ثم یعیده) (۱) کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو خلقت کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے ؟( هل من شرکائکم من یهدی الی الحق ) (۲) کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے ؟(أ غیر الله ابغی رباً وهو رب کل شی) (۳)

آیا خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدا کو قبول کرلوں حالانکہ وہی تمام چیزوں کا پروردگار رہے؟(ءَ اﷲ خیر اما یشرکون ) (۴) اللہ بہتر ہے یا وہ جس کو (خدا کا) شریک بنا رہے ہیں؟

--------------

( ۱ )سورہ یونس آیت ۳۴

( ۲ ) سورہ یونس آیت ۳۵

( ۳ ) سورہ انعام آیت ۱۶۴

(۴) سورہ نمل آیت ۵۹

۸۷

پیام:

۱۔ لوگوں کو پیار محبت سے دعوت دیں( یَاصَاحِبَیِ)

۲۔ حساس زمان و مکان سے تبلیغ کےلئے استفادہ کرنا چاہیئے ۔( یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ .)

(قید خانہ میں جیسے ہی حضرت یوسف (ع) نے مشاہدہ کیا کہ یہ لوگ تعبیر خواب کے محتاج ہیں فوراً اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس سے تبلیغ کے لئے فائدہ اٹھایا )

۳۔سوال و جواب اور تقابلی جائزہ ،ارشاد و ہدایت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔( أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ...)

آیت ۴۰:

(۴۰) مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ مَا أَنزَلَ اﷲُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ.

''(افسوس) تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر بس ان چند ناموں ہی کی پرستش کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گڑھ لیاہے ،خدا نے تو ان کے لئے کوئی دلیل نہیں نازل کی ، حکومت تو بس خدا ہی کے واسطے (خاص)ہے اس نے (تو)حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی مستحکم دین ہے مگر (افسوس) بہتیرے لوگ نہیں جانتے''۔

۸۸

پیام:

۱۔خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدں کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ صرف تمہارے اور تمہارے بزرگوں کی خیال پروری ہے ۔( مَا تَعْبُدُونَ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ)

۲۔ بہت ساری طاقتیں، کمیٹیاں ، انجمنیں، ادارے ، سیمنار، قراردادیں، ملاقاتیں ، حمایتیں، اطاعتیںاور دوسرے عناوین و القاب ''بے مسمی'' اسم اور ہمارے جدید دور کے بت ہیں جن کو ہم نے خود بنایا ہے اور خدا کے بجائے ان کے گرویدہ ہوگئے ہیں ۔( مَا تَعْبُدُونَ...إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا )

۳۔ انسان کے عقائد عقلی اور شرعی دلائل پر استوار ہونے چاہییں۔( مِنْ سُلْطَانٍ)

۴۔ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے حکم پر فروتنی کا مظاہرہ نہ کیجئے کیونکہ حکم صادر کرنے کا حق فقط خدا کو ہے ۔( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ )

۵۔ خدا کے قانون کے علاوہ ہر قانون متزلزل ہے ۔(ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ)

۶۔ جہالت و نادانی شرک کا باعث بنتی ہے۔(لاَیَعْلَمُونَ)

۷۔ اکثر و بیشتر لوگ جاہل ہیں ۔( أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ) ( یا تو جاہل بسیط ہیں یعنی اپنی نادانی سے واقف ہےں یا جہل مرکب ہیں یعنی اپنے گمان میں عالم ہے حالانکہ حقیقت میں جاہل ہےں)

۸۹

آیت ۴۱:

(۴۱) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُکُمَا فَیَسْقِی رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّأْسِهِ قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیهِ تَسْتَفْتِیَانِ

''اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (اچھا اب تعبیر خواب سنو)تم میں سے ایک (جس نے انگور دیکھے ہیں، رہا ہو کر)اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا (جس نے روٹیاں سر پر دیکھی ہیں)سولی پر چڑھایا جائےگا اور پرندے اس کا سر (نوچ نوچ کر)کھائیں گے جس امر کو تم دونوں دریافت کرتے ہو (وہ یہ ہے اور) اس کا فیصلہ ہو چکا ہے''۔

نکات:

کلمہ'' ربّ'' حاکم، مالک اورارباب کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔ بطور مثال ''رب الدار'' یعنی مکان کا مالک۔ پس اس جملہ''فَیَسْقِی رَبَّهُ خمراً'' کا معنی ''اپنے حاکم کو شراب پلائے گا''ہوگا۔

پیام:

۱۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ وہ آپ کے ہم فکر نہ ہوں۔(یَا صَاحِبَی)

۲۔ نوبت اورباری کی رعایت کرنی چاہیئے( أَمَّا أَحَدُکُمَا...) (پہلے وہ جس نے پہلے خواب کا تذکرہ کیا تھا)

۳۔ بعض خوابوں کی تعبیر بہت اہم ہو سکتی ہے اگرچہ اس کا دیکھنے والا مشرک ہی کیوں نہ ہو ۔(فَیَسْقِی رَبَّهُ خَمْرً)

۴۔ حضرت یوسف (ع) کا خواب کی تعبیر بیان کرنا قیاس یا پیش بینی نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے قطعی خبر ہے۔( قُضِیَ الْأَمْرُ)

۹۰

آیت ۴۲:

(۴۲) وَقَالَ لِلَّذِی ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ ذِکْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِینَ

''اور ان دونوں میں سے جس کی نسبت یوسف نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے کہا : اپنے مالک (عزیز مصر)کے پاس میرا تذکرہ کرنا مگر شیطان نے اسے اپنے آقا سے (یوسف کا)ذکر کرنا بھلا دیا یوں یوسف قید خانہ میں کئی برس رہے ''۔

نکات:

''ظَنّ'' علم و اعتقاد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے چونکہ حضرت یوسف (ع) نے گذشتہ آیت میں یقین و صراحت کے ساتھ ایک قیدی کی آزادی اور دوسرے کو سزائے موت کی خبر دی ہے لہٰذا یہاں پر ''ظن' 'کے معنی گمان اور شک و تردید کے نہیں ہیں۔

کلمہ'' بِضْعَ'' دس سے کم عدد کے لئے استعمال کیاجاتاہے اوراکثر مفسرین نے حضرت یوسف (ع)کی قید کی مدت سات سال ذکرکی ہے(والله اعلم)

بعض تفسیروں میں اس جملہ'' فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ'' کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے: ''شیطان نے پروردگار کی یاد کو جناب یوسف(ع) کے ذہن سے بھلا دیا اور آپ (ع)نے خدا سے مدد طلب کرنے کے بجائے بادشاہ کے ساقی سے مدد چاہی'' یہ حضرت یوسف (ع)کا ترک اولی تھا لہٰذا چند سال مزید آپ(ع) زندان میں رہے مگر صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی (رح)تحریر فرماتے ہیں کہ ایسی روایات قرآن مجید کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ قرآن مجید نے حضرت یوسف (ع)کو مخلصین میں شمار کیا ہے اور مخلصین تک شیطان کی رسائی نہیں ہے اس کے علاوہ ۴۵ویں آیت میں آیا ہے کہ''َقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْهُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ ''ان دو قیدیوںمیں سے جس (قیدی)نے رہائی پائی تھی اسے بڑی مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی۔ یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ فراموشی، ساقی سے مربوط ہے حضرت یوسف (ع)سے نہیں۔

۹۱

پیام:

۱۔ انبیاء (ع)بھی معمولی راستوں سے اپنی مشکلات حل کرنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں اور یہ توحید و توکل الٰہی کے منافی بھی نہیںہے۔(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ)

۲۔ ہر تقاضا رشوت نہیں ہے(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ) جناب حضرت یوسف (ع)نے ہدایت اور تعبیر خواب کے لئے کوئی اجرت اور رشوت کی درخواست نہیں کی بلکہ فرمایا کہ میری مظلومیت کی خبر بادشاہ تک پہنچادو۔

۳۔عام طور پر لوگ کسی مرتبے ، مقام اور آسائش کے بعد پرانے دوستوں کو بھول جاتے ہیں ۔( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)

۴۔ حضرت یوسف (ع)کا قید خانہ سے نکلنا اور تہمت سے بری ہونا، شیطان کے اہداف کے خلاف تھا لہٰذا اس نے جناب یوسف (ع)کی یاد کو ساقی کے ذہن سے محو کرنے کی سازش کی( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)

آیت ۴۳:

(۴۳) وَقَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ یَاأَیُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِی فِی رُیَای إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ

''اور (ایک دن)بادشاہ نے (بھی خواب دیکھا اور)کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انکو ساتھ دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی سبز بالیاں اور (سات) سوکھی خشک بالیاں خواب میں دیکھی ہیں اے (میرے دربار کے)سردارو! اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہے تو میرے (اس) خواب کے بارے میں نظریہ پیش کرو''۔

۹۲

نکات:

ابھی تک اس سورہ میں تین خواب ذکر ہوئے ہیں(۱) خود حضرت یوسف (ع)کا خواب(۲) قید خانہ کے رفیقوں کا خواب(۳) بادشاہ مصر کا خواب۔

پہلا خواب آپ (ع) کے لئے پریشانی کا سبب بنا لیکن دوسروں کے خوابوں کی تعبیر کا بتانا آپ(ع) کےلئے عزت و شرف کا باعث بنا۔ توریت میں آیا ہے کہ ایک بار بادشاہ نے دیکھا کہ لاغر اور کمزور گائیں موٹی تازی گائیوں کو کھائے جارہی ہیں اور دوسری مرتبہ دیکھا کہ سبز بالیاں خشک بالیوں کےساتھ ہیں(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر المیزان.

۹۳

آیا عزیز مصر وہی بادشاہ مصر ہے یا دوالگ الگ شخصیات ہیں ؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے چونکہ اس بحث کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے لہٰذا ہم اس بحث سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

کتاب ''روضہ کافی'' میں ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں :

۱۔خدا کی طرف سے خوشخبری۔

۲۔شیطان کی طرف سے وحشت زدہ کرنا ۔

۳۔ بے سروپا اور پریشان کرنے والے خواب۔

پیام:

۱۔ ایک ظالم بادشاہ کے خواب دیکھنے سے خدا ایک قوم کو خشک سالی سے نجات دیتا ہے (بشرطیکہ تعبیر بتانے والا یوسف(ع) ہو)۔(قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی)

۲۔ بادشاہ مصر نے اپنے تعجب آور خواب کو کئی بار دیکھا تھا۔(أَرَی)

۳۔ رسا اور صاحب قدرت افراد تھوڑی سی ناگواری سے خطرے کا احساس کرنے لگتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے قدرت چھین لی جائے ۔(قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی ...أَفْتُونِی فِی رُیَای)

۴۔ تعبیر خواب کے لئے اہل کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ہر کس و ناکس کی تعبیر پر اعتماد اور توجہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(أَفْتُونِی إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ)

۹۴

آیت ۴۴:

(۴۴) قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ

''ان لوگوں نے عرض کی یہ تو پریشان خوابوں میں سے ہے اور ہم لوگ اس قسم کے پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے''۔

نکات:

لفظ''اضغاث'' ضَغث کی جمع ہے جو ''مخلوط کرنے'' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور''ضغث'' لکڑی کے گٹھڑ کوبھی کہتے ہیں، لفظ''احلام'' حلم کی جمع ہے جو پریشان خواب کے معنی میں ہے''اضغاث احلام'' یعنی وہ پراکندہ اور پریشان خواب جس کا سرا تعبیر کرنے والوں کی سمجھ سے باہر ہو۔

پیام:

۱۔اپنی جہالت اور نادانی کی توجیہ نہیں کرنی چاہیئے چونکہ اہل دربار خواب کی صحیح تعبیر سے ناواقف تھے لہٰذا بادشاہ کے خواب کو پریشان خواب کہہ دیا ۔(قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ )

۲۔ ہر کام کو اس کے اہل کے سپرد کرنا چاہیئے (ماہر محقق اور دانشمند ، تعبیر خواب کرتا ہے لیکن جو اس سے نابلد ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ خواب پریشان ہے جو قابل تعبیر نہیں ہے)۔(مَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ )

۹۵

آیت ۴۵:

(۴۵) وَقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْهُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِهِ فَأَرْسِلُونِ

''اور جس (قیدی )نے ان دونوں( قیدیوں)میں سے رہائی پائی تھی اور اسے ایک زمانہ کے بعد (یوسف کا قصہ) یاد آیا ،بول اٹھا کہ مجھے (قید خانہ تک)جانے دیجئے تو میں اس کی تعبیر بتائے دیتا ہوں'' ۔

نکات:

''ام'' اگرچہ انسانوں کے اجتماع کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں پر ایام (مدتوں)کے اجتماع کے معنی میں استعمال ہوا ہے(۱) ۔

پیام:

۱۔ اچھائیاں اپنے اثرات کو دیر یا سویر آشکار کر ہی دیتی ہیں ۔(ادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ)

۲۔ صاحبان علم کو معاشرے کے سامنے پہچنوائیں تاکہ لوگ ان سے بہرہ مند ہوسکیں۔(فَأَرْسِلُونِ)

۳۔ بعض محققین بڑی سخت زندگی گزار رہے ہیں ان سے غافل نہیں ہونا چاہیئے۔(فارْسِلُونِ)

--------------

( ۱ )تفسیر کبیر وتفسیرالمیزان.

۹۶

آیت ۴۶:

(۴۶) یُوسُفُ أَیُّهَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَا فِی سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ لَعَلِّی أَرْجِعُ إِلَی النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُونَ

''(غرض وہ گیا اور یوسف سے کہنے لگا)اے یوسف اے بڑے سچے (یوسف) ذرا ہمیں یہ تو بتائےے کہ سات موٹی تازی گائیوں کو سات دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی ہری بالیاں اور پھر سات سوکھی مرجھائی ہوئی (اس کی تعبیر کیا ہے)تا کہ میں لوگوں کے پاس پلٹ کر جں (اور بیان کروں)تا کہ ان کو بھی (تمہاری قدر اور اس خواب کی حقیقت)معلوم ہوجائے''۔

۹۷

نکات:

' صدّیق' اس شخص کو کہتے ہیں جس کی رفتار و گفتار اور عقیدہ سب ایک دوسرے کی تصدیق کریں ۔چونکہ حضرت یوسف (ع)کے دوست ان کی رفتار و گفتار کا قید خانہ میں مشاہدہ کرچکے تھے اور دوسری طرف اس شخص نے اپنے اور اپنے ساتھی کے خواب کی تعبیر کو واقع کے مطابق پایا تھا لہٰذا حضرت یوسف (ع)کو صدیق کہہ کر پکارا ۔

خداوندعالم نے حضرت ابراہیم (ع)کو صدیق کہا تو انہیں اپنا خلیل بنا لیا(واتخذ الله ابراهیم خلیلا) (۱)

حضرت مریم (ع)کو صدیقہ کہا توانہیں برگزیدہ بنا دیا(ان اﷲاصطفاکِ) (۲) اورحضرت یوسف (ع)کو صدیق کہا تو ان کو ہر طرح کی قدرت عطا کر دی(وکذلک مکّنا لیوسف ) (۳)

حضرت ادریس (ع)کو صدیق کہا تو بلند مقام تک پہنچا دیا(و رفعناه مکاناًعلیاً) (۴) اور جو لوگ اس درجہ کے لائق نہیں ہیں انہیں صدیقین اور سچوں کے ساتھ رہنا چاہیئے(فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیهم من النبیین والصدیقین...) ۔(۵)

'' صدّیق'' ان القاب میں سے ایک لقب ہے جسے پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے۔(۶)

ایک احتمال یہ ہے کہ جملہ''لعلهم یعلمون'' کا مقصود لوگوں کو حضرت یوسف کی

ارزش و اہمیت سے واقف کرنا ہو یعنی میں لوگوں کی طرف پلٹوں تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ آپ کیسے گوہر نایاب ہیں۔

--------------

( ۱ )سورہ نساء آیت ۱۲۵

( ۲ ) سورہ آل عمران آیت ۴۲

( ۳ ) سورہ یوسف آیت ۵۶

( ۴ )سورہ مریم آیت ۵۷

( ۵ )سورہ نساء آیت ۶۹

( ۶ )تفیسر اطبیب البیان و تفسیر الکبیر سورہ مومن آیت ۲۸ کے ذیل میں.

۹۸

پیام:

۱۔ درخواست سے پہلے مناسب ہے کہ شخص کے ذاتی کمالات کو بیان کریں۔(أَیُّهَا الصِّدِّیقُ )

۲۔ اپنے سوالات اور مشکلات کو ایسے لوگوں کے سامنے پیش کریں جن کا سابقہ اچھا ہو اور وہ سچے ہوں۔( أَیُّهَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَ)

آیت ۴۷:

(۴۷)قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوْهُ فِی سُنْبُلِهِ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ

''(یوسف نے جواب میں )کہا (اسکی تعبیر یہ ہے)کہ تم لوگ متواتر سات برس کاشتکاری کرتے رہو گے توجو (فصل)تم کاٹو اس (کے دانہ) کو بالیوں ہی میں رہنے دو (چھڑانا نہیں)مگر وہ تھوڑا (بہت) جو تم خود کھ ''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع)نے اپنے قیدی ساتھی سے بغیر کسی گلے شکوے کے کہ مجھے کیوں بھول گئے ؟ بادشاہ کے خواب کی تعبیر فوراً بتادی کیونکہ علم و حکمت کا چھپانا بالخصوص ایسے مواقع پر کہ جب لوگ( بلکہ معاشرہ) اس کے بہت زیادہ محتاج ہوں ایک پاک اور نیک خصلت انسان کی شان کے خلاف ہے۔

حضرت یوسف (ع) تعبیر خواب کے بجائے اس خشک سالی سے مقابلہ کرنے کے طریقے تفصیلی طور پر بیان فرما رہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ میں خوابوں کی تعبیر کے علاوہ منصوبہ بندی اور انتظامی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہوں ۔

زراعت کا علم ، ذخیرہ سازی کی سیاست اورخرچ کرنے میں صرفہ جوئی سے کام لینے کے حکمت آمیز پیغامات اس آیت میں واضح طورپر بیان کیے گئے ہیں ۔

۹۹

پیام:

۱۔خدائی افراد کو لوگوں کی فلاح و بہبود اور آرام و آسائش کے متعلق ہمیشہ غور و فکر کرنا چاہیئے نیز طویل مدت اور کم مدت کے پروگرام بھی پیش کرنے چاہئیں ۔( تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ )

۲۔اگر گیہوں اپنی بالیوں کے ساتھ ہو تو اسکی زندگی بڑھ جاتی ہے( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

۳۔ منظم پروگرام بنانے کے بعد قدرتی حوادث مثلاًزلزلہ ، سیلاب ، اور خشک سالی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

۴۔ منصوبہ بندی اور مستقبل کے لئے تدبیر کرنا۔ خدا پر توکل اور اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے منافی نہیں ہے( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ) (تدبیر کے ساتھ تقدیر کا استقبال کرنا چاہیئے)

۵۔ تمام پروگرام عملی صلاحیت کے حامل ہونے چاہئیں( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

اس زمانے میں چونکہ گندم کو محفوظ کرنے کے لئے مخصوص برج نما گودام یاکوئی جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی لہٰذا گندم کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ گیہوں کو اس کی بالیوں میں رہنے دیا جائے)

۶۔ ہر مصیبت اور سختی ، بُری نہیں ہوتی ۔ یہی خشک سالی جناب یوسف (ع)کی حاکمیت کا پیش خیمہ بنی۔ اسی طرح یہ قحط صرفہ جوئی اور لوگوں کے درمیان زیادہ کام کرنے کا رجحان پیداکرنے کا باعث بنا۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ، إِلاَّ قَلِیلًا...)

۷۔ آج کی کفایت شعاری، کل کی خود کفائی ہے اور آج کی فضول خرچی کل کے لئے باعث پریشانی ہے۔( قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ )

۸۔ مستقبل کے بارے میں فکر کرنا اور معاشرے کی اقتصادی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے طویل مدت کے پروگرام بنانا ملکی نظام کے لئے ضروری ہے۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ... إِلاَّ قَلِیلًا )

۹۔ بحرانی حالات اور شرائط میں تولید و توزیع پر حکومت کا کنٹرول ضروری ہے۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ... )

۱۰۔ کافروں کے خواب بھی حقائق کو بیان کرسکتے ہیں اور معاشرے کی حفاظت کے لئے دستورالعمل بھی ہوسکتے ہیں۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تاریخی حقائق اور سیف کا افسانہ:

داستان کی حقیقت یہ تھی کہ قیس پر ''داوذیہ'' کو قتل کرنے اور ایرانیوں کو صنعا سے نکال باہر کرنے کی تدبیر کا الزام تھا۔ اس لئے ابوبکر نے اپنے کارگزار کو حکم دیا تھا کہ صنعا میں داخل ہونے کے بعد قیس کو گرفتار کر کے اس کے پاس مدینہ بھیجدے ۔ قیس نے بھی مدینہ پہنچ کر خلیفہ کے پاس قسم کھائی کہ داذویہ کے قتل میں اس کا دخل نہیں تھا ۔ اورخلیفہ نے اسے جنگ کے لئے شام بھیجدیا۔ قیس کی پوری روایت یہی تھی اور بس!

لیکن، سیف اپنی تخلیق توانائی سے استفادہ کرتے ہوئے اس مختصر اور جھوٹی داستان کے شاخ وبرگ نکال کراسے ایک طویل افسانہ میں تبدیل کر دیتا ہے اور اسے ارتداد کے دوسرے افسانوں کے ساتھ بڑی آب و تاب کے ساتھ '' یمنیوں کے دوسرے ارتداد'' کے عنوان سے اپنی کتاب میں درج کرتا ہے ۔

وہ اپنے افسانہ میں سب سے پہلے قیس کو ابوبکر کے فیروز کو یمن پر حاکم منصوب کرنے کے حکم کے نتیجہ میں فیروز،جشیش اور داذویہ کے خلاف اکساتا ہے اور اس کے بعد منظر کشی کرکے داذویہ کو قتل کراتا ہے ، اس کے بعد اسود عنسی کی تتر بتر ہوئی سپاہ کو اس کے گرد جمع کرکے صنعااور اس کے اطراف کے تمام علاقوں پر قابض کراتا ہے ، اس کے بعد ایرانیوں کے خاندان کو اس کے ذریعہ دوگر و ہوں میں تقسیم کر اکے ایک حصہ کو آبی راستہ سے اور دوسرے گروہ کو خشکی کے راستہ سے ان کے اپنے وطن ایران روانہ کراتا ہے ۔ آخر کار عرب قبائل فیروز کی مدد کے لئے آتے ہیں اور خلیفہ کی طرف سے بھیجے گئے سپاہیوں کی ہمت افزائی اور ''مھاجر بن ابی امیہ '' کے ذریعہ قیس کی حکومت کا شیرازہ بکھیر کے رکھدیتا ہے اور قیس کو گرفتا ر کر کے دست بستہ خلیفہ ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجتا ہے۔

سیف کے اس افسانہ نے امام المورخین طبری کی تاریخ کبیر کے دس صفحوں میں جگہ لی ہے

سیف نے اس افسانہ میں چھہ راوی پیش کئے ہیں اور ہر ایک کو دوسرے پر ناظر و موید قرار دیتا ہے کہ اس میں حقیقی راویوں کے ساتھ ساتھ اس کے جعلی اور خیالی راوی بھی نظر آتے ہیں ۔

سیف نے اس افسانہ کا نام'' یمانیوں کا دوسرا ارتداد '' رکھا ہے اور طبری نے بھی اسے اسی عنوان سے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے.

۱۸۱

طبری کے بعد اس کے مکتب کے شاگردوں جیسے ابن اکثیر اور ابن خلدون میں سے ہر ایک نے اپنی باری پر اس افسانہ کو اس سے نقل کر کے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔ یہیں سے یہ موصنوع ارتداد کی دوسرے روایتوں ، اور اسی نام سے دوسری خونیں جنگوں اور بے رحمانہ قتل عاموں نے اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ایک زندہ دلیل دیدی ہے تاکہ وہ اس ذریعہ ادعا کر یں کہ اسلام تلوار کی ضرب اور زور زبردستی سے قائم ہو ا ہے نہ کہ کسی اور چیز سے ! عجیب بات یہ ہے کہ ابن حجر جیسے صحابی شناس علامہ نے سیف کی اس روایت کاپورا پورا فائدہ اٹھا کر ،اس سے ''ذویناق''اور شہر ''نامی دو اصحاب انکشاف کئے ہر ایک کے لئے الگ سے اپنی کتا ب ''اصابہ'' میں شرح لکھی اور ان کے آخر میں حرف(ز) لکھا ہے تاکہ سب جان لیں کہ ان کا صرف ابن حجر نے انکشاف کیا ہے نہ کہ کسی اورنے !

اس عالمنے ''ذویناق''کو اصحاب کے پہلے طبقہ میں رکھا ہے ، لیکن اس کی داستان کو ''شہر '' کی داستان کے حوالہ کیا ہے ۔

''شہر '' کی داستان اور اس کے حالات کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں درج کیا ہے اور اس کی روایت کو طبری سے نقل کیاہے اور ہم نے دیکھا کہ طبری نے خود اس داستان کو سیف بن عمر سے نقل کیا ہے اور اس کانام بھی ''شہر ذونیاف '' رکھا ہے نہ ''ذونیاق''۔!

٨٦واں جعلی صحابی معاویہ ثقفی

ابن حجر نے اس صحابی کے حالات کے سلسلہ میں ''یمانیوں کا دوسرا ارتداد'' نامی سیف کی روایت سے استفادہ کر کے یوں لکھا ہے :

۱۸۲

معاویہ ثقفی احلاف سے :

طبری نے لکھا ہے کہ خلافت ابوبکر کی ابتداء میں '' معاویہ ثقفی'' بنی عقیل کے جنگجوؤں کے ایک گروہ کی سرپرستی میں ''فیروزدیلمی '' کی مدد کے لئے گیا تھا اور اس نے یمینوں کے مرتدوں کے چنگل سے اس کے رشتہ داروں کو نجات دلائی ہے ۔

سیف بن عمر نے بھی ان ہی مطالب کو درج کرکے اضافہ کیا ہے کہ معاویہ ثقفی''کی رہبری میں عقیلیوں نے فیروز دیلمی کے رشتہ داروں کو ''اسودعنسی کے مارے جانے سے پہلے ''قیس بن عبدلغیوث'' کی قید سے نجات دلائی ہے ۔ اس کے بعد ابن حجر مزید لکھتا ہے :

اس صحابی کا نسب ''عقیلی '' تھا ، گو یاوہ ''بنی عقیل ثقیف ''سے تھا ۔ ہم نے اس سے پہلے بھی یاددہا نی کی ہے کہ ۔ قریشوں اور ثقیفیوں میں سے وہ لوگ جنہوں نے ابوبکر کے زمانے میں یا ان ہی دنوں میں جنگوں میں شرکت کی تھی ، چونکہ وہ حجتہ الوداع میں حاضر تھے اس لئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی شمار ہوتے ہیں !(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ابن حجر نے اپنی کتاب کی اسی جلد میں چند صفحات کے بعد ''معاویہ عقیلی ''نام کے ایک اورصحابی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان ہی مذکورہ مطالب کو حسب ذیل لکھا ہے :

معاویہ ٔ عقیلی :

وہ ان افراد میں سے ہے کہ جس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ دیکھاہے ۔ سیف بن عمر نے اپنی کتاب''فتوح'' میں اس کا نام لیا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے ''فیروزویلمی کے خاندان اور دوسرے ایراینوں کو قیس کی قید سے نجات دلائی ہے اس ماجرا کی تفصیل یوں ہے :

جب ''قیس بن مکشوح '' نے صنعا پر قبضہ کیا اور ایرانی عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر یمن سے بالکل باہر کیا تو فیروز نے ان کی نجات کے لئے بنی عقیل سے مدد طلب کی اور اس کے نتیجہ میں عقیلوں نے ''معاویہ '' کی سرپرستی میں اس کی مدد کی اور راستے میں قیس کے سواروں کو پکڑ کر ان سے ایک جنگ لڑنے کے بعد انھیں باگھنے پر مجبور کیا۔ اس طرح ایرانی عورتوں اور بچوں کو ان سے آزاد کر انے میں کامیاب ہوئے۔ فیروز نے بھی چند اشعار کے ذریعہ ''معاویہ '' اور عقیلیوں کی قدر دانی کی ہے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

ابن حجر ''معاویہ ثقفی '' اور ''معاویہ عقیلی'' نام کے دو صحابیوں کو تنہا سیف کی روایت سے انکشاف کرکے مغالطہ کا شکار ہوا ہے ۔ اس نے ایک بار اس تنہا ''معاویہ کو ثقفی جان کر اس کے حالات پر روشنی ڈالی اور اسے طبقہ اول کے صحابیوں میں شمار کیا ہے اور دوسری دفعہ بھی اسی کو '' عقیلی'' کہکر صحابیوں کے تیسرے طبقہ میں شمار ہے ۔

۱۸۳

اس کی ایک دوسری فاش غلطیی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے :

اس صحابی کا نسب ''عقیلی '' ہے اور گویا ''بنی عقیل ثقیف''سے ہے !

ابن حجر اس لئے اس کوو ہم کا شکار ہو ا ہے کہ سیف بن عمر نے کہا ہے کہ:

فیروزنے ''بنی عقیل بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ '' کو ایک قاصد بھیجا اور اس سے مدد طلب کی ۔ عقیلی ، حلفاء سے ''معاویہ نام کے ایک شخص کی سرپرستی میں اس کی مدد کے لئے آگے ئ۔۔۔۔۔۔۔(تاآخر)

جبکہ ''عقیل بن ربیعہ بن عامر '' کی عقیلی اولاد معا ویہ بن بکربن ھوازن'' کی اولاد میں سے ہیں ، کہ انھیں ''عقیل '' کہتے تھے اور وہ بحرین میں زندگی بسر کرتے تھے ۔ لیکن''ثقیف '' ''منبہ بن بکر بن ہو زان'' کی اولاد تھے اور طائف میں رہتے تھے ۔

اس لحاظ سے سیف کا معاویہ عقیلی '' ثقفی '' نہیں ہوسکتا ہے تاکہ ابن حجر اوراس کے ہمفکروں کے تصور کی بنیاد پر اس معاویہ کو صحابیوں کی فہرست میں قرار دیا جاسکے ۔

اور اس معاویہ ٔ ثقفی کو غلطی سے ''معاویہ ثقفی بصری '' خیال نہیں کیا جانا چاہئے ۔کیونکہ ''معاویہ بصری بن عبدالکریم بن عبدالرحمان'' ، ثقیف کا اور ابوبکرہ کا آزاد کردہ ، ''ضال'' نام سے معروف ہے ١٨٠ھ میں وفات پائی ہے ۔

اور یہ جو ابن حجر کہتا ہے ، ''قریش وثقیف'' سے جن لوگوں نے ابوبکر کے زمانہ کی جنگوں میں شرکت کی ہے ،وہ اصحاب میں شمار ہوتے ہیں ، انشاء اﷲآیندہ ا س پر بحث و تحقیق کریں گے ،

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہاس عالم نے ،سیف کی اسی روایت کے پیش نظر ''سعید عافر'' کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں شمار کرتے ہوئے اس کے بارے میں کہا ہے :

سعید بن عافر:

یہ ان پانچ افراد میں سے ہے جنھیں ابوبکر نے خط لکھ کر ''فیروز ویلمی ''کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے ۔۔۔(تاآخر کلام ابن حجر)

ہم اس سعید بن عافر کو ان افراد میں سے شمار کرتے ہیں کہ سیف نے جن کیلئے صحابیت کو گڑھ لیا ہے۔ انشاء اﷲ ہم اس کتاب کے اگلے صفحات میں اس سعید اور اس جیسے دوسرے اشخاص کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالیں گے ۔

۱۸۴

افسانہ ''شہرو معاویہ'' سے سیف کانتیجہ :

سیف نے ''قیس ''کے صنعا میں ابوبکرکے منصوب حاکم کے خلاف شورش کے افسانہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے مندرجہ ذیل دوصحابی جعل کئے ہیں ۔

١۔شہر ذویناف،یا (ذویناق)

٢۔معاویہ ٔثقفی

ان کو جعل کرنے کے علاوہ سیف بن عمر نے درج ذیل حقیقی اشخاص:

٣:معاویۂ عقیلی ۔

٤۔سعید بن عافر اور ان جیسے دیگر اشخاص کو ،جن کے حالات پر ہم بعد میں روشنی ڈالیں گے،رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی شمار کیا ہے ۔

اس کے علاوہ سیف نے ایسی روایت گڑھ کر اپنے قبیلہ کے دیر ینہ دشمنوں یعنی یمانی اور قحطانیوں پردوبار مرتد ہونے اور دین اسلام سے مخرف ہونے کی تہمت لگا کر ان کی سرزنش اور ملامت کی ہے ۔

سیف کے ان ہی جھوٹ کے پلندوں کی وجہ سے ، یہ اتہامات اسلام کے معتبر منابع ومصادر میں حقیقی اور تاریخی مآخذ کے طور پر درج کئے گئے ہیں تاکہ یمانی وقحطانیوں کے لئے رسوائی کے علاوہ خود اسلام کے پپیکر پر ایک کاری ضرب واقع ہو ! کیونکہ سیف نے ارتداد کی جنگوں کے تعجب انگریزافسانوں کو خلق کرکے ، لشکر کشیوں اور ہزارہا بے گناہ انسانوں کا خون بہا کر یہ دکھلایا ہے کہ اسلام زورزبردستی ، تلوار کی ضرب ، خون کی ہولی کھیل کر اور خوف ودہشت کے ذریعہ پھیلا ہے نہ کہ کسی اور چیز سے ۔افسوس ہے کہ اس کے افسانوں کو اسلام کی معتبر تاریخ کی کتابوں میں جگہ ملنے کی وجہ سے اس کے مقاصد پورے ہوئے ہیں ۔!

مصادر و مآخذ

ذویناف کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (١/٤٧٧) حصہ اول نمبر:٢٤٨٣

۱۸۵

شہر کے حالات:

١۔اصابہ ابن حجر (٢/١٦٣) حصہ سوم نمبر:٢٩٨٧

معاویہ ثقفی کے حالات:

١۔اصابہ ابن حجر (٣/٤١٧) حصہ اول نمبر:٨٠٨٦

معاویہ عقیلی کے حالات:

''اصابہ''ابن حجر ٣/٤٧٣) حصہ سوم نمبر:٨٤٨٣

افسانہ شہر ، معاویہ ، اور قیس کے بارے میں سیف کی روایات:

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٩٨٩۔١٩٩٩)

٢۔''تاریخ ابن اثیر'' (٢/٢٨٧۔٢٨٩)

٣۔تاریخ ابن کثیر (٦/٣٣١)

٤۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٧٤۔٢٧٨)

داستان قیس کے بارے میں تاریخی حقائق:

١۔''فتوح بلدان'' بلاذری (١٢٧)

معاویہ بن عبدالکریم کے حالات:

١۔''جرم و تعدیل'' (٤/٣٨١) حصہ اول نمبر: ١٧٤٩

٢۔''تاریخ بخاری '' (٤/٣٣٧) حصہ اول نمبر: ١٤٥١

٣۔''تذھیب الکمال'' (٣٢٦)

۱۸۶

ساتواں حصہّ:

حضرت ابوبکر کی جنگوں میں شرکت کرنے کے سبب بننے والا اصحاب

٨٧۔سیف بن نعمان لخمی

٨٨۔ ثمامہ بن اوس طائی

٨٩۔مہلہل بن زید طائی

٩٠۔غزال ھمدانی

٩١۔معاویہ بن آنَس سلمی

٩٢۔جرادبن مالک تمیمی

٩٣۔عبد بن غوث حمیری

۱۸۷

حضرت ابو بکر کی سپاہ کو مدد پہنچانے کے سبب بننے والے اصحاب۔

٧٩واں جعلی صحابی سیف بن نعمان

اس صحابی کو ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ '' میں یوں پہچنوایا ہے :

سیف بن نعمان لخمی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں لکھا ہے کہ ''سیف بن نعمان '' نے حضرت ابوبکر کی خلافت کے اوائل میں ''اسامہ بن زید'' کیساتھ ''بنی جُذام'' کی جنگ میں شرکت کی ہے اور اس کے کچھ اشعار بھی درج کئے ہیں (ز)(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب :

سیف بن عمرنے اس صحابی کو ''لخمی '' خلق کیا ہے کہ یہ '' بنی زید بن کہلان کے ابن سبأ کے مالک بن عدّی '' کے '' لخم ''سے نسبت ہے ۔ لخم و جذام دو قبیلے تھے اور یمن میں زندگی بسر کرتے تھے۔

سیف بن نعمان اور بنی جذام کی جنگ:

اسامہ بن زید کی جُذام سے جنگ کی خبر ١١ھکے حوارث کے ضمن میں تاریخ طبری میں آئی ہے لیکن اس میں سیف بن عمر کے خلق کئے گئے اور منظور نظر سیف بن نعمان کا کہن نام و نشان نہیں ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر نے اس صحابی کے حالات کو بلا واسطہ سیف بن عمر کی کتاب ''فتوح '' سے نقل کیا ہے اور طبری نے اسے نقل نہیں کیا ہے۔

۱۸۸

اس کے علاوہ سیف بن نعمان کا نام ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' کے علاوہ اسلامی منابع و مصادر کی کسی اور کتاب میں نہیں پایا جاتا ہے ۔ اس لئے قاعدہ کے مطابق ہم نے اس سیف بن نعمان لخمی کو سیف بن عمر کے جعلی اصحاب میں شمار کیا ہے ۔ ابن حجر نے سیف بن نعمان لخمی کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں قرار دیا ہے کیونکہ سیف بن عمر نے کہا ہے کہ اس نے ابو بکر کی خلافت کے اوائل میں جذامیوں کی جنگ میں شرکت کی ہے !

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیف کا ''سیف بن نعمان لخمی'' '' سیف بن نعمانی'' سے الگ ہے کہ بخاری نے اپنی تاریخ میں اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے اور جس سیف کا بخاری نے نام لیا ہے وہ ''تابعین '' کے شاگردوں میں سے تھا نہ یہ کہ خود صحابی ہوتا ۔

مصادر و مآخذ.

سیف بن نعمان لخمی کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٢/١١٨) تیسرا حصہ نمبر:٣٧٢٦

خاندان لخمی کا نسب:

١'۔'اللباب'' (٣/٦٨)

اسامہ بن زید کی جذا میوں سے جنگ:

١۔تاریخ طبری (١/١٨٧٢)

سیف بن نعمان ، شاگرد و پیرو تابعین کے حالات:

١۔تاریخ بخاری (٢/١٧٢) دوسرا حصہ نمبر:٢٣٧٠

۱۸۹

٨٨واں جعلی صحابی ثمامہ بن اوس

ابن حجر اس صحابی کے تعارف میں یوں لکھتاہے :

ثمامہ بن اوس بن ثابت بن لام طائی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب''فتوح'' میں اس کا ذکرکیا ہے اور لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت کے دوران جب '' ضرار بن ازور'' طلیحہ'' سے نبرو ازما تھا ، ثمامہ بن اوس'' نے اسے یعنی ضرار کو حسب ذیل مضمون کا ایک پیغام بھیجا ہے :

میرے ساتھہ'' جلدیلہ'' کے پانچ سو جنگجو ہیں ۔۔۔۔۔(تاآخرداستان)

اس مو ضوع سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا ہے ۔(ز) (ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

مذکورہ داستان کہ جس کے بارے میں ابن حجر نے صرف ایک اشارہ کیا ہے ، طبری نے ١١ ھ کی روداد کے ضمن میں '' طلیحہ سے ملحق ہونے کے بارے میں غطفان کی باقی خبر کو'' کے عنوان سے کہ جب وہ طلیحہ سے ملحقہ ہوئے ہیں ''عمارة بن فلان اسدی '' کے ذریعہ سیف سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں حسب ذیل درج کیا ہے :

جب طلیحہ اسلام سے منہ موڑ کر مرتد ہو ا ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''ضرار بن ازور '[ کو مأ مور کیا کہ بنی اسد '' میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارگزاروں سے رابط قائم کرکے انھیں طلیحہ کی بغاوت کو سر کو ب کرنے کے لئے آمادہ کرے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اشارہ پر طلیحہ سے جنگ کرنے کے لئے ایک سپاہ آمادہ ہوئی اور مسلمانوں نے ''واردات'' کے مرتدوں اور ''سمیرا'' مشرکوں کو سر کوب کرنے کے لئے مور چے سنبھالے۔ دوسری طرف ذوالخمار بن عوف جذمی '' اور اس کے ساتھی بھی ''طلیحہ '' کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے ۔

اسی اثنا ء میں '' ثمامہ بن اوس بن لام طائی '[ نے اس کے لئے پیغام بھیجا کہ:

میرے ساتھ ''جدیلہ '' کے پانچ سو جنگجو ہیں ، اگر کوئی مہم پیش آئے اور تمہارے لئے کام مشکل ہو تو ہم ''قردودہ یا النسر '' کی بلندیوں کے نذدیک مورچے سنبھالے ہوئے ہیں اور ہر لمحہ تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں ۔

ہم اس بحث پر دوبارہ روشنی ڈالیں گے ۔

۱۹۰

٨٩واں جعلی صحابی مہلہل بن زید

ابن حجر نے اس صحابی کا یوں تعارف کر ایا ہے :

مہلہل بن زید الخیل طائی :

''طی '' کی طرف سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچنے والے نمایندوں میں اس صحابی کا نام دکھائی نہیں دیتا ہے .، بہر حال سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح '' میں اس کا نام لیا ہے اور لکھا ہے کہ جب ''ضرار بن ازور'' پیغمبری کے مدعی ''طلیحہ '' سے لڑ رہا تھا ، ''مہلہل بن زید صا ئی '' نے اس کے لئے پیغام بھیجا ہے کہ اگر طلیحہ سے جنگ میں مشکل سے دو چار ہوئے تو ہمیں اطلاع دینا ہم ، عرب جنگجوؤ ں کے ہمراہ ''اکناف ''،'' قید'' کے کنارے پر مورچے سنبھالے ہوئے ہیں ، اور تمہاری مدد کے لئے حاضر ہیں ۔

یہ مطلب اس بات کی دلیل ہے کہ اس صحابی' مہلہل بن یزیدنے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ دیکھا ہے ،کیونکہ ''طلیحہ '' کی داستان ابوبکر کے زمانہ میں پیش آئی ہے اور اس کا باپ یزید الخیل بھی معروف صحابی ہے ۔ (ابن حجر کی بات کا خاتمہ )

مہلہل بن زید کا نام سیف کی ایک دوسری روایت میں ٢٢ھ کے حوارث کے ضمن میں ''تاریخ طبری '' میں آیا ہے ۔ طبری نے اس روایت میں سیف سے نقل کر کے لکھا ہے :

''نعیم بن مقر ن '' نے علاقہ ''دستبی'' کے نظم و انتظا م کوفہ کے سردار وں ''عصمتہ ابن عبداﷲضبّی'' اور ''مہلہل بن زید طائی '' میں تقسیم کیا اور ۔۔۔ (یہاں تک کہ کہتاہے :)

یہ لوگ ( یعنی عصمتہ ابن عبداﷲ اور مہلہل ) پہلے حاکم تھے جو علاقہ دستبی سے ''دیلمیوں '' سے جنگ کے لئے اٹھے ہیں ۔

یہ بات قابل بیان ہے کہ ''اسدالغابہ '' تجرید '' اور اصابہ '' میں '' مسلمہ البضی '' کی روایت کی بناپر ایک اور ''مہلہل '' کے حالات کی تشریح ملتی ہے کہ ابن حجر نے اس کی پہچان کے سلسلے میں لکھا ہے :

اس صحابی کو پہچنوانے کے سدمہ میں ایک ایسے راوی کانام ملتا ہے جو سخت مجہول اور نامعلوم ہے !

اس لحاظ سے ابن حجر کی کتاب ''اصابہ '' میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے عنوان سے دو مہلہل دکھائی دیتے ہیں جو حسب ذیل ہیں :

١۔ مہلہل طائی ، کہ ابن حجر نے اس کے حالات کی تفصیل سیف بن عمر سے نقل کی ہے ۔

٢۔مہلہل مجہول النسب : اس کے حالات کی تشریح ایک مہجول اور نا معلوم راوی سے نقل کی گئی ہے ۔

۱۹۱

ثمامہ و مہلہل کے بارے میں ایک مجموعی بحث

ہم دوبارہ اصل داستان کی طرف پلٹتے ہیں :

طبری نے ١١ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف بن عمر سے نقل کرکے لکھا ہے کہ جب طلیحہ مرتد ہوا اور اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ، تو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے '' ضراربن ازور '' کو حکم دیا کہ قبائل بنی اسد میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کارگزاروں اورگماشتوں سے رابطہ برقرار کرکے انھیں طلیحہ کی بغاوت کو کچلنے کے لئے آمادہ کرے ۔

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حکم سے مسلمان آمادہ ہو کر طلیحہ سے لڑنے کے لئے باہر نکلے اور انہوں نے ''واردات'' کے مقام پر اور مشرکوں نے ''سمیرا'' کے مقام پر مورچے سنبھالے ۔ ''ذوالخمار بن عوف جذمی '' نے طلیحہ کے مقابلے میں اپنی سپاہ کو لا کھڑا کیا تھا۔

اسی اثنا ء میں '' ثمامہ بن اوس بن لام طائی '' نے ذوالخمار '' کو پیغام بھیجاکہ میں ''جدیلہ '' کے پانچ سو جنگجؤ ئی کے ہمراہ '' قردودہ یا انسر'' کی بلندیوں کے پاس مورچے سنبھالے ہوئے ہوں ، اگر طلیحہ سے جنگ میں کوئی مشکل پیش آئی تو ہم تمہاری مدد کے لئے آمادہ ہیں

مہلہل بن زید نے بھی ذو الخمار کو پیغام بھیجا کہ میرے ساتھ قبیلہ ٔ طے '' غوثی '' کے جنگجو ہیں اور ہم نے ''فید '' کے اطراف میں مورچے سنبھالے ہیں ۔ اگر طلیحہ کے ساتھ تمہیں جنگ میں کوئی مشکل پیش آئی تو ہم مدد کے لئے آمادہ ہیں ۔

سیف نے یہاں پر خصوصی تاکید کی ہے کہ طی کے جنگجو ''ذوالخمار بن عوف '' کے گرد جمع ہو کر اس کے حکم کی اطاعت کررہے تھے ۔

۱۹۲

''ثمامہ اور مہلہل '' کے اسناد:

اس سے پہلے کہ ہم سیف کی روایت اور اس کی روایت کو سمجھنے میں ابن حجر کے مغالطہ کے بارے میں بحث کریں ، مناسب ہے کہ پہلے یہ دیکھیں کہ سیف نے اپنے افسانہ کو کن راویوں کی زبان سے جاری کیا ہے اوریہ افسانہ کس طرح اسلامی منابع و مصادر میں درج ہو اہے

سیف نے اپنی روایت کو ''طلحہ بن اعلم اور حبیب بن ربیعہ اسدی سے اور عمارة بن فلانی اسلامی '' سے روایت کی ہے کہ ان میں ''حبیب وعمارہ '' اس کے جعلی راوی ہیں ۔

معتبر منابع میں سیف کا افسانہ:

سیف کی یہی جعلی روایت مندرجہ ذیل جغرافیا کی کتابوں اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کے حالات پر مشتمل کتابوں میں نظر آتی ہے۔

عالم اسلام کا عفلیم جغرافیہ دان یاقوت حموی اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں لفظ '' اکناف '' کے سلسلے میں لکھتاہے :

''اکناف'':

جب طلیحہ بن خویلد نے پیغمبری کا دعویٰ کیا اور ''سمیرا'' میں پڑاؤ ڈالا۔ مہلہل بن زید طائی نے اس کے لئے پیغام بھیجا کہ میرے ساتھ ''غوث '' کے دلیراور جنگجوہیں ، اگر کوئی مسٔلہ پیش آیا اور کسی قسم ضرورت محسوس کی ، تو ہم نے ''اکناف '' میں ''فید''کے نزدیک مورچے سنبھالے ہیں ۔

حموی نے بھی لفظ ''سمیراء '' کے سلسلہ میں سیف کی اسی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے اور مہلہل کے طلیحہ کو مدد کرنے کی روایت کی ہے ۔

۱۹۳

اس کے علاوہ وہ لفظ ''قردودہ '' کے بارے میں لکھتا ہے :

جب طلیحہ بن خولید نے پیغمبری کا ادعا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔( یہاں تک کہتا ہے :)

ثمامہ بن اوس نے پیغام بھیجا کہ میرے ہمراہ جدیلہ کے پانچ سو دلاور جنگجو ہیں اگر تجھہ پر کوئی مشکل گزری اور ہماری مدد کی ضرورت کا احساس کیا تو ہم '' قر دودہ'' میں مورچے سنبھالے ہوئے ہیں اس طرح حموی جیسا دانشمند اور محقق اپنی گراں قدر کتاب میں دوجگہ پر لکھتاہے کہ مہلہل نے طلیحہ کو پیغام بھیجا اور اپنی اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے مدد کرنے کا اعلان کیا ہے

جبکہ ہم نے دیکھا کہ ابن حجر ثمامہ اور مہلہل کے حالات کی تشریح میں لکھتا ہے کہ ان دوصحابیوں نے ''ضر ار بن ازور ''کے لئے پیغام بھیجا ہے اور طلیحہ سے اس کی جنگ میں مدد کرنے کی پیشکش کی ہے ، جبکہ ان دونوں عالموں نے مغالطہ کیا ہے ، کیونکہ :

تاریخ طبری میں موجود سیف کی روایت میں بالترتیب ''طلیحہ ، ضرار اور ذوالخمار '' کے نام آئے ہیں ۔ اور عبارت ''وَاَرسَلَ اِلَیہِ''جہاں پر سیف کہتا ہے :''واقبل ذوالخمار بن عوف جذمی حتی نذل بازاء طلیحہ و ارسل الیہ۔۔' میں ( اس کی ) ضمیر داستان کے آخری شخص ذوالخمارکی طرف پلٹتی ہے ۔ یعنی ثمامہ و مہلہل نے ''ذوالخمار '' کے لئے پیغام بھیجا ہے اور اپنی طرف سے مدد کی پیشکش کی ہے نہ کہ ضرار یا طلیحہ کے لئے اس کے علاوہ سیف نے افراد ''صیٰ '' کی طرف سے ذوالخمار کو مدد کرنے کی آمادگی کے سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ '' طی'' کے جنگجو ''ذوالخمار'' کے گرد جمع ہو کر اس کے حکم کی اطاعت کرنے پر آمادہ تھے ۔

یہ اتفاق اس لحاظ سے پیش آیا تھا کہ جاہلیت کے زمانہ میں قبائل '' بنی اسد ، غطفان اور طی'' کے درمیا ن یکجہی اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کرنے کا ایک معاہدہ طے پا یا تھا ۔ لیکن رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے پہلے ایک زمانہ میں قبائل بنی اسد اور غطفان طیٰ کے خلاف متحد ہوئے اور ''جدیلہ و غوث '' کے قبیلوں کو ان کے وطن و گھر سے نکال باہر کرکے آوارہ کردیا تھا ۔

قبیلہ عُوف کے افراد نے اس پیمان شکنی سے چشم پوشی کرتے ہوئے غطفان سے جدا ہو کر '' جدیلہ و غوث '' کے قبیلوں کو چلے جانے سے روکا اور ان کے ساتھ دوبارہ عہدو پیمان باندھا اور عملاً افراد ''طی'' سے اپنی مدد کا مظاہرہ کیا ۔بنی طی نے بھی وہا ں سے چلے جانے سے اجتناب کیا اور بدستور اپنی جگہ پر باقی رہے ۔۔۔۔(تا آخر)۔

ہم یہاں پر دیکھتے ہیں سیف نے قبائلی تعصب کے پیش نظر ایسا دکھایا ہے کہ '' جدیلہ '' کے افراد ''ثمامہ بن اوس کے ساتھ اور ''غوثی '' کے دلاورں نے مہلہل بن ''زید کی کمانڈ میں ذوالخمار '' کی مدد کے لئے قبائل طی کو اپنے ساتھ لے کر اپنی آمادگی کا اعلان کیا تھا ، نہ کہ ضرار بن ازور کی مدد کرنے کے لئے جس کی ابن حجر نے صراحت کی ہے ۔

۱۹۴

خلاصہ :

سیف تنہا شخص ہے جس نے یہ روایت بیان کی ہے اور ابن حجر نے اس کے ایک حصہ پر اعتماد کر کے ''ثمامہ اور مہلہل '' کے حالات لکھا کر انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابیوں کی فہرست میں شمار کیا ہے ۔

یہ دانشمند ثمامہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے اخذ کرتا ہے کہ اس صحابی نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا ہے ۔ اور مہلہل کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس صحابی نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا زمانہ دیکھا ہے اور اس حکم کو وہاں سے جاری کرتا ہے کہ ''طلیحہ بن خولید کی داستان ابوبکر کے زمانہ میں پیش آئی ہے ''

اور مہلہل کے حالات کی تشریح کی ابتداء میں کہتاہے :

اس کا نام طی کے نمایندوں میں نہیں پایا جاتا ہے ۔

ان نمائندوں سے ابن حجر کی مراد قبیلہ طی کے منتخب شدہ وہ پندرہ افراد ہیں جو ١٠ھ میں ''زید الخیل اور ''قبیصہ '' کی سرپرستی میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے تھے ، اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زید کا ''زیدالخیر''نام رکھا تھا جو قبیلہ میں واپس آنے کے بعد فوت ہوگیا ۔ ابن حجر نے اسی نسبت سے مہلہل کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :

اس کا باپ زیدالخیل ایک معروف صحابی ہے ۔

زیدالخیل طائی کے بیٹے :

ابن حزم نے اپنی کتاب ''انساب '' میں زید کے بیٹوں کا ذکر یوں کیا ہے:

زیدالخیرکے بیٹے حسب ذیل تھے :

۱۹۵

مکنف ، عروہ ، حنظلہ اور حریث

ابن کلبی نے بھی زید کے بیٹوں کا ایک ایک کرکے نام لیا ہے ۔ لیکن ان دو مصادر ۔ انساب ابن حزم و ابن کلبی ۔ اور دیگر معتبر مصادرمیں ''مہلہل بن زید الخیل طائی '' نام کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا اور اسی طرح قبیلہ ء طیمیں ''ثمانہ بن اوس طائی ' ' نام کا کوئی شخص موجود نہیں ہے

اب رہی، ابو الفرج اصفہانی کی بات جسے وہ اپنی کتاب ''اغانی ''میں در ج کرکے کہتا ہے :

زید کے تین بیٹے تھے ، یہ شب شاعر تھے ، ان کے نام عروہ ، حریث اور مہلہل تھے لیکن لوگ زید کے دوفرزندوں ''عروہ اور حریث '' کے علاوہ اس کے کسی اور بیٹے کے بارہ میں یقین نہیں رکھتے ہیں ۔

معلوم ہو تا ہے کہ ابوالفرج نے اس مطلب کوذکر کرتے وقت سیف کی روایت کو مدنظر رکھا ہے۔

مصادر ومآخذ

٭تمامہ بن اوس طائی کے حالات:

١۔''اصابہ ''ابن حجر (١/٢٠٧) تیسرا حصہ نمبر: ٩٧٨

٭مہلہل بن زید طائی کے حالات:

١۔اصابہ ابن حجر (٣/٤٧٨۔٤٧٩) نمبر:٨٤٧٣

٭مہلہل مجہول النسب کے حالات:

١۔''اسدالغابہ '' ابن اثیر (٤/٤٢٥)

٢۔''تجرید'' ذہبی (٢/٩٩)

٣۔''اصابہ '' ابن حجر (٣/٤٤٧)

۱۹۶

٭طلیحہ ،ثمامہ اور مہلہل کی داستان کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/١٨٩١۔١٨٩٣)،(١/٢١٤٩۔٢٦٥٠)

٭ذید الخیل کا نسب :

١۔''جمہرہ انساب '' ابن حزم (٤٠٣)

٢۔''تلخیص جمہرہ ابن کلبی ''

(٢٦٠) نسخہ فوٹوکاپی کتابخانہ آیتہ اللہ نجفی مرعشی قسم۔

٭طی کے بارے میں ایک تشریح :

١۔تلخیص جمہرہ ابن کلبی (٢٦٠)

٢۔''اغانی '' ابو الفرج افہانی طبع ساسی (١٦/٤٧)

٭طی کے نمایندوں کی داستان :

١۔''تاریخ ابن خلدون'' (٢/٢٥٩)

''اکناف، انسر ،سمیرا اور قردودہ '' کی تشریح:

١۔ ''معجم البلدان '' یا قوت حموی

۱۹۷

٩٠واں جعلی صحابی غزال ہمدانی

ابن حجر نے اس صحابی کو یوں پہچنوایا ہے :

غزال ھمدانی :

سیف بن عمر نے اس سے ایک شعر نقل کیا ہے کہ جس میں غزال نے ''اسودعنسی '' کی ہجو کی ہے اوراس کے قاتل کی ستائش کی ہے ۔حسب ذیل ہے :

افسوس !کہ ہماری اور ہمارے مردوں کی یہ قسمت نہ تھی کہ ہمارے ہاتھوں وہ ۔ اسود ۔ موت کے گھاٹ اتاراجاتا اور نابود ہوتا !(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

سیف نے اس کے لئے جس نسب کو منتخب کیا ہے وہ ھمدانی ہے کہ یہ ''ھمدان بن مالک ''سے ایک نسبت ہے ۔ جو قبائل قحطان سے بنی زید بن کہلون کا پوتا تھا ۔

غزال ھمدانی کی داستان روایت :

ابن حجر نے جو روایت سیف سے نقل کر کے غزال ھمدانی کے بارے میں درج کی ہے ، اسے طبری نے اپنی تاریخ میں درج نہیں کیا ہے ۔ لیکن اس کے بجائے ١٧ھ کو حوادث کے ضمن میں ایک دوسری روایت سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کی ہے اور اس میں کہتا ہے :

حلیفہ عمر ابن خطاب نے اس سال ایرانیوں سے جنگی تیاریوں کے ضمن میں مختلف پر چموں کو معروف جنگی افراد کے نام سے وابستہ کیا اور انھیں ابن ام غزال کے ہاتھ ان کے لئے بھیجدیا ۔

اور ٢١ ھ کے حوارث کے ضمن میں ''یزد گرد کے خراسان کی طرف فرار'' کے عنوان سے سیف سے نقل کر کے لکھتا ہے :

احنف بن قیس جب یزد گرد سو مّ ، آخری ساسانی پادشاہ کا پیچھا کرتے ہوئے مروا نشاہ جہا ں '' میں داخل ہوا ، تو کوفہ کی طرف سے ایک فوج چار نامور عرب افسروں کی سرکرد گی میں کہ ان میں سے ایک ''ابن ام غزال ھمدانی '' بھی تھا ، اس کی مدد کے لئے پہنچی۔

۱۹۸

افسانہ غزال میں سیف کے اسناد:

طبری کے مطابق سیف نے مندرجہ ذیل ناموں کو راوی کے طور پرپیش کیا ہے :

١۔محمد ، یا محمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ ۔

٢۔ مہلب یا مہلب بن عقبہ اسدی ۔ اور اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ یہ دونوں راوی سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور خارج میں وجود نہیں رکھتے

بحث کا نتیجہ :

غزال ہمدانی کے بارے میں سیف کی روایتوں پر بحث و تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابن حجر نے سیف بن عمر کی روایتوں پر اعتماد کیا ہے ۔ یہ جو اس نے کہا ہے کہ غزال نے ایک شعر کہا ہے اور اس میں ''اسود عنسی '' کی ہجو کی ہے اور اس کے قاتل کی ستائش کی ہے ، اس سے اس نے یہ تصور کیا ہے کہ سیف کے غزال ہمدانی نے حضرت ابوبکر کے زمانہ کی ارتداد کی جنگو ں کو دیکھا ہو گا ، لہذا یہ صحابی ہے ! اس لحاظ سے اس نے اس صحابی کو اپنی کتاب کے تیسرے حصہ میں قرار دیا ہے ۔

واضح ہے کہ اگر اس عالم نے سیف کی روایت پر تا ریخ طبری '' میں دقت کی ہوتی تو دیکھ لیتا کہ یہی صحابی خلیفہ عمر کی طرف سے سرداری اور سپہ سالاری کے پر چم لے کر جاتا ہے ، تو بے شک اسے اپنی کتاب کے پہلے حصے میں جگہ دیتا اور صحابیوں کے سرداروں کے زمرے میں قرار دیتا ! اور معروف قاعدہ '' قدماء کی رسم یہ تھی ۔۔۔۔۔'' اس پر لاگو کرکے اس کے حالات مفصل طور پر لکھتا !!

مصادر و ما خذ

٭ غزال ھمدانی کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (٣/١٨٩) حصہ سوم نمبر: ٦٩٣٥

۱۹۹

٭غزال ھمدانی کے بارے میں سیف کی روایت

١۔'' تاریخ طبری '' (١/٢٥٦٩۔٢٦٨٣)

٭قبائل ھمدان کا نسب

١۔ '' جمہرہ انساب'' ابن حزم (٣٩٢۔٣٩٥)

٩١واں جعلی صحابی معاویہ بن انس

ابن حجر اس صحابی کے تعارف میں لکھتا ہے :

معاویہ بن انس سلمی :

سیف بن عمر نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں اس کا نام لیا ہے ۔ اور اس نے سہل بن یوسف سے ، اس نے قاسم بن محمد سے نقل کرکے لکھا ہے کہ معاویہ بن انس ان افراد میں سے تھا جس نے پیغمبر خُداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیا ت میں پیغمبری کا دعویٰ کرنے والے اسود عنسی سے جنگ کی ہے ۔

(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

اس صحابی کا نسب :

ابن حجر نے اپنی کتاب میں اسے '' سلمی '' معرفی کیا ہے ، اور یہ نام بعض قبائل ''عدنان وقحطان '' سے منسوب ہے ۔ ہمیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سیف نے اپنے اس صحابی کو ان میں سے کس قبیلہ سے پیدا کیا ہے ۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخ طبری '' میں ''معاویہ ابن انس '' کا نام نسب کے ذکر کے بغیر آیا ہے ۔ یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ ابن حجر نے اس نسب کو براہ راست سیف کی کتاب سے نقل کیا ہے ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246