یوسف قرآن

یوسف قرآن 0%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: استادمحسن قرائتی
زمرہ جات: صفحے: 246
مشاہدے: 149945
ڈاؤنلوڈ: 3364

تبصرے:

یوسف قرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 149945 / ڈاؤنلوڈ: 3364
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پیام:

1۔ تاریخی طور پر قیدی اور قید خانہ کا سابقہ بہت قدیمی ہے ۔( وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ)

2۔ جناب یوسف (ع)کا قید خانہ ،عمومی تھا۔( مَعَهُ السِّجْن)

3۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے۔ قرآن کریم جناب یوسف (ع)کے قیدی ساتھیوں کو

(فتیان) کہہ رہا ہے ۔

4۔ تمام خوابوں کو آسان نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ بعض خوابوں میں اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں(أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرً) ۔(ممکن ہے کہ معمولی انسان بھی اہم خواب دیکھ لیں)

5۔ اگرانسان کسی پر اعتماد کرلیتاہے تو اسکو اپنے تمام راز بتا دیتاہے( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

6۔نیک سیرت افراد قید خانہ میں بھی دوسروں کو متاثر کردیتے ہیں( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

7۔ مجرم اور گناہ کار لوگ بھی نیک طینت افراد کے لئے ایک خاص مقام و منزلت کے قائل ہوتے ہیں ۔( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

۸۱

آیت 37:

(37) قَالَ لاَیَأْتِیکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلاَّ نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَکُمَا ذَلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِی رَبِّی إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ بِاﷲِ وَهُمْ بِالْآخِرَ هُمْ کَافِرُونَ.

''یوسف نے کہا : اس سے پہلے کہ جو کھانا تمہیں (قید خانہ سے ) دیا جاتا ہے وہ آئے میں تمہیں اسکی تعبیر بتادوں گا یہ (تعبیر خواب بھی)منجملہ ان باتوں میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم فرمائی ہیں،میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو خدا پرایمان نہیں لاتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں ''۔

نکات:

آیت کے ترجمے کے پہلے حصے میں یہ احتمال ہے کہلاَیَأْتِیکُمَا ... کا مقصود یہ ہو کہ میں خدا کی طرف سے جانتا ہوں کہ وہ غذا جو تمہارے لئے لائیں گے وہ کیا ہے ۔ لہٰذا میں تمہارے خواب کی تعبیر بھی کرسکتا ہوں یعنی جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب کے علاوہ دوسری چیزوں کی بھی خبردی ہے جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھروںمیںجو کچھ غذں کا ذخیرہ ہوتا تھا اور جو لوگ جو کچھ کھاتے تھے سب کی خبر دے دیتے تھے ۔

۸۲

سوال:جناب یوسف (ع) نے ان کے خواب کی تعبیر فوراً کیوںنہیں بتائی بلکہ اس کو کچھ دیرکے لئے مخر کیوںکردیا؟ اس سوال کے جواب کو فخر رازی کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے:

1۔جناب یوسف (ع)ان کو انتظار میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ اس مدت میں ان کو نصیحت اور تبلیغ کرسکیں تاکہ شاید وہ شخص جس کو پھانسی دی جانے والی ہے وہ ایمان لے آئے اور باایمان اور عاقبت بخیر اس دنیا سے کوچ کرے ۔

2۔جناب یوسف (ع)اس غذا کی قسم کو بیان کر کے جو ابھی نہیں آئی تھی ا نکا اعتماد حاصل کرنا چاہتے تھے ۔

3۔جناب یوسف (ع)ان کو زیادہ تشنہ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح سنیں ۔

4۔چونکہ ان میں سے ایک کے خواب کی تعبیر پھانسی تھی لہٰذا دھر ادھر کی باتیں کررہے تھے تاکہ یہ بات سنتے ہی اس کی روح پرواز نہ کرجائے۔

۸۳

پیام:

1۔ کبھی کبھی زیادہ متاثر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان علمی قدرت اور کمالات کو دوسروں سے بیان کرے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ)

2۔ فرصت سے خوب فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ... إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ...) جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب سے پہلے انکی تربیت اور عقیدہ کی اصلاح شروع کی۔

3۔ اپنی معلومات اور علم کو خدا کی عطا قرار دینا چاہیئے ۔(عَلَّمَنِی رَبِّی )

4۔ تعلیم کاہدف تربیت بھی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی )

5۔ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا بغیر کسی وجہ کے اپنے علم کے دروازے ہر کس و ناکس پر نہیں کھولتا(عَلَّمَنِی رَبِّی ) اس لئے کہ میں نے( تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ) اس قوم کے عقیدہ کو چھوڑ دیا جو ایمان دار نہیں ہے ۔

6۔جو کفر کی ظلمتوں سے فرار کرتا ہے اسکی نور ِعلم تک رسائی ہوتی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی... إِنِّی تَرَکْتُ) میرے علم کا سبب کفر کو ترک کرنا ہے ۔

7۔ تمام ادیان آسمانی میں توحید اور معاد کا عقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم ہے ۔(قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ بِاﷲِ وَهُمْ بِالْآخِرَ هُمْ کَافِرُونَ )

8۔ ایمان کی بنیاد تولیٰ اور تبرا ہے لہٰذا اس آیت میں کفار سے برائت اور بعد والی آیت میں اولیاء الٰہی سے تولیٰ کا تذکرہ ہے۔(إِنِّی تَرَکْتُ...واتبعت)

۸۴

آیت 38:

(38)وَاتَّبَعْتُ مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ مَا کَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْءٍ ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ

''اور میں تو اپنے باپ دادا ابراہیم و اسحاق و یعقوب کے مذہب کا پیرو ہوں ہمارے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم خدا کے ساتھ کسی چیز کو (اس کا) شریک بنائیں یہ بھی خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے ہم پر بھی اور تمام لوگوں پر، مگر بہترے لوگ (اس کا)شکر (بھی )ادا نہیں کرتے''۔

نکات:

خاندانی شرافت جس طرح لوگوں کی شخصیت سازی میں موثر ہے اسی طرح قبول کرنے میں بھی اثر انداز ہے لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام خود کو پہچنوانے کےلئے نہ صرف اپنے باپ دادا کے انبیاء (ع)ہونے پر انحصار کررہے ہیں بلکہ اپنی خاندانی شرافت و عظمت کو پیش کرنے کےساتھ ہی ساتھ اپنی دعوت حق کی اہمیت کو بھی اجاگر کر رہے ہیں یہ وہی روش ہے جسے اپنا تعارف کروانے کےلئے ہمارے پیغمبر (ص) نے اختیار فرمایا : میں وہی نبی امی ہوں جسکا نام و تعارف توریت و انجیل میں موجود ہے ۔ نیز امام حسین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام نے بھی کربلا و شام میں اپنی معرفت کروانے کےلئے اسی روش سے استفادہ فرمایا تھا:(انا بن فاطم الزهر(ع) (1) ۔

کلمہ ''ملت'' قرآن مجید میںدین و مذہب کے معنی میں استعمال ہوا ہے سورہ حج کی 78 ویں آیت میں مل ابراھیم کی تصویر کشی اسطرح کی گئی ہے ''اور خدا کی راہ میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے اس( خدا)نے تمہیں منتخب کیا اور دین کے معاملہ میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا ،یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے .۔۔لہٰذا نماز قائم کرو اور زکو دیا کرو اوراللہ کے ساتھ متمسک رہو۔۔''

--------------

( 1 )میں فرزند فاطمہ الزہرا (ع)ہوں۔

۸۵

پیام:

1۔ حق تک پہنچنے کے لئے باطل کی شناخت اور اسے ترک کرنا ضروری ہے(تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّ...)

2۔ دادا ، باپ کے حکم میں ہے لہٰذا دادا کو بھی ''اب ''کہا گیا ہے ۔( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ)

3۔انبیاء (ع)کو پاک اور شریف خاندان سے ہونا چاہیئے( آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ...)

4۔تمام انبی(ع)ء ِالٰہی کا ہدف ایک ہے( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ...)

5۔نبوت اور ہدایت تمام بشریت کےلئے توفیق اور فضل الٰہی ہے(عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ )

6۔ منفی راہوں کے ساتھ مثبت راستوں کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے۔(تَرَکْتُ مِلَّ... وَاتَّبَعْتُ مِلَّ ...)

7۔ توحید کی طرف رجحان اور شرک سے پرہیز کے لئے ''توفیق الہی''ضروری ہے۔(ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ ...)

8۔ شرک تمام صورتوں میں قابل مذمت ہے (ذات ، صفات ، افعال اور عبادات)( مِنْ شَیْئٍ)

9۔ ''کثرت افراد ''شناخت کے لئے صحیح معیار نہیں ہے(أَکْثَر النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ)

10۔ انبیاء (ع)کی راہ سے روگردانی بہت بڑی کفران نعمت ہے ۔( لاَیَشْکُرُونَ)

11۔ شرک کرنا ، خداتعالیٰ کی ناشکری ہے( لاَیَشْکُرُونَ)

۸۶

آیت 39:

(39) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ أَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ.

''اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (ذرا غور تو کرو کہ) بھلا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا خدائے یکتا زبردست''۔

انسانو ں کی تین قسمیں ہیں :

1۔ ''قالب پذیر'' یعنی جن کی اپنی کوئی شکل نہ ہو جیسے پانی اور ہوا ، جس قالب میں ڈالیں وہی شکل اختیار کرلیں گے ۔

2۔ نفوذ ناپذیر اور مقاومت کرنے والے جیسے لوہا جو بیرونی طاقت کے مقابلے میں سختی سے مقابلہ کرتا ہے۔

3۔ لیکن تیسری قسم ان افراد کی ہے جو دوسروں پر اثرانداز ہوتے ہیں جیسے ''امام اور رہبر''جو دوسروں کو خدائی رنگ میں رنگ دیتے ہےں حضرت یوسف علیہ السلام انسانوں کی اس تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ قید خانہ میں مشرک کو موحد بنا رہے ہیں ۔

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر سوالات اور تقابلی جائزہ لینے کی روش سے استفادہ کیا گیا ہے خداوندعالم کے سلسلے میں اس کے بعض نمونے قابل توجہ ہیں ۔

(هل من شرکائکم من یبدأالخلق ثم یعیده) (1) کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو خلقت کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے ؟( هل من شرکائکم من یهدی الی الحق ) (2) کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے ؟(أ غیر الله ابغی رباً وهو رب کل شی) (3)

آیا خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدا کو قبول کرلوں حالانکہ وہی تمام چیزوں کا پروردگار رہے؟(ءَ اﷲ خیر اما یشرکون ) (4) اللہ بہتر ہے یا وہ جس کو (خدا کا) شریک بنا رہے ہیں؟

--------------

( 1 )سورہ یونس آیت 34

( 2 ) سورہ یونس آیت 35

( 3 ) سورہ انعام آیت 164

(4) سورہ نمل آیت 59

۸۷

پیام:

1۔ لوگوں کو پیار محبت سے دعوت دیں( یَاصَاحِبَیِ)

2۔ حساس زمان و مکان سے تبلیغ کےلئے استفادہ کرنا چاہیئے ۔( یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ .)

(قید خانہ میں جیسے ہی حضرت یوسف (ع) نے مشاہدہ کیا کہ یہ لوگ تعبیر خواب کے محتاج ہیں فوراً اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس سے تبلیغ کے لئے فائدہ اٹھایا )

3۔سوال و جواب اور تقابلی جائزہ ،ارشاد و ہدایت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔( أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ...)

آیت 40:

(40) مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ مَا أَنزَلَ اﷲُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ.

''(افسوس) تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر بس ان چند ناموں ہی کی پرستش کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گڑھ لیاہے ،خدا نے تو ان کے لئے کوئی دلیل نہیں نازل کی ، حکومت تو بس خدا ہی کے واسطے (خاص)ہے اس نے (تو)حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی مستحکم دین ہے مگر (افسوس) بہتیرے لوگ نہیں جانتے''۔

۸۸

پیام:

1۔خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدں کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ صرف تمہارے اور تمہارے بزرگوں کی خیال پروری ہے ۔( مَا تَعْبُدُونَ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ)

2۔ بہت ساری طاقتیں، کمیٹیاں ، انجمنیں، ادارے ، سیمنار، قراردادیں، ملاقاتیں ، حمایتیں، اطاعتیںاور دوسرے عناوین و القاب ''بے مسمی'' اسم اور ہمارے جدید دور کے بت ہیں جن کو ہم نے خود بنایا ہے اور خدا کے بجائے ان کے گرویدہ ہوگئے ہیں ۔( مَا تَعْبُدُونَ...إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا )

3۔ انسان کے عقائد عقلی اور شرعی دلائل پر استوار ہونے چاہییں۔( مِنْ سُلْطَانٍ)

4۔ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے حکم پر فروتنی کا مظاہرہ نہ کیجئے کیونکہ حکم صادر کرنے کا حق فقط خدا کو ہے ۔( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ )

5۔ خدا کے قانون کے علاوہ ہر قانون متزلزل ہے ۔(ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ)

6۔ جہالت و نادانی شرک کا باعث بنتی ہے۔(لاَیَعْلَمُونَ)

7۔ اکثر و بیشتر لوگ جاہل ہیں ۔( أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ) ( یا تو جاہل بسیط ہیں یعنی اپنی نادانی سے واقف ہےں یا جہل مرکب ہیں یعنی اپنے گمان میں عالم ہے حالانکہ حقیقت میں جاہل ہےں)

۸۹

آیت 41:

(41) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُکُمَا فَیَسْقِی رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّأْسِهِ قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیهِ تَسْتَفْتِیَانِ

''اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (اچھا اب تعبیر خواب سنو)تم میں سے ایک (جس نے انگور دیکھے ہیں، رہا ہو کر)اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا (جس نے روٹیاں سر پر دیکھی ہیں)سولی پر چڑھایا جائےگا اور پرندے اس کا سر (نوچ نوچ کر)کھائیں گے جس امر کو تم دونوں دریافت کرتے ہو (وہ یہ ہے اور) اس کا فیصلہ ہو چکا ہے''۔

نکات:

کلمہ'' ربّ'' حاکم، مالک اورارباب کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔ بطور مثال ''رب الدار'' یعنی مکان کا مالک۔ پس اس جملہ''فَیَسْقِی رَبَّهُ خمراً'' کا معنی ''اپنے حاکم کو شراب پلائے گا''ہوگا۔

پیام:

1۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ وہ آپ کے ہم فکر نہ ہوں۔(یَا صَاحِبَی)

2۔ نوبت اورباری کی رعایت کرنی چاہیئے( أَمَّا أَحَدُکُمَا...) (پہلے وہ جس نے پہلے خواب کا تذکرہ کیا تھا)

3۔ بعض خوابوں کی تعبیر بہت اہم ہو سکتی ہے اگرچہ اس کا دیکھنے والا مشرک ہی کیوں نہ ہو ۔(فَیَسْقِی رَبَّهُ خَمْرً)

4۔ حضرت یوسف (ع) کا خواب کی تعبیر بیان کرنا قیاس یا پیش بینی نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے قطعی خبر ہے۔( قُضِیَ الْأَمْرُ)

۹۰

آیت 42:

(42) وَقَالَ لِلَّذِی ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ ذِکْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِینَ

''اور ان دونوں میں سے جس کی نسبت یوسف نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے کہا : اپنے مالک (عزیز مصر)کے پاس میرا تذکرہ کرنا مگر شیطان نے اسے اپنے آقا سے (یوسف کا)ذکر کرنا بھلا دیا یوں یوسف قید خانہ میں کئی برس رہے ''۔

نکات:

''ظَنّ'' علم و اعتقاد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے چونکہ حضرت یوسف (ع) نے گذشتہ آیت میں یقین و صراحت کے ساتھ ایک قیدی کی آزادی اور دوسرے کو سزائے موت کی خبر دی ہے لہٰذا یہاں پر ''ظن' 'کے معنی گمان اور شک و تردید کے نہیں ہیں۔

کلمہ'' بِضْعَ'' دس سے کم عدد کے لئے استعمال کیاجاتاہے اوراکثر مفسرین نے حضرت یوسف (ع)کی قید کی مدت سات سال ذکرکی ہے(والله اعلم)

بعض تفسیروں میں اس جملہ'' فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ'' کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے: ''شیطان نے پروردگار کی یاد کو جناب یوسف(ع) کے ذہن سے بھلا دیا اور آپ (ع)نے خدا سے مدد طلب کرنے کے بجائے بادشاہ کے ساقی سے مدد چاہی'' یہ حضرت یوسف (ع)کا ترک اولی تھا لہٰذا چند سال مزید آپ(ع) زندان میں رہے مگر صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی (رح)تحریر فرماتے ہیں کہ ایسی روایات قرآن مجید کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ قرآن مجید نے حضرت یوسف (ع)کو مخلصین میں شمار کیا ہے اور مخلصین تک شیطان کی رسائی نہیں ہے اس کے علاوہ 45ویں آیت میں آیا ہے کہ''َقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْهُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ ''ان دو قیدیوںمیں سے جس (قیدی)نے رہائی پائی تھی اسے بڑی مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی۔ یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ فراموشی، ساقی سے مربوط ہے حضرت یوسف (ع)سے نہیں۔

۹۱

پیام:

1۔ انبیاء (ع)بھی معمولی راستوں سے اپنی مشکلات حل کرنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں اور یہ توحید و توکل الٰہی کے منافی بھی نہیںہے۔(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ)

2۔ ہر تقاضا رشوت نہیں ہے(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ) جناب حضرت یوسف (ع)نے ہدایت اور تعبیر خواب کے لئے کوئی اجرت اور رشوت کی درخواست نہیں کی بلکہ فرمایا کہ میری مظلومیت کی خبر بادشاہ تک پہنچادو۔

3۔عام طور پر لوگ کسی مرتبے ، مقام اور آسائش کے بعد پرانے دوستوں کو بھول جاتے ہیں ۔( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)

4۔ حضرت یوسف (ع)کا قید خانہ سے نکلنا اور تہمت سے بری ہونا، شیطان کے اہداف کے خلاف تھا لہٰذا اس نے جناب یوسف (ع)کی یاد کو ساقی کے ذہن سے محو کرنے کی سازش کی( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)

آیت 43:

(43) وَقَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ یَاأَیُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِی فِی رُیَای إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ

''اور (ایک دن)بادشاہ نے (بھی خواب دیکھا اور)کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انکو ساتھ دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی سبز بالیاں اور (سات) سوکھی خشک بالیاں خواب میں دیکھی ہیں اے (میرے دربار کے)سردارو! اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہے تو میرے (اس) خواب کے بارے میں نظریہ پیش کرو''۔

۹۲

نکات:

ابھی تک اس سورہ میں تین خواب ذکر ہوئے ہیں(1) خود حضرت یوسف (ع)کا خواب(2) قید خانہ کے رفیقوں کا خواب(3) بادشاہ مصر کا خواب۔

پہلا خواب آپ (ع) کے لئے پریشانی کا سبب بنا لیکن دوسروں کے خوابوں کی تعبیر کا بتانا آپ(ع) کےلئے عزت و شرف کا باعث بنا۔ توریت میں آیا ہے کہ ایک بار بادشاہ نے دیکھا کہ لاغر اور کمزور گائیں موٹی تازی گائیوں کو کھائے جارہی ہیں اور دوسری مرتبہ دیکھا کہ سبز بالیاں خشک بالیوں کےساتھ ہیں(1)

--------------

( 1 )تفسیر المیزان.

۹۳

آیا عزیز مصر وہی بادشاہ مصر ہے یا دوالگ الگ شخصیات ہیں ؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے چونکہ اس بحث کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے لہٰذا ہم اس بحث سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

کتاب ''روضہ کافی'' میں ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں :

1۔خدا کی طرف سے خوشخبری۔

2۔شیطان کی طرف سے وحشت زدہ کرنا ۔

3۔ بے سروپا اور پریشان کرنے والے خواب۔

پیام:

1۔ ایک ظالم بادشاہ کے خواب دیکھنے سے خدا ایک قوم کو خشک سالی سے نجات دیتا ہے (بشرطیکہ تعبیر بتانے والا یوسف(ع) ہو)۔(قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی)

2۔ بادشاہ مصر نے اپنے تعجب آور خواب کو کئی بار دیکھا تھا۔(أَرَی)

3۔ رسا اور صاحب قدرت افراد تھوڑی سی ناگواری سے خطرے کا احساس کرنے لگتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے قدرت چھین لی جائے ۔(قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی ...أَفْتُونِی فِی رُیَای)

4۔ تعبیر خواب کے لئے اہل کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ہر کس و ناکس کی تعبیر پر اعتماد اور توجہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(أَفْتُونِی إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ)

۹۴

آیت 44:

(44) قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ

''ان لوگوں نے عرض کی یہ تو پریشان خوابوں میں سے ہے اور ہم لوگ اس قسم کے پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے''۔

نکات:

لفظ''اضغاث'' ضَغث کی جمع ہے جو ''مخلوط کرنے'' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور''ضغث'' لکڑی کے گٹھڑ کوبھی کہتے ہیں، لفظ''احلام'' حلم کی جمع ہے جو پریشان خواب کے معنی میں ہے''اضغاث احلام'' یعنی وہ پراکندہ اور پریشان خواب جس کا سرا تعبیر کرنے والوں کی سمجھ سے باہر ہو۔

پیام:

1۔اپنی جہالت اور نادانی کی توجیہ نہیں کرنی چاہیئے چونکہ اہل دربار خواب کی صحیح تعبیر سے ناواقف تھے لہٰذا بادشاہ کے خواب کو پریشان خواب کہہ دیا ۔(قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ )

2۔ ہر کام کو اس کے اہل کے سپرد کرنا چاہیئے (ماہر محقق اور دانشمند ، تعبیر خواب کرتا ہے لیکن جو اس سے نابلد ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ خواب پریشان ہے جو قابل تعبیر نہیں ہے)۔(مَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ )

۹۵

آیت 45:

(45) وَقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْهُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِهِ فَأَرْسِلُونِ

''اور جس (قیدی )نے ان دونوں( قیدیوں)میں سے رہائی پائی تھی اور اسے ایک زمانہ کے بعد (یوسف کا قصہ) یاد آیا ،بول اٹھا کہ مجھے (قید خانہ تک)جانے دیجئے تو میں اس کی تعبیر بتائے دیتا ہوں'' ۔

نکات:

''ام'' اگرچہ انسانوں کے اجتماع کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں پر ایام (مدتوں)کے اجتماع کے معنی میں استعمال ہوا ہے(1) ۔

پیام:

1۔ اچھائیاں اپنے اثرات کو دیر یا سویر آشکار کر ہی دیتی ہیں ۔(ادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ)

2۔ صاحبان علم کو معاشرے کے سامنے پہچنوائیں تاکہ لوگ ان سے بہرہ مند ہوسکیں۔(فَأَرْسِلُونِ)

3۔ بعض محققین بڑی سخت زندگی گزار رہے ہیں ان سے غافل نہیں ہونا چاہیئے۔(فارْسِلُونِ)

--------------

( 1 )تفسیر کبیر وتفسیرالمیزان.

۹۶

آیت 46:

(46) یُوسُفُ أَیُّهَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَا فِی سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ لَعَلِّی أَرْجِعُ إِلَی النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُونَ

''(غرض وہ گیا اور یوسف سے کہنے لگا)اے یوسف اے بڑے سچے (یوسف) ذرا ہمیں یہ تو بتائےے کہ سات موٹی تازی گائیوں کو سات دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی ہری بالیاں اور پھر سات سوکھی مرجھائی ہوئی (اس کی تعبیر کیا ہے)تا کہ میں لوگوں کے پاس پلٹ کر جں (اور بیان کروں)تا کہ ان کو بھی (تمہاری قدر اور اس خواب کی حقیقت)معلوم ہوجائے''۔

۹۷

نکات:

' صدّیق' اس شخص کو کہتے ہیں جس کی رفتار و گفتار اور عقیدہ سب ایک دوسرے کی تصدیق کریں ۔چونکہ حضرت یوسف (ع)کے دوست ان کی رفتار و گفتار کا قید خانہ میں مشاہدہ کرچکے تھے اور دوسری طرف اس شخص نے اپنے اور اپنے ساتھی کے خواب کی تعبیر کو واقع کے مطابق پایا تھا لہٰذا حضرت یوسف (ع)کو صدیق کہہ کر پکارا ۔

خداوندعالم نے حضرت ابراہیم (ع)کو صدیق کہا تو انہیں اپنا خلیل بنا لیا(واتخذ الله ابراهیم خلیلا) (1)

حضرت مریم (ع)کو صدیقہ کہا توانہیں برگزیدہ بنا دیا(ان اﷲاصطفاکِ) (2) اورحضرت یوسف (ع)کو صدیق کہا تو ان کو ہر طرح کی قدرت عطا کر دی(وکذلک مکّنا لیوسف ) (3)

حضرت ادریس (ع)کو صدیق کہا تو بلند مقام تک پہنچا دیا(و رفعناه مکاناًعلیاً) (4) اور جو لوگ اس درجہ کے لائق نہیں ہیں انہیں صدیقین اور سچوں کے ساتھ رہنا چاہیئے(فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیهم من النبیین والصدیقین...) ۔(5)

'' صدّیق'' ان القاب میں سے ایک لقب ہے جسے پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے۔(6)

ایک احتمال یہ ہے کہ جملہ''لعلهم یعلمون'' کا مقصود لوگوں کو حضرت یوسف کی

ارزش و اہمیت سے واقف کرنا ہو یعنی میں لوگوں کی طرف پلٹوں تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ آپ کیسے گوہر نایاب ہیں۔

--------------

( 1 )سورہ نساء آیت 125

( 2 ) سورہ آل عمران آیت 42

( 3 ) سورہ یوسف آیت 56

( 4 )سورہ مریم آیت 57

( 5 )سورہ نساء آیت 69

( 6 )تفیسر اطبیب البیان و تفسیر الکبیر سورہ مومن آیت 28 کے ذیل میں.

۹۸

پیام:

1۔ درخواست سے پہلے مناسب ہے کہ شخص کے ذاتی کمالات کو بیان کریں۔(أَیُّهَا الصِّدِّیقُ )

2۔ اپنے سوالات اور مشکلات کو ایسے لوگوں کے سامنے پیش کریں جن کا سابقہ اچھا ہو اور وہ سچے ہوں۔( أَیُّهَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَ)

آیت 47:

(47)قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوْهُ فِی سُنْبُلِهِ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ

''(یوسف نے جواب میں )کہا (اسکی تعبیر یہ ہے)کہ تم لوگ متواتر سات برس کاشتکاری کرتے رہو گے توجو (فصل)تم کاٹو اس (کے دانہ) کو بالیوں ہی میں رہنے دو (چھڑانا نہیں)مگر وہ تھوڑا (بہت) جو تم خود کھ ''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع)نے اپنے قیدی ساتھی سے بغیر کسی گلے شکوے کے کہ مجھے کیوں بھول گئے ؟ بادشاہ کے خواب کی تعبیر فوراً بتادی کیونکہ علم و حکمت کا چھپانا بالخصوص ایسے مواقع پر کہ جب لوگ( بلکہ معاشرہ) اس کے بہت زیادہ محتاج ہوں ایک پاک اور نیک خصلت انسان کی شان کے خلاف ہے۔

حضرت یوسف (ع) تعبیر خواب کے بجائے اس خشک سالی سے مقابلہ کرنے کے طریقے تفصیلی طور پر بیان فرما رہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ میں خوابوں کی تعبیر کے علاوہ منصوبہ بندی اور انتظامی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہوں ۔

زراعت کا علم ، ذخیرہ سازی کی سیاست اورخرچ کرنے میں صرفہ جوئی سے کام لینے کے حکمت آمیز پیغامات اس آیت میں واضح طورپر بیان کیے گئے ہیں ۔

۹۹

پیام:

1۔خدائی افراد کو لوگوں کی فلاح و بہبود اور آرام و آسائش کے متعلق ہمیشہ غور و فکر کرنا چاہیئے نیز طویل مدت اور کم مدت کے پروگرام بھی پیش کرنے چاہئیں ۔( تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ )

2۔اگر گیہوں اپنی بالیوں کے ساتھ ہو تو اسکی زندگی بڑھ جاتی ہے( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

3۔ منظم پروگرام بنانے کے بعد قدرتی حوادث مثلاًزلزلہ ، سیلاب ، اور خشک سالی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

4۔ منصوبہ بندی اور مستقبل کے لئے تدبیر کرنا۔ خدا پر توکل اور اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے منافی نہیں ہے( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ) (تدبیر کے ساتھ تقدیر کا استقبال کرنا چاہیئے)

5۔ تمام پروگرام عملی صلاحیت کے حامل ہونے چاہئیں( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

اس زمانے میں چونکہ گندم کو محفوظ کرنے کے لئے مخصوص برج نما گودام یاکوئی جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی لہٰذا گندم کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ گیہوں کو اس کی بالیوں میں رہنے دیا جائے)

6۔ ہر مصیبت اور سختی ، بُری نہیں ہوتی ۔ یہی خشک سالی جناب یوسف (ع)کی حاکمیت کا پیش خیمہ بنی۔ اسی طرح یہ قحط صرفہ جوئی اور لوگوں کے درمیان زیادہ کام کرنے کا رجحان پیداکرنے کا باعث بنا۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ، إِلاَّ قَلِیلًا...)

7۔ آج کی کفایت شعاری، کل کی خود کفائی ہے اور آج کی فضول خرچی کل کے لئے باعث پریشانی ہے۔( قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ )

8۔ مستقبل کے بارے میں فکر کرنا اور معاشرے کی اقتصادی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے طویل مدت کے پروگرام بنانا ملکی نظام کے لئے ضروری ہے۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ... إِلاَّ قَلِیلًا )

9۔ بحرانی حالات اور شرائط میں تولید و توزیع پر حکومت کا کنٹرول ضروری ہے۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ... )

10۔ کافروں کے خواب بھی حقائق کو بیان کرسکتے ہیں اور معاشرے کی حفاظت کے لئے دستورالعمل بھی ہوسکتے ہیں۔

۱۰۰