یوسف قرآن

یوسف قرآن 23%

یوسف قرآن مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 246

یوسف قرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 246 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 174814 / ڈاؤنلوڈ: 4695
سائز سائز سائز
یوسف قرآن

یوسف قرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

کی ہے ایسی خالص عبادت، عشق محبوب سے مکمل لبریز ہے اور اس محبت کا اثر خدا کی جانب پیش قدمی کا بہت اہم سبب ہے، کمال مطلق کی جانب پیش قدمی گناہو ں اور تمام آلودگیو ں سے کنارہ کشی کا پیش خیمہ ہے ۔

حقیقی عبادت گذار اس بات کی سعی پیہم کرتا ہے کہ خود کو محبوب کے جیسا قراردے اور ا سی طرح سے خود کو صفات جمال و جلا ل الٰہیہ کا پر توقرار دیتا ہے اور یہ امور انسان کے تربیت وتکامل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

سوالات

۱۔خدا کی وحدانیت پر دلیل پیش کریں ؟

۲۔ مراتب توحید کیا ہیں ؟

۳۔ توحید افعال سے مراد کیاہے ؟

۴۔ توحید در عبادت کی وضاحت کیجئے ؟

۶۱

آٹھواں سبق

صفات خدا (فصل اول )

جس طرح سے شناخت خدا وندمتعال اور اس کے اصل وجو د کو جا ننا آسان ہے اسی طرح اس کے صفات سے آگاہی چنداں آسان نہیں ہے .کیونکہ خد اکی شنا خت کے لئے آسمان کے ستارے، درختوں کے پتے ،متنوع برگ وگیاہ ، جاندار اشیاء بلکہ ایٹمی ذرات کی تعداد یہ سب اس کے وجود پر دلیل ہیں یہ سب کے سب اس کے عظمت کی نشانیاں ہیں، لیکن اس کی صفات کی پہچان کے لئے غوروخو ض او ر دقت نظر کی ضرورت ہے تاکہ تشبیہ اور قیا س آرائی سے دور رہیں صفات خدا کی شناخت کی پہلی شرط ،صفات مخلو قات کی خدا سے نفی کرنا او رخدا کاکسی مخلوق سے تشبیہ نہ دینا ہے کیو نکہ خدا کی کسی صفت کا مخلوقات کی صفت سے کسی طرح موازنہ ہو ہی نہیں سکتا ،مادی صفات میں سے کو ئی صفت اس کی پاک ذات میں دخیل نہیں ہے کیو نکہ مادی صفت محدودیت کا سبب ہے اور وہ لا محدود ہے اور تمام مراتب کمال کا مجموعہ ہے لہٰذا ہم اس کی ذات کوکماحقہ درک نہیں کر سکتے اور اس طرح کی کو ئی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے ۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ عقل، خد اکی حقیقت ذات اور اس کے صفات کو کیوں نہیں درک کر سکتی ؟ تو اس کاجواب اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس ہررخ سے بے نظیر و لا محدود ہے ،علم ،قدرت اور اس کے تمام صفات اس کی ذات کی طرح لا محدود ہیں ، اور دوسری طرف ہم او رجو کچھ ہم سے مربوط ہے ، علم ،قدرت ،حیات ،فرمان ،مکا ن، سب محدود ومتناہی ہے ۔تو ان تمام تر محدودیت کے ساتھ اس کی حقیقت ذات کو کہ جولامحدود ہے کیسے درک کر سکتے ہیں ؟!اس کی حقیقت ذات کو آخر کیسے درک کریں جس کی کو ئی شبیہ ومثیل نہیں ؟۔

۶۲

صفات ثبوتیہ و سلبیہ :

صفات خدا کو دو قسموںمیں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ ثبوتیہ و سلبیہ

صفات ثبوتیہ یا جمالیہ

''عالم ،قادر ، حی، مرید ، مدرک ، سمیع ، بصیر ، متکلم و صادق ''۔خدا وند کمال مطلق ہے جو کچھ صفات ثبوتیہ کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے وہ اصول صفات ہیں نہ یہ کہ خدا ان میں منحصر و محدود ہے ۔

صفات سلبیہ یا جلالیہ

''وہ مرکب ومجسم نہیں ، قابل دید و محلول نہیں ،اس کا کوئی شریک نہیں ''

صفات ذات و صفات فعل

صفات ثبوتیہ کی دوقسمیں ہیں ۔ صفات ذات و صفات فعل

صفات ذات: جو اس کی عین ذات ہیں انہیں کو ذات خدا وندی سے جدا نہیں کرسکتے جیسے علم ،قدرت،حیات ،اور جن کی بھی ان تینوں صفات کی طرف بازگشت ہو جیسے سمیع ، بصیر، قدیم، ازلی، ابدی، مدرک، حکیم، غنی، کریم ،عزیز و غیرہ ۔

صفات فعل : وہ صفات جو افعال خدا وندسے متعلق ہیں یعنی جب تک وہ افعال اس سے صادر نہ ہو ں وہ صفات اس سے متصف نہیں ہو ںگے جیسے خالق رازق یااس کے ماننددوسرے صفات اور کبھی اس سے یہ صفات سلب بھی ہو جا تے ہیں جیسے''کان اللّٰهُ ولمْ یُخلق شیئاً ثُم خَلَق ۔أراد اللّه شیئاً ولم یرد شیئاً آخر شاء ولم یشائ''وه خدا تھا جس نے خلق نہیں کیا تھا پھراس نے خلق کیا، خدا نے ایک چیز کا ارادہ، کیا دوسری چیز کا ارادہ نہیں کیا ، چاہا اور نہیں چاہا ۔''تکلم مع موسیٰ ولم یتکلم مع فرعون یُحب مَن أطاعہُ ولا یُحب مَنْ عصاہ'' حضرت موسی سے ہم کلام ہوا فرعون سے کلام نہیںکیا ،جو اس کی اطاعت کرتا ہے اس کو دوست رکھتا ہے اور جو اس کی نا فرمانی کرتاہے اس کو دوست نہیں رکھتا ، اس کے صفات فعل میں ''اذا '' اور ''اِن'' کا لفظ داخل و شامل ہو تا ہے جیسے '' اِذا أراد شیئاً و اِن شائَ اللّه'' اس کی صفات ذات میں ''اِذا عَلِم اللّه ''اور''اِن عَلِم ''نہیں کہہ سکتے۔

۶۳

علم خداوند

وہ واجب الوجود جو عالم علم کل ہے اس کی حیرت انگیز نظم و ہماہنگی پوری کائنات پر محیط ہے ،جو اس کے لا متناہی علم کا بیّن ثبوت ہے اس کے علم کے لئے ماضی حال ،مستقبل سب برابر ہے ، اس کا علم ازل و ابد پر محیط ہے کروڑوں سال قبل و بعد کاعلم اس کے نزدیک آج کے علم کے برابر ہے جس طرح سے کل کا ئنا ت کا خالق ہے اسی طرح تمام ذرات کی تعداد اور ان کے اسرار مکنونہ کا مکمل عالم ہے انسان کے نیک و بد اعمال نیز ان کی نیات ومقاصد سے آگا ہ و باخبر ہے ،علم خداوند اس کی عین ذات ہے اور اس کی ذات سے جدا نہیں ۔

( وَ اعلموا أَنَّ اللّهَ بِکلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۱ ) جان لو کہ خد اہر شی ٔسے آگا ہ ہے۔( وَهَوَ اللّهُ فیِ السَّمٰواتِ وَ فیِ الأَرضِ یَعلَمُ سرَّکُم وَجَهَرَکُم وَ یَعلمُ ما تََکسِبُونَ ) ( ۲ ) ''وہ خد اوہ ہے جو زمینو ں و آسمانو ں میں تمہارے ظاہر و باطن کا عالم ہے او رجو کچھ تم انجام دیتے ہو اس کا عالم ہے'' ۔

____________________

(۱) سورہ بقرہ آیة ۲۳۱

(۲)سورہ انعام آیة ،۳

۶۴

سوالات

۱۔عقل، خد اکی حقیقت ذات اور ا س کے صفات تک کیو ں نہیں پہنچ سکتی ؟

۲۔صفات ثبوتیہ وصفات سلبیہ کی تعریف کریں ؟

۳۔ صفات ذات و صفا ت فعل میں کیافرق ہے ؟

۶۵

نواں سبق

صفات خدا وند (فصل دوم )

خد اوند متعال بے پنا ہ قوتوں کامالک ہے اتنی بڑی کا ئنا ت اپنی تمام عظمتوں او روسعتوں کے ساتھ سیارات وکواکب ،کہکشائیں، بے کراں سمندر ، دریا اور ان میں مختلف النوع مخلو قات و موجودات سب کے سب اس کی قدرتوں کے کرشمہ ہیں ! خدا ہر چیز پر قادر ہے اور ہر شی ٔپر اس کی قدرت یکساں و مساوی ہے۔

( تَبَارَک الّذیِ بِیَدِهِ المُلک وَهُوعلیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۱ ) ''بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں کا ئنا ت کی باگ ڈور ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے'' ۔

( لِلّه مُلک السَّمٰواتِ والأَرضِ وَماَ فِیهنَّ وَ هُو علیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدیرُ ) ( ۲ ) ''زمین وآسمان اورجوکچھ اس کے درمیان ہے ان سب کی حکومت خدا سے مخصوص ہے او روہ ہرچیز پرقادر ہے'' ۔

( فلَا أُقسِمُ بِربِّ المَشَارقِ وَالمَغَاربِ اِنَّا لَقَادِرُونَ ) ( ۳ ) میں

____________________

(۱) سورہ ملک آیة ۱

(۲) مائدہ آیة ۱۲۰

(۳) معارج آیة ۴۰

۶۶

تمام مشرق و مغرب کے پروردگا ر کی قسم کھا کر کہتا ہو ں کہ ہم قدرت رکھنے والے ہیں۔

قران کی متعدد آیات جوقدرت خداوندعالم کو بیا ن کرتی ہیں اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ قدرت خد الئے کو ئی حدو قید نہیں ہے بلکہ جس وقت وہ چاہے انجام دے دیتا ہے او رجب کسی چیز کی نا بودی کا ارادہ کرے تواس چیز کومٹ ہی جا نا ہے ۔

خلا صہ یہ کہ کسی قسم کی ناتوانی او رضعف کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔آسمان، عظیم ترین سیارات اور ذرات سب اس کے لئے یکساںاور برابر ہیں ۔

عن علیٍّ علیه السلام :وما الجلیل واللطیف والثقیل والخفیف والقوی والضعیف من خلقه اِلّا سواء

امیر المومنین فرماتے ہیں:'' آشکا ر وپوشیدہ، وزنی او ر ہلکا ،قوی وضعیف یہ سب کے سب خلقت میں اس کے نزدیک برابر ہیں''( ۱ )

امام جعفر صادق نے فرمایا : جس وقت حضرت موسیٰ طور پر تشریف لے گئے عرض کی ! خدا یا ! اپنے خزانے کا نظارہ کرادے تو خدا نے فرمایا : میراخزانہ یوں ہے کہ جس وقت میں کسی چیز کا ارادہ کرکے کسی چیز کو کہو ںکہ ہو جا تو وہ وجو د میں آجائے گی( ۲ )

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۷

قدرت خداکے متعلق ایک سوال

کبھی کبھی یہ سوال اٹھا یا جا تا ہے کہ کیا خدا اپنا جیسا ایک خدا پیدا کرسکتا ہے؟

اگر یہ جواب دیا جا ئے کہ کیو ں نہیں ؟تو دو خداہو جا ئیں گے ! اوراگر کہا جائے کہ نہیں کرسکتا تو ایسی صورت میں قدرت خدا محدود ہو جا ئے گی ۔ یا یہ کہ کیا خدا اتنی بڑی کائنات کو ایک مرغی کے انڈے کے اندر دنیا کو چھوٹی اور انڈے کو بڑ ا کئے بغیر سمو سکتاہے۔؟

اس کے جو اب میں یہ کہا جا ئے گا کہ ایسے مواقع کے لئے (نہیں ہو سکتا ) یا (نہیں کرسکتا ) کی لفظیں استعمال نہیں کریں گے ،یا واضح لفظوں میں یہ کہا جا ئے کہ یہ سوال ہی نامعقول ہے کیو نکہ جب ہم یہ کہیں گے کہ کیا خدا اپنے جیسا دوسرا بنا سکتا ہے تو خود لفظ (خلقت) کے یہ معنی ہیں کہ وہ شیء ممکن الوجود و مخلو ق ہے اور جب ہم یہ کہیں گے (خدا وند ) کے معنی وہ شی ٔہے جو واجب الوجود ہے ۔

تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کیا خدا اس با ت پر قادر ہے کہ ایسی چیز کو خلق کرے جو ایک ہی وقت میں واجب الوجو د بھی ہو اور نہ بھی ہو، ممکن الوجود بھی ہو اور غیر ممکن الوجود بھی ، خالق بھی ہو اور مخلوق بھی یہ سوال غلط ہے خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی طرح سے جب یہ کہا جا ئے کہ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ کل کا ئنا ت کو ایک مرغی کے انڈے میں سمودے اس طرح سے کہ نہ دنیا چھوٹی ہو اور نہ انڈا بڑا تو اس کے معنی یہ ہو ئے کہ دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ بڑی بھی ہے اور چھوٹی بھی اس سوال کے بے تکے ہو نے کی وجہ سے جواب کی بالکل ضرورت نہیں ہے کیو نکہ محال سے قدرت کا تعلق خود محال ہے ۔

اسی سوال کو ایک شخص نے حضرت امیرںسے پوچھا تھا آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) نہج البلاغہ خ :۸۰

(۲)توحید صدوق باب ۹ حدیث ۱۷

۶۸

اِنَّ اللّه تبارک وتعالیٰ لا ینسب اِلیٰ العجز والّذیِ سألتنیِ لا یکون ''خدا کی جا نب عجز و ناتوانی کی نسبت نہیں دی جاسکتی ؛لیکن تم نے جو سوال کیا وہ انہونی ہے''( ۱ )

ایک روایت میں آیا ہے کہ امام رضاںنے ( اس سوال کے جو اب میں ) فرمایا : ہا ں کیو ں نہیں انڈے سے بھی چھوٹی چیزمیں اس دنیا کو رکھ سکتا ہے خدا اس بات پر قادر ہے کہ دنیا کو تمہاری آنکھ کے اندر رکھ دے جو انڈے سے بھی چھوٹی ہے (در حقیقت یہ جو اب مولا کا نقضی جو اب تھا کیو نکہ سوال کرنے والا ایسے مسائل کے تحلیل کی طاقت نہیں رکھتا تھا)۔( ۲ )

خدا حی وقیوم ہے

خدا حیات جاوداں کا مالک ہے وہ ثابت و قائم ہے وہ اپنی ذات پر قائم ہے دوسری موجودات اس کی وجہ سے قائم ہیں حیات خدا اور حیات موجو دات میں فرق ہے کیو نکہ حیات ،خد اکی عین ذات ہے نہ عارضی ہے اور نہ ہی وقتی ۔

حیات خدا یعنی اس کا علم او راس کی قدرت ،خدا کی حیات ذاتی ،ازلی ،ابدی، نہ بدلنے والی اور ہر طرح کی محدودیت سے خالی ہے وہ قیوم ہے یعنی موجودات کے مختلف امو ر اس کے ہاتھ میں ہیں مخلوقات کی رزق ،عمر ،حیات اور موت اس کے حسن تدبیر کی وجہ سے ہے ۔

____________________

(۱) توحید صدوق باب ۹ ، حدیث ۹

(۲)پیام قرآن ج ۴، ص ۱۸۳

۶۹

اسی لئے یا حی یا قیوم جا مع اذکا رمیں سے ایک ہے اس لئے کہ (حی) اس کے بہترین صفات ذات یعنی علم وقدرت میں سے ہے اور (قیوم ) اس کے صفات فعل میں سے ہے اس وجہ سے امیر المومنین سے نے ارشاد فرمایا :فلسنا نعلمُ کُنه عظمتک ِالَّا انَّا نعلم اِنَّک حیّ قیُّوم لا تاخذ ک سِنةُ ولا نوم ( ۱ )

''ہم کبھی تیری حقیقت ذات کو درک نہیں کر سکتے ہم بس اتنا جا نتے ہیں کہ حی و قیوم ہے اور کبھی بھی تجھے نینداور جھپکی نہیں آتی (اپنے بندوں کے حال سے بے خبر نہیں ہے )''

امیر المو منین سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپ سجدے میں سر رکھ کر ''یا حی یا قیوم '' کا ورد کر رہے ہیں کئی دفعہ گیا اور واپس آگیا آپ مستقل اسی ذکر کا ورد فرمارہے تھے یہا ں تک جنگ بدر فتح ہو گئی ۔( ۲ )

جو کچھ اب تک ذکر کیا گیا ہے وہ صفات خد ا کے اصول تھے اور دوسری صفات بھی ہیں کہ جن کے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا جائے گا ۔

قدیم و ابدی : یعنی ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا اس کے لئے آغاز و انتہا نہیں ہے( هُوَ الأَوّلُ و الآخِرُ والظَّاهرُ والباطِنُ وَ هُوَ بِکُلِّ شَیئٍ عَلِیمُ ) ( ۳ ) ''وہ اول و آخر ہے وہ ظاہر و باطن ہے وہ ہرشی ٔکا جاننے والا ہے ''۔

____________________

(۱) نہج البلا غہ خ ،۱۶۰

(۲) تفسیر روح البیا ن آیہ الکرسی کے بیان میں۔

(۳) حدید آیة،۳

۷۰

مرید : یعنی وہ صاحب ارادہ ہے وہ اپنے کاموں میں مجبو ر نہیں ہے وہ جس کام کو بھی انجام دیتا ہے اس کا ہدف اور اس کی حکمت پیش نظر ہو تی ہے (وہ حکیم ہے )

مدرک : ساری چیزوں کو درک کرتا ہے .ساری چیزوں کو دیکھتا ہے او رہر آواز کو سنتا ہے۔ ( وہ سمیع و بصیر ہے )

متکلم : خدا ہو ائوں میں آواز پیدا کر سکتا ہے وہ اپنے رسولوں سے گفتگو کرتا ہے اس کی گفتگو زبا ن و لب و حلق کی محتا ج نہیں ۔

صادق : یعنی خدا جوکچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اور عین حقیقت ہے کیو نکہ جھوٹ جھل ونادانی کے باعث یا کسی کمزوری کے سبب ہوتا ہے او رخد اان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلام یہ کہ خد اکمال مطلق ہے او رکسی قسم کا نقض و عیب اس کی ذات سے متصف نہیں اور ہم کو اس کی صفات کی شناخت میں بھی اپنے عجز کا اعتراف کرنا چاہئے ۔

۷۱

ذات خد امیں تفکر منع ہے

صفات کے بارے میں جو مختصر بیا ن تھا اس کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ صفات خدا عین ذات ہیں لہٰذانہ اس کی ذات او ر نہ ہی اس کی صفات میں از حد تفکر کریں کیو نکہ از حد تفکر حیرانی او ر سر گردانی کاسبب ہے صرف اس کی مخلوقات میں غور خوض کریں ۔

قال الاما مُ البا قر علیه السلام : ''تکلموا فیِ خلق اللّه ولا تکلموا فیِ اللّٰه فأَنَّ الکلام فی اللّٰهِ لا یزاد صاحبة الا تحیّراً ''خلقت خداکے با رے میں گفتگو کرو .خدا کے با رے میں گفتگو نہ کرو اس لئے کہ خدا کے بارے میں گفتگو صاحب کلا م کے حق میں تحیّر کے سوا کچھ اضا فہ نہ کرے گا۔

علامہ مجلسی او ردیگر علما ء نے کہا ہے کہ ذات و صفات خدا میں تفکر و تکلم سے منع کرنے کا مطلب کیفیت ذات خدا وندعالم ہے ۔

قال الامام الباقر علیه السلام: اِیاکم و التفکّر فی اللّٰه لکن اِذَا أردتم أن تَنظروا اِلیٰ عظمته فانظروا اِلیٰ عظیم خلقه '' ذات خد امیں غور و خو ض سے پرہیز کرو جب جب بھی اس کی عظمتوں کودیکھنا چاہوتو اس کی عظیم خلقت (اس دنیا )کودیکھو ''۔( ۱ )

____________________

(۱) اصول کا فی باب نہی از کلام در کیفیت حدیث ،۱۔۷

۷۲

سوالا ت

۱۔ خدا کے قدرت کی نشانیا ں کیا ہیں ؟

۲۔ قدیم ، ابدی ،متکلم ، صادق کے کیا معنی ہیں ؟

۳۔ ذات خد امیں غو ر و خو ض کیوں منع ہے ؟

۷۳

دسواں سبق

صفات سلبیہ

ایک جملہ میں یو ں کہا جا سکتا ہے کہ صفات سلبیہ یعنی : خدا وند ہر طرح کے عیب و نقص ، عوارض نیز صفات ممکنات سے پاک ومنزہ ہے ۔ لیکن ان صفات میں بعض پر بحث کی گئی ہے جیسے وہ مرکب نہیں ہے ، جسم نہیں رکھتا ، قابل رئویت نہیں ، اس کے لئے زمان ومکا ن ،کو ئی ٹھکا نہ یا جہت معین نہیں کرسکتے .وہ ہر طرح کے نیاز و احتیاج سے دور ہے، اس کی ذات والا صفات محل حوادث نہیں اور عوارض وتغییر وتبدل کا شکا ر نہیں ہو سکتی ،صفات خدا ونداس کی عین ذات ہے اس کی ذات مقدس پر اضا فہ نہیں ہے ۔

سید الاولیاء امیرالمومنین ایک خطبہ کی ابتدا میں یو ں گویا ہیں''لا یشغله شأن ولا یغیره زمان ولا یحویه مکان ولایصفه لسان ''کو ئی چیز اس کو اپنے آپ میں مشغول نہیں کرسکتی، زما نہ کا تغییر وتبدل اس میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا کو ئی مکان اپنے میں سمو نہیں سکتا ،کو ئی زبا ن اس کی مدح نہیں کر سکتی۔( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ،۱۷۸

۷۴

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق سے نقل ہے کہ''اِنَّ اللّهَ تبارک و تعالیٰ لا یُوصف بزمان ولا مکان ولا حرکة ولا انتقال ولا سکون بل هو خالق الزمان والمکان والحرکة والانتقال تعالی اللّه عما یقول الظالمون علوًا کبیراً ''خدا وندتعالی کی تعریف وتوصیف زمان و مکا ن ،حرکت و انتقال مکان و سکو ن کے ذریعہ سے نہیں کی جا سکتی ، وہ زمان ومکا ن نیزحرکت ونقل مکا ن، ،اور سکون کا خالق ہے ،خدا اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے جو ظالم او رستمگر افراد تصور کرتے ہیں۔( ۱ )

صفات سلبی کی وضاحت

خدا مرکب نہیں ہے یعنی اجزاء ترکیبی نہیں رکھتا کیو نکہ ہر مرکب اپنے اجزاء کامحتاج ہو تا ہے جبکہ خدا کسی شی ٔ کا محتا ج نہیں ہے ، وحدانیت کی بحث میں ہم نے یہ بات کہی تھی کہ خدا کمال مطلق ہے ، اور ا س کے لئے کو ئی حد ومقدار نہیں ہیں ،لہٰذا اس بات کی جا نب ہماری توجہ ضروری ہے کہ جو محدودیت یا احتیا ج کا سبب ہے وہ ممکنات سے مخصوص ہے خدا ان سے پاک و منزہ ہے تعالی اللّہ عنہ ذلک علواً کبیراً۔

خدا جسم نہیں رکھتا اور دکھائی نہیں دے گا

( لاَ تُدرِکُهُ الأبصَارُ و هُوَ یُدرِک الأبصارَ وَهو اللّطِیفُ الخَبِیر ) ( ۲ ) آنکھیں اس کو دیکھ نہیں سکتی وہ تمام آنکھوں کو دیکھتا ہے وہ لطیف وخبیر ہے

____________________

(۱) کتاب بحارالانوار ج۳ ،ص،۳۰۹

(۲) سورہ انعام آیة ۔۱۰۳

۷۵

سوال : خدا کو دیکھنا کیو ں ناممکن ہے ؟

جواب : اس لئے کہ دیکھنے کے جو لوازمات ہیں ،ان میں سے کوئی ایک بھی خداکے لئے ممکن نہیں یعنی خدا کو اگردیکھنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ جسم رکھتا ہو جہت اورسمت رکھتا ہو ،اجزاء رکھتا ہو اس لئے کہ ہر جسم اجزاء و عوارض جیسے رنگ ،حجم اور ابعاد رکھتا ہے ،نیز تمام اجسام تغییر وتبدل رکھتے ہیں اور مکا ن کے محتاج ہیں اور یہ سب ممکنات کی خصوصیات ہیں ، اورنیاز واحتیاج کے شکا رہیں خدا ان سے پاک ومنزہ ہے۔

خلا صہ کلا م یہ کہ نہ خدا جسم ہے اورنہ ہی دیکھا جاسکتا ہے ( اہل سنت کے بعض فرقے اس بات کے قائل ہیں کہ خدا روز محشر مجسم ہوگا اور دکھا ئی دے گا اس کے ضمن میں ان کی جانب سے بہت ساری باتیں مضحکہ خیز ہیں اورکسی عقل و منطق سے سروکا ر نہیں رکھتیں ۔

امام علی رضا سے روایت ہے :أنّه لَیس مِنَّا مَن زعم أَنَّ اللّٰه عزَّوجلَّ جسم ونحن منه براء فی الدنیا والآخرة ( ۱ ) جو شخص اس بات کا قائل ہے کہ خدا جسم و جسمانیت رکھتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے او رہم دنیا وآخرت میں ایسے شخص سے دور و بیزار ہیں ۔

____________________

(۱)توحید صدوق باب ۶، حدیث، ۲۰

۷۶

وہ لا مکاں ہے او رہر جگہ ہے

مادہ سے خالی ایک شی ٔ کی شناخت ان انسانو ں کے لئے جو ہمیشہ مادی

قیدخانہ میں اسیر رہے اور اس کے عادی ہو گئے بہت ہی مشکل کام ہے شناخت خدا کا پہلا زینہ اس (خدا ) کو صفات مخلوقات سے منزہ جاننا ہے ،جب تک ہم خداکو لا مکا ن ولا زمان نہ جا نیں گے در حقیقت اس کی معرفت ہی حاصل نہیںکر سکتے ۔محل او رمکان رکھنا جسم وجسمانیت کالازمہ ہے او رہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ وہ جسم نہیں رکھتا وہ ہر جگہ ہے ۔

وہ ہر جگہ ہے

( وَللَّهِ المَشرِقُ والمَغرِبُ فَأَینَمَا تُولُوا فَثَمَّ وَجهُ اللَّهِ اِنَّ اللّٰهَ واسِعُ عَلیمُ ) ( ۱ ) مشرق ومغرب اللہ ہی کے لئے ہے اور تم جس جانب بھی رخ کروگے خدا وہاں موجود ہے خدا بے نیاز اور صاحب علم و حکمت ہے ۔

( وَهُوَ مَعَکُم أَینَ مَا کُنتُم وَاللّهُ بِمَا تَعملُونَ بَصیرُ ) ( ۲ ) تم جس جگہ بھی ہو خدا تمہارے ہمراہ ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اس پر ناظر ہے ۔

امام موسی کا ظم ںنے فرمایا :اِنَّ اللّٰهَ تبارک وتعالیٰ کان لم ینزل بلا زمان ولا مکان وهو الآن کما کان لا یخلو منه مکان ولا یشغل به مکان ولا یحلّ فی مکان ( ۳ ) خدا ہمیشہ سے زمان ومکان کے بغیر موجود تھا اور اب بھی ہے، کو ئی جگہ اس سے خالی نہیں اور درعین حال کسی جگہ میں قید نہیںاس نے کسی مکا ن میں حلول نہیںکیا۔

____________________

(۱)سورہ بقرہ ص ۱۱۵۔

(۲) سورہ حدید آیة ،۴

(۳) توحید صدوق باب ۲۸،حدیث ۱۲

۷۷

ایک شخص نے حضرت امام علی سے سوال کیا کہ مولا ہمارا خدازمین وآسمان کو پید اکرنے سے پہلے کہاں تھا ؟آپ نے فرمایا : کہاں کا لفظ مکا ن کے حوالے سے ہے جبکہ وہ اس وقت بھی تھا جب مکان نہیں تھا۔( ۱ )

____________________

(۱) سابق حوالہ حدیث،۴

۷۸

خدا کہا ں ہے ؟

کتاب ارشاد واحتجاج میں ذکر ہے کہ ایک یہودی مفّکر، خلفاء میں سے ایک کے پاس آیا او رسوال کیا کہ آپ جانشین رسول ہیں ؟ انھو ں نے جو اب دیا ہاں اس نے کہا خد اکہا ں ہے ؟

انہو ں نے جواب دیا آسمان میں عرش اعظم پر بر اجمان ہے اس نے کہا پھر تو زمین اس کے حیطۂ قدرت سے خالی ہے خلیفہ ناراض ہو گئے اور چیخ کر بولے فوراً یہاں سے دفع ہو جا ئو ورنہ قتل کرادوںگا ،یہودی حیران ہوکر اسلام کا مذاق اڑا تا ہو ا باہر نکل گیا۔

جب امیرالمومنین ںکو اس بات کی اطلاع ہو ئی توآپ نے اس کو طلب کیا اور فرمایا میں تمہارے سوال اور دئے گئے جواب دونوںسے باخبر ہوں،لیکن میں بتاتا ہو ں کہ اس نے مکا ن کو خلق کیا ہے لہٰذا اس کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ خود صاحب مکان ہو اور کسی مکان میں مقید ہو۔

وہ اس سے کہیں بلند وبالا ہے کہ مکان اس کو اپنے آپ میں سمو لے ،کیاتم

۷۹

نے اپنی کتابوں میں نہیں پڑھا کہ ایک دن حضرت موسی بن عمران بیٹھے ہو ئے تھے۔

ایک فرشتہ مشرق سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ مغرب سے آیا آپ نے پوچھا کہا ں سے آرہے ہو ؟اس نے جواب دیا خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ آیاآپ نے سوال کیاکہاں سے آرہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ساتویں آسمان میں خدا کے پاس تھا اس کے بعد ایک فرشتہ اور آیا اس سے سوال کیا کہا ں تھے؟ اس نے کہازمین کے ساتویں طبق سے خدا کے پاس تھا ،اس کے بعد حضرت موسی نے کہاپاک ہے وہ ذات جس کے وجود سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور اس کے نزدیک کوئی جگہ دوسری سے نزدیک نہیں ۔

یہودی نے کہا کہ : میں اس بات کی گواہی دیتا ہو ںکہ حق مبین یہی ہے اور آپ پوری کائنات میں سب سے زیادہ وصی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اہلیت رکھتے ہیں ۔( ۱ )

ہم دعا کرتے وقت ہاتھ آسمان کی جانب کیوں بلند کرتے ہیں ؟

ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ ایک کا فر ،حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں حاضر ہو ا اور'' الرحمن علی العرش استوی '' کی تفسیر جاننی چاہی امام نے دوران تفسیر وضاحت فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا : خدا کسی مخلوق ومکان کا محتاج نہیں بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہیں ، اس نے عرض کی تو پھر دعا کرتے وقت

____________________

(۱) پیام قرآن نقل جلد۴ ،ص ۲۷۴

۸۰

پیام:

۱۔ تاریخی طور پر قیدی اور قید خانہ کا سابقہ بہت قدیمی ہے ۔( وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ)

۲۔ جناب یوسف (ع)کا قید خانہ ،عمومی تھا۔( مَعَهُ السِّجْن)

۳۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے۔ قرآن کریم جناب یوسف (ع)کے قیدی ساتھیوں کو

(فتیان) کہہ رہا ہے ۔

۴۔ تمام خوابوں کو آسان نہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ بعض خوابوں میں اسرار پوشیدہ ہوتے ہیں(أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرً) ۔(ممکن ہے کہ معمولی انسان بھی اہم خواب دیکھ لیں)

۵۔ اگرانسان کسی پر اعتماد کرلیتاہے تو اسکو اپنے تمام راز بتا دیتاہے( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

۶۔نیک سیرت افراد قید خانہ میں بھی دوسروں کو متاثر کردیتے ہیں( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

۷۔ مجرم اور گناہ کار لوگ بھی نیک طینت افراد کے لئے ایک خاص مقام و منزلت کے قائل ہوتے ہیں ۔( إِنَّا نَرَاکَ مِنْ الْمُحْسِنِینَ)

۸۱

آیت ۳۷:

(۳۷) قَالَ لاَیَأْتِیکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلاَّ نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ قَبْلَ أَنْ یَأْتِیَکُمَا ذَلِکُمَا مِمَّا عَلَّمَنِی رَبِّی إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ بِاﷲِ وَهُمْ بِالْآخِرَ هُمْ کَافِرُونَ.

''یوسف نے کہا : اس سے پہلے کہ جو کھانا تمہیں (قید خانہ سے ) دیا جاتا ہے وہ آئے میں تمہیں اسکی تعبیر بتادوں گا یہ (تعبیر خواب بھی)منجملہ ان باتوں میں سے ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم فرمائی ہیں،میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا ہے جو خدا پرایمان نہیں لاتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں ''۔

نکات:

آیت کے ترجمے کے پہلے حصے میں یہ احتمال ہے کہلاَیَأْتِیکُمَا ... کا مقصود یہ ہو کہ میں خدا کی طرف سے جانتا ہوں کہ وہ غذا جو تمہارے لئے لائیں گے وہ کیا ہے ۔ لہٰذا میں تمہارے خواب کی تعبیر بھی کرسکتا ہوں یعنی جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب کے علاوہ دوسری چیزوں کی بھی خبردی ہے جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام گھروںمیںجو کچھ غذں کا ذخیرہ ہوتا تھا اور جو لوگ جو کچھ کھاتے تھے سب کی خبر دے دیتے تھے ۔

۸۲

سوال:جناب یوسف (ع) نے ان کے خواب کی تعبیر فوراً کیوںنہیں بتائی بلکہ اس کو کچھ دیرکے لئے مخر کیوںکردیا؟ اس سوال کے جواب کو فخر رازی کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے:

۱۔جناب یوسف (ع)ان کو انتظار میں رکھنا چاہتے تھے تاکہ اس مدت میں ان کو نصیحت اور تبلیغ کرسکیں تاکہ شاید وہ شخص جس کو پھانسی دی جانے والی ہے وہ ایمان لے آئے اور باایمان اور عاقبت بخیر اس دنیا سے کوچ کرے ۔

۲۔جناب یوسف (ع)اس غذا کی قسم کو بیان کر کے جو ابھی نہیں آئی تھی ا نکا اعتماد حاصل کرنا چاہتے تھے ۔

۳۔جناب یوسف (ع)ان کو زیادہ تشنہ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اچھی طرح سنیں ۔

۴۔چونکہ ان میں سے ایک کے خواب کی تعبیر پھانسی تھی لہٰذا دھر ادھر کی باتیں کررہے تھے تاکہ یہ بات سنتے ہی اس کی روح پرواز نہ کرجائے۔

۸۳

پیام:

۱۔ کبھی کبھی زیادہ متاثر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان علمی قدرت اور کمالات کو دوسروں سے بیان کرے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ)

۲۔ فرصت سے خوب فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ... إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ...) جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب سے پہلے انکی تربیت اور عقیدہ کی اصلاح شروع کی۔

۳۔ اپنی معلومات اور علم کو خدا کی عطا قرار دینا چاہیئے ۔(عَلَّمَنِی رَبِّی )

۴۔ تعلیم کاہدف تربیت بھی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی )

۵۔ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا بغیر کسی وجہ کے اپنے علم کے دروازے ہر کس و ناکس پر نہیں کھولتا(عَلَّمَنِی رَبِّی ) اس لئے کہ میں نے( تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ) اس قوم کے عقیدہ کو چھوڑ دیا جو ایمان دار نہیں ہے ۔

۶۔جو کفر کی ظلمتوں سے فرار کرتا ہے اسکی نور ِعلم تک رسائی ہوتی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی... إِنِّی تَرَکْتُ) میرے علم کا سبب کفر کو ترک کرنا ہے ۔

۷۔ تمام ادیان آسمانی میں توحید اور معاد کا عقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم ہے ۔(قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ بِاﷲِ وَهُمْ بِالْآخِرَ هُمْ کَافِرُونَ )

۸۔ ایمان کی بنیاد تولیٰ اور تبرا ہے لہٰذا اس آیت میں کفار سے برائت اور بعد والی آیت میں اولیاء الٰہی سے تولیٰ کا تذکرہ ہے۔(إِنِّی تَرَکْتُ...واتبعت)

۸۴

آیت ۳۸:

(۳۸)وَاتَّبَعْتُ مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ مَا کَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِکَ بِاﷲِ مِنْ شَیْءٍ ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ

''اور میں تو اپنے باپ دادا ابراہیم و اسحاق و یعقوب کے مذہب کا پیرو ہوں ہمارے لئے مناسب نہیں ہے کہ ہم خدا کے ساتھ کسی چیز کو (اس کا) شریک بنائیں یہ بھی خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے ہم پر بھی اور تمام لوگوں پر، مگر بہترے لوگ (اس کا)شکر (بھی )ادا نہیں کرتے''۔

نکات:

خاندانی شرافت جس طرح لوگوں کی شخصیت سازی میں موثر ہے اسی طرح قبول کرنے میں بھی اثر انداز ہے لہٰذا حضرت یوسف علیہ السلام خود کو پہچنوانے کےلئے نہ صرف اپنے باپ دادا کے انبیاء (ع)ہونے پر انحصار کررہے ہیں بلکہ اپنی خاندانی شرافت و عظمت کو پیش کرنے کےساتھ ہی ساتھ اپنی دعوت حق کی اہمیت کو بھی اجاگر کر رہے ہیں یہ وہی روش ہے جسے اپنا تعارف کروانے کےلئے ہمارے پیغمبر (ص) نے اختیار فرمایا : میں وہی نبی امی ہوں جسکا نام و تعارف توریت و انجیل میں موجود ہے ۔ نیز امام حسین علیہ السلام اور امام زین العابدین علیہ السلام نے بھی کربلا و شام میں اپنی معرفت کروانے کےلئے اسی روش سے استفادہ فرمایا تھا:(انا بن فاطم الزهر(ع) (۱) ۔

کلمہ ''ملت'' قرآن مجید میںدین و مذہب کے معنی میں استعمال ہوا ہے سورہ حج کی ۷۸ ویں آیت میں مل ابراھیم کی تصویر کشی اسطرح کی گئی ہے ''اور خدا کی راہ میں ایسے جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے اس( خدا)نے تمہیں منتخب کیا اور دین کے معاملہ میں تمہیں کسی مشکل سے دوچار نہیں کیا ،یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے .۔۔لہٰذا نماز قائم کرو اور زکو دیا کرو اوراللہ کے ساتھ متمسک رہو۔۔''

--------------

( ۱ )میں فرزند فاطمہ الزہرا (ع)ہوں۔

۸۵

پیام:

۱۔ حق تک پہنچنے کے لئے باطل کی شناخت اور اسے ترک کرنا ضروری ہے(تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَیُمِنُونَ وَاتَّبَعْتُ مِلَّ...)

۲۔ دادا ، باپ کے حکم میں ہے لہٰذا دادا کو بھی ''اب ''کہا گیا ہے ۔( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ)

۳۔انبیاء (ع)کو پاک اور شریف خاندان سے ہونا چاہیئے( آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ...)

۴۔تمام انبی(ع)ء ِالٰہی کا ہدف ایک ہے( مِلَّ آبَائِی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ...)

۵۔نبوت اور ہدایت تمام بشریت کےلئے توفیق اور فضل الٰہی ہے(عَلَیْنَا وَعَلَی النَّاسِ )

۶۔ منفی راہوں کے ساتھ مثبت راستوں کی نشاندہی کرنا بھی ضروری ہے۔(تَرَکْتُ مِلَّ... وَاتَّبَعْتُ مِلَّ ...)

۷۔ توحید کی طرف رجحان اور شرک سے پرہیز کے لئے ''توفیق الہی''ضروری ہے۔(ذَلِکَ مِنْ فَضْلِ اﷲِ ...)

۸۔ شرک تمام صورتوں میں قابل مذمت ہے (ذات ، صفات ، افعال اور عبادات)( مِنْ شَیْئٍ)

۹۔ ''کثرت افراد ''شناخت کے لئے صحیح معیار نہیں ہے(أَکْثَر النَّاسِ لاَیَشْکُرُونَ)

۱۰۔ انبیاء (ع)کی راہ سے روگردانی بہت بڑی کفران نعمت ہے ۔( لاَیَشْکُرُونَ)

۱۱۔ شرک کرنا ، خداتعالیٰ کی ناشکری ہے( لاَیَشْکُرُونَ)

۸۶

آیت ۳۹:

(۳۹) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ أَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ.

''اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (ذرا غور تو کرو کہ) بھلا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا خدائے یکتا زبردست''۔

انسانو ں کی تین قسمیں ہیں :

۱۔ ''قالب پذیر'' یعنی جن کی اپنی کوئی شکل نہ ہو جیسے پانی اور ہوا ، جس قالب میں ڈالیں وہی شکل اختیار کرلیں گے ۔

۲۔ نفوذ ناپذیر اور مقاومت کرنے والے جیسے لوہا جو بیرونی طاقت کے مقابلے میں سختی سے مقابلہ کرتا ہے۔

۳۔ لیکن تیسری قسم ان افراد کی ہے جو دوسروں پر اثرانداز ہوتے ہیں جیسے ''امام اور رہبر''جو دوسروں کو خدائی رنگ میں رنگ دیتے ہےں حضرت یوسف علیہ السلام انسانوں کی اس تیسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ قید خانہ میں مشرک کو موحد بنا رہے ہیں ۔

قرآن مجید میں مختلف مقامات پر سوالات اور تقابلی جائزہ لینے کی روش سے استفادہ کیا گیا ہے خداوندعالم کے سلسلے میں اس کے بعض نمونے قابل توجہ ہیں ۔

(هل من شرکائکم من یبدأالخلق ثم یعیده) (۱) کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو خلقت کی ابتدا بھی کرتا ہو اور پھر اسے دوبارہ بھی پیدا کرے ؟( هل من شرکائکم من یهدی الی الحق ) (۲) کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ایسا ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے ؟(أ غیر الله ابغی رباً وهو رب کل شی) (۳)

آیا خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدا کو قبول کرلوں حالانکہ وہی تمام چیزوں کا پروردگار رہے؟(ءَ اﷲ خیر اما یشرکون ) (۴) اللہ بہتر ہے یا وہ جس کو (خدا کا) شریک بنا رہے ہیں؟

--------------

( ۱ )سورہ یونس آیت ۳۴

( ۲ ) سورہ یونس آیت ۳۵

( ۳ ) سورہ انعام آیت ۱۶۴

(۴) سورہ نمل آیت ۵۹

۸۷

پیام:

۱۔ لوگوں کو پیار محبت سے دعوت دیں( یَاصَاحِبَیِ)

۲۔ حساس زمان و مکان سے تبلیغ کےلئے استفادہ کرنا چاہیئے ۔( یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ .)

(قید خانہ میں جیسے ہی حضرت یوسف (ع) نے مشاہدہ کیا کہ یہ لوگ تعبیر خواب کے محتاج ہیں فوراً اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس سے تبلیغ کے لئے فائدہ اٹھایا )

۳۔سوال و جواب اور تقابلی جائزہ ،ارشاد و ہدایت کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے ۔( أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَیْرٌ...)

آیت ۴۰:

(۴۰) مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ مَا أَنزَلَ اﷲُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِیَّاهُ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ.

''(افسوس) تم لوگ تو خدا کو چھوڑ کر بس ان چند ناموں ہی کی پرستش کرتے ہو جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے گڑھ لیاہے ،خدا نے تو ان کے لئے کوئی دلیل نہیں نازل کی ، حکومت تو بس خدا ہی کے واسطے (خاص)ہے اس نے (تو)حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو یہی مستحکم دین ہے مگر (افسوس) بہتیرے لوگ نہیں جانتے''۔

۸۸

پیام:

۱۔خدائے یکتا کے علاوہ دوسرے خدں کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ صرف تمہارے اور تمہارے بزرگوں کی خیال پروری ہے ۔( مَا تَعْبُدُونَ إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَکُمْ)

۲۔ بہت ساری طاقتیں، کمیٹیاں ، انجمنیں، ادارے ، سیمنار، قراردادیں، ملاقاتیں ، حمایتیں، اطاعتیںاور دوسرے عناوین و القاب ''بے مسمی'' اسم اور ہمارے جدید دور کے بت ہیں جن کو ہم نے خود بنایا ہے اور خدا کے بجائے ان کے گرویدہ ہوگئے ہیں ۔( مَا تَعْبُدُونَ...إِلاَّ أَسْمَائً سَمَّیْتُمُوهَا )

۳۔ انسان کے عقائد عقلی اور شرعی دلائل پر استوار ہونے چاہییں۔( مِنْ سُلْطَانٍ)

۴۔ خدا کے علاوہ کسی دوسرے کے حکم پر فروتنی کا مظاہرہ نہ کیجئے کیونکہ حکم صادر کرنے کا حق فقط خدا کو ہے ۔( إِنْ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلَّهِ )

۵۔ خدا کے قانون کے علاوہ ہر قانون متزلزل ہے ۔(ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ)

۶۔ جہالت و نادانی شرک کا باعث بنتی ہے۔(لاَیَعْلَمُونَ)

۷۔ اکثر و بیشتر لوگ جاہل ہیں ۔( أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ) ( یا تو جاہل بسیط ہیں یعنی اپنی نادانی سے واقف ہےں یا جہل مرکب ہیں یعنی اپنے گمان میں عالم ہے حالانکہ حقیقت میں جاہل ہےں)

۸۹

آیت ۴۱:

(۴۱) یَاصَاحِبَیِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُکُمَا فَیَسْقِی رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْ رَّأْسِهِ قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیهِ تَسْتَفْتِیَانِ

''اے میرے قید خانہ کے دونوں رفیقو! (اچھا اب تعبیر خواب سنو)تم میں سے ایک (جس نے انگور دیکھے ہیں، رہا ہو کر)اپنے مالک کو شراب پلائے گا اور دوسرا (جس نے روٹیاں سر پر دیکھی ہیں)سولی پر چڑھایا جائےگا اور پرندے اس کا سر (نوچ نوچ کر)کھائیں گے جس امر کو تم دونوں دریافت کرتے ہو (وہ یہ ہے اور) اس کا فیصلہ ہو چکا ہے''۔

نکات:

کلمہ'' ربّ'' حاکم، مالک اورارباب کے معنی میں استعمال ہوتاہے ۔ بطور مثال ''رب الدار'' یعنی مکان کا مالک۔ پس اس جملہ''فَیَسْقِی رَبَّهُ خمراً'' کا معنی ''اپنے حاکم کو شراب پلائے گا''ہوگا۔

پیام:

۱۔ لوگوں کا احترام کرنا چاہیئے اگرچہ وہ آپ کے ہم فکر نہ ہوں۔(یَا صَاحِبَی)

۲۔ نوبت اورباری کی رعایت کرنی چاہیئے( أَمَّا أَحَدُکُمَا...) (پہلے وہ جس نے پہلے خواب کا تذکرہ کیا تھا)

۳۔ بعض خوابوں کی تعبیر بہت اہم ہو سکتی ہے اگرچہ اس کا دیکھنے والا مشرک ہی کیوں نہ ہو ۔(فَیَسْقِی رَبَّهُ خَمْرً)

۴۔ حضرت یوسف (ع) کا خواب کی تعبیر بیان کرنا قیاس یا پیش بینی نہیں ہے بلکہ خدا کی طرف سے قطعی خبر ہے۔( قُضِیَ الْأَمْرُ)

۹۰

آیت ۴۲:

(۴۲) وَقَالَ لِلَّذِی ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ ذِکْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِینَ

''اور ان دونوں میں سے جس کی نسبت یوسف نے سمجھا تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے کہا : اپنے مالک (عزیز مصر)کے پاس میرا تذکرہ کرنا مگر شیطان نے اسے اپنے آقا سے (یوسف کا)ذکر کرنا بھلا دیا یوں یوسف قید خانہ میں کئی برس رہے ''۔

نکات:

''ظَنّ'' علم و اعتقاد کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے چونکہ حضرت یوسف (ع) نے گذشتہ آیت میں یقین و صراحت کے ساتھ ایک قیدی کی آزادی اور دوسرے کو سزائے موت کی خبر دی ہے لہٰذا یہاں پر ''ظن' 'کے معنی گمان اور شک و تردید کے نہیں ہیں۔

کلمہ'' بِضْعَ'' دس سے کم عدد کے لئے استعمال کیاجاتاہے اوراکثر مفسرین نے حضرت یوسف (ع)کی قید کی مدت سات سال ذکرکی ہے(والله اعلم)

بعض تفسیروں میں اس جملہ'' فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ'' کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے: ''شیطان نے پروردگار کی یاد کو جناب یوسف(ع) کے ذہن سے بھلا دیا اور آپ (ع)نے خدا سے مدد طلب کرنے کے بجائے بادشاہ کے ساقی سے مدد چاہی'' یہ حضرت یوسف (ع)کا ترک اولی تھا لہٰذا چند سال مزید آپ(ع) زندان میں رہے مگر صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی (رح)تحریر فرماتے ہیں کہ ایسی روایات قرآن مجید کے خلاف ہیں ۔ کیونکہ قرآن مجید نے حضرت یوسف (ع)کو مخلصین میں شمار کیا ہے اور مخلصین تک شیطان کی رسائی نہیں ہے اس کے علاوہ ۴۵ویں آیت میں آیا ہے کہ''َقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْهُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ ''ان دو قیدیوںمیں سے جس (قیدی)نے رہائی پائی تھی اسے بڑی مدت کے بعد وہ بات یاد آگئی۔ یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ فراموشی، ساقی سے مربوط ہے حضرت یوسف (ع)سے نہیں۔

۹۱

پیام:

۱۔ انبیاء (ع)بھی معمولی راستوں سے اپنی مشکلات حل کرنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں اور یہ توحید و توکل الٰہی کے منافی بھی نہیںہے۔(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ)

۲۔ ہر تقاضا رشوت نہیں ہے(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ) جناب حضرت یوسف (ع)نے ہدایت اور تعبیر خواب کے لئے کوئی اجرت اور رشوت کی درخواست نہیں کی بلکہ فرمایا کہ میری مظلومیت کی خبر بادشاہ تک پہنچادو۔

۳۔عام طور پر لوگ کسی مرتبے ، مقام اور آسائش کے بعد پرانے دوستوں کو بھول جاتے ہیں ۔( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)

۴۔ حضرت یوسف (ع)کا قید خانہ سے نکلنا اور تہمت سے بری ہونا، شیطان کے اہداف کے خلاف تھا لہٰذا اس نے جناب یوسف (ع)کی یاد کو ساقی کے ذہن سے محو کرنے کی سازش کی( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)

آیت ۴۳:

(۴۳) وَقَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ یَاأَیُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِی فِی رُیَای إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ

''اور (ایک دن)بادشاہ نے (بھی خواب دیکھا اور)کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انکو ساتھ دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی سبز بالیاں اور (سات) سوکھی خشک بالیاں خواب میں دیکھی ہیں اے (میرے دربار کے)سردارو! اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہے تو میرے (اس) خواب کے بارے میں نظریہ پیش کرو''۔

۹۲

نکات:

ابھی تک اس سورہ میں تین خواب ذکر ہوئے ہیں(۱) خود حضرت یوسف (ع)کا خواب(۲) قید خانہ کے رفیقوں کا خواب(۳) بادشاہ مصر کا خواب۔

پہلا خواب آپ (ع) کے لئے پریشانی کا سبب بنا لیکن دوسروں کے خوابوں کی تعبیر کا بتانا آپ(ع) کےلئے عزت و شرف کا باعث بنا۔ توریت میں آیا ہے کہ ایک بار بادشاہ نے دیکھا کہ لاغر اور کمزور گائیں موٹی تازی گائیوں کو کھائے جارہی ہیں اور دوسری مرتبہ دیکھا کہ سبز بالیاں خشک بالیوں کےساتھ ہیں(۱)

--------------

( ۱ )تفسیر المیزان.

۹۳

آیا عزیز مصر وہی بادشاہ مصر ہے یا دوالگ الگ شخصیات ہیں ؟ اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے چونکہ اس بحث کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہے لہٰذا ہم اس بحث سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

کتاب ''روضہ کافی'' میں ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں :

۱۔خدا کی طرف سے خوشخبری۔

۲۔شیطان کی طرف سے وحشت زدہ کرنا ۔

۳۔ بے سروپا اور پریشان کرنے والے خواب۔

پیام:

۱۔ ایک ظالم بادشاہ کے خواب دیکھنے سے خدا ایک قوم کو خشک سالی سے نجات دیتا ہے (بشرطیکہ تعبیر بتانے والا یوسف(ع) ہو)۔(قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی)

۲۔ بادشاہ مصر نے اپنے تعجب آور خواب کو کئی بار دیکھا تھا۔(أَرَی)

۳۔ رسا اور صاحب قدرت افراد تھوڑی سی ناگواری سے خطرے کا احساس کرنے لگتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سے قدرت چھین لی جائے ۔(قَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی ...أَفْتُونِی فِی رُیَای)

۴۔ تعبیر خواب کے لئے اہل کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ہر کس و ناکس کی تعبیر پر اعتماد اور توجہ نہیں کرنی چاہیئے ۔(أَفْتُونِی إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ)

۹۴

آیت ۴۴:

(۴۴) قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ

''ان لوگوں نے عرض کی یہ تو پریشان خوابوں میں سے ہے اور ہم لوگ اس قسم کے پریشان خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے''۔

نکات:

لفظ''اضغاث'' ضَغث کی جمع ہے جو ''مخلوط کرنے'' کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور''ضغث'' لکڑی کے گٹھڑ کوبھی کہتے ہیں، لفظ''احلام'' حلم کی جمع ہے جو پریشان خواب کے معنی میں ہے''اضغاث احلام'' یعنی وہ پراکندہ اور پریشان خواب جس کا سرا تعبیر کرنے والوں کی سمجھ سے باہر ہو۔

پیام:

۱۔اپنی جہالت اور نادانی کی توجیہ نہیں کرنی چاہیئے چونکہ اہل دربار خواب کی صحیح تعبیر سے ناواقف تھے لہٰذا بادشاہ کے خواب کو پریشان خواب کہہ دیا ۔(قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ )

۲۔ ہر کام کو اس کے اہل کے سپرد کرنا چاہیئے (ماہر محقق اور دانشمند ، تعبیر خواب کرتا ہے لیکن جو اس سے نابلد ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ خواب پریشان ہے جو قابل تعبیر نہیں ہے)۔(مَا نَحْنُ بِتَأْوِیلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِینَ )

۹۵

آیت ۴۵:

(۴۵) وَقَالَ الَّذِی نَجَا مِنْهُمَا وَادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِهِ فَأَرْسِلُونِ

''اور جس (قیدی )نے ان دونوں( قیدیوں)میں سے رہائی پائی تھی اور اسے ایک زمانہ کے بعد (یوسف کا قصہ) یاد آیا ،بول اٹھا کہ مجھے (قید خانہ تک)جانے دیجئے تو میں اس کی تعبیر بتائے دیتا ہوں'' ۔

نکات:

''ام'' اگرچہ انسانوں کے اجتماع کو کہا جاتا ہے لیکن یہاں پر ایام (مدتوں)کے اجتماع کے معنی میں استعمال ہوا ہے(۱) ۔

پیام:

۱۔ اچھائیاں اپنے اثرات کو دیر یا سویر آشکار کر ہی دیتی ہیں ۔(ادَّکَرَ بَعْدَ أُمَّ)

۲۔ صاحبان علم کو معاشرے کے سامنے پہچنوائیں تاکہ لوگ ان سے بہرہ مند ہوسکیں۔(فَأَرْسِلُونِ)

۳۔ بعض محققین بڑی سخت زندگی گزار رہے ہیں ان سے غافل نہیں ہونا چاہیئے۔(فارْسِلُونِ)

--------------

( ۱ )تفسیر کبیر وتفسیرالمیزان.

۹۶

آیت ۴۶:

(۴۶) یُوسُفُ أَیُّهَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَا فِی سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ لَعَلِّی أَرْجِعُ إِلَی النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُونَ

''(غرض وہ گیا اور یوسف سے کہنے لگا)اے یوسف اے بڑے سچے (یوسف) ذرا ہمیں یہ تو بتائےے کہ سات موٹی تازی گائیوں کو سات دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی ہری بالیاں اور پھر سات سوکھی مرجھائی ہوئی (اس کی تعبیر کیا ہے)تا کہ میں لوگوں کے پاس پلٹ کر جں (اور بیان کروں)تا کہ ان کو بھی (تمہاری قدر اور اس خواب کی حقیقت)معلوم ہوجائے''۔

۹۷

نکات:

' صدّیق' اس شخص کو کہتے ہیں جس کی رفتار و گفتار اور عقیدہ سب ایک دوسرے کی تصدیق کریں ۔چونکہ حضرت یوسف (ع)کے دوست ان کی رفتار و گفتار کا قید خانہ میں مشاہدہ کرچکے تھے اور دوسری طرف اس شخص نے اپنے اور اپنے ساتھی کے خواب کی تعبیر کو واقع کے مطابق پایا تھا لہٰذا حضرت یوسف (ع)کو صدیق کہہ کر پکارا ۔

خداوندعالم نے حضرت ابراہیم (ع)کو صدیق کہا تو انہیں اپنا خلیل بنا لیا(واتخذ الله ابراهیم خلیلا) (۱)

حضرت مریم (ع)کو صدیقہ کہا توانہیں برگزیدہ بنا دیا(ان اﷲاصطفاکِ) (۲) اورحضرت یوسف (ع)کو صدیق کہا تو ان کو ہر طرح کی قدرت عطا کر دی(وکذلک مکّنا لیوسف ) (۳)

حضرت ادریس (ع)کو صدیق کہا تو بلند مقام تک پہنچا دیا(و رفعناه مکاناًعلیاً) (۴) اور جو لوگ اس درجہ کے لائق نہیں ہیں انہیں صدیقین اور سچوں کے ساتھ رہنا چاہیئے(فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیهم من النبیین والصدیقین...) ۔(۵)

'' صدّیق'' ان القاب میں سے ایک لقب ہے جسے پیغمبر اسلام(ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرمایا ہے۔(۶)

ایک احتمال یہ ہے کہ جملہ''لعلهم یعلمون'' کا مقصود لوگوں کو حضرت یوسف کی

ارزش و اہمیت سے واقف کرنا ہو یعنی میں لوگوں کی طرف پلٹوں تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ آپ کیسے گوہر نایاب ہیں۔

--------------

( ۱ )سورہ نساء آیت ۱۲۵

( ۲ ) سورہ آل عمران آیت ۴۲

( ۳ ) سورہ یوسف آیت ۵۶

( ۴ )سورہ مریم آیت ۵۷

( ۵ )سورہ نساء آیت ۶۹

( ۶ )تفیسر اطبیب البیان و تفسیر الکبیر سورہ مومن آیت ۲۸ کے ذیل میں.

۹۸

پیام:

۱۔ درخواست سے پہلے مناسب ہے کہ شخص کے ذاتی کمالات کو بیان کریں۔(أَیُّهَا الصِّدِّیقُ )

۲۔ اپنے سوالات اور مشکلات کو ایسے لوگوں کے سامنے پیش کریں جن کا سابقہ اچھا ہو اور وہ سچے ہوں۔( أَیُّهَا الصِّدِّیقُ أَفْتِنَ)

آیت ۴۷:

(۴۷)قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوْهُ فِی سُنْبُلِهِ إِلاَّ قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ

''(یوسف نے جواب میں )کہا (اسکی تعبیر یہ ہے)کہ تم لوگ متواتر سات برس کاشتکاری کرتے رہو گے توجو (فصل)تم کاٹو اس (کے دانہ) کو بالیوں ہی میں رہنے دو (چھڑانا نہیں)مگر وہ تھوڑا (بہت) جو تم خود کھ ''۔

نکات:

حضرت یوسف (ع)نے اپنے قیدی ساتھی سے بغیر کسی گلے شکوے کے کہ مجھے کیوں بھول گئے ؟ بادشاہ کے خواب کی تعبیر فوراً بتادی کیونکہ علم و حکمت کا چھپانا بالخصوص ایسے مواقع پر کہ جب لوگ( بلکہ معاشرہ) اس کے بہت زیادہ محتاج ہوں ایک پاک اور نیک خصلت انسان کی شان کے خلاف ہے۔

حضرت یوسف (ع) تعبیر خواب کے بجائے اس خشک سالی سے مقابلہ کرنے کے طریقے تفصیلی طور پر بیان فرما رہے ہیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ میں خوابوں کی تعبیر کے علاوہ منصوبہ بندی اور انتظامی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہوں ۔

زراعت کا علم ، ذخیرہ سازی کی سیاست اورخرچ کرنے میں صرفہ جوئی سے کام لینے کے حکمت آمیز پیغامات اس آیت میں واضح طورپر بیان کیے گئے ہیں ۔

۹۹

پیام:

۱۔خدائی افراد کو لوگوں کی فلاح و بہبود اور آرام و آسائش کے متعلق ہمیشہ غور و فکر کرنا چاہیئے نیز طویل مدت اور کم مدت کے پروگرام بھی پیش کرنے چاہئیں ۔( تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِینَ )

۲۔اگر گیہوں اپنی بالیوں کے ساتھ ہو تو اسکی زندگی بڑھ جاتی ہے( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

۳۔ منظم پروگرام بنانے کے بعد قدرتی حوادث مثلاًزلزلہ ، سیلاب ، اور خشک سالی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

۴۔ منصوبہ بندی اور مستقبل کے لئے تدبیر کرنا۔ خدا پر توکل اور اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے کے منافی نہیں ہے( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ) (تدبیر کے ساتھ تقدیر کا استقبال کرنا چاہیئے)

۵۔ تمام پروگرام عملی صلاحیت کے حامل ہونے چاہئیں( فَذَرُوهُ فِی سُنْبُلِهِ)

اس زمانے میں چونکہ گندم کو محفوظ کرنے کے لئے مخصوص برج نما گودام یاکوئی جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی لہٰذا گندم کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ گیہوں کو اس کی بالیوں میں رہنے دیا جائے)

۶۔ ہر مصیبت اور سختی ، بُری نہیں ہوتی ۔ یہی خشک سالی جناب یوسف (ع)کی حاکمیت کا پیش خیمہ بنی۔ اسی طرح یہ قحط صرفہ جوئی اور لوگوں کے درمیان زیادہ کام کرنے کا رجحان پیداکرنے کا باعث بنا۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ، إِلاَّ قَلِیلًا...)

۷۔ آج کی کفایت شعاری، کل کی خود کفائی ہے اور آج کی فضول خرچی کل کے لئے باعث پریشانی ہے۔( قَلِیلًا مِمَّا تَأْکُلُونَ )

۸۔ مستقبل کے بارے میں فکر کرنا اور معاشرے کی اقتصادی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے طویل مدت کے پروگرام بنانا ملکی نظام کے لئے ضروری ہے۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ... إِلاَّ قَلِیلًا )

۹۔ بحرانی حالات اور شرائط میں تولید و توزیع پر حکومت کا کنٹرول ضروری ہے۔(تَزْرَعُونَ... فَذَرُوهُ... )

۱۰۔ کافروں کے خواب بھی حقائق کو بیان کرسکتے ہیں اور معاشرے کی حفاظت کے لئے دستورالعمل بھی ہوسکتے ہیں۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246