شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں33%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81082 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

کے خاتمے پر مذہب شیعہ کی حقیقت اس پر ظاہر اور روشن ہوگئی اور اس نے مذہب حقہ امامیہ اختیار کر لیا۔ اور تمام بلاد ایران میں شیعہ مذہب کی آزادی کا اعلان نافذ کردیا ۔ اور اسی وقت سے سارے حکام اور ولایتوں کے گورنروں کو اطلاع دے دی کہ ساری مسجدوں اور مجمعوں میں امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نام کا خطبہ پڑھیں اور حکم دیا کہ دیناروں پر تین متوازی سطروں میں کلمہ طیبہ" لا اله الا اﷲ محمد رسول اﷲ علی ولی اﷲ" کو سکہ نقش کیا جائے۔

جناب علامہ حلی کو جنہیں ایک اختلافی مسئلہ حل کرنے کے لیے جلہ سے بلوایا تھا ( اور اسی کی بنا پر اس جلسے میں مناظرہ کا دروازہ کھل گیا ۔ اور تشیع کی حقیقت ظاہر ہوئی) اپنے پاس ٹھہرا لیا آپ کے لیے مدرسہ سیارہ تعمیر کرایا اور طالبان علوم آپ کے گرد جمع ہوگئے چونکہ آپ بلا تقیہ اور کھلم کھلا حقائق کو بیان فرماتے تھے لہذا بے خبر لوگوں نے بھی طریقہ حقہ امامیہ کا پتہ لگا لیا، ولایت کا آفتاب درخشان ابر خفا سے باہر آگیا اور اسی زمانے سے مذہب حقہ، شیعہ کی روشنی جہالت و نادانی کا پردہ چاک کر کے ظاہر اور نمایاں ہوئی۔

تقریبا سات سو سال کے بعد با اقتدار صفوی بادشاہوں کی حمایت اور اس زمانے کی مکمل تبلیغات کے اثر سے باطل تیرہ و تار بادل بالکل چھٹ گئے اور ولایت و امامت کا آفتاب عالمگیر ضیا پاشی کرنے لگا۔

چنانچہ ایرانی اگر چہ ایک روز مجوسی اور دو خداؤں ( یزادن و اہرمن) کے معتقد تھے لیکن جس وقت سے انہوں نے اہل اسلام کے عقلی دلائل و براہین کو سنا ان کو دل و جان سے قبول کیا اور اب تک پورے خلوص کے ساتھ اپنے اسلامی عقیدے پر ثابت قدم ہیں۔

اگر ایرانیوں میں چند افراد ایسے پیدا ہوجائیں جو مجوسی ہوں یا کسی طریقے کے پابند نہ ہوں یا غلات کے سلسلے میں شامل ہوکر حضرت علی(ع) کو ان کی منزل سے بلند کر کے الوہیت کے درجے پر پہنچا دیں اور ان کو بندوں کا خالق و رازق سمجھنے لگیں ۔، حلول و اتحاد اور وحدت وجود کے قائل ہوں تو اس کو پاک نفس ایرانیوں کی اصل جماعت اور اکثریت سے کوئی ربط نہیں ہے۔

اس طرح کے غیر مناسب اور بے عقل و خرد افراد ہر قوم و ملت میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن شریف و عقلمند ایرانی قوم کی اکثریت وحدانیت حق تعالی اور نبوت خاتم الانبیاء پر مضبوط عقیدے سے اور ایمان کی حامل ہے۔ اور رسول اﷲ(ص) کے حسب الحکم سب امیرالمومنین علیہ السلام اور ان حضرت کے گیارہ فرزندوں کے پیرو ہیں۔

حافظ : آپ کے ایسے حجازی ، مکی اور مدنی بزرگ سے تعجب ہے کہ چند روز کے لیے ایران میں قیام کر لیا تو ایرانیوں کی اس قدر طرفداری کررہے ہیں۔ اور ان کو علی کرم اﷲ وجہ ، کا پیرو سمجھتے ہیں باوجودیکہ علی (ع) خود خدائے تعالی کے مطیع و فرمانبردار بندے تھے لیکن ایرانی شیعہ سب کےسب آپ کو خدا سمجھتے ہیں اور

۴۱

خدا سے جدا نہیں جانتے اور اپنے اشعار میں آپ کو بمنزلہ حق بلکہ عین حق قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ ان کے دلوں اور مکتوبات میں ا س طرح کی کفریات واضح طور پر موجود ہیں کیا ۔ اس قسم کے اشعار ایرانی شیعہ عارفین سے وارد نہیں ہیں جنہیں علی کرم اﷲ وجہ کی زبان سے نقل کرتے ہیں ۔ ( حالانکہ علی(ع) قطعا اس قسم کے عقیدے سے بیزار ہیں۔)

من طلسم عیب و کنز لاستم چون بہ کنیز لارسی الاستم

یعنی از اﷲ ولا بالا ستم نقطہ ام بار بار گویا ستم

کثرت تاترات پندارت کند

مظہر کل عجائب کیست من مظہر سرِ غرائب کیست من

صاحب عون نواسب کیست من در حقیقت ذاب واجب کیست من

ایک دوسرے شخص نے کہا ہے۔

در مذہب عارفان آگاہ ( گمراہ) اﷲ علی، علی است اﷲ

خیر طلب : آپ سے تعجب ہے کہ بغیر تحقیق کے قوم ایرانی شیعوں کو غالی اور علی پرست سمجھتے ہیں اور اس قسم کی باتوں سے بے خبر سنی بھائیوں کے سامنے معاملے کو شبہ کر کے برادر کشی کا دروازہ کھولتے ہیں ، چنانچہ افغانستان ، ہندوستان، ازبکستان اور تاجکستان وغیرہ میں اس قدر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا کہ خون کے دھارے بہہ گئے۔

ازبکستان اور ترکستان کے مسلمان اپنے علماء کے بھڑکانے سے کہتے تھے کہ شیعہ علی پرست مشرک اور کافر ہیں اور ان کا قتل واجب ہے ان سبھوں نے ایرانی مسلمانوں کا اس کثرت سے خون بہایا کہ تاریخ کے صفحات کو داغدار بنا دیا۔

بے چارے سنی عوام آپ کے ایسے بزرگ علماء کی رہنمائی میں ایرانی مسلمانوں کو نگاہ کینہ بلکہ کفر و شرک اور ارتداد کے خیالی سے دیکھتے ہیں۔

گذشتہ زبانوں میں ترکمان لوگ خراسان کے راستے میں سر راہ ایرانی قافلوں کو گرفتار کر کے قتل و غارت میں مشغول ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ جو شخص سات عدد رافضیوں ( شیعوں ) کو قتل کردے اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔

قطعی طور پر جان لیجئے کہ اس طرح کے افعال اور قتل عام کی جواب دہی آپ ہی جیسے حضرات کے ذمے ہے جو ان کے کانوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ شیعہ علی(ع) پرست مشرک اور کافر ہیں اور بے خبر عقیدت مند سنی عوام

۴۲

اس کو قبول بھی کر لیتے ہیں ۔ لہذا بقصد ثواب اس قسم کی حرکتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔

اسلام نے نسلی تفاخرات کو جڑ سے کاٹ دیا

پہلے میں آپ کے جملہ اول کا جواب عرض کرتا ہوں تاکہ ہم لوگ اصل مطلب تک پہنچیں۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ تم حجازی ، مکی اور مدنی ہو کر ایرانی بھائیوں کی طرفداری کس لیے کرتے ہو؟ تو یہ بدیہی بات ہے کہ مجھ کو اپنے مکی مدنی اور محمدی ہونے پر فخر ہے لیکن نسلی تعصب جو جہالت اور نادانی کے آثار میں سے ہے میں اپنے دل مین نہیں رکھتا ہوں۔ اس لیے کہ میرے جد بزرگوار حضرت خاتم الانبیاء (ص) نے باوجودیکہ ہر ملت کی قومیت اور وطنیت کی حفاظت ملحوظ رکھی ہے۔ اور جملہ حب الوطن من الایمان کے ساتھ ہر قوم و ملت کو محب وطن کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن آں حضرت (ص) نے النافوں کے اتحاد اور ہر فرد بشر کے دل سے ہر طرح کے بیہودہ خیالات دور کرنے کے لیے جو بڑے قدم اٹھائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کو کلی طور پر جڑ سے کاٹ دیا اور ایک بلند اور موثر آواز کے ساتھ دنیا والوں کو اپنے اس اعلان کی طرف متوجہ فرمایا کہ

"لافخر للعرب علی العجم ولا للعجم علی العرب ولا للابيض علی الاسود ولا للاسود علی الابيض الا بالعلم و التقی ۔" (1)

اور نیز اس لیے کہ عالم اور متقی اشخاص کو اشتباہ نہ پیدا ہوجائے کہ آں حضرت (ص) کے ارشاد سے سند لے کر تواضع اور خاکساری سے ہٹ جائیں اور دوسروں پر کبر و خودی کا اظہار کرنے لگیں فرمایا ۔

" انا من العرب ولا فخروا فاسيد ولد الآدم ولا فخر ۔ " (2)

نتیجہ کلام یہ کہ میں باوجودیکہ عرب اور سید آدم ہوں لیکن اس نسل اور منزلت سے دوسروں پر کوئی فخر و مباہات نہیں کرتا۔

پیغمبر(ص) کا فخر صرف اس بات پر تھا کہ پروردگار کے اطاعت گذار بندے ہیں۔ آں حضرت(ص) مقام مناجات میں عرض کرتے تھے۔

" کفی بی فخرا ان اکون لک عبدا " یعنی میرے لیے یہی فخر ومباہات کافی ہے کہ تجھ ایسے پروردگار کا بندہ ہوں۔

خدا تعالی سورہ نمبر49 ( حجرات) آیت نمبر13 میں ارشاد فرماتا ہے:

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ عرب کو عجم پر عجم کو عرب پر ، سفید کو سیاہ پر اور سیاہ کو سفید پر کوئی فخر و مباہات نہیں ہے سوا علم و تقوی کے۔

2 ـ میں قوم عرب سے ہوں لیکن ان پر فخر نہیں کرتا میں اولاد آدم کا سردار ہوں۔ لیکن اس پر فخر نہیں کرتا ہوں۔

۴۳

" يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى وَ جَعَلْناكُمْ شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ " (الحجرات، 13) (1)

اس نے فضل و شرف اور بزرگی تقوی میں قرار دی ہے۔ نیز اسی سورے کے آیت نمبر 10 میں فرمایا ہے:

" إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ "( الحجرات ، 10)

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا ہمیشہ اپنے ایمانی بھائیوں کے درمیان اگر کوئی نزاع پیدا ہو تو صلح کرا دیا کرو ) چنانچہ ایشائی ، افریقی، یورپی اور امریکی سفید و سیاہ ، سرخ و زرد شہرستانی اور کوہستانی نسلوں کے جملہ افراد لوائے اسلام اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ کے ماتحت آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے پر کوئی فخر و مباہات نہیں رکھتے۔

اسلام کے عظیم المرتب قائد حضرت خاتم الانبیاء نے عملی طور پر اس کا ثبوت دیا ہے عجم سے سلمان فارسی کو روم سے صہیب رومی کو اور حبش سے بلال سیاہ کو اپنے آغوش محبت میں قبول فرمایا لیکن اپنے شریف النسل چچا ابولہب کو جو عرب کی بہترین نسل سے تھا اپنے سے دور فرمادیا اور اس کی مذمت میں ایک سورہ نازل ہوا جس میں صریح طور پر ارشاد ہے ۔ تبت یدا ابی لھب۔ ( یعنی ابولہب کے ددنوں ہاتھ قطع ہوجائیں ( جو رسول اﷲ(ص) کے درپے آزار تھے۔)

سارے فسادات اور لڑائیاں نسلی تفاخرات کی بنا پر ہوتی ہیں

انسانوں کے تمام فتنہ و فساد اور جنگ و جدال انہیں نسلی تفاخرات اور جاہلانہ تعصبات کی بنا پر ہیں۔ جرمنی کے باشندے کہتے ہیں کہ آرین اور جرمنی نسلی سب سے بلند ہے ۔ جاپانی کہتے ہیں کہ سرداری کا حق ان کی زرد نسل کو حاصل ہے اور یورپ والے کہتے ہیں کہ سفید فام لوگ حاکم اور سب کے اوپر افسر ہیں۔ امریکہ کے متمدن ممالک میں اب تک سیاہ فام لوگ اجتماعی حقوق سے محروم ہیں ۔ یہاں تک کہ سفید فاموں کے کیفے ، سینما اور مہمان خانوں میں داخل ہونے کا حق نہیں رکھتے اور سیاہ فام عیسائی کو سفید فاموں کے کلیساء میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے تعجب خیز بات یہ ہے کہ عبادت گاہ میں بھی ایک دوسرے کے برابر بیٹھنے کے حقدار نہیں ، سیاہ کھال کے علماء اور افاضل اگر سفید کھال کے دانشمندوں کے جلسوں میں جاتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ جوتے اتارنے کی جگہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اے انسانو ! ہم نے سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے ۔ اور ان میں مختلف شاخیں اور قبیلے قرار دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو( اور سمجھ لو کہ اصل ونسب اور نسلی سرمایہ افتخار نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک تم سب میں سے زیادہ بزرگ وہی ہے جو تم لوگوں میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

۴۴

بیٹھیں ، ان کو سفید فاموں کے سامنے علم و ہنر کا اظہار نہ کرنا چاہئیے ایک بوڑھے سیاہ فام عالم کو چاہیئے کہ سفید فام جوان کے سامنے تعظیم بجالائے اور مطیع و فرمانبردار رہے۔ سفید فام اساتذہ سیاہ فاموں کو اپنے مدرسوں میں داخل نہیں کرتے ، یہاں تک کہ ریلوے اسٹیشنوں پر اگر کوئی سیاہ فام چھوٹ گیا ہو تو ان کو سفید فاموں کے مسافر خانوں میں گھسنے کا اختیار نہیں۔ خلاصہ یہ کہ امریکہ میں سیاہ فام لوگ باوجود ان کوششوں کے جو ان لوگوں کی آزادی کے لیے عمل میں لائی جاتی ہیں) حیوانات میں شمار ہوتے ہیں اور سفید فاموں کی طرح وسائل تمدن سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ (1)

لیکن مقدس دین اسلام نے سارے بیہودہ اور موہوم عقائد کو تیرہ سو سال پہلے ہی درمیان سے اٹھادیا تھا، اس کا اعلان ہے کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں چاہے جس نسل اور قبیلے سے تعلق رکھتے ہوں ۔ یورپ ، ایشا، امریکہ اور افریقہ کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت کا آغوش کھلا رکھیں اور دنیا کے جس مقام پر بھی ہوں، ہمیشہ ایک دوسرے کے یار و غمگسار رہیں۔ اسلام حجازی، مکی اور مدنی مسلمانوں اور دوسرے ممالک کے مسلمین میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ چنانچہ اگر میری نسل حجازی ، قریشی ، ہاشمی اور محمدی ہے تو جائز نہیں ہے کہ سچی بات کو چھپاؤں اور مہمل خیالات کی بنا پر حق کو پس پشت ڈال دوں ۔ میں قطعی طور پر حجازی گمراہوں سے متنفر اور ایرانی شیعوں کا دوستدار ہوں۔

مادروں را بنگریم و حال را نے درون را بنگریم و قال را

دوسری چیز یہ ہے کہ آپ نے ایرانی غالیوں کو بغیر کسی مناسبت اور دلیل و برہان کے پاک باز موحد اور خالص شیعوں کے ساتھ مخلوط کردیا ہے۔

غالیوں کے عقائد، ان کی مذمت اور لعن بر عبد اﷲ ابن سبا

امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شیعہ سب کے سب حق تعالےٰ کے خالص بندے ہیں۔ خدا اور اس کے بندے و رسول محمد(ص) کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور علی ابن ابی طالب (ع) کے بارے میں پیغمبر(ص) نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے اس کے علاوہ نہ اور کچھ کہتے ہیں نہ ہی عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم لوگ حضرت علی(ع) کو پروردگار کا عبد صالح اور رسول اﷲ(ص) کا وصی اور خلیفہ مںصوص سمجھتے ہیں۔ اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہو اس کے مردود اور اپنے سے الگ جانتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ـ اٹلی کے قائد اور پیشوا مسولینی نے حکم دیا تھا کہ اس کا نمائندہ ادارہ مجلس اقوام سے نکل آئے۔ اس کا عذر یہ تھا کہ میرے لیے باعث ننگ ہے کہ میرا نمائندہ ایسے مجمع میں بیٹھے جہاں حبشی سیاہ فاموں کا نمائیندہ بیٹھا ہوا ہو۔ لیکن اسلام کے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) نے چودہ سو برس پہلے) بلال سیاہ و حبشی کو اپنے آغوش محبت میں لے لیا اور فرماتے تھے کہ ارحنا یا بلال ! یعنی اے بلال میرے سامنے قرآن پڑھو اور مجھ کو شاد و مسرور کرو ۔ اب ناظرین محترم انصاف کریں اور دیکھیں کہ تفاوت راہ کہاں تک ہے۔

۴۵

جیسے مسلمانوں میں سے غلات از قبیل سائیبہ ، خطابیہ، غرابیہ، علیادیہ مخمہ وبزیفیہ اور انہیں کے امثال جیسے نصیریہ جو ایران کے بعض شہروں اور قریوں اور دوسرے بلاد میں مثل موصل اور شام کے اہل حق کے نام سے متفرق طور پر آباد ہیں۔

شیعہ بالعموم ان سے علیحدہ اور ان کو کافر و مرتد اور نجس سمجھتے ہیں ۔ فقہ کی ساری کتابوں اور عملیہ رسالوں میں فقہائے امامیہ نے غلات کو کافروں میں شمار کیا ہے کیونکہ وہ لوگ بے شمار فاسد عقیدوں کے حامل ہیں جن میں سے کچھ کہتے ہیں کہ چونکہ جسم کے قالب میں روح کا ظہور محال نہیں ہے ۔ جیسے کہ جبرائیل وحبہ کلبی کی صورت میں پیغمبر(ص) کے سامنے ظاہر ہوتے تھے۔لہذا خدا کی حکیمانہ مصلحت کا تقاضا ہوا کہ اس کی ذات اقدس انسانی قالب میں ظاہر ہو چنانچہ علی(ع) کی صورت اور جسم میں نمایاں ہوا، اسی سبب سے علی(ع) کی منزل کو رسول اﷲ(ص) کی مقدس منزل سے بلند تر سمجھتے ہیں اور خود انہیں حضرت کے زمانے میں شیاطین جن و انس کے بہکانے سے ایک جماعت اس عقیدے کی قائل تھی۔ ہند اور سوڈان کے باشندون کی ایک جماعت آئی اور اس نے آپ کی الوہیت کا اقرار کیا۔ حضرت نے ہر چند ان لوگوں کو نصیحت کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ آخر کار جس طریقے سے کہ کتب اخبار میں درج ہے آپ کے حکم سے دھویں کے کنووں میں ہلاک کردئیے گئے۔ چنانچہ اس قبیلے کی مفصل تشریح علامہ جلیل ملا محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کی تالیف بحار الانوار جلد ہفتم میں لکھی ہوئی ہے۔

حضرت امیرالمومنین (ع) اور ائمہ معصومین سلام اﷲ علیہم اجمعین نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ مثلا جو ہماری معتبر کتابوں میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل ہوا ہے۔ کہ فرمایا :

" اللَّهُمَّ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنَ الْغُلَاةِ كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مِنَ النَّصَارَى اللَّهُمَّ اخْذُلْهُمْ أَبَداًوَ لَا تَنْصُرْ مِنْهُمْ أَحَداً."

یعنی خداوندا میں گروہ غلات سے بری ہوں ۔ جیسے عیسی بن مریم نصاری سے بیزار تھے ۔ خداوندا ان کو ہمیشہ ذلیل و خوار رکھ۔ اور ان میں سے کسی کی مدد نہ فرما۔

دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ وَ لَا ذَنْبَ لِي مُحِبٌّ مُفْرِطٌ وَ مُبْغِضٌ مُفَرِّطٌ وَ أَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مِمَّنْ يَغْلُو فِينَا وَ يَرْفَعُنَا فَوْقَ حَدِّنَا كَبَرَاءَةِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ع مِنَ النَّصَارَى "

یعنی میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوتے ہیں اورمیرے ذمے کوئی گناہ نہیں ہے (یعنی چونکہ میں ان کے عمل سے راضی نہیں لہذا گنہگار نہیں ہوں) ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو میری محبت میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو بلا سبب مجھ سے بغض و عداوت رکھتے ہیں یقینا میں ان لوگوں سے خدا کی طرف بیزاری اختیار کرتا ہوں جو ہمارے بارے میں غلو کرتے ہیں اور ہم کو ہماری حد سے بڑھاتے ہیں جس طرح سے عیسی بن مریم(ع) نے ںصاری سے بیزاری اختیار کی۔

۴۶

نیز فرمایا ہے۔" يَهْلِكُ فِيَ اثْنَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ. " ( یعنی میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوتے ہیں، ایک ایسے دوست جو محبت میں غلو کرتے ہیں اور دوسرے وہ دشمن جو مجھ کو میری منزل سے گھٹاتے ہیں۔

اسی وجہ سے شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ہر اس شخص سے بیزاری اختیار کرتے ہیں جو نظم و نثر میں امیرالمومنین (ع) اور ان کے اہل بیت اطہار (ع) کے لیے غلو کرے اور مقام تعریف میں ان کو منزل سے بلند قرار دے جو خدا و رسول(ص) نے ان کے لیے معین فرمائی ہے اور بندگی سے خدائی پر پہنچا دے جو لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہوں وہ ہم میں سے نہیں ہیں بلکہ غالی اور ملعون ہیں۔ آپ اثنا عشریہ شیعہ امامیہ جماعت کا معاملہ ان سے الگ سمجھئے کیونکہ غالی فرقوں کے کفر و نجاست پر علمائے امامیہ کا اجماع ہے اور اگر آپ فقہاء شیعہ کی استدلالی کتابوں جیسے جواہر الکلام اور مسالک وغیرہ اور عملیہ رسالوں جیسے مرحوم آیتہ اﷲ یزدی قدس سرہ کی عروة الوثقی اور آیتہ اﷲ اصفہانی اعلی اﷲ مقامہ کی وسیلہ النجات کے باب طہارت باب زکوة ، باب ازدواج اور باب ارث کی طرف رجوع کریں تو ہمارے فقہاء کے فتوے ان لوگوں کے کفر ونجاست پر ملیں گے اور آپ دیکھیں گے کہ سب نے یہی فتوی دیا ہے کہ ان کے غسل و دفن میں شرکت جائز نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ نکاح حرام ہے ( باوجودیکہ متعہ کی صورت سے اہل کتاب کیساتھ تزویج کو جائز جانتے ہیں۔) اور مسلمانوں کا حق وراثت ان کو نہیں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو صدقات و زکوة کادینا بھی ممنوع ہے۔

فرقہ ناجیہ شیعہ کی فن کلام اور عقائد کی کتابوں میں تفصیل اور استدلالی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے کہ یہ فرقہ فاسد اور کافر ہے ہر مسلمان پر اور خاص طور سے خالص العقیدہ شیعوں پر ان سے تبرا اور بیزاری واجب و لازم ہے۔

غلات کی مخالفت اور رد میں آیات و اخبار سے کافی مضبوط اور مکمل دلیلیں وارد ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں نے اشارہ کر دیا ہے ۔ سورہ نمبر5( مائدہ) آیت نمبر81 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

" قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لا تَغْلُوا في دينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَ أَضَلُّوا كَثيراً وَ ضَلُّوا عَنْ سَواءِ السَّبيلِ "( المائدة ، 77 )

یعنی کہہ دو( اے رسول(ص)) کہ اے اہل کتاب غلو مت کرو اپنے دین میں کہ وہ حق نہیں ہے اور اس قوم کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے بہتوں کو گمراہ کردیا اور راہ راست سے دور جا پڑے۔

مرحوم علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے بحار الانوار جلد سوم میں ( جو شیعہ امامیہ فرقے کا دائرة المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے ، ان کی مذمت اور ان لوگوں کے مدعا سے خاندان رسالت کے دور ہونے میں بہت سی روائتیں نقل کی ہیں، من جملہ ان کے امام بحق ناطق حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ فرمایا :

" و ما نحن الا عبيد الذي خلقنا و اصطفانا، ما لنا على اللّه من حجة، و لا معنا من اللّه براءة، و انا لميتون، و موقوفون، و

۴۷

مسئولون، من احب الغلاة فقد ابغضنا و من ابغضهم فقد احبنا الغلاة كفّار و المفوضة مشركون، لعن اﷲ الغلاة ۔۔۔۔۔۔ "

( خلاصہ مطلب یہ کہ ہم اس خدا کے بندے ہیں جس نے ہم کو پیدا کیا اور مخلوقات میں سے منتخب کیا۔ در حقیقت غالیوں کو دوست رکھے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو شخص ان کو دشمن رکھے وہ ہمارا دوست ہے غلات کافر اور ملفوضہ مشرک ہیں۔ خدا کی لعنت ہو غلات پر)

نیز انہیں حضرت سے شیعوں کے ایک بڑے پیشوا نے نقل کیا ہے کہ فرمایا :

" لعن اللّه عبد اللّه بن سبأ إنه ادّعى الربوبية في أمير المؤمنين و كان و اللّه أمير المؤمنين عبدا للّه طائعا، الويل لمن كذب علينا، و إن قوما يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا نبرأ إلى اللّه منهم نبرأ إلى اللّه منهم "

(یعنی لعنت خدا کی، عبداﷲ بن سبا پر جس نے امیرالمومنین (ع) کےلیے ربوبیت اور خدائی کا دعوی کیا ۔ خدا کی قسم وہ حضرت خدا کے مطیع بندے تھے ، وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے ہم پر افترا کیا، ایک گروہ ہمارے بارےمیں وہ باتیں کہتا ہے جو ہم خود اپنے بارےمیں نہیں کہتے ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ، ان سے خدا کی طرف ہم بیزاری اختیار کرتے ہیں ان سے خدا کی طرف۔

صدوق ابو جعفر محمد بن علی بن الحسین بن موسی بن بابویہ قمی قدس سرہ نے جو جلیل القدر فقہائے امامیہ میں سے ہیں کتاب عقائد میں ایک روایت زرارہ بن اعین سے جو موثق شیعہ راوی ، حافظ علم اہل بیت(ع) اور حضرت باقر العلوم و صادق آل محمد علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ عبداﷲ بن سبا کی اولاد میں سے ایک شخص تفویض کا قائل ہے ۔ فرمایا تفویض کیا؟ میں نے عرض کیا وہ کہتا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَ مُحَمَّداً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ وَ عَلِيّاً- عَلَيْهِ السَّلَامُ- ثُمَّ فَوَّضَ الْأَمْرَ إِلَيْهِمَا، فَخَلَقَا، وَ رَزَقَا، وَ أَحْيَيَا، وَ أَمَاتَا."

( یعنی خدائے عزوجل نے محمد (ص) و علی(ع) کو پیدا کیا پھر بندوں کے امور ان کے سپرد کردئیے چنانچہ وہی خالق ہیں وہی رازق ہیں وہی زندہ کرتے ہیں ۔ وہی مارتے ہیں ) حضرت نے فرمایا کذب واﷲ جھوٹ بولتا ہے دشمن خدا جب تم پلٹ کر اس کے پاس جاؤ تو سورہ رعد کی یہ آیت پڑھو :

"أَمْ جَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ خَلَقُوا كَخَلْقِهِ فَتَشابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ " ( الرعد ،16)

“ یعنی کیا مشرکین نے خدائے تعالیٰ کے کچھ شریک قرار دیئے کہ خدا کا پیدا کیا ہوا کون اور ان شرکاء کا پیدا کیا ہوا کون ہے۔ کہدو (اے محمد(ص)) کہ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ صرف خدائے تعالیٰ ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی الوہیت میں یکتا ہے جس کا ارادہ ساری کائنات پر غالب ہے۔”

یہ آیت خود توحید باری تعالی کی تصریح کر رہی ہے۔ زرارہ کہتے ہیں کہ جس وقت میں اس کے پاس گیا اور یہ آیت حسبِ

۴۸

ارشاد امام(ع) میں نے اس کے سامنے پڑھی تو گویا میں نے اس کے منہ پر پتھر مار دیا وہ مبہوت ہو کے رہ گیا۔

اس طرح کی روایتیں ہماری معتبر کتابوں میں آئمہ طاہرین سلام اﷲ علیہم اجمعین اور شیعوں کے برحق پیشواؤں کی طرف سے گروہ غلات کے لیے لعن و طعن اور بر کہنے میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ جس طرح ہم آپ کے علماء کی کتابیں پڑھتے ہیں آپ بھی علمائے شیعہ کی معتبر کتابیں پڑھا کیجئے تاکہ ایسے الفاظ زبان سے نہ نکالیے جو بے چارے عوام کو بہکانے والے ہوں۔ اور آپ بھی خدا کے دربار عدالت میں گرفتار ہوں۔

حضرات محترم! میں آپ سے انصاف چاہتا ہوں ۔ آیا ایسی صورت میں جب کہ ہمارے ائمہ نے اپنے شیعوں کی رہنمائی کے لیے ایسے بیانات ارشاد فرمائے ہیں اور سچے شیعہ علی (ع) واولاد علی(ع) کے پیرو اپنے مقتداؤں سے ان روایتوں کے سنے ہوئے ہیں اس کے بعد بھی ان کو خدا یا خدائی کی جگہ پر قرار دیں گے؟ غالیوں کا گروہ ہم سے بالکل الگ اور ہم ان لوگوں سے بیزار اور علیحدہ ہیں۔ چاہے وہ بظاہر تشیع کا دعوی کریں۔ لیکن خدا اور رسول(ص) علی و اولا علی علیہم السلام سب کےسب ان سے بیزار اور سارے شیعہ بھی ان سے بیزار اورالگ ہیں۔

چنانچہ ہمارے مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے رئیس غلات عبداﷲ بن سبا ملعون کو تین روز تک مقید رکھا اور توبہ کا حکم دیا جب اس نے قبول نہ کیا تو مجبورا اس کو آگ میں جلوا دیا۔ آپ کو خدا کے سامنے اس سے شرم آنا چاہئیے کہ آپ کے علماء تعصب و عادت اور اسلاف کی پیروی میں یہ لکھیں کہ تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا یہی عبداﷲ ملعون تھا جو حضرت علی(ع) کے حکم سے جلا دیا گیا۔ حالانکہ علمائے شیعہ نے ساری متعلقہ کتابوں میں اپنے ائمہ کی پیروی کرتے ہوئے عبداﷲ بن سبا کو ملعون بتایا ہے۔ لہذا عبداﷲ کے پیرو بھی ملعون ہیں کیونکہ وہ غلات میں سے ہیں نہ کہ آل محمد(ص) اور عترت طاہرہ پیغمبر(ص) کے محبت خالص شیعوں مین سے اس لیے کہ وہ س خداندان جلیل کے بارے میں غلو کی وہ سے دور اور مطرود ہیں۔

اگر تشیع کی بنیاد قائم کرنے والا عبداﷲ ملعون ہوتا اور شیعہ اس کے پیرو ہوتے جیسا کہ آپ کے متعصب علماء نے لکھا ہے اور دوسرے ان کی اندھی تقلید کر کے جلسوں میں اس کو نقل کرتے ہیں تو کم سے کم شیعوں کی کسی ایک ہی کتاب میں اس کی کچھ تعریف درج ہونا چاہئیے تھی۔ اگر آپ علماء شیعہ امامیہ کی کسی ایک ایسی کتاب کا پتہ دے دیجئے جس میں عبداﷲ ملعون کی کوئی تعریف کی گئی ہو تو میں آپ کی ساری باتیں ماننے کے لیے تیار ہوں اور اگر یہ پتہ نہ دیں ( اور ہرگز نہیں دے سکتے ہیں) تو روز حساب اور محکمہ عدل الہی سے ڈرئیے ، پاک و موحد شیعوں کو عبداﷲ ملعون کا پیرو نہ کہیئے اور حقیقت کو بیخبر عوام کی نگاہوں میں مشتبہ نہ بنائیے۔

اس کے علاوہ میں آپ سے برادرانہ التماس کرتا ہوں کہ آپ چونکہ اہل علم ہیں لہذا ہمیشہ قاعدہ علم و منطق اور حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے گفتگو فرمائیں اور خلاف عقل و حقیقت باتوں اور بے بنیاد شہرتوں کا سہارا نہ لیں۔

۴۹

جن کو دشمنوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے شیعوں کی طرف منسوب کیا ہے۔

حافظ : آپ کی برادرانہ نصیحتیں ہر عقلمند کے لیے قابل قبول و توجہ ہیں لیکن اجازت دیجئیے کہ میں بھی فرمائش کے طور پر چند جملے عرض کروں۔

خیر طلب : میں بہت ممنوں ہوں گا فرمائیے!

حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر یہی فرمارہے ہیں کہ ہم اماموں کے بارے میں غلو نہیں کرتے اور غلات کو مردود و ملعون اور جہنمی جانتے ہیں لیکن ان دو راتوں میں آپ کی زبان سے بار بار اماموں کے حق میں ایسے الفاظ سنے جارہے ہیں کہ آپ ہی کے بیان کیئے ہوئے قواعد کی روسے وہ حضرات اس قسم امور پر راضی نہیں ہیں ۔ لہذا ممکن ہو تو آپ بھی بات چیت کے موقع پر اس کا لحاظ رکھیں تاکہ مطعون نہ ہوں۔

خیر طلب : میں خشک و تنگ نظر اور متعصب و جاہل انسان نہیں ہوں ، بہت ممنون ہونگا کہ اگر میری گفتگو میں کوئی لغزش پائی جاتی ہو تو اس کی یاد دہانی فرما دیجئیے چونکہ انسان سہو و نسیان کا مرکز ہے لہذا تمنا رکھتا ہوں کہ ان دو راتوں میں جوکچھ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوکہ ائمہ ہدی علیہم السلام کے خلاف مرضی کہا گیا ہے اور علم و عقل و منطق سے مطابقت نہیں کرتا اس کو بیان فرمائیے۔

حافظ : میں نے ان دو شبوں میں مکرر آپ سے سنا ہے کہ جس موقع پر اپنے اماموں کا نام لیتے ہین تو بجائے اس کے کہ رضی اﷲ عنہم کہیں ، سلام اﷲ علیہم اور صلوات اﷲ علیہم کہا ہے در آںحالیکہ خود جانتے ہیں کہ سورہ احزاب کی آیہ شریفہ کے حکم سے جس میں ارشاد ہے :

" إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً" ( الاحزاب، 56 )

یعنی خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر کی روح پاک پر درود بھیجتے ہیں۔ اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کرو ( اور ان کے فرمان کو تسلیم کرو) آیت نمبر56 سورہ نمبر133 ( احزاب) سلام اور صلوة صرف رسول خدا(ص) سے مخصوص ہے چونکہ آپ اپنے بیانات میں اماموں کے لیے بھی صلوات و سلام کا ذکر کرتے ہیں ۔ لہذا بدیہی چیز ہے کہ یہ عمل قرآن مجید کی ںص صریح کے خلاف ہے۔

آپ کے اوپر جو اعتراض کئیے جاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع یہ بھی ہے کہ کہتے ہیں یہ امر بدعت ہے اور اہل بدعت اہل ضلالت ہیں۔

آل محمد علیھ م السلام پر سلام اور صلوات بھیجنے کے بار ے م یں مناظرہ

خیر طلب :- جماعت شیعہ نے ہ رگز کوئ ی عمل نص کے خلاف ن ہ ک یا ہے ن ہ کرت ے ہیں ۔ ہ وا یہ کہ گذشت ہ

۵۰

صد یوں میں خوارج و نواصب ،بنی امیہ اور ان کے پ یرووں نے ح یلہ سازیاں شروع کیں اور شیعوں کو اہ ل بدعت نام زد کرنے ک یلئے فرضی دلیلیں قائم کیں جن کا بڑے ب ڑے ش یعہ علماء نے مکمل جواب د یا اور ثابت کیا ہے ک ہ ہ م ا ہ ل بد عت ن ہیں ہیں ۔ چونک ہ دشمن ک ے ہ ات ھ و ں م یں قلم ہے ل ہ ذا تن ہ ا قاض ی بن کر جو چاہ ت ے ہیں لکھ ت ے ہیں ۔ اس موضوع پر ب ھی مفصّل جواب دیا جاچکا ہے ۔ ل یکن چونکہ وقت کاف ی گزر چکا ہے ۔ ل ہ ذا تفص یلی جواب سے قظع نظر کرتا ہ و ں محض اس لئ ے ک ی آپ کی فرمائش بغیر جواب کے ن ہ ر ہ جائ ے اور حضرات ا ہ ل جلس ہ اور م یرے برادران عزیز کے سامن ے حق یقت امر مشتبہ ن ہ ر ہے مختصر طور س ے عرض کرتا ہ و ں ، اوّل تو یہ کہ اس آیت میں کسی دوسرے پر سلام وصلوات ب ھیجنے کو منع نہیں کیا گیا ہے ۔ فقط حکم د یا جاتا ہے ک ہ مسلمانو ں کو لازم ہے ک ہ آ ں حضرت (ص) پر صلوات ب ھیجیں ۔

دوسرے جس خدائے بر تر ن ے یہ آیت نازل فرمائی ہے و ہی سورہ 37 (صافات)آ یت 130میں فرماتا ہے ۔ سلام عل ی آل یاسین (یعنی سلام ہ و یسین کی آل پر )خاندان رسالت کی اہ م خصوص یات میں سے ا یک یہ بھی ہے ک ہ قرآن مج ید میں ہ رجگ ہ مخصوص طور پر انب یائے کرام پر سلام ہے و ہ ف رماتا ہے ۔ "سلام عل ی نوح فی العالمین"،"سلام علی ابراہیم "،"سلام علی موسی وھ ارون" (سور ہ صافات ) ل یکن کسی مقام پر اولاد انبیا ء کے ل یئے سلام نہیں آیا ہے ،سوا اولاد خاتم الانب یاء کے جن ک ے لئ ے ارشاد ال ہی ہے ، سلام عل ی آل یا سین ، یاسین بھی رسول خدا(ص) کا ایک نام ہے ۔

"یس "کے معن ی اور یہ کہ "س"پ یغمبر صلّی اللہ عل یہ وآلہ کا نام مبارک ہے

آپ کو معلوم ہے ک ہ قرآن مج ید میں پیغمبر(ص)کے بار ہ نامو ں م یں سے پانچ نام امت ک ی مزید معرفت کیلئے ذکر کئے گئ ے ہیں اور وہ پانچ مقدس اسماء محمد، احمد، عبدالل ہ ، نون اور یاسین ہیں ۔ سور ہ نمبر 36 ک ے شروع م یں فرماتا ہے " یس و القرآن الحکیم انّک لمن المر سلین " یا حرف ندا اور "س"آنحضرت (ص) کا نام مبارک اور آنحضرت (ص) کی ظاہ ر ی وباطنی معتدل حقیقت اور مساوات کی طرف اشارہ ہے ۔

نواب:- اس کا کیا سبب ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی میں "س" آنحضرت (ص) کا نام مبارک قرار پایا ؟

خیر طلب :- میں نے عرض ک یا کہ آنحضرت(ص) ک ے عالم معنو ی اورحقیقت اعتدال کی طرف ایک اشارہ ہے ۔ ک یونکہ منزل خاتمیت کی حقدار وہی ذات ہے جس کا وجود حد اعتدال کو پ ہ نچا ہ وا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب اس کا

۵۱

ظا ہ ر وباطن یکساں ہ و اور یہ مرتبہ آ ں حضرت (ص) ک ے وجود مق دس کو حاصل تھ ا ،ل ہ ذا حرف "س" ک ے سات ھ اس ح یثیت کا اظہار فرمایا ۔

عام عقلوں س ے قر یب تر بیان یہ ہے ک ہ حروف ت ہ جّ ی کے درم یان صرف "س" ہی ایسا ہے جس کا ظا ہ ر وباطن برابر ہے اس معن ی سے ک ہ ا ٹھ ائ یس حرفوں م یں سے ہ ر ا یک کے لئ ے علمائ ے علم اعداد ک ے نزد یک ایک زبر اور ایک بیّنہ ہے اور حرف ک ے زبر و ب یّنہ کا تطابق کرنے م یں قطعی طور پر یا اس کا زبر زیادہ ہ وتا ہے یا بیّنہ ۔

نواب :- قبلہ معاف فرمائ یے گا میں جسارت کر رہ ا ہ و ں ۔ چونک ہ م یں گہ ر ے مضام ین کو سمجھ ن ے س ے معذور ہ و ں ل ہ ذا استدعا ہے ک ہ ان راتو ں م یں مطالب کو سادہ اور واضح طر یقے سے ب یان فرمائیے تاکہ ہم سب کے لئ ے لائق توج ہ اور قابل قبول ہ و ں چونک ہ ہ م لوگو ں ن ے زبر وب یّنہ ک ے معن ی نہیں سمجھے ،ل ہ ذا م یں متمنی ہ و ں ک ہ ساد ہ ب یان کے سات ھ وضاحت فرمائ یے تاکہ یہ معمّا حل ہ و جائ ے ۔

خیرطلب :-بسرو چشم ،زبر سے حرف ک ی صورت مراد ہے جو کاغذ پر لک ھی جاتی ہے ا ور بیّنہ سے و ہ ز یادتی ہے جو بولن ے ک ے وقت ظا ہ ر ہ وت ی ہے "س" کاغذ ک ے اوپر ا یک حرف ہے ل یکن تلفظ کے وقت ت ین حرف ہ وجات ے ہیں ۔ س ۔ی ۔ ن ۔ بولن ے ہیں اس پر یا اور نون کا اضافہ ہ وجاتا ہے ۔ اورا ٹھ ائ یس حروف تہ ج ی میں صرف "س" ہی وہ حرف ہے ک ہ حساب ک ی مطابقت کرنے م یں اس کا زبر اور بیّنہ برابر رہ تا ہے "س" ک ے عدد سا ٹھ ہیں اور اس کا بیّنہ بھی جس سے " ی"اور"ن"مراد ہیں ساٹھ عدد کا حامل ہے " ی" کے (10)اور"ن"ک ے (50)مل کر سا ٹھ ہ وئ ے اس ی وجہ سے قرآن مج ید میں خاتم الانبیاء کوآنحضرت (ص)کے ظا ہ ر و باطن ک ی طرف اشارہ کرت ے ہ وئ ے " یس"کہہ کر مخاطب ک یا ۔یعنی اے و ہ شخص جو ظا ہ ر وباطن دونو ں ح یثیتوں سے اعتدال پر ہے ۔

آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں

اب چونکہ حضرت کا نام مبارک "س" ہے ل ہ ذا اس آ یہ مبارکہ م یں فرماتا ہے "سلام عل ی آل یسین "یعنی سلام آل محمد(ص) پر۔

حافظ:- یہ ایسے مطالب ہیں جن کو آپ اپنے جادو ب یانی سے ثابت کرنا ہ ت ے ہیں ورنہ علماء ک ے درم یان اس کا ذکر نہیں آیا ہے ک ہ آل یا سین پر سلام ہ و ۔

۵۲

خیر طلب :- میں متمنی ہ و ں ک ہ انکار ک ے مواقع پر قطع ی طور سے کوئ ی بات نہ ک ہہ د یا کیجیئے بلکہ ترد ید کی صورت میں فرمایا کیجئے تاکہ جواب ک ے وقت آپ کو پچ ھ تان ے ک ی ضرورت نہ ہ و ۔ اگر آپ اپن ے علماء ک ی کتابو ں س ے ب ے خبر یا واقف ہیں لیکن تصدیق کرنے ک ے خلاف سمج ھتے ہیں تو میں آپ کی کتابوں س ے باخبر ہ و ں اور حق س ے من ہ ب ھی نہیں موڑ تا ہ و ں ۔

آپ کے ب ڑے ب ڑے علماء ک ی کتابوں م یں کثرت سے اس معن ی کی طرف اشارہ ک یا گیا ہے ،منجمل ہ ان ک ے متعصب ابن حجر ن ے صواعق محرق ہ ک ے اندر جو آ یات فضائل اہ ل ب یت علیھ م السلام میں نقل کی ہے ان م یں سے ت یسری آیت کے ذ یل میں لکھ ا ہے ک ہ مفسّر ین کی ایک جماعت نے مفسّر اور خ یر امّت ابن عباس سے نقل ک یا ہے ک ہ "المراد بذالک سلام عل ی آل محمد"یعنی الیاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں لہ ذا آل یاسین پر سلام کا مطلب ہے سلام آل محمد(ص) پر اور لک ھ ت ے ہیں کہ اما م فخر الد ین رازی نے ذکر ک یا ہے ۔ ان اهل بیته صلّی الله علیه وآله وسلّم یساوونه فی خمسة اشیاء ،فی السلام قال" السلام علیک ایها النبی" و قال" سلام علی الیاسین "، فی الصلواة علیه علیهم فی التشهد وفی الطهارة قال الله تعالی "طه یا طاهر "وقال " یطهرکم تطهیرا "،و فی تحریم الصدقة ،وفی المحبة قال تعالی "قل ان کنتم تحبّون الله فاتبعونی یحببکم الله وقال قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی"

(یعنی رسول کے ا ہ ل ب یت علیھ م السلام پانچ چیزوں میں آنحضرت (ص) کے برابر ہیں اول سلام میں فرمایا سلام پیغمبر بزرگوار اور یہ بھی فرمایا سلا م آل یاسین پر (یعنی سلام آل محمد پر۔ )دوسر ے صلوات م یں تشہ د نماز م یں۔ ت یسرے طہ ارت م یں خدائے تعال ی نے فرمایا ہے ط ہ یعنی اے طا ہ ر اور ان حضرات ک ے بار ے م یں آیت تظہیر نازل فرمائی ۔ چوت ھے تحر یم صدقہ م یں کیونکہ پیغمبر اور ان کے ا ہ ل ب یت پر صدقہ حرام ہے ،پانچو یں محبت میں ،ک یوں کہ خدائ ے تعال ی نے فرما یا (محمدص) کہہ دو(امت س ے )م یں تم سے کوئ ی اجر اور مزدوری نہیں چاہ تا ہ و ں سوا م یرے ذوی القربی اور اہ لب یت سے محبت ک ے ) ۔

سید ابو بکر بن شہ اب الد ین علوی کتاب "شفتہ الصاد ی من الصادی من بحر فضائل بنی النبی الھ اد ی(مطبوعہ مطبع ہ اعلام یہ مصر سنہ 1303 ھ ک ے باب اول صفح ہ 24 پر مفسر ین کی ایک جماعت سے بروا یت ابن عباس ونقاش کلبی سے اور باب 2 صفح ہ 42 پر نقل ک یا ہے ک ہ آ یت میں آل یاسین سے مراد آل محمد(ص) ہیں اور امام فخرالدین رازی نے تفس یر کبیر جلد ہ فتم صفح ہ 163 م یں اسی آیت شریفہ کے ما تحت آ یت کے معن ی میں کئی وجہیں نقل کی ہیں اور وجہ دوم م یں کہ ا ہے ک ہ ال یا سین سے مراد آل محمد سلام الل ہ عل یھ م اجمعین ہیں نیز ابن حجر نے صواعق محرق ہ م یں ذکر کیا ہے ک ہ مفسر ین کی ایک جماعت نے ابن عباس سے نقل ک یا ہے ، ان ہ و ں ن ے ک ہ ا "سلام عل ی الیاسین" سلام آل محمد (ص) پر۔

۵۳

لیکن اہ ل ب یت علیھ م السلام پر صلواۃ بھیجنا تو ایک ایسا امر ہے جو فر یقین کے درم یان مسلم ہے یہ ا ں تک کہ بخار ی اور مسلم بھی اپنی صحیحین میں تصدیق کرتے ہیں کہ پ یغمبر نے فرما یا میرے اور میرے اہ ل ب یت علیھ م السلام کے دوم یان صلواۃ میں جدائی نہ ڈ الو ۔

آل محمد(ص) پر صلوات بھیجنا سنت اور تشہ د نماز م یں واجب ہے

مخصوص طور پر بخاری اپنی صحیح کی جلد سوم میں مسلم اپنی صحیح کی جلد اول میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ میں حتی ابن حجر ایسے متعصب نے صواعق م یں اور آپ کے دوسر ے ب ڑے علماء کعب بن عجز ہ س ے نقل کرت ے ہیں کہ جب آ یت "انّ اللہ و ملائکت ہ یصلون علی النبی "(سورہ احزاب 43) ہ وئ ی تو ہ م لوگو ں ن ے عرض ک یا کہ یا رسو ل اللہ آپ پر سلام کرن ے کا طر یقہ تو ہ م کو معلوم ہ وا ل یکن "کیف یصلی علیک ؟" آپ پر صلواۃ کس طرح بھیجیں ؟ آں حضرت ن ے فرما یا صلوات اس طریقے سے ب ھیجو" اللھ م صلّ عل ی محمد وآل محمد اور دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے ک ہ "کما صلّ یت علی ابراھیم و آل ابراھیم انّک حمید مجید "

امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 797 م یں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم (ص) س ے لوگو ں ن ے سوال ک یا کہ ہ م آپ پر کس طرح س ے صلوا ۃ بھیجیں ؟ آنحضرت (ص) نے فرما یا کہ و " اللهم صلّ علی محمد و علی آل محمد کما صلّیت علی ابراهیم وعلی آل ابرا هیم وبارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم انّک حمید مجید.

اور ابن حجر نے ت ھ و ڑے س ے لفظ ی اختلاف کے سات ھ یہی روایت حاکم سے نقل ک ی ہے اس ک ے بعد اپن ے عق یدے اوررائے کا اظ ہ ار کرت ے ہ و ے ک ہ ت ے ہیں ۔ "وف یہ دلیل ظاھ ر عل ی ان الامر بالصلوات علیہ الصلوات علی آلہ " یعنی حدیث میں اس پر کھ ل ی ہ وئ ی دلیل ہے ک ہ پ یغمبر (ص)پر صلوات بھیجنے کا حکم آنحضرت (ص)کی آل پر بھی صلوات بھیجنے کے لئ ے ہے ۔ ن یز روایت کی ہے ک ہ فرما یا "لا تصلّوا علیّ الصلواة البتراء" یعنی مجھ پر بترا اور دم بر یدہ صلوات نہ ب ھیجو لوگوں ن ے عرض ک یا یا رسول اللہ صلوا ۃ بتراء کون ہے ؟ فرما یا اگر کہ و "اللھ م صلّ عل ی محمد "لہ ذا یوں کہ و"الل ھ م صلّ عل ی محمدو علی آل محمد۔

اس کے علاو ہ د یلمی نے نقل ک یا ہے ک ہ رسول اکرم (ص)"الدعا ء محجوب حت ی یصلی علی محمد وآلہ " ۔ دعا پرد ے م یں رہ ت ی ہے (اور قبول ن ہیں ہ وت ی )جب تک محمد وآل محمد پر درود نہ ب ھیجیں ۔ اور اما م شافع ی سے نقل ک یا ہے ک ہ ان ہ و ں ن ے ک ہ ا :

۵۴

یا اهل بیت رسول الله حبکم ----- فرض من الله فی القرآن انزله

کفاکم من عظیم القدر انکم ----- من لم یصل علیکم لا صلواة له

(یعنی اے ا ہ ل ب یت رسول اللہ (ص) تم ہ ار ی دوستی خدا نے قرآن مجید میں واجب کی ہے ،تم ہ ار ی بزرگی ،منزلت اور مرتبے ک یلئے یہی کافی ہے ک ہ جو شخص تم پر صلوا ۃ نہ ب ھیجے اس کی نماز قبول نہیں ہ وت ی ، شافعی کی مراد تشہ د نماز م یں صلوات ہے ، جس کو اگر عمدا ترک کرد یں تو نماز باطل اور غیر مقبول ہے ۔)

رسول اکرم(ص)کے اس ارشاد ک ے پ یش نظر کہ "الصلواة عمود الدین ان قبلت قبل ما سواها وان ردّت ردّ ما سواها "( یعنی نماز دین کا نگہ بان اور ستون ہے اگر نماز قبول ہ وجائ ے تو اس ک ے علاو ہ دوسر ے تمام اعمال ب ھی قبول ہ وجات ے ہیں ، اور اگر نماز رد ہ وجائ ے تو دوسر ے اع مال بھی رد ہ وجات ے ہیں ۔ تمام اعمال ک ی قبولیت نماز سے وابست ہ ہے اور جو روا یتیں پیش کی گئی ہیں ، ان پر نظر کرتے ہیں ہ وئ ے نماز ک ی قبولیت بھی محمد وآل محمد (ص) پر صلوات بھیجنے میں منحصر ہے ج یسا کہ شافع ی نے خود اقرار ک یا ہے ۔

سید ابو بکر شہ اب الد ین نے کتاب "شفت ہ الصاد ی من بحر فضائل بنی النبی الہ اد ی"باب 2 میں صفحہ 29-35 تک محمد وآل محمد پر صلوات ب ھیجنے کے وجوب م یں کئی بیانات درج کئے ہیں اور دلائلی نے نسائ ی سے دارقطن ی ،ابن حجر اور بہیقی نے ابوبکر طوس ی سے ان ہ و ں ن ے ابو اسحاق مروزی اور سمہ ود ی سے ، نوو ی نے تنق یح میں اور شیخ سراج الدین قصیمی یمنی نے نقل ک یا ہے ک ہ نماز ک ے تش ہ د م یں محمد صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم ک ے نام مبارک ک ے بعد آل محمد پر صلوات ب ھیجنا واجب ہے ۔

چونکہ وقت کافی گزر چکا ہے ل ہ ذا مفصل ب یان سے قطع نظر کرتا ہ و ں اور ف یصلہ آپ حضرات کے پاک ضم یر پر چھ و ڑ تا ہ و ں ۔

چنانچہ آپ حضرات اس کی تصدیق فرما ئیں کہ ا ہ ل ب یت پیغمبر پر درود سلام بدعت نہیں بلکہ سنت اور ا یسی عبادت ہے جس ک ے لئ ے خود رسول (ص) ک ی تاکید ہے اور اس ک ی حقیقت سے کوئ ی انکار نہیں کرسکتا سوا خوارج و نواصب اور ضدی کینہ تو پرور اور دشمن متعصبین( خذلھ م الل ہ )ک ے جن ہ و ں ن ے اصل ی بات کو برادران اہ ل سنت ک ی نگاہ و ں پر مشتب ہ بنا د یا ہے اور بنات ے ر ہ ت ے ہیں ۔

یہ بدیہی بات ہے ک ہ جو ہ ست یاں اس حکم میں خاتم الانبیاء (ص) سے اس قدر قر یب ہیں اور ذکر میں دوسروں پر مقدم ہیں ان کا دوسروں پر ق یاس کرنا اور دوسروں کو ان ک ے اوپر ترج یح دینا سوا سفاہ ت اور ج ہ الت یا تعصب کے وب ے خبر ی کے اور ک یا ہے ؟

اس موقع پر چونکہ آدھی رات گزرچکی تھی۔ اور بعض حاضرین جلسہ کے چہروں پر کسل مندی کے

۵۵

آثار ظاہر تھے ۔ لہذا ہم لوگوں نے نشست کو ختم کردیا اور چائے نوشی اور اس اقرار کے بعد کہ کل شب میں ذرا سویرے تشریف لائینگے سب حضرات متفرق ہوگئے -

تیسری نشست

شب یک شنبہ 25 رجب سنہ1345ھ

ہم لوگ نماز مغرب سے فارغ ہوچکے تو مولوی صاحبان تشریف لے آئے اور معمولی صاحب سلامت کے بعد چاء نوش میں مشغول ہوئے میں بھی نماز عشاء ختم کرنے کے بعد اطمینان کے ساتھ ان حضرات کی گفتگو سننے کے لیے حاضر ہوا۔

حافظ : قبلہ صاحب کا شب میں جب ہم لوگ اپنے گھروں کو واپس گئے تو میں نے اپنے کو بہت ملامت کی کہ ہم دوسری قوموں کے عقائد میں اس لیے زیادہ غور فکر نہیں کرتے اور (بقول آپ کے) صرف بعض متعصب لوگوں کی کتابوں پر اکتفا کر لیتے ہیں جس سے حقیقت ہم پر ظاہر نہیں ہوتی۔

خیر طلب : جیسا کہ خدائے تعالی نے سورہ نمبر5( انعام ) ، آیت ص150 میں ارشاد فرمایا ہے کہ قل ﷲ الحجة البالغہ ۔ (1) کل شب کی نشست بھی خدائی دلیلوں میں سے ایک دلیل تھی تاکہ اس کے ذریعہ سے آپ حضرات ابتدائے صحبت ہی میں کسی قدر اپنی عادت سے ہٹ کے اور دیدہ انصاف و علم و عقل کے ساتھ میری گزارش پر توجہ کر کے یہ جان لیں کہ جو کچھ میں عرض کررہا ہوں وہ علم عقل اور منطق و حقیقت کی میزان پر تلا ہوا ہے۔اور جو

باتیں پہلے سے آپ حضرات کے سمع مبارک میں پہنچائی گئی ہیں، اور جنہوں نے آپ کے ذہن کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے اور خود غرض متعصب لوگوں کے عناد اور ضد کا نتیجہ ہیں۔

میں خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ ان جلسوں میں میرا نظر یہ قطعی طور پر یہ نہیں ہے ۔ کہ گفتگو میں خود غالب رہوں اور آپ حضرات کو مغلوب کروں بلکہ ہمیشہ کی طرح میرا مقصد اور نقطہ نظر حریم تشیع کی طرف سے دفاع اورحق و حقیقت کو نمایاں کرنا ہے۔

حافظ : کل شب کے بیانات میں آپ کے فقرات سے ظاہر ہوا کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں، تو آپ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ کہدو اے پیغمبر کہ خدا کے لیے کامل حجت ہے۔

۵۶

شیعوں کے کس طبقے کو برحق اور ان کے اقوال و عقائد کو صحیح سمجھتے ہیں ؟ اگر ممکن ہوتو مطلب واضح ہونے کے کیے ان طبقات کو بیان فرمائیے تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ کس گروہ کے بارے میں ہم کو بحث کرنا چاہیے۔

خیرطلب : میں نے گذشتہ شب میں یہ تو عرض نہیں کیا ہے کہ شیعوں کے مختلف طبقے ہیں بلکہ شیعہ کی جس معنی کے ساتھ میں نے تشریح کی ہے یعنی خدا و رسول(ص) کے فرمانبردار بندے اورآں حضرت(ص) کے حکم سے خاندان رسالت کے پیرور دہ ایک طبقے سے زیادہ نہیں ہیں۔ البتہ چند شعبدہ باز فرقوں نے تشیع کے نام پر اپنی نمائش کر کے بے خبر جاہل لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا۔ مقدس شیعہ نام سے غلط فائدہ اٹھایا اور باطل عقائد بلکہ کفر و بے دینی کو اس نام سے لوگوں کے درمیان رائج کیا لہذا نا واقف اشخاص نے جو حقائق کی تشخیص نہٰیں کرتے ہیں تاریخ میں لفظ شیعہ سے ان کو موسوم کیا ہے ۔ ان لوگوں کے بنیادی طبقے چار ہیں جن میں صرف دو باقی رہ گئے ہیں اور دو بالکل فنا ہوچکے ہیں۔ اور ان کے ہر طبقے سے اور دوسرے فرقے پیدا ہوئے ان چار فرقوں سے مراد ہیں زیدیہ ، کیسانیہ، قداحیہ اور غلات۔

عقائد زیدیہ

پہلا فرقہ زیدیہ ہے اور وہ ایسے لوگ ہیں جو زید ابن علی ابن الحسین علیہما السلام کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں اور امام زین العابدین علیہ السلام کے بعد زید کو امام مانتے ہیں ، زیدیہ فرقے والے فی الحال یمن اور اس کے اطراف میں کثرت سے ہیں ، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ جو علوی اور فاطمی شخص عالم و زاہد اور شجاع ہو ، اس کے علاوہ تلوار کے ساتھ خروج کرے اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے وہ امام ہے اور چونکہ جناب زید نے ہشام ابن عبدالملک اموی کے زمانہ خلافت میں بنی امیہ کے ظلم اور چیرہ دستی کی وجہ سے کوفہ میں خروج کیا اور شربت شہادت نوش فرمایا۔ جیسا کہ پرسوں کی شب میں میں نے ایک موقع پر ان بزرگواروں کی مفصل کیفیت عرض کی ہے۔ لہذا ان کو امام سمجھ کر ان کی پیروی اپنے اوپر لازم جانتے ہیں۔ حالانکہ جناب زید کی منزل اس سے کہیں الگ ہے کہ ان کی طرف ایسی نسبت دیں ۔ جناب زید بنی ہاشم کے بزرگ سادات میں سے تھے۔ زہد، علم، فضل ، فہم، دینداری، پرہیزگاری، عبادت ، شجاعت اور سخاوت میں قوم کے اندر نمایاں اور ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار تھے۔

رسول اکرم(ص) آں جناب کی خبر شہادت دے چکے تھے جیسا کہ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

" وضع رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم يده على صلبي فقال: يا حسين يخرج من صلبك رجل يقال له زيد يقتل شهيدا إذا كان يوم القيامة يتخطّى هو و أصحابه رقاب الناس، فيدخلون الجنة "

( یعنی رسول اﷲ(ص) نے اپنا دست مبارک میری پشت پر رکھا اور فرمایا کہ اے حسین(ع)

۵۷

عنقریب تمہاری صلب سے ایک مرد پیدا ہوگا۔ جس کا نام زید ہوگا وہ شہید قتل ہوگا۔ اور جب قیامت کا دن ہوگا تو وہ اور اس کے اصحاب لوگوں کی گردنوں پر قدم رکھتے ہوئے بہشت میں داخل ہوں گے۔)

( اور یہ بدیہی بات ہے کہ اصحاب سے وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے خروج کے موقع پر ظلم بنی امیہ کے مقابلے میں ان جناب کے ہمراہ مقاومت کی لیکن خود جناب زید نے کبھی امامت کا دعوی نہیں کیا۔ اور یہ ایک تہمت ہے جو ان پر لگائی گئی ہے ورنہ وہ خود اپنے کو اپنے برادر بزرگوار حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی امامت کا تابع اور مطیع سمجھتے تھے۔ البتہ ان جناب کے بعد چند شعبدہ باز اس اصول کے قائل ہوگئے کہ:

"ليس الامام من جلس في بيته و أرخى عليه ستره، بل الامام كل فاطمي عالم صالح ذي رأي يخرج بالسيف."

( یعنی وہ شخص اور امام نہیں ہے جو گھر میں بیٹھ رہے اور اپنے کو لوگوں سے پوشیدہ رکھے بلکہ ہر وہ عالم، صالح اور صاحب رائے فاطمی امام ہے۔جو خروج بہ شمشیر کرے۔)

لوگوں کو آپ کی امامت کی طرف دعوت دی اور نئی نئی شکلیں ایجاد کر کے اپنے مقاصد حل کرنے کے لیے ایک وکان کھول دی یہ لوگ پانچ فرقوں میں تقسیم ہوئے ۔ مغیریہ ، جارودیہ، ذکریہ، خشییہ اور خلقیہ۔

عقائد کیسانیہ

دوسرا فرقہ کیسانیہ ہے یہ لوگ کیسان غلام و آزاد کردہ علی ابن ابی طالب کے اصحاب شمار کیے جاتے ہیں۔ یہ حسنین علیہما السلام کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کے سب سے بڑے فرزند محمد ابن حنفیہ کی امت کے قائل تھے ۔ لیکن جناب محمدخود ایسا دعوی نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ ان کو سید لتابعین کہا جاتا تھا اور علم زہد ورع و تقوی اور امر مولیٰ کی اطاعت میں مشہور تھے بعض بازی گروہ نے حضرت زین العابدین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی مخالفتوں کے قضیہ کو حیلہ بنایا اور آپ کے دعوی امامت کی دلیل قرار دیا ۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ نہیں تھی کہ آپ امامت کے مدعی تھے بلکہ ان مخالفتوں سے جناب محمد کا مقصود امام چہارم حضرت سید سجاد علیہ السلام کی منزل ظاہر کرتا تھا تاکہ اس طریقہ سے اپنے جاہل مریدین اور سادہ لوح معتقدین کو متوجہ فرما دیں کہ میں اس منصب پر فائز نہیں ہوں چنانچہ اسی مسجد الحرام کے اندر حجر اسود کے سامنے ثبوت حق اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں حجر اسود کے اقرار کے بعد جیسا کہ کتب اخبار و تاریخ میں اس کی تفصیل موجود ہے، ابو خالد کابلی نے ان جناب کے معتقدین کا راس و رئیس تھا محمد حنیفہ کو امام ماننے والوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان جناب کی پیروی کرتے ہوئے امامت حضرت سید سجاد علیہ السلام کا اعتراف کیا، لیکن چند مکاروں نے بے عقل اور بے خبر عوام کے ایک گروہ کو اسی عقیدے پر باقی رکھا۔ اور

۵۸

بہانہ یہ بنایا کہ جناب محمد نے انکسار سے کام لیا ہے اور بنی امیہ کے مقابلہ میں سیاست کا یہی تقاضا بھی تھا ورنہ ان کی امامت مسلم ہے آپ کی وفات کے بعد بھی یہ لوگ اس پر جمے رہے اور کہا کہ جناب محمد مرے نہیں بلکہ جبل رضوی کے غار میں پوشیدہ ہوگئے ہیں ایک زمانہ میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کو عدل و داد سے بھر دیں گے ۔ ان کے چار فرقے تھے۔ مختاریہ، کربیہ، اسحاقیہ اور حربیہ، لیکن آج اس عقیدے پر کوئی شخص باقی نہیں ہے۔

عقائد قداحیہ

تیسرا گروہ قداحیہ ہے ان لوگوں کے مذہب کی بنیاد بظاہر تشیع مگر باطنا محض کفر ہے۔ اس مذہب کی اصل تشکیلات میمون ابن سالم یا ( ویصان) معروف بہ قداح اور عیسی جہار لختان کے ہاتھوں مصر میں شروع ہوئیں اور انہوں نے قرآن مجید و اخبار میں اپنی خواہش کے مطابق تاویلات کا دروازہ کھولا ۔ شریعت کے لیے ایک ظاہر اور ایک باطن قرار دیا اور کیا کہ باطن شریعت کی خدا نے پیغمبر کو پیغمبر نے علی(ع) کو انہوں نے اپنے فرزندوں کو اور خالص شیعوں کو تعلیم دی۔ ان کا قول ہے کہ جن لوگوں نے باطن شریعت کو سمجھ لیا وہ ظاہری طاعت و عبادت ی قید سے آزاد اوربے فکر ہوگئے۔

انہوں نے مذہب کی بنیاد سات ستونوں پر قائم کی۔ سات پیغمبروں کے معتقد ہیں۔ سات امام مانتے ہیں اور ساتویں امام کا غائب جانتے ہیں۔ اور ان کے ظہور کے منتظر ہیں۔ یہ دو جماعتوں پر متقسم تھے۔

ناصریہ : مذہب خسرو علوی کے اصحاب جنہوں نے اپنے اشعار و گفتار اور کتابوں میں شیعہ کے نام پر بہت سے لوگوں کو کفر و الحاد کی طرف کھینچ لیا اور طبرستان میں کافی پھیلے ہوئے تھے۔

صباحیہ : یہ دوسری جماعت حسن صباح کے اصحاب تھے جو در اصل معرکا باشندہ تھا لیکن ایران میں آکر قزوین کے اندر واقعہ اسفناک اور الموت کا فتنہ عظیم پرپا کیا اور بکثرت قتل و خونریزی کا باعث بنا جس کی تفصیل تاریخ میں موجود ہے لیکن اس مختصر مجلس میں اس کے مفصل تاریخی حالات بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔

عقائد غلات

چوتھی جماعت غالیہ ہے جو تمام قوموں اور فرقوں سے زیادہ پست ہے یہ لوگ تشیع کے نام سے مشہور ہوگئے لیکن یہ سب کےسب کافر نجس اور فاسد و مفسد ہیں ان کے اصلی فرقے سات میں سبائیہ، منصوریہ، غرابیہ،

۵۹

بزیعینہ، یعقوبیہ، اسماعیلیہ، اور ازدریہ، ان کے حالات اور پیدائش کی تشریح کل کی شب میں مقتضائے مجلس کے لحاظ سے مختصر طور پر عرض کرچکا ہوں ۔ ہم شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کی پوری ملت بلکہ دنیا کے سارے مسلمان ان سے اور ان کے عقائد سے بیزار ہیں ہم ان کو ہر نجس سے زیادہ نجس کافر ملحد اور بے دین سمجھتے ہیں۔

کفر والحاد کے قاعدے پر جو عقیدہ بھی صراحتہ یا کنایة شیعوں کے نام سے زبانوں پر مشہور اور بعض کتابوں میں عمدا یا سہوا درج ہوا ہے، وہ زیادہ تراسی گروہ سے ہے جو اپنے کو شیعہ علی کہتا ہے لیکن جماعت شیعہ امامیہ اثنا عشریہ جو دنیا میں اسی کروڑ سے زیادہ تعداد کے مالک ہے ان فاسد عقائد سے دور ہے بلکہ اصلی دین، پاکیزہ مذہب اور شریعت کا لب لباب جو باب علم رسول امیرالمومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام سے حاصل ہوا ہے انہیں لوگوں کے پاس ملتا ہے۔

عقائد شیعہ امامیہ اثنا عشریہ

پانچواں گروہ شیعہ امامیہ اور فرقہ فقہ اثناعشریہ ہے جو عقل و نقل کے مطابق شریعت کے لب و لباب کا حامل ہے اور در اصل حقیقی شیعہ یہی لوگ ہیں اور وہ چار فرقے فرضی شیعہ ہیں۔

ان میں حقیقی شیعوں کے اعتقاد کا خلاصہ فہرست کے طور پر آپ کے سامنے پیش کیئے دیتا ہوں تاکہ بعد کو ان کی طرف غلط باتیں منسوب نہ کیجئے۔

شیعہ امامیہ کی پوری جماعت ذات واجب الوجود خداوند جل و علا کا اعتقاد رکھتی ہے کہ وہ ایسا واحد یکتا ہے جو اپنا شبیہ و عدیل اور نظیر نہیں رکھتا نہ جسم ہے نہ صورت نہ جوہر ہے نہ عرض ، جملہ صفات مکانیہ سے مبرا و معرا ہے بلکہ سارے اعراض و جواہر کا خالق ہے اور خلق موجودات اور ان پر فیوض نازل کرنے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ بعض عارفین نے پروردگار کی صفات سلبیہ کو شعر میں اس طرح نظم کیا ہے۔

نہ مرکب بود نہ جسم نہ جوہر نہ عرضبے شریک است و معانی تو غنی داں خالق

چونکہ ذات واجب الوجود ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ دیکھا جا سکے اور دوسری طرف مخلوق کی ہدایت و رہنمائی بھی ضروری تھی۔ لہذا قوم انسانی سے معیار کے لحاظ سے کامل انبیاء و مرسلین منتخب کر کے ہر زمانہ والوں کے حالات و ضروریات کے مطابق دلائل و براہین ، معجزات ، بینات اور کافی ہدیات سپرد کر کےبھیجے ۔ جن کی تعداد بہت اور بے شمار ہے یہ سب کے سب ان پانچوں اولوالعزم پیغمبروں کے احکام کے ماتحت

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

بعض علماء نے تو اس مسئلہ میں شیعوں کی کتب کی ایک سطر کا بھی مطالعہ نہ کیا ہو اور اسی بات پر ہمیں افسوس ہے_

اس لیے ہم اس مختصر سی کتاب میں نکاح موقت کی شرائط اور اس کا نکاح دائم کے ساتھ فرق واضح الفاظ میں بیان کریں گے تا کہ سب پر حجت تمام ہوجائے_

نکاح موقت اکثر شرائط و احکام میں نکاح دائم ہی کی طرح ہے_

۱_ مرد و عورت دونوں مکمل رضایت اور اختیار کے ساتھ بغیر کسی جبر کے ایک دوسرے کو میاں بیوی بننے اور شادی کے لیئے قبول کریں_

۲_ عقد کا صیغہ لفظ''نکاح'' '' ازدواج'' یا '' متعہ'' کے ذریعے جاری کیا جائے اس کے علاوہ دوسرے الفاظ کافی نہیں ہیں_

۳_ اگر لڑکی باکرہ ہو تو ولی کی اجازت ضروری ہے اگر باکرہ نہ ہو تو اجازت شرط نہیں ہے_

۴_ عقد کی مدّت اور حق مہر دقیق اور واضح طور پر معین کیا جائے_ اگر مدت کو نکاح کے درمیان بیان کرنا بھول جائے تو بہت سے فقہاء کے فتوی کے مطابق یہ عقد، نکاح دائم میں تبدیل ہوجائیگا ( اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہر دو نکاح کی حقیقت ایک ہی ہے صرف مدت کے ذکر کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے فرق ہے) ( توجہ فرمایئے

۵_ مدت کا اختتام، طلاق کی مثل ہے بلافاصلہ عورت کو عدّت گزارنا ہوگی ( البتہ اگر آمیزش واقع ہوئی ہے)

۶: عقد دائم کی عدت تین مرتبہ ماہواری کا دیکھنا ہے یعنی تیسری مرتبہ ماہواری دیکھنے کے بعد عدت تمام ہوجائیگی_ لیکن عقد موقّت کی عدت دو مرتبہ ماہواری کا دیکھنا ہے_

۱۰۱

۷: عقد متعہ سے پیدا ہونے والے بچے شرعی حوالے سے اولاد شمار ہوتے ہیں_ انکے لیئےمام وہی احکام ہیں جو عقد دائم سے پیدا ہونے والے بچوں کے احکام ہیں_ اور اسی طرح یہ بچے ماں، باپ، بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں سے وراثت بھی پائیںگے_ ان بچوں اور دائمی شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کے حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے_

یہ بچے بھی ماں،باپ کی کفالت میں رہیں گے ان کے تمام اخراجات اور نفقہ نکاح دائمی سے ہونے والے بچوں کی طرح لازمی ہے کہ ادا کئے جائیں_

بعض لوگ یہ شرائط سُن کر شاید حیران ہوں _ انکا حق بنتا ہے کیونکہ متعہ کے بارے غلط اور عوامانہ ذہنیت بنائی گئی ہے _شاید لوگ اسے مخفی ، ناجائزاور غیر قانونی شادی تصوّر کرتے ہیں ، یعنی ایک لفظ میں کہا جائے تو اسے جو زنا کے مشابہ خیال کرتے ہیں_ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے_

ہاں ان دو نکاحوں کے درمیان میاں بیوی کے حقوق کے لحاظ سے کچھ فرق ہے_ اس نکاح میں عقد دائم کی نسبت آپس کے تعہد اور ذمہ داریاں بہت کم ہیں_ کیونکہ اس نکاح کا مقصد ہی سہولت اور قوانین کا بہت سخت نہ ہونا ہے_ من جملہ :

۱_ بیوی عقد متعہ میں نفقہ اور وراثت کی حقدار نہیں بنتی_ البتہ بعض فقہاء قائل ہیں کہ یہ اُس صورت میں ہے جب نکاح میں نفقہ اور وراثت کی شرط نہ لگائی جائے یعنی اگر نکاح میں یہ شرط رکھ دی ہے تو پھر اس شرط کے مطابق عمل کرنا ہوگا_

۲_ اس نکاح میں عورت آزاد ہے کہ گھر سے باہر جاکر کام ( ملازمت) کرسکتی ہے _اس کے لیے شوہر کی اجازت شرط نہیں ہے جب تک یہ کام شوہر کے حقوق کو تلف نہ کرتا ہو_ لیکن عقد دائم میں بیوی کیلئے شوہر کی رضایت کے بغیر باہر ملازمت کرنا جائز نہیںہے_

۳: اس نکاح میں مرد پر واجب نہیں ہے کہ رات کو اپنی بیوی کے پاس رہے_

۱۰۲

مذکورہ احکام میں غور و فکر کرنے سے بہت سے سوالات، غیر منصفانہ قضاوت، شبہات اور تہمتوں کا جواب روشن ہوجائیگا_اور اسلام کے اس حکیمانہ اور مقدس حکم کے بارے میں بنائی گئی غلط ذہنیت خودبخود ختم ہوجائیگی_ اور اس گفتگو سے یہ بات بھی بالکل واضح و روشن ہوجاتی ہے کہ اس نکاح موقّت کا زنا اور دیگر عفت کے منافی اعمال کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے_ جو لو گ ان دونوں کا آپس میں قیاس کرتے ہیں وہ یقیناً ناآگاہ ہیں اور انہیں نکاح متعہ کی حقیقت اور شرائط کے بارے میں بالکل معلومات نہیں ہیں_

سوء استفادہ:

ہمیشہ مثبت امور سے سوء استفادہ بد زبان لوگوں کی زبان کھولتا اور بہانہ گروں کو بہانہ فراہم کرتا ہے تا کہ اسے بہانہ بنا کر مثبت امور کے خلاف کام کریں اور اپنا زہر اگلیں_

نکاح متعہ بھی اس قسم کی بحثوں کا ایک روشن مصداق ہے_

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض ہوس پرستوں نے اس نکاح متعہ کو جو کہ حقیقت میں ضروریات کی گرہ کھولنے اور اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کے لیئے تشریع کیا گیا تھا، بازیچہ بنادیا ہے اور بے اطلاع لوگوں کے سامنے اس کا چہرہ مسخ کرکے مخالفین کو بہانہ فراہم کیا ہے_ جس کی وجہ سے یہ حکیمانہ حکم تنقید کا نشانہ بن گیا ہے_

لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کونسا حکم ہے جس سے ایک دن ضرور سوء استفادہ نہ کیا گیا ہو اور وہ کونسا نفیس سرمایہ ہے جس سے نا اہل غلط طور پربہرہ مندنہ ہوئے ہوں؟

اگر لوگوں نے ایک دن جھوٹ اور دھوکے سے قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کیا تا کہ اپنی ظالم حکومت کا دفاع کرسکیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم قرآن مجید کو چھوڑ دیں؟

۱۰۳

یا اگر ایک دن منافقین نے مسجد ضرار بنادی جس کے ویران کرنے اور جلانے کا حکم خود پیغمبر اسلام(ص) نے صادر فرمایا تو کیا اس کامطلب یہ ہے کہ ہم مسجد سے کنارہ کشی اختیار کرلیں؟

بہرحال ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بعض نادان لوگوں نے اسلامی حکم سے سوء استفادہ کیا ہے لیکن چند بے نمازیوں کی وجہ سے مسجد کو تالا نہیں لگایا جاسکتا ہے_

اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہوس پرستوں کے لیئے راستہ بند کیا جائے اور اس نکاح متعہ کے لیئےحیح راہ حل نکالا جائے_

بالخصوص ہمارے زمانے میں یہ کام منظّم اور دقیق راہ حل کے بغیر ممکن نہیں ہے_ لہذا ضروری ہے کہ بعض شائستہ اور ماہر شخصیات اور اہل خبرہ لوگ اس مسئلہ کے لیئےیک کار آمد اور قابل اجراء قانون نامہ لکھ کرشیاطین کے ہاتھ قطع کردیں اور اس حکیمانہ حکم کے خوبصورت چہرہ کو آشکار کردیں_ تا کہ دو گروہوں کے لیئےاستہ بند ہوجائے_ ایک ہوس پرست گروہ اور دوسرا تنقید کرنے والا کینہ توزٹولہ_

نکاح متعہ، قرآن و سنّت اور اجماع کی روشنی میں :

قرآن مجید میں نکاح موقّت کو '' متعہ'' کے عنوان کے ساتھ سورہ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں بیان کیا گیا ہے_ ارشاد باری تعالی ہے '' فَمَا استَمتَعتُم بہ منہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجورَہُنَّ فَریضَةً'' پس جن خواتین کے ساتھ تم متعہ کرو انکا حق مہر انہیں ادا کرو''

اور اہم نکتہ یہ ہے کہ رسولخدا(ص) سے نقل شدہ بہت سی احادیث میں '' متعہ'' کا لفظ، نکاح موقت کے لیئےستعمال کیا گیا ہے ( جیسا کہ آئندہ ابحاث میں یہ روایات قارئین کی نظروں سے گزریں گی) اس کے علاوہ فقہاء اسلام کی کتابوں میں چاہے وہ شیعہ ہوں یا سُنّی ہر جگہ نکاح

۱۰۴

موقت کو '' متعہ'' کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے_ پس اس بات کا انکار مسلّمات کا انکار شمار ہوگا ( فقہاء کے بعض کلمات بھی آئندہ اوراق میں آپکی خدمت میں پیش کیے جائینگے)

اس کے باوجود بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ اس آیت میں '' استمتاع'' کا لفظ '' لذت اٹھانے'' اور ہمبستری کرنے'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے_ اور کہتے ہیں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس وقت تم بیویوں سے جنسی استفادہ کرو تو انکا حق مہر ادا کیا کرو_اس بات میں دو واضح اعتراض ہیں:

اولاً: حق مہر کی ادائیگی کا وجوب، عقد اور نکاح پر موقوف ہے_ یعنی نکاح ہونے کے فوراً بعد عورت اپنے پورے حق مہر کی ادائیگی کا مطالبہ کرسکتی ہے چاہے ہمبستری نہ ہی کی ہو حتی خوش فعلی بھی واقع نہ ہوئی ہو ( ہاں اگر ہمبستری سے پہلے طلاق واقع ہوجائے توطلاق کے بعد حق مہر آدھا ہوجاتا ہے) (غور فرمایئے

ثانیا: جیسا کہ کہا ہے کہ متعہ کی اصطلاح شریعت کی عرف میں ، شیعہ اور سنّی فقہاء کے کلمات اور احادیث کی زبان میں '' نکاح موقّت'' کے معنی میں استعمال ہوتی ہے_ اس بات کی ادلّہ مفصل طور پر آپ کے سامنے پیش کی جائیں گی_

مشہور مفسّر مرحوم طبرسی، تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں وضاحت فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بارے میں دو نظریے ہیں، ۱_ ایک اُن لوگوں کا نظریہ ہے جو استمتاع کو '' لذت اٹھانے'' کے معنی میں تفسیر کرتے ہیں_ اس کے بعد انہوں نے بعض اصحاب یا تابعین وغیرہ کو اس نظریہ کے قائلین کے طور پر پیش کیا ہے ۲_ دوسرا اُن لوگوں کا نظریہ ہے جو قائل ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ اور نکاح موقت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اسے انہوں نے ابن عباس و سدی و ابن مسعود اور تابعین کے ایک گروہ کا نظریہ قرار دیا ہے_

۱۰۵

اس کےبعد وہتفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دوسرا نظریہ واضح ہے کیونکہ متعہ اور استمتاع کا لفظ شریعت کی عرف میں نکاح موقّت کے لیے استعمال ہوتا ہے_ ۱ ور اس کے علاوہ دوسری دلیل یہ ہے کہ حق مہر کا وجوب لذت اٹھانے کے ساتھ مشروط نہیں ہے_(۱)

قرطبی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:کہ جمہور کے عقیدہ کے مطابق اس آیت سے مراد وہی نکاح موقت ہے جو صدر اسلام میں رائج تھا_(۲)

اس کے علاوہ سیوطی نے تفسیر در المنثور میں اور ابوحیان، ابن کثیر اور ثعالبی نے اپنی تفاسیر میں اس معنی کی طرف اشارہ کیا ہے_

یہ مسئلہ تمام علمائے اسلام ( شیعہ ، سنّی) کے نزدیک مسلّم ہے کہ نکاح موقّت ( متعہ) پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں موجود تھا_ لیکن فقہائے اہلسنت کی ایک بڑی جماعت قائل ہے کہ یہ حکم بعد میں منسوخ ہوگیا تھا_ البتہ کس زمانے میں منسوخ ہوا؟ اس بارے میں انکا شدید اختلاف ہے_ اور یہ بات توجہ طلب ہے_

من جملہ مشہور عالم '' جناب نووی'' صحیح مسلم کی شرح میں یوں اقوال نقل کرتے ہیں:

۱_ بعض کہتے ہیں کہ ( متعہ کو) غزوہ خیبر میں پہلے حلال کیا گیا پھر حرام کردیا گیا_

۲_ صرف عمرة القضاء میں حلال تھا_

۳_ فتح مکہ کے دن پہلے حلال اور پھر حرام کردیا گیا_

۴_ غزوہ تبوک ( سنہ ۹ ہجری ق) میں حرام کیا گیا_

۵_ صرف جنگ اوطاس ( سنہ ۸ ہجری ق) میں حلال کیا گیا_

____________________

۱) تفسیر مجمع البیان، جلد ۳ ،ص ۶۰_

۲) تفسیر قرطبی ، جلد ۵ ،ص ۱۲۰ وفتح الغدیر ، جلد ۱ ص ۴۴۹_

۱۰۶

۶_ حجة الوداع ( سنہ ۱۰ ہجری ق) میں حلال کیا گیا_(۱)

دلچسپیہ ہے کہ اس بارے میں متضاد روایات نقل کی گئی ہیں بالخصوص جنگ خیبر میں اس کی تحریم اور حجة الوداع میں اس کی تحریم والی روایات مشہور ہیں_ بعض اہلسنت فقہاء نے ان دو احادیث کو جمع کرنے کے لیئےہت کوشش کی ہے لیکن کوئی مناسب راہ حل پیش نہیں کرسکے ہیں_(۲)

اور اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جناب شافعی کا یہ جملہ ہے: وہ فرماتے ہیں''لا اَعلَمُ شَیئاً اَحَلَ الله ثم حرَّمّہ ثم اَحَلَّہ ، ثم حرَّمَہ الا المُتعة'' مجھے متعہ کے علاوہ کس اور چیز کا علم نہیں ہے کہ اسے پہلے اللہ تعالی نے حلال کیا ہو پھر حرام کردیا ہو پھر دوبارہ حلال کیا ہو اور اس کے بعد پھر حرام کردیا ہو''(۳)

دوسری طرف سے ابن حجر، سھیلی سے نقل کرتے ہیں کہ غزوہ خیبرکے دن متعہ کی تحریم ایسی چیز ہے جسے راویوں اور ارباب تاریخ میں سے کسی نے نقل نہیں کیا_(۴)

۷: ایک اور قول یہ ہے کہ متعہ رسولخدا(ص) کے زمانے میں حلال تھا، بعد میں حضرت عمر نے اس سے منع کیا ہے_ جیسا کہ اہلسنت کی معتبرترین کتاب صحیح مسلم میں یوں آیا ہے '' ابن ابی نضرة'' کہتے ہیں میں جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کی خدمت میں تھا، وہ کہنے لگے کہ ابن زبیر اور ابن عباس کے درمیان عورتوں کے ساتھ متعہ اور متعہ حج ( حج تمتع یعنی عمرہ اور حج کے

____________________

۱) شرح صحیح مسلم جلد ۹ ص ۱۹۱_

۲) ایضاً_

۳) المغنی ابن قدامہ، جلد ۷ ص ۵۷۲_

۴) فتح الباری، جلد ۹ ص ۱۳۸_

۱۰۷

درمیان فاصلہ ہو) کے مسئلہ میں اختلاف تھا (میں نے کہا آپ کی کیا نظر ہے؟) کہنے لگے: ہم نے ہر دو مسئلوں پر رسولخدا(ص) کے زمانے میں عمل کیا ہے یہانتک کہ حضرت عمر نے ہر دو سے منع کردیا اس کے بعد ہم نے پرہیز کیا''(۱)

اس صریح نص کے بعد اور وہ بھی صحیح مسلم جیسی کتاب میں ، کیا اب بھی کہا جاسکتا ہے کہ متعہ رسولخدا(ص) کے دور میں حرام ہوگیا تھا_

کس نے متعہ کو حرام کیا؟

جس بات کو ہم نے اوپر جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے وہ اس مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے جسے اہلسنت کے بہت سے محدّثین ، مفسّرین اور فقہاء نے اپنی کتابوں میں خلیفہ دوم سے نقل کیا ہے_ حدیث کا متن یوں ہے:

'' متعتان کانتا مشروعتین فی عَهد رسول الله و أنا اَنهی عَنهما: متعة الحج و متعه النسائ''

دو قسم کے متعے ،رسولخدا(ص) کے زمانے میں جائز اور حلال تھے میں اُن دونوں سے منع کرتا ہوں ایک حج متعہ اور دوسرا متعة النساء ( نکاح موقت )

بعض کتابوں میں یہ حدیث اس جملہ کے اضافہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے'' و اُعاقبُ علیهما'' اور میں ان دونوں پر سزا دوں گا_

متعہ حج سے یہ مُراد ہے کہ حاجی پہلے عمرہ بجالائے اور احرام کھول دے اس کے بعد حج کے دنوں میں دوبارہ حج کا احرام باندھ لے_

____________________

۱) صحیح مسلم جلد ۴، ص ۵۹ حدیث ۳۳۰۷ ، دارالفکر بیروت_

۱۰۸

یہ حدیث اُن مشہور احادیث میں سے ہے جو تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ حضرت عمر سے نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے منبر سے یہ بات لوگوں کے سامنے بیان کی _ ہم ذیل میں اہلسنت کی حدیث ، فقہ اور تفسیر کی کتب میں سے اس حدیث کے سات حوالے ذکر کرتے ہیں_

۱ _ مسند احمد، جلد ۳ صفحہ ۳۲۵_

۲ _ سنن بیہقی، جلد ۷ صفحہ ۲۰۶_

۳ _ المبسوط سرخسی ، جلد ۴ صفحہ۲۷_

۴ _ المغنی ابن قدامہ، جلد ۷، صفحہ ۵۷۱_

۵_محلی ابن حزم ، جلد ۷، صفحہ ۱۰۷_

۶_کنز العمّال، جلد ۱۶ صفحہ ۵۲۱_

۷_تفسیر کبیر فخر رازی جلد ۱۰ صفحہ ۵۲_

یہ حدیث متعدّد مسائل سے پردہ اٹھاتی ہے_

الف) خلیفہ اول کے دور میں متعہ کا حلال ہونا:

متعہ ( نکاح موقت) رسول اکرم(ص) کی طول حیات میں بلکہ خلیفہ اول کے دور حکومت میں بھی حلال تھا اور خلیفہ دوم نے بعد میں اس سے منع کیا_

ب) اجتہاد در مقابل نصّ:

خلیفہ اپنی اتنی اتھارٹی سمجھتے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی صریح نص کے مقابلے میں نیا قانون اور اسلامی حکم جعل کریں حالانکہ قرآن مجید واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ:

۱۰۹

( '' و ما آتاکم الرّسول فَخُذُوهُ و ما نَهاكُم عنه فانتَهُوا'' ) (۱)

پیغمبر (ص) جو کچھ آپ کو دیں اسے لے لیں اور جس چیز سے منع کریں اس سے پرہیز کریں''

کیا پیغمبراکرم(ص) کے علاوہ کسی اور کو احکام الہی میں تصرّف کرنے کا حق حاصل ہے؟

کیا کوئی بھی شخص یوں کہہ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ایسا کیا لیکن میں یوں کرتا ہوں؟

کیا پیغمبر اکرم(ص) کی صریح نص کے مقابلے میں کہ جو وحی سے اخذ شدہ ہے اجتہاد کرنا جائز ہے؟

حقیقت تو یہ ہے کہ رسولخدا(ص) کے احکام کو اتنی لاپرواہی کے ساتھ ردّ کرنا واقعاً تعجب آور ہے اور اس سے بڑھ کر اگر نصّ کے مقابل میں اجتہاد کا دروازہ کھول دیا جائے تو کیا ضمانت ہے کہ دوسرے لوگ ایسا کام نہیں کریں گے؟ کیا اجتہاد صرف ایک آدمی کے ساتھ مخصوص تھا اور دوسرے لوگ مجتہد نہیں ہوسکتے ہیں؟

یہ بہت حسّاس مسئلہ ہے کیونکہ نص کے مقابلے میں اجتہاد کا دروازہ کھل جانے کے بعد احکام الہی میں سے کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا; اور اسلام کے جاودانہ احکام میں عجیب ہرج پیدا ہوجائیگا اور اس طرح تمام اسلامی احکام خطرے میں پڑ جائیں گے_

حضرت عمر کی مخالفت کا سبب:

کیوں حضرت عمر،ان دو احکام الہی کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے؟ حج تمتّع کے

____________________

۱) سورہ حشر آیہ ۷_

۱۱۰

بارے میں انکا خیال یہ تھا جو مسلمان حج کے لیے آتے ہیں انہیں حج اور عمرہ ختم کرنے کے بعد احرام کھولنے چاہئیں اور بعد میں مثلاً اپنی بیویوں کے ساتھ آمیزش کرنی چاہیئےاور یہ کہ عمرہ تمتع انجام دینے کے بعد حاجی چند دن کے لیئے احرام کھول دے اور آزاد ہوجائے یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے اور روح حج کے ساتھ سازگار نہیں ہے

یہ خیال درست نہیں ہے، کیونکہ حج اور عمرہ دو علیحدہ عمل ہیں اور ممکن ہے ان دو اعمال کے درمیان ایک ماہ سے زیادہ فاصلہ ہو_ مسلمان ماہ شوال یا ذی قعدہ میں مکہ مشرّف ہوتے ہیں اور عمرہ بجالاتے ہیں اس کے بعد آٹھ ذی الحجّہ تک آزاد ہوتے ہیں پھر حج کے موسم میں دوبارہ احرام باندھتے ہیں اور عرفات چلے جاتے ہیں اس بات پر کیا اشکال ہے جسکی وجہ سے حضرت عمر نے اَپنے سخت ردّ عمل کامظاہرہ فرمایا اور بہرحال متعہ اور نکاح موقّت کے بارے میں ( بعض لوگوں کے عقیدہ کے مطابق ) انکا خیال یہ تھا کہ اگر متعہ جائز ہو تو پھر نکاح اور زنا کے درمیان شناخت مشکل ہوجائیگی_ کیونکہ اس صورت میں اگر کسی مرد اور عورت کو اکٹھا دیکھا جائے تو وہ کہہ دیں گے کہ ہم نے آپس میں متعہ کیا ہوا ہے اس طرح زنا کی شرح بڑھ جائیگی

یہ خیال تو اس پہلے خیال سے زیادہ بوگس ہے، چونکہ اتفاقاً مسئلہ الٹ ہے کیونکہ عقد متعہ سے منع کرنا، زنا اور بے عفتی کے بڑھاؤ کا موجب ہے_ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیاہے کہ بہت سے ایسے جوان جو دائمی ازدواج کی قدرت نہیں رکھتے ہیں یا ایسے لوگ جو اپنی بیویوں سے دور ہیں اور زنا یا نکاح موقت کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے واضح سی بات ہے کہ انہیں صحیح راستے اور عقد موقت سے روکنا گناہوں اور بے عفتی کی وادی میں دھکیلنا ہے_

یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی _ کی مشہور حدیث میں یوں نقل ہوا ہے کہ اگر

۱۱۱

جناب عمر متعہ سے منع نہ کرتے تو سوائے شقی اور بدبخت کے کوئی بھی انسان دنیا میں زنا سے آلودہ نہ ہوتا''لو لا ا نّ عمر نهی النّاس عن المتعة ما زنی الَّاشقی'' (۱)

متعہ کی تحریم کے بعد لوگوں کا ردّ عمل:

مذکورہ بالا روایت سے کہ جسے اہلسنت کے بہت سے محدّثین،مفسّرین اور فقہاء نے نقل کیا ہے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ متعہ کی تحریم حضرت عمر کے زمانے میں تھی نہ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات جو انہی کتب میں نقل ہوئی ہیں اس بات کی تائید کرتی ہیں_ نمونہ کے طور پر چند ایک روایات ذکر کرتے ہیں:

۱_ مشہور محدّث جناب ترمذی نقل کرتے ہیں کہ اہل شام کے ایک آدمی نے جناب عبداللہ بن عمر سے متعہ نساء کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا _حلال ہے_ سائل نے کہا آپ کے والد حضرت عمر نے اس سے منع کیا ہے_ جناب عبداللہ بن عمر نے کہا :

'' ا را یت إن کان ا بی قد نهی عنها و قد سَنَّها رسولُ الله ، ا نترک السنّة و نَتبعُ قولَ ا بی؟'' (۲)

____________________

۱)تفسیر کبیر فخر رازی جلد ۱۰، ص ۵۰_

۲) یہ حدیث آجکل کی شائع شدہ صحیح ترمذی میں اس طرح نہیں ہے بلکہ اس میں متعة النساء کی جگہ متعة الحج آیا ہے _ لیکن جناب زین الدین المعروف شہید ثانی نے کہ جو دسویں صدی کے علماء میں سے تھے کتاب شرح لمعہ میں اور مشیر ابن طاؤوس نے کہ جو ساتویں صدی کے علماء میں سے تھے کتاب الطرائف میں اسی حدیث کو متعہ النساء کے ساتھ نقل کیا ہے ایسا لگتاہے کہ صحیح ترمذی کے قدیمی نسخوں میں یہ حدیث اسی طرح تھی لیکن بعد میں اس میں تبدیلی کردی گئی ہے ( اس قسم کی مثالیں بہت زیادہ ہے)_

۱۱۲

اگر میرے والد ایک چیز سے منع کریں لیکن رسولخدا(ص) نے اسے سنت قرار دیا ہو تو کیا ہم آنحضرت(ص) کی سنت کو ترک کرکے اپنے باپ کی بات پر عمل کریں گے؟

ایک اور حدیث ( صحیح مسلم) میں جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم رسولخدا(ص) کے زمانے میں تھوڑی سی کجھوروں یا آٹے کے حق مہر پر چند دن کے لیئے متعہ کر لیا کرتے تھے اور یہ سنت حضرت ابوبکر کے زمانے میں بھی جاری تھی یہاں تک کہ حضرت عمر نے '' عمروبن حریث'' والے واقعہ کی وجہ سے اس کام سے منع کردیا_(۱)

۳_ اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں یوں آیا ہے کہ ابن عباس اور ابن زُبیر کا متعة النساء اور متعة الحج کے بارے میں اختلاف ہوگیا ( اور انہوں نے جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کو ثالث بنایا) تو جابر نے کہا ہم نے ان دونوں پر رسولخدا(ص) کے زمانے میں عمل کیا ہے، اس کے بعد حضرت عمر نے منع کیا اور ہم نے پرہیز کیا(۲)

۴_ ابن عباس کہ جنہیں ''حبر الامّة'' ( امت کے عالم) کا لقب دیا گیا ہے ، رسولخدا(ص) کے زمانے میں حکم متعہ کے منسوخ نہ ہونے کے قائل تھے اس بات کی دلیل انکے اور جناب عبداللہ بن زُبیر کے درمیان ہونے والی بحث ہے جسے صحیح مسلم میں نقل کیا گیا ہے: عبداللہ بن زبیر نے مکہ میں رہائشے رکھی ہوئی تھی ایک دن ( کچھ لوگوں کے سامنے جن میں جناب ابن عباس بھی تھے) کہنے لگے بعض ایسے لوگ کہ خداوند نے انکے دل کی آنکھوں کو اُنکی ظاہری آنکھوں کی طرح اندھا کردیا ہے،وہ فتوی دیتے ہیں کہ متعہ جائز ہے_ انکا مقصد ابن عباس کو سنانا تھاجو کہ اس زمانے میں نابینا ہوچکے تھے_ ابن عباس نے جب یہ بات سُنی تو کہنے لگے

____________________

۱)صحیح مسلم ، جلد ۲،ص ۱۳۱_

۲) صحیح مسلم ، جلد ۲،ص ۱۳۱_

۱۱۳

کہ تو ایک بے وقوف اور نادان آدمی ہے، مجھے اپنی جان کی قسم ہم نے رسولخدا(ص) کے زمانے میں اس سنت پر عمل کیا ہے_ ابن زبیر نے ( رسولخدا(ص) کے نام سے لاپرواہی کرتے ہوئے) کہا: تو آزما کر دیکھ لے، خدا کی قسم اگر تو نے اس پر عمل کیا تو تجھے سنگسار کردوں گا_(۱)

یعنی منطقی بات کا جواب زور اور دھمکی کے ساتھ دیا

احتمالاً یہ بات اس زمانے کی ہے جب عبداللہ بن زبیرنے مکہ میں حکومت حاصل کرلی تھی اسی لیے تو اس نے ابن عباس جیسے دانشمند اور عالم کے مقابلے میں ایسی بات کرنے کی جسارت کی_ حالانکہ ابن عباس، سن کے اعتبار سے اس کے باپ کے برابر تھے اور علم کے اعتبار سے تو یہ انکے ساتھ قابل قیاس ہی نہیںتھا_ بالفرض اگر علم میں انکے برابر بھی ہوتا تو اس قسم کی دھمکی کا حق اسے نہیں پہنچتا تھا_ کیونکہ اس قسم کے احکام میں اگر کوئی اپنے فتوی پر عمل کرے اور بالفرض اس کا فتوی غلط بھی ہو تب بھی '' وطی بالشبہہ'' شمار ہوگی اور معلوم ہے کہ وطی بالشبہہ میں حد جاری نہیں ہوتی ہے لہذا سنگسار کرنے کی دھمکی دینا ایک بے معنی اور جاہلانہ سی بات ہے_

البتہ اس قسم کی بے ہودہ دھمکی عبداللہ بن زبیر جیسے ایک نادان اور گستاخ جوان کی طرف سے بعید نہیں ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ راغب نے کتاب محاضرات میں نقل کیا ہے کہ عبداللہ ابن زبیر نے سرزنش کے لہجہ میں ابن عباس کو کہا کہ تو کیوں '' متعہ'' کو حلال سمجھتا ہے_ ابن عباس نے کہا جا کر اپنی ماں سے پوچھ لے وہ اپنی ماں کے پاس آیا_ ماں نے اس سے کہا '' ما ولدتک الّا فی المتعہ'' تو اس زمانے میں پیدا ہوا تھا جب میں تیرے باپ کے متعہ میں

____________________

۱) صحیح مسلم، جلد۴، ص ۵۹، حدیث ۳۳۰۷_ چاپ دار الفکر_

۱۱۴

تھی''(۱)

۵_ مسند احمد میں '' ابن حصین'' سے نقل کیاگیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعہ کی آیت نازل ہوئی اور اس پر ہم نے عمل کیا اور اس کو نسخ کرنے والی آیت نازل نہیں ہوئی یہاںتک کہ رسولخدا(ص) کی رحلت ہوگئی_(۲)

یہ ان روایات کے بعض نمونے ہیں جو صراحت کے ساتھ حکم متعہ کے منسوخ نہ ہونے کو بیان کرتے ہیں_

ان روایات کے مقابلے میں کچھ روایات نقل کی گئی ہیں جو کہتی ہیں کہ یہ حکم رسولخدا(ص) کے زمانے میں منسوخ ہوچکا تھا_ اے کاش یہ روایات آپس میں متفق ہوتیں اور ایک ہی زمانے کی نشاندہی کرتیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہر روایت نے دوسری روایت سے جداگانہ زمانے کو بیان کیاہے_

۱_ ان روایات میں سے بعض میں ذکر ہوا ہے کہ متعہ کی تحریم کا حکم جنگ خیبر والے دن ۷ ہجری میں ) صادر ہوا_(۳)

۲_ بعض دوسری روایات میں آیا ہے کہ رسولخدا(ص) نے عام الفتح ( فتح مکہ والے سال ۸ ہجری) میں مکہ کے اندر متعہ کی اجازت فرمائی اور کچھ عرصہ کے بعد اسی سال منع فرمادیا_(۴)

۳_بعض دیگر روایات میں آیا ہے کہ غزؤہ اوطاس میں (فتح مکہ کے بعد )ہوازن کی

____________________

۱) محاضرات، جلد ۲، ص ۲۱۴ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۲۰ ،ص ۱۳۰_

۲) مسند احمد، جلد۴ ،ص ۴۳۶_

۳) درّ المنثور جلد ۲،ص ۴۸۶_

۴) صحیح مسلم ، جلد۴ ، ص ۱۳۳_

۱۱۵

سرزمین پر (مکہّ کے نزدیک) تین دن کے لیے اجازت فرمائی اس کے بعد منع فرمادیا(۱) اگر کوئی مختلف اقوال کی تحقیق انجام دے تو معلوم ہو گا کہ اس مسئلہ میں اختلاف اس سے کہیںزیادہ ہے کیونکہ اہلسنت کے مشہور فقیہ (جناب نووی )نے صحیح مسلم کی شرح میں اس مسئلہ کے بارے میں چھ قول نقل کیے ہیں اورہر قول کسی نہ کسی روایت کے ساتھ سازگار ہے :

۱_متعہ جنگ خیبر میں حلال کیا گیا اور پھر (اس کے چند دن بعد )تحریم ہوگیا

۲_عمرة القضاء میں حلال ہوا (پھر حرام ہوگیا )

۳_فتح مکہ کے دن حلال ہوا اس کے بعد حرام ہو گیا

۴_رسولخدا -(ص) نے اسے غزوہ تبوک کے دن حرام کیا

۵_جنگ ہوازن میں (سرزمین اوطاس پر )حلال کیا گیا

۶_حجة الوداع میں پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کے آخری سال میں اسے حلال قرار دیا گیا ہے(۲)

ان سب اقوال سے تعجب آور امام شافعی کا کلام ہے وہ کہتے ہیں''مجھے متعہ کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں ملی جسے اللہ تعالی نے پہلے حلال کیا ہو پھر حرام کردیا ہو اس کے بعد دوبارہ حلال کیا ہو اور پھر حرام کردیا ہو ''(۳)

ہر محققّ ان متضاد روایات کا مشاہدہ کرکے اس بات کا اطمینان حاصل کرلیتا ہے کہ یہ روایات جعلی اورایک سیاسی منصوبہ بندی کے تحت جعل کی گئی ہیں _

بہترین راہ حل

حقیقت یہ ہے کہ ان مختلف اور متضاد اقوال کو دیکھ کو ہر انسان اس مسئلہ میں تحقیق و جستجو کی

____________________

۱)مصدر سابق، ص ۱۳۱_

۲) شرح صحیح مسلم از نووی ، جلد ۹، ص ۱۹۱_

۳)المغنی ابن قدامہ، جلد ۷ ، ص ۵۷۲_

۱۱۶

طرف مائل ہو تا اور سوچتا ہے کہ ایسا کونسا واقعہ رونما ہو اہے کہ مسئلہ میں اسقدر متضاد و متناقض روایات بیان کی گئی ہیں اور ہر محدث یا فقیہ نے کیوں اپنا جدا گانہ راستہ اختیار کیا ہے؟

ان متضاد روایات کے در میان کس طرح جمع کیا جا سکتاہے ؟

کیا یہ سَب اختلاف اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس مقام پر کو ئی نازک سیاسی مسئلہ درپیش تھا جس نے حدیث گھڑ نے والوں کو اس بات پر ابھاراکہ روایات جعل کریں اور اصحاب رسول (ص) کے نام سے سوء استفادہ کرتے ہوئے ان روایات کوانکی طرف نسبت دیں کہ انہوں نے آنحضر ت (ص) سے اس طرح نقل کیا ہے_ اور وہ سیاسی مسئلہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ خلیفہ دوم نے کہا تھا ''دوچیزیں رسولخدا (ص) کے زمانے میں حلال تھیں اور میں انہیں حرام کر رہا ہوں ان میں سے ایک ''متعة النساء ہے '' _اس بات کا ایک عجیب منفی اثر تھا کیونکہ اگر امّت کے افراد یا خلفاء ،اسلام کے احکام کو اس صراحت کے ساتھ تبدیل کردیں تو پھر یہ کام صرف خلیفہ ثانی کے ساتھ مخصوص نہ رہتا بلکہ دوسروںکو بھی یہ حق مل جاتا کہ رسولخدا(ص) کی نصّ کے مقابلے میں اجتہاد کریں _اور اس صورت میں احکام اسلام یعنی واجبات اور محرّمات کے در میان ہر ج و مرج پیدا ہوجاتا اور زمانہ گزر نے کے ساتھ ساتھ اسلام کے دامن میں کچھ باقی نہ رہتا _

اس منفی اثر کوختم کرنے کے لیے ایک گروہ نے یہ کام شروع کیا کہ کہنے لگے: ان دو احکام کی حرمت خود رسولخد(ص) اکے زمانے میں واقع ہوئی تھی _ ہر ایک نے نئی حدیث گھڑلی اور اسے

اصحاب رسول(ص) کی طرف نسبت دے دی _کیونکہ کوئی بھی حدیث واقعيّت نہیں رکھتی تھی اس لیے ایک دوسرے سے متضاد بن گئیں

ورنہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی احاد یث ایک دوسرے کے مخالف ہوں حتی کہ بعض فقہاء کو انکے در میان جمع کرنے کے لیے کہنا پڑا کہ متعہ ایک زمانے میں مباح تھا پھر حرام ہو گیا پھر مباح

۱۱۷

ہوگیا پھر حرام ہوگیاکیااحکام الہی کھیل ہیں کہ جو ہر روز تبدیل ہوتے رہیں_

ان سب باتوں سے قطع نظررسولخدا(ص) کے زمانے میں متعہ کا مباح ہونا حتماً ایک ضرورت کی وجہ سے تھا اور وہ ضرورت دو سرے زمانوں میں بھی موجود ہے _ با لخصوص ہمارے زمانے میں مغربی ممالک کی طرف طولانی سفر کرنے والے بعض جوانوں کے لیے یہ ضرورت شدّت کے ساتھ موجودہے پس متعہ کیوں حرام ہو ؟

اس زمانے میں اسلامی معاشر ے میں جذبات بھڑ کانے کے عوامل اتنے زیادہ نہیں تھے _بے پردہ عورتیں 'فلمیں ،ٹیلی وین ،انٹرنیٹ،ڈش، فسا د والی محفلیں اور فاسدلٹریچر و غیرہ جو سب کچھ آج کے زمانے میں بہت سے جوانوں کے دامن گیر ہو تے ہیں اُس زمانے میں نہیں تھے_ اُس زمانے میں متعہ کو ایک احتیاج اور ضرورت کے عنوان سے جائزقرار دیا گیا اور اس کے بعد ہمیشہ کے لیے اس سے منع کردیا گیا ہے ؟ کیا یہ بات قابل قبول ہے ؟

ان سب ادلہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے فرض کرلیتے ہیں کہ بہت سے فقہائے اسلام اس کو حرام شمار کرتے ہیں اور فقہاء کا ایک گروہ اس کوجائز سمجھتاہے_ اور یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے_ پس اس صورت میں یہ سزاوار نہیں ہے کہ حلال کے طرفدار لوگ اسے حرام سمجھنے والوں پراحکام دین کی پابندی نہ کرنے کی تہمت لگائیں_ اسی طرح اسکی حرمت کے قائل افراد کیلئے یہ سزاوار نہیں کہ اسے مباح سمجھنے والوں پر معاذ اللہ زنا کے طرفدار ہونے کی تہمت لگائیں _ اگر ایسا کریں تو قیامت والے دن اللہ تعالی کے حضور کیا جواب دیں گے؟ پس پتہ چلتا ہے کہزیادہ سے زیادہ یہ ایک اجتہادی اختلاف ہے_

جناب فخر رازی اس قسم کے مسائل میں ایک خاص تعصّب رکھنے کے باوجود اپنی تفسیر میں

۱۱۸

فرماتے ہیں کہ ''ذهب السواد الاعظم من الاُمة الی انّها صارت منسوخة و قال السواد منهم ا نّها بقیت کما کانت'' امت کی اکثریت قائل ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے لیکن ایک گروہ قائل ہے کہ یہ حکم اسی طرح باقی ہے''(۱) یعنی یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے_

ہم اس جگہ نکاح موقّت کی بحث کو تمام کرتے ہیں _ اور سب لوگوں سے امید کرتے ہیں کہ تہمتیں لگانے اور بغیر علم کے قضاوت کرنے کی بجائے ایک بار پھر اس مسئلہ پر تحقیق اور اس کے بعد قضاوت کریں_ یقیناً انہیں اطمینان ہوجائیگا کہ متعہ آج بھی ایک حکم الہی ہے اور شرائط کی پابندی کرتے ہوئے یہ آج بھی بہت سی مشکلات کو حل کرتا ہے_

____________________

۱) تفسیر کبیر فخر رازی ، جلد ۱۰، ص ۴۹_

۱۱۹

۶

زمین پر سجدہ

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232