شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں25%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81040 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

بعض علماء نے تو اس مسئلہ میں شیعوں کی کتب کی ایک سطر کا بھی مطالعہ نہ کیا ہو اور اسی بات پر ہمیں افسوس ہے_

اس لیے ہم اس مختصر سی کتاب میں نکاح موقت کی شرائط اور اس کا نکاح دائم کے ساتھ فرق واضح الفاظ میں بیان کریں گے تا کہ سب پر حجت تمام ہوجائے_

نکاح موقت اکثر شرائط و احکام میں نکاح دائم ہی کی طرح ہے_

۱_ مرد و عورت دونوں مکمل رضایت اور اختیار کے ساتھ بغیر کسی جبر کے ایک دوسرے کو میاں بیوی بننے اور شادی کے لیئے قبول کریں_

۲_ عقد کا صیغہ لفظ''نکاح'' '' ازدواج'' یا '' متعہ'' کے ذریعے جاری کیا جائے اس کے علاوہ دوسرے الفاظ کافی نہیں ہیں_

۳_ اگر لڑکی باکرہ ہو تو ولی کی اجازت ضروری ہے اگر باکرہ نہ ہو تو اجازت شرط نہیں ہے_

۴_ عقد کی مدّت اور حق مہر دقیق اور واضح طور پر معین کیا جائے_ اگر مدت کو نکاح کے درمیان بیان کرنا بھول جائے تو بہت سے فقہاء کے فتوی کے مطابق یہ عقد، نکاح دائم میں تبدیل ہوجائیگا ( اور یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ ہر دو نکاح کی حقیقت ایک ہی ہے صرف مدت کے ذکر کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے فرق ہے) ( توجہ فرمایئے

۵_ مدت کا اختتام، طلاق کی مثل ہے بلافاصلہ عورت کو عدّت گزارنا ہوگی ( البتہ اگر آمیزش واقع ہوئی ہے)

۶: عقد دائم کی عدت تین مرتبہ ماہواری کا دیکھنا ہے یعنی تیسری مرتبہ ماہواری دیکھنے کے بعد عدت تمام ہوجائیگی_ لیکن عقد موقّت کی عدت دو مرتبہ ماہواری کا دیکھنا ہے_

۱۰۱

۷: عقد متعہ سے پیدا ہونے والے بچے شرعی حوالے سے اولاد شمار ہوتے ہیں_ انکے لیئےمام وہی احکام ہیں جو عقد دائم سے پیدا ہونے والے بچوں کے احکام ہیں_ اور اسی طرح یہ بچے ماں، باپ، بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں سے وراثت بھی پائیںگے_ ان بچوں اور دائمی شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کے حقوق میں کوئی فرق نہیں ہے_

یہ بچے بھی ماں،باپ کی کفالت میں رہیں گے ان کے تمام اخراجات اور نفقہ نکاح دائمی سے ہونے والے بچوں کی طرح لازمی ہے کہ ادا کئے جائیں_

بعض لوگ یہ شرائط سُن کر شاید حیران ہوں _ انکا حق بنتا ہے کیونکہ متعہ کے بارے غلط اور عوامانہ ذہنیت بنائی گئی ہے _شاید لوگ اسے مخفی ، ناجائزاور غیر قانونی شادی تصوّر کرتے ہیں ، یعنی ایک لفظ میں کہا جائے تو اسے جو زنا کے مشابہ خیال کرتے ہیں_ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے_

ہاں ان دو نکاحوں کے درمیان میاں بیوی کے حقوق کے لحاظ سے کچھ فرق ہے_ اس نکاح میں عقد دائم کی نسبت آپس کے تعہد اور ذمہ داریاں بہت کم ہیں_ کیونکہ اس نکاح کا مقصد ہی سہولت اور قوانین کا بہت سخت نہ ہونا ہے_ من جملہ :

۱_ بیوی عقد متعہ میں نفقہ اور وراثت کی حقدار نہیں بنتی_ البتہ بعض فقہاء قائل ہیں کہ یہ اُس صورت میں ہے جب نکاح میں نفقہ اور وراثت کی شرط نہ لگائی جائے یعنی اگر نکاح میں یہ شرط رکھ دی ہے تو پھر اس شرط کے مطابق عمل کرنا ہوگا_

۲_ اس نکاح میں عورت آزاد ہے کہ گھر سے باہر جاکر کام ( ملازمت) کرسکتی ہے _اس کے لیے شوہر کی اجازت شرط نہیں ہے جب تک یہ کام شوہر کے حقوق کو تلف نہ کرتا ہو_ لیکن عقد دائم میں بیوی کیلئے شوہر کی رضایت کے بغیر باہر ملازمت کرنا جائز نہیںہے_

۳: اس نکاح میں مرد پر واجب نہیں ہے کہ رات کو اپنی بیوی کے پاس رہے_

۱۰۲

مذکورہ احکام میں غور و فکر کرنے سے بہت سے سوالات، غیر منصفانہ قضاوت، شبہات اور تہمتوں کا جواب روشن ہوجائیگا_اور اسلام کے اس حکیمانہ اور مقدس حکم کے بارے میں بنائی گئی غلط ذہنیت خودبخود ختم ہوجائیگی_ اور اس گفتگو سے یہ بات بھی بالکل واضح و روشن ہوجاتی ہے کہ اس نکاح موقّت کا زنا اور دیگر عفت کے منافی اعمال کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے_ جو لو گ ان دونوں کا آپس میں قیاس کرتے ہیں وہ یقیناً ناآگاہ ہیں اور انہیں نکاح متعہ کی حقیقت اور شرائط کے بارے میں بالکل معلومات نہیں ہیں_

سوء استفادہ:

ہمیشہ مثبت امور سے سوء استفادہ بد زبان لوگوں کی زبان کھولتا اور بہانہ گروں کو بہانہ فراہم کرتا ہے تا کہ اسے بہانہ بنا کر مثبت امور کے خلاف کام کریں اور اپنا زہر اگلیں_

نکاح متعہ بھی اس قسم کی بحثوں کا ایک روشن مصداق ہے_

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض ہوس پرستوں نے اس نکاح متعہ کو جو کہ حقیقت میں ضروریات کی گرہ کھولنے اور اجتماعی مشکلات کو حل کرنے کے لیئے تشریع کیا گیا تھا، بازیچہ بنادیا ہے اور بے اطلاع لوگوں کے سامنے اس کا چہرہ مسخ کرکے مخالفین کو بہانہ فراہم کیا ہے_ جس کی وجہ سے یہ حکیمانہ حکم تنقید کا نشانہ بن گیا ہے_

لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کونسا حکم ہے جس سے ایک دن ضرور سوء استفادہ نہ کیا گیا ہو اور وہ کونسا نفیس سرمایہ ہے جس سے نا اہل غلط طور پربہرہ مندنہ ہوئے ہوں؟

اگر لوگوں نے ایک دن جھوٹ اور دھوکے سے قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کیا تا کہ اپنی ظالم حکومت کا دفاع کرسکیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم قرآن مجید کو چھوڑ دیں؟

۱۰۳

یا اگر ایک دن منافقین نے مسجد ضرار بنادی جس کے ویران کرنے اور جلانے کا حکم خود پیغمبر اسلام(ص) نے صادر فرمایا تو کیا اس کامطلب یہ ہے کہ ہم مسجد سے کنارہ کشی اختیار کرلیں؟

بہرحال ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بعض نادان لوگوں نے اسلامی حکم سے سوء استفادہ کیا ہے لیکن چند بے نمازیوں کی وجہ سے مسجد کو تالا نہیں لگایا جاسکتا ہے_

اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہوس پرستوں کے لیئے راستہ بند کیا جائے اور اس نکاح متعہ کے لیئےحیح راہ حل نکالا جائے_

بالخصوص ہمارے زمانے میں یہ کام منظّم اور دقیق راہ حل کے بغیر ممکن نہیں ہے_ لہذا ضروری ہے کہ بعض شائستہ اور ماہر شخصیات اور اہل خبرہ لوگ اس مسئلہ کے لیئےیک کار آمد اور قابل اجراء قانون نامہ لکھ کرشیاطین کے ہاتھ قطع کردیں اور اس حکیمانہ حکم کے خوبصورت چہرہ کو آشکار کردیں_ تا کہ دو گروہوں کے لیئےاستہ بند ہوجائے_ ایک ہوس پرست گروہ اور دوسرا تنقید کرنے والا کینہ توزٹولہ_

نکاح متعہ، قرآن و سنّت اور اجماع کی روشنی میں :

قرآن مجید میں نکاح موقّت کو '' متعہ'' کے عنوان کے ساتھ سورہ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں بیان کیا گیا ہے_ ارشاد باری تعالی ہے '' فَمَا استَمتَعتُم بہ منہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجورَہُنَّ فَریضَةً'' پس جن خواتین کے ساتھ تم متعہ کرو انکا حق مہر انہیں ادا کرو''

اور اہم نکتہ یہ ہے کہ رسولخدا(ص) سے نقل شدہ بہت سی احادیث میں '' متعہ'' کا لفظ، نکاح موقت کے لیئےستعمال کیا گیا ہے ( جیسا کہ آئندہ ابحاث میں یہ روایات قارئین کی نظروں سے گزریں گی) اس کے علاوہ فقہاء اسلام کی کتابوں میں چاہے وہ شیعہ ہوں یا سُنّی ہر جگہ نکاح

۱۰۴

موقت کو '' متعہ'' کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے_ پس اس بات کا انکار مسلّمات کا انکار شمار ہوگا ( فقہاء کے بعض کلمات بھی آئندہ اوراق میں آپکی خدمت میں پیش کیے جائینگے)

اس کے باوجود بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ اس آیت میں '' استمتاع'' کا لفظ '' لذت اٹھانے'' اور ہمبستری کرنے'' کے معنی میں استعمال ہوا ہے_ اور کہتے ہیں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس وقت تم بیویوں سے جنسی استفادہ کرو تو انکا حق مہر ادا کیا کرو_اس بات میں دو واضح اعتراض ہیں:

اولاً: حق مہر کی ادائیگی کا وجوب، عقد اور نکاح پر موقوف ہے_ یعنی نکاح ہونے کے فوراً بعد عورت اپنے پورے حق مہر کی ادائیگی کا مطالبہ کرسکتی ہے چاہے ہمبستری نہ ہی کی ہو حتی خوش فعلی بھی واقع نہ ہوئی ہو ( ہاں اگر ہمبستری سے پہلے طلاق واقع ہوجائے توطلاق کے بعد حق مہر آدھا ہوجاتا ہے) (غور فرمایئے

ثانیا: جیسا کہ کہا ہے کہ متعہ کی اصطلاح شریعت کی عرف میں ، شیعہ اور سنّی فقہاء کے کلمات اور احادیث کی زبان میں '' نکاح موقّت'' کے معنی میں استعمال ہوتی ہے_ اس بات کی ادلّہ مفصل طور پر آپ کے سامنے پیش کی جائیں گی_

مشہور مفسّر مرحوم طبرسی، تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں وضاحت فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بارے میں دو نظریے ہیں، ۱_ ایک اُن لوگوں کا نظریہ ہے جو استمتاع کو '' لذت اٹھانے'' کے معنی میں تفسیر کرتے ہیں_ اس کے بعد انہوں نے بعض اصحاب یا تابعین وغیرہ کو اس نظریہ کے قائلین کے طور پر پیش کیا ہے ۲_ دوسرا اُن لوگوں کا نظریہ ہے جو قائل ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ اور نکاح موقت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اسے انہوں نے ابن عباس و سدی و ابن مسعود اور تابعین کے ایک گروہ کا نظریہ قرار دیا ہے_

۱۰۵

اس کےبعد وہتفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دوسرا نظریہ واضح ہے کیونکہ متعہ اور استمتاع کا لفظ شریعت کی عرف میں نکاح موقّت کے لیے استعمال ہوتا ہے_ ۱ ور اس کے علاوہ دوسری دلیل یہ ہے کہ حق مہر کا وجوب لذت اٹھانے کے ساتھ مشروط نہیں ہے_(۱)

قرطبی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:کہ جمہور کے عقیدہ کے مطابق اس آیت سے مراد وہی نکاح موقت ہے جو صدر اسلام میں رائج تھا_(۲)

اس کے علاوہ سیوطی نے تفسیر در المنثور میں اور ابوحیان، ابن کثیر اور ثعالبی نے اپنی تفاسیر میں اس معنی کی طرف اشارہ کیا ہے_

یہ مسئلہ تمام علمائے اسلام ( شیعہ ، سنّی) کے نزدیک مسلّم ہے کہ نکاح موقّت ( متعہ) پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں موجود تھا_ لیکن فقہائے اہلسنت کی ایک بڑی جماعت قائل ہے کہ یہ حکم بعد میں منسوخ ہوگیا تھا_ البتہ کس زمانے میں منسوخ ہوا؟ اس بارے میں انکا شدید اختلاف ہے_ اور یہ بات توجہ طلب ہے_

من جملہ مشہور عالم '' جناب نووی'' صحیح مسلم کی شرح میں یوں اقوال نقل کرتے ہیں:

۱_ بعض کہتے ہیں کہ ( متعہ کو) غزوہ خیبر میں پہلے حلال کیا گیا پھر حرام کردیا گیا_

۲_ صرف عمرة القضاء میں حلال تھا_

۳_ فتح مکہ کے دن پہلے حلال اور پھر حرام کردیا گیا_

۴_ غزوہ تبوک ( سنہ ۹ ہجری ق) میں حرام کیا گیا_

۵_ صرف جنگ اوطاس ( سنہ ۸ ہجری ق) میں حلال کیا گیا_

____________________

۱) تفسیر مجمع البیان، جلد ۳ ،ص ۶۰_

۲) تفسیر قرطبی ، جلد ۵ ،ص ۱۲۰ وفتح الغدیر ، جلد ۱ ص ۴۴۹_

۱۰۶

۶_ حجة الوداع ( سنہ ۱۰ ہجری ق) میں حلال کیا گیا_(۱)

دلچسپیہ ہے کہ اس بارے میں متضاد روایات نقل کی گئی ہیں بالخصوص جنگ خیبر میں اس کی تحریم اور حجة الوداع میں اس کی تحریم والی روایات مشہور ہیں_ بعض اہلسنت فقہاء نے ان دو احادیث کو جمع کرنے کے لیئےہت کوشش کی ہے لیکن کوئی مناسب راہ حل پیش نہیں کرسکے ہیں_(۲)

اور اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جناب شافعی کا یہ جملہ ہے: وہ فرماتے ہیں''لا اَعلَمُ شَیئاً اَحَلَ الله ثم حرَّمّہ ثم اَحَلَّہ ، ثم حرَّمَہ الا المُتعة'' مجھے متعہ کے علاوہ کس اور چیز کا علم نہیں ہے کہ اسے پہلے اللہ تعالی نے حلال کیا ہو پھر حرام کردیا ہو پھر دوبارہ حلال کیا ہو اور اس کے بعد پھر حرام کردیا ہو''(۳)

دوسری طرف سے ابن حجر، سھیلی سے نقل کرتے ہیں کہ غزوہ خیبرکے دن متعہ کی تحریم ایسی چیز ہے جسے راویوں اور ارباب تاریخ میں سے کسی نے نقل نہیں کیا_(۴)

۷: ایک اور قول یہ ہے کہ متعہ رسولخدا(ص) کے زمانے میں حلال تھا، بعد میں حضرت عمر نے اس سے منع کیا ہے_ جیسا کہ اہلسنت کی معتبرترین کتاب صحیح مسلم میں یوں آیا ہے '' ابن ابی نضرة'' کہتے ہیں میں جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کی خدمت میں تھا، وہ کہنے لگے کہ ابن زبیر اور ابن عباس کے درمیان عورتوں کے ساتھ متعہ اور متعہ حج ( حج تمتع یعنی عمرہ اور حج کے

____________________

۱) شرح صحیح مسلم جلد ۹ ص ۱۹۱_

۲) ایضاً_

۳) المغنی ابن قدامہ، جلد ۷ ص ۵۷۲_

۴) فتح الباری، جلد ۹ ص ۱۳۸_

۱۰۷

درمیان فاصلہ ہو) کے مسئلہ میں اختلاف تھا (میں نے کہا آپ کی کیا نظر ہے؟) کہنے لگے: ہم نے ہر دو مسئلوں پر رسولخدا(ص) کے زمانے میں عمل کیا ہے یہانتک کہ حضرت عمر نے ہر دو سے منع کردیا اس کے بعد ہم نے پرہیز کیا''(۱)

اس صریح نص کے بعد اور وہ بھی صحیح مسلم جیسی کتاب میں ، کیا اب بھی کہا جاسکتا ہے کہ متعہ رسولخدا(ص) کے دور میں حرام ہوگیا تھا_

کس نے متعہ کو حرام کیا؟

جس بات کو ہم نے اوپر جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے وہ اس مشہور حدیث کی طرف اشارہ ہے جسے اہلسنت کے بہت سے محدّثین ، مفسّرین اور فقہاء نے اپنی کتابوں میں خلیفہ دوم سے نقل کیا ہے_ حدیث کا متن یوں ہے:

'' متعتان کانتا مشروعتین فی عَهد رسول الله و أنا اَنهی عَنهما: متعة الحج و متعه النسائ''

دو قسم کے متعے ،رسولخدا(ص) کے زمانے میں جائز اور حلال تھے میں اُن دونوں سے منع کرتا ہوں ایک حج متعہ اور دوسرا متعة النساء ( نکاح موقت )

بعض کتابوں میں یہ حدیث اس جملہ کے اضافہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے'' و اُعاقبُ علیهما'' اور میں ان دونوں پر سزا دوں گا_

متعہ حج سے یہ مُراد ہے کہ حاجی پہلے عمرہ بجالائے اور احرام کھول دے اس کے بعد حج کے دنوں میں دوبارہ حج کا احرام باندھ لے_

____________________

۱) صحیح مسلم جلد ۴، ص ۵۹ حدیث ۳۳۰۷ ، دارالفکر بیروت_

۱۰۸

یہ حدیث اُن مشہور احادیث میں سے ہے جو تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ حضرت عمر سے نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے منبر سے یہ بات لوگوں کے سامنے بیان کی _ ہم ذیل میں اہلسنت کی حدیث ، فقہ اور تفسیر کی کتب میں سے اس حدیث کے سات حوالے ذکر کرتے ہیں_

۱ _ مسند احمد، جلد ۳ صفحہ ۳۲۵_

۲ _ سنن بیہقی، جلد ۷ صفحہ ۲۰۶_

۳ _ المبسوط سرخسی ، جلد ۴ صفحہ۲۷_

۴ _ المغنی ابن قدامہ، جلد ۷، صفحہ ۵۷۱_

۵_محلی ابن حزم ، جلد ۷، صفحہ ۱۰۷_

۶_کنز العمّال، جلد ۱۶ صفحہ ۵۲۱_

۷_تفسیر کبیر فخر رازی جلد ۱۰ صفحہ ۵۲_

یہ حدیث متعدّد مسائل سے پردہ اٹھاتی ہے_

الف) خلیفہ اول کے دور میں متعہ کا حلال ہونا:

متعہ ( نکاح موقت) رسول اکرم(ص) کی طول حیات میں بلکہ خلیفہ اول کے دور حکومت میں بھی حلال تھا اور خلیفہ دوم نے بعد میں اس سے منع کیا_

ب) اجتہاد در مقابل نصّ:

خلیفہ اپنی اتنی اتھارٹی سمجھتے تھے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی صریح نص کے مقابلے میں نیا قانون اور اسلامی حکم جعل کریں حالانکہ قرآن مجید واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے کہ:

۱۰۹

( '' و ما آتاکم الرّسول فَخُذُوهُ و ما نَهاكُم عنه فانتَهُوا'' ) (۱)

پیغمبر (ص) جو کچھ آپ کو دیں اسے لے لیں اور جس چیز سے منع کریں اس سے پرہیز کریں''

کیا پیغمبراکرم(ص) کے علاوہ کسی اور کو احکام الہی میں تصرّف کرنے کا حق حاصل ہے؟

کیا کوئی بھی شخص یوں کہہ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ایسا کیا لیکن میں یوں کرتا ہوں؟

کیا پیغمبر اکرم(ص) کی صریح نص کے مقابلے میں کہ جو وحی سے اخذ شدہ ہے اجتہاد کرنا جائز ہے؟

حقیقت تو یہ ہے کہ رسولخدا(ص) کے احکام کو اتنی لاپرواہی کے ساتھ ردّ کرنا واقعاً تعجب آور ہے اور اس سے بڑھ کر اگر نصّ کے مقابل میں اجتہاد کا دروازہ کھول دیا جائے تو کیا ضمانت ہے کہ دوسرے لوگ ایسا کام نہیں کریں گے؟ کیا اجتہاد صرف ایک آدمی کے ساتھ مخصوص تھا اور دوسرے لوگ مجتہد نہیں ہوسکتے ہیں؟

یہ بہت حسّاس مسئلہ ہے کیونکہ نص کے مقابلے میں اجتہاد کا دروازہ کھل جانے کے بعد احکام الہی میں سے کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا; اور اسلام کے جاودانہ احکام میں عجیب ہرج پیدا ہوجائیگا اور اس طرح تمام اسلامی احکام خطرے میں پڑ جائیں گے_

حضرت عمر کی مخالفت کا سبب:

کیوں حضرت عمر،ان دو احکام الہی کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے؟ حج تمتّع کے

____________________

۱) سورہ حشر آیہ ۷_

۱۱۰

بارے میں انکا خیال یہ تھا جو مسلمان حج کے لیے آتے ہیں انہیں حج اور عمرہ ختم کرنے کے بعد احرام کھولنے چاہئیں اور بعد میں مثلاً اپنی بیویوں کے ساتھ آمیزش کرنی چاہیئےاور یہ کہ عمرہ تمتع انجام دینے کے بعد حاجی چند دن کے لیئے احرام کھول دے اور آزاد ہوجائے یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے اور روح حج کے ساتھ سازگار نہیں ہے

یہ خیال درست نہیں ہے، کیونکہ حج اور عمرہ دو علیحدہ عمل ہیں اور ممکن ہے ان دو اعمال کے درمیان ایک ماہ سے زیادہ فاصلہ ہو_ مسلمان ماہ شوال یا ذی قعدہ میں مکہ مشرّف ہوتے ہیں اور عمرہ بجالاتے ہیں اس کے بعد آٹھ ذی الحجّہ تک آزاد ہوتے ہیں پھر حج کے موسم میں دوبارہ احرام باندھتے ہیں اور عرفات چلے جاتے ہیں اس بات پر کیا اشکال ہے جسکی وجہ سے حضرت عمر نے اَپنے سخت ردّ عمل کامظاہرہ فرمایا اور بہرحال متعہ اور نکاح موقّت کے بارے میں ( بعض لوگوں کے عقیدہ کے مطابق ) انکا خیال یہ تھا کہ اگر متعہ جائز ہو تو پھر نکاح اور زنا کے درمیان شناخت مشکل ہوجائیگی_ کیونکہ اس صورت میں اگر کسی مرد اور عورت کو اکٹھا دیکھا جائے تو وہ کہہ دیں گے کہ ہم نے آپس میں متعہ کیا ہوا ہے اس طرح زنا کی شرح بڑھ جائیگی

یہ خیال تو اس پہلے خیال سے زیادہ بوگس ہے، چونکہ اتفاقاً مسئلہ الٹ ہے کیونکہ عقد متعہ سے منع کرنا، زنا اور بے عفتی کے بڑھاؤ کا موجب ہے_ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیاہے کہ بہت سے ایسے جوان جو دائمی ازدواج کی قدرت نہیں رکھتے ہیں یا ایسے لوگ جو اپنی بیویوں سے دور ہیں اور زنا یا نکاح موقت کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے واضح سی بات ہے کہ انہیں صحیح راستے اور عقد موقت سے روکنا گناہوں اور بے عفتی کی وادی میں دھکیلنا ہے_

یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی _ کی مشہور حدیث میں یوں نقل ہوا ہے کہ اگر

۱۱۱

جناب عمر متعہ سے منع نہ کرتے تو سوائے شقی اور بدبخت کے کوئی بھی انسان دنیا میں زنا سے آلودہ نہ ہوتا''لو لا ا نّ عمر نهی النّاس عن المتعة ما زنی الَّاشقی'' (۱)

متعہ کی تحریم کے بعد لوگوں کا ردّ عمل:

مذکورہ بالا روایت سے کہ جسے اہلسنت کے بہت سے محدّثین،مفسّرین اور فقہاء نے نقل کیا ہے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ متعہ کی تحریم حضرت عمر کے زمانے میں تھی نہ پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات جو انہی کتب میں نقل ہوئی ہیں اس بات کی تائید کرتی ہیں_ نمونہ کے طور پر چند ایک روایات ذکر کرتے ہیں:

۱_ مشہور محدّث جناب ترمذی نقل کرتے ہیں کہ اہل شام کے ایک آدمی نے جناب عبداللہ بن عمر سے متعہ نساء کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا _حلال ہے_ سائل نے کہا آپ کے والد حضرت عمر نے اس سے منع کیا ہے_ جناب عبداللہ بن عمر نے کہا :

'' ا را یت إن کان ا بی قد نهی عنها و قد سَنَّها رسولُ الله ، ا نترک السنّة و نَتبعُ قولَ ا بی؟'' (۲)

____________________

۱)تفسیر کبیر فخر رازی جلد ۱۰، ص ۵۰_

۲) یہ حدیث آجکل کی شائع شدہ صحیح ترمذی میں اس طرح نہیں ہے بلکہ اس میں متعة النساء کی جگہ متعة الحج آیا ہے _ لیکن جناب زین الدین المعروف شہید ثانی نے کہ جو دسویں صدی کے علماء میں سے تھے کتاب شرح لمعہ میں اور مشیر ابن طاؤوس نے کہ جو ساتویں صدی کے علماء میں سے تھے کتاب الطرائف میں اسی حدیث کو متعہ النساء کے ساتھ نقل کیا ہے ایسا لگتاہے کہ صحیح ترمذی کے قدیمی نسخوں میں یہ حدیث اسی طرح تھی لیکن بعد میں اس میں تبدیلی کردی گئی ہے ( اس قسم کی مثالیں بہت زیادہ ہے)_

۱۱۲

اگر میرے والد ایک چیز سے منع کریں لیکن رسولخدا(ص) نے اسے سنت قرار دیا ہو تو کیا ہم آنحضرت(ص) کی سنت کو ترک کرکے اپنے باپ کی بات پر عمل کریں گے؟

ایک اور حدیث ( صحیح مسلم) میں جناب جابر ابن عبداللہ انصاری سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم رسولخدا(ص) کے زمانے میں تھوڑی سی کجھوروں یا آٹے کے حق مہر پر چند دن کے لیئے متعہ کر لیا کرتے تھے اور یہ سنت حضرت ابوبکر کے زمانے میں بھی جاری تھی یہاں تک کہ حضرت عمر نے '' عمروبن حریث'' والے واقعہ کی وجہ سے اس کام سے منع کردیا_(۱)

۳_ اسی کتاب میں ایک اور حدیث میں یوں آیا ہے کہ ابن عباس اور ابن زُبیر کا متعة النساء اور متعة الحج کے بارے میں اختلاف ہوگیا ( اور انہوں نے جناب جابر ابن عبداللہ انصاری کو ثالث بنایا) تو جابر نے کہا ہم نے ان دونوں پر رسولخدا(ص) کے زمانے میں عمل کیا ہے، اس کے بعد حضرت عمر نے منع کیا اور ہم نے پرہیز کیا(۲)

۴_ ابن عباس کہ جنہیں ''حبر الامّة'' ( امت کے عالم) کا لقب دیا گیا ہے ، رسولخدا(ص) کے زمانے میں حکم متعہ کے منسوخ نہ ہونے کے قائل تھے اس بات کی دلیل انکے اور جناب عبداللہ بن زُبیر کے درمیان ہونے والی بحث ہے جسے صحیح مسلم میں نقل کیا گیا ہے: عبداللہ بن زبیر نے مکہ میں رہائشے رکھی ہوئی تھی ایک دن ( کچھ لوگوں کے سامنے جن میں جناب ابن عباس بھی تھے) کہنے لگے بعض ایسے لوگ کہ خداوند نے انکے دل کی آنکھوں کو اُنکی ظاہری آنکھوں کی طرح اندھا کردیا ہے،وہ فتوی دیتے ہیں کہ متعہ جائز ہے_ انکا مقصد ابن عباس کو سنانا تھاجو کہ اس زمانے میں نابینا ہوچکے تھے_ ابن عباس نے جب یہ بات سُنی تو کہنے لگے

____________________

۱)صحیح مسلم ، جلد ۲،ص ۱۳۱_

۲) صحیح مسلم ، جلد ۲،ص ۱۳۱_

۱۱۳

کہ تو ایک بے وقوف اور نادان آدمی ہے، مجھے اپنی جان کی قسم ہم نے رسولخدا(ص) کے زمانے میں اس سنت پر عمل کیا ہے_ ابن زبیر نے ( رسولخدا(ص) کے نام سے لاپرواہی کرتے ہوئے) کہا: تو آزما کر دیکھ لے، خدا کی قسم اگر تو نے اس پر عمل کیا تو تجھے سنگسار کردوں گا_(۱)

یعنی منطقی بات کا جواب زور اور دھمکی کے ساتھ دیا

احتمالاً یہ بات اس زمانے کی ہے جب عبداللہ بن زبیرنے مکہ میں حکومت حاصل کرلی تھی اسی لیے تو اس نے ابن عباس جیسے دانشمند اور عالم کے مقابلے میں ایسی بات کرنے کی جسارت کی_ حالانکہ ابن عباس، سن کے اعتبار سے اس کے باپ کے برابر تھے اور علم کے اعتبار سے تو یہ انکے ساتھ قابل قیاس ہی نہیںتھا_ بالفرض اگر علم میں انکے برابر بھی ہوتا تو اس قسم کی دھمکی کا حق اسے نہیں پہنچتا تھا_ کیونکہ اس قسم کے احکام میں اگر کوئی اپنے فتوی پر عمل کرے اور بالفرض اس کا فتوی غلط بھی ہو تب بھی '' وطی بالشبہہ'' شمار ہوگی اور معلوم ہے کہ وطی بالشبہہ میں حد جاری نہیں ہوتی ہے لہذا سنگسار کرنے کی دھمکی دینا ایک بے معنی اور جاہلانہ سی بات ہے_

البتہ اس قسم کی بے ہودہ دھمکی عبداللہ بن زبیر جیسے ایک نادان اور گستاخ جوان کی طرف سے بعید نہیں ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ راغب نے کتاب محاضرات میں نقل کیا ہے کہ عبداللہ ابن زبیر نے سرزنش کے لہجہ میں ابن عباس کو کہا کہ تو کیوں '' متعہ'' کو حلال سمجھتا ہے_ ابن عباس نے کہا جا کر اپنی ماں سے پوچھ لے وہ اپنی ماں کے پاس آیا_ ماں نے اس سے کہا '' ما ولدتک الّا فی المتعہ'' تو اس زمانے میں پیدا ہوا تھا جب میں تیرے باپ کے متعہ میں

____________________

۱) صحیح مسلم، جلد۴، ص ۵۹، حدیث ۳۳۰۷_ چاپ دار الفکر_

۱۱۴

تھی''(۱)

۵_ مسند احمد میں '' ابن حصین'' سے نقل کیاگیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں متعہ کی آیت نازل ہوئی اور اس پر ہم نے عمل کیا اور اس کو نسخ کرنے والی آیت نازل نہیں ہوئی یہاںتک کہ رسولخدا(ص) کی رحلت ہوگئی_(۲)

یہ ان روایات کے بعض نمونے ہیں جو صراحت کے ساتھ حکم متعہ کے منسوخ نہ ہونے کو بیان کرتے ہیں_

ان روایات کے مقابلے میں کچھ روایات نقل کی گئی ہیں جو کہتی ہیں کہ یہ حکم رسولخدا(ص) کے زمانے میں منسوخ ہوچکا تھا_ اے کاش یہ روایات آپس میں متفق ہوتیں اور ایک ہی زمانے کی نشاندہی کرتیں لیکن افسوس یہ ہے کہ ہر روایت نے دوسری روایت سے جداگانہ زمانے کو بیان کیاہے_

۱_ ان روایات میں سے بعض میں ذکر ہوا ہے کہ متعہ کی تحریم کا حکم جنگ خیبر والے دن ۷ ہجری میں ) صادر ہوا_(۳)

۲_ بعض دوسری روایات میں آیا ہے کہ رسولخدا(ص) نے عام الفتح ( فتح مکہ والے سال ۸ ہجری) میں مکہ کے اندر متعہ کی اجازت فرمائی اور کچھ عرصہ کے بعد اسی سال منع فرمادیا_(۴)

۳_بعض دیگر روایات میں آیا ہے کہ غزؤہ اوطاس میں (فتح مکہ کے بعد )ہوازن کی

____________________

۱) محاضرات، جلد ۲، ص ۲۱۴ و شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ۲۰ ،ص ۱۳۰_

۲) مسند احمد، جلد۴ ،ص ۴۳۶_

۳) درّ المنثور جلد ۲،ص ۴۸۶_

۴) صحیح مسلم ، جلد۴ ، ص ۱۳۳_

۱۱۵

سرزمین پر (مکہّ کے نزدیک) تین دن کے لیے اجازت فرمائی اس کے بعد منع فرمادیا(۱) اگر کوئی مختلف اقوال کی تحقیق انجام دے تو معلوم ہو گا کہ اس مسئلہ میں اختلاف اس سے کہیںزیادہ ہے کیونکہ اہلسنت کے مشہور فقیہ (جناب نووی )نے صحیح مسلم کی شرح میں اس مسئلہ کے بارے میں چھ قول نقل کیے ہیں اورہر قول کسی نہ کسی روایت کے ساتھ سازگار ہے :

۱_متعہ جنگ خیبر میں حلال کیا گیا اور پھر (اس کے چند دن بعد )تحریم ہوگیا

۲_عمرة القضاء میں حلال ہوا (پھر حرام ہوگیا )

۳_فتح مکہ کے دن حلال ہوا اس کے بعد حرام ہو گیا

۴_رسولخدا -(ص) نے اسے غزوہ تبوک کے دن حرام کیا

۵_جنگ ہوازن میں (سرزمین اوطاس پر )حلال کیا گیا

۶_حجة الوداع میں پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کے آخری سال میں اسے حلال قرار دیا گیا ہے(۲)

ان سب اقوال سے تعجب آور امام شافعی کا کلام ہے وہ کہتے ہیں''مجھے متعہ کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں ملی جسے اللہ تعالی نے پہلے حلال کیا ہو پھر حرام کردیا ہو اس کے بعد دوبارہ حلال کیا ہو اور پھر حرام کردیا ہو ''(۳)

ہر محققّ ان متضاد روایات کا مشاہدہ کرکے اس بات کا اطمینان حاصل کرلیتا ہے کہ یہ روایات جعلی اورایک سیاسی منصوبہ بندی کے تحت جعل کی گئی ہیں _

بہترین راہ حل

حقیقت یہ ہے کہ ان مختلف اور متضاد اقوال کو دیکھ کو ہر انسان اس مسئلہ میں تحقیق و جستجو کی

____________________

۱)مصدر سابق، ص ۱۳۱_

۲) شرح صحیح مسلم از نووی ، جلد ۹، ص ۱۹۱_

۳)المغنی ابن قدامہ، جلد ۷ ، ص ۵۷۲_

۱۱۶

طرف مائل ہو تا اور سوچتا ہے کہ ایسا کونسا واقعہ رونما ہو اہے کہ مسئلہ میں اسقدر متضاد و متناقض روایات بیان کی گئی ہیں اور ہر محدث یا فقیہ نے کیوں اپنا جدا گانہ راستہ اختیار کیا ہے؟

ان متضاد روایات کے در میان کس طرح جمع کیا جا سکتاہے ؟

کیا یہ سَب اختلاف اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس مقام پر کو ئی نازک سیاسی مسئلہ درپیش تھا جس نے حدیث گھڑ نے والوں کو اس بات پر ابھاراکہ روایات جعل کریں اور اصحاب رسول (ص) کے نام سے سوء استفادہ کرتے ہوئے ان روایات کوانکی طرف نسبت دیں کہ انہوں نے آنحضر ت (ص) سے اس طرح نقل کیا ہے_ اور وہ سیاسی مسئلہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ خلیفہ دوم نے کہا تھا ''دوچیزیں رسولخدا (ص) کے زمانے میں حلال تھیں اور میں انہیں حرام کر رہا ہوں ان میں سے ایک ''متعة النساء ہے '' _اس بات کا ایک عجیب منفی اثر تھا کیونکہ اگر امّت کے افراد یا خلفاء ،اسلام کے احکام کو اس صراحت کے ساتھ تبدیل کردیں تو پھر یہ کام صرف خلیفہ ثانی کے ساتھ مخصوص نہ رہتا بلکہ دوسروںکو بھی یہ حق مل جاتا کہ رسولخدا(ص) کی نصّ کے مقابلے میں اجتہاد کریں _اور اس صورت میں احکام اسلام یعنی واجبات اور محرّمات کے در میان ہر ج و مرج پیدا ہوجاتا اور زمانہ گزر نے کے ساتھ ساتھ اسلام کے دامن میں کچھ باقی نہ رہتا _

اس منفی اثر کوختم کرنے کے لیے ایک گروہ نے یہ کام شروع کیا کہ کہنے لگے: ان دو احکام کی حرمت خود رسولخد(ص) اکے زمانے میں واقع ہوئی تھی _ ہر ایک نے نئی حدیث گھڑلی اور اسے

اصحاب رسول(ص) کی طرف نسبت دے دی _کیونکہ کوئی بھی حدیث واقعيّت نہیں رکھتی تھی اس لیے ایک دوسرے سے متضاد بن گئیں

ورنہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی احاد یث ایک دوسرے کے مخالف ہوں حتی کہ بعض فقہاء کو انکے در میان جمع کرنے کے لیے کہنا پڑا کہ متعہ ایک زمانے میں مباح تھا پھر حرام ہو گیا پھر مباح

۱۱۷

ہوگیا پھر حرام ہوگیاکیااحکام الہی کھیل ہیں کہ جو ہر روز تبدیل ہوتے رہیں_

ان سب باتوں سے قطع نظررسولخدا(ص) کے زمانے میں متعہ کا مباح ہونا حتماً ایک ضرورت کی وجہ سے تھا اور وہ ضرورت دو سرے زمانوں میں بھی موجود ہے _ با لخصوص ہمارے زمانے میں مغربی ممالک کی طرف طولانی سفر کرنے والے بعض جوانوں کے لیے یہ ضرورت شدّت کے ساتھ موجودہے پس متعہ کیوں حرام ہو ؟

اس زمانے میں اسلامی معاشر ے میں جذبات بھڑ کانے کے عوامل اتنے زیادہ نہیں تھے _بے پردہ عورتیں 'فلمیں ،ٹیلی وین ،انٹرنیٹ،ڈش، فسا د والی محفلیں اور فاسدلٹریچر و غیرہ جو سب کچھ آج کے زمانے میں بہت سے جوانوں کے دامن گیر ہو تے ہیں اُس زمانے میں نہیں تھے_ اُس زمانے میں متعہ کو ایک احتیاج اور ضرورت کے عنوان سے جائزقرار دیا گیا اور اس کے بعد ہمیشہ کے لیے اس سے منع کردیا گیا ہے ؟ کیا یہ بات قابل قبول ہے ؟

ان سب ادلہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے فرض کرلیتے ہیں کہ بہت سے فقہائے اسلام اس کو حرام شمار کرتے ہیں اور فقہاء کا ایک گروہ اس کوجائز سمجھتاہے_ اور یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے_ پس اس صورت میں یہ سزاوار نہیں ہے کہ حلال کے طرفدار لوگ اسے حرام سمجھنے والوں پراحکام دین کی پابندی نہ کرنے کی تہمت لگائیں_ اسی طرح اسکی حرمت کے قائل افراد کیلئے یہ سزاوار نہیں کہ اسے مباح سمجھنے والوں پر معاذ اللہ زنا کے طرفدار ہونے کی تہمت لگائیں _ اگر ایسا کریں تو قیامت والے دن اللہ تعالی کے حضور کیا جواب دیں گے؟ پس پتہ چلتا ہے کہزیادہ سے زیادہ یہ ایک اجتہادی اختلاف ہے_

جناب فخر رازی اس قسم کے مسائل میں ایک خاص تعصّب رکھنے کے باوجود اپنی تفسیر میں

۱۱۸

فرماتے ہیں کہ ''ذهب السواد الاعظم من الاُمة الی انّها صارت منسوخة و قال السواد منهم ا نّها بقیت کما کانت'' امت کی اکثریت قائل ہے کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے لیکن ایک گروہ قائل ہے کہ یہ حکم اسی طرح باقی ہے''(۱) یعنی یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے_

ہم اس جگہ نکاح موقّت کی بحث کو تمام کرتے ہیں _ اور سب لوگوں سے امید کرتے ہیں کہ تہمتیں لگانے اور بغیر علم کے قضاوت کرنے کی بجائے ایک بار پھر اس مسئلہ پر تحقیق اور اس کے بعد قضاوت کریں_ یقیناً انہیں اطمینان ہوجائیگا کہ متعہ آج بھی ایک حکم الہی ہے اور شرائط کی پابندی کرتے ہوئے یہ آج بھی بہت سی مشکلات کو حل کرتا ہے_

____________________

۱) تفسیر کبیر فخر رازی ، جلد ۱۰، ص ۴۹_

۱۱۹

۶

زمین پر سجدہ

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

ایک انسان کی شخصیت کا جاذب ہونابھی اس معنی میں ہے کہ ظاہری اور جسمانی خصوصیات کے علاوہ اس کے اندر اخلاقی اور روحانی صفات بھی موجو د ہوں جو کہ اس کی طرف دوسرے لوگوں کی رغبت اور کشش کا سبب بنیں ؛ جولوگ با ادب چال ڈھال رکھتے ہیں اورلوگوں سے خوش اخلاقی سے ، ہنستے ہوئے چہرے اور خلوص و محبت کے ساتھ ملتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں بس جاتے ہیں اور سبھی لوگ ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ملنا جلنا اور ان سے قریب رہنا چاہتے ہیں ؛ لیکن جو لوگ بے ادب ،برے اخلاق کے مالک اور خود خواہ ہوتے ہیں ایسے افراد گویا اپنے کو لوگوں سے دور رکھتے ہیں اور اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ لوگ ان سے دور رہیں ؛لیکن جس وقت جاذبہ اور دافعہ کی بات کسی انسان سے متعلق ہو تو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ اس وقت یہ مسئلہ کلچر اورماحول کے تابع ہوتا ہے یعنی ممکن ہے کہ بعض خصوصیات کو کسی ایک سماج یا معاشرہ میں اچھی نظر سے دیکھاجاتاہولیکن وہی خصوصیات دوسرے معاشرہ میں کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں بلکہ انھیں بری نظر سے دیکھاجاتاہے اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان خصوصیات کا مالک ہوگا وہ پہلے معاشرہ کے نزدیک ایک جاذب وپر کشش شخصیت شمار کیا جائے گا نیزلوگوں کی نظروں میں پسندیدہ ہوگا اور لوگ اس کا احترام کریں گے لیکن وہی شخص دوسرے کلچر اور سماج میں معمولی انسان بلکہ قابل نفرت ہوگا ؛بہر حال میرے عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انسان کی شخصیت میں جو جاذبہ یا دافعہ ہوتاہے وہ سماج کے ماحول اورتہذیب و ثقافت کے اعتبار سے فرق رکھتا ہے ۔بہر حالیہ مسئلہ ایک جدا گانہ اور مستقل بحث ہے جس کو اس وقت ہم بیان نہیں کریں گے ۔

۱۴۱

یہاں تک ہم نے جو توضیحات پیش کیںان سے جاذبہ اور دافعہ کا مفہوم کسی حد تک روشن ہوگیا ؛لیکن ہماری بحث کا موضوعاسلام میں جاذبہ اور دافعہ ہے'' لہذٰا ہماری مراداسلامسے جو کچھ بھی ہے اس کو واضح ہونا چاہئے، ہماری نظر میں عقائد اور قواعد و احکام کے مجموعہ کا نام اسلام ہے اس میں اعتقادی اور اخلاقی مسائل بھی اور فردی قوانین اور اجتماعی قوا نین بھی شامل ہیں ؛ جس وقت ہم کہتے ہیں کہ اسلام ایسا ہے اور اسلام ویسا ہے توہماری مراد اسلام سے یہی اعتقادات اور اس کے قواعد و احکام ہیں ؛ اس بحث میں جب ہم یہ کہتے ہیںاسلام میں جاذبہ اور دافعہ'' تو اس وقت ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلام کے اعتقادی اور اخلاقی قواعد و اصول میں نیز اس کے تمام احکام قوانین میں پائے جاتے ہیں ۔ عقائد کے حصہ میں اسلام کا جاذبہ رکھنا اس معنی میں ہے کہ اسلامی عقائد انسان کی حقیقت پسند فطرت کے موافق ہیں یعنی وہ عقائد جو کہ حقائق ہستی کی بنیاد پر استوار ہیں چونکہ انسان کی فطرت حقیقت کو چاہتی ہے اور یہ عقائد انسانی فطرت کے مطابق ہیں لہذا یہ انسان کے لئے جاذبہ ہو سکتے ہیں ۔ بہر حال وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلامی عقائد سے مربوط ہیں فی الحال ہماری بحث میں شامل نہیں ہیں یہاں پراس جاذبہ اور دافعہ کی بحث زیادہ اہم ہے جو کہ اسلامی احکام اور اخلاق سے مربوط ہیں خاص کر وہ جاذبہ اور دافعہ جو اسلام کے دستوری اور تکلیفی احکام سے مربوط ہیں ،اور ہم زیادہ تر اس بات کو دیکھیں گے کہ کیا تمام قواعد و احکام اسلامی انسان کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟

۱۴۲

کیا اسلام کے بارے میں دافعہ کا تصوّرممکن ہے ؟

ممکن ہے یہ سوال ذہن میں آئے کہ اگر تمام اسلامی معارف و احکام؛ انسانی فطرت اور طبیعت کے مطابق بنائے گئے ہیں لہذ اٰ طبعی طور پر اس کے لئے جاذبہ ہونا چاہئے پس اس کے لئے دافعہ فرض کرنا کیسے ممکن ہے ؟ !

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان فطری طور پر حقیقت کا متلاشی اور بلندیوں کا خواہاں نیز اچھی چیزوں کا طالب ہے ؛لیکن اس کے علاوہ بہت سے شہوانی اور فطری امور بھی انسان میں پائے جاتے ہیں کہ بہت سے مقامات پر ان مختلف فطری اور شہوانی امور کے درمیان تزاحم اور اختلاف پیدا ہوتا ہے یاایک دوسرے کو دور کر دیتا ہے۔یااس بحث کے خلط اور اشتباہ سے بچنے کے لئے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ انسان کی مادی اور حیوانی خواہشات کو جذبہ شہوت وخواہش کا نام اور اس کی دوسری تما م خواہشوں کو فطرت کا نام دیا گیا ہے ،بہت سے مقامات پرفطرت اور خواہشوں کے درمیان نا ہماہنگی پائی جاتی ہے، شہوت اور خواہش صرف اپنی تکمیل چاہتی ہے انصاف و عدالت کو نہیں دیکھتی ہے، بھوکا پیٹ آدمی صرف روٹی کھانا چاہتا ہے حلال و حرام ، اچھا ،برا ،اپنا مال ہے یا غیر کا ،اس سے اس کو مطلب نہیں ہے چاہے اس کو حلال و جائز روٹی دیں یا حرام و نا جائز اس کو پیٹ بھر نے سے مطلب ہے، انسان کی آرام پسند طبیعت پیسیے اور اپنی آرام دہ زندگی کی تکمیل کے پیچھے لگی رہتی ہے یہ پیسہ چاہے حلال طریقے سے حاصل ہو یا حرام ذریعہ سے اس کے لئے سب برابر ہے۔

۱۴۳

لیکن انسان کی فطرت انصاف کی طالب اور امانت و عدالت کے موافق ہے نیز حق کو غصب کرنے اور ظلم و خیانت سے بیزار ہے ،اس عدالت طلب اور ظلم سے گریزاں فطرت کے بر خلاف کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صرف خیانت اور ظلم و ستم کا سہارا لینا پڑتا ہے؛ یہی وہ مقام ہے جہاں پر انسان اگر حقیقی کمال کو چاہتا ہے تو اس کو مجبوراً ان خواہشات اور لذتوں سے اپنے کو بچانا ہوگا ؛بعض چیزوں کو نہ کھائے ،نہ پئے،نہ اوڑھے پہنے،نہ دیکھے اورنہ سنے ؛خلاصہ یہ کہ اپنے کو محدود و مقید رکھے ۔ اسلام بھی انسان کو حقیقی کمالات تک پہونچانا چاہتا ہے؛ لہذا ان جگہوں پر فطری پہلو کو اختیار کرتا ہے اور خواہشات نفسانی اور مادی ضروریات کو محدود کرتا ہے؛ ان مقامات پر جو لوگ اپنی خواہشات نفسانی پر کنٹرول نہیں رکھتے ہیں ؛یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ حیوانیت ان پر غالب رہتی ہے تو طبعی اور فطری بات ہے کہ بعض اسلامی احکام ان کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے ہیں بلکہ دافعہ رکھتے ہیں ،اسلام نے ایک مکمل دستور دیا ہے جو کہ فطرت اور خواہش دونوں کے مطابق ہے اور اس مفہوم کی آیات اور روایات بہت کثرت سے پائی جاتی ہیں ، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :

( کلوا من الطیبات ما رزقناکم'' ) ( ۱ ) یعنی جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو رزق میں دی ہیں ان میں سے کھائو پیونیزیہ بھہ ارشاد فرماتا ہے:( کلوا و اشربوا ) ( ۲ ) کھائو اور پیو ایسے احکام اور دستور انسان کے لئے مشکل نہیں رکھتے ہیں لیکن جس وقت اسلام کہتا ہے کہ شراب نہ پیوسور کا گوشت نہ کھائو وغیرہ تویہ دستور ہر ایک کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ احکام اچھے نہیں لگتے۔

____________________

(۱) سورہ اعراف : آیہ ۱۶۰ ۔

(۲) سورہ اعراف :آیہ ۳۱۔

۱۴۴

اسلامی احکام میں دافعہ کا ایک تاریخی نمونہ

یہاں پر مناسب ہوگا کہ تاریخ اسلام کے ایک واقعہ کی جانب اشارہ کرتا چلوں؛ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اکرم حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں نجران کے عیسائی رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس توحیدی عقائد سے متعلق بحث و مناظرہ کے لئے آئے؛ لیکن علمی بحث میں ان لوگوں کوشکست ہوئی، اس کے بعدبھی ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی ؛ان لوگوں نے اس مباہلہ کو قبول کیا ؛جس وقت پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے محبوب اور سب سے خاص لوگوں یعنی امام علی ، حضرت فاطمہ اور امام حسن و امام حسین کو ساتھ لیکر مباہلہ کے لئے گئے اور نصاریٰ کے علماء کی نگاہ ان پانچ نورانی چہروں پر پڑی ؛تو ان لوگوں نے کہا کہ جو کوئی بھی ان حضرات سے مباہلہ کرے گا اس کے حصّہ میں دنیا و آخرت کی رسوائی اور ذلت ہوگی؛ لہذٰا وہ لوگ پیچھے ہٹ گئے اور مباہلہ نہیں کیا ؛ان عیسائیوں نے علمی گفتگو میں بھی شکست کھائی اور مباہلہ بھی نہیں کیا لیکن پھربھی مسلمان ہونے کو تیار نہیں ہوئے اور کہا کہ ہم جزیہ (ٹیکس ) دیں گے لیکن عیسائی رہیں گے ۔

جب اصحاب نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے پوچھا کہ آخر وہ لوگ اسلام قبول کرنے پر تیار کیوں نہیں ہوئے؟ تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :کہ جو عادت اور چاہت ان کو سور کے گوشت کھانے اور شراب پینے کی تھی ،ان چیزوں نے اس سے ان کو مانع رکھا،چونکہ اسلام نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے لہذٰا ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا

۱۴۵

یہ ایک تاریخی نمونہ ہے کہ اسلام کی حقانیت ایک گروہ اور جماعت کے لئے ثابت اور واضح تھی لیکن بعض اسلامی احکام ان کے لئےدافعہ''رکھتے تھے جو اس بات سے مانع ہوا کہ وہ لوگ اسلام کو قبول کریں ؛یعنی ان کی انسانی فطرت ، حیوانی خواہشات سے مقابلہ کیا ،اس تعارض و ٹکرائو میں انھوں نے نفسانی خواہشات کو مقدم کیا ۔یہ مسئلہ صرف نجران کے عیسائیوں سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ان تمام لوگوں سے متعلق ہے جنھوں نے الٰہی اور خدائی تربیت سے اپنے کو مزین اور آراستہ نہیں کیا ہے ،یا جو لوگ جسمانی اور حیوانی خواہشوں سے مغلوب ہیں ۔ وہ احکام اور دستورات جو کہ انسان کے مادی خواہشات کو محدود کرتے ہیں وہ ہی لوگوں کے لئےدافعہ'' ہیں اور جیسا کہ اشارہ ہوا اسلام میں ایسے بہت سے قوانین پائے جاتے ہیں قانوں اسلامی جو یہ کہتا ہے کہ ۴۰ درجہ گرمی میں ۱۶ گھنٹے اپنے کو کھانے پینے سے روکے رکھو؛اور روزہ رکھو یہ انسانی خواہشات سے میل نہیں کھاتا، ان کے لئے یہ کام مشکل ہے خاص طور سے نان وائیوں کے لئے( جو کہ روٹیاں وغیرہ پکاتے ہیں ) اس لئے کہ وہ مجبوراًآگ کے قریب رہتے ہیں ، پھر بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ چلچلاتی دھوپ یا شعلہ ور آگ کے قریب رہ کر بھی ان احکام پر خوشی سے عمل کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ،لیکن ایسے تربیت شدہ بہت کم نظر آئیں گے۔یا مثلاًخمس ہی کا قانون ممکن ہے ہمارے اور آپ جیسے لوگوں کے لئے کہ شاید سال میں ہزارروپیہ سے زیادہ نہ ہو اس ہزارروپئے کے نکالنے میں کوئی مشکل اورپریشانی نہیں ہے ،ہو لیکن جن لوگوں کے ذمہ لاکھوں روپئے خمس نکالنا ہو ان کے لئے بہت ہی مشکل کام ہے، اسلام کے اوائل میں بہت سے لوگوں نے صرف اسی حکم زکواة کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ دیا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف ہو گئے؛ اور جس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ایلچی ان کے پاس زکواة لینے کے لئے جاتاتھا تو ان لوگوں نے کہا کہ رسول بھی ٹیکس لیتے ہیں ؛ ہم کسی کو بھی خراج اور ٹیکس نہیں دیں گے ؛یہ قانون ان کے لئے دافعہ تھا اور یہی سبب بنا کہ ان لوگوں نے اسلام سے دوری اختیار کر لی یہاں تک کہ اس کی وجہ سے وہ لوگ خلیفہ مسلمین سے جنگ کرنے کو تیار ہو گئے ۔

۱۴۶

یا مثلاً اسلام جنگ و جہاد کا حکم دیتا ہے یہ فطری بات ہے کہ جنگ میں حلوا، روٹی کھانے کو نہیں ملتی بلکہ مارے جانے ، قید ہونے ،اندھے ہونے،ہاتھ پیر کٹنے اور دوسرے بہت سارے خطروں کا امکان رہتا ہے، بہت سے لوگ ان خطروں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور حکم جنگ یا میدان جنگ میں جانے کے مخالف ہیں ؛اس کے بر خلاف بہت سے مجاہد (سپاہی ) ایسے بھی ہیں جو میدان جنگ میں جانے کے لئے ہر طرح سے آمادہ دکھائی دیتے ہیں اور بہت ہی شوق سے ان خطرات کو قبول کرتے ہیں ؛پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ حکم بہت سے لوگوں کے لئے جنھوں نے اپنے کو ایسا نہیں بنایا ہے کوئی جاذبہ نہیں رکھتا ہے؛ اور کسی بھی بہانے سے اپنی جان چراتے ہیں اور اس کام سے فرار اختیار کرتے ہیں ۔

لہذا اس سوال کا جواب کہ اسلام کے احکام و قوانین جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟ یہ ہے کہ عام لوگوںکے لئے بعض اسلامی دستورات جاذبہ رکھتے ہیں اور بعض احکام دافعہ رکھتے ہیں ۔

۱۴۷

عملی میدان میں جاذبہ اور دافعہ کے سلسلے میں اسلامی حکم

اب یہ سوال کہ مسلمانوں کا برتائو اور ان کا طور طریقہ آپس میں ایک دوسرے کے متعلق بلکہ غیر مسلمانوں کے ساتھ کیسا ہوناچاہئے؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد جاذبہ پر ہے او ر اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں اوراسلامی معاشرہ کو سعادت اور کمال تک پہونچائے لہذٰ ااسلامی معاشرہ کا برتائو ایسا ہونا چاہئے کہ دوسرے افراد جو لوگ اس ماحول اور سماج سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی جانب متوجہ ہوں اور اسلام ان کے لئے واضح ہوجائے اور وہ لوگ راہ راست پر آجائیں۔ اگر لوگ اسلامی ماحول اور اسلامی مرکزسے دور رہیں گے تو ان تک اسلام نہیں پہونچایا جا سکتا اور وہ لوگ ہدایت نہیں پا سکتے۔ لہذٰا اہم اور اصل یہ ہے کہ مسلمان ایسی زندگی بسر کریں کہ وہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے جاذبہ رکھتے ہوں اور روز بروز ان کے درمیان اپنائیت اور یکجہتی بڑھتی رہے اور غیرمسلم جو کہ اس ماحول سے الگ اور جدا ہوں ان کے متعلق بھی جاذبہ رکھنا چاہئے تا کہ ان کی بھی ہدایت ہو سکے اگر چہ اسلام کی اصل جاذبہ کی ایجادپر ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ہر حالت میں ایک ہی رفتار رکھیں ؛بلکہ بعض مواقع پر دافعہ کی چاشنی اور مٹھاس سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ اس بات کی وضاحت کے لئے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے اس جلسہ میں جو وقت باقی رہ گیا ہے اسی اعتبار سے کچھ باتوں کو پیش کررہا ہوں اور بقیہ باتوں کو بعد میں عرض کروں گا، ا ن شاء للہ ۔

۱۴۸

جاذبہ رکھنے والے اسلامی کرداروں کے بعض نمونے

مذہب اسلام میں عدل و انصاف،احسان ، لوگوں کے ساتھ بہتر سلوک اور لوگوں کو خوش رکھنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے ؛اسلام کی بڑی عبادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک انسان دوسرے کو خوش کرے اور اگر دوسرا غمگین و رنجیدہ ہو تو اس کے رنج وغم کوکسی نہ کسی طرح دور کرے ۔بعض روایتوں میں ایک مومن کو خوش رکھنے اور اس سے رنج و غم کو دور رکھنے کا ثواب سالوںکی عبادت سے بہتر ہے یہاں تک کہ اگر یہ کام صرف اتنا ہو کہ اس کے ساتھ محبت آمیز برتائو کرے یا ایسی بات کہے جس سے اس کو امید ہوجائے اور اس کو سکون دل پیدا ہو جائے مثلاً مومن کو دیکھ کر مسکرانا ،اس سے ہاتھ ملانا اور اس کو گلے لگانا ، بیماری کے وقت اس کی عیادت کرنا ، اس کے کاموں میں اس کی مدد کرنا جو کہ مسلمانوں کے درمیان ہماہنگی دوستی اور جاذبہ کا سبب ہیں ان سارے کاموں کا ثواب اسلامی ر و ا یات میں بہت کثرت کے ساتھذکر کیا گیا ہے؛ اسلام صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے علاوہ ان میں سے بہت سارے احکام اور دستورات کو غیر مسلموں سے متعلق بھی بتاتاہے اور اس کے متعلق بہت ہی تاکید کرتا ہے ؛اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم تمھارا پڑوسی ہے یا تم اس کے ساتھ سفر کر رہے ہو تووہ تم پرحق پیدا کر لیتا ہے کہ اگر بیچ راستے سے کسی مقام پر وہ تم سے الگ ہو رہا ہے

۱۴۹

تو جب وہ اپنے راستے پر جانے لگے تو خدا حافظی کے لئے چند قدم اس کے ساتھ جا ئو اور اس کے بعد رخصت کر کے اس سے جدا ہوئواور اپنا راستہ اپنائو،اسلام عدل و انصاف کی ہر ایک کے ساتھ تاکید کرتا ہے حتیّٰ کافروں کے ساتھ بھی ؛نیز کافر وں پر ظلم و ستم کو ناجائز سمجھتا ہے ،اگر کوئی کافر ہے تب بھی تم اس پر ظلم و ستم کا حق نہیں رکھتے ہیں :''( ولایجرمنکم شنٰان قوم علیٰ الاّ تعدلوااعدلواهواقرب للتقویٰ ) ( ۱ ) اور خبر دار کسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کو ترک کر دو انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے حتیّٰ کفّار کے متعلق صرف عدل و انصاف ہی کرنا کافی نہیں ہے بلکہ احسان (اچھا سلوک ) جس کا مرتبہ عدل سے بڑھ کر ہے اس کے متعلق بھی خدا کا حکم ہے کہ اس کوبھی کرنا چاہئے ، ارشاد ہوتا ہے( لا ینهاکم الله عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوهم و تقسطوا الیهم ) ( ۲ ) اللہ ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے تم کو نہیں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو، بعض موقعوں پر اس سے بڑھ کر حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مسلمان

____________________

(۱) سورہ مائدہ آیہ ۸.

(۲) سورہ ممتحنہ آیہ ۸.

۱۵۰

اسلامی حکومت میں جوٹیکس دیتے ہیں تو اس ٹیکس میں سے کچھ ان کفار کودو جو کہ اسلامی حکومت کی سرحداور اس کے پڑوس میں زندگی بسر کرتے ہوں تا کہ وہ لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہوں اور اسلام میں گھل مل جائیں(۱) بلکہ ان کو تھوڑا بہت صرف اس لئے دو تاکہ ان کا دل مسلمانوں کے حوالے سے نرم ہو اور وہ لوگ مسلمانوں پر مہر بان ہوں اور ان کے دلوں میں مسلمانوںاور اسلام کی محبت پیدا ہو؛ ایسا سلوک کرنے سے دھیرے دھیرے ایسا ماحول بن جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تم سے قریب ہوں اور وہ تم سے مانوس ہو جائیں؛ پھر وہ تمھاری زندگی کا قریب سے جائزہ لیںگے اور تمھاری باتوں کو سنیںگے؛ ممکن ہے کہ وہ متاثرہو کر مسلمان ہو جائیں ؛ایسی مثالیں تاریخ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ کفّار مسلمانوں سے رابطہ رکھنے ، اسلام کی منطقی باتیں سننے اور پیروان اسلام کی رفتارو گفتار اور ان کی سیرت و اخلاق کا مشاہدہ کرنے کی وجہ سے اسلام کو قبول کر لیابہر حال یہ چند نمونے تھے جنکو اسلام نے جاذبہ کے لئے اپنے دستورات اور احکام میں جگہ دی ہے ۔

____________________

(۱) مفہوم سورہ توبہ : آیہ ۶۰۔

۱۵۱

کیا اسلام کردار میں ہمیشہ جاذبہ کی تاکید کرتا ہے؟

جس بات کی جانب توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام جس جاذبہ کی سیاست کو اپنانے کا حکم دیتا ہے چاہے وہ مسلمانوں سے متعلق ہو یا کفار سے یہ حکم کلیت نہیں رکھتا ہے؛ بلکہ کبھی کبھی یہی دافعہ کا بھی حکم رکھتا ہے اور اس کو اپنانے کا حکم دیتا ہے؛ کبھی کبھی محبت و احسان، روحی رشد و تکامل اور ہدایت کا سبب نہیں بنتے اس کے بر خلاف اس کے مقابل میں ایک دیوار کھڑی کر دیتے کبھی کبھی حیوانی خواہشات اور مادی شہوات کے اثر سے اور دوسرے اجتماعی عوامل یا گھریلو تربیت اور اس جیسے اثرات کی وجہ سے انسان کے اندر ستم گری آوارگی اور درندگی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے؛ اور اس حال میں اگر اس کو نہ روکا جائے تو وہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ دھیرے دھیرے اور دن بہ دن برائیوں اور بد بختیوں کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی تکلیف و اذیت اور ان کے حقوق کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔

ایسی جگہوں پر خود اپنی اورمعاشرہ کی اصلاح کے لئے اس کو متنبہ کرنا چاہئے تا کہ وہ برائیوں سے باز آ کر اچھائی اور نیکی کے راستے پر وا پس آجائے یعنی اس تنبیہ کے اندر رحمت بھی ہے اور یہ تنبیہ خود اس کو زیادہ گمراہ ہونے سے بھی روکتی ہے او ردوسروں تک اس کی برائی پہونچنے سے ھی مانع ہوتی ہے۔ البتہ ظاہری تنبیہ چاہے مالی اعتبار سے جرمانہ کی شکل میں ہو، چاہے کوڑے کی سزا ہویا قتل یا قیدیا دوسری اور سزائیں ،بہر حال یہ سب انسان کے لئے تکلیف اور زحمت کا سبب ہوتا ہے اور فطری طور پر کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہوتا ہے بہر حال اسلام کہتا ہے کہ خاص حالات میں تمھاراسلوک خشونت اور سختی کے ساتھ ہونا چاہئے اور دافعہ رکھنا چاہئے ،کیونکہ ہر جگہ پر جاذبہ مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے ۔

۱۵۲

پچھلی بحث کا خلاصہ

یہاں تک کی گفتگو کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے ہم نے اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی تعریف بیان کی ؛جیسا کہ ہم نے کہا کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ ممکن ہے کسی چیز یا انسان یا پھر عقیدہ و فکر سے مربوط ہو، اسلام کے متعلق ہم نے بیان کیا کہ وہ عقیدے اور احکام اور اخلاق کے مجموعہ کا نام ہے جاذبہ اور دافعہ، اسلام میں ان تینوں میں کسی سے بھی مربوط ہو سکتا ہے اس کے بعد اسلام کے احکام وقوانین سے مربوط جاذبہ اور دافعہ کے متعلق بحث کی اس بحث کے ذیل میں ہم نے عرض کیا کہ اسلام میں کچھ احکام ہیں جو کہ لوگوں کو پسند ہیں اور اکثر لوگ اس کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور بہت سے ایسے احکام بھی ہیں جو لوگوں کو پسند نہیں ہیں اور اس کی جانب رجحان نہیں رکھتے ہیں اور وہ ان کے لئے دافعہ ہیں عطر لگانا ،مسواک کرنا،صاف ستھرے رہنا ،اچھا اخلاق ، سچّائی، امانت داری، انصاف اور احسان یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ اسلام ان کا حکم دیتا ہے اور یہ سب لوگوں کے لئے جاذبہ رکھتی ہیں ۔روزہ رکھنا ، جہاد کرنا ،میدان میں جانا ،مالیات جیسے خمس و زکواة کا ادا کرنا یہ سب ایسے احکام ہیں جو کہ اسلامی قوانین کے زمرہ میں آتے ہیں لیکن اکثر لوگوں کو یہ سب اچھا نہیں لگتا ہے، اور ان کے لئے دافعہ رکھتا ہے؛ اس کے بعد اصل موضوع کو پیش کیا کہ اسلام کا دستور مسلمانوں کے لئے دوسروں کے ساتھ برتائو کے سلسلے میں کیا ہے ؟

کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھیں اور مسکرا کر بولیں اور صرف جاذبہ سے استفادہ کریں یا بعض جگہوں پر خشونت وسختی اور دافعہ کا بھی حکم دیتا ہے ؟ جو وضاحت ہم نے پیش کی اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تعلیمات میں دونوں کا حکم ہے اگر چہ ایسے موارد بہت کم ہیں کہ جن میں دوسروں کے ساتھ مسلمانوں کا برتائوخشونت آمیز ہو۔لیکن پھر بھی ایسے مواقع پائے جاتے ہیں ان کے نمونے ان شاء للہ آ ئندہ جلسوں میں پیش کئے جائیں گے ۔

۱۵۳

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود (۲ )

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے بارے میں تین طرح کے سوالات

پچھلے جلسے کے مطالب کے ذیل میں اگر ہم جاذبہ اور دافعہ کے حدود کے بارے میں اسلام کے مطابق گفتگو کرنا چاہیں جو کہ تمام جہتوں کو شامل ہو تو اس بارے میں کم سے کم تین طرح سے گفتگو ہو سکتی ہے۔

گفتگو کا پہلا عنوان اور محور یہ ہے کہ ہم بحث اس طریقے سے کریں کہ اصولی طور پر اسلام کے تمام معارف چاہے وہ عقیدہ سے متعلق ہوں یا اخلاق و احکام سے خواہ وہ ایک انسان سے مربوط ہوں یا ُپورے معاشرے سے عبادتی ہوں یا حقوقی یا سیاسی ہے یا....،یہ مسائل اس بات کا سبب ہوتے ہیں کہ انسان بعض امور کو اپنے اندر جذب کرے اور بعض امور کو دفع کرے وہ امور مادی ہوں یا معنوی؛ اس صورت میں جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام جاذبہ رکھتا ہے ؛یعنی اس کے معارف اور احکام اس طرح ہیں کہ وہ انسان کو اس بات پر ابھارتے ہیں کہ وہ ان چیزوں کو اپنے اندر جذب کرے ،اور اسلام کے دافعہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان کو اس بات پر مجبور کرتے ہیں وہ ان چیزوں سے پرہیز کرے اور ان کو اپنے سے دور رکھے ؛یہ دافعہ اور جاذبہ کے پہلے معنی ہیں کہ جس کا اسلام میں تصّورہے؛او ر اسی کی بنیاد پر سوال پیش کیا جا سکتا ہے، اس کا مختصر جواب بھی یہ ہے کہ ہم چار فرض تصور کریں :

(۱) اسلام صرف جاذبہ رکھتا ہے

(۲)اسلام صرف دافعہ رکھتا ہے

(۳) اسلام نہ جاذبہ رکھتا ہے اور نہ ہی دافعہ

(۴) اسلام جاذبہ اور دافعہ دونوں رکھتا ہے ،کہ ان چاروں میں سیچوتھا فرض صحیح ہے۔

۱۵۴

دوسرا معنی جو اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے لئے لیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ ہم اس بات کے قائل ہوں کہ اسلام کے معارف اور احکام اس طرح ہیں کہ بعض افراد کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں اور بعض افراد کے لئے دافعہ رکھتے ہیں ،جاذبہ یعنی وہ لوگوںکو اپنی طرف کھیچنتے ہیں اور دافعہ یعنی وہ ان کے لئے اسلام سے دوری کا سبب بنتے ہیں یا تمام اسلامی معارف میں بعض عناصر ایسے ہوتے ہیں اور وہ ان کو اپنی طرف کھینچتے ہیں اور بعض عناصر ایسے بھی ہیں جن کو بعض افراد پسند نہیں کرتے ہیں اور ان کے لئے دفع اور دوری کا سبب بنتے ہیں تیسرے معنی یہ ہیں کہ ہم اس بات کو دیکھیں کہ اسلام غیر مسلموں کو اسلام کی طرف بلانے میں یا وہ لوگ جو کہ مسلمان ہیں انکی تربیت اور رشد و کمال کے لئے کس طریقے کو اپناتا ہے اور کون سے عمل انجام دینے کو کہتا ہے؟ کیا صرف جاذبہ کے طریقے کو اپناتا ہے یا دافعہ کے طریقے کو اختیار کرتا ہے یا دونوں طریقوںکو استعمال کرتا ہے ؟

انسان کاتکامل جاذبہ اور دافعہ کارہین منّت ہے

اس سے قبل کہ ہم ان تینوں معانی پر تفصیلی گفتگو اور بحث کریں اس سوال کو پیش کریں گے کہ انسانکے لئے ایک متحرک مخلوق کے عنوان سے جو کہ اپنے تکامل کے راستے میں ایک مقصد کو نظر میں رکھتا ہے اور اس تک پہونچنے کی کوشش کرتا ہے کیا اصلاً کوئی قوت جاذبہ ہے جو زیادہ سے زیادہ اور بہتر طریقے سے اس راستے میں اس کی مدد کرتی ہے یا کوئی قوت دافعہ ہے یا دونوں قوتیں پائی جاتی ہیں ؟

۱۵۵

اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں ہے تھوڑے سے غور و فکر اور دقت کر کے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر زندہ رہنے والی چیزیںجو کہ دنیا میں پائی جاتی ہیں ان کو دیکھا جائے؛ چاہے وہ حیوان ہوں یا انسان؛ پیڑ پود ے ہوں یا کچھ اور؛سب کے سب جاذبہ اور دافعہ دونوں کے محتاج ہیں ؛ہر زندہ رہنے والی چیز کے لئے سب سے اہم اور پہلی چیز جو اس کے لئے خصوصیت رکھتی ہے، وہ غذا ہے۔ تمام زندہ موجودات اپنے نشو نما نیز اپنی زندگی کو باقی رکھنے کے لئے کھانے اور غذا کی احتیاج رکھتے ہیں غذا اور کھانا بغیر جاذبہ کے نہیں ہو سکتا ؛یعنی غذا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے باہر سے کوئی چیز جسم کے اندر داخل ہوکر جذب ہو جائے اسی طرح ہر چیز کا جذب تمام زندہ موجودات کے لئے فائدہ مند نہیں ہے بلکہ بعض چیزوں کا جذب،زندہ شے کی نشوو نما اور اس کے تحرک میں خلل پیدا ہونے کا باعث ،اس کے متوقف ہونے،یہاں تک کی اس کی موت کا باعث ہوجاتا ہے لہذٰا ضروری ہے کہ ان چیزوں کی نسبت دافعہ بھی رکھتا ہو تاکہ ان کو اہنے بدن سے دور رکھے۔ لہذٰا تمام زندہ موجودات اپنے وجود کے باقی رکھنے کے لئے اور اپنے رشد وکمال کے لئے جاذبہ اور دافعہ دونوں کے محتاج ہیں ۔ اس جگہ پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ بعض چیزوں کو جذب کرے اور بعض چیزوں کو دفع کرے تو جو بات سب سے پہلے ذہن میں آتی ہے وہ مادی جذب و دفع ہوتی ہے یعنی ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ تمام جگہوں پر جو کچھ جذب یا دفع ہے ایک مادی اور محسوس ہونے والی چیز ہے ؛ لیکن ہم کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اسلامی معارف کے اعتبار سے انسان کی زندگی صرف اسی بیو لوجک اور مادی زندگی تک محدود نہیں ہے ؛بلکہ انسان ایک معنوی زندگی بھی رکھتا ہے جو کہ روح سے مربوط ہے یعنیایک وہ زندگی،نشو و نما اور تکامل ہے جو کہ انسان کے جسم سے مربوط ہے اورایک وہ زندگی،نشو و نما اور تکامل ہے جو انسان کی روح سے مربوط ہے۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:( یا ایهاالذین آمنوا استجیبوا لله وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم ) ( ۱ ) اے وہ لوگو !جو ایمان لائے ہو جب خدا و رسول تم

____________________

(۱) سورہ انفال آیہ ۲۴

۱۵۶

کو کسی چیز کی طرف بلائیں جو کہ تم کو زندگی بخشنے والی ہو تو تم اس پر لبےّک کہو ؛یہ بات مسلم ہے کہ اس آیہ کریمہ میں خدا نے جن لوگوں کو مخاطب کیا ہے؛ وہ صاحبان ایمان ہیں اور حیوانی زندگی رکھتے ہیں ؛ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو سنتے ہیں ، تو خدا اور رسول کیوں ان لوگوں کو اس چیز کی طرف بلارہے ہیں جو ان کو زندگی بخشتی ہو؛ یقیناً یہ حیات جسمانی اور مادی زندگی نہیں ہے بلکہ اس سے دوسری زندگی مراد ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے( و ما علمّناه الشعر وما ینبغی له ان هو الّاذکر و قرآن مبین لینذر من کان حيّاً ) ( ۱ ) ہم نے اس (رسول )کوشعر نہیں سکھایا اور نہ ان کے لئے یہ مناسب ہے یہ صرف نصیحت اور روشن قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ہے تا کہ جو زندہ ہوں ان کو ڈرائیں۔ اب یہ کہ قرآن اس شخص کی ہدایت کرتا ہے جو زندہ ہے اس کا مطلب کیا یہی جسمانی اور مادی زندگی ہے ؟ اگر مراد یہی مادی زندگی ہے تو ایسی زندگی تو سارے انسان رکھتے ہیں ؛ لہذٰا قرآن کو سب کی ہدایت کرنی چاہئے لیکن ہم دیکھتے اور جانتے ہیں کہ قرآن نے ابولہب ،ابو جہل جیسوں کی اگر چہ یہ لوگ ظاہری اور جسمانی زندگی رکھتے تھے، کوئی ہدایت نہیں کی اور قران ایسے لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ،تو معلوم ہوا کہ اس حیات سے مراد قران میں کوئی دوسری حیات ہے حیات یعنی زندہ دلی ،روحی زندگی جو کہ انسان کو'' سننے والا کاندیتی ہے تاکہ خدا کے

____________________

(۱) سوررہ ےٰسین : آیہ ۶۹ اور ۷۰ ۔

۱۵۷

کلام کو سن کر ہدایت حاصل کر سکے( فانّک لا تُسمع الموتی'' ) ( ۱ ) اے رسول آپ مردوں کو نہیں سناسکتے ،اس آیہ میں مردوں سے مرادمردہ دل افرادہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے جسم تو زندہ ہیں لیکن ان کی روحیں مردہ ہیں روح اور دل کی زندگی کی کیا نشانی ہے ؟ اس کی علامت اور نشانی ،خشیت و خوف الٰہی ہے( انما تنذرالذین یخشون ربّهم بالغیب'' ) ( ۲ ) اے رسول ! تم صرف انھیں لوگوں کو ڈرا سکتے ہو جواز غیب خدا سے ڈرتے ہیں ؛ دل کے زندگی کی نشانی یہ ہے کہ جب ان کو متوجہ کریں اور بتائیںکہ تمھارا ایک خالق ہے اس کا تم پر حق ہے اور اس نے تم کو کسی مقصد کے تحت خلق کیا ہے اور تمھارے اوپراس نے کچھ ذمہ داری قراردی ہے تو اسکا دل کانپ اٹھتا ہے اور پھر کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہو تا ہے،دل میں خوف خدا اور ایمان آنے کا نتیجہ یہ ہے کہ'( 'یئوتکم کفلین من رحمته ویجعل لکم نوراًتمشون به ) ( ۳ ) یعنی خدا وند عالم اپنی رحمت سے تم کودوہرے حصے عطا فرماتا ہے اور ایسا نور قرار دیتا ہے کہ اس کے سبب اور اس کی برکت سے تم چل سکتے ہو؛ یہ نور، مادی اور محسوس کرنے والا نور نہیں ہے ،بلکہ وہی نور ہے جو کہ روح اور دل کی زندگی سے مربوط ہے، ایسی زندگی جس کی طرف خداوند عالم نے قران مجید میں مختلف مقامات پراشارہ

____________________

(۱)سورہ روم :آیہ۵۲۔

(۲) سورہ فاطر: آیہ ۱۸۔

(۳) سورہ حدید: آیہ ۲۸۔

۱۵۸

کیا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے( فا نها لا تعمی الابصار و لٰکن تعمی القلوب التیّ فی الصدور'' ) ( ۱ )

حقیقت میں آنکھیں اندھی نہیں ہیں بلکہ وہ دل جو کہ سینے میں ہیں وہ اندھے ہیں ،مادی اور جسمانی آنکھ زندہ ہے اور دیکھتی ہے، لیکن روحانی اور باطنی آنکھ نہیں رکھتے ہیں ،وہ صنوبری دل جو کہ سینے کے اندر دھڑکتا ہے اور زندہ ہے لیکن ایک دوسرا جو دل بھی ہے کہ عیب ونقص اسی میں ہے( ثمّ قست قلوبکم من بعدذالک فهی کالحجارة او اشدّ قسوة ) ( ۲ ) پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے پتھر کی، طرح بلکہ اس بھی زیادہ سخت وہ دل پتھر جیسا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے کہ کوئی چیز اس میں اثر نہیں کر سکتی ؛بلکہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو چکا ہے( وانّ من الحجارة لما یتفجّرمنه الانهار وانّ منها لما یشقّق فیخرج منه المائ'' ) ( ۳ ) اور بعض پتھروں سے نہریںنکلتی ہیں اور بعض شگافتہ ہوتے ہیں تو اس سے پانی نکلتا ہے بہر حال قران مجید میں ایسی بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اس جسمانی آنکھ، کان اوردل کے علاوہ حیاتی آنکھ،کان،دل کا قائل ہے، اور جس طرح سے جسم کی زندگی،نشو ونما اس کے تکامل کے لئے جذب و دفع کی ضرورت ہے ویسے ہی روحی حیات کو بھی جذب و دفع کی احتیاج ہے۔ جس طرح سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ جسمانی زندگی پر اثر ڈالتی ہیں اور اس جسم کے لئے مفید یا مضر ہیں ایسے ہی بہت سے عوامل ایسے بھی پائے

____________________

(۱)سورہ حج؛آیہ ۴۶۔

(۲)اور (۳)سورہ بقرةآیة۷۴.

۱۵۹

جاتے ہیں جو کہ اس روحانی زندگی کے لئے فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں ۔جس طرح جسمانی زندگی کئی مرتبے اوردرجے رکھتی ہے اور اس میں نقص و کمال ، اور شدت وضعف پایا جاتا ہے، روحانی زندگی بھی اسی طرح کئی درجے اور مرتبے رکھتی ہے ؛روحانی زندگی کا سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان انبیاء کی پہلی دعوت جو ایمان اور توحید سے متعلق ہے اس کو قبول کرے اور اس کو جذب کرسکے ۔ البتہ انبیاء کی اس ہدایت کے اثر اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد انسان دھیرے دھیرے روحانی زندگی کے بلند مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے؛ اسی جگہ پرتزکیہ و تہذیب نفس کی بحث آتی ہے۔

تزکیہ نفس یعنی روح کے کمال کے لئے لازمی جذب اور دفع

نفس کو پاک و صاف کرنے (تزکیہ نفس )کی بحث اصل میں وہیروح سے مربوط جذب و دفعبحث ہے۔ ایک درخت کے لئے جب یہ چاہیں کہ وہ خوب تناور اورپھولے پھلے توضروری ہے کہ وہ مٹی اور ہوا سے مواد کو جذب کرے اور اس کی چھٹائی کی جائے اور مضر نباتی زہروں اور آفتوں کو او سے دور رکھا جائے۔اور یہ دونوں چیزیں یعنی جذب و دفع ضروری ہے ؛انسان کے لئے بھی یہ چیزیں ضروری ہیں یعنی وہ ایسا کام کرے کہ اس کی روح صیقل ہو۔اس کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو انسان کی روح اور زندگی کے لئے ضروری اور مفید ہو ںان کو جذب کرے اور وہ چیزیں جو انسان کی روح کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں اس کو اپنے سے دور کرے ، لہذٰا سب سے پہلاقدم یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو پہچانے اور ان کی معرفت حاصل کرے اور غفلت و جہالت سے باہر آئے؛ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی روح ایسی ہے کہ( بذکر الله تطمئنّ القلوب ) (۱) خدا وند عالم کے ذکر سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے، روح کی غذا خدا کا ذکر اور اس کی یاد ہے، دل کی زندگی اور خدا کی یاد کے درمیان ربط پایا جاتا ہے؛ یہی دل ایسا ہے کہ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے،

____________________

(۱) سورہ رعد: آیہ ۲۸۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232