شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں33%

شيعہ جواب ديتے ہيں مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 232

شيعہ جواب ديتے ہيں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 232 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 81072 / ڈاؤنلوڈ: 4437
سائز سائز سائز
شيعہ جواب ديتے ہيں

شيعہ جواب ديتے ہيں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

عبادات میں سجدہ کی اہمیت:

اسلام کی نظر میں سجدہ، اللہ تعالی کی سب سے اہم یا اہم ترین عبادات میں سے ایک ہے_ اور جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے، کہ انسان سجدہ کی حالت میں دیگر تمام حالات کی نسبت سب سے زیادہ اللہ تعالی کے نزدیک ہوتا ہے_ تمام بزرگان دین بالخصوص رسو ل اکرم(ص) اور اہلبیت بہت طولانی سجدے کیا کرتے تھے_ خدا کی بارگاہ میں طولانی سجدے انسان کی روح اور جان کی نشو ونما کرتے ہیں_ اور یہ اس لم یزل کی بارگاہ میں خضوع اور عبودیت کی سب سے بڑی علامت شمار ہوتے ہیں_ اسی لیے نماز کی ہر رکعت میں دو سجدے بجالانے کا حکم دیا گیا ہے_

اسی طرح سجدہ شکر اور قرآن مجید کی تلاوت کے دوران مستحب اور واجب سجدے بھی اسی سجدہ کا واضح ترین مصداق شمار ہوتے ہیں_

انسان سجدہ کی حالت میں سوائے خدا کے ہر چیز کو بھول جاتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے بہت نزدیک پاتا ہے اور گویا وہ اپنے آپ کو بساط قرب پر پاتا ہے_

یہی وجہ ہے کہ سیرو سلوک و عرفان کے اساتید اور اخلاق کے معلم حضرات ،سجدہ کے مسئلہ پر انتہائی تاکید فرماتے ہیں_

۱۲۱

مذکورہ بالا مطالب اس مشہور حدیث پر ایک روشن دلیل ہیں کہ انسان کا کوئی عمل بھی شیطان کو اتنا پریشان نہیں کرتا جتنا سجدہ اسے پریشان کرتا ہے_

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ '' جناب ختمی مرتبت نے اپنے ایک صحابی کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اگرچاہتے ہو کہ قیامت کے دن میرے ساتھ محشور ہو تو خداوند قہار کے حضور طولانی سجدے انجام دیا کرو''

و اذا اَرَدتَ ا ن یحشُرَک الله معی يَومَ القیامة فأطل السّجودَ بین يَدَی الله الواحد القهّار'' (۱)

غیر خدا کے لیے سجدہ کرنا جائز نہیں ہے:

ہمارا عقیدہ ہے کہ اس واحد و یکتا پروردگار کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ سجدہ انتہائی عاجزی اور خضوع کی علامت اور پرستش کا روشن مصداق ہے اور پرستش و عبوديّت صرف ذات خدا کے ساتھ مخصوص ہے_

قرآن مجید کی اس آیت ''( وللّه يَسجُد مَن فی السموات و الارض'' ) (۲) میں کلمہ '' اللہ '' کو مقدم کیا گیا ہے اور یہ تقدیم حصر پر دلالت کر رہی ہے یعنی زمین اور آسمان کی ہر چیز صرف اور صرف اللہ تعالی کو سجدہ کرتی ہے

اسی طرح سورہ اعراف کی ۲۰۶ نمبر آیت( '' و له یسجدون'' ) بھی اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ سجدہ صرف اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے_

____________________

۱) سفینة البحار ، مادہ سجدہ_

۲) سورة رعد، آیہ ۱۵_

۱۲۲

حقیقت میں سجدہ خضوع کا آخری درجہ ہے اور یہ درجہ خداوند عالم کے ساتھ مخصوص ہے_ لہذا کسی اور شخص یا چیز کے لیے سجدہ کرنا گویا خداوند عالم کے برابر قرار دینا ہے اور یہ درست نہیں ہے_

ہمارے نزدیک توحید کے معانی میں سے ایک معنی '' توحید در عبادت'' ہے یعنی پرستش اور عبادت صرف اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کے بغیر توحید کامل نہیں ہوتی ہے_

دوسرے الفاظ میں : غیر خدا کی عبادت کرنا شرک کی ایک قسم ہے اور سجدہ عبادت شمار ہوتا ہے_ اس لیے غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے_

اور جو سجدہ ملائکہ نے حضرت آدم کو کیا تھا ( اور اسکا قرآن مجید میں کئی مقامات پر تذکرہ ہے ) مفسرین کے بقول یا تو یہ حضرت آدم(ع) کی تعظیم ، تکریم اور احترام کا سجدہ تھا نہ عبادت کا سجدہ، بلکہ اسی سجدہ سے ملائکہ کی مراد یہ تھی کہ چونکہ یہ سجدہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل ہے لہذا اس ذات حق کی عبودیت ہے _ اور یا یہ شکر خدا کا سجدہ تھا_اسی طرح جو سجدہ حضرت یعقوب(ع) اورانکے بیوی بچّوں نے حضرت یوسف _ کے لیے کیا تھا اور اسے قرآن مجید نے ''خرَّ و له سُجَّداً'' اور سب انکے سامنے سجدہ میں گر پڑے'' کے الفاظ کے ساتھ یاد کیا ہے_ یہ بھی اللہ تعالی کے سامنے سجدہ شکر تھا_ یا ایک قسم کی تعظیم، تکریم اور احترام کے معنی میں سجدہ تھا_

اور قابل توجہ یہ ہے کہ '' وسائل الشیعہ'' کہ جو ہماری کتب حدیث کاایک مصدرشمار ہوتی ہے، میں سجدہ نماز کے ابواب میں ایک مکمل باب ''عدم جواز السجود بغیر الله '' کے عنوان سے ذکر ہوا ہے اور اس میں پیغمبر اکرم(ص) اور آئمہ معصومینسے سات احادیث نقل کی گئی ہیں کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے_(۱)

____________________

۱)وسائل الشیعہ، جلد ۴، ص ۹۸۴_

۱۲۳

اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین فرما لیجئے کیونکہ آئندہ اسی گفتگو سے ہم نتیجہ اخذ کریںگے_

کس چیز پر سجدہ کرنا چاہیے:

مکتب اہلبیت(ع) کے پیروکاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زمین کے علاوہ کسی چیز پر سجدہ نہیں ہوسکتا ہے، ہاں البتہ جو چیزیں زمین سے اُگتی ہیں اور کھانے و پہننے کے کام نہیں آتیں جیسے درختوں کے پتے اور لکڑی و غیرہ اسی طرح حصیر و بوریا و غیرہ_ ان پر سجدہ کیا جاسکتا ہے_ جبکہ علماء اہلسنت عام طور پر معتقد ہیں کہ ہر چیز پر سجدہ کیا جاسکتا ہے_ ہاںان میں سے صرف بعض علماء نے لباس کی آستین اور عمامہ وپگڑی کے گوشے کو مستثنی کیا ہے کہ اُن پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے_

اس مسئلہ میں مکتب اہلبیت(ع) والوں کی دلیل، رسولخدا(ص) اور آئمہ اطہار(ع) سے نقل ہونے والی احادیث اور اصحاب کا عمل ہے_ ان محکم ادلّہ کی وجہ سے وہ اس عقیدہ پر اصرار کرتے ہیں اور اس لیے مسجد الحرام اور مسجد نبوی(ص) میں اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ قالین و غیرہ پر سجدہ نہ کریں بلکہ پتھر پر سجدہ کریں اور کبھی حصیر اور مصلی و غیرہ اپنے ساتھ لاتے ہیں اور ا س پر سجدہ کرتے ہیں_

ایران، عراق اور دیگر شیعہ نشین ممالک کی تمام مساجد میں چونکہ قالین بچھے ہوئے ہیں، اس لیے خاک سے ''سجدہ گاہ'' بنا کر اسے قالین پر رکھتے ہیں اور اس پر سجدہ کرتے ہیں تاکہ پیشانی کو کہ جو تمام اعضاء میں اشرف و افضل ہے اللہ تعالی کے حضور، خاک پر رکھا جاسکے_ اور اس ذات احديّت کی بارگاہ میں انتہائی تواضع و انکساری کا مظاہرہ کیا جاسکے_ کبھی یہ '' سجدہ گاہ''

۱۲۴

شہداء کی تربت سے بنائی جاتی ہے تا کہ راہ خدا میں ان کی جانثاری کی یاد تازہ ہو اور نماز میں زیادہ سے زیادہ حضور قلب حاصل ہوسکے_اور پھر شہدائے کربلا کی تربت کو دوسری ہر قسم کی خاک پر ترجیح دی جاتی ہے لیکن شیعہ ہمیشہ اس تربت یا دوسری خاک کے پابند نہیں ہیں بلکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے مساجد کے صحنوں میں لگے ہوئے پتھروں ( جیسے مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے صحن والے سنگ مرمر) پر بھی با آسانی سجدہ کر لیتے ہیں ( غور کیجئے)

بہرحال مکتب اہلبیت(ع) کے پاس زمین پر سجدہ کے وجوب کے بارے میں بہت سی ادلّہ ہیں من جملہ پیغمبر اکرم(ص) کی احادیث ، صحابہ کی سیرت جو آئندہ بحث میں بیان ہوگی اور آئمہ اطہار سے نقل ہونے والی روایات کہ جنہیں ہم عنقریب نقل کریں گے_

ہمیں تعجب یہ ہے کہ بعض اہلسنت برادران ہمارے اس فتوی کے مقابلے میں کیوں اسقدر شدید ردّعمل کا مظاہرہ کرتے ہیںاور کبھی اسے بدعت سے تعبیر کرتے ہیں حتی بعض اوقات اسے کفر اور بُت پرستی شمار کرتے ہیں_

اگر ہم خود ان کی اپنی کتابوں سے ثابت کردیں کہ رسولخدا(ص) اور انکے اصحاب، زمین پر سجدہ کرتے تھے تو کیا پھر بھی یہ عمل بدعت ہوگا؟

اگر ہم ثابت کردیں کہ آنحضرت(ص) کے بعض اصحاب جیسے جناب جابر ابن عبداللہ انصاری وغیرہ جب شدید گرمی کی وجہ سے پتھر اور ریت گرم ہوجاتی تھی تو وہ کچھ مقدار ریت کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تبدیل کرتے تھے تا کہ کچھ ٹھنڈی ہوجائے اور اس پر سجدہ کیا جاسکے''(۱) تو کیا اس صورت میں جناب جابر ابن عبداللہ کو بت پرست یا بدعت گزار شمار کریں گے؟

____________________

۱) مسند احمد ، ج ۳، ص ۳۲۷و سنن بیہقی جلد ۱ص ۲۳۹_

۱۲۵

پس جو شخص حصیر پر سجدہ کرتا ہے یا ترجیح دیتا ہے کہ مسجد الحرام یا مسجد نبوی(ص) کے فرش پر سجدہ کرے تو کیا وہ حصیر کی پرستش کرتا ہے یا مسجد کے فرش کی پوجا کرتا ہے؟

کیا ضروری نہیں ہے کہ یہ برادران اس موضوع پر مشتمل ہماری ہزاروں فقہی کتابوں میں سے کم از کم ایک کتاب کا مطالعہ کریں تا کہ انہیں پتہ چل جائے کہ ان ناروا نسبتوں میں ذرّہ برابر بھی حقیقت کی جھلک نہیں ہے؟

آیا کسی پر بدعت یا کفر و بت پرستی کی تہمت لگنا،کم گناہ ہے اور قیامت کے دن اللہ تعالی اسے آسانی سے معاف کردیگا؟

اس بات کو جاننے کے لیے کہ کیوں شیعہ زمین پر سجدہ کرتے ہیں، امام صادق _ کی اس حدیث کی طرف توجہ کافی ہے_ ہشام بن حکم نے کہ جو امام کے خصوصی اصحاب میں سے تھے سوال کیا، کہ کس چیز پر سجدہ کیا جاسکتا ہے اور کسی چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے؟ امام (ع) نے جواب میں فرمایا''السجود لا یجوز الا علی الارض او ما انبتت الارض الا ما أکل اَو لبس'' کسی چیز پر سجدہ کرنا جائز نہیں ہے مگر صرف زمین پر یا ان چیزوں پر جو زمین سے اگتی ہیں اور کھانے اور پہننے کے کام نہیں آتیں ہشام کہتا ہے میں نے عرض کی آپ(ع) پر قربان ہوجاؤں اس کی حکمت کیا ہے ؟

آپ(ع) نے فرمایا:''لانّ السّجُودَ هُو الخضوع للّه عزّوجل فلا ینبغی أن یکونَ علی ما يُؤكَلُ و يُلبس لانّ أَبناء الدُّنیا عَبید ما یا کلون و یلبسون و الساجدُ فی سُجوده فی عبادة الله فلا ینبغی أن يَضَعَ جَبهَتَهُ فی سُجوده علی معبود أبناء الدُّنیا الذین اغتَرُّ وا بغرورها'' کیونکہ سجدہ اللہ تعالی کے سامنے خضوع اور انکساری ہے اس لیے مناسب نہیں ہے کہ انسان کھانے اور پہننے کی چیزوں پر سجدہ کرے_

۱۲۶

کیونکہ دنیا پرست لوگ کھانے اور پہننے والی چیزوںکے بندے ہوتے ہیں_ جبکہ وہ شخص جو سجدہ کر رہا ہے سجدہ کی حالت میں اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول ہے پس مناسب نہیں ہے کہ انسان اپنی پیشانی کو سجدہ کی حالت میں ایسی چیزوں پر رکھے جو دنیا پرستوں کے معبود ہیںاور انکی زرق و برق کے وہ فریفتہ ہیں_

اس کے بعد امام _ نے اضافہ فرمایا: ''و السّجودُعلی الارض أفضلُ لانّه أبلغ للتواضع و الخُضوع للّه عزوجل ''کہ زمین پر سجدہ کرنا افضل ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی کے حضور بہتر طور پرخضوع وتواضع اور انکساری کی علامت ہے_(۱)

۴_ مسئلہ کی ادلّہ:

اب ہم اس مسئلہ کی ادلّہ بیان کرتے ہیں _سب سے پہلے رسول اکرم(ص) کے کلام سے شروع کرتے ہیں:

الف) زمین پر سجدہ کے سلسلہ میں معروف حدیث نبوی:

اس حدیث کو شیعہ و اہل سنت نے پیغمبر اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا''جُعلت لی الارضُ مسجداً و طهوراً'' کہ زمین میرے لیے محل سجدہ اور طہارت ( تیمم) قرار دی گئی ہے''(۲)

بعض علماء نے یہ خیال کیا ہے کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ پوری روئے زمین اللہ کی عبادت کا مقام ہے_ پس عبادت کا انجام دینا کسی معيّن مقام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جیسا کہ یہود

____________________

۱) علل الشرائع، جلد ۲، ص ۳۴۱_

۲) صحیح بخاری جلد ۱، ص ۹۱و سنن بیہقی، جلد ۲_ ص ۴۳۳ (ا ور بہت سی دوسروی کتابوں میں یہ حدیث نقل ہوئی ہے)_

۱۲۷

و نصاری گمان کرتے تھے کہ عبادت کو حتماً کلیساؤں اور عبادت خانوں میں انجام دینا چاہیے''_

لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تفسیر حدیث کے حقیقی معنی کے ساتھ سازگار نہیں ہے کیونکہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرما یا'' زمین طہور بھی ہے اور مسجد بھی'' اور ہم جانتے ہیں کہ جو چیز طہور ہے اور جس پر تیمّم کیا جاسکتا ہے وہ زمین کی خاک اور پتھر ہیں پس سجدہ گاہ کو بھی وہی خاک اور پتھر ہونا چاہیے_

اگر پیغمبر اکرم(ص) اس معنی کو بیان کرنا چاہتے کہ جسکا بعض اہلسنت کے علماء نے استفادہ کیا ہے تو یوں کہنا چاہیے تھا کہ ''جُعلت لی الارض مسجداً و ترابُها طهوراً'' پوری سرزمین کو میرے لیے مسجد قرار دیا گیا اور اس کی خاک کو طہارت یعنی تیمم کا وسیلہ قرار دیا گیاہے'' لیکن آپ(ص) نے یوں نہیں فرمایا_ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں مسجد سے مراد جائے سجدہ ہے لہذا سجدہ گاہ کو بھی اسی چیز سے ہونا چاہیے جس پر تیمم ہوسکتا ہے_

پس اگر شیعہ زمین پر سجدہ کرنے کے پابند اور قالین و غیرہ پر سجدہ کو جائز نہیں سمجھتے تو یہ کوئی غلط کام نہیں کرتے بلکہ رسولخدا(ص) کے دستور پر عمل کرتے ہیں_

ب) سیرت پیغمبر(ص) :

متعدّد روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) بھی زمین پر سجدہ کرتے تھے، کپڑے یا قالین و غیرہ پر سجدہ نہیں کرتے تھے_

ابوہریرہ کی ایک حدیث میں یوں نقل ہوا ہے وہ کہتا ہے ''سجد رسول الله (ص) فی یوم مطیر حتی أنّی لانظر الی أثر ذلک فی جبهته و ارنبته'' میں نے رسولخدا(ص) کو ایک

۱۲۸

بارانی دن زمین پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا _ سجدہ کے آثار آپ کی پیشانی اور ناک پر نمایاں تھے_(۱)

اگر سجدہ کپڑے یا دری و غیرہ پر جائز ہوتا تو ضرورت نہیں تھی کہ آنحضرت(ص) بارش کے دن بھی زمین پر سجدہ کریں_

حضرت عائشےہ نیز فرماتی ہیں ''ما رأیتُ رسول الله متقیاً وجهه بشیئ''میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آنحضرت(ص) ( سجدہ کے وقت ) اپنی پیشانی کسی چیز سے ڈھانپ لیتے ہوں''(۲)

ابن حجر اسی حدیث کیتشریح میں کہتے ہیں: کہ یہ حدیث اس بات کیطرف اشارہ ہے کہ سجدہ میں اصل یہ ہے کہ پیشانی زمین پر لگے لیکن اگر قدرت نہ ہو تو پھر یہ واجب نہیں ہے_(۳)

ایک دوسری روایت میں جناب میمونہ ( رسول اکرم(ص) کی ایک دوسری زوجہ) سے یوں نقل ہوا ہے کہ ''و رسول الله یصّلی علی الخُمرة فیسجد'' پیغمبر اکرم حصیر (چٹائی) پر نماز پڑھتے اور اس پرسجدہ کرتے تھے_

اہلسنت کی معروف کتب میں متعدّد روایات نقل ہوئی ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) '' خمرہ'' پر نماز پڑھتے تھے ( خُمرہ اس چھوٹے سے مصلی یا حصیر کو کہتے ہیں جو کجھور کے پتوں سے بنایا جاتا تھا)تعجب یہ ہے کہ اگر شیعہ اسی طرح عمل کریں اور نماز پڑھتے وقت کوئی مصلی بچھالیں تو ان پر بعض متعصب لوگوں کی طرف سے بدعت کی تہمت لگائی جاتی ہے_ اور غصے کے ساتھ انہیں

____________________

۱) مجمع الزوائد، جلد ۲، ص ۱۲۶_ ۲) مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد ۱ ، ص ۳۹۷_

۳) فتح الباری ، جلد۱، ص ۴۰۴_

۱۲۹

دیکھا جاتا ہے_

حالانکہ یہ احادیث بتاتی ہیں کہ یہ کام پیغمبر اکرم(ص) کی سنت ہے_

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ سنّت کو بدعت شمار کیا جائے

مجھے نہیں بھولتا کہ ایک مرتبہ حج کے موقع پر مدینہ میں ، میں مسجد نبوی(ص) میں ایک چھوٹی سی چٹائی پر نماز پڑھنا چاہتا تھا تو ایک متعصّب وہابی عالم دینآیا اور اس نے بڑے غصّے کے ساتھ چٹائی اٹھاکر کونے میں پھینک دی گویا وہ بھی اس سنت کو بدعت سمجھتا تھا_

ج) صحابہ اور تابعین کی سیرت

اس بحث میں دلچسپ موضوع یہ ہے کہ اگر ہم اصحاب اور انکے بعد آنے وال-ے افراد (یعنی تابعین) کے حالات کا غور سے مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے وہ بھی زمین پر سجدہ کرتے تھے مثال کے طور پر:

۱_ جابر ابن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں''کنتُ اُصلّی مع النّبی الظهر فآخذ قبضة من الحصی فاجعلها فی کفّی ثُم احولها الی الکفّ الاُخری حتی تبرد ثم اضعها لجبینی حتی اسجد علیها من شّدة الحرّ''میں پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ نماز ظہر پڑھتا تھا_ شدید گرمی کی وجہ سے کچھ سنگریزے ہاتھ میں لے لیتا تھا اور انہیں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں تبدیل کرتا رہتا تھا تا کہ وہ کچھ ٹھنڈے ہوجائیں اور ان پر سجدہ کرسکوں یہ کام گرمی کی شدت کی وجہ سے تھا''(۱)

____________________

۱) مسند احمد ، جلد ۳، ص ۳۲۷ ، سنن بیہقی ، جلد۱ ، ص ۴۳۹_

۱۳۰

اس حدیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصحاب پیغمبر(ص) زمین پر سجدہ کرنے کے پابند تھے، حتی کہ شدید گرمی میں بھی اس کا م کے لیے راہ حل تلاش کرتے تھے_ اگر یہ کام ضروری نہ ہوتا تو اتنی زحمت کی ضرورت نہیں تھی_

۲_ انس بن مالک کہتے ہیں ''كُنّا مع رسول الله (ص) فی شدّة الحرّ فیأخذأحدنا الحصباء فی یده فإذا برد وضعه و سجّد علیه '' ہم شدید گرمی میں رسولخدا(ص) کے ساتھ تھے ہم میں سے بعض لوگ کچھ سنگریزے ہاتھ میں لے لیتے تھے تا کہ ٹھنڈے ہوجائیں پھر انہیں زمین پر رکھ کر اُن کے اوپر سجدہ کرتے تھے_(۱)

یہ تعبیر یہی بتاتی ہے کہ یہ کام اصحاب کے درمیان رائج تھا_

۳_ ابوعبیدہ نقل کرتے ہیں ''انّ ابن مسعود لا یسجد _ أو قال لا یصلّی _ الا علی الارض'' کہ جناب عبداللہ ابن مسعود صرف زمین پر سجدہ کرتے تھے یا یوں کہا کہ صرف زمین پر نماز پڑھتے تھے_(۲)

اگر زمین سے قالین یا دری و غیرہ مراد ہوتی تو کہنے کی ضرورت نہیں تھی اس سے پتہ چلتا ہے کہ زمین سے وہی خاک: ریت اور سنگریزے و غیرہ مراد ہیں_

۴_ عبداللہ ابن مسعود کے ایک دوست مسروق بن اجدع کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ'' کان لا یرخص فی السجود علی غیر الارض حتی فی السفینة وکان یحمل فی السفینة شیئاً یسجدعلیه'' وہ سوائے زمین کے کسی شے پر سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے حتی اگر کشتی میں سوار ہونا ہوتا تو کوئی چیز اپنے ساتھ کشتی میں رکھ لیتے تھے جس

____________________

۱) السنن الکبری بیہقی ، جلد ۲، ص ۱۰۶_

۲) مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد ۱، ص ۳۹۷_

۱۳۱

پر سجدہ کرتے''(۱)

۵_ جناب علی ابن عبداللہ ابن عباس نے '' رزین '' کو خط میں لکھا''ابعث اليّ بلوح من أحجار المروة علیه اسجُد'' کہ مروہ کے پتھروں میں سے ایک صاف سا پتھر میرے لیے بھیجنا تا کہ میں اس پر سجدہ کرسکوں''(۲)

۶_ کتاب فتح الباری ( شرح صحیح بخاری) میں نقل ہوا ہے کہ ''کان عمر ابن عبدالعزیز لا یکتفی بالخمرة بل یضع علیها التراب و یسجد علیه'' عمر ابن عبدالعزیز نماز کے لیے صرف چٹائی پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اس پر مٹی رکھ لیتے اور اس پر سجدہ کرتے تھے_(۳)

ان تمام روایات سے کیا سمجھ میں آتا ہے؟ کیا یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ اصحاب اور انکے بعد آنے والے افراد کی ( ابتدائی صدیوں میں ) یہی سیرت تھی کہ زمین پر یعنی خاک ، پتھر، ریت اور سنگریزوں و غیرہ پر سجدہ کرتے تھے_

اگر آج ہمارے زمانے میں کچھ مسلمان اس سنت کو زندہ رکھنا چاہیں تو کیا اسے بدعت کے عنوان سے یاد کیا جائے؟

کیا فقہائے اہلسنت کو نہیں چاہیے کہ قدم آگے بڑھاتے ہوئے اس سنّت نبوی (ص) کو زندہ کریں، وہی کام جو اللہ تعالی کی بارگاہ میں انتہائی خضوع، انکساری اور عاجزی سے حکایت کرتا ہے اور سجدہ کی حقیقت کے ساتھ زیادہ سازگار ہے_ ( ایسے دن کی امید کے ساتھ)_

____________________

۱) طبقات الکبری ، ابن سعد، جلد ۶، ص ۵۳_

۲) اخبار مكّہ ازرقی، جلد ۲ ،ص ۱۵۱_

۳) فتح الباری ، جلد ۱ ، ص ۴۱۰_

۱۳۲

۷

جمع بین صلاتین

۱۳۳

بیان مسئلہ:

نماز، خالق اور مخلوق کے درمیان ایک اہم ترین رابطہ اور تربيّت کے ایک اعلی ترین لائحہ عمل کا نام ہے_ نماز خودسازی اور تزکیہ نفوس کا ایک بہترین وسیلہ اور فحشاء و منکر سے روکنے والے عمل کا نام ہے_ نماز قرب الہی کا بہترین ذریعہ ہے_

اور با جماعت نماز مسلمانوں کی قوّت و قدرت اور انکی صفوف میں وحدت کا مظہر اور اسلامی معاشرے کے لیے با افتخار زندگی کا باعث ہے_

نماز اصولی طور پر دن رات میں پانچ مرتبہ انجام دی جاتی ہے جس سے انسان کے دل و جان ہمیشہ فیض الہی کے چشمہ زلال سے دُھلتے رہتے ہیں_

نماز کو رسول خدا(ص) نے اپنی آنکھوں کا نور قرار دیا اور اس کے لیے ''قرةُ عینی فی الصلاة ''(۱) ارشاد فرمایا اور اسے مؤمن کی معراج شمار کرتے ہوئے_''الصلوة معراج المؤمن'' (۲) کی صدا بلند کی اور اسے متّقین کے لیئے قرب الہی کے وسیلہ کے عنوان سے

____________________

۱) مکارم الاخلاق ، ص ۴۶۱_

۲) اگرچہ یہ جملہ کتب احادیث میں نہیں ملا لیکن اسقدر مشہور ہے کہ علامہ مجلسی نے اپنے بیانات کے دوران اس جملہ سے استشہاد فرمایا ہے ( بحار الانوار ، جلد ۷۹ ص ۲۴۸، ۳۰۳)_

۱۳۴

متعارف کرایا''الصلاة قربان کلی تقّی'' (۱)

اس مقام پر موضوع سخن یہ ہے کہ کیا پانچ نمازوں کا پانچ اوقات میں علیحدہ علیحدہ انجام دینا ایک واجبی حکم ہے؟ اور اس کے بغیر نماز باطل ہوجاتی ہے ( جسطرح وقت سے پہلے نماز پڑھ لینا ،اس کے باطل ہونے کا سبب بنتا ہے ) یا اسے تین وقتوں میں انجام دیا جاسکتا ہے؟

( یعنی ظہر و عصر کی نماز اور مغرب و عشاء کی نماز کو جمع کر کے ادا کیا جائے) علمائے شیعہ _ مکتب اہلبیت(ع) کی پیروی کرتے ہوئے _ عموماً اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ پانچ نمازوں کو تین وقتوں میں انجام دینا جائز ہے اگرچہ افضل و بہتر یہ ہے کہ نماز پنچگانہ کو پانچ وقتوں میں انجام دیا جائے_

لیکن علمائے اہلسنت کی اکثریت _ سوائے چند ایک کے _ اس بات کی قائل ہے کہ نماز پنچگانہ کو علیحدہ علیحدہ پانچ اوقات میں انجام دینا واجب ہے ( صرف عرفہ کے دن میدان عرفات میں ظہر و عصر کی نماز وں کو اکٹھا پڑھا جاسکتا ہے اور عید قربان کی رات مشعر الحرام میں مغرب و عشاء والی نماز کواکٹھا بجالایا جاسکتا ہے البتہ بہت سے علماء نے سفر اور بارش کے اوقات میں کہ جب نماز جماعت کے لیے مسجد میں رفت وآمد مشکل ہو دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کی اجازت دی ہے)_

شیعہ فقہاء کی نظر میں _ جیسا کہ بیان ہوا _ نماز پنچگانہ کے جدا جدا پڑھنے کی فضیلت پر تاکید کے ساتھ _ نمازوں کو تین اوقات میں بجالانے کی اجازت اور ترخیص کو ایک عطیہ الہی شمار کیا جاتا ہے جسے امر نماز میں سہولت اور لوگوں کے لیے وسعت کی خاطر پیش کیا گیا ہے_

____________________

۱) کافی جلد ۳، ص ۲۶۵ ، حدیث ۲۶_

۱۳۵

اور اس اجازت کو روح اسلام کے ساتھ سازگار سمجھا جاتا ہے کیونکہ اسلام ایک ''شریعة سمحة و سہلة'' (آسان و سہل) ہے_

تجربے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ نماز کے لیے پانچ وقتوں پر علیحدہ علیحدہ تاکید کبھی اس بات کا سبب بنتی ہے کہ اصل نماز بالکل فراموش ہوجائے اور بعض لوگ نماز کو ترک کردیں_

اسلامی معاشروں میں پانچ اوقات پر اصرار کے آثار:

اسلام نے کیوں عرفہکے دن ظہر و عصر کی نماز اور مشعر الحرام میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دی ہے؟

کیوں بہت سے اہلسنت فقہائ، روایات نبوی(ص) کی روشنی میں سفر کے دوران اور بارش کے اوقات میں دو نمازوں کے اکٹھا پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں؟ یقیناً امت کی سہولت کی خاطر یہ احکام نازل ہوئے ہیں_

یہ تسہیل تقاضا کرتی ہے کہ دیگر مشکلات میں بھی چاہے سابقہ زمانے میں ہوں یا اس دور میں _ نماز کے جمع کرنے کی اجازت دینی چاہیے_

ہمارے زمانے میں لوگوں کی زندگی تبدیل ہوچکی ہے_ کارخانوں میں بہت سے مزدوروں، دفتروں میں بہت سے ملازمین اور کلاسوں میں بہت سے طالب علموں کو پانچ وقت نماز کی فرصت نہیں ملتی ہے یعنی انکے لیےکام کرنا کافی دشوار اور پیچیدہ ہوجاتا ہے_

پس ان روایات کے مطابق جو پیغمبر اکرم(ص) سے نقل ہوئی ہیں اور آئمہ طاہرین نے ان پر تاکید کی ہے اگر لوگوں کو دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کی اجازت دے دی جائے تو اس اعتبار سے

۱۳۶

انکے کام میں سہولت حاصل ہوگی_ اور نماز پڑھنے والوں کی تعداد بڑھ جائیگی_

اگر ایسا نہ کیا جائے تو ترک نماز میں اضافہ ہوگا اور تارک صلوة لوگوں کی تعداد بڑھتی جائیگی شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہلسنت کے جوان نماز کو چھوڑ تے ہیں اور اہل تشیع میں تارکین نماز کی تعداد بہت کم ہے_

انصاف یہ ہے کہ'' بُعثتُ الی الشریعة السمحة السهلة'' (۱) اور رسولخدا(ص) سے نقل ہونے والی متعدد روایات کی روشنی میں لوگوں کو تین اوقات میں نماز پڑھنے کی اجازت دینی چاہیے اسی طرح فرادی نماز کی بھی اجازت دینی چاہیے تا کہ زندگی کی مشکلات، ترک نماز کا موجب نہ بنے _ اگرچہ اسلام میں پانچ وقت نماز کی فضیلت پر تاکید ہوئی ہے اور وہ بھی جماعت کے ساتھ_

دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کے جواز پر روایات:

اہلسنت کی معروف کتب جیسے صحیح مسلم ، صحیح بخاری ، سنن ترمذی ، مؤطّاء مالک، مسند احمد، سنن نسائی، مصنف عبدالرّزاق اور دیگر مشہور کتابوں میں تقریباً تیس ۳۰ روایات نقل کی گئی ہیں جن میں بغیر سفر اور مطر ( بارش) کے، بغیر خوف اور ضرر کے ، نماز ظہر و عصر یا نماز مغرب و عشاء کے اکٹھا پڑھنے کو نقل کیا گیا ہے_ ان میں سے اکثر روایات کو ان پانچ مشہور اصحاب نے نقل کیا ہے_

۱_ ابن عباس، ۲، جابر ابن عبداللہ انصاری، ۳_ ابو ايّوب انصاری ، ۴_ عبداللہ ابن عمر ، ۵_ ابوہریرہ ، ان میں سے بعض کو ہم قارئین محترم کے لیئے نقل کرتے ہیں_

____________________

۱)مُجھے ایک سہل اور آسان شریعت کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے ( ترجمہ)_

۱۳۷

۱_ ابوزبیر نے سعید بن جبیر سے ، انہوں نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ '' صلّی رسول اللہ(ص) الظہر و العصر جمیعاً بالمدینة فی غیر خوف و لا سفر'' رسولخدا(ص) نے مدنیةمیں بغیر کسی خوف اور سفر کے نماز ظہر او ر عصر کو اکٹھا انجام دیا_

ابو الزبیرکہتے ہیں میں نے سعید ابن جبیر سے پوچھا کہ پیغمبراکرم(ص) نے ایسا کیوں کیا؟ تو وہ کہنے لگے کہ یہی سوال میں نے ابن عباس سے کیا تھا تو انہوں نے جواب میں کہا تھا ''أراد أن لا يَحرجَ أحداً من أمّته '' آنحضرت(ص) کا مقصد یہ تھا کہ میری امت کا کوئی مسلمان بھی زحمت میں نہ پڑے''(۱)

۲_ایک اور حدیث میں ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے ''جَمع رسول اللّه بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء فی المدینة فی غیر خوف و لا مطر'' ''پیغمبر اکرم(ص) نے مدینہ میں بغیر کسی خوف اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکٹھا انجام دیا''_

حدیث کے ذیل میں آیا ہے کہ جب ابن عباس سے سوال کیا گیا کہ پیغمبر اکرم(ص) کا اس جمع بین صلاتین سے کیا مقصد تھا تو انہوں نے جواب میں کہا''أراد أن لا یحرج'' آنحضرت(ص) کا یہ مقصد تھا کہ کوئی مسلمان بھی زحمت و مشقت سے دوچار نہ ہو_(۲)

۳_ عبداللہ ابن شقیق کہتے ہیں:

' ' خطبنا ابن عباس یوماً بعد العصر حتی غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس یقولون الصلاة، الصلاة قال فجائه، رجل من بنی تمیم لا

____________________

۱) صحیح مسلم، جلد ۲،ص ۱۵۱_

۲) صحیح مسلم، جلد ۲،ص ۱۵۲_

۱۳۸

یفتر و لا یتنی: الصلوة ، الصلوة فقال ابن عباس أتعلّمنی بالسّنّة لا اَمّ لک ثمّ قال: رایت رسول الله جمع بین الظهر و العصر و المغرب و العشاء قال عبدالله بن شقیق: فحاک فی صدری من ذلک شیء فأتیتُ ابا هریره فسألته ، فصّدق مقالتَه'' (۱)

کہ ایک دن ابن عباس نے نماز عصر کے بعد خطبہ پڑھنا شروع کیا یہاںتک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر ہوگئے ، لوگوں نے نماز، نماز کی آوازیں لگانا شروع کردیں_ ایسے میں بنو تمیم قبیلہ کا ایک آدمی آیا وہ مسلسل نماز، نماز کی صدائیں بلند کر رہا تھا اس پر ابن عباس نے کہا ، تو مجھے سنت رسول(ص) سکھانا چاہتا ہے اے بے حسب و نسب میں نے دیکھا ہے کہ رسولخدا(ص) نے نماز ظہر و عصر کو ،اسی طرح نماز مغرب و عشاء کو اکٹھا پڑھا ہے عبداللہ بن شقیق کہتا ہے میرے دل میں شک سا پیدا ہوگیا، میں ابوہریرہ کے پاس آیا اور اُن سے یہی بات دریافت کی انہوں نے ابن عباس کے کلام کی تصدیق کی_

۴_ جابر ابن زیدلکھتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا کہ : ''صلّی النّبی(ص) سبعاً جمیعاً و ثمانیاً جمیعاً'' پیغمبر اکرم(ص) نے سات رکعتیں اور آٹھ رکعتیں اکٹھی پڑھیں'' (مغرب اور عشاء کی نماز اسی طرح ظہر اور عصر کی نماز کے اکٹھا پڑھنے کی طرف اشارہ ہے)(۲)

____________________

۱) سابقہ مدرک_

۲) صحیح بخاری ، جلد ۱، ص ۱۴۰ ( باب وقت المغرب)_

۱۳۹

۵_ سعید بن جُبیر، ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ:

'' جَمع رسولُ الله (صلی الله علیه و آله و سلم ) بین الظهر و العصر و بین المغرب و العشاء بالمدینة من غیر خوف و لا مطرً قال: فقیل لأبن عباس : ما أراد بذلک؟ قال أراد أن لا یحرج أمتّه'' (۱)

'' پیغمبر اکرم (ص) نے مدینہ میں بغیر دشمن کے خوف اور بارش کے ، ظہر و عصر کی نماز، اسی طرح مغرب و عشاء کی نمازوں کو اکٹھا پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گیا کہ آنحضرت(ص) کا اس کام سے کیا مقصدتھا؟ تو انہوں نے کہا آپ(ص) چاہتے تھے کہ انکی امت مشقّت میں نہ پڑے''

۶_ امام احمد ابن حنبل نے بھی اسی کے مشابہ حدیث اپنی کتاب مسند میں ابن عباس سے نقل کی ہے_(۲)

۷_ امام مالک نے اپنی کتاب '' مؤطا'' میں مدینہ کا تذکرہ کیے بغیر ابن عباس سے یہ حدیث نقل کی ہے:

'' صلَّ رسولُ الله (ص) الظهر و العصر جمیعاً و المغرب و العشاء جمیعاً فی غیر خوف و لا مطر'' (۳)

____________________

۱) سنن ترمذی ، جلد ۱۲۱ حدیث ۱۸۷_

۲) مسند احمد، جلد ۱ ، ص ۲۲۳_

۳) مؤطا مالک، جلد ۱ ، ص ۱۴۴_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

اس حدیث کا جواب کہ ابوبکر اور عائشہ پیغمبر(ص) کے محبوب تھے

خیر طلب : یہ حدیث علاوہ اس کے کہ بکری گروہ کی ساختہ و پرداختہ ہے، فریقین کے نزدیک مسلم اور معتبر احادیث کے بھی خلاف ہے لہذا اس کی مردودیت ثابت ہے۔

اس حدیث میں دو پہلووں سے غور کرنا چاہیے۔ اول ام المومنین عائشہ کی جہت سے اور دوسرے خلیفہ ابوبکر کی جہت سے چنانچہ عائشہ کی محبوبیت میں اس حیثیت سے کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک ساری عورتوں سے زیادہ محبوب ہوں اشکال ہے جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں یہ قول صحیح و معتبر احادیث کے خلاف ہے جو فریقین ( شیعہ و سنی) کی معتبر کتابوں میں درج ہیں۔

شیخ : کن حدیثوں کے معارض ہے؟ ممکن ہو تو بیان کیجئے تاکہ ہم مطابقت کر کے عادلانہ فیصلہ کریں۔

خیر طلب : آپ کے قول کے برخلاف آپ کے علماء روایت کے طرق سے بکثرت حدیثیں حضرت صدیقہ کبری ام الائمہ جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا کے بارے میں منقول ہیں۔

فاطمہ(س) زنان عالم میں سب سے بہتر ہیں

من جملہ ان کے حافظ ابوبکر بیہقی نے تاریخ میں، حافظ ابن عبدالبر نے استیعاب میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں اور آپ کے دوسرے علماء نے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) بار بار فرماتے تھے "فاطمة خير نساء امّتي " ( یعنی فاطمہ(س ) میری امت کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔

امام احمد بن حنبل نے مسند میں حافظ ابوبکر شیرازی نے نزول القرآن فی علی میں محمد ابن حنفیہ سے انہوں نے امیر المومنین علیہ السلام سے ابن عبدالبر نے استیعاب میں بسلسلہ نقل حالات فاطمہ سلام اللہ علیہا و ام المومنین خدیجہ عبدالوارث ابن سفیان اور ----- حالات ام المومنین خدیجہ کے ضمن میں ابوداوود سے ابوہریرہ و انس بن مالک سے نقل کرتے ہوئے شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب55 میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی مودت سیزدہم میں انس بن مالک سے نیز بہت سے ثقات محدثیں نے اپنے طرق کےساتھ انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا :

"خير نساء العالمين أربع : مريم بنت عمران، و ابنة مزاحم امرأة فرعون، و خديجة بنت خويلد، و فاطمة بنت محمّد صلى اللّه عليه و آله و سلم."

( یعنی عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر چار ہیں۔ مریم دختر عمران و آسیہ دختم مزاحم خدیجہ دختر خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطیب تاریخ بغداد میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے ان چار

۲۰۱

عورتوں کو دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر شمار فرمایا ہے اس کے بعد فاطمہ کو دینا و آخرت میں ان پر فضیلت دی ہے۔

محمد بن اسماعیل بخاری صحیح میں اور امام احمد حنبل مسند میں عائشہ بنت ابوبکر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ(س) سے فرمایا

" يا فاطمه البشری فان الله اصطفيک و طهرک علی نساء العلمين و علی نساء الاسلام وهو خير دين."

( یعنی اے فاطمہ(س) خوشخبری اور بشارت ہو تم کو کہ خدا نے تم کو برگزیدہ کیا عالمین کی عورتوں پر بالعموم ، اور زنان اسلام پر بالخصوص پاکیزہ قرار دیا اور اسلام ہر دین سے بہتر ہے۔)

نیز بخاری نے اپنی صحیح جز چہارم ص64 میں مسلم نے اپنی صحیح جز دوم باب فضائل فاطمہ(س) میں، حمیدی نے جمع بین الصحیحن میں، عبدی نے جمع بین الصحاح الستہ میں ابن عبدالبر نے استیعاب ضمن حالات حضرت فاطمہ(س) میں، امام ابن حنبل نے مسند جز ششم ص283 میں، محمد بن سعد کاتب نے طبقات جلد دوم مرض و بستر بیماری میں ارشادات رسول(ص) کے ذیل میں اور جلد ششم میں جناب فاطمہ(س) کے حالات نقل کرتے ہوئے ایک طولانی حدیث کے سلسلے میں (جس کو مکمل طور پر نقل کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں) ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

" يا فاطمة الا ترضين ان تکونی سيدة نساء العالمين "

(یعنی اے فاطمہ(س) آیا تم خوش نہیں ہو اس سے کہ زنان عالمین کی سردار ہو۔)

ابن حجر عسقلانی نے اسی عبارت کو صابہ میں حالات جناب فاطمہ(س) کے ضمن میں نقل کیا ہے۔ یعنی تم عالمین کی عورتوں میں سب سے بہتر ہو۔ نیز بخاری و سلم نے اپنی صحیحیں میں امام شافعی نے تفسیر میں، امام احمد ابن حنبل نے مسند میں، طبرانی نے معجم الکبیر میں، سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب42 میں تفسیر ابن ابی حاتم و مناقب و حاکم و و سبط و اسدی حلیۃ الاولیاء حافظ ابونعیم اصفہانی و فرائد حموینی سے، ابن حجر مکی نے صواعق کے-- چہاردھم کے ذیل میں احمد سے ، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، طبری نے تفسیر میں واحدی نے اسباب النزول میں، ابن مغازل شافعی نے مناقب میں، محب الدین طبری نے ریاض میں، شبلنجی نے نورالابصار میں ، زمخشری نے تفسیر میں، سیوطی نے در المنثور میں، ابن عساکر نے تاریخ میں، علامہ سرودی نے تاریخ المدینہ میں فاضل نیشاپوری نے تفسیرمیں، قاضی بیضاوی نے تفسیر میں، امام فخرالدین رازی نے تفسیر کبیر میں، سید ابوبکر شہاب الدین علوی نے شفتہ الصاری باب اول میں ص23 سے ص 24 تک تفسیر -- و ثعلبی و سیرہ ملاو مناقب احمد کبیر و اوسط طبرانی -- سے ، شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شہرادی شافعی نے کتاب الاتحاف ص5 میں حاتم و طبرانی -- جلال الدین سیوطی نے احیاء المیت میں تفاسیر ابن منذر و ابن ابی حاتم و ابن مرودیہ و معجم الکبیر طبرانی سے، اور ابن ابی حاتم اور حاکم نے یہاں تک کہ عام طور پر آپ کے جملہ اکابر علما نے (سوا چند تھوڑے سے متعصبین بنی امیہ کے پیرو اور دشمنان اہل بیت کے ) ابن عباس خیر امت ، اور دوسروں سے نقل کیا ہے کہ جس وقت سورہ نمبر42 ( سورہ شوری) کی آیت نمبر23 "قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيها حُسْناً"

(یعنی کہہ دو امت سے ) کہ میں تم سے اجر رسالت سوا اس کے اور کچھ نہیں چاہتا کہ میرے گھر والوں سے محبت رکھو، اور جو شخص نیک کام انجام دے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کرویں گے) نازل ہوئی تو اصحاب کی ایک جماعت نے عرض کیا :

"يا رسول اللّه ، من

۲۰۲

قرابتك ؟ قال: «عليّ و فاطمة و الحسن و الحسين "

یعنی آپ کے قرابتدار کو ن ہیں جن کی دوستی اور مودت خدا نے ہم پر واجب فرمائی ہے؟ ( یعنی اس آیہ مبارک میں) تو آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ وہ افراد علی(ع) و فاطمہ(س) اور حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ اور بعض روایات میں وابناهما وارد ہے یعنی ان کے دونوں فرزند۔

اسی طرح کے اخبار و احادیث آپ کے معتبر کتابوں میں بہت وارد ہوئے ہیں جن سب کو ذکر کرنے کی وقت میں گنجائش نہیں ہے اور آپ کے علماء کے نزدیک یہ مطلب حد شیاع تک پہنچا ہوا ہے۔

محبت اہل بیت(ع) کے وجوب میں شافعی کا اقرار

یہاں تک کہ ابن حجر ایسے متعصب نے بھی صواعق محرقہ ص88 میں، حافظ جمال الدین زرندی نے معراج الوصول میں، شیخ عبداللہ شبراوی نے کتاب الاتحاف ص26 میں، محمد بن علی صبان مصری نے اسعاف الراغبین ص119 میں اور دوسرے علماء نے امام محمد بن ادریس شافعی سے جو آپ کے ائمہ اربعہ میں سے اور شافعیوں کے رئیس ہیں نقل کیا ہے کہ آپ کہتے تھے۔

يا أهل بيت رسول اللّه حبكم فرض من اللّه في القرآن أنزله

كفاكم من عظيم القدر أنكم من لم يصلّ عليكم لا صلاة له

( یعنی اے اہل بیت رسول خدا (ص) آپ کی محبت اور دوستی خدا کی جانب سے واجب ہوئی ہے جو قرآں میں نازل ہوئی ہے( آیت مذکورہ کی طرف اشارہ ) آپ کی عظمت منزلت میں یہی کافی ہے کہ جو شخص آپ ( آل محمد(ص)) پر صلوات نہ بھیجے اس کی نماز قبول نہ ہوگی) اب میں آپ حضرات سے اںصاف کے ساتھ پوچھتا ہوں کہ آیا وہ ایک طرفہ حدیث جس کو آپ نے نقل کیا ہے، ان ساری صحیح و صریح اور متفق بین الفریقین شیعہ و سنی بے شمار حدیثوں اور آیتوں کے مقابلے میں آسکتی ہیں؟ آیا اس کو عقل قبول کرتی ہے کہ جس کی محبت و مودت کو خدائے تعالی نے قرآن مجید میں لوگوں پر فرض قرار دیا ہو رسول اللہ(ص) اس کو چھوڑ دیں اور دوسروں کو اس پر ترجیح دیں؟

آیا آنحضرت (ص) کے لیے ہوا و ہوس کا تصور ہوسکتا ہے کہ ہم کہیں آپ اپنی خواہش نفس کی بناء پر عائشہ کو جن کی افضلیت پر کوئی دلیل نہیں ہے ( سوا اس کے کہ رسول خدا(ص) کی زوجہ اور تمام ازواج پیغمبر کی طرح ام المومنین تھیں) جناب فاطمہ(س) سے زیادہ دوست رکھتے ہوں گے جن کی محبت و مودت کو خدائے تعالے نے قرآن مجید میں فرض اور واجب قرار دیا ہے۔ جن کی شان میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہے اور جن کو بحکم قرآن مباہلے میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آپ خود جانتے ہیں کہ انبیاء و اولیاء ہوائے نفس کی پیروی نہیں کرتے اور سوائے خدا کے کسی پر نظر نہیں رکھتے، بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت رسول خدا(ص) جو حقیقتا حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کے حامل تھے اور قطعا اسی کو دوست رکھتے تھے جس کو خدا دوست رکھتا تھا اور اسی شخص کو دشمن رکھتے تھے

۲۰۳

جس کو خدا دشمن رکھتا تھا۔

یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آں حضرت (ص) آں فاطمہ(س) کو چھوڑ دیں جن کی محبت و مودت کو خدا نے فرض اور واجب کیا اور دوسرے کو ان ترجیح دیں۔ بس اگر جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو دوست رکھتے تھے تو محض اسی وجہ سے کہ خدا ان کو محبوب رکھتا تھا۔

آیا عقل باور کرتی ہے کہ آں حضرت(ص) اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو محبت کے معاملے میں اس ذات پر ترجیح دیں جس کے متعلق خود یہ فرماتے تھے کہ خدا نے ان کو برگزیدہ کیا اور ان کی محبت کو انسانوں پر فرض قرار دیا ہے؟ اب آپ کو چاہیے کہ یا تو ان تمام اخبار صحیحہ و صریحہ کو جو اکابر علمائے فریقین کے یہاں مقبول ہیں اور آیات قرآن مجید ان کی تائید کر رہی ہیں رد کیجئے یا جو یہ حدیث آپ نے بیان کی ہے اس کو طے نشدہ، جعلی حدیثوں میں شمار کیجئے، تاکہ یہ تناقض ختم ہوجائے ۔ اور خلیفہ ابوبکر کے بارے میں جو آپ نے فرمایا کہ آںحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا، میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ابوبکر ہیں تو یہ آن بکثرت معتبر روایات کے خلاف ہے جو خود آپ ہی کے بڑے بڑے ثقہ راویوں اور عالموں کے طریقوں سے منقول ہیں کہ پیغمبر(ص) کے نزدیک امت کے مردوں میں سب سے زیادہ محبوب علی علیہ السلام تھے۔

پیغمبر(ص) کے نزدیک علی(ع) تمام مردوں سے زیادہ محبوب تھے

چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب 55 میں ترمذی سے بریدہ کی یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " کان احب النساء فی رسول الله فاطمة و من الرجال علی "

( یعنی پیغمبر کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں علی علیہ السلام تھے)

محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب 91 میں ام المومنین عائشہ کی سند سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا " ما خلق الله خلقا کان احب الی رسول الله من علی ابن ابی طالب " ( یعنی خدا نے کسی ایسی مخلوق کو پیدا نہیں کیا جو رسول اللہ کے لیے علی (ع) سے زیادہ محبوب ہو) اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ وہ حدیث ہے جس کو ابن عساکر نے اپنے مناقب میں اور ابن عساکر دمشقی نے ترجمہ حالات علی علیہ السلام میں روایت کیا ہے۔

محی الدین ( امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی ذخائر العقبی میں ترمذی سے نقل کرتے ہیں کہ عائشہ سے لوگوں نے پوچھا کہ رسول اللہ(ص) کے نزدیک کون عورت سب سے زیادہ محبوب تھی؟ انہوں نے کہا فاطمہ(س) پھر پوچھا کہ مردوں میں آںحضرت(ص) کو کون محبوب تر تھا؟ تو کہا کہ " زوجہا علی ابن ابی طالب" یعنی ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

نیز مخلص ذہبی اور حافظ ابو القاسم دمشقی سے اور وہ عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" ما رائيت رجلا احب الی النبی صلی الله عليه وآله وسلم من علی ولا احب اليه من فاطمة "

یعنی میں نے کسی مرد کو رسول (ص) کے

۲۰۴

نزدیک علی (ع) سے زیادہ محبوب نہیں دیکھا اور نہ فاطمہ(س) سے محبوب تر دیکھا۔

نیز حافظ خجندی سے اور وہ معاذۃ الغفاریہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ میں عائشہ کے یہاں خدمت رسول(ص) میں مشرف ہوئی اور علی علیہ السلام گھر کے باہر موجود تھے، آںحضرت(ص) نے عائشہ سے فرمایا:

" انّ هذا احبّ الرجال الىّ و اكرمهم علىّ فاعرفى له حقّه و اكرمى مثواه"

یعنی یہ علی(ع) میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ ۔۔۔۔ باعزت ہیں لہذا انکا حق پہچانو اور ان کے مرتبے کی تعظیم و توقیر کرو) شیخ عبداللہ بن محمد بن عامر شبراوی شافعی جو آپ کے جلیل القدر علماء میں سے ہیں کتاب الاتحاف بحب الاشراف ص9 میں، سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت میں اور محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص6 میں ترمذی سے اور وہ جمیع بن عمیر سے نقل کرتے ہیں کہ کہ انہوں نے کہا میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ ام المومنین عائشہ کے پاس گیا اور ہم لوگوں نے ان سے پوچھا کہ رسول خدا(ص) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخص کون تھا؟ عائشہ نے کہا کہ عورتوں میں فاطمہ(س) اور مردوں ان کے شوہر علی ابن ابی طالب۔

اسی روایت کو میر سید علی ہمدانی شافعی نے مودۃ القربی مودت یازدہم میں اتنے فرق کے ساتھ نقل کیا ہے کہ جمیع نے کہا میں نے اپنی پھوپھی سے دریافت کیا تو یہ جواب ملا۔

نیز خطیب خوارزمی نے مناقب فصل ششم کے آخر میں جمیع بن عمیر سے اور انہوں نے عائشہ سے اس خبر کو نقل کیا ہے ۔ ابن حجر مکی صواعق محرقہ فصل دوم کے آخر میں حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں چالیس حدیثیں نقل کرنے کے بعد عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

" کانت فاطمة احب النساء الی رسول الله صلی الله عليه و آله و زوجها احب الرجال "

یعنی پیغمبر(ص) کے نزدیک عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب فاطمہ(س) اور مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ان کے شوہر علی ابن ابی طالب(ع) تھے) نیز محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص7 میں اس موضوع پر چند مفصل روایتیں نقل کرنے کے بعد اس عبارت کے ساتھ اپنے عقیدے اور تحقیق کا اظہار کرتے ہیں۔:

" فثبت بهذه الاحاديث الصحيحة والاخبار الصريحه ان فاطمة کانت احب الی رسول الله من غيرها و انها سيدة نساء اهل الجنة و انها سيدة نساء هذه الامة و سيدة نساء اهل الجنة "

یعنی احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ سے ثابت ہوا کہ فاطمہ(س) رسول اللہ(ص) کو اپنے علاوہ ہر ایک شخصیت سے زیادہ محبوب تھیں اور یقینا وہ بہشت کی عورتوں کی سردار اس امت کی عورتوں کی سردار اور مدینے کی عورتوں کی سردار تھیں۔)

پس یہ مطلب عقلی و نقلی دلائل سے ثابت ہے کہ علی و فاطمہ علیہما السلام سارے مخلوقات میں رسول اللہ(س) کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اور پیغمبر(ص) ک نزدیک علی کی محبوبیت اور دوسروں پر فوقیت کے ثبوت میں ان تمام روایات سے زیادہ اہم مشہور و معروف حدیث طیر ہے جس سے مکمل طور پر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی آں حضرت (ص) کو ساری امت میں سب سے زیادہ محبوب تھے اور یقینا آپ خود بھی خوب جانتے ہیںکہ حدیث طیر فریقین ( سنی شیعہ) کے درمیان اس قدر مشہور ہے کہ اس کو سند نقل کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن محترم حاضرین جلسہ کی وسعت نظر کے لیے تاکہ ان پر حقیقت مشتبہ نہ رہ جائے اور ان کو

۲۰۵

یہ خیال پیدا نہ ہو کہ شیعہ اس قسم کی حدیثوں کو وضع کرتے ہیں اس کے بعض اسناد جو اس وقت میری نظر میں ہیں عرض کرتا ہوں۔

حدیث طیر

بخاری ، ترمذی، نسائی، اور سجستانی نے اپنی معتبر صحاح میں، امام ابن حنبل نے مسند میں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ کے باب 8 کو حدیث طیر اور اس کے روایات کے نقل سے مخصوص کیا ہے اور احمد بن حنبل ، ترمذی، موفق ابن احمد، ابن مغازلی ، سنن ابی داوود ، رسول کے غلام سفینہ، انس بن مالک اور ابن عباس سے روایت کی ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں حدیث طیر کو چوبیس راویوں نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ مالکی نے فصول المہمہ میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے کہ

" وذالک انه صح النقل فی کتب الاحاديث الصحيحه والاخبار الصريحه عن انس بن مالک "

جس کا مطلب یہ ہے کہ کتب احادیث صحیحہ اور اخبار صریحہ میں انس بن مالک سے حدیث طیر کی نقل مسلسل طور پر صحیح ہے ۔ سبط ابن جوزی نے تذکرہ ص23 میں فضائل احمد اور سنن ترمذی سے اور مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص49 میں حدیث کے آخری حصے کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں پیغمبر(ص) کی دعا اور اس کی قبولیت ہے امام ابو عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی حدیث نہم میں اور حافظ بن عقدہ و محمد بن جریر طبری دونوں سے ہر ایک نے اس حدیث کے تواتر اسانید میں کہ اس کو پینتیس صحابہ نے انس سے روایت کیا ہے ایک مخصوص کتاب لکھی ہے اور حافظ ابو نعیم نے اس باب میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے خلاصہ یہ کہ آپ کے سارے اکابر علماءنے اس حدیث شریف کی تصدیق کی ہے اور اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے، چنانچہ صاحب زہد و ورع محقق و ثقہ علامہ سید حسین صاحب اعلی اللہ مقامہ نےجن کے علم و عمل اور تقوی کو جو ہندوستان میں اظہر من الشمس تھا آپ حضرات قریب ہونے کی وجہ سے اچھی طرح جانتے ہیں اپنی کتاب طبقات الانوار بڑی بڑی جلدوں میں سے ایک عظیم وضخیم جلد حدیث طیر سے مخصوص کر رکھی ہے اور اس میں آپ کے بزرگ علماء کی خاص کتابوں میں سے تمام معتبر اسناد جمع کردیے ہیں۔ اس وقت میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اس حدیث کو کتنی سندوں کےساتھ نقل کیا ہے البتہ اس قدر یاد ہے کہ اس کے اسناد پڑھنے کے وقت میں ان سید بزرگوار کی زحمتوں اور اہم دینی خدمتوں کو دیکھ کر مبہوت ہوگیا تھا کہ ایک چھوٹی سی حدیث کو صرف آپ کے طریقوں سے کس طرح تواتر کےساتھ ثابت کیا ہے۔ان تمام اخبار کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ جملہ شیعہ و سنی مسلمانوں نے ہر دور اور ہر زمانے میں اس حدیث کی صحت کا اقرار و اعتراف اور تصدیق کی ہے کہ ایک روز کوئی عورت ایک بنا ہوا طائر ہدیے کے طور پر جناب رسول اللہ(ص) کی خدمت میں لائی ، آں حضرت(ص) نے اس کو تناول فرمانے سے پہلے بارگاہ الہی میں دست دعا بلند فرمائے اور عرض کیا

" اللّهم ائتني بأحبّ خلقك إليك يأكل معي من هذا الطير فجاء عليّ فأكل معه."

( یعنی پرودگارا جو شخص میرے اور تیرے نزدیک تیری مخلوق میں سب سے زیادہ

۲۰۶

محبوب ہو اس کو میرے پاس بھیج دے تاکہ اس بھنے ہوئے طائر میں سے میرے ساتھ نوش کرے، اس وقت علی علیہ السلام آئے اور آں حضرت(ص) کے ساتھ اس کو تناول کیا۔

اور آپ کی بعض کتابوں میں جیسے فصول المہمہ مالکی، تاریخ حافظ نیشاپوری، کفایت الطالب گنجی شافعی اور مسند احمد وغیرہ جن میں انس بن مالک سے روایت کی ہےاس طرح ذکر کیا کہ انس نے کہا، پیغمبر(ص) اس دعا میں مشغول تھے کہ علی(ع) گھر میں آئے میں نے بہانہ کر دیا اور اس کو پوشیدہ رکھا، تیسری مرتبہ آپ نے پاوں دروازے پر مارا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا ان کو آنے دو۔ جوں ہی علی(ع) پہنچے آنحضرت (ص) نے فرمایا " ماحسبک عنی یرحمک اللہ" خدا تم پر رحمت نازل کرے کس چیز نے تم کو میرے پاس آنے سے باز رکھا ؟ تو آپ نے عرض کیا کہ میں تین مرتبہ دروازے پر حاضر ہوا اور اب کی تیسری دفعہ میں آپ کی خدمت تک پہنچا۔ آںحضرت (ص) نے فرمایا اے انس تم کو کس چیز نے اس حرکت پر مجبور کیا کہ علی(ع) کو میرے پاس آنے سے منع کیا؟ میں نے عرض کیا کہ سچی بات یہ ہے کہ جب میں نے آپ کی دعا سنی تو یہ تمنا پیدا ہوئی کہ میری ہی قوم کا کوئی شخص اس درجے پر فائز ہو۔ اب میں آپ حضرات سے سوال کرتا ہوں کہ آیا خدائے تعالے نے اپنے رسول خاتم الانبیاء(ص) کی دعا قبول فرمائی یا رد کردی؟

شیخ : بدیہی چیز ہے کہ خدا نے قرآن کریم میں چونکہ دعائیں قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ گرامی منزلت پیغمبر(ص) ہرگز کوئی بے جا درخواست نہیں کرتے لہذا قطعا آن حضرت(ص) کی خواہش اور دعا کو منظور اور قبول فرماتا تھا۔

خیر طلب " پس اس صورت میں خدائے جل و علا نے اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین فرد کو اختیار و انتخاب کر کے اپنے پیغمبر(ص) کے پاس بھیجا اور وہ ساری امت کے درمیان بزرگ و برتر محبوب جو کل مخلوقات میں سے چنا ہوا اور خدا و رسول کے نزدیک امت میں سب سے زیادہ محبوب تھا علی بن ابی طالب علیہ السلام تھے۔ چنانچہ خود آپ کےبڑے بڑے علماء نے اس بات کی تصدیق کی ہے۔ مثلا محمد بن طلحہ شافعی نےجو آپ کے فقہاء اور اکابر علماء میں سے تھے مطالب السئول باب اول فصل پنجم کے اوائل میں ص15 پر حدیث رایت اور حدیث طیر کی مناسبت سے تقریبا ایک صفحے میں شیرین بیانی اور دل نشین تحقیقات کے ساتھ تمام امت کے درمیان خدا و رسول(ص) کی محبوبیت کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی عظمت و منزلت کو ثابت کیا ہے اور ضمنا کہتے ہیں

" و اراد النبی ان يتحقق الناس ثبوت هذه المنقبة المنسيئة والصفة العليه التی هی اعلی درجات المتقين لعلی الخ"

( یعنی پیغمبر(ص) نے ارادہ فرمایا کہ اس روشن منقبت اور بلند صفت کا جو پرہیزگاروں کےدرجات میں سب سے بالاتر ہے( یعنی خدا و رسول کا محبوب ہونا) علی (ع) کے اندر قائم ہونا لوگوں کی نگاہوں میں ثابت ہوجائے۔

نیز شام کے حافظ و محدث محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی سنہ658ھ کفایت الطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب علیہ السلام باب33 میں حدیث طیر کو اپنے معتبر اسناد کے ساتھ چار طریقوں سے اس اور سفینہ سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ محاملی نے اپنی جز نہم میں اس حدیث کو درج کیا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اس حدیث میں کھلی ہوئی دلالت ہے اس بات پر کہ علی علیہ السلام

۲۰۷

خدا کی بارگاہ میں کل مخلوق سے زیادہ پیارے ہیں اور اس مقصد پر سب دلیلوں سے اہم دلیل یہ ہے کہ خدا نے اپنے رسول (ص) کی وہ دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے لہذا جب رسول اللہ(ص) نے دعا کی تو خدا نے بھی فورا قبول فرمایا اور محبوب ترین خلق کو آنحضرت(ص) کی طرف بھیج دیا اور وہ علی علیہ السلام تھے۔

اس کے بعد کہتے ہیں کہ انس سے منقول حدیث طیر کو حاکم ابوعبداللہ حافظ نیشاپوری نے چھیاسی راویوں سے نقل کیا ہے اور ان سب نے انس سے روایت کی ہے۔ پھر ان چھیاسی افراد کے نام بھی لکھے ہیں۔ ( شائقین کفایت الطالب(1) باب 33 کی طرف رجوع فرمائیں اب ذرا آپ حضرات انصاف فرمائیں کہ آیا جو حدیث آپ نے نقل کی ہے وہ معارض حدیثوں اور بالخصوص حدیث رایت اور اس با عظمت حدیث طیر کے مقابلے میں آسکتی ہے؟ قطعا جواب نفی میں ہوگا۔ پس ایک آپ کی یک طرفہ حدیث سے ان احادیث کے مقابلے میں جن کو آپ کے اکابر علماء نے سوا چند متعصب کینہ پرور لوگوں کے نقل کیا ہے اور ان کی صحت کی تصدیق کی ہے ہرگز سند نہیں لی جاسکتی بلکہ وہ ارباب تحقیق اور صاحبان جرح و تعدیل کے نزدیک مردود اور ناقابل اعتبار ٹھہرتی ہے۔

شیخ : میرا خیال ہے آپ نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو کچھ ہم کہیں گے اس کو نہ مانیے گا اور کافی اصرار کےساتھ اس کو رد کیجئے گا۔

بیان حقیقت

خیر طلب : مجھ کو آپ جیسے عالم انسان سے سخت تعجب ہے کہ اتنے حاضرین جلسہ کے سامنے مجھ پر ایسا غلط الزام عائد کر رہے ہیں۔ کس وقت آپ حضرات ن علم و عقل اور منطق کے مطابق کوئی دلیل قائم کیجس کے مقابلے میں میں نے ضد سے کام لیا اور اس کو قبول نہیں کیا تاکہ اس کے نتیجے میں آپ کی سرزنش کا مستحق قرار پاوں ؟ میں خدا کی توفیق اور تائید سے محروم ہو جاوں اگر میرے اندر ہٹ دھرمی اور جاہلانہ تعصب و عناد کا شائبہ بھی ہو، یا برادران اہل سنت کے ساتھ عمومی یا خصوصی طور پر کوئی عداوت کا نظریہ رکھتا ہوں۔

میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ یہود و ںصاری اہل ہنود اور برہمنوں ، ایران میں ناقابل بہائیوں ہندوستان میں قادیانیوں یا مادہ اور طبیعت کے پجاریوں اور دوسرے مخالفین کے ساتھ بھی مناظروں میں کبھی میں نے ضد وغیرہ سے کام نہیں لیا، ہر مقام پر اور ہر وقت خدا پر نظر رکھی اور ہمیشہ میرا منطق علم و عقل اور منطق انصاف کے روسے حقیقت کو ظاہر کرنا رہا ہے۔ جب میں نے کافر ، مرتد اور نجس لوگوں سے ہٹ دھرمی نہیں کی ہے تو آپ کے ساتھ ایسا کیوں کر کرسکتا ہوں کیونکہ آپ لوگ ہمارے اسلامی بھائی ہیں۔ ہم سب ایک دین ایک قبلہ ایک کتاب کے ماننے والے اور ایک پیغمبر(ص) کے احکام کے تابع ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ ابتداء سے آپ کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ غالبا ی بات33 ہے جیسا کہ اس سے قبل کے حوالے میں موجود ہے۔ 12 مترجم۔

۲۰۸

دماغ میں جو غلط فہمیاں راسخ اور عادت کی بنا پر طبیعت ثانیہ بن چکی ہیں ان کی کدورت منطق اور انصاف کے چھینٹوں سے بر طرف کردی جائے۔

خدا کے فضل سے آپ عالم ہیں اگر عادت ، اسلاف کی پیروی اور تعصب سے تھوڑا الگ ہوکر اںصاف کے دائرے میں آجائے تو ہم مکمل طور پر صحیح نتیجے تک پہنچ جائیں۔

شیخ : ہم نے شہر لاہور میں ہندووں اور برہمنوں کے ساتھ آپ کے مناظروں کاطریقہ روز ناموں اور ہفتہ وار اخبارات میں پرھا تھا جس سے ہم کو بہت خوشی ہوئی تھی اور باوجودیکہ ابھی آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن ایک قلبی تعلق محسوس کرنے لگے تھے۔ امید ہے کہ خدا ہم کو اور آپ کو توفیق دے تاکہ حق اور حقیقت ظاہر ہوجائے ۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ اگر روایات میں کوئی شبہ ہو تو جیسا کہ خود آپ نے فرمایا ہےقرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیئے ۔ اگر آپ خلیفہ ابوبکر کی فضیلت اور خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت میں احادیث کو مشتبہ سمجھتے ہیں تو کیا آیات قرآن کریم کے دلائل میں بھی شک و شبہ وارد کیجئے گا؟

خیر طلب : خدا وہ دن نہ لائے کہ میں قرآنی دلائل یا صحیح احادیث میں شک کروں، فقط چیز یہ ہے کہ ہر قوم و ملت یہاں تک کہ دین سے منحرف و مرتد لوگوں سے بھی جب ہمارا مقابلہ ہوا ہے تو وہ بھی اپنی حقانیت پر قرآن کی آیتوں سے استدلال کرتے تھے چونکہ قرآن مجید کے آیات ذو معانی ہیں لہذا خاتم الانبیاء نے لوگوں کی افراط و تفریط اور مغالطوں کوروکنے کے لیے قرآن کو امت کے درمیان تنہا نہیں چھوڑا بلکہ باتفاق علمائے فریقین ( شیعہ وسنی) جیسا کہ پچھلی شبوں میں عرض کرچکا ہوں: " إنّي تارك فيكم الثقلين كتاب اللّه و عترتي ما إن تمسّكتم بهما فقد نجوتم " اور بعض روایات میں ارشاد ہے لن تضلوا ابدا ( یعنی در حقیقت میں تمہارے درمیان دو بزرگ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، کتاب خدا اور میری عترت اگر ان دونوں ( کتاب وعترت ) سے تمسک رکھوگے ت نجات پاو گے اور ہرگز گمراہ نہ ہوگے ( رجوع ہو اس کتاب کے ص92، 93 کی طرف )

لہذا قرآن کے مفہوم و حقیقت اور شان نزول کو خود رسول اللہ(ص) سے جو قرآن کے حقیقی شارح ہیں اور ان حضرت کے بعد عدیل قرآن سے جو آن حضرت(ص) کی عترت اور اہل بیت ہیں دریافت کرنا چاہئے۔ جیسا کہ سورہ نمبر21 (انبیاء) آیت 7 میں ارشاد ہے " فاسئلوا أهل الذّكر إن كنتم لا تعلمون" ( یعنی اے ہمارے رسول امت سے کہہ دیجئے کہ) اگر تم خود جانتے ہوتو اہل ذکر اور صاحبان علم( یعنی آل محمد(ص) جو سب سے زیادہ عالم ہیں) سے دریافت کرو۔)

اہل ذکر آل محمد(ص) ہیں

اہل ذکر سے مراد حضرت علی(ع) اور آپ کی اولاد میں سے ائمہ علیہم السلام ہیں جو عدیل قرآن ہیں چنانچہ شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودہ مطبوعہ اسلامبول باب39 ص119 میں امام ثعلبی کی تفسیر کشف البیان سے بروایت جابر ابن عبداللہ انصاری

۲۰۹

نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا " قال علی ابن ابی طالب نحن اہل الذکر " یعنی علی علیہ السلام نے فرمایا ہم ( خاندان رسالت) اہل ذکر ہیں۔ چونکہ ذکر قرآن کا ایک نام ہے اور اس جلیل القدر خاندان والے اہل قرآن ہیں اسی وجہ سے ہمارے اور آپ کے علماء نے اپنی معتبر کتابوں میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام فرماتے تھے:

" سلونى قبل ان تفقدونى سلونى عن كتاب اللَّه تعالى فان ه ليس من آية الّا قد عرفت بليل نزلت ام نهارا ام فی سهل ام فی جبل و ما نزلت آية إلّا و قد علمت فيمن نزلت و فيما نزلت و إنّ ربّي وهب لي لسانا طلقا و قلبا عقولا"

(یعنی پوچھ مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاو کتاب خدا کے متعلق مجھ سے دریافت کرو کیونکہ قرآن کی کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کو میں نہ جانتا ہوں کہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں ہوا اور زمین میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ میں۔ خدا کی قسم کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ہے لیکن یہ یقینا جانتا ہوں کہ کس بارے میں نازل ہوئی اور کہاں نازل ہوئی اور کس پر نازل کی گئی ہے اور در حقیقت خدا نے مجھ کو فصیح زبان اور دانش مند دل عنایت فرمایا ہے) پس قرآن کی جس آیت سے بھی استدلال کیا جائے اس کو حقیقی مفہوم اور مفسرین کے بیان سے مطابق ہونا چاہئیے ورنہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے اور اپنے ذوق و فکر اور عقیدے کے روسے آیات قرآنی کی تفسیر کریگا تو سوا اختلاف بیان اور خیالات کی پراگندگی کے کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوگا اب اس تمہید کے پیش نظر میری درخواست ہے کہ اپنی منتخبہ آیات بیان فرمائیے اگر مقصد سے مطابقت کرے گی تو جان و دل سے قبول کر کے اپنے سر پر جگہ دوں گا۔

خلفائے اربعہ کے طریقہ خلافت میں نقل آیت اور اس کا جواب

شیخ : سورہ 38 (فتح) آیت نمبر29 میں کھلا ہوا ارشاد ہے :

"مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَ الَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً- يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَ رِضْواناً سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ "

( یعنی محمد(ص) خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھی کافروں پر بہت سخت اور آپس میں ایک دوسرے پر شفیق ومہربان ہیں، ان کو تم زیادہ تر رکوع و سجود کے عالم میں دیکھو گے جو فضل و رحمت اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں، ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان پڑے ہوئے ہیں۔)

یہ آیہ شریفہ ایک طرف سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فضل و شرف کو ثابت کررہی ہے اور دوسری طرف سے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے طریقہ خلافت کو معین کرتی ہے، بخلاف اس کے کہ جیسا کہ شیعہ فرقے والے دعوی کرتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ پہلے خلیفہ ہیں۔ یہ آیت صراحت کے ساتھ علی(ع) کو چوتھا خلیفہ ظاہر کرتی ہیں۔

خیر طلب : آیہ شریفہ کے ظاہر سے تو کوئی ایسی چیز و خلفائے راشدین کے طریقہ خلافت اور ابوبکر کی فضیلت پر دلالت کرتی ہو نظر نہیں آتی ، البتہ ضرورت اس کی ہے کہ آپ وضاحت کیجئے کہ یہ صراحت آیت میں کس مقام پر ہے جس کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔

۲۱۰

شیخ : خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت و شرافت پر آیت کی دلالت یہ ہے کہ آیت کے شروع میں کلمہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے اس مرد بزرگ کی منزلت کی طرف اشارہ ہوا ہے جو آپ کو لیلۃ الغار میں پیغمبر(ص) کے ساتھ حاصل تھی ۔ اور خلفائے راشدین کا طریقہ خلافت بھی اس آیت میں پوری صراحت کےساتھ واضح ہے کیونکہ وَ الَّذِينَ مَعَهُ سے مراد ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جو شب ہجرت غار ثور میں پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھے، أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ مراد ہیں جو کفار پر بہت سخت گیری کرتے تھے، رُحَماءُ بَيْنَهُمْ عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ ہیں جو بہت رقیق القلب اور رحم دل تھے ۔" سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ " علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہیں۔

امید ہے کہ یہ چیز آپ کے بے لوث خیال کے موافق ہوگی اور آپ تصدیق کیجئے گا کہ حق ہمارے ساتھ ہے جو علی(ع) کو چوتھا خلیفہ جانتے ہیں نہ کہ خلیفہ اول، کیونکہ خدا نے بھی قرآن میں ان کا ذکر چوتھے نمبر پر کیا ہے۔

خیر طلب: میں حیرت میں ہوں کہ جواب کس انداز میں عرض کروں تاکہ خود غرضی کا الزام عائد نہ ہو، اگر بغیر تعصب کے اںصاف کی ںظر سے دیکھیے تو تصدیق فرمائیے گا کہ کوئی غرض کار فرما نہیں ہے بلکہ مقصد صرف اظہار حقیقت ہے۔ علاوہ اس کے کہ از باب تفسیر نے یہاں تک کہ خود آپ کے علماء نے بڑی بڑی تفسیروں میں اس آیہ شریفہ کے شان نزول میں یہ مطلب بیان نہیں کیا ہے اگر یہ آیت قرآنی امر خلافت کے بارے میں ہوتی تو روز اول وفات رسول(ص) کے بعد حضرت علی علیہ السلام بنی ہاشم اور کبار صحابہ کے اعتراضات کے مقابلے میں فرضی شاخ بزرگ پیدا کرنے کی ضرورت نہ ہوتی بلکہ یہ آیت پیش کر کے مسکت جواب دے دیا جاتا۔ پس معلوم ہوا کہ آیت کے جو معنی آپ نے بیان کئے ہیں وہ ایجاد بندہ ہیں جو مدتوں بعد حضرت ابوبکر و عمر کے طرف داروں نے تصنیف کئے ہیں۔

اس لیے کہ خود آپ کے اکابر مفسرین جسیسے طبری، امام ثعلبی، فاضل نیشاپوری، جلال الدین سیوطی، قاضی بیضاوی، جار اللہ زمخشری اور امام فخرالدین رازی وغیرہ نے بھی یہ تفسیر بیان نہیں کی ہے پس میں نہیں جانتا کہ آپ کہاں سے یہ بات کہہ رہے ہیں اور یہ معنی کس وقت سے اور کن اشخاص کے ہاتھوں پیدا ہوئے؟ اس کے علاوہ خود آیہ شریفہ میں علمی ، ادبی اور عملی موانع موجود ہیں جو ثابت کررہے ہیں کہ جو شخص اس قول کا قائل ہوا ہے اس نے بے کار ہاتھ پاوں مارے ہیں اور اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوا ہے جس کو خود آپ کے بڑے بڑے علماء نے اپنی تفسیروں کے شروع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آن حضرت(ص) نے فرمایا : " ؟؟؟؟ القرآن برایہ فمقعدہ فی النار" یعنی جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے تو اس کا ٹھکانہ آگ میں ہے( اگر آپ کہئیے کہ تفسیر نہیں ہے تاویل ہے تو آپ حضرات باپ تاویل کو مطلقا مسدود جانتے ہیں، علاوہ اس کے یہ آیت شریفہ علم و ادب اور اصطلاح کے رو سے آپ کے مقصد کے برخلاف نتیجہ دے رہی ہے۔

شیخ : جھ کو یہ امید نہیں تھی کہ جناب عالی اتنی واضح آیت کے مقابلے میں بھی استقامت دکھائیں گے البتہ اگر آپ اس آیت میں کوئی ایراد حقیقت کے برخلاف رکھتے ہیں تو بیان کیجئے تاکہ اصلیت ظاہر ہو۔

۲۱۱

نواب : قبلہ صاحب میری خواہش ہے کہ جس طرح اب تک آپ ن ہماری درخواستوں کو قبول کیا ہے اور مطالب کو ایسے سادہ انداز میں بیان کیا ہے کہ تمام حاضرین جلسہ اور غیر حاضر اشخاص ان سے بہرہ مند ہوئے ہیں اس مقام پر بھی گفتگو میں انتہائی سادگی کا لحاظ فرمائیے ہم سب آپ کے ممنون ہوں گے کیونکہ یہی وہ آیت ہے جو برابر ہمارے سامنے پڑھی جاتی رہی ہے اور ہم سب کو اس کے ذریعہ حکم قرآن کا محکوم اور پابند بنایا گیا ہے۔

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ ہے کہ آیت کی عظمت اور شعبدہ بازوں کے نقل قول نے آپ حضرات کو ایسا مبہوت بنا رکھا ہے کہ آیت کے حقیقی معنی اور رموز اسرار سے غافل ہوگئے ہیں، اگر آپ خود اپنی جگہ پر اس کے نحوی ترکیبات اور ادبی معانی پر تھوڑی توجہ کر لیتے تو معلوم ہوجاتا کہ یہ آیت آپ کے مقصد اور مراد سے ہرگز مطابقت نہیں کر رہی ہے۔

شیخ : التماس ہے کہ آپ ہی ضمائر و ترکیبات کو بیان کیجئے تاکہ ہم دیکھیں کیونکر مطابقت نہیں کرتی ہے۔

خیر طلب: ترکیبی جہت سے تو آپ خود بہتر سمجھتے ہیں کہ اس آیہ مبارکہ کی ترکیب یقینی طور پر دو حال سے خارج نہیں ہے۔ یا محمد مبتداء ہے ، رسول اللہ عطف بیان ، والذین معہ عطف بر محمد(ص) ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔ یا والذین معہ مبتداء ہے ، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے وہ خبر بعد از خبر ہے۔

ان قواعد کے رو سے اگر ہم آپ کے عقیدے اور قول کے مطابق آیت کا ترجمہ کرنا چاہیں تو دو طرح کے معنی ظاہر ہوتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوبکر و عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔

اور اگر والذین معہ مبتداء ہو، اشداء اس کی خبر اور جو کچھ اس کے بعد ہے خبر بعد از خبر تو آیت کے معنی اس طرح ہوتے ہیں کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع) ہیں۔ بدیہی چیز ہے جس کو ہر مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ کلام کا یہ طریقہ غیر معقول اور نظم ادب سے خارج ہے۔

علاوہ اس کے اگر آیہ شریفہ سے خلفائے اربعہ مراد ہوتے تو ضرورت تھی کہ کلمات کے درمیان واو عطف رکھا جاتا تاکہ آپ کے مقصود سے مطابق ہوجاتے ، حالانکہ صورت اس کے برخلاف ہے۔

آپ کے جملہ مفسرین نے اس آیہ شریفہ کو تمام مومنین کے حق میں قرار دیا ہے یعنی کہتے ہیں کہ یہ تمام مومنین کی صفتیں ہیں۔ اور ظاہر آیت خود دلیل ہے کہ یہ کل مطالب ایک شخص کی صفتیں ہیں جو ابتداء سے پیغمبر(ص) کے ساتھ تھا نہ کہ چار نفر اور اگر ہم کہیں کہ وہ ایک فرد امیرالمومنین علی علیہ السلام تھے تو یہ دوسروں کی نسبت عقل و نقل کے مطابق کہیں زیادہ قابل قبول ہے۔

آیہ غار سے استدلال اور اس کا جواب

شیخ : تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں میں کج بحثی نہیں کرتا حالانکہ اس وقت آپ مجادلہ ہی کررہے ہیں۔ کیا ایسا

۲۱۲

نہیں ہے کہ خدا سورہ 9 ( توبہ) آیت نمبر40 میں صاف صاف فرماتا ہے:

" إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُما فِي الْغارِ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَ أَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْها."

( یعنی یقینا خدا نے ان کی ( رسول اللہ(ص) ) کی مدد کی جب کفار نے ان کو مکے سے خارج کردیا ، ان میں سے ایک(یعنی رسول اللہ(ص)) جو دونوں غار کے اندر تھے جس وقت اپنے ہم سفر سے ( یعنی ابوبکر سے جو مضطرب تھے) فرما رہے تھے غم نہ کرو یقینا خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اس وقت خدا نے ان پر ( یعنی رسول اللہ پر) اپنی طرف سے سکون و وقار نازل فرمایا اور ان کی ان غیبی لشکروں سے امداد کی جن کو تم نے نہیں دیکھا۔)

یہ آیت علاوہ اس کے کہ آیت ، قبل کی موئد ہے اور والذین معہ کا مقصد ثابت کرتی ہے کہ ابوبکر غار میں شب ہجرت رسول اللہ(ص) کے ساتھ تھے خود یہ مصاحبت اور پیغمبر(ص) کی ہمراہی تمام امت پر ابوبکر کے فضل و شرف کی ایک بڑی دلیل ہے اس لیے کہ پیغمبر(ص) چونکہ علم باطن سے جانتے تھے کہ ابوبکر ان کے خلیفہ ہیں اور خلیفہ کا وجود ان کے بعد ضروری ہے اور اپنی ذات کے مانند ان کی بھی حفاظت کرنا چاہئے لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے تاکہ دشمن کے ہاتھ میں گرفتار نہ ہوجائیں۔ اور یہ بتاو مسلمانوں میں سے کسی اور کے ساتھ نہیں کیا، پس اسی جہت سے ان کے لیے تقدم خلافت کا حق ثابت ہوا۔

خیر طلب : اگر آپ حضرات کسی وقت سنیت کا لباس اتار کے اور تعصب وعادت سےالگ ہو کر ایک غیر جانبدار اور غیر متعصب انسان کے مانند اس آیہ شریفہ کے پہلووں پر غور کریں تو تصدیق کریں گے کہ جو نتیجہ آپ کے پیش نظر ہے وہ اس آیہ سے حاصل نہیں ہوتا۔

شیخ : بہتر ہے کہ اگر مقصد کے خلاف کچھ منطقی دلائل ہیں تو بیان فرمائیے۔

خیر طلب : میری خواہش ہے کہ اس موقع سے چشم پوشی فرمائیے کیونکہ بات سے بات پیدا ہوتی ہے، اس وقت ممکن ہے کہ بعض غیر منصف لوگ اسی کو عداوت کی نظر سے دیکھیں ، آپس میں رنجش پیدا ہو اور یہ خیال قائم کیا جائے کہ ہم مقام خلفاء کی اہانت کرنا چاہتیے ہیں، حالانکہ ہر فرد کی حیثیت اپنی جگہ پر محفوظ ہے اور ان کے لیے بے جا تفسیر و تاویل کی احتیاج نہیں۔

شیخ : میری درخواست ہے کہ بغلیں نہ جھانکئے اور مطمئن رہئے ، منطقی دلائل رنجش نہیں پیدا کرتے ہیں بلکہ ان سے پردے ہٹتے ہیں۔

خیر طلب: چونکہ آپ نے بغلیں جھانکنے کا نام لیا ہے لہذا میں مجبور ہوں کہ ایک مختصر جواب پیش کردوں تاکہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ میں بغلیں نہیں جھانک رہا تھا بلکہ گفتگو میں ادب کا لحاظ مقصود تھا۔ امید ہے کہ میری باتوں میں عیب جوئی نہ کیجئے گا اور اںصاف کی نظر سے دیکھئے گا اس لیے کہ اس بحث کا جواب محققین علماء نے مختلف طریقوں سے دیا ہے۔

اولا : آپ کا یہ جملہ سخت حیرت انگیز اور سطحی تھا کہ رسول اللہ(ص) چونکہ یہ جانتے تھے کہ ابوبکر کے بعد خلیفہ ہوں گے اور خلیفہ کا تحفظ آن حضرت(ص) پر لازم تھا لہذا ان کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

آپ کے اس بیان کا جواب بہت سادہ ہے کیونکہ اگر پیغمبر(ص) کے خلیفہ صرف ابوبکر ہی ہوتے تو ایسا احتمال پیدا کیا

۲۱۳

جاسکتا تھا لیکن آپ خود خلفائے راشدین کی خلافت پر اعتماد رکھتے ہیں اور وہ چار نفر تھے۔ اگر آپ کی یہ دلیل صحیح ہے اور خطرات سے خلیفہ محفوظ رکھنا لازم تھا تو پیغمبر(ص) کا فرض تھا کہ چاروں خلفاء کو جو مکے میں موجود تھے اپنے ساتھ لے جائیں ، نہ یہ کہ ایک کو لے جائیں اور دوسرے تین افراد کو چھوڑ دیں، بلکہ ان میں سے ایک کو تلواروں کے خطرے سے گھرے ہوئے مقام پر مقرر کریں، اور اپنے بستر پر لٹائیں جب کہ یقینی طور پر اس رات پیغمبر(ص) کا بستر خطرناک اور دشمنوں کے حملے کی زد میں تھا۔ (1)

دوسرے اس بیان کی بنا پر جو طبری نے اپنی تاریخ جز سیم میں درج کیا ہے ابوبکر آنحضرت(ص) کی روانگی سے واقف ہی نہ تھے بلکہ جس وقت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور آنحضرت(ص) کا حال دریافت کیر تو حضرت نے فرمایا کہ وہ غار میں تشریف لے گئے ہیں اگر ان سے کوئی کام ہے تو دوڑ جاو۔ ابوبکر دوڑتے ہوئے چلے اور درمیان راہ میں آنحضرت(ص) سے ملے گئے چنانچہ مجبورا ایک ساتھ روانگی ہوئی۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر(ص) خود ان کو اپنے ہمراہ نہیں لے گئے بلکہ وہ بلا اجازت گئے اور راستے کے درمیان سے آںحضرت(ص) کے ساتھ ہوگئے۔

بلکہ دوسری روایتوں کی بنا پر ابوبکر کو لے جانا اتفاقیہ اور فتنے اور دشمنوں کو خبر دے دینے کے خوف سے تھا جیسا کہ خود آپ کے منصف مزاج علماء نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے منجملہ ان کے شیخ ابوالقاسم بن صباغ جو

آپ کے مشاہیر علماء میں سے ہیں کتاب النور البرہان حالات رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محمد بن اسحق سے اور انہوں نے حسان بن ثابت اںصاری سے روایت کی ہے کہ میں آنحضرت (ص) کی ہجرت سے قبل عمرہ کے لیے مکہ گیا تو میں نے دیکھا کہ کفار قریش آنحضرت (ص) کے اصحاب کو سب و شتم کرتے ہیں چنانچہ اسی زمانے میں :

" امر رسول الله صلی الله عليه وآله عليا فنام فی فراشه و خشی من ابن ابی قحافه ابن يدلهم عليه فاخذه معه و مضي الی الغار "

( یعنی رسول خدا(ص) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ آپ کے بستر پر سو رہیں اور اس بات سے ڈرے کہ ابوبکر کفار کو پتہ دے دیں گے اور آنحضرت (ص) کی طرف ان کی رہنمائی کردیں گے لہذا ان کو اپنے ساتھ لے کر غار کی طرف روانہ ہوئے)

تیسرے مناسب یہ تھا کہ آپ آیت میں محل استشہاد اور وجہ فضیلت کو بیان کرتے کہ رسول خدا(ص) کے ہمراہ سفر کرنا اثبات خلافت پر کیا دلیل قائم کرتا ہے۔

شیخ : محل استشہاد ظاہر ہے اول تو رسول اللہ کی مصاحبت اور یہ کہ خدا ان کو رسول اللہ(ص) کا مصاحب کہتا ہے دوسرے آںحضرت(ص) کے قول سے کہ خبر دیتے ہیں : ان اللہ معنا۔ تیسرے اس آیت میں خدا کی جانب سے ابوبکر پر نزول سکینہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ بلکہ اس سے تو ہمارے موافق ایک اور دلیل قائم ہوتی ہے کہ جو شخص حقیقتا خلیفہ رسول ہونے والا تھا خدا اس کو محفوظ رکھنے کا ذمہ دار تھا ۔ لہذا اس کو خطرے میں چھوڑ گئے اور جس کا وجود بعد رسول ضروری نہیں تھا وہ قتل بھی کیا جاسکتا تھا لہذا اس کو ساتھ لے لیا۔ 12 مترجم عفی عنہ۔

۲۱۴

شرف کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ اور ان دلائل کا مجموعہ ان کے لیے افضلیت اور تقدم خلافت کے حق کو ثابت کر رہا ہے۔

خیر طلب : یقینا کسی شخص کو ابوبکر کے ان مراتب سے انکار نہیں ہے کہ وہ بوڑھے مسلمان سن رسیدہ اصحاب میں سے اور رسول خدا کی بیوی کے باپ تھے لیکن آپ کے یہ دلائل فضیلت خاص اور خلافت میں حق تقدم کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ اپنے ان بیانات سے جو آپ نے اس آیہ شریفہ کے بارے میں دیے ہیں ، کسی بے غرض اور غیر متعلق انسان کے سامنے ان کی کوئی خاص فضیلت ثابت کریں تو قطعی طور پر آپ اعتراض کی زد میں آجائیںگے کیونکہ وہ آپ کے جواب میں کہے گا کہ تنہا نیک لوگوں کی مصاحبت فضیلت و برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی کتنے زیادہ - ایسے ہیں جنہوں نے نیکوں کی مصاحبت کی اور وہ کتنے زیادہ کفار وہ ہیں جو مسلمانوں کے مصاحب تھے اور ہیں۔ چنانچہ یہ حقائق مسافرت میں اکثر و بیشتر سامنے آتے رہتے ہیں۔

شواہد اور مثالیں

غالبا آپ حضرت بھول گئے ہیں کہ سورہ 12 ( یوسف) آیت نمبر49 میں خدائے تعالے حضرت یوسف کا قول نقل فرماتا ہے :

" يا صاحِبَيِ السِّجْنِ أَ أَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ"

( یعنی اے میرے دونوں قید خانے کے رفیقو آیا متفرق خدا( جیسے اشنام و فراعنہ) اچھے ہیں ( جو پے حقیقت اور مجبور ہیں) یا خداے یکتا جو صاحب قہر و غلبہ ہے۔)

مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ جس روز یوسف(ع) کو قید خانے میں داخل کیا، پانچ سال یہ تینوں افراد مومن و کافر) ایک دوسرے کے مصاحب رہے اور یوسف تبلیغ کے موقع پر ان کو اپنا مصاحب کہتے بھی ہیں جیسا کہ اس آیت میں خبر دی گئی ہے تو کیا پیغمبر(ص) کی مصاحبت ان دونوں کافر شخصوں کے لیے شرف اور فضیلت کی دلیل تھی ؟ یا دوران مصاحبت میں ان کے عقیدے کے اندر کوئی تغییر پیدا ہوا؟ صاحبان تفاسیر و تواریخ کی تحریریں تو یہی بتاتی ہیں کہ پانچ سال صحبت میں رہنے کے بعد بھی آخر کار اسی حالت میں ایک دوسرے سے الگ ہوئے ۔ نیز سورہ 18 ( کہف) آیت 45 کی طرف توجہ فرمائیے جس میں ارشاد ہے:

"قالَ لَهُ صاحِبُهُ وَ هُوَ يُحاوِرُهُ أَ كَفَرْتَ بِالَّذِي خَلَقَكَ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ سَوَّاكَ رَجُلًا."

(یعنی اس کے ( باایمان اور فقیر) رفیق نے گفتگو اور نصیحت کے موقع پر اس سے کہا کہ کیا تو نے اس خدا کے ساتھ کفر اختیار کیا ۔ جس نے تجھ کو پہلے مٹی سے اس کے بعد نطفے سے پیدا کیا اور پھر ایک مکمل آدمی بنا دیا)

مفسرین نے عام طور سے لکھا ہے کہ دو بھائی تھے ایک مومن جس کا نام یہود اور دوسرا کافر جس کا نام راطوس تھا( جیسا کہ امام فخر رازی بھی جو آپ کے اکابر علماء میں سے ہیں اپنی تفسیر کبیر میں نقل کرتے ہیں) یہ دوںوں آپس میں کچھ بات چیت رکھتے تھے جس کو مفصل نقل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ غرضیکہ خدا نے ان دو کافر فرد مومن کو ایک دوسرے کا مصاحب فرمایا ہے تو کیا

۲۱۵

مومن بھائی کی مصاحبت کا ذکر فائدہ اور فیض پہنچا؟ ظاہر ہے کہ جواب قطعا میں سے۔

پس صرف مصاحبت فضیلت و شرافت ، اور برتری کی دلیل نہیں ہوا کرتی ، جس کے دلائل اور نظائر بہت ہیں۔لیکن وقت اس سے زیادہ بیان کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

اور جو آپ نے یہ فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر سے فرمایا ان اللہ معنا لہذا اس لحاظ سے کہ خدا ان کے ساتھ تھا قطعا یہ بات بھی دلیل شرافت اورخلافت کو ثابت کرنے والی ہ۔

تو بہتر ہوگا کہ اپنے ان عقائد اور الفاظ پر ذرا نظر ثانی فرمالیجئے تاکہ اس اعتراض کا نشانہ نہ بن جائیے کہ خدائے تعالی کیا صرف مومنین اور اولیاء اللہ کے ساتھ رہتا ہے اور غیر مومن کے ساتھ نہیں رہتا؟ آیا کوئی ایسی جگہ بیٹھے ہوں تو کیا عقل باور کرتی ہے کہ خدا اس مومن کے ساتھ ہو لیکن کافر کے ساتھ نہ ہو؟ کیا سورہ 58( مجادلہ) آیت نمبر7 میں خدا نہیں فرماتا ہے کہ:

"الم تر ان الله يَعْلَمُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ما يَكُونُ مِنْ نَجْوى ثَلاثَةٍ إِلَّا هُوَ رابِعُهُمْ وَ لا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سادِسُهُمْ وَ لا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَ لا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ ما كانُوا"

( یعنی بطریق استفہام تقریری فرماتا ہے کہ آیا تم نے نہیں دیکھا اور نہیں جانا کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین کے اندر ہے خدا اس سے واقف ہے چنانچہ اگر تین شخص آپس میں راز کی باتیں کریں تو خدا ان کا جو تھا ہوگا اگر باغ شخص ہوں تو خدا، ان کا چھٹا ہوا گا۔ اور نہ اس سے کم اور زیادہ ہوسکتے ہیں بغیر اس کے کہ چاہیے جہاں ہوں خدا ان کے ساتھ ہوگا (کیونکہ وجود الہی عالم کے ہر جزو کل پر احاطہ کامل رکھتا ہے، پس اس آیت اور دوسری آیات اور دلائل عقلیہ و نقلیہ کے پیش نظر خدائے تعالی دوست و دشمن ، مسلمان و کافر، مومن منافق ہر شخص کے ساتھ ہے۔ پس اگر دو نفر ایک جگہ ہوں اور ان میں سے ایک کہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے تو کسی شخص خاص کی فضیلت پر دلیل نہ ہوگی۔ جس طرح سے کہ وہ نیک آدمی اگر یک جا ہوں تو خدا ان کے ساتھ ہے اسی طرح دو برے آدمی یا ایک اچھا ایک برا اکٹھا ہوں تو قطعا خدا ان دونوں کے ہمراہ ہوگا چاہیے وہ سعید ہوں یا شقی، نیک ہوں یا بد۔)

شیخ : اس سے مراد کہ خدا ہمارے ساتھ ہے یہ تھی کہ چونکہ ہم خدا کے محبوب ہیں اس لیے کہ خدا کی یاد میں، خدا کے لیے اور دین خدا کی حفاظت کی غرض سے روانہ ہوئے ہیں لہذا لطف خداوندی ہمارے شامل حال ہے۔

اظہار حقیقت

خیر طلب : اگر یہ مطلب لیا جائے تب بھی قابل اعتراض ہے اور کہا جائے گا کہ ایسا خطاب ابدی سعادت پر دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ خدائے تعالے اشخصاص کے اعمال دیکھتا ہے، کتنے ہی لوگ ایسے گزرے ہیں جو ایک زمانے میں نیک اعمال بجالاتے تھے اور لطف و رحمت خداوندی ان کے شامل حال تھی۔ اس کے بعد ان سے برے اعمال سرزد ہوئے

۲۱۶

اور امتحان کے وقت نتیجہ برعکس نکلا تو پروردگار کے مبغوض ہوگئے اور لطف و رحمت الہی سے محروم ہو کر راندہ درگاہ اور مردود و ملعون ہوگئے۔ چنانچہ ابلیس ایک مدت تک خلوص نیت کے ساتھ عبادت خدا میں مشغول رہا تو الطاف و مراحم خداوندی سے سر فراز تھا لیکن جونہی اس نے سرکشی کی اور احکام الہی سےمنہ موڑ کر ہوائے نفس کا تابع ہوا تو مردود بارگاہ اور اس کی بے حساب رحمتوں سے محروم ہو کر خطاب :

" فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ وَ إِنَ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلى يَوْمِ الدِّينِ "

( یعنی سورہ نمبر15 ( حجر) آیت نمبر34 میں اس پر حق کامیاب ہوا کہ صفوف ملائکہ اور بہشت سے نکل جائے اور راندہ درگاہ ہوگیا اور تجھ پر روز قیامت تک حتمی طور پر ہماری لعنت ہے کہ ساتھ ملعون بدی بن گیا۔)

معاف فرمائیے گا مثل میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ یہ ذہنوں کو مطلب سے قریب لانے کے لیے ہے اور اگر ہم عالم بشریت پر نظر ڈالیں تو ایسے اشخاص کی بہت سی نظیریں ملیں گی جو درگاہ باری تعالی میں مقرب ہوئے لیکن امتحان کے موقع پر مردود و مغضوب پروردگار قرار پائے نمونے کے طور پر ہم دو شخصوں کا ذکر کرتے ہیں جن کی طرف قرآن مجید نے بھی انسانوں کی بیداری اور غافلوں کی تنبیہ کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔

بلعم بن باعوراء

من جملہ ان کے بلعم بن باعوراء ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں اس قلہ مقرب الہی ہوا کہ خدا نے اس کو اسم اعظم عطا فرمایا چانچہ اپنی ایک دعا کے اثر سے اس نے حضرت موسی(ع) کو وادی میں تیہ میں سرگردان کردیا، لیکن امتحان کی منزل میں جب جاہ و ریاست طلبی نے اس کو خدا کی مخالفت اور شیطان کی پیروی پر آمادہ کردیا اور نار جہنم اس کا ٹھکانہ بن گیا۔

تمام مفسرین و مورخین نے تفصیل کے ساتھ اس کا حال لکھا ہے یہاں تک کہ امام فخررازی نے بھی اپنی تفسیر جلد چہارم ص463 میں ابن عباس ، ابن مسعود اور مجاہد سے اس کا قصہ نقل کیا ہے ۔ خدا سورہ نمبر7 (اعراف) آیت نمبر174 میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ :

" وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِى ءَاتَيْنَهُ ءَايَتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَنُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ"

( یعنی ( اے پیغمبر(ص)) ان لوگوں پر اس شخص ( یعنی بلعم بن باعوراء) کی حکایت بیان کرو جس کو ہم نے اپنی ؟؟؟؟؟ عطا کیں پس اس نے ان آیات سے روگردانی کی چنانچہ شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں شامل ہوگیا۔)

برصیصائے عابد

دوسرا برصیصا عابد تھا جس نے اولا عبادت میں اس قدر کوشش کی کہ مستجاب الدعوات ہوگیا لیکن امتحان کے وقت

۲۱۷

اس کا انجام خراب نکلا ، شیطان کے فریب میں مبتلا ہو کر ایک لڑکی سے زنا کیا، اپنی ساری محنتوں کو برباد کردیا، دار پر لٹکایا گیا اور دنیا سے کافر اٹھا ۔ چنانچہ سورہ59 ( حشر) آیت نمبر16 میں اس کے واقعے کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

"كَمَثَلِ الشَّيْطانِ إِذْ قالَ لِلْإِنْسانِ اكْفُرْ- فَلَمَّا كَفَرَ قالَ إِنِّي بَرِي ءٌ مِنْكَ- إِنِّي أَخافُ اللَّهَ رَبَّ الْعالَمِينَ- فَكانَ عاقِبَتَهُما أَنَّهُما فِي النَّارِ خالِدَيْنِ فِيها- وَ ذلِكَ جَزاءُ الظَّالِمِينَ "

( یعنی یہ منافق مثل میں شیطان کے مانند ہیں جس نے انسان سے ( یعنی برصیصائے عابد سے) کہا کہ کفر اختیار کر اور جب وہ کافر ہوگیا تو اس سے کہا کہ میں تجھ سے بیزار ہوں کیونکہ میں پروردگار کے عذاب سے ڈرتا ہوں پس ان دونوں ( شیطان و برصیصا) کا یہ انجام ہوا کہ وہ دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے یہی دوزخ ظالمین کا بدلا ہے۔)

غرضیکہ آدمی سے اگر کسی زمانے میں کوئی نیک عمل صادر ہوا ہے تو یہ اس کا انجام بخیر ہونے کی دلیل نہیں ہے ، اس وجہ سے ہدایت ہے کہ دعا میں کہو " اللہم اجعل عواقب امورنا خیرا" یعنی خداوندا ہمارے امور کے نتائج نیک قرار دے۔

ان چیزوں کے علاوہ آپ خود جانتے ہیں کہ علمائے معانی و بیان کے نزدیک طے شدہ بات ہے کہ کلام میں تاکید کا ذکر اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک مخاطب شک اور شبہ میں مبتلا نہ ہو یا اس کے خلاف نہ سوچ رہا ہو، اور آیہ شریفہ کا تصریح سے جس نے اپنا کلام جملہ اسمیہ اور ان مشددہ کے ساتھ پیش کیا ہے دوسرے فریق کے عقیدے کا فساد ظاہر ہوتا ہے کہ متزلزل و متوہم اور شک و شبہ میں مبتلا تھا۔

شیخ : انصاف کیجئے، آپ جیسے انسان کے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ اس محل پر ابلیس بلعم بن باعوراء اور برصیصاء کی مثل پیش کریں۔

خیر طلب : معاف کیجئے ، شاید آپ نے سنا نہیں میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ مثل میں کوئی برائی نہیں ہے ،کیونکہ علمی مباحثات اور مذہبی مناظرات میں ذہنوں کو قریب کرنے اور مقاصد کو ثابت کرنے کے لیے مثالیں بیان کی جاتی ہیں خدا شاہد ہے کہ شواہد و امثال کے ذکر میں میں نے کبھی اہانت کا قصد نہیں کیا بلکہ اپنے نظریئے اور عقیدے کے ثبوت میں جو ںظریں اور مثالیں سامنے آتی ہیں پیش کردیتا ہوں۔

شیخ : اس آیت کے اندر اثبات فضیلت کی دلیل خود آیہ کریمہ کا ایک قرینہ ہے کہ فرماتا ہے" فانزل اللہ سکینۃ علیہ " چنانچہ سکینہ کی ضمیر ابوبکررضی اللہ عنہ کی طرف ہونا دوسروں پر ان کی شرافت و فضیلت اور آپ جیسے لوگوں کا وہم دور کرنے کے لیے خود ایک واضح دلیل ہے۔

خیر طلب: آپ کو دھوکا ہو رہا ہے ، سکینہ کی ضمیر رسول اکرم صلی اللہ علی و آلہ وسلم کی طرف پھرتی ہے اور نزول سکینہ آنحضرت (ص) پر ہوا تھا نہ کہ ابوبکر پر، جس کا قرینہ بعد والے جملے میں موجود ہے کہ فرمایا " وایدہ بجنود لم تروہا" اوریہ حقیقت ہے کہ غیبی لشکروں کی تائید رسول اللہ (ص) کےلیے تھی نہ کہ ابوبکر کے لیے۔

۲۱۸

شیخ : یہ مسلم ہے کہ جنود حق کی تائید رسول خدا(ص) کے لیے تھی لیکن، ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آنحضرت(ص) کی مصاحبت میں بے بہرہ نہ تھے۔

نزول سکینہ رسول خدا(ص) پر ہوا

خیر طلب : اگر الطاف و مراحم الہیہ میں دونوں ہستیاں شامل تھیں تو قاعدے کے رو سے آیہ شریفہ کے تمام جملوں میں تثنیہ کی ضمیریں ہونا لازمی تھا حالانکہ قبل و بعد کی تمام ضمیریں مفرد استعمال ہوئی ہیں تاکہ ذات خاتم الانبیاء (ص) کے مدارج ثابت ہوجائیں اور معلوم ہوجائے کہ پروردگار کی جانب سے جو کچھ ، جہت و مرحمت نازل ہوتی ہے وہ آں حضرت کی ذات سے مخصوص ہوتی ہے اور اگر آنحضرت(ص) طفیل میں دوسروں پر بھی نازل ہو تو ان کا نام ظاہر کیا جاتا ہے۔ لہذا سکینہ و رحمت کے نزول میں بھی اس آیت اور دوسری آیتوں میں صرف پیغمبر(ص) کو مورد عنایت قرار دیا ہے۔

شیخ : رسول خدا(ص) نزول سکینہ سے مستثنی تھے، ان کو اس کی کوئی احتیاج نہ تھی اور سکینہ ہرگز ان سے جدا نہیں ہوتا تھا پس نزول سکینہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مخصوص تھا۔

خیر طلب : آپ کیوں بے لطفی کی باتیں کرتے ہیں اور بار بار انہیں مطالب کو دہرا کے جلسے کاوقت لیتے ہیں۔ آپ کس دلیل سے کہتے ہیں کہ خاتم الانبیاء نزول سکینہ سے مستثنی تھے حالانکہ افراد خلائق میں سے پیغمبر(ص) و امت ،امام اور ماموم کوئی شخص بھی حق تعالی کے الطاف و عنایات سے مستغنی نہیں ہے ۔ کیا آپ سورہ نمبر9 ( توبہ) کی آیت نمبر26 کو بھول گئے ہیں جو حنین کے واقعے میں کہتی ہے "ثُمَ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ" ( یعنی اس وقت اللہ نے اپنے سکینہ و وقار ( یعنی شکوہ و سطوت اور جلال ربانی) کو اپنے رسول اور مومنین پر نازل فرمایا) نیز سورہ نمبر48 (فتح) کی آیت نمبر26 بھی اسی آیت شریفہ کے مانند ہے۔

جس طرح سے کہ اس آیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مومنین کی طرف اشارہ کیا ہے آیت غار میں بھی اگر ابوبکر ان مومنین کی ایک فرد ہوتے جن کو سکینہ و وقار میں شامل ہونا چاہیئے تو ضرورت تھی کہ تثنیہ کی ضمیر ہوتی یا علیحدہ ان کے نام کا ذکر کیا گیا ہوتا۔ یہ قصہ اتنا واضح ہے کہ خود آپ کے منصف علماء نے بھی اقرار کیا ہے کہ سکینہ کی ضمیر ابوبکر سے متعلق نہیں تھی۔ بہتر ہے کہ آپ حضرات کتاب نقض العثمانیہ مولفہ ابوجعفر محمد بن عبداللہ اسکافی کو جو آپ کے اکابر علماء اور شیوخ متعزلہ میں سے ہیں مطالعہ کیجئے تو دیکھئے گا کہ اس مرد عالم و منصف نے ابو عثمان بن حظ کی لا طائل باتوں کے جواب میں کس طرح حق کو آشکار کیا ہے، چنانچہ ابن ابی الحدید نے بھی شرح نہج البلاغہ جلد سیم ص253 تا ص281 میں ان میں سے بعض جواب نقل کئے ہیں۔

۲۱۹

علاوہ ان چیزوں کے خود آیت میں ایک ایسا جملہ موجود ہے جس سے مکمل طور پر آپ کے مقصد کے بر خلاف نتیجہ نکلتا ہے ۔ اور وہ جملہ یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) نے لا تحزن کہہ کے ابوبکر کو حزن و اندوہ سے منع فرمایا۔ اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر اس حال میں غم زدہ تھے۔ تو ابوبکر کایہ حزن آیا کوئی اچھا عمل تھا یا برا؟ اگر عمل نیک تھا تو پیغمبر(ص) کسی کو عمل نیک اور اطاعت حق سے قطعا منع نہیں فرماتے اور اگر عمل بد اور گناہ تھا تو ایسے عمل والے کے لیے کوئی شرف و بزرگی نہیں ہوتی جس سے خدا کی رحمت اس کے شامل حال ہو اور وہ نزول سکینہ کا محل قرار پائے۔ بلکہ شرافت و فضیلت صرف مومنین اولیاء اللہ کے لیے ہوتی ہے۔

اور اولیاء اللہ کے لیے کچھ علامتیں ہوتی ہیں جن میں قرآن مجید کے بیان کی بناء پر سب سے اہم یہ ہے کہ حادثات زمانہ کے مقابلے میں ہرگز خوف و حزن اور غم و اندوہ کا اظہار نہ کریں بلکہ صبر و استقامت اختیار کریں، چنانچہ سورہ نمبر10 (یونس) آیت نمبر62 میں ارشاد ہے "أَلا إِنَ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ."

(یعنی آگاہ ہو کہ دوستان خدا کے دلوں میں ( آئندہ حادثات زمانہ کا ) کوئی خوف نہیں ہوتا اور نہ وہ ( دنیا کی اپنی گذشتہ مصیبتوں پر ) غم و اندوہ میں مبتلا ہوتے ہیں۔)

جب گفتگو یہاں تک پہنچی تو مولوی صاحبان گھڑیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ رات نصف سے کافی زیادہ گزر چکی ہے۔ نواب صاحب نے کہا کہ ابھی آیت کے بارے میں میں قبلہ صاحب کا بیان مکمل نہیں ہوا ہے اور کوئی آخری نتیجہ ہمارے ہاتھ نہیں آیا ہے ۔ ان حضرات نے کہا کہ ہم اس سے زیادہ زحمت دینا مناسب نہیں سمجھتے لہذا بقیہ باتین کل شب کے لیے ملتوی کی جاتی ہیں۔ چونکہ یہ اسلامی عیدوں میں سب سے بزرگ یعنی عید بعثت کی شب تھی۔ لہذا جلسے میں شربت اور مختلف اقسام کی شیرینی آئی اور مسرت و شادمانی کےساتھ یہ نشست تمام ہوئی۔)

چھٹی نشست

شب چہار شنبہ 28 رجب سنہ1345ھ

( قبل غروب جناب غلام امامین صاحب جو اہل تسنن میں سے ایک معزز تاجر اور شریف و متین انسان ہیں اور پہلی ہی شب سے شریک جلسے تھے تشریف لائے، انہوں نے بہت تہذیب کے ساتھ پر جوش انداز میں ایک مفصل بیان دیا جس کاخلاصہ یہ تھا کہ میں نے ذرا جلد آکر آپ کو اس لیے زحمت دی کہ آپ کی توجہ اس طرف مبذول کراوں کہ آپ نے اپنے مدلل بیانات کے ذریعہ ہم میں سے متعدد افراد کو جذب کر لیا ہے ، دل مکمل طور پر متاثر ہیں اور ایسی نئی نئی باتین سننے میں آئی ہیں جن کو تقیہ کی بنا پر دوسرے لوگ بیان کرنے سے پرہیز کرتے تھے ۔ ہم بھی ان تمام چیزوں سے بالکل بے خبر تھے لیکن

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232